گلوبلائزیشن ]عالم گیریت[کے ظاہری معنی پوری دنیا کو ایک مارکیٹ بنانا اور ان تمام رکاوٹوں کو دُور کرنا ہے جو بین الاقوامی تجارت میں حائل ہیں تاکہ سرمایہ بلاروک ٹوک ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر کر سکے‘ اور جس جگہ بھی اس کی ضرورت ہو‘ وہاں سرمایہ کاری کی جاسکے۔ اور اسی طرح محنت بھی ہر جگہ کا سفر کر سکے اور جہاں بھی اس کو زیادہ اُجرت ملے‘ وہاں اپنی خدمات پیش کر سکے۔ اس میں سرمایہ اور محنت‘ دونوں کا بھلا ہے۔ دونوں کا بہترین استعمال مضمر ہے۔ اس حکمت عملی کے وکیل مغربی ممالک ہیں جن کی طاقت ان کا کثیر اور فاضل سرمایہ ہے‘ ان کی ٹکنالوجی ہے‘ اوران کے قصیدہ گو ذرائع ابلاغ ہیں۔ ان کا ہنر اپنے حقیقی مقاصد کی پردہ پوشی ہے ۔ ان کا کام یہ ظاہر کرنا ہے کہ وہ انسانیت کے درد سے تڑپ رہے ہیں لیکن ان کی عملی تدابیرسے حرص و آز چھپائے نہیں چھپتے۔
گلوبلائزیشن کے حقیقی معنی نجی سرمایہ کاری کا فروغ ہے۔ اس پر عائد ہر قدغن کو دُور کرنا ہے۔ ہم کو یہ بتایا جاتا ہے کہ مسابقت (competition)اور آزاد مارکیٹ معاشی ترقی کا سب سے موثر منہج ہے۔ اس سے ملک کی سرمایہ کاری میں غیر معمولی اضافہ ہوگا‘ پیداوار کی متناسب تقسیم ہو گی اور کارکردگی بھی بڑھے گی۔ بہتر سامان بھی پیدا ہوں گے‘ اور ہر شخص اپنی ضرورت پوری کر سکے گا‘ جب کہ اس کے بالمقابل سرکاری ملکیت کا ۵۰ سالہ تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ پیداوار‘ تقسیم‘ کوالٹی اور کمیت ہر لحاظ سے ناکام رہی ہے۔
اس تصویر گری میں کئی اہم باتیں قصداً پوشیدہ رکھی جاتی ہیں:
پہلی بات یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کی لائی ہوئی مسابقت غیر مساوی فریقوں کے درمیان ہوگی۔ ان میں سے ایک فریق سرمایہ دار ہے‘ طاقت ور ہے‘ ٹکنالوجی سے لیس ہے‘ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی عظمت اور سطوت
سے بہرہ ور ہے ‘ جب کہ دوسرا فریق کمزور ہے‘ پس ماندہ ٹکنالوجی پر منحصر ہے اور جس کی پیداوار کا بیشتر حصہ چھوٹے چھوٹے کارخانوں اور چند ایکڑ زمین پر بھروسا کرنے والے کسانوں‘ مقروض صنعتی اکائیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان مسابقت کا کیا سوال؟ سرمایہ دارانہ آزاد معیشت میں ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جاتی ہے۔ ہر طاقت ور کمزور کو روندتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہی داستان یہاں بھی لکھی جائے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں نجی سرمایہ کاری کی اصطلاح سے مراد غیر ملکی سرمایہ ہے۔ سرمایہ دار چاہے ملکی ہو یا غیر ملکی‘ اس کو عوام کی مانگ اور ضرورت سے سروکار کم ہوتا ہے۔ اس کو منافع کی جستجو ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ ملک کو اور عوام کو جن اشیا کی ضرورت ہے یا جن میدانوں میں ضرورت ہے‘ وہ نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پورے ہو سکتے ہیں--- یا تو خام خیالی ہے یا دھوکا ۔ لیکن اگر سرمایہ دار غیر ملکی ہو تو اس کے مقاصد اور ملک کی ضرورت میں ہم آہنگی کا تصّور بھی محال ہے۔ اس کو ان میدانوں کی تلاش ہو گی جہاں وہ زیادہ نفع حاصل کر سکے۔ چنانچہ اس کی ترجیحات اسی تلاش پر منحصر ہوں گی۔
تیسری بات جو قصداً نظرانداز کی جاتی ہے‘ یہ ہے کہ کیا غریب ممالک اور غریب عوام پر بھی سرمایہ کاری کے اثرات مرتب ہوں گے؟ اگر غریب اور امیر ممالک کے درمیان پہلے سے دولت اور آمدنی کا تفاوت ہو تو آیا اس گلوبلائزیشن کے نتیجے میں وہ تفاوت بڑھے گا یا کم ہوگا؟ اس سوال کو اب تک قابل غور نہیں سمجھا گیا ہے بلکہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تمام دنیا ایک مارکیٹ بن جائے گی تو اس طرح کا تفاوت خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ملک کے اندر اگر عدم مساوات پہلے سے موجود ہے تو وہ بڑھے گی یا کم ہو گی؟ اور اگر عوام کا ایک معتدبہ حصہ افلاس زدہ ہے تو اس کی حالت بہتر ہوگی یا مزید خراب ہو گی۔ نیز معاشی عدل و انصاف بڑھے گا یا گھٹے گا؟
