دنیا کی شاید ہی کوئی قابلِ ذکر زبان ہو، جس میں اللہ کی آخری ہدایت کی کتاب، قرآنِ مجید کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ اُردو میں بھی متعدد تراجم موجود ہیں، مگر مولانا مودودی نے اس کتاب کا ترجمہ نہیں کیا، بلکہ اس کی اُردو زبان میں ’ترجمانی‘ کی اور چھے جلدوں میں اس کی ایک مبسوط تفسیر بھی لکھی۔
مولانا کی تفہیم القرآن مع مختصر حواشی ، ایک جلد میں بھی دست یاب ہے۔پیش نظر کتاب ترجمان القرآن الکریم میں احمد ابوسعید صاحب نے کوشش کی ہے کہ ہر آیت کے مقابل اس کی ترجمانی بھی پڑھی جاسکے۔ آیت بہ آیت ترجمانی کے لیے موجودہ مرتب نے مولانا مودودی کے ترجمے کو بڑی حد تک برقرار رکھتے ہوئے بعض جملوں کی ساخت میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی کی ہے (النساء ۴:۱۶۰-۱۶۱)، لیکن عبارت و الفاظ میں کوئی تبدیلی نہیں کی، تاہم جملوں کی ساخت کی تبدیلی سے تعقید رفع ہو جاتی ہے، اور عبارت زیادہ صاف ہوجاتی ہے۔ التزام کیا گیا ہے کہ ’ترجمانی‘ کی سطر، آیت کے مقابل ہو۔ ہرصفحہ نئی آیت سے شروع ہوتا ہے۔ عربی متن والے ہرصفحے کے ذیلی حاشیے میں بعض عربی الفاظ کے اُردو معانی بھی دے دیے گئے ہیں۔ مولانا مودودی کے ترجمے کے اصل الفاظ کے ساتھ بعض جملوں کی ہیئت اس طرح تبدیل کی گئی ہے کہ عام مفہوم کو سمجھنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔
رسم الخط میں ایک اچھی تبدیلی یہ ہے کہ اُردو میں ذاتِ الٰہی کے لیے ’اللہ‘ لکھا جاتا ہے۔ مرتب نے التزام کیا ہے کہ املا ’اللہ‘ ہو ۔ ’خدا‘ کی جگہ بھی ’اللہ‘ یا ’رب‘ کا استعمال کیا گیا ہے اور ’خوفِ خدا‘ اور ’خدا ترسی‘ کی جگہ ’تقویٰ‘ ہی کا لفظ رکھا گیا ہے۔مرتب کہتے ہیں مولانا مودودی یقینا میری اس سعی کو پسند فرماتے، تاہم ہم مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآنِ مجید مع مختصر حواشی، اشاعت ۱۹۷۳ء ، لاہور کے اصل نسخے کے مطابق من و عن نقل کرنے کی مقدور بھر سعی کی گئی ہے۔
پیش نظر ترجمان القرآن الکریم نہایت خوب صورت اور صاف عربی متن اور اُردو خطاطی کے ساتھ اچھے کاغذ پر خوب صورتی کے ساتھ طبع ہوا ہے جس پر مرتب اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
یہ الوقت فی حیاۃ مسلم کا اُردو ترجمہ ہے۔مؤلف نے وقت کی اہمیت کے حوالے سے کتاب کے مقدمے میں ایک انتہائی اہم تاریخی حقیقت بیان کی ہے: ’’دورانِ مطالعہ میں نے دیکھا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کے سلسلے میں اتنے حریص تھے کہ ان کی یہ حرص ان کے بعد کے لوگوں کی درہم و دینار کی حرص سے بڑھی ہوئی تھی۔ حرص کے سبب ان کے لیے علم نافع، عملِ صالح، جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا‘‘۔مزید یہ کہ ’’میں آج کی دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کس طرح سے اپنے اوقات کو ضائع کر رہے ہیں اور اپنی عمریں لُٹا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ اس سلسلے میں بے وقوفی سے گزر کر مدہوشی کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور یہی سبب ہے کہ آج وہ قافلۂ انسانیت کے پچھلے حصے میں دھکیل دیے گئے ہیں حالانکہ ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ اسی قافلے کی زمامِ کار ان کے ہاتھ میں تھی‘‘۔ (ص۱۰)
