علامہ اقبال ایک ہمہ گیر صاحب ِکمال اور غیرمعمولی ذہانت کے حامل جوہرِقابل تھے۔ ایک بڑے چمکتے دمکتے ہیرے کی مانند ان کی شخصیت کے بے شمار پہلو نظر کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ان کی شاعری کے حُسن کمال اور ہنر کی خوب صورتی سے متاثر ہیں۔ کچھ ان کے علم کی وسعت اور خیالات کی گہرائی سے متاثرہیں، جب کہ کچھ ان کی فلسفیانہ سوچ اور سیاسی زکاوت و فراست سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔لیکن،جب عصری تاریخ کا ایک طالب علم اقبال پر نظر ڈالتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک عظیم شاعر، علاوہ ازیں ایک تیزفہم اور دُوراندیش سیاست دان اور ایک معززونام ورفلسفی بھی تھے،مگر ان سب سے بڑ ھ کر وہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے بانی تھے۔ درحقیقت اسی میں ان کی حقیقی عظمت پوشیدہ ہے۔
مسلم معاشرہ ایک طویل عرصے سے انحطاط کے دور سے گزر رہا تھا۔ جس انتشار نے ’تحریکِ خلافت‘ کے خاتمے پر جنم لیا تھا،اس نے بتدریج اسلامی تہذیب وثقافت کی بنیادوں کو نگل لیا اور اس پر مصائب و پریشانیوں پر مشتمل مایوسی اور شعوری مدہوشی کی تاریک رات چھا گئی۔ تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑ گئیں اور سیاسی قوت مضمحل ہوگئی۔اگرچہ مختلف اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا اور بہت سے اصحاب فکر نے بھی مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے علاوہ مسلم معاشرے میں ایک نئی زندگی کی روح پھونکنے کی کوشش کی مگر انھیں بہت کم کامیابی نصیب ہوئی۔ اس صورت حال کا انتہائی المیہ یہ تھا کہ اب اسلام ایک سیاسی وتہذیبی متحرک قوت نہیں رہا تھا۔اب اسلام،محض چند مذہبی رسوم ورواج کا ملغوبہ بن کر رہ گیا تھا، اور المیہ تو یہ تھا کہ اس کے پیروکار بھی اسے تہذیب وتمدن کی نشوونما کے عنصر کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔یہ ایک افسوس ناک صورتِ حال تھی۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ جب انگریزوں نے ہندستان پر قبضہ کر لیا تو انھوں نے نہایت ہوشیاری سے اس خطے پر مغربی تہذیب وتمدن مسلط کر دیا اور یوں بے شمار مسائل پیدا ہوتے چلے گئے۔ مغرب کی سیاسی ومعاشی برتری اور نظام تعلیم نے ہندستان کے مسلمانوں میں غلامانہ ذہنیت پیدا کر دی۔ وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گئے۔ان کے سیاسی اعتماد کی آخری نشانیاں بھی مٹ گئیں اوران کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا۔
نئی بیداری کی علامات اس وقت افق پر نمودار ہوئیں جب کامریڈ،الہلال اورزمیندار نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت اور مدہوشی سے جگایا اوران میں حرکت کرنے اور اپنا فرض ادا کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔تحریکِ خلافت ایک عظیم نعمت ثابت ہوئی۔اس نے مسلمانانِ ہند کے جذبات کو مہمیز بخشی او ران کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ سیاسی جدوجہد اور تہذیبی انقلاب کے دور میں داخل ہوجائیں۔لیکن یہ نئی بیداری کسی بھی مناسب عقلی اور فلسفیانہ بنیادوں سے محروم تھی۔یہ اقبال ہی تھے جنھوں نے یہ بنیادیں مہیا کیں۔وہ ہندستان میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے ہدی خواں تھے۔
اقبال واضح نظریے کے حامل اور تحقیقی ذہن کے مالک تھے۔انھوں نے مسلم معاشرے کے حالات کا مطالعہ کیا اور ان کمزوریوں وامراض کا ادراک کیا جو مسلم معاشرے میں سرایت کر چکے تھے۔ وہ انتہائی واضح طور پرمغربی تہذیب وثقافت کے دُور رس اثرات کوسمجھ چکے تھے اور انھوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا۔انھیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کے نقطۂ نظر میں انقلابی تبدیلی،وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اگرانھوں نے اپنے دور کے عظیم چیلنج کو نظرانداز کیا، تو وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے اور تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جائیں گے۔
اس ضمن میں اقبال کی تشخیص یہ تھی کہ تہذیبی وثقافتی انحطاط کے ایک طویل عرصے کے علاوہ جدید مغرب کے اثرونفوذنے مسلم معاشرے کی چولیں ہلا دی ہیں۔مسلمان اس لیے زوال پذیر ہوئے کیونکہ انھوں نے اسلام کو ترک کر دیا اور انھوں نے اتباع اور عدم فعالیت کی آسان زندگی اپنالی۔ مغرب کے زیرِ اثر رہتے ہوئے اپنی اقدار پر ان کا اعتماد متزلزل ہو گیا اور وہ مغربی طرزِ زندگی اپنانے لگے۔مزیدبرآں ان میں احساسِ کمتری پیدا ہوگیا، جب کہ سماجی زندگی اور مذہبی اقدار کے درمیان کدورت پیدا ہو گئی۔غیراسلامی تصوف نے فعالیت کے پَر مزید کاٹ دیے اور مسلمانوں کی حالت مزید ابتر ہوگئی۔یہ حالات کا درست ادراک اور تشخیص تھی اور اقبال نے مسلمانوں کو انحطاط کی دلدل سے نکالنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاںصرف کر دیں۔
سب سے پہلے اقبال نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ مغرب کے متعلق اپنے اندازفکر پر نظرثانی کریں۔انھوں نے کہا کہ یورپ میں سب اچھا نہیں۔انھوں نے مغربی تہذیب وثقافت کے بنیادی اصولوں کا تنقیدی جائزہ لیا اور ان کی گمراہ کن نوعیت کو بے نقاب کیا۔انھوں نے ان لوگوں پر تنقید کی جو اندھادھندمغربی تہذیب وثقافت کی تقلید کررہے تھے۔ اقبال نے انھیں کہاکہ وہ اس ضمن میں استدلال اور ادراک سے کام لیں۔اپنے انگریزی خطبات میں انھوں نے کہا: ’’ہمارے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ جدید علم کے متعلق قابل احترام لیکن آزادانہ طرزعمل اپنائیں‘‘۔
انھوںنے اس خوف کا اظہار کیا:’’ یورپی تہذیب وتمدن کا خیرہ کن ظاہر ہمارے وقت کو اپنے حصار میں لے سکتا ہے‘‘۔انھوں نے مغرب کے مادی تہذیب وتمدن کے تباہ کن اثرات اور الحادوبے دینی کے خطرات سے خبردار کیا۔وہ اپنی نظمـ’پس چہ بایدکرداے اقوامِ شرق‘ میں کہتے ہیں:
آدمیت زار نالید از فرنگ
زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق؟
باز روشن می شود ایامِ شرق
در ضمیرش انقلاب آمد پدید
شب گذشت و آفتاب آمد پدید
یورپ از شمشیرِ خود بسمل فتاد
زیر گردوں رسم لادینی نہاد
گر گے اندر پوستینِ برئہ
ہرزماں اندر کمینِ برئہ
مشکلاتِ حضرتِ انساں ازو است
آدمیت را غمِ پنہاں ازوست
درنگاہش آدمی آب و گل است
کاروانِ زندگی بے منزل است
[نوعِ انسانی فرنگیوں کے ہاتھوں سخت فریاد کر رہی ہے۔ زندگی نے اہلِ فرنگ سے کئی ہنگامے پائے ہیں۔ تو اے اقوامِ شرق اب کیا ہونا چاہیے؟ تاکہ مشرق کے ایام پھر سے روشن ہوجائیں۔ مشرق کے ضمیر میں انقلاب ظاہر ہورہا ہے۔ رات گزر گئی اور آفتاب طلوع ہوا۔ یورپ اپنی تلوار سے خود ہی گھائل ہوچکا ہے۔ اس نے دنیا میں رسمِ لادینی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس کی حالت اس بھیڑیے کی سی ہے جس نے بکری کے بچّے کی کھال اوڑھ رکھی ہے۔ وہ ہرلمحہ ایک نئے برہ کی گھات میں ہے۔ نوعِ انسانی کی ساری مشکلات اس کی وجہ سے ہیں۔ اسی کی وجہ سے انسانیت غم پنہاں میں مبتلا ہے۔ اس کی نگاہ میں آدمی محض پانی و مٹی کا مجموعہ ہے اور زندگی بے مقصد ہے]۔
