ڈاکٹر انیس احمد نے طالبہ کو جو جواب دیا ہے (’’تقدس کا مجروح ہونا‘‘ ‘ جنوری ۲۰۰۱ء) وہ ایک پہلو سے تو بہت خوب ہے‘ لیکن کئی پہلوئوں سے تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی کوئی تدبیر نہیں بتائی گئی کہ دوسرے فریق کو ایکسپوز کیا جائے تاکہ وہ آیندہ کسی اور کے ساتھ اس طرح کی کارروائی سے باز رہ سکے۔ یا کم سے کم یہ یقین ہی حاصل کیا جائے کہ وہ بھی تائب ہو گیا ہے۔ اس طرف بھی اشارہ کیا جانا چاہیے تھاکہ ذمہ داری سے بری وہ بزرگ اور والدین بھی نہیں ہیں جو دنیا دیکھنے کے باوجود اپنی لڑکیوں کو اس طرح کی ٹیوشن کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ہمارا وہ نظام بھی تبصرے کا موضوع بننا چاہیے تھا جس میں اس طرح کے واقعات روزافزوں ہیں اور واقع ہو جائیں تو تدارک کے لیے کوئی راستہ نہیں۔ شریعت کے احکامات جس میں اس طرح کی تنہائی کو سرے سے منع کیا گیا ہے‘ ان کی حکمت بھی واضح ہوتی ہے کہ جہاں شیطان تیسرا ساتھی ہو‘ وہاں ہر چیز ممکن ہے۔
’’پاکستانی معاشرے کی مزاجی کیفیت‘‘ (جنوری ۲۰۰۱ء) میں لسانی عصبیتوں کے حوالے سے یہ بیان کہ ’’چھوٹے صوبوں کے عوام میں یہ بات متفق علیہ ہو گئی ہے کہ پنجاب ہم سے زیادتی کرتا رہا ہے اور مزید کر رہا ہے‘‘ (ص ۶۴)‘ امر واقعہ کے خلاف ہے۔ عوام اپنے مسائل اور محرومیوں سے پریشان ضرور ہیں لیکن ایک عام آدمی محب وطن ہے‘ پاکستان کی سلامتی و یک جہتی کا خواہاں ہے‘ اور ملک میں اسلام کا نفاذ چاہتا ہے۔ وہ صوبائی عصبیتوں کو ملک کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے۔ اس لیے آپ کے رسالے میں ایک محدود حلقے کے تاثر کا اتنے عموم اور قطعیت سے بیان صدمے کا باعث ہوا۔ عبدالکریم عابد جیسے کہنہ مشق صحافی کا قلم محتاط ہونا چاہیے تھا۔
’’۶۰ سال پہلے‘‘ (جنوری ۲۰۰۱ء) میں سید احمد شہیدؒ کی تاریخ شہادت ۲۴ ذی قعدہ ۱۲۴۶ھ مطابق ۱۸۳۰ء درج ہوئی ہے۔ درست ۶ مئی ۱۸۳۱ء‘ ۲۴ ذی القعدہ ۱۲۴۶ھ ہے (اردو دائرہ معارف اسلامی‘ جلد ۲‘ جامعہ پنجاب‘ لاہور‘ ۱۹۶۶ء‘ ص ۱۴۱)۔ غالباً صاحب کتاب سے سہواً ہوا ہے لیکن علمی اور تاریخی اعتبار سے اس کی اصلاح بہت اہم اور ضروری ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن کا صرف اہلِ زبان ہی مطالعہ نہیں کرتے بلکہ کم پڑھے لکھے بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس لیے اسے معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم بھی ہونا چاہیے۔ ’’ذکر صدقے کی فضیلت کا‘‘ (جنوری ۲۰۰۱ء) عام فہم معلوم نہیں ہوتا‘ مثلاً ’’اللہ کے احسان کی کچھ نہایت نہیں ہے‘‘ (ص ۲۶)۔ اسی طرح اسی صفحے پر حدیث کا ترجمہ دیکھیے: ’’عذاب کی گئی عورت ایک بلی کے پیچھے کہ اس کو باندھ کر رکھا یہاں تک کہ بھوک سے مرگئی‘‘۔ کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ بلی مر گئی یا عورت۔ تجویز ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی سے متعلق بھی مضامین شائع کیے جانے چاہییں۔
گذشتہ عشرے میں ترجمان القرآن نے علمی معیار اور پیش کش اور توسیع اشاعت کے حوالے سے جس غیر معمولی پیش رفت کا مظاہرہ کیا‘ وہ قابل ستایش اور غیر معمولی ہے‘ تاہم پرچہ یکسانیت کا شکار ہوتا نظر آتاہے۔ اشارات میں اجتہادی امور کو منظرعام پر لایا جائے۔ اخبار امت کے مآخذ بھی محدود ہیں۔ کتاب نما میں عام کتب کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ رسائل و مسائل فقہی امور کی نذر کیے جا رہے ہیں‘ جب کہ یہ سلسلہ اجتہادی امور کے لیے وقف ہونا چاہیے۔ ترجمان القرآن صرف تحریکی حلقوں میں ہی نہیں پڑھا جاتا بلکہ یہ ایک عام قاری کا بھی رسالہ ہے۔اس لیے عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معیار کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ ترجمان القرآن ایک ہمہ جہت علمی و فکری مجلہ بن جائے۔
رسائل و مسائل (دسمبر ۲۰۰۰ء) میں این جی اوز اور دینی جماعتوں کا موضوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دراصل یہ ساری بحث ہی بے معنی معلوم ہوتی ہے کہ پاکستانی قوم کو جو مسائل درپیش ہیں ان کے حل کے لیے کس فریق کی کارکردگی زیادہ قابل ستایش ہے۔ دینی جماعتیں استحصال کی حامی ہیں نہ تمام این جی اوز مغربی و صیہونی لابی کی آلہ کار۔
بلاشبہ دینی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کا معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں شروع سے ایک فعال کردار رہا ہے‘تاہم یہ کہنا کہ این جی اوز کا پاکستان کی ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں‘ اور حقیقی مسائل سے وہ لاتعلق ہیں‘ ایک مبالغہ آمیز تجزیہ و تبصرہ ہے۔ اصل مقصد توپاکستان اور پاکستانی عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود ہے‘ چاہے وہ کوئی بھی کرے۔ بعض این جی اوز پر تنقید کی گنجایش بلکہ ضرورت اس پہلو سے ہے کہ پاکستان کی اساس جن بنیادی نظریات و تصورات پر استوار ہے‘ ان این جی اوز کے مقاصد اور معاشرتی ترقی کے لیے مجوزہ لائحہ عمل ان کی جڑ کاٹ دینے کے مترادف ہیں۔ مسئلے کا حل رپورٹ برائے رپورٹ دینے کے بجائے قلب کے مرض اور فکر کی اس ٹیڑھ کی اصلاح میں ہے جو این جی اوز کے مقاصد اور لائحہ عمل میں بالعموم پائی جاتی ہیں۔ یہ حکمت دین کا تقاضا ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن (دسمبر ۲۰۰۰ء) میں مغرب اور اسلام (ص ۶۸-۶۹) پر تبصرہ نظر سے گزرا جس میں ڈاکٹرمراد ہوف مین کے خطبات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ فاضل تبصرہ نگار نے ان کے ایک جملے ’’خواتین کے چہروں کا پردہ کرنے کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں‘‘ پر ڈاکٹر موصوف کو نیم بے خبری کا طعنہ دیا ہے۔ میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ درج ذیل سب حوالے قرآن حکیم کی آیت ولایبدین ۔۔۔۔ الا ما ظھرمنھا سے متعلق ہیں۔حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کا قول ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا پردہ نہیں اور یہی رائے امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ کی ہے اور امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول بھی یہی ہے (بحوالہ فتاویٰ ابن تیمیہ‘ مطبوعہ سعودی عرب ۱۳۹۸ھ‘ ۲۲:۱۰۹)۔ یہی امام مالکؒ کا مذہب ہے اور وہ اس میں پہنے ہوئے کپڑوں کو بھی شمار کرتے ہیں (بحوالہ التسہیل (محمد بن حمد بن جزی الکلی) ۳:۶۴)۔ مندرجہ ذیل مفسرین کی رائے بھی یہی ہے کہ چہرے اور ہاتھ پردے میں شامل نہیں۔ جامع البیان لاحمد بن جریر الطبری‘ مطبوعہ دارالفکر ‘۱۱۹:۱۰ (ص ۱۸)۔ الکشاف لزمخشری‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ (۳:۶۱)۔ لزمخشری نے تو چہرے اور ہاتھ کھلا رکھنے کی حکمت بھی بیان کی ہے۔ احکام القرآن لابی بکر محمد بن عبداللہ المعروف بابن العربی‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ لبنان‘ ۳:۱۳۶۹۔ انھوں نے زینت ظاہری اور زینت خفی پر بڑی خوب صورت بحث کی۔ التفسیر الکبیر لامام فخر الرازی‘ مطبوعہ ایران‘ ۲۳:۲۰۵۔ البحر المحیط لابی حبان بن محمد بن یوسف الاندلسی‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ‘ ۶:۴۱۲۔ مدراک التنزیل لابی البرکات النسفی‘ مطبوعہ حنفی دہلی‘ ۲:۴۷۔ تفسیر المراعی لاحمد مصطفی المراء ‘ مطبوعہ دارالفکر‘ لبنان‘ ۶:۹۹۔ فی ظلال القرآن‘ مطبوعہ دارالشرف‘ ۴:۲۵۱۳۔ اس موضوع پر دو نہایت قیمتی کتب عربی میں دورحاضر کے سب سے بڑے محدث شیخ محمد ناصر الدین البانیؒ کے قلم سے نکلی ہیں: ۱- حجاب المرأۃ المسلمۃ فی الکتاب والسنۃ‘ مطبوعہ المکتب الاسلامی‘ دمشق۔ ۲- جلباب المرأۃ المسلمۃ فی الکتب السنۃ‘ مطبوعہ المکتبہ الاسلامیۃ‘ عمان‘ الاردن۔ کیا فاضل تبصرہ نگار ان سب کو بھی نیم بے خبر قرار دیں گے؟
ترجمان القرآن کا نیا سرورق دل موہ لینے والا‘ جاذب نظر اور انتہائی خوب صورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ ان دنوں تحریریں بھی آسان پیرائے میں آرہی ہیں جو ایک اچھا اقدام ہے۔ کیونکہ ہمیں آپ سے مشکل پیرائے میں تحریروں پر اکثر شکایت رہتی ہے۔ تاہم اخبار امت کے صفحات بڑھائیں اور عالم اسلام اور اسلامی تحریکوں کے متعلق باقاعدگی سے اور مفصل تحریریں دیں۔
مجھے فجی آئے تقریباً ایک سال اور چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ یہاں پاکستان کے متعلق کم ہی مواد پڑھنے کو ملتا ہے صرف روزنامہ جنگ‘ کراچی آتا ہے اور وہ بھی چار سے چھ ہفتے کا باسی ہوتا ہے۔ یہاں کی اسلامی لائبریری میں ترجمان کی پرانی کاپیاں تو کافی نظر آئیں لیکن ۱۰‘ ۱۲ سال سے تو کوئی جماعتی لٹریچر یا رسالہ وغیرہ کچھ نہیں آیا۔یہاں آکر ترجمان کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی۔
فجی کے پڑوس میں ایک اور جزیرہ ناواٹو کے نام سے ہے وہاں اشاعت اسلام کا کام گذشتہ چند سالوں سے ہوا ہے۔ نائیجیریا سے ایک مسلمان قانون دان‘ وہاں دعوتی سرگرمیوں میں بڑی دل چسپی لے رہے ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ تین چار سالوں سے کافی لوگ مسلمان ہوئے ہیں‘ جب کہ ابھی تک وہاں باقاعدہ کوئی مسجد نہیں ہے۔ عموماً گھروں پر یا پھر چھوٹے سے مرکز بنا کر گزارا کر رہے ہیں۔اس وقت وہاں ۴۰۰ کے قریب لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ اس جزیرے سے پہلا مسلمان نوجوان فجی میں ایک اسلامی ادارے سے چار سال کا کورس کر کے واپس گیا ہے۔ وہی وہاں سب سے بڑا عالم دین ہے۔ یہاں سے عموماً لوگ تبلیغی جماعت کے توسط سے بچوں کو پاکستان میں تبلیغی مدارس میں بھیجتے ہیں۔ یہ بچے پاکستان سے واپس وہی ذہنیت اور فکر لے کر آتے ہیں۔ ہمارے لیے دعوتی نقطۂ نظر سے بڑا مفید ہوگا کہ بچے سید موودی انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم اور تربیت حاصل کریں اور پھر وہ عصری تقاضوں اور ماحول کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہاں دعوت کا بہترین کام کریں۔
یہاں تحریکی کتابیں اور فکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج سے تقریباً کوئی ۲۵ سال قبل انڈیا سے تحریکی لٹریچر آتا رہا۔ اس حوالے سے بھی اگر کوئی انتظام ہو سکے تو بہت بڑا نیکی کا کام ہوگا۔ یہاں اگرچہ لوگ اردو سمجھ لیتے ہیں اور اپنے مخصوص (ہندی ‘ اردو انگریزی ملا کر) لہجے میں بولتے بھی ہیں لیکن انگریزی پڑھنا اور سمجھنا زیادہ آسان ہے۔ اس لیے انگریزی لٹریچر ہو تو زیادہ بہتر ہے۔
ماہنامہ ترجمان القرآن امت کے لیے فکری رہنما کا کردار ادا کر رہا ہے۔ خدا تعالیٰ اسے مزید ترقی دے۔ آمین۔ گزارش ہے کہ ’پاکستانی میڈیا‘ پر گرفت کے لیے خصوصاً الیکٹرانک ذرائع ابلاغ پر تبصرہ‘ تنقید اور رہنمائی کے لیے بھی کچھ نہ کچھ شائع کیا کریں۔ یہ محاذ بھی اہمیت رکھتا ہے!