مضامین کی فہرست


جون ۲۰۲۱

مسلم اُمہ کے مسائل اور بحران در بحران کیفیت میں ہرمسلمان اُلجھا ہوا ہے۔ اس کا بڑا سبب جہاں سامراجی قوتوں کی عالمی سیاسی و معاشی جتھہ بندی ہے، وہیں ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود مسلم ممالک میں سیاسی،فکری اور دفاعی سطح پر مقتدر اور بااختیار قیادتوں کا معاملہ سوالیہ نشان ہے۔ اس کیفیت میں مایوسی کا شکار ہونا اور حالات کے بے رحم دھارے کے سامنے سپرڈال دینا، عظیم اور ناقابلِ تلافی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا۔ یہ بحران جس قدر شدید ہے، اور مسائل و مشکلات کی یلغار جتنی تباہ کن ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، اور ان آفتوں کے دبائو سے نکلنے کے لیے، کہیں زیادہ بڑھ کر عقل، دانش، فہم و فراست کی ضرورت ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ خوں ریزی ہمارے سامنے ہے، جہاں ہردوڈھائی برس کے بعد مظلوم فلسطینی بھائیوں پر خون، آگ اور بارود کی بارش ہوتی ہے۔ دوسری جانب کشمیر کے مظلوموں کو کچلنااور آزادی کی اُمنگوں کا قتل عام بھی پوری دُنیا کے سامنے ہے۔ اسرائیل اور بھارت بنیادی طور پر نسل پرست، فسطائی اور وحشی (Rogue) ریاستیں ہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اُمت کے صاحب ِ ایمان اور صاحب ِ بصیرت افرادِ کار کو بھرپور طریقے سے حق کی گواہی دینا ہوگی۔ملّی یک جہتی کو زندہ کرنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں میں بیداری کی تحریکیں برپا کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مسئلہ کشمیر پر ، بالخصوص گذشتہ دو برسوں کے دوران جس انداز سے پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً متضاد بیانات کا سلسلہ جاری ہے، اس نے بہت تکلیف دہ صورتِ حال پیدا کردی ہے۔

فروری ۲۰۲۱ء میں پاکستان اور بھارت کے فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک مذاکرات کا اعلان، اور پھر اپریل میں ۲۵، ۳۰ صحافیوں سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کی بظاہر ’آف دی ریکارڈ‘ (اور عملاً آن دی ریکارڈ) ملاقات میں بیان کردہ روایتوں اور حکایتوں نے گہری تشویش کا سامان فراہم کیا ہے۔ مذکورہ ملاقات میں جنرل صاحب کی طرف سے یہ کہا جانا کہ ’ہم بیک ڈور چینل (پس پردہ) مذاکرات کر رہے ہیں‘ اور یہ کہ ’ہمیں ماضی بھلاکر آگے بڑھنا ہے‘ دھماکا خیز خبر ہے۔ جب کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کہتے ہیں کہ ’کوئی بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے‘۔ گویا کہ حکومت اور مسلح افواج ایک انداز سے نہیں سوچ رہے۔ یہ متضاد اور متحارب اطلاعات اگر سول حکومت اور پارلیمان کی جگ ہنسائی کا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب کشمیری عوام اور قوم میں اضطراب پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔یاد رہے کہ نہ ماضی سے کٹا حال ہوتا ہے اور نہ ماضی سے کٹ کر مستقبل کی صورت گری ہوسکتی ہے۔

اسی مناسبت سے ہم چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

  • اس وقت شروع کیے جانے والے مذاکرات کا جو پہلو کھل کر سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ مذاکرات پاکستان کی طرف سے کسی پیشگی شرط اور کسی روڈمیپ کے تعین کے بغیر ہونے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی انتظامی وحدت پر سفاکانہ یلغار اور بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری کے طے شدہ اُمور کی دھجیاں بکھیرنے والے اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کیے بغیر، ان مذاکرات کا حصہ بناجارہا ہے۔ یاد رہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات میں دفعہ ۳۵-اے کے خاتمے نے جموں و کشمیر میں آبادی کے توازن و تناسب کو تلپٹ کرکے دوسرا اسرائیل بنانے کا راستہ کھول دیا ہے۔ پھر مقبوضہ کشمیر میں ۸ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی، دُنیا بھر میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کا بدترین نقشہ پیش کرتی ہے۔ بہت واضح ہے کہ ایسے غیرمشروط، اور وقت کی قید سے آزاد مذاکرات سے پاکستان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس صورت میں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارتی حکومت کے تمام غیرانسانی اور غیرقانونی اقدامات کو پاکستان کی جانب سے عملاً تحفظ دیا جارہا ہے، جس کا کوئی مثبت نتیجہ قطعاً ناممکن ہے۔
  • یہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ بھارت نے جب بھی پاکستان سے مذاکرات کے لیے کھڑکی کھولی تو اس کا مقصد کبھی سنجیدہ، بامعنی اور اخلاص پر مبنی مذاکرات کا انعقاد نہیں تھا۔ بین الاقوامی دبائو سے نکلنے اور اندرونِ ملک مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے کاک ٹیل مذاکرات کا کھیل اس سے پہلے بھی ڈیڑھ سو مرتبہ کھیلا جاچکا ہے۔ اس لیے بے فیض نشست و برخاست سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
  • ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر بامقصد بات چیت، مذاکرات اور مکالمے کے لیے تیار رہا ہے، اور آج بھی تیار ہے۔ مگر ان مذاکرات میں بھارت کی مخلصانہ شمولیت کا اندازہ لگانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان، مذاکراتی عمل میں (مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، بیرون پاکستان و بھارت) کشمیری نمایندگان کو ساتھ لے کرشریک ہو۔ اگر بھارت مسئلے کے اصل فریق کو مذاکرات میں شامل کرنے پر ٹال مٹول سے کام لیتا ہے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت مذاکرات کو محض وقت گزاری کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اس کا مقصد کشمیریوں اور پاکستان میں غلط فہمی پیدا کرنا ہے، ساتھ ہی وہ پاکستان کے اصولی موقف میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے ایسے بے معنی مذاکرات کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
  • اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات کا ایجنڈا، صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کو رُوبہ عمل لانے کی تفصیلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے بنائے ہوئے کمیشن ہی کا تقاضا نہیں بلکہ خود بھارت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے اور جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اس عہد وپیمان میں پوری دنیا شریک ہے۔نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ میں بھی اسی حل کو واحد حل کی حیثیت سے طے کر دیا گیا ہے اور مسئلے کے منصفانہ، پایدار اور قانونی سلجھائو کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا فریم ورک نہیں ہوسکتا۔
  • کسی برادر مسلم یا غیرمسلم دوست ملک کے دبائو میں آکر اگر ہم اپنے اصولی موقف پر سمجھوتا کرتے ہوئے اور پسپائی اختیار کرنے کی راہ پر چل پڑے،اور خدانخواستہ اگر ’آؤٹ آف باکس‘ کوئی وعدہ کربیٹھے، تو یہ چیز، جدوجہد آزادیِ کشمیر کو برباد کرنے کا ذریعہ بنے گی، اور ایسا کرنے والوں کو پاکستانی اور کشمیری کبھی معاف نہیں کریں گے۔
  • کسی دوست ملک یا کسی طاقت کے دبائو میں آکر ثالثی کے پھندے کو قبول کرنا، کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستانیوں کی قربانیوںکو دریابرد کرنے کےمترادف ہوگا۔
  • اگرچہ موجودہ برسوں میں پاکستان کی معاشی حالت گوناگوں داخلی، خارجی اور انتظامی اسباب کے باعث تسلی بخش نہیں ہے، مگر اس کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی اخلاقی، قانونی، سیاسی اور بین الاقوامی پوزیشن بہت مستحکم ہے۔ اس لیے معاشی دبائو میں آکر اپنی اخلاقی اور قانونی پوزیشن کو قربان کرنے، اس پر سمجھوتا کرنے، دب کر بات کرنے اور موقف کو ضُعف پہنچانے سے ہرصورت میں بچنا چاہیے۔
  • اکتوبر ۲۰۲۰ء میں گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہدایات دینا، مسئلہ کشمیر کی اصولی حیثیت کے لیے سخت نقصان دہ تھا۔ اسی لیے ہم نے ایسے کسی عمل سے برأت کا اعلان کرنے پر زور دیا تھا اور جموں و کشمیر کی وحدت برقرار رکھنے کا اعادہ کیا تھا۔
  • بہت واضح الفاظ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب کے سامنے ہم یہ بات رکھیں گے کہ پاک بھارت مذاکرات، ہرصورت میں پاکستان کی منتخب حکومت اور دفترخارجہ کی ذمہ داری ہے، جسے مسلح افواج کے مشورے کی ضرورت ہرقدم پر رہے گی۔ لیکن خود افواجِ پاکستان کا ایسے بین الاقوامی مذاکرات کی ذمہ داری لینا، پاکستان، پاکستان کے موقف اور قومی اداروں کی ساکھ کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔
  • یہ بات ہمیں اس لیے کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سول حکومت کی موجودگی کے باوجود ۲۰۰۸ء سے لے کر اب تک پہلے جنرل پرویز کیانی ڈاکٹرائن، پھر جنرل راحیل شریف ڈاکٹرائن اور اب جنرل باجوہ ڈاکٹرائن پیش کرنے کا عمل اور اس کی تشہیر یا ذہن سازی ہرگز مناسب قدم نہیں ہے۔ مسلح افواجِ پاکستان کی خدمات، شجاعت اور لازوال قربانیوں کی قدر ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ہرادارے کی حدود کار، دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طے شدہ معاہدۂ عمرانی کے مطابق واشگاف ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرنے سے جہاں نظم و ضبط، فساد سے دوچار ہوتا ہے، وہیں پر قومی ساکھ کو صدمہ پہنچتا ہے، اور اس کی قیمت پوری قوم کی آیندہ نسلوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
  • ہمارے مقتدر اداروں اور میڈیا کو ایسے نیم دلانہ مذاکرات سے توقعات وابستہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ افسوس کہ مخصوص این جی اوز اور میڈیا پر کنٹرول رکھنے والی مخصوص لابی قوم کو اس اندھیری سرنگ میں دھکیلنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ایسے عناصر کی جانب سے کی جانے والی بے جا داد و تحسین کی حقیقت کو سمجھیں اور ایسے دام ہم رنگ میں اُلجھنے سے بچیں۔
  • پارلیمنٹ کی ’کشمیر کمیٹی‘ کی تشکیل نو کرتے ہوئے کمیٹی کی قیادت ذمہ دار، متحرک اور مسئلہ کشمیر کا درد رکھنے والے فرد کے سپرد کی جائے۔ جو متعلقہ معاملات پر پوری لگن اور تندہی سے ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، سیاسی، سفارتی اور فکری قیادت کو ساتھ لے کر چلے۔ اس پلیٹ فارم کی تساہل پسندی کے نتیجے میں جو پہلے نقصان ہوچکا ہے، اس کا مداوا کرے۔

ہمیں مسئلہ کشمیرکے باب میں حکومت، حزبِ اختلاف، مسلح افواج اور میڈیا کے متعلقین کے اخلاص کے بارے میں شک نہیں۔ لیکن مخلص فرد بھی اگر درست چیز کو نامناسب انداز سے پیش کرے تو اس سے کئی بار ایسا نقصان پہنچتا ہے، کہ وہ دشمن کے حق میں بہت بڑا نفع بن جاتا ہے، اور پھر ہاتھ مَلنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے ہم: ’نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘۔

 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں فرعون اور اس کی قوم پر دنیا کے اندر لگاتار پانچ عذابوں کا ذکر فرمایا ہے اور ان کا ردعمل بھی بیان کیا ہے، جو ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے۔

اس سلسلے کا آغاز جادوگروں کےمشرف بہ ایمان ہونے کے بعد سے ہوتا ہے جو بالآخر فرعون کے لشکر سمیت غرقابی پرتمام ہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’موسٰی نے کہا:’’اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہو ں ۔میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں‘‘(اعراف ۷:۱۰۳-۱۰۴)۔

  • فرعون کو دعوت اور حکمت : سورۂ نازعات میں حضرت موسیٰ ؑ کا فرعون کے دربار میں بھیجنے کا مقصد اس طرح بیان ہوا ہے :’’کیا تمھیں موسٰی کے قصے کی خبر پہنچی ہے؟ جب اس کے ربّ نے اُسے طُویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا کہ ’’فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تو اِس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور میں تیرے ربّ کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اُس کا) خوف تیرے اندر پیدا ہو؟‘‘(النزعٰت ۷۹:۱۵-۱۹)۔یہ دراصل دین اسلام کی بنیادی دعوت پیش کرنے کی تلقین تھی: ’’اور پھر موسٰی نے (فرعون کے پاس جا کر) اُس کو بڑی نشانی دکھائی‘‘ (۷۹:۲۰)۔ فرعون نے اس دعوت کے ساتھ جو معاملہ کیا، اس بابت ارشادِ ربانی ہے :’’ مگر اُس نے جھٹلا دیا اور نہ مانا، پھر چالبازیاں کرنے کے لیے پلٹا اور لوگوں کو جمع کر کے اس نے پکار کر کہا کہ میں تمھارا سب سے بڑا ربّ ہوں‘‘۔ (۷۹: ۲۱-۲۴)

سورئہ طٰہٰ میں حضرت موسٰی کو یہ ہدایت کی گئی تھی: ’’ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔ پھر انھیں یہ حکم بھی دیا گیا تھا: ’’ جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے ربّ کے فرستادے ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے ربّ کی نشانی لے کر آئے ہیں، اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے ۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے‘‘ ۔ اس تقریر کا اختتام اس انذار پر ہوا کہ ڈراؤ تاکہ اس کا خوف اس کے اندر پیدا ہو۔

حضرت موسٰی کی اس نہایت دل سوز دعوت کے جواب میں کیا جانے والاتمسخر آمیز سوال دیکھیں : ’’ فرعون نے کہا: ’’اچھا، تو پھر تم دونوں کا ربّ کون ہے اے موسٰی ؟‘‘ حضرت موسٰی نے جواب دیا: ’’ہمارا ربّ وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا‘‘ ۔ یہاں ربِّ کائنات نے سرکش مخاطبین کا ردعمل اور ان کے مقابلے میں اپنے برگزیدہ رسول کا اسوہ پیش فرمایا ہے ۔ جہاں ایک طرف نفسِ مسئلہ کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر ’’ فرعون بولا:’’اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟‘‘ تو جواب میں نہایت خندہ پیشانی سے حضرت موسٰی نے کہا:’’اُس کا علم میرے ربّ کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے‘‘۔ گویا دوسروں کے غیر ضروری مسائل میں اپنے مخاطب کو الجھا کر راہِ فرار اختیار کرنے کا کچھ حاصل نہیں ہے ۔ اس کے بجائے انسان کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے ۔

 یہ پیغمبرانہ بصیرت ہے کہ وہ اپنے مخاطب کے جال میں اُلجھنے کے بجائے اپنی دعوت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’وہی جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمھارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعے سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چَراؤ۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے‘‘۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کی توجہ پاک پروردگار کے احسانات کی جانب مبذول کرائی کہ جن سے وہ اور اس کی قوم بہرہ مند ہورہی تھی، لیکن مسئلہ صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ ربّ کائنات فرماتا ہے:’’ اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمھیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے‘‘۔

قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر فرعون کے انکار کا بیان ہے۔ سورۂ قصص میں فرمانِ خداوندی ہے: ’’اور فرعون نے کہا :’’اے اہل دربار، میں تو اپنے سوا تمھارے کسی خدا کو نہیں جانتا۔ ہامان، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسٰی کے خدا کو    دیکھ سکوں ‘‘۔ فرعون کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ:’’ ا ُس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انھیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے‘‘۔پھرفرمایا:’’ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا ‘‘۔ مزید فرمایا: ’’ ہم نے اِس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے روز وہ بڑی قباحت میں مبتلا ہوں گے ‘‘۔ قرآن حکیم کی اس آیت میں فرعون اور اس کی قوم پر دنیوی لعنت اور اُخروی قباحت کا الگ سے ذکر کیا گیا ہے۔

حضرت موسٰی نے جب مطالبہ کیا: ’’میں تم لوگوں کے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے‘‘۔ اس پر فرعون نے کہا:’’اگر تو کوئی نشانی لایا اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر‘‘ ۔ ربّ کائنات نے کلیم اللہ کو اس کے جواب سے لیس کرکے مبعوث فرمایا تھا، سو : ’’موسٰی نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا ۔اس نے اپنی بغل سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا ‘‘۔ قبطیوں نے اپنی فطرت کے مطابق سوال کیا اور اس کا قرار واقعی جواب مل گیا ۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ وہ سرِ تسلیم خم کرلیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ا س پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ: ’’یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے‘‘ ۔

اس بہتان تراشی کے بعد فرعون نے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’(یہ) تمھیں تمھاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو؟‘‘ اپنے فرماںروا کی خوش نودی کے لیے پھر اُن سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں، چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے مقابلے سے قبل جادوگروں کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ اُنھوں نےپوچھا:’’اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟‘‘ فرعون نے جواب دیا:’’ہاں، اور تم مقرب بارگاہ ہوگے‘‘ ۔ اس طرح گویا فرعون اور جادوگروں کے درمیان کھلے عام عہدو پیمان طے ہوگیا۔

  • جادوگروں سے مقابلہ اور اتمامِ حجت: اس کا پس منظر ، نوعیت اور تیاری کی تفصیل سورۂ طٰہٰ میں بیان ہوئی ہے۔ فرعون کی پیش کش نے اسلام کی دعوت تمام لوگوں تک پہنچانے کا بہترین موقع اَز خود فراہم کردیا۔ حضرت موسٰی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے کہا: ’’تمھارے وعدے کا دن یومِ عید (سالانہ جشن کا دن) ہے اور یہ کہ (اس دن) سارے لوگ چاشت کے وقت جمع ہوجائیں‘‘۔ فرعون اس پر راضی ہوگیا اور :’’پھر فرعون (مجلس سے) واپس مڑگیا۔ سو اس نے اپنے مکر و فریب (کی تدبیروں) کو اکٹھا کیا پھر (مقررہ وقت پر) آگیا‘‘۔ گویا سارے لوگوں کے جمع کرنے کا پختہ اہتمام کرکے خود بھی حاضر ہوگیا ۔

مقابلے سے قبل حضرت موسیٰ ؑ نےجس پُرزور انداز میں جادوگروں اور ان کے توسط سے وہاں موجود فرعون کی قوم کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں :’’ موسٰی نے ان سے فرمایا: تم پر افسوس (خبردار!) اللہ پر جھوٹا بہتان مت باندھنا ورنہ وہ تمھیں عذاب کے ذریعے تباہ و برباد کردے گا اور واقعی وہ شخص نامراد ہوا جس نے (اللہ پر) بہتان باندھا‘‘ ۔ یہ انذار ہے کہ جب حق سامنے آجائے گا تو اس سے رُوگردانی نہ کرنا کیونکہ اس سے قبل جب یہ معجزات فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے آئے تھے تو انھوں نے اسے جادو قرار دے کر جھٹلادیا تھا۔ جادوگروں پر اس تنبیہ کا خاطر خواہ اثر پڑا اور فرعون سے انعام و اکرام کے خواہش مند لوگوں کے اندر اللہ کے عذاب کا جو خوف پیدا ہوا اس کی گواہی اس آیت میں ہے :’’چنانچہ وہ (جادوگر) اپنے معاملہ میں باہم جھگڑ پڑے اور چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے‘‘۔

جادوگروں کے درمیان اختلاف رائے تو ہوا لیکن پھر بھی مقابلے کا جذبہ غالب رہا اور وہ کہنے لگے: ’’یہ دونوں واقعی جادوگر ہیں۔ یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ تمھیں جادو کے ذریعے تمھاری سرزمین سے نکال باہر کریں اور تمھارے مثالی مذہب و ثقافت کو نابود کردیں‘‘۔ فرعون اور اس کے درباری جہاں بندگی (اطاعت )اور اقتدار کے حوالے سے فکرمند تھے وہیں جادوگروں نے دین حق کو اپنی تہذیب و ثقافت کی عظمت کے لیے بھی خطرہ محسوس کیا: ’’اور: (باہم فیصلہ کیا) پس تم (جادوکی) اپنی ساری تدابیر جمع کر لو پھر قطار باندھ کر (اکٹھے ہی) میدان میں آجاؤ، اور آج کے دن وہی کامیاب رہے گا جو غالب آجائے گا‘‘ ۔ اس اعلان سے قبل اگر وہ اپنی ناکامی کے امکان پر بھی غور کرتے تو اس سے باز رہتے ۔ خیرمقابلے کے آغاز میں جادوگر بولے:’’موسٰی، تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟‘‘ موسٰی نے کہا:’’نہیں، تم ہی پھینکو‘‘۔ یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے موسٰی کو دَوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور موسٰی اپنے دل میں ڈر گیا‘‘ ۔

  • جادوگروں کا ایمان لانا اور قوتِ ایمان: یہ ایک فطری ردعمل تھا اور وہاں موجود سارے لوگ اس کیفیت سے گذرے ہوں گے ۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے موسٰی کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا:’’مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا ۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں۔ یہ تو جادوگر کا فریب ہے، اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئےبالآخر کو یہی ہوا ‘‘۔ اس ایمان افروز منظر کو دیکھ کر :’’ سارے جادوگر سجدہ میں گر پڑے‘‘اور علی الاعلان شہادت علی الناس کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بولے :’’ ہم ہارونؑ اور موسٰی کے ربّ پر ایمان لے آئے‘‘۔فرعون کا داؤ الٹ چکا تھا ۔ سورۂ اعراف میں ہے کہ: ’’اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ اُنھوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا ۔ فرعون اور اس کے ساتھی میدانِ مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور اُلٹے ذلیل ہو گئے‘‘۔

 جادوگر تو ایمان لے آئے مگر فرعون نے(ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے) کہا :’’ تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمھیں اس کی اجازت دیتا؟‘‘۔ فرعون کا جادوگروں سے یہ مطالبہ کہ تم نے میری اجازت کے بغیر دین حق کو قبول کرنے کی جرأت کیسے کی، روئے زمین پر بدترین جبر کی روایت ہے جو جمہوریت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ہنوز جاری و ساری ہے۔

اس کے بعد فرعون نے ایک ناقابلِ یقین الزام لگا دیا :’’یہ تمھارا (جادوگروں کا) گُرو ہے جس نے تمھیں جادوگری سکھائی تھی‘‘۔یہ بہتان اس لیے احمقانہ تھا کہ جادوگروں کو بلانے کی تجویز سے لے کر اہتمام تک کی ساری مشق اس نے خود کی تھی۔ وہ ظالم حکمران یہیں نہیں رکا بلکہ دھونس دھمکی پر اُتر آیا اور بولا:’’ اچھا، اب میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ پھر تمھیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے (یعنی میں تمھیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسٰی ) ‘‘۔ فرعون اس معرفت سے بے بہرہ تھا کہ ایمان کی دولت کیا ہوتی ہے؟ اور ایمان والے کس قدر جری و بہادر ہوتے ہیں؟ اس لیے جادوگروں کے اس جواب نے اس کو حواس باختہ کردیا:’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں، تُو جو کچھ کرنا چاہے کر لے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے‘‘۔

یہ ایک ایسا موقع ہے کہ پوری قوم ایک میدان میں جمع ہے ۔ ان کے سامنے فرعون کا پول کھل چکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان جادوگروں کے ذریعے دین اسلام کی دعوت سب کے سامنے پہنچانے کا انتظام کرواچکا ہے ۔ جادوگر شہادت دیتے ہیں :’’ ہم تو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے، جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔   اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔ اس نازک ترین گھڑی میں جادوگروں نے جو ایمان افروز دعا کی سورۂ اعراف میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ :’’اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں‘‘۔ یہ عجیب و غریب منظر ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو زیر کرنے کے لیے ساحروں کو جمع کرنے کا منصوبہ فرعون نے بنایا۔ ان کو بصورتِ کامیابی اپنا مقرب بنانے کی پیش کش خود کی لیکن جب داؤ الٹ گیا اور وہ ایمان لے آئے تو ہاتھ پیر مخالف سمتو ں سے کٹواکر سولی چڑھانے کی دھمکی پر اتر آیا ۔ اس کے باوجود جادوگروں کا صبرو ثبات اور عزم و حوصلہ دیکھ کر فرعون کے درباری گھبرا گئے ۔

مارے گھبراہٹ کے فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا:’’کیا تو موسٰی اور اُس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟‘‘ ۔یہاں پر مفسدین الٹا حضرت موسیٰ ؑ پر فساد پھیلانے کی تہمت باندھ رہے ہیں ۔ اس سوال کا فرعون نے جواب دیا:’’میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے‘‘۔ اس جواب میں فرعون اپنے حق بجانب ہونے کا جواز اقتدار کی مضبوطی کو قرار دیتا ہے، یعنی چونکہ وہ طاقت ور ہے اس لیے وہ ہر طرح کے ظلم و جبر پر قدرت رکھتا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں اس کے مناظر جا بجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں ۔

  • آزمایش اور حکمتِ دعوت: فرعون کے ان مذموم ارادوں کا بنی اسرائیل پر کیا اثر ہوا ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ان کا حوصلہ بلند کرنے کی خاطر :’’ موسٰی نے اپنی قوم سے کہا:’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو‘‘۔ اس مرحلے میں حضرت موسیٰ ؑ کی حکمت عملی اور ہمارے موجودہ طریقۂ کار میں ایک واضح فرق قابلِ توجہ ہے۔ عصرِ حاضر میں ملت کے اوپر جب بھی کوئی آزمایش آتی ہے ہمارے علما اور دانش وَر موقع غنیمت جان کر اصلاح کا دفتر کھول دیتے ہیں۔ اصلاحِ حال، یعنی ملت کی خرابیوں اور کوتاہیوں کو دُور کرنے کی کوشش یقیناً بڑاکار خیر ہے لیکن اس کا بھی موقع و محل ہوتا ہے۔ اس وقت بنی اسرائیل کے اندر بھی بے شمار خرابیاں تھیں لیکن فرعون کے مقابلے میں اوّلین ترجیح انھیں ظلم سے نجات دلانے کی تھی۔ اس لیے پہلے مرحلے میں حضرت موسٰی کی تمام تر توجہات کا مرکز دعوت پہنچانا اور جبر کا استیصال رہا۔

حضرت موسٰی نے اپنی قوم سے صبر و ثبات کی تلقین کرنے کے بعد انھیں امید و حوصلہ دیتے ہوئے کہا :’’زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے‘‘۔ یعنی بظاہر فرعون بہت طاقت ور ہے لیکن ربّ کائنات کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔   یہ دنیا مسبب الاسباب کی مرضی سے چل رہی ہے اور وہ کسی کو بھی اس کا وارث بناسکتا ہے اور معزول کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ آگے یہ بھی فرمایا کہ دنیا کا اقتدار ہی اصل کامیابی نہیں ہے بلکہ ’’ آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اُس (اللہ) سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ یعنی خشیت اللہ اپنے دل میں پروان چڑھائیں ، فرعون سےخوف زدہ نہ ہوں ۔ سورۂ قصص میں یہی یقین ان الفاظ میں درج ہے: ’’ہم تیرے بھائی کے ذریعے سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمھارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمھارا اور تمھارے پیروؤں کا ہی ہو گا‘‘۔

ویسے یہ بشارت تو ہمارے لیے بھی ہے :’’ دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ ۔ لیکن نہ جانے کیوں اس کواکثر فراموش کردیاجاتاہے۔ اس وقت بنی اسرائیل کے حالات امت کی موجودہ حالت سے خاصے مماثل ہیں۔ اس لیے جب حضرت موسٰی ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے تو جواب میں:’’ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا:’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں‘‘۔اس کڑوے کسیلے مایوس کن ردعمل کے باوجود حضرت موسٰی نے نہایت شگفتگی سے جواب دیا: ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا ربّ تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔

آج بھی پریشان حال امت کو اسی طرح کی حوصلہ مند اور پر امید قیادت درکار ہے جو   نہ صرف کامیابی کی نوید سنائے بلکہ اس کے مقصد سے بھی آگاہ کرے ۔ اس کو بتائے کہ تمھیں اقتدار اس لیے نہیں دیا جائے گا کہ تم ان سے انتقام لو یا ان کی طرح ظلم و زیادتی اور عیش و طرب میں پڑجائو بلکہ وہ بھی ایک آزمایش ہی ہوگی ۔اس کائنات میں جہاں انسانوں کی تخلیق کا مقصد ہی آزمایش ہے، اس کی نوعیت تو بدلتی ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں ہوتا ۔ کبھی اقتدار سے محروم کرکے توکبھی نوازکر اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے بلکہ ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کیسا عمل کرتے ہیں؟ کوئی پہلی آزمایش میں ناکام ہوجاتا ہے تو کوئی دوسری میں۔ ویسے یہ دنیا ایسی سعید روحوں سے بھی خالی نہیں ہوتی کہ جو دونوں مراحل میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں فرعون کی قوم پر دُنیوی عذاب کا سلسلہ دراز کیا گیا۔

  • اہلِ فرعون پر مصائب وعذاب: اس بابت حضرت موسٰی کی یہ دعا ملاحظہ کیجیے: ’’اے میرے رب! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے، لہٰذا تو انھیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے جو ان کے لیے سزا وار ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لیے عبرت ہو‘‘۔ فرعونیوں پرجو مصائب مسلط کیے گئے ان میں بہ تدریج شدت آئی۔ سورئہ اعراف میں ہے:’’ ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے‘‘۔ یہ پہلا اور ہلکا عذاب تھا:’’ مگر اُن کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اِسی کے مستحق ہیں، اور جب بُرا زمانہ آتا تو موسٰی اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فال بد ٹھیراتے ‘‘۔

اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ حالانکہ در حقیقت ان کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے‘‘۔ وہ اس آسمانی مصیبت کابہتان حضرت موسٰی کے سحر پر منڈھتے ہوئے کہتے تھے:’’تُو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں‘‘۔ یہ سراسر خود فراموشی اور ہٹ دھرمی تھی ورنہ سچ تو یہ ہے کہ سورۂ نمل میں ان کی اندرونی کیفیت اس طرح بیان ہوئی ہے :’’مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں اُن لوگوں کے سامنے آئیں تو انھوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ انھوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے ‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نشانیاں ان کے قلب و ذہن کو قائل کرچکی تھیں لیکن انا، رعونت یا دنیوی مفاد جیسی نفسانی کمزوریاں اعترافِ حق کی راہ میں حائل تھیں۔

دوسرے مرحلے میں پانچ قسم کے عذاب الگ الگ وقتوں میں آئے: ’’آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سر کشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے ‘‘۔ طوفان سے مراد آسما ن سے پانی اور اولے برسنا ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اَبرآلود آسمان سےسبت کی شب زبردست برسات شروع ہوئی اور طوفان بپا ہوگیا ۔ اس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ کھیت کھلیان اور گھر سب ڈوب گئے، پانی گلے تک آگیا۔ ایک ہفتہ قبطی اس مصیبت میں گرفتار رہے مگر بنی اسرائیل کو محفوظ رکھا گیا۔ اس مصیبت سے عاجز آکر انھوں حضرت موسٰی سے دعا کی درخواست کی۔ اس کاذکر سورۂ اعراف میں ہے: ’’جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے:اے موسٰی، تجھے اپنے ربّ کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر‘‘ ۔

یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ عذاب میں جب شدت آئی تو ان کا رویہ تبدیل ہوگیا اور انھوں نے حضرت موسٰی سے رجوع کیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ ’’ اگر اب کے تُو ہم پر سے یہ بلا ٹلوا دے تو   ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے‘‘۔ اس مصیبت کے باوجود وہ لوگ حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت پر لبیک کہہ کر فرعون کا انکار اور اللہ کے اقرار پر تیار نہیں تھے بلکہ دوسرے درجے کے کم تر مطالبے، یعنی بنی اسرائیل کی رہائی کے تعلق سے نرم پڑے ۔ ویسے یہ ان کا مستقل رویہ تھا کہ ہر مرتبہ بلا کے ٹل جانے پر وہ عہد شکنی کرتے۔ ’’مگر جب ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقت مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے‘‘۔ لیکن طوفان تھم جانے کے بعد جب کھیت اور باغ سرسبزو شاداب ہوجاتے تو وہ اپنی مصیبت کو بھول کر اُلٹا طوفان کو نعمت قراردینے لگے اور پھر سے ظلم و طغیان کی طرف لوٹ گئے۔

طوفان کے بعد والے مرحلے میں ان کی تیار فصلوں پر ٹڈی دل نے ہلہ بول دیا ۔ اس سے پریشان ہوکر وہ دوبارہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آئے ۔ آپ نے پھر سے دعا کی اور وہ عذاب بھی ٹل گیا تو وہ حسبِ سابق بدل گئے ۔ اس کے بعد جو اناج رکھا گیا تھا اس میں گھن لگ گئی اور بالوں میں جوئیں آگئیں۔ اس قہر آسمانی سے بلبلا کر وہ حضرت موسٰی کے حضور حاضر ہو ئےاور دعا کی درخواست کی اور وعدہ کیا مگر پھر وہی پرانی کہانی دُہرائی گئی ۔ اس کے بعد مینڈک کا عذاب نازل ہوگیا۔مینڈک اور قہر نے ان کا چین و سکون چھین لیا ۔ ہر جگہ مینڈک ہی مینڈک۔ نہ سونے دیتے نہ کھانے دیتے۔ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتے تو اُچھل کر اندر چلے جاتے ۔ اس عذاب سے نجات کے لیے وہ روتے گڑگڑاتے حضرت موسیٰ ؑ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی استدعا کے ساتھ حاضر ہوئے۔ آپ نے ان کی بار بار عہد شکنی کے باوجود کبھی منع نہیں کیا اور دعا کرتے رہے ۔ نہ تو رسول کا رویہ بدلہ اور نہ ان کی عہد شکنی میں تبدیلی واقع ہوئی یہاں تک کہ خون کے عذاب میں مبتلا کردیے گئے۔

یہ عذاب کی ایک منفرد شکل تھی کہ قبطی برتن سے پانی نکالتے تو خون بن جاتا اور بنی اسرائیل کے لیے وہ صاف شفاف پانی ہی رہتا۔ اس طرح پانی کے باوجود وہ قطرے قطرے کے محتاج ہوگئے۔ حکایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ گنے وغیرہ کو چوستے تو اس کا رَس بھی خون بن جاتا۔ اس طرح پے درپے عذاب میں مبتلا ہونے اور نجات پانے کے باوجود جب ان لوگوں نے اپنی روش نہیں بدلی تو تیسرے مرحلے کا حتمی عذاب آیا ۔ اس کے متعلق ارشادِ ربانی ہے :’’ تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور اُن سے بے پروا ہو گئے تھے ‘‘۔ یہ دنیا کا آخری عذاب ضرور ہے لیکن اصلی اور دائمی عذاب آخرت کا ہے۔

  • راہِ نجات صبرواستقامت: فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کو فرعونی تسلط سے نجات مل گئی۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’اور اُن (فرعونیوں) کی جگہ ہم (اللہ) نے اُن لوگوں(بنی اسرائیل) کو جو کمزوربنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے ربّ کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ اُنھوں نے صبر سے کام لیا تھا‘‘۔ یہاں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے وعدے کو پورا کرنے کو صبر و استقامت سے منسوب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امت مسلمہ اپنے آپ کو خالق کائنات کی بشارتوں کا مستحق بنانا چاہتی ہے تو اس کو بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔عصرِ حاضر میں بھی دشمنانِ اسلام کی تباہی کاسبب وہی ہوگاجو فرعون کی غرقابی کا تھا ۔ اس بارے میں ارشادِ ربانی ہے :’’اور فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے‘‘ ۔ یعنی ان کی میخیں، طاقت ، قوت، حشمت، جاہ و جلال کچھ بھی ان کے کسی کام نہیں آیا۔ دنیا کا سب سازو سامان دھرا کا دھرا رہ گیا ۔  یہ اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے‘‘۔

دینی مدارس سے فارغ ہونے والے نوجوان علما، معاشرے کی معاشی تبدیلی اور بہتری کے لیے کن نئے میدانوں میں اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں؟ ایک ایسا سوال ہے، جس پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرکے ایک مفید اور مثبت و مؤثر لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

عموماً دیکھا یہ جاتا ہے کہ مدارس سے عالمیت اور فضیلت کے بعد یہ نوجوان مسجدومنبر سے اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں۔ کچھ آگے بڑھ کر مکتب اور مدرسہ قائم کرکے کام آگے بڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی گونج ہماری سوسائٹی میں سنائی دیتی ہے۔ ان میں سے چند افتاء کا کورس کرکے فتاویٰ کے مسند پر بیٹھتے ہیں۔ مفتی اور قاضی بن کر  وراثت اور وصیت کے مسائل، نکاح و طلاق اور فسخ کےمعاملات میں اُمت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ بعض فاضلین مترجم کی حیثیت سے غیرملکی سفارت خانوں میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ پھر کچھ افراد کالج اور یونی ورسٹی میں عربی اور اُردو کے شعبہ جات میں داخلہ لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کالجوں میں لیکچررمقرر ہوجاتے ہیں۔

زیرنظر مضمون میں، فارغین مدارس کو اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز سے استعمال کرکے اور شریعت اسلامی کے دائرے میں رہتے ہوئے معاشرے میں مفید اور مؤثرخدمات اداکرنے کی جانب متوجہ کیا جارہاہے۔

پہلی بات تو یہ بڑی واضح ہے کہ اسلام کی پانچ بنیادوں میں سے چار، یعنی کلمۂ شہادت، نماز، روزہ اور حج پر برصغیر پاک و ہند کے علما کی توجہ الحمدللہ موجود ہے۔ کلمہ طیبہ کی تعلیم پر بھی توجہ ہے۔ نماز کی اقامت اور اس کی ادائیگی کا اہتمام ہورہا ہے۔ پھر نوافل سے رغبت اور شوق کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنے کی بھی برحق ترغیب دی جاتی ہے۔ مالی عبادات میں حج کا شوق کافی بڑھا ہوا ہے اور عمرے کا بھی بڑا اہتمام ہورہا ہے۔ لیکن زکوٰۃ ، جو اسلام کی بنیادوں میں سے تیسرا اہم جز ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کے مال داروں کے مال کی بدولت حکومت اور معاشرے کے ذمہ داروں کے ذریعے فقرا و مساکین کے حقوق کی ضمانت دی ہے۔ اس کی طرف علما اور خاص طور پر فارغین مدارس کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دورِ نبویؐ میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے چار شعبوں پر مشتمل باقاعدہ نظم قائم کیا گیا:

  • عمال الصدقات یا عاملین صدقات، یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والے افسران
  • کاتبین صدقات، یعنی حساب کتاب کے ا نچارج
  • خارصین، یعنی باغات میں پھلوں کی پیداوار کا تخمینہ لگانے والے
  • عمال علی الحمٰی،یعنی مویشیوں کی چراگاہ سے محصول وصول کرنے والے۔

عاملین صدقات کے لیے رسولؐ اللہ نے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، جن میں امانت و دیانت، احساسِ ذمہ داری اور اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں ہوتی تھیں، ان کا انتخاب فرما کر مختلف قبیلوں کی طرف بھیجا۔ جن میں حضرت عمرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت عدیؓ بن حاتم اورحضرت ابوعبیدہؓ بن جراح شامل تھے۔

