ترجمہ: میاں محمد اکرم
مسلم عیسائی مکالمے کا آغاز تو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی ہوگیا تھا‘ لیکن صلیبی جنگوں نے اور بعد میں ان کے تذکروں نے اسے اپنا ایک آہنگ دیا۔ ماضی قریب میں یورپی ممالک میںمسلم ممالک سے جا کربسنے والے افراد اور خاندانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے رابطے کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ عملی رویے‘ روایت اور تاریخی پس منظر سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ آنے والی صدی اور عہدحاضر کے اپنے تقاضے ہیں۔ دونوں طرف کی قیادت کے لیے یہ غوروفکر کا ایک اہم موضوع ہے تاکہ صحیح بنیادوں پر نقطۂ نظر تشکیل پائے‘ اپنے اپنے پیرووں کو اس کی تلقین کریں جو درست عملی رویے اپنائیں۔
یورپ کے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچوں کے اداروں KEN) اور (CCEE نے ایک مشترکہ ’’اسلام ان یورپ کمیٹی‘‘ قائم کی جس نے اکتوبر ۱۹۹۴ء اور مارچ ۱۹۹۵ء میں جینیوا میں اپنے اجلاس کیے اور رپورٹ تیار کی جس میں باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ریسی پروسٹی (reciprocity) کو تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا تھا‘ یعنی جو رویہ اور سلوک ایک فریق اختیار کرے‘ دوسرے کو بھی وہی اپنانا چاہیے۔یہ ان کے نزدیک تعلقات کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کی بہترین منطقی بنیاد تھی۔
اس پر محترم خرم مراد نے جو اس وقت اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے ڈائرکٹر جنرل تھے‘ یہ موقف اختیار کیا کہ ادلے کا بدلہ‘ جیسے کو تیسا‘ کوئی اچھی اخلاقی بنیاد نہیں۔ دین کی تعلیم تو یہ ہے کہ کوئی تمھارے ساتھ برا سلوک کرے پھر بھی تم اس کے ساتھ اچھا ہی سلوک کرو۔ دوسروں کو ان کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دینا اصل بات ہے۔ مضبوط استدلال کے ساتھ انھوں نے اپنا یہ موقف عیسائی قیادت کو ارسال کیا۔ یہ فائونڈیشن کے جریدے Encounter میں شائع کیا گیا (ستمبر ۱۹۹۶ء)۔ اس کی روشنی میں عیسائی قیادت نے اپنے موقف پر نظرثانی کی اور دستاویز میں یہ تبدیلی کی۔ کمیٹی کے سیکرٹری نے اسلامک فائونڈیشن کو یہ خط لکھا:
مجھے افسوس ہے کہ اب یہ ممکن نہیں کہ ہم خود خرم مراد کو جواب دے سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس تمام بحث و مباحثے کے بعد جو نئی دستاویز تیار ہوئی ہے‘ خرم مراد اس کی قدر کرتے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہم نے اس میں خرم مراد کی تحریر سے اقتباسات لیے ہیں اور فیصلہ کیا ہے کہ عیسائی مسلم تعلقات کے لیے ریسی پروسٹی کے پورے تصور کو ہی مسترد کر دیں (۲۶ فروری ۱۹۹۷ء)۔
ہم محترم خرم مراد کی تحریر کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جو عیسائی مسلم تعلقات کے حوالے سے ایک مستقل نوعیت کی حامل دستاویز قرار دی جا سکتی ہے (ادارہ)۔
میں نے اسلام اِن یورپ کمیٹی کی اس دستاویز کو بہت غور سے پڑھا ہے (Encounter‘ مارچ ۱۹۹۶ء)۔ مجھے یہ رپورٹ پڑھ کر خوشی ہوئی‘ اس لیے کہ آج کے دور میں ‘جب کہ ہر طرف باہمی نفرت‘ عدم رواداری‘ تنازعات‘ خوں ریزی اور نسل کشی کا دور دورہ ہے‘ خداے واحد کی زمین پر ’’ایسی بنیاد اورطریقہ معلوم کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ہمیں اپنے اپنے خدا کی ایک دنیا میں ‘ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کے قابل بنائے‘‘ (ص ۷۵)۔
آج ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ایک ایسے نئے اور تازہ نقطۂ نظر کی ہے جو علمی اور ابلاغی دنیا میں جاری بے ثمر اور فرسودہ بحثوں سے الگ ہو کر نئے راستے کا نقطۂ آغاز بن جائے۔ میرا احساس ہے کہ یہ دستاویز جو طویل غوروفکر کا نتیجہ ہے یہ توقع پوری نہیں کرتی۔ چرچ کے رہنما ذہن و قلب کی جس وسعت اور کشادگی پر اتنا زور دیتے ہیں‘ اور صحیح دیتے ہیں‘ اس کے ہوتے ہوئے یہ مشکل نہ ہونا چاہیے تھا۔ مجھے امید ہے کہ میں جو معروضات پیش کر رہا ہوں وہ ان پر غور کریں گے اور اگر اتفاق کریں گے تو اس دستاویز کے خلا اور تناقصات میں سے کچھ کو دُور کریں گے جو میرا خیال ہے کہ اس دستاویز میں موجود ہیں‘ کیونکہ سب کی خواہش ہے کہ یہ مکالمہ آگے بڑھے۔
