فروری ۲۰۰۱

فہرست مضامین

قرآن کا نظریہ علم و جہل

ڈاکٹر توقیر عالم فلاحی | فروری ۲۰۰۱ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

کسی بھی قوم کا عروج اس پر منحصر ہے کہ وہ فکرونظر اور علم و دانش کی کس شاہ راہ پر گامزن ہے۔ فلک بوس عمارتیں‘ دعوت نظارہ دیتی ہوئی شاہ راہیں‘ دل کش اور جاذبِ نظر مراکز تجارت ترقی و کامرانی کے سطحی مظاہر ہیں جن سے قوم ووطن کی حقیقی عظمت و رفعت کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ فی الحقیقت ذہنی آزادی‘ افکار و خیالات کی وسعت و ہمہ گیری‘ انسانیت دوستی پر مبنی تعلیمات اور علوم نافعہ کی اشاعت ایک فرد‘ معاشرہ اور قوم کی زندگی کا نوشتۂ تقدیر تیار کرتی ہیں اور دوسری طرف اقوام عالم میں عظمت سے روشناس کراتی ہیں۔ علم و دانش وہ متاع بیش بہا ہے جو فرد اور معاشرے‘ دونوں کی زندگی کو انقلاب آشنا کر دیتی ہے‘ فکر کی کجی ختم ہوتی ہے‘ سوچنے سمجھنے کے انداز مہذب اور نشست و برخاست کے طریقے شائستہ ہو جاتے ہیں‘ مصروفیات و مشغولیات کا رُخ بدل جاتا ہے اور شب و روز میں حیرت انگیز تغیر رونما ہوتا ہے جس کی بنا پر ظلمتوں کا سدباب ہو جاتا ہے اور شاہ راہ زندگی روشن ہو جاتی ہے۔

مخلوقات اراضی و سماوی میں انسان کو شاہ کار کی حیثیت حاصل ہے۔ قوت فکر و شعور کی نعمت سے اُسے نوازا گیا۔ چاند و سورج‘ آسمان و زمین‘ شجر و حجر اور پوری کائنات اس کی خدمت میں مصروف ہے۔ انسان کو تسخیر کائنات کا پروانہ عطا کیا گیا:  وَسَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ط (الجاثیہ ۴۵:۱۳) ’’اور اس نے زمین و آسمان کی ساری ہی چیزیں تمھارے لیے مسخر کر دی ہیں‘‘۔ مخدوم کائنات اور اشرف المخلوقات انسان کی تخلیق کا مقصد بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں واضح فرما دیا:  وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ o (الذاریات ۵۱:۵۶) ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا‘‘۔

اسلام میں عبادت کا جامع مفہوم یہ ہے کہ ہر شعبۂ حیات میں خوفِ خدا کی دلوں پر حکمرانی ہو اور اس کی ہر سعی و عمل پر مرضی مولا کے اشتیاق کی چھاپ ہو۔ اللہ رب العزت سے محبت اور تخلیق انسانیت کی عظیم و مقدس غایت کو کماحقہ عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا جب تک کہ علم و فضل کی ضیا پاشیوں سے قلب و ضمیر روشن نہ ہوں۔ اللہ کا دین ایک امانت عظمیٰ کی شکل میں جن بندگانِ خدا کو ملا ہے ان میں سے ہر ایک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اسے خدا کے ان بندوں تک پہنچائے جو اللہ کے دین سے دور ہیں اور اس نعمت کی قدر و عظمت سے آشنا نہیں ہیں۔ اس مقصد کی بازیابی کے لیے بھی ضروری ہے کہ علم و حکمت کی شمع فروزاں کی جائے اور اس کی دولت گراں بہا سے فیض یاب ہوا جائے۔

