انسان کائنات میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار ہے۔ خالق کائنات نے اس کے جسم کو مٹی سے بنا کر اس میں اپنی روح پھونکی تو اس کا تعلق زمین اور آسمان دونوں سے قائم ہو گیا۔ یہ ایک منفرد حیثیت ہے جس کی وجہ سے انسان کو کائنات میں افضل ترین مقام حاصل ہوا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ہم نے انسان کوبہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘ (التین ۹۵:۴)۔ اسی بنا پر اسے خالق کی نیابت اور خلافت کا مقام حاصل ہوا۔
رب العالمین نے انسان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کا بہترین بندوبست کیا ہے۔ روحانی ضروریات وحی کے ذریعے پیغمبروں کی وساطت سے پوری کیں اور جسمانی ضروریات کے لیے زمین کوہر قسم کے وسائل سے مالا مال کر دیا: ’’ کوئی چیزایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں‘ اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیںایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں‘‘ (الحجر ۱۵:۲۱)۔ مزید فرمایا: ’’ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا‘ زندوں کے لیے بھی اور مردوں کے لیے بھی‘‘ (المرسلات ۷۷: ۲۵- ۲۶)۔ ان آیات کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیںکہ کرئہ زمین کروڑوں اور اربوں سالوں سے بے حد و حساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ ہر قسم کی نباتات‘ ہر قسم کے حیوانات ‘ اور انسان اس پر جی رہے ہیں اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے پیٹ سے طرح طرح کے اتھاہ خزانے نکلے چلے آ رہے ہیں۔
انسان میں روح و جسم کا نہایت حسین امتزاج ہے اور یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کس کی اہمیت زیادہ ہے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود بے مقصد ہو جاتا ہے‘ بقول اقبالؒ ؎
تن بے روح سے بے زار ہے حق
خداے زندہ زندوں کا خدا ہے
نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔ اسلام میں انسان کی جسمانی
ضروریات کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ مغرب کو تو معیشت کی اہمیت کا احساس کم و بیش ۱۰۰ سال پہلے ہوا اور اقتصادیات کے مضمون کو اہمیت دی جانے لگی مگر قرآن مجید نے ۱۴۰۰ سال پہلے معیشت کے اصول تفصیل سے بیان کر دے۔ انھی اصولوں پر عمل کر کے مسلمان خلفا اور حکمرانوں نے رعایا کی بنیادی ضروریات کا ایسا بہترین بندوبست کیا اور ایسی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی کہ موجودہ دور کی فلاحی ریاستیں اس کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہیں۔ اسلام کے معاشی نظام کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ غیر جانب دار ماہرین کا اتفاق ہے کہ موجودہ دنیا کی معاشی مشکلات کا حل اسلامی نظام معیشت میں ہی ہے۔
انسانی وجود کے بقا اور جملہ ضروریات کا تعلق اور انحصار زمین پر ہے۔ مندرجہ بالا آیات کے علاوہ بہت سی قرآنی آیات ہیں جن سے زمین کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ’’اس ]زمین[ میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا‘‘ (حم السجدہ ۴۱: ۱۰)۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کے مطابق برکتوں میں دھاتیں اور دیگر تمام ضروریات کی اشیا شامل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام نباتاتی‘ حیواناتی اور دھاتی وسائل کے علاوہ جدید دور میں جو مصنوعی اشیا انسان بنا رہا ہے‘ یا مستقبل میں بنا سکتا ہے ان کے لیے خام مال زمین سے ہی حاصل ہوگا۔ اسی طرح تمام صنعتوں میں استعمال ہونے والا خام مال اور توانائی زمین سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اراضی چاہے میدان ہو یا پہاڑ‘ وادی ہو یا ریگستان‘ یا دلدل وغیرہ‘ نہایت ہی اہم وسیلہ بلکہ دولت ہے۔ الحمدللہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے ارضی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ مگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ اگر توجہ دیتے اور احکام الٰہی کے مطابق استعمال میں لاتے تو اس میں ذرّہ برابر شک نہیں کہ آج ہم دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے قائد ہوتے۔
مسلمانوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: ’’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ (الاعراف ۷: ۹۶)۔ پاکستان کے قدرتی وسائل ایک وسیع موضوع ہے۔ یہاں صرف زرعی وسائل پر کچھ ضروری امور پیش کیے جا رہے ہیں۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ تہذیب و تمدن کے فروغ میں زراعت کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ مستقل رہایشی بستیوں کا آغاز زراعت سے ہی شروع ہوا۔ پیداوار بڑھنے کے ساتھ کچھ افراد بنیادی ضروریات کی فکر سے آزاد ہوئے اور انھوں نے انسانی اعلیٰ اقدار کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس طرح تہذیب و تمدن اور ثقافت کو فروغ حاصل ہوا۔ قرآن مجید میں وسائل اور علوم کے بارے میں جو ارشادات ہیں‘ راقم کی معلومات کی حد تک‘ سب سے واضح اور زیادہ زراعت کے بارے میں ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’کبھی تم نے سوچا‘ یہ بیج جو تم بوتے ہو‘ ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا ان کے اُگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جائو‘‘ (الواقعہ ۵۶: ۶۳-۶۵)۔ ایک دوسری جگہ یوں فرمایا: ’’اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا‘ پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بہ تہ لگتے ہیں۔ یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے کا۔ اس پانی سے ہم ایک مُردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں۔ (مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا بھی اسی طرح ہوگا‘‘ (ق۵۰: ۹-۱۱)۔
وسائل کے ماہرین نے زرعی وسائل کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ زرعی زمین ایک منفرد قدرتی وسیلہ ہے جس کا رقبہ تو متعین ہے‘ اس لیے کہ بڑھایا نہیں جا سکتا لیکن صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ کم بھی نہیں ہوتا اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے پیداوار بڑھتی جاتی ہے اور یہ رقبہ ہمیشہ کے لیے قابل استعمال رہتا ہے۔ لیکن اگر بے احتیاطی سے استعمال کیا جائے تو پیداوار کم ہوتی جاتی ہے بلکہ سیم‘ تھور اور کٹائو وغیرہ سے بالکل ختم بھی ہو سکتی ہے۔ اراضی کی اس اہمیت کی بنا پر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ زمین کو کسی کی ذاتی ملکیت نہ سمجھا جائے‘ بلکہ یہ آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے تو ۱۴۰۰ سال پہلے مفتوحہ علاقوں کی اراضی کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ہے اور مجاہدین میں تقسیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
