جماعت اسلامی پاکستان محض ایک سیاسی جماعت نہیں۔ وہ پورے اسلامی نظام کو زندگی کے ہر شعبے میں قائم کرنے اور جاری وساری رکھنے والی عالم گیر اسلامی تحریک کا حصہ اور روح رواں ہے۔ ۲۰۲۳ء کے دوران پاکستان میں صوبائی اور قومی انتخابات کے انعقاد پر مثبت اور منفی رویوں کے ماحول میں یہ اعزاز جماعت اسلامی کو حاصل ہورہا ہے کہ اس نے اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کردیاہے۔ جماعت اسلامی پہلی جماعت ہے جس نے پوری ذمہ داری اور سنجیدگی سے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس منشور میں تصورِ پاکستان اور تعمیروتشکیل پاکستان کا مکمل نقشہ موجود ہے۔
جماعت اسلامی کی اوّلین ترجیح ملک میں مکمل اسلامی نظام کا نفاذ ہے جس کے لیے شریعت کے تمام احکام و اقدار کو ملک کی اجتماعی زندگی میں جاری و ساری کرنا اس کا ہدف ہے۔ اس کے ساتھ جماعت ملک میں جمہوری نظام قائم کرنا چاہتی ہے، اور خود دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بھی تقاضا یہی ہے، تاکہ اقتدار کا مرکز اور محور محض کوئی ذات یا طبقہ نہ ہو بلکہ عوام اس میں فیصلہ کن قوت کی حیثیت رکھیں۔ نیز جماعت اسلامی ایک حقیقی عوامی فلاحی ریاست و معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ غربت کا مکمل خاتمہ ہو اور ملک میں ایک فلاحی ریاست قائم ہو، جو سب کی حقیقی ضروریات کو مارکیٹ اور ریاست، دونوں کے ذریعے کے طور پر پورا کرسکے۔
جماعت اسلامی ملک میں انصاف کی مکمل حکمرانی کی داعی ہے، تاکہ ظلم و استحصال کی ہرشکل کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ جماعت چاہتی ہے کہ ملک کے تمام علاقوں میں تعاون اور اشتراک کی فضا ہو، جس میں عوام اور عوامی و قومی ادارے ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتی ہے، جس کے تمام علاقوں میں زرعی،صنعتی ، تجارتی اور فنی، ٹکنالوجیکل ترقی جاری و ساری ہو، جس کے نتیجے میں ملک کے تمام علاقوں میں حقیقی خوش حالی رُونما ہوسکے ، اور ملک قرضوں کے جال سے نکل کر خود انحصاری کی بنیاد پر مسلسل ترقی کرسکے۔
نیز جماعت اسلامی ایک مکمل طور پر آزاد خارجہ پالیسی کی داعی ہے۔ وہ کسی بلاک کا حصہ بنے بغیر اور اپنی مکمل آزادی کے ساتھ، پاکستان کے تعلقات دُنیا کے ہرملک سے برابری کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتی ہے، تاکہ پاکستان اور دُنیا کے تمام انسانوں کے حقوق ادا ہوسکیں، اور ملک اور عالمی سطح پر عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے مکمل تحفظ اور فلاح پر مبنی نظام قائم ہوسکے۔
یہی وہ مطلوبہ نظام کا نقشۂ کار ہے، جو جماعت اسلامی پاکستان کے انتخابی منشور میں دیکھا جاسکتا ہے۔جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے بڑی محنت اور وژن کے ساتھ اپنا کام انجام دیا ہے، لیکن اب ضرورت ہے متعلقہ شعبہ جات اور میدانوں میں تحریکی کارکنوں اور ماہرین کی ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں، جو اُوپر بیان کردہ ہرہر معاملے پر مستقل ورکنگ پیپر تیار کریں، اور جماعت کے مطلوبہ پاکستان کا ایک تفصیلی نقشۂ کار فراہم کریں۔ یہ ایک جاری رکھے جانے والا کام ہے۔
مضبوط پارلیمان
انتخابی اصلاحات
آئینی اصلاحات
بلدیاتی ادارے مضبوط
آزاد میڈیا
جوہری اقدامات
قومی آمدن میں اضافہ
حکومتی اخراجات میں کمی
قرضوں سے نجات
توانائی پالیسی
ماحولیاتی و سیاحتی پالیسی
احتساب سب کا
انصاف سب کے لیـے
اَمن سب کے لیـے
تعلیم سب کے لیے
صحت سب کے لیے
چھت سب کے لیے
ارشادِاِلٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۳ ( الصفّ ۶۱: ۲- ۳) اے اہلِ ایمان! ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو تم کرتے نہیں؟ یہ بات اللہ کی ناراضی بڑھانے کے لحاظ سے بہت سنگین حرکت ہے کہ تم زبان سے جو کہو اسے نہ کرو(یعنی اپنی اپنی کہی ہوئی بات پر عمل نہ کرے)۔
اس آیت میں اہلِ ایمان کو قول و فعل میں تضاد جیسی انتہائی ناپسندیدہ حرکت پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ظاہر ہے کہ جو چیز اللہ رب العزت کی سخت ناراضی کا موجب بنے اس کے انجام کے اعتبار سے مہلک ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ آیت کا اسلوب بتارہا ہے کہ اس میں بری روش پر تنبیہ کے ساتھ اس سے باز آجانے کی ہدایت بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قول و فعل میں مطابقت انسان کی بنیادی صفات میں سے ہے۔ رہے اہلِ ایمان تو یہ مطابقت ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔ یہ صدقِ ایمان کی علامت ہے ،اسی سے ایمان کی پختگی ظاہر ہوتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں مومنین صادقین کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۱۵ (الحجرات۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے،پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن اہلِ ایمان کو ’ صادقون‘ کے خطاب سے نوازا ہے، جو زبانی طور پر ایمان کے اظہار کے بعد اسے پورے یقین کے ساتھ دل میں جمائے ر کھیں اور عملی طور پر دین کی خاطر جانی و مالی قربانی کے لیے ہر آن تیار رہیں۔ مومن صادق وہ ہے جو زبان سے کلمۂ طیّبہ کی ادائیگی کے ساتھ اس کے تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرے اور زبانی اقرار کو سچ کر دکھائے۔ اس آیت کے حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ نے یہ واضح فرمایا ہے : ’’ یہ سچے اس لیے ٹھیرے کہ ان کا یہ عمل ان کی دلی کیفیت کا سچا ترجمان ہوا۔ زبان ا ور دل سے جس ایمان کا اقرار کیا تھا ،عمل سے اس کی تصدیق کردی‘‘ (سیرۃالنبیؐ، دار المصنّفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ، ج۶، ص ۲۳۸)۔
مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ تشریح کرتے ہیں :’’ ان کے دلوں میں ایمان کی جو حقیقی کیفیت تھی اس کا اظہار انھوں نے زبان سے کیا، اور اپنے عمل سے برابر اس کی تصدیق کرتے رہے۔ دراصل زبان، دل اور عمل کی کامل ہم آہنگی کا نام ہی سچائی ہے اور اسی ہم آہنگی پر تمام اخلاق و معاملات کی درستی کا مدار ہے‘‘( قرآنی تعلیمات، مکتبۂ ذکریٰ،نئی دہلی،۲۰۰۳ء،ص۳۱۱)۔
ان توضیحات کا خلاصہ یہ ہے کہ مومنینِ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اللہ و رسولؐ پر ایمان لا کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت بجا لائیں گے اور پھر انھوں نے و اقعتاً اپنے اعمال سے اس عہد کو پورا کر دکھایا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قول و عمل میں مطابقت کے بڑے فیوض و برکات ہوتے ہیں ، جن کے دیرپا و خوش گوار اثرات سب سے پہلے صاحبِ صفت پر مترتب ہوتے ہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا فیض یہ ہے کہ اس خوبی والے کی باتیں اپنا وزن رکھتی ہیں جو دوسروں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس کی تقریر و تحریر میں ایسا گہرا اثر ہوتا ہے کہ سننے والے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں نقش کرجاتی ہے۔ اس ضمن میں ممتاز عالمِ دین اور ایک طویل عرصہ تک ندوۃ العلماء میں تدریسی خدمت انجام دینے والے مولانا شہباز اصلاحیؒ (م:۸ نومبر ۲۰۰۲ء) نے اپنے ایک قریبی عزیز کے نام خط میں جو ناصحانہ کلمات رقم فرمائے تھے ان کا ذ کر بہت اہم معلوم ہو تا ہے : ’’ عزیزم! یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تقریروں اور خطبوں کا حقیقی اثر الفاظ کی جادو گری اور لہجہ کے زیر و بم میں نہیں پوشیدہ ہے....زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ زبان سکھاتی ہے،لیکن دل سے نکلی ہوئی بات دل میں اُتر جاتی ہے اور سیرت و کردار تبدیل کر دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ بات صرف زبان سے نکل رہی ہے یا دل بھی اس میں شامل ہے؟ اس کے معلوم کرنے کی آسان کسوٹی یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ جس بات کی تلقین ہم دوسروں کو کر رہے ہیں اس پر خود ہمارا کتنا عمل ہے۔اگر ہماری بات خود ہم پر اثر نہ ڈال سکے تو دوسروں پر کیا اثر ڈالے گی؟‘‘ ( مکتو با تِ شہباز، مرتبہ: محمد ناصر سعید اکرمی، معہد الامام حسن البنّا،بھٹکل،۲۰۲۲ء،ص۱۰۵۔۱۰۶) ۔
یعنی فارسی قول ’ از دل خیزد بر دل ریزد‘ [ جو دل سے اٹھتا ہے وہ(دوسروں کے) دل میں سرایت کرجاتا ہے] اسی وقت صادق ہو گا جب کسی کو کسی خیر کی طرف رہنمائی کرنے والا یا نصیحت کرنے والا خوداس پر عمل کر چکا ہو،اور اس پر پوری طرح کاربند ہو۔ قول و عمل میں مطابقت یا اپنی کہی ہوئی بات پر عمل آوری ایسی پسندیدہ و با برکت صفت ہے کہ یہ خود صاحبِ صفت کے لیے موجب سکون و طمانیت بنتی ہے اور دوسروں کے لیے بھی راحت و مسرت کا باعث ہو تی ہے، اس لیے کہ سچائی و اخلاص کے بڑے فیوض و برکات ہیں جن کے اثرات بہت دُور دُور تک پہنچتے ہیں۔
اس کے برخلاف قول و فعل میں تضاد سے لوگوں کو بڑی اذیت پہنچتی ہے اور اس کی وجہ سے انھیں طرح طرح کے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے، بعض اوقات اس کی تلافی بھی نہیں ہو پاتی۔ اس بری روش کے وبال سے تو اسے اختیار کرنے والا ،یعنی دوسروں کے ساتھ فریب و دھوکے کا معاملہ کرنے والا بچ ہی نہیں سکتا، اور سب سے بڑے خسار ے کی بات یہ ہے کہ وہ اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے ، اور جس سے مالک الملک ناراض ہو جائے، اس کے لیے پھر سکون و اطمینان کہاں ؟
قول و فعل میں عدم مطابقت نفاق کا مظہر یا منافقین کا خاصّہ ہے،اس لیے کہ منافقین زبان سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے عمل سے کچھ اور ظاہر ہو تا ہے، و ہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اللہ علیم و خبیر کے نزدیک ان کا دعویٰ نا قابلِ قبول قرار پاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اقرار محض زبانی ہوتا ہے، ا ن کے اعمال زبانی اقرار کی سچائی کی تردید کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر منافقین کے قول وفعل میں تضاد کی واضح مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔ وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر زبانی طور پر یہ گواہی دیتے تھے کہ بے شک آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں، اس پر قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ارشادِربّانی ہے:
اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللہِ۰ۘ وَاللہُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُہٗ۰ۭ وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ۱ۚ (المنافقون۶۳ :۱) جب منافقین آپؐ کے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں: آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ آپؐ ضرور اس کے رسولؐ ہیں، مگر اللہ گواہی دے رہا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔
لاریب اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کس کی گواہی سچّی ہو سکتی ہے۔ صورتِ حال یہ تھی کہ وہ زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کا اظہار کر رہے تھے ا ور دل میں کفر و انکار کو چھپائے ہوئے تھے۔ دراصل یہی نفاق کی خاصیت ہے کہ دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور قرآن و حدیث دونوں سے نفاق اور سچائی اور نفاق و اخلاص کا ایک دوسرے کی ضدہونا ثابت ہے۔ جیسا کہ قرآن نے منا فقین کی سب سے بڑی پہچان یہ بتائی ہے:
يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ۰ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۱۶۷ۚ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۷) اوروہ[منافقین ] اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے،اللہ خوب جانتا ہے اس بات کو جسے وہ چھپا رہے ہیں۔
یعنی نفاق والے اصلیت کو دل میں چھپائے رکھتے ہیں ، ان کی زبان ان کے دل کی کیفیت کے خلاف بولتی ہے اور اسی کا نام کذب یا جھوٹ ہے۔ قول وفعل کی دُوئی اسی کو کہتے ہیں، اور یہ رویہ اللہ رب العزت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ اس بدترین خصلت وا لا شخص معاشرے میں اپنا وقار و اعتماد کھو بیٹھتا ہے، وہ لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔
اس میں کسی شبہ کی گنجایش نہیں کہ نفاق اور کذب میں بہت گہرا تعلق ہے ، دونوں برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ نفاق کی جڑ سے جھوٹ کا پودا اُگتا ہے اور اگر اس کی جڑ کو کاٹا نہیں گیا تو یہ پودا سرسبز وشاداب ہوتا رہتا ہے ۔ اور جھوٹ، نفاق کا لازمہ اورمنا فق کی علامت ہے۔ وہ حدیث بہت مشہور ہے جس میں منافق کی پہلی خاص علامت یہ بتائی گئے ہے کہ وہ جھوٹ کا عادی ہوتا ہے:
عَن اَبِیْ ھُرَیْرَہ انَّ رَسُوْلَ اللہِ قَالَ: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ ، اِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ( صحیح بخاری، کتاب الایمان،باب علامات المنافق) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
دوسری حدیث (مروی از حضرت عبداللہ ابن عمروؓ ) کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی چوتھی خصلت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب وہ جھگڑا کرتا ہے تو فحش کلای پر اُتر آتا ہے [وَاِذَا خَاصَمَ فَـجَرَ] (صحیح مسلم،کتاب ا لایمان، باب بیان خصال المنافق)۔
اس حدیث کی تشریح میں محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ نفاق کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ظاہر اور باطن میں موافقت اور یگانگت نہ پائی جائے۔آدمی گفتگو تو ایسی کرے کہ محسوس ہو کہ وہ سچ بول رہا ہے،لیکن وہ کذبِ بیانی سے کام لے۔ وعدہ کر کے وہ یقین تو یہ دلائے کہ وہ اپنے کیے ہوئے وعدہ کو پورا کرے گا،لیکن وہ اپنے وعدہ کا کچھ بھی پاس و لحاظ نہ رکھے۔ اسی طرح اسے اپنے عہد وپیمان کو توڑنے میں بھی کوئی باک نہ ہو اور اگر اس کا کسی سے جھگڑا ہو تو وہ[اخلاقی] حدود کا احترام نہ کرے ،نازیبا حرکتیں کرنے لگے اورغصّہ میں ایسا بے قابو ہوجائے کہ فحش کلامی اور بد زبانی سے بھی اسے کوئی عار نہ ہو۔ یہ خصائل اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ایسا شخص قابل اعتماد اور بھروسے کے لائق نہیں ہے‘‘( محمد فاروق خاں،کلامِ نبوت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی ، ۲۰۱۲ء،جلددوم،ص ۴۱۷- ۴۱۸)۔
مزید برآں ایمان اور نفاق یا ایمان اور جھوٹ میں تضاد اُ س ارشادِ نبویؐ سے مزید کھل کر سامنے آتا ہے، جس کی اردو ترجمانی یہ ہے کہ مومن میں دوسری بُری خصلتیں ہوسکتی ہیں،لیکن اس میں جھوٹ کی خصلت نہیں سکتی( موطّا امام مالک،کتاب الجامع، باب ماجاء فی الصدق و الکذب)۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منافق کی تینوں بنیادی خصلتوں: جھوٹ بولنا،وعدہ خلافی کرنا اور امانت میں خیا نت کرنا کا تعلق کسی نہ کسی صورت میں قول و فعل میں عدمِ مطابقت سے ہوتا ہے۔ ان تینوں کی عملی مثالوں: بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنے ، کسی سے وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرنے، کسی کی سپرد کردہ امانت میں خیانت کرنے پر باریک بینی سے غور کیا جائے تو ان سب میں قول و فعل میں صاف تضاد نظرآ ئے گا۔
ایک حدیث سے یہ نکتہ منکشف ہو تا ہے کہ کیسے ایک شخص بات چیت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ خیانت دھوکے بازی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے :’’ یہ بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے( بنا سنوار کر) ایسی بات کہو جس کو وہ سچ سمجھے اور تم اس سے جھوٹ کہو (سنن ابو داؤد، کتاب الادب،باب فی المعاریض )۔
اس حدیث کی تشریح میں مؤلفِ کلامِ نبوت تحریر فرما تے ہیں :’’ معلوم ہوا کہ خیانت کا تعلق صرف مال و دولت اور امانتوں ہی سے نہیں ہے،اپنے غلط طرزِ عمل سےآدمی کسی بھی معاملے میں اپنے خا ئن ہونے کا ثبوت بہم پہنچاسکتا ہے۔ اس حدیث میں ایک مثال گفتگو کی دی گئی ہے۔ اپنی بات چیت میں کوئی شخص خیانت کا مرتکب ہو سکتا ہے۔خیانت در حقیقت ایک طرح کی دھوکے بازی ہے۔آدمی بات چیت ایسے انداز سے کرے کہ سننے والا اسے سچ سمجھے، حالانکہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہو تو یہ بھی خیانت ہے اور بڑی خیانت ہے۔اپنے بھائی کو کسی فریب میں مبتلا کرنا کسی صورت میں روا نہیں ہے‘‘( کلامِ نبوت ،جلددوم،ص ۴۲۳- ۴۲۴)۔
اسی طرح ’دل میں کچھ،زبان پر کچھ‘ کا رویہ اختیار کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے(یا اس خام خیالی میں مبتلا رہتا ہے) کہ اس طرح وہ دوسروں کو بے وقوف بنا کر یا دھوکا دے کر اپنا اُلّو سیدھا کرلے گا یا اپنا مطلب حاصل کرلے گا، لیکن واقعہ یہ کہ یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے یا وہ خود فریبی میں مبتلا رہتا ہے۔ قرآن نے ایسے مکّاروں و دھوکے بازوں کو بہت ہی صاف لفظوں میں متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی اور کو نہیں خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں،گرچہ انھیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ارشادِربّانی ہے:
وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۹ۭ (البقرہ۲:۹) اور دراصل وہ اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈالے ہوئے ہیں اور وہ ا سے محسوس نہیں کرپاتے۔
اس لیے کہ ان کی فریب دہی یا دوسروں کو بے وقوف بنانے یا سمجھنے کی خصلت بہت دنوں تک چھپی نہیں رہ پاتی، ان کے دل کا یہ روگ کسی نہ کسی طرح باہر آہی جاتا ہے۔ کردار میں نفاق کی آمیزش یا دُہری پالیسی ایسا خطر ناک مرض ہے، جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور اس کے کردار و اعمال کو داغدار بنا دیتا ہے، جسے دوسرا دیکھ کر یا محسوس کر کے ہی گھن کھاتا ہے اور اس سے دُور رہنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں اس پر بھی اس کے زہریلے یا نقصان دہ اثرات کا سایہ نہ پڑ جائے۔
یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ نفاق کے مرض میں مبتلا یا قول وفعل میں تضاد کے عادی لوگ اپنی ڈگر پر چلتے ہوئے خوب مگن رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی خفیہ تدبیریں یا’’ دل میں کچھ اور، زبان پر کچھ اور‘‘ کی پالیسی کار گر ہو رہی ہے، حالانکہ اللہ کی جانب سے انھیں سنبھلنے کی مہلت ملتی ہے جسے وہ سمجھ نہیں پاتے،آخر کار ان کے اس مرض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بالآخر انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ یہ آیتِ کریمہ اسی حقیقت کی ترجمان ہے:
فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۱۰ (البقرہ۲: ۱۰) ان کے دلوں میں ایک بیماری[ نفاق کی کھوٹ ]ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ،اور ان کے لیے بڑا درد ناک عذاب ہے ان کے جھوٹ کی پاداش میں۔
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے،اور اللہ کے ا س بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا،بلکہ انھیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں‘‘ ( تفہیم القرآن، جلداوّل،ص ۵۳)۔
لوگوں کو اپنے مکر و فریب کا شکار بنا نے والے یا دھوکا دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ علیم و خبیر ہے، سب کا باطن و ظاہر اس کے سامنے کھلا رہتا ہے ۔ پھر یہ نکتہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اللہ رب العالمین نے ایسا انتظام فرما رکھا ہے کہ انسان کی ہر چھوٹی بڑی بات اور عمل ریکارڈ میں آجاتا ہے۔ بد کار و غلط کار لوگ کہاں تک اپنی بری حرکتوں کو چھپائیں گے یا اپنے سینے کے راز وہ کیسے مخفی رکھ سکتے ہیں،جب کہ قرآن کریم نے قادرِ مطلق کا یہ نظم بھی بیان کردیا ہے :
وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْہُ فِي الزُّبُرِ۵۲ وَكُلُّ صَغِيْرٍ وَّكَبِيْرٍ مُّسْـتَطَرٌ۵۳ (القمر۵۴: ۵۲-۵۳) اور جو کچھ بھی انھوں نے کیا ہے وہ سب دفتروں میں محفوظ ہے، ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی موجود ہے۔
یہی حقیقت سورۂ یونس کی آیت ۶۱ میں بھی بیان کی گئی ہے۔اس کے مخاطب اصلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،لیکن پوری امت،بلکہ جملہ انسانیت سے خطاب ہے۔اس کا اردو ترجمہ ملاحظہ ہو:’’ اور جس حالت میں بھی تم رہتے ہو،جس قدر بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہو،اور جو کام بھی تم لوگ کرتے ہو،اس وقت ہم تمھارے پاس ہی موجود رہتے ہیں جب تم لوگ اس میںلگے رہتے ہو۔اور [یہ بھی یقین کرلو کہ] تیرے رب سے کوئی ذر ّ ہ برابر چیز بھی زمین میں یا آسمان میں پوشیدہ نہیں [رہ سکتی] ہے،نہ چھوٹی اور نہ بڑی،مگر وہ صاف کھلی ہوئی کتاب میںدرج ہے‘‘ ۔
