میں فروری ۱۹۴۶ءمیں قاہرہ کے دورے پر تھا۔ مجھے خیال آیا کہ اس شخص سے ملاقات کی جائے جس کے چاہنے والوں کی تعداد ۵لاکھ سے زیادہ ہے۔ میں نے اس ملاقات کے تعلق سے نیویارک کرونیکل میں لکھا تھا : ’’اس ہفتے میں نے ایک ایسے شخص سے ملاقات کی، جو شاید موجودہ تاریخ کے نمایاں ترین افراد میں شمار کیا جائے گا، یا پھر اگر حالات و حوادث اس کے مقابلے میں خود کو بڑا ثابت کر دیتے ہیں تو شاید وہ پردۂ خفا میں چلا جائے گا۔ یہ شخص اخوان کا لیڈر وقائد حسن البنا ہے‘‘۔
یہ بات میں نے پانچ سال قبل لکھی تھی اور واقعات نے میری اس راے کو درست بھی ثابت کر دیا، جو میں نے اس شخص کے بارے میں اختیار کی تھی۔ وہ شخص جلد ہی دنیا سے چلا گیا۔ اس وقت مشرق، مغرب کے سامراجی آقائوں سے نجات کے موڈ میں تھا۔میں یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ مشرق کو ایک ایسے مصلح کی ضرورت ہے، جو اس کی صفوں میں اتحاد پیدا کردے، اوراسے اس کا وجود لوٹا دے۔البتہ جس وقت مشرق اس خواہش میں جی رہا تھا، جس کے پورے ہونے میں چند قدم یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا، تو بالکل غیر متوقع طور پر اور عجیب انداز میں اس شخص کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔ مشرق کے اندر یہ قدرت نہیں ہے کہ کوئی ہیرا اس کے ہاتھ لگ جائے تو اس کو زیادہ مدت تک سنبھال کر رکھ سکے۔ قاہرہ کے سفر کے دوران بعض مصری لیڈروں اور جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد اس شخص کی منفرد اور بے مثال صورت نے مجھے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
اس کی شخصیت جاذبِ نظر تھی۔ وہ جامع گفتگو کرتا تھا، حالانکہ اس کو عربی کے علاوہ کوئی غیرملکی زبان نہیں آتی تھی۔ اس سے محبت کرنے اور وابستگی رکھنے والے جو افراد میرے اور اس کے درمیان ترجمانی کا کام کر رہے تھے، مجھے اخوان المسلمون کے دعوتی مقاصد و اہداف سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ بہت دیر تک مجھ سے بات کر تے رہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ مجھے مطمئن نہیں کر پائے۔یہ شخص خاموش بیٹھا سنتا رہا۔ اس کو میرے چہرے پر پریشانی کے آثار محسوس ہوئے۔اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’اس سے ایک بات پوچھو ۔ کیا تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ پڑھ رکھا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ اس نے پوچھا: ’’کیا تمھیں یہ معلوم ہے کہ انھوں نے کس چیز کی طرف دعوت دی تھی اور انھوں نے کیا کام کیا ؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ اس نے کہا: ’’بس وہی ہم بھی چاہتے ہیں‘‘۔یہ چند ایسے جادوئی الفاظ تھے کہ انھوں نےاس کے ساتھیوں کی طویل گفتگو سے مجھے بےنیاز کر دیا۔