مالی نظام کا باقاعدہ حساب کا شعبہ حضرت زبیر بن عوامؓ کے سپرد تھا۔ ان کی غیرموجودگی میں حضرت جہیم بن صلتؓ اور حضرت حذیفہؓ بن الیمان صدقات کی آمدنی کے حساب کتاب کے ذمہ دار تھے۔ عہد نبویؐ میں خارصین (Estimators) پیداوار کا تخمینہ لگانےوالے اصحاب بھی موجود تھے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر خراص تھے اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کا شمار بھی انھی میں سے ہوتا تھا۔ اسی طرح مویشیوں کی چراگاہوں سے وصول یابی کے لیے بھی عمال مقرر تھے جن میں حضرت سعد بن وقاصؓ، حضرت بلال بن حارثؓ، حضرت ابورافعؓ اور حضرت ذرؓبن ابی ذر مشہور ہیں۔

دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں بھی اجتماعی نظم زکوٰۃ کی تفصیلات موجود ہیں۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں جب صدقہ و زکوٰۃ کی رقم لینے والا کوئی نہ تھا تو آپ نے فرمان جاری کیا کہ اس رقم سے غلاموں کو خرید کر آزاد کرو، شاہراہوں پر مسافروں کے لیے آرام گاہیں تعمیر کرو، اور ان نوجوانوں مرد و عورتوں کی مالی امداد کرو، جن کا نکاح نہیں ہوا۔

آج خود ہمارے ملکوں کے چند شہروں میں زکوٰۃ کا اجتماعی نظام چھوٹے بڑے پیمانے پر متحرک ہے۔ اس کے لیے بعض جگہوں پر باقاعدہ ’سماجی معاشی سروے‘ کرایا جاتا ہے جس کی بنیاد پر مختلف طبقات میں زکوٰۃ کی رقم تقسیم ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے یہ ریکارڈ مرتب کرنے کا اہتمام کیا ہے، ان کی پیش کردہ تفصیلات کے ذریعے یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ صرف زکوٰۃ کے نظام کو سلیقے سے قائم کرنے کے نتیجے میں کتنے نئے شعبے علم کے حصول اور کام کے ذرائع ہمارے سامنے کھل سکتے ہیں۔ اکائونٹ، کامرس اور آڈیٹنگ، سروے اور ضروریات کی صحیح معلومات کے لیے شماریات (Statistics)،وصولیاتی فن اور طریقوں کے لیے تعلقاتِ عامہ اور علم نفسیات،غربت اور پسماندگی کی معلومات کے لیے عمرانیات، ابن سبیل (مسافروں) کے لیے آرام گاہوں کی تعمیر وغیرہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

انتہائی غربت، بھوک اورفاقے کے خاتمے کے لیے ۲۰۰۰ء میں اقوا م متحدہ نے دُنیابھر کے حکمرانوں کے ساتھ مل کرایک اعلامیہ Millenium Development Goals  [MDG: ہزاریہ ترقی کا منصوبہ]کے نام سے پندرہ سالہ ایک عالمی منصوبہ بنایا تھا۔ پھر ۲۰۱۵ء میں آیندہ پندرہ برسوں کے لیے Sustainable Development Goals  [SDG: پایدار ترقی کے اہداف]تیار کیا، جس میں غربت کا خاتمہ، صحت، تعلیم، صاف پینے کے پانی کی فراہمی، صحت و صفائی،ماحولیات کی حفاظت وغیرہ شامل ہے۔ زکوٰۃ کے نظام کے قیام کو بھی اس مذکورہ پروگرام (SDG) سے جوڑاہے (دیکھیے: عالمی ترجمان القرآن، ستمبر۲۰۱۹ء)۔ اب، جب کہ دُنیا نے زکوٰۃ کے نظام کو گلوبل منصوبے کے طورپر تسلیم کیا ہے اور اس کی افادیت کو مانا ہے،تو بین الاقوامی جبر اور پابندیوں کے باوجود ملت اسلامیہ برصغیر پاک و ہند اور خاص طور پر علمائے کرام اور فارغین مدارس پرفرض ہے کہ وہ نماز، روزہ اور حج کے اہتمام کی طرح زکوٰۃ کے اجتماعی نظم و انصرام کے لیے علوم و فنون کے ان میدانوں کو اپنے کیریئر کا حصہ بنائیں، جس سے دین کے گم کردہ اور کم توجہ فرض کی طرف لوگ متوجہ ہوں اورمقاصد ِ شریعت کے حصول کا باعث بنیں۔ اس سے اُمید ہے کہ دُنیا میں غربت اور فاقے میں کمی ہوگی اور خوش حالی میں اضافہ ہوگا اور آخرت میں رضائے الٰہی کا باعث بھی۔

  • تجارت اور انٹرپرینور شپ: علماو فاضلین مدارس کے لیے معاشی ترقی کا ایک اہم ترین ذریعہ تجارت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جو جائز رزق عطا فرمایا ہے اس کے دس میں سے نو حصے تجارت کے ذریعے عطافرمائے ہیں، تِسْعَۃُ اَعْشَارِ الرِّزْقِ  فِیْ التِّجَارَۃٍ  (کنزل العمال، الفصل الثالث: فی انواع الکسب، حدیث: ۹۳۴۲)۔ تجارت میں محض روایتی تجارت، یعنی سادہ کاروبار ہی شامل نہیں ہے، بلکہ ہروہ سرگرمی شامل ہے، جس میں انسان اپنی ذاتی محنت سے روزی حاصل کرتا ہے۔ اس میں صنعت بھی شامل ہے، دستکاری بھی اور وہ تمام معاملات شامل ہیں جو انسان شوق اور جذبے سے کرتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کا سامان لے کر تجارتی سفر کیا اور ایک مثالی تاجر کی حیثیت سے مکّی معاشرے میں مقام حاصل کیا تھا۔ ہجرت کے بعد آپؐ نے مسجد نبویؐ کی تعمیر کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلے سوق المدینۃ (مدینہ مارکیٹ) قائم کی اور تجارت پر یہودیوں کی اجارہ داری اور استحصال کے خلاف عملی اقدام کرکے گویا اس بات کا اعلان کیا کہ معاشرے کی خوش حالی کےلیے رزقِ حلال کی طلب اور معاشی سرگرمی میں حصہ داری ضروری ہے۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا: اَلْجَالِبُ اِلٰی سُوِقِنَا کَالْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (المستدرک للحاکم،کتاب البیوع، حدیث:۲۱۰۹)، جو ہماری مارکیٹ میں خریدوفروخت کرے گا،وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مدینہ مارکیٹ، سیرتِ نبویؐ کا ایک گم نام گوشہ ہے جس کی تفصیلات ہمارے علما و فضلا کو جاننے کی ضرورت ہے۔ (عالمی ترجمان القرآن، مارچ ۲۰۱۹ء)

مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ کا مشغلہ کیا تھا؟ کچھ صحابہ اصحابِ صفہ میں سے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہوتے تھے،لیکن اکثر مہاجرین بازاروں میں مشغول اور انصار کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ عشرہ مبشرہ میں سے تمام ہی اصحاب تاجر پیشہ تھے۔ تاہم، ان میں سے چار صحابہ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کی دولت کا اندازہ کیا جائے تو اس کا مقابلہ موجودہ دور کے بہت دولت مندوں سے کیا جاسکتا ہے۔

اکیسویں صدی کی موجودہ دُنیا میں معاشی ترقی کا دارومدار صرف قدرتی وسائل کی کثرت پر نہیں بلکہ انسانوں کی فکری اُپج (Creativity)،فنی ایجادات (Technical Innovation)، ہنرمندی (Skill Development) اور کاروبار کی آزادی پر ہے۔ مثال کے طور پر جاپان میں کاشت کاری کے لیے زمین موجود نہیں ہے تو وہ چھوٹے بڑے جہازوں میں اپنی غذا اُگانے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں۔ آج سرمایہ کاری کے لیے دُنیا بھر میں انٹرنیٹ کے ذریعے فعال کاروباری منصوبوں کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے سرمایہ حاصل کیا جارہا ہے، جسے Crowd Funding کے نام سےموسوم کیا جاتا ہے۔

کاروبار میں مسابقت کی دوڑ برپا ہے۔ جو دل کش اور آسان تکنیک یا مصنوعات کو نئے انداز اور بہترفائدہ مندی کی صورت میں مارکیٹ میں نہیں لاتا، وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ بیہقی اور مسند ابی یعلٰی کی حدیث ہے: اِنَّ اللہَ یُحِبُّ  اِذَا  عَمِلَ  اَحَدُکُمْ  عَمَلًا  اَنْ  یُتْقِنَہٗ (بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۵۰۶۳)’’اللہ کو پسند ہے کہ جب آپ میں سے کوئی کام کرے تو اسے کمال کے ساتھ کرے‘‘۔ اس طرح ایک مسلمان تاجر اپنی مصنوعات بہترین طریقے سے تیارکرتاہے تو ایک طرف مارکیٹ میں اس کے ذریعے مسابقت ہی نہیں کرتا بلکہ ہدایت نبویؐ کی تعمیل بھی کرتا ہے۔ بعض اوقات تاجر کچھ نئے طریقہ اور نئے انداز سے ایسی پیداوار (Product) اپنی مہارت سے پیدا کردیتے ہیں کہ اس میں ویلیوایڈ (Value add)ہوکر ایسی چیز تیار ہوجاتی ہے کہ جو مارکیٹ میں نئی ہوتی ہے اور اس کی مانگ بھی۔

آج کل انٹرنیٹ پرینورشپ کے نام کابڑا چرچا ہے، جس کی طرف بھی ہمارے علما و فضلا کی توجہ ہونی چاہیے۔ جودراصل نئے کاروبار کو شروع کرنے کادوسرا نام ہے۔ یہ اپنی اختراع سے نئی مصنوعات یا نئے انداز کی سروسز کے طور طریقوں کو رائج کرنا، خطرات کا سامنا کرنا، اس کی توسیع و ترقی کے لیے نئے مواقع تلاش کرنا اور پیداواری عمل میں ندرت اور مارکیٹنگ کے انداز میں نئے انداز کو اختیار کرنا ہوتا ہے۔

آغازِ کار (Startup) کا نام بھی ہرجگہ لیا جارہا ہے۔ کاروباری سہولیات فراہم کرنے کے مختلف نجی آن لائن اداروں کی تعداد ۲۰۲۰ء کے اختتام تک ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔

ایک اور نئے قسم کا کاروبار جوپوری دنیا میں بڑی تیزی سے اُبھر رہا ہے،وہ حلال بزنس کےنام سے موسوم ہے جو دُنیا بھر میں حلال مہمان نوازی، حلال گوشت، حلال ماکولات و مشروبات، حلال ادویات، حلال فیشن کی اشیاء (Cosmetics) اور حلال میڈیا اور تفریحات پر مشتمل ہے۔ ان تمام صنعتوں اور تجارتی اداروں میں شریعتہ سرٹیفکیٹ دینے کے لیے بھی علما وفضلا کی ضرورت ہے، جنھیں شریعت کےعلم کے علاوہ ان کاروباری سرگرمیوں اور مصنوعات کے بارے میں بھی بخوبی آگاہی اور خصوصی علم حاصل ہو۔ یہ حلال انڈسٹریز مستقبل قریب میں اربوں ڈالر کے کاروبار پر مشتمل ہوگی، اور دنیا بھر میں شریعت کے جاننے والوں کی مانگ ہوگی۔

تجارت کے پیچ و خم کو سیکھنے ، اس میں ماہرانہ کمال حاصل کرنے کےلیے کاروباری انتظامیات، کاروباری مہارتوں، کاروباری حکمت عملیوں کےکورسز میں داخلہ لےکرفارغین مدارس اپنے کیریئرکو شان دار بناسکتے ہیں اورملک وملّت کی ترقی میں حصہ دار بھی۔

  • اسلامی بنکاری اور سرمایہ کاری: آج ہمارے ہاں بنکاری نظام سود کی بنیادوں پر قائم ہے۔ اسی ماحول میں کوششیں ہورہی ہیں کہ بلاسودی عدل و قسط اور اخلاقی اقدار پر مبنی اسلامی سرمایہ کاری اور بنکاری کااجرا ہو یا کم از کم بلاسودی دریچے (windows) مروجہ بنکوں میں کھولے جائیں۔ اس قسم کے بنکوں کو صحیح رُخ پر شریعت کے خطوط کے مطابق چلانے کے لیے علمائے کرام اور فضلا کو فقہ المعاملات کے اپنے علم کو موجودہ بنکاری کے قوانین پر انطباق کرکے صحیح رُخ پر چلانا ہوگا۔ اس طرح ان کے آیندہ کے کاموں کا ایک وسیع وعریض میدان سامنے آسکے گا۔ فی الوقت کوآپریٹو سوسائٹیز کے تحت مختلف چھوٹے مالیاتی لین دین (مائیکروفنانس) اور چھوٹے کاروباریوںکے لیے بلاسودی سرمایہ کاری کاکام ہورہا ہے، اس میں بھی فارغین مدارس کے لیے مواقع فراہم ہیں۔

سرمایہ کاری کے لیے جوائنٹ اسٹاک کی کمپنیاں ہیں، جن میں شریعت کے دائرے میں آنےوالے اسٹاکس کی نشان دہی کے لیے افراد اور اداروں کی ضرورت ہے۔ اسٹاک کی مارکیٹ میں نفع مندی کے ساتھ ہی شریعت کے اخلاقی اقدار پر پورے اُترنے والے اسٹاکس کی جانچ کا کام کرنے کے لیے شریعت کے اُمور و مسائل سے واقفیت کے حامل فارغین مدارس کی ضرورت ہے۔

اسی طرح روایتی انشورنس کے بجائے تعاونی اور اسلامی اصولوں پر مبنی انشورنس، یعنی تکافل کا بھی ایک میدان ہے اور بڑے بڑے تعمیراتی، تجارتی اور صنعتی ڈھانچوں کی تشکیل وتعمیر کے لیے صکوک (Sukuk) کے اجرا اور اُن کی مسلسل نگہبانی کے لیے شریعہ اسکالرز درکار ہیں، جو فارغین مدارس ہی ہوسکتے ہیں۔ جنھیں ملک اور بیرونِ ملک جاکر جدید سرمایہ کاری کے ان مختلف کورسوں میں داخلہ لے کر تخصص (Specialisation) حاصل کرکے انھیں صحیح خطوط پر قائم کرنا اور باقی وبرقرار رکھنا ہے۔ آج بھی اس کی ضرورت ہے اور مستقبل قریب میں نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں اس کے بہترین مواقع فارغین مدارس کو حاصل ہوں گے۔

آج مارکیٹ میں بہت ساری ’پونزی اسکیمیں‘ (Ponzi Schemes)، یعنی دھوکا دہی اورفراڈ پر مبنی اسکیمیں، اسلامی سرمایہ کاری کے خوش نما ناموں سے بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں اور مارکیٹ کے معروف نفع کی شرح سے بہت زیادہ رقم ان سرمایہ کاروں (investors) کو دے رہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس دھندے کی پشت پناہی بھی بعض علمائے کرام کررہے ہیں اور فضلا و فارغین مدارس بھی بڑے پیمانے پر اس میں اپنا سرمایہ لگارہے ہیں، جو دراصل ایک کھلے دھوکے کا سودا ہے۔ اس میں اسکیم چلانے والے اپنےسرمایہ کاروں کو منافع نئی سرمایہ کاریوں کے سرمایہ سے دیتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کی اصل سرمایہ کاری کے حقیقی نفع سے۔ اگرعلما و فضلا تجارت اور سرمایہ کاری کے اسلامی اصولوں اور ضوابط سے کماحقہٗ واقف ہوں گے،اکائونٹنگ اور آڈیٹنگ کے طریقوں سے آگاہ ہوں گے، تو ان ’پونزی اسکیموں‘ کا پول کھل جائے گا اور شاطر افراد لوگوں کو بے وقوف بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیںگے۔ اور لوگ حلال اور طیب تجارتوں کی طرف متوجہ ہوںگے۔

آخر میں یہ بات عرض کرنی ہے کہ ان تینوں: اُمور زکوٰۃ کے اجتماعی نظم، تجارت و انٹرپرینورشپ  اور اسلامی سرمایہ کاری اور بنکاری میں جہاں مرد علماو فارغین کو بھرپور حصہ لینا ہے، اور اس کے لیے خصوصی تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنا کردار ادا کرناہے،وہیں عالمہ اور فاضلہ خواتین بھی شریعت کے حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انھیں بھی معاشی ترقی کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں آگے بڑھنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جس کے لیے اُم المومنین حضرت خدیجہؓ اور نبی کریمؐکے قائم کردہ مدینہ مارکیٹ میں خواتین تاجروں کی موجودگی اور ان کے کاموں کی نگرانی کے لیے خواتین محاسبوں کا تقرر مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہم صرف ’خواتین کے لیے خصوصی مارکیٹ‘ اور گھر بیٹھے نظامِ کار کے مراکز قائم کرکے اس کا آغاز کرسکتے ہیں؟

مسلسل گیارہ روز فلسطینی عوام پر آتش وآہن کی بارش کرنے اور غزہ کو موت کی وادی بنانے کی کوشش کے بعد اسرائیل پینترا بدل کر جنگ بندی کا اعلان کر چکا ہے۔ اسرائیل نے آبادی کے اعتبار سے دنیا کے گنجان ترین شہر غزہ کو خون میں نہلانے کے لیے کیوں چنا، اور عالمی رائے عامہ کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنے کے بعد اسرائیل کو بالآخر خود ہی جنگ بندی کا اعلان کیوں کرنا پڑا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہیں کہ جو اسرائیل میں تین برسوں کے دوران پانچویں انتخابی معرکے سے پہلے ہی غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

لیکن ان دو سوالوں کے ساتھ ہی اس معاملے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیوں کیا، جب عالمی برادری پہلے سے جاری فوجی جارحیتوں سے بے زاری کا اظہار کر رہی ہے؟ ضروری ہے کہ ناجائز قبضے اور توسیع پسندیت کے حوالے سے اسرائیلی تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے۔

  • اسرائیلی توسیع پسندی کا  پس منظر: بیسویں صدی کے شروع میں برطانوی استعمار نے عربوں کے ساتھ فلسطین کے حوالے سے ایک عرب ریاست کے قیام کے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو ’اعلان بالفور‘ جاری کیا۔ گویا ’اعلان بالفور‘ یہودیوں کے لیے ایک واضح اشارہ تھا کہ وہ فلسطین میں اپنی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے لیے متحرک ہو جائیں تاکہ صہیونی ایجنڈے کے مطابق فلسطین میں ایک ناجائز یہودی ریاست کا قیام ممکن بنایا جا سکے۔

برطانیہ کی جانب سے ’اعلان بالفور‘ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب فلسطین میں ۱۹۱۷ء میں یہودی کل آبادی کا صرف آٹھ فی صد تھے۔ یہودیوں نے ’اعلان بالفور‘ کے بعد مشرقی یورپ، روس اور جرمنی وغیرہ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔ یوں ۱۹۳۹ء میں فلسطین میں یہودی آبادی آٹھ فی صد سے بڑھ کر ۳۰ فی صد ہو گئی۔ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو امریکا اور مغربی ممالک کے اسٹرے ٹیجک ملاپ سے جنم لینے والی ناجائز اسرائیلی ریاست کو فلسطین کا ۵۳ فی صد رقبہ دے دیا گیا، جب کہ اکثریتی آبادی کے حامل فلسطینی عوام کو صرف ۴۷ فی صد علاقے کا مالک تسلیم کیا گیا۔

ناجائز اسرائیلی ریاست نے صرف اسی پر بس نہ کیا اور عالمی سامراج کی سرپرستی حاصل ہونے کے نشے میں ۱۹۴۸ء میں ہی فلسطینیوں کے مزید ۲۱فی صد علاقے پر فوجی طاقت سے قبضہ کر لیا اور ۸ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے آبائی وطن سے بے دخل کر کے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ اس وقت ۶۰لاکھ فلسطینی مہاجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسرائیلی ناجائز ریاست کے توسیع پسندانہ حربے جاری رہے اور جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مزید عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ غزہ پر بھی ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی قبضہ ہو گیا، جو اس نے بزور طاقت ۲۰۰۵ء تک جاری رکھا۔

  • بھیڑیـے کا عذر لنگ :اسرائیل کا کہنا ہے کہ ’’غزہ پر جنگ، القسام بریگیڈ کے راکٹ حملے روکنے کے لیے مسلط کی گئی‘‘۔ اس دعوے کی عذر لنگ سے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اسرائیل کے اس بہانے کو صرف اسرائیل کی اندھی حمایت کرنے والا امریکا یا اس کے حواری ہی سچ مان سکتے ہیں۔ کیونکہ تھوڑی سی فہم رکھنے والے ہر آزاد شہری یہ ضرور سوچ سکتا ہے کہ اسرائیل جن راکٹ حملوں کو اپنی طرف سے مسلط کردہ تباہ کن جنگ کا سبب قرار دے رہا ہے، کیا ان راکٹ حملوں نے اسرائیل کی فوجی تنصیبات، اداروں اور شہری آبادیوں کو ماضی میں غزہ پر مسلط کی جانے والی اسرائیلی جنگوں کے دوران، یا کم از کم ۱۰مئی ۲۰۲۱ء کے بعد کیا ایسا کوئی نقصان پہنچایا ہے، جس طرح اسرائیل نے غزہ میں تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، مساجد، میڈیا ہاؤسسز اور رفاہی اداروں کو تباہ کیا ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان فوجی قوت کا فرق یہ ہے کہ ایف سولہ طیارے، مہلک ڈرون، فاسفورس بم، جدید ٹینک اور توپ و تفنگ سب کچھ اسرائیل کے پاس ہے۔ مگر دوسری طرف زیر محاصرہ فاقہ کش اہل غزہ پر دہشت گردی کا الزام ہے۔ ناجائز ریاست کے باسی اور ناجائز قبضوں کی تاریخ رکھنے والے صہیونی غزہ پر حملہ آور ہوئے، تو صرف امریکا کی ہٹ دھرمی ہی ان کی پشت پناہ بنی۔ اہلِ غزہ پر جارحیت کا الزام وہ ریاست لگا رہی تھی، جس کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر توسیع پسندی ریاستی نصب العین کی صورت ان الفاظ میں نقش ہے۔ ترجمہ: ’’اے وطن اسرائیل! تیری سرحدیں فرات سے نیل کے ساحل تک پھیلی ہوئی ہیں‘‘۔

دنیا کا واحد ملک اسرائیل ہے، جس نے اپنی سرحدوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں یا نقشوں کے مطابق تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی حدود کی تکمیل تب ہو گی، جب اردن، شام، عراق، ایران، آدھا سعودی عرب اور ترکی ومصر کے کئی علاقے ریاست اسرائیل کے قبضے میں آئیں گے۔

کیا یہ مسلم ریاستوں کے خلاف ’اسرائیل اور اسرائیلی مداخلت کاروں‘ کی کھلی جارحیت اور دہشت گردی کا ایجنڈا نہیں ہے؟ اور کیا نصف درجن سے زائد مسلم ریاستوں کو ہڑپ کرنے اور جارحانہ عزائم رکھنے والے اسرائیل کے لیے غزہ کی تھوڑی سی پٹی کی نیم، خودمختاری اور ظالمانہ پابندیوں سے بندھی نام نہاد ’آزادی‘ بھی قابلِ قبول نہیں ہے؟ خصوصاً جہاں پر حماس جیسی مضبوط، منظم اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے لڑ مر جانے والی سیاسی قوت بھی موجود ہو۔ اسرائیل نے ۱۵ برسوں سے اس کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور اس پر تین جنگیں بھی مسلط کی جا چکی ہیں۔

  • حماس کو کچلنے کا ہدف : ۲۰۰۵ء میں اسرائیل کو غزہ کا قبضہ ایک معاہدے کے تحت چھوڑنا پڑا۔ اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے صرف ایک سال بعد فلسطین میں ہونے والے عام انتخابات میں حماس نے جمہوری طریقے سے ’الفتح‘ کو شکست دے دی اور غزہ حماس کے سیاسی گڑھ کے طور پر سامنے آیا۔ فلسطینی مجلس قانون ساز کی ۱۳۲ نشستوں میں سے ۷۴ نشستیں حماس نے جیت کر فلسطین کی سب سے بڑی جمہوری اور پارلیمانی جماعت کا اعزاز حاصل کیا۔ اسرائیل، امریکا اور برطانیہ نے حماس کے حق میں جمہور کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ البتہ ’الفتح‘ تنظیم نے عوامی غیظ وغضب کے خوف سے عوامی فیصلے کو وقتی طور پر تسلیم کر لیا، لیکن حماس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں، اور دوسری طرف حماس سے تعلق رکھنے والے مجلس قانون ساز کے اسپیکر ڈاکٹر عزیز دویک سمیت ۴۲ منتخب ارکان کو جیلوں میں قید کرکے حماس کی حکومت ختم کر دی گئی۔ تاہم، غزہ میں حماس کی عوامی حمایت ’الفتح‘ کے لیے ایک چیلنج رہی۔ اسی لیے غزہ میں حماس کی عمل داری ختم نہ کی جا سکی۔ یہ صورت حال اسرائیل اور ’افتح‘ دونوں کے لیے قابل قبول نہ تھی۔۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں غزہ پر جو جنگ مسلط کی گئی، اس کا سیاسی پس منظر، ریکارڈ کی درستی کے لیے بیان کرنا ضروری ہے۔

محمود عباس کی مدت صدارت ۹ جنوری ۲۰۰۹ءکو ختم ہونے کے بعد حماس اپنی سیاسی طاقت استعمال کرتے ہوئے جیل میں قید سپیکر ڈاکٹر عزیر دویک کو قائم مقام صدر بنانے کا آئینی مطالبہ کر سکتی تھی اور فلسطینی آئین کے مطابق نئے صدارتی انتخاب کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔ مگر یہ بات ’الفتح‘ کے لیے قابلِ قبول نہ تھی۔ اس صورتِ حال کو اسرائیل نے غزہ پر ۲۰۰۸ء کے اواخر میں  کھلی جنگ مسلط کر کے دنیا کے ذہن سے محو کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء میں غزہ کے خلاف کی جانے والی جارحیت کا بھی کچھ ایسا ہی پس منظر رہا ہے۔

  • اسرائیلی جارحیت: زیر محاصرہ اور فاقہ زدہ اہل غزہ کے خلاف گیارہ دنوں تک جاری رہنے والی اسرائیل کی حالیہ اندھی اور عریاں جارحیت کا ہدف غزہ کے اندر شہری زندگی کے بنیادی ڈھانچے کا خاتمہ، حماس کی تنظیم اور عوامی حکومت کو کمزور کرنا اور اہل غزہ کو نفسیاتی اعتبار سے شکست وریخت میں مبتلا کرنا تھا۔ اسی مقصد کے لیے اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔

اسرائیلی ایف سولہ طیاروں سے شروع کی گئی بمباری نے عام آبادیوں کو ہدف بنایا جس کے نتیجے میں غزہ میں ۶۵ بچوں اور ۳۹ خواتین سمیت ۲۳۲ فلسطینی شہید اور ۱۹۱۰ زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں ۵۶۰ بچے اور ۳۸۰ خواتین شامل ہیں، جب کہ ۹۱معمر فلسطینی بھی زخموں سے چور ہیں۔ اس کے مقابلے میں غزہ میں حماس کے راکٹ حملوں میں صرف ۱۲ صہیونی ہلاک اور ۳۳۵زخمی ہوئے۔

’اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘ '(UNRWA') کے مطابق اسرائیلی بمباری سے غزہ میں کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ۷۵ ہزار فلسطینی بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان میں سے ۲۸ہزار ۷۰۰فلسطینی 'UNRWA' کے اسکولوں میں عارضی طور پر قیام پذیر ہیں۔غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری سے صنعتی سیکٹر کو ۴۰ ملین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، جب کہ توانائی کے شعبے کو ۲۲ ملین ڈالر، زراعت کو ۲۷ ملین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ حملوں میں ۴۰تعلیمی ادارے جن میں سکول اور یونی ورسٹیاں، کووڈ-۱۹ کی واحد لیب تک شامل تھی تباہ کر ڈالے گئے۔ شہر کے بڑے ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا۔

ایک ایسے ماحول میں جب امریکا اور اقوام متحدہ نام نہاد بین المذاہب ہم آہنگی کا علَم اٹھائے ہوئے ہیں، اسرائیل نے غزہ کی متعدد مساجد شہید کر دیں۔ خوراک کے ایسے گودام جو اقوام متحدہ کے زیر انتظام تھے اور اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ادارے (UNRWA) کے دفاتر بھی اسرائیل نے تباہ کر دیے، حتیٰ کہ شہر کے اندر کی سڑکیں اور پل تک تباہ کر دیے گئے۔ گویا اسرائیل نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا تہہ کر رکھا تھا اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔

  • اسرائیلی جنگ بندی یا پسپائی: اگرچہ امریکا کی کوشش رہی کہ نہتے فلسطینیوں کے خلاف تینوں مسلح افواج کو جارحانہ استعمال کرنے والے اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل سے کوئی قرارداد منظور نہ ہونے پائے اور اگر قرارداد کی منظوری اشک شوئی کے حوالے سے ضروری ہوجائے تو ٹال مٹول سے اتنا وقت ضرور گزر چکا ہو کہ اسرائیل غزہ کو تباہ کرنے کا ہدف پورا کر لے۔

دو ہفتے ضائع کرنے کے بعد سلامتی کونسل ایک لولی لنگڑی قرارداد لائی تو امریکا نے اپنے دامن پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کا دھبہ نہ لگنے دیا۔ سلامتی کونسل میں قرارداد تو عملاً اقوام متحدہ کی بے اثری اور دوہرے معیار کے اسی سرد خانے کی نذر ہو چکی ہے، جس میں پہلے بھی شرق اوسط کے بارے میں اسی نوع کی اور بہت سی قراردادیں پڑی گل سڑ رہی ہیں۔

عالمی رائے عامہ، جسے جمہور کی آواز کہنا چاہیے، امریکی جارحیت کے بعد اب کی بار اسرائیلی جارحیت کے مقابل سامنے آئی۔ جمہور کی یہ عالمی آواز، عالمی طاقتوں کے سنگ دلانہ رویے اور دوہرے معیار سے بیزاری بھی ہے۔  گویا یہ علَم بغاوت ہے، جو ننھے بچوں، خواتین، وکلا، صحافیوں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے تھام رکھا ہے۔

اسی کی بدولت اسرائیل ایسی سرکش اور ’روگ اسٹیٹ‘ کو بالآخر خود جنگ بندی کا اعلان کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ اعلان جنگ بندی اس وقت تک محض ایک ڈھونگ رہے گا، جب تک اسرائیل کی فوج غزہ اور اہل غزہ کی ناکہ بندی جاری رکھتی ہے۔ اس صورت حال میں حماس نے بجا طور پر راکٹ فائر نہ کرنے کو اس بات سے مشروط کرتے ہوئے اسرائیل کو انتباہ کیا ہے کہ الشیخ جراح کالونی اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی افراط وتفریط ہوئی تو ہم کسی بھی جنگ بندی معاہدے کے پابند نہیں ہوں گے۔

بلا شبہہ اسرائیلی طیاروں، ٹینکوں اور توپوں نے غزہ کو تباہی سے دوچار کیا، لیکن جس حالت میں اسرائیلی فوج کو واپس جانا پڑا ہے، اس کے پاس ایسا کوئی تمغہ نہیں ہے جسے وہ حماس کو کمزور کرنے، ختم کرنے کے حوالے سے اپنے سینے پر سجا سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت، اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اب دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔

اس میں دو رائیں نہیں کہ سوشل میڈیا اور شہری صحافت کے توسط سے غزہ کے شہریوں پر فاسفورس بموں سے حملوں کے مناظر سامنے آنے کے بعد، اسرائیلی فوج کا تشخص ‘روگ آرمی‘ اور خود اسرائیل کا تعارف ایک ’روگ سٹیٹ‘ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ خصوصاً اسرائیل فوج کی بمباری سے جس طرح معصوم بچوں کے لاشے غزہ کی گلیوں اور ملبے تلے تڑپتے رہے، ہستپال، تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بنتے رہے اور اسرائیلی فوج شہدا کی نماز جنازہ پر ہی نہیں قبرستانوں پر بھی بمباری کرتی رہی۔ان میں اکثر مناظر تصویروں اور ویڈیو فوٹیج کے ذریعے دُنیا بھر میں دیکھے گئے۔

یہ سفاکانہ بم باری جنیوا کنونشن کی ایسی خلاف ورزیاں ہیں جو اسرائیلی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات کا باعث بن سکتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنے خلاف کرپشن مقدمات سے بریت کے جو خواب دیکھ رہے ہیں، غزہ میں بہائے جانے والے خون کو اقتدار کی اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں؟ تاہم، یہ بات طے ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قرارداد مسترد کرکے بعد میں خود ہی جنگ بندی کا اعلان کر کے سو پیاز اور سو جوتوں والی روایت کو برقرار رکھا ہے۔

  • بے مقصد جنگ میں اسرائیل کی اخلاقی شکست: ہم اس مختصر مضمون کے اختتام پر تاریخ کی ایک اہم گواہی پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں، اور وہ ۱۸جنوری کے ۲۰۰۹ء کے اخبار گارڈین ،لندن کا اداریہ ہے جس کا عنوان ہے: ’’ایک بے مقصد جنگ میں اسرائیل کی اخلاقی شکست‘‘۔

اس ادارتی نوٹ میں اخبار نے جو نکات ۲۰۰۹ء میں بیان کیے تھے، آج ۲۰۲۱ء یعنی ساڑھے بارہ برس بعد بھی المیے کا دُہرانا ثابت ہورہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: تاریخی طور پر اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جارحیت کوتنازع کے دیرینہ بیانیے اور خطے میں پائی جانے والی باہمی ناانصافیوں اور ناہمواریوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

جغرافیائی پہلو سے بات کی جائے تو ایک مختصرقطع اراضی کے خلاف جنگ کودوسرے ممالک؛ جیسے شام ، مصر ، امریکا اور ایران وغیرہ کی وسیع ترشرکت اور تزویراتی مفادات سے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا۔یہ حقیقت خود ہی اس امر کی وضاحت کردیتی ہے کہ یہ آپریشن اسرائیل کی شکست کا کیوں غماز ہے؟کیونکہ ہمیشہ ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔یہ نعرہ تو اسرائیلی سیاست دانوں کا ایک مستقل مخمصہ ہےکہ ’’اس ملک (اسرائیل) کی سلامتی سے متعلق مسائل کوطاقت کے بے مہابا استعمال کے ذریعے یک طرفہ طورپرحل کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اس معاملے میں جنوبی اسرائیل کی جانب حماس کے راکٹ حملوں کا حل یہ نکالا گیا کہ حماس کے خلاف جنگ مسلط کردی جائے۔اسرائیلیوں نے اس ضمن میں وسیع ترانسانی پہلو کو ملحوظ نہیں رکھا کہ ایک گنجان آباد غزہ میں حماس کے خلاف ایک مکمل جنگ کا لازمی نتیجہ شہری آبادی کے خلاف ایک حملہ ہی متصور ہوگا۔

اسرائیل کی اگر اپنی ہی شرائط کی بات کی جائے تو اس کی یہ مہم ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔اسرائیلی حکام اب اس بات پر اصرار کرسکتے ہیں کہ انھوں نے حماس کی راکٹ حملوں کی صلاحیت کو محدود کردیا ہے لیکن اس جنگ کا بظاہر مقصد تو یہ بتایا گیا تھا کہ حماس کی راکٹ داغنے کی صلاحیت کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا جائے گا۔

اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کی اس جنگی مہم جوئی نے بہت سے عرب دارالحکومتوں میں حماس کے لیے ناکافی حمایت کو بھی بے نقاب کردیاہے۔غزہ میں حماس کی پوزیشن کو نقصان پہنچایا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلاامتیاز [اسرائیل کی]سفاکانہ فوجی جارحیت نے حماس کے اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمتی حیثیت کو ایک اہم اور ترجیحی کردار کے طور پر اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔

’’نیز اسرائیلی فورسز نے جس طرح فلسطینی شہریوں کے زندگیوں کے بارے غیرمعمولی بے رحمی کا مظاہرہ کیا ہے،ان کے خلاف فوجی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے اور اس کے خلاف جو عالمی ردعمل آیا ہے.... جیسا کہ اخبار آبزرور نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی فردِجُرم عاید کی جاسکتی ہے۔جنگی جرائم کے ایسے تمام الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے‘‘۔

۲۰۰۹ء میں اخبار گارڈین کے اس اداریے کو مئی ۲۰۲۱ء میں پڑھیں تو یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے اور ظلم اسی طرح وحشت بار ہے!

