یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ علامہ اقبال نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’میری قوم کی ترقی کا راز سیاسی آزادی میں پنہاں ہے۔ برطانوی استعمار راستے کی بڑی رکاوٹ ہے اور ہندوئوں کا غلبہ ہمارے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں طرف کا دبائو ہمیں کچل رہا ہے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہا: ’’مسلمانوں کی فلاح و بہبود میری ساری زندگی کا مشن رہا ہے‘‘ (اوراقِ گم گشتہ، مرتبہ: رحیم بخش شاہین، ص۲۵۵، بحوالہ اقبال اور قائداعظم، مرتبہ: احمدسعید، ص ۷۷)۔ اس زمانے میں علامہ اقبال کی نظر محمدعلی جناح پر کیوں پڑی ؟ علامہ نے وضاحت سے فرمایا: ’’میری بصیرت کہتی ہے کہ مسٹر جناح ، ملّت اسلامی کو منزلِ مقصود تک پہنچائیں گے۔ یہ میری پیش گوئی ہے کہ مسٹرجناح ایسے کردار، اخلاق، فہم، تدبر اور عزمِ محکم کے مالک ہیں، جن کی بناپر بہت جلد ایک ایسے عوامی ہیرو بن جائیں گے کہ مسلم ہندستان میں ابھی تک اس قسم کا کوئی لیڈرپیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔ (ایضاً، احمد سعید، ص ۷۷، ۷۸)
۱۹۳۶ء کے اواخر میں اپنے احباب سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال نے کہا:’’مسٹر جناح کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے، جو آج تک ہندستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آئی۔ [یعنی] He is incorruptible and umpurchasable۔ (آثارِ اقبال، غلام دست گیر رشید، ص ۴۱، ایضاً، ص ۸۲)۔پھر اس زمانے میں ہندستان میں مسلمانوں کی حالت ِ زار کی مناسبت سے فرمایا: ’’مسلمانوں کی طرف سے اگر کسی شخص کو بات کرنے کا حق ہے، تو وہ صرف مسٹر جناح ہیں‘‘۔ (اقبال کے آخری دو سال، عاشق حسین بٹالوی، ص ۳۸۶، ایضاً،ص ۸۰)
راجا حسن اختر نے پوچھا: ’’کیا ہندستان میں کوئی ایسا شخص ہے، جسے ہم آپ کی خودی کا مظہر کہہ سکیں؟‘‘ علامہ اقبال نے جواب دیا: ’’ہاں، بالکل ہے اور وہ محمدعلی جناح ہے۔ اپنی قوم کو مَیں جس خودی کا درس دے رہا ہوں وہ محمدعلی جناح کے وجود میں جلوہ فرما ہے۔حق بات کہنے میں اسے باک نہیں، نہایت اعتباری آدمی ہے۔ مسلم قوم کا نجات دہندہ ہونے کی ساری صفات اس میں پائی جاتی ہیں‘‘ (ایضاً، ص ۷۹)۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو قائداعظم نے پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں سے کہا: ’’آج کل مسلمانوں کا سب سے اہم فرض یہی ہے کہ وہ اپنی تنظیم کریں اور ہندستان کی واحد اسلامی سیاسی جماعت ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کے جھنڈے تلے ایک محاذ پر جمع ہوجائیں۔ ہماری اُمیدیں نوجوانوں سے وابستہ ہیں۔ مَیں آپ کی کامیابی کے لیے دست ِ بہ دُعا ہوں‘‘(روزنامہ انقلاب، لاہور، ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۷ء، ایضاً، ص ۷۹)۔علامہ اقبال نے قائداعظم کی تائید میں بیان جاری کیا اور فرمایا: ’’میں مسٹر جناح کے ایک ایک لفظ کی تائید کرتا ہوں۔ مسلمان نوجوانوں کو اس سے بہتر مشورہ نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ (گفتار اقبال، مرتبہ: رفیق افضل، بحوالہ ایضاً، ص ۷۹)
قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی اجلاس میں کانگرسی وزارتوں کے طرزِعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’’بندے ماترم‘ مسلم دشمن ترانہ ہے، جسےمسلمان بچوں کو اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بندے ماترم سے شرک کی بُو آتی ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف نعرئہ جنگ ہے‘‘۔ علامہ اقبال کو جب اخبار میں قائداعظم کا بیان بڑھ کر سنایا گیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ جناح کے ہاتھ مضبوط کریں۔ لیگ کامیاب ہوگی تو جناح کے سہارے۔ جناح کے سوا اب کوئی مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں‘‘۔ (اقبال کے حضور، نذیر نیازی، ص ۱۳۵، ایضاً، ص ۸۳)