دستاویز میں سب سے زیادہ زور ریسی پروسٹی پر ہے‘ لیکن کیا ریسی پروسٹی وہ جامع بنیادفراہم کر سکتی ہے جو ساتھ مل جل کر رہنے کے لیے‘ جو بنیادی طور پر ایک اخلاقی‘ روحانی اور معاشرتی تجربہ ہے‘ ضروری ہے؟ کیا یہ ہمارے ایمان و عقیدے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریسی پروسٹی اچھے تعلقات کے فروغ کے لیے ایک کمزور‘ بہت ہی مبہم اور اخلاقی طور پر غیر اطمینان بخش بنیاد نظر آتی ہے۔
اوّل‘ ریسی پروسٹی کا مطلب بہت آسانی سے‘ بالکل منفی معنوں میں‘ یعنی برائی کے بدلے میں برائی‘ لیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو دستاویز نے خود تسلیم کیا ہے اور اسے بائبل کے خلاف ہونے کی بنیاد پر مسترد کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس دستاویز میں اس سے بھی زیادہ اہم بات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام اور عیسائیت کی مقدس کتابیں‘ قرآن اور بائبل‘ دونوںاس منفی بات کو مسترد کرنے سے بہت آگے بڑھ کر اس ریسی پروسٹی سے بھی منع کرتی ہیں جو صرف اچھائی کے بدلے میں اچھائی کی تعلیم دے۔ درحقیقت وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر برائی کے بدلے میں اچھائی‘ اختیار کرنے پر شدت سے اُبھارتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو نیکی ہے‘ جس کی دین نے تعلیم دی ہے‘ خاص طور پر انصاف اور ہمدردی‘ وہ دوسروں کے ساتھ کرنا چاہیے خواہ دوسرا ہمارے ساتھ وہی نیکی کر رہا ہے یا نہیں۔ اگرچہ کہ وہ دوسرا ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو یا ماضی میں اس نے ہمارے ساتھ کوئی بہت بڑی زیادتی ہی کیوں نہ کی ہو۔ اس بارے میں قرآن پاک یہ کہتا ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘ (المائدہ ۵:۸)۔ ’’اور جب بات کہو‘ انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتے دار ہی کا کیوں نہ ہو‘‘ (الانعام ۶:۱۵۲)۔ اسی طرح یہ فرمایا گیا کہ لوگوں سے بھلی بات کہو (البقرہ ۲: ۸۳) ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر قرآن یہ ہدایت دیتا ہے: ’’اور اے نبیؐ ‘ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو‘‘ (حم السجدہ ۴۱:۳۴)۔
میں چاہتا ہوں کہ چرچ کے رہنما سوچیں: کیا ہم اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ یہ اعلان کریں کہ ہمارے باہمی تعلقات کی راہ نما یہ بنیادی اخلاقی تعلیم ہو گی اور یہ ساتھ زندگی گزارنے کا اوّلین اصول ہوگا‘ نہ کہ ریسی پروسٹی کے لیے کوئی اپیل۔ افسوس تو یہ ہے کہ ریسی پروسٹی کا دکھانے کے لیے بھی کوئی نمونہ آج کی سیکولر ریاستوں کے علاوہ ان کے پاس نہیں ہے۔ کیا یہ بات اخلاقی لحاظ سے زیادہ برتر اور ثمرآور نہ ہوتی کہ وہ عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے برے سلوک کے اپنے احساس کے بارے میں اپنا استدلال‘ ریسی پروسٹی کے بجائے‘ مسلمانوں کے عقیدے اور کتاب کی بنیاد پر پیش کرتے۔ اس قسم کے دلائل کہ: ’’مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہونا چاہیے کہ وہ عیسائیت کو قبول کر سکیں کیونکہ ہم بھی عیسائیوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اسلام قبول کر لیں‘‘ ‘ عقیدے یا اخلاق کی بنیاد پر اپیل کے بجائے تجارتی لین دین کا رویہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ دوسروں کو ان کی اقدار و روایات سے مخلص ہونے میں بھی کوئی مدد نہیں دیتا۔
دوم: ریسی پروسٹی میں کچھ سنگین خامیاں ہیں۔ زیربحث دستاویز میں ان مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کوئی قابل اطمینان حل سامنے نہیں آتے۔ ریسی پروسٹی کا اظہار تو عملی رویوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواداری نہ پائے جانے کے بارے میں جو مثالیں دستاویز میں دی گئی ہیں وہ حقیقی اور ٹھوس رویے سے متعلق ہیں‘ تاہم آخر میں ذہن و قلب کی ریسی پروسٹی کی دعوت دی گئی ہے۔ لیکن اس سے کیا مراد ہے؟ یہ بالکل نہیں بتایا گیا۔ ہم اتنے وسیع المعانی اور مبہم وعظوں پر تکیہ نہیں کر سکتے‘ یہ خالی خولی لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خالی خولی نصیحتوں سے اچھے باہمی روابط کو فروغ نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی ان سے: ’’دنیا کو ناقابل بیان مصائب اور خوں ریزی سے بچایا جا سکتا ہے‘‘ (ص ۷۵)۔
اگر ہم مذہب کی تبدیلی‘ عبادت گاہوں کی تعمیر‘ سیاسی حقوق اور توہین کے قوانین جیسے معاملات میں رویے کی ریسی پروسٹی کے خواہاں ہیں توسب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم کس فریق سے توقع کریں کہ وہ یہ رویہ اختیار کرے۔ مسلمان اور عیسائی دونوں غیر واضح وجود ہیں۔ مغربی ممالک عیسائی ریاستیں ہیں یا نہیں ہیں اور مسلمان ممالک اسلامی ہیں یا نہیں ہیں--- اتنا الجھا ہوا سوال ہے کہ دستاویزنے بھی اسے چھوڑنے کو ہی ترجیح دی ہے۔
درحقیقت ریسی پروسٹی سے متعلق اس قسم کے سوال اور دیگر معاملات ریاستوں اور حکومتوں کے دائرے میں آتے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب کی سیکولر حکومتیں اپنے عیسائی ہونے کو کھلے عام تسلیم کر سکتی ہیں؟ اور کیا وہ عیسائیوں کی جانب سے یہ ذمہ داری لیں گی؟ اسی طرح‘ کیا مسلمان ریاستیں مسلمانوں کی جانب سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر تیار ہیں؟ شاید یہ ریاستیں اس کے لیے بخوشی تیار ہوجائیں لیکن ان مسائل پر وہ اپنے ہی عوام کے ساتھ مسلسل لڑائی جھگڑے میں مصروف ہیں۔
ریسی پروسٹی کی واضح حدود کار اور اس کے ذمہ دار افراد کی غیر موجودگی میں یہ مسئلہ لاینحل اور متنازع رہتا نظر آتا ہے۔ دستاویز نے معاملے کو اٹھایا تو ہے لیکن اس کے حل کے لیے کوئی اشارہ دیے بغیر ہی اسے چھوڑنا پڑا ہے۔
مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ: ’’یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک کو عموماً عیسائی ممالک تصور کیا جاتا ہے حالانکہ وہ عیسائی نہیں ہیں‘‘ (ص ۷۱)‘ جب کہ مسلمان ممالک مسلمان ہیں۔ مگر ہمیں سوچنا چاہیے کہ مغربی ممالک عیسائی ریاستیں کیوں نہیں ہیں؟ ان تمام ممالک میں سربراہ مملکت کے لیے عیسائی ہونا ضروری ہے۔بعض جگہ عملاً اور بعض جگہ قانوناً۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ صرف مسلمان ہوسکتا ہے تو برطانیہ کے حکمران کے لیے بھی عیسائی ہونا ضروری ہے۔ اگر شاہ برطانیہ اسلام قبول کر لے تو کیا پھر بھی وہ برطانیہ کا بادشاہ رہ سکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ تمام یورپی ممالک عیسائیت کو اپنے ’’قومی ورثے کا ایک نہایت اہم حصہ تصور کرتے ہیں‘‘ (ص ۷۱)۔ ان کا اپنے کلیسا کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ سیاسی‘ قانونی‘ معاشی اور تعلیمی معاملات پر کلیسا سے باقاعدہ مشورہ کرتے ہیں اور کلیسا کی تنقید کے لیے بہت حساس ہوتے ہیں۔ اس بات کو یہ دستاویز بھی تسلیم کرتی ہے۔
اس صورت حال کے بارے میں مسلمان جو کچھ محسوس کرتے ہیں--- اور یہ اہمیت رکھتا ہے--- اس کا دستاویز میں کوئی تذکرہ نہیں۔ یعنی یہ کہ عالمی سطح پر یہ ریاستیں کھلا کھلا عیسائی موقف اختیار کرتی ہیں۔ عیسائی مشنریوں اور غیر سرکاری تنظیموں (N.G.O)کو کھلے طور پر امداد فراہم کرتی ہیں‘ اور ان کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے بچانے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کرتی ہیں‘ اور مسلمان ممالک میں عیسائیوں کے مسائل پر عیسائیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ عام طور پر ان ممالک میں قانون سازی اور عدالتی امور میں عیسائیوں کے حق میں مداخلت کرتی ہیں۔
ایک مثال دیکھیں: اگر پاکستان میں ایک عیسائی پر ملکی قانون کے تحت توہین رسالتؐ کا مقدمہ چلایا گیا تو مغربی ممالک کے صدور‘ وزراے اعظم‘ وزراے خارجہ‘ سفارتی نمایندے اور ذرائع ابلاغ موقع پر کود پڑے اور ہر ممکن طریقے سے اس میں مداخلت کی‘ مقدمے کی سماعت پر اثراندازہوئے‘ اور قانون توہین رسالتؐ کو تبدیل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ہو سکتا ہے کہ اعلیٰ مقاصد کی علم برداری ان کے پیش نظر ہو‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ صرف اس لیے اس معاملے میں چیمپئن بننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک انسان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور اس کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم اس مداخلت کو خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ ہر انسان کے حقوق مقدس ہیں اور انھیں پامال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہر ایک کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔
حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ سارا شور وغوغا اور دبائو صرف سلامت مسیحوں‘ تسلیمہ نسرینوں اور اسی قماش کے لوگوں کے لیے ڈالا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سیکڑوں اور ہزاروں عبداللہ اور محمد اور علی نامی لوگوں کے معاملے میں ایسا کبھی نہیں کیا گیا جن کو مسلسل اذیتیں دی جاتی ہیں اور انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں مسلمان اپنے ہی ممالک میں‘ اپنے بنیادی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے والی حکومتیں ان مغربی ممالک کی معاونت‘ امداد اور سہاروں سے قائم ہیں جن کے بارے میں دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں۔ان لوگوں کے حق میں تو کوئی سرگوشی بھی سنائی نہیں دیتی اور اگر ہوتی ہے تو وہ تائید وتحسین کی ہوتی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کم طاقت ور نام نہاد مسلم ریاستیں اسی انداز میں طاقت ور ملکوں کی حکمرانی میں دخیل ہو سکتی ہیں؟ یقینا نہیں۔ اس پر ہمیں افسوس ہوتا ہے ۔ ہمیں شک گزرنے لگتا ہے کہ روشن خیالی اور سیکولرزم صرف نمایشی نعرے ہیں اور درونِ خانہ یہ ممالک پوری طرح عیسائی ہیں‘ خاص طور پر جب معاملہ اسلام کا ہو یا مسلمانوں کا۔ اس صورت حال پر دیانت داری سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلمان ممالک کی صورت حال کو بھی صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف انقلابی عنصر کا نقطۂ نظر ہی نہیں ہے کہ یہ حکومتیں اسلامی نہیں ہیں بلکہ سب مسلمان سمجھتے ہیں کہ ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے جو ہم کو گزارنا چاہیے۔ اگر موقع دیا جائے تو تقریباً تمام لوگ نفاذ شریعت کے حق میں ووٹ دیں گے۔ عیسائیوں کے حوالے سے کچھ ناانصافیاں موجود ہیں جن کی کوئی مسلمان تائید نہیں کرتا لیکن یہ اِکا دکا ہیں‘ جب کہ اس سے زیادہ سنگین ناانصافیاں اور مظالم مسلمان حکومتوں کی طرف سے مسلمان عوام پر روا رکھے جا رہے ہیں۔
ریسی پروسٹی ایک متنازع فیہ بحث ہے‘ جو ایسی ہی رہے گی‘ کیونکہ اس بات پر اتفاق رائے کا ہونا کہ ’’اچھے سلوک ‘‘سے کیا مراد ہے اور ریسی پروسٹی کے کیا معنی ہیں‘ مشکل ہے۔
آیئے تبدیلی مذہب کے حق کو لیں۔ یہ بات درست ہے کہ اسلامی قانون جیسا کہ وہ اس وقت ہے ایک مسلمان کو ‘ جو اس قانون کو تسلیم کرے‘ کسی دوسرے مذہب مثلاً عیسائیت کو قبول کرنے سے منع کرتا ہے۔ یہ موقع نہیں ہے کہ اس قانون کے درست یا غلط ہونے پر بحث کی جائے یا اس قانونی مسئلے پر ازسرنو غور کیا جائے… یہاں مجھے صرف ریسی پروسٹی سے بحث ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مغرب میں کسی عیسائی کے قبول اسلام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے یا بہت کم رکاوٹ ہے۔ لیکن کیا ایسا روشن خیالی اور انسانی آزادی کے احترام کا نتیجہ ہے یا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست اور معاشرے کی نظر میں مذہب اتنا بے حیثیت ہوچکا ہے کہ ان کی نظر میں تبدیلی مذہب یا ارتداد بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں؟ لیکن مغربی عیسائی ممالک مسلمانوں کے درمیان کفر و ارتداد کو نہ صرف برداشت کرتے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘ لیکن یہ آزاد رو اور روشن خیال ریاستیں یا معاشرے کسی ایسے ’’مذہب‘‘ یا ’’مذہبی عمل‘‘ یا عبادت کے طریقے کو برداشت نہیں کرتے جو ان کے خیال میں ان کی اقدار اور قوانین سے جنھیں وہ اہم سمجھتے ہیں‘ انحراف یا تجاوز کرنے والے ہوں۔ مثال کے طور پر وہ یہودیت یا سامیت کے خلاف کچھ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے لیکن اس کے مقابلے میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلام یامسلمانوں اور عربوں کو برا بھلا کہنے کی اور اسلام دشمنی کی پوری اجازت دیتے ہیں اور اس بات کو ہرگز برا نہیں سمجھا جاتا (گویا کہ عرب سامی النسل نہیں ہیں)۔ وہ ہر قسم کے سیاسی رجحانات کے لیے آزادی کو برداشت کرتے ہیں‘ مگر جیسا کہ امریکہ میں ہوا‘ کمیونسٹ پارٹی کو خلاف قانون قرار دے دیتے ہیں۔ وہ اسلام قبول کرنے یا مسلمان ہو جانے کا حق تو دے سکتے ہیں لیکن مسلمان خواتین کو حجاب پہننے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جیسا کہ فرانس میں ہوا۔ اور اسی طرح حلال ذبیحہ کرنے کا حق نہیں دیتے‘ جیسا کہ جرمنی میں ہے۔ نماز جمعہ کے لیے کام میں وقفے کا حق دینے کے لیے تیارنہیں‘ جیسا کہ برطانیہ میں ہوتا ہے۔
تو کیا میرے کلیسا کے دوست اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اصل مسئلہ تبدیلی مذہب‘ عقیدے کی آزادی‘ اظہار رائے کی آزادی یا انسانی حقوق کا نہیں ہے۔ یہ حقوق کہیں بھی مطلق یا بے قید نہیںہیں۔ ہر جگہ کفر و ارتداد کو اختیار کرنے پر پابندیاں ہیں۔ اس طرح صرف حقوق ہی دائو پر نہیں لگے ہیں‘ بلکہ کچھ دوسرے سوالات بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں‘ یعنی یہ کہ: ۱- تبدیلی کس (مذہب) سے کس طرف؟ ۲- کفر یا انکار کس (مذہب) کے خلاف؟ ۳- کس قسم کی بات پر پابندیاں؟
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو مسلم ممالک کے رویے اور قوانین جو مغربی عیسائی ممالک سے مختلف نظر آتے ہیں‘ درحقیقت بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ وہ ان ممالک میں اس لیے موجود ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ان کا ایمان اب بھی اہمیت رکھتا ہے اور نہ صرف ان کے دلوں کی دنیا کے لیے‘ بلکہ ان کی سماجی اور سیاسی زندگی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے مغربی ممالک دوسرے تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور ان کا سارا زور سیاسی اور معاشی اہمیت رکھنے والوں پر ہوتا ہے۔ یہ رویے اور قوانین اسی نسبت سے بدلیں گے جس نسبت سے لوگوں کی نظر میں اسلام کے عقیدے کی اہمیت اور مرکزیت کم ہو گی۔ آخر اب بھی‘ دو بڑے مسلمان ممالک--- انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں عیسائیت کو اختیار کرنے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے یا بہت کم ہے۔
میں نے تبدیلی مذہب کے سوال کو کچھ زیادہ تفصیل سے لیا ہے کیونکہ میں محسوس کرتا ہوں--- اور اگر میں غلط ہوں تو میری تصحیح کی جائے ---کہ دستاویز کے استدلال میں اسے مرکزی اہمیت حاصل ہے: ’’عیسائیوں کو سب سے بڑی شکایت اسلام سے عیسائیت کو قبول کرنے کے سوال پر ہے‘‘ (ص ۷۴)۔ مگر کیا مسلمانوں کے ذہن وقلب میں ریسی پروسٹی کے لیے جذبہ بیدار کرنے کے اس ابتدائی اقدام میں کیا ہمارے سامنے بڑا اور اہم کام مسلمانوں کو عیسائی بنانے کا حق ہے؟ اس بات کو ماننا مشکل ہے‘ مگر یہ موجود ہے۔ دوسری صورت میں‘ اس کی کیا توجیہ کی جائے!
ایک تنازع یہ بھی ہے کہ دراصل کون کیا کر رہا ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ بے فائدہ بحث ہے۔دستاویز میں یہ بات درست طور پر کہی گئی ہے کہ دونوں اطراف سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا رویہ درست ہے‘ جب کہ دوسرے کا نہیں ہے۔ اگر باہمی تعلقات کی بنیاد اسی پر ہے‘ نہ کہ ریسی پروسٹی سے ماورا عقیدے‘ اخلاق اور اقدار پر مبنی معیار پر تو یہ مسئلہ باقی رہے گا۔
مسلمانوں کے خلاف کس طرح امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ان کے حقوق کو کس طرح پامال کیا جاتا ہے‘ اس پر آواز بلند کرنے کے بجائے‘ میں کچھ ایسے معاملات پر اپنی گزارشات پیش کروں گا جن کا تذکرہ دستاویز میں مسلمانوں کے رویے کے حوالے سے کیا گیا ہے۔
قانون توہین رسالتؐ: پاکستان میں قانونِ توہینِ رسالتؐ کے بارے میں اندرون پاکستان اور بیرون ممالک کے عیسائی اور بڑی بڑی عیسائی قوتیں شدت سے یہ چاہتی ہیں کہ یہ قانون مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ بڑے پیمانے کی عوامی مزاحمت کا اندیشہ نہ ہوتا تو پاکستان کی حکومتیں دبائو کے آگے جھک چکی ہوتیں۔ لیکن میں قانون کی مخالفت کی وجوہات کو اخلاص سے سمجھنا چاہتا ہوں۔
کیا عیسائی توہین رسالتؐ کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں؟ مجھے امید ہے کہ وہ ایسا نہیں چاہیں گے۔
کیا وہ سمجھتے ہیں کہ توہین رسالتؐ کوئی گناہ اور جرم نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے۔ کیونکہ کفر و ارتداد سے متعلق قوانین آج بھی ان کی کتب میں موجود ہیں گو کہ متروک ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں مذہب پر عمل بھی متروک ہو گیا ہے۔
دنیا کے ہر قانون میں ایک معمولی آدمی کی اہانت کو بھی قابل سزا جرم سمجھا جاتا ہے۔ کیا ایک ایسے شخص کے معاملے میں یہ جرم نہیں ہے جس سے ایک ارب سے زائد مسلمان اپنی جان اور اپنے والدین سے بھی بڑھ کر محبت کرتے ہیں اور جن کی توہین کو یہ لوگ اپنی توہین سے بھی بڑا جرم تصور کرتے ہیں۔
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین مقصود نہیں ہے اور اسے جرم تسلیم کیا جاتا ہے تو صرف قانون کے غلط استعمال کا استدلال رہ جاتا ہے۔ یقینا اس قانون کے غلط استعمال کی بعض مثالیں ہیں‘ میں ان کی مذمت کرتا ہوں لیکن کیا قانون کا غلط استعمال اس قانون کو ختم کر دینے کے لیے کافی بنیاد فراہم کرتا ہے؟ کیا قاتل کو سزاے موت دینے کا قانون اس لیے ختم کر دیا جائے کہ پاکستان میںاس کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ اور مسلمان مسلمان سے اپنے باہمی تنازعات میں اسے ایک دوسرے کے خلاف اور باہمی بدلے لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قانون کے غلط استعمال کے امکانات کو ہر ممکن حد تک روکنے کے حوالے سے مکالمہ جاری رہنا چاہیے۔ امید ہے کہ میرے دوست اس بات کو محسوس کریں گے کہ عیسائیوں کا اس قانون کے خلاف شوروغوغا کتنا بے بنیاد ہے۔
نفاذ شریعت: ہر جگہ مسلمانوں کی یہ دلی خواہش ہے کہ وہ شریعت کے مطابق زندگی گزاریں۔ یہ خواہش ان کے ایمان اور اساسی دستاویزات (قرآن و سنت) کا بنیادی تقاضا ہے۔اس معاملے میں مسلمانوں سے تعاون کرنے اور ان کی اس خواہش کا احترام کرنے کے بجائے عیسائی اس پر معترض ہوتے ہیں اور نفاذ شریعت کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ ایسی کوششوں کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی دبائو بھی ڈلواتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے لیے یہ رویہ ناقابل فہم اور ریسی پروسٹی کے بالکل برعکس ہے۔ اتنا شوروغوغا کیوں؟
کیا ایک عیسائی مملکت میں بہت سے قوانین‘ خاص طور پر پرسنل لا بائبل یا عیسائی شریعت (جیسی کچھ بھی وہ ہے) سے ماخوذ نہیں ہیں؟ یقینا‘ ایسا ہی ہے۔ کیا وہ صرف اس لیے جائز اور دستوری قوانین نہیں ہیں کہ عیسائی قانون ساز اداروں اور عدالتوں نے انھیں نافذ کیا ہے اور انھیں درست قرار دیا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے۔
کیا مسلمانوں کو ان قوانین کی پابندی کسی چون و چرا کے بغیر کرنا پڑتی ہے؟ یقینا ایسا ہی ہے۔
پھر یہی پیمانے مسلم ممالک کے لیے کیوں نہیں ہیں؟
کیا جمہوریت کا‘ جسے مغرب جمہوریت تسلیم کرتا ہے‘ یہ تقاضا نہیں ہے کہ عوام کو اپنے معاملات چلانے کے لیے قوانین بنانے کا حق حاصل ہے؟ یقینا انھیں کوئی ایسے قوانین نہیں بنانا چاہییں جو کسی اقلیت کے عقیدے اور مفادات کے خلاف ہوں‘ لیکن کیا کسی اقلیت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ۹۹ فی صد اکثریت کو ویٹو کر دے اور ان قوانین کے نفاذ سے ان کو روکے جنھیں وہ نافذ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اتنے دیانت دار ہیں کہ انسانی عقل کے بجاے الہامی رہنمائی کو اپنا مآخذ قرار دیتے ہیں۔
امید ہے کہ میرے عیسائی دوست مذکورہ بالا سوالات پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ اس لیے کہ ریسی پروسٹی کا حقیقی مفہوم آخرکار اس کے علاوہ کچھ نہ نکلے گا کہ اپنے اپنے عقیدے اور روایات کے مطابق زندگی گزارنے کے جذبے کا احترام کیا جائے‘ جیسا کہ مذکورہ بالا دستاویز میں تسلیم کیا گیا ہے۔
اسلام پر نظرثانی: دوسرا اہم نکتہ جس پر دستاویز میں زور دیا گیا ہے یہ ہے کہ: ’’مسلمان اپنے بنیادی مآخذ کا ازسرنو جائزہ لیں کہ ساتویں صدی کے مقابلے میںآج کی بالکل مختلف دنیا میں انھیں کس طرح سمجھا جائے--- بیسویں صدی کے اواخر کے حالات میں ان روایات کے تحت اللہ تعالیٰ کو ہم سے کس طرح کی زندگی گزارنا مطلوب ہوگا ‘‘(ص ۷۵)۔
مسلمانوں سے اسلام پر ازسرنوغور کرنے کی یہ فوری اپیل اس صورت میں قابل فہم ہو سکتی ہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچیں کہ اسلام پر اس طرح کے ازسرنو غور کے بغیر اس طرح کی ریسی پروسٹی روبہ عمل نہیں آسکتی جس کا تصور اس دستاویز میں پیش کیا گیا ہے۔
اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں‘ اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی صاحب فکر مسلمان ہر دور میں‘ اور آج کے دور میں بھی‘ اس نوعیت کے مسلسل غوروفکر کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ کوئی مسلمان بھی اس ذمہ داری سے پہلوتہی کرنا یا بچنا نہیں چاہے گا۔ آج امت کو اپنے احیا کے لیے خود اس فکر نو کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی فکر نو مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ لیکن میں چاہوں گا کہ میرے عیسائی دوست اس اہم مسئلے کے بعض پہلوئوں پر غوروفکر کریں۔
اوّل: ہمیں یہ تشخیص کرنا چاہیے کہ ساتویں صدی کے عرب کے مقابلے میں آج کی بیسویں صدی میں دنیا کس انداز سے مختلف ہو گئی ہے۔ ٹکنالوجی اور فطرت کی تسخیر کی نوعیت اور پیمانے کے لحاظ سے؟ یقینا۔ تنظیموں اور باہمی تبادلوں کی ہیئت کے لحاظ سے؟ یقینا۔ زندگی کی آسایشیں اور لوگوں کو حاصل متبادلات کے پیمانے کے لحاظ سے؟ یقینا۔ طبعی دنیا کے بارے میں علم کی مقدار کے لحاظ سے؟ یقینا۔ لیکن کیا انسانی فطرت بدل گئی ہے؟ کیا اس کے اندر گناہ کرنے کا رجحان ختم ہو گیا ہے یا کم ہو گیا ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اگر کچھ ہوا ہے تو صرف یہ کہ فخر‘ خود کفالت‘ جارحیت‘ تلون مزاجی‘ حرص اور نفرت وغیرہ جیسے عناصر میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا انسان کے اندر اللہ کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے خدا بنانے‘ اور درحقیقت خود اپنے کو سب سے بڑا خدا قرار دینے کا رجحان ختم ہو چکا ہے؟ کیا چوری‘ زنا اور قتل و غارت جیسے جرائم کم ہو گئے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ کسی تازہ جائزے میں ان تمام پہلوئوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
دوم‘ اسلام کے معنی ہیں اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی سپردگی میں دے دینا۔ وہی اللہ جو ساتویں صدی کا خدا بھی تھا اور بیسویں صدی کا خدا بھی ہے ‘ اور آنے والے ہزاریے کا بھی ہوگا۔ وہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا ہے۔ اس لیے مسلمان جب بھی اللہ کی مرضی کی تعبیر اور تفہیم اور اس کے رسولؐ کی سنت میں اس کے اظہار کا نیا جائزہ لیں گے ‘ وہ ان باتوں میں سے جنھیں وہ آج بھی اللہ کی مرضی کے مطابق سمجھتے ہیں‘ صرف اس لیے تبدیل نہیں کر دیں گے کہ وہ بات بیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی‘کیا ان کا فریضہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ وہ حالات کو تبدیل کریں بجائے اس کے کہ وہ اللہ کی مرضی کو تبدیل کر دیں۔
سوم: مسلمانوں نے حال ہی میں ۳۰۰ سالہ نوآبادیاتی غلامی سے آزادی حاصل کی۔ اب ایک تو وہ زوال کا شکار ہیں۔ دوسرے‘ انھیں اپنے ایمان‘ اقتدار اور تہذیب سے دور بھی کیا گیا ہے اور آزادی کے فوراً بعد سے انھیں نئے ورلڈ آرڈر اور عالمی معیشت کے جال میں الجھا دیا گیا ہے۔ ہر بیرونی طاقت‘ جو اتفاق سے‘ بہ یک وقت مغربی بھی ہے اور عیسائی بھی‘ ان کا دم گھوٹ رہی ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ آزاد نہیں ہیں‘ دبائو میں ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے غوروفکرکے اس عظیم الشان کام کو سنبھالنے کے لیے نہ عزم ہے نہ ارادہ‘ نہ صلاحیت ہے نہ ادارے‘ اور سب سے اہم بات: نہ ہی آزادی!
چہارم: صرف وہی نئی فکر قائم رہے گی جسے مسلمان واقعی اسلامی تسلیم کریں‘ جنھیں ایسے ادارے اور شخصیات انجام دیں جو علم و تقویٰ کے حامل ہوں۔ اسلام اور جمہوریت میں عدم مطابقت کے بارے میں جو کچھ کہا جائے‘ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی قوانین کی تشکیل کا عمل جمہوری عمل رہا ہے‘ جسے مسلمانوں نے بالعموم قبول کیا‘ وہ باقی رہے‘ جنھیں نہیں کیا وہ نہ رہے‘ مٹ گئے۔ امید ہے کہ ہمارے دوست اس بات کو محسوس کریں گے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آج تک اسلام اور مسلمانوں کو بیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور نام نہاد نظرثانی کے لیے جو کوششیں بھی ہوئی ہیں وہ ان مطلق العنان آمروں نے کی ہیں جو اپنے لباس‘ کھانے پینے کے طریقوں‘ رہنے سہنے کے انداز‘ غوروفکر کے پیمانوں اور حکمرانی کے طریقوں‘ ہر لحاظ سے مغربی اور عیسائی نظر آتے ہیں۔ اس لیے مسلمان چیخ اٹھتے ہیں کہ یہ سب غلط ہو رہا ہے (Muslim cry: foul)۔ عیسائیوں کو احساس شکست ہوتا ہے‘ اس لیے کہ ان کا اسلام میں کسی سینٹ پال کے ظہور کا وژن عملی شکل اختیار نہیں کرتا۔ پھر تو ناصر‘ ایوب‘ سوئیکارنو اور بھٹو جیسے لوگ بھی وہ کچھ دینے میں ناکام رہتے ہیں جو عیسائی سمجھتے ہیں کہ ریسی پروسٹی کا تقاضا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان ایک دفعہ آزاد ہو جائیں اور اہل افراد اس کام کو کریں ‘تومسلمان کفر و ارتداد‘ توہین رسالتؐ ‘حدود‘ اقلیتوں کے حقوق اور انسانی حقوق جیسے امور پر دوبارہ غور میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ اس وقت بھی بحث جاری ہے لیکن مذکورہ شرائط پوری نہ ہوں تو یہ نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔
ریسی پروسٹی کا بہت کچھ تعلق طاقت کے توازن سے بھی ہے۔ چرچ کے رہنمائوں نے نقطۂ آغاز کے طور پر سیکولر ممالک میں ریسی پروسٹی کی نشان دہی کی ہے۔ یہ غلط نقطۂ آغاز ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک فریب اور دھوکا ہے۔ مملکتوں کے درمیان ریسی پروسٹی کی کیا بات کی جائے‘ جب غیر مساوی ریاستوں کی جانب سے شہریوں کے ساتھ مساویانہ سلوک نہ کیا جاتا ہو۔ مثلاً یوسف رمزی کو پلک جھپکتے میں کسی قانونی چارہ جوئی کے شائبے کے بغیر امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے لیکن کیا پاکستان بھی اسی طریقے سے اپنے مجرم امریکہ سے طلب کر سکتا ہے!
عدم توازن سے مذہبی صورت حال پر بھی اسی طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ طاقت ور عیسائیوں کے مقابلے میں وہ کمزور ہیں۔ مسلمانوں کی یہ تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی رائے ٹھونسنے والے‘ ضدی‘ رواداری سے عاری‘ کتابوں کو جلانے والے‘ دہشت گرد اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔ ان کے عقیدے کو پرتشدد‘ عیاشی اور قتل و غارت کو فروغ دینے والا کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ اگروہ توہین رسالتؐ پر احتجاج کریں تو ان کو وعظ کیا جاتا ہے کہ اگر وہ برطانوی شہری بننا چاہتے ہیں تو بائبل کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔
آخر میں‘ میں ایک قابل افسوس پس نوشت:
بوسنیا میں جو نسل کشی کی گئی ہے کیا اس پر اس دستاویز میں apart from Bosnia (یعنی بوسنیا سے قطع نظر) کے الفاظ کے علاوہ کچھ اور نہیں لکھا جاناچاہیے تھا؟ جہاں اجتماعی قتل ہوئے‘ اجتماعی قبریں بنیں اور اجتماعی زیادتی کے لاتعداد واقعات ہوئے اور جہاں ان کی ثقافت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی‘ کیا مہذب اور روشن خیال عیسائی یورپ کے وسط میں مسلمانوں پر ہونے والے اس ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہ تھی؟
بوسنیا میں مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کے پس منظر میں‘ کیا مسلمانوں اور عیسائیوں کی مشترکہ امدادی ایجنسیوں کا کام یہ یقینی بنانے کے لیے کافی ہے کہ دنیا کو ناقابل بیان مصائب اور خون خرابے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ محض ریسی پروسٹی سے کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے خوشی ہو گی کہ اگر مجھے بتایا جائے کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو کس طرح ہو سکتا ہے۔میں کلیسا کے رہنمائوں سے پھر عرض کروں گا کہ وہ اپنی دستاویز پر دوبارہ غور کریں گے تو شاید وہ مجھ سے اتفاق کریں کہ اس پیچیدہ معاملے میں نئے نقطۂ نظر کی ضرورت ہے۔
میری رائے میں دستاویز میں لکھے گئے الفاظ ’’باہمی احترام اور تعاون پر مبنی تعلقات‘‘ (ص ۷۰)‘ میں بعض جملوں کا اضافہ کر کے اس طرح سے تحریر کیا جانا چاہیے:
for each others faith and their right and endeavour to live by their
faith as they understand it.
تعلقات جو ایک دوسرے کے عقیدے کے باہمی احترام اور تعاون اور ان کے عقیدے کے مطابق‘ جیسا بھی وہ اس کو سمجھتے ہوں‘ زندگی گزارنے کے ان کے حق اور کوشش پر مبنی ہوں۔
کیونکہ بالآخر ان سب بحثوں کا مرکزی نکتہ‘ تمام تلخیوں اورتمام جھگڑوں کا بنیادی سبب ایک دوسرے کا اس طرح سے احترام اور تعاون کے لیے تیار نہ ہونا ہے کہ ہر ایک اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار سکے۔