علم جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے اور اس کا فیض پورے معاشرے پر جاری و ساری رہتا ہے۔ خوگر علم اخلاق فاضلہ اور اعمال حسنہ کا علم بردار بن کر حیات اُخروی کی ابدی مسرتوں کے حصول کے گُر جان لیتا ہے۔ علم و حکمت کے زیور سے آراستہ ہونے والوں کے سامنے کائنات کی ساری نشانیاں کھلی ہوئی کتاب ہوتی ہیں‘  انھیں حق و باطل میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب مختلف پیرایۂ بیان میں علم اور اہل علم کی فضیلت بیان کرنی ہے:  قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ  لاَ یَعْلَمُوْنَ ط (الزمر ۳۹:۹) ’’اے محمدؐ! فرما دیجیے کہ کیا جو لوگ زیور علم سے آراستہ ہیں وہ اور جو اس سے محروم ہیں وہ ‘ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘

قرآن اس شخص کو چشم بینا کا متحمل نہیں قرار دیتا جو علم و حکمت کے جوہر سے محروم ہو اور پھر اس کے نتیجے میں راہِ حق پر گامزن ہونے کے بجائے ظلمتوں کا ہم نشین بن جائے۔ قرآن کی نگاہ میں علم کی روشنی رکھنے والا شخص ہی بینا ہے اور اس کے برعکس جو اس سے محروم ہے وہ نابینا اور بے بصارت ہے۔ بینائی سے محرومی تاریکیوں سے عبارت ہے۔  وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ o وَلاَالظُّلُمٰتُ وَلاَالنُّوْرُ o (الفاطر ۳۵:۱۹-۲۰) ’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہیں‘ نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں‘‘۔ ایک مقام پر ایمان و ایقان اور علم و عرفان کی نعمت سے بہرہ ور ہونے والوں کے رفع درجات کا اعلان ہوتا ہے:  یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ  لا وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط (المجادلہ ۵۸: ۱۱) ’’اللہ تم میں سے اہل ایمان اور علم سے نوازے جانے والے لوگوں کے درجات کو بلند کر دیتا ہے‘‘۔

احادیث نبویؐ بھی علم و فضل کی قدر و منزلت پر سند فراہم کرتی ہیں۔ اللہ کے محبوب ترین بندے خاتم النبیینؐ نے اہل علم و دانش کو انبیا کرام کا ورثہ قرار دیا ہے۔ ان العلماء ھم ورثۃ الانبیا (الصحیح للبخاری‘ ج اوّل‘ کتاب العلم‘ ص ۱۶) ’’بلاشبہ علما ہی انبیا ے کرام کے وارث ہیں‘‘۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر آسمان کے ان درخشاں تاروں سے ان علما کی تعبیر کی جو منزل مقصود تک رسائی کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ ’’اہل زمین میں علما ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحروبر کی ظلمتوں میں راہِ  یاب ہوا جاتا ہے‘‘ (مسند احمد‘ ج ۳‘ ص ۱۵۷) ۔

اسلام میں علم و دانش کی فضیلت کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبوداور ہدایت و کامرانی کے لیے معزز ترین ضابطۂ زندگی کے نزول کا آغاز بھی  اِقْرَاْ (العلق ۹۶: ۱) ’’تو پڑھ‘‘ کی مبارک تعلیم سے ہوتا ہے۔ اس کے معاً بعد وحی الٰہی کے جو الفاظ کتاب الٰہی میں محفوظ ہیں‘ ان کی روشنی میں علم کی روح‘ انسان کی حیثیت‘ اوراللہ کے مقابلے میں انسان کو نوازے گئے علم کی حقیقت پوری طرح عیاں ہے :  اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o (العلق ۹۶:۱-۴) ’’تو پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو ایک لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمھارا رب کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے علم کی نعمت سے بہرہ ور کیا۔ اس نے انسان کو وہ کچھ بتایا جس سے وہ ناآشنا تھا‘‘۔ تحصیل علم کو  رب حقیقی کے نام کے ساتھ مشروط کر کے دراصل قرآن نے اس فکر کا علم بلند کیا ہے کہ علم دراصل پوری انسانیت کے لیے متاع محبوب ہے‘ اور اس کی اہمیت و افادیت اسی وقت مسلمہ ہو سکتی ہے‘ جب کہ خالق حقیقی کو فراموش نہ کیا جائے۔