علامہ محمد اقبال نے اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے سے پہلے قائداعظم کو ۳۷-۱۹۳۶ء میں نہایت پُرمغز خطوط لکھے، جن میں قائداعظم کی سیاسی و فکری رہنمائی کی۔ اُن کو مسلمانوں کے لیے آزاد مملکت کے مطالبے پر قائل کیا۔ اپنی وفات سے گیارہ ماہ قبل علامہ اقبال نے جناح کے نام خط مؤرخہ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء میں لکھا:
’’مسلم لیگ کو آخرکار یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے محض اعلیٰ طبقے کی نمایندہ بنی رہے یا عام مسلمانوں کی نمایندگی کرے۔ جب تک کوئی سیاسی تنظیم، عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کا وعدہ نہ کرے، وہ اس وقت تک عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔ نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہوتا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ وہ گذشتہ دوسو سال سے برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ غربت کی وجہ ہندو سودخوری اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے؟ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ سے اس مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔ اسلامی قانون کے گہرے اور دقت ِنظر مطالعے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، تو کم از کم ہرشخص کے لیے حقِ روزی تو محفوظ ہوجاتا ہے۔لیکن جب تک اس ملک میں ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں معرضِ وجود میں نہ آئیں، اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں.... مجھے اتنا ضرور نظر آتا ہے کہ اگر ہندومت نے معاشرتی جمہوریت کو قبول کرلیا تو خود ہندو دھرم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسلام کے لیے معاشرتی جمہوریت کا کسی موزوں شکل میں اور شریعت کے مطابق قبول کرنا کوئی نئی بات یا انقلاب نہیں بلکہ ایسا کرنا اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف لوٹنا ہے۔ مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے‘‘(مکتوب اقبال بنام جناح، ۲۸مئی ۱۹۳۷ء)۔[پھر علامہ اقبال نے ۲۱جون ۱۹۳۷ء کو قائداعظم کے نام لکھا:]’’اس وقت تمام ہندستان میں جو طوفان بڑھتا چلا آرہا ہے، ہندستانی مسلمان صرف آپ ہی سے رہنمائی کی اُمید رکھتے ہیں‘‘۔
کراچی میں ۱۱؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو مسلم طلبہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ’’آپ اپنی گم شدہ میراث کی بازیابی کے لیے حقیقی اور پُرخلوص کوششیں کریں۔ وقت آگیا ہے کہ آپ اسلام کے لیے اور اقتصادی ، تعلیمی و صنعتی ترقی کے لیے کام کریں۔ مسلمانوں کے پاس [اس وقت] نہ کوئی گھر ہے، نہ کوئی ایسی جگہ جسے وہ اپنی کہہ سکیں۔ مسلم لیگ نے ان کے لیے ایک گھر بنادیا ہے اور ایک پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے۔ اس پرچم کے گرد جمع ہوجایئے‘‘۔(سول اینڈ ملٹری گزٹ، ۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۸ء، قائداعظم کی تقاریر، ج۲،ص ۲۶۳)
علامہ اقبال نے انھی خطوط میں قائداعظم کو لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس بلانے کی تجویز دی۔ اسی جذبے کے تحت مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس مارچ ۱۹۴۰ء میں لاہور میں منعقد ہوا جس میں ’قرارداد لاہور‘ (۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء) منظور کی گئی، جو بہت جلد ’قرارداد پاکستان‘ کہلائی اور مسلمان عوام کے خواب کی تعبیر بن کر اُن کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد یومِ اقبال کی تقریب منعقدہ ۲۵مارچ ۱۹۴۰ء (پنجاب یونی ورسٹی ہال، لاہور) میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ’’اگرچہ میرے پاس سلطنت نہیں ہے، لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو مَیں اقبال کو منتخب کروں گا‘‘ (روزنامہ انقلاب، لاہور، ۲۹مارچ ۱۹۴۰ء، بحوالہ گفتار قائداعظم،ص ۲۴۲، ایضاً، ص ۸۹)۔ ۱۹۴۴ء کو ایک مرتبہ پھر یومِ اقبال پر قائداعظم نے اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اقبال ایک عظیم شاعر اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عملی سیاست دان بھی تھے۔ جہاں انھیں ایک طرف اسلام کے مقاصد سے شیفتگی اور عقیدت تھی، وہاں وہ اُن چند لوگوں میں سے تھے، جنھوں نے پہلے پہل ایک اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا‘‘۔(محمدعلی جناح ،بزبانِ انگریزی، از مطلوب الحسن سیّد، ص۲۳۱، ایضاً، ص ۹۱)
یہی وہ فکری پس منظر تھا، جس میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے ۲۲مارچ ۱۹۴۰ء کو یہ واضح کیا کہ: ’’ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں ، معاشرتی رسم و رو اج اور ادب سے تعلق ہے۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں، نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی رزم مختلف ہے، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے، اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہوجاتی ہیں۔ ایسی دوقوموںکو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا، جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگا، اور آخرکار وہ تانا بانا ہی تباہ ہوجائے گا‘‘۔ چنانچہ قائداعظم نے آزاد مسلمان مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا جسے قرارداد کی صورت میں پیش کردیا گیا۔
طلبہ اور نوجوانوں کی مجلس نے جب قائداعظم سے مذہب اور مذہبی حکومت کے متعلق سوال کیا تو اُنھوں نے برملا کہا: ’’جب میں انگریزی زبان میں ’مذہب‘ کا لفظ سنتا ہوں تو اِس زبان اور قوم کے عام محاورے کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کی باہمی نسبتوں اور روابط کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ مَیں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک مذہب کا یہ محدود اور مقید مفہوم یا تصوّر نہیں ہے۔ مَیں نہ کوئی مولوی ہوں، نہ مُلّا اور نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے۔ البتہ مَیں نے قرآنِ مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ اِس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کے روحانی پہلو، معاشرت، سیاست، معیشت، سب کے متعلق رہنمائی ہے۔ غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں، جو قرآنِ مجید کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور سیاسی طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہیں بلکہ اسلامی سلطنت میں غیرمسلموں کے لیے بھی سلوک اور آئینی حقوق کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں‘‘۔ (صدق، لکھنؤ، ۱۹ جنوری ۱۹۴۱ء)
اب آپ دیکھیے کہ اقبال اور قائداعظم نے کب، کہاں اور کس شکل میں مذہبی کارڈ استعمال کیا؟ یا دینِ اسلام کو ایک کارڈ کے طور پر نہیں بلکہ ایک باقاعدہ نظام کے طور پر پیش کیا؟ ان دونوں اکابر ملّت کی ساری جدوجہد ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مختص تھی، جسے وہ مسلمانوں کی بقا کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس مذہبی، لسانی، علاقائی کارڈ استعمال کرنے کا مقصد اقتدار کا حصول یا مخالف حکومت کو گرانا یا انتشار پھیلانا یا نفرت کے بیج بو کر علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینا ہوتا ہے۔ اس سے برعکس اقبال اور قائداعظم کا یہ نصب العین مسلمانوں کا اتحاد اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ مسلمانوں میں تہذیبی احیا، قومی شعور اور بقا کے لیے اسلامی جذبہ پیدا کرنا کارڈ نہیں بلکہ ابدی خدمت ہے۔
