جدید سائنسی تحقیقات میں مصنوعی ذہانت (Artifical Intelligence)نے جسے AI بھی کہا جاتا ہے، گذشتہ چندبرسوں میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ تقریباً ہر روز علمی اُفق پر مصنوعی ذہانت کے معیشت ، معاشرت ،عالمی دفاع ، فرد اور معاشرے پر اثرات کےتعلق سے موضوعات زیر بحث لائے جا رہے ہیں ۔ علمی و تحقیقی حلقوں میں چیٹ جی پی ٹی(Chat GPT) کے عمل دخل کی بنا پر پیدا ہونے والے اخلاقی سوالات ابھر کر سامنے آرہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی عقل اور تحقیق اس مقام تک پہنچنے لگی ہے جہاں فرعون اور نمردود کی پیروی کرتے ہوئے سائنس خوداپنے ربّ ہونے اور جدید دجّال کی طرح زندگی اور موت پر قابو کاعملاً اعلان کرنے کے لیے آمادہ ہو۔
تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں گذشتہ ربع صدی میں عالم گیر سطح پر بعض جائزے یہ شواہد فراہم کر رہے ہیں کہ جرمن مفکّر نیٹشے کے یہ لکھنے کے باوجود کہ عیسائیت کے خدا کی (نعوذ باللہ ) موت واقع ہوچکی ہے اور جس کے نتیجے میں امریکن اکیڈمی آف ریلجنز کے سالانہ علمی اجتماعات میں ایک سے زائد فکری حلقوں میںDeath of God Theology کے موضوع پر مختلف مقالات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں گیلپ انٹرنیشنل نے ایک عالمی جائز ہ لیا (سروے کیا)، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے ’خطرے‘ کے پیش نظر یہ دیکھا جائے کہ مختلف مسلم ممالک اور غیرمسلم دُنیا اور علاقوں میں کیا رجحانات پائے جاتے ہیں اور اسلام سے خائف یورپ اور امریکا کس طرح اپنا دفاع کرسکتے ہیں؟
اس جائزے میں یہ بات اُبھرکر سامنے آئی کہ ایسے ممالک میں بھی جہاں ظلم و استبداد، عسکری تسلط اور اسلام دشمن قوتیں یا کم ازکم لادینیت (Secularism) کے حمایتی برسر اقتدار ہیں ، ان ممالک میں بھی ۶۰ فی صد یا زائد مسلمان اسلامی شریعت کو اپنے مسائل کا حل اورآمریت اور مغربی لادینیت کے مقابلے میں اسلامی احیا کو اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ اس تحقیق کے مرتب اور اسلامیات پر گہری نگاہ رکھنے والے پروفیسر جان ایل اسپوسیٹو کے تجزیے کے مطابق مشرق وسطیٰ کے مسلم اکثریتی ممالک کے ایسےمرد و خواتین جنھیں مغرب زدہ یا Moderate سمجھا جاتا ہے، ان کے ۸۳فی صد نے اسلامی شریعت کے حق میں رائے دی ۔ جب کہ وہ معاشرتی گروہ جو اسلامی انقلابی (Politicaly radical)کہلاتے ہیں، ان سے تعلق رکھنے والے ۹۱ فی صد افراد کی نگاہ میں شریعت پر مبنی نظام ہی ان کے مسائل کا حل ہوسکتا ہے ۔اسی طرح اس سوال کے جواب میں کہ اسلام کا مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ مصر اور سعودی عرب میں بالترتیب ۹۰فی صد اور ۹۱فی صد مرد اور عورت دونوں کا خیال تھا کہ اسلام انھیں روحانی سکون عطا کرتا ہے، زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے اور زندگی کو بامعنی بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
نماز کی ادائیگی اور اس کے اثرات کے بارے میں ۲۰۰۱ء میں گیلپ ہی کے ایک تجزیے کے مطابق چھے ممالک کی دوتہائی آبادی کے تاثرات پر مبنی جائزے میں مراکش میں ۸۳فی صد پاکستان اور انڈونیشیا میں ۷۹فی صد، کویت میں ۷۴ فی صد، انڈونیشیا میں ۶۹ فی صد ،لبنان اور ایران میں ۶۸فی صد مردو خواتین نے یہ اقرارکیا کہ ’’نماز انھیں اپنے ذاتی مسائل کے حل میں مدد اور تسکین فراہم کرتی ہےاور روزہ اللہ رب العزت کے دروازہ تک اور صدقہ ہمارے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنتے ہیں‘‘۔
گیلپ انٹرنیشنل کے حالیہ علمی جائزے ۲۰۲۳ء میں خدا کے وجود، آخرت پر یقین ، جنت اور جہنم پر ایمان کے نکات پر دُنیا کی تقریباً دوتہائی آبادی سے حاصل کردہ معلومات تمام اہل دانش کے لیے قابلِ غور ہیں، خصوصاً ایسے افراد جو اقامت دین کو اپنا مقصد ِحیات قرار دیتے ہیں، ان کے لیے اس جائزے میں غور و فکر کے کئی عنوانات موجود ہیں۔
خدا کے وجود اوراپنے تشخص کے بارے میں عالمی سطح پر ۶۲ فی صد افراد اپنا تشخص مذہبی ہونا بتاتے ہیں،جب کہ ۷۲فی صدخدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔دنیا کی آبادی کے دوتہائی افراد میں سے ۵۷ فی صد حیات بعد موت پر یقین رکھتے ہیں ۔ ۵۹ فی صد افراد جنت کے وجود پر اور ۵۳ فی صد جہنم کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کا مقابلہ ۲۰۱۳ء کے جائزے سے کیا جائے تو امریکا میں ۵۶ فی صد افراد خود کو مذہبی سمجھتے تھے،جب کہ روس میں ۷۰ فی صد اپنے مذہبی ہونے کا اقرار کرتے تھے۔ ۲۰۲۳ءمیں امریکا میں اس رجحان میں اضافہ ہوا۔ چنانچہ ۶۰فی صد افراد خود کو مذہبی قرار دیتے ہیں لیکن روس میں ۲۰۲۳ء میں اس رجحان میں کمی ہوئی اور وہاں آج ۷۰ فی صد کے مقابلے میں ۶۲ فی صد اپنے آپ کومذہبی سمجھتے ہیں۔
۲۰۲۳ء کے اعداد و شمار کی روشنی میں میں دنیا کی آبادی کے دو تہائی حصے میں سے ۱۰فی صد خود کو دہریہ (Atheist)قرار دیتے ہیں،جب کہ ۲۰۱۳ء میں یہ شرح ۹فی صد تھی ۔ گویا اس جائزے کے مطابق دہریت میں ایک فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔اگر صرف مسلم ممالک کو دیکھا جائے تو خدا کے وجود پر مسلم ممالک میں سو فیصد اور غیر مسلم ممالک جہاں مسلمان آبادی قلیل تعداد میں ہے، ۱۷ممالک میں ۹۰ فی صد یا اس سے کچھ کم درجہ رکھنے والے افراد ۹۰ تا ۹۹ فی صد خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ مسلم اکثریتی ممالک میں یہ تناسب ۱۰۰ فی صدیا اس کے لگ بھگ ہے۔
دنیا کے دو سو سےزائد ممالک پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے تو دہریت میں ایک فی صداضافہ ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ، آخرت ، جنت اور جہنم پر یقین کو دیکھا جائے تو مسلم ممالک دیگر ممالک سے بہت آگے ہیں، اور ۱۰۰ فی صد یا اس کے لگ بھگ آبادی میں دہریت سے دُوری اور اور مذہب سے وابستگی کا اظہار موجود ہے۔اگرچہ عالمی سطح پر ایک فی صد دہریت میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی سطح پر دینی معلومات میں کمی ہےاورایسے طبقات تک دعوت کا مؤثر ابلاغ نہ ہو سکا جس کی بے پناہ ضرورت ہے۔
زمینی حقائق کے اس جائزے سے بظاہر یہ عمومی تاثر ہمارے ذہن میں اُبھرتا ہے کہ ’’تمام تر دہریت (Atheism) اور لادینیت (Secularity) اور مادہ پرستی (Materialism) کے باوجود، لوگوں کی ایک معقول تعداد عیسائیت ، اسلام ، ہندو ازم اور بودھ ازم کے تناظر میں اپنے آپ کو مذہب سے وابستہ کرتی ہے اور دنیا کی مکمل آبادی میں بہ مشکل ۱۰ فی صد افراد ہیں جو الحاد میں اپنی نجات سمجھتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ۱۰ فی صد افراد عالمی معیشت،سیاست ، ثقافت ، تعلیم اور دفاعی معاملات میں کتنا مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں اور جو اکثریت اپنے آپ کو ’مذہبی‘ کہتی ہے معاشرہ اور عالمی حالات پر اس کا کتنا اثر (impact)ہے؟
یہ بات جانی پہچانی ہے کہ تمام معروضیت کےباوجود کسی بھی عددی جائزے میں جو سوالات مرتب کیے جاتے ہیں، انھی سے دیگ کے چندچاولوں کی بنیاد پر کھانے کے قابلِ طعام ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ نتائج بڑی حد تک مختلف عوامل سے متاثر ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر چند لمحات کے لیے یہ مان لیا جائے کہ تجزیے میں دنیا کی دو تہائی آبادی سے سوالات و استفسارات سے جو مواد حاصل ہوا ہے، وہ معتبر ہے اور بڑی حد تک مذہب ، خدا اور انسانی زندگی پر ان اثرات کے حوالے سے جو اعداد و شمار ہمارے سامنے آئے ہیں، وہ زمینی حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں، توبآسانی یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ مختلف اسباب اور عوامل کے نتیجے کے طور پر عالمی سطح پر الحاد میں لازماً اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب بعض مذاہب نے ان علاقوں میں جہاں پہلے ان کا اثر کم تھا، وہاں اپنی پہنچ میں اضافہ کیا ہے اور بعض مذاہب باوجود اپنی اعلیٰ صلاحیت کے وقت کے مطالبات کے معقول حل پیش کرنے میں دوسروں سے پیچھے ہیں۔
پیش نظر مسئلے کا تقابلِ ادیان کے زاویے سے جائزہ لیں تو خصوصاً افریقا میں ۱۹۷۰ء میں عیسائی چرچ نے باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے ذریعے عالمی سطح پر عیسائیت کی ترویج کے لیے وسائل مہیا کیے تھے ، جس کے اثرات ربع صدی کے بعد ظاہر ہوئے اور سروے میں اس کا ثبوت عیسائیت کے فروغ کی شکل میں موجود ہے۔ بہرحال فی الوقت ہمارے پیش نظر صرف اسلام کے حوالے سے چند بنیادی اُمور پر غور کرنا ہے ۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کے وجود یا آخرت کے واقع ہونے اور جنت اور جہنم پر ایمان کا تعلق ہے، مسلمانوں کے انتہائی زوال کے دور میں بھی ایک پیدایشی یا ثقافتی مسلمان بھی جنت اور جہنم کے حقیقت ہونے کا قائل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی ذاتی زندگی اس عقیدے سے کتنی مطابقت رکھتی تھی۔ اللہ کے وجود اور دنیا میں کیے جانے والے اعمال کے لیے ایک امتحان گاہ کو نہ صرف عقلی ضرورت بلکہ اپنے وجود سے وابستہ سمجھتا تھا ، لیکن امتداد ِزمانہ کے ساتھ برصغیر جنوب مشرقی ایشیا میں ہمارے دینی عقائد میں بیرونی تصورات غیر شعوری یا شعوری طور پر داخل ہوتے گئے جس کا سبب برصغیر میں غیر اسلامی خصوصاً ہندو مت کے بہت سے طریقوں کا روایتی مسلم معاشرے میں نفوذ کر جانا ہے۔ ان بہت سی رسومات کو جو بنیادی دینی تعلیمات سے عدم آگاہی کی بنا پر رواج پا گئیں، روحانیت اور قرب الٰہی کے نام پر رواج دیا گیا۔ میر تقی میر نے ڈھائی صدی قبل اس مسئلے کا اظہار یوں کیا تھا ؎
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو اُن نے تو
قشقہ کھینچا ، دَیر میں بیٹھا ،کب کا ترکِ اسلام کیا
دوسری جانب جنت اور جہنم کے وجود پر ایمان لاتے ہوئے ایک ایسے ذہین شاعر نے جو اپنے آپ کو نصف مسلمان اس لیے کہتا تھا کہ حرام مشروب کے استعمال کے باوجود کبھی حرام گوشت کی طرف نہیں گیا ، جنت اور جہنم کے وجود پر اپنے ایمان کو یوں بیان کیا ہے کہ ؎
کیوں نہ جنت کو جہنم سے ملادیں یا رب
سیرکے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی
گویا مسلم معاشرتی شعور میں روح کی گہرائیوں اور ذہن کی وسعتوں میں کوئی گوشہ ایسا نہیں ملتا،جہاں عملاً دین کے بعض ارکان کو ترک کرنے کے باوجود ایک مسلمان، چاہے وہ محض پیدائشی اور ثقافتی طور پر مسلمان ہو ، بنیادی تعلیمات سے واقفیت اور آگاہی کے ساتھ ان پر یقین رکھتا تھا۔ ان کے ہاں دین کا جامع تصور مفقود نظر آتا ہے ۔ اگر جدید جائزوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو دین کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی آج تک ایک تلخ زمینی حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ اس رجحان کے اسباب اور ان کا ممکنہ حل کیا ہو؟ یہ تحریکات اسلامی کے لیے ایک اہم غور طلب امر اور چیلنج ہے۔
معاشرتی رجحانات کے بننے اور بگڑنے میں تربیت ، ماحول اور تعلیم کا کردار فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ مذکورہ جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک میں بھی اسلام سے جذباتی وابستگی پائی جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور ایک اطمینان بخش صورتِ حال ہے، لیکن وہاں بھی اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو پرائیوٹ تعلیمی اداروں سے فراغت پانے والی نئی نسل اے لیول اور او لیول اور سیکولر کلچراور نصاب کے سائے میں پرورش پا کر فارغ التحصیل ہو رہی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات بھی دین کے بارے میں محض رسمی معلومات سے زیادہ کچھ بھی نہیں جانتے ۔ تحریک اسلامی کے لیے یہ صورت حال خاص طور قابل غور ہے اور فوری اقدام کی متقاضی ہے۔ مملکت خدادادِ پاکستان میں ۷۵ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود، ہرحکومت کے دور میں زبانی جمع خرچ تو ہوا لیکن خاطرخواہ طریقے سے نصابی تبدیلی اور نصاب کے ساتھ بنیادی دینی معلومات فراہم کرنے والی کتب ، اساتذہ اور ماحول فراہم نہیں کیا جاسکا۔
اب ذرا غور فرمایئے کہ جن اداروں میں تحریک اسلامی سے وابستہ افراد پائے جاتے ہیں، کیا وہاں تعلیم و تربیت سے متعلق منظم اور مستقل اقدامات کیے جارہے ہیں؟ اور جہاں تحریکی افراد کے اپنے ادارے ہیں، ان میں ملک گیر پیمانے پر کیا تجربات کیے گئے ہیں؟ اور ان کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد آیندہ کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے؟ اس پر بلاکسی تاخیر جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ضرورت کے تعین (Need Analysis) کے ذریعے ایک قابلِ عمل حکمت عملی کا نفاذ کیا جاسکے۔
زمینی حقائق کچھ یوں ہیں: گھر جو سب سے پہلی تربیت گاہ یا مدرسہ ہے اور جو دینی اور تہذیبی اقدار کا آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا فطری ذریعہ ہے، اس گھر کو ہم نے شعوری یا لاشعوری طور پر جدید الیکٹرانک سمعی اور بصری آلات کی رنگینی کے حوالے کر دیا ہے۔ ایک تین سالہ بچہ بھی ڈزنی کی دنیا کا شہری بن گیا ہے اور اپنے والدین کی دنیا سے کٹ کر اپنے احساسات ، زندگی کے مقصد اور مثالی طرزِ عمل کے لیے ان کارٹون کرداروں کا مرہونِ منت ہو گیا ہے،جو ڈزنی نے لادینیت، عریانیت ، نفس پرستی ، اَنانیت او ر اپنی ذات کی نمائش ا ور پرستش کے اصولوں پر نوعمر ذہنوں اور ان کی روح میں اُتر جانے کے لیے ایجاد کیے۔ یہ رجحان مثبت متبادل مواد کی فراہمی کے بغیر تبدیل نہیں ہو سکتا۔
دوسرا اہم سبب مسلمانوں کے ایک اہم اور مؤثر حصے کا ذہنی مرعوبیت کا شکار ہو جانا اور ہرمعاملے میں اعلیٰ معیار کے لیے صرف اور صرف مغرب کی طرف دیکھنے کو اختیار کرنا ہے ۔ وہ موزہ ہو ، قلم ، قمیص ، جو تا ، غسل خانے میں لگنے والی ٹونٹی ہو یا عمرانیات ، طب ، ریاضی یا دیگر علوم، ہرشعبے میں اعلیٰ معیار( state of the art) مغرب کو قرار دے کر لادینیت پر مبنی علمی روایت کو پوری مسلم دنیا نے پورے عقیدت و احترام کے ساتھ اختیار کر لیا۔اس ذہنی مرعوبیت کے نتیجے میں گفتگو ہو یا تحریر، ہرمیدان میں مغربی جدیدیت کو علمیت کے ثبوت کی شکل میں اختیار کر لیا گیا، جس کے نتیجے میں مغرب سے درآمد کردہ اصطلاحات کا استعمال دانش وری کی علامت اور علمیت کی دلیل سمجھا جانے لگا۔ ان اصطلاحات کے پیچھے جو تصورات ہمارے ذہنوں میں گھر کر رہے ہیں ،حتیٰ کہ اپنی ثقافت کے مطابق لباس پہننا اور اپنی زبان میں اظہار خیال کرنا بھی معاشرے میں ایک معیوب عمل سمجھا جانے لگا ۔
تعلیم و تربیت کا شعبہ دور جدید میں عددی ابلاغ عامہ (Digital Media )کا تابع ہو چکا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ برقی ذرائع کا استعمال ، تعلیم ، تفریح اور ابلاغ عامہ میں ہو رہا ہے، اس میں صرف چند قرآنی قصوں پر مبنی کتابچے کام نہیں کرسکتے ۔ اگر ہم صرف ہم خیال تعلیمی اداروں کی ضروریات کا جائزہ لیں تو معاشی طور پر ایسی چیزیں جو تربیتی زاویے سے برقی ذرائع میں تیار کی جاسکیں، مارکیٹ میں اپنا مقام پیدا کریں گی۔ شرط یہ ہے کہ اس مواد میں تعلیمی نفسیات اور نصابی کتب کے مطالبات کو فنی مہارت کے ساتھ استعمال کیا جائے ۔ یہ کام جہاں حکومتی دائرے میں کرنا ضروری ہے، وہیں کسی حکومتی اختیار کے بغیربھی ہو سکتا ہے اور کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
ایسے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ضروریات کے پیش نظر ایسے مواد کی تیاری جو اخلاق، سیرتِ پاک ، قرآنی تعلیمات اور فنی معلومات کو یکجا کرتا ہو ، آج کی بنیادی کی ضرورت ہے ۔ دینی فہم، دینی تعلق اور دینی جذبات کا پیدا کرنا تحریک کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ یہ کام محض بیانات اور تبدیلی کے نعروں سے نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے قابلِ محسوس اعلیٰ فنی معیار کے مواد کی ضرور ت ہے ، جس کی برتری کا اعتراف مخالفین کو بھی کرنا پڑے۔
اس غلامی سے نکلنے کے لیےچند اہم اقدامات ضروری ہیں ۔ اولاً: مغربی فکر سے واقفیت کے ساتھ اس کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے، جس طرح کا کام مولانا مودودی نے تنقیحات، تفہیمات، رسائل و مسائل اور دیگر تحریرات میں کیا ہے تاکہ اس زہر کو سمجھا جاسکے۔ دو سو سال اور خصوصاً ۷۵سالہ پاکستانی دور میں ہردرس گاہ میں یہ زہر پھیلایا جاتا رہا ہے۔ اس غرض سے مولانا مودودی کی ان تمام تحریرات کو بغور کئی کئی بارپڑھنے اور ان سے قابلِ عمل نکات اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا مودودی کے علاوہ بھی دیگر اہل فکر کی تحریرات کو زیربحث لا کر نہ صرف استعماریت کے اثرات کو کم کرنے (decolonization )بلکہ اسلامی اخلاقی اصولوں کو تعلیم و تربیت کے نظام اور نصاب میں سمونے اور مختلف علوم کی تدوینِ جدید کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ کام کسی کمیٹی کے ہاتھوں نہیں ہوگا۔ اس میں ماہرین تعلیم جو تحریکی شعور اور براہِ راست قرآن و سنت اور مسلمانوں کی تاریخ سے آگاہی رکھتے ہوں، ان کی ہمہ وقت شرکت ضروری ہو گی۔ اس کام کوواضح نقشۂ کار اور وقت کے تعین کے ساتھ کرنا ہو گا، تاکہ مقررہ مدت میں نتائج سامنے آسکیں ۔ یہ کام بغیر کسی بڑے مالی بوجھ کے ہو سکتا ہے۔پروفیسر سیّد محمد سلیم مرحوم نے بغیر ماہرین کی کسی ٹیم کے، بہت سے علمی کام کیے۔ یہ کام آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام طویل عرصہ سے مؤخر ہوتا چلا آرہا ہے ۔ اب اس کام میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔اس قابلِ عمل کام کے لیے قوتِ فیصلہ، ارادے کی پختگی، اجتماعی مشاورت اور آغاز کی ضرورت ہے۔
تیسرا اہم سبب جو دوسرے سبب سے وابستہ ہے دین اور دنیا میں تفریق کا بیرونی اور غیراسلوبی تصور ہے ، جسے دینی اور غیر دینی دونوں طبقات میں بااثر افراد نے نہ صرف قبول کر لیا بلکہ اس کی بنیاد پر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کر دیا۔ چنانچہ عبادات کا اہتمام اللہ تعالیٰ کا حق قرار پایا اور سیاست، تعلیم ، معاشرت، ثقافت وغیرہ میں مرغ بادِنما کی طرح زمانے کی ہوا کے ساتھ چلنے کا طرزِعمل اختیار کیا گیا۔
اس ذہنی پس منظر میں دنیا کو ترجیح دینا اور دین کو محض مذہبی رسومات یا تہواروں تک محدود کر نا ایک فطری عمل تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ رسمی مذہبیت ہی کو اسلام سمجھ بیٹھا۔ قرآن و سنت سے لاعلمی اور پیری مریدی کے ذریعے نجات حاصل کرنا، جاہل عوام کا نہیں مغربی تعلیم یافتہ اور مغرب پلٹ دانش وروں کابھی مسلک بن گیا۔خود دینی فکر کے حامل طبقات بھی اس دورُخی کو عملاً اختیار کرنے کے سبب زندگی کے دوخانوں پر اظہارِ خیال کرتے رہے اور چند علما اور اہل فکر کو چھوڑ کر دین داری اور دنیاداری دونوں کی آمیزش کو اچھی ’مسلمانیت‘ سمجھ لیا گیا۔
ان حالات میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے براہ راست قرآن و سنت پر مبنی تصورِ دین کو متعارف کرانے کا فریضہ سرانجام دیا اور ان کے انقلابی لٹریچر نے مسلم دُنیا ہی نہیں پوری عالمی سطح پر اسلام کے ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے اور مسلم اُمت کے مقصد وجود کو اقامت دین، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا میدانِ عمل مقرر فرمایا، جس کی بازگشت ساری دُنیا میں سنی جاسکتی ہے۔ اسی طرح علامہ محمد اقبال نے توحید کی وضاحت کرتے ہوئے دین کی ہمہ گیریت اور دین و سیاست کی تفریق کو اپنے شعر اور خطبات کے ذریعے مغربی تعلیم یافتہ افراد تک پہنچایا۔ اور ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ کی آواز بلند کی۔
آج پہلے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کی طرح تجدید ِفکر کے کام کو بنیادی اہمیت دی جائے اور چار سطح پر دین کی بنیادی تعلیمات کو متعارف کروایا جائے ۔ اول: لادینیت اور دہریت پر اعلیٰ تنقیدی ، غیر معذرت پسندانہ انداز میں انگریزی اور اردو میں سلسلۂ مضامین کو پڑھے لکھے افراد تک پہنچایا جائے ۔ دوم: دین کے جامع تصور کے پیش نظر ابلاغ عامہ اور سوشل میڈیا پر اسلام اور لادینیت اور دہریت پر علمی تبادلۂ خیال کے لیے ہر ماہ دونشستیں منعقد کی جائیں ۔ اس نوع کی نشستوں میں شرکا بھر پور تیاری کے ساتھ شریک ہوں، نیز ایسی نشستوںمیں موضوعات کے ایسے ایک یا دو ماہرین کو شامل کیا جائے جو ان موضوعات پر مہارت رکھتے ہوں اور علمی حلقوں میں پہچانے جاتے ہوں ۔
اس علمی سلسلے کو بہترین حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے، اور اس عمل میں تحریک اسلامی سے باہر کے ایسے افراد کو بھی شامل کیا جائے جو موضوع سے مناسبت رکھتے ہوں ۔ اس عمل کو بہ تدریج آگے بڑھانے سے تحریک کے اندر اور باہر سے اہم علمی موضوعات پر مضبوط اور یکساں آواز بلند کرنے میں مدد ملے گی ۔ثالثاً: تحریک سے وابستہ نوجوانوں کے لیے منصوبہ بندی کے تحت ماہانہ مطالعاتی حلقے (Study Circles) منعقد کیے جائیں جن میں نہ صرف مولانا مودودی بلکہ دیگر علما اور مغرب کے معروف نمایندہ افراد کی فکر کو براہ راست مطالعہ میں لایا جاسکے ۔ اس مشق سے نوجوانوں میں عصری موضوعات کو سمجھنے اور مولانا مودودی کی پیش کردہ اسلامی فکر کی روشنی میں جدید نظریات کے محاکمے اور علمی دانش میں اضافہ اور گفتگو کی صلاحیت پروان چڑھ سکے گی۔
ان خطوط پر تعمیر سیرت و کردار کے ذریعے ایک نئی باشعور مسلمان نسل کو دورِ جدید کے دہریت، الحاد اور لادینیت کی یلغار کا مثبت طور پر مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جائے۔ یہ کام اسلام کے قرآنی اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی تصور کی روشنی میں قابلِ فہم ابلاغ کے ذریعے انجام پائے گا۔
قرآنِ کریم اہلِ علم اور لاعلم افراد میں نمایاں فرق کرتا ہے اور حصولِ علم کو تفہیم دین کے لیے ایک اہم فریضہ قرار دیتا ہے ۔ پہلی وحی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ پڑھنا اور قلم کا استعمال کرنا دعوت دین و تفہیم دین کا زینہ ہے :
الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۴ۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۵ۭ (العلق۹۶:۴-۵)جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو وہ علم دیا جس سے وہ پہلے آگاہ نہ تھا تاکہ وہ اس علم کو قول و عمل دونوں ذرائع سے دوسروں تک پہنچا سکے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے قبل تمام انبیا ـؑ کے مبعوث کیے جانے کے مقاصد میں تعلیم ، تذکیر ، تزکیہ کو بنیادی مقام دیا گیا ہے۔ اور یہ امر بھی نبوت کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ دین سربلند ہو اور بالآخر غالب ہوکر رہے:
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۱۶۴ ( اٰل عمرٰن۳:۱۶۴) درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کا تزکیہ کرتا ہے (سنوارتا ہے)اور ان کو کتاب اور دانائی (حکمت) کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
ہر صاحب ِایمان کو بلا تفریق جنس اور عمر یہ دعا سکھائی گئی تاکہ ان میں اللہ کی خشیت میں اضافہ ہو ، گویا علم اللہ کی خشیت پیدا کرتا ہے:
اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۲۸ (الفاطر ۳۵:۲۸) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے۔
اہل علم سے سوالات کے ذریعے دین کا علم حاصل کرنا ایمان کی صفت قرار دیا گیا:
فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۴۳ (النحل ۱۶:۴۳)سو، اگر تمھیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔
اس حوالے سے جامعات میں نہ صرف معاشرتی علوم بلکہ اطلاقی علوم کے اُن ماہرین کو تلاش کیا جائے، جو تحریک سے وابستگی نہ ہونے کے باوجود اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہوں، نیز بنیادی اخلاق پر عمل پیرا ہوں ۔ ایسے افراد ہر جگہ موجود ہیں۔ صرف ان تک رسائی اور انھیں تحریک دے کر ایک علمی تربیتی ماحول سے وابستہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ افراد جامعات میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی ، اساتذہ کے احترام میں کمی ، علم کو محض مالی فائدہ کے لیے استعمال کرنے اور مغرب سے مرعوبیت کے رجحانات کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات کے ذریعے مثبت طور پر غالب کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ کام تحریک سے وابستہ افراد سب سے بہتر کرسکتے ہیں۔ مسئلہ صرف ترجیحات کی درستی کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مولانا مودودی نے تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کو اولیت دی۔ اس کے ساتھ اسلامی فکر اور احکام کے ذریعے معاشرے میں امن و انصاف کے نظام کے قیام کا حکم دیا گیا ہے (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج الحدید ۵۷:۲۵)۔ تحریک میں جب تک ان امور کو ترجیح نہیں دی جائے گی ، اس وقت تک تعلیم و تحقیق کے متحرک ادارے وجود میں نہیں آسکیں گے اور اسلامی بنیادوں پر تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
نہ صرف اہل علم بلکہ ہر مسلمان پر بلا تفریق جنس اور عمر اور خصوصاً ان باشعور افراد پر جو دین کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک تحریک سے وابستہ کریں، یہ فریضہ عائد کر دیا گیا کہ وہ شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ بن کر اپنے عمل اور علم کے ذریعے اسلام کی عالم گیر تعلیمات کے نفاذ کےلیے استقامت کے ساتھ ہرممکنہ ذریعے سے جدوجہد کریں :
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
اس فریضہ کو مزید وضاحت سے اس گروہِ اہل ایمان کے سپرد کر دیا گیا جو اعلائے کلمۃ الحق کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہو :
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۱۰۴ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جولوگ یہ کام کریں گے ، وہی فلاح پائیں گے۔
اتنی واضح ہدایات کے بعد اگر معاشرے میں دین کی بنیادی تعلیمات و عقائد سے لاعلمی پائی جائے،تو اس کی بڑی ذمہ داری اس گروہ پر ہے جو دین کی بنیاد پر منظم ہوا ہو ۔ گویا دین کی تفہیم اور بنیادی عقائد توحید ، رسالت اور آخرت سے آگاہی کے ساتھ اپنے معاملات کو کھرا ، سچا اور اپنی دعوتِ حق کا نمایندہ بنا کر ہی کوئی اسلامی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے۔ تحریک سے وابستہ افرادکو توازن ، نرم گفتاری اور مخالفین کے لیے بھی عدل و انصاف کے رویوں کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ قرآن تقاضا کرتا ہے کہ ہم ذات برادری ،شخصیات ،نسلی ، لسانی ، تنظیمی ، سیاسی تعصبات سے بالا تر ہوکر ہر طرح کے ظلم ، جبر اور ناانصافی کے خلاف حکمت اور جرأت کے ساتھ آواز بلند کریں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۰ۚۚ (النساء۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو ، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ زبان سے ظلم ، جبر اور ناانصافی کے خلاف دعوے کرنا اور عملاً معاشرے میں رونما ہونے والے مختلف سماجی و سیاسی ظلم اور ناانصافی کے واقعات پر خاموشی اختیار کرنا، قول و فعل کے تضاد کے مترداف ہے :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۳ (الصف ۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔
قرآن کریم نے ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا ہے جو قول و فعل میں یکساں ہواور مسلسل دعوت و اصلاح کا جامع کام کرے ۔ وہ جماعت قرآنی حکم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی بجاآوری کے لیے مسلسل متحرک ہو اور منظم انداز میں حکمت اور تدبر کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھائے۔
تحریک اسلامی اس فریضے کی ادائیگی کے لیے کسی اور گروہ کے مقابلے میں زیادہ جواب دہ ہے۔غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا تحریک آج کے دور کی زبان میں نوجوان نسل کے لیے دین یعنی قرآن و سنت کے پیغام اور اس کی تفہیم کے کام کو ترجیحی بنیاد پر کر رہی ہے؟ اگر وہ معاشرتی اصلاح ، معاشی اصلاح ، اور اداروں کی اصلاح چاہتی ہے، تو کیا ترجیحات میں سب سے اول ترجیح دعوت الی اللہ ہے یا بعض عصری مطالبات اسے مشغول رکھے ہوئے ہیں؟جس کے منفی اثرات بنیادی دعوتی کام پر پڑ رہے ہیں۔
ایک مسلم ملک میں جس کا دستور اس کی عدلیہ ، مقننہ ، ریاست اور تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند کرتا ہو کہ وہ اپنے عوام کو قرآن کریم کی تعلیمات سے آگاہ کرے، ملک میں قرآن و سنت کے نظام معیشت ، معاشرت ، صحافت ، ابلاغ عامہ، تعلیم ، عدلیہ غرض ہر شعبے میں اسلامی تعلیمات کو نافذ کرے۔ دیکھنا ہوگا کہ دستور کی اس شق پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں___ اگر نہیں تو اس کے لیے کون سے دیگر دستوری ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت ہے؟ جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے ریاست ملک کی ۹۷ فی صد مسلم آبادی کی دستوری ضرورت کو پورا کر رہی ہے یا ۳ فی صد اقلیتی آبادی کی خوشنودی کے لیے ۹۷ فی صد اکثریت کےقرآن و سنت سے آگاہی کے حق کو نظرانداز کیا جارہا ہے؟
چار سالہ ڈگری پروگرام میں سرکاری تعلیمی اداروں میں محض دو کریڈٹ گھنٹے یعنی ہفتہ میں ایک مرتبہ یا اس سے بھی کم ’اسلامیات‘کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس کے مقابلے میں معاشرتی علوم یا دیگر تجرباتی علوم جن کی بنیاد میں لادینی فکر موجود ہے، وہ ۱۲۵ تا ۱۳۰ تعلیمی گھنٹوں میں روزانہ کی بنیاد پر پڑھائے جارہے ہیں، کیا اس طرح ریاست نوجوان نسل کو قرآنی پیغام سے آگاہی کی دستوری ذمہ داری سے سبک دوش ہو سکتی ہے؟ اور کیا تحریک سے وابستہ افراد بھی اس کا احساس رکھتے ہیں اور اس پر کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
قرآن کریم اسلامی ریاست کو ( جو دستوری طور پر پاکستان ہے) اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلام کے معاشی نظام (زکوٰۃ) اور نظام عبادات (صلوٰۃ) کو حکومتی اختیارات کے ذریعے نافذ کرے ۔ کیا اس آئینی و دستوری تقاضے کی تکمیل کے لیے ہم ریاست کو اس کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی طرف مسلسل متوجہ کر رہے ہیں؟ آئین کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دینی جماعتوں اور جدید تعلیم یافتہ دینی طور پر باشعور اور متحرک افراد کے ساتھ مسلسل مشاورت اور مکالمہ کے عمل کے ذریعے دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کی راہیں تلاش کی جائیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج ۲۲:۴۱)یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز (کا نظام) قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے (حلال معیشت کے قیام کے ذریعے)، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہاں قرآن کریم نے یہ بات دوٹوک انداز میں واضح کر دی ہے کہ اہل ایمان میں سے جس گروہ کو بھی زمین میں اقتدار دیا جائے، تو وہ نہ صرف اسلام کے نظام عبادات ( نماز اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام) پر اس کی روح کے مطابق عامل ہوگا بلکہ معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے بھلائی ، پاکیزگی ، حیا کی اشاعت و قیام اور بے حیائی، عریانی و فحاشی، بدگوئی ، جھوٹ ، الزام تراشی ، منکر اور برائی کے تمام مظاہر کو حکومتی اور اداراتی اختیارات کے ذریعے ختم کرے گا ۔ دوسری جانب محض ریاستی اور اجتماعی ہی نہیں بلکہ انفرادی سطح پر ہر فرد اپنے گھر کا سربراہ ہے اور اہل خانہ کے امور کانگران ہے ۔ علاوہ ازیں جو فرد کسی ادارے ، دفتر یا کسی بھی سطح کا ذمہ دار ہے، تو اس کی ذمہ داری بھی ایسی ہی ہے جیسا کہ حکومت عوام کے معاملات کی ذمہ دار ہے۔ اسی طرح وہ فرد بھی اپنے گھر ، دفتر ، ادارہ و دیگر کے بارے میں اللہ ربّ العزت کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسی بات کو حدیث مبارکہ میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ چنانچہ امیر ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے۔ اس طرح تم میں سے ہرشخص نگران ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔(صحيح ، متفق علیہ)
اس غرض کے لیے ایک طویل المیعاد اور قلیل المیعاد حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر کام کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو ذرائع موجود ہیں ان کا استعمال کیا جائے ۔
یہ وہ بنیادی کام ہیں جن کو ذمہ داری سے ادا کیے بغیر ہم الحاد ، مادیت ، لادینیت اور دین و دنیا میں تفریق سے غیر توحیدی تصور کی اصلاح نہیں کر سکتے ۔یہ وہ فریضہ ہے جسے اقامت دین اور کلمۂ حق کے قیام کے عنوان سےقرآن کریم نے پکارا ہے اور جس کی ادائیگی کے لیے ’خیراُمت ‘ کو پیدا کیا ہے۔
ہمیں جو ’امت وسط‘ بنایا گیا ہے ، اس کی وجہ ہماری نسل ، رنگ ، زبان نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ہماری ذمہ داری دعوتِ دین اور اقامت ِ دین کے باب میں ہے۔ اس غرض کے لیے ہرکلمہ گو کو آگے بڑھ کر عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم، معیشت ، سیاست ، ثقافت ، ابلاغِ عامہ، ہر شعبۂ زندگی کی ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں علم کی تدوینِ جدید اور بغیر دُنیاوی معاوضے کے، ایک صالح نظام معاشرت ، معیشت و سیاست کے قیام کے لیے افرادِکار کی تیاری کو ترجیحی بنیاد پر کرنا ہو گا۔ نوجوان ہمارا اصل اثاثہ ہیں ۔ اگر یہ کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ۱۰فی صد افراد جو دینی تعلیم سے آگاہ نہ ہونے کے سبب الحاد کا شکار ہو رہے ہیں، اور وہ افراد بھی جو دین کی لاعلمی کا شکار ہیں، انھیں قرآن پاک اور سیرت نبویؐ کے زیر سایہ لا کر پاکستان کے فعال ، تعمیری اور متحرک افراد میں تبدیل نہ کیا جاسکے ۔ اللہ ہمیں اقامت دین کی اس عظیم ذمہ داری کو احسن انداز میں سمجھ کر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!