اس شخص کے سادہ طرزِ زندگی ، معمول کے پہناوے، انتہادرجے کی خود اعتمادی اور اپنے فکر و نظریے پر عجیب قسم کے ایمان و یقین نے میری نظروں کو اس کی جانب ملتفت (attentive) کر دیا تھا۔مجھے یہ امید تھی کہ وہ دن ضرور آئے گا، جب عوامی لیڈرشپ پر یہ شخص غالب آ جائے گا، مصر کی حد تک ہی نہیں، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں۔
اس شخص کی حیات و تاریخ اور اہداف و مقاصد سے متعلق کافی حد تک رپورٹیں حاصل کرنے کے بعد میں مصر سے چلا آیا۔ میں نے ان تمام رپورٹوں کو پڑھا اور پڑھ کر اس کے اور محمدبن عبدالوہاب [م:۱۷۹۲ء]، محمد ابن علی السنوسی [م:۱۸۵۹ء] ، محمد احمد المہدی[م:۱۸۸۵ء]، جمال الدین افغانی [م:۱۸۹۷ء] اور محمد عبدہٗ [م:۱۹۰۵ء] کے درمیان موازنہ کیا۔اس تحقیق سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ حسن البنا نے ان تمام بزرگوں کے تجربات سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی اچھی باتوں کو اخذ کر لیا ہے، اور وہ اس لائق ہو گیا ہے کہ جو غلطیاں ان بزرگوں سے ہوئی ہیں، ان کا ازالہ کرسکے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اس نے دو طریقۂ کار کو یک جا کر دیا ہے۔ ایک طریقۂ کار وہ ہے جس کو جمال الدین افغانیؒ نے اختیار کیا تھا، اور دوسرا وہ جسے محمد عبدہٗ نے اختیار کیا تھا۔
جمال الدین افغانی، حکومت کے ذریعے اصلاح کا نظریہ رکھتے تھے اور محمد عبدہٗ یہی کام تربیت کے راستے سے کرنا چاہتے تھے۔حسن البنا نے ان دونوں وسائل کوبآسانی ایک ساتھ جمع کردیا تھا۔اسی طرح اس نے وہ نتائج حاصل کر لیے تھے، جن تک یہ دونوں بزرگ نہیں پہنچ پائے تھے۔ حسن البنا نے مختلف طبقات اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے چنیدہ تعلیم یافتہ افراد کو ایک پلیٹ فارم اور ایک متعینہ ہدف پر جمع کر لیا تھا۔
امریکا سے واپس آنے کے بعد میں نے اس شخص کے اقدامات کا گہری نظر سے مطالعہ اور مشاہدہ شروع کردیا۔ پھر میں اس سلسلے میں بھی دل چسپی لے رہا تھا کہ اس کے بارے میں وقتاً فوقتاً کس طرح شکوک و شبہات پیدا کیے جانے لگے ہیں۔ جس کا نتیجہ اس کے رفقا کی گرفتاریوں کی شکل میں سامنے آیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جس سے اس کے ساتھیوں کو گزرنا ہی تھا۔ پھر اپنے مشن کو پورا کرنے سے پہلے ہی اسے شہید بھی کر دیا گیا۔
باوجود اس کے کہ میں ابھی تک یہی سن رہا تھا کہ ’’یہ شخص قاہرہ میں کوئی بڑا کام نہیں کر پایا ہے‘‘ اور ’’ابھی اس کا کام اس سے آگے نہیں بڑھا ہے کہ اس نے نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے گرد جمع کر لی ہے‘‘۔ تاہم، جنگ فلسطین، جنگ آزادی اور آخر میں جنگ نہر سوئز نے یہ واضح طور پر ثابت کردیا تھا کہ اس شخص نے ایسے غیر معمولی کارنامے انجام دے دیے ہیں، جن کی مثال اسلامی دعوت کی تاریخ کے دورِ اوّل کے علاوہ کہیں اور کم ہی ملے گی۔یہاں میرے لیے جو کچھ کہنا ممکن ہے وہ یہ کہ اس شخص نے خود کو مال ، زن اور جاہ و حشمت کے فتنے سے بچا کر رکھا تھا۔ یہ تینوںپُرکشش چیزیں وہ ہیں، جنھیں استعماری طاقتوں نے جہاد کی راہ میں جان دینے والوں پر کمال ہوشیاری سے مسلط کر دیا تھا۔ لیکن اس شخص کو گمراہ کرنے کے لیے کی جانے والی ایسی تمام کوششیں رائیگاں رہیں۔
