انسان کب سے اس دنیا میں موجود ہے؟ وہ کب سے زندہ ہے؟وہ کون ہے ؟وہ کیا ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جانا ہے ؟اس کے چاروں طرف جو کچھ ہے، اس کی اَصلیت کیا ہے ؟ اس کے ماںباپ بہن بھائی اور دیگر لوگ، جمادات، نباتات،حیوانات، یہ زمین ،چاند،سورج اور ستارے ،یہ کہکشاں، یہ کائنات کیسے وجود میں آئے ؟کیا یہ خود بخود اور اتفاقیہ بن گئے ہیں ؟ یا اِن کو کسی نے بنایا ہے اور اگر کسی نے بنایا ہے تو کیوں بنا یا ہے؟___ انسانی زندگی اور کائنات سے متعلق یہ سوالات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے جوابات کے نتیجے میں ہی زندگی کا رُخ متعین ہوتا ہے اور تہذیب و تمدن کے اصول طے پاتے اور بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔
انسان قدیم زمانے سے اِن سوالات پر بہت سوچ بچار کرتا ر ہا ہے۔ وہ تخلیقِ کائنات، تخلیقِ حیات او ر خود اپنی تخلیق کے بارے میں اَن گنت نظریات قائم کرتا رہا ، پھر نئی معلومات اور نیاعلم حاصل ہونے پر ان کو چھوڑتا رہا اور نئے نظریے قائم کرتا رہا۔انسانی علم کا دارومدار صر ف حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے مشاہدے،تجربات و تجزیوںپر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب اس کے ہی مشاہدے پر مشتمل ہو سکتا ہے، یعنی جوکچھ اس جہاں میںانسان کو نظر آ سکتا ہے یا محسوس ہو سکتا ہے، چاہے براہِ راست یا مختلف آلات کی مدد سے۔ اورجو کچھ حواس سے ماورا ہے، اس کا انسان نہ مشاہدہ کر سکتا ہے، نہ محسوس کرسکتا ہے، نہ اس پرتجربات کر سکتا ہے۔ سائنس کاعلم مادّے اور توانائی جیسی محسوس ہونے والی چیزوںتک محدود ہے۔آج کا انسان بھی آج جو کچھ حاضر و موجود ہے اس کا ہی علم رکھتا ہے اور رکھ سکتا ہے۔جو کچھ کائنات میں اس وقت موجود ہے یا بن رہا ہے، یعنی تخلیق و تشکیل پا رہا ہے اس کا ہی مشاہدہ کر سکتا ہے،اس پر تجربات اورتجزیہ کر سکتا ہے۔تاہم سورج، چاند، ستارے اور اس زمین پر موجود اَن گنت اَنواع و اَقسام کے جانور پہلی مرتبہ کیسے وجود میں آئے؟ اس کے بارے میں علمی وسائنسی بنیادوں پرحتمی طور پر وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔۱؎ انسان قیاس کر سکتا ہے اور پھر اس قیاس کی بنیاد پر کچھ تجربات کر کے ثابت کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس بنیاد پر کچھ اصول و ضوابط اور قوانین بناسکتا ہے۔
بیسویں صدی کے اَوائل میں آسمان کا مشاہدہ کرنے والے ایک شخص ’اَڈوِن ہَبِل‘ نے فلک پر موجود اَجرام کوایک دوسرے سے دُور بھاگتے دیکھا، تواس بنیاد پرقیاس کیا گیا کہ ایک ایسا وقت ضرور رہا ہوگا جب یہ ساری کائنات یک جا تھی،ایک نہایت باریک نکتے سے بننا شروع ہوکراب اس قدر پھیل گئی ہے۔۲؎ اس قیاس کو عظیم دھماکے (Big Bang) کا نام دیا گیا۔برسوں تجربات کرکے بڑی مشکل اور مزاحمت کے بعدعلمی و سائنسی دنیا کی عظیم اکثریت نے اِس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا، لیکن یہ امکان اب بھی باقی ہے کہ ایسا نہ ہوا ہو۔ اَیسا ہی ایک نظریہ اس زمین پر زندگی کی آمد کے بارے میں قیاس کیا گیا تھا کہ حیات کا پہلا سالمہ (molecule) زمین کے ماحول میں بہت سے جواہر اور سالموں کے ازخود مل جانے سے خود بخوداتفاقیہ حادثاتی طور پر تشکیل پاگیا اور اس سے ترقی کرتا ہوا انسان ارتقا کی منزل تک پہنچ گیا۔ پہلے سالمے کے از خود بن جانے کے اس قیاس کو ثابت کرنے کے لیے ’سٹنلے ملّر‘نے ناکام تجربہ کیا۔ ۳؎ اس کے بعدسے اب تک ہزاروں تجربات کیے گئے لیکن اب ایک صدی ہونے کو آئی ہے لیکن کسی کو کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔
ارتقا کا نظریہ اس پہلے سالمے کی از خود (It self) اتفاقی (by chance) حادثاتی (accidental) پیدایش کی بنیاد پر پیش کیا گیا تھا۔ ایک سادہ ترین یک خَلوی(uni cellular) جان دار سے اِرتقا پاتا ہوا انسان بنا، مگر جب پہلے ’سالمے‘ کا ازخود بن جانے کاثبوت نہ مل سکا اور نہ پہلے زندہ خَلیے(living cell) کا ثبوت ملا کہ کب اور کہاں بنا؟___ انسانی علم تو اب تک یہ بھی نہیں طے کر سکا کہ حیات کی ابتدا کس مرحلے سے ہوئی،ایک خَلیے (cell) سے، DNA سے، RNA سے، امائینو تُرشوں (Amino Acids) سے یا اس سے بھی سادے بنیادی سالموں سے۴؎ ___تو انسان کی ارتقا کے ذریعے آپ سے آپ پیدایش کی بات کیسے کی جا سکتی ہے، جب کہ ایک خَلیے کو بنانے کے لیے کم و بیش ۱۰ لاکھ سالموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ ایک دور کی کوڑی ہاتھ لگی ہے کہ جب خلا سے آنے والے پتھروں (Meteoroids) کا تجزیہ کیا گیاتو معلوم ہوا کہ ان میں ایسے سالمے موجود ہیں جو صرف زندہ خَلیوں میں ہوتے ہیں۔یہ وہ سالمے ہیں جن سے زندگی کی ابتدا ہوئی ہے۔کئی شہابِ ثاقب جو خلا سے زمین پر وارد ہوئے ان میں یہ سالمے پائے گئے۔ایسے بھی شہاب ملے جس میں بکٹیریا کی پوری کالونی کے آثار تھے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب ان کی عمر کاحساب لگایا گیا تو اِن کی عمرنظامِ شمسی کی عمر سے بھی زیادہ نکلی،یعنی کہ یہ سالمے اور خلیوں کی کالونیاں خلا میں بہت دور کہیں نظامِ شمسی کی پیدایش سے بہت پہلے بنے تھے۔ یہ خلیے نظامِ شمسی کی پیدایش سے پہلے موجود تھے،مگر اب تک جدید تحقیق سے یہ سب تجزیے ثابت نہیں کیے جا سکے ہیں۔۵؎
آج کے انسان کی بد نصیبی دیکھیے کہ آج کا انسان ،اتنی بہت ساری معلومات کے باوجود ، جو مسلسل تجربات سے پرکھ بھی لی گئی ہیں ، اس سے حاصل ہونے والے صاف صاف اور واضح نتائج کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے کہ آج کا انسان بہت سارے علوم سے واقف ہونے کے باوجود اپنی ہی قائم کی ہوئی ایک بنیادی فکر کا غلام ہے۔ اس نے اس کی ایک یک رنگی عینک پہن رکھی ہے۔یہ اس کو ہر چیز کا وہی رنگ دکھاتی ہے، جواِس عینک کا رنگ ہے، جو اس نے خود ہی پہن رکھی ہے۔ اسٹیفن ہاکینگ برطانیہ کے ایک سائنس دان ہیں جنھوں نے اپنی کتاب کا نام ہی ’عظیم منصوبہ‘ (The Grand Design)رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ کائنات،پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے بغیربننا شروع ہی نہیں ہوسکتی تھی۔ پھر کچھ طبعی قوانین(physical laws)تھے جو خودبخود عمل پذیر تھے، جن کی بنیاد پر یہ کائنات آپ سے آپ اور اتفاقیہ اور حادثاتی طور پر ’عظیم دھماکے‘ سے بننا شروع ہو گئی‘‘ ۔حیرت انگیز! پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’عظیم دھماکے سے پہلے کچھ بھی نہ تھا، نہ توانائی ،نہ مادّہ، نہ کوئی دھماکا کر نے والا ہی ‘‘۔ گویا اس دھماکے کے لیے نہ بارود تھا ، نہ دیا سلائی، نہ بارود کو دیا سلائی دکھانے والا۔ بس دھماکا ہوگیا،اور کہتے ہیں کہ وہ اس کام کے لیے ’’کسی خالق(God)کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘‘۔ ’عظیم منصوبہ‘ تو موجود تھا مگر کوئی ’عظیم منصوبہ ساز‘ نہیںتھا، طبعی قوانین تو تھے مگر اس کا کوئی بنانے اورچلانے والا نہیں تھا، قوانین حرکت میں تھے مگر حرکت دینے والا کوئی نہ تھا‘‘۶؎ __کیا یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز، غیر علمی ، غیر منطقی اور غیر سائنسی بات نہیں ہے؟