اقبال نے بہت ہی خوب صورتی سے یہ اعلان کیا کہ محض مذہب ہی انسانیت کو سماجی انتشار اور عقلی اُلجھن کے موجودہ ہنگامے سے نجات دلا سکتا ہے۔انھوں نے کہا:اور محض مذہب ہی اخلاقی طور پر دورِحاضر کے انسان کو اس عظیم ذمہ داری کے بوجھ کے لیے تیار کرسکتا ہے جو سائنس کی ترقی کے باعث لازمی طور پر اس کے سپرد کی گئی ہے۔ دین کے اصول و ضوابط اسے یہاںاپنی شخصیت کی تشکیل اور آخرت میں اسے برقرار رکھنے کی اہلیت عطا کرتے ہیں۔ یوں بالآخر وہ ایک ایسی تہذیب و ثقافت پر فتح حاصل کر لے گا،جو اپنی مذہبی اور سیاسی اقدار کے اندرونی اختلاف کے باعث اپنی روحانی یک جہتی کھو چکی ہے۔
مغرب کی روحانی کمزوریوں، مادیت اور سیکولرزم کے کھوکھلے پن کی نشان دہی کرتے ہوئے انھوں نے واضح کیا کہ مغرب کی ترقی کی بنیاد علم و ہنر ہے، نہ کہ بعض سطحی عناصر___ وہ کہتے ہیں:
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے زر قصِ دخترانِ بے حجاب
نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ روست
نے ز عریاں ساق و نے اَز قطعِ موست
محکمی اورانہ از لادینی است
نے فروغش از خطِ لاطینی است
قوتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
حکمت از قطع و بریدِ جامعہ نیست
مانعِ علم و ہنر عمّامہ نیست
[مغرب کی قوت چنگ و رباب سے نہیں۔نہ یہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص کی وجہ سے ہے۔ نہ یہ سرخ چہرہ، محبوبوں کے جادو کی وجہ سے اور نہ یہ ان کی عورتوں کی ننگی پنڈلیوں اور بال کٹانے سے ہے۔ نہ اس کا استحکام لادینی کی وجہ سے ہے اور نہ اس کی ترقی رومن رسم الخط کے باعث ہے۔ افرنگ کی قوت ان کے علم اور فن کے سبب سے ہے۔ ان کا چراغ اسی آگ سے روشن ہے۔ ان کی حکمت لباس کی قطع و برید کے سبب سے نہیں۔ عمامہ علم و ہنر سے منع نہیں کرتا]۔
یوں اقبال نے عصری نظریاتی منظر نامے کا جائزہ لیا اور مغربی تہذیب وتمدن کی حقیقی کامیابیوں اور اصلی احساسات کو پیش کیا، تاکہ ان کی اندھادھندتقلید کی روک تھام کی جا سکے لیکن انھوں نے اسی پر بس نہیں کیا۔بلکہ انھوں نے فیصلہ کن انداز میں ان امور میں مغرب کو اسلام کا مقروض دکھایا، جو اس کے عروج اور ترقی کا باعث ہوئے اور پھر انھوں نے مسلمانوں میں ان کی اپنی اقدار پرایک نیااعتماد پیدا کیا۔انھوں نے کہا:
حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست
اصلِ او جز لذتِ ایجاد نیست
نیک اگر بینی مسلماں زادہ است
ایں گہرا ز دستِ ما افتادہ است
چوں عرب اندر اروپا پرکشاد
علم و حکمت را بنا دیگر نہاد
دانہ آں صحرا نشیناں کاشتند
حاصلش افرنگیاں برداشتند
ایں پری از شیشۂ اسلافِ ماست
بازصیدش کن کہ او از قافِ ماست
[اشیا کی ماہیت جاننے کا آغازفرنگیوں سے نہیں ہوا۔ اس کی بنیاد صرف نئی دریافت کی لذت ہے۔ اگر تو غور سے دیکھے، تو یہ چیز مسلمانوں کی پید ا کردہ ہے۔ یہ وہ موتی ہے جو ہمارے ہاتھ سے گرا۔ جب عربوں نے یورپ کے اندر کشورکشائی کی، تو انھوں نے وہاں نئے انداز سے علم و حکمت کی بنیاد رکھی۔ دانہ ان صحرا نشینوں نے بویا، اور فصل کا حاصل افرنگیوں نے اکٹھا کیا۔ اس پری کا تعلق ہمارے آبا و اجداد کے شیشے سے ہے، تُو اسے دوبارہ شکار کر کیونکہ یہ ہمارے کوہِ قاف کی پری ہے]۔
اقبال نے اسلامی فکر کی ازسرنوتشکیل کی ضرورت کا ادراک کر لیا تھا۔انھیںعلم تھا کہ مذہب پر جدید حملے کا مقابلہ صرف اور صرف نئے ہتھیار سے ہی کیا جا سکتا ہے۔مخالف کا مقابلہ اس کے اپنے میدان میں ہی کرنا ہو گا۔انھوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلام ایک متحرک اور انقلابی تحریک ہے لیکن صدیوں کے انجماد نے اس کے مذہبی افکار پر گرد کی کچھ تہیںچڑھا دی ہیں۔ انھوں نے گرد کی اس تہہ کو صاف کرنے کے لیے پیش قدمی کی اور ہیرے کو صاف کیا تاکہ وہ ایک دفعہ پھر اس دنیا کو روشنی مہیا کرسکے جو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاںمار رہی تھی۔