جذباتیت کے زیراثر آنے کے حوالے سے یہاں پر تین اہم مظاہر کا ذکر کیا جاتا ہے:
اسلام عقل وعلم کو پکارتا اور انھیں کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جادۂ حق پر چلتے ہوئے معروف روایات کا لحاظ رکھنے کی تلقین اور بہت سی جگہوں پر احتیاط وپرہیز کی تاکید کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کل کا سامان فراہم کرو اور مستقبل کے لیے تیاری کرو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک اسلامی میں عام طور پر اس نوعیت کا اہتمام کرنے کا رجحان کمزور ہے۔
میں نے ایک مرتبہ ایک بڑے عالمِ دین کے سامنے حالات وواقعات کے مطالعے اور اس کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت کا اظہار کیا۔ جواب میں ان کا ارشاد تھا: ’’کیا اللہ کی طرف بلانے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے کے لیے بھی کسی منصوبہ بندی اور نقشہ گری کی ضرورت ہے؟‘‘
اب ذرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھیں۔ آپؐ نے مدینہ ہجرت کرکے آنے کے بعد مسلمانوں کی مردم شماری کا حکم دیا تھا۔ بخاری کی روایت ہے کہ آپؐ کے حکم کی تعمیل میں مردم شماری ہوئی اور مسلمانوں کی کل تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ اس عمل سے جس حقیقت پر دلالت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپؐ افرادی قوت کی اہمیت کا احساس رکھتے تھے۔ آپؐ نے وابستگانِ اسلام کی تعداد کا شمار اس لیے کرایا تاکہ ان کی قوت، احوال اورصورتِ حال سے ٹھیک ٹھیک واقفیت ہوجائے۔
سچی بات یہ ہے کہ مطالعہ اور غور وفکر کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور تحریک اسلامی کو بھی اسی عمل سے اپنی اور مخالفین کی قوت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ متعلقہ بیانات، ضروری معلومات اور ٹھوس حقائق کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی صحیح نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں اور ایسا لائحہ عمل وضع ہو سکتا ہے، جس کو اختیار کر کے نصب العین کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
تحریک سے نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کو غور وخوض اور عمل کے لیے نقشہ سازی ناگوار بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے ایک ملنے والے صاحب کے نزدیک: ’’غور وفکر کے بعد عمل کے لیے درست راہوں کا تعین کرنا ایک ایسا فریب ہے جس کا مظاہرہ اکثر ماہرین اقتصادیات، معاشی منصوبہ بندی میں نفع کے گوشوارے دکھا کر کرتے رہتے ہیں‘‘۔ ان کا خیال ہے کہ: ’’اصل اہمیت آغازِ کار کی ہے۔ ہمیں کام شروع کر دینے کے بجائے ٹک کر چین سے بیٹھ نہیں جانا چاہیے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’میرا ناقص عمل پر بھی یقین ہے۔ کام ہونا چاہیے خواہ وہ نقص اور خطا کے پہلو اپنے اندر رکھتا ہو۔ آج ہم ناقص عمل کر دکھائیں گے تو کل کوئی اللہ کا بندہ آکر اسے درست کر دے گا۔ نقص رفع اور خطا صحیح ہو جائے گی‘‘۔
ممکن ہے اس نقطۂ نظر کو بھی کچھ سند ِجواز حاصل ہو، اور کسی سطح پر اندھا دھند اور اضطراری عمل کے مثبت نتائج بھی نکل آتے ہوں، لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ بے سوچے سمجھے اور غلط اعمال اور دعوئوں کی پیوند کاری اور ٹیڑھے میڑھے اور آنکھیں موند کر بنائے جانے والے منصوبوں کے ذریعے سے منزل تک پہنچنا، ایک صحیح اور گہری منصوبہ بندی کے مقابلے میں ہزار گنا دشوار ہوتا ہے۔ بعد میں بڑے مخلص لوگوں کی تھکا دینے والی ساری جدوجہد، ان راہوں کی کج روی درست کرنے میں صرف ہوتی رہتی ہے اور نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ غلط بنیادوں پر استوار ہونے والی سب کوششیں حوصلہ شکن ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ایسی کوششوں کی دیوار کی پہلی اینٹ ہی غلط رکھی گئی ہوتی ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور امتیاز وخصوصیت پیدا کرنے کے لیے بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علمی، قانونی، سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی، تربیتی، نشریاتی اور تنظیمی میدانوں میں ترقی کر کے دکھانا اور مہارت بہم پہنچانا جدید معاشرے میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوامی ضروریات کی تکمیل اور تحریکی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان میں سے کوئی بھی شعبۂ حیات غیر اہم اور نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔
چنانچہ ترقی ومہارت اور تخصص وامتیاز کے لیے منصوبہ سازی ناگزیر ہے۔ یہ کمپیوٹر، ایٹمی اسلحے، فضائی جنگوں، طب وریاضی میں زبردست ترقی کا دور ہے۔ دنیا ایجادات کے میدان میں بہت آگے جا چکی ہے۔ یہ سب گہرے غور وخوض اور منصوبے کا نتیجہ ہے۔ لکیر کا فقیر بنے رہنا، آپس میں غیر مفید چیزوں پر الجھتے رہنا اور بے نتیجہ ورد کرتے رہنا وقت، وسائل، صلاحیت اور قوت کو ضائع کرنے کا باعث ہے۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں مہارت وتخصص، شریعت کی نظر میں بھی اُمت مسلمہ پر واجب ہے۔ ایک میدان میں اپنی ساری قوتیں اور توانائیاں کھپا دینا اور دوسرے شعبوں سے غافل رہنا کسی طور پر بھی روا نہیں ہے۔
اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تمام مسلمانوں کے یک بارگی جہاد پر نکل جانے کو بھی ایک موقعے پر قرآن نے خامی بتایا ہے کیونکہ اس وجہ سے مسلمان ایک دوسرے میدان سے غافل ہو گئے تھے جو اہمیت کے اعتبار سے کچھ کم نہیں۔ یعنی دین کے فہم کے سلسلے میں ان کی توجہ وطلب، جہاد میں شرکت کے مقابلے میں کم ہو گئی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّۃً۰ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۱۲۲ۧ (التوبہ۹: ۱۲۲) اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔
ذرا غور کیجیے، ہمارے کام اٹکل پچو اور ہمارے تیر بے ہدف چل رہے ہیں، جب کہ مخالفینِ اسلام اور دشمنانِ تحریک اسلامی ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جدوجہد کا پھل ان کی جھولی میں پڑتا ہے۔ پھل پکنے اور توڑنے کے وقت ہم بے خبر ہوتے ہیں کیونکہ منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث ہمیں پھل پکنے کے موسم ہی کی خبر نہیں ہوتی۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مغربی سامراجی طاقتوں کے غلبے کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں یا کسی باطل قوت کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر اٹھتے وقت، ان تحریکوں کے لیے قوتِ محرکہ اسلام ہی بنتا رہاہے؟ پھر عوامی جذبات کا سرچشمہ اسلام سے وابستگی ہی سے مؤثر ثابت ہوتا رہا، لیکن اسلام کے نام پر جو کھیتی بوئی گئی اور جو پودے لگائے گئے، انھیں کاٹا اور ان کی باغ بانی کا کام آگے چل کر سنبھالا تو ان اسلام دشمن، مکار اور کینہ پرور عناصر نے، جو چپکے سے ہماری صفوں میں گھس آئے تھے!
ایسے عناصر ان تحریکوں میں مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو کر اس تاک میں لگ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں پھاڑا اور لڑا دیا جائے ، آگے بڑھ کر اس پوری جدوجہد کی قیادت سنبھال لی جائے اور عظیم کوششوں کا پکا ہوا پھل اپنے دامن میں سمیٹ لیا جائے۔
ایسا المیہ ہماری بے تدبیری، کم فہمی اور بے فکری ولا پروائی ہی کے باعث ہوتا ہے کہ اسلام دشمن اور فریب کار لوگ ہمارے کندھوں پر سوار ہو کر اور ہمارے نعروں کی گونج میں ہیرو بن بیٹھتے ہیں۔ لوگ اپنا تن من دھن ان کے سپرد کر دیتے ہیں اور وہ نام نہاد ہیرو اطمینان کے ساتھ فتح وکامرانی کا ثمرہ پا لیتے ہیں۔ کتنوں کو دیکھا گیا کہ اسلام کا محض لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، ان کی زبانوں پر اسلام، اسلام کا ورد جاری ہو جاتا ہے، مگر اُن کے دل اس کے خلاف سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اسلام عملاً ان کی زندگی سے کوئی میل نہیں کھاتا۔ اپنی لچھے دار تقریروں اور دجالانہ تدبیروں کے باعث وہ مسلم عوام کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب اقتدار کا منصب اور ہیرو کا مرتبہ وہ پالیتے ہیں تو اسلام کا لبادہ اُتار پھینکتے اور اپنے حقیقی روپ میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔
کمال اتاترک [۱۸۸۱ء-۱۹۳۸ء] کو لیجیے۔ اسلام کے جھنڈے کے تحت، اسلام ہی کے نام پر، اس نے ترک عوام کی قیادت سنبھالی۔ عوام نے اپنی جانیں اور مال بخوشی اس کو سونپ دیے، اس کی عظمت کے نعرے لگائے، خوب خوب تعریف وستائش ہوئی، اور وہ ’غازی‘ کہلایا۔ لیکن جب سادہ لوح مسلم عوام کی حمایت اور اسلام کے نام کے استعمال کے ذریعے کامیابی نے اس کے قدم چومے، ’اسلام کی تلوار‘ اور ’غازی‘ کا لقب پانے والا یہ شخص خود اسلام اور مسلمانوں کے لیے زہر میں بجھا ہوا خنجر ثابت ہوا۔ اس نے کمال ہوشیاری سے خلافت کی بساط لپیٹی اور اسلام کا پورا باب خود اس نے مقفل کر دیا۔ ترکیہ کے عوام کے اسلام سے سارے رشتے کاٹنے کے درپے ہو گیا۔
عقل ومنطق اور علم وتدبیر پر جذبات کے غالب آجانے کا ایک اور بڑا اور منفی نتیجہ نکل کر سامنے آتا ہے۔ عجلت کار شخص میں تحمل وبردباری اور صبر اور ٹھیراؤ کی خوبی نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ آج بوئے اور کل صبح ہی کاٹ لے، بلکہ صبح پودا لگائے اور شام ہی کو اس کا پھل پا لے۔ یہ چیز نہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہے اور نہ دنیا میں ایسا کوئی اصول کارفرما ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ وہ اس بات پر قادر تھا کہ کن کہہ دیتا اور فیکون کی صورت میں نتیجہ سامنے آجاتا، لیکن اللہ نے چاہا کہ وہ اس سنت کے ذریعے سے تحمل کی تعلیم دے۔
ربِّ ذوالجلال اس بات پر بھی قادر تھا کہ اپنے نبی نوح علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کی غیب سے مدد کر دیتا اور پہلے روز ہی وہ کامیاب قرار پاتے، لیکن اس نے ایسا کرنے کے بجائے حضرت نوح علیہ السلام کو ۹۵۰سال تک شب وروز اور چپکے چپکے بھی اور ہانکے پکارے بھی دعوت دینے پر مامور کر دیا۔ پھر انجام میں بھی نوح علیہ السلام کو نجات سے نوازا تو ان کے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی کشتی ہی کے ذریعے۔ آسمان سے ان کے لیے کچھ نہ برسایا۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور آپؐ کے دشمنوں کو کسی آسمانی یا ارضی آفت کے ذریعے سے ہلاک کر دینے پر بھی قادر تھا، لیکن اس کے بجائے اس نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ابتلاؤں اور آزمایشوں سے گزار کر فتح ونصرت سے نوازا۔ یہاں تک کہ ابتدا میں طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں جہاد کر کے اپنابچاؤ کرنے کی بھی اجازت نہ دی اور تاکید کر دی:
تا آنکہ آپ کا کانٹوں بھری راہوں کا پر عزیمت سفر ختم ہوا ۔ کفار کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت مل گئی اور اللہ کا ارشاد ہوا:
اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا امر صادر کرنے تک اپنے نبیؐ اور مومنین کو صبر وتحمل کی روش پر قائم رہنے کا حکم دیا:
عجلت کاری کے نتیجے میں تحریک اسلامی مکمل تیاری سے قبل ہی سخت معرکوں میں کود پڑی۔ ایسی مشکلات کو بھی اس نے قبل از وقت دعوت دے دی جو اس کی طاقت سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ بیک وقت مشرق ومغرب سے ٹکرا گئی اور اپنے آپ کو ایسی مشکل راہوں پر ڈال لیا جن سے ہٹنا اب اس کے بس میں نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جملہ معاملات میں ہماری قدرت وطاقت کے بقدر ہی مکلف بنایا ہے۔ ہمارے لیے ہرگز یہ روا اور درست نہیں کہ اپنے آپ کو ان امور میں بھی مکلف ٹھیرا لیں جن کی سردست ہمارے پاس طاقت نہیں ہے اور فتنوں میں اپنے آپ کو بغیر تیاری کے مبتلا کر دیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن ۶۴:۱۶)’’ اور اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک تمھارے لیے ممکن ہو‘‘۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ’’جب تمھیں کسی بات کا حکم دیا جائے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے پورا کرو‘‘۔ پھر فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو قوتِ بازو سے اسے مٹائے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کے خلاف کلمۂ حق بلند کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘۔
تغیر وانقلاب کی کوششوں کے طاقت وقدرت کی نسبت سے درجے مقرر کر دیے گئے ہیں، چنانچہ مسلمان کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کام میں اپنے آپ کو لگائے جس کی ہمت وطاقت رکھتا ہو اور اس کام کو چھوڑ دے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عجلت کی روش کو سخت ناپسند کیا ہے، کیونکہ نتائج کے اعتبار سے یہ بہت بُری روش ہے۔ قرآن پاک میں ایسے اشارے موجود ہیں، جو عجلت پسندی اور بے صبری کے بُرے انجام پر خبردار کرتے ہیں:
وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُــوْسٰى۸۳ قَالَ ہُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓي اَثَرِيْ وَعَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى۸۴ قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَاَضَلَّـہُمُ السَّامِرِيُّ۸۵ (طٰہٰ ۲۰:۸۳-۸۵) اور کیا چیز تمھیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسٰی؟ اس نے عرض کیا ’’وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آ گیا ہوں، اے میرے ربّ، تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے‘‘۔ فرمایا: اچھا،’’ تو سنو، ہم نے تمھارے پیچھے تمھاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انھیں گمراہ کر ڈالا‘‘۔
جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی طرف پلٹے تو وہ قوم کے گمراہ ہونے کی وجہ سے غضب اور تاسف میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے بھائی کی داڑھی کے بال پکڑ کر غصے سے کہا:
قَالَ يٰہٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَہُمْ ضَلُّوْٓا۹۲ۙ اَلَّا تَتَّبِعَنِ۰ۭ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ۹۳ قَالَ يَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ وَلَا بِرَاْسِيْ۰ۚ اِنِّىْ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِيْ۹۴ (طٰہٰ۲۰: ۹۲-۹۳)بولا ’’ہارونؑ، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘ ہارونؑ نے جواب دیا: ’’اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔
بنی اسرائیل میں شرک کے جرم کے پھوٹ پڑنے پر، ہارون علیہ السلام نے صبر وتحمل کا شیوہ اختیار کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بھائی موسٰی کے آنے تک بنی اسرائیل باہمی پھوٹ اور خلفشار سے بچے رہیں۔ موسٰی کے آنے پر ان کے مشورے سے نئی صورت حال کا کوئی حل سوچا جائے گا۔
حدیث نبویؐ میں آیا ہے: ’’صبر وتحمل کی روش کی نسبت اللہ سے ہے،جب کہ عجلت اور اوچھا پن شیطانی خصلتوں میں سے ہے‘‘۔ ایک اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’اس بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جو جلدی نہ کرے اور کہے کہ میں نے دعا تو کی تھی، ابھی قبول نہیں ہوئی‘‘۔
میری شدید خواہش ہے اور میں نے بارہا اس کا اظہار بھی کیا کہ تحریک اسلامی کو جہدوکاوش کا جتنا موقع ملتا ہے، اسے غنیمت جانتے ہوئے اپنی قوتوں کو مجتمع کرے۔ کسی فریب کا شکار ہو کر محاذآرائی میں نہ اُلجھ جائے۔ نہ تو اپنے اندر کے ناپختہ اور جلد باز عناصر اسے تصادم کی راہ پر ڈال سکیں اور نہ باہر کے مکار اور سازشی گروہ اسے تصادم کے میدان میں کھینچ کر لا سکیں۔
یہ ایک مخصوص عرصے تک حکمت سے اور اچھی اور بھلی زبان میں اسلامی دعوت کو پھیلانے میں سرگرمی دکھائے۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اور اسی کی خدمت کے لیے بلند ہمت نسلوں کی تعمیر وتربیت کا کام کرے۔ نئی نسلوں کو ذہنی، روحانی، جسمانی اور اجتماعی تربیت کے زیور سے آراستہ کرے۔ معاشرے کے اندر جذب ہو کر اس کے مسائل کے حل میں مدد دے، عوام کی مشکلات دُور کرنے میں سعی دکھائے اور معاشرے کی غلط سمت درست کرنے اور لوگوں کی ضروریات کی تکمیل میں کوشاں رہے۔ اپنی قوت اور زور بازو کے مظاہرے کی سوچ کچھ عرصہ ترک رکھے، حکومتوں سے کھلی ٹکر لینے کی پالیسی سے باز رہے۔ اس طرح کا طرزِ عمل اپنانے سے ایک پُرامن انقلاب پورے معاشرے میں برپا ہو سکتا ہے۔ یہ فکر ونظر اور نفس واخلاق کا انقلاب ہوگا، جس کے لیے کسی اسلحے کے استعمال یا اعلان کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
اگرچہ یہ امکان موجود ہے اور اس طرح کے خدشات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ اسلام سے بیزار اور خائف طائفے اور ان کے حامی گروہ تحریک اسلامی کے رسوخ، نشوونما اور اس کے اثرات کے پھیلاؤ کو گوارا نہیں کرتے، اس کے اتحاد کو پارہ پارہ اور اس کی منزل کو کھوٹا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے سازشوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ تحریک کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات کو نظر انداز نہ کرے، جو تحریک کو براہ راست مقابلے پر لانے کی سازش کے تحت کیے جاتے ہیں۔ اہل تحریک کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے رہیں۔ جب کوئی آزمائش آہی پڑے تو صبر واستقامت سے اس کا مقابلہ کریں۔
جب جذبات غالب آجاتے ہیں تو ایک تیسری آفت اندر سے رونما ہوتی ہے۔ وہ ہے مبالغے کا حد سے بڑھ کر معاملات ومکالمات میں شامل ہو جانا۔ اس آفت میں تو صرف تحریک اسلامی نہیں، پوری امت ہی گرفتار ہے۔ ظاہری معاملات میں ہم دو انتہاؤں میں سے کسی ایک پر کھڑے ہوتے ہیں، جس میں تفریط (waste)کا شکار ہوتے ہیں یا پھر افراط (excess) کا،جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی جس صفت سے مدح فرمائی ہے، وہ تو ’الوسط‘ یعنی میانہ روی ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے۔
یہ خوبی تحریک اسلامی سے رخصت ہوتی نظر آتی ہے۔ تحریک کی صفوں میں بھی مبالغہ اور حد سے بڑھی ہوئی نمائش، فہمائش اور تعریف ومذمت کا رجحان تقویت پکڑ رہا ہے۔ اپنی تعریف آپ کی جاتی ہے اور خرابیوں کا مجسمہ اپنے مخالفین کو بتایا جاتا ہے۔ ’فراواں مبالغے‘ کے صیغوں میں ہی بات ہوتی ہے۔ زبان وقلم سے ’عظیم ترین‘، ’مضبوط ترین‘، ’اعلیٰ ترین‘، ’بے مثال‘ اور مقابلے میں ’گھٹیا ترین‘، ’بدترین‘، اور ’کمزور ترین‘ جیسی صفات کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم خود پسندی میں حد سے زیادہ فراخ دل ثابت ہو رہے ہیں اور دوسروں کی عیب نمائی میں بھی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کسی معقول آدمی کو اس سے اختلاف نہیں کہ اپنی تہذیب پر فخر کیا جائے۔
جو قوم سورج کی شعاعوں تلے فروغ وترقی چاہتی ہے، اس میں اپنی ہر چیز سے پسندیدگی فطری امر ہے۔ خاص طور پر جب تہذیبی اور ثقافتی یلغار اور معرکے بپا ہوں، ایک تہذیب دوسری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہو، تو ایسی حالت میں اجتماعی خود پسندی روا ہے۔ لیکن یہاں پر یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کہ غرور اور خود پسندی عقل ونظر سے محروم ہو، اس میں اندھا پن پیدا ہو جائے۔ فخر وتکبر ان مہلک ترین بیماریوں میں سے ہیں، جو کسی فرد یا قوم کا مقدر ہو جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کریم یہ اشارہ دیتا ہے:
وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ۰ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا (التوبہ۹: ۲۵) ابھی غزوۂ حنین کے روز تمھیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرّہ تھا۔ مگر وہ تمھار ے کچھ کام نہ آئی۔
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’دو چیزوں میں ہلاکت ہے، غرور اور قنوطیت‘‘۔
ہم غیروں ___خاص طور پر مغربی تہذیب___ کی خرابیاں کثرت سے گنواتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مغربی تہذیب اپنے اندر بعض ایسے فتنے رکھتی ہے، جنھیں اس تہذیب کی اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں ہزار آفتیں پوشیدہ ہیں، جنھیں اب اس کے مزاج سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ مادیت، نفع اندوزی اور استحصال جیسے اجزا اس کے خمیر میں داخل ہیں۔ لیکن بہ نگاہِ انصاف دیکھا جائے تو یہ تہذیب بعض ایسے نکات بھی رکھتی ہے، جو اس کی قوت کے منابع (springs) ہیں۔ قوت کے ان سرچشموں کا علم واعتراف ہمیں اس لیے بھی ہونا چاہیے کہ یہ عدل کا تقاضا ہے اور اس لیے بھی کہ مخالف کی طاقت کے حقیقی راز کا فہم، معقولیت واحتیاط کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس تہذیب کے قیام میں جہاں ایک بڑا اہم کردار علم وتجربے نے فراہم کیا ہے، وہاں اداروں اور تنظیموں کو محکم بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔ تعاون کی فضا ہے اور جماعتی عمل کو ایک پائیداری وتسلسل حاصل ہے۔ اجتماعی اخلاق کے کچھ اصول موجود ہیں۔ انسان، اس کی جملہ نوع کی آزادی اور ہر طرح کے حقوق کا احترام پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک کے اندر اپنی تہذیب کے شہریوں کے لیے حقوق کی فراہمی کا بھرپور اہتمام ہے۔ ان کے معاملات اصول مشاورت کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ حکام کے ظلم اور نا انصافی کے مقابلے میں حقوق کی حفاظت کے لیے مؤثر ادارے موجود ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسلاف کے آثار میں سے ایسی مثالوں کا ذکر کروں، جن میں دشمنوں کے لیے بھی انصاف اور ان کی بڑائی اور خوبی کا اعتراف ہے۔ یہ انصاف اور اعتراف ان حالات میں بھی برقرار رہا، جب مخالف میدان جنگ میں مقابلے پر اترا ہوتا تھا۔ یہ چیز میں کسی ادبی کتاب کے افسانے یا تاریخ کے واقعات سے ڈھونڈ کر پیش نہیں کر رہا ہوں، بلکہ یہ ایک حدیث ہے جسے امام احمدؒ نے اپنی مسند میں اور امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ الفاظ مسلم کے ہیں:
موسیٰ بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاصؓ کے سامنے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’قیامت برپا ہوگی تو رومیوں (عیسائیوں) کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی‘‘۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا: ’’ذرا غور کرو تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس شخص نے کہا: ’’میں تو وہی کچھ کہہ رہا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘‘۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات ہے تو پھر ضرور ان میں چار خصائل ہوں گے: ۱- آزمائش کے وقت وہ سب سے زیادہ حلم وبردباری کا مظاہرہ کرتے ہوں گے، ۲- مصیبت سے گزرنے کے بعد بہت جلدی سنبھلنے کی صلاحیت کے مالک ہوں گے، ۳- مسکینوں، یتیموں اور ضعیفوں کے ساتھ بھلائی کرنے والے ہوں گے، اور ۴-حاکموں کے ظلم سے بچانے والے ہوں گے‘‘۔
ممکن ہے کسی کے لیے یہ بات تعجب و حیرانی کا باعث ہو کہ اہل روم کی خوبیوں کی یہ گواہی مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی قیادت سنبھالنے والی ہستی حضرت عمرو بن العاصؓ دے رہی ہے، جس نے مصر، فلسطین اور دیگر کئی مقامات پر رومیوں کے خلاف زبردست معرکے سر کیے، لیکن اس میں تعجب کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اسلام نے ہمارے بزرگوں کو انصاف پر قائم رہنے، اللہ کے لیے سچ کی گواہی دینے کی تعلیم دی تھی، خواہ اس کی زد خود ان کے اپنے اوپر پڑتی تھی اور کسی قوم سے ان کی دشمنی انھیں عدل سے نہیں روکتی تھی۔
دورِ حاضر کی تحریک اسلامی کے بیش تر تجزیہ کار یہ چیز دیکھتے ہیں کہ کس طرح اپنی قوت کا مبالغہ آمیز تصور پیش کریں، اور دوسری طرف مخالفین کی مفروضہ کمزوری کے بارے میں بھی حددرجہ مبالغہ آمیزی کا شکار رہیں۔ متعلقین تحریک جب اپنی مدح وتعریف کرتے ہیں تو خواہ وہ اپنے عزائم اور کارگزاری کی ہو یا قائدین کی، تعریف میں حد سے بڑھ جاتے ہیں ۔ اور جب مذمت ونفرت کرنے کھڑے ہوتے ہیں، تب بھی آخری انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر کبھی اس طرح کے قول نہیں رہے کہ ’’جب اپنی پسندیدہ اور ممدوح شخصیت سے محبت کرو تو حد سے آگے نہ بڑھو، ہوسکتا ہے وہی شخصیت کسی روز تمھارے لیے سب سے ناپسندیدہ بن جائے۔ اور جب کسی کے خلاف غضب اور غصے کا اظہار کرو تو اس میں بھی اعتدال برتو۔ بعید نہیں کہ آج کی وہی مغضوب شخصیت کل تمھاری محبوب ہستی قرار پائے‘‘۔
