فروری ۲۰۰۱

فہرست مضامین

کتاب نما

| فروری ۲۰۰۱ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

اسلامی معاشیات: نوعیت اور بنیادیں ‘ پروفیسر خواجہ نسیم احمد شاہد۔ شائع کردہ: ادارہ معاشیات اسلامی‘  ۶۹۶-گلی نمبر ۱۱۲‘  G-9/3‘اسلام آباد۔صفحات: ۱۶۰۔ قیمت:  ۶۰  روپے۔

اگرچہ اصول معاش کے بارے میں اِکاّ دکاّ مفکرین نے ازمنہ قدیم میں بھی سوچا اور لکھا ہے‘ تاہم معاشیات بطور ایک علم کے ‘زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کی صورت گری انیسویں صدی کے آخر میں ہوئی۔ ستم یہ ہوا کہ آغاز ہی سے اس علم کی آبیاری لادین‘ آزاد خیال اور غیر مسلم مفکرین کے ہاتھوں ہوئی۔ اس وقت تقریباً سارا عالم اسلام غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس صورت حال میں دیگر علوم کی طرح معاشیات کے نظریات میںبھی مسلمان اساتذہ اور مفکرین مغربیوںکے خوشہ چین بن گئے۔

اس صدی کے وسط میں‘ جب آزادی کی لہر عالم اسلام میں پھیلنے لگی اور مسلمان مفکرین (ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سرفہرست ہیں) نے اس روایت کو توڑ کر ہر میدان میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کابیڑا اٹھایا تو معاشیات کی اسلامی بنیادیں تلاش کرنے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں۔

پروفیسر خواجہ نسیم شاہد کی کتاب ’’اسلامی معاشیات: نوعیت اور بنیادیں‘‘ اسلامی معاشیات پر موجود قلیل لٹریچر میں ایک قابل قدراضافہ ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر خواجہ نسیم شاہد مُلک کے ایک معروف معاشیات دان ہیں جو کالج اور یونی ورسٹی کی ہر سطح کی کلاسوں کو پڑھانے کا تقریباً ۳۵ سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا شمار ان معدودے چند لوگوں میں ہوتا ہے جوگھسی پٹی راہوں پر چلنے کے بجائے اپنی راہ خود تراشتے ہیں۔

انھوں نے اسلامی معاشیات کی ایسی جامع تعریف و ضع کی ہے جو مشہور و معروف اسلامی معیشت دانوں کی وضع کردہ تعریفوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور مکمل ہے۔ ان کی وضع کردہ تعریف یہ ہے: ’’اسلامی معاشیات وہ جامع‘ عمرانی علم ہے جو انسان کے اس اسلامی طرز عمل کا مطالعہ کرتا ہے جو اسلامی معاشرہ (یا اس کے ماڈل) میں متبادل استعمال رکھنے والے کمیاب مگر جائز ذرائع کی مدد سے فلاح کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو‘‘۔

یوں تو یہ تعریف جامع اور مکمل ہے لیکن اگر الفاظ میں معمولی ردوبدل کر دیا جائے تو یہ تعریف ہر لحاظ سے بہتر ہو جائے گی جو یوں ہو گی: ’’اسلامی معاشیات ایک جامع عمرانی علم ہے جو ایسے انسان کے طرزِ عمل کا مطالعہ کرتا ہے جواسلامی معاشرے (یا اس کے ماڈل) میں متبادل استعمال رکھنے والے کمیاب مگر جائز ذرائع کی مدد سے فلاح کے حصول کے لیے کوشاں ہو‘‘۔

۱۶۰ صفحات کی یہ کتاب پیش لفظ اور حواشی و حوالہ جات کے علاوہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ ان میںاسلامی معاشیات کی نوعیت و وسعت‘ نظریاتی اساس‘ اس کے اسالیب تحقیق اور اس کی اخلاقی بنیادوں کو (جو ۲ ابواب پر مشتمل ہیں) مثالوں‘ نقشوں‘ گرافوں اور چارٹوں سے واضح کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے معاشیات کے طالب علم کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح جاگزیں ہو جاتی ہے کہ اسلامی معاشیات کی بنیادوں کو قرآن و سنت اور خلفاے راشدین کے عمل میں تلاش کرنا چاہیے۔ اسے یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ اسلامی معاشیات اور لادینی معاشیات کا نقطۂ نظر ایک دوسرے کا الٹ ہے۔ ان کے مقاصد مختلف ہیں۔