’اسلام میں مذہبی فکر کی ازسرنوتشکیل‘ کے موضوع پر ان کے انگریزی خطبات اس ضرورت کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ان کی تشریح سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے انقلابی پیغام کے زبردست اثر کوتسلیم کرنا چاہیے جو انھوں نے ہندستان کے مسلمانوں پر مرتب کیا۔
لیکن اقبال کے ذہن میںاس سے بھی کہیں ایک بڑا مشن موجزن تھا۔وہ محض فلسفی ہی نہیں تھے جو اسلا م کے نظریے کی سادہ عقلی وعلمی تشریح پر ہی اکتفا کر لیتے۔وہ تو یہ چاہتے تھے کہ وہ قوم کے ہراس طبقے کو حرکت دیں اور بیدار کریں جو خوابِ غفلت میں مدہوش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اُمت کے مستقبل کو سنوارنے کی خاطر مسلم معاشرے کا ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرے۔ اپنی دومثنویوں ’اسرارِخودی‘ اور ’رموزِ بے خودی‘ میں انھوں نے انفرادی اور سماجی ترقی کے عناصر کا ایک خاکہ پیش کیا۔اقبال نے ملت کے زوال کی وجوہ پر گفتگو کی اور ان بدیسی اثرات پر روشنی ڈالی جنھوں نے ملت کے سیاسی پیکر کومنتشر کر دیا۔اقبال نے مسلمانوں سے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پیغام کی طرف واپس لوٹ آئیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلام کے بنیادی عقائد،توحید،رسالت، آخرت اور جہاد ہیں۔توحید اسلامی معاشرے کے تمام ارکان کو فکری اتحاد اور عمل کرنے کی یک جہتی کی بنیاد مہیا کرتی ہے۔دنیا میں یہ انتہائی عظیم قوت ہے:
درجہانِ کیف و کم گردید عقل
پے بہ منزل بُرد از توحید عقل
ورنہ ایں بیچارہ را منزل کجاست
کشتیٔ ادراک را ساحل کجاست
اہلِ حق را رمزِ توحید ازبر است
در اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا مضمراست
تا ز اسرارِ تو بنماید ترا
امتحانش از عمل باید ترا
دیں ازو، حکمت ازو، آئیں ازو
زور ازو، قوت ازو ، تمکیں ازو
عالماں را جلوہ اش حیرت دہد
عاشقاں را بر عمل قدرت دہد
پست اندر سایہ اش گردد بلند
خاک چوں اکسیر گردد ارجمند
[جذبات و پیمایش کی اس دنیا میں عقل آوارہ پھر رہی تھی۔ توحید سے اسے منزل کی طرف رہنمائی حاصل ہوئی، ورنہ عقل کو منزل کہاں نصیب تھی۔ فہم کی کشتی کے لیے کوئی ساحل نہیں تھا۔ اہلِ حق توحید کی رمز کو خوب جانتے ہیں۔ یہی راز سورئہ مریم کی آیت ۹۳ میں مضمر ہے۔ تیرے عقیدۂ توحید کا امتحان عمل سے ہونا چاہیے تاکہ وہ تجھ پر تیری مخفی صلاحیتیں ظاہر کرے۔ دین، حکمت، شریعت، سب توحید ہی سے ہیں۔ اسی سے (افراد و اقوام) میں زور، قوت اور ثبات و استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اس کا جلوہ عالموں کو حیرت میں مبتلا کردیتا ہے اور عاشقوں کو عمل کی قدرت عطا کرتا ہے۔ اس کے سایے میں پست بلند ہوجاتے ہیں اور خاک اکسیر کی مانند قیمتی بن جاتی ہے]۔
انھوںنے اسلام کے بنیادی تصورات کا مفصل ادراک کیا اور دین کی مخفی قوتوں کو واضح کردیا۔ان کی شاعری نے قوم کو زندگی کا ایک نیا پیغام دیا جو کافی عرصے سے نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