قرآن حکیم نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کسی سے محبت یا نفرت کے معاملے میں ہمیں عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ محبت ولگاؤ خواہ اپنی ذات کے ساتھ ہو یا اپنی جماعت کے ساتھ، اور نفرت اپنے دشمنوں کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یہ نکتہ بھی تحریک اسلامی کی کمزوریوں میں سے ایک ہے کہ ’اجتہاد‘ سے گریزپا نظر آتی ہے۔ حالات اور وقت کی مناسبت سے دین کے دائرے کے اندر تجدیدی عمل سے جھجک محسوس کرتی ہے اور عمل وفکر کے اعتبار سے جدید انقلابی راہیں اختیار کرنے پر بہت زیادہ اندیشوں میں گھری دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ فقہی معاملات میں کسی قدر اجتہاد کی قائل ہوتے ہوئے بھی یہ تحریک فکر، حرکت اور عمل میں تقلیدی رجحان ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہر قدم کوجوں کا توں قائم (status quo) رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔ اس نے بعض روایات اور فیصلوں کو گلے سے لگا رکھا ہے، خواہ یہ روایات اور فیصلے اس کی دعوت کے فروغ اور وسعت کی راہ میں ایسا پتھر ثابت ہوں، جن سے مسلسل ٹھوکر لگ رہی ہو، نیز ان کے باعث تحریک کی صفوں میں تھکن، تساہل اور بے دلی کی کیفیات ہی کیوں نہ جنم لے رہی ہوں۔ مگر حیرت ہے کہ ان تمام منفی نتائج سے بے نیاز یہ چلی جا رہی ہے۔
تحریک نے فکر وعمل کے میدان میں ’مقبول‘ اور ’باکمال‘ کی کچھ ایسی حدود قائم کر رکھی ہیں، جو حریتِ فکر اور تجدید ِعمل اور جادۂ نو کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اس نے بعض مفکرین کے ساتھ ایسی سخت وابستگیاں استوار کر دی ہیں، جن کے باعث علم وتفکر کے سرچشمے، پتھر کے قالب سے پھوٹنے والے چھوٹے چھوٹے جھرنوں ہی کا رُوپ دھار کر رہ جائیں گے، جس کے نتیجے میں ذہنی اور فکری گھٹن اور نظر کی تنگی پروان چڑھتی رہے گی، اور شاید نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ کسی دوسرے کی کتابیں پڑھنے اور دوسروں کے حلقوں کی بات سننے اور غور کرنے پر ہی پابندیاں عائد ہو جائیں۔
خبردار رہنا چاہیے کہ گھٹن کے ماحول میں تعلق وعقیدت کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں، اور زندگی بخشنے والی دل چسپیاں کم ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں حرکت وعمل کی روح سے سرشار افراد آہستہ آہستہ کھسکنے لگیں گے، جیسے انگلیوں کے درمیان سے خشک ریت سرک جاتی ہے۔ اپنے ہدف سے انکار نہ کرنے اور نصب العین کی لگن موجود ہوتے ہوئے بھی عقلیں جامد ہو کر رہ جائیں گی۔ ان دو متوازی بلکہ مخالف رجحانات کے آگے بڑھنے پر تحریک ان کھسک جانے والوں کی علیحدگی پر خود خوشی،اطمینان اور سکون محسوس کرے گی، کیونکہ ساکن کو متحرک کرنے کی ’گستاخی‘ کرنے والے اور تبدیلی وانقلاب کے پرچم اُٹھانے والے یہ عناصر تحریک کی صفوں میں ’ناپسندیدہ عناصر‘ قرار پائیں گے۔
میں نے بعض اسلامی جماعتیں دیکھی ہیں، جو اپنے پیروکاروں پر مخصوص قسم کی تعلیمات اور محدود قسم کا ثقافتی رنگ اختیار کرنے کی پابندی لگا دیتی ہیں۔ یہ بے چارے جماعتوں کی قیادت کی پڑھائی ہوئی پٹی کو اس طرح دُہراتے ہیں، جیسے کوئی مقدس صحیفہ پڑھا جاتا ہے۔ مقرر کردہ وظائف کو بار بار دُہرایا اور پھیلایا جاتا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ پڑھائی ہوئی اس پٹی اور رٹائے ہوئے چنددرچند وظیفوں کے بارے میں اپنی سوچ کو کام میں لائے یا ان پر تبادلۂ خیال کے لیے زبان کھولے۔ ان کے ہاں اختیار کی گنجایش تو ہے، مگر امتیاز وتمیز برتنے کی نہیں۔ ان کے قائد کا ہرفرمودہ، ہر موقف صحیح ترین کا درجہ رکھتا ہے، جس میں خطا کا خفیف سا بھی امکان نہیں بلکہ ایسا حق ہے جس میں باطل کا شائبہ تک نہیں ہو سکتا۔
تحریک اسلامی میں صوفیا کے طریق تربیت سے نظریاتی اختلاف وبراءت کا نقطۂ نظر غالب ہے۔ اس کے باوجود مطلق سمع اور اندھی تقلید وطاعت کے اسی تصور کو اختیار کیا جا تا ہے، جو صوفیہ سے خاص ہے۔ جس میں یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ جس نے اپنے ’شیخ‘ [مرشد]سے ’کیوں‘ کا سوال کر دیا، وہ کبھی نجات نہیں پائے گا۔ ’مرید‘ اپنے ’مرشد‘ کے ہاتھ میں ایسا ہی ہے، جیسے مردہ، غسال کے ہاتھ میں۔ ہم صوفیہ کو اپنے مریدوں کی تربیت اس نہج پر کرتے دیکھتے ہیں کہ ’شیخ‘ کے کہے ہوئے سے ہٹنا محال ہے، اور ’کیوں‘ کا سوال ناقابلِ قبول بغاوت ہے۔ صوفیہ کے حلقوں میں اس نہج پر تربیت سے مریدوں کی فوج میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ علما ومفکرین کی بھی اسی طرح روایتی تقلید ہونے لگتی ہے۔ اس محدود فکر سے نکلنا محال ہو جاتا ہے، جس سے فکر اور اس کی تعبیر میں کھینچی ہوئی لکیروں سے باہر نکلا نہیں جاسکتا۔ اگر کوئی ایسا کر گزرے تو اسے مخالفت کے شدید حملوں کا نشانہ بننا پڑتاہے۔
آپ کو تعجب ہوگا کہ دعوت اسلامی کے ایک عظیم قائد ڈاکٹر مصطفےٰ السباعیؒ [م: ۳؍اکتوبر ۱۹۶۴ء] کو بھی ایک مرتبہ ایسی ہی شدید صورت حال سے دوچار ہونا پڑا تھا، کیونکہ انھوں نے اپنے زمانے میں ابلاغ کے لیے اجتہاد کرتے ہوئے اسلامی نظام عدل کو ’الاشتراکیۃ الاسلامیۃ‘ کا نام دے دیا تھا۔ عمومی فضا میں بہت سے لوگوں کو لفظ اشتراکیت میں کشش محسوس ہوتی تھی اور بہت سارے اس لفظ سے بوجوہ الرجک تھے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسلام تو اپنے اندر سرمایہ داری کا رنگ رکھتا ہے۔استاذ السباعی نے اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی۔
اسی طرح ایک اور مسلمان مصنف نے ایک رسالے کے پہلے شمارے کے لیے فرمائشی مضمون لکھا، جس میں اس نے ’بائیں بازو کے مسلمانوں‘ کی اصطلاح استعمال کر دی۔ ایسا اس نے اس رجحان کے رد میں کیا تھا کہ لوگ عام طور پر دعوت اسلامی کو ’دائیں بازو‘ کی صف میں گنتے ہیں اور اس کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی افکار کی نیازمندی سے قائم کرتے ہیں۔ چنانچہ ہوا یہ کہ اس صاحب ِقلم کی تحریر پر شدید رد عمل ظاہر کیا گیا۔
میں ذاتی طور پر نہ ’دائیں بازو‘ کی اصطلاح سے اتفاق کرتا ہوں اور نہ ’بائیں بازو‘ کی اصطلاح سے۔ لیکن میراموقف یہ ہے کہ اہل فکر ونظر اور صاحبان علم سے ’اجتہاد‘ کا حق نہ چھینا جائے۔ محض اختلاف رائے کے نتیجے میں انھیں اتہامات اور بُرے بھلے کلمات کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ان کی رائے مسترد کر دی جائے، لیکن آنے والے دور میں وہی رائے مقبول قرار پائے۔ میرے خیال میں مجتہد، اللہ تعالیٰ کے ہاں مستحقِ اجر ہوتا ہے، خواہ اس کی اجتہادی رائے صحیح ہو یا غلط۔ تاہم اس کے لیے خلوص نیت اور علم و فضل شرط ہے۔
ایک رسالے نے ایک بڑے مسلم مصنف سے کچھ مقالات لکھنے کی درخواست کی۔ انھوں نے ایک مقالہ لکھ کر بھیجا، جس میں یہ رائے درج تھی کہ ’’اسلامی نظام کے تحت ایک سے زیادہ اسلامی جماعتوں کا قیام جائز ہے‘‘۔ مگر مذکورہ ادارے کی رائے اس سے مختلف تھی، چنانچہ ان کا وہ مقالہ شائع نہ ہو سکا، کیونکہ وہ لا حزبیۃ فی الاسلام والے روایتی فلسفے کے علی الرغم رائے کا حامل تھا۔
دعوتی عمل سے منسلک ایک بزرگ کو ایک مرتبہ دعوت کے لیے پانچ سالہ خاکہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انھوں نے اس کی تیاری میں یہ اہتمام کیا کہ مختلف اطراف سے تبادلۂ خیال کیا۔ دعوت اسلامی سے خائف مخالف دھڑوں سے، مغرب کے اہل فکر مستشرقین سے، اہل کتاب کے مذہبی رہنماؤں سے، سیاسی مدبروں اور سفیروں وغیرہ سے مختلف مواقع پر تبادلۂ خیال کر کے کام کا نقشہ وضع کیا۔ اس تبادلۂ خیال سے ان کی غایت اسلام کے بارے میں مخالفین و معاندین کی اس پرانی سوچ کو بدلنا تھا کہ مسلمان کوئی وحشی انسانوں کا غول ہیں اور تحریک اسلامی دہشت گردی اور تشدد کی علامت ہے۔ وہ سوچتے تھے کہ دوسرے آسمانی ادیان کے ساتھ پُرامن طور پر زندگی گزارنے کے لیے مفاہمت کی فضا پیدا کرنا ضروری ہے، تاکہ مسلمان اپنے اپنے وطن میں اپنی شریعت اور عقیدے کے مطابق خود مختارانہ انداز میں رہیں، بسیں اور مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں مزاحم نہ ہوں۔ لیکن ہوا یہ کہ بزرگ کی جملہ آراء وتجاویز کو نہ صرف رد کردیا گیا، بلکہ بڑے پیمانے پر تضحیک وتمسخر کا نشانہ بنایا گیا اور کہنے والے نے کہا کہ ’’یہ علّامہ صاحب بڑے ’ترقی پسند‘ بن گئے ہیں‘‘۔
موجودہ فضا میں دین دار عوام کی سخت رائے اور سنگین لب ولہجہ کچھ عمومی حیثیت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے، جس کا فائدہ مخالفین بڑی آسانی سے اُٹھا رہے ہیں۔ اس منفی پہلو کے باوجود دینی حلقوں میں سمجھا جاتا ہے کہ’’ سخت موقف ہی کے ذریعے سے اس منڈی میں سودے طے پاتے ہیں۔ سختی، تیزی، تندی کو قبولیت عامہ حاصل ہو تی ہے‘‘۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ امت میں بگاڑ اور انحراف، علم کی مسندوں کا تنخواہ داری میں چلے جانے اور عالموں کے مقتدر لوگوں اور طبقوں کے اتباع کے باعث پیدا ہوا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ عوامی خواہشات کا اتباع، اور دبائو میں آنے اور حاکموں یا مقتدر طبقوں کی مرضی کا پابند ہونے سے بھی خطرناک نتائج قسمت میں لکھے جاتے ہیں۔ حاکموں کی پیروی واطاعت کرنے والے کبھی بے نقاب ہو کر رد کر دیے جاتے ہیں، جب کہ عوام کی خواہشات میں تنکے بن کر چلنے والے وہ باطل ہوتے ہیں، جو رائے عامہ کے بہائو میں حسرت اور ماضی میں دفن ہوکر رہ جاتے ہیں۔
بیسیویں صدی کے وسط میں ایسی فکر غالب رہی۔ ان حالات کا نتیجہ تجزیہ نگاروں سے مخفی نہیں ہے۔ دعوت اور معاشرے میں ایک دیوار کھڑی ہو گئی۔ جاہلیت مطلقہ نے اسی تشدد کو جواز بناکر اسے نیچا دکھانے میں اپنا پورا زور صرف کیا۔ اس عرصے میں اسی پُرتشدد اور سخت رجحان کے تحت کفر کے فتوے جاری کرنے میں بڑی فراخ دلی کا ثبوت سامنے آیا۔ مسلم عوام کو لا الٰہ الا اللہ کا مطلب نہ جاننے اور حاکمیت الٰہ کا تصور نہ رکھنے کے باعث کافر ٹھیرایا گیا۔ وقت کے اہم مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے فقہی اجتہاد پر پابندی رہی، اسلامی فقہ کی تجدید کے تصور کا مذاق اڑایا گیا۔ کہا گیا کہ پہلے عقیدے کو قبول کیا جائے، اسلامی نظامِ زندگی کا نقشہ بنانے کی بات بعد میں ہوگی۔ اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی نظام اسلامی کے حقائق پیش کرنا ثانوی امر ہے۔
عصرِحاضر میں تحریک اسلامی کے ضعف کے یہ چند نکات تھے، جو میں نے اللہ کی پکڑ کے احساس کے تحت پیش کیے ہیں۔ مقصد صرف اصلاح وتعمیر ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تحریک کے بعض متعلقین اس تنقیدی جائزے پر سخت چیں بہ جبیں ہوں گے۔ اسی طرح تحریک کے مخالفین بھی اسے غنیمت سمجھ کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے، بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے اور تحریک اسلامی اور اس کے مقاصد کے ہی نہیں، خود اسلام کے بارے میں بھی غلط فہمیوں کا غبار اٹھانے کی سعی کریں گے۔ دشمن کو قائل کرنا کچھ آسان نہیں، مگر اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی سمت چلنا تو ممکن ہے! (مکمل)
جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں، اور اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپائیں۔ اُنھیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں۔ اُن کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں، تو وہ اِس عدت کے دوران اُنھیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں۔ البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔(البقرہ ۲:۲۲۸)
شوہروں کو حق حاصل ہے کہ وہ عورت کی عدت کے اندر رجوع کرسکتے ہیں۔ اسے رجعیت کہتے ہیں ،لیکن تیسری طلاق کے بعد یہ حق حاصل نہیں رہتا۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے ،شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ رجوع کرے ،اس پر بیوی کو انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ تم تو مجھے طلاق دے چکے ہو، اب میں تمھاری بات ماننے کو تیار نہیں۔
عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں، ان کی مناسبت سے حقوق بھی ہیں۔ مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اسلامی شریعت میں مرد اور عورت کے درمیان یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان مساوات نہیں ہے ۔گھر کے ادارے میں عورت اور مرد برابر نہیں ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی ادارے کے اندر دو برابر کے سربراہ نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ کسی ادارے کے دو مینیجنگ ڈائریکٹر بنا دیں تو وہ ادارہ تباہ ہو جائے گا۔ لہٰذا جب ایک مرد اور ایک عورت سے ایک خاندانی ادارہ وجود میں آئے تو اس کا سربراہ کون ہوگا؟ مرد یا عورت؟ مرد اور عورت انسان ہونے کے ناطے برابر ہیں۔ شرفِ انسانیت میں فرد کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں لیکن جب وہ دونوں مل کر خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو اب یہ برابر نہیں رہے۔اسی طرح جیسے ایک دفتر میں چپڑاسی اور افسر برابر نہیں ہیں۔ دونوں کے الگ الگ اختیارات اور فرائض ہیں۔
آج سے تقریباً ۴۰برس قبل طلاق کا لفظ بولنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔اگر کسی کی بیٹی یا کسی عورت کو طلاق ہو جاتی تو وہ منہ چھپائےپھر تے تھے۔ اپنے قریبی عزیزوں کو بھی نہیں بتاتے تھے۔ پھرا س کا چلن اتناعام ہوا کہ عورتیں محفلوں میں بیٹھ کر کہتیں کہ مجھے طلاق ہوچکی ہے، اس بات کو بلاجھجک بیان کیا جاتا ہے۔ دوسر ی با ت یہ کہ آپ کو اپنے حلقۂ احباب میں ، اپنی جائے ملازمت پر، کسی بھی تقریب میں طلاق یافتہ خاتون مل جائے گی۔اعدادو شما ر بتا تے ہیں کہ شرح طلاق میں اضافہ حیران کن اور پریشان کن ہے۔
تیسری تبدیلی جو معاشرے میں عام ہے، وہ گھروں میں میاں بیوی کی لڑائی اور بحث میں: ’مَیں طلاق دے دوں گا‘اور ’مَیں نے تمھیں طلاق دی‘ جیسے جملے بولے جاتے ہیں۔ اور غصہ کا فورہونے کے بعد دونوں میاں بیوی کمال اطمینان کے ساتھ رشتۂ زوجیت میں منسلک رہتے ہیں۔ بیوی کہتی ہے کہ میاں تو مجھے کئی بار طلاق دے چکا ہے ،پھر بات ختم ہو جاتی ہے، پتہ نہیں ہمارا ساتھ رہنا جائز بھی ہے یا نہیں ؟اس احساسِ گناہ کے ساتھ زندگی گزارتی رہتی ہے ۔تصفیہ نہیں کروایا جاتا، خود علم نہیں ،مولوی نے فتویٰ دے دیا تو کہاں جاؤں گی؟ بچے کیسے پالوں گی ؟وغیرہ۔
طلاقِ رجعی بھی ہو تو عدت کا حساب کتنا رکھا جاتا ہے ؟عدت گزر جائے تو کیا نکاح کیا جاتا ہے؟ اگر تین طلاق ایک وقت میں دے دیں اور غصہ ختم ہوا اور ہوش ٹھکانے آئیں تو پھر ہرعالم سے فتویٰ معلوم کرنا کہ میں نے تو غصے میں کہا تھا، ایک ہی طلاق ہوئی ہے نا؟
حسب منشا فتویٰ ، جہاں سے مل جائے تو اطمینان ہو جاتا ہے اور بیوی کا ساتھ چلتا رہتا ہے۔ اگر یہ سمجھ آ جائے کہ تین بار طلاق کے بعد ،اس بیوی کے ساتھ نکاح صرف حلالہ ہے یعنی کوئی اور آدمی نکاح کرے، رخصتی ہو اور وہ کسی وجہ سے بیوی کو طلاق دے دے، تو پہلے شوہر کے لیے یہ عورت جائز ہوجائے گی۔ اب حلالہ کے لیے بھی حرام راستے ڈھونڈ لیے جاتے ہیں ۔اپنے آپ کو اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے حیلےکیے جاتے ہیں۔
یہ سب دین کی تعلیمات سے لاعلمی اور جہالت کی بنا پر ہوتا ہے یا علم کے باوجودخدا اور آخرت کی پیشی سے بے خوفی ہوتی ہے، یا یہ پروانہ کہ ’دین آسان ہے، یہ تو مولویوں نے مشکل بنایا ہوا ہے‘۔
عدت میں شادی کرلینا اللہ نے تو منع کیا ہے لیکن بندوں نے اپنی مجبوریوں کی فہرست بناکر اس کو جائز کر لیا ہے ۔کسی کووزارت اعلیٰ کی اُمید، کسی کو ویزے کے حصول یا تنسیخ کا خطرہ،کسی کی نوکری، خاندان کی شادی وغیرہ مجبور کر لیتے ہیں۔
تین حیض کی مدت سے واضح ہو جاتا ہے کہ عورت حاملہ تو نہیں ہے کہ آنے والے بچے کا نسب مشکوک نہ ہو ۔اس میں بھی اگر حمل ہے تو وضع حمل تک عدت ہے۔اب وہ شوہر اور سسرال جو انتہائی مبغوض ہیں، ان کا بچہ چھ آٹھ ماہ تک اٹھائے اٹھائے پھرے، انکار اور پھر جان خلاصی کا حل بھی نکال لیا جاتا ہے۔ ان سب رویوں سے بچانے والا دین کے احکامات کا علم اور اس پر عمل ہے۔
اللہ تعالیٰ تو یہ بھی فرماتا ہے کہ دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہو جانے سے پہلے شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے ،کہ وہ رجوع کرے۔ اس پر بیوی کوانکار کا اختیار نہیں۔ وہ را ضی ہوجائے، انکار نہ کرے۔مگر آج کی عورت خود انحصاری و خودمختاری کے نعرے سن سن کر اس مقام پر پہنچ رہی ہے، کہ اس کی اَنا کو پہنچی ہوئی ٹھیس کے زخم کسی طرح مندمل نہیں ہوتے۔ نتیجہ طلاق یا خلع کی صورت میں نکلتا ہے ۔مرد کو بھی اپنے جذبات اور زبان کو قابو میں رکھ کر مردانگی کا ثبوت دینا چاہیے ۔عورت کو بھی تحمل وبرد باری کا رویہ اپنانا چاہیے،اور فریقین کے والدین کو حوصلہ بلند کرکے مفاہمت کی کوشش کرنی چاہیے کہ جائز مگر ناپسندیدہ ترین عمل طلاق سے بچا جاسکے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آج سب رشتوں سے بڑھ کر،دوست اور سہیلیاں ،غم خوار اور قابلِ اعتماد مشیر ہیں۔ ان کو بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ۔ہر ایک کی جنبشِ ابرو ،حالات بگاڑنے یا سنوارنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔
طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے۔ اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو ۔اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں۔(البقرہ ۲:۲۲۹)
یعنی ایک مرد رشتۂ نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ رجوع کا حق استعمال کرسکتا ہے ۔جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رجوع کر چکا ہو،وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہوجائے گی۔ طلاق کا صحیح طریقہ جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے،یہ ہے کہ عورت کو حالت طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے ۔اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو،جب کہ عورت ایام ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں، بلکہ ایام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے ،تو دوسرے طُہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دے دے،ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے ۔اس صورت میں شوہرکو یہ حق حاصل رہتا ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رجوع کرلے، اور عدت گزر بھی جائے، تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کرلیں۔ لیکن تیسرے طُہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے ۔رہی یہ صورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، تو یہ شریعت کی رُو سے سخت گناہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے۔ اور حضرت عمرؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا ،آپ اس کو درے لگاتے تھے۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود اَئمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہوجاتی ہے،یعنی مہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ جو شوہر بیوی کو دے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیز واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو ،جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ یا تحفہ کے طور پر دے چکا ہو،واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اُس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا ۔اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے، اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۰-۲۵۱)
شادی کے موقعے پر عورت کو حق مہر ادا کیا جانا چاہیے جو کہ اس کی ملکیت ہوتی ہے ۔حق مہر میں نقدی بھی ہو سکتی ہے یا کچھ اور مثلاً زیور، طلائی چوڑیاں یا سونے کا سیٹ حق مہر میں لکھا ہے اور اس وقت دلہن کو پہنایا بھی جاتا ہے ۔مگر بعد میں چالاکی سے کچھ نہ کچھ کہہ کر واپس لے لیا جاتا ہے اور اکثر اوقات بعد میں آنے والی بہو کو بھی دیا جاتا ہے۔ حق مہر لینا تو غلط ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ تحفے تحائف جو دلہن کو دیئے جاتے ہیں ،ان کا ذکر کر رہے ہیں، مگر اب تحائف، زیورات، کچھ جوڑے وغیرہ دے کر واپس لے لینا تو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ تحفہ دے کر واپس لینا بھلے وہ چھوٹا سا ہی ہو، بُرا عمل ہے۔ جوڑوں اور خاندانوں میں بے اعتمادی کا بیج ، انھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے جڑ پکڑتا ہے۔پھر بعد میں ان باتوں اور دیگر مسائل سے اس کو پانی ملتا رہتا ہے اور آپس کے تعلقات کی خرابی کا درخت ایسا تناور ہو جاتا ہے ،جو شادی کے اس قیمتی رشتے کو لے ڈوبتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں آیت میں اس بات کی بھی وضاحت فرما دی کہ ایسی صورت میں اگر میاں بیوی کو خدشہ ہو کہ وہ حدودِ الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ،تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔
’’شریعت کی اصطلاح میں اسے’ خلع‘ کہتے ہیں ۔یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلاکر اس سے طلاق حاصل کرنا۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر میں کوئی معاملہ طے پا جائے، تو جو کچھ طے ہوا ہو، وہی نافذ ہوگا۔
لیکن اگر عدالت میں معاملہ آجائے تو عدالت اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی تحقیق ہو جانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے، تجویزکرے۔ اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گی ۔بالعموم فقہا نے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فد یہ اسےدلوایا جائے۔
خلع کی صورت میں جو طلاق دی جاتی ہے، وہ رجعی نہیں ہے، بلکہ با ئنہ ہوتی ہے ۔چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خریدا ہے ،اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رجوع کر سکے ۔البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چاہیں، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے ۔جمہور علما کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۲)
آج سے ۳۰ سال قبل ’خلع‘کی اصطلاح سے کم ہی لوگ واقف تھے ۔طلاق کا تو سن رکھا تھا مگر خلع کا نہیں۔ آج خلع کی اصطلاح اور عمل اتنا ہی عام ہے جتنا طلاق کا۔اس کے کئی عوامل ہیں جن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ شوہر اور بیوی کے دل نہ ملنا ،مرد کا اپنے حلقۂ دوستی کو بہت وقت دینا ،مال خرچ کرنا ،سیروتفریح کے لیے جانا ،کھانوں پر بلانا ،باہر کھانے کھانا ، بیوی کو بے زار کر دینا اور نہ مرد کو اس میں کوئی عیب محسوس ہوتا ہے بلکہ اُلٹا وہ بیوی کے اس تعلق میں اعتدال کی خواہش کو اپنی آزادی میں رکاوٹ جانتے ہیں اورتعلقات خراب ہوتے جاتے ہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ عورت کا اپنے میکے میں ہی مگن رہنا، اپنی ملازمت کو اعلیٰ طریقے سے نبھانے کے لیے وقت بے وقت میٹنگز ،فنکشنز ، ٹریننگز، اور دفتر کی طرف سے سیروتفریح کے لیے جانا وغیرہ مرد کو بے زار کر دیتا ہے۔ بیوی کو اپنے تئیں یہ بالکل ضروری وجائز لگتا ہے۔ شوہر کی طرف سے اس بیزاری کا ادنیٰ اظہار اور ردعمل، بیوی کو خلع کا راستہ دکھادیتا ہے۔سسرال والوں کے رویے ،جملے، حجت بازیاں بھی مسائل میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے مشترکہ خاندانی نظام میں بیٹے پڑھ لکھ جاتے ہیں ۔تنخواہ شروع ہوجاتی ہے یا کبھی ملازمت نہیں ہوتی تو ماں باپ بچوں کو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں بیاہ دیتے ہیں۔ کُھلا کھانے ،خرچ کرنے والی لڑکی کے لیے یہاں مال کی تنگی بھی مشکل پیدا کرتی ہے، نتیجہ خلع!
ہم سب کے رویوں کی اصلاح( شوہر، بیوی، میکہ ،سسرال ،مشیر خصوصی حلقۂ دوست و احباب وغیرہ) جوڑے کو گھر بسانے میں مدد دے سکتا ہے ۔ لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کرد ار اداکرنا چاہیے۔
پھر اگر (دو بارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی، تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہو گی، الّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودِالٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجو ع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جنھیں وہ اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔(البقرہ ۲:۲۳۰)
’’احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے لیے حلال کرنے کی خاطر کسی سے سازش کے طور پر اُس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا، تو یہ سراسر ایک ناجائز فعل ہے ۔ ایسا نکاح، نکاح نہ ہوگا بلکہ محض بدکاری ہوگی‘‘۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۳)
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آ جائے، تو یا بھلے طریقے سے انھیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو محض ستانے کی خاطر انھیں نہ روکے رکھنا یہ زیادتی ہو گی اور جو ایسا کرے گا، وہ در حقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمھیں سرفراز کیا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اُس نے تم پر نازل کی ہے، اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۱)
یعنی رجوع کرو تو اس نیت سے کرو ،کہ آئندہ حسن سلوک کرنا ہے ۔اگر ایسا نہیں کرنا تو بہتر یہ ہے کہ شریفانہ طریقے سے طلاق دے دو۔(جاری)
دنیا کے سبھی آسمانی مذاہب نے انسان کو اللہ کی عبادت کرنے، اس کا ذکر کرنے، اس کے حضور نذر ونیاز پیش کرنے اور اس کے نام پر جانور قربان کرنے کی تعلیم دی ہے۔ قرآن پاک میں کہا گیا ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۰ۭ فَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ۳۴ۙ (الحج۲۲:۳۴)ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا، تاکہ لوگ ان جانوروں پر جو اللہ نے ان کو بخشے ہیں اللہ کا نام لیں۔ پس تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے، اسی کی فرماںبرداری کرو اور خوش خبری دو عاجزی اختیار کرنے والوں کو۔
قرآن کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے سارے مذاہب میں قربانی کی روایت پائی جاتی ہے۔ مگر بعض مذہبی گروہ آج بھی ایسے موجود ہیں جو کسی جان دار کے قتل کو جائز نہیں سمجھتے، اس لیے ان کے یہاں قربانی رسمِ عبودیت کا حصہ نہیں ہے۔ ایسے مذاہب کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسانی مذاہب ہیں، آسمانی نہیں۔ مذاہب عالم میں سامی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں قربانی کی روایت بہت مستحکم ہے اور اس کے احکام کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔ان کا موازنہ کرنے سے انسانوں کی مذہبی تاریخ کے بہت سے حقائق آشکارا ہوتے ہیں اور عہد بہ عہد قربانی کے ارتقاکے مراحل سے پردہ اُٹھتا ہے۔
قرآن کریم میں بھی قابیل اور ہابیل کی قربانی کا واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ’’اور ان لوگوں کو آدم کے دو بیٹوں کا حال سنادو، جب ان دونوں نے قربانی پیش کی۔ ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس نے کہا میں تجھ کو قتل کردوں گا۔ جواب میں دوسرے نے کہا کہ اللہ تو صرف پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتاہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ میں تو اپنے اللہ پروردگار عالم کا خوف رکھتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ کو سمیٹے اور جہنم والوں میں شامل ہوجائے اور یہی ظالموں کا بدلہ ہے‘‘۔(المائدہ۵: ۲۷-۲۹)
بائبل اور قرآن کے بیانات کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل میں خدا اور قابیل کے درمیان جو گفتگو ہوئی ہے، اس کی تفصیل ملتی ہے، لیکن ہابیل اور قابیل کی باہمی گفتگو کی تفصیل نہیں ہے۔ جب کہ قرآن پاک میں دونوں بھائیوں یعنی قاتل ومقتول کی باہمی گفتگو کو بھی نقل کیا گیا ہے تاکہ ظالم کی ذہنیت اور نیت کو ظاہر کیا جائے اور مقتول بھائی کی سادگی، سچائی اور خداترسی پر روشنی ڈالی جائے۔ نیز بائبل میں دونوں بھائیوں کے نام کی صراحت ہے، جب کہ قرآن میں نام کی صراحت کے بجائے آدمؑ کے دو بیٹوں کا ذکر کیا گیاہے۔ قرآن میں تاریخ انسانی کے اس پہلے قتل کے اخلاقی اور سماجی نتائج پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
’’ابراہیم نے قربانی کو جلانے کے لیے لکڑیاں اسحاق کے کندھوں پر رکھ دیں اور خود چھری اور آگ جلانے کے لیے انگاروں کا برتن اٹھایا۔ دونوں چل پڑے۔ اسحاق بولا: ابو! ابراہیم نے کہا جی بیٹا۔ ابو، آگ اور لکڑیاں تو ہمارے پاس ہیں لیکن قربانی کے لیے بھیڑیا بکری کہاں ہے؟ ابراہیم نے جواب دیا: اللہ خود قربانی کے لیے جانور مہیا کرے گا بیٹا۔ وہ آگے بڑھ گئے۔ چلتے چلتے وہ اس مقام پر پہنچے جو اللہ نے اس پر ظاہر کیا تھا۔ ابراہیم نے وہاں قربان گاہ بنائی اور اس پر لکڑیاں ترتیب سے رکھ دیں۔ پھر اس نے اسحاق کو باندھ کر لکڑیوں پر رکھ دیا اور چھری پکڑی تاکہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔ عین اسی وقت رب کے فرشتے نے آسمان سے آواز دی ابراہیم، ابراہیم! ابراہیم نے کہا جی میں حاضر ہوں۔ فرشتے نے کہا: اپنے بیٹے پر ہاتھ نہ چلا، نہ اس کے ساتھ کچھ کر، اب میں نے جان لیا ہے کہ تو اللہ کا خوف رکھتاہے۔ کیوں کہ تو اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی مجھے دینے کے لیے تیار ہے‘‘۔(عہد نامہ عتیق، کتاب پیدائش، باب۲۲، آیت ۱-۱۳)
حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کا یہ واقعہ قرآن کریم میں بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور وہ حسب ذیل ہے:(ابراہیم ؑ نے دعا کی) ’’اے رب مجھ کو نیک اولاد عطا کر، تو ہم نے اسے ایک بُردبار لڑکے کی بشارت دی۔ جب وہ لڑکا دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھ کو ذبح کررہا ہوں، اب تُو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ بیٹے نے کہا کہ ’’اے باپ! آپ کو جس کام کا حکم دیا گیا ہے اسے کرگزرئیے، ان شا ء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘۔ پھر جب دونوں نے حکم مان لیا اور بیٹے کو باپ نے پیشانی کے بل پچھاڑدیا تو ہم نے پکارا کہ ’’اے ابراہیم! تونے خواب سچ کر دکھایا، ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘۔ اور اس کے بدلے میں ہم نے بڑی قربانی کا فدیہ دیا اور اس پر آنے والوں کو باقی رکھا۔سلامتی ہو ابراہیم پر۔ اسی طرح ہم احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہے اور ہم نے اس کو اسحاقؑ کی بشارت دی جو صالحین میں سے نبی ہوگا‘‘۔(الصافات۳۷:۱۰۰-۱۱۲)
بائبل اور قرآن میں مذکور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ میں عمومی مماثلت ہے۔ البتہ تین باتوں میں فرق ہے۔
اوّل یہ کہ بائبل میں مذکور ہے کہ اللہ نے ابراہیمؑ کو اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا، جب کہ قرآن میں ہے کہ خواب میں بیٹے کو قربان کرنے کی بشارت دی۔
دوم یہ کہ بائبل میں صراحت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو اللہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے یہ بات اپنے بیٹے پر ظاہر نہیں کی، بلکہ جب ابراہیمؑ نے قربان گاہ پر جلانے کی لکڑیاں اپنے بیٹے اسحاقؑ کے کندھوں پر رکھ دیں تو اسحاقؑ نے پوچھا کہ قربانی کے لیے مینڈھا یا بکری کہاں ہے؟ تب بھی ابراہیمؑ نے اپنا ارادہ ظاہر نہیں کیا، جب کہ قرآن میں وضاحت ہے کہ جب ابراہیمؑ کو خواب میں اپنے بیٹے کو قربان کرنے کی بشارت ملی تو ابراہیمؑ نے پورا خواب اپنے بیٹے کو بتایا اور اس سے قربان ہونے کی رضامندی حاصل کی۔ قرآن کے بیان کردہ واقعہ میں باپ بیٹے دونوں کی فضیلت اور عظمت معلوم ہوتی ہے، جب کہ توریت کے بیان سے صرف حضرت ابراہیمؑ کی عظمت اور تقدس کا اظہار ہوتاہے۔
سوم یہ کہ بائبل میں صراحت ہے کہ اللہ نے ابراہیمؑ کو اکلوتے بیٹے اسحاقؑ کو قربان کرنے کا حکم دیا تھا اور انھوں نے اسحاقؑ کو قربان کرنے کے لیے ہاتھ باندھ کر لکڑی پر لٹادیا تھا، جب کہ قرآن میں ذبح ہونے والے بیٹے اسحقؑ نہیں اسماعیلؑ تھے۔ قرآن کے مطابق پہلے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا خواب دکھایاگیا اور اس کی تعبیر پوری ہونے پر حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کی بشارت دی گئی۔ قربانی کے وقت حضرت اسماعیلؑ ہی حضرت ابراہیمؑ کے اکلوتے بیٹے تھے۔
’’میں اسماعیل کے سلسلے میں بھی تیری درخواست پوری کروں گا۔ میںاسے بھی برکت دے کر پھلنے پھولنے دوں گا اور اس کی اولاد بہت ہی زیادہ بڑھا دوںگا۔ وہ بارہ رئیسوں کا باپ ہوگا اور میں اس کی معرفت ایک بڑی قوم بنادوں گا۔ لیکن میرا عہد اسحاقؑ کے ساتھ ہوگا جو عین ایک سال کے بعد سارہ کے یہاں پیدا ہوگا۔
اللہ کی ابراہیم کے ساتھ بات ختم ہوئی اور وہ اس کے پاس سے آسمان پر چلا گیا۔ اسی دن ابراہیم نے اللہ کا حکم پورا کیا۔ اس نے گھر کے ہر ایک مرد کا ختنہ کروایا۔ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کا بھی اور ان کا بھی جو اس کے گھر میں رہتے لیکن اس سے رشتہ نہیں رکھتے تھے‘‘۔(توریت، کتاب پیدائش، باب ۱۷ ،آیت۲۰تا ۲۴)
اس سے بھی زیادہ واضح ثبوت یہ ہے کہ توریت میں صاف لفظوں میں بیان کیاگیا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کے ہاں حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے بیٹا پیدا ہوا تو ابراہیمؑ نے اس کا نام اسماعیلؑ رکھا،اس وقت ابراہیمؑ چھیاسی برس کا تھا۔(توریت، کتاب پیدائش، باب ۱۶، آیت ۱۶)
اسی توریت میں یہ بھی صراحت مذکور ہے کہ:’’جب اسحاق پیدا ہوا، اس وقت ابراہیم سوسال کاتھا‘‘۔(توریت، کتاب پیدائش، باب۲۱، آیت ۵)
توریت کے مذکورہ بیانات بتارہے ہیں کہ پہلے حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش ہوئی اور پھر ۱۴سال بعد حضرت اسحاقؑ کی پیدائش ہوئی۔ اللہ نے جب اکلوتے (بلکہ پہلوٹھا) فرزند کو قربان کرنے کا حکم دیا تو وہ فرزند حضرت اسماعیل تھے نہ کہ حضرت اسحاقؑ۔ اس لیے توریت کے ترجموں میں اکلوتے کے بعد اسحاقؑ کا اضافہ علمائے یہود کی تحریف پر مبنی ہے۔ قرآن اور بائبل کے مفسرومحقق علامہ حمیدالدین فراہیؒ نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے حضرت اسماعیلؑ کو ذبیح ہونے کے شرف سے محروم کرنے کے لیے توریت کے بیان میں پانچ قسم کی تحریفات کی ہیں۔ (حمیدالدین فراہی، ذبیح کون ہے؟ ترجمہ: امین احسن اصلاحی، دائرہ حمیدیہ ، سرائے میر، اعظم گڑھ، ص۱۳۰)
مولانا فراہی نے بطور خلاصہ لکھا ہے:’’یہود نے ذبح کے واقعے میں حضرت اسماعیل ؑ کے نام کی جگہ حضرت اسحاق ؑکا نام ڈال دیا۔ حالاںکہ خود توریت سے اس امر کی علانیہ تردید ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اس تحریف کی تردید کے لیے صرف یہ کیا کہ اصل واقعہ ٹھیک ٹھیک اس کی صحیح ترتیب کے ساتھ بیان کردیا اور اسی لپیٹ میں متعدد دلائل اس امر کے بیان کردئیے کہ ذبیح حضرت اسماعیلؑ ہی ہوسکتے ہیں، حضرت اسحاقؑ نہیں ہوسکتے‘‘۔(ایضاً، ص ۱۴۴)
حضرت موسیٰ ؑکے بارے میں ہے:’’خصوصیت کے ساتھ سات دن کے بعد موسیٰ نے آٹھویں دن ہارون، اس کے بیٹوں اور اسرائیل کے بزرگوں کوبلایا۔ اس نے ہارون سے کہا، ایک بے عیب بچھڑا اور ایک بے عیب مینڈھا چن کر رب کو پیش کر، بچھڑا گناہ کی قربانی کے لیے اور مینڈھا بھسم ہونے والی قربانی کے لیے ہو۔ پھر اسرائیلیوں کو کہہ دینا کہ گناہ کی قربانی کے لیے ایک بکرا، جب کہ بھسم ہونے والی قربانی کے لیے ایک بے عیب یک سالہ بچھڑا اور ایک بے عیب یک سالہ بھیڑکا بچہ پیش کرو۔ ساتھ ہی سلامتی کی قربانی کے لیے ایک بیل اور ایک میڈھا چنو، تیل کے ساتھ ملائی ہوئی غلہ کی نذر بھی لے کر سب کچھ رب کو پیش کرو کیوں کہ آج ہی رب تم پر ظاہر ہوگا‘‘۔ (عہدنامہ عتیق، کتاب احبار، باب۹، آیت ۱-۵)
بنی اسرائیل کی قربانی کے لیے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو جو احکام دئیے تھے عہد نامہ عتیق میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:’’رب نے ملاقات کے خیمے میں سے موسٰی کو بلاکر کہاکہ اسرائیلیوں کو اطلاع دے کہ اگر تم میں سے کوئی رب کو قربانی پیش کرنا چاہے تو وہ اپنے گائے بیلوں یا بھیڑ بکریوں میں سے جانور چُن لے۔
اگر وہ اپنے گائے بیلوں میں سے بھسم ہونے والی قربانی چڑھانا چاہے تو وہ بے عیب بیل چن کر اسے ملاقات کے خیمے کے دروازے پر پیش کرے، تاکہ رب اسے قبول کرے۔ قربانی پیش کرنے والا اپنا ہاتھ جانور کے سر پر رکھے تو یہ قربانی مقبول ہوکر اس کا کفارہ دے گی۔ قربانی پیش کرنے والا بیل کو وہاں رب کے سامنے ذبح کرے۔ پھر ہارون کے بیٹے جو امام ہیں اس کا خون رب کو پیش کرکے اسے دروازہ پر کی قربان گاہ کے چار پہلوؤں پر چھڑکیں۔ اس کے بعد قربانی پیش کرنے والا کھال اتار کر جانور کے ٹکڑے ٹکڑے کرے۔ امام قربان گاہ پر آگ لگاکر اس پر ترتیب سے لکڑیاں چنیں۔ اس پر وہ جانور کے ٹکڑے سر اور چربی سمیت رکھیں۔ لازم ہے کہ قربانی پیش کرنے والا پہلے جانور کی انتڑیاں اور پنڈلیاں دھوئے۔ پھر امام پورے جانور کو قربان گاہ پر جلادے۔ اس جلنے والی قربانی کی خوشبو رب کو پسند ہے‘‘۔(ایضاً، باب۱، آیت۱-۱۰)
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھتیجوں یعنی حضرت ہارونؑ کی اولاد کو امام بنایا تھا اور ان کو قوم کی طرف سے قربانی کرنے کا مجاز قرار دیا تھا۔ توریت میںامام کی صفات اور ذمہ داریوں کے ساتھ قربانی کرنے کی بھی تفصیل ملتی ہے۔ ان میں ایک یہ ہے:
’’اماموں کو مقدس میں میری خدمت کے لیے مخصوص کرنے کا طریقہ یہ ہے ۔ ایک جوان بیل اور دوبے عیب مینڈھے چن لینا۔ بہترین میدے سے تین قسم کی چیزیں پکانا جن میں خمیر نہ ہو۔ پہلے سادہ روٹی، دوسرے روٹی جس میں تیل ڈالا گیا ہو، تیسرے روٹی جس پر تیل لگایا گیا ہو۔ یہ چیزیں ٹوکری میں رکھ کر جوان بیل اور دو مینڈھوں کے ساتھ رب کو پیش کرنا‘‘۔ (ایضاً، کتاب خروج، باب ۲۹، آیت ۱-۴)
بیل کوملاقات کے خیمے کے سامنے لانا۔ ہارون اور اس کے بیٹے اس کے سر پر اپنے ہاتھ رکھیں۔ اسے خیمے کے دروازہ کے سامنے رب کے حضور ذبح کرنا۔ بیل کے خون میں سے کچھ لے کر اپنی انگلی سے قربان گاہ کے سینگوں پر لگانا اور باقی خون قربان گاہ کے پائے پر انڈیل دینا۔ انتڑیوں پر کی تمام چربی، جوڑ، کلیجی اور دونوں گردے ان کی چربی سمیٹ کر قربان گاہ پر جلادینا۔ لیکن بیل کے گوشت، کھال اور انتڑیوں کے گوبر کو خیمہ گاہ کے باہر جلادینا ،یہ گناہ کی قربانی ہے۔
اس کے بعد پہلے مینڈھے کولے آنا، ہارون اور اس کے بیٹے اپنے ہاتھ مینڈھے کے سر پر رکھیں۔ اسے ذبح کرکے اس کا خون قربان گاہ کے چارپہلو پر چھڑکنا۔ مینڈھے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کی انتڑیوں اور پنڈلیوں کو دھونا پھر انھیں سر اورباقی ٹکڑوں کے ساتھ ملاکر پورے مینڈھے کو قربان گاہ پر جلادینا۔ جلنے والی یہ قربانی ربّ کے لیے بھسم ہونے والی قربانی ہے اور اس کی خوشبو رب کو پسند ہے۔ (ایضاً، آیت ۱۰-۱۹)
بائبل میں گناہ کے کفارہ کے طور پر قربانی دینے اور سلامتی کی قربانی یعنی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قربانی دینے کے احکام مفصلاً مذکور ہیں اور دونوں میں قدرے فرق بھی ہے۔ توریت میں مذکور ہے:
’’ربّ نے موسیٰ سے کہا: اسرائیلیوں کو بتانا کہ جو ربّ کو سلامتی کی قربانی پیش کرے وہ رب کے لیے ایک حصہ مخصوص کرے۔ وہ جلنے والی یہ قربانی اپنے ہاتھوں سے ربّ کو پیش کرے۔ اس کے لیے وہ جانور کی چربی اور سینہ ربّ کے سامنے پیش کرے۔ سینہ ہلانے والی قربانی ہو۔ امام چربی کو قربان گاہ پر جلادے، جب کہ سینہ ہارون اور اس کے بیٹوں کا حصہ ہے۔ قربانی کی داہنی ران امام کو اٹھانے والی قربانی کے طور پر دی جائے۔ وہ اس امام کا حصہ ہے جو سلامتی کی قربانی کا خون اور چربی چڑھاتاہے‘‘۔(عہد نامہ عتیق، کتاب احبار، باب۷، آیت۲۸-۳۴)
گناہ اور قصور کی قربانی کے لیے ایک ہی اصول ہے جو امام قربانی کو پیش کرکے کفارہ دیتا ہے اس کو اس کا گوشت ملتاہے۔ اس طرح جو امام کسی جانور کوبھسم ہونے والی قربانی کے طور پر چڑھاتا ہے اسی کو جانور کی کھال ملتی ہے‘‘۔ (ایضاً، آیت ۷-۹)
بائبل میں قربانی کا گوشت قربانی کے دن ہی استعمال کرنے کا حکم دیا گیاہے۔اگلے دن کے لیے قربانی کا گوشت بچا کر رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ توریت میں ہے:’’گوشت اسی دن کھایا جائے جب جانور ذبح کیا گیا ہو، اگلی صبح تک کچھ نہیں بچنا چاہیے۔ اس قربانی کا گوشت صرف اس صورت میں اگلے دن کھایا جاسکتا ہے جب کسی نے منت مان کر یا اپنی خوشی سے اسے پیش کیاہے۔ اگر کچھ گوشت تیسرے دن تک بچ جائے تو اسے جلانا ہے۔ اگر اسے تیسرے دن بھی کھایا جائے تو رب یہ قربانی قبول نہیں کرے گا۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اسے ناپاک قرار دیا جائے گا‘‘۔(عہدنامہ عتیق، کتاب احبار، باب ۷، آیت ۱۵-۱۸)
قرآن میں قربانی کے گوشت کو آنے والے دنوں میں استعمال کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ قرآن میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور غریبوں اور ناداروں کوبھی کھلاؤ۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:
فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۰ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰہَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۳۶ (الحج ۲۲: ۳۶)تم اس قربانی میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت پسند محتاج اور فقیر کو بھی کھلاؤ۔ اسی طرح ہم نے اسے تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں قربانی کا گوشت تین دنوں سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا تھا، بعد میں آپؐ نے اجازت دے دی اور اس کی حکمت بھی بیان فرمائی۔
حضرت نبیشہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم نے تم لوگوں کو تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے اس واسطے منع کیا تھا کہ وہ تم سب لوگوں کو پہنچ جائے۔ اب اللہ تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی ہے ۔ اب تم اسے کھاؤ، بچا کے بھی رکھو اور (صدقہ کرکے) ثواب بھی حاصل کرو۔ سنو! یہ دن کھانے پینے اور اللہ عزوجل کو یاد کرنے کے ہیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب حبس لحوم الاضاحی)
اس مضمون کی ایک تفصیلی روایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بھی مروی ہے۔(ایضاً)
بائبل میں جانور کی جگہ پرندوں کی قربانی کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ یہ قربانی ان لوگوں کے لیے ہے جو جانور قربان کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ توریت میں ہے ’’اگر قصوروار شخص غربت کے باعث بھیڑ یا بکری نہ دے تو وہ رب کو دوقمریاں یا دو جوان کبوتر پیش کرے۔ ایک گناہ کی قربانی کے لیے اور ایک بھسم ہونے والی قربانی کے لیے‘‘۔(عہد نامہ عتیق، کتاب احبار، باب۵،آیت۷-۸)
قرآن میں صرف ’انعام‘ چوپایوں کی قربانی کا حکم ہے۔ پرندوں کی قربانی کا حکم نہیں ہے۔ اسی لیے قربانی صاحب ِنصاب یعنی مال دار لوگوں پر واجب کی گئی ہے۔ نادار لوگوں پر قربانی نہیں ہے۔ کفارہ میں بھی مسکینوں کوکھانا کھلانے اور روزہ رکھنے کا حکم دیاگیا ہے۔ جو لوگ غریب اور نادار ہیں ان سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ ان کے لیے دوسرے احکام ہیں جو ان کی حالت کے مطابق ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’ اضحی کے دن مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر فرمایا ہے‘۔ ایک شخص کہنے لگا:’ اگر میں مادہ اونٹنی یابکری کے علاوہ کچھ نہ پاؤں توکیا اسی کو ذبح کردوں؟‘ آپؐ نے فرمایا کہ ’نہیں۔ تم بال کترلو، ناخن تراش لو، مونچھ کترلو اور زیر ناف کے بال صاف کرلو، اللہ رب العزت کے نزدیک یہی تمھاری پوری قربانی ہے‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی)
بائبل میں قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے مقامات کی تعیین کی گئی ہے۔ ان مخصوص مقامات کے علاوہ کہیں اور قربانی نہیںکی جاسکتی، اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی۔ توریت میں وضاحت ہے:’’ر ب نے موسیٰ سے کہا ہارون، اس کے بیٹوں اور تمام اسرائیلیوں کو ہدایت دینا کہ جو بھی اسرائیلی اپنی گائے یابھیڑ بکری،ملاقات کے خیمہ کے دروازہ پررب کو قربانی کے طور پر پیش نہ کرے بلکہ خیمہ گاہ کے اندر یا باہر کسی اور جگہ پر ذبح کرے، وہ خون بہانے کا قصوروار ٹھیرے گا۔ اس نے خون بہایا ہے اور لازم ہے کہ اسے اس کی قوم میں سے مٹایا جائے۔ اس ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیلی اب سے اپنی قربانیاں کھلے میدان میں ذبح نہ کریں بلکہ رب کو پیش کریں۔ وہ اپنے جانوروں کو ملاقات کے خیمہ کے دروازہ پر امام کے پاس لاکر انھیں رب کو سلامتی کی قربانی کے طور پر پیش کریں۔ امام ان کا خون ملاقات کے خیمے کے دروازہ پر کی قربان گاہ پر چھڑکے اور اس کی چربی اس پر جلادے۔ ایسی قربانی کی خوشبو رب کو پسند ہے‘‘۔ (عہدنامہ عتیق، کتاب احبار، باب۱۷، آیت۱-۷)
اس کے برخلاف قرآن میں قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے مقامات کی تعیین نہیں کی گئی ہے۔ قربانی کسی بھی پاک صاف جگہ کی جاسکتی ہے خواہ قربان گاہ میں ہو یا کھلے میدان میں۔
بائبل میں اماموں کو قوم کی طرف سے قربانی کرنے کا مجاز بنایا گیا ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل اپنی خطاؤں کے کفارہ کی قربانی اور رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی قربانی انھی اماموں کے ذریعے کراتے تھے۔
توریت میں ہے:’’موسیٰ نے ہارون اور اس کے بچے ہوئے بیٹوں اِلی عزر اور اتمر سے کہا: غلّہ کی نذر کا جو حصہ رب کے سامنے جلایا نہیں جاتا اسے اپنے لیے لے کر خمیری روٹی پکانا اور قربان گاہ کے پاس ہی کھانا کیوں کہ وہ نہایت مقدس ہے۔ اس مقدس جگہ پر کھانا کیوں کہ وہ رب کی جلنے والی قربانیوں میں سے تمھارے اور تمھارے بیٹوں کا حصہ ہے۔ کیوں کہ مجھے اس کا حکم دیا گیاہے۔ جو سینہ ہلانے والی قربانی اور داہنی ران اٹھانے والی قربانی کے طور پر پیش کی گئی ہے وہ تم اور تمھارے بیٹے بیٹیاں کھاسکتے ہیں۔ انھیں مقدس جگہ پر کھانا ہے۔ اسرائیلیوں کی سلامتی کی قربانیوں میں سے یہ ٹکڑے تمھارا حصہ ہیں۔ لیکن پہلے امام ران اور سینے کو جلنے والی قربانیوں کی چربی کے ساتھ پیش کریں۔ وہ انھیں ہلانے والی قربانی کے طور پر رب کے سامنے ہلائیں۔ رب فرماتا ہے کہ یہ ٹکڑے ابد تک تمھارے اور تمھارے بیٹوں کا حصہ ہیں‘‘۔(ایضاً، آیت ۱۲-۱۶)
بنی اسرائیل کے امام قوم کی طرف سے قربانی کرتے تھے اور اس قربانی میں ان کا حصہ مقرر تھا۔ قرآن میں قربانی کرنے کے لیے امام یا مذہبی رہنما کی قید نہیں لگائی گئی ہے، بلکہ ہر وہ مسلمان جو خداترس ہے اور قربانی کی دعا واحکام سے واقف ہے قربانی کرسکتاہے۔ قربانی کے جانور میں قربان کرنے والے اماموں کاحصہ بھی مقرر نہیں کیا گیاہے۔
بائبل کے مطابق قربانی کا مخصوص حصہ اللہ کو پیش کیا جائے اور اس کی شکل یہ ہے کہ اسے آگ میں جلادیا جائے کیوں کہ جلتے ہوئے گوشت کی خوشبو اللہ کو پسند ہے۔ توریت میں حضرت ہارونؑ کے بارے میں کہا گیا ہے:’’پھر اس نے اس کی چربی ، گردوں اور جوڑ کلیجی کو قربان گاہ پر جلادیا، جیسے ربّ نے موسٰی کو حکم دیا تھا ویسے ہی ہارونؑ نے کیا۔ بچھڑے کا گوشت اور کھال اس نے خیمہ گاہ کے باہر لے جاکر جلادی‘‘۔(ایضاً، باب ۹، آیت ۱۰-۱۲)
قرآن پاک میں قربانی کے گوشت کو جلانے کا حکم نہیں ہے بلکہ فرمایا: قربانی کے جانور کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا، البتہ تمھارا تقویٰ اللہ کو پہنچتاہے۔ اللہ نے اس کو تمھارے لیے اسی طرح مسخر کیا ہے تاکہ تم اللہ کی ہدایت پر اس کی تکبیر کرو اور احسان کرنے والوں کو خوش خبری سنادو۔(الحج ۲۲:۳۷)
توریت میں قربانی کی اقسام اور احکام جس تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، وہ انجیل میں مفقود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مواعظ میں قربانی کرنے کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے بلکہ ایک جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول بیان کیاگیاہے:’’پہلے جاؤ اورکلام مقدس کی اس بات کا مطلب جان لو کہ ’’میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں‘‘ کیوں کہ میں راست بازوں کو نہیں بلکہ گناہ گاروں کو بلانے آیا ہوں‘‘۔ (عہد نامہ جدید، انجیل متی، باب۹، آیت ۱۳)
اس کا یہ مطلب نہیںہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے قربانی کا حکم نہیں دیا، بلکہ وہ اخلاقی اور روحانی اعمال اور مذہبی اصلاح پر زور دیتے تھے۔ حضرت موسٰی کی شریعت پر دل وجان سے عمل کرنے کی تبلیغ کرتے تھے۔ توریت میں قربانی کے جو احکام تفصیلاً موجود ہیں، انھی کے نفاذ کو کافی سمجھتے تھے۔ ان کا مشہور قول انجیل میں موجود ہے:’’یہ نہ سمجھنا کہ میں موسوی شریعت اور نبیوں کی باتوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ ان کی تکمیل کرنے آیا ہوں‘‘۔(ایضاً، باب ۵، آیت ۱۷)
قرآن میں قربانی کے احکام اجمالاً بیان کیے گئے ہیں، جب کہ قربانی کے تفصیلی احکام، فضیلت، شرائط اور عملی مسائل حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔
دورِحاضر میں دنیا کی اجتماعی سیاست وانفرادی زندگی کا محور کچھ اس طرح معاشی مسائل اور رزق و روزگارکی فراہمی کے پیچیدہ اُمور کے ساتھ منسلک ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی کی ہرتگ و دو صرف کسب ِمعاش اور مال جمع کرنے تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر ، اس وقت جن معاشی مسائل میں سب سے زیادہ الجھے ہوئے ہیں، اور جو انسانی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بھی ہے، وہ قدرتی وسائل کی کم ہوتی مقدار اور ان وسائل اور ذرائع پیداوار پر سرمایہ داروں کا قبضہ کرنے کی اندھی ہوس ہے۔اس کے علاوہ غربت کی سطح میں روز افزوں اضافہ، تلاش معاش کے لیے ہنرمندی اور روزگار کے لیے تکنیکی تخصص کی لازمی شرط، پیداوارا ور دولت پر گنتی کے چند افراد کا قبضہ، معیشت میں جاری زر کی وسعت کی وجہ سے پیداشدہ مسائل بھی اس وقت حساس دلوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ ۱؎
ابھی صرف دو صدی قبل تک انسان اور معاشرہ ،خواہ جدید ہو یا روایتی ، اس کے رزق اور روزگار کا ذریعہ صرف قدرتی وسائل، زراعت، زرعی پیداوار کی تجارت اور ان سے جڑی مختلف خدمات کی بجاآوری تک ہی محدود ہوتا تھا۔ دنیا کے ہر حصے میں انسان انھی قدرتی وسائل سےاپنی ہر ضرورت کی کفالت کر لینے کا اہل تھا ، نیز ہر شخص کو کم یا زیادہ ان وسائل تک رسائی بھی حاصل تھی۔ وہ ممالک ہی ترقی یافتہ اور تجارت و حرفت میں آگے تھے، جن کے پاس زرخیز زرعی زمینیں اور دیگر قدرتی وسائل تھے۔۲؎ خود برصغیر ہند کی معاشی تاریخ کے اعداد وشمار اس بات پر شاہد ہیں کہ مغلیہ سلطنت کے آخری دور تک جب متحدہ ہندستان ایک مکمل زرعی اور صرف گھریلو صنعت پر مشتمل معاشی قوت تھا، ۱۸۲۰ء میں اس کی کل قومی آمدنی پوری دنیا کی آمدنی کا ۲۷ فی صد ہوا کرتی تھی اور عالمی تجارت میں ہندستان کا حصہ بھی ۲۴ فی صد کے آس پاس تھا۔۳؎ لیکن اٹھارھویں صدی آتے آتے دنیا میں سائنسی ترقی ، نت نئی مشینوں کی ایجاد اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب نے پوری دنیا میں پیداوار کے تمام وسائل و ذرائع کو مشین اور سرمائے کےساتھ کچھ اس طرح منسلک کردیا کہ اب ان دونوں کے بغیر کسی طرح کی پیداوار، زراعت، تجارت،معاشی جدوجہد اورخدمات کا تصور ہی محال ہے۔
سائنسی و تکنیکی ایجادات اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں بڑی بڑی مشینیں، کارخانے وجود میں آتے گئے، جنھوں نے وسائل پیداوار کو زمین اور زراعت سے ہٹا کر مشینوں ، کمپنیوں اور بڑے بڑےکارخانوں میں منتقل کردیا ، ملازمت کو ایک جگہ مرتکز اور پورے نظام پیداوار کو ان پر منحصر کردیا۔ نظام معیشت و تجارت جو اب تک صرف قدرتی وسائل، زراعت و تجارت پر منحصر ہونے کی وجہ سے نہایت وسیع البنیاد، متفرق ، مختلف النوع اور صرف انسان کی ذاتی صلاحیت، جسمانی طاقت اور ہنرمندی کا مرہون منت ہوا کرتا تھا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے سرمایہ ،کمپنی اور خودکار مشینی نظام کے تحت صرف چند بڑے سرمایہ دار کمپنی مالکان کے تحت ہو گیا۔
دنیا کے جدید معاشی ماہرین نے نظام پیداوار ، تقسیم دولت و آمدنی ، وسائل و ذرائع کے استعمال اور ان کے مساوی اختصاص کے نام پر کچھ طریق کار وضع کیے ہیں، جن کو نظام معیشت کہا جاتا ہے۔ ہر ملک یا معاشرہ اپنے قدرتی وسائل و ذرائع پیداوار کی تقسیم ، پیداوار، خدمات اور آمدنی کی تخصیص و تقسیم کے ساتھ عوام کو روزگار و دیگرعوامی سہولیات بہم پہچانے کے لیے جو طریقۂ کار وضع کرتا ہے، اسے عام زبان میں نظام معیشت یا معاشی نظام کہاجاتا ہے۔ ماہرین نے اس سلسلے میں مختلف اوقات میں دو طریقۂ کار وضع کیے ہیں: پہلا سرمایہ دارانہ نظام اوردوسرا اشتراکی نظام۔
سرمایہ دارانہ نظام میں من مرضی منافع کے تعین کی آزادی کے ساتھ اثاثہ جات کی ذاتی ملکیت اور پسند کے مطابق اشیائے خور و نوش کے انتخاب کی سہولت ہونے کی وجہ سے یہ نظام معیشت عوام میں آسانی سے قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس وقت یہ پوری دنیامیں اور خاص طور سے دولت مند ممالک اور امیر معاشروں میں مقبول ہے ۔ اس نظام معیشت کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں وسائل پرمالکانہ قبضہ کی آزادی، من مانی قیمتیں اور بے تحاشا منافع کمانے کی ہوس پرستانہ آزادی کی وجہ سے پوری دنیاکے وسائل و ذرائع چند مخصوص سرمایہ دار گروہوں اور طالع آزماؤں کے قبضے میں چلے گئے، جس کی وجہ سے دنیامیں غربت، محتاجی اور غیروں پر انحصار میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ پوری دنیا کا نظام معیشت اس وقت پوری طرح سرمایہ داروں کے چنگل میں ہونے کی وجہ سے عوام کا معاشی استحصال عروج پر ہے، جس سے آزادی کی کوئی صورت موجودہ حالات میں نظر نہیں آرہی ہے۔
پیداواری عناصر کی یہ غیر منطقی اور انسانی فطرت کواخلاقی و مذہبی اقدار کی بنیاد پر جائز و ناجائز سے ماورا قرار دینے والی تقسیم، انسانی فطرت سے میل نہیں کھاتی۔ اسی بنیاد پر استدلال کیا جاتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظام معیشت قوانین فطرت کے بنیادی اصولوں کےعین مخالف اور تقسیم وسائل اور نظامِ پیداوار کے قدرتی طریقوں سے بالکل میل نہیں کھاتے۔ مگر طرفہ تماشا دیکھیے کہ یہ دونوں نظام معیشت دنیا میں عدل و انصاف کی بنیاد پر وسائل کی تخصیص ، روزگار کی فراہمی کے ساتھ معاشی پیداوار اور آمدنی کی مساوی تقسیم کادعویٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ اپنے ان دعوؤں کے برعکس ان نظاموں نے دنیا کے ہرحصے میں عوام کو صرف اور صرف ظلم، ناانصافی ، عدم مساوات ، قدرتی وسائل پر ناجائز قبضہ اور ارتکازِ دولت کا ہی تحفہ دیاہے۔
اشتراکی نظام انسانیت کے فطری تقاضوں اور انسانی معاشرے کے قدرتی اصولوں کے بالکل خلاف ہونے کے ساتھ ایک فلاحی ریاست کی تشکیل میں بھی پوری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ دنیا میں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ معاشی مساوات اور سماجی انصاف کے نام پر اس نظام کے تحت عوام پر ظلم،ناانصافی اور ریاستی جبر کی انتہا کردی گئی تھی ،لیکن نہ تو مبنی بر مساوات تقسیم دولت کا نظام ہی قائم ہوسکا ،نہ ذرائع وسائل پر عوام کو کسی طرح کا تصرف حاصل ہو سکا، اور نہ غربت اور تنگ دستی کے مسائل اوران کی وجوہ پر قدغن لگائی جا سکی۔
بالکل یہی حال اس وقت دنیا میں جاری سرمایہ دارانہ نظام کا بھی ہے جہاں انسانی ہنرمندی اور کام کی صلاحیت کی بنیاد پر حصول روزگار و آمدنی کا ایک مخصوص طریقۂ کار وضع کیا گیاہے۔ آمدنی اوروسائل کی تقسیم میں انصاف و مساوات کا ڈھنڈورا دنیا میں پیٹا جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ قدرتی وسائل، عوامی دولت اور ذرائع پیداوار کا چند بااثر افراد کے ہاتھوں میں ارتکاز اور اس کے ذریعے عوام پرمعاشی ظلم واستحصال کا پورا نیٹ ورک ہے، جس میں عام آدمی پرفکری جبر و معاشی تسلط نافذ کردیا گیا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں فی الوقت پوری دنیا جکڑی ہوئی ہے۔ قدرتی وسائل پر قبضے کے ساتھ دولت و سرمایہ کا ارتکاز اس حد تک وسعت اختیار کر گیا ہے کہ عام آدمی کی نجی زندگی اور مسائل روزگار کے ساتھ اس کی قوت فیصلہ وعمل بھی چند بڑے سرمایہ داروں اورصنعت کاروں کےپاس گروی اور ان کے زیر دست ہے۔۴؎
اس وقت دنیا بھر میں ایک طرف روزگار کے ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں غربت لگاتار بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف سرمایہ داروں و صنعت کاروں کی دولت میں بے انتہا اضافہ ہوتا جارہا ہے، لیکن ستم ظریفی یہی ہے کہ مساوی حقوق اور سماجی انصاف کے نام پر معاشی ظلم اور انسانیت کا استحصال بھی اپنے عروج پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت جو ۷۰برس بعد خود اپنے مراکز میں موت کے گھاٹ اُتر گئی، اور سرمایہ داری دونوں نظام صرف انسانی ہوس پرستی پر مبنی ہیں، اور کسی جواب دہی کے احساس سے بالکل آزاد ہونے کی وجہ سے کہیں معاشی انقلاب کے نام پر دستوری ہیر پھیر سے، تو کہیں سرمائے اور دولت کی طاقت سے معاشی وسائل پر قبضہ کرتے ہیں اور عوام کو آزادئ فکر و عمل کے سبز باغ دکھا کرمعاشی غلام بنانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔
یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی ، یہ بحث و تکرار کی نمایش
نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمایش
تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوطِ خم دار کی نمائش ، مریز و کج دار کی نمایش
جہانِ مغرب کے بت کدوں میں، کلیسیاؤں میں، مدرسوں میں
ہوس کی خوں ریزیاں چھپاتی ہے عقلِ عیّار کی نمایش
علامہ محمد اقبال نے ان اشعار کے ذریعے تمام انسانوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ تمام کے تمام جدید معاشی نظریات صرف مال و جائیداد اکٹھا کرنے کے لیے انسانی ہوس کو عقلی و نقلی پردے میں لپیٹ کر عوام کا دھیان بٹانے کی کوشش ہے۔ یہی چیز جدید معاشی نظام کی سب سے بڑی خصوصیت بن کر سامنے آتی ہے کہ وسائل پیداوار اورانسانی سرمایہ کو اس طرح سے اپنے قبضہ میں لیا جائے کہ عوام کو یہ محسوس ہوتا رہے کہ یہ ان کی فلاح و بہبود اوربہتر زندگی کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن پس پردہ مقصد انھیں غلام بنانے اور وسائل پر چند مخصوص لوگوں کےقبضے کو قائم رکھنے کا ہے۔
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۱۹ (الذاریات ۵۱:۱۹)ان کے مالوں میں سائلوں اور ناداروں کا حق ہے۔
قرآن کریم میں یہ اور اس طرح کی دیگر آیات مسلسل اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ اس دنیا میں انسان کے پاس جوبھی مال و دولت اور جائیداد و سرمایہ ہے وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے اور اس دولت میں ان تمام لوگوں کا حق اور حصہ ہے جو اللہ کی اس عطا سے محروم ہیں۔ اسلامی نظام میں قرآن اور حدیث کے یہی احکامات اجتماعی فلاح کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔
جب ہم ذاتی اغراض، منفعت اور استحصال سے پُرموجودہ نظام معیشت کا متبادل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو ایک طرف ہمارے پیش نظر سرمایہ دارانہ نظام میں موجودملکیت، منفعت اور بے لگام خواہشات پر بند باندھنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ان عناصر سے بھی معاشرے کو پاک کرنا ہوتا ہے، جہاں معاشی افعال و حرکات کو اپنی پسند و ناپسند کے مطابق جاری رکھنے کے لیے وسائل کی اجتماعی ملکیت کی حوصلہ افزائی پر بھی قدغن لگا دی جاتی ہے۔اس لیے ان دونوں نظامہائے معیشت سے الگ معاشیات کا ایک ایساطریقۂ کار ہم پیش کر سکیں جس میں چند لوگوں کے ذاتی مفاد اور بے حساب منافع کے لیے انسانوں کا استحصال نہ ہو رہا ہو اور ساتھ ہی وسائل ، پیداوار اور آمدنی کی منصفانہ تقسیم کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔
معاشرے میں جاری معاشی ناہمواری کے ان نو آمدہ مسائل کو حل کرنے، وسائل و مواقع میں مساوات کی فراہمی ، ازالۂ غربت اور آمدنی و دولت کی منصفانہ تقسیم کے نام پر اشتراکیت نے نجی ملکیت کے بجائے اجتماعی ملکیت ، منافع کی جگہ خدمات کے تناسب سے مزدوری اور نظام معیشت میں فیصلہ کن عنصر بازار کے عوامل کی جگہ حکومتی احکام کی بالا دستی کا فارمولا دیا۔ لیکن صنعتی معاشرے میں جاری معاشی ناہمواری، معاشرتی استحصال اور حکومتی جبر پرقدغن لگانے اور مبنی برمساوات ایک عادلانہ نظام معیشت برپا کرنے میں کارل مارکس کا سوشلزم بھی یکسر ناکام ہوگیا۔
دنیا میں جہاں بھی یہ نظام نافذ کیا گیا وہاں معاشی ظلم و استحصال کاعروج اور حکومتی جبر کی انتہا دیکھنے میں آئی، جس نے عوام کی قوت فیصلہ و عملی صلاحیت کو بھی کافی حدتک متاثر کردیا اور یوں یہ نظام بھی معاشرے اور معیشت کے تئیں ایک تازیانہ ہی ثابت ہوا۔ اس نظام معیشت کی ناکامی کی واضح مثالیں سوویت روس اور مشرقی یورپ کے ساتھ چین ، وینزویلا ، جیسے کئی ممالک تھے، جہاں اس جابرانہ نظام کی وجہ سے معیشت بری طرح ناکام ہوئی، اور بالآخر ان ملکوں کے ساتھ ہی دیگر ممالک نے بھی اس نظام کو عملی طور پر خیر باد کہہ دیا، اگر چہ نظریاتی طور پر بائیں بازو کے دانشوروں کا ایک طبقہ اس کی بازیافت ِنو کے لیے کوشاں ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر پیداوار اور تقسیم آمدنی کے غیر فطری طریقۂ کاراور کمزور طبقات کے استحصال کو روکنے اور اس سے باہر نکلنے کا واحد متبادل اشتراکی نظام معیشت ہے ، لیکن یہ نظریاتی دانشور بھی اس سمت میں عملی طور پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔۵؎
مذکورہ دونوں نظامہائے معیشت، خواہ وہ آنجہانی اشتراکیت ہو یا پژ مُردہ اور خون خوار سرمایہ داری، سبھی تقسیم دولت کے منصفانہ نظام کی عمل داری ، وسائل پر مساوی حقوق ، مواقع میں ہرکس و ناکس کی برابری، ازالۂ غربت اور استحصال سے پاک ہونے کاپر فریب نعرہ بلند کرتے رہے لیکن احتساب اور جواب دہی کے فقدان کے ساتھ نظام کے اندر موجود ظلم اور نا انصافی کے بنیادی ماخذ کو ختم کرنے یا اس پر کاری ضرب لگانے کا کوئی عملی نمونہ پیش کرنے سے یکسر قاصر رہے۔ اشتراکیت نے مساوات کے نام پر نجی اور ذاتی ملکیت کے حق پر مکمل پابندی لگادی، روزگار اور تجارت میں انسان کی مرضی اور پسند کے بجائے نظام کے تحت دیئے گئے وسائل اور مواقع کی پابندی لازمی قرار دی گئی، اور اس ناقابل عمل پابندی اور غیر عملی مساوات کا نتیجہ دنیا کے سامنے جہاں اس نظام کے مکمل خاتمے کی صورت میں ظاہر ہوا ، وہیں سرمایہ داری نے انسانی حقوق، جنسی مساوات، حق ملکیت اور لامحدود منافع کی آڑ میں معاشی ذرائع اور قدرتی وسائل پر چند مخصوص گروہوں کے قبضے کی راہ آسان کرکے پوری بنی نوع انسانیت کو چند طالع آزماؤں کے یہاں گروی رکھ دیا۔
دورِحاضر میں ترقی کا صرف ایک رہنما اصول ہے کہ انسانی آبادی کے چند مخصوص گروہوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اشیائے تعیش کی فراوانی ہونی چاہیے اور اس کے آسان تر حصول کو یقینی بنانے کے لیے دنیا کے تمام وسائل و ذرائع پیداوار پر چندطاقت ور عناصر کا مکمل کنٹرول ہونا چاہیے، خواہ اس کے لیے معاشی ظلم و ناانصافی کوکتنا ہی فروغ دینا پڑے۔ پیداواری حقوق و مواقع کی مساوات، معاشی وسائل کو متحرک کرنے کا عقلی و منطقی جواز اور تقسیم دولت کےعادلانہ طریقۂ کار کا دعویٰ سبھی کرتے ہیں، لیکن موجودہ وقت میں دنیا کے کسی بھی معاشی نظام کے اندر یہ خصوصیات موجود نہیں ہیں۔
دنیا کے تمام ماہرین معاشیات نے اشتراکیت اور سرمایہ داری، دونوں نظاموں کا مشاہدہ اور عملی تجربہ کیا ہے اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ازالۂ غربت، معاشی عدل و انصاف کے اجتماعی نفاذ اور عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے متعلقہ مقاصد کے حصول میں مذکورہ معاشی نظامِ معیشت یکسر ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام انسانیت کے فطری تقاضوں اور قانون قدرت کے ثابت شدہ اصولوں کے برعکس صرف چندمعروضی نظریات اور سماجی متبادل کی بنیاد پر معاشی و سماجی انصاف کی راہ ہموار کرنے کے خوگر ہیں، لیکن حقوق و فرائض کی منصفانہ بجا آوری اور پیداواری مواقع کی عادلانہ تقسیم کی راہ میں حائل بنیادی رکاوٹوں اور عوامل پر کام کرنے سے یکسر گریزاں ہیں۔
موجودہ دور میں چند زر پرست حکمرانوں اور ہوس پرست نظریہ سازوں کاسماجی انصاف اور جنسی مساوات کا پر فریب نعرہ نظامہائے معیشت و سیاست میں صرف گنتی کے کچھ افراد کی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور ذوق حکمرانی کا آسان ترین راستہ ہے، جس میں انسانی اخلاق و کردار کی بلندی اورانسانیت کی فلاح و ترقی کے بجائے صرف نفسانی خواہشات اور دنیاوی لذتوں کے حصول کو ہی تمام انسانی تگ و دواورمحنت و مشقت کا حاصل قرار دے دیا گیا ہے اور ان لذتوں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے معاشی قوانین اورنظریات وضع کیے جاتے ہیں۔
دوسری طرف عالمی سطح پر جاری سودی نظام مالیات و معاشیات نے اپنے بنائے ہوئے اداروں: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) ، عالمی بنک، عالمی تجارتی تنظیم اور اس جیسی دوسر ی تنظیموں کے ذریعے پوری عالمی معیشت کے نظامِ پیداوار اور تقسیمِ آمدنی و دولت کے طریقۂ کار کو سودی نظامِ مالیات سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ کوئی ملک یا ادارہ اس کے بغیر تجارت ، ترقی اور معاشی تفوق کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ بنکوں کے ذریعے بظاہر آسان مالیات کی فراہمی ، تجارتی قرض اور مخصوص شرحِ سود پر مبنی سرمایہ کاری اور پیداوار موجودہ معاشی نظام کا ایک ایسا تارِ عنکبوت ہے جو دیکھنے میں بظاہر کمزور نظر آتاہے، لیکن جو بھی ایک بار اس نظام کی پکڑ میں آ گیا اس کی نجات بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد کا عالمی معاشی نظام کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک، خاص طور سے غریب اور ترقی پذیر ممالک، جن کی دنیا میں اکثریت ہے، اس سے گلوخلاصی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔۶؎ یہی وجہ ہے کہ عالمی تجارت میں تبادلے اور ادائیگی کے لیے ڈالر کی مکمل اجارہ داری، جس سے عالمی تجارت میں امریکا کا دبدبہ قائم ہے، اور پوری دنیا میں تیزی سے اپنے دائرۂ کار کووسعت دیتا ہوا سودی سرمائے کا جال اور اس پر منحصر دنیا کا نظام پیداوار جو ارتکازِ دولت و سرمایہ، معاشی ناانصافی، عدم مساوات اور معاشی ظلم کی بنیاد ہے ، اس کو چیلنج کرنے کی حیثیت میں دنیا کاکوئی بھی ملک نہیں رہ گیا ہے۔ (جاری)
1. Top Ten Global Economic Challenges :An assessment of Global Risk and Priorities 2007, Report presented by Brookings Global Economy And Development, http://www. brookings.edu/ research/ amp.
2. Economic Changes in 18th Century, http://www.blinklearning.com/course player/class.
3. Angus Maddison, The World Economy, p 379, table A4.
4. T R Jain, Economic Systems and Problems of Resource Allocation “, in Principles of Economic Analysis VK Global Publications, pp 371-383.
5. Niemietz, Kristian, Socialism: The Failed Idea that Never Dies. http://www.forbes.com/
6. Business Standard,January 31, 2022. http://www.business-standard.com
۱۵؍ اپریل ۲۰۲۳ءکو خرطوم کے باسیوں کی آنکھ گولیوں کے چلنے اور گولہ باری اور فضائی بمباری کے دھماکوں سے کھلی۔ نیلے اور سفید دریائے نیل کے سنگم پر واقع دارالحکومت خرطوم کے تینوں مرکزی اضلاع کے داخلی راستوں پر سوڈانی فوج اور الدعم السریع (Rapid Force) کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی شروع ہوچکی تھی۔ حکومتی انتظامی دفاتر سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کے مرغولے لڑائی کی شدت اور ہولناکی پر دلالت کر رہے تھے ۔
سوڈانی وزیر صحت کے مطابق اس وقت تک اس لڑائی میں ۵ہزارافراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جب کہ ۶ہزار سے زائد شدید زخمی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ بچے، مرد اور خواتین، بے گھر اور بے در ہوچکے ہیں۔
یہ مسلح ملیشیا جسے’ریپڈ فورس‘ کا نام دیا گیا تھا، ۲۰۱۳ ءمیں اس وقت قائم کی گئی تھی جب مقتدرہ کو دارفور کے علاقے میں علیحدگی پسند مسلح تحریک کا سامنا تھا ۔مسلح تنظیمیں یکے بعد دیگرے قصبوں اور شہروں پر قبضہ کرتی چلی جارہی تھیں اور اس کھلے صحرائی علاقےاور دُور دراز کے پہاڑی علاقوں میں ا ن کے سامنے سوڈان کی مسلح فوج بے بس تھی ۔خصوصاً اس لیے بھی کہ باقاعدہ فوج کی جنگی تربیت صحرائی جنگ لڑنے کی تھی ہی نہیں اور نہ وہ ایسی جنگ لڑنے کے لیے ضروری اسلحے اور وسائل و نقل و حمل سے لیس تھی۔ عشروں تک یہ فوج جنوبی سوڈان کے جنگلوں میں جنگ لڑتی آئی تھی۔ اس کی تربیت اور اس کے لیے اسلحہ بھی اسی نوعیت کی جنگ لڑنے کے لیے فراہم کیا گیا تھا ۔ دوسری طرف دارفور کے علیحدگی پسندوں کا اصل ہتھیار ان کی تیز ترین نقل و حرکت ،گوریلا جنگی چالیں، ’فور بائی فور گاڑیاں‘ اور ان پر نصب مشین گنیں تھیں، جن کا مقابلہ سوڈان کی باقاعدہ فوج اور اس کے بھاری بھرکم اسلحے کے بس میں نہیں تھا ۔
لہٰذا، فوج کے منصوبہ سازوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ دارفور کے علاقے میں موجود قبائلی جنگجوؤں کو منظم اور مسلح کیا جائے ۔علیحدگی پسندوں کے مقابل انھیں بھی ویسی ہی ’فور بائی فور گاڑیاں‘ اور ہلکی مشین گنیں اور آٹومیٹک رائفلیں دی جائیں اور انھیں تربیت دی جائے تاکہ یہ دشمن کا مقابلہ اسی چابک دستی سے کرسکیں ۔اس مقصد کے لیے علاقے کے ان عرب جنگجو قبائل کے افراد کو منظم کیا گیا جو پہلے ہی خانہ جنگی اور علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے اور انتقام کی آگ میں سُلگ رہے تھے ۔عوامی زبان میں ان کا نام ’جنجوید‘ تھا یعنی گھڑسوار سپاہی۔ جلدہی علاقے میں ان جنگجو سپاہیوں کی دھاک بیٹھ گئی اور انھیں یکے بعد دیگرے کامیابیاں ملنے لگیں،بہت سے علاقے جو باغیوں کے زیر تسلط تھے یکے بعد دیگرے وا گزار ہونے لگے۔تاہم، اس ساری کارروائی میں باقاعدہ فوجی ڈسپلن کا نہ صرف فقدان تھا بلکہ طاقت کے استعمال میں حد سے تجاوز ہی اس فورس کا طرۂ امتیاز تھا۔’جنجوید‘ پر تسلسل کے ساتھ انسانیت کے خلاف جرائم ،قتل عام اور نسل کشی جیسے الزامات لگتے رہے ۔
دوسری طرف خرطوم کے فیصلہ ساز اپنے فیصلے کی اصابت پر داد و تحسین وصول کرنے میں لگے ہوئے تھے اور نتائج و عواقب سے بے نیاز ہوکر اس ریپڈ فورس کے لیے ریاست کے بجٹ میں بڑے بڑے وسائل رکھے جارہے تھے۔ اس وقت بھی جہاندیدہ لوگوں نے اس سارے عمل اور اس کے خوف ناک نتائج و عواقب سے یہ کہہ کر خبردار کیا تھا کہ ’’ایک ہی ریاست میں دو فوجیں نہیں ہوسکتیں ‘‘۔لیکن اس رائے کو کوئی وقعت نہیں دی گئی اور ایسے خیالات کے مالک بہت سے افسران کو فارغ کردیا گیا۔
تاہم، اصلاح احوال کی خاطر ۲۰۱۷ء میں سوڈانی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا، جس کا نام Rapid Forces Act رکھا گیا ۔اس قانون میں صاف لکھا تھا کہ یہ ریپڈ فورس ،سوڈان کی باقاعدہ افواج کے کمانڈر ان چیف کے تابع ہوگی۔ سیکڑوں فو جی افسروں اور ملٹری انتظامیہ کے دیگر ارکان کو ڈیپو ٹیشن پر اس ’جنجوید فور س‘ میں تعینات کیا گیا جنھوں نے انھیں لڑنے کی تربیت بھی دی اور جنگی چالیں بھی سکھائیں۔ تاہم، اس سب کے باوجود مجموعی طور پر اس ملیشیا کا رنگ ڈھنگ قبائلی ہی رہا اور قائد اعلیٰ کی حیثیت سے اس پر گرفت جنرل حمیدتی کی رہی، جن کا تعلق اسی علاقے کے طاقت ور قبیلے دقلو سے ہے۔
۲۰۱۵ءمیں یمن کی خانہ جنگی شروع ہوئی اور محمد بن سلمان نے عرب فوجی اتحاد قائم کیا تو سوڈان کی مسلح افواج کے ساتھ اس ’جنجویدفورس‘ کے سپاہی بھی دادِ شجاعت دینے یمن پہنچے ۔اس طرح بین الاقوامی فرنٹ پر بھی انھیں اپنی لڑنے کی صلاحیت آزمانے ،جنگی تجربہ حاصل کرنے اور اس کے قائد حمیدتی کو بین الاقوامی شخصیات اور اداروں کے ساتھ خصوصی نجی اور ذاتی تعلقات استوار کرنے کا خوب موقع ملا ۔
۲۰۱۸ءکے اختتام پر خرطوم میں مظاہرے پھوٹ پڑے، جن کا اختتام صدر عمر حسن البشیر کے استعفا اور پھر قید کی صورت میں نکلا۔’ریپڈ فورس‘ کے قائد حمیدتی کو اپنا مفاد اسی میں نظر آیا کہ صدر عمر حسن البشیر کی طاقت ور اور تجربہ کار شخصیت ان کے راستے سے ہٹ جائے اور انھیں طالع آزمائی کا موقع مل سکے، لہٰذا انھوں نے اپنا وزن صدر مخالف پلڑے میں ڈال دیا ۔
اگلے ہی سال ۲۰۱۹ء میں مظاہرین ایک بار پھر سڑکوں پر تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ مسلح افواج یکسر سیاسی عمل سے باہر ہو جائیں۔اس بار مظاہرین نے دھرنے کا مقام سوڈانی افواج کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے چنا ۔دھرنا طویل ہوا تو طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیاگیا اور جس میں مبینہ طور پر سیکڑوں نوجوان جان سے گئے۔اس قتل عام میں ’جنجوید‘ کے سپاہی پیش پیش تھےاور ان پر ایک بار پھر یہ الزام لگا کہ ’’اس ملیشیا نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے‘‘۔حد یہ ہے کہ اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے بننے والے کمیشن کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آسکی ۔
ریپڈ فورس کی خود سری کا آغاز اس وقت ہوا جب عبوری دور کے لیے حکمران کونسل کے سربراہ اور سوڈانی افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبد الفتاح برھان نے ریپڈ فورس ایکٹ کی دفعہ ۵ کو منسوخ کرتے ہوئے اسے کسی بھی قانونی مواخذے سے بالاتر قرار دیا۔مقصد یہ تھا کہ اس کے غیر قانونی اقدامات کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔اس استثنا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریپڈفور س کے قائد حمیدتی نے بہت سے اہم اُمور، جن میں فورس میں نئی بھرتیاں ، نئے اور جدید اسلحے کی خریداری، اپنی فورس اور اپنے لیے مالی وسائل کی فراہمی وغیرہ شامل تھے، ان میں من مانی شروع کردی۔ گذشتہ چار برسوں میں ریپڈ فورس جس کی تعداد صدر عمر حسن البشیر کے دور میں صرف ۲۵ہزار تھی، اس سے چار گنا زیادہ بڑھا کر اس کے سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ کرلی گئی ہے۔اس فورس کی قائدانہ آسامیوں پر اپنے بھائی بندوں اور اقربا، برادری اور قبیلہ کے افراد سے بھر لیا گیا ہے۔مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے علاقے میں موجود اور سونے کی کانوں کے لیے مشہور ’جبل عامر‘ پرمکمل قبضہ کرلیا ہے ۔
دوسری طرف جنرل حمیدتی نے اندرون ملک امور سیاست و سیادت میں بھی تیزی کے ساتھ اپنا اثر و نفوذ بڑھایا۔جنرل عمر حسن البشیر کے بعد بننے والی مجلس حاکمہ میں دو بار نائب صدر مقرر کیے گئے ۔مالیات اور فائنانس کی شد بد نہ ہونے کے باوجود وہ کابینہ کی مالیاتی کمیٹی کے صدر بنے اور طرفہ تماشا یہ تھا کہ نامزد وزیر اعظم جو کہ سوڈان کے معروف معیشت دان ہیں، عبداللہ حمدوک کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اس کمیٹی میں نائب کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حمیدتی کا شروع سے ہی ارادہ قومی ذرائع اور وسائل دولت و ثروت پر قبضہ جمانا اور اسے اپنے ذاتی تصرف اور اختیار و نفوذ میں اضافے کے لیے استعمال کرنا تھا۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں تواتر کے ساتھ یہ امر رپورٹ ہوتا رہا ہے کہ سوڈانی سونا خلیجی ملک متحدہ عرب امارات اور اسی طرح روس میں بھی بلاروک ٹوک اور بڑی مقدار میں فروخت کیا جاتا رہا ہے ۔
یہ بالکل درست بات ہے کہ ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘۔ سوڈان کے معاملے میں بھی حالیہ خانہ جنگی کے اسباب کو برسوں نشوونما پانے کا موقع ملا اور آخرکار ۱۵؍ اپریل ۲۰۲۳ء کو وہ تاریک ایام شروع ہوئے، جن کے گہرے سایوں نے سوڈان اور سوڈانی قوم کے ترقی و خوش حالی اور امن و استحکام اور اس خطے کے لیے رول ماڈل بننے کے سارے خوابوں کو گہنا دیا ۔
مارچ ۱۹۹۴ء جنیوا میں تنظیم اسلامی کانفرنس نے جموں و کشمیر میں ابتر ہوتی انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ’اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن‘ (جو اب ’کونسل‘ کہلاتا ہے) میں ایک مشترکہ قرار داد پیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے طے کیا تھا کہ کمیشن سے منظور ی کے بعد اس پر سلامتی کونسل میں بحث کرائی جائے اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھار ت پر اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کرائی جائیں۔
بھارت کا قریبی دوست اور ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک اشتراکی روس (USSR: سوویت یونین) تمام انسانی ضابطوں کو روندتا ہوا، بھارت کے دفاع میں ہرحد کو پھلانگتا تھا اور جو اس کی حمایت میں مسلسل ویٹو کرتا تھا۔ لیکن جب دسمبر۱۹۹۱ء میں اشتراکی روس ٹوٹ گیا تو روس کے نئے صدر بورس یلسن مغرب سے مدد کے طلب گار تھے۔ دراصل بھارتی قیادت کو خدشہ تھا کہ ماضی کی طرح اب کی بار سلامتی کونسل میں روس اس کی مدد کرنے سے قاصر ہوگا۔ اس دوران بھارتی وزیراعظم نرسمہا راؤ (م:۲۰۰۴ء)نے رات کی تاریکی میں اپنے علیل وزیر خارجہ دنیش سنگھ کے ہاتھ ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی (م: ۲۰۱۷ء)کے نام ایک پیغام بھیجا، جس سے پوری بازی پلٹ گئی۔ یہ تفصیل تو ابھی تک معلوم نہیں ہوئی کہ راؤ نے ایران کو کیا درس دیا؟ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اس قرارداد کی حمایت سے دستبردار ہوکرمشکل وقت میں بھارت کو خاصا سہارا دیا۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے دو وعدے کیے، جن میں: ایک قومی سطح پر اعلیٰ اختیار والے انسانی حقوق کے کمیشن کا قیام، دوسرا بین الاقوامی ریڈ کراس کو نئی دہلی اور سرینگر میں دفتر کھولنے کی اجازت ، نیز اس کے عملے کو مختلف جیلوں میں بند کشمیری نظربندو ں سے وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کی اجازت دینا شامل تھا۔
لیکن ۲۰۱۴ءکے بعد سے ریڈ کراس کے عملے نے تو کشمیری قیدیوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جیلوں میں جانا ہی بند کردیا ہے۔ وہ اپنے اس عمل یا فیصلے کے سلسلے میں آج تک کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کر رہے ہیں۔ اگر معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے بھارتی حکومت ان کو جیلوں میں جانے سے روک رہی تھی یا روک رہی ہے، تو اسے آن ریکارڈ لانے میں کیا رکاوٹ درپیش ہے؟ ریڈکراس کے نمایندوں کے جیلوں میں جانے سے بے نوا قیدیوں کو راحت ملتی تھی کہ دُنیا میں کوئی تو ہے جو اُن کے بارے میں فکرمند ہوکر اُن کے دُکھ درد کو دوسروں کے سامنے پیش کرے گا۔ خاص طور پر جو افراد دُور دراز کی جیلوں میں قید کیے جاتے ہیں اور جہاں ان کے رشتہ داروں کے لیے پہنچنا مشکل ہوتا تھا،یہ ریڈ کراس کا عملہ ہی خیرخبر پہنچانے کا ذریعہ ہوتا تھا۔ ان کی وجہ سے قیدیوں کی صحت وغیر ہ کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سفارتی سطح پر جنیوا میں موجود ان کے صدر دفتر سے اس بار ے میں باز پُرس کی جاتی؟
بتایا جاتا ہے کہ نرسمہماراؤ کی کابینہ میںوزیر وٹھل نارائین گاڈگل (جو بعد میں کانگریس پارٹی کے طویل عرصے تک ترجمان بھی رہے) نے ہی ’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ تشکیل دینے کی تجویز دی تھی اور وزیراعظم راؤ کو یہ تجویز پسند آگئی۔اس کمیشن کے قیام کے قانون پر بحث کا جواب دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر داخلہ شنکر راؤ چوان نے بتایا تھا:’’ یہ کمیشن کسی بھی قسم کی بین الاقوامی جانچ پڑتال کے خلاف بفر کے طور پر کام کرے گا اور حکومت کی لا اینڈ آرڈر مشینری کو متاثر نہیںکرے گا‘‘۔ اس سے بھارت کو یقیناً خاصا فائدہ پہنچا۔
جب بھی کسی عالمی فورم پر بھارت میں انسانی حقوق کی بُری صورتِ حال کا معاملہ اٹھتا ہے، تو مندوبین کے سامنے ایک ہی دفاعی موقف پیش کیا جاتا ہے کہ: ’’انڈیا کے پاس ملک میں ہی حقوق انسانی کی دیکھ بھال کے لیے ایک مضبوط نظامِ کار (میکانز م) موجود ہے‘‘۔مگر حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے بھارت کے اس کمیشن کو درجہ اوّل کی ایکریڈیٹیشن دینے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کی گلوبل الائنس آف نیشنل ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوشنز ، جس کا بھارت بھی ممبر ہے، کا کہنا ہے:’’انسانی حقوق کا یہ کمیشن غیرفعال ہوچکا ہے‘‘۔ دراصل بھارت کی کئی غیر سرکاری تنظیموں نے ہی اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کی توجہ اس طرف دلائی کہ یہ کمیشن خاموش تماشائی بن کر بیٹھا ہوا ہے۔
’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ کاوجود کشمیر کی وجہ سے عمل میں آیا تھا، مگر شاید ہی اس نے کبھی کشمیر کے بارے میں کسی شکایت یا کیس کی شنوائی کی ہو۔ تاہم، دیگر ایشوز پر اس نے کئی بار خاصی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات میںملوث افراد کو سزا دلوانے کے لیے اس کمیشن نے خود فریق بن کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چونکہ اس کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہوتا ہے، اس لیے اس کی آواز میں وزن بھی ہوتا ہے۔ مگر گجرات کے شاید واحد ایسے فسادات تھے، جہاں ملزموں کو عدالت نے سزائیں دیں، اور اس پیش قدمی کا کریڈٹ قومی حقوق انسانی کمیشن کو جاتاہے ۔
تاہم، بھارت میں جہاں دیگر اداروں کو زوال آگیا ہے ، وہیں یہ ادارہ بھی سخت زوال کا شکار ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ اور ممبران کو دیکھ کر یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سانس روکی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ارون کمار مشرا اس کے سربراہ ہیں۔ یہ وہی چیف جسٹس ہیں، جن کی جانب داری کے خلاف سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کو پریس کانفرنس کرنی پڑی تھی۔ اس کے دیگر ممبران وزارت خارجہ کے سابق افسر دھنونشور منوہر مولے اور انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ راجیو جین ہیں۔
’ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر‘ (SAHRDC)کے سربراہ روی نیّر کے مطابق: ’’نہ صرف ممبران ، بلکہ کمیشن کا عملہ بھی انٹیلی جنس بیورو (IB) اور خارجی خفیہ ادارہ ’را‘ (RAW)سے ڈیپوٹیشن پر منگوایا جاتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس وقت آئی بی کا ایک سابق اسپیشل ڈائریکٹر کمیشن کے تفتیشی سیل کا سربراہ ہے۔ اس کے علاوہ دو اور افسران کا تعلق بھی خفیہ اداروں سے ہے‘‘۔ جب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اکثر کیس ہی حکومت ، پولیس اور خفیہ اداروں کے خلاف آتے ہوں، تو یہ اسٹاف اور ممبران بھلا کس حد تک انصاف کر تے ہوں گے؟
۲۰۱۹ء میں، انڈین حکومت نے تقرریوں کے معیار میں ردوبدل کرتے ہوئے سول سوسائٹی سے مشاورت کے بغیر انسانی حقوق کے تحفظ کے ایکٹ میں ترمیم کی۔ ترامیم سے پہلے، قانون کا تقاضا تھا کہ کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہو،جب کہ دیگر چارممبران سپریم کورٹ کے موجودہ یا سابق جج، ہائی کورٹ کے موجودہ یا سابق چیف جسٹس ہوں اور دو ممبران کو انسانی حقوق سے متعلق معاملات کا علم، یا عملی تجربہ ہونا چاہیے۔
اس ترمیم میں یہ کہا گیا کہ ’’کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی سابق جج ہو سکتا ہے،اور دیگر ممبران کے بارے میں بھی حکومت کو اختیار دیا گیا‘‘۔ دوسری طرف کمیشن کے فیصلہ ساز ادارے میں ایک سابق اعلیٰ انٹیلی جنس اور سیکورٹی اہلکار کا تقرر واضح طور پر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ راجیو جین کا تقرر انٹیلی جنس بیورو میں ان کی مدت کار کے دوران مختلف کارروائیوں کی وجہ سے بھی تشویش کا باعث ہے۔ ان کا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے دور میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کو نشانہ بنایا گیااور ان میں سے کچھ پر مسلح گروپوں کی پشت پناہی کا خانہ زاد الزام لگایا گیا۔ تنظیموں پر غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کے الزامات عائد کرکے قدغن لگائی گئی۔
روی نیّر کا کہنا ہے کہ ’’اس پورے کمیشن کاڈھانچا ابتدا سے ہی غلط تھا۔ اس کو ایک آزاد ادارے کے بجائے وزارت داخلہ کے تحت رکھا گیا تھا۔ اس طرح یہ ادارہ بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ مگر اب عالمی ایجنسیوں کو اس کی کارگزاری کا ادراک ہوچکا ہے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔مگر مغرب کی بدلی ترجیحات کی وجہ سے ان کی حکومتوں نے بھارت کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
۱۹۹۴ءسے دریائے جہلم میں پانی کے ساتھ اب مظلوم انسانوں کا کافی خون بھی بہہ چکا ہے۔ سیاست دانوں کی دھوکے بازیوں اور کرشمہ سازیوں نے کشمیری عوام کو اندھیر نگری میں دھکیلنے میں کردار ادا تو کیا ہی تھا، کہ انسانی حقوق کمیشن ا ور بین الاقوامی ریڈ کراس بھی اپنے وعدوں کو نبھا نہ سکے۔
جنوبی ایشیا میں ۸۰۰ء سے لے کر۱۴۰۰ء تک ہندوئوں نے اسلام کے پھیلائو کو روکنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے۔ ہندو ذہن کا ایک جوابی پروگرام یہ تھا کہ مسلمانوں کو کسی طرح مقامی مذہب میں مدغم کر دیا جائے، لہٰذا بارھویں صدی میں رامانج، آنندتیرتھ، وشنوسوامی وغیرہ نے بھگتی تحریک (Bhakti Movement) کا آغاز کیا۔ اس کے پرچاروں نے ایسے خیالات کا پرچار کیا کہ ’’آسمانی مذاہب سب ایک ہیں، ان کا منبع ایک ہے اور تعلیمات بھی ایک ہیں، لہٰذا کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ’رحمان‘ کہہ کر ’اللہ‘ کو پکارے یا ’رحیم‘ کہہ کر، ’پرماتما’ کہہ کر یا ’بھگوان‘ کہہ کر، ’یزدان‘ کہہ کر مخاطب کرے یا ’ایشور‘ کے نام سے ہم کلام ہو، لہٰذا تمام مذاہب کی یکساں پذیرائی ہونی چاہیے اور سب کو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا چاہیے اور تنقید و تنقیص کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے‘‘۔خدانخواستہ یہ گمراہ کن تحریک کامیاب ہوجاتی تو مسلمانوں کے نام کے ساتھ کرشن، سنگھ اور دیگر الفاظ کے سابقے، لاحقے نظر آتے جیسے آج کل بھارت میں شروع ہوچکا ہے۔
بلاشبہ بھگتی تحریک کے سیلاب میں کئی بڑی شخصیات بھی بہہ گئیں اور مسلمانوں میں سے بھی کئی شخصیات نے اس کا پرچار کیا۔ سکھ مذہب کا آغاز اسی کی ایک معین شکل تھی، جو مسلمانوں کو سیاسی سطح پر کمزور کر کے حکومت سے بے دخل کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ سکھوں کے تمام گرو تو مسلمان حکومتوں سے ہمیشہ ٹکراتے رہے اور اکثر وبیش تر شکست کھاتے رہے (آخری سکھ گرو، گوبند سنگھ [۱۶۶۶ء-۱۷۰۸ء]اورنگ زیب عالم گیر [۱۶۱۷ء-۱۷۰۷ء] کے دور میں مارا گیا)۔ اسی لیے مسلمان، سکھوں سے دُور بھی رہے لیکن اس تحریک کے زیراثر بہت سے لوگ صوفیہ کے رُوپ میں اس فلسفے کو قبول کرکے اس کے پرچارک بن گئے۔
مسلمانوں کی دوسری ہزاری (۱۵۹۶ء یا۱۰۰۰ھ) کے لگ بھگ اس تحریک نے زور پکڑا اور مسلمانوں ہی میں سے جلال الدین اکبر [۱۵۴۲ء-۱۶۰۵ء]جیسا حکمران پیدا ہوا، جس نے ’دین الٰہی‘ کو جاری کرکے اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کو ’خوش‘ کر دیا۔ اگرچہ ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اکبر کی شکل میں مسلمانوں کو رام کرلیا تھا۔ تاہم یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اکبر نے اس بھگتی تحریک کا اثر قبول کرکے تمام حکومت مخالف عناصر کو ساتھ ملا لیا اور اپنی سلطنت کو دوام بخشا۔ مگر اس کا جانشین جہانگیر [۱۵۶۹ء-۱۶۲۷ء] جلد ہی اس تحریک کے طلسم سے باہر آگیا۔
جہانگیر کے بعد اُس کے بیٹے شاہ جہاں [۱۵۹۲ء-۱۶۶۶ء]نے تقریباً ۳۰سال حکومت کی۔ اپنے آخری برسوں میں جب و ہ بیمار ہوا تو اس کے علاج میں مقامی طبیبوں کو کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ اس دوران دہلی میں موجود ایک یورپی ڈاکٹر نے پیش کش کی، اگر اسے علاج کا موقع دیا جائے تو وہ علاج کرسکتا ہے ۔ اس نے بادشاہ کی مختصر سی جراحی (Operation)کی اور بادشاہ صحت مند ہوگیا، جس پر شاہ جہاں نے اُسے مشرقی بادشاہوں کی روایت کے مطابق کہا: ’’مانگو جومانگتے ہو؟‘‘ اور اس نے انعام کے طور پر صرف یہ مانگا کہ ’’ہم پردیسی لوگ ہیں۔ تجارت کی غرض سے آئے ہیں، منافع زیادہ نہیں ہے، ہمیں مقامی ٹیکس (Import Tax) اور درآمد پر سامان کی پڑتال (checking) معاف کردی جائے‘‘۔ بادشاہ نے سادگی میں اس بات کی منظوری دے دی، جس سے یورپی تاجروں کے لیے اسلحہ لانے کے راستے کھل گئے اور انھوں نے جلد ہی اپنی آبادیوں اور تجارتی مراکز اور گوداموں کو اسلحے سے بھر دیا اور ہندستان پر سیاسی تسلط اور قبضے کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔
ایک عرصے سے سیکولر حضرات اس کوشش میں سرگرداں چلے آرہے ہیں کہ چیدہ چیدہ تاریخی واقعات کو اُن کے سیاق و سباق سے جدا کرکے مسلمانوں کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھیں، تاکہ من پسند نتائج اخذ کیے جاسکیں۔ اس سارے عمل میں منطقی مغالطہ آمیزی اور بے انصاف ذہن کے اُلجھے ہوئے دلائل کے ساتھ ایک موقف تیار کیا جاتا ہے، تاکہ سیکولر ایجنڈا آگے بڑھ سکے۔
قتلِ تاریخ کے مرتکب ایسے افراد تاریخ میں تحریف بھی کر گزرتے ہیں، تاکہ لوگوں کے دلوں میں اپنے تاریخی ورثے پر شرمندگی اور اس سے نفرت پیدا ہو، اور ماضی سے اُن کا رشتہ کٹ جائے ۔اگر آج کی نسل ماضی کے لوگوں کا تسلسل ہے (جو یقینی ہے)، تو ان کی توہین کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ’’آپ کا ماضی کچھ بھی قابلِ فخر نہیں‘‘۔ یہ ساری کوشش صرف اس لیے ہورہی ہے کہ عام لوگوں کی عزّتِ نفس مجروح ، اور تاریخ سے عرفان حاصل کرنے سے محروم رہیں۔
اورنگ زیب کے وجود پر ہندو اور مغربی مؤرخین ایک عرصے سے حملہ آور ہیں۔ خود مسلم معاشرے کے اندر سے یہ وار اُن سیکولر حضرات کی طرف سے ہوا ہے، جن کے نام مسلمانوں ہی جیسے ہیں۔ ان کے دانش ورانہ فتوے کے مطابق: ’’اورنگ زیب عالم گیر کے کردار کا کمزور ترین پہلو اُس کا اپنے بھائیوں کے خلاف ظالمانہ طرزِعمل اور اپنے باپ شہاب الدین محمد شاہ جہاں کو بند ِ اسیری میں ڈالنا تھا‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر کے تین بھائی جان سے گئے اور والد شاہ جہاں، آگرہ قلعہ کی تنہائی میں مقید رہے۔ لیکن ان واقعات کو پورے پس منظر سے جدا کرکے دیکھنا قطعاً غلط اور ایک بے ثبوت مقدمہ ہے۔ اورنگ زیب کو ایسا کرداربنا کر پیش کرنا، جس کے سر پر ظلم و ستم کا بھوت سوار تھا،یا وہ غیرمعمولی طور پر ہوس اقتدار میں مبتلا تھا، جس کی وجہ سے اُس نے یہ سب کچھ کرڈالا___! اگر اورنگ زیب کا کردار باقی ہرلحاظ سے اُجلا اور بے داغ تھا تو ہم اس کے دامن پر بظاہر یہ دھبے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ یا اُسے کس بات نے مجبور کیا کہ باپ اور بھائیوں کے لیے وہ سخت رویہ اپنائے، جس کا اُسے الزام دیا جاتا ہے؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں، جن کا جواب ڈھونڈنا چاہیے۔ لیکن اصل حقیقت تک پہنچنے کی کدوکاوش تو درحقیقت سیکولر حضرات کا مقصد اور مُدعا ہی نہیں۔ ان کا تو ایک ہی ہدف ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس طریقۂ واردات سے مطلوبہ نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے؟ سچ اگر قتل ہوتا ہے تو ان کی بلا سے۔ ڈاکٹر محمد اقبال [م: ۱۹۳۸ء] اپنے مجموعۂ کلام اسرار و رُموز کی ایک عظیم نظم ’حکایتِ شیروشہنشاہ عالم گیررحمۃ اللہ علیہ‘ میں ان یک چشم متنفرین کو ’کورِ ذوقاں‘ کا نام دیتے ہیں کہ انھیں اورنگ زیب کے کمالات نظر نہ آئے اور اُنھوں نے قصے کہانیاں گھڑ لیں۔ اقبال فرماتے ہیں:
کورِ ذوقاں داستان ہا ساختند
وسعتِ ادراک او نشناختند
شعلۂ توحید را پروانہ بود
چوں براہیم اندریں بت خانہ بود
درصفِ شاہنشہاں یکتا ستے
فقرِ او از تربتش پیداستے
بے سمجھ لوگوں نے اس کے بارے میں کئی کہانیاں گھڑ لیں۔ وہ اس کی ذہنی وسعت کے اُفق کا اندازہ نہ کرسکے۔وہ شمعٔ توحید کا پروانہ تھا، وہ بُت خانۂ ہند کے ابراہیم ثابت ہوئے۔ وہ شہنشاہوں کی صف میں منفرد شان رکھتے ہیں، اور ان کا فقر اُن کی قبر سے ظاہرہے۔
اورنگ زیب پر یہ الزام کہ اُس نے اپنے باپ کو قید میں رکھا، جزوی طور پر ہے۔ واقعات کے اعتبار سے یہ سب کچھ اب تاریخ میں مدفن ہے۔ یہ کہنا کہ یہ واقعات ہوئے ہی نہیں، علمی لحاظ سے نادرست اور غیرمنصفانہ ہوگا۔
اورنگ زیب عالم گیر کے متعلق ان تصورات کا زیادہ بڑ ا حصہ فرانسیسی سیاح اور معالج فرانسوا برنیئے [۱۶۲۰ء-۱۶۸۸ء، Francois Bernier] جیسے لوگوں کی عطا ہے، جو اسلام سے اپنے بُغض و عداوت اور عیسائیت کی طرف داری میں بہہ جاتے ہیں۔ یہ یک چشمی رویہ ہرچیز کے متعلق ان کے نقطۂ نظر کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے، سوائے اس کے جو اُن کے خیال میں عیسائیت کے لیے مفیدمطلب ہو۔ مثال کے طور پر برنیئے، بادشاہ سلیم جہانگیر اور داراشکوہ کی بڑی تعریف کرتا ہے، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ’’یہ دونوں عیسائیت کی طرف مائل تھے‘‘۔
برنیئے جو داراشکوہ کا طبیب رہا تھا، اپنی کتاب Voages dans les Etats du Grand Mogol (۱۷۱۰ء) [انگریزی ترجمہ: Travels in The Mogul Empire] میں اس کی دل کھول کر تعریفیں کرتا ہے اور اپنے پڑھنےوالوں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ ’’دارا کو بس عیسائی ہی سمجھا جائے‘‘۔ وہ دارا کے عیسائیت کی طرف جھکائو کو ریورنڈ ہنری بُوزی (Reverand Buzee)سے نیازمندانہ تعلقات کا نتیجہ سمجھتا ہے، جس نے اُسے عیسائیت کی تعلیم دی تھی اور بہت سے عیسائی توپچی بھی مہیا کیے تھے، جن سے اس کا توپ خانہ تیار ہوا۔
برنیئے کے سفرناموں کا مدیر آرچی بالڈ کانسٹیبل (Archibald Constable)، فرانسس کاٹروو (Francis Catrou) کی ’ہندستان میں مغل خاندان کی تاریخ‘کی سند کے ساتھ، جو ۱۸۲۶ء میں لندن سے شائع ہوئی، یہ اضافہ کرتا ہے کہ ’’اگر ریورنڈ ہنری بُوزی کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو قطعی ممکن تھا کہ عیسائیت بہت پہلے تخت ِ [دہلی] پر براجمان ہوجاتی‘‘۔ اسلام سے عداوت کا اظہار کا موقع سامنے آئے تو برنیئے ساری احتیاط بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ اس کے نزدیک: ’اسلام ایک ’توہم پرستی‘ہے۔ ایک ’مہلک اور تباہ کن مجموعۂ قوانین‘ ہے، جو تلوار کے زور پر نافذ ہوا، اور اب بھی اُسی ظالمانہ تشدد کے بل پر انسانیت پر مسلط ہے‘۔
جہانگیر بھی عیسائیت پر اپنے بیانات کی وجہ سے برنیئے سے تائیدی سند حاصل کرلیتا ہے۔ برنیئے کہتا ہے کہ بسترمرگ پر جہانگیر نے ’’ایک عیسائی کی موت مرنے کی تمنا کی تھی… آرچی بالڈ کانسٹیبل ، کیٹو سے مستعار ایک اور کہانی بھی سنانے میں کمال درجے کی جلدبازی کا سہارا لے کر کہتا ہے کہ ’’جہانگیر بعض کھانوں پر اسلامی شرعی قدغنوں سے تنگ آگیا تھا اور اسی لیے اُس نے یہ جاننا چاہا کہ ہرقسم کے کھانے پینے کی بے قید آزادی کس مذہب میں ہے؟ علما نے اسے بتایا کہ ایسا صرف عیسائی مذہب میں ممکن ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا:’’پھر تو ہم سب کو عیسائی بن جانا چاہیے‘‘۔
برنیئے کو اورنگ زیب کا تقویٰ ایک ظاہرداری چیز لگا۔ اس اندازِفکر کو اورنگ زیب کے کردار کاموضوعی (Subjective) مطالعہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ برنیئے نے لفظ felt استعمال کیا، جو ایک قیاسی اور ثبوت طلب چیز ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق انسان کی سوچ کے مخفی گوشے سے ہے، جس کا باہر سے نہ مشاہدہ ہوسکتا ہے نہ تصدیق۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ بات جس کا تعلق اورنگ زیب سے بنتا ہے، پہلے ان مغربی قلم کاروں کے ذہن سے کشید ہوکر آتی ہے، جہاں اسے مخصوص معنی پہنائے جاتے ہیں، تاکہ وہ ایک چالاک منصوبہ ساز نظر آئے، جو شارک مچھلی کی طرح اپنے شکار کا بے رحمی سے پیچھا کرتا ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ برنیئے میں ایسی کوئی پُراسرار اہلیت موجود تھی کہ وہ اورنگ زیب کے ذہن میں جھانک لیتا تھا، تب بھی اس کے مشاہدات کا اُن حقائق سے کوئی تال میل نہیں بنتا، جوہمیں اورنگ زیب کے مکتوبات میں نظر آتے ہیں، اور جنھیں موصوف سیاح اپنے مقصد کے لیے منتخب طور پر استعمال کرتا ہے۔ نتیجتاً اس کی تاریخ نویسی ذاتی تعصب کے اظہار میں بدل جاتی ہے۔
سچائی تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تینوں کرداروں: شاہ جہاں، دارشکوہ اور اورنگ زیب کے طرزِعمل کا جائزہ لیتے ہوئے یہ پیش نظر رکھیں کہ کیا مغلیہ دور میں ولی عہدی کی کوئی پالیسی موجود تھی؟ اپنے بڑے بیٹے داراشکوہ کے ساتھ شاہ جہاں کا طرزِعمل کیسا تھا؟ شاہ جہاں کا اپنے تیسرے بیٹے اورنگ زیب سے رویہ کیسا تھا، اور داراشکوہ کا اپنے بھائیوں سے سلوک کیسا تھا؟ اُس وقت کا عمومی سیاسی و سماجی ماحول کیسا تھا؟ کیا کوئی دھڑے بندی موجود تھی، جو مخالف مذہبی کیمپوں میں مجتمع ہوگئی ہو؟ کیا دونوں کیمپ خاموش بیٹھے تھے، یا آپس میں دست و گریباں تھے؟ شاہجہانی دربار کے اہل الرائے ، علمائے کرام اور عام لوگ اس سارے معاملے کو کیسے دیکھ رہے تھے؟
یہ سارے پہلو جواب طلب ہیں، کیونکہ ان کے بغیر تاریخ کے اس اہم دور اور اُس میں ملوث ان باپ بیٹوں کا کردار دُھند سے باہر نہیں نکلے گا۔ شاہ جہاں ہو یا کوئی دوسرا مغل حکمران ، ولی عہدی کے ضمن میں ان کے ہاں کوئی باقاعدہ پالیسی نہیں تھی۔ اسی طرح یہ روایت بھی موجود نہیں تھی کہ باپ کی گدی پر لازماً بڑا بیٹا ہی براجمان ہوگا۔
شاہ جہاں بالکل اچانک بیمار پڑا اور وہ حکمرانی کی باگ تھامے رکھنے کے قابل نہ رہا۔ اپنی بیماری سے برسوں پہلے اپنی اولاد کی حکمرانی کی صلاحیتوں پر ایک درباری سے بات کرتے ہوئے اس نے داراشکوہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، جب کہ اورنگ زیب کے متعلق اُس نے مثبت رائے دی۔ بے شک اس کا دل دارا کے ساتھ تھااور عقل کا فیصلہ اورنگ زیب کے حق میں تھا، لیکن بالآخر دلی جذبات نے عقل و خرد کو چت کر دیا۔
شاہجہاں نے بیش تر وقت دارا کو دربار سے قریب رکھا، جب کہ اس نے دوسرے بیٹوں کو صوبوں کی گورنری اور انتظامی اُمور میں مشغول رکھا۔ باپ بیٹے کے قرب و تعلق کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ داراشکوہ ذاتی طور پر ایک پُرکشش انسان تھا۔ اس کا رکھ رکھائو، علم و ادب سے اس کا لگائو اور اس کی دلچسپ صوفیانہ حکایت گوئی، جو اس میں صوفیہ اور ہندو جوگیوں کی صحبت سے پیدا ہوئی تھی۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ، لیکن اس سب کے باوجود اپنے مزاج و اَطوار کی مناسبت سے وہ اُمورِ سلطنت کے لیے نہیں بناتھا۔ ذہنی صلاحیتیں ہوں یا جسمانی خوبیاں، اس کا اورنگ زیب سے کوئی تقابل نہ تھا۔
داراشکوہ ،آزاد خیال بھی تھا اور مذہبی معاملات میں اکبری پالیسی کا پیروکار بھی تھا اسے ہندو دانش وروں اور مذہبی پنڈتوں نے گھیرا ہوا تھا۔ ایک مسلم معاشرہ، جو ہندو انڈیا میں اپنی شناخت اور بقا کے حوالے سے روزافزوں پریشانی کا شکار تھا، اس میں وہ مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول کردار نہ تھا۔ اِن احساسات کو حضرت مجدد الف ثانیؒ [۱۵۶۴ء-۱۶۲۴ء]کی تجدیدی تحریک مزید پروان چڑھا رہی تھی۔ مسلمان عوام سمجھ رہے تھے کہ دارا اگر اقتدار میں آیا تو یہ ان کی بربادی کا پیغام ہوگا۔ داراشکوہ کے ذہن میں بچپن ہی سے یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ مستقبل کا حکمران ہے۔ پیار، محبت اور نیازمندی کا جو ہالہ اس کے گرد موجود رہا، اس میں اُس کی اُٹھان ایک اَناپرست، خوشامدپسند اور بڑبولے انسان کے طور پر ہوئی۔ ماحول کی ساری سازگاری کے باوجود وہ خود اعتمادی سے عاری اور داخلی سطح پر ایک مضطرب و مذبذب انسان تھا۔
حسد اور خوف کے جذبات اس کےدماغ میں جنم لیتے اور ظاہری زندگی میں اُبھرتے رہے۔ وہ یہ حقیقت نہ سمجھ سکا کہ اصل مسئلہ خارج میں نہیں بلکہ خود اس کے اندر اُس کی ذات میں پیوست ہے۔ اپنے چھوٹے بھائی اورنگ زیب کی شکل میں وہ اپنی شکست دیکھ رہا تھا۔ اورنگ زیب کی فوجی فتوحات،انتظامی کامرانیاں اور اس کے مقابلے میں اپنی ڈھل مِل کیفیت اورسرکاری اُمور میں بُری کارکردگی کے زیراثر وہ اعصابی تنائو کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس کی اس ذہنی حالت کا اظہار اُن سازشوںسے ہورہا تھا، جو وہ اپنے چھوٹے بھائی کے خلاف کر رہا تھا۔داراشکوہ کو اسی راستے میں عافیت دکھائی دی کہ باپ کی محبت،قوت اور وسائل کے ساتھ مضبوطی سے جُڑا رہے، اور باپ کو دوسرے بیٹوں سے بدظن کرکے دُور رکھے۔ اس مقصد کے لیے اُس نے اورنگ زیب کی بھیانک تصویرکشی کرتے ہوئے یہ تاثر گہرا کیا کہ وہ آگے بڑھنے کے مرض کا شکار ہے اور یہی عزائم اُسے مجبور کررہے ہیں کہ بغاوت کی آبیاری کرے ، اور جسے اپنے ماں باپ کی کوئی فکر نہیں۔
پھر مذہب اور ثقافتوں کے حوالے سے داراشکوہ کا طرزِعمل، ہندو اشرافیہ کے لیے جذباتی اپیل رکھتا تھا۔ وہ دارا کی شکل میں اکبر بادشاہ کا دوسرا جنم دیکھ رہے تھے کہ جس کی تخت نشینی سے آخرکار اسلام مقامی اثرپذیر ثقافت میں اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔ اسی لیے انھوں نے اپنا سب کچھ دارا پر لگادیا تھا۔ چنانچہ ہم اس صورتِ حال میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ مسخ شدہ نفسیات، طاقت کے کھیل، اندھی محبت اور ایک اُبلتا ہوا فکری لاوا ہے۔ جب پس منظر میں یہی تصویر دکھائی دیتی ہے تو مذکورہ شخصیات، اورنگ زیب اور دوسرے لوگوں کے عزائم کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
سب سے پہلے برنیئے کے اس الزام کو لیتے ہیں:’’جب اورنگ زیب نے ابتدائی زندگی میں دکن کی گورنری چھوڑنے کی آرزو کی تو اس کے پیچھے اخلاص نہیں تھا بلکہ یہ باپ اور بھائیوں کو اقتدار اور حکمرانی کے منظر سے ہٹاکر سلطنت ہتھیانے کی تدبیر تھی۔ وہ اُس کی شخصیت کو محض دجل و فریب سمجھتا ہے اور اُس کی مذہبیت کو محض دکھاوا قرار دیتا ہے۔ سردست ہم ان الزمات کو جوں کا توں قبول کرتے ہوئے شواہد ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ معاملہ، تحقیق کا بہت اہم سوال لیے ہوئے ہے۔ کیونکہ اگر اورنگ زیب کوئی مکاربہروپیا تھا، تب برنیئے کے الزامات واقعی سچ ثابت ہوتے، لیکن اس کے برعکس اگر وہ ایک مخلص اور راست باز انسان تھا اور اس کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا، تو اس کے خلاف سارے الزامات پادر ہوا ہوں گے۔
اورنگ زیب عالم گیر کے مکتوبات کے مطابق اس نے دو بار گورنری سے دست برداری کی پیش کش کی، لیکن باپ کی ناراضی دیکھ کر فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کا پہلااستعفا اس وقت سامنے آتا ہے جب اسے دکن کا گورنر نامزد کیا جاتا ہے۔ دس برس بعد وہ پھر اُس موقعے پر یہ پیش کش دُہراتا ہے، جب اس کی بہن شہزادی جہاں آرا اپنی سالگرہ پر آگ میں جھلس جاتی ہے، اورنگ زیب اُسے دیکھنے آتا ہے۔ تب بہن کی حالت دیکھ کر وہ اتنا دل گرفتہ ہوتا ہے کہ شاہی لذائذ و اقتدار پر لات مارکر تنہائی اور خلوت گزینی کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔
اورنگ زیب کے ایک مکتوب میں دست برداری کی وجہ درج ہے۔ اپنی بہن کو لکھے گئے خط میں وہ اُن ناانصافیوں کا تذکرہ کرتا ہے جو اس کے ساتھ کی گئیں۔ زیادہ دُکھ اُسے داراشکوہ کے ہتک آمیز رویے سے تھا، جس نے شاہجہاں کو آمادہ کرکے، شورش زدہ دکن کے گورنر کی حیثیت سے اس کے انتظامی فنڈ کاٹ دیے اور ایک ایسے وقت میں اس کی زیرکمان فوج میں کمی کرادی، جب کہ وہ مملکت کے دشمنوں سے برسرِپیکار تھا۔ اس تجربے نے اس کو داخلی سطح پر توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ زندگی میں پہلی بار وہ دُنیا کا حقیقی چہرہ دیکھ رہا تھا: بدشکل، مکروہ اور ظالم دُنیا، جس میں قابلیت، اخلاق اور مملکت کے لیے خدمات کی کوئی قدروقیمت اور وقعت نہ تھی۔ وہ لکھتا ہے: اس فانی دُنیا اور اس کے فوائد و منافع کے لیے جان لڑانا بے سود ہے۔ وہ اس بے توقیر زندگی سے چھٹکارا چاہتا ہے۔
ان خطوط سے یہ پتا نہیں چلتا کہ اورنگ زیب کو اقتدار کی کوئی شدید خواہش تھی، بلکہ وہ تو سب کچھ دوسروں کے لیے چھوڑ کر گوشہ نشین ہونا چاہتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہی اورنگ زیب جو ان لوگوں کی نظر میں ایک ہٹ دھرم شخص تھا، جس نے ان کے بقول چالاکی سے زُہد و تقویٰ کا لبادہ اُوڑھ رکھا تھا، تخت نشینی کے بعد ۴۳سال کی عمر میں اس کا قرآن پاک کو حفظ کرنا خصوصی طور پر بڑی اہم بات ہے، کیونکہ چھوٹی عمر کے برعکس بڑی عمر میں حفظ قرآن بہت مشکل اور بڑے عزم و ہمت کا کام ہے۔ بچے تو والدین کے دبائو اور استاد کی سختی کے تحت ایسا کرتے ہیں ، لیکن بڑی عمر کا انسان آزاد مرضی سے حفظ کی مشقت اسی وقت اُٹھائے گا، جب ایک طاقت ور دینی جذبہ اسے ایسا کرنے پر اُبھارے گا۔ کافی شہادت موجود ہے کہ اورنگ زیب باجماعت نماز کا پابند تھا اور بڑے شوق سے روزے رکھتا تھا۔ ناداروں اور غریبوں کی مدد کا معاملہ ہوتا تو اس کے ہاتھ بڑے فراخ ہوتے۔
تاج پوشی کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ عام آدمی کو متاثر کرنے والے ۸۰ ٹیکس ختم کردیئے۔ مأثر عالم گیری میں ہے کہ حالت ِ جنگ میں بھی وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کیا کرتا تھا۔ بلخ کی مہم کے دوران دشمن کے دستوں نے اسے گھیر لیا تھا، لیکن نماز کے وقت وہ گھوڑے سے اُترا اور امامت شروع کر دی۔ امیربلخ عبدالعزیز خان یہ منظر دیکھ کر اتنا متاثر ہوا کہ اُس نے لڑائی سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ ’’ایسے شخص سے لڑنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے‘‘۔
اورنگ زیب نے ایسے ملک میں آنکھ کھولی، جس نے اکبر بادشاہ کی اسلام سے دشمنی بھی دیکھی، جس کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ مسلم سوسائٹی کو دین اسلام سے پھیر دے اور اس کے نتیجے میں ہندوئوں کی خوش دلی اور تعاون کی شکل میں اپنے لیے سیاسی فوائد سمیٹ لے۔ اورنگ زیب کو اپنے پردادا اکبر، اپنے دادا جہانگیر اور شیخ احمد سرہندی کے باہمی نزاع کا بھی پورا علم تھا۔ اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ اکبر نے بچوں کے ناموں کے ساتھ ’محمد‘ کا لاحقہ لگانے تک کی بھی ممانعت کردی تھی، اسلامی کیلنڈر منسوخ کر دیا تھا اور شرعی قوانین کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی۔ اُس سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ اکبر نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کو مناسب نہیں سمجھتا تھا اور حج بیت اللہ تک پر جانے سے روکنے کا حکم دیا تھا، جب کہ شراب نوشی اور سُور کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
یورپی مؤرخ ونسٹنٹ سمتھ (Vincent A. Smith) جس نے اکبر پر تحقیقی کام کیا ہے، اس کے بقول: ’’مجھے اکبر مسلمان نہیں نظرآتا‘‘۔برنیئےکی کتاب کا مدیر آرچی بالڈ کانسٹیبل، کارتُو کی سند کے ساتھ کہتاہے: ارتداد شاہی خاندان میں دَر آیا تھا۔ شاہ جہاں کی دو بیٹیوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی۔ اس درجہ سنگین صورتِ حال میں مسلمان جانتے تھے کہ وہ عددی اعتبار سے اقلیت ہیں اور بحیثیت مسلم اُمت اُن کا وجود اپنے عقیدے سے مضبوطی سے جڑے رہنے پر منحصر ہے۔ کفر کے اس ماحول میں بقا کے لیے وہ لازمی طور پر جانتے تھے کہ ان کے تہذیبی رویے ہر طرح کے غیراسلامی اثرات سے پاک رہنے ضروری ہیں۔
اس پس منظر میں اورنگ زیب اور داراشکوہ کے درمیان چپقلش محض تخت ِدہلی کا جھگڑا نہ تھا۔ یہ مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین تہذیبوں کے ٹکرائو کا فطری مظہر تھا، جن کی نمایندگی دو مثالی نمونے: عالم گیر اور دارا کر رہے تھے۔ داراشکوہ سمجھتا تھا کہ ’’اُپنشد (Upanishad)قرآن پاک سے برتر کتاب ہے‘‘۔ اس نے سیرالااسرارکے نام سے خود اس کا فارسی ترجمہ کیا۔ الٰہ آباد کے شیخ محب اللہ کے نام اس کا خط تاریخ نے محفوظ رکھا ہے، جس میں وہ اس حد تک جاتاہے کہ وہ اپنے ’وجدانی معارف و اثرات‘ کو (الہامی) کتب کے مندرجات سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہے۔
داراشکوہ کے ایسے خیالات مسلمانوں میں بے چینی اور اشتعال پیدا کررہے تھے۔ تختِ شاہی پر اس کا ممکنہ قبضہ، ہندوئوں کو اس کی طرف کھینچ رہا تھا، کیونکہ دارا کی کامیابی میں انھیں مسلمانوں کے تسلط کے خاتمے کی جھلک نظر آرہی تھی۔ مسلمانوں کے لیے ہندوؤں کا داراشکوہ کی نامزدگی پر مجتمع ہونا گزرے ہوئے عہد ِ اکبری کی تاریخ دُہرائے جانے کے مترادف تھا۔ ایک بار پہلے بھی ہندوئوں نے یہ کوشش کی تھی کہ ایک ہندو رانی کے بطن سے پیدا ہونے والا جہانگیر کا بیٹا خسرو، اکبرکا جانشین بن جائے۔ ۱۶۵۷ء کی ابتدا میں شاہ جہاں بیمار پڑا تو سلگتے جذبات، جو ابھی تک قابو میں تھے، دو مخالف اور متحارب قوتوں میں ڈھلنے لگے۔
داراشکوہ نے اس میں امکانات کو سب سے پہلے بھانپا اور شاہ جہاں کو اس کے دوسرے بیٹوں سے کاٹ کر جدا کردیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے دربار کو ایسے امرا سے پاک کرنا شروع کردیا، جن کے متعلق اسے اندیشے تھے کہ وہ دوسرے شہزادوںخصوصاً اورنگ زیب سے مراسم رکھتے ہیں۔ دربار میں اورنگ زیب کے رابطہ افسرعیسیٰ بیگ کو پہلے حوالۂ زنداں کردیا گیا، پھر اس کی جائیداد ضبط کرلی گئی۔ داراشکوہ نے مُراد بخش (م: ۱۶۶۱ء) کے خلاف بھی اقدام کیا اور گجرات میں اس کی جگہ اپنے حامی قاسم خان کو مقرر کر دیا۔ فتنہ انگیزی بڑھانے کے لیے اس نے مُراد کو آمادہ کیا کہ برابر میں اورنگ زیب کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لے، تاکہ دونوں میں جنگ بھڑک اُٹھے۔ لیکن مُراد کو سازش کی سن گن مل گئی۔ اس نے سورت فتح کرکے خود اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔
اورنگ زیب عالم گیر اس ساری صورتِ حال کا دُکھ اور افسوس کے ساتھ مشاہدہ کر رہا تھا۔ ہرگزرے دن کے ساتھ وہ داراشکوہ کے ہاتھ اپنی گردن پر تنگ ہوتے دیکھ رہا تھا۔اس ضمن میں تین باتیں بالکل واضح تھیں: وہ اسلام کا مخالف اور آزاد رو تھا اور تخت پر قبضے کے لیے پوری بے رحمی سے سب کچھ کرگزرنے پر تُلا ہوا تھا، خواہ اس کی جو بھی قیمت اُسے چکانی پڑے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اُس نے قبیح حربے جاری رکھے۔ وہ شاہ جہاں کے جعلی دستخطوں کے ساتھ شاہی فرامین جاری کرتا، شاہ جہاں کے صحت مند ہونے کا تاثر پھیلاتا اور بھائیوں کے خلاف ایک بڑے بھرپور اور ہمہ پہلو جنگی مشن کی تیاری اور تقویت میں جتا رہا۔
پہلے قدم کے طور پر دارا نے دکن سے مغل افسران کو واپس بلا لیا، جو دراصل اورنگ زیب کا سیاسی حلقۂ اثر تھا۔ پھر اس نے مالوہ کو ضبط کرلیا، جو اورنگ زیب کی جاگیر تھی۔ اس طرح اورنگ زیب کے لیے بے حد مشکل صورتِ حال پیدا کردی گئی، جو بیجاپور اور گولکنڈہ کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ مملکت مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ مرکزی اقتصادی امداد اورفوجوں میں کٹوتی نے دکن میں اورنگ زیب کی موجودگی قریب قریب غیرمؤثر اور غیریقینی بنادی تھی۔ بڑا بھائی کھل کر اس کے خلاف میدان میں آگیا تھا۔ اورنگ زیب کی تحقیر کرنے والے دانش ور بتائیں کہ ان حالات میں اُسے کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا وہ اپنا آپ ایک منتقم مزاج بھائی کے سامنے ڈال دیتا یا اپنی زندگی بچاتا؟
اس خونیں اور مایوس کن منظر میں شہزادہ شجاع (م: ۱۶۶۰ء) نے بھی اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔ بالفاظِ دیگر اورنگ زیب جس نے اپنی شاہی روایات کو تھامے رکھا تھا، تخت کے تین دعوے دار اس کے سامنے آگئے تھے۔ اس نے تن تنہا جلد سے جلد شاہ جہاں تک پہنچنا چاہا۔
جنوری ۱۶۵۸ء میں اورنگ زیب بُرہان پور پہنچا۔ وہیں سے اس نے باپ کو خط لکھ کر اس کی صحت کا پوچھا۔ مہینہ بھر انتظار کے باوجود اُسے کوئی جواب نہ ملا۔ اُسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آگرہ میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ ایسے میں عیسیٰ بیگ، قیدخانے سے آزادی ملتے ہی اورنگ زیب کی لشکرگاہ میں وارد ہوا اور شاہی دربار میں جاری داراشکوہ کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کیا۔ یوں خبردار ہوکر اورنگ زیب، مُراد سے ملنے دیپال پور چل پڑا۔ وہاں سے دونوں بھائی آگرہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ بیمار باپ کی عیادت کر سکیں اور اس سے داراشکوہ کے ضمن میں انصاف کے طلب گار ہوں، جو اُن کے خلاف ’مارو یا مرجائو‘کے منصوبے باندھے بیٹھا تھا۔ جنگی چالوں کا ماہر اورنگ زیب ایک ہی حملے میں شہر پر قبضہ کرسکتا تھا، لیکن وہ اس سب کے باوجود صبروضبط سے کام لے رہا تھا۔ اس نے اپنا قاصد راجا جسونت سنگھ کے پاس بھیج کر زور دیا کہ وہ بادشاہ تک جانے کی راہ میں مزاحم نہ ہو، کیونکہ اس کے پیش نظر صرف ملاقات تھی۔ لیکن دارا کی مرضی کے مطابق جواب میں جسونت سنگھ نے سخت ہتک آمیز انداز میں انکار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا: ’’یہی بادشاہ سلامت کی مرضی ہے‘‘۔
یہ حالات اور ردِعمل دیکھ کر کہ جھگڑا بڑھ رہا ہے، دربار کے مسلمان امرا نے بھی داراشکوہ کو مشورہ دیا کہ اورنگ زیب کو باپ سے ملنے دے، لیکن اس وقت تک ہندو حلقہ داراشکوہ کے گرد مضبوط دائرہ بنا چکا تھا۔ رائوسترنگھ اور رام سنگھ نے رائے دی کہ مقابلہ کیا جائے اور داراشکوہ فوراً تیار ہوگیا۔ اس طرح ہندو مدد اور تائید سے حوصلہ پاکر اس نے مسلمانوں کے خلاف یہ ذلّت آمیز الفاظ ادا کیے: ’’بہت جلد میں ان کوتاہ لباسوں کو سترنگھ کے ذاتی ملازموں کی طرح بھاگنے پر مجبور کردوں گا‘‘۔
اُدھر وہی ہوا جو ہوناتھا کہ راجا جسونت سنگھ، اورنگ زیب کے دستوں سے پہلی جھڑپ کے آغاز ہی میں میدانِ جنگ سے فرار ہوگیا۔ اورنگ زیب چاہتا تو اسے روند ڈالتا ، لیکن اس نے خود اُسے فرار ہونے دیا۔ شاہ جہاں کے نام اپنے ضمنی مکتوب میں وہ اپنی سوچ کا اظہار یوں کرتا ہے: ’’اگر میراآپ سے ملنے کے علاوہ کچھ اور مقصد ہوتا تو میں بڑی آسانی سے جسونت سنگھ اور اس کے لشکریوں کا تعاقب کرکے ان کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا، خصوصاً جب کہ وہ ذلیل ہوکر شکست کی وادی میں بھٹکتے پھر رہے تھے، لیکن میرا واحد مقصد آپ تک پہنچنے کے لیے راستہ حاصل کرنا تھا‘‘۔
بنگالی نژاد ہندو مؤرخ سرجادو ناتھ سرکار(م: ۱۹۵۸ء) جو اپنے تعصبات پر بمشکل پردہ ڈال پاتا ہے ، اورنگ زیب سے دشمنی کے جذبات رکھنے کے باوجود لکھتا ہے: ’’اورنگ زیب نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعاقب کی ممانعت کردی، اور کہا کہ انسانی جانوں کی یہ معافی خالق کے حضور اس کی طرف سے زکوٰۃ تھی‘‘۔
شاہ جہاں کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوگیا کہ پانسہ پلٹ گیا ہے۔ اس نے دارا کو سمجھایا کہ بھائیوں کو آگرہ آنے دے، لیکن اُس نے آمادگی نہ دکھائی۔ اس موقعے پر اورنگ زیب پھر کوشش کرتا ہے کہ باپ کو قائل کرے کہ وہ خود مداخلت کرے اور اس طرح خوں ریزی کے خطرے کو ٹال دے۔ اس نے شاہ جہاں کو دو خط لکھے۔ پہلا خط جعفر خان لے کر گیا، لیکن اس وقت تک شاہ جہاں اپنا سارا وزن داراشکوہ کے پلڑے میں ڈال چکا تھا۔ اس نے خط کے مندرجات پر توجہ ہی نہ دی بلکہ دارا کی فوجوں کو رخصت کرتے وقت ان کی کامیابی کے لیے خصوصی دُعا کی۔ اورنگ زیب نے دوسرا خط اس وقت لکھا جب داراشکوہ کا ایک بڑا لشکر دھول پور پہنچ گیا تھا۔ وہ پھر باپ سے گزارش کر رہا تھا کہ داراشکوہ کو اس کے خلاف جنگ سے روکے، بصورتِ دیگر داراشکوہ کے لیے شکست سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔
انجام کار وہی ہوا کہ داراشکوہ نے شکست کھائی اور آگرہ کی طرف بھاگا اور شاہ جہاں نے اپنے بڑے بیٹے کی محبت میں بے قرار ہوکر سونے جواہرات کے ذریعے داراشکوہ کی مدد کی۔ مزید یہ کہ اس نے صوبوں کے گورنروں کو لکھا کہ داراشکوہ کی مدد کو پہنچیں، لیکن قسمت کی بازی پلٹی اور شاہ جہاں، اورنگ زیب سے ملاقات پر مجبور ہوا۔ اس نے آمادگی کی اطلاع دینے کے لیے فضل خان اور سیّدہدایت اللہ کو اورنگ زیب کے پاس بھیجا۔ اورنگ زیب نے ہامی بھرلی کہ جنگی صورتِ حال معمول پر آتے ہی وہ باپ سے ملنے پہنچ جائے گا۔
دوسری طرف شاہ جہاں کو ملاقات کی بے چینی لگی ہوئی تھی۔ اس سے اورنگ زیب کو شک گزرا کہ اگر وہ قلعہ میں داخل ہوتے ہی قتل کر دیا گیا تو؟ شاہ جہاں کے نام خط میں اس نے ان اندیشوں کا اظہار یوں کیا ہے:’’اندیشے اور شبہات جو میرے ذہن پر یورش کر رہے ہیں، وہ حوصلہ نہیں دے رہے کہ میں اعلیٰ حضرت کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کروں___تاہم اگر میری ذاتی تسلّی کی خاطر آپ میرے کچھ دوستوں کو قلعے میں داخل ہونے اور دروازوں پر متعین ہونے کی اجازت مرحمت فرما دیں تو میں ضرور حاضر ہوں گا اور آپ کی قدم بوسی کروں گا‘‘۔
اورنگ زیب کے اندیشے بلاوجہ نہ تھے۔ ماضی میں تو اس کی بار بار درخواستوں پر بھی باپ ملاقات پر آمادہ نہیں ہورہا تھا، کیونکہ وہ پوری طرح داراشکوہ کے ساتھ تھا۔ مگر اب وہ خط پر خط لکھ کر ملاقات کے لیے اتنا بے چین کیوں ہورہا ہے؟ یہاں سینیورا منہوچی کی گواہی، جو دل و جان سے داراشکوہ کا حمایتی تھا، سمورگڑھ میں اس کی فوج کے ساتھ تھا،قابلِ توجہ ہے۔ منہوچی کہتا ہے کہ ’’شاہ جہاں، دراصل اورنگ زیب کو قوی الاعضاء تاتاری، تاجک اور اَزبک خواتین کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا‘‘۔ فرانسیسی سیاح برنیئے نے بھی اپنے سفرنامے میں ایسی بات لکھی ہے۔
محل کے اندر کی بات اورنگ زیب کی چھوٹی بہن روشن آرا جان گئی تھی اور اسی نے بھانڈا پھوڑا اور بھائی کو باپ کے ارادوں سے خبردار کر دیا۔ اورنگ زیب کو یقین ہوگیا کہ جب تک باپ کے ہاتھ میں استعمال کے لیے طاقت اور وسائل ہیں، وہ داراشکوہ کی معاونت سے باز نہیں آئے گا۔ دانش اور تجربہ تقاضا کر رہے تھے کہ وہ قلعہ آگرہ کو شاہ جہاں کے آدمیوں سے خالی کرانے کا مطالبہ کرے۔ یہ ساری باتیں جاننے، پڑھنے اور دیکھنے کے باوجود سیکولر قلم کار اورنگ زیب کو ظلم و زیادتی کا الزام دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اورنگ زیب کی جگہ کوئی بھی دوسرا شخص ایسے حالات میں ہوتا تو کیا کرتا؟
جی ہاں! اورنگ زیب نے آگرہ کا قلعہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، لیکن اس کے باوجود کہ شاہ جہاں نے اس کے لیے سخت مخاصمانہ صورتِ حال پیدا کر دی تھی، اس نے باپ سے نرمی اور مہربانی کا سلوک روا رکھا۔ اس سے کم تر اخلاق والا اُس کا کوئی دوسرا بھائی، اس کیفیت کو انتقام کا بہانہ بنالیتا۔ لیکن قلعہ میں اورنگ زیب کے جانے سے پہلے ہی اس کے ماموں شائستہ خان اور شیخ میرا سے روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس واقعے نے حتمی فیصلہ کرنے میں مدد دی، وہ ناہردل جان چیلہ نامی شخص کا پکڑا جانا تھا، جو شاہ جہاں کا خط دارا کے پاس لے جارہا تھا۔ بادشاہ نے داراشکوہ سے دارالحکومت میں رُکنے کے لیے کہا تھا کہ سیم و زر اور فوجوں کی کوئی کمی نہیں: ’’میں یہ معاملہ یہیں ختم کردوں گا‘‘۔ بات واضح ہے کہ اس کے ارادے اورنگ زیب کو قتل کرنے کے تھے۔
ان خطوط کی بنا پر اورنگ زیب کو یقین ہوگیا تھا کہ باپ اسے قتل کردے گا۔ چنانچہ اس کا فیصلہ تھا کہ داراشکوہ کی رخصتی لازم ہے۔اس طرح مجبور ہوکر اس نے شاہ جہاں کا ذاتی سٹاف اس کے پاس سے ہٹا دیا، اور اس کے گرد ایک نیا انتظامی ڈھانچا قائم کر دیا۔
یہاں اورنگ زیب عالم گیر کا یہ خط لازماً پیش نظر رہنا چاہیے: ’’میں اعلیٰ حضرت سے باربار درخواست کرتا ہوں کہ یہ آگ بھڑکانے والے خطوط نہ لکھے جائیں… اب میں بے بس ہوگیا ہوں۔ میں ان فتنہ پرداز خواجہ سرائوں کو آپ کے سٹاف سے فارغ کر رہا ہوں۔ آپ کی علالت کے ابتدائی ایام میں جب بڑے شہزادہ نے، جس میں ایک مسلمان کے شریفانہ کردار کا ذرہ بھر نقش موجود نہیں، اقتدار ہاتھ میں لے لیا اور الحاد اور بے دینی کا علَم بلند کیا، تو میں نے اسے اپنی اسلامی ذمہ داری سمجھا کہ اسے مسند ِ اقتدار سے اُتار پھینکوں۔ چونکہ آپ عالی وقار کا ایک ہی جانب جھکائو رہا، حالات کی سنگینی کااحساس نہ کرپائے اور بڑے شہزادے کو بے دینی پھیلانے کی آزادی دیئے رکھی۔ میں نے تہیہ کرلیاکہ اس کے خلاف جہاد کروں‘‘۔
وہ تشویش ناک صورتِ حال کیا تھی، جو اورنگ زیب کے ذہن کو پریشان کر رہی تھی؟
یہ ہندستان نامی غیرمسلم سمندر میں مسلم اُمہ کے مستقبل کا سوال تھا۔ مسلمان ایک دوسرا اکبر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ داراشکوہ کی تخت نشینی، معاشرے اور مملکت کے اسلامی خدوخال مٹا کر رکھ دیتی، بلکہ مملکت، مسلم حمایت سے محروم ہوجاتی، جو اس کے وجود اور تسلسل کا بڑا ذریعہ تھا۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے تقریباً یہی بات اپنے مجموعۂ کلام اسرار و رُموز میں فرمائی:
تخمِ الحادے کہ اکبر پرورید
باز اندر فطرتِ دارا دمید
حق گزید از ہند عالمگیر را
آں فقیر صاحبِ شمشیر را
از پے احیائے دیں مامور کرد
بہر تجدیدِ یقین مامور کرد
اکبر نے الحاد کا جو بیج بویا، وہ دارا کی شکل میں دوبارہ پھوٹ پڑا۔ ایسی صورت میں اللہ نے ہندستان سے عالم گیر کو چُن لیا، وہ عالم گیر جو درویش بھی تھا اور بے پناہ شمشیر کا مالک بھی۔ عالم گیر کو ہندستان میں تجدید و احیائے دین کی ذمّہ داری سونپی، تاکہ پھرسے یقین و ایمان مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگے۔
اورنگ زیب کے اس عزم کا علم شاہ جہاں کے نام اس کے ایک خط سے بھی ہوتا ہے: ’’جب تک طاقت اور اختیار آپ کے مبارک ہاتھوں میں رہا، آپ کی اطاعت مجھ پر لازم تھی۔ اللہ بزرگ وبرتر گواہ ہے کہ میں نے اپنی حدود سے کبھی تجاوز نہیں کیا۔ لیکن جب آںجناب بیمار پڑگئے تو شہزادے (دارا) نے آپ کے اختیارات سلب کرلیے۔ اس نے پیغمبرؐ اسلام کےدین کی جگہ ہندوئوں کا بُت پرستانہ مذہب پھیلانا شروع کر دیا، جس سے سلطنت میں بے چینی پھیل گئی۔ اپنے آپ کو حقیقی جانشین سمجھ کر اُس (دارا) نے آپ کو بادشاہی سے معزول کر دیا، جس کا میں نے گذشتہ خطوط میں ذکر کیا۔ چنانچہ میں بُرہان پورسے چل پڑا کہ کہیں یومِ آخرت اللہ تعالیٰ مجھے ذمہ دار نہ ٹھیرائے کہ میں نے فساد کو کیوں نہیں دبایا‘‘۔
وہ باپ سے پوچھتا ہے کہ ’’اگر آپ کی مدد سے داراشکوہ کامیاب ہوجاتا، تو کیا صورتِ حال بن جاتی؟ کیا اس سے مسلمانوں پر تباہی نہ آجاتی اور دُنیا بے نُور نہ ہوجاتی؟‘‘ اس کے باوجود باپ کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ اس کے دل میں موجزن رہتا ہے اور اس خط میں وہ لکھتا ہے: ’’ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی عنایت پر شکرگزار ہوں، جو مجھ پر ہوئیں۔ آپ نے میری تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے لیے جو کچھ کیا اس پر اظہارِ تشکر بھی میرے لیے ممکن نہیں۔ میں کسی صورت اس سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتا، نہ میں اپنے فرائض سے کوتاہی کا ارتکاب گوارا کرسکتا ہوں، اور نہ میں اس مختصر عرصۂ حیات کی خاطر اپنے آپ کو اجازت دوں گا کہ آپ کے احساسات کو ذرا بھی ٹھیس پہنچ جائے۔ جو کچھ پیش آیا وہ اللہ کی مشیت تھی اور اسی میں قوم اور سلطنت کے لیے خیراور بھلائی ہے‘‘۔
یہ ایک عظیم بادشاہ کا اپنے ’قیدی‘باپ کے نام خط ہے۔ وہ باپ کو تسلی دے رہا ہے کہ اللہ کی مشیت اور رضا کے سامنے سر جھکا لے اور دل میلا نہ کرے۔ فی الاصل یہ حالات کو معمول پر لانے اور مصالحت کی ایک پیش کش تھی، تاکہ محبت اور اعتماد کی فضا بحال ہو۔ اس سے اسلام کے لیے اس کی گہری محبت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور یہ کہ اسے مسلم اُمت اور مملکت کے متعلق کیا اندیشے لاحق تھے؟ لیکن شاہ جہاں آمادہ نہیں ہورہا تھا کہ نظام کی اصلاح ہو اور معاملات پھرسے ٹھیک ہوجائیں۔
انسان جب اُن حالات کو دیکھتا ہے، جن میں اورنگ زیب گھرا ہوا تھا اور ساری موجود شہادتوں کا جائزہ لیتا ہے تو اُسے حیرت ہوتی ہے کہ آخر اُس نے باپ سے وہ کیا بُرا سلوک کیا، جس کا الزام اُسے ہندو، یورپی اور سیکولر مؤرخین اور تجزیہ نگار دیتے ہیں۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ تخت شاہی سے تو پہلے شاہ جہاں کو بڑے بیٹے داراشکوہ نے اُتارا تھا، نہ کہ اورنگ زیب نے، جو آخری گھڑی تک باپ کے احترام میں دوسرے بھائیوں کے برعکس تخت پر بیٹھنے سے انکار کرتا رہا۔ اگر اس نے قلعہ میں داخلے کے مقامات پر محافظ بٹھا دیئے تھے یا شاہ جہاں کو گھیرے رکھنے والے خواجہ سرائوں کو نکال دیا تھا تو اس میں کون سی ایسی بُری بات تھی؟
سیکولر دانش ور شاید یہی سمجھتے ہیں کہ آگرہ کا قلعہ بھی لاہور یا اَٹک کے قلعوں کی طرح کا کوئی قیدخانہ تھا۔ حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی۔ قلعہ کے اندر موجود شاہی محل مرتے دم تک شاہ جہاں کے قبضے میں رہا۔ برنیئے کا اظہارِ عداوت اُسے یہ ماننے کی اجازت دے دیتا ہے کہ اگرچہ شاہ جہاں کی رہایش گاہ پر محافظ بٹھا دیے گئے تھے، لیکن اورنگ زیب ہمیشہ باپ سے عزّت و احترام سے پیش آیا اور اُسے ’عیش و تنعم اور توقیر سے نوازتا رہا‘۔ پھر برنیئے کی گواہی یہ بھی ہے کہ شاہ جہاں نے جو کچھ مانگا، اورنگ زیب نے مہیا کر دیا: ’’اُس نے اُسے تحائف سے لاد دیا۔ اُس سے مشورے لیتا رہا اور باپ کے نام اس کے خطوط سے فرض شناسی اور اطاعت گزاری کا اظہار ہوتا ہے‘‘۔
اورنگ زیب نے ان جذبات اور فیاضانہ رویوں کا برتائو اس والد کے ساتھ کیا، جس نے جواب میں پدرانہ شفقت سے ہاتھ اُٹھا لیے تھے، جو اُسے ختم کرنے کے لیے پہلے داراشکوہ سے ملا رہا، پھر خود قلعے میں اس کو موت کے گھاٹ اُتارنے کی منصوبہ بندی کی، بلکہ دوسرے بیٹے مراد کو بھی اُکسایا کہ اورنگ زیب کو قتل کردے۔ شاہ جہاں کا مراد کے نام وہ خط جسے اورنگ زیب کے ہوشیار اور بیدارمغز خفیہ کاروں نے راستے میں اُچک لیا۔ اس میں شاہ جہاں اُسے شہ دے رہا ہے کہ اورنگ زیب کو کھانے کی دعوت میں بلا کر قتل کردے۔
شاہ جہاں نے یہ سازشی انداز کیوں اختیار کیا؟ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ شاید یہ ایک غیرمتوازن نفسیات کا مسئلہ ہے۔ بہرکیف اورنگ زیب نے ہرپیمانے سے اپنے آپ کو عظیم تر مغل حکمران ثابت کیا کہ وہ خود اپنے نام کی طرح تخت شاہی میں جڑا ہوا ہیرا دکھائی دیتا ہے۔ باپ کے متعلق اس کے خدشات بے بنیادنہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول برنیئے جب اورنگ زیب ابتدائے حکومت میں سخت بیمار پڑا تو اس نے اپنے بیٹے سلطان معظم کو وصیت کی کہ اس کی وفات کی صورت میں وہ اپنے دادا (شاہجہاں) پر سے نقل و حرکت کی ساری پابندیاں اُٹھا دے۔
قطع نظر اس کے یہ خط اورنگ زیب کے خلاف بدخواہوں کے اُن الزامات کو دفن کر دیتا ہے کہ وہ تخت سنبھالنے کے بعد باپ کو قید کرنے کا مرتکب ہوا۔ تصویر یہ بنائی جاتی ہے کہ باپ جیل میں سڑ رہا ہے، کوئی اُس سے بات نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اسے مل پاتا ہے۔ واقعات کے اعتبارسے یہ بات قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔ مذکورہ خط اورنگ زیب کی شخصیت کی صحیح تصویر بھی سامنے لاتا ہے۔ باپ بیٹا ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے باپ سے اختلاف کرتا ہے، وہاں دلیل اور بُرہان ہے۔ وہ نہ بدخو تھااور نہ ظالم۔ اسے اپنی رعیت کے بہبود کی فکر لاحق تھی اوراس کا یہ عزم تھا کہ وہ عوام کو عدل و انصاف دے گا۔
برنیئے بتاتا ہے کہ ’’داراشکوہ کی موت علما کی ایک مجلس کے اجتماعی فیصلے یا فتوے کے نتیجے میں ہوئی تھی، نہ کہ اورنگ زیب کے شاہی فرمان کے نتیجے میں‘‘۔ علما کی مخاصمت کی وجہ ظاہر ہے داراشکوہ کے کافرانہ عقائد تھے، جن کا وہ اپنے آغازِ جوانی سے برملا اظہار کر رہا تھا۔ اس نے سات کتابیں لکھیں، جن میں دو اشتراک سے لکھی گئیں، نیز اُپنشد کا فارسی ترجمہ کیا۔ چنانچہ اشرافیہ ، علمائے کرام اور عوام الناس میں اس کے کفریہ عقائدکا چرچا تھا۔
جس چیز نے داراشکوہ کے خلاف مخالفانہ جذبات کو زبان بخشی اور اس مزاحمت کو اتحاد میں پرویا، وہ داراشکوہ کی مسلم ہند کے تخت پر بیٹھنے کی خواہش تھی۔ یہ ایک وسیع اتحاد کا ہدف تھا کہ اکبر کا الحادی دور دوبارہ نہ آنے پائے۔ مجدد الف ثانیؒ کی تحریک نے اورنگ زیب کو مجبور کیا کہ وہ داراشکوہ کے خلاف فوجی محاذ پر لیڈر کا کردار اداکرے۔ شاید کم لوگوں کو علم ہو کہ اورنگ زیب مذکورہ تحریک کانمایاں کارکن تھا، جس نے حضرت مجددالف ثانی ؒکے فرزند ارجمند اور خلیفہ خواجہ معصوم ؒ کے ہاتھ پر باقاعدہ بیعت کی تھی۔
داراشکوہ ہندو مدد اور عیسائی مشنریوں، تاجروں اور کرائے کے قاتلوں کی درپردہ تائید حاصل کرکے لوگوں کی اسلامی روح کچلنا چاہتا تھا۔ اورنگ زیب نے مسلم عوام کی مضبوط حمایت کے ذریعے اس کا مقابلہ کیا، تاہم دارا آخر بھائی تھا۔ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے شہزادے کے انجام پر فطری طور پر آبدیدہ تھا ، لیکن ان احساسات کے علی الرغم نہ قانونِ شرع کا کوئی ضابطہ اجازت دے رہا تھا اور نہ سلطنت کی سلامتی کے حوالے سے یہ بات قابلِ قبول تھی کہ کفر اور ارتداد کی سزا دیے بغیر بچ جانے دیا جاتا۔ جس حوالے سے بھی دیکھیں، داراشکوہ مسلم تشخص کے تزویراتی (strategic) تقاضوں کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔وہ مسلمان جو اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندستان کے حکمران تھے، ان کا اقتدار خطرے میں تھا۔
یہاں پر ایک اور حیرت انگیز بات پیش نظر رہنی چاہیے اور وہ یہ کہ اورنگ زیب سے پہلے بھی بھائیوں کے درمیان جنگیں ہوئیں اور خون بہے۔ ان سب میں صرف اورنگ زیب کو ’دانش ورانہ‘ خنجر آزمائی کے لیے منتخب کرنا خاص مقصد اور ارادے کا پتا دیتا ہے۔ قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جانشینی کی جنگ داراشکوہ نے شروع کی تھی، اور اس نے عملاً آگرہ میں ڈیرہ ڈال کر باپ کو تنہا کردیا تھا۔ برنیئے کہتا ہے: ’’قید کردیا تھا‘‘۔ باپ کے جعلی دستخط کیے اور جسونت سنگھ کی کمان میں متحدہ افواج کو مسلم تشخص کی حامل فوج سے لڑنے بھیجا۔
شہزادہ مراد کے معاملے میں بھی جھوٹ کی آمیزش ہے۔ اورنگ زیب نے اُسے بھی قتل نہیں کیا تھا بلکہ دونوں بھائی داراشکوہ اور اس کے ہندو مشرکانہ عقائد کی ترویج کے خلاف صف آرا تھے۔ کئی مؤرخ بتاتے ہیں کہ مُراد مزاجاً تندوتیز تھا، شرابی اور خوشامد پسند تھا۔ اس پر اس کی جرأت اور حوصلہ مندی نے مہمیز لگائی۔ مفاد پرستوں کے گھیرے میں آکر وہ جلد ہی ان کے سازشی چکروں میں آگیا۔
اورنگ زیب سے معاہدے کے نتیجے میں مراد کو کابل، لاہور، کشمیر، ملتان، بھکر، ٹھٹھہ سے لے کر خلیج اومان تک حکمرانی کے لیے وسیع علاقہ مل گیا تھا۔ لیکن اس کے لمبے چوڑے ارادے اسے لے ڈوبے۔ اورنگ زیب سے تعاون کے عہدوپیمان کو پس پشت ڈال کر وہ شاہ جہاں سے معافی کا طالب ہوا، جس نے مراد کو معافی دیتے ہوئے پورے مسلم ہندستان پر اس کا حقِ حکمرانی بھی تسلیم کرلیا۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ یہاں بھی شاہ جہاں نے اُسے اورنگ زیب اور اس کے بیٹوں کے قتل کا مشورہ دیا۔
یہی وہ دن تھے جب آگرہ پر اورنگ زیب نے کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ اس نے زخمی مراد کو صحت یابی کے لیے پیچھے چھوڑا اور خودداراشکوہ کے تعاقب میں چل پڑا، جو دہلی میں ڈیرہ جمائے بیٹھا تھا۔ لگتا ہے بیٹے (دارا) اور باپ (شاہ جہاں) کی یکجائی انھیں اورنگ زیب کے خلاف سازشوں کا موقع دے رہی تھی۔ اس موضوع پر اورنگ زیب کے خطوط کافی روشنی ڈالتے ہیں۔ مراد کے خدشات جو اورنگ زیب کے ارادوں کے متعلق اس کے ذہن میں جنم لے سکتے تھے ، ختم کرنے کے لیے اورنگ زیب نے اُسے دو سو گھوڑے اور بیس لاکھ روپیہ بھیجے۔ ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کراد ی کہ دارا کامعاملہ کامیابی سے سلجھاتے ہی اُسے واپس اپنے موعود علاقوں کی طرف جانے کی اجازت ہوگی۔
لیکن مطلق بادشاہی کا خواب مُراد کو اندھا کرچکا تھا۔ اس نے شاہ جہاں کی بات مان لی اور تخت ِ شاہی پر اپنے دعوے کااعلان کر دیا۔اس صورتِ حال نے اورنگ زیب کو اور بھی دُکھی کردیا۔ اُسے نتائج کا خوف لاحق ہوگیا، کیونکہ اب تین حریف اس کے سامنے تھے۔ چنانچہ اس نے مراد کو پکڑ کر گوالیار کے قلعے میں ڈال دیا۔ وہاں اُسےفیاضانہ عطیات سے نوازا گیا۔ اس کا گھرانا اس کے ساتھ رہا اور اس کی خاص محبوبہ سرستی بائی اس کی دسترس میں رہی، لیکن مراد کی بگڑی نفسیات کو چین نہ آیا۔ اس نے فرار کی کوشش کی۔ اُسے اُس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ اپنی محبوبہ سے رخصت ہورہا تھا۔ اورنگ زیب اُسے قتل کرسکتا تھا، لیکن اس نے اُسے چار سال تک حفاظتی حراست میں رکھا تاکہ وہ کوئی فیصلہ کرسکے۔
تاہم، جب اورنگ زیب سلطنت پر فائز ہوا تو قاضی کی عدالت میں مراد کے خلاف قصاص کا مقدمہ دائر ہوگیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے اپنے وزیر سیّدعلی نقی کو قتل کردیا تھا۔ یہ مقدمہ مقتول کے بیٹے کی استدعا پر قائم ہوا تھا۔ عدالت نے علی نقی کے بیٹے کو دیت قبول کرنے پر آمادہ کرنا چاہا، لیکن وہ قصاص (خون کے بدلے خون) پر اڑا رہا۔
اورنگ زیب کا اصل جرم کچھ اور ہے، جس کے لیے ہرڈھنگ کے سیکولر عناصر، خواہ وہ ہندو ہوں، مغربی مؤرخین ہوں یا نام نہاد مسلمان اور پاکستانی سیکولر بھی، وہ اُسے کبھی نہیں بخشیں گے۔ کیونکہ اس نے ہندو دلدل میں پھنسے مسلمانوں کا تشخص بچانے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ ہندو تو خاص طور پر آتش زیرپا ہیں کہ اورنگزیب نے اُن کی فتح کی اُمیدوں پر اس وقت پانی پھیر دیا کہ ’’دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا‘‘۔پھر یہ کہ اس نے اپنے طویل دورِ حکومت میں بہت سے مندروں کو بڑے وسیع رقبے بطور عطیہ دیئے ، جن کا اعتراف بہت سے غیرمسلم وقائع نگاروں نے کیا ہے۔
عیسائی مؤرخ اس لیے آگ بگولاہیں کہ تخت ِ دہلی پر عیسائیت کی حکمرانی کے خواب اس نے بکھیر کر رکھ دیئے۔ ہندوئوں نے اپنی سازشوں اور مکاریوں سے بودھ مت کو برصغیر سے رخصت کر دیا، حالانکہ اس مذہب کے پیروکار اشوک اعظم [۳۰۴-۲۳۲ قبل مسیح]نے برصغیر کے سب سے زیادہ رقبے پر حکومت کی۔ نہ صرف رعایا اس قدر پُرسکون ، خوش حال اور آسودہ تھی اور ہمسایوں سے تعلقات اس قدر خوش گوار تھے کہ فوج کا محکمہ ہی ختم کر دیا گیا۔ صرف امن و امان کے لیے تھوڑی سی پولیس ہی کافی سمجھی جاتی تھی، چنانچہ سارا دفاعی بجٹ عوام پر خرچ کیا جاتا۔
ایک دفعہ بنگال میں قحط پڑ گیا۔ اشوک نے اپنی سرکاری مشینری کے ساتھ وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ چنانچہ بہت جلد بحران ختم ہوگیا تواشوک اپنے دارالحکومت میں واپس آگیا۔ اندازہ کیجیے کہ ہندو کی عیاری نے اتنے بڑے بودھ مذہب کے نام لیوا برصغیر سے مٹا دیے، جب کہ یہ مذہب شروع بھی اسی سرزمین سے ہوا تھا، اور اس کے برعکس اسلام کو تو وہ بدیسی مذہب گردانتے تھے۔ اس کو برصغیر سے ملیامیٹ کرنا وہ اتنا مشکل نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ پہلے اکبر اور اب داراشکوہ کی شکل میں انھیں اپنے ان عزائم کی تکمیل و معاونت نظر آرہی تھی۔ حالانکہ جہاں تک طرزِ حکمرانی ، طوائف الملوکی، لاقانونیت اور درباری و محلاتی سازشوں کا تعلق ہے، وہ محمد شاہ رنگیلا اور اس قبیل کے کئی مغل حکمرانوں میں نہ صرف کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، بلکہ کئی گنا زیادہ تھیں۔ مگر کسی سیکولرمسلمان مؤرخ، عیسائی یا ہندو تاریخ دان کا قلم ان کے معاملے میں حرکت میں نہیں آتا۔ مغلوں میں صرف اورنگ زیب عالم گیر اور دوسرے مسلمان حکمرانوں میں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری یا احمد شاہ ابدالی وغیرہ پہ تان ٹوٹے گی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان سب نے برہمنی یلغار کے آگے بند باندھا۔
حق و باطل، ظلمت و روشنی اور کفر و اسلام کا یہ معرکہ اَزل سے گرم رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے ہر دور میں کوئی نہ کوئی مردِ حُر، مجدد، صوفی یا درویش پیدا کردیتا ہے جو اس سیلاب کے آگے بند باندھ دیتا ہے اور اغیار کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ بقول علامہ اقبال:
ستیزہ کار رہا ہے اَزل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سےشرارِ بولہبی
اگر مسلمانوں پر اکبر اور داراشکوہ کی طرح کے چند اور حکمران حکومت کرلیتے تو صحیح تر الفاظ میں نہ آج پاکستان نام کی کسی مملکت کا وجود ہوتا، نہ اسلام کی سربلندی یا سیکولرزم کی مخالفت کے نعرے گونج رہے ہوتے۔ ایک علامت کے طور پر ہمارے جذبات و احساسات پر اورنگ زیب کی گرفت بہت مضبوط ہے، کیونکہ اس نے مسلم شعور کو اَزسرنو زندگی بخشی۔ ہماری لڑکھڑائی قومی شخصیت کو سہارا دیا اور خطرے کو بھانپنے کی ہماری سوچ کو بیداری اور توانائی بخشی۔ اس نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی کہ جب خونیں رشتے بھی اسلام کے خلاف صف آراء ہوجائیں تو ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ اورنگ زیب کو آزادی پر مبنی کفر کی حقیقی فطرت کا بخوبی اندازہ تھا۔ یہ اُسی نے ہمیں سمجھا دیا کہ مذہبی معاملات میں بگٹٹ آزادی محض ایک نظریہ یافلسفہ نہیں، یہ تو قوت اور اختیار کی حکمت (doctrine) ہے، جوحکومت پر قبضے سے کم پر راضی نہیں ہوتی۔ یا تو آپ اسے سینگوں سے پکڑیں ورنہ یہ خود آپ کو اُدھیڑ کر ختم کردے گی۔ اس لیے سیکولر اندازوں کے مطابق اورنگ زیب کو رگیدتے رہنا بہت ضروری ہے، ورنہ وہ اپنے کردار سے لوگوں کو بتاتا رہے گا کہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی اصل مسئلہ کیا ہے۔
مزید یہ کہ اورنگ زیب محض بادشاہ نہ تھا، وہ ایک نجات دہندہ تھا، ایک دُوراندیش انسان تھا، جسے اپنا عظیم اور مقدس کردار صاف نظر آرہا تھا۔ اپنے عہد کے منظرنامےپر اس نے اپنا کردار کمال خوبی اور حوصلہ مندی سے ادا کیا۔ فی الواقع اس نے مسلمانوں کو شک، تذبذب اور خوف کی بے سکون کیفیت سےنکالا۔ انھیں یقین و ایمان اور ولولۂ تازہ دیا، جس نے انھیں اپنی نظروں میں باوقار بنادیا۔ آج صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کے مخالفین کی زہریلی پھنکاریں ثابت کرتی ہیں کہ اپنے وقت کی نیام میں وہ اسلام کی بہترین تلوار تھی۔ اقبال نے کیا خوب کہا:
پایۂ اسلامیاں برتر ازو
احترامِ شرع پیغمبرؐ ازو
درمیاں کارزارِ کفر و دیں
ترکشِ ما را خدنگِ آخریں
مسلمان ان کی کوششوں کے نتیجے میں دُنیا میں بہتر مقام پر ہیں۔ رسولؐ اللہ کی شریعت کا احترام انھی کے رہینِ منت ہے۔ کفر اور دین کی کش مکش میںشہنشاہ عالم گیر ہندستان کے اندر اسلام کے ترکش کا آخری تیر تھا۔
معاشرے پر ’اشرافیائی قبضہ‘ (Elitism)کی اصطلاح تب استعمال کی جاتی ہے، جب وسائل کا کنٹرول بلند سماجی مرتبہ رکھنے والے چند افراد کے ہاتھوں میں دے دیا جائے اور یہ گروہ عوام کی وسیع تر بھلائی کو نظر انداز کر کے ان وسائل کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ ایسے معاشرے میں فیصلہ سازی کا اختیار بھی انھی چند افراد کو حاصل ہوتا ہے، کیونکہ طبقاتی تفریق، بڑے اثاثہ جات کی ملکیت، سیاسی رسوخ، تاریخی تعصب، جماعتی وابستگی، معاشی مقام و مرتبے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مذہبی حوالے کے استعمال، جیسے عوامل ان کے مددگار ہوتے ہیں۔
بدعنوانی کی یہ قسم اس وقت جنم لیتی ہے، جب طبقۂ اشرافیہ کے لوگ عوام کے لیے مختص وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کے بجائے ایسے منصوبوں پر خرچ کرنے لگتے ہیں، جن سے ان کا ذاتی اور گروہی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ معاشرے پر اس اشرافیائی قبضے کا جائزہ لینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی ایک شعبے کو دیکھا جائے کہ اس پر خرچ ہونے والے وسائل میں سے اشرافیہ کا حصہ کتنا ہے اور بقیہ عوام پر کتنا حصہ خرچ ہوتا ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ اشرافیہ کو شامل کر کے یا انھیں شامل کیے بغیر، اس منصوبے پر ہونے والے اخراجات متعین کیے جائیں اور پھر ان کے درمیان فرق کا جائزہ لیا جائے۔ اس قسم کی معلومات کی جمع و تدوین میں عموماً عوامی فلاح کے منصوبوں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کسی بھی منصوبے کے اثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے تین طرح کی صورتیں دیکھی جاتی ہیں: اوّل، اس منصوبے سے حاصل ہونے والے فوائد کی موجودہ غیر مساوی تقسیم۔ دوم،ایک فرضی مساویانہ تقسیم اور سوم، اس منصوبے کی قطعی غیر موجودگی۔اس طرح حاصل ہونے والے اعداد و شمار کا جائزہ لے کر ہم عوامی فلاح پر ’اشرافیائی قبضے‘ کے اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
یہاں پر یہ بات مدنظر رہے کہ ’اشرافیائی قبضے‘ کے ذریعے ہونے والی یہ بدعنوانی اس عام کرپشن سے مختلف ہے جسے جرم سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری ملازمین کا مال میں خردبرد کرنا وغیرہ۔کچھ ماہرین سماجیات نے اشرافیہ کو پہچاننے کے لیے تین طریقے متعین کیے ہیں:اوّل ذاتی، یعنی کسی شخص کے سرکاری یا باضابطہ عہدے کی بنیاد پر۔ دوم، فیصلہ سازی پر اثرانداز ہونے کی اہلیت کی بنا پر۔ سوم، شہرت اور پہچان کی بنیاد پر، یعنی وہ شخص بھی طبقۂ اشرافیہ میں شامل سمجھا جائے گا، جسے اشرافیہ کے لوگ یا معتبر مبصرین اشرافیہ کا حصہ تصور کریں۔ تاہم، پاکستان میں اشرافیائی طبقے یا افراد کو سمجھنے کے لیے یہ پیمانے اکثر ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔
معلومات کی غیر مساوی تقسیم (یعنی چند مخصوص افراد کی ان معلومات تک رسائی جو عوام کی نظر سے اوجھل ہوں)، ضابطوں کی خلاف ورزی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، ان اشرافیائی بدعنوانیوں کو جاری رکھنے میں مددگار ہوتی ہے۔ انھی عوامل کے باعث اشرافیہ کے نمایندے قانون میں موجود سقم (anomaly)سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ٹھیکوں میں بے ضابطگی یا من پسند قیمتوں وغیرہ کے ذریعے عوامی وسائل کا رُخ اپنی جانب موڑ لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے عوام کے لیے مختص بجٹ کا بہت کم حصہ اپنے اصل مقصد کے لیے استعمال ہو پاتا ہے۔ چنانچہ عوامی وسائل اور سہولیات کی تقسیم غیر متناسب ہونے لگتی ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ ان سے محروم رہ جاتا ہے۔
اشرافیہ کے شکنجے میں جکڑے معاشرے میں ان کاغذی معاشی و فلاحی منصوبوں کو نہ تو سماج دوست سمجھا جا سکتا ہے، اور نہ معاشرے میں دولت کی تقسیم کو درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ ’سماج دوست معاشی منصوبہ‘ اس صورت حال کو کہتے ہیں، جب کسی ایک نظام میں وسائل کی تقسیم ایسی ہو کہ کسی ایک فریق کو متاثر کیے بغیر دوسرا فریق بھی ان وسائل سے کماحقہٗ فائدہ اٹھارہا ہو۔
شروع میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ عدم مرکزیت پر مبنی حکومتیں، منصوبہ سازی میں ایک مرکزی حکومت کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی، کیونکہ مرکزیت پر مبنی نظامِ حکومت میں معلومات تک رسائی مؤثر نہیں ہوتی اور یہاں کسی ایک فریق کی جانب سے لابنگ کر کے حکومت پر اثر انداز ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ کچھ شعبے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ ماہرین معاشیات و سماجیات کے خیال میں لوگوں کو حکومت کاری، نگرانی اور فیصلہ سازی میں شریک کرنا مجموعی طور پر سودمند ثابت ہوتا ہے اور عوامی وسائل کی ایک منصفانہ، عادلانہ اور پائیدار تقسیم عمل میں آتی ہے۔
تاہم، عدم مرکزیت کے اصولوں پر قائم حکومتوں کی سرپرستی میں چلنے والے کئی منصوبوں کے نتائج نے ان خوش کن توقعات کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ سامنے آئی کہ جب اختیارات کئی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہوتے ہیں تو بااثر گروہوں کے لیے ان مقامی حکومتوں پر اثر انداز ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ پھر یہی گروہ اپنے مفاد کے لیے اجتماعی مفاد کو قربان کرتا ہے، تو ریاستی اعتماد زوال کی ڈھلوان پر لڑھک جاتا ہے۔ قومی حکومتوں کے مقابلے میں مقامی حکومتوں پر اشرافیہ کے قبضے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے کئی قسم کی کوششیں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ مثلاً منصوبہ بندی کے لیے ایک مرکزی نظام کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے یا پھر منصوبے کے لیے مختص فنڈ براہِ راست شہریوں کے حوالے کیے جا سکتے ہیں۔
یہاں دوسرے مجوزہ حل پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کی صلاحیتوں میں فرق ہوتا ہے۔ ’عالمی بنک‘ (WB) نے بھی اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ترقیاتی امداد کسی شکل میں بھی ہو، عوام تک منتقلی کے دوران اس پر اشرافیہ کے قبضے کا امکان موجود رہتا ہے، کیونکہ اسے اُچکنے کے لیے درمیان میں کوئی نہ کوئی سہولت کار شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ مرکزی و غیر مرکزی نظام دونوں میں عوامی وسائل کی غیر مؤثر تقسیم سے کئی خطرات جنم لیتے ہیں، جو مقامی آبادی میں وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم اور فلاحی منصوبوں کی ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔
’اشرافیائی قبضے‘ اور امتیازی سلوک پر مبنی نظام میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں میں طاقت کی تقسیم غیر منصفانہ ہوتی ہے اور دونوں عوام کے لیے وسائل سے محرومی کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم، یہ دونوں مظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ’اشرافیائی قبضہ‘ طاقت کی غیر ہموار تقسیم سے جنم لیتا ہے، جب کہ امتیازی سلوک ضروری نہیں کہ ریاست میں طاقت کے عدم توازن کا ہی نتیجہ ہو۔
اشرافیائی قبضہ ایک متحرک اور مسلسل عمل کا نام ہے کیونکہ کسی نئے اشرافیائی فریق کے شامل ہونے سے طاقت کا توازن تبدیل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف امتیازی سلوک تقریباً جامد رہتا ہے۔ ’اشرافیائی قبضہ‘ بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے،جب کہ سماجی امتیازی رویہ، سماجی روایات کی مریضانہ پیروی سے جنم لیتا ہے۔ ’اشرافیائی قبضے‘ اور ’ریاستی قبضے‘ میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں صورتوں میں نجی فائدے کے لیے اجتماعی وسائل استعمال ہوتے ہیں،لیکن طاقت کے استعمال کو دیکھا جائے تو یہ دونوں مظاہر مختلف ہیں۔
کسی معاشرے پر ’اشرافیائی قبضہ‘ معاشرے کو بجا طور پر اپنی جاگیر سمجھنے والے اشرافیائی طبقات کی جانب سے عمل میں آتا ہے،جب کہ ریاست پر قبضہ ان فریقین کی جانب سے ہوتا ہے جن کے پاس ریاست کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ بین الاقوامی کمپنیاں (MNCs)یا طاقت ور تنظیمیں اور سوسائٹیاں اکثر اپنی طاقت کے بل پر پوری ریاست کو یرغمال بنا کر فیصلہ سازی کے عمل پر مسلط ہو جاتی ہیں۔ بہرحال یہ دونوں عوامل بُری حکومت کاری کا باعث بنتے ہیں اور معاشرہ ایسے خوفناک چکر میں داخل ہو جاتا ہے، جس سے سرکاری اور اداراتی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان میں ’درمیانی طبقے‘ (Bourgeois) سے متعلق کسی قسم کا تجرباتی علم نہ ہونے اور بدیسی اصطلاحی مفہوم سے متاثر ہونے کے باعث لوگ اس ڈاکازنی کو سمجھ نہیں پاتے۔ چنانچہ لوگ اپنا اشرافیائی مرتبہ پہچاننے میں بھی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر معاشرے نے اپنی آسانی کے لیے کئی تعریفیں متعین کر لی ہیں۔ اعلیٰ طبقاتی تعلیمی اداروں جیسے لمز اور ایچی سن کالج وغیرہ سے سند یافتہ تمام طالب علم، مہنگے علاقوں یعنی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یا بحریہ ٹاؤن کے تمام رہائشی، یا بیوروکریسی اور دفاعی اداروں کے تمام افراد کو اشرافیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح وہ اصل لوگ نظر انداز ہو جاتے ہیں، جو ریاست اور معاشرے پر حقیقی معنوں میں قابض ہیں۔
جب ہمارے ہاں اکثر اشرافیہ اور اس کے دائرہ اثر کی درست تعریف کیے بغیر اس مسئلے پر بات کی جاتی ہے اور اصل فیصلہ ساز قوتوں کو نہ پہچاننے کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ سوال پوچھنا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ کون سا طبقۂ اشرافیہ ہے جو ریاست پر قبضے کا ذمہ دار ہے؟
اس معاملے میں تو کوئی ابہام یا غلط فہمی نہیں پائی جاتی کہ پاکستان کے عوام طاقت اور اختیار کے دائرے سے باہر ہیں۔ اس دائرے کا تمام تر پھیلائو، پاکستانی اشرافیہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے لیے مخصوص ہے، جو بڑے بڑے تاجروں، صنعت کاروں، جاگیرداروں، روحانی لیڈروں اور سول و فوجی افسران کے منظم نیٹ ورک پر مشتمل ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر اپنے سیاسی غلبے کا تحفظ کرتے ہیں اور پھر اس سیاسی رسوخ کو بڑی بے رحمی سے باہمی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اپنے ظاہری اختلافات اور تفریق کے باوجود یہ عناصر طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے کئی معاملات میں متحد رہتے ہیں۔ اس طبقے کے داخلی تعلقات کی دُنیا لازمی طور پر باہمی تعاون، اشتراک، اور دوطرفہ کاوشوں کے لیے راہ ہموار کر تے ہیں تا کہ ریاستی وسائل پر قبضہ برقرار رکھا جاسکے۔
بڑے بڑے پراپرٹی ڈیلر، چینی کے صنعت کار، بااثر فوجی افسران، اور کاروباری اشرافیہ فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بلاواسطہ و بالواسطہ اپنا معاشی و سیاسی رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ بدلے میں انھیں یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ کوئی ایسا بامعنی اصلاحی پروگرام متعارف نہیں کروایا جائے گا، جو ان کے اقتدار پر اثرانداز ہو سکتا ہو۔
ریاست پر اشرافیائی قبضہ اس لیے برقرار رہتا ہے کہ یہ اشرافیہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے تئیں منافع اور کاروبار کے مائی باپ سمجھتے ہیںاور اس عمل کو ریاستی وجود کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ان کے کاروبار زیادہ تر کرائے کے ماڈل پر چلتے ہیں، یعنی یہ بغیر کچھ کیے فقط اپنی ساکھ، تعلقات کی دھونس اور اپنے سرمایے سے سرمایہ پیدا کرتے ہیں۔ اس نمونے پر چلنے والی معیشتوں کے لیے بیرونی ممالک سے آنے والا ’کرایہ‘ یعنی منافع آمدن کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں پاکستان کو سری لنکا کی مثال سے سبق سیکھنا چاہیے کہ فقط کرائے کی آمدن پر معیشت نہیں چلائی جا سکتی۔ ہمارے پاس ابھی وقت ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے اس منظرنامے کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل دو آراء قابلِ غور ہیں:
حمزہ علوی یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ سول اور عسکری افسر شاہی کا غیر ضروری پھیلاؤ ’افراط ترقی‘ کو جنم دیتا ہے، جو معاشرے کی حقیقی ترقی کے لیے رکاوٹ ہے۔ نوآبادیاتی دور سے گزرنے کے بعد چلنے والے معاشروں میں کم ہی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ حکمران طبقے میں مکمل یکسانیت پائی جاتی ہو۔ یہاں حکمران طبقہ کئی ذیلی طبقات میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ذیلی طبقے کا ریاست کے ساتھ رشتہ مختلف ہوتا ہے۔ ایک مابعد نوآبادیاتی ریاست کی بقا انھی مقتدر طبقات پر منحصر ہوتی ہے اور یہ طبقے باہمی مفاد کے لیے ایک دوسرے کا سہارا بنتے اور مفادات سمیٹتے ہیں۔ ان طبقات میں ایک مقامی اشرافیہ، ایک جدید نوآبادیاتی اشرافیہ یعنی بین الاقوامی کمپنیوں کے نمایندے اور جاگیر دار اشرافیہ شامل ہیں۔ ریاست ان مختلف طبقات کے درمیان محض ثالث کا کام کرتی ہے تا کہ ان کے پورے اور کسی حد تک ریاست کے مفادات کو محفوظ بنایا جا سکے۔
عائشہ صدیقہ ’فوجی کاروبار‘ کی اصطلاح پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’دفاع کے لیے مختص سرمایہ مختلف فلاحی اداروں،ٹال پلازوں، شاپنگ سینٹرز، پیٹرول اسٹیشن وغیرہ کے ذریعے دفاعی اداروں کے افسران پر استعمال ہوتا ہے، جب کہ ریٹائر افسران کو زمین اور کاروباری مواقع بھی مہیا کیے جاتے ہیں‘‘۔
پاکستانی معاشرے پر نوآبادیاتی اثرات بہت گہرے ہیں۔ دوسری نوآبادیات کے برعکس جہاں انگریز خود آباد ہو گئے تھے،یہاں اس قسم کے ادارے تشکیل دیے گئے تھے، جو یہاں سے برطانیہ کے صنعتی انقلاب کے لیے وسائل مہیا کر سکیں۔ اشرافیہ کا طاقت ور ترین ہتھیار ریاست کا وہ نظام ہے، جو یہاں سے منافع حاصل کرنے کے لیے کئی عشروں کی محنت سے تشکیل دیا گیا ہے۔ اشرافیہ نہ صرف ہر طرح کی پالیسیوں کے اثرات متعین کرتے ہیں بلکہ وہ ان پالیسیوں اورریاستی مشینری کو اپنے فائدے کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس سارے عمل کے لیے سرکاری ادارے، سیاسی خاندان، یا مخصوص افراد ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ریاستی ڈھانچے کے اندر اشرافیہ نے اپنے لیے جو جگہ متعین کرلی ہے وہ اس سارے عمل کو ممکن بناتی ہے۔
’یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام ‘(UNDP) کی جانب سے جاری کردہ ’نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۲۰ ء‘کے مطابق پاکستان کی سرکاری مشینری پر آٹھ گروہ قابض ہیں جو اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، جن میں سرکاری ادارے، فوجی اسٹیبلشمنٹ، امیرترین افراد (ایک فی صد طبقہ)، بڑے تجار، برآمد کنندگان، بنک، صنعت کار اور جاگیردار شامل ہیں۔
سال ۲۰۱۷ءتا ۲۰۱۸ء میں ان میں سے صرف صنعت کار طبقے نے ملکی معیشت کو ۵۲۸؍ارب روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔ یہ وہ رقم تھی جو محصولات کی مد میں اکٹھی کی جانی تھی، لیکن ٹیکس چھوٹ اور صنعت کاروں کی من پسند قیمتوں کے ذریعے اسے ضائع کر دیا گیا۔ متذکرہ بالا تمام عناصر اسی شرح سے معیشت کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ اسی دوران بینکوں نے ۱۹۶ ؍ارب روپے کی رعایت(سبسڈی) حاصل کی اور اوسطاً ہر شعبے نے معیشت کو ۳۳۲ ؍ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ مجموعی طور پر یہ رقم۲ء۷ کھرب روپے بنتی ہے، جو ہماری ’خالص قومی پیداوار‘ (GDP) کا تقریباً ۸ فی صد حصہ ہے۔
پاکستانی اشرافیہ بیرون ملک سے کرائے کی آمدن حاصل کرنے کے لیے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔انھوں نے اندرون ملک مواقع پیدا کرنے کے بجائے مغربی ممالک، چین اور تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک سے ڈالر کمانے کے ذرائع تلاش کر لیے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستانی اشرافیہ ملک کی جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھاتے آئے ہیں۔
مہاجرین کسی متوقع بحران سے بچنے کے لیے امریکا اور یورپ اب تک پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو سہارا دیتے رہے ہیں۔ ان کی یہ مدد عالمی مالیاتی فنڈ سے قرضوں کی فراہمی، تیل کی ادائیگیوں میں تاخیر، سفارتی مدد، اور فوجی ادائیگیوں کی شکل میں ہمیں ملتی رہی ہے۔ اندرونی طور پر یہ امداد ہمارے فیصلہ سازوں کے لیے مددگار رہی ہے کہ وہ اپنے نجی مفادات کو قربان کیے بغیر ریاست کا موجودہ ڈھانچا قائم رکھ سکیں۔
پاکستانی اشرافیہ اس تصور کے ساتھ اپنا کاروبارِ اختیار و معاش چلاتا آیا ہے کہ دنیا میں پاکستان کی جیواسٹرے ٹیجک (جغرافیائی) اہمیت ہمیشہ یونہی برقرار رہے گی اور اس کا فائدہ ان کو پہنچتا رہے گا۔ تاہم، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور امریکا، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بدلتی سیاست کے ساتھ ہماری یہ پوزیشن مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ بین الاقوامی نظام میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں نے ’پاکستانی اشرافیہ‘ کی اہمیت کم کردی ہے۔ اب ضروری ہے کہ وہ بیرونی آمدن پر انحصار کم کریں اور اندرونِ ملک اصلاحات پر توجہ دیں۔
ہمارے فیصلہ ساز معاشی اصلاحات کی ضرورت سے باخبر ہیں۔ فی الوقت صرف ۲ فی صد پاکستانی آمدن پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ۶۰ فی صد سے زیادہ محصولات بالواسطہ ٹیکسوں وغیرہ کے ذریعے جمع ہوتے ہیں، جس کا بوجھ غریبوں پر زیادہ پڑتاہے۔ انفرادی دولت کا تقریباً ۸۰ فی صد حصہ رہائشی زمینوں کی شکل میں موجود ہوتا ہے، جس کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
بجٹ میں زیادہ تر مراعات بھی چینی اور رئیل اسٹیٹ جیسی صنعتوں کو دی جاتی ہیں، جس کی وجہ کاروباری ترقی کی خواہش نہیں بلکہ سیاسی و معاشی مفاد کا حصول ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی برآمد مزدور طبقہ کے افراد ہیں جو خلیجی ممالک بھیجے جاتے ہیں۔
بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات نے ہماری اشرافیہ کے پرانے کاروباری ماڈل کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ اب کرائے پر کام کرنے والی معیشت کو بدلنے کے لیے ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے، جن کا اثر براہ راست اشرافیہ پر پڑے۔ اس اقدام سے ریاست پر ان کا قبضہ کمزور ہوگا۔
ضروری ہے کہ ریاست پر ’اشرافیائی قبضہ‘ کی سائنس کو ایک گمبھیر مسئلے کی حیثیت سے سمجھا جائے اور اس کے حل کے لیے کوشش کی جائے۔ اس کے بعد ہی ہم بحرانوں کے اس چکر سے نکل پائیں گے اور کرائے پر انحصار کم ہو گا۔ مگر اس کے لیے سیاسی مینڈیٹ کی ضرورت ہے جو صرف عام انتخابات کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ریاستی اداروں میں مراعات کی تقسیم کااَزسرنو جائزہ لینے کے لیے بھی معاون ہو سکتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ شخصی آزادی کے ساتھ محدود وسائل کو اجتماعی فائدے کے لیے مناسب ترین طریقے سے استعمال کر سکیں۔ اس سے اگرچہ بالائی طبقے کے مفادات پر سوال اٹھتا ہے لیکن یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ افراد کو ان کی محنت اور ذہانت کا پھل بہرحال ملتا رہے۔ ترقی کا زینہ سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے، جس پر صحت مند مقابلے کی فضا میں تمام افراد اپنا کردار ادا کر سکیں، بشرطیکہ نچلے طبقوں کا مفاد متاثر نہ ہو۔ کسی بھی معاشرے میں میرٹ اور سماجی ترقی کا چلن تبھی عام ہو سکتا ہے، جب معیاری ادارے موجود ہوں اور معاشی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
’پاکستانی اشرافیہ‘ طاقت کے لیے آپس میں لڑتی بھی ہے، ان کے اتحاد بھی ہوتے ہیں اور ان کی معاشرتی سرگرمیاں بھی جداگانہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ اشرافیہ کو ایک یکسر مختلف گروہ تصور کیا جانا چاہیے۔ اشرافیہ کے ارکان عموماً معاشی وسائل پر قابض تو ہوتے ہیں، لیکن ان کی جدوجہد کے مقاصد ہمیشہ معاشی نہیں ہوتے۔ وہ سماجی اثرات، ثقافتی رسوخ اور سیاسی گرفت کےذریعے بھی آپس میں جڑتے ہیں اورمعاشرے میں اپنا بلند علامتی مرتبہ قائم رکھتے ہیں، تا کہ عوام کے دلوں میں ان کے لیے غیر مشروط احترام موجود رہے۔ اگرچہ اب ہمارے ہاں ’اشرافیائی قبضہ‘ پر بہت بات کی جاتی ہے لیکن اس عمل کی گہری سمجھ نہ ہونے کے باعث بات زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ (ترجمہ: اطہر رسول حیدر)
باولے کتّے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری کو Rabies کہتے ہیں۔ اس کی ایک نمایاں علامت یہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص پانی کو دیکھ کر وحشت زدہ ہوجاتا ہے اور چیخ و پکار کرنے لگتا ہے۔ اس علامت کو فزع الماء (Hydrophobia) کہا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ گذشتہ کچھ عرصے سے اسلام کے حوالے سے ہے۔ عالمی سطح پر اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے شیطان اور اس کے کارندے بہت پریشان ہیں اور ان پر بُری طرح خوف اور دہشت طاری ہے۔ وہ اسلاموفوبیا میں مبتلا ہیں۔ ہندستان میں بھی اسلاموفوبیا کی بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ہر جتن کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جھوٹے اور حددرجہ اشتعال انگیز پراپیگنڈے کا کچھ شمار نہیں ہے، مگر اس کے ساتھ اسلافوبیا کی بیماری کو پھیلانے کا سب سے بڑا مؤثر ذریعہ فلمیں اور ڈراما سیریلز ہیں ، جن کے ذریعے وہ ناظرین کے ذہنوں کو بڑے پیمانے پر مسموم کررہے ہیں۔ ’کشمیر فائلس’ ، ’کیرلا اسٹوری‘ اور ’اجمیر ۹۲ ‘کے بعد ان دنوں نئی فلم ’۷۲ حُوریں‘ کا چرچا ہے۔
’۷۲حُوریں‘ نامی فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ماضی قریب میں دنیا میں جتنے بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ، جیسے امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور ممبئی کے تاج ہوٹل کا واقعہ وغیرہ، یہ سب مسلمانوں کی کارستانی ہے۔ ان واقعات کی تصویروں کے ساتھ اسامہ بن لادن، اجمل قصاب ، یعقوب میمن ، مسعود اظہر اور حافظ سعید کی تصاویر دکھاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان دہشت گردانہ حملوں کو ، انجام دینے کے ذمہ دار تمام افراد مسلمان ہیں۔ انھیں مذہبی جنون میں مبتلا کرکے اور ان کو ذہنی غسل (برین واشنگ) دے کر خودکش بمباروں کی شکل میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔ انھیں یہ سمجھایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ یہ عمل جہاد ہے اور اس راہ میں اپنی جان کی قربانی پیش کرنے والا شہید ہے ، جو جنّت کا مستحق بنتا ہے ، جہاں اس کے جنسی تلذّذ کے لیے ۷۲ حُوریں یعنی حسین ترین عورتیں ملیں گی ۔
اس وقت اس بحث کا موقع نہیں ہے کہ یہ دہشت گردانہ واقعات واقعی مسلمانوں نے انجام دیے ہیں ، یا بلا تحقیق و ثبوت غلط طور سے ان کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ دہشت گردی اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ جو مذہب ایک انسان کو بلا قصور قتل کرنے کو دنیا کے تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف سمجھتا ہے، وہ دہشت گردانہ حملوں کی کیوں کر اجازت دے سکتا ہے؟ اس وقت صرف اس موضوع پر کچھ اظہارِ خیال کرنا مقصود ہے کہ ’’جنّت میں ۷۲ حُوروں کی کیا حقیقت ہے ، جس کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے؟‘‘
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ یہاں انسان جیسے کام کریں گے، ان کا بدلہ مرنے کے بعد برپا ہونے والی دوسری دنیا میں پائیں گے ، جسے آخرت کہا گیا ہے۔ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی۔ دنیا میں جو لوگ اچھے کام کریں گے، وہ ان کا بدلہ آخرت میں جنّت کی شکل میں پائیں گے ، جہاں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی۔ اور جو لوگ یہاں بُرے کام کریں گے انھیں آخرت میں ان کا بدلہ جہنم کی شکل میں ملے گا ، جس میں ہر طرح کی تکلیف دہ چیزیں ہوں گی ۔
قرآن و حدیث میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کی سزاؤں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے، لیکن وہ محض تقریبِ فہم کے لیے ہے۔ کوئی شخص ان کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا ، اس لیے کہ انسانی عقل ان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ حدیث میں کہا گیا ہے کہ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جنھیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا ، نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ وہ کسی کے حاشیۂ خیال میں آئی ہوں گی۔ (بخاری : ۴۷۷۹، مسلم : ۷۳۱۰)
قرآن و حدیث میں حُوروں کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے مراد خوب صورت عورتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان مردوں کو جنّت میں بھی ان سے نوازے گا۔ حُوروں کا بس یہ تصور ہے ، جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔
قرآن میں حُوروں کی تعداد کا کہیں ذکر نہیں۔ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرمومن کو جنّت میں دو حُوریں ملیں گی (بخاری : ۳۲۴۵ ، مسلم: ۲۸۳۴)۔ محدثین نے لکھا ہے کہ جیسے قرآن میں دو جنتوں اور دو چشموں کا تذکرہ ہے، اسی طرح حدیث میں دو بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک یہ ۷۲ حُوروں کا تعلق ہے ، اس کا تذکرہ کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے۔ مشہور محدثین نے یہ بات بڑی صراحت سے بیان کی ہے۔ مثلاً علامہ ابن تیمیہ ( مجموع الفتاویٰ: ۴۳۲/۶) علامہ ابن حجر (فتح الباری :۳۲۵/۶) وغیرہ۔ علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب: حادي الأرواح الٰی بلاد الأفراح میں جنت اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے، اور علامہ ابن قیم نے صراحت کی ہے کہ صحیح احادیث میں دو بیویوں سے زیادہ کا تذکرہ نہیں ہے (ص ۱۵۶-۱۵۷)۔
یہ بات درست ہے کہ بہت سی احادیث و روایات میں ۷۲ حُوروں کا ذکر ہے۔ یہی نہیں ، بلکہ بعض احادیث میں سو ، پانچ سو ، چار ہزار ، بلکہ آٹھ ہزار حُوروں کا ذکر ہے ، لیکن یہ تمام احادیث ضعیف ، بلکہ ان میں بہت سی موضوع یعنی من گھڑت ہیں۔ اسلام دشمن لوگ قرآن مجید میں تو تحریف نہ کرسکے اور اس کا ایک حرف بھی بدلنے پر قادر نہ ہوسکے، تو انھوں نے بے بنیاد اور من گھڑت حدیثیں پھیلادیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے امت کے محدثین اور ناقدینِ حدیث کو، جنھوں نے احادیث میں سے صحیح ، ضعیف اور من گھڑت کو چھانٹ کر الگ الگ کردیا ۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض علما اب بھی اپنے خطبات اور وعظوں میں اعمال کے فضائل بیان کرتے ہوئے ان کے بدلے میں ملنے والی جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، تو حُوروں کے حُسن و جمال ، ان کی ہیئت ، قد و قامت اور دوسری چیزوں کا تذکرہ بہت مزہ لے لے کر کرتے ہیں۔ ان واعظین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ضعیف اور موضوع حدیثیں پیش کرکے وہ دین کی کوئی خدمت نہیں کررہے ہیں ، بلکہ اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔
یہ بات ناقابلِ انکار ہے کہ ایک عورت کا شوہر اگر دوسری بیوی لے آئے تو اس عورت کو فطرتاً یہ ناگوار ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس سے اذیت ہوتی ہے۔
شریعت نے ایک سے زیادہ نکاحوں کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی ہے کہ یہ چیز اس عورت کو اور اس کے رشتے داروں کو ناگوار نہیں ہوتی جس پر سوکن آئے، بلکہ اس امرِواقعہ کو جانتے ہوئے شریعت نے اسے اس لیے حلال کیا ہے کہ دوسری اہم تر اجتماعی اور معاشرتی مصلحتیں اس کو جائز کرنے کی متقاضی ہیں۔
شریعت یہ بھی جانتی ہے کہ سوکنیں بہرحال سہیلیاں اور شوہر شریک بہنیں بن کر نہیں رہ سکتیں۔ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ کش مکش اور چپقلش ضرور ہوگی اور خانگی زندگی تلخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ لیکن یہ انفرادی قباحتیں اُس عظیم تر اجتماعی قباحت سے کم تر ہیں ، جو یک زوجی کوبطورِ قانون لازم کردینے سے پورے معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شریعت نے تعدّد اَزواج کو حلال قرار دیا ہے۔(’مسئلہ تعدّد اَزواج‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج۶۰، عدد۴، جولائی ۱۹۶۳ء، ص۴۳)