فروری ۲۰۰۱

فہرست مضامین

سائنس ‘ ٹکنالوجی اور امت مسلمہ

محمد ایوب منیر | فروری ۲۰۰۱ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

سائنسی علوم خصوصاً انفارمیشن ٹکنالوجی نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ قوموں کی اقتصادیات تبدیل ہوئی ہے اور کئی ممالک نے کم از کم دنیوی بلندیوں کا سفر شروع کر دیا ہے‘ لیکن مسلمان ممالک مجموعی طور پر سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں کوئی کارہاے نمایاں انجام نہیں دے سکے۔ یہاں سائنس اور ٹکنالوجی کی اہمیت کا بیان تو بہت ہوتا ہے‘ لیکن آزادی کے بعد بھی‘ اس طرف قرار واقعی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جن ممالک میں وسائل کی افراط ہے‘ وہاں بھی فکر نہیں کی گئی کہ اس میدان کی دوڑ میں بعد میں شامل ہونے کی وجہ سے خصوصی منصوبہ بندی کر کے کسر پوری کی جائے۔

اس حوالے سے پاکستان میں خوش گوار تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ وزارت سائنس کا قلم دان ایک نامی گرامی سائنس دان ڈاکٹر عطاء الرحمن کے حوالے کر کے‘ مطلوبہ بجٹ بھی دیا گیا ہے جو معمول کے بجٹ سے ۵ ہزار فی صد زیادہ ہے۔ ان کی رہنمائی میں اس میدان میں آغازِ کار ہوا ہے۔ پی ایچ ڈی اور دیگر کے لیے‘ ملکی اور بیرونی وظائف کا اعلان ہی نہیں ہوا ہے‘ اچھی علامت یہ ہے کہ وظائف دیے جانے شروع ہو گئے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ چند برسوں میں اس کے نتائج نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ ایٹمی دوڑ میں تو پاکستان نے بھارت سے آگے بڑھ کر دکھایا ہے‘ اب انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں بھی مقابلہ شروع کیا ہے جس میں بھارت کا مقام ساری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی یہ صورت حال ۵۳ سال کی اپنی حوصلہ شکن کارکردگی اور امت مسلمہ کے عمومی پس منظر میں خصوصی طور پر حوصلہ افزا اور خوش آیند ہے۔ سائنس کے عالمی منظر پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں لاکھوں تحقیق کار‘ تحقیقی مراکز میں مستقبل کے نقشے وضع کر رہے ہیں۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ سے منسلک سائنس دانوں کی تعداد امریکہ میں ساڑھے ۹ لاکھ سے زائد اور جاپان میں ۸ لاکھ ہے‘  جب کہ پاکستان میں صرف ۱۲ ہزار ہے۔ ساری دنیا کی سائنس و ٹکنالوجی ریسرچ کے مصارف کا تخمینہ لگایا جائے تو اسلامی دنیا کا حصہ صرف ایک فی صد بنتا ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور ۲۰ لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں‘ جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی کتب اور مقالات کی سالانہ تعدادایک ہزار سے زائد نہیں۔امریکہ میں معیاری جامعات‘ جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے‘ اُن میں ہر ایک کاسالانہ بجٹ ایک ارب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔ جوہری دھماکے سے سرخرو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف ۸ کروڑ ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں اور یہاں سائنس کے مضامین میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد ۴۰‘ ۵۰ افراد سالانہ ہے۔

مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ۵۶ خود مختار اسلامی ممالک کی مجموعی قومی پیداوار ایک ہزار ایک سو ۵۰ ارب امریکی ڈالر ہے‘ جب کہ جرمنی کی ۲ ہزار ۴ سو ارب ڈالر اور جاپان کی ۵ ہزار ایک سو ارب ڈالر ہے۔ تمام مسلم ممالک میں سائنس و ٹکنالوجی کی تحقیق پر مجموعی طور پر جو رقم خرچ کی جاتی ہے‘ جرمنی اُس سے دُگنی اور جاپان چار گنا زائد رقم خرچ کرتا ہے۔

آج سائنس اور ٹکنالوجی مادیت کی علامت بن گئی ہے۔ جب مسلمان سائنس کے بھی امام تھے تو یہ صورت نہ تھی۔ مسلمانوں کو دنیا کی امامت سنبھالنا ہے تو اپنی تہذیب اور اقدار کا علم ہاتھ میں لے کر سائنس کے میدان میں مغرب سے آگے بڑھنا ہوگا۔ مغرب مادیت کے سیلاب میں بہا چلا جا رہا ہے‘ اخلاقی قدریں ختم ہو رہی ہیں‘ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ چکا ہے‘ زندگی سکون سے محروم ہے۔ بدقسمتی سے اس کے عالمی اثرات کے تحت مسلم معاشرے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو سائنس کے میدان میں قدم آگے بڑھاتے ہوئے‘ یہ خیال رکھنا ہوگا کہ تہذیب و ثقافت اور اقدار مغرب سے نہ لیں۔ اب تو رابطوں میں اضافے اور آسانی کی وجہ سے ۲۱ ویں صدی کے عالمی گائوں میں ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ زندگی گزارنے کے لیے ہم مسلمانوں کے پاس خالق کائنات کا جو پیغام ہے‘ مغرب اپنے مسائل کا حل اس میں تلاش کرے۔