یہاں یہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۂ یونس اور سورۃ القمر کی مذکورہ آیات کے بعد کی آیت میں ایمان و نیک عمل کی پونجی والوں کو یہ مژ دہ سناکر انھیں اطمینان دلایا گیا ہے کہ عالم الغیب کا یہ نظام ( ہر چھوٹی بڑی چیز کا ریکارڈ میں درج یا محفوظ ہوجانا) سب کے لیے ہے، لیکن اللہ کے فرماں بردار بندے ( جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور گناہوں سے اپنے کو بچاتے ہیں) مطمئن رہیں، ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں ان کے لیے چین ہی چین ہے،وہاںانھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ کسی غم سے دوچار ہوں گے۔ وہ اللہ کے محبوب و مقرب بندے ہیں، وہ راحت و سکون سے مشرف ہوں گے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۶۲ۚۖ (یونس ۱۰:۶۲ ) اللہ کے مطیع و محبوب بندوں کو نہ کسی چیز کا خوف ہوگا اور نہ انھیں کسی رنج وغم سے سابقہ ہوگا (یعنی وہ ہر طرح سے مامون و محفوظ ہوںگے)۔
رہا یہ معاملہ کہ اللہ کے محبوب بندے کون ہیں،یا رب العالمین کن لوگوں کو دوست رکھتا ہے ؟ اسے اس کے بعد والی آیت میں واضح کردیا گیا ہے: اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ’’ جو ایمان سے مشرف ہوئے اور اپنے آپ کو اللہ کی نافرمانی یا گناہ کے کاموں سے بچاتےرہے‘‘۔ مزید یہ کہ سورۃ القمر کی مذکورہ بالا آیات ( جس میں ہر چھوٹے بڑے عمل کے ریکارڈ میں آجانے کا ذکر ہے) کے بعد کی آیات میں بھی اللہ کے محبوب بندوں کو’الْمُتَّقِیْنَ‘ ( اپنے خالق و مالک کی اطاعت و بندگی بجا لانے میں سرگرم رہنے والوں اور گناہوں سے پرہیز کرنے والوں) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور انھیں یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ وہ دائمی ز ندگی میں گھنیرے و لہلہاتے باغات میں ہوں گے،ایک سچی عزت والی مجلس میں ہوں گے، جہاں خوشیاں و مسرتیں ہوں گی،انعام و اکرام کی بارش ہوگی ، اور ( اس سے بڑی نعمت یہ کہ) وہ با اختیار و بااقتدار بادشاہ کے پاس ہوں گے جو اپنے بندوں پر بہت شفیق و مہربان ہے (آسان تفسیرِ قرآن، عائض القرنی؍اردو ترجمانی:محمدطارق ایوبی ندوی،ہدایت پبلشرز ،۲۰۲۲ء،ص۱۰۱۵)۔ حقیقت یہ کہ یہ کتنا بڑا رتبہ اور اعزاز و اکرام ہے جس سے ایمان و یقین کو اپنے اعمال سے سچ کر دکھانے والے، یعنی قلب کی سچی آواز پر لبّیک کہنے والے اور قول و فعل میں مطابقت کا عملی ثبوت دینے والے نوازے جائیں گے۔
دوسری جانب قرآن کریم میں قول و فعل میں عدمِ مطابقت یعنی نفاق کی بیماری میں مبتلا رہنے والوں کو بار بار متنبہ کیا گیا ہے کہ اس برائی سے چھٹکارا پانے کی ہر ممکن کوشش کریں، ورنہ وہ بڑے خسارے میں ہوں گے، اور اس کی وجہ سے سب سے بڑا خسارہ اللہ رب العزت کی ناراضی اور اس کے نتیجے میں ابدی زندگی میں ناکامی ودرد ناک عذاب سے دوچار ہو نا ہے۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۱۰ (البقرہ:۲:۱۰)’’ان کے لیے(آخرت میں) بڑا درد ناک عذاب (تیار رکھا ہے ) ان کے جھوٹ (یا دوغلے پن) کی سزا میں‘‘۔
سنجیدگی سے غور و فکر کرنے اور سوچنے کی بات ہے کہ جو شخص ربِّ کریم کی نا راضی مول لے لے، کیا وہ چین وسکون سے شب وروز بسر کرسکتا ہے؟، جو پاک پروردگار کی نگاہ میں انتہائی ناپسندیدہ و مبغوض قرار پائے کیا وہ اس کے بندوں کی نظر میں محبوب قرار پا سکتا ہے؟ ، جو انسان اپنے دل کی بھلی سوچ یا خیر کے ارادہ کے مطابق اپنے عمل کو نہ ڈھال سکے کیا وہ حقیقی فلاح سے شاد کام ہوسکتا ہے؟، جس فریبی و مکّار بندہ سے ربِّ رحیم کی رحمت رُوٹھ جائے کیا ا سے دنیا و آخرت میں کہیں آرام کا ٹھکانا مل سکتا ہے؟
نیکی یا بھلی بات کی دعوت دینے والے اور خود اس پر عمل نہ کرنے والے دنیا میں جس ذلت و رُسوائی سے دوچار ہوں گے، وہ اپنی جگہ ہے۔ بعض احادیث میں ایسے لوگوں کو آخرت میں انتہائی تکلیف دہ و ذلت آمیز عذاب دیئے جانے کا جو عبرت ناک منظر بیان کیا گیا ہے، اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صحیح بخاری میں مروی اس حدیث کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ’’حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا تو اس کی آنتیں آگ میں نکل پڑیں گی، وہ اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا اپنی چکّی کو لے کر گھومتا ہے۔ اہلِ دوزخ اس کے ارد گرد جمع ہو جائیں گے اور پوچھیں گے :اے فلاں! یہ تیرا کیا حال ہے؟ کیا تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم نہیں دیتا تھا اور بُری باتوں سے ہمیں روکتا نہیں تھا؟ وہ کہے گا کہ میں تمھیں اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا، مگر خود ان پر عمل نہ کرتا تھا، اور تمھیں بُری باتوں سے روکتا تھا، مگر خود ان میں مبتلا رہتا تھا‘‘ ( صحیح مسلم ، کتاب الزہد، باب عقوبۃ من یامر بالمعروف ولا یفعلہ وینھیٰ عن المنکرِ و یفعلہ)۔
اس حدیث کا عربی متن اوراردو ترجمہ ’’ قول و عمل میں تضاد‘‘ کی سرخی کے تحت نقل کرنے کے بعد اس کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر کر تے ہیں: ’’خود را فضیحت، دیگراں را نصیحت کا انجام کتنا عبرت ناک ہوگا۔ قول و عمل کا تضاد آدمی کو قیامت میں بر سرِعام رسوا کرے گا۔جہنم کا الم ناک عذاب الگ اس کے حصے میں آئے گا‘‘ (کلامِ نبوت، جلددوم، ص ۴۲۲، حاشیہ۱ )۔
مختصر یہ کہ جس کا قول خود اس کے دل میں جگہ نہ بنا سکے یا جس کی نصیحت آمیز باتیں خود اس کے عمل کی دنیا کو نہ بدل سکیں ،دوسروں پر یہ باتیں کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ یا جس کی دعوت الی الخیر خود اس کے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے، اس کی دعوت پر دوسرے کیسے لبّیک کہیں گے؟ قرآن نے استفہامیہ پیرایہ میں اس نکتے پر غور وفکر کی دعوت خاص طور سے ا ن لوگوںکو د ی ہے، جو دوسروں کو نیک باتیں بتانے میں پیش پیش رہتے ہیں اور خود ان پر عمل کرنے میں پیچھے رہتے ہیں یااور و ں کو خیر کی دعوت دیتے پھرتے ہیں، لیکن اپنی عملی زندگی میں اسے جاری و ساری کرنے سے غافل رہتے ہیں ۔ ارشادِ ربّانی ہے :
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۴۴ (البقرہ ۲:۴۴) کیا تم لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالاں کہ تم لوگ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ ۔
یہ آیت پیغام دے رہی ہے کہ ٹھنڈے دل سے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ خیر کی جس بات کو تم خود اپنی زندگی میں داخل نہیں کرتے، تو پھر کیسے توقع رکھتے ہو کہ دوسرے اسے دل وجان سے قبول کریں گے یا تمھاری باتوں پر دھیان دیں گے؟ کیا تم لوگوں نے اللہ کی کتاب پڑھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو ہدایات اس میں دی گئی ہیں وہ عمل کے لیے ہیں ؟ کیا اللہ کی کتاب میں بار بار لوگوں کو ا س حقیقت کی جانب متوجہ نہیں کیا گیا ہے کہ اس کی ہدایات و تعلیمات اسی صورت میں ان کے لیے موجبِ برکت و باعثِ رحمت ثابت ہوں گی، جب ان پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ آیت میں خطاب اصلاً بنی اسرائیل سے ہے، تاہم اس میں ہر دور کی اُمتِ مسلمہ ( جس کا ہر فرد اپنی اہلیت کے مطابق اپنی جگہ دین کا داعی ہے) کے لیے بھی بڑا قیمتی سبق ہے۔
لہٰذا ضرورت،بلکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ جوکچھ اچھی و بھلی باتیں اور قیمتی و کارگر نصیحتیں ہمیں یاد ہوں اور دوسروں کو بتا نا چاہیں تو پہلے خود ان پر سنجیدگی و پابندی سے عمل کر کے ان کے فیوض و برکات کا اپنے کو مستحق بنالیں، پھر دوسروں کو انھیں بتا کر یاان کی راہ دکھا کر انھیں بھی مستفیض کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ کرے کہ ہمیں ان حقائق کو سمجھنے ، انھیں دلوں میں اتارنے اور دوسروں کو ان کی طرف متوجہ کرنے کی توفیق نصیب ہو، آمین ثمّ آمین۔
پیشِ نظر تحریر کو درج ذیل دعائے مسنونہ پر ختم کرنا زیادہ بر محل معلوم ہوتا ہے:
اللّٰھُمَ طَھِّر قَلْبِی مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَائِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکِذبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَۃَالْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ (احمدابن الحسین البیہقی، الدعوات الکبیر، الکویت،۲۰۰۹ء،۱؍۳۵۰ ؛محمد منظور نعمانی، معارف الحدیث، کتب خانہ الفرقان، لکھنؤ، ۱۹۶۹ء، ۵؍۲۷۱) اے اللہ میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریا سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کردے۔بے شک تو آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور دل میں چھپے ہوئے رازوں سے بھی با خبر ہے۔
اسلامی دُنیا میں سود سے ناپسندیدگی ایک طے شدہ امر ہے کیونکہ دین میں سودی کاروبار کی ممانعت انتہا درجے کی ہے ، یعنی اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ۔ نظریاتی طور پر مسلمان اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا متمنی رہتا ہے، مگر عملی صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ سودی کاروبار عام زندگی کا لازمی جزو ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد سودی نظام کا خاتمہ ہرحکومتی اور غیرحکومتی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے، جس کا آغاز بانی ٔپاکستان کی اس تقریر سے ہوا جو انھوں نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کی تھی۔ اس کے بعد آنے والے ہردستور میں اس کا اعادہ کیا گیا۔ ۱۹۸۰ء سے عملی طور پر سودی کاروبار کے خاتمے کی کوشش بھی جاری ہے۔ جب کبھی سودی کاروبار کے بارے میں عوامی رائے جاننے کے لیے سروے وغیرہ کیے گئے تو ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگوں نے سود سےجان چھڑانے کی بھرپور خواہش کا اظہار کیا۔ پچھلے ۳۰ برسوں سے یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں زیربحث ہے۔ دینی جماعتوں کے ایجنڈے کی یہ پہلی ترجیح ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود سود کا کاروبار ملک میں سکّہ رائج الوقت ہے۔ دو عشروں سے اعلان کردہ ’اسلامی بنک‘ کام کررہے ہیں، مگر سود پر کام کرنے والے بنکوں کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ۔ کیونکہ کاروبار کا ۸۰فی صد حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنے والے بنکوں کے پاس ہے۔
تاجر برادری اکثرو بیش تر سودی نظام کے خاتمے کے لیے جلسے کرتی ہے، حکومت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر ہر شہر کی ہر مارکیٹ میں تاجر علانیہ سود کا کاروبار کرتے ہیں، لیکن ان سب کو نظرانداز کرکے مذہبی جماعتوں کا سارا زور صرف بنکوں کے سودپر مرکوز ہے۔ اس صورتِ حال میں سوالات پیدا ہوتے ہیں: کیا ہمارا موجودہ سماجی، سیاسی اور معاشی نظام اس سلسلے میں ممدومعاون ہے یا رکاوٹ کا باعث؟ کیا ہماری موجودہ حکمت عملی اس طریق کار سے ہم آہنگ ہے یا متصادم، جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں سود کے خاتمے کے لیے اختیار فرمائی تھی؟ کیا اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور عدالت ِ عالیہ سود کا خاتمہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا یہ کارِعظیم کچھ اور اداروں کے ہاتھوں سرانجام پائے گا؟ ان بنیادی سوالات کے جوابات زمینی حقائق کی روشنی میں درج ہیں:
۱- سود کا خاتمہ ممکن ہـے: انسانی تاریخ میں تین اَدوار ایسے گزرے ہیں، جن میں معیشت سود کے بغیر تھی۔ اوّل: ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ کے چار سو سال۔ دوم: قرونِ وسطیٰ کا یورپ۔ سوم: بیسویں صدی کے اشتراکی روس کے ۷۵سال۔ ہم صرف قرونِ وسطیٰ کے یورپ کی بات کریں گے۔ اس دور میں سودی کاروبار قانوناً جرم تھا۔ اگر کسی تاجر کے بارے میں سودی کاروبار کا شک ہوتا تو لوگ عدالت میں مقدمہ درج کروا دیتے جس میں عدالت، چرچ کی معاونت سے کارروائی کرتی۔ عدالت سے سودی کاروبار پر سزا یافتہ شخص عوامی نفرت اور غیظ و غضب کا شکار رہتا۔ محلے میں لوگ اُسے کرایہ پر مکان دینے سے انکار کر دیتے۔ عدالت میں اس کی گواہی تسلیم نہ کی جاتی اور موت کی صورت میں اسے مسیحی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ ملتی۔ معروف انگریز ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے Merchent of Venice [۱۵۹۸ء: وینس کا تاجر] کے مطابق لوگ سود پر کاروبار کرنے والے لوگوں کے منہ پر تھوکتے تھے۔ اس عوامی اور اداراتی مخالفت کے باعث قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں بڑے عرصے تک، تجارت سود کے بغیر رہی۔
درج بالا تناظر میں پاکستان کے معاشرے کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
(۱) مذہبی لوگ اور تاجر (۲) یونی ورسٹی کے اساتذہ اور طالب علم (۳) حکومت اور سرکاری ادارے بشمول عدلیہ ___ پہلے طبقے میں سود کی شدید مخالفت ہے مگر بیش تر صورت میں یہ صرف بیان کی حد تک ہے کیونکہ ان کے پاس سود کے مضر اثرات کی عملی تحقیق نہیں ہے۔ سود کی بحث حرام اور حلال سے آگے نہیں بڑھتی۔ اسی لیے یہ طبقہ سود کے خاتمے کے لیے اسٹیٹ بنک اور عدالتوں سے مطالبات کرتا رہتا ہے۔ یونی ورسٹی کے پروفیسر اور ان کے ہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں سود کی افادیت کے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں پائی جاتی،کیونکہ معاشیات کی ساری تعلیم سود کے اردگرد گھومتی ہے۔ چند جگہوں پر اسلامی بنکاری کا مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے جس کا عملی معاشیات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ تیسرے طبقےمیں بھی یہی سردمہری اور بے اعتنائی ہے۔ اسٹیٹ بنک بنیادی طور پر ملک میں سودی کاروبار کو تحفظ فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔
پچھلے ۳۰سال سے حکومت سود پر کام کرنے والے تجارتی بنکوں سے حاصل کردہ قرضہ جات پر چل رہی ہے۔ اس وقت قرضہ جات کا حجم ۵۰ کھرب روپے سے زیادہ ہے، جن میں صرف ۴ فی صد قرض اسلامی بنکوں کا ہے۔ ۲۰سال سے زائد عرصہ کے بعد سود کے خاتمے کے مقدمے کا فیصلہ ہوا مگر کچھ بنک اس کے خلاف اپیل میں چلے گئے۔ مذہبی جماعتوں نے اس پر جلوس نکالے مگر کھاتہ داروں نے (چند افراد کے سوا) ان بنکوں سے اپنے پیسے نہیں نکلوائے۔ ان سب حقائق کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سود کے خاتمے کے لیے درکار سنجیدگی اور مضبوط ارادے کی شدت سے کمی موجود ہے۔
۲- سودی کاروبار کے دو دَور : سود کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا سود غالباً ۱۰ہزار سال پہلے ایک کسان نے دوسرے کسان کو فصل کی کاشت کے موقعے پر بیج کی شکل میں دیا اور فصل کی کٹائی پر کاشت کے وقت دیئے گئے بیج سے زیادہ وصول کیا۔ یہ بارٹر دور (اشیا کا اشیا سے تبادلہ) تھا۔ سود کے کاروبار میں اضافہ زری ایجاد (کرنسی) سے ہوا۔ اس سے زَر کے دواستعمال ہوئے: ایک تو وسیلۂ تبادلہ اور دوسرے زَر کی اشیا کی طرح معین عرصہ اور طے شدہ اضافے پر فروخت۔ سود کی یہ شکل پندرھویں صدی تک رہی کیونکہ اس وقت بنک کی صنعت وجود میں نہیں آئی تھی۔ یہ سود، بنکاری کے دور سے مختلف تھا۔اوّل اس کی نوعیت انفرادی تھی اور مارکیٹ میں کچھ تاجر سود پر کام کرتے تھے۔ دوسرے، یہ یک طرفہ (One Window) تھا، کیونکہ لوگ ساہوکاروں سے سود پر قرض تو لیتے مگر اپنی بچتیں ان مہاجنوں کو سود پر اُدھار نہیں دیتے تھے۔ تیسرے سود پر کام کرنے والوں کی معاشرے میں کوئی عزّت اور توقیر نہیں تھی۔
بنکوں کے قیام سے سودی کاروبار کو وسعت اور استحکام ملا۔ اوّل یہ انفرادی صورت سے نکل کر اداراتی شکل میں آگیا۔ دوم: یہ دوطرفہ (Two Window) کاروبار بن گیا۔ فاضل سرمایہ والے لوگ بنکوں کے پاس اپنا سرمایہ سود پر رکھنے لگے اور سرمایے کے طلب گار لوگ بنک سے سود پر رقوم لینے لگے۔ تیسرے، ایسے کاروبار کو عزّت اور پذیرائی نصیب ہوئی۔پچھلے پانچ سوسال سے سود، اداراتی حیثیت میں موجود ہے اور ہر۵۰،۶۰سال بعد مالیاتی بحران کی وجہ بن جاتا ہے۔ دراصل سودی کاروبار میں ایک طرح کی شُتربے مُہاری ہے۔ یہ نفع کی تلاش میں ہروقت، ہرطرف اور ہرشکل میں سرگرداں رہنا چاہتا ہے۔ چونکہ سارے معاشرے کی بچتیں کھاتوں کی شکل میں بنکوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں، اس سے بنکوں میں زری طاقت (Money Might) آجاتی ہے۔ بنک زیادہ سے زیادہ سود کمانےکے لالچ میں زیادہ سے زیادہ قرضہ جات دیتے ہیں، جس سے بنک مالیاتی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر انھیں ٹیکس دہندگان کی رقوم سے bail out کیا جاتا ہے۔ اداراتی سود، فردِواحد کے سود سے زیادہ خطرناک ہے۔ ۲۰۰۸ء کا گلوبل فنانشل بحران اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
۳- سود میں ہلاکت اور بیع میں فلاح ہـے : ساتویں صدی میں جب قرآن نے ’بیع کو حلال اور سود کو حرام‘ قرار دیا تو مدینہ کے یہودیوں نے سوال اُٹھایا کہ بیع اور ربا، تجارت کی دوصورتیں ہیں، تو بیع کو ربا پر ترجیح کیوں؟ قرآن نے واضح کر دیا کہ سود میں ہلاکت ہے اور بیع میں فلاح۔ ساتویں صدی ایمان کا دور (Age of Faith) تھا۔ مسلمانوں نے سوال جواب کرنے کے بجائے قرآنی احکامات کی پیروی میں سود کو چھوڑ دیا۔ سولھویں صدی سے عقلیت کے دور (Age of Reason) کا آغاز ہوا، جس میں سودی کاروبار کی افادیت کا عقلی جواز نکالا گیا۔ اُس وقت ضروری تھا کہ مسلمان بھی سودی کاروبار میں ہلاکت کا عقلی جواز معاشی اعداد و شمار کی روشنی میں تلاش کرتے مگر ایسا نہ ہوا۔ بیسویں صدی میں علامہ اقبال نے سود کے بارے میںقرآنی نظریے کو ایک شعر کی شکل میں پیش کیا کہ ’’سودی کاروبارظاہر میں تجارت ہے مگر حقیقت میں جوا ہے‘‘۔ دوسرے ’’ایک فرد کا سود لاکھوں افراد کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے‘‘۔ مگر یہ بھی ایک بیانیہ ہی تھا، جسے اعداد و شمار کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت تھی۔
سودی کاروبار میں شُتر بے مُہاری کے ساتھ ساتھ ایک قسم کی آدم خوریت بھی موجود ہے، جس کی قرآن نے نشان دہی کی تھی۔ ۱۹۳۰ء کی عالمی کساد بازاری (Great Depression) نے اس کا پہلا ثبوت فراہم کیا۔ ۱۹۲۰ء کے عشرے کو مغربی معاشی تاریخ میں بھرپور ترقی کا زمانہ (The Roaring Twenties) کہا جاتا ہے۔ مالیاتی اداروں اور تجارتی بنکوں نے اس دور میں سود پر مبنی قرضہ جات دیئے اور شروع میں خوب منافع کمایا، مگر انجام کساد بازاری پر ہوا۔ حقیقی شعبہ میں کاروبار تباہ ہونے کے باعث بے روزگاری اور غربت عام ہوئی۔ بحران کی بڑی وجہ بنکوں کی غیردانش مندانہ کارکردگی قرار پائی اور گلاس سٹیگل ایکٹ پاس ہوا، جس کے تحت سرمایہ کار بنکوں کو تجارتی بنکوں سے الگ کردیا گیا۔ ۶۰سال تک بنک اس ایکٹ کی زنجیروں میں جکڑے رہے۔
۱۹۸۰ء سے دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب روسی اشتراکیت اپنے وجود کے بحران سے دوچار تھی۔ ۱۹۹۰ء کے شروع میں کارل مارکس کا نظریۂ اشتراکیت، روسی بلاک میں ۷۵سال تک نافذ رہنے کے بعد ختم ہوگیا، سوائے چین کے سارے اشتراکی بلاک نے دوبارہ سرمایہ داری نظام کو اپنا لیا۔ سرمایہ داری کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ اب ساری دُنیا ایک آزاد مارکیٹ تھی۔ چنانچہ مغربی معاشی ادب میں سود کے خلاف علمی یلغار شروع ہوئی۔ اس بحران کی وجہ بے روزگاری اور غربت و افلاس تھا، جس کی نشان دہی قرآن نے ساتویں صدی میں ہی کردی تھی۔
۲۰۱۳ء میں مارکسی اکانومسٹ تھامس پکٹی نے تو کمال کر دیا۔ حالانکہ یہ کام تو کسی مسلمان مذہبی اسکالر یا معاشیات دان کو کرنا چاہیے تھا۔ اس نے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے ۲۵۰سال کے معاشی اعدادوشمار کے تجزیے سے ثابت کیا کہ ’’پیداواری عمل میں سرمایہ کا معاوضہ بطور سود دوسرے عاملین پیداوار کے معاوضہ سے بہت زیادہ ہے، جس سے معاشرے میں دولت کی تقسیم انتہائی غیرہموار ہوجاتی ہے‘‘۔ یقینا اسی وجہ سے قرآن، سرمایہ کے معاوضہ کو کاروبار کے نفع و نقصان سے مشروط کرتا ہے۔ گویا قرآنی نظریے کو اغیار نے ایک طرح کی عددی شہادت فراہم کردی۔ بقول اقبال: پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
اہلِ مغرب بھی سودی کاروبار میں پوشیدہ ہلاکت (آدم خوریت) سے آگاہ ہوچکے ہیں مگر اس کا برملا اظہار نہیں کرتے کیونکہ اس سے سرمایہ داری کا سفینہ مکمل طور پر ڈوب جائے گا۔ دراصل سرمایہ داری کی جان سود کے طوطے میں قید ہے۔
یہاں ان نقائص کی بات کی جائے گی جو سود کے خاتمے کی حکمت عملی میں پوشیدہ ہیں، مگر پالیسی ساز اور ادارے ان کے بارے میں عجیب قسم کی بے خبری کا شکار ہیں:
