فروری ۲۰۰۱

فہرست مضامین

کشمیر کی تحریک جہاد : خطرات اور امکانات

پروفیسر خورشید احمد | فروری ۲۰۰۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

کشمیر کی تحریک جہاد ایک بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ بھارت کے حکمرانوں‘ امریکی سیاست کاروں اور خود ہماری قیادت کی طرف سے جس نوعیت کے سگنل مل رہے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ عالمی رجحانات‘ سامراجی سیاست کے پیچ و خم اور خود ملکی حالات کی روشنی میں تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور ان خطرات کی نشان دہی کی جائے جو پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک کو درپیش ہیں۔ نیز ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ حکمت عملی کے خدوخال بھی واضح کیے جائیں تاکہ مستقبل کے امکانات سے فائدہ اٹھایاجا سکے۔

مذاکرات‘ مگر کس قیمت پر: کشمیر کا مسئلہ محض کسی زمین اور علاقے کا جھگڑا نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کی حفاظت اور سوا کروڑانسانوں کی آزادی‘ سلامتی اور ان کے نظریاتی اور دینی مستقبل کا سوال ہے۔ جس اصول پر اور جس فارمولے کے تحت ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور بھارت انگریزی اقتدار سے آزاد ہوئے ہیں‘ انھی کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر کی مستقل حیثیت پر ہوتا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے قول و قرار کے علی الرغم ریاست کے بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور ۵۳ سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو ظلم کے شکنجے میں کس کر تعذیب کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے‘ جن کی عظیم اکثریت مسلمان ہے اور پاکستان سے محبت کرنے والی ہے‘ اس سامراجی قبضے کو ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ وہ روزِ اوّل سے اس کے خلاف سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جولائی ۱۹۴۷ء میں مسلم کانفرنس نے ‘ جو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تھی‘ کھلے بندوںپاکستان سے الحاق کا اعلان کیا اور جب ڈوگرہ حکمرانوں اور بھارت کی قیادت نے سازش کے ذریعے ان پر فوج کشی کے ذریعے بھارت کا تسلّط قائم کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے عملی بغاوت کے ذریعے ریاست کے ایک تہائی حصے کو آزاد کرا لیا۔ اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں اور عالمی ادارے کے تحت جنگ بندی اور استصواب کے وعدے کے بعد مزاحمت کی تحریک عوامی سیاسی جدوجہد کی شکل میں جاری رہی لیکن جب جبر و ظلم کے نظام نے ایسی صورت پیدا کر دی کہ عملی جہاد کے سوا کوئی چارہ نہ رہا  تو ۱۹۸۹ء سے جہاد کا آغاز کیا گیا جو اب تک جاری ہے۔اسی جہاد کا نتیجہ ہے کہ اب بھارت کے حکمران کسی حل کی بات کرنے لگے ہیں‘ گو اپنی روایتی مکّاری اور چال بازی کے ساتھ۔  اس پورے زمانے میں عالمی رائے عامہ اور انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن مفاد پرستی اور سامراجی عزائم نے بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں اور ضمیر پر بے حسّی طاری کیے رکھی۔ بھارت کی ۷ لاکھ افواج کے مظالم کو روکنے کے لیے کوئی موثر کارروائی نہ کی گئی۔ پاکستانی قوم اور حکومتوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کی جدوجہد میں مقدور بھر ان کا ساتھ دیا اور یہ کشمیری مجاہدین کی قربانیاں اور مسلمانان جموں و کشمیر کے صبر واستقلال کا نتیجہ ہے کہ اب بھارت کو ’’رمضان‘‘ اور ’’جنگ بندی‘‘ کا احساس ہونے لگا ہے ورنہ‘ نہ رمضان اس سال پہلی مرتبہ آیا ہے اور نہ جہاد کا آغاز سنہ ۲۰۰۰ء میں ہوا ہے اور نہ حریت کانفرنس کوئی نئی مخلوق ہے جس کی دریافت (وہ بھی جزوی اور selective) اب ہو رہی ہے!