کینیا: منجیکی رہنمائوں کا قبولِ اسلام

مسلم سجاد

منجیکی فرقے کے ۱۳ رہنمائوں نے کینیا کے وسطی صوبے سے‘ نیروبی سے ۵۰۰ کلومیٹر دور ساحلی شہر ممباسہ آکر اسلام قبول کیا۔ یہاں ائمہ و خطبا کی انجمن نے ان کا استقبال کیا۔ منجیکی تنظیموں کے مرکزی رہنما جن کا نام اب ابراہیم ہے‘ اور بانی رکن محمد جینحا اسلام قبول کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اہم صوبائی رہنما اور خاتون رہنما خدیجہ دنگاری‘ سب ہی نعمت ایمان سے مشرف ہوئے۔ اب ہر ہفتے ۱۰۰ سے زائد افراد اسلام قبول کر رہے ہیں۔

کی کی یو میں منجیکی کا مطلب کثرت افراد ہے۔ گروپ بیش تر کی کی یو برادری پر مشتمل ہے‘ تاہم  تائے تا‘ کانجن‘ دودوبو اور دوسرے قبائل کے افراد بھی اس میں شامل ہیں۔ کل تعداد کا اندازہ ۳ لاکھ ہے۔

منجیکی کہتے ہیں کہ ان کے رسوم و رواج مسلمانوں سے زیادہ مختلف نہیں اور یہ بھی اسلام قبول کرنے کی ایک وجہ ہے۔ کینیا کے مسلمانوں نے انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے اسلام کی پیروی کرنے اور اس کا پیغام پھیلانے کی تلقین کی۔ اس فرقے کے لوگوں کو سگریٹ نوشی اور شراب کی ممانعت ہے۔ مغربی لباس کو جسم کے نشیب و فراز ظاہر کرنے کی وجہ سے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اسے طوائفوں کا لباس سمجھا جاتا ہے۔ پتلون اور منی اسکرٹ اسی لیے ممنوع ہیں۔ یہ لوگ ایک سے زائد عورتوں سے شادی کرنے اور جن لڑکیوں کی مرد نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہ ہورہی ہو‘ ان سے شادی کرنے کو قابل تحسین قرار دیتے ہیں۔

مسلمان کینیا کی آبادی کا ۲۵‘۳۰ فی صد ہیں۔ قومی سیاست میں اچھا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ دوسرے افریقی ملکوں کی طرح کینیا کا بھی اصل مسئلہ اچھی حکمرانی (گڈگورننس ) ہے۔ مسلمانوں نے ان لوگوں سے اپنے کو علیحدہ رکھا ہے جو انقلاب کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں‘ اس لیے کہ اس سے معاشی اور سیاسی انتشار پیدا ہوگا۔ مسلمانوں نے عموماً صدر ڈینیل موئی کی حمایت کی ہے۔ گذشتہ انتخابات میں اس کی جیت مسلمانوں کے ووٹ کی مرہون منت تھی۔ اب دو برس بعد انتخابات ہونا ہیں۔ دستور پر نظرثانی کے عمل نے سیاست دانوں اور کلیسا کے ذمہ داروں دونوں کو بیچ سے تقسیم کر دیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں صدر موئی دوسری پانچ سالہ مدت ختم کریں گے‘ اسی لیے جانشینی کی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

منجیکی کے قبولِ اسلام کے کیااثرات ہوں گے؟ کینیا کے گرجوں کی قومی انجمن (NCCK) اس پر ناخوش ہے اور اس نے اس پر سیکیورٹی رسک کا واویلا شروع کر دیا ہے۔ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ان کی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے کہ کیا اس کے پیچھے کوئی مذموم مقاصد ہیں؟ کلیسا کے رہنمائوں نے اپنے پیروکاروں کو منجیکیوں سے دُور رہنے کا انتباہ بھی دیا ہے۔

حکومت سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اوّل: منجیکی قبولِ اسلام کے باوجود بھی کی کی یو ہونے کی وجہ سے صدر موئی کی حمایتی ثابت نہ ہوں گے۔ دوم: بالکل ممکن ہے کہ حکومت کے مخالف مسلمان‘ منجیکیوں کو اپنے ساتھ ملا لیں۔

مسلم رہنما نہیں چاہتے کہ اس قبولِ اسلام کو سیاسی رنگ دیا جائے۔ وہ حکومت کے حق میں ووٹ دیں‘ یا مخالفت میں‘ اس کا تعلق اس سے نہ جوڑا جائے۔ حکومت کو ضرور یہ چاہیے کہ منجیکی کے بارے میں اپنی پالیسی پر غور کرے۔ گروپ کے لیڈر ابراہیم واوانگے نے حکومت سے یہی بات کہی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ منجیکیوں کی رائے اپنے حق میں استوار کرے (ماخوذ ماہنامہ امپیکٹ‘ لندن‘ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