اقبال کی شاعری اور افکار نے مسلمانانِ ہند کو بیدار کر دیا اور دنیا کی ازسرنوتشکیل کے لیے ان کے خاطرخواہ کردا رادا کرنے کے ضمن میں ان میں حوصلہ پیدا کیا۔قوم کو ایک نئے جذبے سے سرفراز کرنے کے بعد،انھوںنے [خطبہ الٰہ آباد کے ذریعے ہندستان کے شمال مغربی خطے میں ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا تاکہ مسلمان اپنی توانائیاں] اسلام کے لیے ایک وطن حاصل کرنے کی جدوجہد میں صرف کریں۔ یہ حصولِ پاکستان کاتصور تھا۔
اقبال نے مسلمانانِ ہند میں ملّی تشخص کو زیادہ مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے بہت محنت کی کہ مسلمان ایک قوم اور ایک نظریاتی برادری ہیں، اور یہ ان کے دین کی ہدایت ہے کہ وہ قرآن اور سنت کے فراہم کردہ اصولوں کی روشنی میں ایک ریاست،معاشرہ اور تہذیب و ثقافت قائم کریں۔ انھوں نے مسلمانانِ ہند کے سیاسی مسائل کے لیے متین فکر مہیا کی اور برسوں کے غوروفکر کے بعد ۱۹۳۰ء میں آل انڈیامسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں نظریۂ پاکستان پیش کیا جس میں انھوں نے کہا:’’اس ملک میں ایک تہذیبی وثقافتی قوت کی حیثیت سے اسلام کی زندگی کا زیادہ تر انحصار ایک مخصوص علاقے کی مرکزیت پر ہے۔مسلم ہندستان کے اکثریتی مسلم علاقے کی مرکزیت بالآخر ہندستان کے علاوہ ایشیاکے مسائل بھی حل کر دے گی۔یہ ضروری تھا کیونکہ مسلم ہندستان اپنی تہذیب وثقافت اور روایت کے مطابق ایک بھرپور اور آزاد ترقی کا حق دار ہو سکے‘‘۔
اپنی وفات سے ایک سال پہلے۱۹۳۷ء میں قائداعظم کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا:
مسلم صوبوں کا ایک الگ وفاق ہی، واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم پُرامن ہندستان کو محفوظ رکھ سکتے اور مسلمانوں کو غیرمسلموں کے غلبے سے بچا سکتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ شمال مغربی ہندستان اور بنگال کے مسلمانوں کو ایک ایسی قوم نہ تصور کیا جائے جو عین اسی طرح حقِ خوداختیاری کی حق دار ہو جس طرح ہندستان اور بیرون ہندستان کی دیگر اقوام حقِ خوداختیاری کی حق دار ہیں۔
یہ مستقبل کا پیش خیمہ تھا۔قوم نے اقبال کی فراہم کردہ رہنمائی پر عمل کیا اور ایک عظیم کوشش اور قربانی کے بعد پاکستان ایک حقیقت بن گیا اور مسلم نشاتِ ثانیہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
اقبال کا پیغام،عمل کا پیغام ہے۔وہ برعظیم پاک وہند میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کے بانی تھے اور یہی ان کی حقیقی اہمیت ہے۔ہم نے انتہائی مختصر طور پر اس عظیم الشان کارنامے کا احاطہ کیا جو انھوں نے انجام دیا،یہاں ہم ان کے کام کی چند جھلکیاںہی پیش کرسکے ہیں۔ ان کے کام کو تو مفصل طریقے سے بیان کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس مقالے کا اختتام اس عظیم انقلابی کے ان غیرفانی الفاظ پر کرتے ہیں جس نے قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار اور ایک بلندوبالا مقصد کے حصول کے لیے راہِ عمل پر گامزن کیا:’’قوت کے بغیر فکراور سوچ اخلاقی رفعت تو مہیا کر سکتی ہے لیکن ایک پائیدار کلچر فراہم نہیں کر سکتی۔سوچ وفکرکے بغیر قوت ایک تباہ کن اور غیرانسانی نوعیت اختیار کرلیتی ہے، لیکن انسانیت کی روحانی وسعت کی خاطر ان دونوں کو لازماً اکٹھا کر لینا چاہیے‘‘۔
سچائی کے معیارات کے علَم بردار اپنی بقا مضبوطی ہی کے ذریعے برقرار رکھ سکتے ہیں:
اہلِ حق را زندگی از قوت است
قوتِ ہر ملّت از جمعیت است
راے بے قوت ہمہ مکر و فسوں
قوتِ بے رائے جہل است و جنوں
[اہلِ حق کی زندگی کا دارومدار قوت پر ہے اور ہر ملّت کی قوت اس کی جمعیت پر موقوف ہے۔ ایسی راے جسے منوانے کی قوت نہ ہو، محض مکروفسوں ہے]۔
(انگریزی سے اُردو ترجمہ: ریاض محمود انجم)