پروفیسر خواجہ نسیم شاہد کی رو سے لادینی معاشیات میں حلال و حرام کا تصور غائب ہے۔ جب کہ اسلامی معاشیات میں حلال و حرام کا تصور موجود ہے۔ اسلامی‘ معاشی نظام کا ایک اہم خاصا زکوٰۃ کے ذریعے پسماندہ طبقات و افراد کی امداد ہے۔ زکوٰۃ محصول سے الگ چیز ہے۔ لادینی معاشی نظام میں محصول کے علاوہ کسی دیگر ذریعے سے کوئی حصہ پسماندہ طبقات اور افراد کی امداد کے لیے مختص نہیں کیا گیا۔ مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی اقتصادی نظام انسانوں کو اشتراکی اور سرمایہ دارانہ معاشی نظاموں کی افراط و تفریط سے بچاتا ہے اور معاشرے میں فطری انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔

مصنف نے بتایا ہے کہ لادینی نظام معیشت میں محض عدل اعلیٰ ترین قدر ہے جب کہ اسلامی نظام معیشت میں عدل کے علاوہ احسان کو افضل ترین قدر تسلیم کیا گیا ہے۔ عدل کا مطلب ہر فرد کو اس کا حق ادا کرنا ہے۔ جب کہ احسان کا مطلب کسی شخص کو اس کے جائز حق کے علاوہ کچھ زائد دینا ہے جس کا محرک رضاے الٰہی ہے۔

کتاب اپنے مندرجات اور طباعت کے لحاظ سے اعلیٰ پائے کی ہے۔ البتہ کہیں کہیں ہجوں کی اور دیگر طباعتی اغلاط رہ گئی ہیں۔ مثلاً صفحہ ۵ پر خانقاہوں کی جگہ خانقانوں‘ صفحہ ۵۱ پر توجیہہ کے بجائے توضیع‘ صفحہ ۵۱ ہی پر منطقی استقرا کے بجائے منطقی استخراج اور صفحہ ۶۷ پر مجروح کے بجائے مجروع چھپ گیا ہے۔ مصنف نے "Behaviour"کا ترجمہ ’’رویہ‘‘ کیا ہے‘ جس کا موزوں ترجمہ’’ طرز عمل’’ یا ’’کردار‘‘ ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ’’رویہ‘‘ تو "Attitude" کا ترجمہ ہے۔ یقینا ان معمولی اغلاط کی اگلی اشاعت میں تصحیح کر لی جائے گی۔ بہرحال کتاب شستہ ادبی انداز میں لکھی گئی ہے۔ قاری مؤلف کے اندازِ تحریر کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میری رائے میں یہ کتاب ملک میں اسلامی نظام معیشت قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ قیمت زیادہ نہیں۔ اسے معاشیات‘ بالخصوص اسلامی معاشیات کے اساتذہ اور طلبا کو ضرور پڑھنا چاہیے (پروفیسر نیاز عرفان)۔


میری یادگار ملاقاتیں‘ امیر حسین چمن۔ ناشر: پرنٹ میڈیا‘ پوسٹ بکس نمبر ۱۳۰۰‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۸۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے / ۸ ‘ امریکی ڈالر۔

اکثر بڑے یا معروف لوگوں کو اپنی نجی زندگی کے بارے میں کچھ لکھنے کا موقع نہیں ملتا ‘ یا پھر بعض اصحاب اس کام کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ حالاں کہ ان شخصیات کے ذاتی احوال جاننے کے لیے بہت سے لوگوں کو اشتیاق ہوتا ہے ۔ بیش تر صورتوں میں یہ شوق ایک ناتمام حسرت کا شکار ہو کررہ جاتا ہے۔ ایسے معروف لوگوں سے دل چسپی کی باتیں دریافت کر کے عام افراد تک پہنچانے کے لیے جستجو‘ لگن اور حاضر طبیعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہفت روزہ پیمان کراچی کے معاون مدیر (۱۹۷۱ء-۱۹۷۶ء) ان مہم جو صحیفہ نگاروں میں سے ہیں‘ جنھوں نے اس سلسلے میں مفید خدمات انجام دی ہیں۔

زیرنظر کتاب ۱۲ معروف عالم اور خطیب حضرات سے دل چسپ گفتگوئوں اور مصاحبوں کا مرقع ہے۔ سوال و جواب کی سطح بلند اور تعلیم و آگہی کا کینوس خاصا وسیع ہے۔ تاہم دو باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں‘ اوّل یہ کہ: انٹرویو نگار‘ شیعہ سنی فرقہ واریت کی آنچ کو ٹھنڈا کرنے اور اس خلیج کو پاٹنے کی پیہم جستجو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس فرقہ وارانہ تنائو کو محسوس کرتے ہوئے باہم اشتراک و اتحاد اور احترام کے رشتوں کو استوار کرنے کے لیے شعوری طور پر اور بڑے تسلسل سے سوال اٹھاتے ہیں‘ جو واقعی ایک بڑی خدمت ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ وہ خطابت اور فن تقریر کے رموز کو آشکارا کرنے کے لیے کرید کرید کر سوال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں آغا شورش کاشمیری اور شیعہ علما کرام کی آرا بڑی دل چسپ ہیں۔

مولانا مودودی کا انٹرویو (ص ۳۱ تا ۶۲) اور ان کے معمولات کی روداد بڑی دل چسپ ہے جو درحقیقت فاضل مرتب کی موعودہ کتاب کی جھلکیوں پر مشتمل ہے۔ علامہ رشید ترابی اور مولانا احتشام الحق تھانوی سے ملاقاتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ محراب و منبر سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات سے عطر بیز ملاقاتوں کی رودادیں اردو کے مکالماتی ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے (سلیم منصور خالد)۔


فری میسن کی اپنی مذہبی رسوم‘  ترجمہ: عبدالرشید ارشد۔ ناشر: تھنکرز فورم‘ ریاض۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: درج نہیں۔

فری میسن ہمارے ملک میں کچھ لوگوں کی خاص دل چسپی کا موضوع ہے۔ عبدالرشید ارشد صاحب نے تھنکرز فورم ریاض ‘ سعودی عرب کے حوالے سے اسی دل چسپی کی تسکین کی کوشش کی ہے اور پہلی سے تیسری ڈگری تک کے لاجوںمیں ہونے والی کارروائی کی مصدقہ و مسلمہ روداد پیش کر دی ہے (یوں ابھی ۳۰ ڈگریاں باقی ہیں!) کتاب کا انتساب مرحوم مصباح الاسلام فاروقی کے نام ہے جن کی دو کتابوں نے ۶۰ کے عشرے میں اس موضوع کو ملک میں متعارف کروایا تھا۔ انتساب میں ان کی موت کو ’’طبعی‘‘ لکھ کر غالباً کوئی اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی اگر فری میسن نے ساری کی ساری خرید لی تو بازار میں نہیں ملے گی۔ کتاب پڑھ کرحیرانی ہوتی ہے کہ ۲۰ ویں صدی میں بھی یہ تمام عجیب و غریب اور جاہلانہ رسومات اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ ادا کرتے ہیں (مسلم سجاد)۔


The Crisis of Development Planning in Pakistan  ]پاکستان میں ترقیاتی منصوبہ بندی کا بحران[ ‘سید نواب حیدر نقوی۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS)  اسلام آباد۔ صفحات: ۴۹۔ قیمت: ۱۳۰ روپے

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیزگذشتہ ۲۰ سال کے عرصے میں امت مسلمہ کو درپیش معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی اہمیت کے حامل متنوع موضوعات پر بلند پایہ تحقیقی کتب شائع کر چکا ہے۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سید نواب حیدر نقوی ہمارے ملک کے نامور معاشی محقق اور صاحب طرز مصنف ہیں جن کے قلم سے ترقیاتی و زرعی معاشیات اور معاشی نظامات کے تقابلی مطالعے کے مختلف پہلوئوں پر گراں قدر کتب اور مقالات منصّۂ شہود پر آچکے ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے پاکستان میں‘ بالخصوص گذشتہ عشرے کے دوران میں‘ اقتصادی منصوبہ بندی کے لیے اختیار کی گئی حکمت عملی کا معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے اور بتایاہے کہ اس حکمت عملی نے ملکی معیشت کے میلانِ نمو کو نہ صرف بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ ملکی معیشت کی اساسات کو مضمحل کر کے اسے گھمبیر بحرانوں سے دوچار کر دیا ہے۔ ان میں شرح افزایش کا بحران‘ ملکی وسائل کو متحرک کرنے کا بحران‘ ادایگیوں کے توازن کا بحران‘ بیرونی قرضوں کا بحران اور آمدنیوں کی تقسیم کا بحران خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مصنف کے نزدیک اس صورت حال کا جلد اور مؤثر انداز میں مداوا نہ کیا گیا تو ملکی معیشت ایک بہت بڑے حادثے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ مصنف کی نگاہ میں اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے معاشی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جائیں۔ اس عمل کی شاہ کلید یہ ہے کہ معیشت کی شرح افزایش کو اس قدر بڑھا دیا جائے کہ کم سے کم وقت میں فی کس آمدنی موجودہ سطح سے دگنی ہو جائے۔

اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریاست اور منڈی (state and market)  دونوں قوتوں کے متوازن ارتباط کو بروے کار لانا چاہیے۔

محترم نقوی صاحب نے ملکی معیشت کو بحرانوں کے گرداب سے نکال کر اصلاح و افزایش کی راہ پر ڈالنے کاجو ماڈل پیش کیا ہے وہ تکنیکی اعتبار سے وزن رکھنے کے باوجود اپنے اندر روایتی قسم کا رنگ ہی لیے ہوئے ہے ۔ ہمارے ہاں معاشی اور سیاسی دائروں میں مفاداتی گروہ اس قدر قوی ہو چکے ہیں کہ سرکار  اور بازار دونوں ان کے سامنے بے بس ہیں۔ بات یہ نہیں کہ ’ہم غریب ہیں اس لیے کہ ہم غریب ہیں‘ بلکہ یوں ہے کہ ’ہم غریب ہیں اس لیے ہم کرپٹ (بددیانت) ہیں‘۔ اصل مسئلہ اخلاقی بحران کا ہے جب تک اس بحران پر قابو نہیں پایا جاتا کسی بھی معاشی بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔ادایگیوں کے توازن کے بحران کا حل برآمدات میں اضافے سے وابستہ ہے۔ سرمایہ یعنی بددیانت اہل کار رشوت کی دیواریں کھڑی کر کے اور بازار یعنی برآمدکنندگان ملاوٹ اور گھٹیا معیار کی اشیا سپلائی کر کے منڈیوں سے ملک کو محروم کر دیتے ہیں وغیرہ۔ جب تک اس انسان کے معیار اخلاق و کردار کو بہتر بنانے کے عمل کو اقتصادی منصوبہ بندی کا جزو اعظم نہیں بنایاجاتا‘ فنی اور تکنیکی اعتبار سے درست ترقیاتی ماڈل ملک کی تقدیر ہرگز نہیں بدل سکتے۔ محض آبادی کی شرح افزایش کو کم کر کے معاشی خوش حالی کے خواب ایک سراب کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔اب وقت ہے کہ ماہرین روایتی انداز سے ہٹ کر پاکستان کے اساسی نظریے اور اسلامی اقدار پر مبنی (value-based) ترقیاتی ماڈل تیار کریں جن میں اصل اہمیت انسان یعنی خلیفۃ اللّٰہ کو حاصل ہو۔