۱- اسلامی معاشی نظام کا نفاذ یا صرف اسلامی بنکاری : یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو قائداعظم محمدعلی جناح نے واضح طور پر فرمایا تھا: ’’مغربی معاشی نظام کی تقلید میں ہمارے مسائل کا حل موجود نہیں ہے‘‘، بلکہ انھوں نے کہا تھا: ’’ہمیں اپنے مقدر کو اپنے انداز میں سنوارتے ہوئے اقوامِ عالم کو ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہے، جس کی بنیاد امن کا ایسا پیغام دینا ہے جس میں نہ صرف انسانیت کی بقا ہوگی بلکہ اس سے فلاح، مسرت اور خوش حالی بھی حاصل ہوگی‘‘۔ اس تقریر میں بانیٔ پاکستان نے اسلامی معاشی نظام کا عالم گیر تصور پیش کیا تھا، جسے نہ صرف پاکستان میں نافذ کرنا تھا بلکہ پورے عالم کو اس سے روشناس بھی کروانا تھا۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس عظیم الشان روڈمیپ کو یکسر بھلا دیا گیا۔ غالباً ۲۰سال بعد اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اسلامک اکنامک ڈویژن قائم کیا، جس کے ذمہ اتنی بڑی ذمہ داری تھی، مگر ۱۵سال تک اس ڈویژن نے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ ۱۹۸۵ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی ہدایت پر ’اسلامی معاشی نظام‘ کے بجائے ’اسلامی بنکاری کا ماڈل‘ بنایا گیا۔ اس وقت ملک میں لوٹ کھسوٹ، اقرباپروری اور بدعنوانی عروج پر تھی مگر اسٹیٹ بنک نے ان مسائل پر کوئی توجہ نہ دی۔ اگر اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی بات کی جاتی تو یہ یونی ورسٹیوں کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ اور مذہبی جماعتوں کے مدارس کے نصاب کا حصہ ہوتا۔ یوں ظاہر کیا جاتا ہے کہ سوائے سود کے سارا نظامِ زندگی، اعلیٰ اسلامی اقدار سے ہم آہنگ ہوچکا، صرف سود کا مسئلہ باقی ہے۔ یہ ایک ایسا مغالطہ ہے جس کی شکار ملک کی عدلیہ بھی ہے۔ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت سود کا فیصلہ کرتے وقت ملک میں رائج رشوت، کرپشن اور بدعنوانی کے بارے میں خاموش رہتی ہے۔ فرض کریں کہ اگر ملک سے سود کا خاتمہ ہو بھی جائے تو کیا ہم اسے اسلامی معاشرہ کہہ سکتے ہیں؟
۲- تجارتی بنک نفع و نقصان پر اور اسٹیٹ بنک سود پر : ۱۹۸۵ء کی پہلی کوشش میں یہ تجویز بھی زیرغور تھی کہ اسٹیٹ بنک کے بنک ریٹ جو کہ سود پر مبنی تھا، اسے نفع و نقصان کے بنچ مارک سے تبدیل کیا جائے۔ سودی بنکاری کے نظام میں مرکزی بنک کے ’بنک نرخ‘ کو ’گرفت کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے تجارتی بنک اپنی شرحِ سود وضع کرتے ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ’’تجارتی بنکوں سے پہلے حکومتی قرضہ جات کو اسلامی رنگ میں ڈھالا جائے‘‘۔ اگر یہ کرلیا جاتا تو حقیقی شعبے کے منافع پر مبنی بنچ مارک وجود میں آجاتا، جسے اسلامی تجارتی بنک بھی اپنی پراڈکٹس پر منافع طے کرنے کے لیے استعمال کرتے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ اسٹیٹ بنک کی مانٹیری پالیسی سود کے بجائے نفع و نقصان کی بنیاد پر ہوتی۔ پالیسی سازوں کی یہ دوسری غلطی تھی کہ اسلامی بنکوں کو تو نفع و نقصان پر بنکاری کرنے کی اجازت دے دی مگر اسٹیٹ بنک کا سودی تشخص قائم رکھا۔ ۲۰سال کام کرنے کے بعد اسلامی بنک۲ فی صد کاروباری حصص حاصل کرسکے ہیں، یعنی ایک سال میں ایک فی صد۔ اسی رفتار سے ۸۰سال مزید چاہئیں جس میں سارا بنکاری نظام، اسلامی بنکوں کے پاس آجائے گا مگر اس وقت تک اسٹیٹ بنک تو بدستور سود پر کام کر رہا ہوگا۔ کیا مزید ایک سو سال اسٹیٹ بنک کی اسلامائزیشن میں لگ جائیں گے؟ اگر حکومتی قرضہ کو نفع و نقصان کی بنیاد پر کرلیا جاتا تو ۵۰کھرب کا حکومتی قرضہ سودی چنگل سے نکل چکا ہوتا۔
۳- سود کے خاتمے کے لیے اسوہ رسولؐ کی پیروی: حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو شہر کی معیشت پر یہودی قابض تھے اور تین بڑی معاشی خرابیاں تھیں: اوّل، مارکیٹ میں فروخت کی اشیا لانے والوں کو ان کی اشیا کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا تھا، یعنی مارکیٹ کی رسد میں استحصال تھا کیونکہ جن لوگوں کی اشیا سے مارکیٹ چلتی تھی وہ اپنی اشیا کے مناسب معاوضے سے محروم رہتے۔ دوسرا، استحصال خریداروں کا تھا جنھیں تاجر مہنگی اور ناقص اشیا بیچتے، یعنی مارکیٹ کی طلب میں خرابی۔ تیسری خرابی سارے معاشرے کا استحصال سود کا کاروبار تھا۔
سود کی ممانعت کا حکم جنگ ِ اُحد کے وقت آگیا تھا، مگر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے پیغمبرانہ بصیرت کے تحت پہلے مارکیٹ کی طلب اور رسد کو درست کیا اور سب سے آخر میں ۹ ذوالحج ۱۰ہجری کو معیشت کو مکمل طور پر سود سے پاک کیا۔ چونکہ سیرتِ نبیؐ ہر زمان و مکاں میں ہمارے لیے زادِ راہ ہے، اسی لیے جب بھی استحصالی معاشی نظام کی درستی درکار ہوگی، اسی ترتیب و ترکیب پر کام کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے۔
پاکستان کے موجودہ معاشی نظام میں بھی تین بنیادی نقائص وہی ہیں جو ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں آمد ِ رسولؐ کے وقت تھے، مگر ہمارے ہاں تشخیص یہ ہے کہ سب سے پہلے سود کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ اسی مغالطے کی مانند ہے جس طرح سود پر مبنی اسٹیٹ بنک کی موجودگی میں اسلامی بنک زیادہ فعال نہیں ہوسکتے۔ اس لیے لوٹ کھسوٹ اور چوری پر مبنی تجارت کی موجودگی میں سود کے خاتمے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ یہ بات کرنے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ سود کے خاتمے کی کوششوں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ نہیں، بلکہ دراصل ایک مکمل اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں ان تینوں معاشی پہلوئوں پر بیک وقت کام کیا جائے۔ یاد رہے کہ سود، معاشی نظام کا ایک حصہ ہے۔ اصل ضرورت اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں بھی صرف سود کے خاتمے کے بجائے پورے اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا جانا ضروری ہے۔
یہاں پر ہم ان اقدامات کا ذکر کریں گے جو سود کے خاتمے کے لیے انتہائی ضروری ہیں:
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مارکیٹ پرمبنی مکمل معاشی نظام نافذ کیا تھا۔ہماری کتاب ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس اُس دور کی معاشیات کو آج کے دور کی اکنامکس کی زبان میں بیان کرتی ہے۔ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی معاشی نظام کے خدوخال آج کی زبان میں بیان کیے جائیں اور اس معاشی نظام سے اسلامی بنکاری کی تشکیل کی جائے۔ یہ کام یونی ورسٹی کے اکانومسٹ اور مذہبی اسکالر اور علما مل کر کرسکتے ہیں۔ اکانومسٹ، جدید معاشیات کے طور طریقوں سے بخوبی واقف ہیں اور مذہبی اسکالر اور علما درخشندہ اسلامی روایات کے وارث اور امین۔
یہ دونوں طبقے مل کر اسلامی معاشی نظام وضع کریں، مثلاً مارکیٹ کی ساخت، مارکیٹ میں کام کرنے والے لوگوں کے حقوق و فرائض، مختلف ذرائع پیداوار کے درمیان نفع و نقصان کی تقسیم کے اصول اور معاشرے میں دولت کی گردش کے بارے میں اسلامی نظریہ وغیرہ۔ ان سب چیزوں کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں جن کو معاشیات کی زبان میں ضبط ِ تحریر میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اسلامی معاشی نظام کو کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر نصاب میں شامل کیا جائے۔ اس سے طالب علموں کو سرمایہ داری کے مقابلے میں متبادل نظریہ ملے گا اور سود کے خاتمے کے سلسلے میں یہ پہلا کامیاب قدم ہوگا۔
حقیقی اسلامی بنکاری کے فروغ کے لیے نفع کی بنیاد پر بنچ مارک کی تیاری نہایت ضروری ہے۔ اس کے بہت زیادہ فوائدحاصل ہوں گے۔ اوّل:اسلامی بنک اپنے کھاتہ داروں کو سود سے بہتر منافع دے سکیں گے۔ دوسرے، اسٹیٹ بنک کی مانٹیری پالیسی سود کے بجائے حقیقی کاروبار کے نفع کی بنیاد پر استوار ہوجائے گی۔ مالیاتی دُنیا میں یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا، کیونکہ ابھی تک ساری دُنیا کے مرکزی بنکوں کی مانٹیری پالیسی سود پر قائم ہے۔ تیسرے، اسلامی بنک، زراعت اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے لیے قرضے دے سکیں گے، جہاں سودی بنک زیادہ تر کام نہیں کرتے۔
اس سلسلے میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اسٹیٹ بنک کے ڈاکٹر حسن الزماں نے انڈسٹری اوسط پرافٹ کی بات کی تھی۔ حال ہی میں اسٹیٹ بنک کے سابق ڈپٹی گورنر ریاض ریاض الدین نے بھی یہی بات کی ہے۔ کچھ سال پہلے رفاہ یونی ورسٹی، اسلام آباد کے ڈاکٹر محمد ایوب نے اسی سلسلے میں مکالمے کا آغاز کیا تھا۔ عوام الناس کی طرف سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ’’سودی اور اسلامی بنکوں میں کیا فرق ہے؟‘‘ اس درست وضاحت سے اسلامی بنکوں کونیا تشخص اور انفرادیت ملے گی جس کے باعث عوام ان کی طرف جوق در جوق رجوع کریں گے۔
اسلامی معاشی نظام کی تشکیل کو تیز تر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تینوں یونی ورسٹی سنٹروں کے ساتھ علاقے کے معروف دینی مدارس کو منسلک کیا جائے اور انھیں سالانہ اہداف دیئے جائیں اور ان کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ شائع کی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس سلسلے میں سال کے آخر میں سیمی نار منعقد کرے اور تینوں سنٹروں کی کارکردگی کا جائزہ لے۔تینوں یونی ورسٹی سنٹروں اور مدارس کے درمیان تقسیم کار بھی کی جاسکتی ہے، مثلاً IBA کراچی اور جامعہ دارالعلوم، کراچی کے ذمہ نفع کی بنیاد پر بنچ مار ک کی تیاری لگا دی جائے۔ LUMS لاہور اور جامعہ اشرفیہ، لاہور مل کر اسلامی معاشی ماڈل تیار کریں، اور IMS پشاور اپنے علاقائی مدرسہ کے ساتھ مل کر زکوٰۃ کے نظام کی جدید خطوط پر تشکیل کا ماڈل تیار کریں۔ اسلامی معاشی نظامِ میں زکوٰۃ اور عشر دوبڑے اہداف ہیں۔ ان اقدام سے ملک میں ایک جذبہ اور جنون پیدا ہوگا اور سب لوگ مل کر اس معاشی نظام (بشمول اسلامی بنکاری) کے قیام کی کوشش کریں گے، جس کا قائداعظم محمدعلی جناح نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو ذکر کیا تھا۔
شریعہ کورٹ کا سود کے بارے میں حالیہ فیصلہ موجودہ اسلامی بنکاری کے بارے میں خاموش ہے۔ عدالتی سماعت کےدوران مذہبی جماعتوں کے نمایندگان نے اس بات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا کہ موجودہ ڈھیلی ڈھالی اسلامی بنکاری، منزلِ مقصود تک پہنچانے سے قاصر ہوگی۔ جب ساتویں صدی میں یہودی سردار کعب بن اشرف نے اس خیمہ کی رسیاں کاٹیں جس کے نیچے اسلامی مارکیٹ کام کررہی تھی تو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا میدان مارکیٹ کے لیے منتخب کرتے وقت دوچیزوں کا خیال رکھنے کا ارشاد فرمایا:
اوّل یہ کہ یہ جگہ یہودیوں کی مارکیٹ سے دُور ہو اور دوم: مسجد نبویؐ سے قریب۔
حقیقی اسلامی معاشی نظام اور اسلامی بنکاری کے خدوخال طے کرتے وقت ہمیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ یہ موجودہ سرمایہ داری او ر اس پر مبنی سودی بنکاری سے مختلف ہو اور مقاصد ِ شریعہ کے حصول میں ممدومعاون ثابت ہو۔ یہ کارِعظیم دشوار تو ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر متحد ہوکر مضبوط ارادے سے کام کا آغازکیا جائے تو اسلامی معاشی گم شدہ جنّت کا حصول ممکن ہوسکتا ہے ؎
آج بھی جو ہو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
تجدید و احیائے دین، اسلامی تاریخ کی ایک روشن روایت اور عقیدۂ ختم نبوت کا فطری نتیجہ اور دینِ اسلام کے مکمل ہونے کا تقاضا ہے۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ برگزیدہ بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ دین کی بنیادی دعوت پر مبنی اللہ کے پیغام کو، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کے نمونے کی روشنی میں، اپنے دور کے حالات کا جائزہ لے کر بلاکم و کاست پیش کریں۔ دورِحاضر میں جن عظیم ہستیوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء - ۱۹۷۹ء) کا نام سرفہرست ہے۔
ویسے تو مسلم تاریخ کے ہر دور میں نشیب و فراز نظر آتا ہے، لیکن ۱۹ویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بڑی منفرد ہے کہ ساڑھے بارہ سو سالہ تاریخ میں پہلی بار مسلمان ایک عالمی قوت کی شناخت اور حیثیت سے محروم ہوئے۔ اس دوران چار کمزور ممالک اورنام نہاد حکومتوں کو چھوڑ کر پورا عالمِ اسلام مغرب کی توسیع پسندانہ اور سامراجی قوتوں کے زیرتسلط آگیا۔ یہ صورتِ حال ۲۰ویں صدی کے وسط تک جاری رہی۔ اس بات میں کچھ بھی مبالغہ نہیں کہ یہ دور مسلم تاریخ کا تاریک ترین دور تھا، جو فکری و نظریاتی اور اخلاقی انحطاط کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور تہذیبی، گویا ہراعتبار سے اُمت کی محکومی کا دور تھا۔
پھر اسی دور میں،کسی نہ کسی پہلو سے تجدید و احیائے دین کی خدمت انجام دینے والی عظیم شخصیات میں: سیّداحمد شہید، مفتی محمد عبدہٗ، سیّدرشید رضا، ابوالکلام آزاد، حسن البنا، علّامہ محمد اقبال، سعید نورسی، سیّدقطب، سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور مالک بن نبی جیسے نمایاں ترین رجال شامل ہیں۔ ان سب کی سوچ کا دھارا، کئی اُمور اورمعاملات میں اختلاف کے باوجود، مقصد اور ہدف کے اعتبار سے ایک جیسا تھا، اور وہ یہ تھا: اللہ کے دین کو اس کی اصل شکل میں پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس دین کے مطابق اپنی اور انسانی زندگی کی تشکیلِ نو اور تعمیرِنوکی دعوت دی جائے۔ اللہ تعالیٰ ان سب محسنوں پر اپنی رحمت کی بارش فرمائے، اور ان کی اور ان کے رفقائے کار کی کاوشوں کو قبولیت اور فروغ عطا فرمائے۔یہی ہیں وہ رہنما کہ جن کی قابلِ رشک کوششوں کے نتیجے میں، اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے تاریخ نے کروٹ لی اور محکومی کی تاریک اور طویل رات ختم ہوئی ۔ اسلام ایک بھرپور دعوت، انقلابی قوت اور ہمہ پہلو پیغام کی حیثیت سے اپناکردار ادا کرنے کی طرف رواں دواں ہے۔
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۹۲۰ء سے صحافت اور علم و ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات کا آغاز کیا۔ ۲۴برس کی عمر میں انھوں نے الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آرا کتاب لکھی، جو ۱۹۳۰ء میں، برصغیر ہند میں علمی، تحقیق اور اشاعت کے بڑے باوقار ادارے دارالمصنّفین، اعظم گڑھ نے شائع کی۔ اس کتاب کے لیے کی جانے والی تحقیق و جستجو مولانا مودودی کے فکری ارتقا میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔
پھر یہی ہے وہ فیصلہ کن موڑ ہے جہاں سے انھوں نے پیغامِ دین کے لیے عزم و ہمت کا عہد کیا اور عملی قدم اُٹھایا۔ مئی۱۹۳۳ء سے ماہ نامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباددکن کے ذریعے اسلامی فکر اور دعوت کے نئے چراغ روشن کرتے رہے۔ ۱۹۳۸ء میں ادارہ دارالاسلام کی تاسیس کی۔ ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو جماعت اسلامی قائم کی اور اس کے امیر منتخب ہوئے۔ فروری ۱۹۴۲ء سے تفہیم القرآن کی تحریر واشاعت کا آغاز کیا۔ ستمبر۱۹۷۹ءیعنی اپنی وفات تک فکرورہنمائی کے ہرمیدان اور تجدیدو احیائے دین اسلام کے بارے میں گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔ مولانا مودودی کی زندگی اور ان کی فکر میں سب سے نمایاں چیز اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق اور قرآنِ کریم کو زندگی کے ہرہرپہلو کے لیے اپنا رہنما بنانا ہے۔
یہ زمانہ گواہی دیتا ہے کہ مولانا کی زندگی میں فکروعمل کا سرچشمہ اور روشنی و ہدایت کا منبع قرآن پاک ہی ہے۔ اسی بنا پر مولانا کی زندگی کی اہم ترین متاع جن چیزوں کو قرار دیا جاسکتا ہے، ان میں سب سے پہلی، بنیادی اور مرکزی متاع قرآنِ کریم ہے۔ پھر دوسری چیز قرآنِ کریم اور صاحب ِ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک ہی کی روشنی میں دینِ حق کا تصور ہے، اور تیسری چیز ہے: ان دونوں کا تقاضا دعوت، اصلاح اور اقامت ِ دین کی منظم جدوجہد۔ یہی وہ تین میدان ہیں، جن میں مولانا مودودی نے بڑا تاریخ ساز کردار (contribution) اداکیا ہے۔
قرآنِ پاک سے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا تعلق بہت اہم موضوع ہے۔ ۱۹۴۶ء میں جناب محمد عمران خاں ندوی نے غیرمنقسم ہندستان کے اٹھارہ اکابر علما، دانش وروں اور رہنمائوں سے دریافت کیا کہ ’’آپ کی محسن کتاب کون سی ہے؟‘‘ دیگر افراد نے اپنی اپنی پسندیدہ کتاب کے بارے میں بتایا، لیکن ان میں واحد مولانا مودودی تھے، جنھوں نے سب سے مختصر جواب دیا۔یہ جواب مولانا کی شخصیت اور ان کی پوری زندگی کا غماز ہے اور سب پہ بھاری بھی۔ انھوں نے لکھا:
جاہلیت کے زمانے میں، مَیں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ مَیں قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اُتار چکا ہوں ، مگر جب آنکھیں کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا، علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں اُلجھتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کرڈالیں، پھر بھی حل نہ کرسکے، ان کو اِس کتاب نے ایک ایک دو دوفقروں میں حل کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر یہ غریب اس کتاب سے ناواقف نہ ہوتے تو کیوں اپنی عمریں اس طرح ضائع کرتے؟ میری اصلی محسن بس یہی ایک کتاب ہے۔ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے۔ حیوان سے انسان بنادیا ، تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی، ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں، حقیقت اس طرح برملا مجھے دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے۔ انگریزی میں اُس کنجی کو ’شاہ کلید‘ (Master Key) کہتے ہیں، جس سے ہرقفل کھل جائے۔ سو، میرے لیے یہ قرآن ’شاہ کلید‘ ہے۔ مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، وہ کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔
مولانا مودودی کے لیے سب سے بڑی دولت اور زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ، اللہ کی آخری ہدایت، یہ کتاب ہی ہے۔ قرآن ہی وہ اَبدی ہدایت ہے، جو خود خالق حقیقی نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کو زندگی میں کامیابی کا راستہ دکھانے کے لیے عطا فرمائی۔ مولانا مودودی کے نزدیک قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا کتاب اللہ ہونا ہے، یعنی یہ رہنمائی کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ خالق و مالک کی طرف سے ہے۔ اس کا ذریعہ اور وسیلہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ کو جاننے، اللہ سے جوڑنے اور اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کا واحد راستہ قرآن کی ہدایت کو تسلیم کرنا،اور اس کے مطابق اپنی ذات کو اور ساری دنیا کو ڈھالنا ہے۔ اس چیز کے تین پہلو ہیں:
ان تینوں بنیادوں کو قرآن نے جامع اصطلاح ’اقامت ِ دین ‘ میں سمو دیا ہے اور یہی معنی عبادت کے ہیں۔یہ دوسرا پہلو ہے: قرآنِ کریم سے مولانا کے تعلق کا، جسے انھوں نے بڑی تفصیل سے مختلف اسالیب میں بیان کیا ہے اور وضاحت فرمائی ہے۔
مولانا مودودی نے بتایاہے کہ قرآن صرف اللہ کی کتاب اور کتابِ ہدایت ہی نہیں بلکہ کتابِ انقلاب ہے۔ جہاں اس کے مخاطب تمام انسان ہیں، وہاں اس کا خاص طور پر خطاب انسانوں کے ایسے گروہ سے ہے، جو اسے قبول کرتا ہے۔ قرآن انھیں رہنمائی فراہم کرتا اور تیار کرتا ہے کہ وہ کس طرح خود کو اور پوری انسانی زندگی کے ہر شعبے اور دائرہ کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے دعوت، شہادتِ حق اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا ہے اور ہدف دین کے پیغام کو عام کرنا اور اللہ کی مرضی کو غالب کرنا بتایا ہے۔ اس مقصد کو تفہیم القرآن کے مقدمے میں مولانا مودودی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
فہم قرآن کی ساری تدبیروں کے باوجود، آدمی قرآن کی رُوح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا، جب تک عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دُنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رُموز حل کرلیے جائیں۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔
اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر، خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم بردارانِ کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔
ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفرودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں؟
اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں، جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے ،اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے، جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکّے اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجَہل اور ابولَہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔
یہ ایک اور ہی قسم کا ’سُلوک‘ ہے، جس کو میں ’سُلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خودسامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی رُوح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔
پھر اسی کُلیّے کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آ ہی نہیں سکتے، جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کررکھا ہو، اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔(تفہیم القرآن، اوّل، ص ۳۳-۳۵)
قرآن سے اس تعلق کے ساتھ مولانا مودودی نے دوسری اہم فکری خدمت یہ انجام دی ہے کہ دین اسلام کو آج کی زبان میں، ایک مکمل لائحہ عمل کے طور پر بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے، جس میں دین اور دنیا کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے اور عبادت اس کا مظہر بھی ہے اور اس کے تقاضوں کے لائق بنانے کا ذریعہ بھی۔ لیکن اصل ہدف اور مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ ہرشعبۂ زندگی کو اللہ کی مرضی کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس میں نجی، خانگی، اجتماعی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، ملکی، عالمی سطح کے تمام تعلقات شامل ہیں۔
اس ضمن میں مولانا مودودی نے بنیادی نوعیت کے آٹھ مزید کارنامے انجام دیے، جو ان کی فکری خدمات میں نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں:
مسلم معاشروں میں دین سے عدم واقفیت، اور جاہلیت کی گرفت بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک صاحب ِ ایمان مسلمان علم، اخلاق اور دیانت کے بغیر کسی بھی میدان میں کام نہیں کرسکتا۔ علوم کی تقسیم دین اور دنیاوی دائروں میں اس حد تک تو گوارا کی جاسکتی ہے کہ مختلف علوم کے دائروں کو متعین کیا جائے، لیکن اسلام کے تصورِعلم میں اللہ کی مرکزیت اور اللہ کی ہدایت کو علم کے ہرشعبے میں مطابقت (relevance) کے ساتھ پیش کرنا اور ہروقت اس کا احساس بیدار کرنا فہمِ دین کا بنیادی اصول ہے۔ ہمارےدورِ زوال میں شعوری یا غیرشعوری طور پر علم کا تصور محدود تر ہوگیا۔ کم از کم علمی سطح پر دین کے دائروں اور دینی ہدایت کو شخصی زندگی اور عبادات تک محدود کردیا گیا۔ اجتماعی زندگی اور اجتماعی علوم کے باب میں دین حق نے جو رہنمائی فراہم کی ہے اور جو دورِ عروج میں ہماری شان رہی ہے، اس سے ہم بہت دُور ہوگئے ہیں۔ جب تک یہ ترتیب اور مطابقت علوم اور تربیت کا حصہ نہیں بنتی، احیائے اسلام ممکن نہیں ہوگا۔ اس مقصد کے لیے مولانا مودودی نے مسلم معاشروں کی فکری ساخت کا تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی مرض کی نشان دہی کی۔
اس کے بعد قرآن و سنت کی روشنی میں نئے مسائل حل کرنے کے لیے استدلال، قیاس، استنباط اور اجتہاد کی بنیاد پر قانون سازی ہے۔ یہی ہے وہ عمل کہ جس سے فقہ کا قیمتی سرمایہ وجود میں آیا۔ پھر فقہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے علم اور تقلید کی روایت نے سفر شروع کیا۔ مولانا مودودی کے نزدیک احیائے دین کے لیے صحیح ترتیب قرآن، سنت، فقہ اور تاریخ ہے۔ جس کی روشنی میں نئے مسائل کا حل قرآن و سنت اور اجتہاد و استنباط ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دورِ زوال میں یہ ترتیب اُلٹ کر رہ گئی۔ یوں تقلید و تاریخ نے عملاً اوّلیت اختیار کرلی، پھر فقہ، اس کے بعد سنت ِ رسولؐ، حکایاتِ بزرگانِ دین اور اس کے بعد قرآن۔ گویا کہ جس چیز، یعنی قرآن کو سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا، وہ سب سے آخر میں چلا گیا۔ یہی بدقسمتی مسلمانوں میں مروج نظامِ تعلیم کے ساتھ ہوئی اور وہاں پر بھی ترتیب اُلٹ گئی، اور قرآن سب سے آخر میں اور وہ بھی محدود تر دائرے میں شاملِ نصاب ہوا۔
مولانا مودودی نے اس بات کی طرف متوجہ فرمایا کہ مسلم معاشرے میں اصل اصلاح طلب چیز، حقیقی اور مطلوب ترتیب کو بحال کرنا ہے۔ فقہ کو نظرانداز کرنا یا دریابُرد کرنا علمی اور تہذیبی خودکشی کے مترادف ہے، مگر رہنمائی کے لیے ترتیب میں قرآن ، سنت اور پھر فقہ وتاریخ کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ یہ ایک انقلابی نکتہ ہے، جسے مولانا مودودی نے ابن تیمیہ، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ سے گاہے اتفاق اور کچھ اختلاف کے ساتھ پیش کیا اور اس جرأتِ اظہار کی بڑی قیمت ادا کی۔
نہیں اس کی کوئی پرسش کہ یاد اللہ کتنی ہے
یہی سب پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
مولانا مودودی نے اقبال اور دوسرے علما و مصلحین کے ساتھ مغربی تہذیب کا بھرپور محاکمہ کیا اور بہت صاف صاف الفاظ میں یہ بات کہی کہ: ’’مغربی سامراج سے صرف سیاسی آزادی مطلوب نہیں بلکہ فکری، نظریاتی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی آزادی بھی مطلوب ہے، تاکہ مسلمان اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی کو مرتب اور منظم کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے محض مسجد بنادینا اور صرف نماز پڑھ لینا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے خاندانی نظام کا تحفظ اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیربھی ضروری ہے۔ نیز سیاسی آزادی اور اختیار بھی مطلوب ہے تاکہ دینی اقدار بالادست ہوں اور یوں اجتماعی زندگی اسلامی بنیادوں پر استوار ہو‘‘۔ اقبال نے بڑے لطیف انداز میں کہا:
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اور یہ کہ:
جدا ہو دیں سیاست سے،تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اسلام، درحقیقت سیاسی و تہذیبی اور فکری و سیاسی میدان میں آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ غلامی کی ہر رمز اور محکومی کی ہر علامت کو رَد کرتا ہے، تاکہ اسے قبول کرنے والے زندگی کی تشکیلِ نو کرسکیں۔ مولانا مودودی نے اس موقف کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے۔ ان کے متوازن ذہن اور محتاط قلم نے مغرب زدگان کو دلیل کے میدان میں بے بس کر دیا ہے اور یہی چیز مغرب کو کھائے جارہی ہے۔ جس کے لیے کبھی اس کے ترجمان ’سیاسی اسلام‘ جیسی نامعقول، مہمل اور مضحک (absurd) اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور کبھی اسلام کے ڈانڈے فسطائیت (فاشزم) اور انتہاپسندی سے جوڑتے ہیں ۔ حالاں کہ سچ بات یہ ہے کہ مسلمان اپنا حق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حق کہ وہ اپنی انفرادی اور اپنی اجتماعی زندگی کو اپنی اقدار و تہذیب اور قانون و ضابطے کے مطابق گزار سکیں۔
جس طرح مولانا مودودی نے مسلم معاشروں کا جائزہ لے کر ان کی خامیوں کو متعین کیا، اسی طرح انھوں نے مغربی تہذیب کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ یہاں بھی انھوں نے اندھی تنقید اور اندھی تقلید دونوں کے مقابلے میں ایک آزاد، نظریاتی، منطقی اور اعتدال پر مبنی رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے تعصب پر مبنی تحقیق و مطالعے کو عدل اور شرفِ انسانی دونوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ مولانا نے مغرب اور مغربی تہذیب کو اس کے مآخذ کے مطالعے اور سرچشموں کے مشاہدے سے جاننے کی جستجو کی ہے۔ پھر ان بنیادوں پر تنقید کی ہے، جو خدا ناشناسی یا خدا کی قدرت کے محدود تصور پر مبنی ہیں۔
مولانا مودودی نے مغرب کے سامراجی کردار اور نظریاتی و سیاسی پہلوئوں کا ہمہ پہلو محاکمہ کیا ہے۔ پھر مسلم دنیا کو مغرب کے اس اثر سے نکالنے کے لیے سیاسی، فکری، اجتماعی جدوجہد کی دعوت دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ مغرب میں یا مغرب کی ہر چیز غلط نہیں، اور نہ مشرق میں اور مشرق کی ہر چیز خیرہے۔ ہمیں کھلے ذہن اور کھلی آنکھوں سے قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ ’خیر‘ کے لیے کس چیز سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں انسانی زندگی کے معاملات، سیاسی تجربات اور سائنسی علوم کو ایک صاحب ِ ایمان فرد کی حیثیت سے پرکھنا چاہیے کہ کہاں اور کس قدر خیر ہے، خیر کو شر سے چھانٹ کر انسانی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے اور شر سے انسانیت کو بچانا چاہیے۔ یہ حس اور یہ صلاحیت اس کھلے ذہن سے پیدا ہوسکتی ہے کہ جس کی میزان لازمی طور پر اسلامی ایمانیات پر استوار ہو اور جس کی کسوٹی اسلامی اصولوں کے ساتھ تصادم یا مطابقت کے سوال سے مشروط ہو۔
مولانا مودودی نے سمجھایا کہ جو چیز اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم نہیں، وہ انسانیت کی مشترک میراث ہے۔ البتہ اندھی تقلید اور اندھی تنقید دونوں غلط چیز ہیں۔ جو اچھا ہے، اسے قبول کرلو اور جو بُرا ہے، اسے مسترد کردو۔ خیر تک رسائی اور خیر کے استعمال و اختیار کے لیے پوری دنیا ایک میدان ہے۔ ایک صاحب ِ ایمان فرد کسی ایک علاقے اور کسی ایک زمانے تک محدود نہیں رہ سکتا۔ اسے معتدل طریقے سے یہ خدمت انجام دینی چاہیے۔
مسلم اور مغربی معاشروں کے تنقیدی جائزے کے بعد مولانا مودودی نے بتایا ہے کہ اسلامی احیا ہی انسانی زندگی کے لیے خیر اور فلاح کا سرچشمہ ہے، جس کا ماخذ قرآن ہے۔ قرآن کی بنیاد پر دین کو سمجھا جائے، قرآن کی حکمت عملی کو سمجھا جائے اور قرآن کے زیرسایہ اسلامی احیا کی تحریک کو منظم کیا جائے۔ یہ کام دعوت اور نظم و ضبط سے، افراد کی تیاری اور اداروں کی تعمیروترقی ہی سے ممکن ہے، جس میں سب سے مرکزی اور بنیادی ادارہ خاندان ہے۔ مولانا محترم نے زور دے کربتایا ہے کہ جدید دور میں، جدید ذرائع اور جدید اسلوب کو دعوت و تنظیم اور عمومی بیداری کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اسی لیے انھوں نے جدید زمانے میں تنظیم سازی کے لیے بہترین انداز سے جماعت اسلامی اور دوسرے دعوتی اداروں کو منظم کیا۔
مولانا مودودی نے یہ بھی بتایا ہے کہ قومی ریاستیں (Nation States)مسلمانوں کی منزل نہیں، البتہ مسلم ممالک اور دنیا کے حالات کی روشنی میں وہ مسلم اُمہ کے اتحاد واشتراک کی جانب رواں سفر کا ایک ذریعہ بن سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ نظریاتی اساس پر اپنی تعمیر کریں۔ہماری قومی ریاستیں مغرب کی طرح علاقائی اور جغرافیائی اکائیاں نہیں ہیں، بلکہ ایک نظریے کی علَم بردار اور ایک جسد ِ واحد کا حصہ ہیں، جنھیں ایک جان دار جسم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی ہے وہ سبق، جو قرآنِ کریم نے ہرمسلمان کو پڑھایا اور سمجھایا ہے۔
اس حوالے سے مولانا مودودی کی فکر کو سمجھنے کے لیے بنیادی نکات دو ہیں: قرآن اور اقامت دین۔ ان کا سارا علمِ کلام اس کی تفسیر ہے اور ان کی تمام سرگذشت ِ زندگی انھی کے مدار میں رواں رہتی اور پھلتی پھولتی ہے۔
ایک اہم بات جس کا ادراک بہت ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے ایک طرف قرآن و سنت اور تاریخ تجدید و احیا کے گہرے مطالعے اور تجزیے کی روشنی میں اسلام کے تصورِحیات کو اس کی مکمل شکل میں پیش کیا۔ ایمان اور تزکیے کے ساتھ زندگی کے پورے نظام کی اسی بنیاد پر تعمیر و تشکیل کا واضح تصور اور نقشہ پیش کیا۔ پھر اس کے مطابق زندگی کے نقشے کو بدلنے کے لیے دعوت اور منظم تحریک کی ضرورت اور حکمت عملی کو واضح کیا، وہیں سوچ کا ایک انداز، تحقیق کا ایک اسلوب اور افکار اور حکمت عملی کی تشکیل کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں خطوطِ کار مرتب کیے، جسے مَیں مولانا مودودی کا منہج (methodlogy ) کہتا ہوں۔ اس عمل میں انھوں نے قرآن و سنت سے مکمل وفاداری پر زور دیا ہے۔ تاریخی روایت کے تسلسل کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات اور زمانے کے تقاضوں کا ادراک کرنے اور اُن کی روشنی میں حدود اللہ کی پاس داری اور مقاصد ِ شریعت سے وفاداری کو لازم قرار دیا ہے۔ پھر زبان و بیان، دلیل و استدلال، تنظیم اور نظامِ کار اور پالیسی کے میدان میں نئے تجربات کی ضرورت اور حدود کو بھی معین فرمایا۔ ان اُمور کی روشنی میں مسلمانوں کی اپنی تاریخ اور دورِحاضر کی غالب تہذیب دونوں کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا اور نئے تجربات کیے۔
پہلا یہ کہ جب ۱۹۵۳ء میں مارشل لا حکومت نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا، اور ساتھ یہ بھی کہا کہ آپ رحم کی اپیل کرسکتے ہیں مگر مولانا مودودی نے، موت کا پروانہ تھمانے والے اہل کار کو بڑے وقار کے ساتھ دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا: ’’ظالموں سے رحم کی درخواست کرنے کے بجائے مَیں مر جانا بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر خدا کی مرضی نہیں ہے تو پھر یہ میرا بال بیکا نہیں کرسکتے، خواہ اُلٹے لٹک جائیں‘‘۔
اور دوسرا موقع وہ تھا جب ۱۹۶۳ء میں فوجی حکمران جنرل ایوب خاں کی حکومت نے جماعت کے قومی اجتماع کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بعد ناکامی کی صورت میں، عجب جارحیت کا مظاہرہ کیا۔جیسے ہی مولانا مودودی افتتاحی خطاب کے لیے کھڑےہوئے تو حکومتی سرپرستی میں غنڈوں نے سائیلنسر لگے پستولوں کے ذریعے براہِ راست فائرنگ شروع کر دی، جس میں فوری طور پر ایک کارکن شہید ہوگیا۔ فائرنگ کا رُخ مولانا کی طرف تھا کہ ان کے ایک رفیق نے بلندآواز میں کہا: ’’مولانا آپ بیٹھ جائیں‘‘، تو مولانا نے اسی لمحے اُن کو جواب دیا: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا؟‘‘
یہ اور ایسےواقعات مولانا مودودی کی مقصد ِ زندگی سے وابستگی اور اس کے لیے سب کچھ کرگزرنے کے عزم کا درس دیتے ہیں۔
مولانا محترم کے اندازِ فکر اور تحقیق و تجزیے کے اسلوب، دونوں میں ہمارے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ مسلمانوں کو عہد ِ حاضر میں تجدید و احیائے دین کے لیے سرگرم اور متحرک کرنے پر اللہ تعالیٰ انھیں بہترین انعامات سے نوازے، آمین۔
مولانا مودودی نے جو آواز حیدرآباددکن اور پاکستان سے اٹھائی تھی، وہ آج ساری دُنیا میں مسلمانوں کی آواز بن گئی ہے۔ جس بات کو مولانا مودودی نے پورے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے، اسے مختصر الفاظ میں ایران کے عالمِ دین مُلا صدرا نے چار راہِ عمل کی شکل پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلی چیز مِنَ الْخَلْقِ اِلَی اللہَ ہے کہ بندہ دُنیاداری کے راستے کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کرے، اور اس سے تعلق جوڑے، جسے وہ مَعَ اللہِ کےالفاظ سے ادا کرتا ہے، لیکن اسے یہاں رُک نہیں جانا بلکہ ایک تیسرا عمل مِنَ اللہِ اِلَی الْخَلْقِ تک کا ہے کہ دوبارہ خلق اور بندوں کی طرف جائے اور ان تک اسلام کی دعوت کو پہنچائیں جس کے بعد آخری مرحلہ مَعَ الْخَلْقِ اِلَی اللہِ کا ہے، یعنی دوسروں کو دین سے آراستہ کرکے سب کو رجوع الی اللہ کے راستے پر گامزن کرنے کی سعی کرے۔ یہی اسلام کا پیغام اور یہی ہے اسلام کا تاریخی کردار جسے اس دور میں مولانا مودودی نے محکم انداز میں ادا کیا ہے۔(مکمل
تعارف: دنیا میں عقائد اور شناخت کے لحاظ سے چھ بڑی تہذیبیں ہیں، جن میں سے تین عالم گیر اور تین مقامی یا علاقائی اہمیت کی حامل ہیں۔ تین عالم گیر تہذیبیں مل کر پوری دنیا کی آٹھ ارب آبادی کے ۷۰ فی صد انسانوں پر مشتمل ہیں۔ یہ تینوں عددی ترتیب کے لحاظ سے عیسائیت ۳۰٪ فی صد، اسلام ۲۵ فی صد اور لادینیت ۱۵ فی صد ہیں۔ یہ تینوں تہذیبیں مختلف براعظموں میں مرتکز ہونے کے باوجود بین البراعظمی ہیں۔ اسی بنا پر ہم انھیں ’عالم گیر ‘کہہ رہے ہیں۔ بقیہ ۳۰ فی صد میں سے ۲۷ فی صد کا تعلق تین دیگر بڑی تہذیبوں سے ہے، ہندومت ۱۵ فی صد، بودھ مت ۶ فی صد اور مقامی متفرق تہذیبیں ۶ فی صد۔ ان چھ تہذیبوں کے علاوہ دُنیا میں ایسے مذاہب اور تہذیبیں پائی جاتی ہیں، جو اپنی سطح پر بہت اہم اور بعض صورتوں میں عالم گیر ہیں۔ تاہم، ان کے پیروکاروں کی تعداد انتہائی محدود ہے، مثلاً یہودی، سکھ، پارسی ودیگر۔ یہ تمام مل کر دُنیا کی آبادی کا ۳ فی صد بنتے ہیں۔
تہذیبیں انسانی شناخت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لہٰذا، ہم سب سے پہلے انفرادی اور گروہی شناخت کا ایک عمومی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
انفرادی اور گروہی شناخت کا مطالعہ ایک دل چسپ، مگر پیچیدہ موضوع ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایک ایسا پیمانہ نہیں ہے، جو محدود حواس کی گرفت میں اس کی حقیقت کو لاکر پیمائش کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شناخت کن اسباب سے تشکیل پاتی ہے: مذہب کی محبت سے، ریاست کے جبر سے، مادی مفاد کی رغبت سے، یا جبلی فطرت سے؟ کیا فرد کی ذات سے خارج کوئی قوت یا ادارہ اُسے تشکیل دے سکتا ہے؟ ایسا کرنا صحت مند اور مطلوب ہوگا یا نہیں؟ ان خارجی اسباب میں تعلیم اور تعلیمی نظام کے کردار کو کیسے پرکھا جائے؟ وغیرہ۔
قدیم زمانے سے افراد اور گروہوں کی شناخت کی تشکیل میں مذاہب نے، خواہ وہ عالم گیر ہوں یا مقامی، الہامی ہوں یا انسانی تخیل پر مبنی، ایک نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مذاہب کے اس کردار میں گذشتہ صدی کے دوران کچھ اہم تبدیلیاں آئی ہیں، جنھیں درج ذیل دو نکات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
سولھویں صدی کے یورپی براعظم سے عالم گیر عیسائیت نے چند اہم قومی بادشاہتیں پیدا کیں۔ اسی دوران عیسائیت کے اندر ایک مذہبی بغاوت کے نتیجے میں پروٹسٹنٹ مذہب پیدا ہو گیا۔ قومی بادشا ہتوں نے اس تفریق کے نتیجے میں اپنے آپ کو عیسائیت کے ایک یا دوسرے گروہ سے منسلک کر کے اسے اپنی شناخت بنا لیا۔ اس طرح عالم گیر عیسائی شناخت، قومی شناختوں میں بکھر گئی۔ گویا ابتدا میں مذہب کی قومی شناخت ایک یورپی تصور تھا، لیکن جلد ہی قومی بادشاہتوں نے اپنے دین کو اپنا ماتحت بنا لیا۔ رفتہ رفتہ یہ نئی شناخت انسانوں کی طویل المدت دینی شناخت کی ایک اہم حریف بن گئی۔
یورپ کے دورِ استعمار میں یہ تصور نو آبادیاتی علاقوں میں متعارف ہوا اور جب استعمار رخصت ہوا تو نئے سیاسی ادارے اسی بنیاد پر قائم ہوئے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے اختتام تک دنیا کی بیش تر آبادی میں قومی شناخت اول اور مذہبی شناخت ما تحت شناخت میں تبدیل ہوگئی۔
مختصراً یہ کہ اس نئی شناخت میں قومی ریاست کی اوّلیت کا تصور ابتدا ًایک یورپی مذہب بیزار تصور تھا۔ جو رفتہ رفتہ دنیا بھر میں ایک انتظامی حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔ اس انتظامی ادارے نے قوت کے تمام مراکز پر اجارہ داری حاصل کر کے لادینیت کو ایک عالم گیر تہذیب بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ تحقیق کے مطابق لادینیت کی عالم گیر تہذیب میں قومی ریاست کا تصور ایک بنیادی اور غیر متنازع تصور ہے۔ اس موضوع پر معروضی اعداد و شمار مضمون کے متعلقہ حصے میں درج کر دیئے گئے ہیں۔
الہامی ادیان یعنی عیسائیت اور اسلام کے ایک بے نام حریف کی پذیرائی، اور قوت کے اداروں پر اس کی اجارہ داری نے قومی ریاست کی شناخت کی اوّلیت اور الحاد کے فلسفے کے مرکب سے جدید لادینی تہذیب کا نیا اضافہ کر دیاہے۔ عیسائیت اور اسلام دونوں بہت کثیر التعداد اور طاقت ور تہذیبیں ہونے کے باوجود دُنیا کے نظامِ جبر (coercive power) میں وہ حیثیت حاصل نہ کرسکی تھیں، جو اس نئی تہذیب نے حاصل کی ہے۔ اس کی رکنیت کرۂ ارض کے تمام انسانوں کے لیے، چاہنے یا نہ چاہنےکے باوجود لازمی قرار پائی ہے۔ اس کے پیروکار بالعموم اس مذہبی فکر اور پہچان کو ثانوی حیثیت دے کربیک وقت کسی اور مذہب کے پیروکار بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے یہ تہذیب مذاہب کے اس سلسلے میں شمار کی جائے گی، جس میں ایک سے زیادہ دیوتائوں (gods) کی اجازت ہے۔
اس تیسری عالم گیر تہذیب نے تعلیمی نظام پر ایک مخفی یا نیم مخفی اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ اس کا تعلق نظامِ عدل کے ایک خاص عالم گیر نظام اور اطلاق سے ہے۔ ’عالم گیر انسانی حقوق‘ (Universal Human Rights) کی تعریف، حقوق سے زیادہ اُن اخلاقی معاملات سے منسلک ہوگئی ہے، جو تاریخی طور پر عیسائیت اور اسلام یا دیگر بہت سے پیروکاروں والے مذاہب کے دائرئہ کار میں شامل تھے۔
اس مضمون میں ہم باری باری ان تینوں تہذیبوں کا بنیادی تعارف اور تجزیہ کریں گے۔
پس منظر: بعض عمومی باتیں جن سے ہم اکثر واقف ہیں،یادداشت کے لیے انھیں دُہرا دینا مناسب ہوگا۔ عیسائیت کی عمر ۲ہزار سال ہے۔پہلے تقریباً۱۰۰سال تک یہ اپنے آپ کو یہودیت ہی کا ایک فرقہ کہتی تھی اور یہودیوں کے علاوہ دیگر آبادیوں میں تبلیغ نہیں کرتی تھی اور نہ اُنھیں اپنے میں شامل کرتی تھی۔ اس کی اُٹھان میں بغاوت کا پہلو بہت زیادہ نمایاں تھا۔ یہ اپنی مذہبی قیادت یعنی یہودی پیشوائوں سے باغی تھی۔ رومی سلطنت بھی اسے بادشاہ کے اُوپر ایک بادشاہ کا تصور رکھنے کے سبب باغی گروہ سمجھتی تھی۔ ان اسباب سے عیسائیت کے پیروکار ظلم و ستم کا شکار رہتے تھے۔ یہ کیفیت ۳۰۰سال تک رہی۔ حتیٰ کہ روم کے ایک شہنشاہ کانسٹنٹائن اوّل (۲۷۲ء-۳۳۷ء) نے عیسائیت قبول کرکے اسے اپنی بادشاہت کا سرکاری مذہب قرار دے دیا۔ اسی بادشاہ کی نسبت سے اُس کی بادشاہت کا صدر مقام قسطنطنیہ (حالیہ استنبول) کہلایا۔
