حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی کے ساتھ بھلائی کی گئی اور اس نے اس کے بدلے میں جزاک اللّٰہ خیرًا (اللہ تجھے جزاے خیر عطا فرمائے) کہہ دیا تو اس نے اس کے شکریے کا حق ادا کر دیا اور اُونچے درجے کی تعریف کردی۔ (ترمذی)
اسلام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور غم گساری اور تعاون کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک مسلمان اگر مال دار ہے، اثرورسوخ کا مالک ہے اور اس نے کسی مسلمان کے ساتھ مالی تعاون کیا ہے یا جائز سفارش کرکے اس کا کام کرا دیا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کا بدلہ دے۔ ہدیے کے بدلے میں ہدیہ دینے کی ہدایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ہدیہ پیش کرتا تھا تو آپؐ بھی اسے ہدیہ پیش کرتے تھے۔ اس حدیث میں تلقین کی گئی ہے کہ اگر ہدیہ پیش کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو ہدیہ دینے والے کو دعا دے دے۔ وہ دعا جزاک اللّٰہ خیرًا ہے۔ اس دعا کے ذریعے آدمی یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ آپ نے میرے ساتھ اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ میں اس کا بدلہ دینے سے قاصر ہوں۔ اس کا بدلہ اللہ رب العالمین ہی دے سکتے ہیں۔ چنانچہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ آپس میں اس طرح پیش آنے سے معاشرے میں بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے۔ لوگوں کو سُکھ اور چین نصیب ہوتا ہے۔ ہر دور میں انسان کو اس کی ضرورت رہی ہے لیکن موجودہ دور میں جب انسان مختلف حادثات اور فتنوں کی وجہ سے پریشان ہے، اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ دو مسلمان جب ایک دوسرے سے اس طرح کی ہمدردی سے پیش آتے ہیں تو ان کی تمام پریشانیاں دُور ہوجاتی ہیں۔ اس طرح کا معاشرہ ہماری ضرورت ہے اور اسے قائم کرنے کی کوشش کرنا ملّی فریضہ ہے۔
o
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی فوت ہوگیا اس حال میں کہ وہ تکبر اور خیانت اور قرض سے بری ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔(ترمذی)
تکبر، خیانت، لوگوں کے تعلقات بگاڑ دیتے ہیں۔ متکبر سے لوگ بُغض، عداوت اور نفرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح خیانت کار بھی لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ وہ اپنے علم اور ہنر کے باوجود کسی عزت کا مستحق نہیں رہتا۔ خائن لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ جس شخص کا حق مارا جائے گا وہ اپنا حق لینے کے لیے موقعے کی تلاش میں ہوگا۔ پھر بھی اپنا حق نہ پاسکا تو خائن کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوگا۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ خیانت ہے۔ سرکاری خزانے پر قابض لوگ اسے عوام تک پہنچانے کے بجاے چوری کرکے بیرونِ ملک لے جاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے بنکوں میں جمع کرتے ہیں، بیرونِ ملک جایدادیں بناتے ہیں جس کے نتیجے میں خزانہ خالی ہوجاتا ہے اور ملک غیرملکی قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ اس وقت ملک کا جتنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا گیا ہے اسے واپس لایا جائے تو ملک کے قرضے بھی ادا ہوجائیں اور ہم قرضے لینے کے بجاے قرضے دینے والے بن جائیں۔
قرض سے بَری ہونے کا ذکراس لیے کیا ہے کہ مقروض ایک دفعہ قرض کے بوجھ تلے دب جائے تو پھر اس سے نکلنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ قرض ادا کرنا بھی چاہتا ہے۔ اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے لیکن پھر بعض اوقات حالات اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ اس لیے قرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ بھی مانگی ہے۔
تکبر، خیانت آدمی کی دنیا کو خراب کرنے کے ساتھ آخرت کے خراب کردینے کا بھی بڑا ذریعہ ہیں۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اِن سے بَری ہوکر فوت ہوجائے تو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے۔ قرض بھی ایسی چیز ہے کہ وہ جنت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے کہ بندے کا حق اگر آدمی ادا نہ کرسکا تو اس وقت تک جنت میں نہ جاسکے گا جب تک دوسرے کا حق اور قرض ادا نہ کر دے۔
o
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک زمین آباد کی جو کسی کی ملکیت میں نہیں ہے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اس کے مطابق فیصلہ فرمایا تھا۔(بیہقی، شعب الایمان)