انسان کھرب ہا کھرب اِحتمالات و اِمکانات کے دقیق و عمیق حساب و کتاب (minute & precise calculations) خود کرتا ہے اور خود ہی رَد کردیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کائنات کو خودبخود بننے کے لیے پہلے ہی سے اس کی منصوبہ بندی ، اس کے ہر ہر مرحلے کی تفصیلات ،اس کے ہر ہر مرحلے کی ترتیب کو مقرر کرنا ضروری تھا، اور ظاہر ہے کہ اتنے دقیق حسابات ، عظیم منصوبے ا ور حسن ترتیب کیا خودبخود بغیر کسی کر نے والے کے ہو سکتے ہیں؟___ ہاں! آج کے تعلیم یافتہ انسان اسی مفروضے پر نہ صرف اَڑے ہوئے ہیں بلکہ اسی کو عین علمی،سائنسی اور عقلی(rational)و منطقی (logical) رویہ سمجھ رہے ہیں۔ گویا جانتے بوجھتے حقیقت سے فرار اختیار کرکے اور آنکھوں کو بندکرکے اندھیرے میںہاتھ پائوں مارنے کو ہی سائنسی و عقلی رویہ کہتے ہیں۔
اس رویّے کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اِس کا کوئی خالق بھی ہے، اوراس بات پر بھی انھیں شک ہے کہ یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے اور اس کو کبھی ختم بھی ہوجانا ہے۔ہر طریقے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی۔’عظیم دھماکے‘ کو بھی برسوں تک مان کر نہ دینے کی بھی یہی وجہ تھی۔ اگر دھماکے کو مانتے ہیں تو عدم سے وجود کو ماننا پڑے گا۔ عدم سے وجود کومانیںتو تخلیق کو ماننا پڑے گا،تخلیق کومانیں تو خالق کو ماننا پڑے گا اور خالق کو مانیں تو اس خلّاقیت کا مقصد بھی جاننا ہوگا۔اگر مقصدِ تخلیق معلوم ہو جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایک روز خالق کو یہ پوچھنے کا اختیار ہوگا کہ اس نے مقصد کو پورا کیا یا نہیں؟پھر مقصدِ تخلیق کو پورا کرنے والے کو جزا اور نہ پورا کرنے والے کو سزا دینا ضروری ہوگا، پھراس جزا و سزاکو نافذ کرنے کے لیے ایک نئی زندگی بھی ضروری ہو جائے گی۔یہ وجہ ہے جس کے لیے یہ غیر علمی و غیرسائنسی مفروضہ طے کیا ہوا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہی نہیںہے، یہ ازخود حادثاتی طور پر بن گئی ہے۔مگر ’عظیم دھماکے‘ کو بڑے تردد کے ساتھ ماننے کے بعد یہ لوگ عجیب مخمصے میں پھنس گئے ہیں۔دھماکے کو ماننے سے نہ صرف خالق کوماننا ضروری ہوجاتا ہے،بلکہ عدم سے وجود کو ماننے سے، ’ابتدا‘ کو ماننے کے ساتھ ’خاتمہ ‘کو ماننا اور دوسری زندگی کو ماننا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔
یہ رویہ غیر علمی و غیر سائنسی ہے۔ کیونکہ بڑے بڑے سائنس دانوں نے انسانی علم ’سائنس‘ کی یہی تعریف کی ہے کہ چاہے مشاہدات ہوں یا تجربات، یا ان کی بنیاد پر بنائے گئے اصول و قوانین، سب قیاس اور مفروضوں کی بنیاد پر انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کی بنیاد پر کوئی حتمی و یقینی بات نہیں کی جا سکتی ہے ۔ سائنس نہ کسی بات کی تصدیق ہی کر سکتی ہے، نہ تکذیب (falsify)۔ انسانی علم (سائنس ) صرف ممکنہ ٹھوس حقائق کی بات کر سکتا ہے ،مسلّمہ ٹھوس حقائق بتانا اس کے بس میں ہر گز نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپ کسی بھی اِحتمال کو سائنسی بنیاد پرنہ مکمل طور پر قبول کرسکتے ہیں نہ رَد۔ اگر آپ حتمی طور پریہ کہیں کہ یہ کائنات کسی کے بنائے بغیر خود بخود بن گئی ہے تو یہ ایک انتہائی غیر سائنسی رویّہ ہی کہلائے گا۔۷؎
کیا آج کے عظیم علم اور دقیق و عمیق حساب و کتاب کے جاننے والے کی اِنتہائی بد بختی و بدنصیبی نہیں ہے کہ اس نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یہ کائنات، یہ حیات، یہ انسان کسی کے پیدا کردہ نہیں ہیں، بلکہ یہ خود محض اتفاق سے حادثاتی طور پر اپنے آپ وجود میں آ گئے ہیںاور سادہ ترین زندگی سے ترقی کرتے کرتے انسان تک پہنچے ہیں۔ آپ سے آپ اور اتفاقیہ حادثاتی طور پر بننے کو ثابت کرنے کے لیے مفروضوں کی بنیاد پر عجیب عجیب نظریات پیش کیے جارہے ہیں کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ کبھی کہتے ہیں کہ ایک ’عظیم دھماکے‘ سے یہ کائنات بنی۔کائنات میںجتنی توانائی تھی جب اس سے سارے ستارے بن چکیں گے، یہ سب ستارے پھٹ کر’سیاہ جوف‘ (Black Holes) میں تبدیل ہو چکیں گے، پھر ان ’سیاہ جوفوں‘ کی توانائی بھی فنا ہو جائے گی، توپھرکائنات واپس عظیم دھماکے سے پہلے کی حالت کی طرف لوٹ جائے گی، پھر ایک نیا عظیم دھماکا ہوگا۔یہ سلسلہ یوں ہی چلتارہا ہے یوں ہی چلتا رہے گا۔۸؎
حال ہی میںایک اور نظریہ یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جیسی ہماری کائنات ہے ایسی بہت ساری کائناتیںہیں جن کے عظیم دھماکے پانی کے بلبلوں کی طرح مسلسل ہو رہے ہیں، کئی بن رہے ہیں اور کئی ختم ہو رہے ہیں۔ گویا اس سے بھی یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور یہ کہ یہ خود بخود اتفاقیہ حادثاتی طور پر بن رہی ہے اور فنا ہورہی ہے۔۹؎
ان کی بد نصیبی دیکھیے کہ یہ لوگ جو بہت محنت کر رہے ہیں، بہت وقت بلکہ پوری پوری زندگیاں کھپا رہے ہیں،بڑا مال اور صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں۔اس معاملے میںان کی تعریف میں بخل نہیںکیا جا سکتا،ان کو داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ وہ انسان کے بنیادی سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہیں۔ ہر قسم کے’انسانی علم ‘کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں، زمین کی ایک ایک پرت میں تلاش کر رہے ہیں، ہرمادّے میں، ہر جان دار میں، چھوٹی سے چھوٹی چیزمیں۔ اربوں کھربوں گنا بڑی کر کے دکھا نے والی خوردبینیں ایجاد کیں، تاکہ جوہر (atom) کے اندراور زندہ حیاتیاتی خَلیہ(living cell) کے اندرتک دیکھ سکیں۔ دنیا کا چپہ چپہ ہی کیا،اس سوال کے جواب کی تلاش میںآسمانوں اور خلائوں کو نہیں چھوڑا۔ اک اک شہابِ ثاقب کا خوردبینوںسے مطالعہ کر رہے ہیں،اک اک شہابیئے، دُم دار سیارچے (comets) ، سیارے اور ان کے چاندوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ نہ محنت میں کوئی کسر ہے، نہ سرمایہ خرچ کرنے میں بخل، مصنوعی سیارے تک خلا میں بھیج بھیج کر معلومات جمع کر رہے ہیں۔۱۰؎
اصل سوال کیا ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ سرگرداں ہیں؟ سوال وہی ہے کہ یہ ساری کائنات اور انسان کب ،کہاں، کیسے اور کیوں وجود میں آئے؟ہماری ابتدا کیسے ہوئی؟یہ ایک اہم اور بڑاسوال کہ ہم کس مقصد اور کس کام کے لیے تخلیق کیے گئے؟ ہمارا اس کائنات میں کیا کردار ہے؟ کیا ہم پہلی اورآخری مرتبہ پیدا ہوئے ہیں؟کیا ہم مر کر ہمیشہ کے لیے مٹی میں مل جائیں گے یا ہم کو ایک نئی زندگی دوبارہ عطا کی جائے گی؟۔۱۱؎