پاکستانی قوم اور کشمیری مسلمان دل و جان سے امن کے خواہاں ہیں لیکن امن محض حالت جنگ کے نہ ہونے کا نام نہیں۔ امن تو حق و انصاف ہی کی بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ جنگ بندی نہیں‘ ان اسباب اور حالات کو تبدیل کرنا ہے جن سے مجبور ہو کر مسلمانان جموں و کشمیر بھارت کی فوجی یلغار کے خلاف جہاد بستہ ہوئے ہیں۔ بھارت کی دل چسپی صرف جہادی دبائو سے نجات میں ہے‘ جب کہ جہادی اور عوامی قوتوں کا ہدف مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے تاکہ ا ہلِ کشمیر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اپنی آزاد مرضی سے بین الاقوامی اہتمام میں منعقد ہونے والے استصواب کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کر سکیں۔ اس طرح اصل ایشو یہ نہیں کہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ مذاکرات تو پچھلے ۵۰ برسوں میں بارہا ہو چکے ہیں اور لاحاصل رہے ہیں۔ مذاکرات وہی مفید ہو سکتے ہیں جو اصل مسئلے کے بارے میں ہوں اور اس فریم ورک میں ہوں جو مسئلے کے حل پر منتج ہو سکیں۔ پاک بھارت تعلقات کی ۵۰ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ بھارت نے جنگ بندی یا مذاکرات کا سہارا صرف اسی وقت لیا ہے جب اس پر دبائوناقابل برداشت ہوا اور محض اس دبائو سے نجات کے لیے یہ حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ ۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۲ء میں بھارت نے یہی کھیل کھیلا تھا اور اقوام متحدہ اور امریکہ اور برطانیہ نے اسے وہ چھتری فراہم کی جس کے تحت اس نے پناہ لی۔ تاشقند اور شملہ کے معاہدات میں مذاکرات کے راستے مسئلہ کشمیر کے حل کا وعدہ کیا گیا مگر ۳۵ اور ۲۸ سال محض طفل تسلیوں میں گنوا دیے گئے اور کوئی نتیجہ خیز بات چیت واقع نہ ہو سکی۔ ان سارے تجربات کی روشنی میں اگر کسی قابل عمل نظامِ کار کے بغیر محض امریکہ کے اثر و رسوخ یا بھارت کے وعدوں کی بنیاد پر جہادی دبائو کو ختم یا کم کیا گیا تو نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ حالات کا صحیح صحیح جائزہ لیا جائے اور اپنے اور دنیا کے دوسرے تجربات کی روشنی میں موثر حکمت عملی اپنائی جائے۔

تشویش کے پہلو : مسئلہ کشمیر کے موجودہ مرحلے اور آیندہ کے خطرات اور امکانات کی تفہیم کے لیے سب سے پہلے بنیادی حقائق کو ذہن میں تازہ کرنا ضروری ہے۔

اوّل: اصل مسئلہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل اور مستقل حیثیت کا ہے۔ بھارت کی

’’اٹوٹ انگ‘‘ کی رٹ کے باوجود اصل حقیقت یہی ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جسے اقوام متحدہ ‘ یوروپین یونین‘ او آئی سی سب نے متنازع تسلیم کیا ہے‘ خود بھارت نے ماضی میں تصفیہ طلب مانا ہے اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے خون سے گواہی دے کر اسے متنازع تسلیم کرا لیا ہے۔ پھر معاملہ لائن آف کنٹرول اور اسے بین الاقوامی سرحد بنانے کا نہیں‘ بلکہ پوری ریاست جو ایک سیاسی اکائی تھی اور ہے‘ اسے اپنے مستقبل کو طے کرنے کا موقع فراہم کرنے کا ہے۔ اس طرح اس تنازع کے چار فریق ہیں: بھارت‘ پاکستان‘ کشمیری عوام اور اقوام متحدہ۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں وہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی فریم ورک فراہم کرتی ہیں جس کے ذریعے کشمیری عوام اپنا مستقبل طے کر سکتے ہیں۔ سہ فریقی مذاکرات ضروری ہیں لیکن ان کا مقصد اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تنفیذ کے لیے مطلوبہ اقدام ہونا چاہیے‘ کسی نئی بحث کاآغاز یا کسی نئے سامراجی کھیل کی صف بندی نہیں۔