کتاب میں: قرآن و سنت میں وقت کی اہمیت، وقت کے بارے میں مسلمانوں کی ذمہ داری، مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگانی کا نظام، انسان کا وقت ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان، وقت کو برباد کرنے والی آفات سے آگاہی اور ضیاعِ وقت کے اسباب کو قرآن و حدیث کے جامع حوالوں کے ساتھ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وقت کی قدر کرنے کے لیے ۲۴گھنٹوں کا قابلِ عمل منصوبہ سامنے آتا ہے۔ وقت کے بہتر استعمال اور تربیت کے لیے اس عمدہ کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید ہوگا۔(شہزاد الحسن چشتی)
کتاب میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے تمام پہلوئوں سے جائزہ لیا گیا ہے: قرآن و حدیث کی روشنی میں کم عمری کی شادی، کم عمری کی شادی پر صحابہ و تابعین کا عمل اور صحابہ کرام اور علما کا اس کے جواز پر اجماع پر عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔
کتاب پر حافظ ابتسام الٰہی ظہیر صاحب کا مقدمہ جامع تحریر ہے: ’’مخصوص طبقہ جو کم عمری کی شادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتا ہے اس سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد اس حد تک آزاد خیال ہیں کہ ہم جنس پرستی کو جائزقرار دیتے ہیں اور اسکولوں کی سطح پر جنسی تعلیم کی وکالت کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں‘‘۔
کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے کم سنی کی شادی کو جائز قرار دیا تھا، جس کے بعد سندھ اسمبلی میں کم سنی کی شادی کے خلاف قرارداد پاس کی گئی۔ قرارداد کے مطابق دلھا اور دلھن کے والدین کو ایسی شادی کرنے کی صورت میں تین سال کی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ دوسری طرف انسان حیران رہ جاتا ہے کہ بہت سے یورپی معاشروں میں کم عمری کی شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یونان، اسکاٹ لینڈ، آسٹریا، بلغاریہ، کروشیا اور چیک ری پبلک سمیت بہت سے ممالک میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر ۱۶برس، جب کہ ڈنمارک، ایستونیا، لتھوانیا، جارجیا میں شادی کی عمر کم از کم ۱۵ برس ہے۔ اسی طرح جنوبی امریکا کے ممالک بولیویا اور یوراگائے میں شادی کی عمر کم از کم ۱۴برس ہے۔ ویٹی کن سے شائع ہونے والے کیتھولک چرچ کی معروف قانونی دستاویز کے مطابق لڑکا ۱۶برس اور لڑکی ۱۴ برس میں شادی کرسکتے ہیں۔پاکستان میں خصوصاً وکلا، قانون دان، پارلیمنٹرین کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔(شہزاد الحسن چشتی)
آج کل اکثر اخباری کالموں کا علمی معیار،اتنا بلند نہیں کہ انھیں مستقل کتابوں کا حصہ بنایا جائے، لیکن عبداللہ طارق سہیل کا نام اس لحاظ سے بھی لائقِ توجہ ہے کہ یہ قلم کار صرف صحافی ہی نہیں بلکہ راست فکر، پختہ ذہن کے حامل دانش ور بھی ہیں۔ ان کی تحریریں علمی حقائق، ثقہ روایات اور معیاری تنقید و تبصرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔
زیرنظر کتاب، ان کے ۲۶ مارچ ۲۰۰۷ء سے ۹دسمبر ۲۰۱۱ء تک کے عرصے میں روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے کالموں پر مشتمل ہے۔ ان کالموں میں ملکی، قومی اور عالمِ اسلام کے مسائل زیربحث آئے ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور مشرقی ممالک کے جاگیردارانہ نظام کی تباہ کاریوں کو زیربحث لاکر اسلامی نظامِ حیات کے خدوخال واضح کیے ہیں۔
کالم نگار کو عربی، انگریزی اور اُردو ادب سے خاص لگائو ہے۔ ان کی تحریر ادب، تاریخ، سیاسیات اور عصری معلومات سے معمور ہوتی ہے۔ انھیں عوامی مسائل کے حل سے دل چسپی ہے بالخصوص غربت، بے روزگاری، جہالت اور تشدد کے واقعات ان کی توجہات کا مرکز بنتے ہیں۔ قدیم و جدید تاریخی پس منظر میں مصنف نے واقعات و حوادث کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔ (ظفرحجازی)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بھارت کے ممتاز عالم دین ہیں۔ علمی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں۔ عموماً علماے کرام ادیب نہیں ہوتے لیکن ان تحریروں میں مولانا ایک بلندپایہ ادیب کی حیثیت سے نظر آتے ہیں اور قاری علم و ادب اور دینی و ملّی خدمات سے متعلق اہم شخصیات کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے ساتھ ادب کی چاشنی سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور ایک کیفیت سے گزر جاتا ہے۔ اس کتاب میں ۴۵ شخصیات کا تذکرہ ہے۔ پہلے باب: ’بہارِ نادیدہ‘ میں وہ ہیں جن کو مصنف نے دیکھا نہ سنا جیسے مولانا قاسم نانوتوی، سرسیّداحمد خاں، ڈاکٹر محمد اقبال، ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی اور دیگر۔ دوسرے باب: ’دیدہ و شنیدہ‘ میں وہ نام وَر ہستیاں جنھیں مصنف نے دیکھا اور سنا جیسے قاری محمد طیب، ابوالحسن علی ندوی، مجاہدالاسلام قاسمی وغیرہ۔ تیسرے باب: ’مشفق اساتذہ اور محسن احباب‘ میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کا بھی تذکرہ ہے۔ چوتھے باب میں والدین اور ایک خاندانی بزرگ کا تذکرہ ہے۔
مصنف نے وضاحت کردی ہے کہ منصوبے کے تحت فہرست بناکر نہیں لکھا گیا ہے بلکہ کسی کی وفات پر، یا اجراے کتب کے موقع پر لکھی گئی تحریریں ہیں۔ مصنف نے ہرہرشخصیت کے عنوان میں شعر دیا ہے جیسے عبدالماجد دریابادی کے لیے: ’ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے‘ ،’کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور‘، اور ڈاکٹر حمیداللہ کے لیے: ’ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیںہم___ کتاب کا مطالعہ بیسویں صدی میں پاک و ہند میں جو علمی، ادبی ، سیاسی سرگرمی رہی ہے اس سے بخوبی آگاہی دیتا ہے۔
مصنف کے اندازِ بیان کی جھلک دکھانے کے لیے علامہ اقبال کے بارے میں ابتدائی سطریں نقل ہیں:’’ یورپ دیدہ مگر کعبہ رسیدہ، دماغ فلسفی، دل صوفی، رازی کے پیچ و تاب سے بھی واقف، رومی کے سوز و گداز سے بھی آشنا، گفتار میں جوش، کردار میں ہوش، اسلوبِ شاعرانہ، طبیعت واعظانہ، شاعر مگر عارض و گیسو کے قصوں سے نفور، صوفی مگر مجاہدانہ جرأتوں سے معمور، علومِ جدیدہ کا شہسوار مگر ایمان و یقین سے سرشار، خود یورپ کے الحاد خانہ میں، دل حجاز کے خدا خانہ میں۔ اسی مجموعے کو اقبال کہا جاتا ہے ع خیرہ نہ کرسکا، مجھے جلوئہ دانش فرنگ / سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف‘‘۔ کتاب آپ ہاتھ میں لیں گے تو پڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ (مسلم سجاد)