ملک کے عوام کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے اور انھیں ان کی صلاحیتوں اور کارکردگی کے مطابق روزگار فراہم کرنے سے معاشی خوش حالی حاصل ہوتی ہے اور ترقی ملتی ہے۔ حکومت کے پاس عوام کو دینے کا سب سے بڑا سامان زمین ہے جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو۔ حکومت اسے کسانوں میں تقسیم کردے تو وہ اس زمین کو آباد کریں گے اور ملک کی پیداوار میں اضافہ کریں گے۔ ہمارے ملک میں زمین کا بہت برا رقبہ بنجر پڑا ہے۔ حکومت اسے کسانوں میں تقسیم کرکے آباد کرنے کے بجاے دوسرے ممالک سے گندم اور دوسری اجناس درآمد کرتی ہے جس کے نتیجے میں کھانے پینے کی چیزیں مسلسل مہنگی ہورہی ہیں اور عوام دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے حاصل کرپاتے ہیں۔ حکومت کو غیرآباد زمین کو آباد کرنے کے لیے اگر حکومتی خزانے سے کسانوں کے ساتھ مالی تعاون بھی کرنا پڑے اور وہ غیرسودی قرضے دے کر زمینوں کو آباد کرائے اور آبادکاروں کو مالکانہ حقوق دے دے تو پورا ملک آباد ہوجائے گا۔ سرسبز وشاداب بھی ہوجائے گا اور غلہ اور پھل بھی وافرہوگا اور ملک خوراک کے شعبے میں خودکفیل ہوجائے گا۔ حکومت اس نسخے کو استعمال کرکے ایک طرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرے گی اور دوسری طرف اپنے عوام کی پریشان حالی کا بھی مداوا کرے گی۔ اپنی آخرت کے ساتھ اپنی دنیا کو بھی سنوارے گی۔
o
حضرت عبداللہ بن ربیعہؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۴۰ہزار قرض لیا۔ پھر آپؐ کے پاس مال آیا تو آپؐ نے مجھے ادا کر دیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا: بارک اللّٰہ فی اھلک ومالک، اللہ تعالیٰ تیرے گھر اور مال میں برکت عطا فرمائے۔ ساتھ ہی فرمایا: قرض کا بدلہ شکریہ اور قرض کی ادایگی ہے۔(نسائی)
بعض اوقات ذاتی ضرورت کے لیے اور بعض اوقات اجتماعی ضروریات اور ملکی معاملات کی خاطر قرض لینا پڑتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی ضرورت اور ملکی ضروریات دونوں کے لیے قرض لیا ہے اور پھر احسن طریقے پر ادایگی بھی فرما دی اورقرض دینے والوں کا شکریہ بھی ادا کیا، دعائیں بھی دیں۔ بروقت ادایگی اور احسان شناسی اور قدردانی تعلقات کو بہتر بناتے ہیں اور باہمی تعاون کے سلسلے کو جاری رکھنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آج کل قرضِ حسن کا سلسلہ انفرادی سطح پر تو اہلِ ایمان میں کچھ نہ کچھ جاری ہے لیکن اجتماعی معاملات میں تو ’سود‘ داخل ہوگیا ہے اور بُری طرح سرایت کرگیا ہے۔ سودی قرضوں کو تعاون کا نام دے دیا گیا ہے۔ بنکنگ سسٹم سودی ہے۔ چندبنک بے شک ایسے ہیں جو شرکت و مضاربت کی بنیاد پر جاری ہیں لیکن ان کا دائرہ محدود ہے۔ وسیع پیمانے پر جو کاروبار ہو رہا ہے وہ سودی ہے، اسی لیے ملکی معیشت تباہی سے دوچار ہے۔ سود کی مثال گھن کی ہے۔ گھن کی طرح وہ مال کو کھا جاتا ہے۔ ہماری معیشت کو گھن کھا گیا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بنکنگ نظام غیرسودی بنیادوں پر جاری کیا جائے جیساکہ دستورِ پاکستان میں اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جب غیرسودی نظام جاری ہوگا تو قرضِ حسن کو بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر فروغ ملے گا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔
o
حضرت سعد بن الاطولؓ سے روایت ہے کہ میرا بھائی فوت ہوگیا اور ۳۰۰ دینار ترکہ چھوڑا اور اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں اس رقم کو اُن پر خرچ کروںگا۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا) تو آپؐ نے فرمایا:تمھارا بھائی قرض کے سبب گرفتار ہے۔ اس لیے پہلے اس کا قرض ادا کرو۔ اس کے بعد جو بچے ، وہ بچوں پر خرچ کرو تو میں نے اپنے بھائی کے قرض خواہوں کو تلاش کر کے ان کے قرضوں کی ادایگی شروع کر دی اور تمام قرض خواہوں کے قرضے ادا کردیے۔ صرف ایک عورت رہ گئی جو دعویٰ کرتی تھی کہ تیرے بھائی نے میرے دو دینار دینے تھے لیکن اس کے پاس ثبوت کوئی نہ تھا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا: اس عورت کو بھی دو دینار دے دو، یہ سچی ہے۔(مسند احمد)
آدمی جب فوت ہوجائے تو اس کے مال میں سب سے پہلے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے گا۔ اس کے بعد اس کے مال میں سے اس کے قرضے ادا کیے جائیں گے۔ پھر بھی مال بچ گیا تو اس میں سے ۳/۱ تک اس کی وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد باقی مال ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔ اسی ضابطے کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن اطولؓ کو بھائی کے قرض خواہوں کے قرض ادا کرنے کی تلقین فرمائی جس کو انھوں نے پورا کر دیا۔
حدیث میں واضح کیا گیا کہ جب تک آدمی کا قرض ادا نہ ہو وہ قید ہوگا۔ وہ اپنے باقی اعمال کی وجہ سے جنت کا مستحق ہوگا تو پھر بھی قرض کے سبب جنت سے روک دیا جائے گا، جنت میںنہیں جاسکے گا۔ قرض ادا ہوگا تو رکاوٹ دُور ہوجائے گی۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں قرض خواہ کے قرض اداکرنے کو اوّلیت دے اور ورثا کو بھی اس کی تلقین کرے اور قرضوں کی تفصیل اور وصیت لکھی ہوئی رکھی ہو اور ورثا کو بتلا دی گئی ہو کہ فلاں جگہ رکھی ہے۔