ہم اکثر نکاح کا خطبہ سنتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس خطبے میں کیا کہا جارہا ہے؟ خطبۂ نکاح میں حمد وصلوٰۃ کے بعد قرآن کریم کے جن تین مقامات سے تلاوت کی جاتی ہے  ان تینوں میں حیرت انگیز طور پر نکاح کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے، بلکہ تینوں جگہ ایک ہی مضمون پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے ’تقویٰ‘۔ تقویٰ اور پرہیزگاری ایک ایسا مؤثر عنوان ہے جس کے تحت بہت سے مسائل خود حل ہوجاتے ہیں۔

اللہ ربّ ا لعزت نے خطبۂ نکاح میں تقویٰ و پر ہیزگاری کا حکم ارشاد فرما کر اس جانب توجہ دلائی ہے کہ میاں بیوی ایک خوش گوار ازدواجی زندگی اور ایک پُرسکون گھر اس وقت بنا سکیں گے جب دونوں ’تقویٰ و پرہیزگاری‘ کے زیور سے آراستہ ہوں۔ ان دونوں کو اپنے ہر عمل کی جواب دہی کی فکر لاحق ہو۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس وہ واحد پیمانہ ہے جس سے سچائی اور امانت کا احساس جاگزیں رہتا ہے۔

اگر یہ احساس نہ رہے تو دنیا کی کوئی عدالت، کمیونٹی، انجمن، سربراہی یا خاندان ان دونوں کو جوڑ نہیں سکتے۔ چونکہ یہ ایسا گہرا تعلق ہے جس سے بڑھ کر قریب تر کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کے ہررشتے میں سوتیلے پن کی گنجایش ہے لیکن اس میں نہیں۔ دنیا میں شاید کوئی تعلق مصنوعی پن یا جھوٹ کے سہارے چل سکتا ہو لیکن یہ تعلق بھرپور احساسات وجذبات کے بغیر ایک مُردہ جسم کی مانند بن جاتا ہے۔

  • گھر کا سکون:یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس دنیا میں سب سے پہلے ’میاں بیوی‘ کے تعلق سے انسانی عالم کی ابتداء فرمائی ۔اس تعلق کے مقاصد اور پختگی کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟ اس حوالے سے اللہ رب العزت کلام پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:

وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۝۰ۭ (الروم۳۰:۲۱) اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔

اللہ رب العزت نے میاں بیوی کے تعلق کو سکون کے خزانے کی چابی قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ سکون کا اصل مرکز انسان کا اپنا گھر ہونا چاہیے جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کا چہرہ دیکھ کر سکون پاسکے لیکن اگر گھر میں سکون کی فضا نہ رہے اور گھر اینٹ پتھر اور فقط نقش ونگار کی آرایش سے مزین ہو تو وہ گھر گھر نہیں بلکہ ’ڈپریشن کا مرکز‘ بن جاتا ہے۔ پھر ہرکوئی ہوٹل ، کلب ، دوست یار، تفریح اور دیگر مصنوعی سرگرمیوں کے نام سے سکون کی تلاش میں فرار ہونے کی ناکام کوشش کرتا ہے ۔ کیونکہ جس کسی کو اپنے گھر میں سکون نہیں مل سکتا تو دنیا کے کسی کونے میں بھی وہ پُرسکون نہیں رہ سکتا۔

گھر کا یہ سکون کس طرح بحال ہوجائے؟ اس حوالے سے چند امور پیش نظر رکھنا لازمی ہے۔ ان میں سے کچھ کا تعلق مرد کی ذمہ داریوں سے ہے اور کچھ کا تعلق عورت کی ذمہ داریوں سے۔

  • زوجین کا رشتہ قرآن کی روشنی میں: اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ  لِبَاسٌ لَّھُنَّ  ط  (البقرہ۲:۱۸۷ ) وہ تمھارے لیے لباس کی مانند ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو۔

اللہ ربّ العزت نے اس تعلق کو ایک انتہائی بلیغ تشبیہہ دے کر بات کو سمجھایا ہے کہ میاں بیوی فقط رسمی تعلق کا نام نہیں بلکہ لباس سے تشبیہ دے کر سمجھایا ہے۔ لباس انسانی بدن کے لیے کئی اعتبار سے اہم ہے، مثلاً ستر، عزت، تحفظ، زینت، صحت، تہذیب وغیرہ۔ جس طرح لباس ہماری سترپوشی کا ذریعہ ہے، یہ رشتہ بھی ہمارے عیوب کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس کی زینت عزت بخشتی ہے، ایسے ہی یہ رشتہ عزت افزائی کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس ہمیں سردی گرمی سے محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح لباس بھی ہمارے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ ان کی عزت و ذلت، احترام اور مقام و مرتبہ، ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔    ان دونوں میں ہر ایک کے ذمّے ہے کہ وہ اپنے رشتے کو حادثات اور آفات سے بچا بچا کر رکھے۔

لباس سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے لباس پر اگر راہ چلتے کوئی کیچڑ ،گندگی یا داغ لگ جائے تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اسے پھینکنے، پھاڑنے یا اس حصے کو کاٹنے کی بجائے بہت خیال کے ساتھ فوری طور پر صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ  میاں بیوی کے تعلق کا ہے کہ انسانی فطرت کے سبب اگر کوئی اَن بن ، جھگڑا، اختلاف یا ناراضگی ہوجائے تو ان کو اپنے گھر کا خیال رکھتے ہوئے اس اختلاف کو فوری سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

درحقیقت یہ رشتہ ذمہ داریوں کی تقسیم کا معاملہ ہے ۔ اس میں کسی ایک کو مکمل قصور وار ٹھیرانا حماقت ہے ۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور انسان کا نام ہی نسیان سے ماخوذ ہے ۔ جس کا مطلب اس کی فطرت میں بھلکڑ پن اور غلطیاں کرنا شامل ہے۔ لہٰذا جس طرح شوہر ایک انسان ہے اسی طرح بیوی بھی ایک انسان ہے اور انسان ہونے کے ناطے دونوں کو اپنی کارکردگی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ اور فقہ اسلامی کے ماہر فقہا نے دونوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

شکایات کا حل: اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر جوڑا شکایات کی ایک طویل فہرست ذہن میں لیے پھرتا ہے اور جہاں کہیں موقع ملتا ہے شکایات سنانا شروع کردیتا ہے۔ جس میں رشتہ ٹھیک جگہ نہ ہونا، خدمت میں کوتاہی، جھگڑا ، گالم گلوچ، مارپیٹ ، طعنے، رہایش، والدین، گھر والے، غرض ہر طرح کی شکایتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ان تمام کے بعد ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اتنی خرابیاں سامنے آجانے کے بعد آپ کس صورتِ حال تک پہنچتے ہیں؟ آیا آپ نے ان خرابیوں کی وجہ سے یہ رشتہ ختم کرنا ہے ؟ اگر ہاں تو شریعت نے ہر دو کو یہ موقع دیا ہے تاکہ کوئی انسان فضول میں اپنی مختصر زندگی کا سکون غارت نہ کرے بلکہ خلع یا طلاق کے اختیارات استعمال کرکے علیحدہ ہوجائے اور اپنی نئی زندگی شروع کرے۔

لیکن حیرت انگیز طور پر اکثریت اس اختیار کو استعمال کرنے کا نہیں سوچتی بلکہ ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جوڑا ایک دوسرے کے ساتھ رہنے میں دل چسپی رکھتا ہے ۔ اب اس موقع پر یہ بات بہت اہم ہے کہ جب آپ نے ساتھ ہی رہنا ہے تو شکایات و اعتراضات کا بھاری بوجھ اٹھانے کے بجائے معاملات کو حل کرنے والی گفتگو کی طرف آئیں۔ آپ اعتراض نہ کریں بلکہ سوال کریں کہ میرا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ میں کیسے اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکوںگی؟ میں کیسے اپنی بیوی کے ساتھ پرسکون رہ سکوںگا؟ لہٰذا یہ پہلو واضح ہوا کہ وقت بے وقت، موقع بے موقع شکایتوں سے فقط غیبت ، حسد، بہتان ،گالم گلوچ، اور فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بلکہ قوت ِ فیصلہ کو استعمال میں لاتے ہوئے مسائل کے حل کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔

 بیوی کی ذمہ داریاں

سب سے پہلے ان امور کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن کا تعلق بیوی سے ہے:

  • عورت اور امور خانہ داری: بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کی تربیت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اپنے گھر کو جنت بنانے میں صرف کرے۔ ایک خاتون کو اپنے گھر کو جنت بنانے کے لیے کسی بڑے ساز وسامان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فقروفاقہ کی عین چوٹیوں میں رہ کر بھی یہ سب ممکن ہے۔

اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بیوی خاتون خانہ بنے شمعِ محفل نہ بنے ، لیکن آج یہ بات سمجھنا ذرا مشکل ہوگیا ہے ۔ کیونکہ لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیش پیش ہیں اور ڈاکٹر، انجینئر، افسر لڑکیاں عام نظر آتی ہیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لڑکی سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ  آپ اپنے گھر پر زیادہ توجہ دیں تو ان کو یہ مشورہ دینے والا تنگ نظر دکھائی دیتا ہے۔

لڑکیاں تعلیم ضرور حاصل کریں اور ایسے شعبوں میں جہاں خواتین ماہرین کی ضرورت ہے وہاں اپنی خدمات پیش کریں لیکن وہ ایک استثنائی صورت ہے۔ عام حالات میں میاں بیوی دونوں اپنی معاشی مصروفیات کے سبب اپنے گھر اور بچوں کا ٹھیک خیال نہیں رکھ پاتے اور ایک ماسی رکھ کر کام چلایا جاتا ہے جس کے اپنے ہاتھ کے کھانوں میں نہ خلوص کا جذبہ ہے نہ اس کی تربیت ہی میں ماں کی ممتا ہے بلکہ وہ تو ایک ملازمہ ہے۔

گھر داری بظاہر ایک معمولی سا عنوان ہے لیکن درحقیقت یہ ایک طویل جدوجہد کا نام ہے جس کے اثرات نسلوں تک جا پہنچتے ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک خاتون نے ایک عالم دین سے پوچھا کہ جتنے بھی انبیا ؑ آئے ہیں سب مرد ہیں۔ اللہ نے عورتوں کو نبی بناکر کیوں نہیں بھیجا؟ جواب میں عرض کیا کہ عورتیں نبی بن کر نہیں آئیں لیکن انبیا ؑ کو جنم دینے کا سہرا انہی خواتین کے سر ہے۔

  • خواتین کے لیے نبوی ؐ لائحہ عمل:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بیویوں کو مختصر مگر ایک جامع نصاب کی طرح ان کی ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں، فرمایا:

المرأۃُ اِذَا صلّٰتِ خَمْسَھَا وَصَامَتْ شَھْرَھَا وَحَفِظَتْ فَرْجَھَا وَاَطَاعَتْ بَعْلَھَا فَلْتَدْخُل مِنْ اَیِّ اَبْوَابِ الجنَّۃِ  شَاءَتْ (المعجم الأوسط للطبرانی ، باب العین، حدیث: ۸۹۷۷) ایک بیوی جب پنج وقتہ نماز کی پابندی کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عزّت وعصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی خدمت کرے تو اس کو اجازت ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ۔

اس حدیث میں آپؐ خواتین کی ذمہ داریاں بتارہے ہیں:۱- فرض نماز کی ادائیگی ۲-فرض روزوں کی ادائیگی ۳- عزت وعصمت کی حفاظت کرنا ۴- شوہر کی خدمت کرنا۔

       اس حدیث میں آپؐ خواتین کو ایک بہت بڑی بشارت سنارہے ہیں کہ جنت کے تمام دروازے ان کے لیے کھل جائیں گے لیکن بدلے میں مطالبہ کسی لمبی چوڑی عبادت کا نہیں کیا جارہا ہے بلکہ فقط فرائض کی ادائیگی جس میں نماز اور روزے کی فرض عبادتیں اور اپنی عصمت کی حفاظت جس میں پردہ خاص طور پر شامل ہے اور آخری اہم بات اپنے شوہر کی خدمت ہے۔ شوہر کی خدمت میں وہ تمام کام آجاتے ہیں جو ایک بیوی اپنے گھر میں انجام دیتی ہے جس میں بچوں کی پیدایش، ان کی تربیت ، باورچی خانے کا انتظام، صفائی کا انتظام وغیرہ شامل ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ جن کاموں کو خواتین خالص دنیوی یا رسمی کام سمجھتی ہیں اور ایک معمول یا عادت یا بعض اوقات مجبوری کے تحت کرتی ہیں، اس خالص دنیوی عمل کو ’دینِ اسلام‘ ایک عظیم عبادت قرار دے کر اس کے بدلے میں اتنی بڑی بشارت سنارہا ہے۔ اللہ اکبر!

اس ضمن میں ایک اہم کام خواتین کے ذمے یہ ہے کہ وہ ’شکر‘کا اہتمام کریں۔ اللہ نے ان کو بڑی قربانیاں دینے والی فطرت دی ہے ۔ لہٰذا قربانی دینے کے بعد یا خدمت میں کھپ جانے کے بعد بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے ثواب کو بچاتے ہوئے اپنے ذہن اور اپنی زبان کو شکایات پر نہ لگائیں بلکہ اللہ نے جو بھی دیا ہے اسے غنیمت جان کر اپنے گھر کو خوش حال اور پُرسکون رکھیں ورنہ وقت بے وقت کی شکایتی راگنی ایک ایسی چنگاری ہے جو پورے گھر کو آگ لگاسکتی ہے ۔

مردوں کی ذمہ داریاں

اب ہم مزید کچھ گزارشات مردوں کے حوالے سے ذکر کریں گے:

  • مزاج شناسی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے حقوق سے متعلق جو ہدایات ہیں ان میں ایک مجموعی طرز فکر یہ ہے کہ خواتین کا مزاج سمجھا جائے اور ان سے اسی مزاج کے موافق توقعات رکھی جائیں۔ خواتین کے حوالے سے تین باتوں کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔   اس سے اندازہ ہوگا کہ خواتین کس مزاج کی حامل ہیں:۱- تحفظ،۲- عزت ۳-حوصلہ افزائی۔

بیوی اپنے شوہر سے بھرپور امید اور توقع رکھتی ہے کہ میری اور میرے بچوں کی مکمل ذمہ داری میرا شوہر ادا کرے گا اور وہ رہائش ، خرچ اور ضروریات کی فکر میں لگے بغیر اپنے گھر کو سنبھالتی ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ کھٹکارہتا ہے کہ میرا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں سوائے میرے شوہر کے، تبھی وہ اپنے شوہر سے بے پناہ توقع رکھتی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ سوتن سے ڈرتی ہے کیونکہ اسے یہ خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے تحفظ میں رکاوٹ کا ذریعہ بن جائے گی۔ اسی لیے شوہر اس بات کا خاص خیال رکھے کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو شوق سے کرے اور عدل کا خیال رکھے لیکن دوسری شادی کی مصنوعی دھمکیاں نہ دے۔ اس سے نقصان کا اندیشہ ہے ۔

بیوی عزت چاہتی ہے۔ اپنی، اپنے بچوں کی، اپنے والدین وغیرہ کی اسے عزت نہ ملے تو وہ خود کو ایک ملازمہ تصور کرتی ہے اور اسے عزت مل جائے تو جان کھپا کر بھی فخر کے جذبات رکھتی ہے۔

بیوی کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے بلکہ علما فرماتے ہیں کہ عورت چاہے کسی بھی روپ میں ہو ماں، بہن ، بیٹی، یا بیوی اسے حوصلہ افزائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اس کی فطری چاہت ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا اور اگر اسے جائز طریقے سے حوصلہ افزا جملے سننے کو نہ ملیں تو وہ بعض اوقات ناجائز حوصلہ افزائی کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اس کی سلیقہ شعاری، صفائی، کھانااور خوب صورتی و خوب سیرتی کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔

  • گھر کا  ماحول:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارک ہے، فرمایا:

خَــیْرُکُـمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ  وَاَنَـا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ، تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب میں سب سے زیادہ اچھا ہوں۔(ترمذی، ابواب المناقب عن رسول اللہ ، باب فی فضل اَزواج النبیؐ، حدیث: ۳۹۱۰)

فرمایا کہ گھر میں تندخو، سخت مزاج یا آمر بن کر نہ رہو بلکہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، اور کوئی اگر باہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو لیکن گھر میں برا ہے تو وہ برا ہے۔

گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھیئے اور اس نیت سے رکھیے کہ یہ بھی عبادت کا حصہ ہے اور مجھے اس حسن سلوک پر نیکیاں مل رہی ہیں۔

  • اہلِ خانہ کی تربیت: اس بات کا بہت افسوس ہے کہ مرد حضرات اپنے گھر میں اچھا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس اچھے ماحول کی آبیاری کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے، حالانکہ وہ اپنی کوشش سے ایک نہایت خوب صورت ماحول تشکیل دے سکتے ہیں۔

وہ اپنے گھر والوں سے کپڑے ، کھانا، صفائی اور آرام کا مطالبہ کرتا ہے لیکن نماز کے متعلق نہیں پوچھتا ۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے متعلق نہیں پوچھتا ۔ شاپنگ کے لیے لے جاتا ہے لیکن کسی نیکی کی مجلس میں نہیں لے جاتا۔ حالانکہ اگر سب گھر والے روزانہ صرف ۱۰منٹ بھی ایک اجتماعی ماحول قائم کریں، کوئی دینی کتاب کا مطالعہ کرلیں تو اس سے حیرت انگیز فوائد دیکھنے کو ملیں گے، ان شاء اللہ۔

  • ایک اہم معاملہ: ایک اہم مگر ضروری کام مرد کے ذمے یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھل کر بات کرسکے اور بیوی کو کھل کر بات کرنے کا حق دے۔ اس کے اظہار بیان پر کوئی بھی پابندی نہ ہو۔ یہاں تک کہ زوجین آپس میں اس معاہدے پر عمل کریں کہ ہمارے بیچ کوئی بھی مسئلہ ہوگا ہم دیگر افراد کو بیچ میں لائے بغیر بلاتردّد اس کو ایک دوسرے سے بیان کرکے حل کریں گے ۔

عین ممکن ہے کہ مرد کو اپنی ماں ، بہن کے متعلق بہت سی تلخ باتیں سننے کو ملیں۔ وہ یہ سب یہ سوچ کر سنے کہ اس کے ذمے خدمت، رضاعت ، حمل ، تربیت کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں اور یہ ان سب کے باوجود طعن و تشنیع کے تیر بھی کھاتی رہتی ہے، لہٰذا اس وقت میں اگر اس کے دکھ درد (اگر چہ نہ ہوں) کی نہ سنوں تو اور کون سنے گا۔

لیکن احتیاط لازم ہے کہ فقط سنے اور سنتا جائے، لیکن اس شنوائی پر کوئی بھی رد عمل کا اظہار نہ کرے ورنہ اپنی بیوی بچوں کی فکر میں وہ حدِّاعتدال سے نکل کر والدین اور بہنوں، بھائیوں کے حقوق غصب کرے گا۔ٹھیک اسی طرح اپنی والدہ محترمہ کے پاس جائے تو وہاں بھی اہلیہ کے متعلق فقط سننے پر اکتفاء کرے ، اگر رد عمل کا اظہار کرے گا تو اپنے گھر سمیت خود بھی ٹوٹ جائے گا۔

خواتین اور مردوں کے مزاج کا فرق

 ایک اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اپنی بیوی کا مزاج سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے خواتین کے لیے ایک مقام پر ’غافلات‘ کا صیغہ ذکر کیا ہے، جب کہ مردوں میں غفلت کا مطلب لاپروائی یا اپنی ذمہ داریوں کو پورانہ کرنے والے کو ’غافل ‘کہا جاتا ہے۔ لیکن جن معنوں میں ’غافلات‘ عورتوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے اس کا معنی ہے بھولی بھالی یا ایسی عورت جو حد درجہ ہوشیاری نہ جانتی ہو بلکہ سیدھی سادی اور انتہائی مخلص مزاج ہو۔ جسے ہر بات کی فلسفیانہ وجوہات اور تہہ میں جاکر سمجھنا نہ آتا ہو۔ اندازہ لگائیں کہ اس عورت سے جب مرد باربار یہ شکایات کرتا ہے کہ تم بات نہیں سمجھتی ؟ تمھیں عقل نہیں ہے؟ تم ایک ہی بات بار بار کیوں کہتی ہو؟ تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو؟ یہ سارے وہ جملے ہیں جن میں مرد اپنی بیوی سے دانش مندی کی انتہا درجہ توقعات رکھتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس نہج پر نہیں بنایا۔ البتہ کچھ خواتین واقعی علم وعقل اور شعور و دانش کی اعلیٰ سطح پر قائم رہتی ہیں لیکن وہ ایک استثنائی صورتِ حال ہے ۔

آپؐ اپنی ازواج مطہرات کے کس قدر مزاج شناس تھے اس حوالے سے آپؐ  حضرت عائشہ ؓ سے ایک مرتبہ فرماتے ہیں کہ ’’عائشہؓ! جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتا چل جاتا ہے۔پوچھا: کیسے؟ ‘‘

آپؐ فرماتے ہیں: ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو وربِّ محمد (محمدؐ کے رب کی قسم) اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: وربِّ ابراہیم (ابراہیم کے رب کی قسم)‘‘۔

اور جواب میں اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: مَا اَھْجُرُ اِلَّا  اِسْمَکَ ، (بخاری، کتاب النکاح، باب غیرۃ النساء، ووجدُھنّ، حدیث: ۴۹۳۴) ناراضی کے عین موقع پر بھی میں فقط آپؐ کا نام چھوڑتی ہوں باقی دل میں برابر آپؐ کی محبت برقرار رہتی ہے ۔

ان گزارشات پر بالخصوص شادی سے پہلے نوجوان جوڑوں کوضرور غوروفکر کرلینا چاہیے۔

پاکستان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس [۱۱دسمبر ۲۰۱۳ء- ۵جولائی ۲۰۱۴ء] تصدق حسین جیلانی صاحب نے ۲۰۱۴ء میں اپنے فیصلے کے ذریعے، ۹۶ فی صد مسلمانوں کی راہوں میں جوکانٹے بوئے ہیں وہ آنے والی نسلوں کو اپنی پلکوں سے چننا پڑیں گے۔ مذکورہ فیصلے میں یک طرفہ منظرکشی کی گئی تھی، حقائق سے اس کا معمولی سا تعلق نہیں ہے۔چیف جسٹس جیلانی صاحب اگر اَزخودنوٹس کےتمام فریقوں کو توجہ سے سن لیتے تو آج سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد صاحب کو وہ مشکلات نہ دیکھناپڑتیں،جو ملک بھرمیں نظرآرہی ہیں۔

  • فیصلے کے اہم نکات :جسٹس جیلانی کے اس فیصلے کے ایک ہی فریق کی استدعا کا مختصر بیان یہ ہے: سائلان میں ہندو، مسیحی اور سکھ کی طرف سے ایک مخصوص این جی او کے نمایندے، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل،یا ان کے نمایندے شامل تھے۔ مسلمانوں کے کسی نمایندے کی موجودگی اور موقف کا ذکر فیصلےمیں نہیں ملتا۔ قضیے کا آغاز پشاور میں مسیحی چرچ پر حملےسے ہوا۔ ’جسٹس ہیلپ لائن‘ نامی این جی او نے چیف جسٹس سے اَزخود نوٹس کی اپیل کی، اور انھوں نے یہ نوٹس لیا۔ کچھ ہندو درخواستوں کو بھی شامل کیاگیا کہ ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ دیا جائے۔ روزنامہ ڈان کےاداریے کی بنیاد پر کیلاش کا ذکر ہوا کہ انھیں مذہب بدلنے پر مجبورکیاجارہا ہے۔ ہندوشادیوں کی رجسٹریشن اور اقلیتی شہریوں کے لیے ملازمتوں میںکوٹے کا ذکر بھی آیا۔

چند اُمور تو انتظامیہ کی وضاحت پر نمٹا دیئے گئے۔ اس اَزخود نوٹس میں نہ تو نصابِ تعلیم کا ذکر تھا، اور نہ محکمہ تعلیم کی طرف سے کوئی نمایندہ پیش ہوا۔ تاہم، یہ امر باعث ِتعجب ہے کہ فیصلے میں جسٹس جیلانی اقلیتی آبادیوں یامسلمانوں سے انصاف کرنے کےبجائے این جی او اور ان کے نمایندوں کے رضاکار وکیل کاکردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا لازم ہے کہ فیصلے کے بنیادی نکات کو دیکھا جائے:

  • اقلیتی عبادت گاہوں کا تحفظ: محترم جسٹس جیلانی صاحب اس سلسلے میں اتنا آگے نکل گئے کہ ’تعزیراتِ پاکستان‘ (پی پی سی) کے سیکشن ۲۹۵- بی یا ۲۹۵-سی کو تو رکھیے    ایک طرف، انگریزی عہد کے سیکشن ۲۹۵ پر بھی انھیں اطمینان نہیں تھا۔ جسٹس صاحب فرماتے ہیں: ’’عدالت کو حیرانی ہوئی جب فاضل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ اقلیتی عبادت گاہوں کی بے حُرمتی ’تعزیراتِ پاکستان‘ کے تحت نہ تو بے حُرمتی ہے اور نہ جرم۔جب دفعہ ۲۹۵ کے بارے میں موصوف سے پوچھا گیا تو ان کے پاس یہ کہنے کے سوا کچھ نہ تھا کہ عبادت گاہوں کی بے حُرمتی چاہے غیرمسلموں کی کیوں نہ ہو، جرم ہے‘‘۔ اور آگے چل کر اسی بنیاد پر حکم نامہ ملاحظہ ہو: ’’ایک مخصوص پولیس فورس تشکیل دی جائے، جسے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی پیشہ ورانہ تربیت دی گئی ہو‘‘۔

یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ پولیس فورس قائم کرنا وفاق کی ذمے داری ہے یا صوبوں کی؟ اور سیکشن ۲۹۵ میں کیا خرابی ہے جو بلاتفریق مذہب تمام عبادت گاہوں کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے۔ کیا چیف جسٹس جیلانی صاحب کو وہ سیکڑوں مساجد نظر نہیں آئیں، جو اس ’جنگ‘ میں برباد ہوئیں؟ ان کے لیے کیوں نہ ایک الگ فورس بنائی جائے؟ مبینہ طور پر خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے واقعات کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ اس کے لیے الگ فورس کیوں نہ بنائی جائے؟ ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج میںذرا سی غفلت ہوجائے تو لواحقین ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف کو پیٹنا شروع کردیتے ہیں تو ہسپتالوں میں میڈیکل خدمات انجام دینے والے اس عملے کے تحفظ کے لیے کیوں الگ فورس نہ بنائی جائے؟ یہاں تمام عبادت گاہوں کے لیے عدالت کا اتنا حکم کافی تھا کہ صوبے اس پرگہری نظررکھیں۔ لیکن سماجی اُمور کو نظرانداز کرکے جسٹس جیلانی عدالتی حدود سے نکل کر انتظامی حدود میں داخل ہوگئے۔

  • دلائل بحق اقلییات پر نظر: عدم برداشت، نفرت، معاشرتی تقسیم اور تشدد پر جسٹس جیلانی صاحب نے اخبار ڈان کے اس چھوٹے سے سروے سے نتائج اخذ کیے، جس کے شرکا ۶۰۰ کے لگ بھگ تھے۔ کسی یونی ورسٹی میں بی ایس کا طالب علم بھی متعین اہداف والے ایسے اخباری سروے سے نتائج اخذ کرےتو استاد اس کی رپورٹ، ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ متعین اہداف والے ادارےاور این جی او ذہن سازی کے لیے ایسے سروے کرتے ہیں، جن کی نہ کوئی علمی افادیت ہوتی ہے اور نہ انھیں کسی سنجیدہ فورم پر پیش کیا جاتا ہے۔ ادھر جسٹس جیلانی صاحب ۶۰۰ افرادکے سروے کو ۲۲کروڑ پر نافذ کر گزرے(یاد رہے، ہم رائے عامہ معلوم کرنے کے مسلّمہ اداروں کی خدمات اور سائنٹی فک طریق کار کی نفی نہیں کر رہے)۔
  • آئین ، قانون اور قرارداد کی قوت: حکومتوں کو احکام جاری کرتے وقت جسٹس جیلانی صاحب نے جن دلائل کا سہارا لیا، ان میں سے ایک اقوام متحدہ کی قرارداد مجریہ۱۹۶۶ہے:’’ہرکسی کو فکر،ادراک اور مذہب کی آزادی ہے… اپنے مذہب یا عقیدے کی پیروی کرنے، مشاہدے، عمل اور فروغ دینے اور اس کی تعلیمات عام کرنے کی آزادی ہے‘‘۔ پھر جج صاحب ۱۹۸۱ء کی اقوام متحدہ کی ایک اور قرارداد سے روشنی لیتے ہیں۔ معمولی سا فہم رکھنے والا فرد بھی اتنا کم فہم نہیں ہے کہ وہ آئین، قانون اور قرارداد میں فرق نہ کرسکے۔
  • موجودہ نصاب پر اقلیتی آراء : یہ بات بالکل عیاں ہے کہ نصاب میں موجود اسلامی تعلیمات اقلیتوں کو نہ صرف قبول ہیں بلکہ وہ اس حق میں ہیں کہ نصاب اسی طرح برقرار رہنا چاہیے۔ اس دعوے کی بنیاد اقلیتوں کےنمایندہ ادارے ’پاکستان مائنارٹی کمیشن‘ کے چیئرمین جناب چیلا رام کا وہ بیان ہے، جس میں انھوں نے صاف الفاظ میں ’سڈل کمیشن‘ کی سفارشات مسترد کردیں۔ اقلیتوں کی نمایندگی کرتے ہوئے، سپریم کورٹ میں کھڑے ہوکر انھوں نے کہا کہ ’’موجودہ نصابِ تعلیم بہت مناسب ہے اور ہمیں قبول ہے‘‘۔ 

جناب چیلارام کے بیان کے باوجود میرے دل میں یہ وہم تھا کہ سرکاری ادارے میں موجود اور حکومت سے قریب لوگ شاید کھل کر بات نہیں کرسکتے۔ یہ سوچ کر میں نے مذہبی اقلیتی برادری کے قدآور رہنمائوں سے رابطہ کرکے یہ سوال پوچھا:

وفاقی وزارتِ تعلیم کے نئے متفقہ نصاب کے مضامین اُردو ، مطالعہ پاکستان، تاریخ اور انگریزی میں نعت، حمد، اللہ ،رسولؐ، خلفائے راشدینؓ اور اسلامی تعلیمات پر مبنی نصاب پر کیا آپ کو بحیثیت اقلیتی رہنما کوئی اعتراض ہے ؟

 سوال کے جوابات جو حاصل ہوئے ،وہ من و عن آپ کی نذر ہیں:

۱- جناب ڈاکٹر سونو کھنگھارانی[۱]

ڈاکٹر کھنگھارانی صوبہ سندھ کےمعروف شہرمٹھی (ضلع تھرپارکر) میں مقیم ہیں اور ’پاکستان دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک‘ کے کنوینر ہیں۔ موصوف جنوبی ایشیا کے معروف ادارے ’ایشین دلت رائٹس فورم‘ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے پاکستان سے ممبر ہیں۔آپ ’انٹرنیشنل دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک‘ کے بورڈ میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے اس بورڈ کے ممبر ہیں۔ انھیں پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’نشانِ امتیاز‘ بھی مل چکا ہے۔ انھوں نے ہمارے سوال کا جامع جواب دیا (جو آپ ’یوٹیوب‘ پر سن سکتے ہیں)۔ یہاں ان کے جواب کا خلاصہ تین نکات میں پیش کر رہے ہیں، جنھیں دُہرا کرکے اُن سے تصدیق حاصل کی۔ ’سڈل کمیشن‘ کی سفارشات پر بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا: ’’یہ[سفارشات] تعصب پر مبنی ہیں‘‘۔  ان کا جواب ملاحظہ ہو:

       ۱-    پاکستان مسلمانوں نے بنایا تھا، لہٰذا اس کی ۹۷ فی صدآبادی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق اپنا نظامِ تعلیم مرتب کرے۔ ہم غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ غیرمسلم اقلیتوں کے لیے نفرت انگیز مواد نہیں ہونا چاہیے۔

       ۲-    تقسیم ہند کے بعد اقلیتوں کو یہ اختیار مل گیا تھا کہ وہ پاکستان میں رہیں یا ہندستان میں، کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر مسلمانوں نے بنا یاتھا۔ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں لوگ ہندستان ہجرت کرگئے۔ اب یہاں رہ جانے والے غیرمسلم یہ حقیقت قبول کرکے یہاں مقیم ہیں کہ ہم نے اکثریتی آبادی کے ساتھ رہنا ہے اور اکثریتی آبادی کو ملکی نظام اپنی خواہشات پر ترتیب دینے کا حق حاصل ہے۔ ہمیں اور لاکھوں افراد پر مشتمل ہماری اقلیتی آبادی کو اس نصاب پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

       ۳-    ہم تو ویسے بھی مسلمانوں کی طرح اپنے مُردےدفناتے ہیں۔ اللہ، رسول، ان شاء اللہ، اللہ حافظ اور ایسے متعدد الفاظ ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ اسلام، اسلامی تعلیمات اور تاریخ اسلام کا مطالعہ ہماری اپنی ضرورت ہے۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، اس ملک کا نظام اگر ہماری اولادیں نہیں جانیں گی تو مسلمانوں کو سمجھیں گی کیسے؟ سائیں! اپنے بچوں کو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ملازمتوں کے لیے بھیجنے سے پہلے ہم خود انھیں اسلام اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں تاکہ دوسرے ملک میں انھیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اسلامی تعلیمات سےآگاہی خود ہماری اپنی ضرورت ہے۔ موجودہ نصاب سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

۲- جناب گنپت رائے بھیل[۲]

 ڈاکٹرکھنگھارانی ۳۰لاکھ شیڈولڈ کاسٹ آبادی کے سیاسی رہنما اور دانشور ہیں۔ سیاسی رہنما کا زاویۂ نگاہ یقینا عوامی اُمنگوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ لیکن اس رہنمائی کو اگر تعلیم و تعلّم کا پیوند لگ جائے تو اس میں بہت وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے جس اگلے اقلیتی رہنما سے رابطہ کیا،  وہ جناب گنپت رائے بھیل تھے۔ موصوف اپنے زمانۂ طالب علمی میں میجر خورشیدقائم خانی سے متاثر ہوئے، جنھوں نے فوج سے مستعفی ہوکر اپنی زندگی دلت برادری کے لیے وقف کردی تھی۔ میجر صاحب نے ایک سندھی جریدہ دلت ادب جاری کیا تو گنپت رائے ان کے نائب مدیر رہے۔ ان کی وفا ت کے بعد رائے صاحب  مدیر ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں اور مٹھی میں پڑھاتے ہیں۔ بھارتی دستور کے آرکیٹکٹ ڈاکٹر امبیدکر کی سوانح عمری ڈاکٹر امبیدکر کی زندگی کی جدوجہد از سعید شاہ غازی الدین کا آپ نے سندھی میں ترجمہ کیا اور ۲۰۱۳ء کے بعد سات برس تک سندھی جریدے سندھ ایکسپریس میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔

نصابِ تعلیم کے حوالے سے انھوں نے تفصیل سے جواب دیا جس میں دیگر اُمور بھی تھے۔ البتہ نصاب کی نسبت سے تو انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم ۳۰ لاکھ غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اُردو، تاریخ، مطالعہ پاکستان، انگریزی کسی بھی مضمون میں اسلام اور اسلامی تاریخ کا نصاب میں ہوناضروری ہے۔ ان کی گفتگو بھی تین نکات کا احاطہ کرتی تھی:

       ۱-    ۹۶/۹۷ فی صد آبادی کے اس مسلمان ملک میں اسلام کسی بھی شکل میں پڑھایا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

       ۲-    [گنپت صاحب کو شکوہ تھا کہ] شیڈولڈ کاسٹ برادری کے رہنما اور شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن کے صدر جوگندر ناتھ منڈل نے کانگرس کی ہندو قیادت کو چھوڑ کر اپنے ۲۱ساتھیوں اور چارسرکردہ اینگلوانڈین کے ہمراہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریک پاکستان میں شرکت کی تھی، لیکن تاریخ میں صرف مسلم لیگ کابیانیہ پڑھایا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہمارے ان رہنمائوں کا ذکر بھی نصابی کتب میں کیا جائے کہ انھوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔

       ۳-    اُردو، انگریزی، تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے نصاب میں اگر اللہ، رسول، نعت، حمد، اور تاریخ پاکستان آتے ہیں (جن سے غیرمسلم بچے ویسے بھی مستثنیٰ ہیں کہ وہ یہ چیزیں یاد کریں)تو اعلیٰ مسیحی [اور مشنری] تعلیمی اداروں میں کیا مسلمان بچے مسیحی مناجات اور مسیحی دُعائیہ کلمات میں شریک نہیں ہوتے؟دُور نہیں کراچی کے سینٹ پیٹرسن میں دیکھ لیں، میری بات کی تصدیق ہوجائے گی۔

۳- محترمہ رتنا کماری[۳] ، بیوہ جسٹس رانا بھگوان داس

مذکورہ بالا دونوں غیرمسلم رہنما محروم وسائل اور پسماندہ، لیکن اکثریتی ’دلت‘ طبقےسے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندومت کے ذات پات کے نظام میں یہ طبقہ کم ترین کہلاتا ہے۔ پاکستان میں یہ مذہبی اقلیت ہی ہندو اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کا نقطۂ نظر سامنے آنے پر مناسب سمجھاگیا کہ اعلیٰ برہمن اقلیتی ہندو کا نقطۂ نظر بھی سامنے آجائے۔ اعلیٰ ذات کے جس برہمن کا نام ذہن میں آیا، وہ پاکستان سپریم کورٹ کے سابق قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس (م:۲۰۱۵ء)تھے۔ کچھ عرصہ قبل کسی اور حوالے سے ان کی بیوہ سے فون پر میری بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ اعلیٰ برہمن برادری سے وابستہ ایک گھریلو پردہ دارخاتون ہیں۔ انھوں نے اپنی طرف سے بات کرنے کا اختیار اپنےبھائی جناب سبھاش چندرکو دیا تھا۔

 سبھاش چندر صاحب مکینیکل انجینئر ہیں اور پاک پی ڈبلیو ڈی میں اعلیٰ عہدےپر فائز رہ کر ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کے زیرمطالعہ مذہبی کتب اُردو، سندھی یا انگریزی میں نہیں بلکہ ہندی رسم الخط میںہی ہیں۔ اس بات سے ان کی فعال مذہبی وابستگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ فون پر ان کے سامنے مذکورہ سوال رکھ کر یہ وضاحت کردی کہ ’’جواب میں جو موقف وہ اختیار کریں گے، اسے بیوہ جسٹس رانا بھگوان داس کا موقف بھی سمجھا جائے گا۔لہٰذا، آپ وہی جواب دیجیے جو محترمہ کے موقف کے قریب تر ہو۔اس وضاحت کے بعد سبھاش صاحب نے دونکاتی جواب دیا:

       ۱-    ماضی میں پورا برصغیر ایک بڑی اور تہذیب یافتہہند  ووحدت تھی۔ یہاں صرف مقامی لوگ تھے اور انتہائی امیراور مہذب تھے۔ ابتدائی طور پر گنوار حملہ آوروں نے برصغیر کی تہذیب کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ لیکن بعد میں آنےوالے حملہ آوروہ لوگ تھے، جنھوں نے تاج محل، قلعہ جات، باغات،مساجد وغیرہ بنا کر اس مقامی تہذیب میں مزیدنکھار پیدا کیا۔ یہ حملہ آور اب اس دھرتی کا حصہ بن گئے۔

       ۲-    [اس سوال کے جواب میں کہ ’’بعض لوگ تاریخ، مطالعہ پاکستان، اُردو، انگریزی وغیرہ میں اسلام کے تذکرے کی مخالفت کررہے ہیں…‘‘ انھوں نے پورا سوال سنے بغیر بات سمجھتے ہوئے زور دے کر کہا:]’’نہیں نہیں، یہ غلط بات ہے۔ حمد، نعت اور ایسی دیگر چیزیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ البتہ اوور ڈوز نہیں ہونا چاہیے جیسے ’کفار نے یوں کہا، یا ’کفار بُرے ہوتے ہیں‘‘۔

              [ہم نے وضاحت کی کہ ’یہ پرانے نصاب میں تھا، جسے نکال دیا گیا ہے‘۔ اور جب سوال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا کہ حمد،نعت وغیرہ یاد کرنے یا امتحان سے غیرمسلم طلبہ مستثنیٰ ہیں تو ان کا جواب تھا:] ’’کیوں مستثنیٰ ہیں؟ حمد، نعت میں کیا خرابی ہے؟جناب یہ مسلم اکثریت کا ملک ہے اور مسلمان جب اپنے بچوں کو یہ پڑھاتے ہیں تو ہمارے بچے بھی پڑھ لیتے ہیں۔ جسٹس رانا بھگوان داس اسلامیات میں ایم اے تھے۔ آج کے ہندستانی بنگال کی ہر دل عزیز وزیراعلیٰ ممتابنیرجی اسلامی تاریخ میں ایم اے ہیں۔ صاحب! ان لوگوں کا مسئلہ کیا ہے؟‘‘

  • سڈل صاحب کی کارکردگی: یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جسٹس جیلانی صاحب کے ۲۰۱۴ء کے فیصلے کی روشنی میں ۲۰۱۶ء میں قائم کردہ ’شعیب سڈل کمیشن‘ نےمعمولی رپورٹ پر تین سال کیوں لگائے؟ سقوطِ مشرقی پاکستان جیسے بڑے سانحے پر حمودالرحمٰن کمیشن نے تو محض دوسال دس ماہ میں رپورٹ پیش کر دی تھی۔ ادھر ہمارے ممدوح اور تعلیمی امور سے نابلد سابق اعلیٰ پولیس افسرنے اتنی مدت لگاکر ایک متنازعہ، غیرحقیقی، ادھوری اور متضاد رپورٹ پیش کی۔
  • بعض کالم نگاروں کا مخمصہ: متفقہ نصاب تعلیم سے اسلام کے اخراج کی وکالت کرنےوالے بیش تر کالم نویس بالعموم وہ لوگ ہیں، جن کی گزربسر غیرملکی این جی اوز کے ’وظائف‘ پر ہے، اور جو زعمِ باطل میں ہر موضوع پر لکھنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ تعلیم اور تعلیمی عمل کے بارے معمولی سی شُدبد نہ رکھنے کے باوجود فیصلہ کن انداز سے قوم پر رائے تھوپ رہے ہیں، اور کالم نویسی کے ذریعے تعلیمی گمراہی پھیلارہے ہیں۔ روزنامہ دُنیا میں سابق سفیر پاکستان جاوید حفیظ صاحب نے اسی طرح بھولپن میں کالم لکھا۔ میرے استفسار پر فرمایا کہ ’’نہ تو میں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے، نہ اس فیصلے سے متعلق حقائق کا علم ہے‘‘۔ حقائق کا علم ہونے پر وہ چپ سے ہو گئے۔ ان کا کہناتھا کہ ’’ایک انگریزی اخبار کی خبر پڑھ کر میں نے کالم لکھا ہے‘‘۔ اس بات سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ نسلوں کو بنانے بگاڑنے کا کام اخبار ات میںکس بے دردی سے کیا جاتا ہے۔