دوم:  ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر آج بھارت ‘ اور خصوصیت سے اس کی بی جے پی کی متعصب قیادت کسی درجے میں بات چیت کا عندیہ دے رہی ہے تو اس کی وجہ نہ دل کی تبدیلی ہے اور نہ دل کی آرزو میں کوئی تغیر۔ یہ محض ان معروضی حالات کا نتیجہ ہے جو جہادی جدوجہد کے نتیجے میں رونما ہوئے ہیں اور جن کے تین پہلو ہیں:

۱-  ۵۳ سال تک جبری قبضے اور گذشتہ بارہ سال میں خصوصی طور پر غیر معمولی عسکری قوت کے بے محابا استعمال اور ۷۰‘ ۸۰ ہزار بے گناہ انسانوں کے قتل کے باوجود بھارت محض عسکری قوت سے اہل جموں و کشمیر کو دبانے میں ناکام رہا ہے اور اب ہر سطح پر اس حقیقت کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھارت کے ساتھ کسی صورت میں اور کسی شرط پر بھی رہنے کو تیار نہیں۔ بھارت کے لیے مسئلے کا عسکری حل ممکن نہیں۔ اس کی فوجی قیادت بار بار اس کا برملا اعلان کر رہی ہے‘ اور خود فوج کے بارے میں جو رپورٹیں آرہی ہیں وہ صاف ظاہر کر رہی ہیں کہ فوج میں بغاوت‘ اضطراب‘ نفسیاتی دبائو‘ بے اطمینانی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ملک میں بحیثیت مجموعی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ محض قوت سے کشمیر کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا۔ نیز معاشی اعتبار سے یہ کھیل روز بروز مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کے مشہور ماہنامہ سیمی نار نے اپنا دسمبر ۲۰۰۰ء کا پورا شمارہ کشمیر میں پائے جانے والے ان زمینی حقائق کے لیے مخصوص کیا ہے۔   دی ہندو‘  ہندستان ٹائمز اور فرنٹ لائنکے مضامین اس بڑھتے ہوئے احساس کا مظہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف سطح پر کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن صاف اور سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ساری توجہ اس پر ہے کہ کسی طرح جہادی دبائو ختم ہو جائے اور پھر کوئی ایسا کھیل کھیلا جا سکے جس کا سیاسی فائدہ بھارت کو ہو‘ اور اہل کشمیر کسی دوسرے جال میں پھنس جائیں۔ نیز پاکستان کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ صرف جہادی دبائو اور کشمیر کو قبضے میں رکھنے کی قیمت کا ناقابل برداشت بنتے جانا ہے جو بھارت کو مذاکرات کی طرف لا رہا ہے اور مزید لائے گا۔

۲- پاکستان کا اس مسئلے کے بارے میں مضبوط اصولی‘ موقف اور بھارت کے ساتھ پاکستان کا کھل کر ایک نیوکلیر قوت بن جانا ہے جس کی وجہ سے بھارت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جنگ کے دائرے کو بڑھا کر وہ اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا۔