ہماری صدیوں پر محیط تاریخ کے اس اہم مسئلے پر ذرا گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایک سطحی نقطۂ نظر غلط نتائج اخذ کرسکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب مغل سلطنت کی کمزوری، انتشار اور بے بسی نے، مسلمانوں کی دشمن قوتوں کو انتقام پہ اُبھارا، تو مرہٹوں، جاٹوں، سکھوں اور ہندو نسل پرستوں نے اپنے آپ کو منظم کرکے مسلمان نوجوانوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تب حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے مسلمان سرداروں اور علاقائی حکمرانوں کو خطوط لکھے، جن کا متن یہ تھا کہ: ’’ہندستان میں مسلمان اور اسلام کی بقا کے لیے مسلمانوں کا کسی نہ کسی حصے میں حکمران رہنا ناگزیر ہے‘‘۔ پھر شاہ ولی اللہ کے جانشینوں سیّداحمد اور شاہ اسماعیل نے جہاد کی تحریک بھی مسلمانوں کے قومی وجود کی بقا کے لیے شروع کی اور غریب الوطنی میں شہادتوں کے مراتب پر فائز ہوئے۔
سرسیّد احمد خاں، اقبال اور قائداعظم تینوں رہنمائوں نے عملی زندگی کا آغاز ’مسلمان ہندو اتحاد سے کیا، لیکن ہندو لیڈروں کی تنگ نظری قریب سے دیکھنے اور ان کے باطنی عزائم کو بھانپنے کے بعد اس خواب کو ترک کردیا اور اپنی صلاحیتیں قومی وجود کی بقا کے لیے وقف کردیں۔ سیّداحمد نے کھل کر کہہ دیا تھا کہ اب ’’یہ دونوں قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں اورمسلمان الگ ہوئے تو فائدے میں رہیں گے‘‘۔
۱۹۴۴ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے مسلمانوں کے لاشعورمیں موجزن اسی آرزو کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’اس [مطالبۂ پاکستان] میں میرا کوئی کمال نہیں۔ میں نے فقط وہ بات کہہ دی، جو مسلمانوں کے دلوں میں پوشیدہ تھی‘‘۔ علی گڑھ میں ہی پاکستان کے خواب پر روشنی ڈالتے ہوئے ۸مارچ ۱۹۴۴ء کو کہا کہ :
That Pakistan started the moment the first non-Muslim was converted to Islam in India long before the Muslims established their rule. As soon as a Hindu embraced Islam, he was outcast not only religiously, but also socially, culterally are economically.
ہند میں مسلمانوں کے اپنی حکومت قائم کرنے سے پہلے، جس دن، ہند میں پہلے غیرمسلم نے اسلام قبول کیا، اسی لمحے پاکستان کے قیام کا آغاز ہوگیا۔ جونہی ایک ہندو نے اسلام قبول کیا تو اسے نہ صرف مذہبی اعتبار سے بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور اقتصادی لحاظ سے بھی مردود قرار دے دیا گیا۔
کیوں؟ اس لیے کہ مسلمان اپنے تہذیبی، سماجی، شخصی، فکری اور مذہبی حوالے سے اپنا الگ تشخص رکھتا تھا، جو ہندوئوں سے بالکل مختلف تھا۔ غور کرنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ مسلمان کو اسلام سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے جب بھی مسلمانوں کے قومی وجود اور بقا کا سوال ہوگا، تو سب سے پہلے ذکر مذہب کا ہوگا۔ لیکن یہاں مذہب کسی قسم کا مذہبی کارڈ نہیں بلکہ قومی تشخص، تہذیبی پہچان اور انفرادیت کی علامت ہے اور یہ علامت قومی وجود کی بقا کی ضامن ہے۔ اگر آپ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد، اُن کی مختلف تحریریں اور خاص طور پر قائداعظم کے نام ان کے خطوط پڑھیں، تو احساس ہوگا کہ وہ علیحدہ وطن کا مطالبہ مسلمانوں کے معاشی مفادات، تہذیبی، علمی، سماجی اور مذہبی عوامل کے پیش نظر کر رہے تھے۔ اُن کے نزدیک یہ ہندو مسلم فسادات کا حل تھا۔
قائداعظم کے تصورِ پاکستان کا بغور مطالعہ کریں تو وہ مسلمانوں کو ہندو غلبے اور اکثریتی جبر سے نکال کر ایک ایسے خطۂ زمین کا حصول چاہتے تھے، جہاں مسلمان اسلامی اصولوں کے تحت آزادی سے زندگی گزار سکیں۔ اسی لیے انھوں نے بیسیوں بار کہا کہ پاکستان کے آئین اور قانونی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ پھر پیر آف مانکی شریف کے سوال پر زور دے کر کہا کہ: ’’پاکستان میں کوئی قانون خلافِ مذہب نہیں بنے گا‘‘۔ کیا متحدہ ہندستان میں ایسا ممکن تھا؟ کیا آج ہندستان کی حکومت ایسی قانون سازی کرسکتی ہے، جس کے تحت مسلمان اپنی شریعت کے تحت زندگی گزار سکیں؟
اس لیے امرواقعہ یہی ہے کہ تحریک ِ پاکستان، اقبال اور قائداعظم کی جدوجہد مسلمانوں کے قومی وجود کی بقا کے لیے تھی۔ اس میں کارڈ نامی شے کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اقبال اور قائداعظم دونوں کا تصورِ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست کا تھا۔ جس گاندھی کی آرایس ایس کے ہاتھوں موت کو ہمارے لبرل اور سطحیت کے مارے دانش ور مسلمانوں کی ہمدردی کا شاخسانہ کہتے ہیں اُنھیں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ گاندھی نے اپنے مقبولِ عام رسالے ینگ انڈیا میں اس طرح کے مضامین چھاپے جن سے آر ایس ایس اور ’ہندوتوا‘ کی بُو آتی تھی اور جن میں کہا گیا تھا کہ ہندستان میں مسلمانوں سے نبٹنے کے تین طریقے ہیں:
کیا ’ہندوتوا‘ کی فلاسفی یہی نہیں ہے؟آج آر ایس ایس یہی نہیں کر رہی؟ مودی نے اپنی وزارتِ اعلیٰ میں گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام کروا کر اسی خونیں ڈرامے کا ایکٹ پیش نہیں کیا تھا؟ اُسے اپنی مسلمان کُش پالیسیوں کی وجہ سے ہندو اکثریت کی حمایت حاصل ہوئی؟ اور اسی ایجنڈے کے تحت آج کشمیر ظلم و ستم کی نگری بنا ہوا ہے۔ شیخ عبداللہ جیسے کٹر کانگرسی گھرانے کے جانشین ہوں یا دہلی نواز سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی، آج کیوں دو قومی نظریے کی حقانیت کا اقرار کر کے ’جناح‘ سےعقیدت کا اظہار کر رہے ہیں؟ کیونکہ یہ اُن کی قومی بقا کا مسئلہ ہے۔ جب پاکستان کی بنیاد ہی دو قومی نظریے پر ہے اور اسی نظریے کو ہندستانی مسلمانوں کی ۷۵ فی صد تعداد نے ۴۶-۱۹۴۵ء میں ووٹ دیے تھے، تو پھر اس نظریے کو حب الوطنی کا معیار کیوں نہ بنایا جائے؟
اب یہاں پرقائداعظم کے صرف تین بیانات کو مطالعے کے لیے پیش کر رہا ہوں، جو انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد دیے۔
۱۴ دسمبر ۱۹۴۷ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے آخری خطاب میں کہا:
Let it be clear that Pakistan is going to be a Muslim State based on Islamic Ideals. It was not going to be an ecclesiastical state.
میں صاف طور پر واضح کر دوں کہ پاکستان، اسلامی نظریات پر مبنی ایک مسلم ریاست ہوگی، یہ پاپائی ریاست نہیں ہوگی۔
۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں قائداعظم نے کہا:
Islam and its idealism have taught democracy. Islam has taught, equality, justice and fairplay to everybody.... Islam is not only a set of rituals, traditions and spiritual doctrines. Islam is also a code for every Muslim, which regulates his life and his conduct in even politics and economics and the like. It is based on the highest principles of honours, integrity, fairplay and justice for all. One God and equality of manhood is one of the
fundamental principles of Islam.
(سول اینڈ ملٹری گزٹ، ۲۷ جنوری ۱۹۴۸ء، تقاریر ( جلد۴) ، ص ۲۶۶۹، ۲۶۷۰)
اسلام اور اس کے کمال مطلوب نے جمہوریت کا سبق سکھایا ہے۔ اسلام نے بتایا ہے کہ انصاف اور زیبائی ہر ایک کا حق ہے۔ اسلام محض چند عبادات ، رسوم اور روحانی کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ’’اسلام ہرمسلمان کے لیے ضابطۂ حیات بھی ہے، جس کے مطابق وہ اپنی روزمرہ زندگی، اپنے افعال و اعمال، حتیٰ کہ سیاست و معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب کے لیے انصاف، رواداری، شرافت، دیانت اور عزت کے اصولوں پر مبنی ہے۔خداے واحد اور انسانی برابری، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہیں۔
اسی طرح ۱۴فروری ۱۹۴۸ء کو سبی دربار (بلوچستان) میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
It is my belief that our salvation lies in following the golden rules of conduct set for us, by our great law-giver the Prophet of Islam. Let us lay the foundation of our democracy on the basis of truly Islamic Ideals.
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات انھی شہری قوانین کی پابندی میں ہے، جو ہمارے شارع اعظم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے متعین کیے۔ آیئے ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد صحیح اسلامی تصورات اور اصولوں پر استوار کریں۔
یہ اب سے چند ماہ قبل کا واقعہ ہے کہ ہندستانی ٹی وی کا ایک چینل میرے سامنے چل رہا تھا۔ ایک دانش وَر خاتون عیدالاضحی کے حوالے سے بڑی حقارت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی کہ: ’’ہندستان سرکار کو قربانی پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ مسلمان جانوروں کا خون بہاتے اور گندگی پھیلاتے ہیں۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ بکرے کی شکل کا کیک بنوا کر گھر لائیں اور اُس کو کاٹ لیں‘‘۔
یہ گفتگو سن کر جہاں مجھے قائداعظم کے متعدد انتباہ (وارننگ) یاد آئے، وہاں پاکستان کے ’سیکولر اور ابلاغی اجتہادی‘ بھی یاد آئے: ’’جن کا فرمانا ہے کہ: حج کرنے کے بجاے وہ رقم مستحق لوگوں کو دے دینی چاہیے‘‘۔ اُنھیں یہ علم ہی نہیں کہ صاحب ِ استطاعت پر حج فرض ہے۔ اُنھی کے دیکھا دیکھی کچھ از قسم مولوی حضرات نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دینے شروع کر دیے ہیں کہ ’’اپنی قضا و خطا نمازیں ہم سے پڑھوا دیں‘‘، حتیٰ کہ ’’مرحوم والدین کے لیے بھی نمازیں پڑھوانے کا بندوبست ہے، جس کے لیے اتنی ادایگی کرنا ہوگی‘‘۔ خدا جانے ایسے جاہلوں کا ’اجتہاد‘ ہمیں کہاں لے جائے گا؟
یہاں پر ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ ڈاکٹر محمداقبال اور محمدعلی جناح کے حوالے سے ایک مخصوص لابی کی طرف سے یہ کہنا کہ اُنھوں نے ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ لگاکر مذہبی کارڈ استعمال کیا‘‘۔ حقیقی معنوں میں اور تاریخی طور پر درست بات نہیں ہے۔ علامہ اقبال تو اپریل ۱۹۳۸ء میں وفات پاگئے تھے۔ دراصل مسلم لیگ نے باقاعدہ پارٹی کی سطح پر تو یہ نعرہ نہیں لگایا تھا۔ تاہم، مسلم لیگ کے جلسے اور جلوسوں میں کارکنوں کا یہ برق آسا نعرہ تھا۔ اس نعرے کا پس منظر یہ ہے کہ سیالکوٹ سے مسلم لیگ کے ایک پُرجوش کارکن اصغر سودائی [۲۸ستمبر ۱۹۲۶ء-۱۷مئی ۲۰۰۸ء] نے بحیثیت طالب علم ۱۹۴۴ء میں ایک نظم لکھی، جس کا یہ ایک مصرعہ لیگی کارکنوں کے دلوں کو چھو گیا، پورے ہند میں پھیل گیا اور تاریخ کا حصہ بن کراصغر سودائی کو امر کرگیا۔
اگرچہ تاریخ، مسلم لیگ کے ریکارڈ ،اور کسی قرارداد میں کہیں یہ حوالہ نہیں ملتا کہ یہ نعرہ مسلم لیگ نے بحیثیت پارٹی منظور کیا تھا، لیکن اس نعرے سے قطع نظر قائداعظم نے تحریک ِ پاکستان کے دوران اور قیامِ پاکستان کے بعد مجموعی طور پر کم از کم ۱۱۴بار، ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ، دلیل اور منطق کے ساتھ اسلام، اسلامی قانون، شریعت کا ذکر، قانون سازی کے حوالے سے کیا، مگر یہ بات نعرے کے طور پر نہیں کہی۔یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے رفقاے کار اور پہلی دستورساز اسمبلی نے نعرے کے طور پر نہیں، بلکہ نہایت سنجیدگی سے مارچ ۱۹۴۹ء میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے، ایک باقاعدہ نظام کے خدوخال کو واضح کیا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام کا یہ حقیقی تصور ہے۔
قائداعظم کی ساری جدوجہد ایک اسلامی، جمہوری اور جدید پاکستان کے لیے تھی۔ انھوں نے پوری جدوجہد کو نعروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دلیل ، قاعدے اور ضابطے کے بل پر اُٹھایا اور منظم کیا۔ اس طرح پاکستان کا حصول ایک تہذیبی ، ملّی اور قومی مقصد تھا۔