چوتھی بات یہ بھی پوشیدہ رکھی جاتی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری‘ صرف سرمایہ نہیں لائے گی بلکہ وہ حکومت کی معاشی پالیسی کو بھی متعین کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں آرہا ہے جن میں سے ہر ایک کا بجٹ ہندستان کے قومی بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ کمپنیاں بیرونی تجارت پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ مثلاً سرمایہ کاری کہاں کی جائے گی اور کب کی جائے گی؟ ان کے پیدا کردہ سامان کی قیمت کیا ہوگی؟ کتنا منافع ملک میں رکھا جائے اور کتنا باہر بھیجا جائے؟ ملکی پیداوار کے کن اہم عناصر پر کیا پابندیاں لگائی جائیں؟ اور اگر کسی ملک کی اہم برآمدات خام مال اور زرعی پیداوار ہوں تو ان کی بین الاقوامی مارکیٹ میں کیا قیمت مقرر کی جانی چاہیے؟ ان تمام پالیسیوں پر اثر ڈالنے کی کوشش بیرونی سرمایہ کر رہا ہے اور مستقبل میں اس کا دائرہ کار مزید بڑھے گا تاکہ عوام اور ان کی پارلیمان کے ہاتھ سے یہ اختیارات بالفعل نکل جائیں۔ حکومت کے پاس اس کے سدباب کے کیا ذرائع ہیں؟ اور اگر یہ رفتہ رفتہ ہاتھ سے نکلتے گئے تو جمہور و عوام کی بے بسی کا کیا حال ہوگا؟ چنانچہ نارتھ سائوتھ ڈائیلاگ‘ جیٹ(Gatt) ‘ ڈنکل تجاویز‘ جی-۷
یہ تمام اس کی قطعی علامت ہیں کہ خارجی تجارت‘ زرعی پیداوار‘ اور معاشی پالیسی رفتہ رفتہ ملک کے دائرہ اختیار سے نکلتے چلے جائیں گے۔
گلوبلائزیشن اور پرائیویٹ بیرونی سرمایہ کاری کے وکیل اس پہلو کو بھی نظرانداز کرتے ہیں کہ اس معاشی پالیسی کی انسانی لاگت کیا ہے؟ کتنے لوگ ہیں جو بے روزگار ہوسکتے ہیں؟ بڑے بڑے ڈیم کے نتیجے میں کتنے لاکھ انسان ہیں جو بے گھر ہو جاتے ہیں؟ ماحول کی آلودگی میں کتنا اضافہ ہو جاتا ہے؟ انسانی سماج کے اخلاق اور اس کی ہم آہنگی (harmony) پر کتنے مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ سرمایہ دار کے نزدیک صرف ایک ہی لاگت معتبر ہے اور وہ ہے مالی لاگت۔ مغربی سرمایہ دار کے زیرنگرانی ماحولی آلودگی کی مہم بڑے زور و شور سے چل رہی ہے جس سے ہماری حکومت اور عدلیہ بھی متاثر ہے۔ مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ دنیا میں ماحول کی آلودگی کے ذمہ دار مغربی صنعتوں کے بجائے غربت و افلاس میں مبتلا ممالک کو قرار دیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا یہ ہے کہ وہ ممالک جو دنیا کے ۸۰ فی صد سے زیادہ صنعتی اور دوسرے وسائل کے ممالک ہیں‘ دنیا کے ماحول کی آلودگی کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ بلکہ وہ غریب اس ماحولی آلودگی اور کثافت کے ذمہ دار ہیں جو بے چارے گھروں کے نام پر فٹ پاتھ پر زندگی گزارتے ہیں‘ اور دو وقت کے کھانے سے بھی محروم ہیں۔
ہمیں گلوبلائزیشن کی برکتوں اور بیرونی سرمایہ کاری کی نعمتوں کے ضمن میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس طرح جدید ترین ٹکنالوجی بھی آئے گی اور آرہی ہے۔ یہ بھی سرمایہ داروں کی ایک چال ہے کہ انھوں نے ٹکنالوجی کے معنی بدل دیے ہیں۔ ٹکنالوجی کے حقیقی معنی اپنے وسائل کی اس طرح ترتیب اور تنظیم ہے کہ ان کے کم سے کم مقدار میں استعمال سے زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کیے جا سکیں لیکن اب ٹکنالوجی کے معنی جدید ترین مشینری‘ سافٹ ویئر اور میٹریل کے سمجھے جاتے ہیں جس کی بدترین مثالیں خود ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ چنانچہ ہم اپنے داخلی وسائل کو یکسرنظراندازکرتے ہیں اور جدید ٹکنالوجی کی چمک دمک پر اتنے فریفتہ ہیں کہ معاشیات کے بنیادی اصول سے بھی صرف نظر کر لیتے ہیں۔ چنانچہ قرض ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ زیرآسمان زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور قحط ہے کہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ سیلاب ہے کہ ہر سال تباہی لاتا ہے۔ پانی کی عدم دستیابی ہے جو ملک کے بہت سے حصوں میں عوام کا مقدر بن گئی ہے۔ بیرونی ٹکنالوجی مہنگی ہے اور ہمارے وسائل کم ہیں۔ اس لیے پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ بس دو ہی راستے ہیں: یا تو انسانوں کو مرنے دیا جائے‘ یا ملک کو رہن رکھ دیا جائے۔ ٹکنالوجی ‘ وسائل کے بہترین استعمال کا نام ہے‘ اندھا دھند استعمال کا نہیں۔ سرمایہ دار تو یہ چاہتا ہے کہ اس کا سامان اور اس کی تکنیک بکے‘ اس کو اس سے غرض نہیں کہ ملک کو اس کی ضرورت ہے یا نہیں‘ یا متبادل سامان اور تکنیک کم قیمت پر دستیاب ہے یا نہیں۔
ہم نے اوپر یہ کہا تھا کہ گلوبلائزیشن درحقیقت سرمایہ داری کے غلبے کا نام ہے۔ اس کے ذریعے مغرب کا فاضل سرمایہ پوری دنیا بالخصوص تیسرے ممالک پر اپنا استعمار قائم کرنا چاہتا ہے‘ اور اس تہذیب اور ثقافت کے تسلط کا خواہاں ہے جو مغرب کی شناخت ہے۔ اس دور میں غلبے کے لیے فوجوں کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ مال و زراور ٹکنالوجی زیادہ موثر ہیں۔ اور عامتہ الناس کی یہ آرزو کہ وہ افلاس اور مرض سے نجات پا جائیں‘ اور اس کے مظلوم طبقات کی یہ تمنّا کہ اسے اعتبار اور اختیار حاصل ہو جائے--- مغربی سرمایہ کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے زمین ہموار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبلائزیشن کی ضلع جگت میں خواتین کو بااختیار بنانا (empowerment of women)‘ ازالہ غربت‘ ماحول کی آلودگی کا سدِّباب اور آبادی پر کنٹرول جیسے نعرے بھی شامل کر لیے گئے ہیں۔ مگر امرواقعہ سرمایہ پرستی کی وہی قدیم ہوس ہے جو اس پوری حکمت عملی کی
رگ و پے میں دوڑ رہی ہے۔
گلوبلائزیشن اور آزاد مارکیٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس کو اس کی پروا نہیں ہے کہ تیسری دنیا کے عوام کی ضروریات کیا ہیں۔ وہ ہر شے کو اس کی مارکیٹ سے ناپتا ہے بلکہ وہ اس چیز کو بھی جس کے قدرت نے وافر خزانے فراہم کیے تھے‘ مثلاً پانی کو بھی کمیاب (scarce) بنا کراس کی خرید و فروخت کرنا چاہتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اور اس کے حواریوں کی نظر اس پر ہے کہ ہندستان میں ایک ارب لوگ بستے ہیں۔چنانچہ یہ عظیم الشان مارکیٹ ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اندازہ ہے کہ پوری غریب دنیا میں تقریباً ایک ارب لوگ ایسے ہیں جن کو پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ صرف ہندستان میں تقریباً ۴۰ فی صد لوگوں کو صاف اور صحت مند پینے کا پانی دستیاب نہیں۔ چنانچہ عالمی واٹر فورم (World Water Forum)کی حالیہ کانفرنس میں جو ہیگ (ہالینڈ) میں منعقد ہوئی تھی‘ یہ تجویز پیش کی گئی کہ اگر مارکیٹ میں پانی کی قیمت مقرر کر دی جائے تو ۲۰۱۵ء تک دنیا سے پانی کی کمی دُور ہو جائے گی۔بالفاظ دیگر ‘ پانی بھی بکنے لگے گا۔ سرمایہ داروں کی رال ہر اُس چیز پر ٹپکتی ہے جس کے متعلق ان کو یہ بھنک پڑ جائے کہ اس کی کمی ہونے والی ہے۔ گذشتہ دہائی سے دنیا کے مختلف ماہرین‘ خاص کر وہ لوگ جو ’’ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ‘‘ شائع کرتے ہیں یا جو FAO (Food and Agricultural Organization)سے وابستہ ہیں‘ برابر پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ آیندہ چند دہائیوں میں پوری دنیا میں پانی کی قلّت ہوگی۔ اس لیے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ نج کاری کی اس ذہنیت کے نتیجے میں حکومت ہند بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ اب اعلیٰ تعلیم‘ حکومت کی ذمہ داری نہیں رہ جائے گی بلکہ جو شخص اس کی قیمت ادا کر سکے‘ وہ اسے حاصل کر سکے گا۔ چنانچہ پروفیشنل کالجزاور ادارے پرائیویٹ زمرے میں دیے جا رہے ہیں۔ صحت کی بھی مارکیٹ ویلو مقرر کی جا رہی ہے۔ اگر آپ کے پاس رقم موجود ہے تو آپ علاج کرا سکتے ہیں ورنہ سرکاری ہسپتالوں پر تکیہ کیجیے جہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں کا سا معاملہ کیا جاتا ہے۔ اگر آمدنی اچھی ہے تو اپنی ذاتی سیکوریٹی بازار سے خرید لیجیے ورنہ چوروں‘ اُچکوں کے رحم و کرم پر زندگی گزاریے۔
گلوبلائزیشن اور نج کاری کے نام پر حکومت سے یہ کہا جاتا ہے کہ اشیاے ضروریہ پر سے تمام سبسڈی ختم کر دی جائے۔ اس لیے کہ یہ معاشی کارکردگی (efficiency)کے خلاف ہے۔ جس کے پاس ہندستان میں پیسہ نہ ہو‘ وہ کوکنگ گیس کیوں خریدے؟ اگر وہ غریب ہو تو شکر کیوں استعمال کرے؟ اپنے گھر میں مٹی کے تیل کا چراغ کیوں جلائے؟ اس طرح تو حکومت کے خزانے پر بہت بار پڑتا ہے۔ رہ گیا یہ سوال کہ ایک جمہوری حکومت کی کیا یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کمزور‘ غریب اور نادار عوام کا سہارا بنے؟ امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں تک پہنچائے؟ اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہاں’ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ سبسڈی کے مالی بار سے بیرونی سرمایہ دار اور اس کے نمایندوں ‘ آئی ایم ایف اور عالمی بنک کو کیا دلچسپی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ضروریات زندگی کے بیشتر اجزا کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے سے پیشتر ان کی قیمتوں کو نفع بخش بنانا ضروری ہے۔ صحت‘ تعلیم‘ بجلی‘ پانی--- ان سب کی بازار کی قیمتوں کو منافع بخش بنائے بغیر نجی زمرے کو دل چسپی نہیں ہو سکتی۔
اس کی سب سے اہم مثال ]غیر ملکی کمپنیوں[ کی پیدا کردہ بجلی کی قیمت ہے۔ ]بھارت میں[ مہاراشٹر اسٹیٹ الیکٹرسٹی بورڈ کے تخمینے کے مطابق اس پلانٹ کی بجلی کی قیمت دگنی ہے‘ اور بعض حیثیت میں سات گنی ہے ]پاکستان میں یہی صورت حبکو اور دوسری غیر ملکی کمپنیوں کے تحت بجلی کی فی یونٹ قیمت کی ہے[۔ وہ پانی جو مفت میں دستیاب ہے ‘ جب ورلڈ واٹر فورم کی تجویز کردہ اسکیم کے تحت آجائے گا تو ایک لیٹر پانی کی قیمت کم از کم ۲ تا ۵ ڈالر ہوگی۔ اسی طرح تعلیم‘ خاص کر پروفیشنل تعلیم ہندستان جیسے ملک میں انجینیرنگ کے لیے ۳ لاکھ تک عطیات اور میڈیکل میں ۱۰ تا ۲۰ لاکھ کے عطیات کی قیمت پر ملے گی۔ مستقبل کے بازاروں کی اسی قیمت کے پیش نظر سبسڈی کو ختم کرنے کی پُرزور وکالت کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا کبھی یہ حساب لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سرکار کے غیر ضروری اخراجات پر کتنی رقم صرف ہوتی ہے؟ کتنے منسٹروں کے سکریٹری اور ان کے انڈر سکریٹری‘ جوائنٹ سکریٹری پر کیا رقمیں خرچ ہوتی ہیں؟ ان کانفرنسوں پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے جو بلاضرورت غیر ممالک میں کی جاتی ہیں؟ کیا کبھی کسی دانش ور اور ماہر معاشیات نے یہ اندازہ بھی لگانے کی کوشش کی ہے کہ سبسڈی کے نتیجے میں نادار اور کمزور افراد کی کارکردگی اور ان کی صحت پر کتنے مثبت اثرات پڑتے ہیں یا کتنے مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں؟ جو لوگ سڑکوں کو نجی زمرے کے حوالے کر کے ان پر چلنے کی قیمت لینا چاہتے ہیں‘ جن کو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ ڈیم کے بنانے سے کتنے لاکھ انسان بے گھر ہو جاتے ہیں‘ وہ انسانوں کو صرف معاشی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ ان کا پیمانہ بیم و رجا صرف کھنکتے سکّے ہیں اور بس۔
مغربی سرمایہ داروں اور گلوبلائزیشن کے وکیل‘ اپنی محفل شعروسخن میں (جس کو وہ کبھی مذاکرہ کہتے ہیں‘ کبھی مکالمہ‘ کبھی فورم اور کبھی کنونشن) انسانی حقوق‘ جمہوریت ‘ حریت فکرونظر اور کتنے ہی سہانے نام لیتے ہیں لیکن ان کی عملی پالیسیوں پر صرف تجارتی مفادات غالب رہتے ہیں۔ چین میں ’’تینامن اسکوائر‘‘ کے خونی ڈرامے کے بعد امریکہ نے کتنا شور مچایا تھا! مگر اس کے تجارتی مفادات نے اسے اجازت نہ دی کہ وہ اپنے تعلقات کو اس موہوم آئیڈیل کی بھینٹ چڑھائے۔ چنانچہ تجارتی اور معاشی روابط بڑھتے چلے گئے۔ ہندستان میں جب بی جے پی کی حکومت بنی تو واشنگٹن سے اس کی ناپسندیدگی کی علامتیں ملی تھیں۔ بعضوں نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ فاشسٹ حکومت کو جمہوریت اور حقوق انسانی کا علم بردار امریکہ چلنے نہیں دے گا۔ مگر ہندستان کے وسیع و عریض بازار نے اور امریکہ کے سرمایہ داروں کی حرص نے کچھ اور ہی قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔پہلے صدر کلنٹن نے ہندستان کے مستقبل کی تعریف کی کہ یہ ملک عنقریب سافٹ ویئر اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی قیادت کرے گا۔ چنانچہ ان کی رخصتی کے چند ماہ بعد امریکہ نے سافٹ ویئر انجینیروں کو نسبتاً زیادہ فیاضی سے ویزا دینے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد ایک لمبا سلسلہ ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مقتدر‘ بل گیٹ تشریف لائے۔ پھر دوسرے کارپوریٹس کے چیئرمین تشریف لائے‘ ان میں سے جنرل الیکٹرک (GE)کے چیئرمین جان ویلچ (John Welch)کے بیان سے بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ آپ نے فرمایا کہ آپ ایک ارب گاہکوں کا بازار ہیں‘ اگر آپ نے ہمارے آلہ جات (equipments) نہ خریدے تو ہم مستقبل کے دوسرے انقلاب تک نہ پہنچ سکیں گے۔ اس لیے انھوں نے اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں حکومت ہند سے بنیادی سہولتوں میں فوری بہتری لانے کی اپیل کی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں چھ عدد بڑی کمپنیاں ہیں جو پاور پروڈکشن کے میدان میں غالب ہیں جن میں جی ای بھی ایک کمپنی ہے۔ مگر ترقی یافتہ دنیا میں مختلف اسباب کے تحت ان کے آلہ جات کی مانگ تقریباً صفر ہے۔ اس لیے انڈیا اور چین کی مارکیٹ ان کا ہدف بن گئی ہیں۔ یہی معاملہ اس تمام فاضل سرمایے کا ہے جو مغربی ممالک میں نفع بخش میدانوں کی تلاش میں ہے۔ ان ممالک میں اب زیادہ نفع بخش میدان موجود نہیں ہیں۔ اس لیے کبھی وسط ایشیا کی تلاش ہے اور کبھی جنوب مشرق ایشیا کی۔
سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت میں سمٹنا ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ وہ بازار پر اجارہ داری حاصل کرنے کے لیے چھوٹے سرمایہ داروں کو راستے سے ہٹاتا ہے۔ مگر اس دور میں ٹکنالوجی اور مارکیٹ کی دوررس تبدیلیوں کے نتیجے میں اب ملٹی نیشنل کارپوریٹس کا سکّہ چل رہا ہے۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی محض چار یا پانچ ایسے کارپوریشن ہیں جو دنیا کے ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ جس طرح کی اور جو بھی خبر سنانا چاہیں ‘ وہی خبریں نشر ہوتی ہیں۔ اور جس طرح کا تفریحی اور ثقافتی پروگرام نشر کرنا چاہیں‘ وہی نشر ہو سکتے ہیں۔ یہ براہِ راست بھی ہوتا ہے اور بالواسطہ بھی۔ براہِ راست ان کے اپنے اداروں سے‘ اور بالواسطہ اس طرح کہ ان کے پروگرام اور خبروں کے سحر سے کم وسائل والے ادارے اور حکومتیں مسحور ہوتی ہیں یا پھر ان سے پروگرام خریدتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت دنیا میں وہی سچائی ہے جو یہ سرمایہ دار کمپنیاں بتانا چاہیں۔ وہی فکرونظرمقبول ہے جسے یہ مقبول بناناچاہیں۔ اجارہ داری (monopoly) پہلے ناپسند کی جاتی تھی مگر اب اس نے ایسی شکل اختیار کر لی ہے جو پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقت ور ہے۔ اس کو قیمتوں پر کنٹرول حاصل ہے‘ اورفکرونظر پر بھی۔ گلوبلائزیشن کے یہ کارندے اب تک تیسری دنیا کو اپنے زیراثر نہ لا سکے تھے مگر انھوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے بھی ایک نہایت اہم کام لینا شروع کیا ہے۔
انھوں نے تیسری دنیا کے ممالک کے دانش وروں اور پالیسی سازوں کو یہ یقین دلایا کہ ازالہ غربت کا تمھارا دیرینہ خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم نجی معیشت کو فروغ نہ دو گے۔ ان کی اس حیلہ سازی میں سابق سوویت یونین کی ناکامی نے خاصا اہم کردار ادا کیا‘ اور دوسری طرف ہندستان میں پبلک سیکٹر کی کارکردگی نے اس پروپیگنڈے کی تائید کی۔ ہم کو یہ یقین دلایا گیا کہ پبلک سیکٹرکو درست کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں اس تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ پبلک زمرے کی صنعتوں کی ناکامی کے حقیقی اسباب کیا ہیں اور کیا عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پبلک سیکٹر کی تمام معاشی سرگرمیوں کو یک لخت موقوف کر دیا جائے؟ پبلک سیکٹر میں بعض ایسی معاشی سرگرمیاں شامل ہیں جو کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے‘ مثلاً تعلیم‘ صحت‘ امن عامہ۔ اگر حکومت ان میدانوں سے بھی دامن جھاڑ کر الگ ہو جائے تو وہ حکومت کہلانے کے لائق نہ رہ جائے گی۔ عوامی فلاح و بہبود کے تمام ناگزیر کاموں کا انجام دینا حکومت کی ذمہ داری ہے اور خاص کر ایسے ممالک کی حکومت کی جہاں عوام کی ایک بڑی تعداد مفلس‘ کمزور اور نادار ہے۔ مغربی دانش وروں کی یہ دلیل کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا‘ بے محل اور غلط ہے۔ اس لیے کہ امریکہ میں بنیادی سہولتوں کو نجی زمرے کے حوالے کر دینے کے نتیجے میں بلیک اور نیگرو‘ نہایت خراب زندگی گزارتے ہیں‘ جب کہ ان کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے۔ پھر ایسے ملک میں جہاں خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۵ فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے‘ یہ نسخہ کس طرح کارآمد ہو سکتا ہے۔
مغرب کی فکری غذائوں پر پرورش پائے ہوئے لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ پبلک سیکٹر کی اصلاح ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں سب سے دل چسپ مثال بجلی اور ہائیڈل پاور کے شعبے سے دی جاتی ہے کہ تیسری دنیا کے آفیسر اور حکومتیں نہایت کرپٹ ہیں اور عوام بجلی کی چوری میں ماہر ہیں۔ چنانچہ بجلی کی تقسیم (T&D)کے درمیان جو خسارہ ہوتا ہے وہ ۳۵سے ۴۰ فی صد ہوتا ہے۔ اس ضمن میںیہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ زیادہ تر نقصان بجلی کی چوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ بڑی بڑی چوریاں صنعت کار کرتے ہیں‘ عوام نہیں جن کے پاس بجلی کے دو تین بلب ہوتے ہیں اور دو ایک پنکھے۔ چھ سات سال پیشتر مدھیہ پردیش کے ایک جائزے کے مطابے ۷۰ فی صد صنعت کار بجلی کی چوری کی کرتے تھے جن کی میزان ۵۰۰ کروڑ روپے تک پہنچتی تھی۔ کچھ یہی حال اڑیسہ‘ آندھرا پردیش‘ اترپردیش اور دہلی کا ہے ] پاکستان میں یہ خسارہ اوسطاً ۳۰ سے ۳۵ فی صد ہے جو دراصل بجلی کی چوری کے لیے ایک آڑکا کام کرتا ہے[۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کی اصلاح ناممکن ہے؟ کیا نجی زمرے میں پاور منتقل کرنے سے صورت حال بالکل بدل جائے گی؟
ترقی پذیر ممالک نے گلوبلائزیشن کے نتیجے میں اپنی معاشی ترجیحات میں جس طرح کی تبدیلیاں کی ہیں‘ اس کا اندازہ کرنے کے لیے اتنا ہی ذکر کافی ہے کہ حکومتوں نے سیکڑوں اشیاے صرف پر سے درآمدی پابندیاں ہٹا دی ہیں جن میں بہت سی زرعی پیداوار بھی ہیں اور جن میں سے بیشتر چھوٹے اور اوسط درجے کے کسانوں ‘ یا صنعتی کارخانوں کی ملکیت تھیں اور جن پر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا روزگار منحصر ہے‘ مثلاً کافی‘ دودھ‘ غلہ‘ چینی‘ روٹی‘ ناریل اور بعض دوسری اشیا۔
کئی ممالک میں یہ سب کچھ اس حال میں ہو رہا ہے جب کہ دودھ کی پیداوار فاضل ہے‘ ناریل کی فصل معمول سے زیادہ تھی‘ شکر میں سپلائی ضرورت سے زیادہ تھی اور حکومت کے گوداموں میں ]کئی کئی ملین ٹن[ غلہ سڑ رہا تھا۔ ]جس کے نتیجے میں ان اشیا کی قیمتیں گر رہی ہیں اور کاشت کار کی قوت خرید میں کمی واقع ہورہی ہے[۔ ٹیکسٹائل کی ملیں نہایت خراب صورت حال سے دوچار ہیں۔ اس پالیسی کا متوقع نتیجہ یہ ہے کہ بیرونی دنیا کی عبقری کمپنیاں دودھ‘ مکھن‘ گھی‘ کافی‘ شکر‘ ناریل کے تیل اور اس طرح کی دوسری چیزوں کو ]ایسے ممالک میں[ ڈمپ (dump) کریں گی جیسا کہ جاپانی صنعت کار کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کا اثر روزگار پر کیسا پڑے گا‘ وہ ظاہر ہے۔ اس ضمن میں سب سے سنگین سوال یہ ہے کہ روزگار کا کیا بنے گا؟ کیا ملٹی نیشنل کمپنیاں سامان کے ساتھ روزگار بھی فراہم کریں گی؟
گلوبلائزیشن کے وکیلوں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ازالہ غربت میں اس حکمت عملی کا رول نہایت موثر ہوگا۔ لیکن خود عالمی بنک کی رپورٹ اس کے برخلاف شہادت دیتی ہے۔ اس رپورٹ کو جاری کرتے ہوئے بنک کے صدر نے کہا کہ اس میں نہ صرف یہ کہ غربت کا جائزہ لیا گیا ہے بلکہ اس کے اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے اور وہ تدابیر بتائی گئی ہیں جن پر عمل کر کے ازالہ غربت کیا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ عالم کاری (globalization)کے نتیجے میں دولت مند مزید امیر ہوئے ہیں‘ جب کہ غریبوںکی مجموعی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ آیندہ صدی میں اندیشہ ہے کہ دنیا کی ۶ ارب کی آبادی میں تقریباً ۳ ارب لوگ یومیہ دو ڈالر سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے جن میں ۴۴ فی صد لوگ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ آزاد معیشت میں منافع کی تقسیم غیر مساوی ہے۔ خود ہندستان میں حکومت کے اعتراف کے بموجب خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو اب بڑھ کر ۳۵ فی صد ہو گئی ہے۔
عالمی سطح پر جو غیر عادلانہ رجحانات پیدا ہو رہے ہیں‘ ان کے اسباب پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں جو کثیر بیرونی سرمایہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں آرہا ہے‘ اس پر اب اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ اپنے منافع کا کتنا حصہ اپنے ملک کو منتقل کرتا ہے اور کتنا حصہ تیسری دنیا میں پھر سرمایہ کاری میں لگاتا ہے۔ مثلاً ہندستان میں پہلے بیرونی سرمایے پر متعدد پابندیوں کے ساتھ یہ پابندی بھی تھی کہ وہ ایک متعین شرح سے زیادہ منافع اپنے ملک کو منتقل نہیں کر سکتا۔ مگر اب اس طرح کی کوئی بھی پابندی نہیں عائد کی جاتی۔ اندازہ ہے کہ ایک خطیر رقم ہر سال معطی ممالک کو دی جاتی ہے جو کبھی کبھی آنے والے سرمایے سے کچھ زیادہ یا اس کے برابر ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا سبب سودی سرمایہ ہے۔ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک اس وقت ایک ایسی مشکل میں گرفتار ہیں جس نے ان کو سرمایہ درآمد کرنے والے ممالک سے اب سرمایہ برآمد کرنے والا بنا دیا ہے۔ لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کو قرض اور اعانت (جی ہاں‘ اعانت جو کم شرح سود پر ہوتی ہے) ملا کر جو رقم ملتی ہے‘ اس سے کہیں زیادہ اور کہیں قدرے کم سود اور اصل زرکی واپسی میں خرچ ہو جاتی ہے۔ اس طرح ان ممالک کو اپنے ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ ایشیا میں پاکستان کے متعلق یہ اعداد و شمار ملے تھے کہ بیرونی قرض اور اعانت کا بس ۱۱‘ ۱۲ فی صد ترقیاتی کاموں کے لیے بچتا ہے۔ ہندستان کے متعلق صورت حال یہ ہے کہ جو کچھ وہ ہر سال سود اور اصل زر کی واپسی میں ادا کرتا ہے‘ وہ اس رقم سے زائد ہوتی ہے جو اسے قرض کی شکل میں ملتی ہے۔ اس طرح پوری دنیا میں غریب ممالک سے مسلسل اور متعینہ شکلوں میں دولت امیر ممالک کو منتقل ہو رہی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح خود ملک کے اندر دولت غریبوں سے امیروں کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ پہلی حقیقت کے ثبوت کے طور پر سرمایے کے بین الاقوامی نقل وحمل کے اعداد و شمار ملاحظہ کر لیجیے اور ان کا موازنہ ایشیا کی تجارت اور بین الاقوامی نقل و حمل سے کر لیجیے۔ ظاہر ہے کہ غریب ممالک سے سرمایہ امیر ممالک کی طرف منتقل ہو گا تو اس خلیج میں اضافے کا سبب ہوگا۔
ازالہ غربت کی جتنی بھی اسکیمیں گلوبلائزیشن کے زیرسایہ بنائی جاتی ہیں‘ ان سب میں اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ سرمایے پر اگر اجتماعی مفادات اور اخلاقی حدود کی گرفت نہ ہوگی تو وہ انسانی معاشرے میں ظلم کو پروان چڑھائے گا اور اقتدار کی تمام کنجیاں اپنے دست تصرف میں لینے کی کوشش کرے گا۔ ملکی عوامی کی ضروریات اور ترجیحات کونظرانداز کر کے وہ صرف اپنے منافع کو پیش نظر رکھے گا۔ سرمایے کو غیر مادی لاگت کی پروا نہیں ہوتی بلکہ صرف مالی لاگت کی پروا ہوتی ہے۔
اوپر کی گفتگو سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہوگا کہ آزاد معیشت کے برعکس ‘ پابند معیشت اور منصوبہ بند سرکاری معیشت سراسر خیر ہے۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ انسانیت دوستی اور اخلاقی اقدار سے بے نیاز جو بھی معیشت ہوگی‘ اس کے نتائج انسانیت کے حق میں خیر کبھی نہیں ہو سکتے۔ وہ معاشیات اور وہ معاشرہ جو سیکولر نظریۂ حیات پر زندگی کی تعمیر کرنا چاہے گا‘ وہ ہمیشہ افراط و تفریط میں مبتلا رہے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سیکولر تصّورحیات انسان کو خواہشات کا پابند محض ایک جانور سمجھتا ہے جو صرف اپنی خواہش زدہ عقل اور حرص و آز پر مبنی تجربے سے اپنی راہِ عمل نکالتا ہے‘ورنہ کیا وجہ ہے کہ اسے اتنی بدیہی حقیقت سے بھی گریز ہے کہ اگر انسان خدائی ہدایت سے صرف نظر کر لے تو اسے مقاصد حیات کا تعین کرنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔ وہ خود کو اپنی ناقص عقل اورخواہشات کے حوالے کر کے تنازع للبقا کی زندگی تو گزار سکتا ہے لیکن حسن خلق‘ ایثار اور نصیحت و خیر خواہی اور انسانیت دوستی پر مبنی سماج نہیں بناسکتا۔ جدیدماہرین معاشیات نے خدائی ہدایت کو ردّ کرنے کے بعد خود غرض اور مادی نفع نقصان کو محرک عمل قرار دیا تھا‘ اور اخلاق اور اجتماعی بہبود کو ہر حسابیات سے خارج کر دیا تھا۔ انھوں نے سرمایے اور صرف سرمایے کو انسان کی معاشی جدوجہد میں کلیدی کردار عطا کر کے محنت (یعنی انسان) کو نظرانداز کر دیا تھا۔ خدائی ہدایت کا یہ استرداد دونوں ہی متبادل نظام معاشیات میں مشترک تھا۔ ان میں سے ایک اپنا تماشا دکھا کر گزر گیا مگر دوسرے کو قدرت نے پھر حیات بخش دی ہے جو بہرحال حقیقی حیات نہیں ہے بلکہ آکسیجن کے سہارے قائم ہے (بہ شکریہ ماہنامہ زندگی نو‘ جنوری ۲۰۰۱ء)۔