مذہبی اقلیتوں کے جن لوگوں کا ذکر سپریم کورٹ کے ۲۰۱۴ء کے فیصلے میں ہے، ان میں سے بیش تر کسی اقلیتی برادری کے نمایندے نہیں تھے۔ کون نہیں جانتا کہ پرویز مشرف کی ۱۷ویں آئینی ترمیم کے بعد اقلیتی آبادیوں کی حقیقی نمایندگی خواب بن کر رہ گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ساتھ قربت کی بنیاد پر لوگوں کو منتخب کرتی ہیں، اقلیتیں انھیں خود منتخب نہیں کرتیں۔ ان اقلیتوں کی حقیقی نمایندگی کسی اسمبلی میں نہیں ہے۔ یہی حال سپریم کورٹ میں پیش ہونے والے دیگر لوگوں کا ہے، جو ان کے مذہبی نمایندے تو ہیں لیکن حقیقی زندگی میں اقلیتی آبادیوں کے نمایندے دوسرے  لوگ ہیں۔ کل سپریم کورٹ کو مسلمانوں کی نمایندگی مطلوب ہو تو کیا سپریم کورٹ مفتی عبدالقوی یا مولانا طاہر اشرفی کو اس نمایندگی کے لیے بلانے میں حق بجانب ہوگی؟

قارئین کے سامنے اقلیتی کمیشن کے چیلارام کی رائے آچکی ہے۔ ۳۰لاکھ دلت آبادی کے چوٹی کے دو نمایندوں کی رائے بھی دی جاچکی ہے۔اعلیٰ ذات کے اعلیٰ ہندو عہدے دار کی رائے بھی آپ کے سامنے ہے۔ اسی طرح چیف جسٹس جیلانی نے جو فیصلہ سنایا تھا ، اس کے بارے میں بھی مختصراً آپ پڑھ چکے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مسئلہ چرچ پر حملے سے شروع ہوا، جس میں دیگر اُمور شامل کرلیے گئے۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ نصاب سے نفرت انگیزمواد نکالا جائے۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے فیصلے کا رُخ صوبوں کے متفقہ نصاب ِ تعلیم کی طرف موڑ دیاہے۔ حالانکہ نئے نصاب میں قابلِ اعتراض مواد موجود نہیں ہے بلکہ پانچوں بڑی اقلیتوں کے لیے الگ نصابی کتب ہیں۔ یہ نصاب تو مسلمانوں کے لیے ہے جس سے اقلیتوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

  • آگ سے کھیلنے کے نتائج: ایک اعلیٰ افسر نے انکشاف کیا:موجودہ قضیے میں سپریم کورٹ کا نوٹس ملا تو ہم سٹپٹا کر رہ گئے۔ ہمارے علم میں پہلی دفعہ آیا کہ ۲۰۱۴ء میں کوئی فیصلہ ہوا تھا اور ۲۰۱۶ء میں کوئی یک رکنی کمیشن بنا تھا۔ اس فیصلے کی رُوداد میں تعلیم اور تعلیمی عمل سے متعلق کوئی نمایندہ عدالت میں پیش نہیں ہوا تھا کہ جو بروقت اور برموقع یہ بتاتا کہ مسئلے کی نوعیت یوں نہیں، یوں ہے۔

اس یک طرفہ فیصلے پر سپریم کورٹ نے عمل درآمد کر نے کا کہا تو صوبائی حکومتیں عمل درآمد کی پابند ہوں گی۔ نصاب سے اسلامی مواد نکال دیا جائے گا۔جسٹس جیلانی کا فیصلہ بھی جسٹس محمدمنیر کے فیصلے کی طرح قومی اور تہذیبی مستقبل پر گہرے اثرات کا حامل ہوگا۔ متحرک سیکولر این جی اوز یہی سمجھیں گی کہ وہ ملک کو سیکولر بنانے کے لیے، سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ملک کی ۹۶ فی صد اکثریت کی بے چارگی کا احساس وقت کےساتھ گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ مقدمے کے نام نہاد مسلمان فریق ایک طرف رہیں گے، مگر مسلمانوں کے غیظ و غضب کارُخ اقلیتوں کی طرف ہوگا ۔ مذہبی ہم آہنگی کے بجائے مذہبی منافرت کا بازار گرم ہوگا اور کسی بھی وقت  سانحہ گوجرہ جیسے اندوہناک اور شرمندگی کا باعث بننے والے واقعات وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔

اس آگ کو بھڑکانے کا سبب مخصوص فکر اور ایجنڈے کی حامل این جی اوز ہی ٹھیریں گی، مگر سزا پوری قوم کو ملے گی۔ جس کی تائید اور طرف داری کوئی سمجھ دار مسلمان ہرگز نہیں کرسکتا۔  دینِ اسلام اور اسلامی تہذیب و معاشرت میں مذہبی اقلیتوں کے وہی شہری حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کو اسی طرح عزیز ہیں جیسے اپنے دیگر مسلمان بھائی بند۔

سپریم کورٹ کے کرنے کا  کام

جیساکہ بیان کیا جا چکا ہے کہ تعلیم جیسے اہم موضوع پرجسٹس جیلانی صاحب نے وہ فیصلہ دیا، جس میں مسلمانوں کاکوئی ماہرتعلیم یا مذہبی رہنماشریک نہیںتھا۔ اس ضمن میں ہم سمجھتے ہیں کہ درخواست یہ ہے کہ موجودہ محترم چیف جسٹس گلزاراحمد صاحب اس گذشتہ فیصلے پرنظرثانی کےلیے کم از کم دس ججوں پر مشتمل بنچ بنائیں، اور کوئی قابلِ اطمینان بندوبست کریں جو تمام متعلقہ فریقوں کو بلاکر موقف سنے، جن میں ہائرایجوکیشن کمیشن، یونی ورسٹیوں اور جامعات کے وائس چانسلر، اساتذہ تنظیمیں، والدین کی انجمنیں، صوبائی اور وفاقی تعلیمی محکمے اور دیگرمتعلقین شامل ہیں۔ اقلیتوں کے نمایندہ افراد بھی اپنا موقف پیش کریں۔ اس طرح اکثریتی مسلم آبادی اور اقلیتیں، دونوں مطمئن ہوں۔ عدل پر مبنی فیصلہ ہی درست سمت دے سکتا ہے اور دستورِ پاکستان کے الفاظ کی پاس داری کرسکتا ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نصاب میںاسلام کاوجود یاعدم وجود پاکستان میں کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں اور نہ ہے۔ اس امرواقعہ کی تائید اور وضاحت کے لیے اقلیتی نمایندوں کا نقطۂ نظر پڑھ کر آپ پہ واضح ہوجائے گا کہ انھیں نصاب پرکوئی اعتراض نہیں بلکہ اس مہم کی پشت پر مخصوص ایجنڈے کے حامل ادارے اور ان کے افرادِکار ہیں، جو ملک میں افراتفری کے لیے دانستہ اور نادانستہ طور پر کوشاں رہتے ہیں۔ (iqbal.malik888@gmail.com)

  _______________

حواشی

1-  Shahzad Sham  : https://www.youtube.com/watch?v=_uojr8gbXHE

2-  Shahzad Sham  : https://www.youtube.com/watch?v=GK2YKawjBVk

3-   Shahzad Sham  : https://www.youtube.com/watch?v=ja-RSqz2s7g

عصرِحاضر میں جس مغربی اصطلاح نے زندگی کے ہر شعبے میں ایک فیشن بلکہ ایک مستقل فکر کی صورت اختیار کرلی ہے، وہ ’لبرل ازم‘ کا فلسفہ ہے۔ ’لبرلسٹ‘ اس نعرے کے ساتھ نوجوان نسل میں کام کرتا ہے کہ ’’سچائی کا ماخذ صرف عقلی اور تجربی ذریعہ ہے اور یہی برتر اور قطعی سرچشمۂ علم ہے۔ لہٰذامذہبی اقدار اور روایات سے جتنی کنارہ کشی بلکہ بغاوت کی جائے، اتنا ہی معاشرے کے لیے بہتر ہے‘‘۔

ستم یہ ہوا کہ لبرلزم محض فکروفلسفہ تک محدود نہ رہا۔ بلکہ آگے بڑھ کر ایک مستقل سیاسی ایجنڈا بناکر پورے جبر کے ساتھ اپنے جدید ابلاغی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے بالخصوص مسلم دنیا پر حملہ آور ہوگیا۔مغرب کے اس فکری اور علمی پروگرام نے ایک جارح امپریل ازم (سامراجیت) کی واضح شکل اختیار کرلی اور یوں اس سامراج نے اپنی ثقافتی دھونس اور اپنے سیاسی فریب سے  مسلم دُنیا کے تعلیمی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس طرح نئی نسل کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی گئی کہ ’’یہی مادی دُنیا سب کچھ ہے اور اس دُنیا سے متعلق حیاتیاتی یا جبلی ضروریات ہی نصابِ تعلیم کا مرکز و محور ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے‘‘۔ بقائے ذات اور اس حوالے سے مادی منفعت کو ہی اصل تعلیمی مقصد تسلیم کرتے ہوئے آخرت میں جواب دہی کے عقیدے کو تعلیمی نظام سے الگ تھلگ کردینے کی تلقین کی گئی۔ اسی مقصد کے زیراثر اس نظریے کو غالب کرنے کا پروگرام تشکیل دیا گیا کہ ’’دین و اخلاق سے بے نیاز تعلیم ہی وقت کی ضرورت اور ترقی کا راستہ ہے‘‘۔

لبرلسٹوں نے بظاہر علمی اصطلاحوں کا سہارا لے کر سب سے بڑا حملہ مسلم تاریخ کے ماضی پر کیا، جس کی جڑیں دینی اقدار میں ہیں۔ اس نے اقدار کی یہ کسوٹی طے کی کہ ’’ہرجدید خیر ہے اور ہرقدیم شر ہے‘‘۔ خیروشر کے اس مادی پیمانے نے زندگی کے ہرشعبے میں نفس پرستی، خواہش پرستی، مفاد پرستی اور دولت پرستی کو پروان چڑھایا۔ عصرِحاضر میں لبرل ازم کے سب سے بڑے نمایندے امریکا نے اس فکر کو صرف اپنے اتحادیوں تک محدود نہ رکھا، بلکہ اسے ایک عالمی نظام اور اپنی بالادستی کے عنوان سے مسلم دنیا کے تہذیبی نظام کو نشانہ بنانے کےلیے تیربہدف بنایا۔ مغرب، دلیل میں شکست کھانے کے بعد اب دھونس، دھمکی بلکہ زبردستی ہم سے یہ بات منوانے کی کوشش کرنا چاہتا ہے کہ ’’زندگی کا اصل نظریہ تو صرف مادی افادیت اور مصلحت پسندی ہے۔ لہٰذا، اگر تم اپنی اقدار، اپنی تاریخ، اپنی زبان، اپنے ادب اور اپنے دین پر ڈٹے رہو گے توتم متعصب ، رجعت پسند، قدامت پسند اور دہشت گرد کہلائو گے۔ لیکن اگر تم اپنے تہذیبی نظریے میں لچک پیدا کروگے اور اپنی اخلاقی اقدار کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کرکے زندگی کے انفرادی اور اجتماعی اُمور میں لادینیت، مذہب بیزاری اور اسلامی شعائر سے تضحیک کا مظاہرہ کروگے یا کم از کم تعلیمی اداروں میں بظاہر تعلیمی معیارِ زندگی کے نام پر، لیکن درحقیقت دین دار اساتذہ اور طلبہ کی نظریاتی قوت کو نقصان پہنچاکر اسلامی نظریے کے فروغ میں ایک مزاحم قوت بنو گے، تو تم نہ صرف ’علم دوست‘، ’روشن خیال‘، ’انسان دوست‘ اور ’ترقی پسند‘ کہلائو گے، بلکہ لبرل خواہشات کی تکمیل کے لیے ایک آزاد فضا کی راہ بھی ہموار کرو گے۔ البتہ اس کا فوری طریقہ یہ ہے کہ تم اپنی وضع قطع، اپنی زبان، اپنے کھانے پینے کے انداز، اپنے سلام دُعا کے طریقے، غرض اپنے لائف اسٹائل میں ہمارے مقلد بن جائو‘‘۔

مغرب درحقیقت اپنے اس آزمودہ طریقۂ واردات کی روشنی میں اپنے لبرل ثقافتی پروگراموں کو رائج کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ آہستہ آہستہ لوگوں کی آنکھوں سے حیا چھن جائے، کیونکہ اسے بخوبی علم ہے کہ مسلمان اگر ایک بار حیادارانہ جذبات سے عاری ہوگئے، تو سیاسی شکست ان کا مقدر ہے۔

اصل ہدف: اسلامی تہذیب و تمدن

لبرل ازم کی اس متنوع یلغار کا اصل ہدف دین،دینی تعلیمات اور دینی شعائر ہیں۔ اس نے مذہب کو مطعون کرنے اور اسے ایک قصۂ پارینہ ثابت کرنے کے لیے جدید اصطلاحوں میں لپٹے بے خدا نظریات پیش کیے۔ یوں لبرل ازم کے پروپیگنڈے کے سامنے کئی تہذیبیں پہلے ہلّے میں ہی شکست کھا گئیں۔ البتہ یہ تہذیبیں محض اپنی ظاہری رسوم و عبادات کے بچائو کا ایک طریقہ سیکولرزم کی صورت میں سامنے لے کر آئیں۔ حقیقت میں ان تہذیبوں کا سیکولرزم کے لیے پرچار مروت یا انسان دوستی کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ اپنی بے بسی کو چھپانے کی ایک شاطرانہ چال تھی۔ اس لیے کہ ان تہذیبوں کے پاس انسانی مسائل کے حل کا مکمل ضابطہ موجود نہیں تھا۔ اس طرح ان کے لیے کوئی اور چارئہ کار نہ رہا کہ یا تو وہ مذہب کو خیرباد کہہ دیں یا اسے نجی معاملہ بناکر اجتماعی نظام یا سیاسی، معاشرتی، قانونی، تعلیمی، اخلاقی، غرض ہر شعبۂ زندگی سے مکمل طور پر خارج کردیں۔

بہرحال تاریخ کی اس ساری کش مکش میں صرف اسلامی تہذیب و کلچر ہی وہ سخت جاں نظام فکروعمل ثابت ہوا، جس نے نہ تو کسی بے خدا نظریے سے مصالحت کی اور نہ سیکولرزم یا اس حوالے سے کسی اور ازم کو تسلیم کیا۔ بلکہ باوجود شدید مزاحمتوں کے، ہرمحاذ پر بڑی جرأت سے ان تمام بے خدا تہذیبوں کو چیلنج کرتے ہوئے وحدتِ الٰہ، شرک کی نفی، وحدتِ انسانی اور تصورِ آخرت کی بنیاد پر یہ پروگرام پیش کیا کہ یہی ایک معیاری تہذیب ہے، جو پوری انسانیت کی (مادی اور روحانی) فلاح و بہبود کا ایک مستقل پیمانہ دیتی ہے۔ اس طرح چاہے کوئی سا بھی زمانہ ہو یا کوئی سا بھی علاقہ ، یہ تہذیب بلاامتیاز رنگ و نسل اور بغیر کسی لسانی تعصب کے، بنیادی انسانی حقوق اور عدل کی ضامن ہے اور صحیح معنوں میں یہی احترامِ آدمیت کو اپنا نصب العین بناتی ہے۔

البتہ اس عالم گیر تہذیب کی اُٹھان اس اصول پر ہوتی ہے کہ برتر اور قطعی ذریعۂ علم وحی الٰہی اور باقی سارے عقلی اور حسی ذرائع اس کے تابع ہیں۔ اسی معیار کی روشنی میں ہردور میں تجدید و احیائے دین کا کام ہوا۔ اس اجتہادی کام کے لیے مفکرین نے مسلسل اس ہدایتِ الٰہی کو پوری انسانیت کے سامنے پیش کیا کہ ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ  (البقرہ ۲:۲۰۸)’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔ انھوں نے اس ہدایت کی روشنی میں یہ نقطۂ نظر دُنیا کے سامنے رکھا کہ اللہ تعالیٰ، کائنات اور انسان کے بارے میں مجموعی اسلامی فکر کے اندر رہتے ہوئے ادراکی قوتوں کا بھرپور استعمال ہی صحیح نظریۂ علم ہے۔ چنانچہ آج اسی نظریۂ علم پر مبنی اسلامی تہذیب کا احیا ہی پوری انسانیت کی ایسی جامع فلاح کی راہ ہے، جو جدت اور ترقی کے ہرگز خلاف نہیں، البتہ تمام ترقیات کو الہامی ہدایت کے تابع رکھتی ہے اور تمام علوم کو یَنْفَعُ النَّاسَ (الرعد ۱۳:۱۷) کے معیار پر پرکھتی ہے۔

معروضیت کے پرچار کی حقیقت

لبرل مفکرین ، معروضیت (Objectivity) کا پرچار کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ مگر وہ خود اپنے ہی متعین کردہ ریاضیاتی کلیہ کے پیش نظر اس بات کا جائزہ لیں کہ آج پوری انسانیت کے لیے کس تہذیبی ماڈل میں جامعیت اور توازن ہے؟ اور کون سا ماڈل دُنیا کے لیے زیادہ مفید ہے؟ ہرچند کہ وہ اس طرح کے جائزے تو مرتب کر رہے ہیں کہ دُنیا میں لبرل ازم اور دوسرے لفظوں میں مغربی تہذیب کا اصل حریف کون ہے؟ مثلاً معروف امریکی دانش ور پروفیسر سیموئیل ہن ٹنگٹن نے یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ ’’بیسویں صدی کے اختتام پر عملاً اب صرف دو تہذیبیں ہی رہ گئی ہیں، جو ایک دوسرے کی نظریاتی رقیب ہیں۔ ایک مغربی تہذیب اور دوسری اسلامی تہذیب‘‘۔ ہن ٹنگٹن مغرب کو اسلامی تہذیب کے ممکنہ غلبہ سے خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اکیسویں صدی میں اصل جنگ ان دوتہذیبوں میں ہی ہوگی جس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ بالآخر غلبہ کسے حاصل ہونا ہے؟‘‘ اسی مقالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر برائن بیڈہیم نے یہ رائے پیش کی: ’’مقابلے کی اس فضا میں اس بنیادی نکتے کو بہرحال بڑی اہمیت حاصل ہوگی کہ کس تہذیب کی اساس کن دائمی قدروں پر ہے؟‘‘۔

لبرل ازم کے پرستار دانش وروں نے اس صورتِ حال پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے، بڑی شدت کے ساتھ یہ اعلان کر دیا کہ ’’ان کا اصل ہدف تو اسلامی تہذیب ہی ہے‘‘۔ اس تہذیبی جنگ میںخاص طور پر اس وقت اور تیزی آگئی جب دسمبر ۱۹۹۱ء میں کمیونزم کو بدترین شکست کا سامنا کرکے اپنی بساط لپیٹنا پڑی۔ چنانچہ اب ’کیپٹل ازم‘ کی علامت امریکا اپنی حلیف قوتوں کو ساتھ ملا کر پوری دُنیا پر مادی یا حسی تہذیب کی صورت میں اپنی حکمرانی چاہتا ہے۔ اس تہذیبی فکر کے سیاسی علَم برداروں کو یہ خوب علم ہے کہ ان کا اصل حریف کون ہے؟ انھیں معلوم ہے کہ اگرچہ سائنس اور ٹکنالوجی میں اُمت مسلمہ پیچھے ہے، لیکن وہ ایک ایسے نظامِ حیات کی حامل ہے، جو اگر مکمل حالت میں دُنیا کے سامنے آگیا تو ان کے کھوکھلے تہذیبی قلعے مسمار ہونے شروع ہوجائیں گے۔ لہٰذا، اگراس کا تدارک نہ کیا گیا تو بہت جلد پوری دُنیا کی قیادت اُمت مسلمہ کے پاس ہی ہوگی۔

مغرب کی یہ دل چسپ منطق بھی دیکھیے کہ ایک طرف تو اس کے مفکرینِ تعلیم یہ کہتے ہیں کہ ’’دُنیا کو صرف فزیکل اور نیچرل سائنسز کی ضرورت ہے۔ باقی علوم چاہے عمرانی ہوں یا خالصتاً مذہبی، ان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ علوم کے انتخاب اور دیگر علمی تحقیقات اور سائنسی ایجادات میں اصل معیار تو مادی نظریۂ افادیت ہے۔ لہٰذا، اس سوچ کے تحت وہ ترقی یافتہ قوم صرف اسی کو تسلیم کریں گے جو طبعی یا جدید علوم کو اپنی دسترس میںلے گی ‘‘۔ لیکن ان جدید علوم میں جب کوئی چھوٹا ملک بالخصوص کوئی مسلم ملک ایک اہم مقام حاصل کرلے تو اہلِ مغرب کی جھنجھلاہٹ دیدنی ہوتی ہے، کیونکہ اس سے ان کی اجارہ داری پر حرف آتا ہے۔

بالکل اس فیوڈل لارڈ، نواب اور جاگیردار کی طرح، جس کی جاگیر کے اندر ایک عام کسان کا بیٹا اگر تعلیمی، معاشرتی یا معاشی لحاظ سے کوئی بہتر مقام حاصل کرلے ،تو وڈیرہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ کل کلاں یہی شخص اس کے مقابل کرسی پر بیٹھے گا یا اس کا یہ نفسیاتی خوف کہ کہیں مستقبل میں یہ اس کا حکمران ہی نہ بن جائے۔ حقیقت میں جاگیردارانہ ذہنیت صرف اتنی بات پر منحصر نہیں ہے کہ کسی کے پاس ایکڑوں زمین یا وسیع کاروباری سلطنت ہے اوراس کی چودھراہٹ میں باقی سب مزارع اور ہاری ہیں، بلکہ جاگیرداریت دراصل ایک ذہنیت ہے، جو مادیت سے متاثرہرشخص کی زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ اس ذہنیت کی بھرپور نمایندگی مغرب کرتاہے، جو باقی دنیا بالخصوص مسلم دُنیا پر اپنی ثقافتی برتری اور سیاسی و معاشرتی حکمرانی کے خواب کی فوری تعبیر چاہتا ہے۔

یہاں تفصیل سے واقعات بیان کرنا جو مغرب ثقافتی محاذ پر کر رہا ہے، مقصود نہیں، البتہ اپنے ہاں صرف این جی اوز کی ہی مثال لے لیجیے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً ۷۲ہزار این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ ان غیر سرکاری قومی اور رفاہی تنظیموں میں بلاشبہہ بعض بڑا مثبت کردار ادا کررہی ہیں، لیکن غیرملکی اداروں کے براہِ راست مالی تعاون یا مادر پدر آزاد فکر دانش وروں کے زیراثر چلنے والی سو دو سو این جی اوز ایسی بھی ہیں، جو بظاہر تعلیم و تحقیق، زبان وادب، صحت و ثقافت، انسانی حقوق اور دیگر سہولیات کے مقصد تلے کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، لیکن عملاً ان کا کردار مغرب کے اس مخفی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل ہے کہ وہ یہاں کے عوام کی ملّی حمیت اور قومی وحدت کو متزلزل کریں۔ اس طرح انھیں تہذیبی غلامی کے شکنجے میں جکڑ کر بالآخر ملک کے ریاستی کردار کو کمزور کریں۔

تعلیمی اداروں کا انتخاب کیوں؟

چنانچہ گلوبلائزیشن یا عالم گیریت کے اس دور میں اگر ہمیں اپنامنفرد تشخص قائم رکھنا ہے، تو ہمیں لازماً اپنے تمام معاشرتی اداروں بالخصوص تعلیمی اور ابلاغی اداروں کو اسلامی تہذیب کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا… اور پھر اسی کی روشنی میں سائنٹفک ، ٹیکنالوجیکل اور دیگر علوم میں ترقی حاصل کرنا ہوگی۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ لبرل تہذیب نے ثقافتی یلغار کے لیے اپنا پسندیدہ میدان تعلیمی اداروں کا منتخب کیا ہے۔ اس لیے مستقبل میں ثقافتی جنگ کا دائرہ ’تعلیمی ادارہ‘ اور موضوعِ بحث ’لبرل ازم‘ ہی ہوگا، کیونکہ مغرب کے سیاسی ایجنڈے کی اصل فکری اساس لبرل نظریہ ہے ، جسے وہ تعلیمی اور ابلاغی پروگراموں کے ذریعے نئی نسل کے ذہنوں میں راسخ کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ تعلیمی مقاصد، نصاب، بلکہ طریقہ ہائے تدریس تک کی ایسی تعبیر نو چاہتا ہے، جس کے لیے آزاد محفوظ تعلیمی فضا کا قیام، تزکیہ و تربیت سے مکمل طور پر گریز، بقائے ذات کے حوالے سے صرف جبلی ضروریات کی غلامی سے متعلق علوم اور انگریزی زبان کی مکمل بالادستی ضروری ہو۔ خود اس کے ’گلوبل ویلج‘ کی مخفی غایت بھی یہی ہے کہ ہم یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ ہماری کوئی تاریخ ہے، کوئی تہذیب ہے، کوئی زبان ہے، ہمارا کوئی لباس ہے، کوئی ملک ہے، کوئی نقطۂ نظر ہے؟… یوں ایک ’گم شدہ معلّم‘ تیارہو جو نئی نسل کو اپنے سارے تہذیبی ورثے سے بیگانہ کرکے اسے بے خدا عالمی نظام کا ایک ’مقامی ایجنٹ یا گماشتہ‘ بناکر رکھ دے۔

امریکی سرپرستی میں حاکمیت کے پرچارک اس زعم میں مبتلا ہیں کہ مغربی تہذیب ہی پوری دنیا کے لیے ایک قابلِ تحسین ماڈل ہے۔ لیکن اگر صرف بیسویں صدی کے سارے عالمی دورِ وحشت کا مطالعہ کیا جائے، تو نام نہاد لبرل تعلیم کے پھیلائو کے زیرسایہ انسانیت کی بے حسی اور شیطنت میں  کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تمام دُنیا میں خاندان کی شکست و ریخت، جرائم، ماردھاڑ اور لاشوں کا تناسب ہی دیکھ لیجیے۔ ظالمانہ قومیں پوری ڈھٹائی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ انسانوں سے مختلف نوع کی زیادتیوں کے واقعات کی فراوانی، یہ سب اخلاقی گراوٹ کی نشانیاں ہیں۔

نظریۂ ارتقاء کے دعوے داروں نے تو یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’’انسان جوں جوں آگے بڑھےگا، اس کے سماجی ارتقاء میں بھی اضافہ ہوگا‘‘۔ لیکن اخلاقیات کے بحران نے جو تباہ کن صورتِ حال پیدا کردی ہے، درحقیقت یہی نظریۂ ارتقاء کی شکست ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے انسان کے اخلاقی اور اعتقادی وجود کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے حیوانی وجود سے متعلق ضروریات کو ہی اہمیت دی اور اسی پر اپنے نظامِ تعلیم کو استوار کیا۔ چنانچہ اس فلسفے کے زیراثر خود ہمارے ’تعلیمی دانش ور‘ بھی ’افادی اور معیاری تعلیم‘ کے نام پر نصابات میں تاریخ، جغرافیہ، عربی، قومی زبان، تعمیری ادب، مطالعہ پاکستان اور دین اسلام کی اہمیت کو کم کررہے ہیں، تاکہ اپنی تہذیب سے بے خبر ایک ایسی بے مقصد اور بے سمت نوجوان نسل تیار ہو، جو خلیج نژاد (Generation Gap) عارضہ میں مبتلا ہوکر اپنے بزرگوں سے کٹے اور غیروں کی غلامی کا طوق خوشی خوشی اپنے گلے میں ڈالنے کو تیار ہو۔

لمحۂ فکریہ!

یہاں اس نقطۂ نظر کو یاد دلانا ضروری ہے کہ ہم پوری دُنیا کی علمی ترقیات اور جدید عالمی زبانوں بالخصوص انگریزی زبان پر دسترس کے ہرگز خلاف نہیں ہیں۔ ہمیں اگر اختلاف ہے تو لسانی استعماریت سے ہے، جس کے تحت انگریزی زبان کی بالادستی کو جبر سے نافذ کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو ان کی تہذیبی زبانوں سے نفرت یا شرمندگی سکھائی جاتی ہے۔ بلاشبہہ ہمیں دُنیا میں  کی گئی علمی تحقیقات سے استفادہ بھی کرنا ہے لیکن غالب، خلّاق اور نقاد ذہن کے ساتھ بلکہ صرف استفادے تک ہی محدود نہیں رہنا، خود آگے بڑھ کر سائنسی اور عمرانی علوم میں قیادت کا منصب سنبھالنا ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خود علمی جمود اور مرعوبیت کا شکار ہوکر اندھے مقلد بن رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مغرب بڑے جارحانہ انداز سے اپنی فکر ہم پر ٹھونسنا چاہتا ہے۔ لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ آخرکار اس کے تیار کردہ افراد اسی پریشان نظری کا شکار ہوکر منتشر شخصیت کیوں بنتے ہیں؟

یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے جس پر ہمارے سب اساتذہ کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اس صداقت کا بھی کامل ادراک کرنا ہوگا کہ علّامہ اقبالؒ اور قائداعظم ؒکی محنت شاقہ سے پاکستان اس لیے وجود میں نہیں آیا تھا کہ یہ لبرل ازم کے علَم برداروں کی ثقافت نقل کرنے کا ایک چاک بورڈ بن جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی ادارے ایسے کرائے کا ہال بھی نہیں کہ اس میں لبرل ازم کے نام پر اس کے نام نہاد دانش وَر جب چاہیں، پاکستان کے اساسی نظریہ کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالتے رہیں۔ اب ان مقامی اور عالمی لبرل دانش وروں کو بھی یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ قانونِ قدرت کے عین مطابق پوری انسانیت کے لیے سوائے اسلامی تہذیب کے کوئی اور متبادل تہذیب نہیں۔

معلّم کا مطلوبہ کردار

ان شاء اللہ نئی نسل میں اس شعور کی بیداری کے لیے اور عالمی ثقافتی جنگ میں اسلامی تہذیب کے احیا کے لیے سالارِ اعظم کا کردار اساتذہ ہی کو ادا کرنا ہوگا۔ اساتذہ نے ہی صالح فکر اور صالح عمل سے، بے خدا تہذیب کو شکست دینا ہے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں جمود اور تساہل سے نکل کر علمی اور اخلاقی قیادت کے منصب کو سنبھالنا ہوگا۔ انھیں اپنی بھی اور اپنے طلبہ کی تربیت بھی اس رُخ پر کرنا ہوگی کہ مطالعہ وتحقیق،تنقید و تطبیق اور تحقیق و دریافت ہی زندہ تعلیم کی علامتیں ہیں۔ انھیں اپنے اور اپنے طلبہ کے ذہنوں سے فکری لادینیت کو کُلی طورپر کھرچنا ہوگا اور بالآخر اس نقطۂ نظر کو راسخ کرنا ہوگا کہ اسلام ہی خالق کائنات کا وہ نازل کردہ دین کامل ہے، جو ایک مکمل ضابطۂ زندگی ہے اور جو ہر دور اور ہر علاقے میں انسانی فطرت اور اس کے تقاضوں سے واقف ہے۔

ہمارے طلبہ اور اساتذہ، مغرب کی سائنسی، تکنیکی اور تحقیقی کوششوں سے ضرور مستفید ہوں، لیکن اس یقین کے ساتھ کہ قیاس اور حواس سے برتر سرچشمۂ علم ’وحی الٰہی‘ ہی ہے، جو قرآن حکیم اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔ لہٰذا، علم کی ساری ترقیاں ہمارے نزدیک وہی ہوں گی، جو اسلامی تہذیب و اخلاق کے تابع ہوں۔ ہمیں اس نقطۂ نظر میں بہت واضح اور دلیر ہونا چاہیے۔ اس وجدان سے بے خبر اساتذہ، اسلامی ریاست کے کسی کام کے نہیں۔ ڈرے ڈرے، سہمے سہمے، کاہل، مغرب کے نیازمند اور احساسِ کمتری کے دائمی مریض اساتذہ، لبرل ازم کے چیلنج کا ہرگز مقابلہ نہیں کرسکتے۔

اس کے لیے جری اساتذہ کی ضرورت ہے جو پوری علمی اور پیشہ ورانہ تیاری، کردار کی پاکیزگی،تحقیقی مہارت، حکیمانہ جرأت، اخلاقی قوت، اجتہادی صلاحیت اور بھرپور عزم و ہمت کے ساتھ تعلیم و تدریس کا فریضہ سرانجام دیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ قرآن و سنت کے سائے تلے علم واخلاق کی روشنی ہی اسلامی تہذیب کا سرچشمہ ہے اوراس کے احیا کے لیے حکمت و دانش کے ساتھ ساتھ دین سے گہری وابستگی اور پاکستان سے لازوال محبت ہی حال ومستقبل کے لیے کارگر حکمت عملی ہے۔

 ۶ مئی ۲۰۲۱ء کو یہ خبر کشمیری عوام پر قیامت بن کے ٹوٹی کہ زیر حراست مزاحمتی تحریک کے مخلص ترین قائد جناب محمد اشرف خان صحرائی جموں کے ہسپتال میں انتقال کر گئے: اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ اس طرح سے کشمیر کی تحریک آزادی کے ایک اور قائد کی جدوجہد کا باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

مرحوم صحرائی صاحب کو ۲۰۲۰ء میں اپنے بیٹے شہید جنید صحرائی کی شہادت کے ٹھیک دو ماہ بعد جموں وکشمیر میں نافذ کالے قانون ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت پس زندان ڈال دیا گیا تھا۔ واضح رہے یہ ایک ایسا بے رحم قانون ہے جس میں دو سال تک بغیر کسی عدالتی کارروائی کے کسی بھی شخص کوپابند سلاسل رکھا جاسکتا ہے۔ صحرائی صاحب مرحوم کے اہلِ خانہ نے اسے قتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم کو انتظامیہ کی جانب سے کوئی طبی امداد نہیں دی گئی، جب کہ وہ کئی امراض میں پہلے ہی مبتلا تھے۔ میڈیا کو دیئے گئے بیانات میں ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ’’میرے والد نے اپنی وفات سے چند دن قبل مجھے فون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے لیے یہاں کسی دوائی وغیرہ کا انتظام نہیں ہے۔ میں چند دنوں سے شدید بیمار ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومت مجھے یہاں مارنے کے لیے ہی  لائی ہے، اس لیے آپ میری رہائی کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں اُنھیں ترک کر دیں۔ مجھے یہ ایسے رہاکرنے والے نہیں ہیں۔آپ اپنے معمول کے کام کاج میں مصروف ہو جائیں ‘‘۔

محترم صحرائی صاحب کے انتقال پر کئی ہند نواز سیاسی لیڈروں نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے حکومت پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا :

اشرف صحرائی کی اچانک موت کے بارے میںجان کر بہت صدمہ ہوا۔ انھی کی طرح ان گنت سیاسی قیدیوںاور جموں وکشمیرکے دیگر نظر بندوں کو بھی اپنے نظریا ت اور افکار کے لیے مکمل طور جیل میں ڈالنے کا عمل جاری ہے۔ آج کے ہندستا ن میںاختلاف رائے کی وجہ سے ایک شخص اپنی زندگی کی قیمت ادا کرتا ہے۔

پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا:

انھیں قید میں کیوں مرنا پڑا نہ کہ اپنے پیاروں اور رشتہ داروں میں۔کیا ہم اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ علیل بزرگ شخص ریاست کے لیے خطرہ ہے؟ صحرائی صاحب ایک سیاسی رہنما تھے، دہشت گرد نہیں ۔

آل پارٹیزحریت کانفرنس نے اظہار تعزیت کرتے ہو ئے کہا کہ:’’ جموں وکشمیر کے لوگوں نے ایک مخلص، قابل اور ایمان دار لیڈرکوکھو دیا ہے ‘‘

 محترم اشرف صحرائی کے فرزند راشد خان صحرائی نے دی وائر نیو ز پورٹل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ:’’ان کے طبی معائنے اور علاج کے لیے تین درخواستیں دائر کی تھیں،جس میں ان کی مزید دیکھ بھال کے لیے جموں یا سرینگرکی جیلوں میں منتقل کر نے کی درخواست بھی تھی کہ اہل خانہ کو ان سے ملنے دیا جائے‘‘۔ راشد صحرائی نے کہا کہ ’’درخواستوں پر نظر ثانی کے لیے جج مسلسل دیر کرتا رہا‘‘۔

اس عظیم اور بے با ک قائد کی زندگی عزیمت اور قربانیوں کی لازوال داستانوں سے پُرہے۔ مرحوم قائد کی پیدایش شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی خوب صورت ترین وادیٔ لولاب میں ۱۹۴۴ء کو ہوئی۔وہی لولاب جہاں عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت اور محدث علامہ انور شاہ کشمیریؒ [۱۸۷۵ء-۱۹۳۳ء]نے آنکھ کھولی تھی۔ جس وادی کے متعلق شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایک مشہور نظم بھی ’اے وادیٔ لولاب‘ عنوان کے تحت لکھی ہے۔ موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گائوں میں حاصل کی۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے گریجوشن کی۔ آپ بچپن سے ہی دینی مزاج کے حامل تھے اور دینی کتابوں کے مطالعے سے بھی خاصا شغف رکھتے تھے۔ قرآن کریم کا گہرا مطالعہ تھا۔ ایک فیس بُک ساتھی نے مطالعہ قرآن کے حوالے سے ایک پوسٹ میں مرحوم کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ :’’قرآن کا گہرا مطالعہ تھا اور تفاسیر پر بھی نظر تھی۔ جب درسِ قرآن پیش کرتے تھے تو بالکل بھی روایتی انداز کا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اُن کا پہلا درس ’اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر‘ کے تربیتی پروگرام میں سُنا۔اس وقت میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ درس آج تک میرے ذہن میں مستحضر ہے۔کیا ہی دل چسپ اندازِ بیان تھا۔ قرآنی آیات کی توضیح و تشریح ایسے کرتے تھے کہ لگتا تھا کہ قرآن آج ہی نازل ہو ا ہے ۔وہ اپنے دروسِ قرآن میں زمانے کے تطابق کا خاص خیال رکھتے تھے ۔ایسے درس پیش کرتے جیسے موتیوں سے ہمارے دامن بھررہے ہوں‘‘۔

اشرف صاحب کا گھرانہ ابتدا سے ہی تحریک اسلامی سے وابستہ تھا۔مرحوم کے گھر سے دوبڑے بھائی جماعت اسلامی جموں وکشمیرکے بنیادی ارکان میں سے تھے، جن کی وساطت سے محترم صحرائی صاحب کو بھی جماعت اسلامی سے آشنائی ہوئی۔ جماعت کے دفتر واقع کپواڑہ میں ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ اسی دوران میں ان کی ملاقات اُس دور میں فعال ترین کارکن سید علی گیلانی صاحب سے ہوئی۔ گیلانی صاحب کا کہنا ہے کہ: میری قربت صحرائی صاحب سے قدرتی طور پر کچھ زیادہ ہی ہونے لگی۔ جب کبھی بھی ہمارا کپواڑہ آنا جانا ہوتا تھا تو میں محترم موصوف کے گھر جایا کرتا تھا۔ ابھی صحرائی صاحب دسویں جماعت میں ہی تھے کہ اُن کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ’یہ ہاز چھی حوالہ‘ یعنی اب یہ (صحرائی صاحب) آپ کے حوالے ہیں ۔ اور اس کے بعد تحریک اسلامی کے یہ دونوں سرفروش تا عمر حالات کے سرد و گرم کا مقابلہ جاں فشانی سے کرتے رہے۔

صحرائی صاحب تحریک اسلامی کے مخلص ترین اور بے باک قائد تسلیم کیے جاتے تھے۔ موصوف نے اپنی ساری زندگی کو تحریک اسلامی کے لیے وقف کردیا ۔ جموں وکشمیر کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ کو وجود بخشنے میں صحرائی صاحب کا خاصا بنیادی کردار تھا۔ کشمیر کے ایک رسالے کو اپنے ایک انٹرویو میں اسلامی جمعیت طلبہ کے وجود میں آنے کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ’’انھی دنوں زالورہ، بارہمولہ میں جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے مولانا شیخ سلیمان مرحوم (شیخ محمد سلیمان مرحوم نے ضلعی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک جماعت کے اپنے فرائض بڑے اخلاص اور محنت سے انجام دیے، خاص کر ارکان وذمہ داران کی تربیت کے حوالے سے انھوں نے کافی کام کیا) کے گھر پر جولائی ۱۹۷۷ءمیں مجلس شوریٰ کا اجلاس چار دن تک جاری رہا، جہاں میں [صحرائی صاحب] بھی شامل تھااور گیلانی صاحب بھی۔ جماعت کو سیاسی طور پر وادی میں جو نقصان اٹھانا پڑا اس پر زبردست بحث و مبا حثہ ہوا، یہاں تک کہ امیر جماعت کو بھی تبدیل کرنے پر بات ہوئی۔ شوریٰ میں محترم سیدعلی گیلانی صاحب سے کہا گیا کہ آپ امیر جماعت کی حیثیت سے کام کریں، لیکن جونہی انھوں نے یہ بات سُنی، انھوںنے اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور انتہائی غصے کی حالت میں کہا کہ: ’’کیا میں امیر جماعت بننے کے لائق ہوں؟‘‘

’’ اس شوریٰ میں یوتھ فیڈریشن کا رول بھی زیر بحث آیا اور اس پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی کہ جماعت کو نوجوانوں کے لیے ایک تنظیم قائم کرنی چاہیے۔ اس کے لیے وہاں موجود کسی نے میرا نام پیش کیا اور بتایا کہ محمد اشرف صحرائی نوجوانوں کے ساتھ مل جل کر کام کرتے رہتے ہیں۔ میں اجلاس کی کارروائی لکھ رہا تھا۔ جب یہ فیصلہ ہوا کہ صحرائی صاحب نوجوانوں کو منظم کریں گے۔ اس کے بعد اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ اس تنظیم کا کیا نام رکھا جائے؟ وہاں پر موجودا رکانِ شوریٰ نے مختلف نام تجویز کیے۔میں نے اپنی رائے یہ پیش کی کہ جب سید مودودیؒ نے پاکستان میں ۱۹۴۸ء میں طلبہ تنظیم قائم کی تو انھوں نے اس کانام ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ رکھا تھا کیوں نہ ہم بھی اسی مناسبت سے اس کا نام ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ ہی رکھیں ۔شوریٰ میں امیر جماعت سمیت تمام لوگ اس نام پر متفق ہوئے اور نوجوانوں کو منظم کرنے کے لیے جماعت نے مجھے [تنظیمی ذمہ داریوں سے] فارغ کیا۔ اس کے بعد میں نے ۱۹۷۷ء میں جمعیت کے لیے کام کا آغاز کیا۔ اس وقت میری عمر تقریباً ۳۲  یا ۳۳سال تھی اور ساتھ ہی اس کے لیے ایک دفتر کا بھی انتظام کیا‘‘۔(یہ انٹرویو ۲۰۱۴ء میں ضبط تحریر میں لایا گیا ہے )۔

بہرکیف، اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے پہلے ناظم اعلیٰ محترم مرحوم صحرائی صاحب مقرر ہوئے ۔اس کے بعد موصوف نے جموں وکشمیر میں طلبہ میں دعوت کا کام شروع کر دیا۔ انفرادی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ مختصر فولڈر اور لٹریچر کو یہاں کے تعلیمی اداروں تک پہنچایا۔ عوامی اجتماعات بھی منعقد کرائے جن میں سے ۱۵؍اور۱۶ جولائی ۱۹۷۸ء کو جمعیت کا دو روزہ اجتماع انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔اس اجتماع میں محترم شیخ تجمل الاسلام نے جو کہ اُس وقت معتمد عام (سیکرٹری جنرل) تھے، مذکورہ اجتماع میں ڈائس انچارچ کے فرائض انجام دیے ۔یہ دو روزہ اجتماع سرینگر کی گول مارکیٹ میں منعقد ہوا۔ اس طرح سے محترم صحرائی صاحب نے اپنی جوانی کے دنوں کو بھی تحریکی کام کے لیے وقف کر دیا۔ وہ پہلی بار ۱۹۶۵ء میں گرفتار ہوئے ، تب آپ کی عمر محض ۲۱ سال تھی۔

موئے مقدس کی گمشدگی کے متعلق کشمیر میں زوردار احتجاجی تحریک برپا تھی۔ احتجاجیوں کا مطالبہ تھا کہ موئے مقدس کو بازیاب کیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قید کردیا۔ اس ظلم کے خلاف ردعمل میں محترم صحرائی صاحب نے بارہمولہ پٹن کی ایک مسجد میں جمعہ کے موقع پر ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے حکومتِ وقت کو للکارا اور اُن کی جمہوریت کے کھوکھلے دعوئوں کا پول کھول کے رکھ دیا۔ اس بیان کے اگلے دن ۲۱سال کی عمر میں انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں قیدِ تنہائی کے ایام موصوف نے وہاں ملنے والی ایک کتاب زرِ گُل پڑھنے میں گزارے۔ وہ اتنی بار پڑھی کہ ذہن میں محفوظ ہو گئی ۔

 تقریر کے ساتھ ساتھ موصوف تحریر کے جوہر بھی دکھاتے رہے جس کی ایک کڑی کے  طور پر ۱۹۶۹ء میں طلوع کے نام سے جماعت کی مدد سے ایک رسالہ شائع کیا ۔اس میں بڑی ہی  بے باکی سے کفر اور سامراجی طاقتوں کو آئینہ دکھاتے رہے اور ساتھ ہی جمہوریت کے حقیقی معنوں سے بھی عوام الناس کو آشنا کرتے رہے۔ لیکن اس کا انجام اس رسالے پر حکومت کی طرف سے پابندی کی صورت میں ہوا۔

صحرائی صاحب کی زندگی میں نشیب و فرازآتے رہے لیکن راہ عزیمت سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ تحریک اسلامی کے ہمراہ مقصد کی لگن اور اسلام کی اقامت کے لیے جدوجہد کے لیے مرمٹنے کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے صحرائی صاحب کو جماعت میں سب سے پہلے بانڈی پورہ، کپواڑہ اور بارہمولہ (اُس دور میں یہ تینوں اضلاع ایک ضلع تھا اور آج الگ الگ ہیں) کے امیر ضلع کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کے بعد مرکز جماعت میں شعبہ سیاسیات کا سربراہ اور پھر نائب امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی ذمہ داریاں سپرد کی گئیں۔ ان فرائض کو انجام دینے میں کسی سُستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ غرض صحرائی صاحب اپنی ذات میں ایک تحریک تھے، صحرائی ایک نظریہ اور فکر کا نام ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کو بھی مزاحمتی تحریک کے نام وقف کر دیا تھا۔

ایک مرحلے پر جماعت اسلامی جموں وکشمیر کو محسوس ہوا کہ مزاحمتی تحریک کے لیے جماعت اسلامی سے الگ نظم، عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے صحرائی صاحب اور سیّد علی گیلانی صاحب کا رول انتہائی اہم تھا۔۲۰۰۴ء میں تحریک حُریت کا وجود عمل میں لایا گیا ۔جہاں سے گیلانی صاحب اور صحرائی صاحب نے مزاحمتی تحریک کو رواں دواں کیا۔ اس مزاحمتی جدوجہد کے دوران محترم صحرائی صاحب نے مسئلہ کشمیر کے متعلق وہی موقف اختیار کیا، جو عام کشمیریوں کا ہے۔

صحرائی صاحب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اہلِ کشمیر کے حق خود ارادیت پر زور دیتے تھے۔ حکومت کو بھی بار بار کہتے آ رہے تھے کہ فوجی طاقت کے ذریعے آپ کشمیریوں کے نہ دل جیت پائیں گے اور نہ کشمیر کو۔ لہٰذا بھارت کو چاہیے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو پُر امن طریقے سے حل کرنے میں پہل کرے تا کہ دونوں اطراف سے انسانی جانوں کازیاں نہ ہو اور عوام پُر امن زندگی گُزار سکیں۔لیکن ہم سب یہ دیکھ چُکے ہیں کہ بھارتی حکومتوں کی طرف سے اس مسئلے کو طول دینے کے نتائج کتنی خطرناک شکل میں سامنے آرہے ہیں ۔ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد بندوق کی طرف راغب ہورہی ہے اور گھروں کے گھر اُجڑ رہے ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم اور بزرگ والدین اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو کھو رہے ہیں۔ بستیوں کی بستیاں ویران اور قبرستان آباد ہو رہے ہیں۔

۲۰۱۸ء میں محترم صحرائی صاحب کے فرزند جنید صحرائی نے بھی کشمیری عوام کی مظلومیت کے حق میں بندوق اُٹھائی۔ جنید کے بندوق اُٹھانے کے بعد ایک مقامی صحافی نے محترم اشرف صاحب سے سوال کیا کہ ’’کیا آپ اپنے بیٹے کو بندوق چھوڑ کے گھر آنے کی اپیل نہیں کر سکتے؟‘‘ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میں کیوں اپیل کروں گا، کیامیں بے ضمیر ہوں؟ کیا شیخ محمد عبداللہ ہوں؟ میں بخشی ہوں؟ میں قاسم ہوں؟میں غلام رسول کار بھی تو نہیں ہوں۔ میں خدا کا وہ بندہ ہوں جس کی رگ رگ میں آزادی کی تڑپ موجود ہے‘‘۔ اس سے موصوف کی اپنے مقصدکے ساتھ کمٹ منٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے مجاہد صحرائی نے میڈیا کے ایک نمایندے کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے والد صاحب نے ہمیں ایک نصیحت کی تھی کہ آپ سودی کاروبار یا سود کھانے سے وابستہ نہیں ہوں گے او ر آپ کو سرکاری نوکری نہیں کرنی۔ اس لیے کہ آگر آپ سرکارکے ملازم ہوں گے تو مجھے آپ کے بدلے ہر جگہ سر جھکانا پڑے گا‘‘ ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنید صحرائی ۱۹ مئی ۲۰۱۹ء کے دن سرینگر میں ایک خونیں معرکے میں جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق ہونے کے بعد جنید صحرائی کی میت بھی دیگر عسکریت پسندوں کی لاشوں کی طرح اُن کے لواحقین کو نہیں دی گئی، بلکہ جنیدشہید کو اپنے گھر سے دور پہلگام میںدفنا دیا گیا۔ تعزیت پر آنے والوں کی ایک بھیڑ میں فون پر کسی عزیز کے ساتھ محترم صحرائی صاحب مرحوم اپنے بیٹے کی شہادت کو علامہ شبلی نعمانیؒ کے ان اشعار کے ساتھ بیان کر رہے تھے کہ :

عجم کی مدح کی ،عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے یوں چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتمؐ
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

یہ الفاظ ۱۹مارچ ۲۰۱۸ء کو تحریک ِ حُریت کے مقرر ہونے والے چیئرمین محمد اشرف صحرائی جیسے عظیم انسان کی زبان سے ہی نکل سکتے ہیں ۔ابھی لوگ محترم صحرائی صاحب کے بیٹے کی تعزیت کے لیے آرہے تھے کہ انتظامیہ نے امن و امان کا مسئلہ بتاتے ہوئے ۷۸ سالہ بزرگ جو کہ مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے کو جموں کی ایک جیل میں ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت پابند سلاسل کر دیا۔

صحرائی صاحب پہلے سے ہی کافی علیل تھے۔ اس کے باوجود اُنھیں جموں کی جیل میں رکھا گیا۔ ایک نیوز پورٹل کے ساتھ موصوف کے فرزند نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ہمیں ہر ہفتے دومرتبہ فون کیا کرتے تھے لیکن گذشتہ دس دنوں سے کوئی فون نہیں آیا۔ آخری مرتبہ جب بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ صحت ٹھیک نہیں ہے ۔دراصل یہ مجھے یہاں مارنے کے لیے لائے ہیں‘‘۔

اخباری رپورٹوں کے مطابق محترم صحرائی صاحب کی صحت اچانک بگڑ گئی، جس کے سبب اُنھیں جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں علاج کے لیے لایا ہی گیا تھا کہ جہاں وہ اپنے اہل خانہ سے دُور، داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انتظامیہ نے انھیں سرینگر کے مزار شہداء میں دفنانے کی اجازت نہ دی۔جس کی وجہ سے اُن کو اپنے آبائی گائوں ٹکی پورہ لولاب، کپواڑہ میں اپنے مختصر اہلِ خانہ کی موجودگی میں سپردِ خاک کیا گیا۔

 ابھی صحرائی صاحب کی جدائی کے غم میں ہی اہل خانہ نڈھال تھے کہ مرحوم کے دوبیٹوں کو ’غیر قانونی سرگرمیاںکے ایکٹ‘( UAPA)قانون کے تحت یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا کہ ’’انھوں نے صحرائی صاحب کے جنازے کے دوران غیر قانونی اور ملک دشمن نعرہ بازی کی ہے‘‘۔

اخباری رپورٹوں کے مطابق: ’’۵ مئی ۲۰۲۱ء کو محمد اشرف صحرائی کے دونوں بیٹوں، مجاہدصحرائی اور راشد صحرائی کو اپنے گھر واقعہ برزلہ، سرینگر سے گرفتار کر کے کپواڑہ منتقل کر کے داخل زنداںکیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہاں جنازے میں موجود۲۰؍ افراد کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔غرض یہ کہ صحرائی صاحب کی وفات کے بعد بھی اُن کے گھر سے قربانیوں اور عزیمت کی لازوال داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔نہیں معلوم کہ نہ جھکنے اور نہ بکنے والے اس مرد مجاہد کے اہل خانہ کو ابھی آزمایشوں کے کن کن مراحل سے گُزرنا پڑے گا۔ اللہ تعالی مرحوم صحرائی صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما ئے اور اُن کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!

مولانا وحید الدین خان مرحوم کے حوالے سے ذاتی یادوں اور مشاہدات کا ایک سلسلہ ہے۔ نئی دہلی میں ۳۰برسوں پر پھیلے قیام کے دوران مجھے، مولانا سے کبھی بالمشافہ گفتگو کرنے اور کبھی ان کے درس میں بیٹھنے کا موقع ملتا رہا۔ اس طالب علمانہ ربط و تعلق سے متعلق چند واقعات کا ریکارڈ پر آنا ضروری ہے۔ مولانا وحیدالدین خان بلاشبہہ ایک قابلِ ذکر شخصیت تھے۔ میں زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے ماہنامہ الرسالہ کا قاری رہا ہوں۔ اپنے نقطۂ نظر کو جس سہل ،نپے تلے، منفرد اور سائنسی انداز میں وہ مشکل ترین موضوعات کو قارئین کے دماغ میں اُتارتے تھے، وہ انھی کا خاصہ تھا۔

مولانا صاحب سے میری پہلی ملاقات ۹۰ کے عشرے میں ہوئی، جب میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی وارد ہوا۔ نظام الدین ویسٹ میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا دفتر تھا۔ میں کسی کام سے دفتر گیا تھا تو وہاں پر پونا یونی ورسٹی شعبۂ صحافت کے ایک طالب علم عبدالباری مسعود ، (آج کل ایک معروف صحافی) سے ملاقات ہوئی۔ ابتدائی تعارف کے بعد ، انھوں نے بتایا کہ ’’مولانا وحیدالدین خان صاحب سے ملاقات کے لیے آج کا وقت طے ہے‘‘۔ میں بھی خان صاحب کو بالمشافہ دیکھنے کے شوق میں ان کے تین رکنی قافلے میں شامل ہوگیا۔ ان کی کوٹھی پر پہنچے۔ وہ مسند لگائے ہوئے تھے، اور سامنے ڈیسک پر کاغذوں کا ڈھیر تھا۔ پورے کمرے میں کتابیں، قومی اور بین الاقوامی جرید ے ترتیب کے ساتھ سجے ہوئے تھے۔

ابتدائی نوعیت کا تعارف ختم ہوتے ہی اچانک خود انھوں نے عبدالباری صاحب سے سوال کیا کہ ’’آخر آپ کیوں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’میں الرسالہ کا قاری اور آپ سے متاثر ہوں‘‘۔اس پر انھوں نے فوراً یہ سوال پوچھا کہ’’ الرسالہ  میں کون سی بات آپ کو اچھی لگتی ہے، اور کس نے آپ کو متاثر کیا ہے؟‘‘ابھی ان کی جانب سے تفتیش کا سلسلہ جاری تھا کہ تبلیغی مرکز سے ایک وفد کمرے میں داخل ہوا، تو ہمیں دم لینے کا موقع ملا۔ و ہ وفدبھی مہاراشٹرا سے تعلق رکھتا تھا اور ان کو کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دینے آیا تھا ۔ اس لیے گفتگو اب تبلیغ اور اس کے طریق کار کی طرف مڑگئی۔

ان دنوں ’بابری مسجد کمیٹی ‘اور اس کے روح رواں سید شہاب الدین [ ۱۹۳۵ء- ۲۰۱۷ء]، مولانا صاحب کے نشانے پر ہوا کرتے تھے۔ اس ملاقات میں بھی انھوں نے شہاب الدین صاحب پر بھرپور وار کیے اور بتایا کہ ’’علامہ اقبال [م:۱۹۳۸ء]کی طرح شہاب الدین بھی مسلمانوں کا استحصال کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔ اس پہلی ملاقات میں ہی مجھے یہ انداز ہو گیا تھا کہ وسعت علم کے باوجود وہ ایک طرح کے ’معلوماتی تکبر‘ (Information Arrogance) کا شکار ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی جلدوں اور ٹائم، نیوز ویک  رسالوں کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ’’ الرسالہ کی تیاری کے لیے ان سبھی بیش قیمت کتابوں و رسائل کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور اس میں زر کثیر خرچ ہوتا ہے‘‘۔

اس ملاقات کے بعد بھی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ان سے متعدد بار ملنا ہوا۔ نمازِ عصر کے بعد وہ اپنے اسی کمرے میں ملتے تھے یا اتوار کے روز صبح ان کا درس ہوتا تھا، جو نمازِ ظہر پر ختم ہو تا تھا۔ یہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار درس کے دوران انھوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہونے والی فتوحات پر نکتہ چینی کی۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’اُن فتوحات کی وجہ سے دعوت کا کام دب گیا‘‘۔ اسی طرح ان کی ایک دلیل یہ تھی: ’’صلاح الدین ایوبی اور صلیبی جنگو ں کی وجہ سے یورپ میں اسلام کے دعوتی پیغام کو نقصان پہنچا‘‘۔ عراق اور افغانستان میں امریکا اورناٹو افواج کی جانب سے مسلط کردہ خونیں جنگ کو وہ ’خدائی آپریشن‘ کا نام دیتے تھے۔

بھارت میں ہندو مسلم فسادات ہوتے، تو وہ اس میں مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے تھے۔ معلوم نہیں کس ذریعے سے حاصل کردہ اطلاعات کی بنیاد پر ان کا کہنا ہوتا تھا: ’’فسادات کی ابتدا مسلمان کرتے ہیں‘‘۔ یہ بات سنتے ہوئے میں نے ایک بار ہمت کرکے ان سے پوچھا کہ ’’یہ نتیجہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا ہے؟ سوال پوچھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے کئی بار فسادات کی کوریج کرنے کا موقع ملا ہے اور میں نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ جانی اور مالی نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتاہے۔ آخر اپنے آ پ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیوں کوئی اپنا سر آگ میں جھونکے گا؟‘‘ اسی طرح ان کا موقف تھا کہ ’’بابری مسجد سے مسلمانوں کو دست بردار ہونا چاہیے، اور وہاں پر ایک عالی شان رام مندر بنانے میں معاونت کرنی چاہیے‘‘۔ خان صاحب کی اس تجویز یا خواہش کے مطابق اب تو اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔ لیکن کیا اس سے قوم پرست ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں کمی واقع ہوئی ہے؟ بلکہ وہ تو اب شیرہوکر دیگر مساجد کو بھی مندر بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

کشمیری مسلمانوں کے ساتھ تو سچ پوچھئے خان صاحب کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بجائے آزادی کی تحریک کے، ان کو اپنے کردار و تبلیغ سے وہاں موجود سات لاکھ بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی دستوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا چاہیے‘‘۔ یاد رہے، خان صاحب کے رسالے الرسالہ کی سب سے زیادہ فروخت کشمیر میں ہی ہوتی تھی۔ بلاشبہہ کچھ لوگ تو واقعی خریدتے تھے، مگر کشمیریوں کے گھروں کی تلاشی آپریشنوں کے دوران بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ آئے ہوئے انٹیلی جنس کے افراد اس رسالے کو نوجوانوں میں بانٹتے بھی تھے۔ سوپور کی جامع مسجد کے پاس بارڈر سکیورٹی فورس کا بینکر تھا۔ ایک روز نماز جمعہ سے قبل مسجد میں داخل ہونے والوں کو بینکر کا ایک سپاہی الرسالہ اور مولانا کا ایک تحریر کردہ پمفلٹ بانٹ رہا تھا اور تاکید کر رہا تھا کہ ’’اس اسلام کو اپنا کر پاکستان والا اسلام ترک کردیں‘‘۔ میرے لیے اس سپاہی کے ساتھ بحث کا تو کوئی موقع نہیں تھا، مگر دہلی واپس آکر میں نے یہ واقعہ براہِ راست مولانا صاحب کے گوش گزار کیا۔ انھوں نے میری اس آنکھوں دیکھی رُوداد کے جواب میں کہا: ’’کشمیریوں نے میر سید علی ہمدانی کے مشن کو فراموش کردیا ہے‘‘۔

یہ غالباً ۲۰۱۵ءکی بات ہے کہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن انجینئر عبدالرشید کچھ کشمیری صحافیوں کے ہمراہ دہلی آئے۔ انھوں نے مولانا صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ چونکہ بطور ممبر اسمبلی وہ کشمیر میں بھارتی جمہوریت کا ایک چہرہ تھے، اسی لیے ان کا اصرار تھا کہ ’’مولانا صاحب سے جموں و کشمیر کی صورت حال کے بارے میں رائے معلوم کر کے ان کے وسیع تجربے سے کچھ مفید اور قابل عمل اقدامات کے لیے ہم رہنمائی حاصل کریں گے‘‘۔ خیر ان کی کوٹھی پر پہنچ کر پہلے تو ہم نے درس میں شرکت کی۔ نمازِ ظہر تک مولانا کی تقریر اور    سوال و جواب کا دل چسپ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد مولانا صاحب نے انجینئر عبدالرشید صاحب کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور بھارتی آئین کے تحت کشمیر اسمبلی میں رکنیت حاصل کرنے پر ان کو سراہا۔ علیک سلیک کے بعد ممبر اسمبلی نے مولانا کی توجہ کشمیر کی صورت حال، خاص طور سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حوالے سے ان کا نقطۂ نظر جاننا چاہا۔ مولانا نے مسئلہ کشمیر کا صرف ایک ہی حل بتایا کہ ’’کشمیری ’امن‘ کا راستہ اپنائیں، لیکن اس سے پہلے انھیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ گذشتہ کئی عشروں کے دوران ان کی جد و جہد غلط تھی‘‘۔ عبدالرشید صاحب نے مولانا سے عرض کیا کہ’’ امن کی خواہش کشمیریوں سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتی، لیکن انصاف کے بغیر امن کا قیام کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ ’’انصاف کو امن کے ساتھ جوڑنا آپ لوگوں کی ذہنی اختراع ہے‘‘۔

مولانا صاحب کے بقول: ’’کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازعہ کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں‘‘۔ ممبر اسمبلی نے ان سے سوال کیا کہ ’’جموں وکشمیر کے تنازعے کو تو خود بھارتی لیڈر ہی اقوام متحدہ میں لے گئے تھے، اس میں کشمیریوں کا کیاقصور ہے؟ وہ بے چارے تو صرف وعدہ پورا کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔ یہ بات سننا تھا کہ مولانا صاحب غصّے سے لال پیلے ہوگئے اور ہال چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظارکے بعد ہم بھی وہاں سے واپس چلے آئے۔

انڈین سپریم کورٹ کی طرف سے ۱۹۹۵ءمیں ’ہندو توا‘ کو مذہب کے بجائے بھارتی کلچر کی علامت اور ایک نظریۂ زندگی قرار دینے کے پیچھے مولانا کی سوچ کارفرما تھی۔ ۱۹۹۰ءکے انتخابات میں مہاراشٹرا میں شیو سینا کے لیڈر بال ٹھاکرے [م:۲۰۱۲ء]، منوہرجوشی [پ:۱۹۳۷ء] اور کئی دیگر اراکین کی طر ف سے انتخابی جلسوں میں ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے مذہبی نعرے اور مذہبی شعار کے کھلم کھلا استعمال کرنے پر ’ری پرزنٹیشن آف دی پیپلز ایکٹ ۱۹۵۱ء‘  کے تحت ان کو ناا ہل قرار دیتے ہوئے، انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کی گئی، جس کو بمبئی ہائی کورٹ نے درست قرار دیا۔ لیکن جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچا ، جہاں جسٹس جے ایس ورما [م:۲۰۱۳ء] کی قیادت میں ایک بنچ نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو دمودر ساورکر [م:۱۹۶۶ء]، ایم ایس گولوالکر [م:۱۹۷۳ء]کی تصنیفات سے استدلال کرنے کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ’ہندو توا‘ کو نظریۂ زندگی قرار دے کر ہندو انتہا پسندی کو جواز فراہم کردیا۔

اس کیس کی سماعت کے دوران ہی معروف قانون دان اے جی نورانی صاحب کی دلیل تھی کہ ’’عدالت مولانا وحید الدین خان کی تحریروں کی غلط تشریح کر رہی ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مولانا اگرخود عدالت میں پیش ہو کر یا کسی تحریر کے ذریعے یہ موقف اختیار کریں، تو شاید کورٹ کو  ساورکر یا ایم ایس گولوالکر کو ریفر کرنا پڑے گا‘‘۔ عدالت کا یہ فیصلہ بہت دُور رس اہمیت کا حامل تھا۔ اسی فیصلے نے انتخابی جلسوں میں ’جے شری رام‘ کے نعروں کوجواز بخش کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کیا۔ اگرچہ مولانا وحیدالدین خان صاحب کا نجی محفلوں میں یہ موقف تو تھا کہ ’’میری تحریروں کی غلط تشریح ہو رہی ہے‘‘، لیکن اپنی تحریروں کی درست تعبیروتشریح کے لیے کبھی کوئی عملی قدم انھوں نے کیوں نہیں اٹھایا؟ یہ معاملہ اُن کے دم واپسیں تک ایک راز ہی رہا۔ بقول نورانی صاحب اسی فیصلے کی وجہ سے بطور انعام جسٹس ورما کو دو سال بعد چیف جسٹس اور بعد میں قومی انسانی حقوق کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے مولانا وحیدالدین صاحب کو ۲۰۰۰ء میں تیسرا اعلیٰ سویلین ایوارڈ’پدما بھوشن‘ سے سرفراز کیا۔ جنوری ۲۰۲۱ء میں وزیراعظم نریندر مودی حکومت نے ان کو ’پدما و بھوشن‘ سے نوازا۔

ہندو فسطائی تنظیموں ، خاص طور پر آر ایس ایس کے ساتھ ان کے خاصے دوستانہ تعلقات تھے۔ اگرچہ ایسے سماجی تعلقات رکھنا کوئی غلط بات نہیں ہے، مگر مولانا اس دوستی میں بہت دُور نکل گئے تھے۔ تقریباً بیس برس قبل آر ایس ایس کے ایک چوٹی کے لیڈراور ویشوا ہندو پریشد کے جنرل سیکرٹری پروین بائی توگڑیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار میں نے پوچھا کہ ’’ مسلمان ، جو بھارت کے مکین ہیں، ان کے مستقبل کے بار ے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ تو ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلمانوں سے ہم کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ ’’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ان کا کہنا تھاکہ ’’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں۔ مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ ’’یہ دیکھو، دوسرے مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘‘۔

گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں، ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے ایس سدرشن [م:۲۰۱۲ء] سے ملنے، ان کے صدر دفتر ناگ پور گیا، جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کو کم کرنے کے لیے اُن کے سامنے مسلمانوں کا نقطۂ نظر رکھنا تھا۔اس وفد کے ایک رکن کے بقول ’’جب ہم نے سدرشن صاحب سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ اور کیا رسہ کشی کے ماحول کا جواب، دوستانہ ماحول سے نہیں دیا جاسکتا ہے؟‘‘ تو اس کے جواب میں کے سدرشن صاحب نے مسلم وفد کو بتایا ’’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے ایک شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ لوگ (مسلمان) کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے۔ آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘‘۔ ’اسلام ہی حق ہے‘ کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جانا شروع ہوچکا ہے۔ مگر غور کرنے کا مقام ہے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے خود ایمان کی بنیادوں کا کیا حشر ہوگا! آر ایس ایس کی ایسی فکری یلغار کا جواب دینے کے لیے مولانا وحیدالدین خان صاحب نے کیا کبھی کوئی عملی قدم اُٹھایا؟ یہ بات اسلامیانِ ہند کے علم میں نہیں ہے۔

مولانا وحیدالدین، سہل اور سائنسی اندازِ تحریر اور امن و امان پر زور صرف کرنے کی وجہ سے بھارتی میڈیا کے بھی لاڈلے تھے۔ جب کبھی ادارتی صفحات کے ایڈیٹروں کو اسلام کے حوالے سے مضمون کی ضرورت ہوتی تو ان کی جانب سے حکم ملتا تھا کہ’’ مولانا وحیدالدین سے رابطہ کرکے ان سے مضمون لکھوایا جائے‘‘۔اگر کبھی مولانا کے بجائے میں ان کے فاضل صاحبزادے اور ملّی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب کا نام تجویز کرتا تو ادارتی صفحے کے انچارج پارسا وینکٹیشورا راوہ اور مونوبینا گپتا، انکار کرتے ہوئے مولانا ہی کے مضمون پر اصرار کرتے تھے۔

اپنی تعلیم ختم ہونے کے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھا، تو ایک دن خان صاحب سے درخواست کی کہ اردو اخبار قومی آواز میں رپورٹر کی جگہ خالی ہے، شاید آپ کی سفارش سے کام بن جائے، تو ان کا جواب تھا کہ ’’کبھی اردو اخبار کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’کسی انگریزی اخبار میں اگر چپراسی کی بھی نوکری کرنی پڑے تو اس کو فوقیت دینا‘‘۔ اسی طرح ایک بار علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر سیّد حامد [م: ۲۰۱۴ء] اور مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی [م:۱۹۹۹ء] نے ملک گیر سطح پر چندہ جمع کرکے مسلمانوںکے ایک قومی انگریزی اخبار کی اشاعت کا بیڑا اُٹھایا۔ یہ اخبار پہلے ہفتہ وار One Nation Chronicle اور بعد میں ماہ نامہ کی صورت میں Nation and The World کے نام سے منظر عام پر آکر غروب بھی ہو گیا۔ تاہم، اس کی تیاری کے دوران میں نے اس پرچے میں ملازمت کے لیے مولانا صاحب سے سفارش کی درخواست کی۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’یہ اخبار زیا دہ دیر چلنے والا نہیں ہے۔ بس انگریزی مین اسٹریم میڈیا کا دامن تھام کر جرنلزم کی سیڑھیاں طے کر لو‘‘۔ سوچتا ہوں کہ ان کا مشورہ نہایت ہی مناسب تھا۔

وہ مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ ہوسکتے تھے  اور شاید وہ کوئی بڑا رول بھی ادا کرسکتے تھے، مگر افسوس، اکثر معاملات میں وہ خاصے دُور چلے گئے تھے۔ جس میانہ روی کی و ہ تلقین کرتے تھے، وہ خود ان کے ہاں موجود نہیں تھی۔ کبھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے موقف کی آبیاری کے لیے بی جے پی کے آلۂ کار بنے ہوئے تھے اور اپنے دعووں کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کرتے تھے۔وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ دعا ہے کہ اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرکے، ان کی مغفرت فرمائے۔

جناب وحیدالدین خاں کا انتقال ۲۱؍اپریل ۲۰۲۱ءکو ہوا۔ سانحۂ ارتحال کے اس موقعے پر سبھی حلقے ان کی انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے، تحسینی کلمات ادا کر رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی، جو ۱۹۶۳ء یعنی تقریباً ۶۰برس سے کسی نہ کسی رنگ میں اُن کی تنقید کا نشانہ بنتے آرہے تھے، ان میں سے کسی فرد نے ان کے بارے میں کوئی اختلافی بات نہ کہی، بلکہ اسلامی اخلاقیات اور تہذیب وروایات کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے، ان کے صرف مثبت پہلوئوں کو بنیاد بنایا اور مغفرت کی دُعا کی۔ لیکن معلوم نہیں کیوں، انتقال کے ۲۴گھنٹے گزرنے سے بھی پہلے، جناب وحیدالدین خاں سے فکری قربت اور نیاز مندانہ وابستگی رکھنے والے جاوید احمد غامدی صاحب نے اس موقعے کو اپنے مخصوص ایجنڈے کی تشہیر کا ذریعہ بنانا شروع کیا اور پھر ان کے ہم نوائوں نے سوشل میڈیا و اخبارات میں اور ادارے ’المورد‘ نے بھی اس مصرع طرح پر گرہ لگاکر ’غزل گوئی‘ شروع کر دی۔

جاوید صاحب نے امریکا سے سوشل میڈیا پر اپنا جو پیغام نشر کیا، انھی الفاظ کو تین گھنٹے بعد مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے ٹی وی پروگرام میں مختصراً دہرایا گیا اور پھر وہی پیغام زیادہ مرتب انداز سے، اپنی سرپرستی میں شائع ہونے والے ماہ نامہ اشراق میں بطور اداریہ شائع کیا۔ ملاحظہ کیجیے:

مولانا وحیدالدین خاں ایک بڑی غیر معمولی شخصیت تھے.... میری نسبت تو ان کے ساتھ یہ ہے کہ ہم ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں.... انھوں نے استاذ امام امین احسن اصلاحی سے ان کے ابتدائی دور میں تعلیم پائی اور مجھے یہ شرف استاذ امام کے آخری دور میں حاصل ہوا۔ اُن [یعنی وحیدالدین صاحب] کا بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں جو دین [اسلام] کی سیاسی تعبیر کی گئی ہے، انھوںنے خالص علمی سطح پر اس کی غلطی کی۔ ان کی کتاب تعبیر کی غلطی  کو پڑھ کر آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیسا اعلیٰ درجے کا محققانہ ذوق رکھتے تھے۔ یہ جس کارنامے کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے، یہ بڑا غیر معمولی ہے۔ ہمارے ہاں دین کی ایک تعبیر وہ ہے، جس کو ’صوفیانہ تعبیر‘ کہنا چاہیے۔ اس کے بڑے لوگوںمیں امام غزالی اور آخری زمانے میں شاہ ولی اللہ ہیں۔ اسی طرح ’دین کی سیاسی تعبیر‘ ہے۔ اس کے سب سے بڑے مفکر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ہیں۔ انھوں نے اس کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اِسی کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدّعا و مطلب کو بیان کیا ہے۔[مولانا مودودی پر تنقید کا] یہ ایک بڑا کام ہے جو اُن [خاں صاحب] کے قلم سے صادر ہوا ہے۔ اس وقت بھی میںلوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اگر اعلیٰ درجے کے تنقیدی کام کو دیکھنا چاہیں تو ان کو کتاب تعبیر کی غلطی کو ایک علمی کتاب کی حیثیت سے پڑھنا چاہیے (ماہ نامہ اشراق، مرتبہ:منظورالحسن،مئی ۲۰۲۱ء، ص۴-۶)

یہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ خاں صاحب کے سانحۂ ارتحال پر جاوید صاحب نے کس مبالغہ آمیز طریقے سے ایک پہلو کو اُن کے سارے کام پر حاوی کرکے، اپنے ایجنڈے کی تشہیر کے لیے برتنا ضروری سمجھا۔ یاد رہے، خاں صاحب اور جاوید صاحب کی طرف سے جماعت اسلامی یا مولانا مودودی پر کی جانے والی ’کرم فرمائیوں‘ کا ترجمان القرآن میں کبھی نوٹس نہیں لیا گیا۔ مگر اُن کی جانب سے اٹھائی گئی اس حالیہ مہم کو مدنظر رکھتے ہوئے، چند معروضات پیش کرنا ضروری ہے۔

جاوید صاحب نے یہ بہت سنگین الزام عائد کیا ہے: ’’[دین کی] سیاسی تعبیر... کے سب سے بڑے مفکر مولانا مودودی نے اس [تعبیر یا فکر]کو نہ صرف علمی بنیادیں فراہم کی ہیں، بلکہ اپنے پورے لٹریچر میں اسی [ایک مقصد]کو سامنے رکھ کر قرآن کی تفسیر کی ہے اور احادیث کے مدعا و مطلب کو بیان کیا ہے‘‘(ص۵)۔ گویا کہ جاوید صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جو لکھا، وہ محض اُن کے وہ ذاتی احساسات و خیالات ہیں، جس میں انھوںنے دین اسلام کو محض کسی سیاسی چیز کے طور پر پیش کیا ہے۔

l امر واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی کے ہاں اسلام اپنی جامعیت کے ساتھ ہی جلوہ گر رہا ہے، جسے وہ اسلام کے ایمانی، فکری، عملی اور اطلاقی پہلوئوں کے ساتھ سمجھنے، عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرتےرہے۔ الحمدللہ، اسلام کی اسی کلیّت (totallity)کو انھوںنے دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے اجتناب پر زور دیا۔

l مولانا مودودی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’اسلام کا مقصد صرف اسلامی حکومت قائم کرنا ہے‘‘۔ اسی لیے مولانا مودودی نے سیاق و سباق سے کاٹ کر جملے پیش کرنے والی بیمار ذہنیت کی جڑ کاٹنے کے لیے دستور جماعت اسلامی کی دفعہ ۴کی تشریح کے ذیل میں مستقل طور پر لکھ دیا ہے:

اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے، بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ سےہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے.... ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

l مولانا مودودی کے نزدیک نہ تو کوئی ’صوفی اسلام‘ ہے اور نہ کوئی ’سیاسی اسلام‘ بلکہ وہ پورے اسلام ہی کو اسلام کہتے ہیں اور ایسی تقسیم روا رکھنے کو مطلق جاہلیت سے منسوب کرتے ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں سے مغربی توسیع پسند سامراجی طاقتوں نے اپنی جارحیت کا مقابلہ کرنے والے جاں نثار مسلمانوں کو برے ناموں سے موسوم کرنے کا دھندا شروع کیا، اور اس مقصد کے لیے خود مسلمانوں ہی سے اپنے ہم نوا کارندوں کو طاقت، وسائل اور پشت پناہی سے نوازا۔ مغربیوں نے اس گھنائونے کھیل کے لیے اپنے خلاف کھڑے ہونے اور مزاحمت کرنے والے مسلمانوں کو کبھی ’وہابی اسلام‘ سے منسوب کیا، کبھی ’وحشی اسلام‘ کے ماننے والے کہا اورپھر ’رجعت پسند اسلام‘ کے علَم بردار قرار دیا۔ گذشتہ ۳۰برسوں کے دوران منفی اصطلاح سازی میں تیزی لاتے ہوئے،’غصّے اور انتقام والا اسلام‘، ’انتہا پسند اسلام‘ اور ’بنیاد پرست اسلام‘ سے مربوط کرنا شروع کیا۔ خصوصاً نائن الیون کے بعد، مغربی سامراج اور ان کے دیسی ہم نوائوں نے ہر اس فرد، ادارے اور مزاحم کار کو ’سیاسی اسلام‘ سے موسوم کر دیا، جس نے ان سفاک اور ظالم قوتوں کی خدائی، انسانیت کی تذلیل اور وحشیانہ قتل و غارت گری کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ واضح رہے کہ خود امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کی نسبت سے ’صوفی اسلام‘ کی نمایندگی کا جو دعویٰ جاوید احمد غامدی صاحب نے کیا ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒکی معرکہ آرا کتاب ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں خصوصیت سے اسلامی تاریخ کے جس سانحے کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، وہ اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی ریاست پر بادشاہت کے غلبے کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اسی طرح شاہ صاحبؒ اسلام کے اصل سیاسی نظام کو اسلام کے احیا کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو اسلام کے مجموعی پیغام،حکم اور مزاج کے مطابق مولانا مودودی نے عصرحاضر میں بیان کی ہے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہؒ نے ہندوئوں کی عظیم تر مرہٹہ سلطنت کے قیام کا خطرہ بھانپتے ہوئے، احمد شاہ ابدالی کو ہند پر حملے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں ۱۷۶۱ء میں پانی پت کی تیسری جنگ ہوئی اور مرہٹوں کی پسپائی سے ہندو سلطنت کا خواب بکھر کر رہ گیا۔ کیا کوئی ’صوفی اسلام‘ کا علَم بردار نابغہ، اسلامی نظام سیاست کے موضوع پر لکھتا اور کھلے دشمن کے استیصال کے لیے مسلمانوں کی فوج کو دعوت دیتا ہے؟

lمولانا مودودی نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے،معاشرے میں ہمہ پہلو جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ، خلفائے راشدینؓ اور صلحائے اُمت کے ہاںبکمال وتمام موجود ہے، اور جسے امتداد زمانہ، خصوصاً گوری اقوام کی غلامی کے ماہ و سال نے دھندلادیا تھا۔ اس مقصد کے لیے جہاں مولانا مودودی ایمان کی آبیاری کی طرف متوجہ کرتے ہیں، وہیں توحید کے مفہوم سے آشنائی اور توحید خالص پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ پھر انقلابِ قیادت، تطہیر افکار اور تعمیر کردار کے ذریعے دعوتِ دین کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے ابھارتے ہیں۔ مولانا مودودی، جہاد کے تصورِ اسلام کو روشن الفاظ میں پیش کرتے ہیں اور سامراجی آقائوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کرنے میں کسی مداہنت پسندی، ترمیم پسندی اور بزدلی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ دراصل یہی ہے وہ جرأت مندی، جو مولانا مودودی کو نشانہ بنانے والوں کو بے چین کرتی ہے۔

l مولانا مودودی نے اسلام کو چھوٹے چھوٹے خانوں میں پیش کرنے کے بجائے، اسے جڑ، تنے، ٹہنیوں، پتوں، پھل اور سائے سمیت پیش کیا ہے۔ اس روایت میں تزکیہ نفس بھی آتا ہے اور نظام زکوٰۃ و نظام خدمت عامہ بھی راہ پاتا ہے۔ پھر فتنہ جوئوں کی فکری ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مولانا مودودی کے فکری گلشن میں علم، تحقیق اور دلیل برگ و بار لاتے ہیں۔ نیز نظام معیشت و نظام سیاست اور نظام عدل، گویا عصرحاضر میں اسلامی معاشرے اور ریاست کا خاکہ  جلوہ گر ہوتا ہے۔ چونکہ جدید سامراجی قوتیں، اسلامی ریاست و سیاست کے تصور سے خائف ہیں، اس لیے وہ اسلامی نظامِ حیات سے نسبت رکھنے والوں کو ہدف بنانے پر خاصے وسائل صرف کر رہی ہیں، اور ان کی اس ہمہ پہلو یلغار کا نشانہ مولانا مودودی بھی ہیں۔ بلاشبہہ دشمن کی اس جتھہ بندی کو بہت سے چرب زبان مقرروں کی کمک میسر ہے۔ مگر کاٹھ کی یہ ہنڈیا زیادہ دیر تک چولھے پر چڑھی نہیں رہ سکتی۔ جناب سرسید احمد خاں، مرزا غلام احمد، غلام احمد پرویز وغیرہ کی سالاری میں نام نہاد مذہبیات کا حشر ہمارے سامنے ہے۔

تین مزید باتیں عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:

پہلی بات یہ ہے کہ جاویداحمد صاحب کی جانب سے، مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی شاگردی کا دعویٰ ایک پامال افسانے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ چند درجن دروس میں شریک ہونے سے کوئی فرد، شاگرد نہیں قرار پاتا۔ دینی روایت میں شاگردی اسی وقت منسوب ہوتی ہے، جب استاد خود اپنے اطمینان کے بعد اجازت عطا فرمائے۔ حالانکہ موصوف کے حوالے سے   مولانا اصلاحی صاحب کے ہاں پائی جانے والی بے زاری مولانا سے ملنے والوں پر واضح ہے، جس کا انھوںنے متعدد افراد کے سامنے وقتاً فوقتاً اظہار بھی فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا اصلاحی صاحب نے خود میرے استفسار پر اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان فرمایا۔ یہ بھی عجیب شاگرد ہیں کہ استاد امین احسن اصلاحی صاحب تو تدبر قرآن میں اسلامی ریاست کے اُمور پر معرکہ آرا مباحث لکھیں، اور پھر اسلامی ریاست  کتاب سپردِقلم کریں، اور اس پر ناز بھی کریں، مگر ’شاگرد‘ اسلام میں کسی ریاست کے عملی وجود ہی سے انکار کرے؟ سچ بات ہے کہ مولانا اصلاحی اور مولانا فراہی صاحبان کو جتنا نقصان، جاوید صاحب کے افسانوی دعوائےشاگردی نے پہنچایا ہے، اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ لوگ موصوف کی باتیں، دعوے اور فیصلہ کن فتوے سن سن کر یہ سوچتے ہیں کہ ’’ہر دم تبدیل ہوتے ایک آزاد خیال ’شاگرد‘ کا  یہ حال ہے، تو اس کے استاد یقینا اس سے بھی زیادہ اسلام میںپیوندکاری و تحریف کے رسیا اور ’چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے سننے کو شاگرد کے دعوے ہی کافی ہیں، استادوں کو چھوڑو‘‘۔ اور سچ بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کے فکری قائد اور نسبتی استاد مولانا اصلاحی صاحب نہیں بلکہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب ہی ہیں۔

محترم مولانا وحید الدین خاں صاحب کئی حوالوں سے چونکہ بھارت میں مسلمانوں کی مذمت اور طعنہ زنی سے منسوب رہے ہیں، غالباً اسی لیے بھارتی مقتدر قوتوں کے ہاں وہ قابلِ قدر سمجھے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ۶ستمبر۲۰۱۵ء کو اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA: اسنا) نے اپنے ۵۲ویں سالانہ کنونشن منعقدہ شکاگو میںمولانا وحیدالدین خاں صاحب کو مدعو کیا۔ اس پر امریکا کی یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر ایمریطس صاحب نے ’اسنا‘ انتظامیہ سے دریافت کیا کہ ’’آپ نے خاں صاحب کو کس مناسبت سے دعوتِ خطاب دی ہے، حالانکہ ان کے موقف اور رویے سے خود بھارتی مسلمانوں میں بے زاری پائی جاتی ہے؟‘ جواب میں ’اسنا‘ انتظامیہ نے بتایا:’’یہ ہمارا تجویزکردہ نام نہیں، بلکہ جب ہم نے کنونشن کا پروگرام ترتیب دیا تو امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے فرستادوں نے مقررین کی فہرست دیکھ کر کہا کہ ’ایک مقرر ہماری طرف سے رکھیں‘۔ جب ان سے پوچھا گیا: ’کون صاحب؟‘ تو انھوںنے کہا: ’انڈیا سے وحیدالدین خاں صاحب‘۔ ۲۰۱۶ء کے اکتوبر میں پروفیسر ایمریطس پاکستان آئے تو انھوں نے براہِ راست مجھے یہ تفصیل بتائی۔ اس واقعے سے خاں صاحب کو کسی خانے سے منسوب کرنا مطلوب نہیں ہے، بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ان کی وہ کون سی ادا تھی، جو افغانستان اور عراق میں مسلمانوں پر تباہی و بربادی مسلط کرنے والے امریکی سامراجیوں کو پسند آئی تھی؟

تیسری بات یہ ہے کہ جاوید صاحب کی نسبت سے تحقیق و تجزیہ کے جس بلندمعیار کا بہت شہرہ سنایا جاتا ہے، اس کہانی سے عام آدمی واقعی مرعوب ہوتا ہے۔ لیکن انھوں نے خان صاحب کی جس کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں،اس کتاب پر ایک تبصرہ ہم آیندہ کسی اشاعت میں طبع کریں گے، جس سے موصوف کے ذوقِ مطالعہ اور تحقیقی معیار کی بلندی کے بارے میں خود قارئین اندازہ لگالیں گے۔

’ فیمی نزم‘ کی دوسری لہر (second wave) کو متاثر کرنے والی مشہور فرانسیسی لیڈر  سیمون دی بووار نے کہا تھا کہ ‘ایک عورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ سماجی و معاشرتی تشکیل سے اسےعورت بنا دیا جاتا ہے‘۔ دی بووار کے اس جملےسے یہ تصور ابھرا کہ ’جینڈر اسٹڈیز‘ میں صنف کی اصطلاح کو ’’مردو زن کی معاشرتی اور ثقافتی تشکیل‘‘ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، نہ کہ اس مکمل مرد یا عورت کے تصور کے لیے جس کی بنیاد فطری اور حیاتیاتی جنس پر ہے۔ صنف کے اس نئے تصور کی ترویج وتبلیغ کے لیے ۲۰ویں صدی کے ساٹھ اور ستّر کے عشروں میں حقوقِ نسواں کی تحریک اورفیمنسٹ اسکالروں نے مروجہ تاریخی تصورات میں تبدیلی کا پروگرام بنایا۔ ان کے خیال میں مردو زن کی خصوصیات کے بارے میں صدیوں سے رائج تصورات کو ہدف تنقید بنا کر ان پر سوال اٹھانا اور از سر نو جائزہ لیاجانا ضروری تھا۔ بعد ازاں جب حقوقِ نسواں کے ساتھ ساتھ ہم جنس زدگان اور لزبئین کے حقوق کی بات شروع ہوئی تو فیمنسٹ اسکالروں نے سوچا کہ ’اصناف کا نظریہ‘ کالج اور یونی ورسٹی کےنصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ اس غرض سے جینڈر اسٹڈیز اور ویمن اسٹڈیز کےشعبہ جات قائم کیے گئے اور کئی کورسز متعارف کرائے گئے۔

  • امریکا میں ویمن اورجینڈر اسٹڈیز کے پہلے منظور شدہ نصاب کا آغاز ۱۹۶۹ء میں کارنیل یونی ورسٹی (Cornell University) سے ہوا تھا اور ۱۹۸۰ء کےعشرے میں اسے پورے امریکا میں ترقی اور نشوونما دی گئی۔ پہلا آفیشل پی ایچ ڈی پروگرام ۱۹۹۰ء میں ایموری یون ورسٹی، اٹلانٹا نے شروع کیا تھا اور آج امریکا میں سات سو سے زیادہ اداروں میں اور عالمی سطح پر چالیس سے زیادہ ممالک میں ویمن اسٹڈیز کے کورسز پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ کورسز اور شعبہ جات زیادہ تر ’یو ایس ایڈ‘ اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور وزارتِ ہائے تعلیم کے تعاون سے چلتے ہیں۔

’ فیمی نزم‘ کے جن مفروضات، تصورات و نظریات کا مطالعہ ان کورسز میں کرایا جاتا ہے، ان میں فیمنسٹ تھیوری، سٹینڈ پوائنٹ تھیوری (standpoint theory)، کثیر الثقافتی (multiculturalism)، معاشرتی انصاف (social justice)، بائیو پالیٹیکس (bio-politics)، عبوری حدود سے بلند فیمی نزم (transnational feminism)، چہار رُخی (intersectionality ) مادیت وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اصناف کے درمیان طاقت، شناخت، نسل، جنسی رجحان، سماجی و معاشی طبقات، قومیت، عدم مساوات، معاشرتی اصول اور معذوری کے تعلقات کو مطالعے کا موضوع بنائے جانے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ ان شعبہ جات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ’’یہاں صنف کی معاشرتی و ثقافتی تشکیل کا جائزہ لیتے ہوئے، استحقاق، مراعات اور ظلم و جبر کےنظام کا مطالعہ کیا جاتا ہے‘‘۔

 جینڈر اسٹڈیز مغرب کے نقادوں کی نظر میں

انسانی سماجی زندگی اور صنفین کے درمیان جبر اور ظلم کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے، لیکن ان  اسباب و محرکات کا تعین ایک بہت پیچیدہ اور غیرہموار عمل ہے۔  ویمن اسٹڈیز اور جینڈراسٹڈیز کے مضامین میں طالب علموں کو صرف یہ سکھانا کہ ’’دنیا کو ظلم کی عینک سے کس طرح دیکھنا چاہیے؟‘‘  یہ صرف خطرناک ہی نہیں بلکہ خود ایک ظالمانہ فعل ہے۔ اس سے زیادہ ظلم کی کوئی اور بات نہیں ہوسکتی کہ پروفیسر صاحبان ہر سبق کا مطلب صرف یہ بتا رہے ہوں کہ ’’آپ بحیثیت عورت ایک مظلوم (Victim) ہیں‘‘۔

ٹونی ارکسنن اپنے ایک مضمون بعنوان: ’میں نے ویمن اسٹڈیز کلاس میں کیا سیکھا؟‘ میں لکھتی ہیں کہ فیمنسٹ ماہرین جو موقف اور استدلال تخلیق کر رہے ہیں، وہ سیاسی پروپیگنڈے سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ کسی صنف کو بھی بااختیار بنانے میں ناکام ثابت ہوگا۔ پدرسری نظام کی تھیوری میں بتایا جاتا ہے کہ خواتین پر مردوں کا ادارہ جاتی کنٹرول اور حکومت ہے اور اس کے نتیجے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہر قسم کا ظلم و جبر روا رکھا جاتا ہے۔ لیکن فیمنسٹ اسکالروں کے اپنے حلقوں کے بہت سے لوگ مثلاً کیٹ ملٹ ظلم اور جبر کو صرف صنفی امتیازات کے ساتھ ہی وابستہ نہیں سمجھتی۔ کمبرلی کرینشا نے بھی اس تصور کو چیلنج کیا کہ ’’جبر اور ظلم کا واحد محور صنفی امتیاز ہوتا ہے‘‘۔ اس نے صنفی امتیا ز کے بجائے ظلم و ستم کا محور’نسل پرستی‘ کو قرار دیا۔ ویمن اسٹڈیز میں یہ بات ہرگز نہیں بتائی جاتی کہ ظلم و جبر، تاریخ میں ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ فیمنسٹ ماہرین، ظلم کی تلاش کا کام سائنسی مطالعے کے طور پر نہیں کرنا چاہتے کہ یہ جہاں کہیں نظر آئے اس کی نشان دہی کی جائے بلکہ وہ ہر قسم کے ظلم کو صرف ایک خاص جگہ پر دکھانا چاہتے ہیں۔

  • الزبتھ سگران ایک مشہور مصنفہ ہیں۔ وہ یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصے تک وہیں ویمن اسٹڈیز شعبے میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتی رہیں۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’’ویمن اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹس کھولتے وقت بتایاگیا تھا کہ ’’ان کا مقصد طالب علموں کو اس بات کے لیے تیار کرنا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں پیش آنے والے جنسی مسائل پر مشتعل ہونے یا جذباتی اظہارکرنےکے بجائے علم اور مہارت کی بنیاد پر کیسے نبٹیں‘‘۔[۱]

یہ دعو یٰ کیا گیاتھا کہ ’’ہم ان تمام امور پرطالب علموں کو کھل کر اظہار خیال کا موقع فراہم کریں گے، جو ان کی زندگیوں پر اثر انداز ہو کر پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں، مثلاً رضامندی اور جبر کا تعلق، عصمت دری، مانع حمل و اسقاطِ حمل کے ذرائع وغیرہ‘‘۔

  •  یہ شعبہ جات قائم کرتے وقت یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ ’’یہاں طالب علموں کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں گے کہ وہ جنسی امور میں اپنے ہم جماعتوں کے سامنے بحث و مباحثہ کے بعد ایک دوسرے کی عزّت کرنا سیکھیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی کلاس روم کے اندر حقیقی زندگی کے مسائل پر بحث کرنا ایک دھماکے سے کم نہیں۔ جنسی سیاست، صنفی تعصب و حقارت کے نظریات، جنسی نوعیت کی ثقافتی تعبیر کے بارے میں تجریدی نظریات پر بات کرنا تو بہت آسان ہے، لیکن ایک استاد کی حیثیت سے اس جنسی انقلاب پر بات کرنا، جو نوجوانوں کی زندگی میں عملی طور پر اثر پذیر ہوچکا ہے، بہت مشکل ہے۔ ایسا ارادہ کرتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت استاد اپنی ذمہ داری سے انحراف کر رہے ہیں‘‘۔

’’ دوسری بات یہ ہےکہ یونی ورسٹی انتظامیہ اور قوانین ایک استاد کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کلاس روم میں ذاتی جنسی تجربات اور تعلقات کو موضوع بحث بنائے کیونکہ یہ بحث جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزمات کا دروازہ کھولتی ہے۔ جنسی ہراسانی کی تعریف میں اس زبانی طرزِ عمل کو بھی شامل کر لیا گیا ہے، جو کسی فرد کے لیے ناگواری اور ناپسندیدگی کا باعث ہو۔ جنسی ہراسانی کی یہ تعریف اتنی وسیع ہے کہ جنسی نوعیت کے کسی ذاتی موضوع پر بحث کو ناممکن بنادیتی ہے۔

 جب طالب علموں کے درمیان جنسی خیالات کو علمی طورپر چیلنج کرنے، انھیں وسعت نظری سکھانے کی بات آتی ہے،تو ویمن اسٹڈیز کے اساتذہ کی سخت حوصلہ شکنی کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس لیے اساتذہ اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ نظریاتی بحث میں وقت گزاریں اور کسی عملی پہلو سے پرہیز کریں۔ جب طالب علموں نے صنفی سیاست، فیمنسٹ تحریک سے سیکھنی ہے، جنسی تعلقات ومعاملات میں معاشرے کے غالب رویوں سے متاثر ہونا ہے اور ویمن اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں اس پر کوئی بات نہیں کرنی، تو ان شعبہ جات کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے؟

  •  کرسٹینا میری سمرز ’معاصر فیمی نزم‘ کی معروف نقاد ہیں۔ وہ Who Stole Feminism میں لکھتی ہیں کہ ’’ماڈرن فیمی نزم معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کی بات کرنے کے بجائے صرف جنس اور صنف کے چشمے لگا کر دیکھتا ہے اور اس نے معاشرے کو اصناف کی لڑائی کے ایک اکھاڑے میں تبدیل کر دیا ہے۔ مرد اور عورت کی تفریق اس لیے ابھاری گئی کہ فیمی نزم کے جھنڈے تلے  انھیں ’پدر سری‘ کے انجانے دشمن کے خلاف مہم میں استعمال کیا جا سکے۔ اس وقت امریکا میں فیمی نزم پر خواتین کے ایک خاص گروہ کا غلبہ ہے، جو عوام کو ہر وقت یہ باور کرانے کی کوشش میں ہے کہ امریکی خواتین آزاد مخلوق نہیں بلکہ پدرسری نظام کے تحت مردوں کے جبر اور ظلم کا شکار ہیں‘‘۔ امریکی معاشرے میں اس دعوے کی کوئی حقیقت اور بنیاد نظر نہیں آتی۔
  •  کرسٹینامیری سمرز کے خیال میں ’’یہی وہ لوگ ہیں،جنھوں نے حقوقِ نسواں کی تحریک کو چوری کیا اور خواتین کی فلاح و بہبود کے کام کے بجائے خواتین کو مرد دشمنی پر لگا دیا۔ اس حکمت عملی کے تحت معاشرے کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق کی بات ختم کر دی گئی اور کچھ مخصوص لوگوں نے ذاتی مفادات کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے تعلیم، صنعت اور حکومتی شعبوں میں مراعات حاصل کرلیں۔ بہت سے فیمنسٹ اسکالرز نے سرکاری اور نجی ذرائع سے مالی امداد حاصل کرنے اور تحقیقی مراکز، ویمن اسٹڈی اکیڈیمز، انتظامی امور وغیرہ میں اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں کا اعتراف بھی کیا ہے‘‘۔
  • سمرز، ویمن اسٹڈیز اورجینڈر اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ویمن اسٹڈیز اور جینڈر اسٹڈیز کے پروفیسر صاحبان، مردوں کے خلاف جتنا زیادہ غصہ نکالتےاور جتنی زیادہ اونچی آواز میں رونا روتے ہیں، معاشرے میں خواتین کو اتنی ہی زیادہ مراعات حاصل ہوتی چلی جارہی ہیں‘‘۔ ان مطالعاتی محکموں میں، غلط اعداد و شمار پیش کرنے والے نسائی ماہرین اپنا لبرل ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے آگ بھڑکانے والے ایسے پیغام جاری کر رہے ہیں کہ ’’عورتیں وینس سیارے کی مخلوق نہیں کہ حدت برداشت کر یں، جہنم میں جانے کے اصل حق دار تو مرد ہیں‘‘۔

ویمن اسٹڈیز شعبہ جات صنفی تعصب پھیلا رہے ہیں

  •  کمیل اینا پالیہ معاصر ’فیمی نزم‘ پر اتنی سخت تنقید کرتی ہیں کہ فیمنسٹ حلقے انھیں اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب Provocations میں ویمن اسٹڈیز اور پالیٹکس پر تنقید کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ‘ویمن اسٹڈیز کے مضامین ایسے گروہ کی سیاست رومانوی، جذباتی اور زبانی جمع خرچ پر مبنی ہیں اور ہر روز تبدیل ہونے والے رجحانات کے ساتھ فیشن کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ یہ خواتین کا ایک ایسا مراعات یافتہ طبقہ ہے، جو اپنے ضمیر پر مراعات کے بوجھ کو تو محسوس کرتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا احساس ندامت و شرمندگی، محروم طبقات کو گلے لگانے کے بجائے ان کا مقابلہ کرکےتشفی پاتاہے۔

 ویمن اسٹڈیز کی تعلیم کا ارتکاز صرف ’سیکس ازم‘ اور صنفی تعصب پر ہے۔ ’فیمی نزم‘ میں کام کرنے والی ’’خواتین نہ عام خواتین کی نمایندگی کرتی ہیں اور نہ قومی اور عالمی جذبات و احساسات کی۔ اکیڈیمک فیمنسٹ ماہرین یہ سوچتی ہیں کہ ان کے معصوم اورکتابی کیڑے نما شوہر ہی دنیا بھر میں پائی جانی والی مردانگی کا مثالی نمونہ ہیں۔ جینڈر اسٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ میں خدمات پیش کرنے والے لوگ منظم اجارہ داری (Cartel) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ یونی ورسٹیوں میں خواتین فیکلٹی ممبرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔ زیادہ تر یونی ورسٹیوں میں مستند اساتذہ کا وجود ہی نہیں۔ چند چیئرز پر جو ماہرین تعلیم براجمان ہیں، ان کے زیر نگرانی کیمپس ’نرسری اسکول‘ کا سماں پیش کرتے ہیں۔ یہاں کے طالب علموں کی مثال انکوبیٹر سے پیدا ہونے والے بطخ کے بچوں کی سی ہے، جو ویکیوم کلینر کو بھی دیکھ کر اپنی ماں تصور کرنے لگتے ہیں‘‘۔

 کمیل پالیہ کا دعویٰ ہے کہ ویمن اسٹڈیز میں پڑھانے والوں کی اکثریت اناڑی، لکیر کے فقیر، خوشامدی، یوٹوپیائی، رونے رلانے ،شکوے شکایتیں کرنے اورخفیہ ایجنسی کے کارندوں کی طرح ہوتی ہے۔ اعتدال پسند اور معقول فیمنسٹ اسکالر اس پاپولر فیمی نزم سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، اور وہ اس فاشزم کے سامنے خاموشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ویمن اسٹڈیز سےفیض یاب ہونے والے،اکثر ایک دلدل میں پھنسنے والے افراد ہی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اکیڈیمک فیمنسٹ ماہرین سے مراد ڈھیٹ، خاموش اور ہاں میں ہاں ملانےوالے مردوں اور بڑبڑانے والی عورتوں کا عجیب و غریب گٹھ جوڑ ہے۔ جب اس گروہ کو ویمن اسٹڈیز کے لیے نصاب کی ضرورت پیش آئی تو راتوں رات انھوں نے اختلافات، تعصبات اور الزامات کی توپیں ایجاد کر لیں۔ معاصر خواتین اہلِ قلم کے ناموں کو زبردستی اس حلقے کے ساتھ نتھی کیا گیا اور یونی ورسٹی کی اچھی طالبات کو زبردستی، بہلا پھسلا کر اس میں شامل کیا گیا۔

 مشرقی یورپ میں جینڈر اسٹڈیز شعبہ جات پر تالے

  •  امریکا اور یورپ کے کئی نقاد، ویمن اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹوں پر برسوں سے تنقید کر رہے تھے۔ لیکن ان شعبہ جات کی حقیقت عام لوگوں پر اس وقت عیاں ہوئی، جب اکتوبر۲۰۱۸ء میں ہنگری کی حکومت کی جانب سے جینڈر اسٹڈیز پروگراموں کی منظوری واپس لے کر ان پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہنگری کے وزیر اعظم کے ایک نائب زالٹ سیمجین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ویمن اسٹڈیز اور جینڈر اسٹڈیز کی تعلیم کا کوئی مصرف نہیں کیونکہ یہ ایک نظریہ، آئیڈیالوجی اور بے بنیاد مفروضات ہیں کوئی سائنسی علم نہیں۔ لیبر مارکیٹ میں اس کی طلب صفر کے برابر ہے۔ اس لیے یونی ورسٹیوں میں اسے بطور مضمون پڑھانے کا کوئی مقصد نہیں‘‘۔

’’ان شعبہ جات کے گریجویٹس کو کوئی جاب دینے کو تیار نہیں۔ اس لیے ان پر وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ طالب علموں کے داخلے نہ ہونے کے برابر ہیں اور خواہ مخواہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ان شعبہ جات پر ضائع ہورہا ہے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہنگری کی حکومت اس بات کی قائل ہے کہ’’ مغربی یورپ میں مذہبی اور روایتی معاشرہ زوال پذیر ہے۔ وہاں اب خاندان، کنبہ، وطن اور قوم جیسی بنیادی اقدار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ اور اس سارے عمل میں فیمنسٹ تحریک کی صنفی مساوات اور جنسی انحراف نے تمام معمولات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مغربی یورپ کے نوآبادیاتی ذہن رکھنے والے ممالک چاہتے ہیں کہ مشرقی یورپ میں بھی وہی صورتِ حال پیدا ہو‘‘۔

اس سے قبل ۲۰۱۵ء میں فیڈز پارٹی (Fidesz Party) کے بانی رہنما لیزلا کوویر (Laszlo Kover) نے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ ’’ہم، صنف کا جنون اور پاگل پن نہیں پالنا چاہتے۔ ہم اپنے ملک ہنگری کو مردوں سے نفرت کرنے والی خواتین کی آماج گاہ نہیں بنانا چاہتے۔ ہم ایسے مرد نہیں چاہتے جو اپنی مردانگی سے دست بردار ہو کر پوری زندگی عورتوں کے خوف کے سائے میں رہتے ہوئے، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔ ہم ایسے والدین نہیں چاہتے، جو خاندان اور بچوں کو اپنی نفسانی و جنسی خواہشات اور عیاشی کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ سمجھیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کی بیٹیاں اس بات کو سمجھیں کہ انسان کی ذات اس وقت مکمل ہوتی ہے، جب اس کی شادی ہو، اس کا گھر بسے، اس کے بچے، پوتے، پوتیاں ہوں، وہ اپنی زندگی خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی گزارے اور یہ سلسلہ اسی طرح آگے رواں دواں رہے‘‘۔

  •  ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے میڈیا کو بتایا کہ ’’حکومت اور ہنگری کے عوام کا موقف ہے کہ تمام انسان، مرد یا عورت کے طور پر پیدا ہوتے ہیں اور ان کی جنس وہی ہوتی ہے جو قدرت کی طرف سے انھیں فطری طور پر عطا ہوتی ہے۔ ہم حیاتیاتی جنس کے علاوہ سماجی طور پر تشکیل پانے والی کسی صنف کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہمیں اس پر بات کرنا قابلِ قبول ہے‘‘۔ چنانچہ حکومت نے ہنگری کی د وبڑی یونی ورسٹیوں میں چلنے والے جینڈر اسٹڈیز کے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی پروگرامز کے لیے مختص فنڈز منسوخ کر دیئے۔ اس پابندی کے خلاف مقامی اور عالمی فیمنسٹ لابی نےشور مچاتے ہوئے اسے جمہوریت اور لبرل ازم پر حملہ قرار دیا۔ جینڈر اسٹڈیز کے ان پروگرامز میں بیس سے بھی کم طالب علم تھے، لیکن فیمنسٹ لابی نے دیگر شعبہ جات کے طالب علموں کو پکڑ دھکڑ کر اپنے احتجاج میں شریک کیا اور حکومت کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے فحش گالیاں دیں۔ فیمنسٹ لابی کی ایما پر یورپی یونین نے بھی ہنگری کے وزیر اعظم کو سزا دینے کے حق میں ووٹ ڈالا۔

اسی طرح جون ۲۰۲۰ء میں رومانیہ میں بھی ایک قانون کے ذریعے تعلیمی اداروں کو صنفی شناخت پر مبنی نظریات اور رائے کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی، جس کے تحت صنفی تصور کو حیاتیاتی جنسی تصور سے الگ مانا جاتا ہے۔ رومانیہ اور ہنگری کے ان اقدامات کے خلاف انسانی حقوق کے گروپوں نے بہت واویلا کیا کہ ان ممالک کے یہ اقدامات انھیں قرون وسطیٰ میں پہنچا دیں گے۔

اٹلی میں جب صنفی امتیاز کے حوالے سے اسکولوں میں ایک سوال نامہ پُر کرانے کی تجویز پیش ہوئی تو کئی سیاسی جماعتوں نے اسے صنفی تعصب قرار دیتے ہوئے اس کی کھلی مذمت کی، اور ایک اخبار Daily La Verita نے اسے صنفی پاگل پن کا نظریہ قرار دیا۔ اس کے بعد اٹلی کے وزیرتعلیم کو یہ سوالنامہ واپس لینا پڑا۔ اگست ۲۰۱۸ میں بلغاریہ میں اسکولوں میں صنفی مساوات کے بارے میں یونیسکو کے ایک پروجیکٹ پر وزارت تعلیم نے پابندی عائد کر دی۔

  •  مشرقی یورپ کے تمام ممالک میں جینڈر اسٹڈیزکے تحت چلنے والے پروگراموں کی مخالفت پر مضبوط آواز پائی جاتی ہے، لیکن ہر ملک میں اس کی نوعیت ذرا سی مختلف ہے۔ مشرقی جرمنی میں جینڈر اسٹڈیز کو ایک آئیڈیالوجی سمجھا جاتا ہے۔ ایسٹونیا کی کئی ویب سائٹس صنفی نظریے کو اشتراکیت اور مارکسیت سے تقابل اور تماثل کرتے ہوئے مضامین شائع کرتی ہیں۔

یورپ کے وہ ممالک جہاں انگریزی زبان نہیں بولی جاتی، وہ صنف،جینڈر کی اصطلاحات کو مغربی یورپ کی تخلیق کردہ سازش تصور کرتے ہوئے اس سےنفرت کرتے ہیں، کیونکہ ان کی اپنی زبانوں میں یہ اجنبی تصورات موجود نہیں۔ پولینڈ میں ان اصطلاحات کو غیر ملکی اور درآمد شدہ تصور کیا جاتا ہے۔ وارسا یونی ورسٹی کے پروفیسر اگنسز کگراف کا کہنا ہے کہ ’’یہ لفظ غیر ملکی ہے اور اس کا مقصد مقامی ثقافت میں زہر گھولنا ہے‘‘۔ ۲۰۰۰ء کے عشرے سے ویٹی کن صنفی نظریہ کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے اور اس خیال کو رد کرتا ہے کہ اصناف کی تشکیل معاشرتی عوامل اور قوتیں کرتی ہیں۔ ۲۰۱۶ء میں پوپ فرانسس نے اس نظریے کو نوآبادیاتی نظام کا حیلہ قرار دیا۔ پولینڈمیں ایک پارٹی کے رہنما کینزنسکی نے صنفی نظریے کو خاندان اور بچوں پر براہِ راست حملہ قرار دیا۔

  •  ویمن اسٹڈیز میں پڑھائی جانے والی فیمنسٹ آئیڈیالوجی کا سائنس اور علم سے کوئی واسطہ نہیں۔پیسا یونی ورسٹی کے پروفیسر اور جوہری سائنس دان الیسنڈرو اسٹرومیا نے ۲۸ ستمبر ۲۰۱۸ء کو ایک خطبے میں کہا کہ فیمی نزم کے عقائد کے پرچار کے لیے جو ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں ان میں بتایا جاتا ہے کہ مرد صنفی تعصب و سیکس ازم کا شکار ہیں اور وہ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں، اور عورتوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ نشانہ ہیں حالانکہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔

پروفیسر اسٹرومیا نے مزید کہا کہ ’’فزکس اور دیگر سائنسز میں مردوں کا کام زیادہ ہے۔ آج تک فزکس میں خواتین نے صرف تین نوبل انعام جیتےہیں اور مردوں نے ۲۰۷‘‘۔[۲]

 اس بیان کے فوری بعد انھیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ ان کے خلاف ۱۶۰۰ سائنس دانوں نے ایک پٹیشن میں لکھا کہ ’’پروفیسر اسٹرومیا کے دلائل فیمنسٹ اخلاقیات کے تحت قابلِ مذمت ہیں اور سفید فام خواتین سائنس دانوں کی صلاحیتوں پر سوال اٹھانے کا عمل شرمناک فعل ہے‘‘۔ پروفیسر اسٹرومیا نے تو صرف اعداد و شمار اور حوالہ جات سے متعلق کہا کہ ’’فزکس میں خواتین کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا اور صنف سے قطع نظر میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیں‘‘۔ لیکن ان کے خلاف فیمنسٹ لابیز کی طرف سے جو رد عمل ظاہر کیا گیا وہ سراسر تعصب، ، ناانصافی، جنسی فاشزم، سائنس دشمنی اور ا س امتیازی عقیدے پر مبنی تھا کہ ’’ہر شعبے میں میرٹ کو مد نظر رکھے بغیر لازمی طور پر ۵۰ فی صد خواتین کوشامل کیا جانا چاہیے اور اس عمل کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دینا چاہیے‘‘۔

  •  ایک امریکی اسکالر مارگریٹالیون کا کہنا ہے کہ ’’آج کے مغرب میں فیمنسٹ آئیڈیالوجی نے تعلیمی اور علمی آزادی کو مجروح کر دیاہے۔ پچاس، ساٹھ سال قبل اعلیٰ تعلیم کی درس گاہیں ایک کھلی ثقافت کا منظر پیش کرتی تھیں، جہاں طلبہ اور پروفیسر بہت سے مختلف معاشرتی اور سیاسی نقطۂ نظر،  آرا ،اقدار اور نظریات پر بحث مباحثہ کرتے تھے۔ لیکن اب یونی ورسٹیاں ایک بند ثقافت میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ کچھ خاص نظریات، عقائد اور اقدار کو اپنا لیا گیا ہے اور دیگر کو خارج کر دیا گیا ہے اور جب بھی کوئی متبادل نظریات، دلائل، شواہد کی بات کرتا ہے تو اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے‘‘۔
  •  جو چیز ’علوم‘ کو ’سائنسی‘ بناتی ہے، وہ صرف یہ نہیں کہ یہ علوم متعلقہ ثبوت اکٹھا کرتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ صرف مفروضے کی حمایت کرنے والے ثبوتوں پر غور نہیں کیا جاتا بلکہ ہر قسم کے ثبوتوں پر غور کیا جاتا ہے۔ جب ثبوت کسی مفروضے کے خلاف جاتے ہیں تو مفروضے کو یا تو ان مخالف شواہد کا جواب دینا پڑتا ہے، ورنہ وہ مفروضہ مسترد کر دیا جاتا ہے۔
  •  لیکن سائنسی علوم کے برعکس فیمنسٹ ریسرچ کی ابتدا اس مفروضے اور دعوے سے ہوتی ہے کہ’’ عورتیں جسمانی طور پر مردوں کے برابر مضبوط ہوتی ہیں، لیکن مرد کا شکار ہوتی ہیں‘‘، اور تمام فیمنسٹ تحقیق کار ہمیشہ یہی وضاحت کرتی ہیں، اور ہمیشہ ہر متبادل کومسترد کر دیا جاتا ہے۔  فیمی نزم میں جس قسم کی حکمت عملی استعمال کی جاتی ہے، وہ اس مفروضے سے شروع ہوتی ہے کہ کچھ سچائیاں پہلے سے طے شدہ اورعیاں ہیں۔ پھر ایسی مثالیں تلاش کی جاتی ہیں یا وضع کی جاتی ہیں، جو ان مفروضوں کی سچائیوں کی شکل میں تفہیم کر سکیں۔ یہ خود اثباتی کی حکمت عملی ہوتی ہے، جو تصدیق کے تعصب کو ادارہ جاتی جہت دیتی ہے۔ یہ ذاتی آراء پر مبنی ایک ایسی حکمت عملی ہوتی ہے، جس میں ثبوت کی ہر منتخب شکل مفروضوں کی تصدیق کرتی ہے۔اس حکمت عملی کو استعمال کرنے والا’فیمی نزم‘ سائنس تو کیا کسی عام علم کے درجے پر بھی پورا نہیں اترتا۔