اب نجات کی یہی ایک راہ ہے (عبدالحمید ڈار)۔


سخن ہاے گفتنی (جلد اوّل) پروفیسر اکبر رحمانی۔ ناشر: ایجوکیشنل اکادمی‘ اسلام پورہ‘ جلگائوں- ۴۲۵۰۰۱ مہاراشٹر۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

پروفیسر اکبر رحمانی کئی سال سے تعلیمی مجلہ ’’آموز گار‘‘ شائع کر رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب اس کے اداریوں کا انتخاب ہے جو ’’بڑے اہم‘ قابل غور اور فکرانگیز خیالات کے علاوہ تعلیم و تدریس سے متعلق ان کے تجربات کا نچوڑ ہیں‘‘ (مقدمہ از ضیاء الدین اصلاحی)۔ ان اداریوں کا تعلق بھارتی مسلمانوں کی تعلیمی اور ملّی زندگی سے ہے۔ ڈاکٹر اکبر رحمانی معلّم رہے‘ نقد و تحقیق سے بھی ان کا واسطہ رہا ہے۔ انھوں نے اردو ذریعہ تعلیم‘ تعلیم کے گوناگوں مسائل و موضوعات (امتحانات میں نقل نویسی‘ طلبہ میں بے راہ روی کا رجحان‘ مخلوط تعلیم‘ پرائمری تعلیم‘ دینی مدارس کا نصاب‘ معلم کا منصب‘ تاریخ کی درسی کتابیں‘ اقلیتوں کے تعلیمی حقوق‘ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب وغیرہ) پر مختصر مگر جامع انداز میں ایک ایسے ہوش مند معلم کا موقف پیش کیا ہے جسے اپنے ملی تشخص پر اصرار ہے اور وہ اسی لیے مسلمانوں کی نژادِ نو کے مستقبل کے بارے میں فکرمند بھی ہے۔ انھوں نے اربابِ تعلیم کو‘ اور خود بھارتی مسلمانوں بالخصوص متعلمین اور ماہرین تعلیم کو تعلیمی دنیا کے اہم نظری و فکری اور پیشہ ورانہ مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اس طرح یہ پُراز معلومات کتاب بھارتی مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر غوروفکر کی دعوت دیتی ہے--- انھیں سوچنا ہوگا کہ ایک مخالفانہ اور بعض صورتوں میں متعصبانہ ماحول میں‘ انھیں کس طرح اپنا راستہ نکالنا ہے (رفیع الدین ہاشمی)۔


پاکستان کے نامور سائنس دان ‘ از خالد محمود عاصم۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز‘ رحمن مارکیٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۹۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔

ہمارے ملک میں سائنس اور سائنسی تعلیم کی جو قدروقیمت ہے‘ سائنس دانوں کی حیثیت اور مقام بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں۔ سوائے چند ایک سائنس دانوں کے (جنھیں ’’قومی ہیرو‘‘ کا درجہ حاصل ہو گیا ہے) ہم اپنے ملک کے ذہین اور باصلاحیت سائنس دانوں اور ان کے کارناموں سے بڑی حد تک بے خبر ہیں۔ زیرنظر کتاب میں پاکستانی سائنس دانوں کے حالاتِ زندگی اور ان کی کارکردگی سے آگاہی کی اہم ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پاکستان کے کچھ سائنس دان تو ایسے ہیں جن کا نام تقریباً ہر شخص جانتا ہے (ڈاکٹر عبدالقدیر خاں‘ پروفیسر عبدالسلام‘ سلیم الزماں صدیقی اور پروفیسر عطا ء الرحمن وغیرہ) لیکن ان کے علاوہ بھی کئی سائنس دان پاکستان کے اندر رہتے ہوئے عالمی معیار کی تحقیق کر رہے ہیں۔ ان میں قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے ڈاکٹر ریاض الدین سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ قائداعظم یونی ورسٹی‘ پنسٹیک‘ عبدالقدیر خاں ریسرچ لیبارٹریز‘ اور ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے کیمیا‘ کراچی سے منسلک کئی سائنس دان نمایاں ہیں۔ بعض پاکستانی سائنس دان ایسے بھی ہیں جو بیرون ملک اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی اعلیٰ پائے کا تحقیقی کام سرانجام دے رہے ہیں اور انھیں وہاں نہایت اعلیٰ مرتبہ و مقام حاصل ہے (مثلاً ڈاکٹر محمد منور چودھری جو برطانیہ کی مشہور زمانہ کیونڈش لیبارٹری کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر ہیں)۔

مصنف نے (۶۰ سے زیادہ) سائنس دانوں سے متعلق معلومات جمع کر کے انھیں مرتب کرنے کے لیے خاصی محنت اور جاں فشانی سے کام کیا ہے۔ ان کی یہ کوشش لائق تحسین ہے۔ تاہم مصنف خود چونکہ سائنس کے شعبے سے منسلک نہیں ہیں اور کتاب کی تالیف میں جن مآخذ پر انحصار کیا گیا ہے‘و ہ بھی لازمی طور پرمستندنہیں ہیں لہٰذا کئی مقامات پر ایسی باتیں آگئی ہیں جو حقائق کے خلاف ہیں مثلاً صفحہ ۶۳ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر امان اللہ (کون امان اللہ؟ یہ کچھ نہیں بتایا گیا) کو نیوٹن اور آئن سٹائن کے بعد تیسرا بڑا سائنس دان مانا جاتا ہے۔ اسی طرح کراچی کے پروفیسر قادر حسین کے اس دعوے کو (کئی دوسرے ناقابل اعتبار دعووں سمیت) پذیرائی بخشی گئی ہے کہ انھوں نے قانونِ بقائے توانائی کو غلط ثابت کرتے ہوئے ایک ایسی مشین ایجاد کی ہے جو کم توانائی حاصل کر کے زیادہ توانائی پیدا کرتی ہے۔ شاید مستند ذرائع سے تصدیق کیے بغیر‘ محض اخباری بیانات پر انحصار کرنے سے یہ صورت پیدا ہوئی ہے۔

پاکستان کے بعض صفِ اوّل کے سائنس دانوں (مثلاً حمید احمد خاں‘ فیاض الدین‘ سہیل زبیری‘ اسلم بیگ‘ قاسم مہدی‘ وقار الدین احمد اور انور وقار وغیرہ) کا اس کتاب میں کوئی تذکرہ نہیں ہے جب کہ بعض ایسی شخصیات کے بارے میں معلومات شامل کی گئی ہیں جن کی ملک و قوم کے لیے دیگر خدمات تو یقینا قابل قدر ہیں تاہم سائنسی تحقیق میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک سائنسی تحقیق سے منسلک بے شمار پاکستانیوں میں سے صرف ایک کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کے زیرترتیب حصہ دوم میں ایسی تمام کمیوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

یوں تو یہ کتاب بیش تر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہو گی لیکن طالب علموں میں عمومی طور پر اس کا مطالعہ سائنس کی طرف رغبت پیدا کرے گا اور سائنس کے طالب علموں کو تحقیق کی راہ اختیار کرنے پر ابھارے گا (فیضان اللّٰہ خان)۔


تلقین اقبال‘ پروفیسر رشید احمد انگوی۔ الخلیل ریسرچ سنٹر‘ ۱۶ جی مرغزار (پیکو ٹائون) ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۵۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

پروفیسر رشید احمد انگوی نباتیات کے استاد ہیں‘ ملی اور دینی جذبے سے سرشار ہیں اور ’’انھیں ملتِ اسلامیہ کی زبوں حالی کا غم بے چین رکھتا ہے‘‘۔ علامہ اقبال کی تلقین انھیں اپنے جذبات سے ہم آہنگ محسوس ہوئی۔ زیرنظر مجموعۂ مضامین اسی ہم آہنگی اور احساساتِ دینی و ملّی کی ترجمانی کرتا ہے۔ تقریباً تین درجن مختلف عنوانات کے تحت مصنف نے اپنے دردمندانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ]عنوانات: تعلیم کی اہمیت‘ مغربی نظام تعلیم کا حاصل‘ مکتب کا جواں‘ غلام قوموں کا غلام ضمیر‘ مسلمان اور قرآن‘ فقر و استغنا‘ فرنگی‘ عالم عرب اور اسلامی دنیا‘ فکر اقبال اور اکیسویں صدی وغیرہ و غیرہ[۔ ہر شذرے کا آغاز کلامِ اقبال سے ہوتا ہے۔

انتساب ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے نام ہے۔ مصنف نے ’’فکر اقبال کے تمام گوشے بہت وضاحت سے پیش کیے ہیں‘‘ (مقدمہ از پروفیسر ظفر حجازی)۔ کتاب نہایت اہتمام سے خوب صورت انداز میں شائع کی گئی ہے (ر-ہ)۔


قرآن کریم میں خواتین کے حقوق‘ ڈاکٹر ایچ بی خان۔ناشر:الحمد اکادمی‘ ۲-جے‘ آئی- ۸‘ ناظم آباد ‘ کراچی۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

مصنف نے خواتین کے حقوق کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ گیارہ ابواب میں خواتین کی حیثیت‘ سماجی کردار‘ حقوق‘ فرائض‘ سربراہی‘ وراثت اور مغرب میں حالتِ زار جیسے اہم اور وسیع موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ہے‘ ابواب کے عنوان نجانے کیوں تجویز نہیں کیے گئے۔

حرفِ آغاز میں ڈاکٹر خان تحریر کرتے ہیں: قومی اور ملّی زندگی میں خواتین کی صحیح تعلیم و تربیت زندگی کے ہر شعبے میں نہایت عمدہ اور فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ مرد کا بگاڑصرف ایک فرد کا بگاڑ ہو سکتا ہے مگر عورت کا بگاڑ پوری نسل بلکہ نسل در نسل تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر خان نے اسلامی نقطۂ نظر سے خواتین کے لیے متعین حقوق پر بحث کی ہے اور قرآن و سنت کو اپنا ماخذ بنایا ہے‘ ڈاکٹر خان نے قرآنی آیات اور اُن کی تفسیر کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلا م کے پیروکار خود ہی قرآن کی تعلیمات سے روگردانی کر رہے ہیں اور اس کا خمیازہ انھیں معاشرتی نظام میں خلل کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مختلف ابواب میں مصنف نے مغربی تہذیب اور اسلامی معاشروں میں اس کے نفوذ پر خصوصاً روشنی ڈالی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ مغرب کی اندھا دھند نقالی مسلمان خواتین ہی کو نہیں پوری مسلم امت کو شدید نقصان پہنچائے گی۔ ہر باب کے آخر میں حواشی اور کتاب کے آخر میں مجموعی کتابیات درج ہے۔ موضوعات منتشر ہیں‘ تاہم اپنے موضوع پر یہ ایک اچھی تحریر ہے (محمد ایوب منیر)۔

تعارف کتب

  •  الاسماء الحسنیٰ ‘ مرتبہ: ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی۔ ناشر: الفیصل‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۲۸-  آرٹ پیپر۔ رنگین طباعت۔

جیبی تقطیع۔ ہدیہ: درج نہیں۔ ] باری تعالیٰ کے ۹۹ صفاتی نام نفیس رقم کی خوب صورت کتابت میں۔ ابتدا میں مرتب نے وظیفہ

 اسماء الحسنیٰ کا طریقہ بتایا ہے جس سے ’’ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے‘‘[۔

  •   ۷۸۶ منتخب احادیث‘ انتخاب: معاذ حسن ہاشمی۔ ناشر: حیدر پبلی کیشنز‘ ۳۸ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۲۶۔ قیمت: ۴۸ روپے۔ ]۸۰ سے زائد عنوانات کے تحت منتخب احادیث نبویؐ کے اردو تراجم۔ کہیں کہیں متن بھی دیا گیا ہے مگر بلااعراب۔ احادیث کے حوالے اور اسناد درج نہیں[۔