عالم گیر عیسائیت میں اپنی ابتدا ہی سے شدید فرقہ واریت پائی جاتی ہے۔ فرقہ واریت کی بنیاد حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ذات میں خدائے بزرگ و برتر کی ذات کے حلول ہونے یا نہ ہونے سے متعلق عقائد تھے۔ دوسرے یہ کہ عیسائیت کے پیروکاروں میں رسمی تنظیم سازی بہت اہم سمجھی جاتی تھی، لہٰذا اس میں شمولیت اور اس سے اخراج، ایک تنظیمی کارروائی تھی۔ اخراج کے نتیجے میں خارج شدہ افراد اپنا علیحدہ فرقہ بنا لیتے تھے۔ تیسرا یہ کہ اخراج کی بنیاد عمل سے زیادہ عقیدے کے اختلاف پر تھی۔ اس لیے عقیدے کی باریکیاں اور موشگافیاں بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ عیسائیت میں یہ فرقے رفتہ رفتہ علیحدہ مذاہب کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ذات کے بارے میں عقائد کے اختلاف کے علاوہ عیسائیت کی تاریخ میں علاقہ جاتی یا جغرافیائی اختلاف بھی نہایت اہم ہے۔ چنانچہ مغربی اور مشرقی عیسائیت، مسیحی اُمت کی نمایاں تفریق ہے۔ اس اختلاف کا تیسرا سبب ایک عالم گیر اُمت کے اندر متعدد قومی اُمتوں کے ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ سولھویں صدی کے آغاز میں ایک بڑی بغاوت کے نتیجے میں ایک جرمن عیسائی پیشوا مارٹن لوتھر(۱۴۸۳ء-۱۵۴۶ء) نے پروٹسٹنٹ عیسائی فرقے کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح مغربی عیسائیت دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ کیتھولک جو ایک عالم گیر پیشوا کو مانتے ہیں اور پروٹسٹنٹ جو ہر قومی ریاست میں اپنا اپنا قومی مذہبی پیشوا متعین کرتے ہیں اور اُن کے ہاں کسی مشترکہ عالم گیر پیشوا کا کوئی تصور نہیں۔
یہ پس منظر یہاں بیان کردہ اعدادو شمار کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ حالیہ اعداد و شمار میں دُنیا بھر کی عیسائیت چار اقسام کا مجموعہ ہے، جن میں: کیتھولک جو کُل عیسائیوں کا ۵۰ فی صد ہے، پروٹسٹنٹ ۳۸ فی صد ہیں، آرتھوڈاکس (مشرقی چرچ) اور ان کے ہمراہ وہ تمام فرقے جو ان تینوں کے علاوہ اپنی اپنی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، وہ ۱۲ فی صد ہیں۔
عوامی سطح پر ان بڑے عیسائی فرقوں کا کوئی مشترکہ اجتماع نہیں ہوتا۔ ان کی عبادات کے طریقے (Liturgy)مختلف ہیں۔ ایک تہذیب کے طور پر جدید زمانے میں عیسائیت کو ایک تہذیب کہا جائے یا کم از کم تین منفرد تہذیبیں، یہ ایک بڑا غورطلب معاملہ ہے۔اسی سبب سے پروفیسر سموئیل پی ہن ٹنگٹن (م:۲۰۰۸ء)نے تہذیبوں پر اپنی کتاب The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order (۱۹۹۶ء) میں عیسائیت کو تین مختلف تہذیبیں شمار کیا ہے۔ خود پروفیسر موصوف امریکی پروٹسٹنٹ عیسائیت سے تعلق رکھتے تھے۔
شدید فرقہ وارانہ رجحانات کے باوجود عیسائیت کے تمام فرقوں میں بعض اہم چیزیں مشترک بھی ہیں،مثلاً بائبل سے تعلق، حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام سے تعلق اور تمام تر موشگافیوں کے باوجود اپنے آپ کو ایک موحدین (Monotheism) کا پیروکار کہنا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنا رشتہ جوڑنا ان کے اہم مشترکات ہیں۔
عیسائیت میں فرقہ وارانہ تقسیم کی طرح دیگر دونوں عالم گیر تہذیبوں یعنی اسلام اور لادینیت میں بھی گروہی تقسیم موجود ہے۔
۱۹۶۰ء میں دُنیا کی کُل آبادی کا ۳۴ فی صد اپنے آپ کو عیسائیت کا پیروکار کہتا تھا۔ ۶۰برس بعد ۲۰۲۰ء میں یہ شرح ۳۱فی صد رہ گئی ہے۔ بعض علاقوں میں آبادیوں نے عیسائیت سے تعلق توڑا، جب کہ دیگر علاقوں میں اپنے قدیمی مذاہب کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کی ہے۔ یہاں پر اُن اہم تبدیلیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے، جو گذشتہ ایک صدی میں عیسائی تہذیب کی جغرافیائی ساخت میں ظہور پذیر ہوئی ہیں:
پہلی تبدیلی یہ ہے کہ عیسائیت، یورپ اور امریکا کی تہذیب سے آگے بڑھ کر جغرافیائی طور پر ایک عالم گیر تہذیب بن گئی۔ ایک سو سال پہلے تک عیسائیت یورو امریکا تک محدود تھی اور اس کے ۹۳ فی صد پیروکار یورو امریکا ہی میں مقیم تھے اورصرف ۷ فی صد عیسائی ایفرو ایشیا میں۔ گذشتہ سو سال کے دوران افریقا اور ایشیا میں بڑھوتری اور یورو امریکا میں کمی کے سبب یہ تناسب بدل گیا ہے۔ اب ۶۰ فی صد یورو امریکا میں اور ۴۰فی صد ایفرو ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔ایک صدی کے اندر اتنی بڑی تبدیلی کو جغرافیائی انقلاب کہا جاسکتا ہے، جس کے اسباب اور مضمرات دونوں اہم ہیں۔
دوسری تبدیلی یہ ہے کہ عیسائیت کے تاریخی مرکز یعنی یورپ و امریکا میں ۲۵کروڑ ۴۰لاکھ افراد نے ۲۰۲۰ء تک پہنچتے پہنچتے عیسائیت کو رسمی طور پر ترک کرکے ’لادینی تہذیب‘ کا پیروکار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ مزید یہ کہ۶۰سال پہلے یورو امریکی لادینیت کا مرکز روس اور مشرقی یورپ تھا۔ ۶۳ فی صد لادینی یورو امریکا سے تعلق رکھتے تھے۔اب یہ صورتِ حال بالکل پلٹ گئی ہے، اور یورو امریکی لادینیت کا مرکز مغربی یورپ اور امریکاہیں۔ یورو امریکی لادین افراد میں سے ۸۱ فی صد اب مغربی یورپ یا امریکا میں ہیں۔
تیسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ یورو امریکا کے عیسائی، عیسائیت کے مشترکہ عقائد میں یقین رکھنے کے بارے میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ماضی میں وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ذات کی حقیقت اور صفات پر تقسیم تھے۔ اب اس سے آگے بڑھ کر خدا، آخرت، جزا اور سزا کے مشترکہ عقائد پر بھی تقسیم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ یورو امریکا کے عیسائی پیروکاروں میں سے ۲۲ فی صد جزا یعنی جنّت کا اور ۴۰ فی صد سزا یعنی دوزخ کا انکار کرتے ہیں۔ ۲۹ فی صد ایسی روح کا بھی انکار کرتے ہیں جو موت کے بعد اپنا وجود رکھتی ہو۔
چوتھی تبدیلی یہ آئی ہے کہ ایک صدی پہلے تک دُنیا کے عیسائی پیروکاروں میں ’ایک عالم گیر عیسائی اُمت‘ (Christendom) کا تصور معروف تھا۔ یہ تصور اس کے باوجود معروف تھا کہ اس کے تینوں بڑے فرقے، اپنے فرقے کے علاوہ دیگر عیسائی فرقوں کو عیسائی تسلیم کرنے پر بھی آمادہ نہیں تھے۔ لیکن ہر فرقہ اپنی سماجی اور سیاسی شناخت میں عیسائیت کو اوّل مقام دیتا تھا۔ ۲۰۲۰ء تک پہنچتے پہنچتے عیسائیت کے پیروکاروں میں ’عالم گیر عیسائی اُمت‘ کا تصور غیرمعروف ہوگیا ہے اور باعث ِ افتخار نہیں رہا۔ دُنیا کے ۱۷۵ ممالک میں سے تقریباً ۱۰۰ میں عیسائیت آبادی کا اکثریتی مذہب ہے، لیکن بین الاقوامی گفت و شنید میں ’عیسائی دُنیا‘ کی اصطلاح اس طرح سے استعمال نہیں ہوتی، جیسے ’مسلم دُنیا‘ کی اصطلاح۔ حالانکہ صرف۵۰ ممالک ایسے ہیں، جہاں اسلام اکثریتی مذہب ہے۔
دُنیا بھر کے عیسائی پیروکاروں میں سے صرف ۲۱ فی صد اپنی شناخت میں عیسائی اُمت سے وابستگی کو اولیت دیتے ہیں ، جب کہ عالم گیر مسلمانوں میں یہ شرح ۴۹ فی صد ہے۔
پس منظر: یاد رہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اسلام کا ظہور شمسی برسوں کے حساب سے تقریباً۱۴سو سال قبل ہوا۔ ۶۲۲ء سے ہجری سال شروع کیا جائے تو گذشتہ برس ۱۴۰۰ سال مکمل ہوتے ہیں۔
محتاط تخمینے کے مطابق دُنیا کی ۸؍ارب آبادی میں سے قریباً ایک چوتھائی مسلمان ہیں۔ اس ۲؍ارب میں سے اندازاً ۸۰ فی صد اُن ۵۰ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں اُن کی اکثریت ہے، بقیہ ۲۰ فی صد کی حیثیت اپنے اپنے ملکوں میں غیراکثریتی ہے (واضح رہے کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کے۶ ممبر ممالک مسلم اکثریتی نہیں ہیں)۔
۲؍ارب مسلمانوں کی کُل آبادی کا ۹۷ فی صد افریقا اور ایشیا میں رہتا ہے اور صرف ۳ فی صد یورو امریکا میں۔ ’عالم گیر عیسائیت‘ کے برعکس گذشتہ ایک صدی میں ’عالم گیر اسلام‘ کی جغرافیائی ساخت میں کوئی نمایاں فرق واقع نہیں ہوا۔ اس دوران عیسائی تہذیب کی جغرافیائی ساخت میں تبدیلی واقع ہوگئی جس کا بیان پہلے آچکا ہے، چنانچہ معاصر دور میں عالم گیر عیسائی تہذیب کا ایک بہت بڑا حصہ ۴۰ فی صد افریقا اور ایشیا میں مسلم تہذیب کے پہلو بہ پہلو رہتا ہے، واضح رہے کہ ایک صدی پہلے مٹھی بھر نوآبادیاتی حاکم طبقے کے علاوہ افریقا اور ایشیا میں عیسائی آبادی کا وجود ہی نہیں تھا۔ گویا بڑے پیمانے پر مسلم عیسائی عوامی رابطہ حالیہ صدی کی پیداوار ہے۔
ایک چھوٹے پیمانے پر مسلم عیسائی رابطہ یورو امریکا میں بھی پایا جاتا ہے، جہاں اندازاً ۵کروڑ مسلم آباد ہیں۔ اس ۵ کروڑ آبادی میں سے قریباً ایک کروڑ ۸۰لاکھ ، یعنی۳۶ فی صد یوروامریکا کے رکن ملک روس میں رہتے ہیں۔روسی مسلمانوں کی بیش تر آبادیاں کئی صدیاں پہلے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئی تھیں اور علاقے کی قدیمی آبادیاں ہیں۔ اس کے برعکس مغربی یورپ اور امریکا میں رہنے والے مسلمان ان تارکین وطن یا اقتصادی مہاجرین پر مشتمل ہیں، جو وہاں ایک سو سال میں منتقل ہوئے۔ اس میں ایک استثناء امریکا کے مقامی سیاہ فام مسلمان ہیں، جنھوں نے گذشتہ ایک صدی میں اسلام کی جانب رجوع کیا، البتہ وہ وہاں کے قدیمی باشندے ہیں۔
عالم گیر اسلامی تہذیب میں اس کی جغرافیائی تقسیم، عیسائیت کی جغرافیائی تقسیم سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کی جغرافیائی کثرت یا تفریق گذشتہ ایک صدی میں واقع ہوئی ہے۔ اس کے برعکس عالم گیر مسلم تہذیب نے اپنی متفرق شکلیں پہلی چند صدیوں ہی میں اختیار کر لی تھیں۔ مسلمانوں کی یہ تہذیبی شکلیں پہلی چند صدیوں کے دوران: عرب، ایرانی، تورانی، شمالی افریقی، مشرقی افریقی، وسطی ایشیائی، مغربی ایشیائی ، مشرقی ایشیائی شکل وضع کرچکی تھیں۔
گویا مسلم تہذیب میں رنگ، نسل اور جغرافیے کی کثرت کی تاریخ عیسائیت کی نسبت کہیں زیادہ طویل، بھرپور یا پیچیدہ ہے۔ عیسائیت کے برعکس ’عالم گیر مسلم تہذیب‘ کا کوئی جغرافیائی، نسلی مرکزثقل کبھی واقع ہی نہیں ہوا:
مسلمانوں کی جغرافیائی اور تاریخی تفریق کا سبب یہ ہے کہ مسلم تہذیب کے پانچ بڑے حصوں میں اسلام مختلف اوقات میں اور مختلف راستوں سے پہنچا۔ وہ جس علاقے میں پہنچا وہاں اُس کی مقامی آبادیاں معدوم نہ ہوئیں بلکہ وہی قدیمی آبادیاں رفتہ رفتہ اسلامی تہذیب میں جذب ہوگئیں۔ یہ عمل صدیوں پر پھیلا ہوا ہے، اور آج بھی جاری ہے۔ صرف دو حصے ایسے ہیں، جہاں وہ مقامی آبادی کا ۸۰ فی صد یا زائد ہیں، یعنی عرب اور ترکی فارسی علاقے ۔ بقیہ میں اپنے اپنے خطے کے لحاظ سے مسلمان آبادیاں غیراکثریتی یا نیم اکثریتی ہیں۔ ملائی علاقے میں ۴۳ فی صد، ہندی علاقے میں ۳۰ فی صد، زیرصحرا افریقی علاقے میں ۳۰ فی صد ہیں۔ گویا وہ ان خطوں میں دیگر تہذیبوںکے پہلو بہ پہلو رہتے ہیں۔ زیرصحرا افریقا میں عیسائیت کے ساتھ، ہندی خطے میں ہندومت کے ساتھ، ملائی خطے میں بودھ مت اور عیسائیت کے ساتھ ۔
عیسائیت کے مقابلے میں مسلم تہذیب میں عقیدے کی بنیاد پر فرقہ بندی غیرمعمولی طور پر کم ہے۔ مسلم تہذیب مجموعی طور پر اپنے پیروکاروں کو ان کے اعمال سے جانچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں دو ہی اہم یا کثیر تعداد رکھنےوالے فرقے ہیں : اہل سنت اور اہل تشیع۔ مگر یہ دونوں حج کے موقعے پر مل کر حج کرتے ہیں اور دیگر عبادات و ارکانِ اسلام پر اُن کا عمل ایک دوسرے سے مماثل ہے۔ گویا ان کا دینی مرکز ثقل ایک ہے۔ مگر مقابلے میں یہ بات عیسائیت کے تین اہم فرقوں کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔ اُن تینوں کے اپنے اپنے اور متفرق دینی مراکز ثقل ہیں۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے مستند سمجھے جانے والے تخمینوں کے تحت ۲؍ارب مسلمانوں میں سے ۸۵ فی صد سُنّی ، ۱۲ فی صد شیعہ اور ۳ فی صد دیگر چھوٹے فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد فارسی اور ترکی بولنے والے خطے میں پائی جاتی ہے، جو عالم گیر شیعہ آبادی کا ۴۲ فی صد ہے۔ پھر ہندی خطے میں جو شیعہ آبادی کا ۲۷ فی صد ہیں۔ اس کے بعد عرب خطے میں جو کُل شیعہ آبادی کا ۲۱ فی صد ہے۔ ملائی زبان بولنے والے علاقوں اور زیرصحرا افریقا میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد نسبتاً قلیل ہے۔ ان دونوں جگہوں پر ملا کر دُنیا میں شیعہ مسلمانوں کا اندازاً ۱۰فی صد ہیں۔
ایران کے ایک شیعہ محقق اور سیاسیات کے ثقہ استاد ڈاکٹر حامد عنایت (۱۹۳۲ء- ۱۹۸۲ء) نے اپنے گہرے مطالعے اور تجزیے کے ذریعے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ : ۲۰ویں صدی میں شیعہ اور سُنّی مسالک میں عقائد کا فرق کم ہوگیا ہے، اور اب اس فرق کی شدت عقیدے سے زیادہ سیاست خصوصاً علاقائی سیاست کے میدان تک محدود ہے۔ مجموعی طور پر مسلم تہذیب میں دین کے بنیادی تصورات پر ایک ٹھیراؤ ہے، اگر انحراف ہے تو اُس کا تعلق عقیدے کی فرقہ واریت سے دل برداشتہ ہونا نہیں، جیساکہ یورو امریکا کی تاریخ میں ہوا۔ مسلم تہذیب میں اس انحراف کا تعلق یورپی نوآبادیاتی زمانے کے سماجی جبر بالخصوص اشتراکی روس (سوویت یونین) کے کمیونسٹ نوآبادیاتی سیاسی جبر کے زمانے (۹۱-۱۹۱۷ء) سے ہے۔ جس میں انحراف کرنے والوں نے حکمرانوں کی لادینی تہذیب میں داخل ہونا اپنے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا اور بعض صورتوں میں وہ اس جبر میں کمی کے بعد کے زمانے میں اُسی روش پر قائم رہے۔ البتہ بھرپور مسلم معاشروں میں آج بھی یہ ایک اجنبی سماجی اقلیت کی طرح ہیں۔
l پس منظر: ایک عالم گیر ’لادینی تہذیب‘ کا چرچا تو قریباً ۲سو سال اوربعض لحاظ سے اس سے بھی قدیم ہے، لیکن اس کے بارے میں اعداد و شمار گذشتہ دس برسوں میں زیادہ واضح ہوکر سامنے آئے ہیں۔ لادینیت سمیت تمام بڑی تہذیبوں پر معلومات کی کمی یا ابہام بجائے خود معنی خیز ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جن علاقوں میں لادینیت حکومتی نظام میں اہمیت اختیار کرگئی ہے، وہاں انھوں نے ’دین‘ یا ’مذہب‘ کے سوال کو اپنی مردم شماری سے خارج کر دیا ہے۔
گذشتہ دو سو سال میں مردم شماری پر اختیار قومی ریاستوں کو حاصل رہا ہے۔ اُنھیں یہ اختیار اپنی قوم کے علاوہ اپنی محکوم قوموں کی مردم شماری پر بھی حاصل ہے۔ مردم شماری کے ذریعے انسانوں کی ایسی بنیادی شناختوں کی پیمائش کی جاتی ہے، جو ان کے روزمرہ معاملات پراثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ سوال غور طلب ہے کہ خود یورو امریکی آبادیوں کے روزمرہ کے معاملات میں مذاہب کے گہرے اثرات ہونے کے باوجود یورپ اور امریکا کی جدید قومی ریاستوں نے اپنی آبادیوں کی مردم شماری میں مذہبی شناخت کو کیوں خارج کردیا ہے؟
یہ رجحان یورو امریکا کے باہر ایفروایشیا کی جدید ریاستوں میں بھی نمایاں ہے۔ ہم نے دُنیا کے قریباً ۱۰۰ بڑے ممالک کی حالیہ (۲۰-۲۰۱۹ء) مردم شماری کے سوالات کا جائزہ لیا ہے۔ ان ممالک میں سے بمشکل نصف کی مردم شماری میں دین یا لادینیت کا سوال موجود ہے۔ چنانچہ یورو امریکا کے ۵۲ممالک میں سے صرف۲۵ ممالک میں مذہب کا سوال شامل ہے۔ عیسائی اکثریت رکھنے والے ۷۶ممالک میں سے ۴۳ میں مذہب کا سوال موجود ہے اور دوسری طرف مسلم اکثریت رکھنے والے ۳۶ ممالک میں سے ۱۷ میں یہ سوال موجود ہے۔
یہ سوال بحث طلب ہے کہ جدید زمانے میں جب ایک اقلیت حاکم ہو تو وہ اکثریتی شناخت کے بعض پہلوئوں کو تاریکی میں رکھنا پسند کرتی ہے۔ بظاہر عالم گیر ’لادینی تہذیب‘ دیگر عالم گیر دینی تہذیبوں کی شناخت کی پیمائش کو پسند نہیں کرتی اور نہ اپنے آپ کو ایک دین کے طور پر متعارف کرواکر اپنے پیروکاروں کی تعداد کی پیمائش کرتی ہے ۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ لادینیت کی اپنی ’ایمانیات‘ اور اقدار ہیں، اس کے اپنے معبود ہیں، اس نے انسانوں کے درمیان معاملات حتیٰ کہ خاندانی نظام کے بارے میں اپنے جدا طور اطوار کا ڈھانچا تعمیر کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ اس بات کی خواہش مند ہے کہ تمام انسانوں کو اپنے دین پر لا کر اپنی تعریف کے مطابق انھیں ’فلاح‘ سے ہمکنار کردے۔
لادینیت اپنے حریف الہامی ادیان کا گہرا تجزیہ کرتی ہے، جب کہ خود اس کے اپنے دین کا معروضی تجزیہ، حتیٰ کہ اس کی بنیادی جغرافیائی ساخت اور مسالک تک میں بھی معلومات کا ایک خلا ہے۔ زیر نظر تحریر میں ہم نے اس خلا کو پُر کرنے کی ایک ابتدائی کوشش کی ہے۔ اسلام کی تحقیقی روایت میں اس نوعیت کے تقابلی مطالعے کی ایک طویل تاریخ ہے، لہٰذا اس تحریر کو اس روایت کا ایک ادنیٰ تسلسل تصور کیا جا سکتا ہے۔
بعض لحاظ سے جدید لادینی تہذیب، معاصر دُنیا کی سب سے زیادہ سرایت کی ہوئی اور دُنیاوی لحاظ سے سب سے طاقت ور تہذیب ہے۔ معاشی وسائل اور ریاستی و سیاسی جبر کے وسائل پر اس کی گرفت غیرمعمولی ہے۔ تعداد کے لحاظ سے اس کے براہِ راست پیروکار دُنیا کی آبادی کا ۱۵فی صد ہیں، لیکن معاش اور جبر کی قوت (coercive power) کے لحاظ سے اُس کا تناسب اپنی تعداد کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ عالم گیر لادینی تہذیب کو ایک تہذیب ہونے کے باوجود اس طرح سےایک اُمت کہنا درست نہ ہوگا کہ جس طرح سے ہم نے عیسائی اُمت اور مسلم اُمت کو بیان کیا ہے۔ عالم گیر لادینی تہذیب ،زندگی بعد موت کے تصور کو نہیں مانتی، اور جزا اور سزا کے تصور کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس تہذیب کے پیروکار مادی زندگی کے اقرار اور ابدی روحانی زندگی کے انکار کے گرد جمع ہیں۔ چنانچہ ان کے باہمی تعلقات میں وہ ’روح‘ شامل نہیں ہے، جو غیرمحسوس محبت اور اُلفت سے جغرافیے، معاش اور سماج کی طبقاتی تقسیم اور بسااوقات انفرادی مادی مفادات کے علی الرغم منتشرافراد کو ایک اُمت بنا دیتی ہے۔ ایک مشترکہ روحانی اُمت نہ ہونے کے باوجود جدید لادینی تہذیب میں ایک عالم گیر گروہی تعصب اور یک جہتی پائی جاتی ہے۔
البتہ ہر بڑے گروہ کی طرح اس میں مختلف فرقوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔اس تہذیب میں فرقوں کی باہمی تمیز جغرافیائی اور تاریخی بنیادوں پر ہے، عقائد کے اختلاف پر نہیں۔
ہم نے عالم گیر لادینی تہذیب کو تین جغرافیائی حصوں یا فرقوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دو فرقے یورو امریکا سے تعلق رکھتے ہیں ، جب کہ تیسرا فرقہ ایفروایشیا سے ہے۔ یہ تین فرقے مل کر کُل ’لادینی تہذیب‘ کا ۹۴ فی صد ہے۔ باقی ماندہ ۶ فی صد، متفرق گروہوں پر مشتمل ہیں۔ تین گروہوں یا فرقوں کی تفصیل یہ ہے:
فرقہ نمبر ایک، یوروامریکا کے اُن پیروکاروں پر مشتمل ہے، جو مذہبی طور پر عیسائی پس منظر رکھتے ہیں اور ان ممالک میں مقیم ہیں جو کبھی کمیونسٹ حکومتوں کے زیرتسلط نہیں رہے۔ کُل عالم گیر لادین تہذیب میں ان کی شرح ۱۸ فی صد ہے۔
فرقہ نمبر دو، یورو امریکا کے اُن پیروکاروں پر مشتمل ہے، جو مذہبی طور پر تو فرقہ نمبر ایک کی طرح عیسائی پس منظر ہی رکھتے ہیں، البتہ اُن ممالک میں مقیم ہیں، جو ماضی میں کمیونسٹ حکومتوں کے زیرتسلط رہے ہیں۔ کُل عالم گیر لادین تہذیب میں ان کی شرح ۴ فی صد ہے۔
فرقہ نمبرتین، چینی تہذیب (شمال مشرقی ایشیا) کے اُن پیروکاروں پر مشتمل ہے، جو مذہبی طور پر بودھ مت یا دیگر چینی ، جاپانی، کوریائی مقامی مذاہب کا پس منظر رکھتے ہیں، خواہ وہ کبھی کمیونسٹ حکومتوں کے زیرتسلط رہے ہوں یا نہ رہے ہوں۔ کُل عالم گیر لادینی تہذیب میں ان کی شرح ۷۲ فی صد ہے۔ اس لحاظ سے جدید لادینی تہذیب کی بھاری اکثریت اس فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ باقی ماندہ ۶ فی صدکا تعلق ایفروایشیا کے تمام دیگر پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ عالم گیر لادینی تہذیب میں اس کی حیثیت معمولی ہے۔
لادینیت کا جغرافیائی فرقہ نمبر ایک (غیر کمیونسٹ مغربی یورپ اور شمالی امریکا) اس دین کا ہراول دستہ ہے۔ تاریخی طور پر جدید لادینیت اسی خطے سے ابھری۔ دینی عقائد اور دینی معاشرتی زندگی میں اپنی منفرد منہج وضع کرنے میں یہ فرقہ سب سے زیادہ پختہ کار اور پُرجوش ہے۔ تینوں فرقوں میں یہ سب سے زیادہ مال دار، اور جبری قوتوں کا مالک ہے۔ یہ جن ملکوں کا شہری ہے اُن کی اوسط فی کس آمدنی ۳۲ہزار ڈالر بنتی ہے۔ اُن کے شہری جبری قوت حاصل کرنے کے لیے اندازاً ۱۲۰۰ بلین ڈالر سالانہ ادا کرتے ہیں۔ یوروامریکا لادینی تہذیب کا یہ فرقہ اپنے جغرافیائی خطے میں آبادی کی ایک اقلیت ۱۴ فی صد ہیں ، جب کہ عیسائی دین کے ماننے والے بھاری اکثریت۸۱ فی صد ہیں۔
فرقہ نمبر ایک کی امتیازی تاریخ، عالم گیر نوآبادیاتی حکمرانی سے متعلق ہے۔ دُنیا کی تمام بڑی عالم گیر نوآبادیاتی حکومتیں اسی مرکز سے اُبھری ہیں، مثلاًبرطانیہ، فرانس، ہالینڈ، بلجیم، اسپین، پرتگال، اٹلی اور جرمنی وغیرہ میں ۔ لادینیت کی تحریک کی پیدایش اور اس کی عالم گیر توسیع اس مرکز ثقل کے نوآبادیاتی دور، یعنی ۱۷۰۰ء سے لے کر ۱۹۵۰ء تک کے دوران ۲۵۰ برسوں ہی میں ہوئی۔ اس دور میں عالم گیر لادینی تہذیب کا فلسفہ وضع ہوا اور اس کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی منہج تشکیل پائی۔ لادینیت کے اس فرقے کی عالمی لادینیت میں تعداد تو محض ۲۶ فی صد ہے، لیکن یہی اس کا ہراول دستہ ہے، بالخصوص شمالی اوقیانوس دستہ جو مغربی یورپ اور شمالی امریکا کے حاکم طبقے پر مشتمل ہے۔
یہ طبقہ اپنے ممالک میں قریباً ۲۰ فی صد اوراپنے خطے میں اور دُنیا کی آبادی میں محض ۴ فی صد ہے۔ لیکن یہ ایسے طاقت ور ممالک پر حاکم ہے، جو دُنیا کی آبادی کا محض ۱۰فی صد ہے ، لیکن سالانہ آمدنی میں قریباً ۳۵ فی صد اور اسلحے کی سالانہ خریداری میں ان کا حصہ ۷۰فی صد ہے۔