 فیمنسٹ ماہرین، فیمی نزم کو ’سائنس‘ ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے حیلے آزما رہےہیں اور بلند بانگ دعوے کررہے ہیں لیکن فیمی نزم نہ سائنس ہے اور نہ سوشل سائنس سے اس کا کوئی واسطہ ہے۔ یہ تعصب پر مبنی عقائد کا ایک نظام ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ ایک آئیڈیالوجی تو کہہ سکتے ہیں، لیکن اس کا شمار علوم میں نہیں ہوتا کیونکہ علم میں تحقیق، مشاہدات اور ثبوتوں سے پہلے دعوے نہیں کیے جاتے۔ علم کےحصول میں سوال اس طرح اٹھائے جاتے ہیں کہ ان کے جوابات تلاش کیے جاسکیں، بجائے اس کے کہ پہلے سے موجود جوابات کو سوالوں کے ساتھ فٹ کیا جائے۔ علم میں مفروضوں کو ثبوتوں کے ذریعے پرکھا جاتا ہے اور اگر یہ ثبوتوں کے مطابق پورے اتریں تو انھیں عارضی طور پر قبول کیا جاتا ہے ورنہ مسترد کر دیا جاتا ہے۔

لیکن فیمنسٹ آئیڈیالوجی تو چند اقدار کےساتھ ایک مذہب اور عقیدے کی طرح چمٹی ہوئی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ جس قدر (Value)کی وہ حمایت کرتے ہیں وہ زیادہ اہم ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر قدر کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر کبھی آزادی اور مساوات میں مطابقت نہ ہو اور دونوں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہوجائیں تو پھر ایک کے بڑھنے کا مطلب دوسرے کی کمی ہوگی اور پھر دونوں میں سے ایک کا انتخاب دوسرے کی قیمت پر کرنا پڑے گا۔ ایک کو اپنانے کے لیے دوسرے کی قربانی دینی پڑے گی۔ اسی صورتِ حال میں اپنی پسند کی قدر پر ضد کرنے والوں کا سائنس سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، انھیں فیمنسٹ عقائد کے متعصب بریگیڈ ہی کہا جائے گا۔

 _______________

حواشی

۱-    پاکستان بھی ’ترقی کی اس دوڑ‘ میں پیچھے نہیں ہے:l  ۹ یونی ورسٹیاں بی ایس ’جینڈر اسٹڈیز‘ کرا رہی ہیں ، جن میں شامل ہیں: اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور، بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی ملتان، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، فاطمہ جناح یونی ورسٹی لاہور، فاطمہ جناح یونی ورسٹی راولپنڈی، یونی ورسٹی آف پشاور، ویمن یونی ورسٹی صوابی، یونی ورسٹی آف سندھ، شاہ عبداللطیف یونی ورسٹی خیرپورl دو یونی ورسٹیوں میں بی ایس ’لبرل اسٹڈیز‘ کا شعبہ ہے، جن میں بیکن ہاؤس یونی ورسٹی، لاہور اور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی، لاہور شامل ہیں۔ lکراچی یونی ورسٹی ’ویمن اسٹڈیز‘ کے عنوان سے ، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی ’جینڈر اینڈ ویمن اسٹڈیز‘ اور لاہور کالج فار ویمن یونی ورسٹی’جینڈر اینڈ ڈویلپمنٹ‘ میں داخلہ دیتی ہے۔ (بشکریہ Eduvision :ادارہ)

۲-    مغرب میں عورت کے ’خلاف تعصب‘ نہیں بیان کیا جاتا اور ’شانہ بشانہ‘ کا درس دیا جاتا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق حسب ذیل چار خواتین نے فزکس کے ’نوبیل پرائز‘ لیے: lپولینڈ/فرانس کی میری سلومیا کیوری (م: ۱۹۳۴ء) نے ۱۹۰۳ء میں، lامریکا کی ماریہ جیوپرٹ مایر (م: ۱۹۷۲ء) نے ۱۹۶۳ء میں lکینیڈا کی رونا تھیواسٹریکلنڈ (پ:۱۹۵۹ء) نے ۲۰۱۸ء میں lامریکا کی اینڈریا میاگز (پ: ۱۹۶۵ء) نے ۲۰۲۰ء میں۔ ادارہ

منگول افواج نے ۱۳ دن سے بغداد کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ جب مزاحمت کی تمام اُمیدیں دم توڑ گئیں تو ۱۰ فروری ۱۲۵۸ء کو فصیلِ شہر کے دروازے کھل گئے۔ ۳۷ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ اپنے وزرا اور امرا کے ہمراہ مرکزی دروازے سے برآمد ہوئے اور ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ہلاکو [م:۱۲۶۵ء ]نے خلیفہ کے سوا تمام اشرافیہ کو وہیں تلوار سے موت کے گھاٹ اتار دیا اور منگول دستے ام البلاد بغداد میں داخل ہو گئے۔

اس کے اگلے چند دن تک جو ہوا اس کا کچھ اندازہ مؤرخ عبداللہ وصاف شیرازی کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے: ’’وہ شہر میں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے، اس طرح جیسے غضب ناک بھیڑیے، بھیڑوں پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیے گئے۔ حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی۔ '

دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد بغداد، الف لیلہ کی شہرزاد کا شہر، خلیفہ ہارون الرشید [م: ۸۰۹ء] اور مامون الرشید [م:۸۳۳ء]کے قائم کردہ دارالترجمہ کا شہر تھا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں مترجموں کو کتابیں تول کر سونا بطور معاوضہ دیا جاتا تھا۔ یہ دل کشا مسجدوں، وسیع کتب خانوں، عالی شان محلات، سرسبز باغات، پُررونق بازاروں، علم افروز مدرسوں اور پُرتعیش حماموں کا شہر تھا۔ اس بات کا درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اس قتلِ عام کا شکار ہوئے۔ مؤرخین کا اندازہ  دو لاکھ سے زیادہ ہے، جو تلوار، تیر یا بھالے کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔

تواریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ: بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی دوران جب عظیم الشان شاہی محل کو آگ لگائی گئی تو اس میں استعمال ہونے والے آبنوس اور صندل کی قیمتی لکڑی کی خوشبو آس پاس کے علاقے کی فضاؤں میں پھیلی بدبو میں مدغم ہو گئی ہو گی۔

کچھ اسی طرح کا منظر دریائے دجلہ میں بھی دیکھنے میں آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اساطیری دریا کا مٹیالا پانی پہلے چند دن سرخ بہتا رہا اور پھر سیاہ پڑ گیا۔ سرخی کی وجہ وہ خون تھا، جو گلیوں سے بہہ بہہ کر دریا میں شامل ہوتا رہا اور سیاہی اس وجہ سے کہ شہر کے سیکڑوں کتب خانوں میں محفوظ نادر نسخے دریا میں پھینک دیے گئے تھے اور ان کی سیاہی نے گھل گھل کر دریا کی سرخی کو ماند کر دیا۔

ہلاکو خان نے ۲۹ جنوری ۱۲۵۷ء کو بغداد کا محاصرہ کرتے ہی خلیفہ مستعصم کو لکھا: 'لوہے کے سوئے کو مکا مارنے کی کوشش نہ کرو۔ سورج کو بجھی ہوئی موم بتی سمجھنے کی غلطی نہ کرو۔ بغداد کی دیواریں فوراً گرا دو۔ اس کی خندقیں پاٹ دو، حکومت چھوڑ دو اور ہمارے پاس آ جاؤ۔ اگر ہم نے بغداد پر چڑھائی کی تو تمھیں گہری ترین پاتال میں پناہ ملے گی نہ بلند ترین آسمان میں۔ '

۳۷ ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کی وہ شان و شوکت تو نہیں تھی، جو ان کے عظیم الشان اجداد کے حصے میں آئی تھی، لیکن پھر بھی مسلم دنیا کے بیش تر حصے پر ان کا سکّہ چلتا تھا اور خلیفہ کو زعم تھا کہ اس پر حملے کی خبر سن کر مراکش سے لے کر ایران تک کے سبھی مسلمان ان کے سامنے سینہ سپر ہوجائیں گے۔

چنانچہ خلیفہ نے ہلاکو کو جواب میں لکھا: '’’نوجوان، دس دن کی خوش قسمتی سے تم خود کو کائنات کا مالک سمجھنے لگے ہو۔ جان لو کہ مشرق تا مغرب اہلِ ایمان میری رعایا ہیں۔ سلامتی سے لوٹ جاؤ‘‘۔ '

ہلاکو خان اور اس کے سپاہی پچھلے چار عشروں کے دوران اپنے آبائی وطن منگولیا سے نکل کر چار ہزار میل دور تک آ پہنچے تھے اور اس دوران معلوم دنیا کے بڑے حصے کو اپنا مطیع بنا چکے تھے۔ بغداد پر حملے کی تیاریوں کے دوران نہ صرف ہلاکو خان کے بھائی منگوقآن نے تازہ دم دستے بھجوائے تھے بلکہ آرمینیا اور جارجیا سے خاصی تعداد میں مسیحی فوجی بھی آن ملے تھے، جو مسلمانوں سے صلیبی جنگوں میں یورپ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بےتاب تھے۔

منگول فوج تکنیکی لحاظ سے بھی کہیں زیادہ برتر اور جدید ٹکنالوجی سے بہرہ ور تھی۔ منگول فوج میں چینی انجینیروں کا یونٹ تھا جو منجنیقوں کی تیاری اور بارود کے استعمال میں مہارت رکھتا تھا۔ بغداد کے شہری آتش گیر مادے نفتا سے واقف تھے، جسے تیروں سے باندھ کر پھینکا جاتا تھا، لیکن بارود کے گولوں سے ان کا کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔

اس زمانے کا بارود آہستگی سے جلتا تھا، لیکن منگولوں نے اس میں یہ جدت پیدا کی، اسے لوہے یا پکائی گئی مٹی کےمٹکوں میں رکھ دیتے تھے، جس سے وہ دھماکے سے پھٹ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ منگولوں نے دھویں کے بم بنانے میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔

ان کی منجنیقوں نے شہر پر آتشی بارش برسانا شروع کر دی۔ یہی نہیں، منگولوں نے فصیل کے نیچے باردو لگا کر اسے بھی جگہ جگہ سے توڑنا شروع کر دیا۔ بغداد کے باسیوں نے یہ آفت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ابھی محاصرے کو ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ خلیفہ نے ہلاکو خان کو بھاری تاوان ادا کرنے اور اپنی سلطنت میں جمعے کے خطبے میں اس کا نام پڑھنے کی شرط پر صلح کی پیش کش کی، لیکن ہلاکو کو فتح سامنے نظر آ رہی تھی، اس نے یہ پیش کش فوراً ہی ٹھکرا دی۔ آخر ۱۰ فروری کا دن آیا جب خلیفہ نے شہر کے دروازے منگولوں کے لیے کھول دیے۔

ہلاکو شروع میں خلیفہ کو یہ باور کرواتا رہا جیسے وہ بغداد میں اس کا مہمان بن کر آیا ہے۔ خلیفہ مستعصم کی ہلاکت [م: ۲۰ فروری ۱۲۵۸ء]کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں، تاہم زیادہ قرینِ قیاس نصیر الدین طوسی [م: ۱۲۷۴ء]کا بیان ہے، جو اس موقعے پر موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا:’’ 'کھاؤ‘‘۔ '

مستعصم باللہ نے کہا: ’’ہیرے کیسے کھاؤں؟ ‘‘

' ہلاکو نے جواب دیا: ’’اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا‘‘۔ '

عباسی خلیفہ نے جواب دیا: ’’خدا کی یہی مرضی تھی‘‘۔ '

ہلاکو نے کہا: '’’اچھا، تو اب میں جو تمھارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں، وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔ اس نے خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا دیے تاکہ زمین پر خون نہ بہے‘‘۔

بغداد کی بنیاد مستعصم باللہ کے جد ابوجعفر بن المنصور [م: ۷۷۵ء] نے ۷۶۲ء میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب رکھی تھی۔ صرف چند عشروں کے اندر اندر یہ بستی دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین شہروں میں شامل ہو گئی۔ ایک تحقیق کے مطابق ۷۷۵ء سے لے کر ۹۳۲ء تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کے علاوہ اسے ۱۰ لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ہند سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر علمی سرگرمیوں سے معمور ہو گیا۔ نویں صدی میں بغداد کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔

دارالترجمہ بیت الحکمت میں یونانی، لاطینی، سنسکرت، سریانی اور دوسری زبانوں سے کتابیں ترجمہ ہونے لگیں۔ یہی کتابیں صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور انھوں نے یورپ کی نشات ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا۔ الجبرا، ایلگوردم، الکیمیا، زینتھ، الکوحل وغیرہ جیسے درجنوں الفاظ بغداد کے اسی سنہرے دور کی دین ہیں۔

بغداد میں بسنے والی چند مشہور ہستیوں کے نام بھی دیکھ لیجیے: جابر بن حیان (جدید کیمسٹری کا بانی)، الخوارزمی (الجبرا کا بانی)، الکندی اور الرازی (مشہور فلسفی)، الغزالی (مشہور صوفی مفکر)، ابونواس (عظیم عربی شاعر)، شیخ سعدی،(عظیم فارسی شاعر)، زریاب (مشہور موسیقار)، طبری (مشہور تاریخ دان)، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام ابو یوسف (ائمہ و فقہا)۔

آج سے ۷۶۲ برس قبل بغداد پر چلنے والی اس ناگہانی منگول آندھی نے میسوپوٹیمیا کی ہزاروں سالہ تہذیب کے قدم ایسے اکھاڑے کہ وہ آج تک سنبھل نہیں پائی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد سے آج تک دوبارہ کوئی مسلم شہر بھی بغداد کی شان و شوکت کے عشرِ عشیر تک نہیں پہنچ سکا۔

بعض ماہرین نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب صرف اسی وجہ سے پھل پھول سکی کہ منگولوں نے اس وقت کی برتر مسلم تہذیب کو تباہ کر کے مغرب کے لیے راستہ ہموار کر دیا تھا۔

تلاوت ِ قرآن کے آداب

سوال : کسی تقریب میں یا بالخصوص کہیں بھی اسٹیج پر قاری حضرات قرآنِ مجید کی جب تلاوت کرتے ہیںتو بعض اوقات رُموزِ اوقاف، مثلاً: لا، یا  م یا ط کا خیال نہیں کرتے اور جوشِ قرأت میں بآوازِ بلند پورے زور سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے چلے جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک تقریب میں ایک قاری صاحب نے سورۃ الضحیٰ کی تلاوت کی۔ شروع میں پہلی آیت پروقفہ کیا۔ پھر اکٹھی پہلی دو آیات پڑھ کر سانس لیا۔ پھر اکٹھی پہلی تین آیات پر رُک کر سانس لیا،حتیٰ کہ آخری بار پوری گیارہ آیات یعنی پوری سورت تلاوت کرکے سانس لیا۔ لطف یہ کہ سامعین کا تحسین و آفرین ’سبحان اللہ‘ وغیرہ کا سلسلہ بھی بلندتر ہوتا چلا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی طرزِتلاوت واقعی قابلِ تحسین ہے؟ کیا حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یا آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں اس طرح کی تلاوت کی مثالیں ملتی ہیں؟ ہمیں توپڑھایا گیا تھا کہ آیات کو الگ الگ کرکے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ براہِ کرم اس سلسلے میں رہنمائی فرمادیں۔

جواب: قرآن مجید کی تلاوت کا مقصود اس میں غور و فکر ، تدبّر و تفکّر اور عبرت پذیری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے ٹھیر ٹھیر کر پڑھا جائے ۔ جلدی جلدی پڑھنے سے یہ مقصود حاصل نہیں ہوسکتا۔ جو شخص قرآن کو بغیر سمجھے بوجھے پڑھ رہا ہو اسے بھی ٹھیر ٹھیر کر پڑھنا چاہیے، اس لیے کہ یہ تلاوت ِ قرآن کے آداب میں سے ہے۔

سورۂ مزّمّل بعثت ِ نبویؐ کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے جہاں یہ فرمایا ہے کہ رات کا بیش تر حصہ، یا نصف ، یا اس سے کچھ کم بیدار رہ کر نماز پڑھا کرو، وہیں اس کا یہ بھی ارشاد ہے:

وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا۝۴ۭ(المزّمّل۷۳:۴) اور قرآن کوخوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔

’ترتیل ‘ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کی جائے کہ اس کا ایک ایک حرف ، ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت الگ الگ ہو ۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام ِ الٰہی کے مفہوم و مدّعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات وصفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت وہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات ِ تشکّر سے لب ریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے، یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے؟ غرض یہ قراء ت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں ،بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ (تفسیر سورۂ مزّمّل، حاشیہ ۴، تفہیم القرآن، ج۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہدایت ِ ربّانی پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا ۔ چنانچہ متعدد صحابہؓ و صحابیاتؓ نے بیان کیا ہے کہ آپؐ کس طرح تلاوت ِ قرآن کیا کرتے تھے ؟

اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں:

اِنَّ قِرَاءَ ۃَ النَّبِيِّ ....قِرَاءَ ۃً  بَطِیْئَۃً (احمد:۲۶۷۴۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سست رفتاری سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔

دوسری روایت میں ہے:

اِنَّ النَّبِيَّ   کَانَ  یُقَطِّعُ قِرَاءَ تَہٗ ( ترمذی:۲۹۲۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت میں الفاظ الگ الگ ہوتے تھے۔

بعض دیگر روایتوں میں ہے کہ انھوں نے مثال دے کر آپؐ کا طریقۂ تلاوت سمجھایا۔ انھوں نے فرمایا:

کَانَ رَسُوْلُ اللّہِ یُقَطِّعُ قِرَاءَ تَہٗ ، یَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ ، ثُمَّ یَقِفُ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ ، ثُمَّ یَقِفُ، وَ کَانَ یَقرَؤھَا مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ (ابو داؤد:۴۰۰۳ ، ترمذی : ۲۹۲۷)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے۔ مثلاً اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ پڑھ کر رک جاتے ، پھر الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ پر ٹھیرتے، اس کے بعد رُک کر مٰلک یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ِ خاص حضرت انس بن مالک ؓ سے سوال کیا گیا کہ آپؐ کیسے قرآن کی تلاوت کرتے تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا: کَان یمدُّ مدّاً (بخاری: ۵۰۴۵)’’آپ ؐ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے‘‘۔

دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے مثال کے طور پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپؐ اللہ ، الرحمٰن ، الرحیم کو مَد کے ساتھ پڑھتے تھے۔

بعد میں علما نے تجوید کے قواعد و ضوابط وضع کیے اور رموز ِ اوقاف متعین کیے،چنانچہ مصاحف کی طباعت ان رموز کے ساتھ ہونے لگی ، تاکہ لوگ درست طریقے سے قرآن کی تلاوت کر سکیں۔ تلاوت ِ قرآن کے دوران میں ان قواعد کی پابندی اور رموزِ اوقاف کی رعایت ضروری ہے۔ مشہور ماہر قراء ت امام ابن الجزری (م:۸۳۳ھ) کا شعر ہے:

وَالْأَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ حَتْمٌ لَازِمٌ
مَن لَّمْ یُجَوِّدِ الْقُرْآنَ آثِمٌ

(قواعد ِ تجویدکی رعایت کرتے ہوئے قرآن کی تلاوت کرنا انتہائی ضروری ہے۔جو شخص قواعد ِ تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے)۔

رہا یہ سوال کہ جو شخص قرآن پڑھتے ہوئے آداب ِ تلاوت کی رعایت نہ کرے اور ایک سانس میں کئی آیتیںیا پوری چھوٹی سورت پڑھ لے، اس کا کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں علما نے کہا ہے کہ اگر حروف کے مخارج درست ہوں اور معنٰی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے، البتہ افضل کے خلاف ہے۔بعض علما اسے مکروہ قرار دیتے ہیں۔دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء سے یہ سوال کیا گیا :’’ قرآن مجید پڑھتے ہوئے بہت ساری جگہوں پر وقف اور وقف ِ لازم ہوتا ہے۔ وقف کرتے وقت اگر ہم آخری حرف کو سکون دیں ، لیکن نئی سانس نہ لیں اور قرآن پڑھنا جاری رکھیں تو کیا یہ جائز ہے ؟ اگر جائز نہیںہے تو کیا حرام ، مکروہ تحریمی یا مکروہ تنزیہی ہے؟‘‘ تو اس کا یہ جواب دیا گیا: ’’ سکون دے کر سانس کا انقطاع نہ کرنا اور آگے پڑھنا درست نہیں، اصولا ً غلط ہے، جس کا حاصل کراہت ہے۔ اسی طرح وقفِ لازم پر وقف نہ کرنا اچھا نہیں۔اس کا حاصل مکروہ ہے۔‘‘ (جواب نمبر۱۹۷۸۴)،فتویٰ نمبر (ھ) :۳۱۶=۲۹۴-۱۴۳۱؍۳)

قرآن مجید کی تلاوت اس کے تمام آداب اور قواعد ِ تجوید کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرنی چاہیے کہ یہی حکم ِ الٰہی ہے اور اسوۂ رسولؐ بھی ۔(مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)


مسلم معاشروں میں اسلامی تحریکوں کے لیے چیلنج

سوال : ماضی قریب کی تواریخ ہمیں بتاتی ہیں کہ اسلامی راسخ العقیدہ یا مغرب کی اصطلاح میں ’بنیاد پرست‘ مسلم تحریکیں جب کامیابی کی ایک سطح کو پہنچتی ہیں تو اس کے بعد مسلم قوم پرست یا درست الفاظ استعمال کیے جائیں تو سیکولر گروہ ان پر یا ان کے پیداکردہ مواقع پر قابض اور حاوی ہوجاتے ہیں۔ ۲۰ویں صدی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تحریکیں، مغرب پسند مسلم قوم پرستوں کے سامنے ایک ثانوی کردار ہی ادا کرتی رہیں گی؟

جواب :یہ ایک بڑا بنیادی سوال ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مختلف وجوہ سے مغربی اقوام کے ہاتھوں مسلم معاشرے ،سیاسی شکست کے نتیجے میں زوال پذیر ہوچکے ہیں، مگر  قومی زوال کا آغاز محض سیاسی شکست سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ بلاشبہہ شکست ایک بڑی تلخ شے ہے، مگر زندگی کے مدّوجزر کا ایک لازمی حصہ بھی ہے۔ البتہ شکست کو تسلیم کرکے بیٹھ جانا اور اسی پوزیشن پر قانع ہوجانا، پہلے مرحلے میں جمود اور حتمی نتیجے میں موت کے مترادف ہے۔

فکری تحریکیں میدانِ جدوجہد میں نشیب و فراز سے گزر کر بھی نئی بلندیوں سے ہم کنار ہوسکتی ہیں اور مسلم تاریخ ایسی ایمان افروز مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ چیز اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ایک فکری تحریک کا شیرازہ صرف اس وقت بکھرتاہے، جب شکست اس کی قیادت اور پھر کارکنوں کے دل و دماغ پر غالب آجائے اور وہ اپنی بنیاد اور شناخت کے باب میں تشکیک، اضمحلال، تھڑدلی، تذبذب یا لاتعلقی کی سی کیفیت کا شکار ہوجائے۔ اس لیے شکست کے مختلف ماڈل، مسلم معاشروں کے گوناگوں تضادات کا ایک تسلسل ہیں۔ بلاشبہہ اسلامی تحریکات بڑا قابلِ قدر، تخلیقی اور ہمہ گیر شعور دینے کے باوجود ابھی تک مسلم معاشروں کو مکمل تبدیلی کی منزل سے ہم کنار نہیں کرسکی ہیں، البتہ اس جدوجہد میں وہ پوری تگ و دو اور لگن کے ساتھ مصروف ہیں۔

ان گوناگوں مشکلات کا ایک سبب یہ ہے کہ اسلامی تحریکات نے بڑے نامساعد حالات میں کام کا آغاز کیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب علمی، فکری، ذہنی اور اخلاقی طور پر مغربی تہذیب نے مسلمانوں پر ہمہ گیر تسلط حاصل کرلیا تھا۔ بگاڑ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ مصر جیسے مسلم ملک میں ایک طرف برطانوی اقتدار کے خلاف جنگ ِ آزادی جاری تھی، دوسری طرف وزیراعظم  سعدزغلول [م:۱۹۲۷ء] رمضان کے مہینے میں عوام کے سامنے علی الاعلان شراب نوشی کرتا تھا، اس سب کے باوجود لوگ اسے زندہ باد کے نعروں سے ہی نوازتے رہے۔ اسی طرح نیاز فتح پوری [م:۱۹۶۶ء] کو تمام تر ملحدانہ نظریات کے باوجود مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ دلّی میں ہیرو سمجھا جاتا رہا۔ انھی حالات کے بارے میں علامہ محمد اقبال [م: ۱۹۳۸ء]نے بہت بنیادی بات کہی تھی کہ:

تھا جو ’ناخوب‘ بہ تدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اس پس منظر میں تحریک اسلامی نے دنیا بھر میں ایک واضح فکر کے ساتھ کام شروع کیا۔ اس کا بنیادی کام دو پہلوئوں پر محیط ہے، اور دونوں نہ صرف برابر کی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان کا اپنا اپنا مستقل کردار ہے اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں: پہلا یہ کہ فکر کی تشکیل نو اور نظریاتی انقلاب، اور دوسرا قیادت کا انقلاب اور اجتماعی تبدیلی___ یاد رہے بیسویں صدی کی اسلامی تحریکوں کو  انیسویں اور بیسویں صدی کے دین اور سیاست میں عملی تفریق کے باب میں ایک بڑے فکری چیلنج کا سامنا تھا۔ انھیں باطل نظریات کے طلسم کو توڑنا تھا، تاکہ لوگوں کو اسلام کی حقانیت اور اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا یقین حاصل ہو۔ دوسری جانب ان کو یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ مسلم معاشروں کی اعلیٰ قیادت، جس میں دانش ور، محقق، ادیب، اساتذہ اور اہل حل و عقد شامل ہیں، انھیں مخاطب کیا جائے۔

لیکن، شاید اسلامی تحریکی قیادتیں اس امر کا بروقت اور درست اندازہ نہ لگاسکیں کہ ان کے اپنے ملکوں کی مقتدر قوتوں اور عوام کے درمیان تعلقاتِ کار تبدیل ہوچکے ہیں اور انھیں ایک تبدیل شدہ صورتِ حال میں دعوت، تنظیم اور کش مکش کا سامنا ہے۔ جتنا بھرپور چیلنج درپیش تھا، اس جان جوکھم جدوجہد، ایثار اور قربانی پر اسلامی تحریکوں کو کریڈٹ جاتا ہے کہ جو کام انھوں نے کیا وہ بڑا بنیادی اور غیرمعمولی نوعیت کا کام تھا۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ وہ تمام مدِمقابل قوتوں کا مقابلہ کرنے اور قائل کرنے کے لیے، ہم سخن اور ہم مقصد لوگوں یا گروہوں کو ساتھ لے کر چلنے میں کمزوری کا شکار ہیں؟ کیوں کہ انجامِ کار ایک ہمہ گیر اجتماعی تبدیلی واقع نہیں ہوسکی۔

یہ مثال اپنی جگہ غوروفکر کی دعوت دیتی ہے کہ اگر حضرت ابوذر غفاریؓ اسلام قبول کرتے ہیں تو پورا قبیلہ ان کے ساتھ آجاتا ہے۔ اگر طائف کے سردار اسلام قبول کرلیتے ہیں تو پورا طائف، محسن عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف تحریک پاکستان کے دوران مولانا شبیراحمد عثمانیؒ [م: ۱۳دسمبر ۱۹۴۹ء] تو بلاشبہہ کُل ہند مسلم لیگ کے ساتھ آجاتے ہیں، مگر جمعیت العلمائے ہند کی اکثریت ساتھ نہیں آتی۔ اس اعتبار سے اسلامی تحریکات کی سیاسی و سماجی قیادت اور فکری قیادت___ ان دونوں پہلوئوں سے آگے بڑھنے میں فیصلہ کن حد تک کامیاب نہیں رہیں اور وہ عوامی جذب و انجذاب (transformation) کا درجہ حاصل نہیں کرسکیں۔ لیکن یہ روح فرسا حادثہ بھی ہوا ہے کہ الجزائر اور مصر میں پاپولر ووٹ اور رائے عامہ کی فیصلہ کن حمایت حاصل کرنے کے باوجود، ان ممالک کی افواج نے نہایت سفاکی سے ان کا راستہ روک دیا۔

یہی ہے وہ دوراہا کہ ایک طرف ہمارے عوام دل سے اسلام چاہتے ہیں، لیکن نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ اور نہ اخلاقی طور پر اس بات کے لیے تیار ہوسکے ہیں کہ اسلام جو مطالبات ان سے کرتا ہے اور جو تبدیلیاں وہ چاہتا ہے، انھیں یہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں جاری وساری کریں___ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا اصل بحران یہ ہے کہ بلاشبہہ آج کا مسلمان، اسلام کے لیے جان اور مال کی قربانی دینے کے لیے تو تیارہے، لیکن وہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیارنہیں۔ وہ سود کھانے سے تو نہیں شرماتے، مگر سور کھانے سے نفرت ضرور کرتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کے لیے یہ ایک بڑا عظیم چیلنج اور گمبھیر سوال ضرور ہے،جس کا جواب مختلف ممالک اور مختلف معاشروں میں مختلف استدلال کی گنجایش رکھتا ہے۔

مولانا مودودی نے تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان اُمور کو واضح کیا ہے کہ اسلامی تحریکات کو کن دائروں میں، کس ترتیب سے اور کس لگن سے کام کرنا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہے کہ اس جدوجہد کے دوران کون کون سے اُمور ایسے ہیں، جن میں ترتیب اور ترجیح کا اَدل بدل ہوسکتا ہے، اور کون سے اُمور ایسے ہیں کہ جن میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔اس ضمن میں کام کے دوران وقتی صورتِ حال کے تحت بسااوقات کسی پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دینا پڑسکتا ہے، مگر اُس کے باوجود شعوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہمیں توازن کی طرف پلٹنا ہے، کسی ایک ’جزو‘ کو کُل نہیں بنانا۔(پروفیسر خورشید احمد)


کیا اسلامی تحریکیں، عوام کا رُخ نہیں پھیرسکیں؟

سوال : اسلامی تحریکات، عوام تو ایک طرف ، بلکہ خود خواص کے دلوں کو بھی اس انقلابی دعوت کی طرف نہیں پھیر سکیں۔ کیا ان تحریکوں کی حکمت عملی میں کوئی خامی رہ گئی ہے؟

جواب :گذشتہ جواب میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس وقت ہماری سوسائٹی کا جو پاور اسٹرکچر ہے، اس کو نہ تو اسلام کے حقیقی تصور اور تقاضوں پر عمل درآمد کے لیے قائل کیا جاسکا ہے اور نہ اسے اپنی جگہ سے پوری طرح ہلایا جاسکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی تعمیرکردہ آہنی رکاوٹ کو پوری طرح عبور بھی نہیں کیاجاسکا۔ چنانچہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے چاہا کہ انتخابی عمل سے ایک ایسی حیثیت اختیار کرلیں، جس میں ہم لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکیں۔ لیکن محسوس ہوا کہ اسلامی قوتوں کا (اسلامی تحریکوں کا نہیں) تقسیم در تقسیم ہونا بلکہ متحارب ہونا، اس راہ کی ایک بہت بڑی رکاوٹ بنتا چلا آرہا ہے۔

ہم ان تلخ حقائق سے سیکھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسلامی تحریک کو یہ جمود توڑنے کے لیے تنظیم کے اندر مضبوطی لاتے ہوئے مستقبل میں زیادہ Populist (مقبول عام) پالیسی اختیار کرنا ہوگی، عوام کو متحرک اور بیدار کرنا ہوگا۔ ایسی بھرپور کاوش ہی سے پاور اسٹرکچر کو تبدیل کرنے کا عمل تیز ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس جدوجہد کے ابتدائی مرحلے میں عوامی سطح پر متوقع ابلاغ نہ ہوسکے، لیکن اگر ہدف واضح رہے اور تنظیم میں مضبوطی، احتساب اور ڈسپلن رہے اور تحریکِ اسلامی کی قیادتیں نعروں کے آہنگ سے بلند ہوکر دین پر عمل میں پختگی، علم و فکر میں گہرائی، ایمان میں راستی، مشاہدے میں وسعت اور کشادہ روی کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں، تو پھر مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں ان شاء اللہ ضرور تبدیلی آئے گی۔محض مقبول نعروں اور نری تشہیر سے کبھی پایدار بنیادیں فراہم نہیں ہوسکتیں۔(پروفیسر خورشید احمد)


اسلامی تحریکوں کی جدوجہد میں توجہ طلب کام

سوال : قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی تحریکوں کی جدوجہد میں بنیادی کمی کس چیز کی دکھائی دیتی ہے؟

جواب: بے لوث، مخلص اور دین و ملّت کا درد رکھنے والے نہایت قیمتی افراد کا ساتھ ہونے کے باوجود، اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر علمی و فکری بنیاد میں کمی ہوگی اور سماجی شعور میں ضعف موجود ہوگا اور ریاستی پاوراسٹرکچر کی قوت و حکمت کار اور پھیلائو کی جہتوں کے بارے ادھورا فہم در آئے گا، تو یہ پہلو تحریک اسلامی کی کارکردگی اور مستقبل پر نہایت منفی اثر ڈالیں گے۔

علمی وفکری پہلو سے جہاں جدید سماجی علوم اور تازہ ترین معلومات سے کماحقہٗ واقفیت رکھنا قیادت کا وصف ہونا چاہیے، وہیں دینِ اسلام کا بنیادی علم، اسلامی تہذیب کی بنیادوں کا فہم اور اُن کی موجودہ کیفیت کو پرکھنے کا ذوق اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں تقویٰ راسخ ہونا چاہیے۔ ان میں کمی واقع ہو تو اُن کی فکر ہونی چاہیے اور مواقع پیدا کرنے کی تڑپ ہونی چاہیے۔

دوسرے یہ کہ معاشرے کے مزاج، مقامی کلچر پر نظر، سماجی تضادات کو دیکھنے اور ’عرف‘ یعنی وہاں کے رسم و رواج کی حقیقت جاننے کا فہم ہونا چاہیے۔ دلوں پر دستک دینے کے لیے ان معلومات تک رسائی ایک ضروری چیز ہے۔

تیسرے یہ کہ پاور اسٹرکچر کی قوت اور کمزوری کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہونا چاہیے۔ پاور اسٹرکچر میں: قبیلہ، برادری، جاگیردارانہ سماج، سرمایہ دارانہ گرفت، فوجی قیادتوں کا ذوقِ حکومت، میڈیا کی قوت اور بروئے کار پارٹیوں کے طریق کار، ڈسپلن وغیرہ کو جاننا چاہیے۔

ان پہلوئوں کا ادراک جہاں پہلی اور دوسری سطح کی قیادتوں میں ہو، وہیں ان معاملات پر غوروفکر کارکنان کی مجالس میں بھی ہونا چاہیے، کیونکہ قیادت، کارکنان ہی سے پروان چڑھتی ہے، اور کارکنان ہی معاشرے کے اندر تبدیلی کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔(س م خ )

جب آسمان پھٹ جائےگا، قاری محمد اشرف ہاشمی، مرتب: امجد عباسی۔ ناشر:شرکۃ الامتیاز، رحمٰن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون: ۲۳۴۴۸۲۶-۰۳۲۲۔ صفحات:۱۲۷۔ قیمت:۲۶۰ روپے۔

فاضل مصنف، عالمِ دین، خطیب، مدرّس اور مربی تھے۔ اسّی کے عشرے میں وہ لاہور کے مختلف مکاتب ِ فکر کے حلقوں میں درس قرآن کے لیے بلائے جاتے تھے اور بعض اوقات تبلیغی دوروں پر بیرونِ لاہور جایا کرتے تھے۔ ۱۹۸۳ء میں انھیں ہا نگ کانگ سے دعوت نامہ آیا۔ ۱۹؍اگست کو گھر سے نکلے ہی تھے کہ نامعلوم افراد نے انھیں اغوا کرلیا ___ اور آج تک اُن کا پتا نہیں چل سکا۔

جناب امجد عباسی نے ان کی ریکارڈ شدہ چھے تقاریر کو اس کتاب میں مرتب کیا ہے۔ موضوعات عمومی نوعیت کے ہیں (حقیقت ِ انسان، نماز،اسوئہ دعوت، آخرت، نجات کی راہ) مگر قاری صاحب کا انداز و اسلوب بہت مؤثر کن ہے۔ قرآن و حدیث اور تاریخ علومِ اسلامیہ کا استحضار قابلِ رشک تھا، جن کے حسب ِ موقع حوالے دیتے ہیں۔ ان کی دھیمی پکار، قاری کے درِ دل پر دستک دیتی اور اُسے قائل کرتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اسلام کا سفیر [قائداعظم محمدعلی جناح]، مرتبہ: محمد متین خالد۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فوبن: ۳۷۴۴۳۵۸۴-۰۴۲۔ صفحات: ۸۸۸۔ قیمت: ۲۰۰۰ روپے

بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت نے برطانوی مقبوضہ ہند میں مسلمانوں کی رہنمائی کی، اور اخلاص اور بےپناہ محنت سےدو قومی نظریے کو پاکستان کی شکل دی۔

تحریک ِ پاکستان کے دوران مغرب زدہ اور انگریزوں کے مراعات یافتہ طبقے تحریکِ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ لیکن جب ۱۹۴۶ء میں قیامِ پاکستان کے امکانات روشن ہوئے تو اس طبقے کے بہت سے افراد نے بڑی تیزی سے مسلم لیگ میں شرکت کا راستہ اپنایا۔ جب پاکستان بن گیا تو اسی طبقے کے پروردہ عناصر نے پاکستان میں لادینیت،اباحیت پسندی اور صوبائی نسل پرستی کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ اس فکر کی نفی کے لیے جب دینی اور مخلص قومی قائدین نے خبردار کیا کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد، قائداعظم نے اسلامی تہذیب اور اسلامی تشخص کے وعدے کے ساتھ کی تھی، تو مذکورہ شرانگیز عناصر نے یہ کہنا شروع کر دیا: ’’محمدعلی جناح کا اسلام سے کیا لینا دینا، وہ تو ایک مغرب زدہ، آزاد خیال اورسیکولر انسان تھے‘‘۔

حقیقت سے ٹکراتے اس طرزِ فکر اور پروپیگنڈے کی نفی کے لیے وقتاً فوقتاً جو معرکہ آرا مضامین شائع ہوتے رہے،اور جن میں قائداعظم کی دینی غیرت و حمیت، اور پاکستان کے اسلامی وژن کو مدلل انداز میں پیش کیا جاتا رہا، زیرنظر کتاب انھی مضامین کے انتخاب پر مشتمل ایک قیمتی دستاویز ہے۔ اس مقصد کے لیے جناب محمد متین خالد نے بڑی محنت سے یہ نثرپارے اور دردِ دل سے لکھے مضامین ایک جگہ پیش کردیے ہیں۔ مقصدیت کے اعتبار سے یہ ایک بہت قیمتی دستاویز ہے، جو اساتذہ، صحافیوں، سیاست دانوں اور علما کو زیرمطالعہ لانی چاہیے۔(س م خ)


مکاتیب ِہم نفساں، مرتب: ڈاکٹر ارشاد محمود صابر۔ ناشر: مکتبہ سرمد، اٹک۔ ملنے کے پتے: کتب خانہ مقبولِ عام، اُردو بازار، اٹک۔ اظہار سنز، ۱۹-اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۴۰۰ روپے۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔

غلام محمد نذر صابری پیشے کے اعتبار سے ایک کتاب دار (لائبریرین) تھے، مگر اپنی خداداد صلاحیتوں کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کے ادیب، تحقیق کار، مدوّن، شاعر اور مخطوطہ شناس تھے۔ زیرنظر کتاب اُن کے نام ۳۶ ممتاز اہلِ قلم کے ۱۷۳ منتخب خطوط کا مجموعہ ہے، جنھیں ڈاکٹر ناشاد صاحب نے بڑی محبت اور محنت سے مکتوب الیہوں کے تعارف اور متونِ خطوط پر حواشی و تعلیقات کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ مکتوب نگاروں میں ڈاکٹر سیّدعبداللہ، ڈاکٹر جمیل جالبی، غلام جیلانی برق، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر محموداحمد غازی، وحید قریشی وغیرہ شامل ہیں۔