صدافسوس کہ ان کی ساری محنتیں اورکوششیں اکارت جارہی ہیں،کیوںکہ یہ لوگ اپنی تحقیقات کی بنیاد ہی غلط ڈالتے ہیں۔ ان کا رویّہ ذرا بھی اِنصاف کے ساتھ غیر جانب دار نہیں ہے ، ان کی فکر انتہائی غیر علمی ، غیر سائنسی، غیر منطقی اور غیر عقلی ہے۔ اگر کسی بات کا کھوج لگانے والاپہلے ہی یہ طے کر لے کہ وہ یہ نتیجہ آئے تو قبول کرے گا ،اس کے خلاف دوسراآئے تورَد کر دے گا۔ پہلے سے قائم کیے ہوئے گمان کو یقین پر ترجیح دے گا تواس کو اپنی تحقیق میں بھی وہی کچھ نظر آئے گاجو اس کا گمان(presumption)ہوگا۔ وہ اپنی محنت سے حاصل کیے ہوئے صحیح نتائج کو بھی رَد کر کے اپنے علم کے مُردہ خانے میں جمع کر دے گا۔ اگر کوئی شخص ایک رنگ کی عینک لگا کر دنیا کو دیکھے گا تو اس کو ہر چیز کا وہی رنگ نظر آئے گا جو عینک کے شیشوں کا رنگ ہوگا۔کوئی دوسرا رنگ وہ کیسے دیکھ سکے گا؟
پوری دنیا کی جامعات میں ہر مضمون کے ’انسانی علوم‘ میں ڈاکٹریٹ کرنے اور کرانے والوں کی ۹ء ۹۹ فی صد اکثریت نے یہ فرض بلکہ یقین کر رکھا ہے کہ یہ کائنات، یہ زمین، یہ حیات اور انسان اپنے آپ، از خود، اتفاقیہ حادثاتی طور پر وجود میں آگئے ہیں۔ وہ دوسرے کسی اِمکان و اِحتمال پر غورہی نہیں کرنا چاہتے،چاہے وہ کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو۔
یہ سب آپ سے آپ، از خود، اتفاقیہ اورحادثاتی طور پر بن جانے کا احتمال چاہے کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، یہ لوگ اس کے علاوہ کسی دوسری بات پر غورکرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔جو اِمکانات اور اِحتمالات نظرآرہے ہیں ان پر غور و فکر کرنے کو غیر علمی، غیر سائنسی اور غیر عقلی بات سمجھتے ہیں۔ وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ان ساری موجودات کا کوئی خالق بھی ہے یا ہو سکتا ہے۔
کوئی ایسا کام ہونا چاہیے کہ جو ان عقل کے اندھوںکی آنکھیں کھلوا سکے۔ ان کو انصاف پر مبنی غیر جانب دار اورحقیقی و عقلی رویّے کی طرف بلائے۔ان کو اصل علمی،عقلی اور سائنسی طریقے کی طرف مائل کرے اور پھر ان کے قلوب میں اپنے اور ان کے خالق کی جگہ بنائے۔
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان کو مجبور کیا جائے کہ خالق کو مانیں۔ تاہم یہ تو ہونا چاہیے کہ یہ لوگ اپنی تحقیقات میںاپنے ہی بڑے بڑے سائنس دانوں کی بتائی ہوئی ’سائنس‘ کی اصل تعریف کے مطابق خالص (pure)علمی طریقہ اختیار کریں۔ صاف اور کھلے دل و دماغ کے ساتھ ہر اِمکان اور اِحتمال کو انصاف کے ساتھ حق کے مطابق برابر کی اہمیت دیں، اوراپنے نتائج کو پہلے سے قائم کیے ہوئے گمان سے آزادکرکے خود پرکھیں اور پھر کوئی نظریہ قائم کریں۔
انسانی علم ہی کے مطابق یہ کائنات، یہ زندگی اورانسان، کیا صرف اِتفاق سے کسی طاقت ور کے بنائے بغیر خودبخود حادثاتی طور پر وجود میں آ سکتے ہیں؟ دوسری غور طلب بات جس پر غوروفکر ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس جہاں میں جو کچھ ہم کونظر آ رہا ہے، اس کے تخلیق کر نے والے کے اندر کیا صفات،طاقتیں ،صلاحیتیں اور اختیارات ہو ناضروری ہیں جس کے بغیر وہ یہ سب کچھ تخلیق کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہر چیزابتدا سے خود تشکیل دے، کسی دوسرے سے کوئی چیز نہ لے، یعنی اس طرح وہ ہر شے کا اکیلا ہی مالک، خالق اور حاکم ہو۔سب قوتیں بھی اسی کی ہوں، سب مادے بھی اسی کے ہوں۔