۳-  عالمی رائے عامہ کا نیا رجحان اس علاقے کو نیوکلیر جنگ کے خطرے سے محفوظ کرنے کے لیے اسے کشمیر کے مسئلے میں دل چسپی پر مجبور کر رہا ہے۔ دنیا کا ضمیرسو رہا تھا۔ یہ صرف نیوکلیر استعداد کا اظہار تھا جس نے پی-۵  اور جی-۷ اورسلامتی کونسل اور خصوصیت سے امریکہ کو اس مسئلے میں دل چسپی لینے پر مجبور کیا اور جس کا اظہار حال ہی میں امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ہنری ہیوگ شیلٹن نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ: ’’ایشیا کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کی اونچی سرحدوں‘ ٹوکیو کے اسٹاک ایکسچینج کے فلور اور شنگھائی اور ہانگ کانگ کے خصوصی اقتصادی خطوں میں ہوگا‘‘۔ اس احساس کے باوجود کوشش یہ نہیں ہے کہ اصل مسئلے کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے بلکہ کوشش یہی ہے کہ کوئی ایسا متبادل راستہ نکال لیا جائے جس سے مسئلہ تحلیل (diffuse) ہو جائے۔لیکن بہرحال عالمی دبائو ایک عامل کی حیثیت سے رونما ہو رہا ہے اور اگر جہادی دبائو جاری رہتا ہے  اور پاکستان کوئی کمزوری نہیں دکھاتا تو یہ عالمی دبائو بھی لازماً بڑھے گا۔ وقت جہاد کشمیر کی تحریک کے حق میں ہے۔

ان تینوں عوامل کا نتیجہ ہے کہ بھارت‘ امریکہ اور متعلقہ حلقوں میں کسی نہ کسی حل کی تلاش کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان پر روز بروز دبائو بڑھ رہا ہے جسے خصوصیت سے دو وجوہ نے تشویش ناک بنا دیا ہے۔ ایک پاکستان کی معیشت اچھی حالت میں نہیں ہے۔ قرضوں کا بوجھ‘ مہنگائی کا طوفان‘ بے روزگاری کا سیلاب‘ بیرونی پابندیوں کی کاٹ‘ ان سب کا فائدہ اٹھا کر ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک حکومت کو گھیرنے اور کارنر کرنے میں مصروف ہیں اور پھر فوجی حکومت اپنی بین الاقوامی قبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ دربدر کی ٹھوکریں کھائی جا رہی ہیں‘ مجرموں کو فرار کی راہیں دکھائی جا رہی ہیں‘ امریکہ کی خوشنودی کے لیے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ میٹنگیں کر رہے ہیں۔ اگرچہ چیف ایگزیکٹو نے کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف پر قائم رہنے کا بار بار اعلان کیا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنا‘ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کنٹرول لائن سے فوجوں کی واپسی‘ بھارت کی نام نہاد یک طرفہ جنگ بندی (جب کہ مظالم کا سلسلہ جاری ہے) کے اعلان پر maximum restraint (انتہائی صبروتحمل) کا اعلان‘ ملک میں جہادی تنظیموں کے گرد دائرہ تنگ کرنے کی کوشش‘ بھارت سے تجارت کی پینگیں بڑھانے کی سعی‘ حریت کانفرنس کو بھارت سے دو طرفہ مذاکرات کی شہہ‘ وزارت خارجہ کے ترجمان کا حریت کانفرنس کو ایک قسم کے مینڈیٹ دینے کا اعلان‘ وزیر خارجہ کے پھسپھسے اور ڈانواں ڈول بیانات‘ اعلان لاہور سے نئی وابستگی اور بھارت کی طرف سے ٹریک ٹو اور ٹریک تھری ڈپلومیسی کرنے والے سابق فوجیوں‘ دانش وروں اور خواتین کی یلغار اور خود ہماری طرف سے نیازنائیک اور ڈاکٹر مبشر جیسے حضرات کی بھاگ دوڑ اور مخصوص دانش وروں اور کالم نگاروں کا ’’لچک‘‘ (flexibility) اور ’’حقیقت پسندی‘‘ (realism) کا درس  --- یہ سب وہ چیزیں ہیں‘ جو تشویش میں اضافہ کرتی ہیں اوراصولی موقف کو کمزور کرنے والی ہیں۔

اوسلو ماڈل :  اس پورے تناظر میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس چیز کو اوسلو عمل (Oslo process) کہا جاتا ہے وہ ہے کیا؟ اور اس کے مسئلہ کشمیر کے لیے کیا مضمرات ہیں۔

فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کے مسئلے کی طرح اقوام متحدہ کا عطیہ اور ۵۲ سال پرانا ہے۔ کشمیر اور فلسطین دونوں کے سلسلے میں تین بار جنگ کی نوبت آ چکی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ فلسطین کے میدانِ جنگ میں اسرائیل کو ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۷ء میں مکمل بالادستی اور ۱۹۷۲ء میں جزوی بالادستی رہی جب کہ پاکستان کو ۱۹۷۱ء میں ضرور شکست ہوئی مگر ۱۹۶۵ء اور پھر ۱۹۸۷ء کی جنگی مشقوں اور ۱۹۹۸ء میں نیوکلیر استعداد کے اظہار کے نتیجے میں ہماری اور عربوں کی عسکری کارکردگی (performance) بڑی مختلف رہی ہے اور الحمدللہ پاکستان ایک مستحکم پوزیشن میں ہے جو بھارت کی کسی بھی جارحیت کے خلاف ایک دفاعی حصار ہے۔

کیمپ ڈیوڈ کا عمل ۱۹۷۸ء میں اور اوسلو ۱۹۹۳ء میں شروع ہوا اور ۲۰۰۰ء میں عملاً اس پورے کھیل نے دم توڑ دیا اور بالآخر  فلسطینیوں کو انتفاضہ الاقصیٰ کا آغاز کرنا پڑا جس نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین میں ایک نئی روح پھونک دی ہے‘ اور اسرائیل کے ٹینک اور ہیلی کاپٹر نوجوان کے پتھروں کے آگے بے بس ہوتے جا رہے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کے اہم پہلوئوں کی مختصر وضاحت کردی جائے تاکہ فلسطین کے اس تجربے سے سبق لیا جا سکے جسے کیمپ ڈیوڈ / اوسلو عمل کہا جاتا ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:

۱-  مسئلہ فلسطین کے ایک جامع اور ہمہ جہتی حل (comprehensive solution) کے بجائے  قدم بہ قدم (step by step)  اور ایک ایک جزو کو الگ الگ لے کر (piecemeal) مرکزی مسئلے/ مسائل کے حل کی طرف مراجعت کی جائے۔ مرکزی مسئلے اور مستقل حیثیت کو سب سے آخر میں لیا جائے۔ اعتماد قائم کرنے والے اقدام کیے جائیں۔ زمین کے ٹکڑوں کے بدلے امن کی ٹکڑیاں حاصل کی جائیں اور اسی طرح ایک لمبے عرصے میں آہستہ آہستہ کوئی حل نکالا جائے۔

۲-  اقوام متحدہ اور اس کی قراردادوں کو پس پشت رکھا جائے اور مذاکرات کے ذریعے نئے حل تلاش کیے جائیں۔

۳-  عالمی اداروں اور دوسری حکومتوں کو باہر رکھا جائے۔ صرف اسرائیلی اور فلسطینی مسئلے کا حل نکالیں۔ صرف امریکہ مددگار اور مصالحت کا کردار ادا کرے۔ دوسرے عرب ممالک کو ایک ایک کر کے الگ کر دیا جائے۔  البتہ ان سب ممالک سے اسرائیل کے الگ الگ معاہدے ہوں۔ ان سے اسرائیل کے امن معاہدے ہو جائیں اور اسرائیل کے جواز کو وہ قبول کر لیں۔ سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کیے جائیں اور اس طرح فلسطینیوں اور مسئلہ فلسطین پوری عرب اور اسلامی دنیا سے کاٹ کر ایک کونے میں لگا کر تنہا کر دیا جائے۔ اس طرح فلسطین کے حل میں ان کا کوئی کردار نہ ہو بلکہ مسئلے کو دو فریقی مذاکرات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے جنھیں اسرائیل جس طرح چاہے  جوڑ توڑ کر کے اپنے حق میں استعمال کرے۔

۴- فلسطینی ریاست کا قیام‘ بیت المقدس کی حیثیت اور حاکمیت اعلیٰ (sovereignty) کے مسائل کو مؤخر کیا جائے اور ساری توجہ محدود بلدیاتی اختیارات‘ جزوی کنٹرول اور معاشی ترقی و تجارت پر مرکوز کی جائے۔

۵-  ’’تشدد کا خاتمہ‘‘ کو سب سے زیادہ اہمیت کا مسئلہ بنا دیا جائے۔ اس کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی ذمہ داری ہو کہ وہ اسرائیل کے تحفظ کی ضامن بنے اور جہادی قوتوں کو قابو میں کرے۔ آزادی کی تحریک کو تشدد (terrorism)قرار دے کر‘ امن اور اسرائیل کے تحفظ کو سلامتی کی مشترک حکمت (joint security strategy) کے تابع کیا جائے۔

۶-  امن کے اس طویل عمل کے دوران اسرائیل کو یہ موقع حاصل رہا کہ عربوں کے علاقوں میں نئی نئی آبادیاں بنا لے اور پورے فلسطین کے ۷۸ فی صد پر تو اسے پہلے ہی (یعنی ۱۹۷۶ء سے قبل سے) مکمل قبضہ اور حاکمیت حاصل ہے البتہ رہے سہے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مشتمل ۲۲ فی صدمیں سے بھی پہلے صرف  ۳ فی صد اور پھر آہستہ آہستہ مزید ۲۷ فی صد پر صرف قبضہ (بغیر حاکمیت) فلسطینیوں کو دیا جائے۔ عملاً اس وقت بھی مغربی کنارے پر ۴۰ فی صد اور غزہ کی پٹی میں ۸۰ فی صد فلسطینیوں کے تحت آیا ہے۔ باقی پر اسرائیل ہی کا قبضہ ہے اور ان علاقوں میںاسرائیلی آبادکاروں (settlers) کی تعداد میں کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کے معاہدوں کے بعد ۲ لاکھ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ نیز تمام سڑکوں اور راستوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ ہے قدم بہ قدم حل کی عملی شکل!

۷-  ہر نئے مرحلے پر فلسطینیوں سے نئی مراعات (concessions) کا مطالبہ۔

۸۔  فلسطینیوں کی اسرائیل پر سیاسی‘ عسکری اور معاشی محتاجی  (dependence)۔

۹- پہلے آخری سمجھوتے کے لیے ۱۹۹۹ء کی حد طے کی گئی تھی مگر اب آخری مراحل کو مزید تین سے

چھ سال کے لیے مؤخر کرنا اور کیمپ ڈیوڈ کے ۲۲ برس بعد بھی اصل مسئلے یعنی فلسطینی حاکمیت‘ بیت المقدس کی حیثیت اور ۵۰ لاکھ فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے حق کے مسئلے کو لٹکائے رکھنا۔

۱۰- اس پورے عمل میں نئے نئے تصورات پیش کیے گئے ہیں مثلاً اقتدار بغیر حاکمیت اعلیٰ(control without sovereignty)‘مشترک حاکمیت اعلیٰ  (joint sovereignty) ‘منقسم حاکمیت اعلیٰ (divided sovereignty) ۔حالانکہ یہ سب محض خوش نما الفاظ اور صریح دھوکہ ہیں۔

دو عشروں کے تجربات کے بعد فلسطینیوں کو اور خود مغربی اقوام کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ تجربہ صرف اسرائیل کے مفاد میں تھا اور عربوں کو شکست اور ہزیمت کے سوا اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ حال ہی میں خود شیرون نے اعلان کیا ہے کہ ’’اوسلو اب مردہ ہے‘‘  (Oslo is dead!)۔ چند مغربی تجزیہ نگاروں کی رائے بھی قابل ملاحظہ ہے۔

رابرٹ فسک (Robert Fisk) لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا شرق اوسط کا نمایندہ ہے اور عالمی سیاست کا ایک ماہر شمار ہوتا ہے وہ لکھتا ہے:

یہ سال تھا کہ جھوٹ بالکل واضح ہو گئے۔ امن کا عمل (peace process)‘ پس قدم  (back track)‘ متنازع (disputed) اور ایک طرح کی حاکمیت اعلیٰ (sort of sovereignty)  کی اصطلاحیں اتنی ہی بے معنی ثابت ہوئیں جتنا کہ ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال امریکی محکمۂ خارجہ کے سفارت کاروں اور صحافیوں نے کیا۔ اوسلو کے معاہدہ امن کی ناانصافی‘ عرب سرزمین پر مسلسل جاری قبضہ‘ عربوں کو مشرقی یروشلم واپس کرنے سے اسرائیل کا صاف انکار‘ عرب سرزمین پر یہودی آباد کاری کی پُرجوش توسیع بالآخر اس سب کے خلاف فلسطینی اٹھ کھڑے ہوئے (۲۹ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔

ایک عیسائی فلسطینی مصنف اور دانش ور پروفیسر ایڈورڈ سعید (Edward Said) بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا:

فلسطینیوں کی حیثیت سے ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ اس اوسلو باب کو جتنی تیزی سے ممکن ہو‘ بند کر دیں اور اپنے اصل کام کی طرف لوٹ آئیں جو آزادی کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو اہداف سے قریب تر اور اپنے طریقۂ کار میں واضح ہو۔ جنوبی افریقہ میں نسلی تفریق کو اس لیے شکست ہوئی کہ کالوں کے ساتھ ساتھ گوروں نے بھی اس کے خلاف لڑائی لڑی (روزنامہ ‘ ڈان‘ جنوری ۸‘ ۲۰۰۰ء)۔

فلسطین کے مسئلے کا حل اوسلو نہیں‘ انتفاضہ ہے۔ دی گارڈین کا شرق اوسط کا نمایندہ پوری عرب دنیا کا فیصلہ یوں بیان کرتا ہے:

اس دوسری انتفاضہ نے کئی برسوں میں پہلی بار فلسطینیوں کو موقع دیا ہے کہ اسرائیل سے اقدامی کارروائی(initiative) چھین لیں۔ اس طرح اب فلسطینی قیادت زیادہ توانا بھی ہے اور زیادہ متحمل بھی۔ فلسطینی بالعموم اور خاص طور پر بعض زیادہ انقلابی نوجوان رہنما اور بنیاد پرست بھی‘ سب

حالیہ مہینوں کی قربانیوں کے بعد زیادہ پُرعزم ہیں کہ ایسی کوئی چیز قبول نہ کریں جو ایک سیل آئوٹ (sell out)سمجھی جائے (دی گارجین مارٹن‘وولاکاٹ‘ ۲۹ دسمبر ۲۰۰۰ء)۔

فلسطین کے بارے میں اوسلو کا یہ حشر اور انتفاضہ کا پُرجوش احیا کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے بھی ایک انتباہ اور جہادی تحریک کے تحفّظ اور ترقی کے لیے ایک نشان راہ ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم یازک رابن کی بیوی لیہ رابن (Leah Rabin) نے اپنے شوہر کی سوانح  (Rabin: Our life, His Legacy) میں صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ رابن نے بحیثیت کمانڈر اِن چیف عرب انتفاضہ کے خلاف جبر و قوت کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسرائیل ایک ایسی قوم پر حکمرانی نہیں کر سکتا جو اس کے اقتدار میں رہنے کے لیے تیار نہ ہو اور یہی وہ چیز ہے جس نے اسے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کا قائل کیا۔

تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ صرف آزادی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے والے ہی آزادی حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے: لا یقطع الحدید الا الحدید۔ یعنی لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ جہاد ترک کر کے مذاکرات لاحاصل ہوتے ہیں۔ جہاد کمزور کر کے آپ دشمن کے لیے صرف تر نوالا بن سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کا عسکری دبائو موثر ہو‘ اصولی موقف مضبوط ہو‘ آپ کی صفوں میں اتحاد اور آپ کی فکر میں پختگی ہو تو مذاکرات کی میز پر بھی آپ غالب اور کامیاب رہ سکتے ہیں ورنہ جنگ کے میدانوں میں حاصل کی ہوئی بالادستی امن کے مذاکرات کی میز پر شکست میں بدل سکتی ہے۔

مسئلہ کشمیر میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی دل چسپی اور اس کے ساتھ امریکہ کی بھارت سے دوستی اور روز افزوں تزویری شراکت  (strategic partnership) حتیٰ کہ نیوکلیر تجربے کے بعد عائد ہونے والی پابندیوں میں تخفیف (جب کہ پاکستان پر یہ پابندیاں اور بھی سخت کر دی گئی ہیں) اور بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اور ان کے درمیان معاشی ہی نہیں عسکری اور خفیہ معلومات کے امور میں تیزی سے اضافہ‘ اہم شخصیات کے دورے‘ اور نام نہاد تشدد کے خلاف تعاون اور مشترکہ حکمت عملی کی تیاری کے پس منظر میں کشمیر پر اوسلو عمل مسلّط کرنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ فلسطینی تو اوسلو کو دفن کر رہے ہیںاور کچھ کشمیری اور پاکستانی دانش ور اوسلو عمل کے پرچارک بن رہے ہیں۔ آج فلسطین کا چپہ چپہ اور اہل فلسطین کا ہر ہر زخم پکار پکار کر کہہ رہا ہے    ؎

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے

پس چہ باید کرد: پاکستانی حکومت‘ قوم اور کشمیری قیادت اگر اس سبق کو سمجھ لے اور بھارت سے اوسلو نہیں‘ جہاد کی قوت کے سائے تلے اپنے حقوق حاصل کرنے کی بات کرے تو ان شا ء اللہ کامیاب ہو گی۔ عرب نیوز کے نمایندے نے سری نگر کے ایک ۲۱ سالہ نوجوان طالب علم الطاف حسین کا بھارت کی یک طرفہ جنگ بندی پر تبصرہ شائع کیا ہے جو ہماری وزارت خارجہ اور بہت سے دانش وروں کی نکتہ سنجیوں پر بھاری ہے:

بھارتی حکومت کے اقدام کو کشمیری گروپوں نے جس طرح حقارت سے ٹھکرایا ہے‘ الطاف حسین نے اس کی بڑی تحسین کی ہے: ’’ہماری جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارتی اقدام کا یہ بہت اچھا توڑ ہے۔ ہمارے لیے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بھارت پر بھروسا نہ کریں‘‘ (عرب نیوز‘ نومبر ۲۴‘ ۲۰۰۰ء)۔

ہم حکومت‘ وزارت خارجہ‘ مجاہد رہنمائوں اور حریت کانفرنس کے قائدین کو یہی مشورہ دیں گے مذاکرات ضرور کریں مگر:

---  فلسطینیوں کے اوسلو تجربے سے سبق سیکھ کر‘

---  جہادی دبائو کو مطلوبہ سطح پر برقرار رکھ کر‘

---  اپنے اتحاد اور سیاسی قوت کو مجتمع رکھ کر‘

--- اپنے اصولی موقف پر مضبوط رہ کر‘

--- اپنی قانونی اور سیاسی بنیاد سے انحراف کیے بغیر‘

---  اپنے عوام کو اعتماد میں لے کر ‘اور

--- جزوی‘ قدم بہ قدم طریقے کے بجائے اصل اور مرکزی مسئلے پر توجہ مرکوز کر کے‘

___  ایک جامع اور مکمل پیکج پر

___  اور دو فریقی نہیں سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے!

ہمیشہ یاد رکھیے:

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات