تیونس کے نومنتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر قیس سعید کی عمر ۶۱ برس ہے، لیکن چہرے کی جھریوں اور سر کے بچے کھچے مکمل سفید بالوں کے باعث اپنی عمر سے زیادہ بوڑھے لگتے ہیں۔ ساری زندگی قانون پڑھاتے گزاری، اب ریٹائرمنٹ کے بعد آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب لڑا۔ ان کے انتخابی معرکے اور ۷۷ فی صد ووٹ لے کر کامیابی نے ساری دنیا کو ششدر کردیا ہے۔ اس عالمی حیرت کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ کہ قیس سعید ایک آزاد اُمیدوار تھے، کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی پوری انتخابی مہم انتہائی سادگی سے چلائی۔ مخالف اُمیدواروں بالخصوص دوسرے نمبر پر آنے والے ارب پتی نبیل القروی نے ڈھیروں ڈھیر دولت انتخابی مہم میں جھونک دی، جب کہ قیس سعید کی ساری مہم پر صرف چند ہزار خرچ ہوئے۔ چوٹی کے اس ماہر قانون کا اس سے پہلے کہیں عوامی تعارف نہیں تھا، بس کبھی کبھار کسی ٹی وی پروگرام میں قانونی راے لینے کے لیے انھیں بلالیا جاتا تھا۔ قیس سعید ہمیشہ فصیح عربی میں، سپاٹ چہرے سے بات کرتے ہیں لیکن نوجوانوں نے ان کی ایسی مہم چلائی کہ صدارتی دوڑ میں شریک دیگر ۲۵ اُمیدواروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کے اخلاقی اصولوں اور قانون کی پاس داری نے ان کے مخالفین کو بھی ان کا احترام کرنے پر مجبور کردیا۔ان کے تعارف کی ایک اہم جھلک ان کے اور مخالف اُمیدوار کے براہِ راست ٹی وی مکالمے سے ملاحظہ فرمالیجیے، جو دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے ۴۸گھنٹے قبل ہوا:
ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے لیے اس مکالمے میں کوئی غیر معمولی بات نہ ہو لیکن ایک ایسے وقت میں کہ جب اکثر مسلم ممالک بالخصوص، عرب لیگ کے رکن ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرلینے اور اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مضبوط تعلقات قائم کرنے کے لیے دوڑ لگی ہو، یہ مؤقف اختیار کرنا آسان اور معمولی بات نہیں۔
صدر قیس سعید نے نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے اہم ترین انٹرویو کا اختتام اس دو ٹوک پیغام سے کیا، بلکہ ۲۳؍ اکتوبر کو نومنتخب قومی اسمبلی کے سامنے صدارتی حلف اٹھانے کے موقعے پر ۲۵منٹ کے صدارتی خطاب کا اختتام بھی اس جملے پر کیا کہ: ’’ہم دنیا کے ہر مبنی بر انصاف مسئلے کی بھرپور حمایت کریں گے۔ ان میں سرفہرست مسئلہ، مسئلہء فلسطین ہے۔ غیروں کے قبضے کی مدت کتنی بھی طویل کیوں نہ ہوجائے، فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ساقط نہیں ہوسکتا۔ مسئلۂ فلسطین جایدادوں کے کھاتہ خانوں میں درج کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ اُمت کے سینوں میں نقش ایک حقیقت ہے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت یا کسی بھی طرح کی سودے بازی دلوں پر نقش اس حقیقت کو مٹا نہیں سکتی‘‘۔
نومنتخب صدر نے حلف برداری کے اس افتتاحی خطاب میںاپنی باقی تمام توجہ تیونس میں مطلوبہ اندرونی اصلاحات پر مرکوز رکھی اور کہا: ’’کسی بھی قوم یا ریاست کے لیے سب سے خطرناک امر اس کا اندرونی طور پر کھوکھلا ہوجانا ہے۔ کوئی بھی ریاست اپنے فعال نظام اور ادارہ جاتی استحکام کی وجہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ نظام پر اشخاص و افراد کو ترجیح نہیں دی جاسکتی‘‘۔
واضح رہے کہ ۱۹۵۷ء میں تیونس کی آزادی سے لے کر ۲۰۱۱ءتک ۵۴سال تیونس میں صرف دو ہی افراد ملک و قوم کی قسمت کے مالک بنے رہے۔ پہلے حبیب بورقیبہ اور پھر اس کا وزیراعظم زین العابدین بن علی ہر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ۱۴جنوری ۲۰۱۱ء کو بن علی سے نجات کے بعد شروع ہونے والے پارلیمانی عہد میں اب قیس سعید تیسرے منتخب صدر ہیں۔ مختلف عرب ممالک میں آمریت کے خلاف جاری عوامی تحریکوں کا آغاز بھی تیونس سے ہوا تھا۔ آج تیونس ہی پُرامن انتقالِ اقتدار کی تاریخ رقم کررہا ہے۔ بن علی کے خاتمے کے بعد پہلی منتخب حکومت تحریک نہضت کی تھی۔ خدشہ تھا کہ اس کے خلاف شروع ہونے والی سازشیں وہاں بھی مصر کا خونی تجربہ نہ دہرادیں۔ لیکن الحمدللہ تمام تر خطرات کے باوجود تیونس کی لڑکھڑاتی جمہوریت اب نسبتاً زیادہ مضبوطی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ۲۶؍ اُمیدوار میدان میں تھے۔ پہلے ۹؍اُمیدواروں نے ۴فی صد یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ قیس سعید۱۸ء۴۰ فی صد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہے۔ بڑے ابلاغیاتی اداروں کا مالک اور سیکولر خیالات رکھنے والا نبیل القروی ۱۵ء۵۸ فی صد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر، جب کہ تحریک نہضت کا اُمیدوار عبدالفتاح مورو ۱۲ء۸۸ فی صد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہا۔ سب سے بڑی سیاسی قوت ہونے کے باوجود نہضت کے اُمیدوار کا پہلے دو اُمیدواروں میں شامل نہ ہوسکنا سب کے لیے باعث حیرت بنا۔ اس ناکامی کا تجزیہ بھی اہم ہے لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ملک اور خود تحریک نہضت کے لیے انھی نتائج میں خیروبھلائی تھی۔ مصر میں گذشتہ آٹھ برس سے جاری خوں ریز واقعات کے بعد تحریک نہضت انتہائی احتیاط سے قدم اٹھا رہی ہے۔ اتنی احتیاط کہ بسا اوقات کئی ہمدرد اور بہی خواہ بھی اس پر اعتراضات اُٹھانے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے۔ قیس سعید جیسا ایک آزاد اُمیدوار جو ملک کی دینی اساس، قانون کی مکمل بالادستی اور اُمت کے مسائل کے بارے میں دو ٹوک راے رکھتا ہو اور اس کی پشت پر کوئی اور ذمہ داری یا تاریخی ورثے کو بچانے کا بوجھ بھی نہ ہو، حالیہ معروضی حالات میں ایک بہترین صورت ہے۔
تحریک نہضت نے صدارتی مرحلے کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی اپنی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلاکر قیس سعیدی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے سے پہلے پارلیمانی انتخاب ہوئے تو قیس غیر جانب دار رہے۔ ساری پارٹیوںنے اپنے اپنے منشور کے مطابق حصہ لیا اور ۲۱۷کے ایوان میں تحریک نہضت ۵۲ نشستیں لے کر ایک بار پھر پہلے نمبر پر رہی۔ نبیل القروی کی جماعت ’قلب تونس‘ ۳۸سیٹوں کے ساتھ دوسرے، جب کہ ۵ مزید جماعتیں ۱۰یا اس سے زیادہ نشستیں لے سکیں۔ بڑی تعداد میں جماعتوں کو ایک نشست ملی۔ حکومت سازی کے لیے ۱۰۹ ووٹ اکٹھے کرنا آسان کام نہیں، لیکن تحریک نہضت کے سربراہ راشد الغنوشی نے یہ ہدف جلد حاصل کرلینے کی اُمید ظاہر کی ہے۔
سب تجزیہ نگار اُمید کرتے ہیں کہ قیس سعید ایک انتہائی بااصول صدر ثابت ہوں گے۔ انھوںنے دوسرے مرحلے کے انتخاب میں اس لیے کوئی انتخابی مہم نہ چلانے کا اعلان کیا کہ مخالف اُمیدوار نبیل القروی کرپشن کے سنگین الزامات میں گرفتار تھا، اور خود کسی مہم میںنہیں شریک ہوسکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انتخابی مہم میں یکساں مواقع فراہم نہ ہونے کے باعث میں بھی کوئی مہم نہیں چلاؤں گا۔ قیس سعید کی کامیابی کے بعد تمام اسلام مخالف اور مغربی طاقتوں کی ہمدردیاں اور پروپیگنڈا مہم نبیل کے حق میں ہوگئی، تو ووٹنگ سے چند روز قبل ضمانت پر اس کی رہائی ہوگئی، پھر دونوں اپنی اپنی مہم میں شریک ہوئے۔صدارتی حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز اپنی اہلیہ، جو ایک جج ہیں کو اس لیے پانچ سال کی بلا تنخواہ چھٹی دے دی تاکہ عدلیہ کی خود مختاری پر حرف نہ آئے۔ پہلے مرحلے کے نتائج آنے پر تیونس میں فرانس کے سفیر نے قیس سعید کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا، تو انھوںنے دو ٹوک انداز میں ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تیونس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور سفرا کے لیے طے شدہ عالمی ضابطوں کی پابندی کریں۔ اب اگر ایوان صدر میں قانون کا پاسدار صدر ہو اور عظیم قربانیاں دے کر اس مقام تک پہنچنے والی تحریک نہضت کی حکومت ہو، تو بجا طور پر اُمید کی جاسکتی ہے کہ تیونس میں پھر ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔
اللہ کا نظام بھی عجب انداز سے اپنی بالادستی ثابت کرتا ہے۔ حبیب بورقیبہ نے موسمِ گرما میں روزے ساقط کردینے کا اعلان کیا تھا۔ بورقیبہ پیوند ِ خاک ہوگیا اور ماہِ رمضان تاقیامت اپنی بہاریں دکھاتا رہے گا۔ بن علی نے حجاب اور داڑھی کے خلاف جنگ لڑی۔گذشتہ ماہ ستمبر میں وہ سعودی عرب میں جلاوطنی کے عالم میں دنیا سے چلا گیا۔ اتفاق ہے کہ اس کے جنازے میں شریک درجن بھر افراد میں سے آدھے شرکا لمبی داڑھی سے سجے چہروں والے تھے۔ سابق صدر الباجی السب سی نے قرآن کریم میں مذکور احکامِ وراثت کو منسوخ کرتے ہوئے مرد و عورت کا حصہ برابر کرنے کا اعلان کیا، وہ چلا گیا، اور آج نومنتخب صدر دوٹوک اعلان کررہا ہے کہ وراثت ہو یا کوئی اور معاملہ قرآن و سنت کے احکام حتمی ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی:
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ (التوبہ ۹:۳۲) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