اسی سے تیسری اہم بات یہ نکلتی ہے کہ یہ کسی ایک ہی شخصیت کا کام ہو۔ جس طرح ان ساری تخلیقات کی پہلے سے منصوبہ سازی کی گئی، عظیم منصوبہ (The Grand Design) پہلے سے موجود تھا ، اس کی تخلیق کے ہر ہر مرحلے کی ترتیب پہلے سے مقرر کی گئی ، چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات پہلے سے طے کی گئیں ، پھراس کوبنانا شروع کیا گیا ہے__ اوراب تک اس کو چلایاجارہا ہے، تو اس کی ملکیت میں،اس کے اختیارات میں،اس کی خلاّقیت میں،اس کی طاقتوں و صلاحیتوں میں، جیسا کچھ تنظیم ، ربط اور توازن ہے، تو معلوم ہوا کہ اس کام میں کسی کم تر سے کم تر ذات کی معمولی سی شرکت بھی اس تخلیق اوراس کی بنیاد پر چلنے والے سارے نظام کو بگاڑ دیتی۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کائنات میں موجود مادّے توانائیاں اور زندگی کی انواع و اقسام کتنی عظیم اور وسیع ہیںتو ہم ان حقائق کو سامنے رکھ کر ان باتوں کی طرف اشارے کرنا چاہتے ہیںکہ اس کا جو بھی مالک اور خالق ہے ، جس نے بھی اس کو تشکیل دیا ہے اور چلا رہاہے،اس کو کن کن طاقتوں اور صلاحیتوں کا حامل ہونا چاہیے۔
انسان کا علم کتنا ہی گہرا اور دقیق ہو ،اس کاعلم’انسانی علم‘ہے،انسان کے حواسِ خمسہ کی طرح ناقص و نا مکمل۔ وہ اپنے ’علم‘ کی بنیاد پر اس بات کوسوچ بچار اور غورو فکرکے ذریعے معلوم ہی نہیں کرسکتاکہ اس کے خالق نے اس کوکس کام کے لیے،کس مقصد سے پیدا کیا ہے ؟اس کا جواب صرف اور صرف اس کا پیدا کرنے والاخالق ہی دے سکتا ہے۔ انسان کے سائنس و فلسفہ سمیت جتنے بھی علوم ہیں ،اس سوال کا جواب،ان کے دائرہِ کار میں شامل ہی نہیں ہے، یعنی اس سوال کا جواب حضرتِ ِانسان کے علم واختیار سے بالکل ہی باہر ہے۔ وہ کتنا ہی ترقی کیوں نہ کر لے،کتنا ہی علم حاصل کرلے ،انسان اپنا مقصدِ وجود بتانے سے مکمل طور پرعاجز اور قاصر ہے۔
اگر ایک کمرے میں کچھ لکڑیاں،شیشہ،کپڑا اور لوہا پڑا ہو اور اس میں دھماکا ہو جائے، تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کمرے کی ضرورت کی ہر چیز بن جائے اور کمرہ مکمل طور پر سج جائے ۔ اس مثال میں کچھ مادّے تو ہیں، مگرجسے وہ ’عظیم دھماکا‘ کہتے ہیںیہ تو اور بھی عجیب تھا ۔ اس میں پہلے سے نہ کوئی مادّہ تھا، نہ کوئی توانائی تھی، مگرکہتے ہیںکہ یہ دھماکا ایک ایسا ہی عجیب دھماکا تھا ۔ اس دھماکے سے، وقت کاآغاز ہوا، توانائی کا ظہور ہوا، سیکنڈ کے اربویں حصے کے اندر ہی اس کو ذرا دیر کے لیے تھما کربنیادی پس جوہری ذرّات (Basic Sub Atomic Particles)(فرمیونز اور بوسونز، قوارک اور لپٹونزوغیرہ)بنائے گئے۔ان سے پس جوہری ذرّات (پروٹونز ،نیوٹرونز وغیرہ) بنائے گئے۔ پانچ منٹ کے اندر مرکزے بنائے گئے۔ اس کو مرکزہ سازی (Nucleosynthesis) کہتے ہیں۔۱۲؎
۳ سے ۱۰ لاکھ سال کے انتظار کے بعد جب درجۂ حرارت کم ہوا تو ’جواہر‘ یعنی ایٹمز (atoms) تشکیل پانے کا آغازہوا(ہائیڈروجن،ہیلیئم اور ڈیٹیریئم بنے)۔ پھر اس مادّے سے کائنات بننا شروع ہوئی۔ بڑے بڑے ستاروں میں مزید عناصر کے جواہر بنتے گئے۔ ایک ترتیب و تدریج کے ساتھ موجودہ پوری کائنات ارتقا پائی۔کہکشاں بنی، نظام شمسی بنا، زمین بنی، زمین پر حیات پیدا ہوئی،نباتات وحیوانات ارتقا پائے اورحضرت ِانسان تشریف لائے۔اس دھماکے کے نتیجے میں جو منظم کائنات بنی اس کے پھیلنے کی رفتار میں، اس کی قوت میں،اس کی کثافت میں، پہلے سے ہی طے کیے گئے اِتنے باریک بین عمیق و دقیق حساب کتاب تھے کہ اس حساب کتاب میں ، اگر اس کے پہلے ہی سیکنڈکے اربویں کھربویں حصے میںبھی ایک کی نسبت اربوں کھربوں کا بھی فرق آجاتا تواس کائنات کا موجودہ شکل تک پہنچنا ناممکن ہوجاتا۔۱۳؎ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار میں ،اس کی قوت میں، اس کی کثافت میں اگر انتہائی معمولی سی بھی’ کمی‘ واقع ہو جاتی تو اس کائنات کے اجزا آپس میں جڑ جاتے اور پھیل کر موجودہ شکل تک پہنچنا ناممکن ہو جاتا، اور اس کی رفتار میں بہت تھوڑا بھی ’اضافہ‘ ہوجاتا ،تو یہ اَجزاے کائنات فضا میں بکھر جاتے اور پھر ان دونوں صورتوں میں نہ یہ کہکشائیں ہوتیں، نہ ستارے ہوتے ، نہ زمین ہوتی اور نہ زمین پر زندگی ہوتی۔
اس دھماکے کے بعد اس کائنات میں اس کے اجزا کا جو پھیلائو ہو رہا ہے ، اس کا ایک خاص تناسب کشش ثقل سے قائم ہے۔کشش ثقل اس پھیلائو کو روک رہی ہے اور واپس پھر سے مرکز کی طرف لے جانے کے لیے اپنا زور صرف کر رہی ہے۔ انسانوں کے حساب کتاب کے نتائج بتارہے ہیںکہ کشش ثقل کی طاقت زیادہ ہے اور اس کشش کی طاقت کی وجہ سے کائنات کے اس پھیلائو کو نہ صرف یہ کہ رُک جانا چاہیے، بلکہ پھر واپس یک جا ہو نے کی طرف مائل ہونا چاہیے، مگرہو کیا رہا ہے کہ کوئی ’عجیب‘ اور ’نادیدہ قوت‘ ہے جو کشش ثقل کے برعکسAnti Gravity کام کررہی ہے۔۱۴؎ اس کے نتیجے میں کائنات سکڑنے کے بجاے پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے اور اس پھیلائو کی رفتار میں بھی کمی کے بجاے مسلسل اِضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ کیسی عجیب اور نادیدہ قوت ہے؟ کیا یہ وہی قوت نہیںجو یہ سب کچھ انجام دینے والی ہے! انسان اس سلسلے میںصرف حیرت زدہ ہے۔
مندرجہ بالا نکات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس ’عظیم دھماکے‘ اور اس کے نتیجے میں کائنات کی تخلیق کے لیے، پہلے سے ہر تفصیل کی منصوبہ سازی کی گئی تھی۔ عظیم منصوبہ موجود تھا۔ اس میں پہلے سے نہایت باریک بینی سے اور عمیق حسابات کیے گئے تھے۔ مختلف کاموں کی ترتیب مقررکی گئی تھی۔ اس کے ہر درجے میںبہت ہی نازک توازن قائم کیے گئے تھے۔ اس بات کی گواہی آج کے’ انسانی علم‘ والے یہ سائنس دان بھی دے رہے ہیں ۱۵؎ ، تو کیا یہ کام کسی نے نہیںکیا تھا؟ خود بخود ،اتفاقاً ، اپنے آپ، حادثاتی طور سے ہوگیا تھا؟ کیا اس کے بنا نے والے کی نظر اپنے منصوبے (design)کے ہرہرمرحلے اور اس کی ہرہر تفصیل پر شروع سے آخر تک ایک ساتھ نہیں تھی؟ کیا اس کے اندازے اور اس کے منصوبوں کے توازن بہت دقیق حسابات کے ساتھ قائم نہیں کیے گئے تھے؟ اور کیا اس میں کہیں کوئی ذرا سی غَلَطی کا اِمکان بھی تھا ؟ یا اس کام میں کوئی ذراسی غلطی بھی ہے ؟سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس کام کو کرنے کے لیے اس کی طاقت و قدرت بے پایاں نہیں تھی؟ اور کیا وہ ہرچیز،مادّے اور قوت (matter and forces) پر مکمل اختیار نہیں رکھتا تھا؟ کیا ان سب شرائط کو پورا کرنے والے کے بغیر یہ تخلیقات محض اِتفاق سے خودبخودحادثاتی طور پر ہوجانا ممکن تھا؟