اسلام علوم و فنون کے مابین جائز و ناجائز کا‘ مستحسن و قبیح اور دینی و دنیوی ہونے کے اعتبار سے کوئی خط امتیاز نہیں کھینچتا  بشرطیکہ یہ مالک حقیقی کے بے پایاں احسانات کے استحضار کے ساتھ اور مرضی مولا کے حصول کے پیش نظر کیے جا رہے ہوں۔ جغرافیہ‘ تاریخ‘ معاشیات‘ سیاسیات اور انگریزی کی تعلیم بھی حالات کے تقاضوں کے پیش نظر بسااوقات دینی ضرورت بن جاتی ہے بشرطیکہ خوشنودی رب کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی جائے۔ چنانچہ چاند کا سفر‘ ستاروں کی گزرگاہوں کی یافت‘ سورج کی شعاعوں کی تسخیر‘ خلائوں کی سیر‘ دریا کی موجوں اور سمندر کی لہروں پر گرفت‘ یہ سب مسعود و مبارک بن جاتے ہیں اگر انسان ذکر الٰہی سے اپنی شب تاریک میں قندیل روشن کر لے اور انسانیت کی ظلماتِ حیات کو سپیدی سحر سے بدل دینے کا عزم کر لے۔

اسلامی عبادات کی روح تقویٰ ہے۔ یہ مخصوص اوقات میں محدود مقامات پرایک خاص قسم کی پُرتکلف کیفیت پیدا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ خشیت الٰہی سے عبارت ہے۔ دلوں کی دنیا پر جب خوفِ خدا کے قانون کی حکمرانی ہوتی ہے تو پھر کسی خود ساختہ قانون کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی پولیس کا ڈنڈا برائیوں کا قلع قمع کرنے میں محرک ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ دن کی روشنی ہو یا رات کی تاریکی‘ چوراہا یا  شاہ ر ا ہوں یا بند کوٹھری‘  آبادی ہو یا ویرانہ‘ رزم گاہ ہو یا بزم گاہ‘ ہرجگہ یہ خشیت الٰہی ایک ضابطہ بن جاتی ہے۔ علم و فضل وہ دولت گراں مایہ ہے جو فرد اور معاشرے کی فلاح کی ضمانت ہے۔ اگر تقویٰ کی روح نہ رہے تو انسان کی زندگی میں امن و سکون عنقا ہو جاتا ہے اور پھر یہ صراط مستقیم سے منحرف ہو کر اپنی ناکامی و نامرادی کا نوشتۂ تقدیر خود اپنے ہاتھوں تیار کر لیتا ہے۔ ایک بڑے سے بڑا فلاسفر‘ ماہر سے ماہر طبیب‘ علم کیمیا اور علم طبیعیات کا ماہر ‘ ریاضیات و شماریات کا حاذق‘ خلائوں کا ہم نشیںاور سمندروں میں اپنی دنیا بسانے والا اگر مالک حقیقی کی اطاعت و وفاشعاری اور خشیت الٰہی کے زیور سے آراستہ نہیں ہے توقرآن کی نگاہ میں علم و فضل کا حامل نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن وسنّت اور فقہ و سیرت کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والے بندگان خدا کی زندگیاں خشیت الٰہی سے محروم ہیں تو قرآن انھیں علما کی فہرست میںشامل نہیں کرتا:  اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤا ط (الفاطر ۳۵:۲۸) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔

تحصیل علم کے لیے تقویٰ مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ علوم وفنون کی تحصیل کے مراحل میں اگریہ اہم ترین اصول پیش نظر نہ ہو تو علم حقیقی روح سے عاری ہو جاتا ہے اور پھر بندئہ مومن کا مقصد حیات رضاے الٰہی مجروح ہو کر دولت کمانا‘ شہرت و ناموری حاصل کرنا اور جاہ و اقتدار طلب کرنا‘ علم کے مقاصد بن جاتے ہیں۔ جب یہ سطحی چیزیں مقصد حیات بن جائیں تو ایک طرف انسانوں کے مابین اخوت و محبت اور ہمدردی و غم گساری کے جذبات بتدریج معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں اور ظلم و ناانصافی‘ کجی و ہٹ دھرمی اور بغض وعناد کے مظاہر فروغ پاتے ہیں اور مستزاد--- یہ کہ رشد و ہدایت کی شاہ راہ سے گریز کرتے ہوئے شعوری اور غیر شعوری طور پر ضلالت و گمراہی کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی محروم القسمت لوگوں کے بارے میں کتاب اللہ میں یہ قول فیصل موجود ہے:  صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ o (البقرہ ۲: ۱۸) ’’یہ بہرے ہیں‘ گونگے ہیں‘ اندھے ہیں‘ یہ اب نہ پلٹیں گے‘‘۔

اس کے برعکس علم حقیقی حق شناسی کی ضمانت بنتا ہے۔ آیات بینات ‘ امثال و قصص اور احکام و ہدایات علم و دانش کے انھی علم برداروں کے لیے سودمند ثابت ہوتے ہیں جو ہر قسم کے تحفظات سے بری ہو کے للّٰہ اور فی اللہ تدبر و تفکر کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔ اس صداقت پر کتاب اللہ کی یہ سند ملاحظہ کی جائے۔ فرمایا جاتا ہے:  وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ ج  وَمَا یَعْقِلُھَآ اِلاَّ الْعٰلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۳) ’’اس طرح کی مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں مگر انھیں وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں‘‘۔ دوسرے مقام پر حقیقی علم و فضل کی نعمت سے متمتع ہونے والوں کا طرز عمل یوں سراہا جاتا ہے:  وَیَرَی الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِیْ اُنِزْلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ھُوَ الْحَقَّ لا (سبا ۳۴:۶) ’’اور (اے نبیؐ!) علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے‘‘۔

قرآن مجید میں علم کا مقام و مرتبہ اخلاق و کردار سے مشروط ہے۔ دولت علم سے متمتع ہونے کے بعد ایک شخص کے اندر جہاں بہت سی خوش گوار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہاں تواضع اور خاکساری کا وصف بھی اس کی ذات کو مزین کر دیتا ہے۔ اسے ایک طرف وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً کے مطابق اپنے علم کی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے اور دوسری طرف  یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ج وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلِمْہٖٓ اِلاَّ بِمَاشَآئَ ج  (البقرہ ۲:۲۵۵) ’’وہ بندوں کے سامنے موجود اور اوجھل ساری چیزوں کو جانتا ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز اس کی مشیت کے بغیر ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی‘‘ کے ارشاد کے مطابق رب العالمین کے سرچشمۂ علم و فضل ہونے کا اسے ایمانِ کامل ہوتا ہے۔ اس سے اس کے اندر شکرکے جذبات نشوونما پاتے ہیں اور اس کے اندر کبر اور سرکشی کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں بلکہ خدا کی عطا کردہ نوازش کا احساس اور خالق دوجہاں کے ہی منبع علم ہونے کا ایمان تواضع و انکساری کے لیے مہمیز کرتا ہے۔ الخلق عیال اللّٰہ کی تعلیم نبویؐ کو مستحضر رکھتے ہوئے اور حقوق العباد کے تلف ہونے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار اور جواب دہ شخصیت گردانتا ہے‘ چنانچہ خدمت خلق کے جذبے سے معمور ہو کر اس کے بازو دوسروں کے لیے جھک جاتے ہیں۔ اس کے اندر گیرائی و گہرائی ہوتی ہے لیکن سکوت و خاموشی اس کا شعار ہوتا ہے۔ علم و حکمت کی متاع بے بہا سے اس کی شخصیت بلاشبہ بھاری بھرکم ہو جاتی ہے لیکن وہ شجر ثمربار کے مانند ہوتا ہے جو ہر خاص و عام کی خاطر و مدارت کے لیے جھکا رہتا ہے۔ اس طرح اُسے عباد الرحمن کی ربانی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز مل جاتا ہے:  وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا (الفرقان ۲۵:۶۳) ’’رحمان کے بندے (فی الحقیقت) وہ لوگ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں‘‘۔

انسان اور جانور میں جہاں بہت سے امتیازات ہیں ان میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ جانور عقل و شعور سے محروم رہتا ہے‘ اس لیے اسے حدود و قیود کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس انسان اس وصف کا حامل ہوتا ہے۔ یہ نعمت خداداد اس کی حرکات و سکنات نیز مسائل حیات اور مشاغل زندگی کو منضبط رکھنے کے لیے مؤثر ثابت ہوتی ہے جس کی بدولت جائز و ناجائز‘ مستحسن و قبیح اور حلال و حرام کی تمیز کرتے ہوئے اقطاع عالم اور انواح حیات میں وہ سرگرم عمل رہتا ہے اور اللہ کی حدود کا احترام ملحوظ رکھتا ہے۔

علم کے مقابلے میں ’’جہل‘‘ کا لفظ قرآن مجیدمیں حقائق کی یافت سے محرومی‘ عناد و تکبّر‘ ضد و ہٹ دھرمی اور تعصّب و تنگ نظری کی بنا پر حقائق و معارف سے اعراض و انحراف کے معانی میں استعمال ہوا ہے۔ آفاق و انفس کی شہادتیں‘ توحید‘ رسالت اور آخرت کے دلائل‘ پیغمبران خدا کی سرگذشتیں اور اقوام بائدہ کے انجام علم سے بے بہرہ اشخاص کے لیے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بار باریہ حقیقت ذہن نشین کراتا ہے کہ کائنات کی نشانیاں اور آفاق و انفس کی شہادتیں ان لوگوں کے لیے سودمند نہیں ہوتیں جو علم و  آگہی کی نعمت غیر مترقبہ سے شرف یاب نہیں ہوتے۔ جو لوگ تدبر و تفکر کو کام میں نہیں لاتے اور حقائق کی جستجو میں سرگرداں نہیں ہوتے‘ ان کے لیے خالق دوجہاں کی نشانیوں میں خیر کا پہلو حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا اور بسااوقات ان کا عمل حقائق سے دوری‘ اللہ عزوجل پر افتراپردازی اور اپنے ساتھ نوع بشری کی گمراہی پر منتج ہوتا ہے۔ یہ انتہائی شنیع حرکت ہے کہ اللہ رب العزت کے بے پایاں احسانات کو فراموش کرتے ہوئے ایک انسان اس کی طرف خلافِ شان باتوں کا انتساب کرے اور خود پیکر ضلالت بن کر نوعِ انسانی کی گمراہی کا سبب بنے۔: ’’پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط راہنمائی کرے‘‘۔ جہل و ناواقفیت کی سنگینی اس آیت کریمہ میں بھی عیاں ہے:  وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ق (لقمان ۳۱:۶) ’’اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دل فریب خرید کر لاتا ہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کو اللہ کے راستے سے بھٹکا دے‘‘۔

مولانا مودودی کی یہ وضاحت بھی معنی خیز ہے:

جاہلیت کا لفظ اسلام کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام کا طریقہ سراسر علم ہے کیونکہ اس کی طرف خدا نے رہنمائی کی ہے جو تمام حقائق کا علم رکھتا ہے۔ اور اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام سے مختلف ہے جاہلیت کا طریقہ ہے۔ عرب کے زمانۂ قبل اسلام کو جاہلیت کا دور اسی معنی میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں علم کے بغیر محض وہم یا قیاس وگمان یا خواہشات کی بنا پر انسانوں نے اپنے لیے زندگی کے طریقے مقرر کر لیے تھے (تفہیم القرآن‘ ج۱‘ ص ۴۷۹)۔

جہل کے اس عام مفہوم کے علاوہ قرآن اس کا ایک اور مفہوم بھی واضح کرتا ہے۔ بعثت نبویؐ سے قبل کے انسانی معاشرے کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ قرآنی مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا دور دورِ جاہلیت سے موسوم ہے۔ اگرچہ یہاں قادرالکلام شعرا‘ نابغہ روزگار ادبا اور نادر المثال فصحا جنھیں اپنی قوت گویائی اور زبان دانی پر ناز تھا‘ موجود تھے۔ وہ اپنی قابل رشک صلاحیتوں کی ہی بنیاد پر دوسروں کو طفل مکتب کہہ دینا بھی اپنا پیدایشی حق سمجھتے تھے۔ قرآن پاک اگر انھیں جاہل قرار دیتا ہے تو اس بنیاد پر کہ علوم و معارف سے  آگہی کے باوجود ضد و عناد اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید اور ہٹ دھرمی کی بنا پر حق شناسی کی نعمت سے محروم تھے۔ قرآن کے معانی اور اسرار و رموز سے  آگہی کے لیے کلام عرب بھی قیمتی مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ قرآن پاک کے اوّلین مخاطب اہل عرب تھے اور یہ بعید از قیاس ہے کہ ذات باری تعالیٰ ایسے اسلوب و زبان میں گفتگو کرے جو مخاطب کے فہم و دانش کے معیار کے مطابق نہ ہو۔ چنانچہ جہل کے اس دوسرے مفہوم کا تعیین نابغۂ روزگار جاہلی شاعر عمرو بن کلثوم کے اس شعر سے ہوتا ہے:

الا لایجھلن احد علینا  - فنجھل فوق جھل الجاھلین

خبردار! کوئی ہمارے خلاف جہالت پر آمادہ نہ ہو‘ ورنہ ہم تمام جاہلوں کی جہالت سے بڑھ جائیں گے (جمھرۃ اشعار العرب‘ ص ۱۲۸)۔

حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کو خداے واحد کی عبادت کی دعوت دی تو قوم نے ان کے ساتھ تمسخر کیا اور سند کے طور پر عذاب الٰہی طلب کیا۔ پیغمبر وقت نے اللہ تعالیٰ کو سرچشمۂ علم قرار دیا اور اپنی حیثیت واضح کرتے ہوئے ان کی اخلاقی گراوٹ کی تصویرکشی کی:  قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ ز وَاُبَلِّغُکُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَلٰکِنِّیْٓ اَرٰکُمْ قَوْمًا تَجْھَلُوْنَ o (الاحقاف ۴۶:۲۳) ’’اور جس چیز کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے‘ اُسے تم لوگوںتک پہنچا دیتا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو‘‘۔ حضرت موسیٰ  ؑنے اپنی قوم کو رشد و ہدایت کی تلقین کی اور گائے ذبح کرنے کے حکم الٰہی کو ان کے گوش گزار کیا تو انھوں نے پیغمبر کی شان میں نازیبا کلمات کہے۔ اس پر پیغمبر نے ان کی جہالت سے پناہ مانگی:  قَالُوْآ اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ط قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ o (البقرہ ۲:۶۷) ’’ کہنے لگے کہ کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰ  ؑنے کہا: میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں‘‘۔

دعوت و تبلیغ کی راہ میں ایسے صبرآزما مراحل آتے ہیں کہ داعیحق کے قدموں میں لغزش آجاتی ہے لیکن ایسے سنگین حالات میں بھی داعی کے منصب دعوت کے مقام کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ صبروثبات قدمی کا طریقہ اختیار کرے۔ دعوت کے اس مقدس مشن میں ایسے مخاطبیں بھی سامنے آتے ہیں جن کے اذہان و قلوب پر ضد و عناد اور آبا پرستی اور تقلید جامد کی وجہ سے حق کی روشن شعاعوں کا گزر نہیں ہوتا۔ وہ کبر و غرور کے نشے میں بدمست ہو کر دعوت صالحہ سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔ تعصّب و تنگ نظری اور آبا پرستی و تقلید محض کو قرآن جہل سے تعبیر کرتا ہے اور ایسی نامبارک روش اختیار کرنے والوں کو الجاھلین یا الجاھلون سے موسوم کرتا ہے۔ داعی ٔحق کو قرآن تلقین کرتا ہے کہ اس مبارک کام میں وہ حکمت کا طریقہ اختیار کرے۔ دعوت کی راہ میں جب کبھی ایسے لوگ منظرعام پر آئیں جو اگرچہ علم و فن کی ثریا پر کمندیں ڈالے ہوں لیکن حق کی باتوں کو سننے اور سمجھنے کے لیے اپنے دل و دماغ کے دریچوں کو مقفل رکھتے ہوں‘ یا ایسے لوگ سامنے آئیں جو کسی کالج یا مدرسے سے سند فراغت تو حاصل کر چکے ہوں لیکن تعصّب و تنگ نظری کا حصار اور بے جا رسوم اور روایات کا طوق سلاسل ان کے قبول حق میں سدّراہ بن رہا ہو تو داعی سے ایسے نامساعد موقع پر حکمت کو روبۂ عمل لانے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ یہاں ایسے ناقدروں سے اعراض کی تلقین کی جاتی ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَo (الاعراف ۷: ۱۹۹) ’’اے نبیؐ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو‘ معروف کی تلقین کیے جائو اور جاہلوں سے نہ الجھو‘‘۔

قرآن جہل کو امّ الامراض قرار دیتا ہے جس کی سنگینی سے یہ ناپایدار زندگی تعفن کا شکار ہو جاتی ہے۔ آدمی جانور بن جاتا ہے اور ضلالت و گمراہی کے قعر عمیق میں گر کر حیات ابدی کی مسرتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ قرآن کی نظر میں وہ جہالت انتہائی سنگین قرار پاتی ہے جو کبر‘ ہٹ دھرمی اور توہم پرستی پر مبنی ہو۔ اس قسم کی جہالت کے علم بردار مادّی علوم و فنون کی نمایاں منزلوں کو طے کرنے کے باوجود دعوت کی لذت و شیرینی اور سحرانگیزی و اثر آفرینی سے نہیں پگھلتے اور اپنے موقف پر نظرثانی کو منافی شان سمجھتے ہیں۔ ان کی طرف سے بسااوقات مفاہمت کی پیش کش بھی ہوتی ہے۔ اسوئہ رسولؐ ہمارے سامنے ہے۔ علم برداران کفر وشرک اور اساطین قریش سمجھوتوں کی پالیسی کے ذریعے دعوت پر قابو پانا چاہتے تھے لیکن اللہ رب العزت کو ان کی یہ ادا انتہائی ناگوار لگی اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کفر و جہالت کے ان علم برداروں کی تنبیہ کروائی: لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ o (الکافرون ۱۰۹:۶) ’’(اے نبیؐ! کہہ دو کہ) تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین‘‘۔ حق بہرحال حق ہے اور باطل بہرحال باطل ہے۔ حق کی سرشت میں ظہور وغلبہ ہے اور باطل کے لیے شکست و ہزیمت مقدر ہے۔  قل جآء الحق وزھق الباطل ان  البال کان زھوقًا اے نبیؐ! اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ چنانچہ حق و باطل کی رزم گاہ میں دعوت اور داعی کی عظمت و خودداری کا تقاضا یہ ہے کہ فکرونظر کی جہالت پر مبنی معاہدوں اور سمجھوتوں سے بے نیازی برتے  اور  اعلان کر دے:  لَنآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ز سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لاَنَبْتَغِی الْجٰھِلِیْنَo (القصص ۲۸ :  ۵۵)  ’’ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ تم کو سلام ہے‘ ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے‘‘۔