یورپ کے دونوں لادینی فرقوں میں بعض خصوصیات مشترک ہیں اور بعض میں تفریق ہے۔ پہلی تہذیبی تفریق کا تعلق دونوں کے مذہبی پس منظر سے ہے۔ فرقہ نمبر ایک کے ممالک کی عیسائی آبادی زیادہ تر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عقائد پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں عقیدے مل کر خطے کی عیسائی آبادی کا ۹۸ فی صد ہیں، جب کہ فرقہ نمبردو کے ممالک میں آرتھوڈوکس عیسائیت غالب ہے، اور خطے کے۷۳ فی صد آرتھوڈوکس عیسائی عقیدے سے منسلک ہیں۔ دوسری تہذیبی تفریق کا تعلق دونوں میں لادینیت کو نافذ کرنے کے لیے سیاسی اور سماجی جبر کی شدت میں فرق سے متعلق ہے۔
فرقہ نمبر ایک یعنی مغربی یورپ نے لادینی تہذیب کو فوقیت دینے کے باوجود عیسائیت اور کسی حد تک دیگر مذاہب کے بارے میں شدت اختیار نہیں کی۔ فرقہ نمبردو جس کی سربراہی روس کے پاس تھی اپنے ممالک میں لادینیت کی انتہائی شکل یعنی اشتراکی لادینیت کو جبری طور پر نافذکیا۔ اس علاقے میں یہ نظام ۵۰ سے لے کر ۷۰سال تک قائم رہا۔ ۱۹۹۱ء میں جبر کے اس نظام کے انہدام کے بعد سے روس اور مشرقی یورپ میں لادینیت کی تحریک کو روس اور مشرقی یورپ میں ضعف پہنچا ہے، جب کہ مغربی یورپ میں اس تحریک کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اول الذکر میں لادینیت کے پیروکاروں کی تعداد اور جوش و خروش میں کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ ثانی الذکر میں پیروکاروں کی تعداد اور ان کے جوش و خروش دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جدید لادینیت کی عالم گیر تہذیب کا تیسرا اور تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑا فرقہ چین، جاپان، کوریا، ویت نام اور ہند چینی علاقے پر مشتمل ہے۔ لادینیت کی پیروکاری سے قبل وہ بودھ مت کے پیروکار تھے یا ایک سے زائد مقامی مذاہب اور عقائد کے۔اس گروہ کی بیش تر آبادی ۷۲فی صد چین اور ۳فی صد ہند چینی ملکوں میں رہتی ہے، جن میں ایک طویل عرصہ سخت گیر کمیونسٹ حکومت قائم رہی۔ مغربی یورپ کی عالم گیر نوآبادیاتی یلغار سے قبل یہ خطہ دُنیا کا متمول ترین اور مہذب ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا، لیکن گذشتہ ۲۰۰ سال میں یہ علاقہ امیر سے غریب ہوگیا اور انتہائی فاخرانہ تہذیب سے گر کر ان کی اشرافیہ یورپی تہذیب کی جانب راغب ہوگئی۔ اُنھوں نے مشرقی یورپ بالخصوص روس کے تیار کردہ راستے یعنی کمیونسٹ پارٹی کے طریق کار کو اختیار کرلیا۔ ان کی یہ برادری ۱۹۲۰ء سے لے کر اگلے پچاس سال یعنی ۱۹۷۰ء تک بڑے استقلال کے ساتھ قائم رہی۔ اس سے قبل ان کے تعلقات کبھی پُرجوش نہیں تھے۔
ایشیائی فرقے کی لادینیت یورپی لادینی فرقے سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ایشیائی فرقے کا کسی الہامی دین کے ساتھ تعلق قائم نہیں رہا۔ وہ کسی الہامی دین سے انحراف کرکے لادینیت کی جدید تہذیب میں داخل نہیں ہوئے بلکہ اپنی چینی تہذیب کے ضعف کے زمانے میں جدیدیت سے مرعوب ہوکر اُنھوں نے جدیدیت کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی تہذیبی عظمت حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ چونکہ ان کو شکست و ریخت مغربی یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کے ہاتھوں دیکھنا پڑی تھی، لہٰذا اُنھوں نے مغربی یورپ کے حریف کمیونسٹ نظام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
ان کا اپنا قدیم تہذیبی تعصب اُن کے لادینی تعصب پر حاوی ہے۔ ان کی لادینیت کا تعلق ایک سیاسی یا تہذیبی ریاست کے دفاع سے متعلق ہے۔ چینی تہذیب کے علاقے میں اگر کسی مذہب نے اثرونفوذ حاصل کیا تو وہ بودھ مت تھا، اور بودھ مت کے پیروکار خدا اور مابعد الدنیا کے تصور سے آزاد ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے وہ چینی تہذیب میں زیادہ آسانی سے گڈمڈ ہوگئے۔
ایشیا کے اس لادینی فرقے کے تہذیبی عقائد، افکار اور اعمال بالخصوص تبلیغ دین کے بارے میں رویے اوّل الذکر یورپی فرقوں سے اتنے مختلف ہیں کہ اُسے اس تہذیب کے کُل میں شامل کرنے سے غلط فہمی پیداہوتی ہے۔چینی تہذیب میں سے اُبھری ہوئی لادینیت کو ایک علیحدہ گروہ مانا جائے تو عالم گیر لادینی تہذیب کی عددی حیثیت ایک دم کم ہوجاتی ہے۔ وہ دُنیا کی کُل آبادی کا بمشکل ۴فی صد رہ جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عالم گیر لادینیت کا وہ وزن جو دُنیا میں مال اور جبر کے نظام پر موجود ہے وہ بھی اسی تناسب سے کم رہ جائے گا۔کئی وجوہ سے وہ وزن برقرار رہتا ہے، کیوں کہ چینی علاقے کی لادینی تہذیب یورپی لادینی تہذیب کے ساتھ اپنا مفاداتی تعلق برقرار رکھ کر اپنے طویل المدت مقاصد حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔
چینی لادینیت کے برعکس یورو امریکن لادینی گروہ اپنے مفکرین کے افکار پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ اپنے افکار و اعمال کی عالم گیر تبلیغ کرتے ہیں، اپنے بزرگوں کی روایت میں ادیان کے تعلق سے پُرجوش ہوتے ہیں۔ اپنے سے قبل کے زمانے کو زمانۂ جاہلیت کہتے ہیں اور اپنی روش کو دُنیا کے لیے ’روشن خیالی‘ (Enlightenment) تصور کرتے ہیں۔ اسی لیے ۱۹۹۱ء میں جب لادینیت کے روسی اور مشرقی یورپی فرقے کو شکست ہوئی تو مغربی یورپی اور امریکی فرقے نے اس فتح کو ’تاریخ کے اختتام‘ (End of History) کے طور پر پیش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
گذشتہ ۶۰ برسوں میں دُنیا میں مسلم آبادی کا حصہ ۱۵ فی صد سے بڑھ کر ۲۵ فی صد ہوگیا ہے۔ دوسری طرف دُنیا کی آبادی میں عیسائیت کا حصہ ۳۴ فی صد سے کم ہوکر ۳۱ فی صد ہوگیا ہے، جب کہ عالم گیر لادینی تہذیب بھی آبادی کی شرح کے لحاظ سے گری ہے، اندازاً ۲۰ فی صد سے۱۵فی صد۔ اس تہذیب کی شرح میں کمی کی ایک اہم وجہ اس کی افزائش نسل میں کمی ہے۔
پانچ میں سے چار خطّوں میں مسلمان آبادی کا اضافہ افزائش نسل سے ہوا ہے۔ لیکن خطّہ زیرصحرائے افریقا میں یہ اضافہ مقامی مذاہب سے اسلام کی جانب رجوع کے ذریعے ہوا ہے۔ گذشتہ ۶۰برس میں زیرصحرا افریقا میں مسلم آبادی کُل آبادی کا ۲۳ فی صد سے بڑھ کر ۳۰ فی صد ہوگئی ہے۔ عیسائیت کی شرح کُل آبادی کا ۴۶ فی صد سے بڑھ کر ۵۷ فی صدہوگئی ہے، جب کہ مقامی مذاہب کی شرح۳۱ فی صد سے گر کر ۱۱فی صد رہ گئی ہے۔ عیسائیت اور اسلام کی جانب رجوع میں بعض عوامل مشترکہ بھی ہوں گے، لیکن ایک پہلو نمایاں طور پر مختلف ہے۔ عیسائیت کی جانب رجوع ایک نہایت منظم اداراتی شکل اور سرمایے کی مدد سے ہوا ہے، مگر اسلام کی جانب ایسی اداراتی یا سرمایے سے لیس کوششوں کا بظاہر کوئی وجود نہیں ہے۔
عالم گیر عیسائیت کی تاریخ میں زیرصحرا ئے افریقا میں ان کی کامیابی ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ کیونکہ اس اضافے نے کسی حد تک اس اضمحلال پر پردہ ڈال دیا ہے، جس کا سامنا پوری عیسائیت کو ہے۔ اوّلاً تو یورپی علاقے میں گذشتہ کئی عشروں سے افزائش نسل بہت قلیل ہے۔ قدیم عیسائی اخلاق سے خاندانی نظام کے دُور ہوجانے کی وجہ سے افزائش نسل کی کمی بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری طرف یورپ میں قریباً ایک فی صد، شمالی امریکا میں ۸ فی صد اور جنوبی امریکا میں ۳ فی صد عیسائی پیروکاروں نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر لادینیت کو اختیار کرلیا ہے۔
پورے یورو امریکا میں ۶۰برس پر پھیلے اعداد وشمار کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مغربی یورپ اور امریکا یعنی شمالی اوقیانوس میں عیسائیت کے پیروکاروں میں ۱۵ فی صد کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ مشرقی یورپ میں ۱۷ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس تبدیلی کا تعلق تبدیلیٔ افکار یا مذہب سے ہے، افزائش نسل میں اضافے یا کمی سے نہیں۔
دنیا کی تین بڑی عالم گیر تہذیبوں کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کے بعد ہم چند بنیادی اُمور پر ان کے حالیہ افکار کا تقابل کرتے ہیں۔ تقابل کی بنیاد ایک شماریاتی سروے ہے، جو دنیا کے ۱۰۰ سے زائد ممالک میں چار لاکھ بالغ افراد سے انٹرویو کے ذریعے کیا گیا۔
درجہ ذیل جدول سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ لادینیت کے پیروکار اپنے مخصوص عقائد رکھتے ہیں۔ یہ عقائد دُنیا کے دو اکثریتی الہامی ادیان سے واضح طور پر مختلف ہیں۔ اس سروے کے نتائج سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ لادینیت کی تہذیب نے عیسائی تہذیب کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے، جب کہ اسلامی تہذیب پر اس کے اثرات نسبتاً کم ہیں۔ اور بڑی حد تک ان مسلم آبادیوں تک محدود ہے جو کئی عشروں تک کمیونسٹ حکومتوں کے زیرتسلط رہیں ۔
موضوع | عالم گیر مسلم تہذیب | عالم گیر عیسائی تہذیب | عالم گیر لادینی تہذیب |
(خالق) خدا کے وجود پر یقین نہیں | ۱فی صد | ۴ فی صد | ۷۵ فی صد |
روح(جس کا نُشُوز ہونا ہے) میں یقین نہیں ہے | ۶ فی صد | ۱۰ فی صد | ۸۳ فی صد |
اُخروی زندگی کے وجود میں یقین نہیں ہے | ۱۸ فی صد | ۲۷ فی صد | ۷۹ فی صد |
جہنم (یعنی دُنیوی زندگی کی گمراہی کی سزا) میں یقین نہیں ہے |
۱۲ فی صد |
۳۴ فی صد | ۸۴فی صد |
جنّت (یعنی دُنیوی زندگی کی بھلائی کی جزا) میں یقین نہیں ہے | ۷ فی صد | ۱۷ فی صد | ۸۰ فی صد |
مسلم تہذیب میں دین کے بنیادی عقائد سے انکار کرنے والے بیش تر پیروکاروں کا تعلق سابقہ کمیونسٹ ملکوں سے ہے۔
افکار کی دنیا میں لادینیت نے عیسائی تہذیب کو مسلم تہذیب کے مقابلے میں کہیں زیادہ متاثر کیا ہے، جب کہ مسلم تہذیب مدافعت کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔ اس فرق کے ممکنہ اسباب کا جائزہ پیش ہے:
عیسائی تہذیب کے دینی بنیادوں سے دُور ہوکر لادینیت کی جانب سفر طے کرنے میں تین معاملات نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے:اوّلاً:اتباع دین کے لیے سلطانی (بادشاہت و حکومت) سے مماثل اداراتی نظام کا بنانا۔ دوم:عقیدے کی تشریح میں فلسفے کا بے جا استعمال کرنا، اور سوم: ارکانِ دین اور فروعِ دین میں واضح تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم رہنا۔
ان تینوں محرومیوں کے سبب ۱۵۰۰ء میں عیسائیت میں اصلاح کے خواہش مند طبقوں نے روایت کی پابند عیسائیت کے خلاف بغاوت کرکے اِتباع ریاست و حکومت کو اِتباع دین و کلیسا پر فوقیت دے ڈالی۔ اس انحراف کے نتیجے میں پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آگیا۔ اِتباع دین کو ریاست و حکومت کے تابع کرنے کے بعد پروٹسٹنٹ یورپ نے مطلق العنان بادشاہت (Absolutist Kingship) کا راستہ اختیار کیا ،جو رفتہ رفتہ جدید قومی ریاست پر منتج ہوا، اور اسی دراڑ کے نتیجے میں عیسائیت کی کوکھ سے جدید عالم گیر لادینی تہذیب پیدا ہوئی۔
عالم گیر لادینی تہذیب، اِتباع فلسفہ کو اِتباع الہام پر مقدم قرار دیتی ہے۔ یہی وہ تبدیلی ہے، جسے یورپی مفکرین یونانی اور رومی علمی تہذیب کا احیا (Renaissance) بھی کہتے ہیں۔ دین کے بنیادی عقائد یا ارکان کے معاملے میں فلسفے کی اِتباع کو الہام کے اِتباع پر مقدم کرنے کے دروازے سے عیسائی تہذیب کا ایک چھوٹا حصہ تو برملا بے دین ہوگیا اور بقیہ میں ایک قابلِ ذکر حصہ دین کی بنیادوں پر شک و شبہے میں مبتلا ہوگیا۔ چنانچہ معاصر عیسائی تہذیب کے پیروکاروں کی ایک قابلِ ذکر تعداد خالق، آخرت، جزا و سزا اور روح کے بارے میں وہی تصورات رکھتی ہے، جو عالم گیر لادینی تہذیب کی پہچان ہیں۔
ہم جن تین تہذیبوں کا جائزہ لے رہے ہیں وہ اپنے پیروکاروں اور فلسفۂ حیات کے لحاظ سے تمام انسانیت کو دعوت دیتے ہیں۔ ان کے پیروکار بین البراعظمی وجود رکھتے ہیں۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی شناخت اور جذباتی وابستگیوں میں اوّلیت اپنی مقامی قومی ریاست یا قومیت کو دیتے ہیں یا کسی عالم گیر اکائی کو؟ سروے کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی ریاست سے بالاتر ایک عالم گیر امت کے تصور کی اوّلیت صرف مسلم تہذیب میں باقی ہے اور دوسرے نمبر پر عیسائیت میں۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ عالم گیر انسانیت کی مادی اور انسان پرست فکر عوامی سطح پر وسیع جذباتی ہم آہنگی پیدا کرنے سے قاصرہے۔ یہاں تک کہ کسی متبادل کی عدم موجودگی میں بعض لوگ اپنی اجتماعی شناخت بھی اپنی ذات ہی میں تلاش کرتے ہیں ۔ یہ گفتگو تہذیبوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس مضمون میں پیش کی جاچکی ہے۔ سروے کے نتائج اس پر مزید روشنی ڈال رہے ہیں۔
جدول: ۲
عالم گیر لادینی تہذیب | عالم گیر عیسائی تہذیب | عالم گیر مسلم تہذیب | موضوع |
۱فی صد | ۲۱فی صد | ۴۹ فی صد | میری شناخت میں دین کو دیگر شناختوں پر فوقیت حاصل ہے |
۶۸ فی صد | ۳۵ فی صد | ۲۷ فی صد | میری شناخت میں قومی ریاست کو فوقیت حاصل ہے |
۲۳فی صد | ۲۶فی صد | ۱۴ فی صد | میری شناخت میں زیر ریاست قومیتوں کو فوقیت حاصل ہے |
۵ فی صد | ۱۰ فی صد | ۲فی صد | میری شناخت کا محور میں ’خود ہوں‘ اسے تمام اجتماعی شناخوں پر فوقیت حاصل ہے |
۴فی صد | ۸ فی صد |
۸ فی صد |
میری شناخت کا محور میرے براعظم کی شناخت ہے |
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ رائج الوقت دنیا کی تین عالم گیر تہذیبوں میں باہمی تعلقات کن بنیادوں پر اور کس نوعیت کے ہوں؟ یہ بجائے خود ایک بھرپور موضوع ہے۔ چنانچہ فی الوقت ہم نے یہ جانچنے پر اکتفا کیا ہے کہ زندگی کی بنیادی سماجی اقدار میں سے کن اقدار پر ان میں قربت اور کن اقدار پر دُوری ہے۔ ذیل میں ہم نے اس تحقیق کا خلاصہ پیش کرکے چند نتائج اخذ کیے ہیں۔
باہمی قربت اور دُوری کا پیمانہ :یہاں مختصراً صرف ایک مسئلے پر روشنی ڈالیں گے اور وہ ہے بچوں کی تعلیم۔ ہم نے دُنیا بھر کے والدین سے ایک سوال پوچھا۔ ان والدین میں قریباً دو لاکھ عیسائی والدین، قریباً ایک لاکھ مسلم والدین اور ۷۵ہزار کے قریب ایسے والدین تھے جو اپنے آپ کو لادین کہتے ہیں۔
سوال یہ تھا: ’’آپ اپنے بچوں میں کس طرح کی اقدار کی پرورش کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
ہم نے دس اقدار پر ان کی خواہشات کی پیمایش کی، اور پھر اس پیمایش کی روشنی میں تہذیبوں کی باہمی رغبت کا ایک انڈیکس یا پیمانہ بنایا۔ یہ پیمانہ بتاتا ہے کہ عالم گیر عیسائی تہذیب اور مسلم تہذیب کے درمیان ’پیمانۂ رغبت‘ کا سکور کتنا ہے۔ زیر پیمایش اقدار درج ذیل ہیں: lاپنے مذہب پر کاربند ہونا lوالدین اور بزرگوں کی اطاعت کرنا
جدول: ۳
لادین والدین | عیسائی والدین | مسلم والدین | والدین کی شرح جو چاہتے ہیں کہ ان کے بچے |
۴فی صد | ۴۴ فی صد | ۷۰ فی صد | دین دار ہوں |
۱۵ فی صد | ۴۳ فی صد | ۴۷ فی صد | والدین کی اطاعت کریں |
https://sq.docworkspace.com/d/sAPPee7PA=z5qvAYqmzSupxQ
متعلقہ سروے میں دس اقدار پر رائے لی گئی ہے۔ جوابات کی روشنی میں دو اقدار پر واضح طور پر اختلاف دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ دو اقدار دیندار ہونا اوار والدین کی اطاعت ہیں ۔ جوابات سے ظاہر ہے کہ یہاں الہامی ادیان اور ان سے انحرافی دین کی اقدار میں نمایاں فرق ہے۔ باقی آٹھ اقدار میں سے زیادہ تر کا تعلق عقائد سے زیادہ روزمرہ کے معاملات سے ہے۔ ان پر تہذیبی فرق معمولی ہے۔ چنانچہ وہ اقدار کے مشترکات کی فہرست میں آئیں گی۔
رائے عامہ کے اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ ’عالم گیر مسلم اور عیسائی تہذیب اپنے بچوں کی مطلوبہ اقدار کے معاملے میں باہمی طور پر زیادہ رغبت رکھتی ہیں، بہ نسبت اس رغبت سے جو اُنھیں اپنے اپنے طور پر لادینی تہذیب کی اقدار سے ہے۔ دونوں تہذیبیں اپنے اپنے طور پر عالم گیر لادینی تہذیب سے دُور یا نالاں ہیں۔
مسلم والدین اور عیسائی والدین بمقابلہ لادین والدین کے نزدیک اقدار کی اس باہمی رغبت اور عدم رغبت کا اطلاق نہ صرف عالم گیر طور پر ہوتا ہے بلکہ اپنے اپنے خطوں کے اندر بھی ایسا ہی ہے۔مثال کے طور پر یہ کہ امریکا میں رہنے والے ان تینوں گروہوں کے والدین سے جب بچوں کی مطلوبہ اقدار کے بارے میں پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ ایسے والدین جو اپنے آپ کو برملا عیسائی کہتے ہیں، ان کے خیالات اپنی ہی نسل اور رنگ کے لادین امریکی مسلم والدین کی بہ نسبت اُن مسلم والدین کے خیالات سے زیادہ قریب ہیں، جو نسلاً اور دیگر امور پر اُن سے کافی مختلف ہیں۔ یہی رویے افریقا میں رہنے والی تینوں اقسام کے والدین کے جواب میں بھی سامنے آئے بلکہ وہاں مسلم عیسائی خیالات میں قربت کی شرح اُس سے بھی زیادہ پائی گئی جو امریکا میں تھی۔
۱- دُنیا میں عقائد اور شناخت کے لحاظ سےچھ بڑی تہذیبیں ہیں، جن میں سے تین عالم گیر اور تین مقامی یا علاقائی اہمیت کی حامل ہیں۔ تین عالم گیر تہذیبیں یعنی اسلام، عیسائیت اور لادینیت دنیا کی ۷۰ فی صد اور بقیہ تمام تہذیبیں ۳۰٪ فی صد نفوس پر مشتمل ہیں۔ زیرنظر مضمون میں ہم نے تین بڑی عالم گیر تہذیبوں کے ایمانیات اور سماجی اخلاقیات پر اجمالی گفتگو کی ہے۔
۲- تمام انسان کبھی ایک گروہ نہیں بن سکتے اور غالباً حکمت الٰہی بھی یہی ہے۔ وہ ہمیشہ گروہوں میں تقسیم ہوں گے۔ جس میں مقامی قومیتیں (nationalities) بھی ہیں اور جدیدیت کے دور کی قومی ریاستیں بھی ہیں۔ مزید کئی دیگر بنیادوں پر بھی ایک قابلِ قبول گروہ بندی ہے۔ اپنے حجم اور وجود کی تاریخ کی طوالت کے لحاظ سے چھ تہذیبی گروہ ایک نمایاں، منفرد اور اہم حیثیت کے مالک ہیں۔ وہ دیگر تمام گروہوں کی نسبت حجم میں بڑے اور تاریخ میں گہرائی رکھتے ہیں۔ جدید قومی ریاست پر مبنی عالم گیر نظام (World Order) اپنی مالی اور جبری فوقیت کے بل بوتے پر دوسرے تہذیبی گروہوں کے اس اہم کردار کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ دُنیا کے کسی اہم فورم پر اُن کو اپنے ہم پلّہ رکھنے کے بجائے نہ صرف زیرتسلط رکھتا ہے، بلکہ اگر قبول بھی کرتا ہے تو انتہائی حقیر استثنائی حیثیت میں۔ اس نے ایک منظم کوشش اور مختلف توجیہات کے تحت دُنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے۔ وہ بڑی تہذیبوں کی شناخت تک کو ممنوع قرار دیتا ہے، حتیٰ کہ ان کی شناخت کو مردم شماری سے باہر رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔عالم گیر لادینی تہذیب نے اپنے اداراتی جبر (Institutional Coercion)سے بقیہ تمام تہذیبوں کو اپنے جائز مقام سے محروم کردیا ہے۔ لادینیت کی تہذیب انتہائی قلیل التعداد یا غیر متعلقہ گروہی عناصر کی منفرد تہذیبی شناختوں کو اُجاگر کرکے اپنے علاوہ بقیہ پانچ بڑی تہذیبوں کو ان کے مقام سے محروم کرنے کی منظم کوشش کرتی رہتی ہے۔
۳- موجودہ حالات میں جب تہذیبوں کے مکالمے کی بات ہوتی ہے تو عالم گیر لادینی تہذیب اپنے آپ کو انسانیت کا محور (Humanist ) کہہ کر تمام دیگر تہذیبوں کو اپنے اخلاقی معیارات کو اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے اور قومی ریاستوں کے عالم گیر اداروں سے ان کی توثیق کروالیتی ہے۔ در اندازی کے اس دروازے سے عالم گیر لادینی تہذیب کا سماجی نفوذ اور سیاسی غلبہ دیگر بڑی تہذیبوں بالخصوص عیسائیت پر اسلام کے لیے بنیادی پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ تمام انسانوں کے نام پر انسانیت کو ایک تہذیب کہنے سے لادینیت کی عالم گیر تہذیب کی اجارہ داری کا راستہ کھل جاتا ہے۔
۴- تاریخ کے اس مرحلے پر عالم گیر انسانی برادری کی تنظیم میں جدید قومی ریاست اور اس کے بین الاقوامی تنظیمی ڈھانچے کے ایک جائز اور اہم مقام کو تسلیم کیا جاسکتا ہے، البتہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے عقائد اور معاشرتی اقدار کو مال اور جبر کے زور پر پوری انسانیت پر نافذ کرنے کی روش کو ترک کردے۔
۵- تہذیبوں کی اس جائز اور فطری کش مکش میں اُن تہذیبوں کو باہمی اشتراک کرنا چاہیے، جو عالم گیر لادینی تہذیب کی تہذیبی اجارہ داری کو قبول نہیں کرتی۔
انتظامی صلاحیتوں کی مہارت بڑھانے کے موضوع پر ڈاکٹر باب مورہیڈ کی کتاب Developing Management Skillsکا مطالعہ کرتے ہوئے ایک اقتباس دلچسپ اور فکرانگیز محسوس ہوا، جس میں جدید دنیا کی متضاد یا خلافِ قیاس (پیراڈاکسیکل) نوعیت پر گفتگو کی گئی تھی۔ یہ اقتباس یہاں پیش کیا جارہا ہے، تاکہ وہ اُس خاموش تنازعے کو حل کرنے پر سوچ بچار کریں،جو انسانی فطرت اور مادّی ترقی کے درمیان جاری ہے۔ تاہم، ا سے پڑھ کر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جدیدیت روکی جا سکتی ہے یا اس کو روک دینا چاہیے یا یہ کہ اس کشیدگی کو کبھی آسانی کے ساتھ حل کیا بھی جا سکتا ہے۔ یہاں مقصد صرف یہ ہے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اور جس وجہ سے کرتے ہیں، اس کی اچھی طرح سمجھ بوجھ ہمیں حاصل ہو۔ ہم کسی مقبولِ عام رجحان یا فیشن کی اندھا دھند پیروی کرکے یا بڑے اہتمام سے اس کو اپنی روز مرہ زندگی میں جگہ دے کر، لیکن اس کے دُور رس نتائج نظرانداز کر کے اپنی ذات اور شخصیت کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دو چار کر سکتے ہیں!
اب ڈاکٹر باب کا اقتباس پڑھیے: ’’طویل تاریخ میں ہمارے اِس دور کا تضاد یہ ہے کہ ہماری عمارتیں بلندوبالا ہیں، لیکن صبروتحمل بہت کم۔ ہماری راہیں بہت کشادہ ہیں، لیکن نقطۂ نظر بہت تنگ۔ ہم خرچ بہت کرتے ہیں، لیکن ہمارے پاس ہوتا بہت کم ہے۔ ہم خریدتے بہت کچھ ہیں، لیکن ان چیزوں سے لطف اندوز کم ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر بڑے بڑے ہیں، لیکن گھروالے بہت کم۔ ہمیں بے شمار سہولتیں مل گئی ہیں، لیکن پھر بھی ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ہماری ڈگریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لیکن حس، شعور یا سمجھ بوجھ کم ہے۔ ہمارے پاس ماہرین بہت سارے ہیں، لیکن مسائل پھر بھی کم نہیں ہو رہے۔ ہمارے پاس معلومات کا سمندر ہے، لیکن ہماری رائے کوئی بھی نہیں۔ دواؤں کی افراط ہے، لیکن صحت سے پھر بھی محروم ہیں۔ ہم بلانوش ہیں، تمباکونوش ہیں، بے محابہ خرچ کرتے ہیں، لیکن ہنستے کم ہیں۔ گاڑی بہت تیز چلاتے ہیں، لیکن بہت جلد مشتعل ہوجاتے ہیں۔ رات دیر تک جاگنے کے عادی ہیں، جلدی تھک جاتے ہیں اور مطالعہ شاذونادر ہی کرتے ہیں۔ ٹی وی بہت دیکھتے ہیں اور عبادت بہت کم کرتے ہیں۔
’’ہم نے اپنی املاک اور اشیا خوب بڑھا لی ہیں، لیکن اپنی اقدار کو گھٹا لیا ہے۔ ہم باتیں بہت کرتے ہیں ، محبت کبھی کبھار کرتے ہیں لیکن نفرت اکثروبیشتر کرتے ہیں۔ ہم نے رہن سہن سیکھ لیا ہے، لیکن زندگی گزارنا نہیں سیکھ سکے۔ ہم نے اوسط عمر میں کئی برسوں کا اضافہ کر لیا، لیکن ان برسوں میں زندگی کی رمق نہیں لا پائے۔ ہم سفر کرتے کرتے چاند تک پہنچ گئے اور وہاں سے واپس بھی آ گئے ہیں، لیکن یہ المیہ ہے کہ گلی پار کر کے کسی نئے ہمسائے سے ملاقات کے لیے جانا ہمارے لیے دوبھر ہے۔ ہم نے خلا کو تسخیر کر لیا ہے، لیکن اندرونی خلا کو پُر نہ کر پائے۔ ہم نے بڑے بڑے کام تو کیے، لیکن اچھے اچھے کام نہیں کر سکے۔ ہم نے بڑے جتن کر کے فضا کی آلودگی تو ختم کر دی لیکن اپنی روح کو آلودہ کر بیٹھے۔ حتیٰ کہ ہم نے ایٹم کو بھی توڑ لیا، لیکن اپنے تعصبات کی زنجیروں کو نہ توڑ سکے۔ ہم لکھتے بہت ہیں، لیکن سیکھتے کم ہیں۔
’’ہم منصوبے زیادہ بناتے ہیں، انھیں مکمل کم ہی کرتے ہیں۔ ہم نے عجلت اور بھاگ دوڑ سیکھ لی، لیکن انتظار کرنا نہیں سیکھا۔ ہم زیادہ سے زیادہ معلومات کو جمع کرنے کے لیے زیادہ کمپیوٹر بناتے ہیں تاکہ ان معلومات کی مزید نقول تیار کر سکیں، اتنی زیادہ نقول کہ جوپہلے کبھی تیار نہ کی گئی ہوں، لیکن ہمارا ابلاغ بہت کم ہے۔ یہ دور فاسٹ فوڈ (چالو کھانے) کا ہے اور سست ہضم کرنے کا۔ لوگ بلند قامت ہیں، لیکن کردار بُونے۔ منافع کی رقم بڑھتی ہی جا رہی ہے، لیکن تعلقات سطحی ہیں۔ یہ دور بظاہر عالمی امن کا ہے، لیکن عملاً خانہ جنگیوں کا ہے۔ تفریح زیادہ سے زیادہ ہے، لیکن لطف کم سے کم ملتا ہے۔ غذائیں انواع و اقسام کی اور بے شمار ہیں، لیکن غذائیت کم ہے۔ آج کے دور میں گھروں میں دو دو تنخواہیں (شوہر اور بیوی کی)آ رہی ہیں، لیکن طلاقیں زیادہ ہو رہی ہیں۔ مکانات عالی شان ہیں، لیکن گھر ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ یہ دور تیز رفتار دوروں کا ، پھینکے جانے والے ڈائپرز، سستی اخلاقیات، وقتی وعارضی جنسی تعلقات، فربہ جسموں اور ایسی گولیوں کا ہے، جو آپ میں ہرطرح کے جذبات اُبھار سکتی ہیں، سرخوشی، خاموشی، حتیٰ کہ موت۔ یہ وہ دور ہے جس میں سب کچھ شیشے والی کھڑکیوں میں سجا ہوا ہوتا ہے اور اسٹور روم خالی پڑے ہوتے ہیں‘‘۔
اوپر کی سطروں میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی زندگی میں کسی اہم چیزکی کمی ہے۔ میری رائے میں وہ چیز مادّی ترقی اور تعلقات میں ، جدیدیت اور اخلاقیات میں، تسلسل اور تبدیلی میں، ایک ’توازن‘ ہے جسے برقرار نہیں رکھا جا رہا۔ آج کی انسانیت کی تکلیفوں کی وجہ اُس کی اپنی ذات سے اور دوسروں سے ’بیگانگی ‘ہے! پائیدار تعلقات بنانے کے لیے ثقافتی انقلاب کے ذریعے کچھ اقدار کو ازسرِ نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، جیسے آزادی، احترام، بھروسا، محبت اور دیانت داری۔ ٹکنالوجی کی ترقی ہوتی رہے، لیکن اخلاقی بندشیں موجود نہ ہوں تو ایسی ترقی انسانیت کے لیے تباہی لا کر رہے گی، بالکل اسی طرح جس طرح ایٹمی توانائی کی دریافت نے انسانیت کے ساتھ کیا۔
بدی جو طاقت اور املاک کی حرص کی شکل میں ہے اور جس کا اظہار رعونت، تکبر، دھونس اور گھمنڈ کی صورت میں ہوتا ہے، دنیا میں بڑے ہوش ربا اور وبائی مسائل پیدا کرتی ہے۔ اگر اس کا علاج عقل و دلیل اور روحانیت کی ’اینٹی بایوٹکس‘ سے نہ کیا گیا تو انسانی قلب میں موجود بدی دراصل جنگوں اور تشدد تک لے جائے گی۔ تب انسانی تکلیف ایک فطری مظہر بن جائے گی، جس میں ہرایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی، ہر ایک صرف اپنا فائدہ دیکھے گا، بجائے اس کے کہ پوری انسانیت کو ایک بڑا خاندان سمجھا جائے ، اور کرۂ ارض کو ایک مشترکہ خزانہ۔ ہر ایک چاہے گا کہ قومی ریاستوں کی محدود سرحدوں میں اپنے لیے پناہ تلاش کرے، اور مصیبت کے وقت نجات کے لیے عقیدے کی طرف رجوع کرے۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں، جہاں ، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے بقول، ہمارے پاس گائیڈڈ میزائل تو ہیں، لیکن انسان رہنمائی سے محروم ہیں۔
مسلم دُنیا میں تصادم اور تنائو کی فضا ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، لیکن گذشتہ پچاس برسوں میں اس تصادم کے ماحول میں جن دو ممالک کے درمیان کبھی کم اور کبھی زیادہ کشیدگی نے مسلم دُنیا کے حال اور مستقبل پر گہرے منفی اثرات ڈالے، یہ دو ممالک ہیں سعودی عرب اور ایران۔
اس فضا کو گہرائی اور وسعت دینے میں جہاں دونوں ممالک کی سیاسی قیادتوں کا کردار تھا، وہیں اسرائیل کے نام سے ایک آلہ کار امریکی اسرائیلی ریاست کا وجود اہم سنگ میل ہے کہ جسے طاقت اور قوت دے کر امریکی اور مغربی ممالک نے مسلم دُنیا کی کلائی مروڑنے کا کام لیا۔ اس دوران بے مقصد عراق ایران جنگ نے لاکھوں مسلمانوں کی جان لی، اور پھر قریب کے مسلم ممالک مختلف تصادموں اور المیوں کی آماج گاہ بنے رہے۔جس سے خاص طور پر پاکستان متاثر ہوا۔
اس ماحول میں ۱۱مارچ ۲۰۲۳ء کو دُنیا اُس وقت حیران اور امریکی حکومت ششدر رہ گئی، جب بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران نے چینی حکومت کے سامنے یہ عہد کیا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کا پاس و لحاظ رکھیں گے اور ایک دوسرے کی ریاستی خود مختاری کا احترام کریں گے،دوستانہ ہمسائیگی کے تعلقات قائم کریں گے، اور اختلافات بات چیت سے حل کریں گے۔ کھیلوں، سائنسی ترقی اور معیشت کے میدانوں میں تعاون بڑھائیں گے۔
یہ اعلان بیجنگ، ریاض اور تہران سے بہ یک وقت نشر کیا گیا، اور دونوں ممالک نے چینی حکومت کی ثالثی کی کوششوں کی تحسین کرتے ہوئے، تعاون کی اس فضا کو ترقی دینے اور مستحکم کرنے کی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا۔
یاد رہے دسمبر۲۰۲۲ء میں چینی صدر شی چن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور پھر فروری ۲۰۲۳ء میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کے دورے میں مستقبل کے تعلقات کی اس فضا کو بہتر بنانے میں پیش رفت کی۔ اگرچہ اس اعلان سے یہ ایک مبارک پیش رفت ہوچکی ہے، لیکن آثار بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل اس کے نتیجے میں اپنے تزویراتی اہداف کو پہنچنے والے جھٹکے کو خوش دلی سے قبول نہیں کریں گے۔ اب یہ سعودی اور ایرانی قیادتوں کی بالغ نظری کا امتحان ہے کہ وہ پُرامن خطے کو وجود میں لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور سازشی عناصر کے جوڑ توڑ پر کڑی نگاہ رکھیں۔
۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران مغرب کی طرف سے مسلسل نشانے پر رہا۔ گذشتہ برسوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے باہم تعلقات میں پیش رفت نے ایران کے لیے خطرات کا گراف مزید بلند کردیا، جسے کم کرنے کے لیے ایرانی قیادت نے سوچ بچار کے عمل کو تیز تر کیا۔
ماضی قریب میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے، جب شمالی افریقا کے عربوں میں ۲۰۱۱ء کے دوران عوامی بیداری کی تحریک شروع ہوئی تو عرب حکمرانوں نے اس آزادی کے سیلاب کا رُخ موڑنے کے لیے فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کا منفی کام کیا، جس کے نتیجے میں یہ عوامی اُبھار اُلجھ کر رہ گیا اور جس کو خاص طور پر شام میں تباہ کن عذاب دیکھنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں خود فلسطینی تحریک مزاحمت کو انتہائی شدید نقصان پہنچا۔
دوسری طرف ۲۰۱۴ء میں یمن میں جو تضاد بھڑکا، اس نے شیعہ سُنّی مناقشے کا رُوپ دھار لیا، جس میں ایران نے براہِ راست پیش قدمی کرکے ۲۰۱۵ء میں سعودی عرب کی سلامتی کے لیے مسائل کھڑے کر دیئے۔ اسی تسلسل میں جنوری ۲۰۱۶ء کے دوران سعودی عرب نے ممتاز شیعہ عالم نمرباقر کو پھانسی دے دی اور حالات میں کشیدگی برق رفتاری سے بڑھ گئی۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب اسلحے کی خریداری کی ایک حددرجہ مہنگی اور ناقابلِ تصور دوڑ میں اُتر گیا۔ امریکی اسلحہ سازی کی صنعت کو ہوش ربا فائدہ ہوا اور سعودی معیشت پر ناقابلِ بیان بوجھ پڑگیا۔
یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ سعودی عرب پر امریکا اور اسرائیل کا ناقابلِ تصور دبائو مختلف سمتوں سے بڑھ رہا تھا، جس کے رَدعمل کے طور پر سعودی عرب اور امریکا میں دُوری کا عمل شروع ہوگیا۔ اسی طرح امریکا، سعودی عرب پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ تیل کی قیمتیں کم کرے، جسے سعودی عرب نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، جس سے ان کے درمیان تنائو اور فاصلہ مزید بڑھ گیا۔اس فضا میں سعودی قیادت کوشش کر رہی تھی کہ امریکا کے اثرات سے آزادہوکرعلاقے میں کردار ادا کرے۔ سعودی عرب کی اس داخلی سوچ کا چین کو ادراک تھا اور اس نے اس پس منظر میں ایک انقلابی اور تعمیری کردار ادا کرکے سعودی عرب اور ایران کو اپنے تعلقات درست کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ ان ممالک کی قیادتوں کو باور کرایا کہ تصادم کے بجائے اشتراک اور تعاون کے ذریعے علاقے کے مسائل کو حل کریں اور اپنے وسائل کو اپنے ممالک کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اثرورسوخ کم ہوگا، اسرائیل کے عزائم اور منصوبوں پر ضرب پڑے گی اور علاقائی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع میسر آئے گا۔
اس میں پاکستان کے لیے بھی نئے امکانات کا بڑا سامان ہے، بشرطیکہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو امریکا کے اثرات سے آزاد کروا کے، اپنے قومی مفادات اور مشرق وسطیٰ کی ترقی کے لیے استعمال کریں۔ تاہم، پیش نظر رہے کہ پاکستان کے لیے ایک پہلو خطرے کا بھی ہے ،جس کے بارے میں ضروری سوچ بچار کرنا اور ایران سے تعلقات میں جس کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اس اُبھرتے ہوئے نظام میں وسط ایشیا کی ریاستوں اور خود افغانستان کا عرب دُنیا تک رسائی کے لیے پاکستان پر انحصار کم ہوجائے گا اور وہ ایران کے راستے براہِ راست رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں بہت سوچ سمجھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ایران سے خصوصیت سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔
آج، جب کہ یہ منظر بدلا ہے تو اس کے تسلسل میں سعودی حکومت نے شام کے ساتھ معاملات کو معمول پر لانے کے لیے بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ یہ چیز بھی امریکا اور اسرائیل کے لیے سفارتی پسپائی کا عنوان ہے۔
بہرحال، سعودی عرب اور ایران کے ان تعلقات کی بحالی کا مثبت اثر نہ صرف مسلم دُنیا بلکہ عالم انسانیت پر بھی پڑے گا۔ اسرائیلی ریاست کو قائم کرنے کے لیے برطانیہ، امریکا اور یورپ نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا،اس کا بڑامقصد دُنیا کے اعصاب مرکز کو مسلسل اضطراب کا شکار کرکے وہاں کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنا اور اسلحے کی مہنگی صنعت کے ذریعے یہاں کی دولت بٹورنا تھا۔ اس کے برعکس چین کی سفارت کاری میں صاف نظر آرہا ہے کہ اس کا مقصد اس علاقے کو دھونس پر مبنی امریکی اثرات سےبچاکر عمومی تجارتی مفادات کو فروغ دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک انسانیت کش جنگی صنعت کے مقابلے میں یہ تجارتی دھارے کا سفر ہے۔
مناسب ترین صورت یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی تباہ کن صورتِ حال سے بچنے کے لیے سعودی عرب اور ایران آگے بڑھ کر پاکستان اور ترکیہ کے تعاون سے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو ایک نیا، فعال اور مؤثر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
دوسرے یہ کہ تاریخ کے اوراق کو تو ہم تبدیل نہیں کرسکتے مگر عوامی اور سماجی سطح پر آپس کے تعلقات میں بہتری اور خوش گواری کے لیے، فرقہ وارانہ مغائرت سے بلند ہوکر حیات بخش راستے تلاش کریں اور ایک نئے عہد کا آغاز کریں۔
تیسرا یہ کہ سائنس، ٹکنالوجی، ابلاغیات اور انتظامیات کے میدانوں میں شان دار پیش رفت کا آغاز کریں۔
چوتھا یہ کہ چین کی قومی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے، وہاں ایغور مسلمانوں کے تعلیمی، تہذیبی، معاشی اور اختیاراتی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس طرح مسلم دُنیا میں اطمینان کی لہر پروان چڑھانے کی غرض سے دُور اندیشی پر مبنی اقدام کی طرف متوجہ کریں۔
پانچواں یہ کہ افغانستان میں امن، سکون، شہری زندگی کی بحالی اور جنگی اثرات سے نجات دلانے کے لیے یہ تینوں ممالک پاکستان سے مل کر کردار ادا کریں۔
۲۳مارچ ۲۰۲۳ء کو جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے متصل ٹیٹوال،کرناہ میں بھارتی وزیر داخلہ امت شا نے ’ماتادا دیوی‘ کے مندر کا افتتاح کیا، کہ آزاد کشمیر سے آوازیں بلند ہونے لگیں کہ ’’کرتار پور کی طرز پر اس علاقے میں بھی ایک کوریڈور کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ ہندو زائرین اصلی شاردا پیٹھ کے درشن کر سکیں اور اس علاقے کی آمد ن کے ذرائع پیدا ہوں‘‘۔ امت شا نے کہا کہ ’’یہ سب دونوں جانب سول سوسائٹی سمیت لوگوں کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہوا ہے‘‘۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرار داد بھی پاس کی، جس میں مذکورہ کوریڈور بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اگرچہ بعد میں حیرت انگیز طور پر حکومت نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا، مگر جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں پنجاب میں کرتار پور گوردوارہ کے درشن کی خاطر سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے فوراً بعد سے یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں تھیں کہ ’’اسی طرز پر اب پاکستانی حکومت لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے شاردا پیٹھ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔
لائن آف کنٹرول کو کھولنے، آمد و ررفت کو آسان بنانے اور آر پار کشمیری عوام کے ملنے جلنے جیسے اقدامات کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں سرینگر۔مظفر آباد بس سروس اور پھر ۲۰۰۸ء میں تجارت کے لیے اس کو کھولنے سے دونوں طرف کے عوام نے خاصا بہتر محسوس کیا تھا، مگر ۲۰۱۴ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد اس سمت میں رکاوٹیں کھڑی ہونا شروع ہوگئیں تھیں، تاآنکہ اس کو بند ہی کردیا گیا۔ ویسے تو پاکستان میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال اور استوار کرنے کا طرف دار ایک طبقہ ہر لمحہ پنجاب میں واہگہ اور سندھ میں کھوکھراپار کے راستے تجارتی راہداریاں کھولنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے، مگر وہ اتنی سنجیدگی کے ساتھ جموں و کشمیر لائن آف کنٹرول کے اطراف میں راہداریاں کھولنے پر اصرار کرتے نہیں دیکھے گئے۔
آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد سے ۲۲۱کلومیٹر دور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات، کشمیر کی قدیم تہذیب اور علم و فن کے گواہ ہیں۔ بودھ مت کی عظیم دانش گاہوں نالندہ اور ٹیکسلا کی طرح شاردا بھی ایک قدیم علمی مرکز تھا۔ نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ان یادگاروں کو صرف ایک مندر یا عبادت گاہ کے طور پر فروغ دینا، تاریخ اور اس دا نش گاہ کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ اس جگہ پر اب بغیر چھت کے پتھروں کی ایک عمارت کھڑی ہے اور یہ علاقہ لائن آف کنٹرول سے صرف ۱۰کلومیٹر دُور ہے۔
چند برسوں سے ہندو خاص طور پر کشمیری پنڈتوں کے ایک طبقے کو اس بات پر اصرار رہا ہے کہ یہ ان کا مقدس مقام ہے اور ’’۱۹۴۷ءتک یہاں شاردا یا علم کی دیوی سرسوتی کے نام پر ایک مندر قائم تھا اور اس مندر کی زیارت کے لیے بھی ہر سال ہزاروں ہندو یاتری اس علاقے میں آتے تھے۔ دونوں اطراف خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والے کئی لوگ بھی بغیر تحقیق کے اسی مسخ شدہ تاریخ کو تسلیم کرتے ہوئے اس یاترا کی بحالی کا مطالبہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَزسرنو لکھنے کی دوڑ لگی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندوں کا خاصہ ہے، پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں، جن پر اپنے آپ کو ’اعتدال پسند‘ اور ’روشن خیال‘ کہلوانے کا خبط سوار ہے۔
چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب گزیٹئر آف کشمیر اینڈ لداخ مرتب کیا تواُس نے اس مقام پر ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعے سے ۴۰۰گز کی دوری پر ایک عبادت گاہ کے کھنڈرات ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ یہ عمارت نہایت خستہ اور ویران حالت میں ہے۔ یاد رہے یہ ہندو ڈوگرہ حکمرانوں کا دور تھا، لہٰذا یہ دعوی ٰ کرنا کہ ’’اس علاقے میں ایک عالی شان مندر واقع تھا اور وہاں ۱۹۴۷ءتک جوق در جوق یاتری آتے تھے، ایک لغو بات اور غلط بیانی کی انتہا ہے۔ بیٹس اورانگریز سرویر جنرل والٹر لارنس نے اس دور میں کشمیر کا قریہ قریہ گھوم کر معمولی واقعات تک قلم بند کیے ہیں۔ ان کی نگارشات میں کہیں بھی، کسی شاردا مندر کی یاترا کا تذکرہ نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ ۱۹ویں صدی میں ادھورے من سے ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی تزئین کی کوشش کی تھی، مگر اس کو اَدھورا چھوڑ دیا گیا تھا، اور بس اس عبادت گاہ کے ارد گرد مٹی کی ایک دیوار بنائی گئی۔ اگر اس جگہ پر عقیدت مند وں کا تانتا بندھا ہوتا، تو ہندو حکمرانوں نے اس جگہ پر عالیشان مندر یقینا تعمیر کرایا ہوتا۔
تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ جگہ بودھ مت کے عروج کے دوران ایک یونی ورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔نالندہ اور ٹیکسلا کے برعکس یہاں بدھ اشرافیہ یا چیدہ اسکالرز فلسفہ، سائنس اور بودھ مت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ مشہور چینی سیاح و محقق ہیون سانگ[۶۰۲ء-۶۶۴ء] نے ساتویں صدی میں جب اس علاقے کا دورہ کیا، تو اس کے مطابق اس یونی ورسٹی میں بدھ بھکشو انتہا درجہ کی ریاضت اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ شاردا سے سرینگر تک اپنے سفر کے دوران اس نے کئی سو بودھ خانقاہیں دیکھیں، جن میں ہزاروں بھکشو مقیم تھے۔ اس دور میں یہاں ہر سال ۵۰ہزار کے قریب عقیدت مند آتے تھے اور اس دانش گاہ کے قلب میں واقع عبادت گاہ میں جانے سے قبل پاس کے شاردایا مدھومتی یا کھوچل دریا میں ڈبکی لگاتے تھے۔
شاردا کے کھنڈرات دراصل تاریخ کی اس کڑی کی نشاندہی کرتے ہیں، جب ہندو مت کو دوبارہ عروج حاصل ہوا اور بود ھ مت کو نشانہ بناکر ان کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹھویں صدی میں جب کیرالا سے ہندو برہمن آدی شنکر آچاریہ نے بودھ مت کے خلاف محاذ کھول کر پورے جنوبی ایشیا کا دورہ کیا، اس نے شاردا یعنی علم کی دیوی کے نام پر مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریائے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔جب وہ کشمیر آئے اور اس جگہ پر ان کا بد ھ بھکشوؤں کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ ہندو تاریخ نویسوں کے بقول انھوں نے بدھ بھکشوؤں کو مکالمے میں چت کردیا۔ چونکہ اس دور میں اکثر راجے مہاراجے دوبارہ ہندو مت میں داخل ہو گئے تھے، شنکر آچاریہ نے ان کی مدد سے بھکشوؤں کا ناطقہ بند کرادیا اور ان کی عبادت گاہوں کو تہس نہس کرکے ان کی جگہوں پر مندروں کی عمارات کھڑی کردیں۔ یہی کچھ اس شارد ا پیٹھ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کی آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بودھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ایک طرح سے معمول تھا۔ اسلام کو جس طرح اس خطے میں عوامی پذیرائی ملی، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰ء قبل مسیح میں سریندرا پہلا بودھ بادشاہ تھا۔ اشوکا [۳۰۴ ق م- ۲۳۲ ق م]کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوا زم قبول کیا اور بودھ مت پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ بودھ اسٹوپوں، وہاروں کو تاراج کیا گیا۔ بودھ مت کی دانش گاہوں پر شیو مندر بنائے گئے۔ پھر ۶۳ء میں دوبارہ بودھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجا کنشک کے عہد حکمرانی [۱۲۷ء-۱۵۰ء]میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بودھ کونسل منعقد ہوئی اور بودھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جس کے پیروکار چین اور کوریا میں فی الوقت پائے جاتے ہیں۔
جولوگ اس علاقہ کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ، کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی اُبھار نا ہے، تاکہ بھارت کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کیا جاسکے۔
بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال تو کشمیر کو سیاسی مسئلہ کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق اس مسئلہ کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقہ میں ہندو ازم کے احیا میں ہے۔ ایک باضابطہ منصوبے کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷سال کی مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ خطرہ تو بس یہ ہے کہ نام نہاد اعتدال پسندی کا دکھاوا کرکے وادیٔ نیلم یا شاردا کا علاقہ حقیر مفادات کے لیے کہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیں اور حریص طاقتیں ان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کرکسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں۔ ایسی روشن خیالی کے ساتھ اگر بے ضمیری شامل ہے تو یہ زہر ہلاہل ہے!
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ کہتے ہیں:’’میں بوجھل دل کے ساتھ [اسرائیلی وزیراعظم] نتن یاہوکے ہمراہ سیکیورٹی بریفنگ میں شریک ہوا، لیکن بریفنگ کے مندرجات نے میرا غم دو چند کر دیا۔ ہمارے دشمنوں کو چہار سو جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس میں حکومت کی نااہلی ہانکے پکارے نمایاں ہو رہی ہے۔ یاہو حکومت پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل اپنی سدِ جارحیت (ڈیٹرینس) کھو رہا ہے۔ اسرائیل ایک ایسا ملک بنتا جا رہا ہے، جس میں حسن انتظام نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی‘‘۔
کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی لاپیڈ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ’ تل ابیب، امریکی اور بین الاقوامی حمایت سے تیزی سے محروم ہو رہا ہے۔‘
یائر لاپیڈ کے فکر انگیز موقف کو دیکھ کر ذہن میں دو اہم سوال پیدا ہو رہے ہیں: پہلا یہ کہ اسرائیل کیا واقعتاً اپنی سدِجارحیت کی حیثیت کھو رہا ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امریکا کا چہیتا اسرائیل دنیا کی حمایت سے محروم ہو رہا ہے؟
ہم دوسرے سوال کا جواب پہلے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا میں اسرائیلی مقبولیت کا گراف کتنا نمایاں رہا ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے اگر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر فلسطین اور اسرائیل سے متعلق پیش کی جانے والی قراردادوں اور بحث مباحثوں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کے ملکوں کی بڑی اکثریت نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکی ویٹو کے سامنے اکثریتی ووٹ ہمیشہ ہیچ ہی رہا اور مطلوبہ نتائج سامنے لانے میں ناکام رہا۔
یائر لاپیڈ کے بیان میں بھی اسرائیل کی مطلق عالمی مقبولیت کا ذکر نہیں، بلکہ ان کا اشارہ روایتی طور پر امریکا کے حامی مٹھی بھر ملکوں کی جانب تھا۔ ان ملکوں میں بعض کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے،جب کہ مغربی ممالک کی بڑی اکثریت بھی اس فہرست میں شامل رہی ہے۔لیکن اب یہ ممالک بھی سمجھ چکے ہیں کہ امریکا، مشرق وسطیٰ سے کنارہ کش ہو چکا ہے۔ یہ پسپائی روس اور یوکرین جنگ کے بعد سے شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا آغاز ۲۰۱۲ء میں بہت پہلے ہو چکا تھا۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے اپنے دور حکومت میں واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا ارتکاز مشرق وسطیٰ سے ہٹا کر ایشیا پیسیفک ریجن کی طرف کر لیا تھا۔ ۲۰۱۲ء سے صدر اوباما نے Pivot to Asia پالیسی کو امریکی خارجہ پالیسی کا محور بنایا۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کی رفتار میں خاص طور پر اس وقت تیزی آئی، جب فروری ۲۰۲۲ء میں روس- یوکرین جنگ کا آغاز ہوا۔
دکھائی دیتا ہے کہ عرب دُنیا کو اب واشنگٹن کی علانیہ یا خفیہ حمایت کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ یہاں امریکی دلچسپی معدوم ہو رہی یا کم از کم اس درجے میں نہیں جتنی واشنگٹن نے ۲۰۰۳ءمیں مقبوضہ عراق پر ایک ایسی مہنگی ترین جنگ مسلط کرتے وقت دکھائی تھی کہ جس میں لاکھوں انسان لقمۂ اجل بنے۔
اب ہم پہلے سوال کی طرف آتے ہیں ۔کیا اسرائیل حقیقت میں اپنی ڈیٹرینس [سدِجارحیت] سے محروم ہو رہا ہے؟ در حقیقت اسرائیل اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اب بھی اتنا طاقت ور ضرور ہے، جتنا وہ مئی ۲۰۲۱ء میں غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کے وقت تھا۔دراصل یائر لاپیڈ یہ حقیقت باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ فی زمانہ اسرائیل فلسطینیوں اور عرب ہمسایوں کے ساتھ اپنے تنازعے کو کسی ایک محاذ تک محدود رکھنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔
گذشتہ کئی دنوں سے فلسطینی اور متعدد عرب مزاحمتی تنظیموں نے غزہ، جنوبی لبنان اور شام سے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر رکھی ہے۔ غرب اردن میں فلسطینی عسکری گروپوں نے بھی قابض اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ماضی میں ایسی صورت حال کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے پہلے تاریخی طور پر اسرائیل نے ہمیشہ ایک وقت میں کسی ایک مزاحمتی گروپ یا ریجن پر فوکس کر کے طاقت کا توازن ہمیشہ اپنے حق میں برقرار رکھا، مگر اب یہ بات قابل عمل نہیں رہی کیونکہ شام، جنگ کی تباہی کے بعد چھٹنے والی دھول میں پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر ابھر رہا ہے۔
حزب اللہ، اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر حملوں کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور غزہ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے پہلے ہی اندوہناک صورت حال سے دوچار ہے۔ ایک لحاظ سے اہل غزہ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ دوسری جانب حالات معمول پر لانے کے شوروغل میں عرب ملک بھی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں۔
رمضان المبارک کے دوران مسجد اقصیٰ پر صہیونی فوج کے چھاپے اور نمازیوں پر بہیمانہ تشدد پر سعودی عرب، او آئی سی(اسلامی تعاون تنظیم)، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی۔ اس تبدیلی کا سہرا بدلتے ہوئے جیو پولیٹکل حالات کے سر جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کی چھاپہ مار کارروائی پر خطے کے اہم عرب، مسلم اور مغربی ممالک خاموش نہ رہ سکے۔
قبلۂ اول کے خلاف جارحیت کے تسلسل کو اسرائیل اپنی روایتی چھاپہ مار کارروائی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا۔ صہیونی کار پرداز اس حقیقت کے ادارک میں ناکام رہے کہ مشرق وسطیٰ کی جیو پالیٹکس تبدیل ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم پر فلسطینی ردعمل صرف غزہ، نابلس یا جنین سے نہیں بلکہ اس مرتبہ یہ ردعمل بیک وقت لبنان، شام اور پورے فلسطین سے سامنے آیا۔یاد رہے کہ اس سال صرف پہلے تین ماہ میں ۹۰ فلسطینی اسرائیلی افواج کے ہاتھوں شہادت پاچکے ہیں، مگر مزاحمت میں کچھ کمی نہیں آرہی۔
اس بات پر اسرائیلی انتظامیہ بدحواسی میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ تل ابیب اس ردعمل کے لیے تیار نہیں تھا، نہ ہر بار کی طرح فخریہ انداز سے امریکا خم ٹھونک کر اسرائیل کی مدد کو لپکا۔
عرب دنیا مکمل طور پر نئی جیو پولیٹیکل صورت حال میں اپنا مقام ومرتبہ متعین کرنے میں مصروف ہے۔ اسرائیل بری طرح جال میں پھنس چکا ہے، جس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔
ادھر امریکی طوق وسلاسل میں جکڑے عربوں کو ’چلو چلو، چین چلو‘ کا نیا آہنگ اور نغمہ لبھانے لگا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان چینی ثالثی میں طے پانے والا معاہدہ حتمی طور پر ۶؍ اپریل کو دستخط کے لیے پیش کیا گیا۔
چین، اب مشرق وسطیٰ میں امن کا نیا سرپرست بن کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے لیے محال ہے کہ اس جال سے جلد نکل آئے کیونکہ امریکانے اسرائیل نوازی کی رفتار میں کچھ ٹھیرائو پیدا کیا ہے، اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں خود امریکا سے ہٹ کر نئے اتحاد تشکیل پارہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں فاشزم (فسطائیت)اپنی تمام وحشیانہ خصوصیات کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔ جمہوریت اور بنیادی شہری حقوق کی جگہ اب صرف قبرستان کا سا ماحول ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو حکومت کے لیے کافی وقت، طاقت اور مواقع ملے، مگر انھوں نے عوام کے خلاف مجرمانہ عزائم کا مظاہرہ کیا اور بھارتی سرپرستی میں فاشسٹ حکمرانوں کی بدترین شکل بن کر اُبھریں۔ ان کی حکومت سفاکیت، آمریت، بدعنوانی اور بدانتظامی کا ’منفرد نمونہ‘ ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام ۱۴ سال کی طویل حکمرانی کے دوران ایسے ریاستی جرائم کا قریب سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ ریاستی ادارے عوام کو دبانے اور جبر پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔
حسینہ واجد، عوام، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کی دشمن کے طور پر پوری طرح جم کر کھڑی ہیں۔ اس لیے عوام اس حکومت سے مایوس ہیں۔ خود شیخ حسینہ کو اپنے جرائم اور عوام کے غصے کا پوری طرح اندازہ ہے۔ لہٰذا، لوگوں کے خلاف انھوں نےایک مخصوص حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ لوگوں کے ووٹ کے اختیار کو چھین کر ان کو بے اختیار بنانا یہ کلیدی حکمت عملی ہے۔ جس کے لیے انتخابی عمل کا مکمل اختیار سنبھال لیا گیا ہے۔ اس طرح یہ حکومت عوام کے ووٹوں پر ڈاکا ڈال کر خود کو منتخب کروا سکتی ہے۔ انتخابی دھاندلی اور ڈکیتی ۲۰۱۴ء اور پھر ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں بھی ہوئی۔ یوں بنگلہ دیش کے عوام اپنے نمایندے خود منتخب کرنے کے آئینی حقوق سے محروم ہوگئے ہیں۔
l ووٹوں پر ڈاکا:آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو روکنے کے لیے حسینہ واجد نے نگراں حکومت (CTG) فارمولے کو ختم کر دیا ہے۔ یہ فارمولا پروفیسر غلام اعظم نے پیش کیا تھا، جس کی ۱۹۹۱ء میں تمام جماعتوں نے توثیق کی تھی۔ یہ ایک طویل سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اس سے پہلے انتخابات اقتدار میں آنے والی پارٹی منعقد کراتی تھی۔ اس طرح حکمران پارٹی اپنے حق میں انتخابات میں دھاندلی کے تمام مواقع سے لطف اندوز ہوتی تھی۔لیکن جب حسینہ واجد ۲۰۰۸ء میں اقتدار میں آئیں تو انھوں نے تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود اسے ختم کردیا۔ اس اقدام نے حسینہ کے لیے انتخابی دھاندلی کی راہیں کھول دیں۔
حسینہ واجد سمجھتی ہیں کہ کسی بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں ان کی جیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پچھلے انتخابات میں، وہ دو حلقوں میں اپوزیشن کے دو عام نمایندوں سے بھی شکست کھا گئی تھیں۔ تب سے، وہ زبردست انتخابی فوبیا کا شکار ہیں۔ الیکشن کمیشن اسے آزادانہ اور منصفانہ انتخاب قرار دینے کے لیے تیار ہے۔ ملک کی پولیس اور عدلیہ خاموش تماشائی ہیں۔
انتخابی دھاندلی کی تاریخ میں حسینہ نے مصر کے ابوالفتح السیسی اور شام کے بشار الاسد جیسے سفاک آمروں کے ریکارڈ کو بھی مات دے دی ہے ۔ ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء کو، اس کی پولیس نے الیکشن کے دن سے ایک رات پہلے جگہ جگہ ووٹ ڈالے۔ چونکہ پولیس خود ایک ادارہ ہونے کے ناتے اس جرم میں شریک تھی، اس لیے اس طرح کی بھیانک ڈکیتی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ انتخاب کے دن پولنگ سٹیشنوں پر پہنچنے والے حقیقی ووٹروں سے کہا گیا کہ وہ گھر واپس چلے جائیں کیونکہ ان کے ووٹ ڈالے جا چکے تھے۔ یہ حسینہ کے تکبر اور عوام کے خلاف دھوکا دہی کا عالم تھا۔ اس طرح کی لوٹ مار کے ذریعے، ۳۰۰ میں سے ۲۹۳ پارلیمانی نشستوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ درحقیقت اس طرح وہ تمام ۳۰۰ پارلیمانی نشستیں آسانی سے لے سکتی تھیں۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں تو ۱۵۳ نشستوں پر عوامی لیگ کے اُمیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ یہاں تک کہ ۱۰ فی صد ووٹروں سے زیادہ لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا۔ یہ حسینہ کا طرز انتخاب ہے۔ ایسی انتخابی دھاندلی کی توثیق سے بچنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے ۲۰۱۴ء میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
l اداروں کی تباہی:شیخ حسینہ نے۲۰۰۸ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد جمہوریت کے بنیادی ادارے اور انتخابی نظام کو بآسانی تباہ کر دیا۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق تک حاصل نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ پُرامن احتجاج کرنے پر بھی لوگوں کو گرفتار کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا جان سے مار دیا گیا۔ حفاظت ِ اسلام پارٹی کے سیکڑوں اسلام پسندوں کو ۵ مئی ۲۰۱۳ء کو ڈھاکہ میں ایک پُرامن احتجاجی ریلی منعقد کرنے پر قتل کر دیا گیا۔ شیخ حسینہ نے عدلیہ پر بھی کامیابی سے تسلط حاصل کر لیا ہے۔ وہ چاہے تو کسی کو پھانسی دے سکتی ہے یا جیل بھیج سکتی ہے۔ اس نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے کئی رہنماؤں کو پھانسی دے دی ۔
فوج اور پولیس کے اہلکاروں کا مقام ان کے پرائیویٹ ملازموں سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ صرف اس کی حکمرانی کا تحفظ کرتے ہیں، نہ کہ لوگوں کی زندگیوں اور ان کے آئینی حقوق کا تحفظ۔ میڈیا اب مکمل طور پر قابو میں ہے۔ حسینہ واجد نے اپنی حکومت پر کسی بھی طرح تنقید کرنے والے کو جیل میں ڈالنے کے لیے ’ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس کی حکومت پر تنقید کو ’ریاست مخالف عمل‘ قرار دیا جاتا ہے، لہٰذا انھیں گرفتار کر کے سزا دی جاسکتی ہے۔ بھارتی فاشسٹ وزیراعظم مودی کے دورے کے خلاف احتجاج کرنے پر مشرقی ضلع برہمن باڑیا میں پولیس کے ہاتھوں ۱۶؍ افراد ہلاک ہوگئے ۔ اس قتل کے جرم میں نہ کسی کو گرفتار کیا گیا اور نہ سزا ہی دی گئی اور اس قتل عام کی خبر کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا۔
l ریاست __ دہشت گردی کا ادارہ:بنگلہ دیش کی ریاست جو فوج اور پولیس کے اہلکاروں کے ذریعے ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیتی ہے، اسے RAB (The Rapid Action Batalion ) کہتے ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جو لوگوں کو حسینہ کی فاشسٹ حکمرانی کے تابع رکھنے اور خاموش رہنے کے لیے دہشت زدہ کر رہے ہیں ۔ وہ سیکڑوں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کا نشانہ حکومت مخالف سیاسی کارکن، صحافی اور دانشور ہیں۔ RAB بغیر کسی عدالتی وارنٹ کے رات کی تاریکی میں لوگوں کو اغوا کرتا ہے۔ پورا ملک ایسے ڈیتھ اسکواڈز کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ وہ ڈھاکہ چھاؤنی کے اندر دہشت ناک ٹارچر سیل چلاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا اور قتل کرنا حکومتی سرپرستی میں ایک اداراتی عمل بن چکا ہے۔ کچھ بین الاقوامی میڈیا نیٹ ورکس جیسے ڈوئچے ویلے ، الجزیرہ، نیٹرو نیوز نے حکومتی سرپرستی پر مبنی ایسے اداروں پر دستاویزی فلمیں بنائی ہیں۔
اپوزیشن لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف ہزاروں جھوٹے مقدمات درج ہیں۔ اس لیے گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ زیر زمین چلے جانے یا ملک چھوڑ کر غیر ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرلینے پر مجبور ہیں۔ گرفتار ہونے والے برسوں تک بغیر مقدمہ چلائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑتے رہتے ہیں۔
l حسینہ: ہندستان کی وائسرائے:حسینہ نہ صرف فاشسٹ، بدعنوان اور اسلام دشمن ٹھگ کی سی بدترین شکل ہے، بلکہ انھوں نے بنگلہ دیش کو بھی ہندستان کی ایک کالونی بنا دیا ہے۔ اس نے سات مشرقی ریاستوں تک رسائی کے لیے ہندستان کو مفت گزرگاہ فراہم کردی ہے، اور بنگلہ دیشی بندرگاہوں تک رسائی دی ہے۔ ملک کی مارکیٹوں پر ہندستان کا قبضہ ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش کی دکانوں اور گھروں میں زیادہ تر سامان ہندستان کا بنا ہوا دستیاب ہے۔ زیادہ تر گاڑیاں، بسیں، ٹرک، سکوٹر اور سائیکل بھارت سے آتے ہیں۔ چونکہ تقریباً ۱۰ ملین بنگلہ دیشی بیرون ملک مقیم ہیں، اس لیے ایک بنگلہ دیشی کی فی کس آمدنی اور قوت خرید ایک ہندستانی سے زیادہ ہے۔ ہندستان مسابقت سے پاک زیرقبضہ مارکیٹ نہیں چھوڑ سکتا۔ بنگلہ دیش میں ہندستانی سامان کی مارکیٹ ہندستانی ریاستوں جیسے مغربی بنگال، آسام، بہار اور اڑیسہ کی مشترکہ مارکیٹ سے بڑی ہے۔ ایسے ہندستانی اقتصادی اور سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے حسینہ دہلی کے حکمران گروہ کی وائسرائے کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس لیے بھارت اس حکمرانی کا ہر ممکن اقدام سے تحفظ کر رہا ہے۔ ان حالات میں حسینہ کے خلاف کھڑے ہونا درحقیقت ہندستانی سامراجیت کے خلاف لڑنا ہے۔
حسینہ کو ۲۰۰۸ء میں دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے امریکا، برطانیہ اور بھارت کی مشترکہ سازش کے ذریعے۱۸کروڑکی آبادی والے ملک میں اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کو غیرمنصفانہ عدالتی کارروائیوں اور نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا تو ان سازشی طاقتوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اب اسے بھارت، چین اور روس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ بھارتی، چینی اور روسی کمپنیاں حسینہ اور اس کے ساتھیوں کو ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر کک بیک کے طور پر دیتی ہیں۔
اگلا پارلیمانی الیکشن ۲۰۲۴ء میں ہے۔ حسینہ واجد عوام کے ووٹوں پر ایک اور ڈاکا ڈالنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ اس موقع کو کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اگر وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اپنے بے شمار قاتلانہ جرائم کی سزا سے نہیں بچ سکتی۔ درحقیقت بنگلہ دیش کے ۱۸کروڑ عوام کے لیے یہ واقعی ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ دشمن نما حکمران کو کب تک برداشت کریں گے؟
بہ حیثیت انسان مشکلات کا ایک سیلاب ہمارے خلاف اُمڈا چلا آرہا ہے۔ یہ کرئہ ارضی پر مسلط ہوئی تپش اور گرمی کے حوالے سے ’انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج‘ (IPCC) کی تازہ ترین رپورٹ میں ہے جو حالت ِ خطرے کی لکیر کو چھو رہی ہے۔ یاد رہے، اس موضوع پر یہ اب تک کی سب سے جامع سائنسی رپورٹ ہے۔ ایک بار پھر ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ۲۰۳۰ء خطرناک طور پر زندگی گزارنے کا سال ہے — جب انسانیت کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی مقدار کو نصف حد تک کم کرنا چاہیے، اور پھر ۲۰۵۰ء تک اسے مکمل طور پر روکنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
وگرنہ دوسری صورت میں کرۂ ارض کو آب و ہوا کی ان تمام تباہیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جو ہم پہلے ہی تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ’’موسمیاتی ٹائم بم ٹک ٹک کر رہا ہے‘‘۔ پچھلی نصف صدی میں درجۂ حرارت میں اضافے کی شرح۲ہزار برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی تیاری اور پورے ماحول میں اس کے پھیلائو کی مقدار گذشتہ ۲۰ لاکھ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔
سائنس دان ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ اس نظر آتی تباہی سے بچنے یا گلوبل وارمنگ کو ایک عشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھنے کے امکانات بھی بہت کم اثر پیدا کریں گے۔زمین پر مشتمل سیارہ پہلے ہی ایک اعشاریہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم ہو چکا ہے، اور ہر سال ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں گرمی کے ریکارڈ قائم ہوتے چلے آرہے ہیں۔
مسئلے کا ایک اور بڑا حصہ مختلف قوموں کے قومی مفادات پر مشتمل ہے۔ ہم یہ صاف دیکھ رہے ہیں کہ جب بھی ان کی معیشتوں کو ترقی کی ضرورت ہوتی ہے، یا مستقبل میں ہوگی، تو یہ حکومتیں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کریں گی۔ جیسے چین کا کوئلے سے چلنے والے ۱۶۸ نئے پاور پلانٹس کی تعمیر کی اجازت دینے کا فیصلہ ہے، یا امریکا کی جانب سے الاسکا میں ولو آئل ڈرلنگ پروجیکٹ پر پیش قدمی کرنے کا اعلان۔
پھر اپنی روش بدلنے سے ملکوں کا عدم تعاون اور انکار ہے، خاص طور پر امیر ترین ممالک کا منفی رویہ۔ وہ ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم پلاسٹک کی پیکیجنگ پر مبنی زیادہ ایئر کنڈیشنگ کریں، دُوردراز سے خوراک تک رسائی حاصل کریں۔ زیادہ تیل اور گیس استعمال کریں، پرانے جنگلات سے زیادہ لکڑی نکالیں، مزید ایسی ایسی جگہوں پر گھر چاہتے ہیں جہاں انھیں تعمیر نہیں ہونا چاہیے۔ اور جب معاملات غلط ہو جاتے ہیں تو مزید حکومتی بیل آؤٹ مدد کو آجاتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ وہ تبدیلیاں کیا ہوں گی، کیونکہ یہ الم ناک خبریں باقاعدگی سے اَپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں، ہمیشہ کی طرح پہلے سے بھی بدتر خبروں کے ساتھ۔ مثال کے طور پر اُوپر مذکورہ IPCC رپورٹ کے الفاظ میں:
مگر دوسری طرف یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ تیل اور گیس کمپنی کا منافع اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ مثال کے طور پر، بی پی آئل کمپنی نے ۲۰۲۲ء میں۲۸ بلین ڈالر منافع کی اطلاع دی، اور تیل کمپنی ایکسن موبائل نے ۵۶ بلین ڈالر منافع کی اطلاع دی۔ ان کمپنیوں نے بغیر کسی شرمندگی کے اعلان کیا ہے کہ وہ قابل تجدید توانائی کی طرف بڑھنے کے وعدوں کو پیچھے چھوڑ دیں گی۔
فرانس کی حکومت نے گہرے سمندر میں کان کنی پر پابندی کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے، اور اس سمت میں وہ پہلی حکومت ہے۔ کیا کوئی دوسرا بھی اس طرف قدم بڑھائے گا؟
سوال : کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزانہ پانچ نمازیں بجا لاتے تھے اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے تھے جتنی ہم پڑھتے ہیں؟ اس سوال کی قدرے میں نے تحقیق کی لیکن کوئی مستند حوالہ فی الحال ایسا نہیں ملا کہ اس سوال کا جواب ہوتا۔ بخلاف اس کے بخاری شریف میں یہ حدیث نظر آئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں۔ اسی طرح مؤطا، کتاب الصلوٰۃ میں یہ لکھا دیکھا کہ رات دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔ یہ دونوں حدیثیں دو دو رکعت نماز ثابت کرتی ہیں۔ ان خیالات و شکوک نے ذہن کو پراگندہ کررکھا ہے اور اکثر مجھے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ ہماری موجودہ نماز وہ نہیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہوگی۔ خدارا میری اُلجھن کو دُور فرمایئے اور مجھے گمراہ ہونے سے بچایئے۔ مجھے نماز چھوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
جواب :جن احادیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ ابتدائی دور کی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل، جب کہ نماز کے احکام بتدریج مکمل ہوچکے تھے، یہی تھا کہ آپؐ پانچوں وقت وہی رکعتیں پڑھتے تھے جو اب تمام مسلمانوں میں رائج ہیں۔ یہ چیز دوسری متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ حضرت عمرؓ کا جو قول آپ نے نقل کیا ہے وہ نوافل سے متعلق ہے۔ (فروری ۱۹۶۱ء)
سوال : کیا صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آج کل کے صوفیہ کی طرح تزکیۂ نفس کیا کرتے تھے اور انھیں عالم بالا کے مشاہدات ہوتے رہتے تھے؟
جواب :صحابۂ کرامؓ نے تو عالمِ بالا کے معاملے میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا، اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انھوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردئہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دُنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دُنیا میں عملاً وہ نظامِ حق قائم کردیں، جو بُرائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشوونما دینے والا ہو۔( جولائی-اگست ۱۹۴۵ء)
سوال : قرآن پاک کی مختلف تفسیریں کیوں ہیں؟ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تفسیر بیان کی ہے، وہ ہوبہو کیوں نہ لکھ لی گئی؟ کیا ضرورت ہے کہ لوگ اپنے اپنے علم کے اعتبار سے مختلف تفسیریں بیان کریں اور باہمی اختلافات کا ہنگامہ برپا رہے؟
جواب :قرآن پاک کا جو فہم، دین کے حقائق اور اس کے احکام جاننے کے لیے ضروری تھا، اس کی حد تک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارشادات اور اپنے عمل سے اس کی تفسیر فرما گئے ہیں۔ لیکن ایک حصہ لوگوں کے غوروخوض اور فکروفہم کے لیے بھی چھوڑا گیا ہے تاکہ وہ خود بھی تدبر کریں۔ اس حصے میں اختلافات کا واقع ہونا ایک فطری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا منشا اگر یہ ہوتا کہ دُنیا میں سرے سے کوئی اختلاف ہو ہی نہیں تو وہ تمام انسانوں کو خودہی یکساں فہم عطا فرماتا، بلکہ عقل و فہم اور اختیار کی قوتیں عطا کرنے کی ضرورت نہ تھی، اور اس صورت میں آدمی کے لیے نہ کوشش کا کوئی میدان ہوتا، اور نہ ترقی و تنزل کا کوئی امکان۔(اگست۱۹۵۹ء)
سوال : کیا انسان کو سیکولرزم یا دہریت روحانی ما دّی ترقی کی معراج نصیب کراسکتی ہے؟
جواب :سیکولرزم یا دہریت درحقیقت نہ کسی روحانی ترقی میں مددگار ہیں اور نہ مادی ترقی میں۔ معراج نصیب کرنے کا ذکر ہی کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کے اہل مغرب نے جو ترقی مادی حیثیت سے کی ہے ، وہ سیکولرزم یا مادہ پرستی یا دہریت کے ذریعے سے نہیں کی، بلکہ اس کے باوجود کی ہے۔ مختصراً میری اس رائے کی دلیل یہ ہے کہ انسان کوئی ترقی اس کے بغیر نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بلند مقصد کے لیے اپنی جان و مال کی، اپنے اوقات اور محنتوں کی اور اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت ایسی کوئی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہیں جس کی بناپر انسان یہ قربانی دینے کو تیار ہوسکے۔ اسی طرح کوئی انسانی ترقی اجتماعی کوشش کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور اجتماعی کوشش لازماً انسانوں کے درمیان ایسی رفاقت چاہتی ہے، جس میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور ایثار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت میں محبت و ایثار کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اب یہ ساری چیزیں مغربی قوموں نے مسیحیت سے بغاوت کرنے کے باوجود ان مسیحی اخلاقیات ہی سے لی ہیں، جو ان کی سوسائٹی میں روایتاً باقی رہ گئی تھیں۔ ان چیزوں کو سیکولرزم یا دہریت کے حساب میں درج کرنا غلط ہے۔ سیکولرزم اور دہریت نے جو کام کیا ہے، وہ یہ کہ مغربی قوموں کو خدا اور آخرت سے بے فکر کرکے خالص مادہ پرستی کا عاشق اور مادی لذائذ و فوائد کا طالب بنادیا ہے۔ مگر ان قوموں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جن اخلاقی اوصاف سے کام لیا ، وہ ان کو سیکولرزم یا دہریت سے نہیں ملے بلکہ اس مذہب ہی سے ملے جس سے وہ بغاوت پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس لیے یہ خیال کرنا سرے سے غلط ہے کہ سیکولرزم یا دہریت ترقی کی موجب ہیں۔ وہ تو اس کے برعکس انسان کے اندر خودغرضی، ایک دوسرے کے خلاف کش مکش اور جرائم پیشگی کے اوصاف پیدا کرتی ہیں،جو انسان کی ترقی میں مددگار نہیں بلکہ مانع ہیں۔ (اکتوبر ۱۹۶۱ء)
سوال : نماز کے آخر میں جو سلام ہم پھیرتے ہیں، اس کا مقصداورمخاطب کون ہے؟
جواب :کسی عمل کو ختم کرنے کے لیے آخر اس کی کوئی صورت ہونی چاہیے۔ نماز ختم کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ جو قبلہ رو بیٹھ کر عبادت کر رہے تھے، اب دونوں طرف منہ پھیرکر اس عمل کو ختم کردیں۔ اب منہ پھیرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ چپکے سے منہ پھیر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ خدا سے تمام خلق کے لیے سلامتی کی دُعا کرتے ہوئے منہ پھیریں۔ آپ کو ان میں سے کون سی صورت پسند ہے؟(فروری ۱۹۶۱ء)
یہ انسانی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ بلکہ معجزہ ہے کہ آٹھ برس کی مختصر سی مدت میں ایک قصبے کی چھوٹی سی ریاست، جو چند مربع میل اور چند ہزار انسانوں پر مشتمل تھی، پورے عرب پر چھا گئی۔ صرف آٹھ برس کے اندر۱۰، ۱۲ لاکھ مربع میل کا پورا ملک مسخر ہوگیا، اور مسخر بھی اس طرح ہواکہ لوگ محض ایک سیاسی نظام ہی کے تابع نہیں ہوگئےبلکہ ان کے نظریات تبدیل ہوگئے، ان کی قدریں بدل گئیں، ان کے اخلاق بدل گئے، ان کے معاشرتی طورطریقوں میں عظیم الشان اصولی تغیر رُونما ہوگیا۔ ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی روح اور شکل دونوں میں ایک ایسی انقلابی تبدیلی واقع ہوئی، جس نے عرب ہی کی نہیں بلکہ دُنیا کی تاریخ کا رُخ بدل ڈالا۔ ان کے افرادنے فرداً فرداً اور ان کی قوم نے بحیثیت مجموعی سوچنے کا ایک نیا انداز، برتائو کا ایک نیا طریقہ اور زندگی کا ایک نیا مقصد اختیار کرلیا، جس سے وہ اپنی صدہابرس کی تاریخ میں کبھی آشنا نہ ہوئے تھے۔
اگرچہ صدیوں کی طوائف الملوکی ختم کرکے اس ملک کوایک سیاسی نظام کے تحت لے آنا بھی کوئی چھوٹا کارنامہ نہ تھا، مگر اس سے ہزاروں درجہ زیادہ بڑا کارنامہ یہ فکری و اخلاقی اور تہذیبی و تمدنی انقلاب تھا۔
افسوس ہے کہ تاریخ نگاری کے ایک غلط طریقے نے اس عظیم تغیر کو محض غزوات کے نتیجے کی حیثیت سے پیش کر دیا ، اور فرنگی مستشرقین نے اس پر خوب ڈھول پیٹا کہ ’اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے‘، حالانکہ وہ تمام لڑائیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئیں، ان میں مجموعی طور پر دونوں طرف کے بمشکل ۱۴سو آدمی مارے گئے تھے۔ کسی کے پاس عقل ہو تو وہ خود غور کرے کہ اتنی کم خوںریزی کے ساتھ اتنا بڑا انقلاب کہیں تلوار کے بل پر بھی ہوسکتا ہے؟ (’اسلام عصرِحاضر میں‘ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۲، مئی ۱۹۶۳ء، ص۳۵