اس سلسلے میں اس کا سچا خلوص اور فطری زہد اس کے کام آیا۔ اس نے کم عمری میں شادی کر لی۔ فقر کی زندگی گزاری اور اپنی جاہ و حشمت کو اس اعتماد میں تلاش کیا، جو اسے اپنے گرد جمع ہونے والے لوگوں سے ملا تھا۔ اس طرح اس نے اپنی مختصر،لیکن کھلی زندگی جھوٹی شہرت اور سستے عیش و آرام کے میدانوں سے دور رہ کر گزار دی۔وہ بڑے صبر کے ساتھ نادیدہ حادثوں کا منتظر رہتا تھا۔ سکون کے ساتھ ان حادثات اور آزمایشوں کا بہادری اور حکمت سے سامنا کرتا تھا۔ ان کے سلسلے سے جو بھی وابستہ ہوتا تھا، وہ ہمت اور جرأت کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتا تھا۔
قدرت کو یہ منظور ہوا کہ اس کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات مشرق وسطیٰ کے دو عظیم حادثوں سے مربوط ہو جائے۔ چنانچہ اس کی پیدایش ۱۹۰۶ء میں ہوئی۔ یہ وہ سال ہے جس میں ’حادثۂ دنشوائی‘{ FR 709 }پیش آیاتھا۔اور وفات ۱۹۴۹ ء میں ہوئی۔ یہ وہ سال تھا جس سال اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ۱۹۴۸ء میں اس ریاست کا نقشہ تیار ہوا تھا، لیکن واقعاتی دنیا میں اس کا ظہور ۱۹۴۹ء میں ہوا تھا۔
اپنے دشمنوں اور ساتھیوں، دونوں ہی کے معاملے میں یہ شخص عجیب تھا۔ وہ اپنے دشمنوںسے اتنا اُلجھتا اور جھگڑتا نہیں تھا، جتنا انھیں مطمئن کرنے اور اپنی صف میں شامل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔اس کا خیال یہ تھا کہ دو گروہوں کے درمیان کش مکش، کبھی اُمید افزا نتائج کی حامل نہیں ہوا کرتی۔ نظریاتی مخاصمت پر اس کا یقین تھا ، لیکن اس میں ذاتی مخاصمت کو وہ داخل نہیں کرتا تھا۔ اس احتیاط پسندی اور دریا دلی کے باوجود وہ اپنے معاصرین اور دشمنوں کی ایذا سے محفوظ نہیں رہا۔ مخالف سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف شدید جنگ کا اعلان کر رکھا تھا۔یہ شخص عمر اور علی(؆) کے نقش قدم کا پیرو تھا۔وہ اسی قسم کے ماحول میں کش مکش سے دوچار تھا، جیسے ماحول میں حضرت حسینؓ کو کش مکش کا سامنا تھا۔اسی لیے وہ بھی ان تینوں کی طرح شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوا۔
میں نے اس کے بہت سے دشمنوں کو سن رکھا تھا۔ یہ ایک فطری بات ہے، بلکہ یہ ضروری ہے کہ ایک ایسے شخص کے سلسلے میں لوگوں کی رائیں مختلف ہوں، جو اپنی جادوبیانی اور شیریں گفتاری سے لوگوں کے جم غفیر کو اپنے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔یہ وہ لوگ تھے جو جماعتوں، پارٹیوں ، صوفیوں کے ٹولوں، قہوہ خانوں اور لہو و لعب کی محفلوں سے نکل کر اس کے پاس آئے تھے۔ ایسا تو ضرور ہونا تھا کہ یہ شخص ان لوگوں کے لیے وجۂ نفرت بن جائے، جنھیں اس چیز نے حیرت میں مبتلا کر دیا تھا کہ معمولی سماجی و معاشی پس منظر کا حامل ایک شخص اپنے پاس ایسے نیکوکار اور جاں باز نوجوانوں کو اکٹھا کرنے میں کس طرح کامیاب ہو گیا ہے؟