دین اسلام ایک عظیم ترین امانت ہے جو کلمۂ طیبہ کے علم برداروں کے کاندھوں پر ہے۔ بے کم و کاست اپنی صلاحیت  و استعداد کے مطابق ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس امانت کو ان لوگوں تک پہنچائے جو اللہ رب العزت کی اس دولت عظمیٰ سے محروم ہیں۔ جوجتنا زیادہ ناواقف اور گم گشتۂ راہ ہے و ہ اتنا ہی زیادہ محتاج و مستحق ہے کہ اس تک اللہ و تبارک تعالیٰ کی یہ امانت روشن اور منزہ شکل میں پہنچائی جائے۔ حالات کے ناخوش گوار اور نامساعد ہونے کی بنا پر اگر انھیں حصولِ علم کی توفیق نہ ملی ہو یا قسّام ازل کی مشیت کے مطابق عقل و فہم کی نعمت سے محروم ہوں تو یہ اور بھی زیادہ لائق توجہ ہیں۔ نذیر و بشیر ہونے کی حیثیت سے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ یقین ہو جائے کہ مخاطب کے سامنے وہ خیروشر کے تمام گوشے کماحقہ نمایاں ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ اپنے موقف پر مصر رہتا ہے اور اپنی ہی روش کو محبوب اور قابل تقلید سمجھتا ہے تو داعی کے لیے ایسے مدعو یا مخاطب سے اغماض و اعراض کا اقدام مناسب ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی شخص کو قرآن اصل جاہل قرار دیتا ہے اور اس سے دُور رہنے کی تلقین کرتا ہے:  وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان ۲۵: ۶۳) ’’ اور جب جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام‘‘۔

علم دولت بے بہا ہے جس سے جینے کا سلیقہ آتا ہے۔ دوسری طرف یہ کسی فرد و معاشرہ اور ملک و قوم کے معنوی وجود کی ضمانت بن کر اقوام عالم میں زندہ قوم کی حیثیت سے روشناس کرانے کا وسیلۂ بھی بنتا ہے۔ یہی وہ نعمت ہے جو حق شناسی‘ تواضع و خاکساری اور حدود اللہ کے احترام کے زرّیں سبق سکھاتی ہے بشرطیکہ علم و دانش کی یہ متاع روح تقویٰ اور خشیت الٰہی سے مالا مال ہو۔ بصورت دیگر علم و دانش میں کوئی شخص ثریا کاہم نشیں بن جائے لیکن اگر اپنی زندگی کی شب تاریک کو روشن نہیں کر سکا اور خالق حقیقی کو پہچاننے سے قاصر رہا تو وہ  علم کی حصول یابی سے محروم ہے۔ اس کے بالمقابل جہل کا لفظ قرآن پاک میں ناواقفیت اور تعصب و تنگ نظری اور ضد وعناد کی بنا پر اپنے موقف پر جمے رہنے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور بلاشبہ جہل کے یہ دونوں معانی حق شناسی سے محرومی اور جادئہ مستقیم سے دوری پر منتج ہوتے ہیں۔ قرآنی تصریحات کے مطابق جہل بمعنی عدم واقفیت ایک اتفاقی امر و حادثہ ہے۔ جو شخص اس ناخوش گوار امر سے دوچار ہے‘ اس کے قبول حق کے امکانات روشن ہوتے ہیں بشرطیکہ متعلقہ امور و مسائل کے اسرار و رموز بے نقاب کر دیے جائیں۔ اس کے برعکس وہ جہل جو تمام حقائق سے آشنا ہونے کے باوجود ضد و ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اپنے نظریۂ و عمل سے تمسک اختیار کرنے سے عبارت ہے‘ یہ انتہائی سنگین اور مہلک مرض ہے۔ اس کا تعلق فکر ونظریہ سے ہے۔ اسی جہل کو قرآن جاہلیت سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ فکری جہالت میں مبتلا افراد سے ان کے نظریۂ وعمل کی تبدیلی کے لیے اصرار حکمت کے خلاف اور دعوت و داعی کی عظمت و شان کے منافی ہے۔ آج اگر فرد یا معاشرہ قرآن کے نظریۂ علم کو قبول کرتے ہوئے علم کی حقیقی روح سے اپنے آپ کو مزین کرلے اور جہالت کی تمام تر ظلمتوں کو خیرباد کہ دے‘ بالخصوص تعصّب و تنگ نظری اور ضد و عناد کے دلدل سے نکل کر اپنا رخت سفر باندھ لے تو یہ بعید نہیں کہ فرد و جماعت‘ ملک و قوم بلکہ پورا معاشرہ انسانی حق و صداقت ‘ اخوت و محبت‘ اتحاد و اتفاق‘ وسعت فکروعمل اور خوش گوار اور شایان انسانیت تبدیلیوں کا روح پرور منظر کا دعوت نظارہ دے رہا ہو!۔