یہ کتاب ڈاکٹرہاشمی کے ۱۴۹ خطوط پر مشتمل ہے، جب کہ مکتوب الیہ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ان کے شاگرد ہیں۔ساحر صاحب ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کررہے تھے اورکچھ تساہل کا شکار تھے۔ مکتوب نگار نے یہ خط وقتاًفوقتاًانھیں متحرک کرنے اور تحقیقی کام کوآگے بڑھانے اورجلد سے جلد ختم کرنے کے لیے لکھے۔ کوئی خط ایک سطر پر ،کوئی دوپراورکوئی تین،چارسطروں پر مشتمل ہے۔ یوں یہ تمام خط ایجاز و اختصار کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان میں ایک استاد کااندازتربیت بھی جلوہ گر ہے۔خطوں کاایک اور نمایاں پہلو ڈاکٹر ہاشمی کی حِسّ لطافت بھی ہے۔ کہیں کہیں ہلکا مزاح ہے اورظرافت کے عمدہ نمونے بھی نظر آتے ہیں۔مرتب نے خطوں پرحواشی بھی لکھے ہیں جن سے عام قاری کے لیے متن کی تفہیم واضح اورروشن ہوجاتی ہے۔(قاسم محموداحمد)
o تاجدار مدینہؐ کی شہزادیاں، سلام اللہ صدیقی۔ ناشر: ادارہ بتول، ۱۴-ایف، سیّد پلازا، ۳۰-فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۴۲۴۴۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۶۰ روپے۔[نبی کریمؐ کی چار صاحب زادیوں (حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت اُمِ کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ) کے اس مختصر مطالعۂ سیرت میں جہاں رسول اکرمؐ کی اپنی صاحبزادیوں سے محبت، ان کی تربیت کا احوال درج ہے، وہاں صاحبزادیوں میں دین کے لیے تڑپ اور راہِ خدا میں جس طرح سے قربانیاں پیش کیں اور ظلم و جبر سہا اس کا احوال بھی ہے۔ نیز سیرتِ رسولؐ اور اسلامی معاشرت کے مختلف گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔ تزکیہ و تربیت کے لیے ایک مفید کتاب۔]
o خواتین کا مقام اور ذمہ داریاں ،ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات:۵۶۔ قیمت: ۴۵ روپے۔[جماعت اسلامی کی تاسیس کے زمانے سے خواتین بھی دعوتِ دین کی جدوجہد میں برابر شریکِ کار ہیں۔ اس کتابچے میں مولانا مودودی، قاضی حسین احمد اور محترم سراج الحق کی تقاریر کے حصوں کو یک جا کر کے، خواتین کی جدوجہد کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔]
o میرے درد کو جو زباں ملے، تالیف: آئی یوجرال۔ ملنے کا پتا: ۱۱۴-ڈی، ایف-۱، کشمیرپوائنٹ،میرپور، آزاد کشمیر۔ فون: ۵۶۳۸۷۵۰-۰۳۱۱۔ صفحات:۱۷۴۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔[بزرگ صحافی انعام اللہ جرال (آئی یو جرال)کا یہ حاصلِ مطالعہ ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت انسانی رویوں کی اصلاح، تزکیہ و تربیت، اطمینانِ قلب اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے قرآن و حدیث، سیرت، تاریخ اور معروف کتب سے اقتباسات، دل چسپ واقعات اور حکایات پیش کی ہیں۔ الحاد کے رد اور مغربی تہذیب سے متاثر جدید ذہن کے شبہات کے ازالے کے لیے ڈاکٹرغلام جیلانی برق کی تحریروں سے خاص طور پر استفادہ کیا گیا ہے۔ مؤلف کے نزدیک راہِ نجات رجوع الی اللہ اور خلافت ِ راشدہ کے نظام کی بحالی میں ہے۔]