جن چیزوں نے مجھے اس کی جانب متوجہ کیا، ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس نے (حضرت) عمرؓ کی ایک نمایاں ترین خصوصیت اپنا رکھی تھی۔ وہ یہ کہ اہل خانہ کو کارِدعوت کے مادی فائدوںسے دور رکھا جائے۔ چنانچہ عبدالرحمان، محمد اور عبدالباسط ، جو کہ اس کے بھائی تھے، پارٹی کے بڑے بڑے مناصب سے دور ہی رہے۔ بلکہ اکثر وہ ان کا محاسبہ اسی طرح کیا کرتا تھا، جس طرح عمر[] اپنے اہل خانہ کا محاسبہ کیا کرتے تھے اور اگر ان سے کوتاہی ہوجاتی تو ان کی سزا دوسروں سے زیادہ ہی رکھتے تھے۔
مجھے اس کے والد محترم شیخ عبدالرحمن البنا [م:۱۹۵۷ء] سے ملاقات کا موقع بھی ملا تھا اور انھیں بعض اخوانیوں سے باتیں کرتے بھی سنا تھا۔ ان کی خواہش اور آرزو یہ تھی کہ ’’میرا بیٹا، اسلام کے سلسلے میں صرف کتابیں تصنیف کرنے پر اکتفا کرتا‘‘۔ لیکن حسن البنا یہ جواب دیا کرتے کہ ’’مجھے اس بات پر شرح صدر حاصل ہے کہ اسلام کا کام افراد کی تصنیف سے ہی ہو سکتا ہے‘‘۔
قاہرہ کے قلب میں واقع تنگ و تاریک گلیوں، محلہ حارۃ الروم، اسلحہ بازار، نافع لین اور محلہ شماشرجی کے اندر اس شخص نے کام کا آغاز کیااورکچھ لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے۔ حسن البنا پہلے داعی تھے، جنھوں نے مشرق میں ایک مکمل سوچا سمجھا پروگرام پیش کیا تھا، جو اس سے پہلے کسی نے پیش نہیں کیا تھا، نہ جمال الدین افغانی نے ،نہ محمد عبدہٗ نے اور نہ اس وقت کی جماعتوں اور تنظیموں کے ان سربراہوں نے ہی یہ کام انجام دیا تھا،جن کا نام پہلی عالمی جنگ [۱۸-۱۹۱۴ء]کے بعد خوب روشن ہوا۔ اپنے وسیع مطالعے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس شخص کی زندگی اور جو کچھ اقدامات وہ کر رہا تھا، وہ ان اصول و مبادی کی سچی اور عملی تصویر تھی جن کی طرف وہ بلا رہا تھا: ’اسلام‘___ جیساکہ اس نے سمجھا تھا اور جس کی طرف وہ دعوت دے رہا تھا۔ اللہ نے اسے ایک ایسا روشن لباس عطا کر دیا تھا، جس کی خوب صورتی کا اثر لوگوں کے دلوں پر زبردست اثر ہوتا تھا۔ یہ لباس نہ تو اس زمانے کے سیاسی لیڈروں کو حاصل تھا اور نہ اس کی ہم عصر مذہبی شخصیات کو ہی عطا ہوا تھا۔
وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا، جو کامیابی کو معمولی قیمت کے بدلے بیچ کھاتے ہیں۔ اس نے مقصد تک پہنچنے کے لیے سیاست دانوں کی طرح سفارش اور ثالثی کو جائز نہیں قرار دیا۔ اسی لیے اس کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہوا تھا۔اس کو جو دشواریاں پیش آئیں، ان کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ایسی نہر سے گزر رہا تھا، جس کے راستے میں پتھر اور چٹانیں حائل تھیں۔اسی چیز نے اسے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے افراد کو اخلاقی بلندی کے لیے تیار کرے، زمانے کی ترغیبات پر غالب آنے اوران شہوات و خواہشات سے خود کو بلند کرلینے پر مجبور کرے، جو نجات کی کشتی کو اپنی دلدل میں پھنسا لیتی ہیں اور ساحل تک پہنچنے کا راستہ بند کر دیتی ہیں۔