دنیا میں انھی قوموں نے ترقی کی ہے جنھوں نے اپنے ارضی اور زرعی وسائل کی طرف پوری توجہ دی ہے‘ پیداوار کو اتنا بڑھایا ہے کہ چند فی صد افراد اپنے ملک کی ضروریات پوری کر کے بڑی مقدار میں زرعی پیداوار برآمد کر کے زرمبادلہ کما رہے ہیں اور دیگر ممالک کو مغلوب کیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کی افرادی قوت کا ۳ فی صد سے بھی کم حصہ زراعت میں ہے‘ مگر اپنے ملک کی تمام آبادی کی زرعی ضروریات جن میں خوراک اور صنعتی خام مال بھی شامل ہے‘ انتہائی سستے داموں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی مقدار میںزرعی پیداوار برآمد کر کے زرمبادلہ کما رہا ہے اور دوسرے ممالک کو مغلوب کیا ہوا ہے۔ ہالینڈ ایک بہت چھوٹا ملک ہے۔ اس میں زرعی زمین تو بہت ہی محدود ہے مگر اس کے باوجود برآمدات میں زراعت کا حصہ ہالینڈ کی اہم ترین برآمد‘ قدرتی گیس کے برابر ہے۔ زراعت میں سائنس اور جدید طریقوں کے استعمال کی وجہ سے سعودی عرب اور اسرائیل جیسے ممالک جن کا قدرتی ماحول زراعت کے لیے موزوں نہیں ہے اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بہت سی زرعی اشیا برآمد بھی کر رہے ہیں۔
جدید دور میں زراعت کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اب یہ نہ صرف انسان کو بنیادی ضروریات مہیا کرتی ہے بلکہ اقتصادیات‘ معاشیات ‘ سیاست اور دفاع میں بھی اس کی اہمیت ہے۔اس کی ایک مثال تو ہماری اپنی ہے کہ ہم نے ۱۶-F طیارے خریدنے کے لیے جو کثیر زرمبادلہ دیا تھا اس کی گندم خریدنے پر مجبور ہوئے۔ اسی ضمن میں ٹرپس معاہدہ ترقی یافتہ ممالک کی تیسری دنیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے‘ بلکہ ان کو تباہ کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اس مقصد کے لیے ایسے جینیاتی بیج تیار کیے گئے ہیں جن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ان بیجوں میںایسے کیمیائی اجزا داخل کر دیے جاتے ہیں کہ ان پر کیڑے مکوڑے حملہ نہ کر سکیں مگر مضر کیڑوں کے ساتھ انسان دوست کیڑے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان بیجوں سے حاصل ہونے والی فصل جو انسان اور حیوان استعمال کرتے ہیں مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ بیج دوبارہ کاشت بھی نہیں ہو سکتے اور ان کو تیار کرنے کی ٹکنالوجی بھی ترقی پذیر ممالک کو منتقل نہیں کی جا رہی تاکہ ترقی یافتہ ممالک کا ہی کنٹرول رہے۔
ان بیجوں سے حاصل ہونے والی فصلوں کے مضر اثرات کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں ان کے استعمال پر پابندی لگانے کے مطالبا ت ہو رہے ہیں۔ بعض ممالک میں کسانوں نے جینیاتی بیجوں سے حاصل ہونے والی فصلوںکے مضر اثرات سے آگاہی کے بعد تیار فصلوں کو جلا دیا ہے۔ چنانچہ اب ان بیجوں کو تیار کرنے والے ممالک اور کمپنیوں کی توجہ ترقی پذیر ممالک پر ہے۔ اس تباہی سے بچنے اور ترقی یافتہ ممالک کے غلبے سے نجات حاصل کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک اپنے زرعی وسائل کو مقامی ٹکنالوجی اور وسائل کے ذریعے استعمال کریں۔
اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہرقسم کے وسائل سے خصوصاً زرعی وسائل سے نوازا ہے۔ نہایت زرخیز وسیع وعریض میدان ہیں جو ہزاروں فٹ گہرائی تک دریائوں کی لائی ہوئی زرخیزمٹی سے بنے ہوئے ہیں جو ان میدانوں میں قدرت نے دریائوں کا جال بچھایا ہے اور میدانوں کا ڈھلان آبپاشی کے لیے نہایت موزوں ہے۔ چنانچہ نامعلوم زمانے سے آب پاشی کی جا رہی ہے اور زراعت ہمیشہ اہم ترین منافع بخش پیشہ رہا ہے۔قدیم ترین‘ لیکن اپنے دور کی انتہائی ترقی یافتہ شہری آبادیوں‘ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کا انحصار آب پاشی اور زراعت پر تھا۔ آب و ہوا کے لحاظ سے بھی پاکستان کی سرزمین کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ آب و ہوا کا تعلق سطح سمندر سے بلندی اور خط استوا سے فاصلے پر ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سرزمین کی سطح سمندر سے بلندی صفر سے لے کر ۸ ہزار ۶ سو ۱۱ میٹر تک ہے اور شمالاً جنوباً پھیلائو بھی ۲۳ درجے عرض بلد سے ۳۷ درجے عرض بلد تک ہے جواچھا خاصا ہے۔ نتیجتاً آب و ہوا میں اتنا تنوع ہے جتنا کسی اور ملک میں نہیں ہے۔