پس ’عظیم دھماکے‘ کی حقیقت یہ ہے کہ ایک قوت ہے جس کے ارادے یا منصوبے کے مطابق، اس کی طاقت اور صلاحیت سے اسی قوت والے’ خالق‘ نے انسان سمیت یہ سب کچھ تخلیق کرنا شروع کیا۔ اس تیزی سے (ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے میں) کہ یہ انسانوں کو ایک دھماکا لگا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ’عظیم دھماکا‘ نہیں بلکہ عظیم کام (تخلیق) کی ابتدا تھی ، جس کو اس کا خالق ہر لمحے، ہر ہر مرحلے پر مکمل اختیار اور قدرت کے ساتھ انجام دے رہا تھا۔اس عمل کے دوران ہر لمحہ تیزی سے بدلتی حالت کو دیکھ کر انسان کو یہ نرا دھماکا محسوس ہوا ۔
حقیقت پسندی کا اور سائنسی حقائق کا تقاضا کیا یہ نہیں ہے کہ انسان کائنات کے اس ’عظیم منصوبہ ساز‘ (The Grand Designer)، اللہ تعالیٰ کی ہستی کو تسلیم کرلے! افسوس کہ مغربی تہذیب کے علَم بردار اور سیکولر بنیادوں پر زندگی کی تعمیر کے داعی اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ اس کھلی حقیقت کا اعتراف کرسکیں۔ بقول اقبال:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
قرآنِ مجید خود غوروفکر اور تدبر کی دعوت دے رہا ہے:
وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ o وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ o (الذیارات ۵۱: ۲۰-۲۱) زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے، اور خود تمھارے اپنے وجود میں ہیں۔ کیا تم کو سُوجھتا نہیں؟
[1] Lluis Ribas de Pouplana, The Genetic Code and the Origin of Life, Bryan 2011, pg:12, New York, USA. Plenum Publishers, 2004.
[2] Neil deGrasse Tyson, Carls Liu,Robert Irion, One Universe,
pg: 8 to11 & 171, Maryland, U.S.A. Chroma Graphics, Inc. Largo, Maryland, 2000. & Fred Heeren, Show Me God, Vol. no 1, pg:69-70, Third Edition, Wheeling, IL, USA. Day Star Publications,1997.
[3] Lluis Ribas de Pouplana, The Genetic Code and the Origin of Life, pg: 6,7 & 12, New York, USA. Plenum Publishers, 2004.
پروفیسرشہزادالحسن چشتی، انسان کی تخلیق، ص ۱۷-۱۸، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی، ۲۰۰۷ئ۔
[4] Lluis Ribas de Pouplana, The Genetic Code and the Origin of Life, pg:12, & Fred Heeren, Show Me God, Vol no. 1, pg:61.
[5] One Universe, pg167 & The Genetic Code and the Origin of Life, pg:4,5 &9. & Bryan Gaensler, Extreme Cosmos, pg: 29, Sydney Australia, New South Publishing, 2011.
[6] Stephen Hawking, The Grand Design, pg13, New York, Bantam Books (Random House, Inc.), 2010.
۷- ڈاکٹر محمود علی سدنی، فلسفہ ، سائنس اور کائنات، ص۱۱، الفیصل ناشران، لاہور، ۲۰۰۵ء
Harry Bakalian & others, The Nature of Science, pg:15, First Edition, New Jersey, Prentice Hall,1993.
[8] Stephen Hawking,The Grand Design, pg13.
[9] Neil deGrasse Tyson, Carls Liu,Robert Irion, One Universe, pg:178.
[10] Barry Anderson & others, A Guide to Modern Science, pg:220 to 225, Reprint 2002, San Francisco, Weldon Owen Production, 2002.
[11] Stephen Hawking, A Brief History of Time, pg:ix,xiii & pg:1,
Reprint 1998, Berkxhire, G.B., Bantam Books,1998.
[12] Neil deGrasse Tyson, Carls Liu,Robert Irion, One Universe, pg: 81,82.
[13] Fred Heeren, Show Me God, Vol no. 1, pg:69-70.
[14] Neil deGrasse Tyson, Carls Liu,Robert Irion, One Universe, pg: 198 - Maryland, U.S.A.
[15] Fred Heeren, Show Me God, Vol no 1, pg:69,70.
(مصنف کی کتاب: وہ کون ہے؟ سے ماخوذ)