وہ ایک مثالی اور بہترین حل تک پہنچنا چاہتا تھا، خواہ اس کے لیے کتنا ہی طویل راستہ اختیار کرنا پڑے۔اسی لیے اس نے سودے بازی کی ہر پیش کش کو مسترد کر دیا۔ اپنے پروگرام سے فوری حل (hurriedly) کے انتخاب (option)کو خارج کر دیا ۔ اس کا اصرار ہمیشہ اس بات پر رہا کہ اسلام کے اندر آزادی، وطنیت اور سیادت و رہنمائی کے معاملے میں جزکاری اور رفوگری کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ یہی وہ چیز تھی، جو اس کے لیے پریشانیوں اور اذیتوں کا سبب بنی۔اس کے گرد جو افراد جمع ہوئے تھے، ان میں سے بعض افراد کو اس راہ کے انجام نے ڈرا دیا تھا۔ ان کے اعصاب و قویٰ اس بلندلہر کا مقابلہ کرنے کی تاب نہ لاسکے اور بیچ راستے سے ہی جواب دے گئے۔
وہ واقعیت پر یقین رکھتا تھا اور چیزوں کو اوہام و خرافات سے مبرا کرکے، ان کی حقیقت کے مطابق ہی سمجھتا تھا۔ ملاقات کیجیے تو انتہائی درجے پرسکون نظر آتا تھا، حالانکہ اس کے دل میں ہانڈی کی طرح ابال او ردل میں ایک شعلہ دہک رہا ہوتا تھا۔اپنے وطن کے سلسلے میں یہ شخص بہت غیرت مند تھا۔جب وہ یہ سنتا کہ وطن کے کسی حصے کو نقصان یا چوٹ پہنچی ہے تو وہ غصے سے دہکنے لگتا تھا، لیکن اپنے غصے کو بعض لیڈروں کی طرح باتوں اور چیخ پکار کے ذریعے اڑا نہیں دیتا تھا اور نہ اپنی زبان سے فضول قسم کی باتیں نکالتا تھا، بلکہ غصے کی اس زبردست طاقت کا رخ، تعمیر و عمل اور اس دن کی تیاری کی طرف موڑ دیتا تھا، جس دن عوام کی آرزوئیں برآئیں گی۔
حسن البنا کی سوچ میں لچک تھی، فکر میں حریت تھی، اس کی روح روشن و تابناک تھی اور اس کی گہرائیوں میں ایمان کی غالب و مضبوط قوت اُتری ہوئی تھی۔ اس کے اندر انکسار تھا، ایسے شخص کا انکسار جسے اپنی حد معلوم ہو۔اس کی نظر پاکیزہ تھی، اس کی زبان پاکیزہ تھی اور اس کا قلم بھی پاکیزہ تھا۔ جذباتی، الزامی اور کاٹ دار زبان استعمال کرنے والوں کے طریقے سے وہ خود کو دُور رکھتا تھا، بہت دُور!
اس کا سیاسی مسلک یہ تھا کہ ’’سیاست کے اندر جس اخلاقی عنصر کو یہ کہہ کر نکال دیا گیا ہے کہ سیاست اور اخلاق ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اسے سیاست میں واپس لایا جائے‘‘۔ وہ فرانسیسی مدبر چارلس ٹالیرانڈ [م:۱۸۳۸ء] کے اس قول کو غلط ثابت کرنا چاہتا تھا کہ ’’زبان کا استعمال صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی حقیقی آرا کو مخفی رکھ سکیں‘‘۔ وہ اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ سیاست داں اپنے سامعین یا اپنے وابستگان یا اپنی قوم کو گمراہ کریں ۔ وہ عوام کو، اور ایک عام انسان کو سیاست کی دھوکے بازیوں اور پارٹیوں کی گمراہیوں سے ہٹاکر بلندی پر لے جانا چاہتا تھا۔
منگل کا دن دیکھنے کے لائق ہوا کرتا تھا۔ اس دن قاہرہ کے مختلف حصوں سے تقریباً سیکڑوں آدمی اس شخص کو سننے کے لیے اکٹھا ہوا کرتے تھے۔ سفید جلباب، سفید عبا اور خوب صورت عمامے کے ساتھ یہ شخص ڈائس پر جلوہ نما ہوتا اور ایک نظر حاضرین پر ڈالتا، جب کہ حاضرین منظم اور بلندآہنگ نعروں کی جھل تھل لیے اُس کے سامنے ہمہ تن گوش ہوجاتے۔
اس کی خطابت آپ کو اتنا حیرت میں نہیں ڈالے گی، جتنے حیران کن ان سوالوں کے جواب ہوا کرتے تھے، جو اس کی شخصیت، اس کی زندگی اور اس کے اہل خانہ سے متعلق کیے جاتے تھے۔جب اس نے سرکاری ملازمت ترک کردی اور ایک بھاری بھرکم اخبار کا عہدۂ ادارت قبول کرنے سے انکار کر دیا، حالانکہ اس کی تنخواہ سو (مصری) جنیہ{ FR 710 } تھی، تو اس سے کسی نے سوال کیا کہ ’’آپ کیا کھاتے ہیں؟‘‘ اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا : ’’محمدؐ ،خدیجہ کے مال میں سے کھاتے تھے اور میں ’خدیجہ[] کے بھائی‘ کے مال میں سے کھاتا ہوں‘‘۔ یعنی برادر نسبتی کے مال میں سے کھاتا ہوں۔
اس شخص کی سب سے عجیب بات یہ تھی کہ صبر و ثبات کے ساتھ پورے مصر کاسفر کیا کرتا تھا۔ ان اسفار کا آغاز صرف گرمی کےایام میں ہی ہوا کرتا تھا،یعنی جس وقت بالائی مصر کے علاقے گرمی سے کھول رہے ہوتے تھے۔مصر کے اندرونی علاقوں میں یہ شخص ٹرین، بسوں، خچروں،اُونٹوں، کشتیوں کے ذریعے اورکبھی پیدل پہنچا کرتا تھا۔
اس وقت اس کے اندر انتہائی درجے کی مضبوطی اور مزاج کا اعتدال نظر آتا تھا۔ نہ تو چلچلاتی دھوپ اس پر اثرانداز ہوتی تھی ، نہ سفر کی تکان کا ہی اس پر کوئی اثر ہوتا تھا، اور نہ ان چیزوں سے اسے کوئی تنگی یا پریشانی ہوتی تھی۔چلتا تو تیر کی طرح سیدھانظر آتا تھا۔ جو لوگ اس کے ارد گرد ہوتے تھے، راستے میں ان سے باتیں بھی کرتا اور ان کی سنتا بھی تھا اور فیصلے بھی لیتا تھا۔ پندرہ برس کے عرصے میں ان اسفار نے اس کی مدد کی۔ اس عرصے میں اس نے دو ہزار سے زیادہ گائوں کا سفر کیا اور ہرگائوں میں ایک سے زائد مرتبہ گیا۔ہر گائوں سے متعلق ماضی قریب و بعید کی تاریخ ، گائوں کے خاندان ، گھرانوں، وہاں پیش آنے والے واقعات و حوادث کی معلومات کا ذخیرہ اس کی یادداشت میں محفوظ رہتا تھا۔وہاں کا سیاسی رنگ کیا ہے؟ اس کے اثرات گائوں اور ملک پر کس قسم کے ہیں؟ لوگ اس صورت حال سے خوش ہیں یا متنفر ہیں؟ ان سب کا علم اس کے پاس ہوتا تھا۔ ملکوں، افراد، جماعتوں، پارٹیوں، اداروں اور گروہوں کے درمیان جو اختلافات اور تکلیف دہ امور پائے جاتے ہیں، اسے ان کا بھی علم ہوتا تھا۔
اگر آپ مثال کے طور پر اس سے کہیں کہ فلاں’حسینی‘، یا فلاں ’حدیدی‘ یا فلاں ’حمصانی‘ تو وہ آپ سے کہے گا کہ اس نام کے افراد پانچ یا چار خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایک قاہرہ میں ہے، دوسرا: دمنہور (مصر کا ایک شہر) میں ہے، تیسرا:’ الزقازیق‘ میں ہے ، چوتھا :اِن میں سے تمھاری مُراد کس سے ہے؟
یکے بعد دیگرے اسفار کا یہ سلسلہ مسلسل کئی برسوں تک چلتا تھا۔ ان اسفار کی وجہ سے لوگوں کے بارے میں اس کی ایک راے بن چکی تھی۔ مصر کا کوئی ایسا گائوں مشکل سے ہی ہوگا، جس کے نوجوان، معززین، وزرا، پارٹی اور جماعتوں کے افراد، مذہبی شخصیات اور صوفیہ کو وہ نہ جانتا ہو۔ اور ایسا کم ہی ہوتا کہ وہ ان سے گفتگو نہ کر چکا ہو ، ان کی باتیں نہ سن چکا ہو، ان کی اُمیدوں اور خواہشات سے واقف نہ ہو چکا ہو۔ ان اسفار کے دوران یہ شخص آپ کو انتہائی درجے کی سادگی کے ساتھ نظر آئے گا۔ جھونپڑیوںمیں سو جائے گا، چبوترے پر ہی بیٹھ جائے گا اور جو بھی روکھا پھیکا پیش کیا جائے گا، خوشی سے کھا لے گا۔ایک چیز کے علاوہ اس کی کوئی خواہش نہیں ہوتی تھی اور وہ یہ کہ: لوگ اسے کوئی شیخ طریقت یا ان لوگوں میں سے نہ سمجھنے لگیں جو دنیاوی منفعت کے خواہاں رہتے ہیں۔
اس نے مجھے بتایا کہ وہ کبھی کسی ایسے شہر میں جاتا، جہاں وہ کسی کو نہ جانتا ہو، تو مسجد کا رخ کرتا۔ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتا اور پھر نماز کے بعد اسلام کے بارے میںبات کرتا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جب لوگ اس کے پاس سے چلے جاتے تو مسجد کی چٹائی پرلیٹ جاتا، اپنے تھیلے کو سر کے نیچے رکھ لیتا اور خود کو اپنے گائون میں لپیٹ کر سو رہتا۔
بلاشبہہ اس سخت جدوجہد نے اسے دسیوں ہزار لوگوں سے ملاقات کا موقع فراہم کیا تھا، جن میں دشمن بھی تھے، دوست و مددگار بھی، بوڑھے بھی تھے اور جوان بھی، تعلیم یافتہ لوگ بھی تھے اور ان پڑھ عوام بھی۔وہ ان تمام لوگوں کی باتیں بڑے غور سے سنتا تھا اور انھیں اپنی بات مختصر سے مختصر الفاظ میں لیکن واضح مفہوم سے بتاتا تھا۔اس نے ان لوگوں سے وسیع و عریض تجربات حاصل کیے تھے، جنھیں اس نے اپنے عمل و تہذیب کا حصہ بنا لیا تھا۔ میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں: ’’حسن البنا وہ شخص تھا جس کی کوئی مثال اس زمانے میں نہیں ہے۔ وہ مصر کی تاریخ میں اس طرح ایک بار آگر گزر گیا جس طرح ایک عارضی قوس قزح افق پر آ کر گزر جاتی ہے‘‘۔
جس شخص نے تاریخ بنائی ہو اور راہ کا دھارا بدل ڈالا ہو، اس کے لیے تو لازم تھا کہ اسے شہادت کی موت نصیب ہو، بالکل اسی طرح جس طرح عمر، علی اور حسین(رضی اللہ عنہم) کو نصیب ہوئی تھی، کیوں کہ یہ شخص انھی کے نقش قدم پر چلتا تھا۔وہ عنفوان شباب میں ہی دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ عمر کا یہ وہ مرحلہ ہے جس میں بڑے بڑے اکابر اور اصحاب فکر و فن نے وفات پائی ہے۔ اس نے اپنی زندگی اس طرح گزاری کہ اس کی زندگی روشن و تابناک بنی ہوئی تھی۔
وہ تمام وسائل جو اسے ورغلانے میں لگے ہوئے تھے، وہ اسے فکر کی شفافیت اور سلامتی کے ہدف سے ہٹانے میں ناکام رہ گئےتو وہ اپنی زندگی کا ہرلمحہ مومنانہ شان سے جیا۔ اس نے نہ اپنا سر جھکنے دیا، نہ پسپا ہوا اور نہ حوصلہ شکن اور پرخطر حالات کے سامنے پس و پیش میں مبتلا ہوا۔بعض لوگوں کی آنکھوں میں یہ شخص چبھتا تھا ، لیکن بہت سے لوگوں نے اس کی اس قوت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی، جس پر اسے قدرت حاصل تھی۔اس نے لوگوں سے کہا کہ : ’’میرے رفقا و احباب میں سے کسی کے ہاتھ کی لاٹھی اور گولی نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ کے ہیں‘‘۔ بعض لوگوں نے اسے اپنی طرف ملانے کی کوشش کی یا اس کی بساط لپیٹ دینے کی کوشش کی۔ لیکن وہ شخص ایسی چیزوں کے مقابلے میں مضبوط چٹان تھا۔اس سے بات کرنے والے کے سامنے اس کی سادگی کا جوپہلو سامنے آتا تھا، اس سادگی کے باوجود وہ اس قدر زیرک تھا کہ اس سے ملنے یا بات کرنے کے بعد یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس کے گرویدہ اور معترف بننے سے بچ جائے اور اس فکر و نظریے پر ایمان نہ لے آئے، جس کی طرف وہ لوگوں کو بلا رہا تھا۔
وہ صرف اسی شخص کے بالمقابل آتا تھا جو اس کے راستے میں حائل ہو رہا ہو۔ جو اپنی دشمنی و مخالفت کو ظاہر نہیں کرتا تھا اس سے وہ بھی عفو درگذرسے کام لیتا تھا۔کسی معاہدے کے خلاف اس وقت تک نہیں کھڑا ہوتا تھا جب تک وہ اس کی دعوت کے فطری پھیلائو میں رکاوٹ نہ بن رہا ہو۔ وہ اپنی قوت کو وطن کی خاطر جمع کر کے رکھتا تھا۔اپنی ذات اور اپنی دعوت کو اس بات سے بلند رکھتا تھا کہ وہ داخلی کش مکش کا ذیعہ بنے۔بعض لوگوں نے اس بات کو اس شخص کی کمزوری، نرمی اور موقع شناسی سمجھ لیا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ شخص اپنے مزاج اور طبیعت کے اعتبار سے جانب داری پر مبنی کش مکش کو پسند نہیں کرتا ہے اور نہ اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو منقسم کرنا چاہتا ہے،بلکہ وہ توکمالیت (perfection) اور پختگی کی بنیاد پر ایک مرحلے سے ترقی کرکے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونا چاہتا تھا۔ یہ چیز اُن دشمنانِ وطن کے لیے پریشان کن ہوتی تھی، جو ذاتی خواہشات سے بلند ہوکر کی جانے والی اور ذاتی اغراض و مفادات سے پاک ہو۔معاملات کو دانش مندی کے ساتھ انگیز کرتے ہوئے اور خوش مزاجی کے ساتھ حادثات و مصائب کا سامنا کرتے ہوئے، اپنے اعصاب کو قابو میںرکھنے پر اسے بلا کی قدرت حاصل تھی۔
ان تمام چیزوں کے علاوہ اس کی زندگی انتہائی اعتدال پر قائم تھی۔ اس کی زندگی کی گزربسر اس محدود تنخواہ پر تھی، جو دورانِ تدریس ملنے والی تنخواہ سے زیادہ نہیں تھی، حالانکہ اس کے پرستاروں کی جانب سے پیش کی جانی والی دولت کا اس کے سامنے انبار لگا رہتا تھا، اور اس کے پاس ایسے لوگ جمع تھے جن کی آمدنی اس کی آمدنی سے دوگنا یا کئی گنا زیادہ تھی۔ [جاری]