اس کا اثر یہ ہے کہ جتنی اقسام کی فصلیں اور پھل سبزیاں وغیرہ پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں کسی اور ملک میں نہیں ہوتیں۔ کم درجہ حرارت میں پیدا ہونے والی فصلوں سے لے کر زیادہ درجہ حرارت والی فصلیں تجارتی پیمانے پر پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک غیر ملکی زرعی ماہر یہاں آیا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ وادی پشاور میں گنا اور چقندر ساتھ ساتھ کاشت کیے جا رہے ہیں۔ اگر ہمارے کاشت کاروں کو موزوں ماحول اور مناسب سہولیات مہیا کی جائیں تو یہ زراعت میں غیر معمولی کارنامے دکھا سکتے ہیں۔
زراعت کے لحاظ سے موزونیت کی وجہ سے ہی برعظیم کے مسلمان حکمرانوں نے زراعت کی طرف توجہ دی اور ایسا زرعی نظام قائم کیا جس کی بنا پر معاشی ترقی ہوئی اور برعظیم کو سونے کی چڑیا کہا جانے لگا۔ زراعت کے لیے بہترین علاقہ وادی سندھ ہے جو تقریباً سب پاکستان میں شامل ہے۔ برعظیم کے مسلمان حکمرانوں نے زراعت پر پوری توجہ دی۔ آب پاشی کا ایسا موزوں نظام قائم کیا جسے بعد میں انگریزوں نے ترقی دے کر وادی سندھ میں دنیا کا منفرد اور عظیم نظام قائم کیا۔ یہاں پر زراعت کے لیے بہترین ماحول ہونے کی وجہ سے یہ اتنی منافع بخش ہے کہ انگریزوں نے ایک نہر نجی سرمایے سے بنائی۔ اس پر لگایا گیا سرمایہ اتنا جلدی واپس ہوا اور اتنا منافع حاصل ہوا کہ برطانیہ کے سرمایہ داروں نے برصغیر میں نہریں بنانے کے لیے اتنا سرمایہ مہیا کر دیا کہ حکومت کے لیے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔
آج بھی اگر زراعت کی طرف مناسب توجہ دی جائے تو حیرت انگیز نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اسی سال حکومت نے گندم کی کاشت کی طرف معمولی توجہ دی تو ایک لمبے عرصے کے بعد اس سال ہم گندم کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے خاصی مقدار میں گندم برآمد کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اصل میں برعظیم کے زرعی وسائل کے صحیح استعمال کا آغاز مغلوں کے زمانے سے ہوا جنھوں نے اپنے وقت میں جدید ترین نہری نظام قائم کیا۔ زرعی زمینوں کا ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ آج تک معمولی رَدّ و بدل کے ساتھ وہی نظام قائم ہے۔ زمینوں کی اقسام بھی وہی چلی آ رہی ہیں اور محکمہ مال کا نظام بھی وہی ہے یہاں تک کہ موجودہ محکمہ مال کا اہم کارکن جسے پٹواری کہتے ہیں مغلوں کے زمانے کا پٹواری ہے جو زمین کا ریکارڈ رکھنے کے علاوہ پیداوارکی تقسیم (بٹوارہ) بھی کرتا تھا۔ اب یہ نظام ختم کر کے کمپیوٹرائزڈ ہونا چاہیے۔
ان حقائق کے پیش نظر‘ زرعی جغرافیہ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے‘ راقم دعوے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ زراعت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو جن وسائل سے نوازا ہے‘ دنیا بھر میں یہ منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ اگر آزادی کے بعد زراعت کی طرف مناسب توجہ دی جاتی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم زرعی پیداوار میں خودکفیل ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر زرمبادلہ بھی کما رہے ہوتے اور زرعی خام مال استعمال کرنے والی صنعتوں میں بھی ترقی کی ہوتی۔ باوجود مشکلات کے ۱۹۵۵ء تک پاکستان زرعی پیداوار میں خودکفیل رہا۔ باباے قوم حضرت قائداعظمؒ کی رحلت اور ان کے چند مخلص ساتھیوں کے رخصت ہو جانے کے بعد ہمیں ایسے سیاست دان رہنما ملے جنھوں نے وطن کے قیمتی وسائل کو یا تو نظرانداز کیا یا پھر ذاتی مفاد کے لیے لوٹا۔ غلامی کے دور میں انگریز نے اپنے مقاصد کے لیے بڑے زمین داروں اور کاشت کاروں کا جو نظام قائم کیا آزادی کے بعد اسے ختم کر کے مقامی ضروریات اور حالات کے مطابق زرعی نظام قائم کرنا ضروری تھا۔ بھارت میں پنڈت نہرو نے زرعی اصلاحات کیں‘ جاگیردارانہ نظام کو ختم کر کے ملکی ضروریات اور حالات کے مطابق کاشت کاروں کو مناسب رقبہ زمین کا مالک بنایا۔ حکمرانوں نے ملک کے مفاد میں زراعت کی طرف مناسب توجہ دی اور آج بھارت زرعی لحاظ سے ایک اہم ملک ہے۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد کثیر مقدار میں زرمبادلہ بھی کما رہا ہے۔
پاکستان میں انگریزکے پروردہ جاگیرداروں نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور منصوبہ بندی کے تحت آپس میں گٹھ جوڑ سے بیوروکریسی اور فوج میں بھی اپنے لوگوں کو داخل کر لیا۔ یوں ہر شعبے پر جاگیرداروں کا قبضہ ہو گیا۔ دکھلاوے کے لیے تین دفعہ زرعی اصلاحات کا ڈھونگ بھی رچایا گیا مگر عملاً جاگیردار ہی سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ اب بڑے بڑے صنعت کار‘ تاجر اور بیوروکریٹ بھی ان سے مل گئے ہیں۔ ملک میں ایک اعلیٰ طبقہ وجود میں آگیا ہے جن کی آپس میں رشتے داریاں ہیں‘ ان میں سے جس کسی کی بھی حکومت ہو‘ ایک دوسرے کے مفاد کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ان لوگوںکا ہی زرعی وسائل بلکہ دیہی آبادی پر عملاً قبضہ ہے۔ ان لوگوں نے اتنی دولت اور جایدادیں جمع کر لی ہیں کہ ان کو معلوم کرنا اور حساب لگانا بھی مشکل ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات زندگی کی وجہ سے ہم عصر دنیا میں قدرتی وسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔انسان کی تمام ضروریات قدرتی وسائل سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ ان میں زرعی وسائل کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے زرعی وسائل کو جدید سائنسی طریقوں اور منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال کر کے ان سے ممکنہ حد تک فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ نہایت محدود زرعی وسائل والے ممالک بھی ان سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر زرعی وسائل سے مالا مال پاکستان میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے‘ اس کی ایک مختصر سی روداد پیش کی جاتی ہے۔
قدرتی وسائل کی کھپت تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے ان کی حفاظت یا بچاکر استعمال کرنا (resource conservation) بہت اہم ہو گیا ہے۔ علم الوسائل (resource studies)میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وسائل کو ممکنہ حد تک بہترین طریقے سے منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جائے تاکہ کم از کم استعمال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور اقتصادی ترقی کا عمل جاری رہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ بات سیاسی جماعتوں کے منشور میں بھی شامل ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے زراعت کے لیے بہترین حالات کے ساتھ وسیع اراضی سے نوازا ہے۔ سروے آف پاکستان کی اٹلس کے مطابق پاکستان کا کل رقبہ (بہ شمول آزاد کشمیر اور گلگت) ۸ لاکھ ۴۷ ہزار ۵ سو ۴۹ مربع کلومیٹر ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کا رقبہ بھی شامل کر لیا جائے اور ان شاء اللہ پاکستان میں شامل ہو گا تو کل رقبہ ۱۰ لاکھ ۴۴ ہزار ۲ سو ۵۲ مربع کلومیٹر ہو جائے گا۔ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جن کا رقبہ پاکستان کے ایک ضلع سے بھی کم ہے۔ آبادی کے بارے میں بعض ممالک اور بین الاقوامی ایجنسیاں اپنے مقاصد کی خاطرغیر ضروری تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔ حالانکہ آبادی اس وقت تقریباً ۱۴۱ فی مربع کلومیٹر ہے جو دنیا کے کم گنجان آباد ممالک میں شمار کی جاتی ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کی فی مربع کلومیٹر آبادی پاکستان سے کئی گنا ہے مگر پھر بھی اقتصادی لحاظ سے وہ بہت ترقی یافتہ ہیں۔
پاکستان کے زرعی وسائل کے استعمال میں دو طرح کی غفلت کی جا رہی ہے۔ ایک تو اراضی کی تقسیم اور ملکیت کا انتہائی غیر منصفانہ نظام ہے اور دوسرا صحیح منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
ارضی وسائل کا بہت بڑا حصہ بڑے بڑے زمین داروں کے قبضے میں ہے۔ یہ قومی وسائل یا تو انگریزوں نے ان لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے یعنی قوم کے ساتھ غداری کے عوض دیے‘ یا ان لوگوں نے آزادی کے بعد ایک دوسرے کی معاونت سے خود قبضہ جما لیا۔ ایسے لوگوں کی آمدنیاں مختلف ذرائع سے اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو اراضی کے مناسب استعمال سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں انتہائی پرتعیش محلات میں رہتے ہیں۔ فارغ اوقات غیر ممالک میں گزارتے ہیں۔ بعض نے وہاں بھی جایدادیں بنا رکھی ہیں۔ ان کی پاکستان میں جمع کی ہوئی دولت غیرملکی بنکوں میں ہے اور وہی ممالک اس سے مستفید ہوتے ہیں‘ جب کہ کاشت کاروں کی حیثیت ان لوگوں کے غلاموں کی طرح ہے۔ محنت غریب کاشت کار کرتے ہیں اور پیداوار کا بڑا حصہ زمین داروں کے حواری اور نمایندے لے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں ارضی وسائل کا صحیح استعمال کیسے ممکن ہے۔ یہی زمین دار بڑے صنعت کاروں اور بیوروکریسی کی معاونت سے حکومت پر قابض رہتے ہیں اور ہر قسم کی اصلاح کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ کروڑوں بلکہ اربوں روپوں کے زرعی اور دیگر قرضے لے کر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں اور پھر معاف کروا لیتے ہیں۔
ملک کی ۷۰ فی صد دیہی آبادی کا بڑا حصہ چھوٹے کاشت کاروں پر مشتمل ہے جو یا تو مزارع ہیں یا چھوٹے رقبوں کے مالک۔ زرعی اخراجات بڑھنے کی وجہ سے ان کا گزارا اب زمینوں پر نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کی کافی تعداد بیرون ملک یا ملک کے بڑے شہروں کی طرف محنت مزدوری کے لیے جا رہی ہے۔ مزید زرعی زمینیں بے کار ہو رہی ہیں اور شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے متعدد مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
زرعی وسائل سے غفلت کا دوسرا پہلو منصوبہ بندی کا فقدان یا غلط منصوبہ بندی ہے۔ موجودہ دور میں وسائل سے پورا فائدہ اٹھانے کے لیے صحیح منصوبہ بندی لازمی ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی غفلت برتی جا رہی ہے۔ منصوبہ بندی کے لیے وسائل کی استعداد (quality)کے مطابق صحیح اعداد و شمار لازمی ہوتے ہیں۔ سروے آف پاکستان کی اٹلس کے مطابق پاکستان کا رقبہ ۱۸ کروڑ ۹۶ لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے۔ اس میںبہت کم حصہ ایساہے جو جنگلات‘ آبادی یا مستقل برف پوش ہونے کی وجہ سے زیرکاشت نہیں لایا جا سکتا۔ اب تو آئس لینڈ‘ گرین لینڈ‘ انٹارکٹکا اور دنیا کے دیگر بہت کم درجہ حرارت والے علاقوں میں بھی فصلیں اگائی جا رہی ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل جیسے انتہائی خشک صحرائوں میں اتنی فصلیں اگائی جا رہی ہیں کہ برآمد کی جا رہی ہیں۔ ہمارے اپنے ملک کے پہاڑی علاقوں میں محنتی اور تجربہ کار کاشت کار ایسی اونچی ڈھلانوں پر فصلیں اگاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ راقم زرعی جغرافیہ کے طالب علم کی حیثیت سے یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ سوائے مستقل برف پوش چوٹیوں کے پاکستان کے تمام رقبے کو زیر کاشت لایا جاسکتا ہے۔ ہمارے کاشت کار تو معجزے دکھا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں مناسب ماحول اور سہولتیں مہیا کی جائیں۔ مگر ارضی وسائل سے غفلت کی حالت یہ ہے کہ وطن عزیز کے کل رقبے کے صرف ایک چوتھائی حصے کے بارے میں ہی معلومات دستیاب ہیں جو کہ غیر یقینی ہیں۔ ان معلومات کی فراہمی کا ذریعہ Pakistan Agricultural Census Organization ہے جس نے آخری سروے ۱۹۹۰ء میں کیا اور ۴ کروڑ ۷۰ لاکھ ایکڑ رقبے کے بارے میں کچھ معلومات جمع کیں۔ یہ رقبہ پاکستان کے کل رقبے یعنی ۱۸ کروڑ ۹۶ لاکھ ایکڑ کا تقریباً ۲۵ فی صد ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں اس پر کوئی اعتبار بھی نہ کرے گا ۔جو معلومات ہیں وہ بھی غیر یقینی ہیں۔ زمین کی اقسام کے بارے میں معلومات تو ناقابل یقین ہیں۔ اس لیے کہ ان کا ذریعہ محکمہ مال کا پٹواری ہے جس کی تعلیم میٹرک تک ہوتی ہے اور زراعت وغیرہ میں اس کی کوئی تعلیم و تربیت یا تجربہ نہیں ہوتا‘ جب کہ اقسام زمین کا تعین کرنا‘ تجربے‘ مہارت اور نئی تربیت کا متقاضی ہے جو ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔
اراضی کے اعداد و شمار ناقابل اعتبار ہونے کا عملی تجربہ راقم کو ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پڑھے گئے مقالے کے لیے اعداد و شمار جمع کرنے کے دوران ہوا۔ پاکستان میں زرعی اعداد و شمار جمع کرنے کا کام پاکستان ایگریکلچرل سینسس آرگنائزیشن کے علاوہ چار مزید محکمے کرتے ہیں‘ یعنی محکمہ مال‘ ایگریکلچرل ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ‘ بیورو آف اسٹیٹکس اور ڈسٹرکٹ اسٹیٹیکل آفس۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب اداروں کے مہیا کیے گئے اعداد و شمار میں واضح فرق ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن کا رقبہ ایگریکلچر سینسس کے مطابق ۱۰ لاکھ ایکڑ ہے ‘ جب کہ ڈسٹرکٹ اسٹیٹکس آفس کے مطابق یہ ۲۹ لاکھ ایکڑ ہے۔ چونکہ نظام یکساں ہے اس لیے گمان یہی ہے کہ یہی حالت تمام ملک میں ہو گی۔واضح رہے کہ اعداد و شمار غلط ہونے کے علاوہ مختلف محکمے ایک ہی کام میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں صحیح منصوبہ بندی کیسے کی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں وسیع اور بہترین زرعی وسائل سے نوازا ہے۔ ہم ان کا مناسب استعمال نہ کر کے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کر رہے ہیں‘ اقتصادی اور معاشی پس ماندگی کا شکار ہیں اور اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ وسائل کا‘جو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں‘ بہترین استعمال کیا جائے۔
تفصیلی زمینی سروے : پہلی ضرورت ملکی ارضی وسائل کا تفصیلی سروے ہے ۔ سروے ٹیموں میں نہ صرف زراعت بلکہ دیگر متعلقہ محکموں اور اداروں کے ماہرین‘ زراعت اور جغرافیہ سے تعلق رکھنے والی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے ماہرین شامل ہوں۔ تمام اراضی کے جغرافیائی حالات‘ ملکیت‘ اقسام اور صلاحیت کے بارے میں تفصیلی نقشے بنائے جائیں جن کی بنیاد پر ملکی حالا ت اور وسائل کی روشنی میں مکمل منصوبہ بندی کی جائے ۔ اسی طرح کی ایک مشہور سروے رپورٹ ۵۰‘ ۶۰ سال قبل لندن یونی ورسٹی میں جغرافیہ کے بین الاقوامی شہرت کے پروفیسر ایل ڈی سیٹنپ نے برطانیہ کے زرعی وسائل کے بارے میں لکھی تھی جس کی روشنی میں برطانیہ میں زرعی وسائل سے مکمل فائدہ اٹھایا گیا بلکہ کئی دیگر ممالک نے بھی انھی خطوط پر کام کیا۔
حقیقی زرعی اصلاحات کا نفاذ : پاکستان میں جب ایسی مفصل رپورٹ تیار ہو جائے تو سب سے پہلے زرعی اصلاحات کی جائیں جو واقعی زرعی اصلاحات ہوں۔ پہلے ماہرین یہ فیصلہ کریں کہ ملک کے مختلف حصوں میں حالات کے مطابق ایک خاندان کی ملکیت کتنی زمین ہو کہ جس کا صحیح استعمال کر کے باعزت زندگی گزاری جا سکے۔ جن لوگوں کے پاس اس سے زیادہ زمینیں ہیں عام طور پر یا تو انگریز بہادر نے ان کو اپنی خدمات یعنی قوم سے غداری کے صلے میں دی ہیں‘ یا آزادی کے بعد انھوں نے ناجائز طریقوں سے حاصل کی ہیں۔ ایسی زمینیں بلامعاوضہ لے لی جائیں۔ بہرکیف جہاں کسی کی جائز ملکیت بھی ضرورت سے زائد ہے اسے جائز معاوضہ دے کر واپس لے لیا جائے۔ جہاں پر کروڑوں بے زمین یا کم زمینوں کے مالک کاشت کار دن رات محنت کے باوجود اپنے بال بچوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے وہاں پر ایسے لینڈ لارڈز کی کہاں گنجایش ہے جن کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ان کی زمینیں کتنی ہیں۔ اسلامی اصول بھی یہی ہے کہ زمین اس کی ہے جو کاشت کرتا ہو۔ اس لیے زائد زمینوں کو کاشت کاروں میں تقسیم کر دیا جائے۔
پیشہ ورانہ رہنمائی کا اہتمام :حکومت کے متعلقہ محکمے مناسب مالی اور پیشہ ورانہ امداد مہیا کریں۔ کئی دیگر ممالک کی طرح کاشت کاروں کو فصل بونے سے پہلے یہ بھی بتا دیا جائے کہ کون سی اور کتنی زمین میں کون سی فصل کاشت کی جائے۔
پیداوار کی مناسب قیمت کا تعین : زرعی پیداوار کی مناسب قیمت اور اس کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ کاشت کاروں کو تاجروں اور مڈل مین کے استحصال سے بھی بچایا جائے۔
متعلقہ اداروں کی تنظیم نو: زراعت اور اس سے متعلقہ اداروں کو ایک یا کم سے کم محکموں میں مدغم کر دیا جائے جن کا آپس میں قریبی عملی رابطہ ہو۔ متعلقہ محکموں کے تمام ملازمین‘ چاہے کسی لیول کے ہوں‘ اپنے آپ کو کاشت کاروں کا معاون بلکہ خادم سمجھیں۔ غلامی کے وقت کے افسرانہ رویہ کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ ملازمین کاشت کاروں کے پاس جا کر مطلوبہ ضروریات مہیاکریں۔ یہی طریقہ کار دنیا میں رائج ہے۔ بھارت نے بھی اسی پالیسی کی وجہ سے زراعت میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔
زرعی زمین کی تقسیم کا قانون: اس کے ساتھ ایک اور ضروری قدم یہ اٹھانا چاہیے کہ کم از کم پیداواری اور اقتصادی یونٹ سے نیچے زرعی زمین کی مزید تقسیم کو قانوناً ختم کر دیا جائے۔ اسلامی وراثت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وارثین کو زمین کے بدلے انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے جائز قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔ دنیا کے بعض ممالک میں یہ طریقہ کار کامیابی سے چل رہا ہے۔
اگر حکومت مندرجہ بالا اقدامات اٹھا لے‘ تو اس کی یہ خدمت آزادی دلانے والے محسنین سے کم نہیں ہو گی۔ راقم کو پورا یقین ہے کہ اگر اخلاص سے زراعت میں یہ تبدیلیاں کر دی جائیں تو چند سالوں میں ہم نہ صرف ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو سکتے ہیں بلکہ جس مقصد کے لیے وطن عزیز حاصل کیا گیا تھا وہ بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