خطوط کے موضوعات متنوع ہیں۔ علمی مسائل پر اور کتابوں کے بارے میں استفسارات، تبصرے اور راہ نمائی___ صابری صاحب کی لیاقت اور قابلیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلسفے کے مسائل اور نظریۂ اضافیت اور زمان و مکان جیسے اَدق موضوعات پر بھی وہ مکتوب الیہوں کو راہ نمائی دیتے ہیں۔

ناشاد صاحب نے مجموعہ، بڑی دیدہ ریزی سے مرتب کیا ہے۔ تدوینِ مکاتیب کے لیے اسے ایک نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)

پروفیسر نیاز عرفان ، اسلام آباد

عالمی ترجمان القرآن (مئی ۲۰۲۱ء)کا شمارہ ایک سے بڑھ کر ایک،اعلیٰ پائے کی معلوماتی، علمی اور تحقیقاتی تخلیقات سے مزین ہے۔ بالخصوص پاکستانیات/ تعلیم وتعلّم کے حصے میں شامل دو مضامین پہلا ڈاکٹرحسین احمد پراچہ صاحب اور دوسرا پروفیسر شہزاد اقبال شام صاحب کا تحریر کردہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ افغان مذاکرات کے بارے سیّدافتخار گیلانی صاحب کامضمون بھی چشم کشا ہے۔

ڈاکٹر حسین احمد پراچہ صاحب کا مضمون مختصر ہونے کے باوجود مسکت و عالمانہ دلائل لیےہوئے ہے۔ اُنھوں نے بجاطور پر پاکستان کی ’مذہبی اقلیتوں کے کچھ نمایندوں‘ کی طرف سے عدالت ِ عظمیٰ میں رٹ دائر کرنے اور ہم نوائی پر گرفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مسئلہ دراصل مٹھی بھر مراعات یافتہ اقلیت کا ہے، جو اپنے بچوں کو قومی نصاب نہیں بلکہ غیرملکی نصاب پڑھانا چاہتی ہے تاکہ گذشتہ عشروں کی طرح ان کے بچوں کی امتیازی شان اور پہچان الگ رہے۔ پراچہ صاحب نے غیرمسلم شعرا اور سپریم کورٹ کے غیرمسلم جج کی مثالیں دے کر یکساں قومی نصاب کے مخالفین کے موقف کی غیرمعقولیت کوآشکارا کیا ہے۔

پروفیسر شہزاد اقبال شام صاحب نے اپنے مضمون بعنوان: ’سپریم کورٹ کے ذریعے مسلم کشی‘ میںواحد قومی نصاب کے مسئلے پر سپریم کورٹ کی طرف سے اَزخود نوٹس اور فیصلے پر جامع، مدلل اور پُرجوش گرفت کی ہے۔ تاہم، اگر وہ اپنے مضمون میں تندوتیز لہجے اور طعن و تشنیع کی جھلک سے اجتناب کرتے تو یہ زیادہ نتیجہ خیز اور پُراثر ہوتا۔ کیونکہ وزنی دلیل خود اپنے آپ کو منواتی ہے۔ بہرحال، پروفیسر شام صاحب نے اپنے مضمون کو جس محنت سےتیار کیاہے وہ قابلِ تحسین ہے۔


نزابت افشاں ، مہورہ (ضلع اٹک)

مئی کا شمارہ ہاتھ میں آتے ہی دل سے آپ کے لیے دُعا نکلی۔ تمام تحریریں قابلِ داد و تحسین ہیں۔ خصوصاً’سپریم کورٹ کے ذریعے مسلم کشی‘(شہزاد اقبال)،’اسلام صرف اسلامیات کے نصاب میں‘ (انصارعباسی) اور ’قومی نصاب پر سیکولر حملہ اور سپریم کورٹ‘ (حسین احمد پراچہ)یہ، مضامین آگاہ کرتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی ڈھانچا جن ہاتھوں میں ہے، وہ نہ اسلام دوست ہیں اور نہ پاکستان دوست۔ میرا تعلق بھی  شعبۂ درس و تدریس سے ہے۔ اس سال پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور نے ساتویں جماعت کی ’تاریخ‘ کی کتاب میں جو گُل کھلائے ہیں، وہ دیکھ کر انسان ’انگشت بہ دنداں‘  رہ جاتا ہے۔ تقسیم بنگال ۱۹۳۵ء میں بتائی گئی اور آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کی تاریخ وفات ۱۸۵۸ء بیان کی گئی ہے۔  میں نے اس حوالے سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو کئی خطوط بھی لکھے مگر ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ’افغان مذاکرات کے اَدوار، المیوں کی تکرار‘ افتخار گیلانی صاحب نے حقائق پر مبنی مضمون لکھا ہے۔ موجودہ بے مقصدیت، سیکولریت اور فحش نگاری کے زمانے میں ترجمان کا دم غنیمت ہے کہ اتنی اچھی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔


تحسین کوثر ، گجرات

مولانا مودودی کے ’اشارات‘ ایک اعلیٰ درجے کی زندہ تحریر ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ خصوصاً کارکنان اسلامی تحریکوں کو عبادت کا یہ مفہوم سمجھا دے۔ مئی کے شمارے میں تعلیم سے متعلق تمام مضامین مسئلے کی وضاحت میں بہت کامیاب رہے۔ دُنیااخبار میں ایازمیرکی جانب سے شعیب سڈل صاحب کی تعلیمی سفارشات کی حمایت بھی سمجھ میں آئی۔ واللہ! مسند انصاف پر بیٹھے جج حضرات نے بھی بہت سرسری انداز سے مسئلے کو لیا اور پھر اُلجھا دیا۔ اللہ کرے وزیراعظم اس معاملے میں کسی کو شب خون مارنے کی اجازت نہ دیں اور قومی و ملّی شعور رکھنے والے ماہرین تعلیم بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے وزارتِ تعلیم کی رہنمائی کریں۔ سرورق سادہ اور باوقار ہے۔


راجا محمد عاصم ، موہری شریف، کھاریاں

’گیارہ مئی ۱۹۵۳‘ کے حوالے سے بزرگانِ جماعت اسلامی کی یادداشتوں پر مبنی تحریر میں جماعت کے بزرگ رہنما خاص طور پر بانی جماعت اسلامی سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی استقامت اور بلند حوصلے کو پیش کیا گیا اور جماعت کے اٹل موقف کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ذریعے پاکستان جیسے ایک اسلامی ملک کے نصاب تعلیم پر غیرمسلموں کے حملے اور طاغوتی طاقتوں کو خوش کرنے کے چکّر میں جو مجرمانہ تبدیلیاں کی جارہی ہیں، ان کو قوم کے سامنے بڑے مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ افسوس کہ ہماری اعلیٰ عدالت کے جج صاحبان نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر فیصلہ سنایا اور قوم پر ظلم کیا ہے، جس کا مداوا ہونا چاہیے۔


خواجہ منظورالحسن ، کراچی

اپریل ۲۰۲۱ء کے ترجمان القرآن میں ’قرآن کی تصویر ،قرآن کی زبانی‘ آخری عشرہ کی طاق رات میں مطالعہ کیا۔ ماشاء اللہ بہت ہی خوب، لیکن ص ۱۷ پر چار مرتبہھدیٰ لکھا ہوا ہے۔ پھر ص۳۱ پر بھی   ایک مرتبہ قرآنِ مجید کا توقیفی رسم الخط ھُدًی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پڑھنے والا وقف کرکے ھُدٰی پڑھے۔ لیکن ھُدٰی ہی لکھنا بالکل غلط ہے۔ یہ رفعی، نصبی اور جری تینوں حالتوں میں ھُدًی ہی ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مترجمین نے ظن کے معنی ’خیال، گمان، شک‘ کے کیے ہیں، لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ پورے قرآن مجید میں ظنّ یقین ہی کے معنی میں آیا ہے۔ ص۲۸ پر صحیح توقیفی اسم وَتَرٰىہُمْ  (الاعراف۷:۱۹۸) ہے۔

دنیاکی زندگی، سطح بیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے:

  • کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے، بس اسی دنیا میں ہے۔ اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمھیں کرنا ہے، بس یہیں کرلو۔
  • کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوش حالی کے نشے میں بدمست ہوکر اپنی موت کو بھول جاتا ہے، اور اس خیالِ خام میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ’اُس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے‘۔
  • کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کرکے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصود بالذات سمجھ لیتا ہے اور ’معیارِ زندگی‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، خواہ نتیجے میں اس کا معیارِ آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔
  • کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ ’دُنیوی خوش حالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے۔ ہر وہ طریقہ حق ہے، جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو، اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے، باطل ہے‘۔
  • کوئی اسی خوش حالی کو مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدئہ کلیہ بناکر بیٹھ جاتا ہے کہ ’جس کی دُنیا خوب بن رہی ہے___ خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے___ اور جس کی دُنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے‘۔

یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے آیت [فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا’پس، یہ دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈالے‘، سورئہ لقمان۳۱:۳۳] میں ’دُنیوی زندگی کے دھوکے‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ (’تفہیم القرآن‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۶، عدد۳، جون ۱۹۶۱ء، ص۱۲-۱۳)

تہذیب اور ثقافت کی روایتی تعریف پر غور کیا جائے تو چاہے ثقافت سے مراد کسی اجتماعیت میں پائی جانے والی اقدارِ حیات ہوں یا ان کا تصور مذہب، قانون، معیشت، سیاست، فنون اور ادب یا وہ قابلِ محسوس ورثہ جو فنِ تعمیر میں، شعروادب میں، رسوم و رواج اور مذہبی عبادات، تہواروں اور نامور ان کی عزت واحترام کی شکل میں پایا جاتا ہو، ہم جس زاویے سے بھی ثقافت یا تہذیب کی تعریف اپنے ذہن میں کریں، ایک مشترک قدر بہرصورت نظر آتی ہے اور وہ ہے ’تہذیبی یا ثقافتی تشخص‘ identity یا پہچان۔

یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص نے ماتھے پر زعفرانی رنگ کی لکیریں بنائی ہوں اور عین ماتھے کے وسط میں ایک بندیا لگاکر اور گلے میں گیارہ رنگین دھاگے لٹکاکر وہ اپنے بارے میں امام مسجد یا کسی مدرسے کے شیخ الحدیث ہونے کا دعویٰ کرے۔ ایسے ہی اگر ایک شخص حالت ِ سفر میں ہو اور کسی ریستوران میں جاکر کھانا طلب کرے اور اسے معلوم ہو کہ فرانس یا جرمنی یا امریکا کے اُس ریستوران میں ’حلال و حرام کی تمیز نہیں کی جاتی اور بھوک پر قابو کرتے ہوئے دودھ یا سوکھی روٹی پر گزارا کرلے تواس کا یہ عمل اس کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کا پتا دے گا۔ اپنی اس ثقافتی اور تہذیبی شناخت کا اہتمام اور اس پر فخر بعض اوقات ایک مضحکہ خیز طرزِعمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے لیکن اپنی تمام مضحکہ خیزی کے باوجود اپنے اندر ایک گہرا پیغام رکھتا ہے۔ بعض اوقات اس تشخص کا جزوی اہتمام انسان کے اندر حق و باطل کی کش مکش کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ اس کے باوجود انسان کا ضمیر اگر زندہ ہو تو وہ ایک غلطی کو غلطی ہی سمجھتا ہے۔

اُردو ادب کا ہرطالب علم یہ جانتا ہے کہ گیسوے اُردو کو سنوارنے والوں میں مرزا اسد اللہ غالب وہی مقام رکھتے ہیں جو معنوی ادب کی تعمیر میں اقبال کا ہے لیکن ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے دوران جب ثقافتی اور تہذیبی تشخص کے حوالے سے مرزا کو ایک انگریز کرنل کے سامنے مسلمان ہونے کے جرم میں پیش کیا گیا اوراس نے پوچھا کہ ’ویل کیا ٹم مسلمان ہے؟‘ تو مرزا کا جواب انتہائی معنی خیز تھا۔ انھوں نے کہا: جناب میں ۵۰ فی صد مسلمان ہوں۔ انگریز نے تعجب سے دوبارہ استفسار کیا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ شراب ضرور پیتا ہوں لیکن خنزیر کبھی نہیں کھاتا۔ یہاں پر مرزا نے اپنی شناخت اعترافِ گناہ کے ساتھ جس بلیغ انداز میں کی وہ ان کی اپنی ذات کے بارے میں تصور کو واشگاف الفاظ میں ظاہر کرتا ہے، یعنی وہ بنیادی طور پر تو اسلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ثواب طاعت و زُہد سے آگاہ ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن طبیعت سے مجبور ہوکر بعض اوقات بھٹک بھی جاتے ہیں۔ ایسے ہی مرزا کی چار گوشے والی ٹوپی، ان کا خرقہ، ان کی شکل صورت،    ان کے ہرہرشعر میں جنت اور جہنم کا حوالہ، ان کی شخصیت کے سیاق و سباق ان کے تشخص کو کھول کر بیان کردیتا ہے۔

اس تاریخی جملۂ معترضہ سے ہماری مراد صرف یہ ہے کہ تہذیبی تشخص کا تعلق اُس تصورِحیات اور بعد الممات سے ہوتا ہے جو ایک فرد اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ جب پوچھا جائے کہ   تم کون ہو؟ تو اس کا جواب یہ نہیں ہوتا کہ میں کس علاقے، کس زبان، یا کس ذات پات اور نسل سے تعلق رکھتا ہوں بلکہ اس کا جواب تہذیبی اور ثقافتی تشخص، اقدارِ حیات پر مبنی خودبینی اور اجتماعی وابستگی کوظاہر کرتا ہے۔

شکست خوردہ اور محکوم ذہنیت کا ایک بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیرمحسوس طور پر جس فضا اور ماحول میں پلتی بڑھتی اور ترقی کرتی ہے، اس فضا کی اتنی عادی ہوچکی ہوتی ہے کہ اسے اپنی محکومیت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ گرمیوں کے موسم میں ہرشخص کو پسینہ آتا ہے لیکن عموماً ایسے افراد جن کے پسینے میں تیزابیت اور بو ہوتی ہے انھیں خود اپنی اس کمزوری کا احساس نہیں ہوتا، جب کہ ان کے دائیں اور بائیں نماز کی صف میں کھڑے ہونے والے نمازی اس  بُو سے پریشان رہتے ہیں۔ اسی بنا پر ہمارے دین نے ہمیں نظافت اور طہارت کا حکم دیا ہے اور سیرتِ پاکؐ سے یہ پیغام ملتا ہے کہ  نمازی نماز کو جانے سے قبل لہسن نہ کھائے اور ایک محنت کش اپنے بازوئوں سے پسینہ صاف کر کے صف میں شامل ہو۔ شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدعا ہر صاحب ِ ایمان میں یہ احساس بیدار کرنا تھا کہ وہ خود احتسابی کرتے ہوئے اپنے عقیدے اور نظریۂ حیات کا جائزہ لے یہاں تک کہ انتہائی معمولی باتوں میں بھی اپنا جائزہ لیتا رہے۔

اس کے مقابلے میں ایک شکست خوردہ ذہنیت کو اپنے سامراجی نظام کی فکر، زاویۂ تحقیق اور تعلیم سے گہری وابستگی کی بناپر وہ اچھائی جو سامراجی تعلیم و ثقافت کی پہچان ہے، غیرمحسوس طور پر درست، اور ہر وہ  بُرائی جو سامراجی تہذیبی و ثقافتی روایت میں بُری سمجھی جاتی ہے، اپنے خیال میں بُرائی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے بڑی واضح مثال ان مفکرین کی ہوگی جو سامراجی فکر اور سامراجی پیمانۂ معروف ومنکر پر غیرمحسوس طور پر ایمان رکھنے کی بنا پر مغرب کے رواج کو مثالی انسانی طرزِعمل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اگر مغرب میں صرف ایک شادی قانونی طور پر درست سمجھی جاتی ہے یا قاتل کو سزاے موت دینا ایک غیرمہذب فعل سمجھا جاتا ہے یا تہذیب کی معراج یہ سمجھی جاتی ہے کہ انفرادی آزادی کے نام پر مردوں اور عورتوں کوتن کی عریانی کا غیرمحدود حق دے دیا جائے تو یہ مفکرین اور دانش ور مسلم معاشروں میں ایسی ہی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔

معاشرے میں پایا جانے والا ظلم و استحصال انھیں مضطرب نہیں کرتا۔ اگر انھوں نے انگریز کے دیے ہوئے تعلیمی نظام میں تربیت پائی ہوتی ہے تو وہ اسی نظامِ تعلیم کو حق اور درست سمجھتے ہیں اور اس میں کسی معمولی سی اصلاح کو انحراف قرار دیتے ہیں۔ الجیریا کے معروف مفکر مالک بن نبی مرحوم نے اس ذہن کے بارے میں بہت صحیح کہا تھا کہ سامراجیت سے زیادہ سامراج زدہ ذہن خطرناک ہوتا ہے کیوںکہ و ہ سامراجی طاقت کی طرح کھلا دشمن نہیں ہوتا۔ وہ سامراجیت کے زہر سے آلودہ ہوکر بظاہر ایک نوآزاد مملکت کا مقامی سربراہ ہوتا ہے لیکن اپنی فکر اور عمل میں وہ سامراجی طاقت سے زیادہ سامراجیت کا وفادار ہوتا ہے۔

اس شکست خوردہ ذہنیت سے اپنے آپ کو آزاد کرتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی تشخص پر کم از کم چار زاویوں سے غور کیا جاسکتا ہے:

۱- عمرانی اور سماجیاتی زاویۂ نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کی بنیاد وہ مقامی بودوباش کی روایت ہوتی ہے جو کسی قبیلے یا قوم نے کسی خطے میں اختیار کی ہو اور عرصۂ دراز تک اس پر عمل کرنے کے سبب وہ ان کی عادت اور عرف بن گیا ہو۔ اسی بنا پر ہندستان کی تہذیب کو ہندووانہ رسوم و رواج، عبادات اور ناچ گانوں، طبقاتی تقسیم اور رنگ (وارنا)کی بنیاد پر تفریق اور طبقاتی تقسیم والی تہذیب قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ تہذیب برصغیر میں محدود رہی اور اگر کسی نے اس کے زمینی تقدس کو پامال کرنا چاہا تو اسے مذہب بدر کر دیا گیا، حتیٰ کہ گاندھی نے بھی جب ہندستان کو چھوڑ کر برطانیہ اور جنوبی افریقہ کا رُخ کیا تو اس مذہبی خلاف ورزی پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اسی فرد کو اس کی مسلمان دشمن سیاسی حکمت عملی اور نام نہاد پُرامن احتجاج کے تصور کی بنا پر ’مہاتما‘ کے اعلیٰ روحانی مقام پر فائز ہونے کا اعزاز دیا گیا۔

زرتشت کے زیراثر پرورش پانے والی تہذیب و ثقافت چونکہ صرف ایران میں مقید و محدود رہی، اس لیے اس کی بنیاد بھی وہ زمینی روایات ہیں جو اس خطے میں پائی جاتی تھیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ہم اس طریق تحقیق کو اس کے بنیادی نقص، یعنی دائرۂ تحقیق کو ایک مخصوص خطے تک محدود کردینے کی بناپر استعمال نہیں کرسکے۔ گو بہت سے غیرمسلم اور ان سے متاثر بعض مسلمان اسلامی ثقافت و تہذیب کو عربی ثقافت و تہذیب قرار دینے کی صریح غلطی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔

۲- سامراجی ثقافت و تہذیب کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو بعض اقوام نے اپنے زیرتسلط محکوم اقوام کو اپنے دورِ اقتدار میں تعلیم، معاشی، سیاسی اور قانونی تبدیلیوں کے ذریعے سامراجی فکر کا تابع بنانے اور ان کی اپنی تہذیب و ثقافت سے ان کے تعلق کو منقطع کرنے کے لیے ان کی زبان و ادب، ان کی معاشرت اور کاروبارِ حیات میں ان پر بندشیں لگاکر انھیں فکری اور عملی طور پر اپنا مکمل محکوم بنایا۔ بہترین مثال برطانوی سامراج کی ہے جس نے ۱۰۰سال سے اُوپر برعظیم کے مسلمانوں پر اپنی تعلیمی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حکمت عملی کے ذریعے ان کے ماضی سے تعلق کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے ساتھ ان کی ذہنیت کو یورپی بلکہ انگریزی فکرومزاج سے اتنا ہم آہنگ کردیا کہ اگر آج ایک دانش ور انگریز ادیبوں، فلسفیوں، ماہرین عمرانی علوم کے حوالے دے کر   اپنی قومی زبان میں کوئی مقالہ لکھتا ہے تواس کی تمام تحقیق اور محنت کو صحافیانہ تحریر قرار دے کر ایک طرف کردیا جاتا ہے۔

انگریز سامراج کی یہ ذہنیت اسے اپنی زبان میں سوچنے اور اس میں اظہارِ خیال کرنے کی صلاحیت سے آہستہ آہستہ محروم کردیتی ہے او روہ ان اصطلاحات کے استعمال کے بغیر جن کا منبع اور روحانی رشتہ یورپی اور انگریزی ثقافت سے ہے اپنی بات بیان نہیں کرسکتا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جو قوم اپنی زبان میں سوچ نہ سکتی ہو اور اپنی زبان میں اظہارِ مدعا نہ کرسکتی ہو اس پر ترقی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حقیقت بین نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں ہوسکتی کہ کوریا ہو یا چین ان کی ترقی کا راز ان کی اپنی زبان میں تعلیم اور اپنی زبان و ثقافت پر فخر کا بنیادی دخل ہے۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم غیرملکی زبانوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں محض قومی زبان نہیں بلکہ مزید پانچ یورپی زبانوں پر عبور ایک مستحسن اقدام ہے لیکن انگریز سامراجی ذہن سے ہرمسئلے پر غور کرنا اور جوتحقیق کی حکمت انھوں نے اپنے مسائل کے تجزیے اور حل کے لیے ایجاد کی ہو، اس کو ایک مختلف معاشرتی، ثقافتی، دینی ماحول کی تعبیر میں استعمال کرنا طریق تحقیق کی ایک بنیادی ناسمجھی ہی نہیں واضح غلطی ہے۔

مثال کے طور پر اگر یورپ زدہ سامراجی علمِ عمرانیات میں خاندان کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ایک شخص اور اس کی قانونی منکوحہ اور اس کے حد سے حد دو بچوں پر مبنی اولاد، تو غیرشعوری طور پر اگر ایک ایسے معاشرے کا مطالعہ کرنا ہو جس کے بنیادی تصورات میں کثیرالاولاد ہونا اچھائی کی علامت ہو، جہاں خاندان کا مطلب والدین، شوہر،بیوی، شوہر کے بھائی بہن، ان کے بچے اور  اس کے اپنے بچے ہوں___ تحقیقی تعصب سے اپنے آپ کو بچانا ناممکن ہوگا اور نتائجِ تحقیق کا لازمی طور پر رنگین عینک سے دیکھنے کی وجہ سے گمراہ کن ہونا یقینی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ زدگی کے شکار علومِ عمرانی کے ماہر، تاریخ دان ہوں یا سیاسی تجزیہ کار، جس تحقیقی حکمت عملی میں تربیت پاکر   اعلیٰ تعلیمی سندات حاصل کرتے ہیں اپنے آپ کو اُس فکری حلقے میں نہ تو قید تصور کرتے ہیں اور نہ اُس سے نکل کر زمینی حقائق پر غور کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔

اگر یورپ زدہ سماجیاتی تصور یہ ہے، اور جو تقریباً ۲۰۰ سال سے ہماری اپنی جامعات میں رائج ہے، کہ ثقافت اور تہذیب کی جڑیں مقامی رسوم و رواج میں ہوتی ہیں، تو پھرکسی کا مصر میں   اپنا تشخص تلاش کرنے کے لیے یہ کہنا کہ وہ فراعنہ کی اولاد سے ہے اور اس کی تہذیبی جڑیں مصری دیومالائوں میں پائی جاتی ہیں، بالکل فطری عمل ہے۔ یہی تصور قومیت کی بنیاد بنتا ہے اور ایک فرد جس خطے میں پیدا ہو، اس مغرب زدہ فکری زاویۂ نگاہ کی بناپر اپنا نسب اور تعلق زمین سے جوڑتا ہے۔ قدیم ہندو تصور جس میں ’دھرتی ماتا‘ کو مقدس قرار دیا گیا تھا، بظاہر ایسے تمام جغرافیائی قومیت کے تصورات کی بنیاد نظر آتا ہے۔ اس طریق تحقیق کے نتیجے میں جو شخص اپنے آپ کو فرانسیسی یا برطانوی کہتا ہے اس کی حقیقی وجہ اس کا جغرافیائی طور پر اس جگہ پر پیدا ہوجانا، یا اس کا فرانسیسی زبان میں گفتگو کرنا ، یا کسی  کا برطانوی انگریزی میں بات کرنا قرار پاتا ہے۔

اسی طرح عمرانیات میں جس چیز کونسل پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی بنیاد بھی یورپ زدہ طریقِ تحقیق ہے جو رنگ، خون یا نسل کو تشخص قرار دیتا ہے۔ آج بھی فرانسیسی قومیت کا ایک اہم جز سفیدفام نسل سے تعلق اور فرانسیسی زبان میں گفتگو کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ اس طریق تحقیق کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے بارے میں اس کی روشنی میں کوئی تاریخی یا عمرانی تحقیق کی جائے تو انھیں عرب یا ایرانی یا ترک یا نائیجیری اور انڈونیشی کی حیثیت سے زیرمطالعہ لایا جاتا ہے اور ان کے مقامی لباس، چہرہ مہرہ یارنگ کی بنیاد پر ان کا تشخص قرار دیتے ہوئے اسلام کو بھی انڈونیشی اسلام، ایرانی اسلام یا ترکی اسلام کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس تحقیقی حکمت عملی کے استعمال کرنے والوں میں مشہور کینیڈین اسکالر اسمتھ جیسا سنجیدہ شخص بھی شامل ہے۔

اس بظاہر طویل نظری گفتگو کا بنیادی مقصد یہ سمجھنا ہے کہ جب ہم اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں تو ہمارا اصل تشخص کیا قرار پاتا ہے اور کیا ہونا چاہیے اور کیا وہ جیسا ہونا چاہیے ویسا ہے؟

پہلی بات تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ پاکستانیت کی بنیاد جغرافیائی خطہ نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ تقسیم ہند سے قبل جن خطّوں کو بعد میں یک جا کر کے پاکستان بنا وہ زبانی عصبیت کی جگہ جغرافیائی خصوصیت کی بنا پر اپنا ایک نام رکھتے تھے ، مثلاً پانچ دریائوں کی زمین کو پنج آب اور دریاے سندھ کی وادی کو سندھ اور ہندستان کی شمال مغربی سرحد کو سرحد کا نام دیا گیا تھا۔ بلوچستان کی بنیاد بھی زبان نہیں قبائلی نسبت تھی۔ ایسے ہی مشرقی اور مغربی بنگال کی بنیاد بھی زبان نہیں تھی کیوںکہ جو زبان مغربی بنگال میں مستعمل تھی وہ سنسکرت زدہ اور جو مشرقی بنگال میں (جو بعد میں مشرقی پاکستان کہلایا) استعمال ہوتی تھی وہ عربی،فارسی کے سرمایے سے بھرپور تھی۔۱؎ گویا پاکستانیت کی بنیاد جغرافیائی حدیں یا مقامی زبان، غذا یا وضع قطع نہیں ہوسکتی۔

دوسری بنیاد جس پہ مغرب زدہ علومِ عمرانیات قائم ہیں علاقائی اور قبائلی تعلق ہے۔ پاکستان کے تناظر میں مختلف خطوں اور قبائلی پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے قبائلی یا علاقائی تشخص قومی تشخص نہیں بن سکتا۔خود بانیِ پاکستان نے اس پہلو پر مختلف مواقع پر پُرزور الفاظ میں یہ بات کہی کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ آپ کی پہچان نہ بلوچیت ہے، نہ پنجابیت، نہ سندھیت، نہ سرحدیت، اب آپ ایک نئی اکائی اور وحدت میں شامل ہوگئے ہیں۔ آپ کا تشخص اُس سے بہت مختلف ہے جو مغرب نے ہمیں سکھایا ہے۔۲؎

تیسری بنیاد غالب تہذیب کا صدیوں کے عمل کے نتیجے میں محکوم پر غالب آجانا ہوسکتاہے۔ اگر غیرمنقسم ہندستان کے تناظر میں اس مفروضے کا جائزہ لیا جائے تو ۸۰۰ سال کے لگ بھگ حکومت کرنے کے باوجود تقسیم ملک کے وقت مسلمان تعداد میں ایک چوتھائی یا اُس سے کچھ  کم رہے۔ اگر وہ سامراجی طاقت ہوتے تو اپنی تعلیمی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی حکمت عملی اور دبائو سے غیرمسلم اکثریت کی تعداد کو اقلیت میں تبدیل کرسکتے تھے۔ جدید فرانس اسی اصول کی بناپر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ چونکہ وہ غالب اور حاکم تہذیب ہے اس لیے اس کے نوآبادیاتی نظام سے آنے والے افریقی ہوں یا الجزائری، وہ فرانسیسی طرزِ زندگی اختیار کیے بغیر فرانسیسی نہیں شمار کیے جاسکتے۔ انھیں اپنے دینی معاملات کو بھی فرانسیسی تہذیب کا تابع کرنا ہوگا۔ چنانچہ سر پررومال کے استعمال پر پابندی کو ایک قومی مسئلہ بنایا گیا۔

اگر اکثریت کے رواج، بودوباش، دینی فکر اور عمل اور معاشی، معاشرتی اور سیاسی طرزِعمل کی بنیاد پر کسی قوم کا تشخص قرار دیا جانا فرانس، برطانیہ، امریکا یا دیگر ممالک میں ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، تو پھر پاکستانی تشخص اور تہذیب و ثقافت بھی پاکستان کی غالب اکثریت کی بناپر جو قدرِمشترک پائی جاتی ہو اسی پر مبنی ہونی چاہیے۔ یہ قدر مشترک نہ تو علاقائی زبان ہوسکتی ہے، نہ   جسم و قدوقامت نہ قبائلی اور نسلی تعلق، یہ صرف اور صرف وہ تصورِ حیات ہی ہوسکتا ہے جو اس کے رہن سہن، کھانے پینے، معاشرتی عادات، معاشی ترقی کے تصور اور نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آنے والی زندگی میںکامیابی کے تصور کا تعین کرتا ہے۔

تہذیب و ثقافت میں مذہب کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور کیا وجہ ہے مغرب زدہ دانش ور اور مغربی مفکرین جب بھی ثقافت یا تہذیب کی تعریف کرتے ہیں، تو اس میں مذہب کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن بنیادی طور پر تہذیب و ثقافت سے مراد وہ رہن سہن اور روایات لیتے ہیں جو صدیوں سے کسی مقام یا کسی اجتماعیت میں پائی جاتی ہوں۔ اس سوال کا مختصر جائزہ ہم اس مقالے کے آغاز میں لے چکے ہیں کہ یورپی تاریخ میں عیسائی چرچ کے دور کو تنگ نظری، انتہاپسندی، مذہبی نفاق، ردِعقلیت، جذباتیت اور ترقی پسندی کی ضد خیال کیا جاتا ہے بلکہ یہ تصور مغربی فکر میں ایک ’مصدقہ حقیقت‘ کا مقام رکھتا ہے۔ جدید علمی تحقیق میں عیسائی چرچ کے خلاف ردعمل کو لبرل ازم یا اباحیت پرستی، عقل پرستی، سائنسی فکر، نشاتِ ثانیہ، احیاے انسان پرستی (Humanism)، احیاے فطرت پرستی اور روشن خیالی کے نام پر یاد کیا جاتا ہے۔ آج جو مکاتب ِ فکر یورپ و امریکا میں پائے جاتے ہیں اور ان کے زیراثر تعلیم پاکر آنے والے مسلم ممالک کے دانش ور، سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مذہب اور عقلیت میں ٹکرائو ایک فطری عمل ہے۔ وہ غیرشعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ مذہب لازمی طور پر انتہاپسندی کو پیدا کرتا ہے وغیرہ۔ اس لیے مغرب زدہ عمرانی علوم کا نقطۂ آغاز ہی عقل کی مطلق العنانی، مذہب کی چرچ کی چاردیواری تک محدودیت اور معیشت، سیاست، معاشرت اور ثقافت کا مذہب کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد ہونا، ترقی کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے اور جب علم پر مبنی معاشی ترقی، علم پر مبنی معاشرہ ، یا روشن خیالی کی بات کی جاتی ہے، تو ذہنی پس منظر میں عملاً مادیت پرستی، افادیت پرستی، اخلاقی اضافیت (Ethical Relativisim)، انفرادیت پرستی اور تہذیبی و ثقافتی ارتقا پر ایمان بالغیب لانے کے بعد ہی مذہب اور ثقافت کو معاشرتی ارتقا کے تابع کردیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج اخذ کیے جاسکیں۔ مزید یہ کہ مغربی تصورِ حیات کی پیروی میں مسلم معاشرے میں بھی مذہب کو ذاتی یا انفرادی معاملہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

اس مغربی فکری شیش محل میں محصور ذہن کے مقابلے میں ایک آزاد ذہن جو مغرب زدگی کے سحر سے نکل چکا ہو، جب تہذیب و ثقافت کے تصور پر غور کرتا ہے تو تہذیب و ثقافت صرف اور صرف ایک ملت کے تصورِ حیات کی قابلِ محسوس شکل اور مظہر قرار پاتی ہے۔ عصرِحاضر کے عظیم دینی رہنما اور مفکر سیدمودودی نے اس ساری بحث کو محض چند الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اس کے علوم و آداب، فنونِ لطیفہ، صنائع و بدائع، اَطوارِ معاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا، مگر حقیقت میں یہ نفسِ تہذیب نہیں ہیں، تہذیب کے نتائج و مظاہر ہیں۔ تہذیب کی اصل نہیں ہیں،شجر تہذیب کے برگ و بار ہیں۔ کسی تہذیب کی قدروقیمت     ان ظاہری صورتوں اور نمایشی ملبوسات کی بنیاد پر متعین نہیں کی جاسکتی۔ ان سب کو چھوڑ کر ہمیں اس کی روح تک پہنچنا چاہیے اوراس کے اساسِ اصول کا تعین کرنا چاہیے۔

اس نقطۂ نظر سے سب سے پہلی چیز جس کا کسی تہذیب میں کھوج لگانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کا تصور کیا ہے؟ وہ اس دنیا میں انسان کی کیا حیثیت قرار دیتی ہے؟اس کی نگاہ میں دنیا کیا ہے۔ انسان کا اس دنیا سے کیا تعلق ہے؟ اورانسان اس دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ یہ تصورِ حیات کا سوال ایسا اہم سوال ہے کہ انسانی زندگی کے تمام اعمال پر اس کا نہایت گہرا اثر ہوتا ہے اور اس تصور کے بدل جانے سے تہذیب کی نوعیت بنیادی طور پر بدل جاتی ہے‘‘۔(سیدابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، ۱۹۶۰ء ص ۱۱)

پاکستان بلکہ کسی بھی ایسے ملک کا تشخص جو اپنے آپ کو مسلمان یا اسلامی کہتا ہو، اس کی اسلامیت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کیوںکہ نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحد، نہ اس کا رنگ، نہ اس کے افراد کا نسلی یا قبائلی تعلق اس کا اصل تشخص قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ مغربی سامراجی فکرسے متاثر تحقیق کی حکمت عملی سے نجات اور آزادی کے بغیر ہم زمینی حقائق اور معاشرتی تصورات کو جیسے کہ وہ ہیں نہ تو صحیح طور پر  سمجھ سکتے ہیں اور نہ اس کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد کوئی نتائج نکال سکتے ہیں۔

اس معروضی اور مختصر تجزیاتی مقالے کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق جس اصول کی بنیاد پر ہوئی وہ مسلمانوں کا اپنی تہذیب، ثقافت اور نظریۂ حیات کی بنیاد پر ایک ملّت ہونا تھا جسے دوقومی نظریہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان دو ملّتوں میں ایک دریا کا پانی پینے اور ایک فضا میں سانس لینے کے باوجود بنیادی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اختلاف پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے۔ اس لیے ملّت اسلامیہ کو اپنے ثقافتی، تہذیبی اور دینی تشخص پر قائم رہنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ایک ایسا ملک وجود میں آئے جہاں وہ اپنی ’پہچان اور تہذیبی اور ثقافتی تشخص‘ کو نہ صرف برقرار   رکھ سکے بلکہ مزید ترقی دے سکے۔ ظاہر ہے یہ تشخص اور پہچان اسلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی تھی۔ ہند میں مسلم اُمت کی بقا اور ترقی کے لیے لازم تھا کہ ایک ایسا ملک وجود میں آئے جس کی پہچان صرف اور صرف اسلام ہو۔

پاکستان کے قیام کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے بانیِ پاکستان نے اسی تہذیبی اور ثقافتی تشخص کی نشان دہی کی تھی:

ہم ہند کو ہندستان اور پاکستان میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں… ہندو ہند اور مسلم ہند دونوں کو الگ ہونا چاہیے۔ چونکہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور بعض معاملات میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اجازت دیجیے کہ میں آپ کو کچھ اختلافات کے بارے میں بتا دوں۔ ہم ان سے تاریخ، ثقافت، زبان، فنِ تعمیر، موسیقی، قوانین، اصولِ قانون اور ہمارا سارا معاشرتی تانابانا اور ضابطۂ حیات میں مختلف ہیں (اے بی سی لندن کے ذریعے امریکیوں کے نام پیغام، لندن ۱۳دسمبر۱۹۴۶ئ، قائداعظم تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ناشر: بزمِ اقبال لاہور، ترجمہ: اقبال احمدصدیقی، ۱۹۹۸ئ، ص۲۷۲)

اس تشخص کے حوالے سے قائداعظم نے بارہا وضاحت سے یہ بات کہی کہ ثقافتی اور تہذیبی بنیادوں سے ان کی مراد اسلامی نظامِ حیات ہے چنانچہ پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی نظریۂ حیات کا قیام و نفوذ ہے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر ’Muslim Ideology‘(مسلم نظریے) کی اصطلاح استعمال کی:

ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے اپنی قوم کی تنظیم کرنا۔ اور ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں۔  نہ صرف اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں اور اسلامی آئیڈیل اوراصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خودمختاری ہے بلکہ مسلم آئیڈیالوجی بھی ہے جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمایے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔(مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن صوبہ سرحد کے نام پیغام، ۱۸جون ۱۹۴۵ئ، قائداعظم تقاریر و بیانات، جلد چہارم،  ۱۹۹۸ئ، ص۴۳۸)

آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ پاکستان کے اصل تشخص اور پاکستانیت کے اصل مفہوم کو نہ صرف اس کے صحیح تناظر میں بلکہ بانیانِ پاکستان کے بیانات کی روشنی میں تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے، لیکن یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب محققین یورپ زدگی سے اپنے ذہن کو آزاد کرکے مغربی معاشرتی علوم کے طرزِ تحقیق کے خطرات کو ذہن میں رکھتے اور اپنا دامن بچاتے ہوئے اس موضوع پر مختلف زاویوں سے غور کریں۔ وہی قومیں زندہ رہنے کا حق رکھتی ہیں جن کی نظریاتی اساس مضبوط ہو اور جو خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوں