مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۲۱

جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس ضمن میں جو جدوجہد ہورہی ہے، وہ صرف جموں و کشمیر کے عوام اور ان کے مستقبل کی نہیں، خود پاکستان کی بقا اور ترقی کی جنگ ہے۔ کشمیری بہنیں، بھائی، بچّے اور نوجوان اس جدوجہد میں اپنی جان، مال، مستقبل اور آبرو تک کی قربانی محض ایک خطۂ زمین کے لیے نہیں دے رہے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ جدوجہد دینی، نظریاتی، تاریخی، معاشی اور تہذیبی بنیادیں رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں اہلِ کشمیر بالکل واضح ذہن اور بڑی صاف سمت اپنے سامنے رکھتے ہیں۔اسی طرح اس معاملے میں پاکستانی قوم کا موقف پہلے روز سے بڑا واضح اور نہایت مضبوط دلائل پر استوار ہے۔ تاہم، افسوس ناک صورتِ حال دیکھنے میں آتی رہی ہے کہ بعض اوقات، بعض حکومتوں یا بعض مقتدر افراد نے کمزوری دکھائی، مگر قوم نے ایسی کسی عاقبت نااندیشی کو قبول نہیں کیا۔

اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ، اور خود پاکستان میں ایک نوعیت کی سرگرمیوں سے مسئلہ کشمیر پر جو اشارے مل رہے ہیں، وہ سخت تشویش ناک ہیں۔ ان پر بجاطور پر ہرسنجیدہ اور دُور اندیش پاکستانی پریشان ہے۔ بعض عرب ممالک، بھارت اور امریکا مل جل کر، پاکستان پر دبائو ڈال کر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر، بھارت سے تجارتی و ثقافتی راہ و رسم کے دروازے کھولے جائیں۔ اسی ضمن میں ’قومی سلامتی‘ کے نام پر اشاروں، کنایوں میں تاریخ کو دفن کرکے یا تاریخ کو بھلا کر آگے بڑھنے کا غیرمنطقی اسلوبِ بیان اور قومی موقف سے ٹکراتا طرزِتکلّم بھی ہمارے ہاں پیش کیا جارہا ہے۔ یہ طرزِعمل خطرناک صورتِ حال کی نشان دہی کرتا ہے، جس پر حکومت ِ پاکستان اور پاکستان کی پارلیمنٹ کو دوٹوک الفاظ میں اپنے تاریخی موقف کا اعادہ کرنا چاہیے اور ایسی کسی بھی مہم جوئی سے لاتعلقی کا واضح اعلان کرنا چاہیے۔ اور وہ اعلان یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ، جموں و کشمیر کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کی متفقہ قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت کے تحت حل کیا جاناہے۔ کسی قسم کی ثالثی کی باتیں بھی پوری جدوجہد کو گہرے اندھے کنویں میں دھکیل دیں گی۔ بات چیت، رائے شماری کے انعقاد کے انتظامات کی تفصیلات پر ہونی چاہیے۔

یہ کہنا کہ ’’بھارت اور چین ، سرحدی تنازعات کے باوجود اتنے سو بلین ڈالر کی تجارت کرتے ہیں‘‘، ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ اس مثال کا کوئی موازنہ، مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تعلقات سے نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف ملکوں کے سرحدی تنازعات اور کشمیر کے سوا کروڑ لوگوں کے مستقبل کے فیصلے کو ایک ترازو میں رکھنانہایت سنگ دلی اور تاریخ کے ساتھ سنگین کھیل کھیلنا ہے۔

یاد رکھیے، جس نے تاریخ سے کھیل کھیلنے کی کوشش کی، وہ عبرت کا نشان بنا ہے۔ وزارت، حکومت اور ملازمت چند برسوں کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح شخصی کروفر کی حیثیت محض پرچھائیں کے برابر ہے مگر غلط فہمی میں مبتلا لوگوں کے فیصلوں کی سزا قوم مدتوں بھگتتی ہے، اور تاریخ سے بے وفائی کے مرتکب لوگوں کو تاریخ کبھی کسی اچھے نام سے یاد نہیں کرتی۔

ہونا یہ چاہیے کہ کشمیر کے مظلوم عوام کی ہمہ جہت سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد کی جائے، ان سے ہرسطح پر تعاون کیا جائے۔ اس ضمن میں محترم سیّد علی گیلانی صاحب نے بہت بروقت انتباہ کیا ہے۔

ہم پاکستان کے سیاسی، دینی، صحافتی، حکومتی حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قومی اداروں کو مجبور کریں کہ وہ کسی بھی مہم جوئی اور پس پردہ نامہ و پیام (بیک ڈور ڈپلومیسی)سے پرہیز کریں۔ جو معاملہ ہو، وہ کھلاہو اور اس میں کشمیر کے عوام کا اعتماد شامل ہو، اور عالمی مسلّمہ اصولوں کے مطابق ہو۔

اسی طرح پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی کی تشکیل نو کی جائے۔ اس کے غیرسنجیدہ چیئرمین کو تبدیل کیا جائے۔ ذمہ دار، فرض شناس اور کسی مردِ معقول کو کمیٹی کا سربراہ بنایا اور کمیٹی کو متحرک کیا جائے۔ عالمی سطح پر ایک مہم چلائی جائے، جس میں خاص طور پر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے مظالم اور آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کے بھارتی جرائم کو بے نقاب کیا جائے۔

اس حوالے سے حکومت ِ پاکستان، پارلیمنٹ اور پاکستان کی مسلح افواج کو تاریخی موقف پر جم کر کھڑے ہونا چاہیے۔

 یہاں پر سیّد علی گیلانی صاحب کا موقف اور انتباہ پوری تائید کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے:

حوصلہ بلند رکھیں، فتح حق کی ہوگی: سیّد علی گیلانی

’’اللہ تعالیٰ کا بے پایاں کرم ہے کہ اس نے ایک بار پھر مجھے آپ لوگوں سے مخاطب ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔

ہم سب کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ آج ہم بحیثیت ایک قوم کے، ایک انتہائی مخدوش اور صبر آزما صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف بھارت ظلم و جَور کے نت نئے ہتھکنڈے اپنا کر ہماری قوم کا قافیۂ حیات تنگ کرنے اور ہمیںا پنی ہی سرزمین سے بے دخل کرنے پر تُلا ہوا ہے، اور دوسری طرف عالمی برادری کے ضمیر پر کشمیر کے تعلق سے چھائی مردنی مزید گہری ہوتی جارہی ہے، اور بھارت کو کشمیر میں کچھ بھی کرگزرنے کی گویا چھوٹ سی مل گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں عالمی سیاست میں رُونما ہونے والی کچھ تبدیلیوں سے اس بات کا بھی صاف عندیہ ملتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے جس کے بارے میں کشمیری عوام کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ اس تعلق سے ہماری حمایت اور ہم نوائی کا دم بھرنے والے ہمارے کچھ ہمدردوں کا کردار بھی شکوک و شبہات سے گھرا ہوا ہے:

  • سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال سے کسی قوم کو سابقہ پیش آئے تو اس کے افراد میں کسی قدر بددلی یا مایوسی پیدا ہو جانا اگرچہ ایک فطری چیز ہے لیکن میں آپ کو یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم الحمدللہ ،مسلمان ہیں اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بے انتہا قدرت اور رحمت پر ایمان اور یقین ہو، ان کے لیے مایوسی کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔
  • دوسری چیز جس کی طرف مَیں آپ سب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ ہماری جدوجہد حق اور انصاف پر مبنی ہے۔ ہم کسی سے نہ تو کوئی بھیک مانگ رہے ہیں، نہ کسی سے کچھ چھیننا چاہتے ہیں، بلکہ ہم صرف اپنے ان غصب شدہ حقوق کی بازیابی چاہتے ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر نہ صرف تسلیم کیے گئے ہیں بلکہ ان کا ہم سے وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
  • تیسری چیز جس کو نظرانداز کرنے یا بھولنے کے ہم ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے، یہ ہے کہ اپنے حقوق کی بازیابی کی اس مبنی برحق و انصاف جدوجہد میں ہم نے عظیم اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے لاکھوں نوجوانوں، بزرگوں، اور بچوں نے اپنا خون بہاکر اور ہماری ہزاروں مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عصمتیں لٹا کر، اس تحریک کی آبیاری کی ہے۔ یہ سبھی قربانیاں ہمارے لیے ایک مقدس قومی امانت ہیں اورہم سب اس کے امین اور اس کی حفاظت کے لیے ذمہ دار اور عہد کے پابند ہیں۔ اسی طرح ہمارے شہداکی بیوائیں، یتیم اور ہمارے محبوسین اور ان کے اہلِ خانہ بھی ہم سب کے لیے ایک اجتماعی ذمہ داری ہیں۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنا اور ہرطرح سے ان کا خیال رکھنا اور ان کی دل جوئی کرتے رہنا، ہمارا ایک قومی فریضہ ہے۔

اُتار اور چڑھائو کے مراحل ہر جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی جدوجہد ختم نہیں ہوتی بلکہ اکثر ان کٹھن مراحل سے گزر کر ہی تحریکیں مزید سنورتی اور نکھرتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ جدوجہد کا دورانیہ جب زیادہ طویل ہوجائے، تو کچھ ایسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن پر اگر بروقت توجہ نہ دی جائے، تو وہ جدوجہد کا حلیہ اور سمت دونوں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ طالع آزما اور مفاد پرست عناصر کے ایک گروہ کا ظہورہوتا ہے، جو بدقسمتی سے ہماری صفوں میں بھی نہ صرف پیدا ہوچکا ہے بلکہ انتہائی سرگرم بھی ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود ان کالی بھیڑوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے، جو کسی بھی وقت اپنے حقیر مفادات کے لیے کسی بھی قسم کی سازباز کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔

جیساکہ مَیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کشمیر کے حوالے سے درپردہ کچھ سرگرمیوں کے عندیے مل رہے ہیں۔ کشمیری عوام اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں۔ انھیں الگ تھلگ رکھ کر کیا کچھ حاصل کرنے کی توقع کی جارہی ہے، یہ سب سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم اس بات کو واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد کا مقصد کشمیری عوام کے لیے حقِ خود ارادیت کا حصول ہے اور اس سے ہٹ کر کچھ اور کشمیری عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ قیامِ امن کی خواہش رکھنے والوں کو اس زمینی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس خطے میں بدامنی کی وجہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نہیں بلکہ بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور تسلط ہے۔ اور جب تک اس وجہ کو دُور نہیں کیا جاتا، تب تک قیامِ امن کی کوئی بھی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوسکتی۔

پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ہم سب سے بڑھ کر حامی ہیں کیونکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر کشمیری ہی ہوتا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ان تعلقات کی بحالی کے نام پر اگر مسئلۂ کشمیر کو سردخانے کی نذر کرنے کی بات ہو تو یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر بہتر تعلقات کو استوار کرنا ایک اچھی سوچ ہے، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تلخی پیدا کرنے والی وجہ باقی نہ رہے۔ ایک طرف کشمیری عوام ظلم کی چکّی میں پستے رہیں اور دوسری طرف ہم خطے میں امن کی بھی توقع رکھیں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟

ہرقوم اورملک کی طرح کشمیری عوام کو بھی اپنے مفادات کے بارے میں سوچنے اور ان کا تحفظ کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے، اور ہمارا مفاد اس کے سوا کسی اور چیز میں نہیں ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جاری اپنی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اور یہ کام ہم سب کشمیریوں کو مل جل کر کرنا ہوگا۔

یہ تحریک جتنی مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں رہنے والوں کی ہے، اتنی ہی آزادکشمیر، گلگت بلتستان، جموں، لداخ، کشتواڑ، ڈوڈہ، غرض کشمیر کے ہرحصے میں رہنے والوں کی ہے، اور اس میں سب کا یکساں تعاون بھی ضروری ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جس طرح بھارتی مظالم کے سب سے زیادہ شکار مقبوضہ وادی کے لوگ رہے، اسی طرح اس تحریک میں سب سے زیادہ حصہ بھی مقبوضہ وادی کے لوگوں کا ہی رہا ہے۔ لیکن اس صورتِ حال کا تبدیل ہونا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کے ہرحصے کے لوگ اس میں یکساں طورپر شامل ہوں اور بقدرِ استطاعت اپنا تعاون کرکے اس کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔

یاد رکھیں! جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ حوصلوں اور ہمتوں سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ لہٰذا، اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں اور مایوسی کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ حق اور باطل کی لڑائی میں فتح آخرکار حق کی ہی ہوتی ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!‘‘ [۲۲مارچ ۲۰۲۱ء، سری نگر]

قرآنِ حکیم کتابِ عجائب الغرائب ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کے اسرار و رُموز ہردور میں انسانوں کے سامنے نئے انداز سے اُبھرتے آئے ہیں اور یوں ہی اُبھرتے رہیں گے۔ ہمارے علم کی سطح جیسے جیسے بلند ہوتی جاتی ہے، کائنات پر ہمارا عملِ تسخیر جس درجہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے، قرآن اپنے معارف کو اسی نسبت سے آشکار کرتا جاتا ہے۔

انسانوں نے اس کتابِ عظیم کے بارے میں ہر دور میں جو کچھ کہا ہے وہ اسی لیے مختلف ہے۔ ہم زمان و مکان کے دائرے میں رہ کر سوچ سکتے ہیں۔ اسی لیے قرآن کی تفسیر، اس کی تعلیمات اور اس کے مطالعے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ ہم قرآن کی صفات اور خصوصیات کو اس کی اپنی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔یہ کوشش ہماری تمام ذاتی کوششوں کی نسبت حقائق سے قریب تر ہوگی۔ ’’قرآن اپنی تفسیر آپ ہے‘‘ اس جملے کو پھیلایئے تو ایک طرف  یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ قرآن کی تعلیمات نہایت واضح ہیں، اور دوسری طرف اپنی تفسیر   آپ ہونے کا یہ مفہوم بھی واضح ہوجائے گا کہ قرآن کی نوعیت، اس کے دائرے اور احاطے کی وسعت، اس کے مختلف پہلوئوں اور گوشوں کا تعارف، اسی کتاب کے وسیلے اور مدد سے ممکن ہے۔

اس مطالعے میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ اس کتاب کی اہم صفات جس ترتیب سے اس میں آئی ہیں اسی ترتیب سے پیش کی جائیں:

  • کتاب: قرآنِ کریم کے آغاز ہی میں ہمیں اس کا یہ تعارف ملتا ہے:

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۝۰ۚۖۛ فِيْہِ۝۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۲ۙ (البقرہ ۲:۲) اس کتاب میں کوئی شک و شبہہ نہیں۔ یہ متقیوں کے لیے رہنما ہے۔

کتاب کے لفظ کے ساتھ ہی پہلا تصور جو ہمارے ذہنوں میں اُبھرتا ہے وہ ایک مرتب چیز کا ہے، منتشر اوراق کو کتاب نہیں کہا جاسکتا۔ قرآن نے کئی مقامات پر اپنے آپ کو ’کتاب‘ کہا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحیِ ربّانی کی روشنی میں مرتب فرمایا اور ایک مرتب و منظم شکل میں انسانیت کو عطا فرماکر تکمیلِ فریضۂ نبوت و رسالت فرمائی۔

قرآنِ کریم کی سورتوں اور آیتوں پر ہی غور کیجیے تو اس کی ترتیب ِ محکم واضح ہوجائے گی۔ رہی بات تکرار کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہم احکام کی وضاحت مختلف صورتِ حال (situations) کے تحت کی گئی ہے، یا اہمیت کو اُبھارنے کے لیے بعض احکام کو دُہرایا گیا ہے یا تصریف ِ آیات کا مقصد خالص نفسیاتی اور تعلیمی ہے کہ مختلف انداز یا ایک ہی انداز سے ایک بات کو وقفے وقفے کے ساتھ یوں دُہرایا جائے تاکہ وہ بات کے مرحلے سے گزر کر ’مسلکِ حیات‘ کا اشارہ اور قرینہ بن سکے۔

’کتاب‘ کے اس عام اور مروجہ مفہوم سے آگے بڑھیے تو عربی زبان کی رُو سے کتاب کے اور بھی کئی معانی سامنے آتے ہیں۔ کتاب مجموعۂ قوانین کو بھی کہا جاسکتا ہے، بلکہ وہ کتاب جو احکام و قوانین کا مجموعہ ہو ، اسے ہی الکتاب کہنا زیب دیتا ہے۔ اس معانی کو قرآنی آیات کی روشنی میں پرکھا جاسکتا ہے، مثلاً کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کا مطلب یہی ہوا کہ تم پر روزے فرض کیے گئے۔ قرآن کے باب میں کتاب کے انھی معانی کی وضاحت سورئہ نساء کی اس آیت سے ہوتی ہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ ط (النساء ۴:۱۰۵) (اے رسولؐ) ہم نے تم پر یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تاکہ تم اللہ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو۔

  • شک و شبہہ سے بالاتر :کتاب کے معنوں کی اس وضاحت کے بعد ہم قرآنِ حکیم میں قرآن کے پہلے تعارف کی طرف لوٹتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہہ نہیں، اور جو متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ اس کتاب میں شک و شبہہ اس لیے نہیں کہ یہ خدائے علیم و خبیر کی نازل کی ہوئی ہے۔ قرآن نے تنزیل کے لفظ سے یہ بات واضح کردی ہے کہ وحی ایک خارجی شے ہے اور نبیؐ کے ذہن کی پیداوار نہیں۔ چودہ صدیاں اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہیں کہ اس کتاب میں کل شک تھا، نہ آج شک ہے (اور نہ کل ہوگا)۔ آج علوم کی تیزرفتاری کا عالم یہ ہے کہ بعض کتابیں چھپنے کے دوران ہی پرانی ہوجاتی ہیں لیکن وحی الٰہی کے حقائق اتنے محکم ہیں کہ چودہ صدیوں نے انھیں اور اُبھار دیا ہے۔
  • ھُدٰی: اِس کتابِ محکم نے اپنے تعارف میں اپنے آپ کو ھُدٰی کہا ہے۔ ہم نے اس کا ترجمہ ’رہنما‘ لکھا ہے۔یہ ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری اور دوسرے مترجمین کے یہاں بھی ملتا ہے اور اس لفظ کے لغوی معنوں پر دلالت کرتا ہے۔

ھُدٰی کے معنی ہیں راستہ دکھانے کے لیے آگے آگے چلنا۔ زندگی کی تاریک راہوں کو ہمارے لیے قرآن نے اسی طرح روشن کیا ہے۔ اس لفظ کے بنیادی معنوں میں رہنمائی کے ساتھ ساتھ روشنی کا مفہوم بھی موجود ہے۔ وہ چیز جو روشن ہو (اور جس کی روشنی میں دوسری اشیا بھی صاف نظر آئیں)  ھُدٰی ہے جیسے دن۔قرآن کی اس روشنی کا نتیجہ ہے کہ اس کے بتائے ہوئے حقائق کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا لیکن قرآن کی یہ رہنمائی، یہ ہدایت اور روشنی، متقی لوگوں کے لیے ہے۔

لفظ متقی کا ترجمہ ’ڈرنے والے‘ مکمل نہیں۔ تقویٰ قرآن کی ایک نہایت جامع اصطلاح ہے اور اُردو میں اسے قبولِ عام حاصل ہے، اسی لیے کسی دوسرے لفظ کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ قرآن میں اکثر مقامات پر تقویٰ کے ساتھ اللہ کا ذکر ضرور ہے۔ اس سے قرآنی تقویٰ کی وضاحت خود بخود ہوجاتی ہے۔ متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی حفاظت اور نگہداشت کے متمنی ہیں، جو ہر اس چیز سے احتیاط اور اجتناب برتتے ہیں جو احکامِ الٰہی کے مطابق نہ ہو۔ متقی اپنی زندگی کا ہرلمحہ اللہ کے احکام کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں اسوئہ حسنہ کو نمونے کے طور پر اپنے سامنے رکھتا ہے۔ متقی احکامِ الٰہی سے پیوست رہتا ہے اور فاجر (متقی کی ضد) وہ ہے جو راستے سے علیحدہ ہوجائے۔

  • فرقان: یہ کتاب جس میں کوئی شک و شبہہ نہیں اور جو متقیوں کی رہنمائی کرتی ہے، ان حقائق کا مجموعہ ہے جو اس سے پہلے دوسری آسمانی کتابوں میں پیش کیے گئے تھے، اور جن کو    وقت گزر جانے کے ساتھ ان مذاہب کے متبعین نے مسخ کر دیا تھا، یا چھپا دیا تھا۔ اس کتاب کے ذریعے وہی حقائق واضح طور پر انسانوں کے سامنے آگئے۔ یہ وہ مجموعۂ قوانین ہے جس نے تمام چھپی ہوئی حقیقتوں کو اس طرح بیان کر دیا کہ حق و باطل الگ الگ ہوگئے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کا احاطہ انسان کی عقل نہیں کرسکتی تھی۔ قرآن نے اپنے حقائق کو ’بینّات‘ کہا ہے:

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج (البقرہ ۲:۱۸۵) وہ رمضان ہی کا مہینہ ہے جس میں (اوّل اوّل) قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت ہے، کھلی ہوئی نشانیاں (بینات) ہیں اور فرقان ہے۔

’مبین‘ اور ’بینّات‘ کے بیان کردہ مفہوم سے بیّنات کی وضاحت اس کے مروجہ ترجمے، یعنی ’ہدایت کی کھلی ہوئی نشانیاں‘ کی نسبت زیادہ بہتر طور پر ہوجاتی ہے۔ ’فرقان‘ کے لفظ میں بھی مبین کے معنی کسی حد تک موجود ہیں۔ فرقان الگ الگ کردینے والے کو کہتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے حق و باطل کو ہمیشہ کے لیے الگ الگ کر دیا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ یہ کتاب’مبین‘ بھی ہوتی۔ اللہ کی وحی ہر دور میں فرقان رہی ہے۔ حضرت موسٰی کے عہد میں ایک طرف فرعون، قارون اور ہامان کی مشترکہ قوتیں باطل کے آستانے پر انسانیت کے سر کو جھکانا چاہتی تھیں، اور دوسری طرف موسٰی کے ذریعے خدا حق کو آشکار کر رہا تھا۔ قرآنِ کریم نے توریت کو بھی فرقان کہا ہے۔ اسی بناپر  ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وحی الٰہی ہر زمانے میں فرقان رہی ہے۔

  • مبین و مصّدق: قرآنِ حکیم نے صحف ِ اولیٰ کی بنیادی تعلیمات کو اپنے دامن میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ قرآن کی اس خصوصیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اسے کتابِ مبین اور مصدق قرار دیا ہے۔ یہ کتاب تورات اور دوسرے صحف کی مصدق ہے۔

فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ (البقرہ ۲:۹۷) اس (جبرئیلؑ) نے تو یہ کتاب اللہ کے حکم سے تمھارے دل پر نازل کی ہے، جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔

اللہ نے ہمیشہ انسانوں کو فسانہ و فسوں کی بھول بھلیوں سے بچانے کے لیے اپنے انبیاؑ کے ذریعے وحی کی صورت میں حقائق کے تحفوں سے سرفراز فرمایا ہے۔ انسانوں نے ان حقائق کو   فسانہ و فسوں کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی لیکن قرآنِ حکیم نے ان کوششوں کے سلسلے کو ہمیشہ کے لیے ناکام و نامراد بنا دیا اور وہ اس طرح کہ قرآن کے دامن میں صحف ِ اولیٰ کے حقائق بھی جگمگا رہے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ وہ حقائق جن میں کوئی شک و شبہہ نہیں اور جو رہنمائی کرتے ہیں وہ اَبدی ہیں___  وقت اور زمانے سے بلندتر!

مصدّق کے معنی ہیں تصدیق کرنے والا اور سچ کر دکھانے والا۔ سچ کر دکھانے کے لیے قوت ایک بنیادی عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔ قرآن نے تعلیماتِ الٰہی اور انسانی زندگی کی بنیادی اقدار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے وسیلے سے سچ کر دکھایا۔

قرآن اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، وہ کتابیں جن میں انسانوں کی مختلف جماعتوں اور اَدوار کے لیے اللہ تعالیٰ کی وحی موجود تھی۔ وحی الٰہی کا مقصد انسانوں کی رہنمائی ہے۔ رہنمائی کا تعلق اعمال سے ہے۔ تمام صحف ِ سماوی اور قرآن میں اچھے اعمال کے لیے بشارت دی گئی ہے اور بُرے اعمال کے نتیجے سے ڈرایا گیا ہے (یہ کام نبی اکرمؐ کے وسیلے سے ہوا، اسی پر حضوؐر کو بشیر و نذیر کہا گیا)۔

  • بُشرٰی: قرآن کو اللہ تعالیٰ نے بُشْرٰی یعنی خوش خبری اور بشارت کا نام بھی دیا ہے۔ چنانچہ کہا: وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۝۹۷(البقرہ ۲:۹۷) ’’اور خوش خبری سنا رہا ہے ایمان والوں کو‘‘۔ قرآن ہمیں بشارت دیتا ہے کہ اچھے اعمال کا نتیجہ دونوں جہانوں کی سرفرازی ہے، ہمیشگی کی زندگی اور جنّت ہے۔ یہ بشارت ہمارے لیے مہمیز اور قوتِ محرکہ کا کام دیتی ہے۔ قرآن کی آیاتِ کریمہ مبشرات ہیں۔ ایسی ہوائیں جو رحمت اور بشارت کے بادلوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے آتی ہیں۔
  • نُزولِ بالحق : وہ کتاب جس میں شک و شبہہ نہ ہو، جو ایسے حقائق سے عبارت ہو جو ظن و گمان کی اس دنیا میں کبھی نہیں بدلتے، جو دوسری کتابوں کی مصدق ہو، جو حق و باطل کو الگ الگ کرتی ہو، اس کے بارے میں اس کے بھیجنے والے کا یہ کہنا ان خصوصیات کو سمیٹ لینے کے لیے ہے کہ:

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ ط(البقرہ ۲:۱۷۶) اللہ نے یہ کتاب حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے۔{ FR 549 }

حق کے ساتھ نازل کرنے کا منطقی اور لازمی تعلق مصدّق کے ساتھ ہے۔ اُسی کتاب کو    ہم حق کہہ سکتے ہیں جس کی تمام تعلیمات وقت کی گردشوں پر غالب آئیں اور جس کے دامن میں وہ ربانی تعلیمات محفوظ ہوں جو ابتدائے کائنات اور آغازِ وحی سے زمانۂ نزولِ قرآن تک انسانی زندگی کی شیرازہ بندی کرتی رہی تھیں:

نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَ اَنْزَلَ التَّوْرٰ ۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۝۳ۙ  (اٰل عمرٰن ۳:۳)اس نے (اے محمدؐ) آپؐ پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اسی نے توریت اور انجیل نازل کی۔

حق کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حق میں دوعناصر ہیں: ۱-صحت، ۲-پایداری۔ ثبات و دوامِ صحت اور ثبات کے عناصر جس چیز میں ہوں گے، اسے ایک محسوس شکل عطا کردیں گے۔

قرآنی تعلیمات محسوس و مشہود شکل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے رفقا کی زندگی میں یوں اُبھریں کہ ۱۴۰۰ سال گزرنے کے بعد نقشِ پا کی شوخی آج بھی یہ کہہ رہی ہے کہ  کوئی ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے۔ جب حقیقتیں محسوس طور پر سامنے آتی ہیں تو ان کے نتائج بھی ہم مرتب شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ قرآن اس لیے بھی حق ہے کہ اس کی تعلیمات میں صحت و دوام ہے، اور اس لیے بھی کہ اس کی تعلیمات کے یہ پہلو انسانی زندگی میں نتائج کے طور پر مرتب ہوچکے ہیں۔ حق کی لازمی پہچان یہ ہے کہ وہ باطل کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ بقول اقبال  ؎

باطل دُوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

حق اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے اور حالات اس کے سانچے میں ڈھلتے رہتے ہیں۔ ایک محترم بزرگ نے حق کے معانی کی قرآنی توضیح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جو زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دے سکے‘‘۔۱

یہ توضیح گمراہ کن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ حق زمانے کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دیتا، بلکہ زمانے کے تقاضے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔۲  کیوں کہ حق صاحب ِ حکمت بھی ہے اور صاحب ِ تخلیق و ایجاد بھی۔ اللہ اسی لیے حق ہے اور رسول و قرآن بھی اسی مفہوم کے اعتبار سے حق ہیں۔ حق کا مقابل لفظ ’ظن‘ ہے جس طرح اسلام و کفر۔ اور ظن و حق کا فرق یہی تو ہے   ؎

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

مومن میں آفاق اس لیے گم ہوتے ہیں کہ حق اسے صاحب فقر غیور بنا دیتا ہے۔ حق کے سلسلے میں قرآن نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ ، یعنی  حق (وحی الٰہی) ایک خارجی شے ہے، محض نبیؐ کے ذہن کی پیداوار نہیں۔ خدا اسے نازل کرتا ہے، آدمی کا علم اسے منکشف نہیں کرتا۔ حق کا استحکام و ثبات اسے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے اپنی کتاب کو ذکریٰ اور تذکرہ کہا ہے:

ذٰلِکَ نَتْلُوْہُ عَلَیْکَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّکْرِ الْحَکِیْمِ o(اٰل عمرٰن ۳:۵۸) (اے محمدؐ) ہم تم کو یہ آیات اور حکمت بھری نصیحتیں (ذکرالحکیم) سناتے ہیں۔

  • ذکر : ذکر اس شے کو کہتے ہیں جو ذہن میں محفوظ ہو، جو بھلائی نہ جاسکے۔ علامہ ابنِ مکرم صاحب ِ تاج نے لکھا ہے کہ جو کتاب تفاصیلِ دینی اور قوانینِ اُمّم پر حاوی ہو، وہ ذکر ہے۔ قرآن میں دین کی تفاصیل بھی ہیں اور پرانی اُمتوں کے قوانین بھی محفوظ ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کے تذکرے بھی۔ تذکرہ کے معنی ہیں یاد کرنا اور یاد دلانا۔ قرآن نے کہانی کے طور پر اپنے پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لیے پرانی قوموں کے حالات نہیں پیش کیے ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم ان کے نتائج اور انجام کی روشنی میں اپنی روش حیات کا تعین کرسکیں۔

آج دنیا کے دوسرے مذاہب کی کتابیں (بالخصوص عہدنامۂ عتیق و جدید) جس صورت میں ہمیں ملتی ہیں وہ افسانے کی صورت میں ہیں، ایسے افسانے جن کی دل چسپیوں میں ہم گم ہوجائیں اور جب سطح پر اُبھریں تو رہنمائی کا کوئی تابناک اور درخشاں موتی ہمارے ہاتھ میں نہ ہو۔

فسانہ و فسوں میں گم شدہ ذہن صحف ِ سماوی اور کتابِ قوانین سے بھی دل چسپی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جون ڈی یہانن (John D. Yohannan) نے ’ایشیائی ادب‘ کے ایک مجموعے میں قرآنِ کریم کے انتخاب سے پہلے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ادب کے ایک کارنامے کی حیثیت سے شدید دبائو کے تحت ہے، کیوں کہ لازمی طور پر دنیا کے دوسرے سامی مذاہب کے صحف سے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے‘‘۔(ٹریژری آف ایشین لٹریچر، مطبوعہ نیو امریکن لائبریری، اشاعت پنجم، ۱۹۶۴ء، ص ۳۸۹)

قرآنِ حکیم کے اسالیب و خصوصیات کے بارے میں آپ جو کچھ جانتے ہیں اور جو کچھ یہاں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کے پیشِ نظر اس خیال پر تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ قرآن جہاں روح، جنّت اور اللہ کے انعامات کا ذکر کرتا ہے وہاں الفاظ پرِ جبرئیلؑ کی آواز بن جاتے ہیں، اور جہاں احکا م و ہدایت دیتا ہے وہاں ہرلفظ زندگی کی طرح سنگین ہے۔ اسالیب کا یہ تنوع اس کے اعجاز کا ایک پہلو ہے۔

ذکر کے معنی عظمت اور بڑائی کے بھی ہیں۔ اس اعتبار سے بھی یہ کتابِ جلیل ’الذکر‘ ہے۔ جس آیت ِ کریمہ (آل عمران، آیت ۵۸) کا اقتباس ابھی آپ نے پڑھا ہے اس میں ’ذکرالحکیم‘ کے ساتھ ساتھ ’آیات‘ بھی کہا گیا ہے۔ آیت نشانی کو کہتے ہیں۔ اللہ کی نشانیاں ہماری ذات اور کائنات دونوں میں موجود ہیں  ع

اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات

قرآن حق ہے اور اس اعتبار سے اللہ کی سب سے محکم آیت اور نشانی ہے (ویسے قرآن کے ہرحکم یا جملہ کو آیت کہا جاتا ہے)۔ اللہ ہمارے دائرہ ادراک سے باہر ہے   ع

ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود

اور اس مسجود کے لیے قبلہ نمائی کے فرائض قرآنِ حکیم ادا کر رہا ہے۔ یہ معبود کی طرف سب سے اہم اشارہ ہے۔ اس میں غوروفکر لقائے رب کا وسیلہ بنتا ہے۔

  • موعظت: وہ کتاب جو بہت واضح ہو، جو قوانین کا مجموعہ ہو ، جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتی ہو، جس کی بیان کردہ باتیں مستحکم حقائق کا درجہ رکھتی ہوں، اور جس میں ایمان والوں کے لیے ’بشارت‘ ہو۔ اس کا ایک پہلو ’وعظ‘ ضرور ہوگا۔ اور وہ کتاب موعظت کے درجے پر ضرور فائز ہوگی۔ ہدایت اور موعظت کا رشتہ حددرجہ منطقی ہے۔ جو چیز رہنمائی کرے گی، وہ راہ کے خطروں سے بھی ڈرائے گی، جیسے سڑک پر خطرے کی مختلف علامتیں اور عبارتیں ملتی ہیں۔ موعظت کے معانی ہیں: ’’اعمال کے اچھے بُرے نتائج سے باخبر کرنا‘‘، اس طرح کہ دلوں کی کیفیت بدل جائے۔ بعض ائمہ لغت نے اس میں حکم کے پہلو کو بھی شامل کیا ہے۔ یعنی صرف خبر دینا نہیں، بلکہ حکم دینا، اور (بُری باتوں سے) روک دینا۔ اسی اعتبار سے قرآن نے اپنے آپ کو موعظت کہا ہے:

ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۸ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۸) یہ (قرآن) انسانوں کے لیے بیان اور اہلِ تقویٰ کے لیے ’ہدایت‘ اور ’موعظت‘ ہے۔

یعنی اس کتاب سے ایک طرف تو عام انسانوں کو دینِ حق کے بارے میں حقائق معلوم ہوتے ہیں اور دوسری طرف مومنوں اور متقیوں کے لیے یہ کتابِ ہدایت ہے___ ایسی ہدایت جو بُرے اعمال اور غلط روش کے نتائج سے آگاہ کرتی ہے اور حکماً ان سے روکتی بھی ہے۔

علم: ہدایت اور موعظت کے لیے لازمی ہے کہ وہ حق ہو اور حق کا تعلق علم سے ہے۔ قرآن اللہ کا علم ہے۔ اس اجمال کی تفصیل مناسب ہوگی۔ اللہ نے اسے اپنے علم سے نازل کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

لٰكِنِ اللہُ يَشْہَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ۝۰ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ يَشْہَدُوْنَ۝۰ۭ وَكَفٰي بِاللہِ شَہِيْدًا۝۱۶۶ (النساء۴:۱۶۶) اللہ نے جو کتاب تم پر نازل کی ہے اس کی نسبت وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے اپنے علم سے نازل کی ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ کافی ہے گواہی کے لیے۔

یہ ہے قرآن کے بارے میں اس کے بھیجنے والے کا بیان، اور خطاب ہے اپنے رسولؐ سے۔

’علم‘ یقین اور حقیقت کے احاطہ و ادراک کو کہتے ہیں۔ یقین اور حقائق کی بنیاد دلیل و بُرہان پر ہوتی ہے۔ حق اور علم کو محض جذبات کا سہارا نہیں لینا پڑتا بلکہ حق اپنے آپ کو دلیل اور عقل کی بنیادوں پر منواتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عقلی طور پر حقائق کو قبول کرنے کے بعد ہم انھیں اپنے جذبات کے پیکر میں ڈھال لیں۔ عقل اور دل کے درمیان اتنے فاصلے نہیں ہیں جن کا عام طور پر ذکر کیا جاتاہے۔ ایک طرف اگر مومن کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ: وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ (المائدہ ۵:۸۳) ’’اس کتاب کو سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں‘‘، تو دوسری طرف اسی جماعت کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ  لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا ۝ (الفرقان ۲۵:۷۳)’’اس کتاب پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے‘‘ ، بلکہ اسے ذہنی اور عقلی طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اس کتاب کی تفصیلات علم کے ستونوں پر بلند کی گئی ہیں۔ فَصَّلْنٰہُ عَلٰی عِلْمٍ(اعراف ۷:۵۲)۔

  • بُرھان اور نُورِ مبین: قرآن ’بُرہان‘ ہے اور یہ بُرہان بھی ایسی واضح کہ اسے ’نُورِمبین‘ کہا گیا:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًاo (النساء ۴:۱۷۴) اے لوگو تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس بُرہان آچکی اور تمھاری طرف واضح نُور بھیج دیا۔

’بُرہان‘ روشن اور مستحکم دلیل کو کہتے ہیں۔ باطل کے پاس بودی دلیلیں تو ہوتی ہیں لیکن بُرہان نہیں ہوتی۔ اسی لیے قرآن نے اپنے مخالفین سے کہاکہ اگر ’’تم سچے ہو تو اپنی دلیلیں اور بُرہان لائو‘‘۔ظاہر ہے کہ باطل کے ترکش میں بُرہان کا تیر کہاں سے آیا؟

قرآن نے اپنے کو بُرہان کے ساتھ ساتھ نُور بھی کہا ہے اور اس نور کے ساتھ ساتھ مبین کی صفت بھی آئی ہے۔ گویا قرآن کی دلیلیں خود بھی روشن ہیں اور دوسری چیزوں کو بھی روشن کر دیتی ہیں۔ اس طرح یہ بُرہان (اور کتاب) اپنا ثبوت آپ ہے۔

جو معروضات پیش کی گئی ہیں ان کی روشنی میں غور فرمایئے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ نُور کا ہدایت (ھُدٰی) سے گہرا اور راست رشتہ ہے۔ جو چیز نُور نہ ہو وہ سبب ِہدایت نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ نُور اشیا، ارادوں، افراد سب کے مقا م کا تعین کرتا ہے۔ جو شے حقیقی معنوں میں نُور ہوگی وہ وسعت اور فراخی سے ہم کنار ہوگی۔ اس کا دائرہ اور احاطہ وسیع ہوگا۔ قرآن نُور بھی ہے، اللہ کے احکام کے نُور کا سفر بھی ہے اور سفر کی داستان بھی۔ یہ نُور جو ہردور میں وحی کے ذریعے انسانوں کو ملا۔ اس طرح قرآن نُور، حق، ہدایت اور ان تمام صفات جن کا ذکر آچکا ہے یا آئے گا، کے ساتھ ساتھ مُھَیْمِن ہے۔ مُصَدِّقاور مُھَیْمِن میں نہایت لطیف فرق ہے۔ قرآن نے ان دونوں صفات کو ایک ساتھ استعمال کرکے اس فرق کو اور اُبھار دیا ہے:

وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَّا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ ۵:۴۸) پھر اے نبیؐ! ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے، اور الکـتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔

قرآن اللہ کے ابدی قوانین (جو پہلی کتابوں میں آچکے ہیں) کی تصدیق بھی کرتا ہے اور ان کا پوری طرح احاطہ بھی کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے ان صفات کی روشنی میں اسی آیت میں آگے چل کر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق اُن کا فیصلہ کرنا اور جو حق تمھارے پاس آچکا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا‘‘۔ (المائدہ ۵:۴۸)

قرآنِ حکیم صحف ِ اولیٰ کا مُھَیْمِن اس لیے ہے کہ اس کے سہارے انسان اپنی منزل تک پہنچ سکے اور منزل تک پہنچنے کے لیے اسے جس سہارے کی ضرورت ہے وہ یہی ابدی تعلیمات ہیں۔ اسی لیے قرآن نے اپنے آپ کو بلاغ بھی قرار دیا ہے:

وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ م   بَلَغَ  ط (الانعام ۶:۱۹) اور یہ قرآن  مجھ پر اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس تک پہنچ سکے اسے آگاہ کردوں۔

اِنذار (ڈراوے) کا ذکر بشارت کے ساتھ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ بشارت اور اِنذار دونوں سے مل کر ایک بات کی تکمیل ہوتی ہے۔ قرآن مومنوں کے لیے بشارت ہے تو غلط روشِ حیات کو اپنانے والوں کے لیے اِنذار اور تنذیر آگاہ کرنے کو کہتے ہیں۔ کسی ایسی چیز (خطرے) کے نتائج سے آگاہ کرنے کو جو ابھی واقع نہ ہوئی ہو۔ قرآن نے زندگی کے دو اسالیب کو صاف صاف پیش کر دیا ہے: ایک اسلام، دوسرا کفر۔ ایک کے لیے بشارت ہے ، دوسرے کے لیے اِنذار۔ لیکن اس ڈراوے اور آگاہی سے صرف وہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جن کے دل مقفّل نہ ہوں۔ کان کھلے ہوں اور آنکھیں دیکھ رہی ہوں ورنہ:

سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا  يُؤْمِنُوْنَ۝۶  (البقرہ ۲:۶)ان کے حق میں برابر ہے خواہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں۔ وہ ایمان نہ لائیں گے۔

قرآن حکیم کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے اس مقدس اور آفاقی کتاب میں بیان فرمائی ہیں وہ ایک دوسرے سے جس قدر وابستہ ہیں ان کا ہلکا سا اندازہ اس حقیر کوشش سے ہوسکتا ہے۔ میری ناچیز رائے میں یہ صفات اس ترتیب کے ساتھ آتی ہیں کہ ہرصفت اپنے بعد آنے والی صفت کی وضاحت کردیتی ہے۔

  • مبارک: وہ کتاب جو انسانیت کے لیے ہدایت، بشارت اور حکمت ہے، وہ کتنی مبارک ہوگی:

وَ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo (الانعام ۶:۱۵۵) اور یہ مبارک کتاب (بھی) ہم نے نازل کی ہے۔ پس اس کی پیروی کرو۔ اور (اللہ کا) تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

’مبارک‘ کی وضاحت اسی آیت کریمہ میں تقویٰ اور رحم سے ہوگئی ہے۔ ’مبارک‘ وہ چیز ہے جس میں ایسا ثبات ہو، یا ایسا ثبات دوسروں کو عطا کرے جس میں استحکام کے ساتھ نمو بھی ہو، یعنی بڑھتے رہنے کی صلاحیت۔ اُردو میں یہ لفظ اپنی وسعتوں کے ساتھ منتقل ہوا ہے: ’’اس کے ہاتھ میں کتنی برکت ہے‘‘۔ ’’اس کے قدم ہمارے گھر کے لیے کتنے مبارک ثابت ہوئے‘‘۔ ثبات اور نمو کے ساتھ ساتھ برکت میں خیروفلاح اور کثرت کے معنی بھی موجود ہیں۔

  • مفصّل: قرآن فرقان ہے۔ اس پر گفتگو ہوچکی ہے۔ کتاب اللہ نے اپنے آپ کو فرقان کے ساتھ کتاب، بیان  اور آیات  بھی کہا ہے۔ ان سب لفظوں میں وضاحت کے معنی ہیں۔ ایسی وضاحت جو روشن ہو اور چیزوں کو الگ الگ کردے۔ پھر یہ ’علم‘ بھی ہے وہ علم جس میں تفصیل ہو۔ ان حقائق کے پیش نظر خالق اکبر نے اپنی کتابِ حمید کو کتابِ مفصل کہا ہے:

وَّ ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلًا  ط (الانعام ۶:۱۱۴) اور وہی تو ہے جس نے تمھاری طرف مفصل کتاب بھیجی۔

قرآن دین و کفر اور حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل ہے اور اس اعتبار سے یہ کتاب مفصل ہے۔ پھر اس لحاظ سے بھی، کہ نہایت وضاحت رکھنے والی کتاب ہے۔ وضاحت کا مفہوم ذہن میں واضح ہونا چاہیے۔ اس کے احکام میں اُلجھن نہیں۔ یہی صفائی وضاحت ہے۔ وضاحت تفصیلات کو نہیں کہتے۔ قرآن کے احکام میں کہیں اُلجھن نہیں۔ اس میں جہاں تفاصیل اور عملی شکلیں نہیں دی گئی ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ انھیں اسوئہ حسنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تلاش کیا جائے جو قرآن کے اجمال کی تفصیل اور اشارات کی تفسیر ہے۔

  • رحمت: انسانیت گمراہی و ضلالت کی وادیوں میں بھٹک رہی تھی، کہیں بھی روشنی نظر نہیں آتی تھی۔ ان حالات میں یہ مبارک، مفصل اور ہدایت کرنے والی کتاب رحمت بن کر نازل ہوئی:

فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ ج (الانعام ۶:۱۵۷) تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک دلیلِ روشن اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے۔

یہ کتاب انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایسی دین اور عطا ہے جس نے اس کی کمیوں کو دُور کردیا ہے۔ کمی دو قسم کی ہوسکتی ہے: داخلی اور خارجی۔ داخلی کمی کا تعلق انسانوں کی دنیا میں تہذیب، ثقافت اور اندازِ فکر سے ہوتا ہے، اور خارجی کمی کا تعلق تمدن، معاشرتی زندگی اور رہن سہن سے۔ قرآن نے ان دونوں کمیوں سے انسان کو نجات دلا دی۔ ایک طرف توحید، رسالت، قیامت، عدل، مساوات، اخوت اور ایسی ہی دوسری بنیادی اقدار کی بنا پر ذہن کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، اور دوسری طرف سیرتِ اجتماعی کو اس ذہنی انقلاب نے یکسر بدل دیا۔

رحمت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس کے کئی معنوی پہلو (shades) ہیں۔ رحمت کمیوں کو دُور کرنے والی عطا اور بخشش کو بھی کہتے ہیں اور حفاظت کرنے کو بھی۔ قرآن نے نقصانات اور خسرونامرادی کے طوفانوں کے مقابل میں انسان کو اپنے دامنِ رحمت میں چھپا لیا۔ مجموعی طور پر وحی الٰہی کو رحمت کہا گیا ہے، اور قرآن کو خاص طور پر، کیوں کہ قرآنِ حکیم پر سلسلۂ وحی ختم ہوا اور اس میں قیامت تک کے لیے انسانوں کے واسطے سامانِ رحمت ہے۔ رحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عطا اور بخشش جو ضروریات کے مطابق ہو۔

  • بصائر: اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بصائر کہا ہے:

ھٰذَا بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝۲۰۳  (الاعراف ۷:۲۰۳)  یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمھارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔

بصائر جمع ہے، اور کتاب کو بصائر کہنا بلاغت کی اعلیٰ ترین مثال بھی ہے، اور اس کتاب کے مقام اور اس کے ایک پہلو کا نہایت ہی جامع احاطہ بھی۔ وہ یوں کہ قرآن واضح دلیلوں اور واشگاف حقیقتوں کا مجموعہ ہے، ایسی حقیقتیں جن میں چمک اور روشنی ہو۔ یہی وضاحت اور روشنی بصیرت کو دیکھنے سے اور بصر کو نظر سے ممتاز اور علیحدہ کردیتی ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کا اظہار یوں فرمایا ہے:

وَ تَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَ ھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَo(الاعراف ۷:۱۹۸) ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں، حالاں کہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔

  • حکمت: تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِo (یونس ۱۰:۱) ’’یہ کتابِ حکیم کی آیتیں ہیں‘‘۔ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِo(یٰسٓ ۳۶:۲) ’’قسم قرآنِ باحکمت کی‘‘۔ حِکْمَۃٌ م بَالِغَۃٌ (القمر ۵۴:۵) ’’یہ کتاب حکمت ِ بالغہ سے عبارت ہے‘‘۔

حکمت کا ترجمہ عام طور پر دانائی کیا گیا ہے، لیکن دانائی اتنا چھوٹا لباس ہے جو اِس عظیم اصطلاح کے جسم پر راست نہیں آسکتا۔ حکمت میں قوتِ فیصلہ، انصاف، حسن اور تناسب کے سب مفہوم ہیں۔ قرآن کو حکمت ِ بالغہ کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اُن فیصلوں، اُس تناسب اور مقامِ عدل تک پہنچاتی ہے جو اس کی منزل ہے۔ حکمت میں قوت کا عنصر بھی شامل ہے، اور یہی عنصر اسلامی نظامِ مملکت کو ایک نظامِ حکمت بنا دیتا ہے۔

  • شفاء: شفا صحت اور بیماری کے بعد حصولِ صحت کو کہتے ہیں۔ انھی بنیادی معنوں کی وجہ سے اس میں استعارہ کا پہلو پیدا ہوگیا اور علاج اور دوا کو بھی شفا کہا جانے لگا۔ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے شفا کہا ہے کیوں یہ انسان کی روحانی، ذہنی، سماجی اور عمرانی بیماریوں کا علاج ہے:

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝۵۷ (یونس ۱۰:۵۷) لوگو، تمھارے رب کی طرف سے موعظت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت آگئی۔

ما فی الصدور کا اشارہ قلب کی طرف ہے۔ قلب جس کی صحت سارے جسم بلکہ انسانی معاشرے کی صحت ہے۔ اور اگر گوشت کا یہی ٹکڑا بیمار ہو تو سارا جسم (اور روح) بیمار ہوتا ہے، یعنی پوری زندگی بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

  • عبرت: سورئہ یوسف میں قرآن (اور اس کے قصص) کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:

عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ ط (یوسف ۱۲:۱۱۱) ان میں سوچنے سمجھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔

یعنی یہ واقعات ایسے ہیں جن کی مدد سے انسان ان جیسے دوسرے واقعات و اعمال کے نتائج تک پہنچ جائے۔ ایک منزل سے دوسری منزل کو عبور کرنا۔ عبور کا لفظ اُردو میں ان معنوں میں مستعمل ہے۔ تاریخ عبرت کا سامان اسی لیے ہے کہ اس سے ہم مختلف طریقۂ ہائے حیات اور اسالیب ِ زیست کے نتائج کو سمجھ لیتے ہیں اور اس تفہیم کے لیے ان نتائج کو آنکھوں سے دیکھنا ضروری نہیں۔

قرآن نے اسی عبرت کی خاطر تاریخ کو بڑی اہمیت دی ہے اور اسے وقائع نگاری کی سطح سے بلند کر کے فلسفے کی اس سطح تک پہنچا دیا جس نے عہدِ حاضر کو تاریخ کے مفہومِ حقیقی سے آشنا کرایا۔

عظیم: سورئہ حجر (آیت ۸۷) میں قرآن کو ’قرآن العظیم‘ کہا گیا ہے۔ عظیم بنیادی اہمیت کی حامل چیزوں کو کہتے ہیں ، مثلاً انسانی جسم میں ہڈی کو، کسان کے ہل میں لکڑی کو وغیرہ وغیرہ۔ عظمت میں اہمیت، بڑائی اور پاکیزگی کے مفاہیم موجود ہیں۔ قرآن اس لیے عظیم ہے کہ اس کی بنیادی تعلیمات اہم ہیں اور انسان کو بڑائی اور پاکیزگی عطا کرتی ہیں۔ اللہ نے اپنے آپ کو بھی انھی معانی کے پیش نظر عظیم کہا ہے۔

  • خیر: سورئہ نحل میں ارشاد ہوا ہے:

وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ط قَالُوْا خَیْرًا ط (النحل ۱۶:۳۰) اور جب متقیوں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمھارے رب نے کیا نازل کیا ہے تو کہتے ہیں کہ خیر۔

عربی کی طرح اُردو میں بھی خیر کا لفظ ’شر‘ کے مقابل میں استعمال ہوتا ہے۔ ہرچیز جو عزیز ہو، منفعت بخش ہو، اچھی ہو، خوبی رکھتی ہو اور بلند مرتبہ ہو، وہ خیر ہے۔ قرآن میں یہ لفظ کئی معنوں میں آیا ہے، مثلاً: (۱) شر،فتنہ اور ادنیٰ کے مقابلے میں (۲) مال و دولت کے لیے (۳) منتخب اور برگزیدہ افراد کے لیے (اخیار) (۴) عمدہ اشیا کے لیے (۵) حسین اور صاحب ِ کردار خواتین کے لیے (خیرات)۔

قرآن نے وحی الٰہی کو بھی اسی لیے خیر کہا ہے کہ اس لفظ کی ان وسعتوں کے پیش نظر اس کا مروجہ اُردو ترجمہ ’بہترین‘ یا ’بہترین کلام‘ بہت تنگ معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ ’خیر‘ کا لفظ جب ہماری زبان نے قبول کرلیا ہے تو اس کے ترجمے کی کون سی ضرورت ہے؟ قرآن خیر ہے، کیوں کہ اس میں عزت، نفع بخشی، خوبیاں، مرتبۂ بلند، تناسب،حسن، یہ سب چیزیں ہیں، اور اس کی پیروی سے یہی چیزیں مومنوں کو انفرادی طور پر اور پھر اجتماعی طور پر نصیب ہوتی ہیں۔ اپنی اجتماعی زندگی کو قرآن کے مطابق ڈھالنے کا مطالبہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ یہ برکتیں ہمارے معاشرے کی بنیادیں بن سکیں۔

احسن: خیر کے معنوں کا ایک اہم پہلو حُسن ہے۔ قرآن صرف حسین نہیں بلکہ احسن ہے:

وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ (الزمر ۳۹:۵۵) تم کو چاہیے کہ اپنے رب کے پاس سے آئے ہوئے، اچھے اچھے حکموں پر چلو۔

یعنی خدا نے جو کچھ نازل کیا ہے اس میں حد درجہ تناسب و توازن ہے۔ ایسا تناسب جو انسانی زندگی اور ذہن کی کمیوں کو پورا کر دیتا ہے۔ جہاں حُسن ہوگا وہاں سیئات اور گناہوں کی گنجایش نہ ہوگی۔

  • عزیز: وَا ِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ ۝ (حم السجدہ۴۱:۴۱) ’’وہ ایک کتابِ عزیز (عالی مرتبت کتاب) ہے‘‘۔

اگلی ہی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ اس پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہوسکتا ہے نہ پیچھے سے، کیوں کہ یہ حکیمِ حمید(اللہ) کی نازل کردہ ہے (حم السجدہ۴۱:۴۲)۔ عزیز صاحب ِ قوت، صاحب ِ غلبہ اور محافظ و رفیع کو کہتے ہیں۔ یہ صفت قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لیے باربارآتی ہے کیوں کہ اس کے پیغام پرعمل کرکے مسلمان قوت و غلبہ حاصل کرسکتا ہے اور ایسی بلندی پر پہنچ سکتا ہے کہ ستارے اس کی گردِ راہ ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں نے کتاب اللہ کو مضبوط رسی کی طرح ہاتھ میں پکڑا تو دنیا کی ہرطاقت اور سارے معبودانِ باطل اس کے سامنے جھک گئے۔ آج ہم عملی و نظری طور پر اس کتابِ عزیز سے اتنے دُور ہیں کہ اس میں ایسے اندازِ حیات کا سراغ تلاش کرتے ہیں جو ہمیں ترکِ جہان کی لذت عطا کرسکے   ؎

اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر

  • میزان: ’خیر‘ اور ’احسن‘ میں توازن اور تناسب پر گفتگو ہوچکی ہے۔ یہی احساسِ عدل و تناسب ہمیں ’میزان‘ کے لفظ میں بھی ملتا ہے۔ عدل ان ابدی اور بنیادی اقدار میں سے ہے جو قرآن نے حیاتِ انسانی کو عطا کی ہیں۔عدل کے لیے پیمانے کی ضرورت ہے۔ میزان یہی پیمانہ ہے۔ وَضَعَ الْمِیْزَانَ ۝ (الرحمٰن ۵۵:۷)،’’یعنی اللہ نے تمام اشیا میں ایک ’عدل‘ توازن اور تناسب رکھ دیا ہے۔

قرآن کو اس لیے اللہ نے میزان کہا ہے کہ اس سے ہم اشیا اور بالخصوص انسانی زندگی کے توازن و اعتدال کو ناپ سکتے ہیں:

اَللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ  ط(الشوریٰ۴۲:۱۷) اللہ ہی ہے جس نے اِس کتاب (قرآن) کو انصاف اور حق کے ساتھ نازل فرمایا۔

  • امام : قرآن کو اللہ تعالیٰ نے امام بھی کہا ہے: ’’اس سے پہلے موسٰی کی کتاب لوگوں کے لیے امام اور رحمت تھی‘‘۔ (الاحقاف۴۶:۱۲)، یعنی قرآن بھی امام ہے۔ امام کا لفظ ھُدٰی کے تصور کو اور آگے لے جاتا ہے۔ امام آگے آگے رہنے یا چلنے والے کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں قرآنی تعلیمات کو امام بنا کر زندگی کا راستہ طے کرنا چاہیے۔
  • عربی: قرآن نے اپنے آپ کو قُرْانًا عَرَبِیًّا  کئی جگہ کہا ہے۔عام تصور یہ ہے کہ چوں کہ یہ کتاب عربی میں نازل ہوئی ہے اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ قرآن عربی میں نازل ہوا۔ لیکن اگر غور کیاجائے تو خود قرآن میں ایک اور پہلو سے اس کی یہ وضاحت بھی ملتی ہے:

وَ کَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا  ط (الرعد ۱۳:۳۷) اور اسی طرح ہم نے اس کو اس طور پر نازل کیا کہ وہ ایک خاص حکم ہے عربی زبان میں۔

یہاں ’حکمِ عربی‘ سے مراد واضح حکم کے ہیں۔ ایسا حکم جو فصیح زبان میں ہو۔ عربی کے معنی صرف جغرافیائی حد تک، محدود نہیں، بلکہ فصیح اور واضح کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا کہ: قُراٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ (الزمر ۳۹:۲۸) ،یعنی جس کی کیفیت یہ ہے کہ عربی قرآن ہے جس میں ذرا کجی نہیں۔ یہاں غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ، عَرَبِیًّا کی تشریح ہے، یعنی قرآن جو بہت واضح اور سیدھا ہے اور جس میں کوئی کجی نہیں۔ یعنی یہ کتاب عربی زبان میں نازل ہوئی اور اس کی تعلیمات بہت واضح اور سیدھی ہیں۔ ہرکجی سے پاک، ہردور کے لیے رہنما اور روشن!

حواشی

۱     زمانے کے بدلتے تقاضوں کا ایک تصورِ فاسد ہماری ذہنی دنیا میں مغربی فلسفے نے لا ڈالا ہے، اور ہمارے ’دانش ورَ قرآن اور دین کو اس تصور کے تابع کرنے کے لیے زورلگارہے ہیں۔ اس ساحرانہ کلمے میں جو کلیہ مخفی ہے وہ یہ ہے کہ جو کچھ نظریات بھی رائج ہوجائیں، ادارات جو شکل بھی اختیار کرلیں، ثقافت جس طرز پر بھی ڈھل جائے، انسانی ذہن و اخلاق میں جو بگاڑ بھی آجائے، اسے تقدیرِ غیرمتبدل سمجھ کر نہایت فدویانہ طریق سے قبول کرلینا چاہیے ، اور آیات و احکام قرآن اور فرمودات و اسوئہ رسولؐ کو بھی زمانے کے بدلتے تقاضوں کے سانچے میں ڈھال کر نت نیا مفہوم دے لینا چاہیے یعنی وہی صورت کرنی چاہیے کہ’خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں‘۔ (نعیم صدیقی)

۲     اور اُمت مسلمہ کو تو برپا ہی اس مقصد کے لیے کیا گیا ہے کہ جب زمانہ حق سے انحراف کرکے کچھ تقاضے پیدا کردے تو زمانے کی رَد کا مقابلہ کرکے اُن تقاضوں کو تابع قانونِ الٰہی کر دیا جائے۔ کتاب الٰہی تو ’زمانہ ستیز‘ مسلک سکھاتی ہے، نہ کہ ’بازمانہ بساز‘ کا! (ن ص)

رمضان المبارک اہلِ ایمان کے لیے نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ اس مہینہ میں دل کی زمین تقویٰ کے بیج کو قبول کرنے کے لیے عام دنوں کی بہ نسبت زیادہ مستعد اور سازگارہوتی ہے، اور نیکیوں کی نشوونما کے لیے روحانی فضا زیادہ موافق ہوتی ہے۔ایک طرف خدا کے اَنوار اور اس کی رحمت کا نزول دلوں کی مُردہ زمینوں میں نئی جان ڈالتاہے اور اس میں ایمان کا نُور اور نیکی کا شوق پیدا کردیتا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جس میں خدا کی اطاعت و بندگی کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ دلوں میں نیکی کے لیے محبت اور بُرائی کے لیے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ بڑی تعداد میں مسلمان نیکی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

رمضان المبارک کی آمد پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرامؓ کوجمع کرکے ایک خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے تاکہ وہ اس مبارک مہینہ کا شایانِ شان استقبال کریں۔ روزے اور نوافل کے اہتمام کا عزم کریں اور نیکی ا ور تقویٰ کا زیادہ سے زیادہ زادِ راہ فراہم کریں۔ آیئے آج ہم بھی اس خطبہ کو سنیں اور یہ سمجھ کر سنیں کہ اس کے مخاطب ہم ہیں اور اس میں جو ہدایات دی جارہی ہیں کسی اور کے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے ہیں۔ آپؐ فرماتے:

اے لوگو! تم پر ایک عظمت ا ور برکت والا مہینہ سایۂ فگن ہورہا ہے۔ اس مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جو فضیلت و برکت کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینہ کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پرفرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام کو نفل کے درجہ میں رکھا ہے۔ اس مہینہ میں جو شخص خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے نیکی کا کوئی ایسا کام کرے گا جس کی حیثیت نفل کی ہے تو اس کو اس کا اجروثواب فرض کے برابر ملے گا اور جو فرض ادا کرےگا اس کو اس کا ثواب عام دنوں کےستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔

یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنّت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں مومن بندوں کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے گا اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔اس کو آتش دوزخ سے نجات ملے گی اور اس کو اس عمل کا اجروثواب روزے دار کے برابر ملے گا اور خود روزے دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ کی جائےگی۔

آپؐ سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس تو سامان افطار نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ اجروثواب اس آدمی کو بھی دےگا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی اور پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزے دار کو روزہ افطار کرا دے۔جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کھانا کھلا دے، اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (حوضِ کوثر) سے پانی پلائے گا۔ پھر اسے پیاس نہ لگے گی۔ یہاں تک کہ وہ جنّت میں داخل ہوجائے گا۔

’’اس مہینہ کا پہلا حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ دوزخ کی آگ سے نجات ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دےگا۔ اور دوزخ کی آگ سے نجات بخشےگا‘‘۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ کے آغاز میں یہ خوشخبری دی کہ ’’ماہِ رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو اپنی فضیلت وعظمت میں ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان کو جو تقویت، دل کو جو جذبۂ اخلاص و عمل اور زندگی کو جو طہارت و پاکیزگی اس ایک رات کی عبادت سے حاصل ہوتی ہے، وہ ہزار مہینوں کی اطاعت و عبادت سے بھی نصیب نہیں ہوسکتی اور قربِ الٰہی کی جو منزلین بندہ اس ایک رات میں طے کرلیتا ہے وہ ہزار مہینوں میں بھی طے نہیں ہوسکتیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بابرکت رات ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق تاریخوں میں ہے، یعنی ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹۔ اس رات کو مخفی رکھنے میں یہ حکمت ہے کہ اہلِ ایمان رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کثرت سے اللہ کی عبادت کریں اور باقی مہینوں کے لیے تقویٰ کا زادِ راہ جمع کریں۔

دوسری بات آپ ؐنے یہ ارشاد فرمائی کہ جو شخص اس مہینہ میں کوئی ایسی نیکی کرے گا جو نفل کا درجہ رکھتی ہے تو اسے اجروثواب فرض کے برابر ملےگا اور ایک فرض کے اجر کو ستّرگنا کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں یہ اجروثواب اس لیے بڑھا دیا ہے کہ بندے اس مہینہ میں نیک کاموں میں زیادہ سے زیادہ دل چسپی لیں۔ان کے دلوں میں خدااور رسولؐ کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہو۔ وہ اس ایک مہینہ میں نیکی اور تقویٰ کی اتنی تربیت حاصل کرلیں کہ اس کے اثرات سال کے باقی گیارہ مہینوںتک باقی رہیں، اور اس طرح سال بہ سال اہلِ ایمان ایک ماہ کی تربیت گاہ میں اسلامی زندگی کی تربیت حاصل کرتے رہیں۔ اس تربیت گاہ میں وہ اپنے ایمان کو زندہ اور تازہ کریںاور زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں۔

بعض لوگ فرض سے مراد فرض نمازیں اور نفل سے مراد نفل نمازیں لیتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ حضور اکرم ؐنے اپنے خطبہ میں اہلِ ایمان کو تمام فرائض ادا کرنے پر اُبھارا ہے۔ علم حاصل کرنا فرض ہے۔ دعوت وتبلیغ اور جہاد فرض ہے۔ نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا فرض ہے۔ عدل و انصاف اور امن و امان کاقیام فرض ہے۔ عہدوپیمان کو پورا کرنا فرض ہے۔ ماں ، باپ، اولاد، رشتہ دار،  یتیم ومسکین اور تمام مخلوقِ خداکے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ نماز، روزہ،زکوٰۃ اور حج بھی فرض ہے۔

اسی طرح نفل سے مراد محض نفلی نمازیں نہیں ہیں بلکہ اس میں وہ تمام اسلامی اعمال داخل ہیں جن کا درجہ فرض کانہیں بلکہ نفل کا ہے۔ راستے میں پڑے ہوئے پتھر اور شیشہ کو ہٹادینا تاکہ کوئی ٹھوکر کھا کر گرنہ جائے اورکسی کا پائوں زخمی نہ ہوجائے۔ اپنے فرائض منصبی کو بحسن وخوبی انجام دینے کے لیے اصل ڈیوٹی سے زیادہ وقت دینا، ملازم اور مزدور کو اس کی محنت سے زیادہ معاوضہ دینا،  کم منافع پر اشیاء فروخت کرنا،ڈاکٹر و حکیم کا غریب مریضوں کو مفت دوا دینا، دعوت و تبلیغ اور جہاد میں جان و مال اور وقت کی فرض سے زیادہ قربانی دینا، علم سیکھنے اور سکھانے کے لیے اپنے آرام وراحت اور دل چسپیوںکو چھوڑنا، زیادتی کرنے والے سے انتقام لینے کے بجائے معاف کر دینا، حق دار کو اس کے حق سے زیادہ دینا، خود بھوکے رہ کر دوسرے کو کھلانا، اور اس قسم کےدوسرے کام بھی نفل عبادت ہیں۔ اس لیے رمضان میں صرف فرض نمازوں اور روزوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام فرائض کو ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح نفل نمازوں اورروزوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام فرائض کو ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح نفلی خیرات و صدقات اور اذکاراور اَوراد کو کافی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ دوسرے نفلی کاموں اور نیکیوں کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ اسی صورت میں روزوں سے وہ ہمہ گیر تقویٰ پیدا ہوگا جو زندگی کے تمام معاملات کو خدا کی شریعت کا پابند بنا دےگا۔ اوراگر صرف چند فرائض و نوافل کا اہتمام کیا تو ممکن ہے کہ زندگی کے بعض گوشے تو نُورِ تقویٰ سے خوب جگمگا اُٹھیںلیکن دوسرے شعبوں میں یا تو اس کی روشنی نہایت مدھم ہوگی یا پھر وہ بالکل تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔

ایسے ناقص تقویٰ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک شخص ایک طرف تو تہجدگزار اور اشراق و اوّابین کا سخت پابند ہوگا اور دوسری طرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کےفریضہ سے بالکل غافل ہوگا، بلکہ امکان اس بات کا ہےکہ وہ معروف کی راہ میں رکاوٹ اور منکر کا محافظ و پاسبان بن کررہے۔ ایسا ناقص متقی ممکن ہے اپنی زبان کو ہروقت ذکر و وِرد اور تسبیح و تہلیل سے تر رکھتا ہو لیکن ساتھ ہی اس کی زبان کے شر سےنہ اس کے رشتہ دار اور پاس پڑوس والے محفوظ ہوں گے اور نہ دوسرے ملنے جلنے والے۔ ظاہر ہے ایسے آدمی کو متقی نہیں کہاجاسکتا بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ جہنّمی ہے۔ اس لیے رمضان میں تمام فرائض اور نوافل کی پابندی مقدور بھر کرنی چاہیے، تاکہ پوری زندگی تقویٰ کے رنگ میں رنگ جائے اور زندگی کا ہرشعبہ نُورِ تقویٰ سے منور ہوجائے۔

اس خطبہ میں حضوؐر نے فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے۔ صبر کے معنی ہیں: خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنا اور ان کو خدا کی مرضی کےتابع کردینا ہے۔ ناموافق حالات میں دین پر قائم رہنا، اس کو قائم کرنے کےلیے جانی اور مالی قربانیاں دینا اور مصائب اور مشکلات برداشت کرنا۔ ظاہرہے روزہ اسی صبروتحمل کی تربیت دیتاہے۔ سحری کے وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک مسلمان میٹھی نیند سے اُٹھ کر سحری کرتا ہے۔ دن کے وقت بھوک پیاس لگتی ہے لیکن وہ  صبر کرتاہے اور کھانےپینے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ وہ خواہشِ نفس سے مغلوب ہونے کےبجائے اس کو اپنے قابو میں لے لیتاہے۔ اسی طرح فکروخیال، آنکھ،کان،زبان اورہاتھ پائوں حرام کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں لیکن وہ ان کو روک دیتا ہے۔ اس طرح جو شخص پورے ایک ماہ تک صبروتحمل کی مشق کرلے اس کے لیے سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے خواہشات کو قربان کرنا آسان ہوجاتا ہے اوروہ خدا کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی اور غلبے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کا حوصلہ اور عزم اپنے اندر پیداکرلیتا ہے۔

پھر فرمایا کہ یہ مہینہ ہمدردی اورغم خواری کا ہے۔ ہر روزہ دار کو روزہ رکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھوک کتنی تکلیف دہ چیز ہے۔ اس سے اس کے دل میںغریبوں، مسکینوں اور فاقہ کشوں کے لیے ہمدردی اورمدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ان کی ہرممکن مالی مددکے لیے مستعد و مضطرب رہنے لگتا ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ اس ماہ میں مومن کا رزق بڑھا دیاجاتا ہے۔ یہ ہرشخص کاتجربہ ہے کہ اس مبارک مہینہ میں عام دنوں کی بہ نسبت مالی حالات بہتر ہوتے ہیں اور وہ نعمتیں بھی مل جاتی ہیں جو عام دنوں میں میسر نہیں آتیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں روزے داروں کو روزہ افطارکرانے کی ترغیب دی ہے تاکہ مومن صرف شکم پروری کا اسیر ہوکر نہ رہ جائے بلکہ اس کے دل میں دوسروں کو کھلانے پلانے کا جذبہ بھی اُبھرے اور اس طرح غریبوں کا بھی بھلا ہو۔ یہ اجروثواب جس کی  خوش خبری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، ان افطاریوں کے لیے ہے جو محض خدا کی رضا اور اجروثواب حاصل کرنے کی نیت سے کروائی جائیں۔ یہ اجروثواب ان افطاریوں پر نہیں جو اپنی دولت مندی اور شان و شوکت کے مظاہرے اور کاروباری یا سیاسی مقاصد کے لیے کرائی جاتی ہیں۔

آخر میں فرمایا کہ اس کا پہلا حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ دوزخ کی آگ سے نجات کاہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس مہینہ میں نیک لوگوں کے لیے درجات کی بلندی ہے، اور گنہگار چاہے ان کے گناہ زمین کے ذرّوں اور آسمانوں کے تاروںکے برابر ہی کیوں نہ ہوں، اگروہ گناہوں سے توبہ کرکے نیک اور صالح بن جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دےگا اور دوزخ کے عذاب سے بچالے گا۔ پس عزم کیجیے کہ اس مبارک مہینہ میں خدا کے دامنِ رحمت سے چمٹ جائیں گے۔ رو رو کر اپنے گناہ معاف کرائیں گے اور نیک بن کر اس کے عذاب سے بچنے اور اس کی نعمتوں بھری جنّت میں داخل ہونے کی امکان بھر کوشش کریں گے۔

رمضان المبارک کی فضیلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ماہِ صیام ہے۔ اس ماہ میں مسلمان تسلسل کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور اللہ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں: فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ (البقرہ۲:۱۸۵)’’تم میں سے جو شخص ماہ رمضان کو پائے اس میں روزے رکھے‘‘۔ چنانچہ دنیا کے تمام خطوں میں خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، اہلِ ایمان اس ماہ میں روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس طرح روزہ مسلمانوں کی روحانی پاکیزگی اور تقویٰ و طہارت کا ذریعہ بنتاہے اور عالمی وحدت کا اسلامی شعور عطا کرتاہے۔

رمضان المبارک کی فضیلت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن پاک کے نازل ہونے کا مہینہ ہے۔ یوں تو قرآن کریم تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت ۲۳ سال میں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ تاہم، اس کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان المبارک میں ہوئی۔ اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے باہر جبل نور کے غارحرا میں گوشہ نشین تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ  (البقرہ۲: ۱۸۵)رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت نامہ ہے اور ہدایت اور حق وباطل میں فرق کرنے والے واضح دلائل پر مشتمل ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: الصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ،روزہ اور قرآن قیامت کے دن مومن کی شفاعت کریں گے۔ (احمد، من مسند بنی ہاشم، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص، حدیث: ۶۴۵۴)

اسی لیے مسلمان، رمضان المبارک میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ انفرادی طور پر دن اوررات میںکسی بھی وقت حسب سہولت تلاوت کرتے ہیں اور اجتماعی طور پر رات میں تراویح کی شکل میں قرآن کریم کی تلاوت وسماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ گویا نزول قرآن کا مہینہ قرآن کریم کی حفاظت کا بھی مہینہ ہے۔ مسلمانوں کے کسی محلہ میں جائیے جہاں مسجد ہوگی، وہاں اوّل شب میں تلاوت قرآن کی صدا بلند ہوگی۔ یہ روحانی منظر پوری دنیا کے طول وعرض میں دکھائی دے گا۔

حفاظتِ قرآن کی ذمہ داری

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری خودلی ہے، کسی انسان پر نہیں ڈالی ہے اور ارشاد فرمایا ہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹ (الحجر۱۵:۹)بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اگرچہ توریت وانجیل کو بھی ذکر کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:

فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۴۳ۙ (النحل ۱۶:۴۳) اہلِ ذکر، یعنی اہلِ کتاب سے پوچھو اگر تم لوگ نہیں جانتے۔

مگر ’ذکر‘ کی حفاظت سے مراد صرف قرآن کریم کی حفاظت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی قاعدہ کے مطابق نزلنا کا مصدر تنزیل ہے جو باب تفعیل سے آتاہے۔ اس کے معنی تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف قرآن کریم کی ہے کہ وہ تھوڑا تھوڑا ۲۳ برسوں میں نازل ہوا۔ توریت وانجیل کی یہ خصوصیت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ توریت وانجیل میں لفظی اور معنوی تحریف ہوئی۔ عبارتوں میں کمی اور زیادتی کی گئی۔ مدلول اور مصداق بدلے گئے۔ ترجمے اور مفاہیم میں تبدیلی ہوئی۔ لیکن یہ صفت صرف قرآن کریم کی ہے کہ آج تک چودہ سو سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود قرآن میں معمولی ترمیم و اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی آیت، الفاظ اور حروف تک محفوظ رہے۔حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ وہ اپنی شریعت کو قیامت تک باقی رکھے، اس لیے اس نے قرآن کی حفاظت کی خود ذمہ داری لی‘‘۔ (محمود بن عبداللہ الآلوسی، روح المعانی، جلد۱۲،ص ۴۰۹)

قرآن کریم کی حفاظت کا ایک پہلو یہ ہے کہ و ہ عربی زبان میں نازل ہوا۔ عربی زبان کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ تقریباً پندرہ سو سال سے آج تک اس زبان کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو عربی بولی،پڑھی اور سمجھی جاتی تھی وہ آج بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس کی لسانی بناوٹ اور گرامر میں بہت کم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآن کو جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے لوگوں نے سنا اور سمجھا، آج بھی اسی طرح لوگ پڑھ اور سمجھ رہے ہیں، جب کہ دوسری زبانوں میں عہد بعہد تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ ہزار سال بعد تو زبانوں کی بنیادی ساخت بدل جاتی ہے ۔ اس عہدکی کتابوں کا مابعد کی نسل کے لیے پڑھنا اور سمجھنا مشکل ہوجاتاہے۔ اس کو ماہرین زبان ہی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن ہر عہد کے لوگوں کے لیے اعلان کرتا ہے:

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ  لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۲۲(القمر۵۴:۲۲) ہم نے ذکر کے لیے قرآن کو آسان کردیا ہے تو کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟

غیرمسلم محققین کا اعتراف

قرآن کریم کے محفوظ ہونے کی شہادت وہ مستشرقین بھی دیتے ہیں، جو قرآن کریم کو کلامِ الٰہی نہیں مانتے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام کہتے ہیں۔ چنانچہ فلپ کے ہٹی نے لکھا ہے: ’’جدید نقاد اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن کے نسخے ٹھیک اسی نسخے کے مطابق ہیں، جسے زید بن ثابتؓ نے اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا۔ اور یہ کہ آج کا قرآن وہی ہے جسے محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] نے پیش کیا تھا‘‘۔(History of the Arabs، ص ۱۲۳)

پٹنہ یونی ورسٹی میں ایک مسلمان پروفیسر عمرہ کے لیے خانہ کعبہ گئے۔ نماز کی صف بندی ہوئی تو ان کے برابر میں ایک لمبا گورا آدمی کھڑا ہوا۔ امام حرم نے تلاوت شروع کی تو وہ آدمی زاروقطار رونے لگا۔ نماز ختم ہوئی تو پروفیسر صاحب نے اس سے سلام ومصافحہ کیا اور ان کا تعارف حاصل کرنا چاہا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میں آسٹریلیا کا رہنے والا ہوں۔ میں پہلے پادری تھا، قرآن پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور اب بیت اللہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میں توریت وانجیل کا عالم ہوں۔  ان کتابوں میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اصل انجیل تو یہ قرآن کریم ہے کیوں کہ انجیل میں نازل شدہ تعلیمات قرآن پاک میں موجو د ہیں۔ مجھے قرآن میں حضرت عیسیٰؑ کا اصل پیغام ملتاہے‘‘۔

ایسے حق شناس اہلِ کتاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی موجود تھے، اور انھی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓي اَعْيُنَہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِـمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ۝۰ۚ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۝۸۳ (المائدہ ۵:۸۳)جب یہ (نصاریٰ) اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول کریم ؐپر نازل کیاگیا تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں، کیوں کہ وہ حق کو پہچانتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ، ہم ایمان لائے تو ہمارا نام لکھ لیجیے ایمان کی گواہی دینے والوں کے ساتھ۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے جو پیغامِ ہدایت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کو دیا تھا، وہی پیغام قرآن کریم بھی پیش کرتاہے۔ ایمان اور اصولِ دین جو حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہوئے، وہی قرآن کریم میں موجود ہیں۔ نجات کی جو شرطیں اور رضائے الٰہی کی جو بشارتیں انجیل میں آئی تھیں، وہی قرآن کریم میں بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔ انجیل میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوئی، مگر قرآن اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور اصولِ دین کا محافظ ہے۔ تقریباً اسی طرح کا خیال معاصر مستشرق تھامس کلیری نے بھی اپنی کتاب The Essential Koran  میں ظاہر کیا ہے، اور قرآن کریم میں حضرت عیسیٰؑ کی سیرت اور پیغام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

عیسیٰ ؑ کے لیے انتہائی احترام کے القاب (مثلاً اللہ کا کلمہ اور اللہ کی روح) کا استعمال کرنے کے باوجود قرآن نے اللہ کی وحدانیت کو اصلی حالت میں برقرار رکھا ہے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ ؑ کی بنیادی تعلیمات کی تصدیق بھی کی ہے اور خود قرآن کوگذشتہ انبیاء پر نازل ہونے والی وحی کے مصداق اور محافظ کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔(ص۱۸۱-۱۸۹)

نامور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ نے لکھا ہے:’’ جرمنی میں میونخ یونی ورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا: ’’قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ‘‘۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے، خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو، جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا   یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ ۱۹۳۳ء میں جب مَیں پیرس یونی ورسٹی میں تھا، تو اس ادارے کا تیسرا ڈائرکٹر پریتسل پیرس آیا تھا، تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں، ان کے فوٹو حاصل کرے۔

اس پروفیسر صاحب نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ ۱۹۳۳ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے ۴۲ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا، اور عمارت ، کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا۔ لیکن جنگ کے شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا، لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں، لیکن اختلافات روایت ایک بھی نہیں۔ ان دونوںمیں فرق یہ ہے کہ کتابت کی جو غلطی ایک نسخہ میں ہوگی وہ کسی دوسرے نسخوں میں نہیں ہوگی‘‘۔(ڈاکٹر محمد حمیداللہ، خطبات بہاول پور، بیکن بکس،لاہور،ص ۳۲، ۳۳)

اہلِ ایمان کا فریضہ

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اگرچہ خود لی ہے، مگر اہلِ ایمان کو اس کی حفاظت کا وسیلہ بنایا ہے۔ اس طرح کہ مسلمان روزانہ اس کی تلاوت کریں، اسے خود یاد کریں اور اپنے بچوں کو یاد کرائیں۔ پانچ وقت کی نمازوں میں قرآن کی قرأت کریں۔ خوشی اور غم کے مواقع پر قرآن کو پڑھیں اور خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن کی تلاوت وتحفیظ کا اہتمام کریں۔ علما اس کی تفسیر کریں، قاری اسے حسین آواز سے مزین کریں۔ کاتب اسے روشن حروف سے لکھیں اور حفاظ اسے اپنے سینوں میں محفوظ کریں۔ قرآن کریم کے حافظ جس کثرت سے پائے جاتے ہیں دنیا کی کسی بھی کتاب کے حافظ اس تعداد کا کروڑواں حصہ بھی نہیں پائے جاتے۔

رمضان المبارک میں حفاظ تراویح کی نماز میں قرآن کریم زبانی سناتے ہیں۔ اگر امام سے قرآن کی تلاوت میں غلطی ہوتی ہے تو دوسرا حافظ اسے لقمہ دیتا ہے اور قرآن سنانے والا اپنی غلطی کی اصلاح کرلیتاہے، قطعی بُرا نہیں مانتا بلکہ اسے کارِ ثواب سمجھتاہے۔ اس طرح قرآن کی قرأت صحت کے ساتھ جاری رہتی ہے۔

مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:

ہر زمانے میں ایک جم غفیر علماء کا جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے ایسا رہا کہ جس نے قرآن کے علوم ومطالب اور غیرمنقضی عجائب کی حفاظت کی۔ کاتبوں نے رسم الخط کی، قاریوں نے طرزِ ادا کی، حافظوں نے اس کے الفاظ وعبارت کی وہ حفاظت کی کہ نزول کے وقت سے آج تک ایک زیر زبر تبدیل نہ ہوسکا۔ کسی نے قرآن کے رکوع گن لیے، کسی نے آیتیں شمارکیں، کسی نے حروف کی تعداد بتلائی، حتیٰ کہ بعض نے ایک ایک اعراب اور ایک ایک نقطہ کوشمار کرڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک کوئی لمحہ اور کوئی ساعت نہیں بتلائی جاسکتی، جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی موجود نہ رہی ہو۔(تفسیرعثمانی، سورۃ الحجر، آیت ۹)

یحییٰ بن اکثم کا بیان ہے کہ عباسی خلیفہ مامون الرشید [م:۷؍اگست ۸۳۳ء ]نے ایک علمی مجلس بنائی تھی، جس میں تمام مذاہب کے نمایندے شریک ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی مجلس میں ایک یہودی عالم آیا۔ وہ بہت خوش شکل اور خوش لباس تھا اور خوشبو لگائے ہوئے تھا۔ بادشاہ کی مجلس میں اس نے بھی گفتگو کی اور بہت ہی عمدہ گفتگو کی۔ جب مجلس ختم ہوگئی تو خلیفہ مامون الرشید نے اسے الگ بلایا اور پوچھا کیا تم اسرائیلی ہو؟ اس نے کہا ہاں، میں اسرائیلی ہوں۔ مامون نے کہا کہ تم اسلام قبول کرلو تو تم کو عہدہ اور منصب عطا کروں گا۔ اس نے کہا کہ میرا مذہب وہی ہے جو میرے آباواجداد کا ہے۔یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔

ایک سال کے بعد وہ شخص پھر مامون کی اس مجلس میں شریک ہوا، مگر اب وہ مسلمان ہوچکا تھا۔ اس دن اس شخص نے اس مجلس میں فقہ کے موضوع پر گفتگو کی اور بہت عالمانہ گفتگو کی۔ جب مجلس ختم ہوگئی تو خلیفہ مامون نے اسے الگ بلایا اور پوچھا: ’’کیا تم وہی آدمی تو نہیں ہو، جو پچھلے سال اس مجلس میں شریک ہوئے تھے؟‘‘ اس نے کہا: ’’ہاں میں وہی آدمی ہوں‘‘۔ مامون نے پوچھا : ’’تمھارے مسلمان ہوجانے کا سبب کیاہے؟ ‘‘انھوں نے کہا:’’ جب میں آپ کی مجلس سے واپس گیا تو مجھے خیال آیا کہ موجودہ مذاہب کو آزمایا جائے کہ کون سا مذہب سچا ہے؟ میں خوش نویس ہوں اور اچھی تحریر لکھتا ہوں۔ میں نے توریت کو لیا اور اس کے تین نسخے عمدہ خط میں تیار کیے۔ لیکن میں نے توریت کی عبارتوں میں کچھ کمی بیشی کردی۔ میں ان نسخوں کو لے کر یہودیوں کی عبادت گاہ میں گیا۔ وہاں لوگوں نے توریت کے وہ نسخے مجھ سے خرید لیے۔ پھر میں نے انجیل کو لیا اور اس کے تین نسخے خوش خط تیار کیے۔ اور ان میں بھی کمی اور زیادتی کردی۔ پھر ان کو لے کر میں چرچ گیا۔ عیسائیوں نے وہ نسخے مجھ سے خرید لیے۔ پھرمیں نے قرآن کو لیا اور اس کے بھی تین خوب صورت نسخے تیار کیے اور ان میں بھی کمی وزیادتی کردی۔ پھر میں نے ان نسخوں کو وراقوں کے حوالہ کیا (قرآن کی کتابت کرکے ہدیہ کرنے والے لوگ)۔ ان لوگوں نے ا ن میں کمی اور زیادتی پائی تو ان کو پھینک دیا اور کسی نے بھی نہیں خریدا۔ تب میں سمجھ گیا کہ قرآن اللہ کا محفوظ کلام ہے اور میں نے اسلام قبول کرلیا‘‘۔(ابوعبداللہ محمدبن احمد انصاری، الجامع لاحکام القرآن، دار احیاء التراث العربی، بیروت، جلد۱۰، ص ۵،۶)

آج بھی دشمنانِ اسلام یہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں، آیتوں اور الفاظ میں ردوبدل کردیں، تاکہ مسلمان گمراہ ہوجائیں۔ چنانچہ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے ایسے نسخے بھی معاندین نے لوڈ کیے ہیں، جن میں من گھڑٹ سورتیں اور آیتیں موجود ہیں۔ مثلاً ’سورۃ الایمان‘، ’سورۃ المسلمون‘ اور’ سورۃ الوصایا‘ وغیرہ جیسی من گھڑت عربی عبارات۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ قرآن کی سورتیں ہوںگی، مگر درحقیقت یہ قرآن میں تحریف کی شیطانی حرکت ہے۔ الحمدللہ، قرآن اپنی مکمل اور محفوظ شکل میں مسلمانوں کے گھروں میں اور حافظوں کے سینوں میں موجود ہے۔ چنانچہ اس طرح کی ناپاک کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ تاہم، ہر صاحب ِایمان مرد اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کی حفاظت اور اس کے فہم کو پھیلانے کی سعادت حاصل کرکے اپنی آخرت کو سنوارے۔

حضرت عمربن الخطاب؄ [شہادت: ۲۶ ذوالحجہ، ۲۳ہجری ، ۶نومبر ۶۴۴ء] کی خلافت ہرپہلو سے مثالی تھی۔ہرمعاملے میں خلیفۂ راشد اپنے آپ کو جواب دہ اور ذمہ دار گردانتے تھے اور رعایا کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ نظمِ حکومت مضبوط بنیادوں پر قائم تھا۔ ادارے منظم تھے۔ مواصلات کا نظام بہترین تھا، راستے محفوظ اور بہترین انداز میں بنائے گئے تھے۔

 مصر اور مدینہ کا فاصلہ خاصا طویل تھا مگر حضرت عمرؓ کے دُور اندیش ذہن نے یہ فاصلہ پاٹ دیا۔ وہ اس طرح کہ مصر سے غلہ لانے کے لیے بحری جہاز استعمال کیے۔ جہازوں کے ذریعے غلہ جار کی بندرگاہ تک لایا جاتا تھا۔ وہاں سے پھر اُونٹوں پر لاد کر محفوظ راستے کے ذریعے ایک دن اور ایک رات میں کارواں مدینہ پہنچ جاتا تھا۔ جار، بحراحمر پر بندرگاہ تھی۔ حضرت عمرؓ سے قبل مصر سے حجاز تک سارا سفر صحرا اور خشکی کے ذریعے ہوتا تھا جو بڑا تکلیف دہ اور خطرات سے گھرا رہتا اور اس میں کافی مدت بھی لگتی تھی۔

  • عزّت افزائی اور قدر کا معیار:حاجت مندوں کے لیے حضرت عمرؓ کا دروازہ ہروقت کھلا رہتا تھا۔ جو شخص آتا اس کی دادرسی کی جاتی تھی۔ کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ تھی۔ ایک اصول تھاکہ جس سے ہرخاص و عام واقف تھا۔ وہ یہ کہ جو زیادہ نیک اور متقی تھا، وہی زیادہ معزز و محترم تھا۔ جس نے اعمالِ خیر اور جہادِ اسلامی میں زیادہ خدمات سرانجام دی تھیں، وہی دوسروں پر فوقیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا معیار نہ تھا، جس سے لوگوں کا مرتبہ متعین کیا جاتا۔

جب حق داروں کو ان کا حق نہ ملے اور صاحب ِ استحقاق کے مقابلے میں بااثر لوگوں کو ترجیح دی جانے لگے تو فساد پھیل جانا فطری امر ہے۔ حکمران اگر یہ اصولِ پیش نظررکھیں کہ جس شخص نے اُمت کے لیے زیادہ قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں،اسی کی عزّت افزائی اور قدر کی جائے تو اس سے بہت صحت مند رجحان پروان چڑھتا ہے۔ لوگ بھلائی اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکیاں بُرائیوں پر غالب آجاتی ہیں۔

جرید بن حازم بن حسن سے مروی ہے: ’’کچھ لوگ امیرالمومنین عمرؓبن الخطاب کے دروازے پر آئے۔ ان میں اصحابِ بدر بھی تھے اور شیوخ قریش بھی۔ ان لوگوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اصحابِ بدر میں سے صہیبؓ،خبابؓ، عمارؓ اور بلالؓ کو اندر آنے کی اجازت مل گئی جب کہ ابوسفیانؓ، حارثؓبن ہشام اور سہیلؓ بن عمرو کو باہر انتظار کرنا پڑا۔یہ سبھی بزرگ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔

اس صورتِ حال کو دیکھ کر ابوسفیانؓ نے کہا: ’’آج کے دن سے زیادہ مَیں نے اپنی بے قدری کبھی نہ دیکھی تھی۔ رؤسائے قریش باہر بیٹھے ہیں اور غلاموں کو اندر بلا لیا گیا ہے‘‘۔ یہ سن کر سہیلؓ بن عمرو نے کہا: ’’اے سردارانِ قریش، میں نے آپ کے چہروں پر ناراضی کے آثار دیکھ لیے ہیں۔ اگر غصہ کرنا ہے تو اپنے آپ پر کریں۔ سارے لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی تھی اور آپ کو بھی مخاطب کیا گیا تھا۔ وہ لوگ جلدی سے آگے بڑھے اور آپ پیچھے رہ گئے۔ آپ کو اس دروازے سے ان کا پہلے داخل ہونا ناگوار گزر رہا ہے۔ خدا کی قسم! یہ تو کوئی بات نہیں۔ وہ تو اپنے درجات کی بلندی میں آپ سے اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ اگر آپ اس کا احساس کریں تو اپنی محرومی پر کفِ افسوس ملتے رہ جائیں‘‘۔

پھر مزید کہا: ’’اے لوگو! یہ سب اللہ کی راہ میں جہاد اورسبقت ِ اسلام کی وجہ سے آپ سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ اب آپ کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ تلافی ٔ مافات کرسکیں اور وہ جہاد کا راستہ ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ آپ کو شہادت کا رُتبہ عطا کرکے آپ کے درجات بلند فرما دے‘‘۔

حضرت سہیلؓ اس کے بعد اسلامی لشکروں کے ساتھ شام میں جاشامل ہوئے اور میدانِ جہاد میں شہادت پائی۔ جرید بن حازم بن حسن ان کے بارے میں مندرجہ بالا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کرتے تھے: ’’اللہ کی قسم! سہیلؓ نے سچ کہا۔ جو بندہ اللہ کی طرف تیزی سے آگے بڑھ جائے، بھلا اس کے برابر دعوت کو ٹھکرا دینے والا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘

کسی شخص کے قرب اور دُوری اور تقدیم و تاخیر کے لیے یہ معیار قائم ہوجائے تو سمجھیے کہ معاشرہ ٹھیک سمت میں جارہا ہے۔ اگر کسی کا ذاتی جاہ ومال، مادّی قوت اور گروہ بندی ہی امتیاز کی وجہ بن جائے تو یہ کھلے بگاڑ کا راستہ ہے۔ اصل چیز کردار اور اعمالِ صالح ہیں نہ کہ حسب نسب اور ٹھاٹھ باٹ۔ قرآن میں فرمایا گیاہے:

فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۝۷ۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗ۝۸ۧ (الزلزال۹۹: ۷-۸) جس کسی نے ذرّہ برابر نیکی کی، وہ اسے دیکھ لےگا اور جس کسی نے ذرہ برابر بُرائی کی، وہ بھی اسے دیکھ لےگا۔

  • فرض کی ادائیگی کا لطف: حضرت عمرؓ بطورِ حاکم اپنے فرائض کی ادائیگی میں سرگرمِ عمل رہتے تھے۔ بہت سے نیک نفس حکمران اور بھی ہیں، جو اپنی جملہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے۔ آج بھی اگر کوئی حکمران سنجیدگی سےکمرہمت باندھ لے تو یہ کام کرسکتا ہے۔ مگر حضرت عمرؓکا اس معاملے میں کمال یہ ہے کہ وہ ان فرائض کی ادائیگی میں لطف محسوس کرتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ عبادت کا حصہ تھا۔ رعایا کے لیے جذباتِ محبت اور نیکی کے کاموں کے لیے ہمیشہ کمربستہ رہناان کی شان تھی۔ انھوں نے خلافت کا بھاری بوجھ اُٹھایا اور اس کا حق اداکردیا۔ اس بوجھ کے باوجود وہ دوسروں کابوجھ کم کرنے اور اپنے اُوپر زیادہ بوجھ لادنے کی فکر میں رہتے تھے۔ حق داروں کوان کے پاس پہنچ کر حق ادا کیا کرتےتھے۔ وہ راتوں کو گلی کوچوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے حالات معلوم کرتے اوران کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے کندھوں پر بوجھ اُٹھایا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ خود رجسٹر اُٹھائے بنوخزاعہ کے پاس قدید پہنچے اور ان کے وظیفے انھیں دیتے ہوئےفرمایا: ’’یہ ان کا حق ہے۔ انھیں اپنا یہ حق وصول کرکے اتنی خوشی نہیں ہوئی ہوگی جتنی مجھے اداکرکے ہورہی ہے۔ تم لوگ میری تعریف نہ کرو۔ میں نے کیا تیر مارا ہے، بس اپنا فرض ادا کیا ہے۔

یہ عظمت ِ کردار کہاں مل سکتی ہے؟ سربراہِ مملکت اپنی پشت پر سامان لادے لوگوںتک پہنچتا ہے، مگر نہ کوئی اعلان ہوتاہے، نہ تشہیر، نہ سپاس نامہ اور نہ قصیدہ خوانی۔ وہ اللہ کے سامنے حاضری اور جواب دہی کے احساس سے مالا مال تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ بندوں کے معاملے میں اللہ نے ان پرکیا کچھ واجب کررکھا ہے۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ بے چارے حق دار پوری زندگی اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے حصے میں محرومی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ حکومتی اداروں کو چلانےوالوں کے دلوں میں اگر خوفِ خدا پیدا ہوجائے تو ہر حق دار کو اس کا حق مل سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اس کاجواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ حقیقت واضح ہے کہ خدا کا خوف دلوں میں نہیں ہے،مگر اس کا اظہار کوئی نہیں کرسکتا۔

  • سختی و نرمی کا امتزاج :حضرت عمرؓ سخت گیر بھی تھے، مگر ساتھ ہی نرم دل بھی تھے۔ جہاں سختی کی ضرورت ہوتی تھی، وہاں سختی کرتے، اور جہاں نرمی کا موقع محل ہوتا، وہاں آپ کی نرم دلی بے مثال ہوا کرتی۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان غیرشادی شدہ جوڑا زنا میں پکڑا گیا۔ آپ نے لڑکے اور لڑکی دونوں پر حد ِ تازیانہ جاری کی اوراس میں بالکل نرمی نہ دکھائی۔ حدجاری ہوچکی تو آپ نے ان سے کہا: آپس میں شادی کرلو‘‘۔ مگر لڑکے نے انکارکر دیا۔ آپ نے اس کے انکار پر  بُرا نہ مانا۔ حدود اللہ کا قیام اللہ کا حق ہے جس میں کوئی کمی بیشی قابلِ قبول نہیں اور افراد کی شخصی آزادی ان کا بنیادی حق ہے جس پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔

آج بُرائی پھیل چکی ہے۔ ان حالات میں مسلمان لڑکیوں کو اپنی عزّت و عفت کی حفاظت کے لیے خود بیدار اور محتاط رہنا چاہیے۔ شیطان، انسان کے لیے ہرلمحہ ایک حملہ آور وحشی بھیڑیئے کی مانند ہے۔ شیاطین، جنوں اور انسانوں کے غول پھرتے اور یلغار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی کی عزّت اور شرف کا کوئی تقدس اور حرمت نہیں ہے۔ افسوس کہ انسانوں کو یہ بات یاد ہی نہیں رہتی۔ وہ ذاتِ بابرکات، جو ہرشخص کے ہرعمل سے باخبر ہے، اس کے سامنے حاضری کے دن سب کو اپنے اپنے اعمال کا پورا بدلہ مل جائےگا۔

وقت قیمتی اثاثہ : حضرت عمرؓ اپنی رعایا کے ہرمعاملے میں دل چسپی لیتے تھے، جس طرح والدین اپنی اولاد کے جملہ اُمور کی نگرانی کرتے ہیں۔ آپ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ لوگ اپنے وقت کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ کبھی آپ انھیں پیار سے سمجھاتے اور کبھی سختی سے انھیں تاکید کرتے تھے۔ رات کو دیر تک جاگنا آپ کو ناپسند تھا۔ آپ لوگوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ جلد سونے کی عادت ڈالیں تاکہ جلد اُٹھ سکیں اور اگر توفیق ملے تو تہجد کی سعادت حاصل کریں۔

آپ کی خلافت میں فضول کاموں کی کوئی گنجایش نہ تھی۔ آپ جانتے تھے کہ وقت بہت قیمتی متاع ہے اور کام بے شمار ہیں جن کی تکمیل کے لیے وقت کا ایک ایک لمحہ احتیاط سے استعمال میں لانا چاہیے۔ اگر لوگ عشاء کی نماز کے بعد قصے کہانی سننے سنانے کے لیے بیٹھ جاتے تو حضرت عمرؓ انھیں سرزنش فرماتے اور کہتے: ’’پہلی رات کہانی قصوں کی نذر کر دیتے ہو اور پچھلی رات لمبی تان کر سو جاتے ہو، عشاء کے بعد کراماًکاتبین کو بھی ذرا آرام کرنے دیا کرو‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات میں بڑی حکمت ملحوظ رکھی ہے۔ وہ بندوں کے نفع و نقصان کو خوب جانتا ہے۔ اس نےدن کو کام کاج اور تلاش معاش کے لیے اور رات کو آرام و راحت کے لیے پیدا کیا ہے۔ رات کوجلدی سو جانے والا شخص اگلے دن اپنے کاموں میں پوری چستی اور نشاط کے ساتھ صبح سویرے مشغول ہوجاتا ہے۔ راتوں کو لمبی محفلین جماکر بیٹھے رہنا، انسان کے لیے ہرلحاظ سے نقصان دہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ عشاء کی نماز سے قبل سونے اور عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔حضرت عمرؓ نے جب لوگوں کو یہ حکم دیا کہ ’’رات کو جلد سو جایا کریں‘‘ تو آپؓ کے پیش نظر یہی حدیث ِ رسولؐ اور حکمِ ربانی ہوگا:

اِنَّ نَاشِـئَۃَ الَّيْلِ ہِيَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا۝۶ۭ (المزمل۷۳:۶) بے شک (پچھلی) رات کو اُٹھنا اور (عبادت میں مصروف ہو جانا) نفسِ امارہ کو کچلنے اور صحیح اور سچی بات کہنے کی عادت ڈالنے کے لیے مفید ہے۔

رات کی خاموشی اور تنہائی میں اللہ کی اطاعت و عبادت کا جو لطف آتا ہےوہ ناقابلِ بیان ہے۔ سکونِ قلب حاصل ہوتاہے۔ خاموش فضا میں دل و دماغ، آنکھیں اور کان، سوچ اور دھڑکن ہرچیز اللہ کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ رات کی سیاہ زُلفیں خشوع و خضوع سے دل کی دُنیا بھر دیتی ہیں اوررکوع و سجود، قیام وقعود، دُعاو مناجات ہرمرحلہ کیف و سُرور سےمالامال کردیتا ہے۔

حضرت عمرؓ نوجوانوں کے اندر قوت، صحت اور مردانگی کے آثار دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان نوجوان ظاہر و باطن ہرلحاظ سے اسلام کی شوکت و قوت کا مظہر بن جائیں۔ ایک نوجوان کو مریل چال چلتے ہوئے دیکھا تو پوچھا: ’’کیا تم بیمار ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں امیرالمومنین، میں بالکل تندرست ہوں‘‘۔ اس پر آپ نے درہ لہرایا اور فرمایا: ’’پھر یہ مردنی تم پر کیوں چھائی ہوئی ہے؟ جواںمردوں کی طرح چلو‘‘۔

حضرت عمر ؓ اپنی رعایا کے ہرخاص و عام کو تذکیر ونصیحت کرتے رہتے تھے۔ اُمہات المومنینؓ کا مقام و مرتبہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حضرت عمرؓ نے نماز پڑھاتے ہوئے سورئہ احزاب کی تلاوت کی اور ان آیات پر پہنچے، جن میں ربّ العزت نے اَزواجِ مطہراتؓ کو یا النساء النبی کہہ کر خطاب کیا ہے تو آواز بلندہوگئی۔ نماز کے بعد لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا: ’’اُمہات المومنینؓ کو وہ عہد یاد دلانا مقصود تھا، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے خصوصی طور پر نازل فرمایا تھا‘‘۔ سچی بات یہ ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں تذکیر اور یاد دہانی سےبے نیاز نہیں ہوسکتے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۵۵ (الذاریات ۵۱:۵۵) نصیحت کیا کرو، بے شک نصیحت سے اہلِ ایمان کو نفع پہنچتا ہے۔

  • میاں بیوی کا جھگڑا:ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک اَزدواجی جھگڑا پیش کیا گیا۔ ایک عورت نے اپنے خاوند سے سرکشی کا معاملہ کیا۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ جانے کے لیے آمادہ نہ تھی اور علیحدگی کا مطالبہ کررہی تھی۔ آپ نے حکم دیا کہ عورت کو کسی ویران گھر میں بند کر دیا جائے۔ اگلی صبح آپ نے اسے بلا بھیجا اور پوچھا: ’’تم نے رات کیسے گزاری؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’جب سے میں اس شخص کے گھر گئی ہوں، آج پہلی رات ہے جو میں نے راحت اور سکون سے بسر کی ہے‘‘۔ یہ سن کر آپ نے مرد کو حکم دیا کہ اس عورت کو طلاق دے دے اگرچہ اس کے بدلے میں عورت کان کی ایک بالی ہی پیش کرے (خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر واپس کرنا ہوتا ہے)۔

حضرت عمرؓ نے معمولی سی تفتیش اور سوال و جواب سے حقیقت پالی تھی۔ آپ نے محسوس کیا کہ اتنی شدید نفرت کے ساتھ میاں بیوی کا اکٹھےرہنا اخلاقی، دینی، سماجی، معاشرتی کسی بھی لحاظ سے مناسب نہ تھا۔ دین اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے، مگر جہاں میاں بیوی کا نباہ کسی صورت نہ ہوسکے، وہاں آخری چارئہ کار کے طور پر علیحدگی کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔

آپؓ مسجد میں آتے تھے تو ہرجانب نظر ڈالتے تھے۔ نمازیوں کو بھی دیکھتے اور مسجد کی صفائی پربھی توجہ فرماتے تھے۔ مسجد میں نماز ادا کرتے اور لوگوں کی تربیت کا اہتمام کرتے تھے۔ ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حجاج بن ایمنؓ آئے۔ حضرت عمرؓ نے حجاج کو نماز پڑھتے دیکھا اور نماز کےبعد فرمایا: ’’اپنی نماز لوٹائو‘‘۔پھر انھیں نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ سمجھایا۔ نماز دین کا ستون ہے۔ اگر اسے درست نہ کیا جائے تودین کی عمارت کیسے ٹھیک اور مضبوط ہوگی؟

  • رعایا کی خبرگیری: حضرت عمر فاروقؓ دن بھر کی مصروفیات اور ذمہ داریوں سے تھک جاتے۔ رات کے پہلے حصے میں ذرا سا آرام کرتے اور پھر لوگوں کے احوال معلوم کرنے اور مصیبت زدگان کی دادرسی کے لیے مدینہ کی گلیوں اور مدینہ سے باہر کی آبادیوں کا چکّر لگایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ تاجروں کا ایک قافلہ مسجد نبویؐ کے باہر آکررُکا۔ رات کو امیرالمومنین نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ساتھ لیا اور فرمایا: ’’آئو، ان تاجروں کے مالِ تجارت کی حفاظت کےلیے آج رات پہرہ دیں‘‘۔ چنانچہ دونوں جلیل القدر صحابی، تاجروں کے مال کے پاس رات بھر نوافل پڑھنے اور ذکروتلاوت میں مشغول رہے۔ حضرت عمرؓ چاہتے تو پولیس کے پہرے داروں کو بھی حکم دے سکتے تھے، مگر آپؓ نے دُنیا کےحکمرانوں کے لیے یہ اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔ تاجروں کو علم بھی نہیں تھا کہ امیرالمومنینؓ خود ان کے مالِ تجارت کا پہرہ دے رہے ہیں۔
  • اللہ  اور رسولؐ کے احکام کی پابندی :حضرت عمرؓ لوگوں کے حقوق، آرام اور راحت کا خیال رکھتے مگرحدود اللہ کی خلاف ورزی پر کبھی نرم رویہ نہ برتتے۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے جاہلیت کے طرز پر نوحہ شروع کیا اورمنع کرنے پربھی نہ رُکی تو حضرت عمرؓ نے سختی کی۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کے ایک بیٹے کی وفات پر حضرت ابوبکرؓ کی ایک بیٹی نے بین شروع کر دیا۔    عمربن خطابؓ، حضرت ابوبکرؓ اور ان کے خاندان کی بہت تکریم کرتے تھے ،مگر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کیے ہوئے کام کی کسی صورت میں، کسی شخص کو اجازت دینے کے روادار نہ تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی اس بیٹی کو فوراً حکم دیا کہ نوحہ بند کردو ورنہ تمھیں باہر نکال دیا جائے گا۔

حضرت عمرؓ کی ترجیحات میں سرفہرست قرآنی احکامات اور نبوی ارشادات کا احترام و اِتباع تھا۔ اس معاملے میں وہ کبھی سُستی یا مداہنت نہ برتتے تھے۔ ایک شخص غیلان بن ابی سلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے کر اپنا سارا مال اپنے بیٹوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ حضرت عمرؓ کو یہ اطلاع ملی تو فوراً غیلان کے پاس پہنچے اور فرمایا: ’’خدا کی قسم! میرا خیال ہے کہ تمھاری اجل قریب آگئی ہے اور شیطان مُردود نے تیرے دل میں یہ بات ڈالی ہے۔ یہ کام جو تُو نے کیا ہے، شیطانی کام ہے۔ خدا کی قسم! تمھیں یہ فیصلہ بدلنا ہوگا۔ مال کی غیراسلامی تقسیم کا فیصلہ منسوخ کرو۔ اوراگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمھارا مال اسلامی قانونِ وراثت کے مطابق حق داروں میں تقسیم کروں گا اور ابورغال کی طرح تمھاری قبر پر پتھر برسائوں گا‘‘___ یاد رہے ابورغال وہ شخص تھاجسے بنوثقیف نے اَبرہہ کے لشکر کے ساتھ راستہ بتانے کے لیے مکہ بھیجا تھا۔ عرب اس کی قبر پر مدتوں سنگ باری کرتے رہے۔

  • نمازِ تراویح کا باجماعت اہتمام: حضرت عمرؓ ، اُمت مسلمہ کی وحدت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ دین اسلام اتحادِ ملّت کا پیغام ہے۔ جو قومیں اپنی صفوں میں اتحاد برقرار نہ رکھ سکیں ان کا وجود بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ نوفل بن ایاس ہذلی سےمروی ہے: ’’حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہم لوگ رات کو مسجد نبویؐ میں مختلف گروپوں کی صورت میں عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ جس قاری کی آواز زیادہ دل کش ہوتی تھی، اس کے گرد زیادہ لوگوں کا حلقہ بن جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا تو کہا: ’’ان لوگوں نے قرآنِ مجید کو بھی راگنی کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ بخدامیں اس صورتِ حال کو بدل کے رہوں گا‘‘۔

اس کے بعد تین راتیں گزریں تو آپ نےحضرت ابیؓ بن کعب کو حکم دیا کہ وہ نمازِ تراویح کی امامت کرائیں۔ حضرت ابیؓ کی اقتدا میں صفیں بن گئیں اور حضرت عمرؓ سب سے آخری صف میں کھڑے ہوئے۔ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ابیؓ خوش الحانی اورترتیل سے قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس موقعے پر فرمایا :’’اگرچہ یہ ایک نئی چیز ہے مگر یہ نئی چیز بہت اچھی ہے‘‘۔

فضلا صحابہ کرامؓ اُمت کی وحدت کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔حضرت عمرؓ کی طرح وہ سب اس بات کے حریص تھے کہ اُمت میں انتشار نہ پیدا ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ،منیٰ میں نمازِ قصر کے حق میں تھے،مگر ا نھوں نے وہاں نمازِ ظہر پڑھائی تو چار رکعت پوری کیں۔ ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اختلاف بُری چیز ہے۔ حضرت عثمانؓ، منیٰ میں قصر نہیں پڑھتے، اس لیے مَیں نے پوری نماز پڑھائی ہے۔ ویسے میرا خیال یہی ہے کہ یہاں پر قصر افضل ہےمگر اتحادِ اُمت اس سے اولیٰ ہے‘‘۔

  • فوری اصلاح: حضرت عمرؓ اپنی رعایا کے جملہ اُمور سے دل چسپی رکھتے تھے اور ان کی رفاہ اور بھلائی کا خاص خیال فرماتے تھے۔ لوگوں کی تکالیف کا ازالہ کرنا، ان کے نزدیک خلیفۂ راشد کا بنیادی فرض تھا۔ کہیں کوئی نازیبا حرکت دیکھتے تو فوراً اس کی اصلاح کی فکرکرتے کہ وہ ناسور نہ بن جائے۔ یقینا بیماری کا فوراً نوٹس لیا جائے اور اس کا علاج کیا جائے تو خرابی سے بچاجاسکتا ہے۔

ایک غلام نے ایک مرتبہ کچھ اشعار کہے، جن میں اس بات کا احتمال موجود تھا کہ اس نے کسی کنیز پر تہمت لگائی ہے اور اس پرقذف کی حد جاری ہوسکتی تھی۔ آپ نے معاملے کی تحقیق کی اور صاحب ِنظر حضرات کی رائے پوچھی۔ تحقیق سے پتا چلا کہ قذف کا ارتکاب نہیں ہوا، تو آپ نے حد جاری کرنے سے منع فرما دیا، مگر اس غلام کو آیندہ محتاط رہنے کی تلقین کی۔

  • شعروشاعری کی حدود: شعروشاعری فنون لطیفہ میں اعلیٰ درجے کا فن ہے۔ حضرت عمرؓ نے شعروشاعری کو ممنوع قرار نہیں دیا، مگر اسے پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے حدودمقرر فرمائے۔ اگر اس صنف ِ ادب کو کھلی چھٹی دے دی جائے تو بسااوقات بندگانِ حرص و ہوس اس کاایسا غلط استعمال کرتے ہیں کہ شعر حکمت اور جذبۂ ایمان پیدا کرنے کے بجائے فحاشی، عریانی اور اخلاق باختگی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ کسی قوم کاادب اور شعر اس قوم کی اخلاقی حالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ایک ذمہ دار حکمران اس معاملے میں بے اعتنائی نہیں برت سکتا۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہمارے شعرا و ادبا اورفنکار و ہدایت کار، کم و بیش سبھی لہوولعب اور عریانی و بے حیائی کے سوا کوئی فن پیش ہی نہیں کرتے۔ انھی لوگوں کا صحافت اور ابلاغِ عامہ پر قبضہ ہے۔ ریڈیو،ٹیلی ویژن،سنیما اور تھیٹر ہرجگہ انھی کا طوطی بولتا ہے۔ تہذیب کے نام پر بدتہذیبی کرتے اور ثقافت کے نام پر اخلاق سوز حرکات کو سند ِ جواز پیش کرتے ہیں۔ ہمارے ممالک کے ذمہ داران کو کیا ہوگیا ہے؟ بُرائی اور سیہ کاری کا دور دورہ ہے۔ جہاں نیکیوں کی فصلِ بہار پروان چڑھ سکتی ہے وہاں بُرائیوں کے جھاڑ جھنکاڑ کا ایک جنگل اُگ رہا ہے۔ جو وسائل تقویٰ کا پیغام عام کرسکتے ہیں، وہ بُرائی کے علَم بردار بن چکے ہیں۔

  • ہمہ صفت خلیفہ: حضرت عمرؓ کا اپنی رعایا کے ساتھ محض حاکم ومحکوم کا معاملہ نہ تھا۔ آپ نے محض اپنے جسم کو لوگوں کی خدمت کا خوگر نہ بنا رکھا تھا بلکہ آپ کے قلبی جذبات اور ہمدردی و محبت کے احساسات ہرلمحے آپ کو رعایا کی خدمت اور بھلائی کے لیے سرگرم رکھتے تھے۔ ان کے دُکھ بانٹتے اور مصائب پر انھیں تسلی دے کر صبر کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ بیماروں کی عیادت اور مصیبت زدوں کی اعانت کے لیے ان کے گھروں میں حاضری دیا کرتے تھے۔ کسی فرد کو کوئی حادثہ پیش آجاتا تو سب سے پہلے اس سے اظہارِ ہمدردی کے لیے آنے والا خود خلیفۂ وقت ہوا کرتا تھا۔

 سعیدؓ بن یربوع کی بینائی ختم ہوگئی تو حضرت عمرؓ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ اظہارِ ہمدردی بھی کیا اور محبت کے ساتھ نصیحت فرمائی: ’’نمازِ جمعہ اور پانچ وقت کی باجماعت نماز مسجدنبویؐ میں ادا کرنے کی کوشش کرنا‘‘۔انھوں نے عرض کیا:’’امیرالمومنین، میری بھی یہی خواہش ہے، مگر مجھے مسجد تک لےجانے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے اس خدمت کے لیے ایک غلام مقرر کر دیا۔

راستہ چلتے ہوئے بھی آپ ہر چیز پر نظر رکھتے اور ہرآواز پر کان دھرتے تھے۔ کہیں کوئی فساد دیکھا یا ٹیڑھ پن پایا، تو فوراً اس کی اصلاح فرما دی۔ اپنے آرام کے لیے بھی وقت مقرر تھا مگر وہ بڑا محدود اور مختصر تھا۔ دن رات کا زیادہ حصہ فرائض کی ادائیگی میں صرف ہوجاتا تھا۔ فارغ بیٹھنا ان کے نزدیک وقت کا ضیاع تھا۔ ایک مرتبہ کسی راستے سے گزرےوہاں کچھ نوجوان تیراندازی کی مشق کررہے تھے۔ ان میں سے ایک کا نشانہ خطا ہوا تو اس نے کہا: ’’اسیت‘‘۔دراصل وہ کہنا چاہتا تھا: ’’اسات‘‘۔ حضرت عمرؓ نے اس کا لفظ سن کر فوراً ٹوکا اور فرمایا: ’’تیراندازی میں چوک ہوجانے سے زبان کی چوک زیادہ بُری اور خطرناک ہے‘‘۔ پھر اس کے لفظ کی تصحیح فرمائی۔

ہمارے آج کے دانش وروں،خصوصاً’روشن خیال‘ دانش وروں کویہ بات مان لینی چاہیے کہ پوری بیسویں صدی میں اقبال سے بڑا کوئی صاحب ِدانش نہیں تھا،اوردانش حاضر اور اس کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں سے بھی ان سے بڑھ کر کوئی واقف نہ تھا۔

اقبال کے ہاں’عقل‘اور’دانش‘مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اورعقل کے کچھ محدودسے فوائد بھی علامہ نے بتائے ہیں، مگراس مضمون میں’دانشِ حاضر‘کی ترکیب اُس دانش اور عقل عیار کے معنی ومفہوم میں استعمال کی گئی ہے، جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی ، مرا ایماں ہے زُنّاری

یا    ؎

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

دانشِ حاضر کی ترکیب تو اقبال نے دوچار جگہ ہی استعمال کی ہے مگرزمانۂ حاضر،تہذیب حاضر،علم حاضر،دورِحاضر،دانشِ فرنگ،سرمۂ افرنگ،عقلِ ذوفنوں،فکرِخداداد ،فلسفہ وحکمت اور آزادیِ افکارجیسی تراکیب اورخرد،خبر،علم ،ظن،تخمین عقل،دانش اور فرنگ جیسے الفاظ ان کے ہاں بکثرت ملتے ہیں۔ اگر ہم اس طرح کے اشعار کونگاہ میں رکھیں:

برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ
فرنگ دل کی خرابی ، خرد کی معموری

______

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بَرّاقی

______

ڈھونڈھ رہا ہے فرنگ ، عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام

تو اندازہ ہوگا کہ وہ اُس تہذیب،طرزِعمل اور فکر سے بے اطمینانی اور بے زاری کااظہارکررہے ہیں جو عقل پرستی کی بنیاد پروجود میںآنے والی دانش حاضر کاشاخسانہ ہے اور جس کے بارے میں علامہ نے کہا:

عذاب دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل

صرف اقبال ہی نہیں،عہداقبال کاہرشخص دانشِ حاضر کے عذاب سے باخبر تھا بلکہ مابعدِ اقبال عہد کی دنیا بھی اس عذاب کوبھگت رہی ہے اور جانے کب تک اس عذاب کی آگ میں جلتی رہے گی۔

دانشِ حاضر چالاکی وعیاری،مکاری وفریب کاری،پُرکاری وسخن سازی اورچرب زبانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ عہدحاضر میں دانشِ حاضر نے ساحرالموط کی سی حیثیت اختیارکرلی ہے۔ جو لوگ اس کے فریب میں آجاتے ہیں اور اس کے جال میں گرفتارہوجاتے ہیں، عہدِجدیدکا یہ ساحران کے سامنے ایسے حسین وجمیل،چمکنے دمکنے اور نظر کو خیرہ کرنے والے بت تراش دیتا ہے کہ نوگرفتار، ان کی چکاچوند کے سامنے بے اختیارسجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ان بتوں میں چھوٹے بڑے، مختلف شکل وصورت کے اورکئی قسموں کے بہت سے بت شامل ہیں، مثلاً:

  • وطنیت اور قوم پرستی کا بت
  • دین وسیاست کی مغائرت کا بت
  • عقیدوں،روایات اوراقدارمیں تشکیک اوران سے بغاوت کابت
  • ماد ہ پرستی اورفلزات پرستی کابت
  • ملحدانہ سوشلزم کابت
  • عوام کی حاکمیت کابت
  • آزادیِ افکارکابت
  • مردوزن کی مساوات اورنام نہاد آزادی نسواںکابت،وغیرہ۔

یہ سب معبودانِ فرنگی اُسی دانش حاضرکے تراشیدہ ہیںاور،میں بڑی معذرت کے ساتھ عرض کررہاہوں کہ ہمارے بہت سے پاکستان ہی کے نہیں،مسلم دنیا کے دانش وربھی( ادیب ،صحافی خصوصاًکالم نگار،قلم کار،اساتذہ اورایک نئی مخلوق جسے ’اینکرپرسن‘کانام دیاجاتاہے،یہ سب)، اِلّاماشاء اللہ اسی دانش حاضرکے پھندے میں گرفتارہیں اور انھی معبودان فرنگی کے سامنے سجدہ ریز ہیں، جن سے بچنے کاعلامہ اقبال نے مشورہ دیاتھااوران سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ بھی کی تھی مگر  دانشِ حاضرکے بیچارے یہ نوگرفتار سمجھتے ہیں کہ ’وحیِ ولایت‘ کے ہرہرحرف پر آمنّاوصدّقنا       کہنا ہی زندگی میں کامیابی کی کلید ہے۔ یہاںمشکل تویہ ہے کہ جن کی تعریف میں ہمارے دانش وَر رطب اللّساں ہیں،ان میں سے کسی ایک بت نے بھی بنی نوع انسان کی مسیحائی نہیں کی بلکہ اس کے برعکس سو سو طرح سے مرنے والی مخلوقِ خداکوہمیشہ بے اطمینانی اوربے حضوری اور بے یقینی اور محرومی ہی سے دوچارکیاہے۔دانش حاضرکے زائیدہ تما م فلسفوں، اِزموں، بتوں اورمعبودوں نے انسان کے اعتماد …خداپرایمان، کائنات پر یقین، کسی مذہب پر(یعنی زندگی بسرکرنے کے لیے کسی ضابطے، راستے اورعقیدے پر)ایمان،اورانسان کاخوداپنے اوپریقین اوراعتماد…دانش حاضر نے ان سب کوٹھیس پہنچائی ہے،کمزورکیاہے اورانسان کوتشکیک اور تذبذب میں مبتلاکیاہے۔

علامہ فرماتے ہیں:

علمِ حاضر پیشِ آفل در سجود
شک بیفزود و یقیں از دل ربود

 اور اسی لیے عصر حاضر کاانسان’’بوعلی اندرغبارناقہ گم‘‘کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔

علامہ اقبال نہایت دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ دانش حاضر نہ صرف خودگم کردہ راہ ہے بلکہ گمراہی پھیلاتی بھی ہے اور اس نے ایک دنیا کو راہِ راست سے بھٹکایاہے۔اس گمراہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دانش ِحاضر فیضانِ سماوی سے محروم ہے۔ اس نے مشرقی اقوام پر مغربی استعمار کی سامراجی گرفت کو مضبوط ترکرنے کانامسعودکارنامہ سرانجام دیاہے۔علامہ اقبال کے نزدیک دانش حاضرکے ڈانڈے ابلیس سے ملتے ہیں:

گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد

ابلیس کے علاوہ دوسری ہستی میکاولی کی ہے جسے دانش حاضر نے اپنا مرشد بنارکھاہے۔اس ابلیسیت اورمیکاولیت کی بنیاد پر دانش حاضرنے جو گل کھلائے،ہم اقبال کی وفات کے پون صدی بعدبھی اس کے ’’فیوض وبرکات‘‘کی زدسے باہر نہیں نکل سکے۔عہدحاضرمیںآزادی فکر،آزادی نسواں،مساوات مردوزن،رواداری،دوستی ، روشن خیالی اورنظریہ پاکستان کے مفہوم کے ازسرنوتعین کے سلسلے میں سیکولرزم پراصراراورایک خاص مفہوم اورپس منظر میں’عوام کی عدالت ‘کواسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستوراوراس کی مقننہ اورعدلیہ سے بھی بالاترقراردینے کانعرہ ۔ یہ سب جیساکہ اُوپرعرض کیاگیا،دانش حاضرکے زائیدہ مسائل اور امراض ہیں۔عہداقبال میں بھی یہ سب موجود تھے اور علامہ کو ان کاپوراادراک تھا۔اس کے بعض پہلوؤں کا اظہار انھوںنے ’بالِ جبریل‘ کی نظم’’لینن‘‘میں کیاہے۔ چنداشعارملاحظہ فرمائیے:

یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائیِ تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

 فرنگی مدنیت کی فتوحات کی پوری فہرست بہت طویل ہے ۔جنسی بے راہ روی نے کنواری ماؤں، ناجائزبچوںاورشادی کے رجحان میں بتدریج کمی کی منازل سے گزر کرفرنگی معاشرے کوخاندانی اکائی سے محروم اورخاندانی نظام کی تباہی سے دوچار کردیا ہے اوراب دانش حاضرہم جنس پرستی پر مصر ہے۔ جب دانشِ حاضر نے عالم انسانی کو اتنی ساری مہلک بیماریوں میں مبتلاکردیاتو انسانیت کیسے پنپ سکتی ہے۔ اقبال نے خطبات میںایک جگہ کہاہے:

Believe me, Europe to-day is the greatest hindrance in the way of man's ethical advancement

خیر،یہ توفرنگی مدنیت کاایک پہلوہے۔اس کاسب سے روشن اورقابل قدرچہرہ تو’’یہ علم ،یہ حکمت،یہ تدبر،یہ حکومت‘‘قراردیاجاتاتھا مگر اب مغرب کا علم و ہنر،تعلیم وتعلم،حکمت وحکومت اورتدبروتفکر وغیرہ سب کچھ دانش حاضر سے مسموم ہوچکاہے۔اب علم’تخمین وظن‘ اور ’سراپاحجاب‘  بن چکاہے۔اقبال نے اس ظلمات اوران فتنوں سے باخبررہنے کی تلقین کی ہے۔

اے مسلماناں ! فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب

خیال رہے کہ دانش حاضرکی زائیدہ بہت سی بیماریوں میں سے روشن خیالی کی بیماری، ہمارے ایک طبقے کوعہداقبال ہی سے لاحق ہوچکی تھی۔پنڈت نہروکے ساتھ قادیانیت کے مسئلے پرقلمی مناقشے میں ایک جگہ اقبال نے لکھاہے:

The so-called "enlightened" Muslim has seldom made an attempt to understand  the real cultural significance of the idea of Finality in Islam and a process of slow and imperceptible Westernisation has further deprived him even of the instinct  of self-preservation.

یہself-preservationسے محرومی کیاہے؟ اس کی وضاحت علامہ نے مثنوی’پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘ میں بایں الفاظ کی ہے:

اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد
می شناسی عصرِ ما با ما چہ کرد
عصرِ ما ما را زِ ما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفیٰؐ بیگانہ کرد
سوزِ او تا از میانِ سینہ رفت
جوہرِ آئینہ از آئینہ رفت
باطنِ ایں عصر را نشناختی
داوِ اوّل خویش را درباختی

علّامہ نے صرف تشخیصِ مرض ہی پر اکتفا نہیںکیا،دانش حاضر کی اس بیماری کا علاج بھی بتایاہے اوروہ ہے:   ع

اندر ایں کشور مقامِ خود شناس

پھروہ کہتے ہیں کہ یہ خودشناسی لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ کی طرف مراجعت ہی سے ممکن ہے اوریہی دانش حاضرکے زہرکاتریاق ہے۔اسی مثنوی میں ایک جگہ کہتے ہیں:

نکتۂ می گویم از مردانِ حال
اُمتاں را لا جلال اِلَّا جمال
لا و اِلَّا احتسابِ کائنات
لا و اِلَّا فتحِ بابِ کائنات
ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف و نوں
حرکت از لا زاید از اِلَّا سکوں
تا نہ رمزِ لَا اِلَہ آید بدست
بند غیر اللہ را نتواں شکست

یہ رمزلَااِلٰہ  کیاہے؟ا س کی وجہ علامہ نے لَااِلٰہ اِلَّااللّٰہَ کے عنوان سے ضرب کلیمکی پہلی نظم میں بیان کی ہے۔ خیال رہے کہ ۱۹۳۶ء میںضرب کلیم کی اشاعت کو اقبال نے دانش حاضر کے فتنے کے خلاف ’اعلانِ جنگ‘قراردیاتھا __  یہ نظم خود شناسی کی وضاحت بھی ہے اور رمز لَااِلٰہ کامفہوم بھی کھولتی ہے__فرماتے ہیں:

خودی کا سرِّ نہاں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خودی ہے تیغ ، فساں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ،  لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں ،  لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ

 تاریخ میں تعلیم اورنظام تعلیم قوموں کے عروج و زوال کی اہم بنیاد رہا ہے۔ جس قوم نے بھی تعلیم کی اہمیت کو صحیح طریقے سے جانا اور اپنے تشخص اور نسلِ نو کی تربیت کا انتظام کیا وہ دنیا میں سرخرو ہوئی ۔ تعلیم قوموں کے بناؤ اور بگاڑ میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اسلام میں تعلیم کی اہمیت

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چنداحادیث سے اس کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

حضرت ابوالدرداءؓ سے مروی ہے کہ ’’بے شک میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص علم کے حصول کی راہ میں چلا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلاتے ہیں اور بے شک ملائکہ اپنے پروں کو علم کے طالب کی خوشنودی کے لیے بچھاتے ہیں۔ اور عالم کے لیے زمین و آسمان کی تمام اشیاء مغفرت کی دعا کرتی ہیں اور مچھلیاں پانی کے پیٹ میں۔ اور بے شک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں کے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر۔(متفق علیہ)

ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ ’’علم کا حصول ہرمسلمان (مرد اور عورت) پر فرض ہے‘‘۔

یہ بات واضح ہے کہ ہر مسلمان تمام دینی علوم حاصل نہیں کر سکتا لیکن اس حدیث کے مطابق ہم پرچار چیزوں کی تعلیم فرض ہے:

  • اوّل، عقیدے کی درستی: اتنی تعلیم جس کے ذریعے ہم اپنے عقیدے کو درست کر لیں، مثلاً توحید ،رسالت اور آخرت جیسے عقائد کے بارے میں جاننا اور سمجھنا ۔ اس سے کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں چاہے وہ دنیاوی طور پر پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو۔ ہر عاقل بالغ مرد اور عورت پر یہ فرض ہے۔
  • دوم: اتنے علم کا حصول جس سے ہم اپنی عبادات کو درست طریقے سے ادا کر سکیں، مثلاً نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوۃ ادا کرنا یا حج کرنا۔
  • سوم: لوگوں سے درپیش روز مرّہ کے معاملات کی درست طریقے سے ادائیگی کے بارے میں علم، جس میں ان کے حقوق اور ہمارے فرائض شامل ہیں، مثلاً پڑوسی کےحقوق، والدین کے حقوق ، بچوں کے حقوق وغیرہ۔
  • چہارم: اپنے پیشے سے متعلق دین کا اتنا علم جس سے ہم اپنے پیشہ ورانہ فرائض دین کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ادا کر سکیں اور ہم اپنے پیشے میں دین کے خلاف کوئی کام نہ کریں، مثلاً ایک ڈاکٹر کو طب کی تعلیم سے متعلقہ دین کا اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے جس سے وہ اپنے پیشے کو دین کے مطابق ادا کر سکے۔

 جنگ بدر میں جنگی قیدیوں کو چند افراد کو علم سکھانے کے بدلےآزاد کیا گیا۔یہ شایدتاریخ میں واحد مثال ہے کہ جنگی قیدیوں کو اس طرح آزاد کیا گیا ہو اور اس سے اسلام میں علم اور تعلیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مدینہ میں ایک صحابی ؓ آواز بلند کرتے ہیں کہ لوگو تم سب کدھر ہو وہاں تو (مسجد نبویؐ) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہو رہی ہے۔لوگ بھاگ کر جاتے ہیں تو وہاں تعلیم و تعلّم کا حلقہ دیکھتے ہیں جس کو آپ ؐکی میراث کہا گیا تھا۔

 موجودہ صورتِ حال

بدقسمتی سے موجودہ نظام تعلیم میں پہلی جماعت سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک ، پورے کورس اور دورانیے میں شاذ ہی طالب علم کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اچھا انسان اور مسلمان کیسے بننا ہے؟ تعلیمی نصاب سے اسلام اور اقدار کو تقریباً ختم کردیاگیا ہے۔

 ہم بحیثیت قوم/امت علم کی اہمیت کو شاید ابھی تک نہیں سمجھ سکے اور آج ہم اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ بقول اقبال:

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف

دوسری طرف عالمی قوتیں تعلیم کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہودیوں کی کتاب (جس کی تصدیق ونسٹن چرچل اور ہنری فورڈ نے بھی کی ہے)’دی پروٹوکولز‘ (The Protocols) میں تعلیم کے بارے میں خصوصی طور پر لکھا ہے۔پروٹوکول نمبر ۲ میں درج ہے :

[ترجمہ] غیر یہودی دانش ور ان نظریات سے لیس ہوکربغیر کسی منطقی تصدیق کے ان نظریات کو رُوبہ عمل لانے کی کوشش کریں گے اور ہمارے ماہر گماشتے اپنی کمال عیاری سے ان کی فکر کا رخ اس طرف موڑدیں گے جو ہم نے ان کے لیے پہلے سے مقرر کی ہوئی ہے۔ آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خالی خولی الفاظ ہیں۔

اس کے بعد درج ذیل پیراگراف بھی دیکھئے جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ قوموں کے افکار میں تبدیلی کو وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کتنا ضروری سمجھتے ہیں:

 [ترجمہ] ہمارے لیے دوسری قوموں کے خیالات کا تجزیہ کرنا اور ان کے خصائل و کردار کا مطالعہ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ سیاسی اور انتظامی امور میں (ہماری) معمولی سی کوتاہی کا احتمال بھی باقی نہ رہے۔

 نظام تعلیم کے بارے میں اقبال کا نظریہ

اقبالؒ کو اس کا مکمل ادراک تھا کہ تعلیم ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو قوم کے بناؤ اور بگاڑ میں سب سے بنیادی کرادر ادا کرتا ہےاور جس کے دُور رس اثرات قوم کے عمومی مزاج اور اور سوچ پر مرتب ہوتے ہیں ۔ اقبالؒ نے فرمایا:

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر

ثاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹّی کا ہے اک ڈھیر

موجودہ نظام تعلیم کابنیادی ہدف نوجوان طبقہ ہے،تاکہ آنے والی نسلوں کی سوچ مغرب ہی کی تہذیبی اور تعلیمی معیارات اور روایات کے مطابق ہو اور اس تعلیمی نظام کے ذریعے ایسے افراد تیار ہوں جو اپنی شناخت کھوکر ان آقاؤں کی غیر موجودگی میں ان کے موجودہ آلۂ کاروں سے بھی بہتر طریقے سےاس ملک کا نظام ان کی مرضی کے مطابق چلائیں۔اس ضمن میں اقبالؒ کہتے ہیں:

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروّت کے خلاف

____

وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن
پُرکار وسخن ساز ہے ، نم ناک نہیں ہے

____

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لَا اِلٰہَ اِلَّا  اللہ

اقبال سمجھتے ہیں کہ اس نظام نے پوری نسل کی ذہنی غلامی اور تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ساتھ ہی انسانی عقل کو ’عقلِ کُل‘ کا درجہ دے کر وحی اور روحانی تصورات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔اس میں خودی اور وجدان ناپید ہیں:

وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

____

مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام!
پختہ افکار کہاں ڈھوندنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام

وہ اسی لیے مادہ پرست نظام ،جس میں دولت کو سب کچھ سمجھ لیا گیا، کے مقابلے میں ایسی تربیت پر زور دیتے ہیں، جو صرف عقل کی بنیاد پر قائم نہ ہو اور جس میں مادی علوم کے ساتھ ساتھ روحانیت اور وجدانیت بھی پروان چڑھے:

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نُور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے

ا ور:

دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ہے

جب ہر چیز کی کسوٹی مادیت بن جاتی ہےتو اس کا نتیجہ نہ صرف انسانی رشتوں کی کمزوری بلکہ کافی حد تک ختم ہونے اور خدا کے وجود سے عملی انکار کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

الحاد آج کے نوجون کا ایک بڑا مسئلہ بن چکاہے۔ سائنس کے نام پر ذہنوں میں خدا کے وجود اور ’ضرورت‘ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے گئے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کے مقابلے میں اسلام زندگی کا جو تصور دیتا ہے اسے مکمل طور پر ہر تعلیمی نظام سے نکال دیا گیا۔آج ہم اس یک طرفہ ’ذہن سازی‘کا نتیجہ الحاد کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔تعلیم کے ذریعے ذہن کو اس سانچے میں ڈھالنے کے بارے میں اقبال نے فرمایا:

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم تو سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

اس کے ساتھ ہی ایک اور فتنہ ’آزاد خیالی‘ کےنام پر پھیلایا جارہا ہے، جو ہماری نئی نسل کے ذہنوں کو خصوصی طور پر پراگندہ کر رہا ہے۔ لگتا ہے میڈیا کو تو بس اسی کام پر لگایا گیا ہے کہ وہ اسلام اور پاکستا ن کے بارے میں منفی سوچ پیدا کرے۔ بے مقصد تعلیم اور ’آزادیٔ افکار‘ کے خوش نُما نعروں سے ذہنی تبدیلی کا عمل جاری ہے۔جب معاشرے اور تہذیب سے اسلامی شعائر کا خاتمہ ہوجائے تو مسلمان عملاً اسلام اور رفتہ رفتہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں:

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِفرنگی کا بہانہ
آزادیِ افکار سے ہے اُن کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکروتدبّر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادیِ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!

  ہر قوم اپنے مقاصد اور نظریات کے حصول لیے کام کرتی ہے۔یہ بات تویقینا اہم ہے کہ ہر کوئی دوسروں کی پلاننگ کو سمجھے اوراپنے لائحہ عمل میں اُن کی اچھی باتوں کو لینے اور بری باتوں سے احتراز کا بندوبست کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی اشد ضروری ہے کہ وہ اپنے مقاصد اور اہداف اپنے معیارات ، مفادات اور نظریات کے مطابق ترتیب دے۔صرف دوسروں پر تنقیدسے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔اصل بات توخو د تعمیری اور مثبت کام کرنا ہے۔ بغیر کسی پلاننگ کے اور بلاسوچے سمجھے صرف ڈنڈے سے نظام تبدیل نہیں ہوتا اور نہ یہ تبدیلی دیر پا ہو سکتی ہے۔

 اور انتہائی قابلِ افسوس بات تو یہ ہے کہ مسلمان قوم کے ’پڑھے لکھے‘ (میں جان بوجھ کر ’تعلیم یافتہ‘ کا لفظ استعمال نہیں کر رہا) افراد کو یا تو اس صورتِ حال کی خبر ہی نہیں یا اس کی اہمیت کا احساس نہیں رکھتے۔ اقبالؒ نے اس کا اظہار یوں فرمایا:

وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

بسا اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائے اور ان اہم حقیقتوں کی نشان دہی کرے تو لوگ اس کو نہ صرف غیر سنجیدگی سے لیتے ہیں بلکہ اس کا مذاق اڑانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ مگر جب ان ہی کے بچےّ ان کی توقعات کے خلاف حرکتیں کرتے ہیں تو پھریہی لوگ نظام اور معاشرے سے گلے شکوے بھی کرتے ہیں کہ ان کےبچے بگڑ رہے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اس بگاڑ کا ذمہ دار کون ہے؟

یہاں اگر مولانا مودودی رحمہ اللہ کے اسلامیہ کالج میں طلبہ سے خطاب سےموجودہ نظامِ تعلیم کے بارے میں چند اقتباسات کا حوالہ دیا جائے تو بےجا نہ ہوگا تاکہ اندازہ ہو جائے کہ اس وقت (جب نظام تعلیم میں ایسی گمراہ کن تبدیلیاں کم ہی ہوئی تھیں جو آج ہیں)کے مسلمان مفکرین کی رائے ایک ہی تھی۔طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:

 دراصل میں آپ کی اس مادرِ تعلیمی کو اور مخصوص طور پر یہی نہیں بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیم کو درس گاہ کی بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں ، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (Death Certificates) ہیں جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جا رہے ہیں، جب کہ وہ اپنی حد تک اس بات کااطمینان کر چکا ہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگا رہنے نہیں دیا ہے....

 یقین جانیے یہ بات میں مبالغہ کی راہ سے نہیں کہہ رہا ہوں،اخباری زبان میں ’ سنسنی‘ پیدا نہیں کرنا چاہتا، فی الواقع اس نظام تعلیم کے متعلق میرا نقطۂ نظر یہی ہے…

ہر قوم کے بچے دراصل اس کے مستقبل کا محضر ہوتے ہیں ۔ قدرت کی طرف سے یہ محضر ایک لوحِ سادہ کی شکل میں آتا ہے اور قوم کو یہ اختیار دیا جاتا ہےکہ وہ خود اس پر اپنے مستقبل کا فیصلہ لکھے۔ ہم وہ دیوالیہ قوم ہیں جو اس محضر پر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود لکھنے کےبجائے اسے دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ وہ اس پرجو چاہیں ثبت کردیں خواہ وہ ہماری موت ہی کافتویٰ کیوں نہ ہو۔ (تعلیمات،ص ۵۳-۵۴،۵۸)

اگر اس وقت حالت یہ تھی تو آج کے حالات کا ہم خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ ایسے میں مسلمان مفکرین اور اساتذہ کرام کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

استاد کے نام اقبال کا پیغام

 حالات کی تبدیلی میں استاد ہی بنیادی کردار ادا کر سکتاہے۔ بحیثیت مسلمان، استادکو نہ صرف اس پوری صورت حال کو اچھی طرح سمجھنا ہے کہ یہ نظامِ تعلیم ہی ہماری بربادی کا اصل سبب ہے، بلکہ اس کی اصلاح کے لیے اسے اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار بھی ادا کرنا ہے ۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کماحقہٗ پوری کر لے تو دُور رس نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْؤُلٍ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ (بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن، حدیث: ۸۶۷) کا مفہوم ہے کہ ’’ہر ایک اپنے حلقۂ اثرمیں ذمہ دار ہے‘‘۔ ہم گھر میں اپنے بچوں اور سکول یاکالج میں اپنے طلبہ کی صحیح تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ جو کام ہمارے ذمے ہے وہ ہم نے کرنا ہے اور جو کام ہم نہیں کر سکتے اس میں  اپنا وقت ضائع نہیں کرنا۔لیکن جو کام ہم کر سکتے ہیں وہ ہمیں ضرور کرنا ہے کیوں کہ ہمیں جواب اور حساب اسی کا دینا ہو گا۔ البتہ جو لوگ اس کے لیے اجتماعی جدو جہد کر رہے ہیں، حتی الوسع ان کا پشتی بان بھی بننا چاہیے۔

 علم اور فن (Knowledge and Skill) دونوں تعلیم کے اہم ستون ہیں لیکن جب تک تیسرا ستون، یعنی ذہن (attitude) مثبت انداز میں نہیں بدلے گا اور طالب علم کو بحیثیت انسان اور مسلمان اپنے مقام اور ذمہ داری کا صحیح ادراک نہیں ہو گا تب تک وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکے گا۔ نظام کے بدلنے کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں اپنے اپنے زیرِ اثر حلقہ میں کام کرنا چاہیے اور اگر ہم شعوری طور پر اس کو ایک قومی اور دینی ذمہ داری تسلیم کر لیں تو پھر ہرادارے اور ماحول میں اپنا کام کر سکتے ہیں اور اللہ سے اجر کے امیدوار بھی بن سکتے ہیں۔

 رویّوں (attitude) کو بدلنے کے لیے ہم مقدور بھر کوشش کرنے پر ہی مکلّف ہیں ۔ نتیجے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نےلے رکھا ہے۔ اس نے ہم سے اجر کا وعدہ بھی نتیجہ پر نہیں اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے پر کیا ہے ۔ لیکن اگر ہم نے کوشش ہی نہیں کی تو اس کے لیے ہمیں ضرور جواب دینا ہوگا۔ مرد، عورت، جونیئر اور سینئر سب لوگ اپنی اپنی جگہ جواب دہ ٹھیریں گے۔

 استاد کا تو بنیادی کام ہی شاگردوں کی روح کے علاج کی فکر کرنا ہے، یعنی ان کے اخلاق و کردار پر توجّہ دینا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :

شیخ مکتب ہے اِک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی

لیکن اگر استاد کو اس ذمہ داری کا احساس ہی نہ ہو تو وہ یہ کام کیسے کرسکتا ہے؟ اس لیے پہلی اہم بات ہی یہ ہے کہ استاد اپنے کام اور مقام کو سمجھ جائے اور اسے اپنی ذمہ داری کا احساس اور ادراک ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے آپ کو ’معلم‘ کہا ہے ۔ اس سے بڑھ کر ایک استاد کے لیے فخر کی بات کیا ہو سکتی ہے! استاد ہی تعلیمی نظام میں محور کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اس نظام کے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر استاد کا اپنا ذہن صاف، تصورات واضح اور تربیت ٹھیک ہو تو وہ ہرحال اور ہر نظام میں اہم ،مثبت اور کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اگر اس کا ذہن پراگندہ، تصورات مبہم اور مقصد غیر واضح ہو تو اچھے سے اچھا نصاب اور تعلیمی نظام بھی سود مند ثابت نہیں ہوگا۔

 استاد کی حالت یہ نہ ہو کہ نام تو مسلمان کا ہو اور مقصد کسی اور کا پورا کر رہا ہو۔اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کے لیے وہ کسی بھی ادارے اور یونی ورسٹی سےتربیت / ٹریننگ حاصل کرسکتا ہے۔ بس بقول اکبر الٰہ آبادی ایک بات ہمیشہ اس کے پیش نظر رہے کہ:

بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کی اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

بدقسمتی سے آج اساتذہ کی اکثریت ایسی نہیں ہے۔ غیروں میں رہ کریا ملک کے اندر ان کے قائم کردہ اداروں میں ’ٹریننگ‘ کے نام پر جس رنگ میں وہ رنگ جاتے ہیں، وہ اپنے شاگردوں کو وہی رنگ منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے ہی اساتذہ کے بارے میں اقبالؒ نے کہا تھا:

ترا وجود سراپا تجلّیِ افرنگ
کہ تُو وہاں کے عمارت گروں کی ہےتعمیر
مگریہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو ، زرنگار و بے شمشیر!

 آج ہمارا المیہ ہی ’استاد‘ ہے۔اوراسی لیے اقبالؒ گلہ بھی استاد ہی سےکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

فکرِ معاش ایک ضرورت ہے ۔لیکن کیا معاش ہی سب کچھ ہے؟ اور کیا اسی گرداب میں پھنس کرہم اور بہت کچھ تو نہیں گنوا رہے اور اپنے اصل کام اور مقصد سے غافل تونہیں ہو گئے؟  بدقسمتی سے آج ہم بس فکر معاش میں ہی اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔

اسی حالت کو اقبال نے یوں بیان فرمایا:
عصرِ حاضر مَلکُ الموت ہے تیرا ، جس نے
قبض کی رُوح تری دے کے تجھے فکرِ معاش
دل کی آزادی شہنشاہی ، شکمِ سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوںمیں ہے،دل یا شکم!

ہمارا ایمان ہے کہ جو رزق اللہ نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے وہ ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا، البتہ اس کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس کے لیے جدوجہد کرنا فرض ہے۔ استاد کو وقتی فوائد، گریڈ، چاپلوسی، کام چوری اور اسی طرح کی دوسری زنجیروں کو کاٹنا ہوگا کہ جب تک اس کے پاؤںمیں یہ زنجیریں پڑی رہیں گی تب تک وہ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے طرف دلجمعی سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ رزق حلال کاحصول اگر ہم ضرورت کی حد تک رکھیں تو یہ نہ صرف جائز بلکہ احسن ہے۔

تعلیم اور تربیت دونوں استاد کی ذمہ داری ہے۔جب یہ دونوں موجود ہوں تو نتیجہ علم نافع کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسی ہی تعلیم کو اقبال امت کی زبوں حالی کا علاج سمجھتے ہیں:

مُرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر
لازم ہے رہرو کے لیے دُنیا میں سامانِ سفر
شیدائیِغائب نہ رہ، دیوانۂ  موجود  ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر
 

ایک مسلمان استاد جہاں کہیں بھی ہو اسے تعلیم و تربیت کا فرض نبھانا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دل و دماغ آزاد ہوں گے تو ان شاء اللہ پھر حالت یہ ہو گی کہ:

 دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں تیرے نورِ نظر سے

اور اس لیے اقبال استاد سے درد مندانہ درخواست کرتے ہیں کہ :

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!
دے ان کو سبق خود شکنَی ، خود نِگری کا
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارُو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظرَی کا

استاد کو نہ صرف اس عیارانہ اور کافرانہ حکمت عملی کے نتیجے میں نظامِ تعلیم میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا مکمل ادراک کرنا ہے بلکہ اس کی اصلاح کے لیے اس کارِ خیر میں اپنا حصّہ بھی ڈالنا ہے۔ انفرادی کوششیں مل کر ہی اجتماعی اصلاح کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ہمیں غیروں کے رنگ میں رنگ کر اس نظام کو تقویت نہیں دینی کہ یہ تو کاروبارِ لات و منات ہی کو زندہ کرنے میں آلۂ کار بننے کے مترادف ہوگا۔ استاد کو نہ صرف اپنی ذاتی تربیّت اور صلاحیت کی فکر کرنی ہے بلکہ بہت سوچ کریہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا کہ وہ جو تعلیم اپنے شاگردوں کو دے رہا ہے اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟بقول اقبال:

حریم تیرا ، خودی غیر کی! معاذ اللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارلات و منات

 اپنے اقدار، تہذ یب اور دین کو دوبارہ زندہ کرنے کی جدوجہد ہر فرد کی انفرادی اور بحیثیت مسلمان قوم ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مگر اس کے لیے اَن تھک محنت اور منظم جدوجہد اولیّن شرط ہے۔اقبال سمجھتے ہیں کہ یہ آسان کام نہیں ہے یہ غیروں کی صدیوں کی محنت اور ہماری صدیوں کی غفلت اور ذہنی غلامی کی پیدا کردہ صورت حال کا نتیجہ ہے۔

بدقسمتی سے مسلم دُنیا کے حکمرانوں اور اہلِ دانش مل کر مسلمانوں کے نظام تعلیم کو خراب اور برباد کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

ہمیں بحیثیت مسلمان استاد یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ معلمّی پیشہ نہیں بلکہ ایک مشن ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے۔ معلّم کا کام صرف معلومات منتقل کرنا نہیں بلکہ طلبہ کی تربیت اور تزکیہ بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ اگر ایک طالب علم کو اسلام کے مطابق ’مقصد زندگی‘ کی تعلیم نہ دی جائے اور وہ اپنی تعلیم کو صرف دنیاوی آسایشوں اور حصول دولت کا ذریعہ سمجھنے لگے، تو اُس سےفراغت کے بعد معاشرے میں ایک تعمیری اور مثبت کردار کی توقع عبث ہوگی۔

پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں وسائل کی کمی نہیں بلکہ ایک ایسی مخلص، قابل اور صالح قیادت اور انتظامیہ ( بیوروکریسی) کی کمی ہے جوموجودہ وسائل کاصحیح استعمال کرے اور اس ملک کے عوام کی تقدیر بدل دے۔ایسے افراد اسی نظام تعلیم کی پیداوار ہو سکتے ہیں جس کا مطمح نظر اور مقصد ایسے باکردار اور باصلاحیت افراد تیار کرنا ہو۔

اساتذہ کی اپنی تربیت موجودہ تعلیمی نظام کو قومی اور اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان کی مشترکہ جدوجہد سے قوم کے نونہال پوری امّت مسلمہ کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔علم کے ذریعے تبدیلی کی جدو جہد ہرمسلمان استاد کا قومی فریضہ اور دینی ذمہ داری ہے۔ اگراسے زندگی میں یہ تبدیلی دیکھنا نصیب ہو گئی تو فبہا، اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو پھر بھی اسے اللہ کے حضور سر خرو ہونے کی قوی امید رکھنی چاہیے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے فوجی کمانڈروں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہواہے۔ اس پر سیّد علی شاہ گیلانی کے پاکستان میں نمایندے کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ’’اس سے کشمیری جدوجہد کو کافی نقصان پہنچےگا‘‘۔ اس کے بعد پاکستان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی طرف سے منسوب ٹویٹر پیغام میں کہا گیا کہ ’’اس معاہدے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جو لوگ اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں وہ ہندوتوا کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب کے بارے اس دانش وری پر کیا کہا جائے، یہ بہت عجیب بات کہی گئی ہے۔ شہریارآفریدی صاحب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کیا بات کہنے کی ہے اور کن الفاظ میں کہنے کی ہے اور کیا بات کہنے کی نہیں۔

یہ ٹویٹ چونکہ گیلانی صاحب کے پریس ریلیز کے فوراً بعد آیا تھا، اس لیے پریس نے، خاص طور پر کشمیر اور بھارت کے اخبارات نے اسی پیرایے میں لیا کہ کشمیر کمیٹی نے گیلانی صاحب کی رائے کو مسترد کیا ہے۔ تاہم، کشمیر کمیٹی کی طرف سے فوراً وضاحت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ  انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیّد علی گیلانی صاحب کی جو حیثیت ہے، اس کا اندازہ بیرونِ کشمیر رہنے والے نہیں لگاسکتے۔ اہلِ جموں و کشمیر ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ اعتماد ایک دن کی کمائی نہیں۔ اس میں عشرے لگتے ہیں۔گیلانی صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت اور زندگی دے، انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس طرح سے وہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف کھڑے چلے آرہے ہیں، یہ انھی کا خاصہ ہے۔ ان کے ساتھ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مردو زن کھڑے رہے ہیں اورآج بھی کھڑے ہیں۔وہ سب بھارت کی جبرواستبداد کی پالیسی کے خلاف عزم و ہمت کی مثال ہیں۔

اگرچہ فائربندی معاہدے پرمعاملہ فہمی ۲۰۰۳ء سے چل رہی تھی۔ اس وقت تک تو یہ چیزیں ٹھیک تھیں، لیکن شاید آج یوں جلدبازی میں ٹھیک نہیں کہ آج معاملات نہایت تباہ کن صورتِ حال کی جانب دھکیلے جارہے ہیں۔

بنیادی طور پردیکھنا ہوگا کہ یہ initiative [پہلا قدم]کہاں سے آیا ہے؟ ہم نے دیا، یا بھارت کی طرف سے آیا؟ بلاشبہہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ٹھیک ہوں، لیکن کشمیر کے تنازعے کو حل کیے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔

دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے میں چین اور امریکا کا کیا کردار تھا؟ بھارت کو بھی اس وقت ایک راستہ چاہیے تھا۔ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کا معاملہ ہے۔ سفارتی مذاکرات میں اردگرد کی صورتِ حال کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے وقت کے لحاظ سے یہ قدم درست نہیں لگتا۔ سیّدعلی گیلانی صاحب بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ کشمیری خواہ مقبوضہ کشمیر سے ہوں یا آزاد کشمیر سے، یہ انھی کی قربانیوںکا نتیجہ ہے کہ آج تک کشمیر کا تنازعہ زندہ ہے۔ اگر کشمیری قربانیاں نہ دیتے تو یہ معاملہ کب کا ختم ہوچکاہوتا۔

یہ کہنا کہ’ ’ہم نے یہ کشمیریوں کے مفاد میں کیا ہے‘‘۔ چلیے ایک محدود حد تک یہ بات ٹھیک ہے۔ لیکن سفارت کاری میں پیش رفت، اقدام اور عہدوپیمان کے لیے وقت کا انتخاب(timing) بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ وقت کا صحیح تعین نہیں کرتے تو آپ مذاکرات سے جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کرپاتے۔مگر دوسرا فریق اپنے حساب سے اس وقت کا فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔ یہ معلوم تاریخ کا سنگین اور تلخ باب ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو دوطرفہ مذاکرات میں اُلجھایا ہے اور ہماری پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔

کنٹرول لائن پر فائربندی کے معاہدے کی تجدید کے بعد کچھ ہمارے اور بہت سے بھارتی چینلوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ (break through)  ہوگیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسی خوش فہمی کا اظہار کرنے والوں میں یہاں سے بھی متعدد معتبر لوگ شامل ہیں۔  سچ پوچھیں تو خوش فہمی، غلط فہمی یا عجلت پسندی پر مشتمل یہ طرزِ بیان پریشان کن ہے۔ مذاکرات کے طریق کار کو دیکھ کر بظاہر لگتا ہے کہ ہم اصولی بنیادوں سے ہٹ رہے ہیں۔

پچھلے سال ایک ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار سیکورٹیز اسٹڈیز کے تحت اسلام آباد میں کشمیر پر ایک سیمی نار ہوا تھا، جس میں وفاقی وزیرڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ سے میں نے یہ سوال کیا تھا کہ ’’کیا آپ اس بات کی یقین دہانی کروا سکتی ہیں کہ آپ کی حکومت نے بھارت سے مذاکرات کے لیے جوشرائط رکھی ہیں، آپ ان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے؟‘‘ انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ ان حالات میں ہم بھارت سے مذاکرات کریں کہ جب تک ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے والی صورتِ حال بحال نہ ہوجائے‘‘۔

بعض دانش ور قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب ہمارے پاس آپشن بہت کم رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سرحدی جنگ بندی معاہدہ ایک محدود معاہدہ ہے۔ مگر دونوں ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی جانب سے جوبیان جاری ہوا ہے، اس میں بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہاگیا کہ ’’بنیادی اُمور (core issues)پر بھی مذاکرات کریں گے‘‘۔یہ مذاکرات کیسے ہوں گے؟ کون اسے لے کر آگے چلے گا؟ یوں لگتا ہے کہ پس پردہ، یعنی بیک ڈور ڈپلومیسی چینل اس میں شامل ہوں گے۔

بھارت بڑی شاطرانہ چالوں سے ہمیں انھی چیزوں میں اُلجھاتا رہا ہے۔ وہ ایک بار پھر ہمیں ان بے معنی مذاکرات میں اُلجھانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت سے ہمارے تعلقات بہتر ہوں، لیکن تعلقات بہتر ہونےکی ذمہ داری صرف پاکستان ہی کی تو نہیں ہے۔پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے تعلقات خراب کیوں ہیں؟___ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کا تنازعہ ہے۔ جب تک یہ تنازعہ رہے گا، اس وقت تک یہاں پائیدار امن ناممکن ہے۔

پھر دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا ہم اسے بھارت کی شرائط پر حل کرنا چاہتے ہیں یا کچھ تجاویز ہمارے ذہن میں بھی ہیں؟ یا پھر وہ تجاویز صدرجنرل مشرف کے فارمولے کے حساب سےہیں؟ جب تک ہم پوری طرح اس ضمن میں واضح نہیں ہوں گے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اس وقت تک ہم اس بے مقصد مذاکراتی جال میں پھنس کر جموں و کشمیر پر اپنی پوزیشن کو کمزور کرتے رہیں گے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ہم جو کام بھی کریں، وہ سوبار سوچ سمجھ کر کریں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ ہم بھارت سے مذاکرات کے لیے جائیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت میں کچھ حکمت عملی بنانے والے (Lobbyists) ایسے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ بس جیسے بھی ہو، اب اس مسئلے کو ختم کریں اور بے معنی مذاکرات کا سلسلہ پھر شروع کریں۔

نریندرا مودی حکومت ہی کی پالیسی کو ہم دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں نہ جانے اتنی بے چینی اور اتنی بے صبری کیوں لاحق ہوئی ہے؟ دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے خطے میں کیا ہورہا ہے؟ دنیابھر میں کیا ہورہا ہے؟ بلاشبہہ دُنیا کا دبائو ہم پر ہوگا۔ حکومت سے ہماری یہی گزارش ہے کہ جلدبازی سے کام نہ لیں۔ بھارت کا جو رویہ اور پالیسی ہے اور اس نے آئین میں بھی جو تبدیلیاں کی ہیں،  ان میں خصوصاً آرٹیکل ۳۵-اے، کا خاتمہ تباہ کن ہے۔ ہم شاید اسٹیٹس کو (جوں کا توں) حل کی طرف جانا چاہ رہے ہیں۔ غالباً اسی لیے گلگت و بلتستان کو بھی عارضی صوبہ بنایا جارہا ہے۔ اس پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد جموںو کشمیر میں بھی لوگوں کو بجاطور پر اعتراض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سفارت کاری کے دوران ہرمعاملے میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے عملی نتائج کیا ہوں گے؟ ہم سب کے لیے ریاست پاکستان کے مفادات مقدم اور اہم ہیں، تاہم چیزوں کو تاریخی اعتبار سے اور آنے والے وقت کے لحاظ سے دیکھنا ازبس ضروری ہے۔

ویسے تو جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر، یعنی لائن آف کنٹرول پر ۲۰۰۸ء کے بعد ہی سے توپوں اور مارٹرز کی گھن گرج جاری تھی، مگر ۲۰۱۹ء میں پلوامہ اور بالا کوٹ پر فضائی حملوں کے بعد اس میں خاصی شدت آگئی تھی۔ اب ۲۵فروری ۲۰۲۱ءکو جس طرح اچانک بھارت اور پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل پرم جیت سنگھ سانگھا اور میجر جنرل نعمان زکریا نے بندوقوں کو خاموش کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اقدام خوش آیند، مگر حیران کن اور خدشات سے بھرا پڑاہے۔

اس سے قبل بھارت اور چین نے بھی لداخ خطے کی پنگانگ جھیل سے فوجیوں کا انخلا کرکے چھے ماہ سے جاری کشیدگی کو لگام دی۔ لائن آف کنٹرول کی خاموشی سے درہ حاجی پیر سے اکھنور تک کے علاقے میں رہنے والی ایک بڑی آبادی نے سکون کا سانس لیا ہے۔ پچھلے دوبرسوں سے شدید گولہ باری کی وجہ سے بیش تر کسان یاتو نقل مکانی یا بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ علاقے اکھنور، بشنہ، سانبہ، ہیرا نگراور کھٹوعہ، باسمتی چاول کی کاشت کے لیے مشہور ہیں۔ فائر بندی، تنازعے کو کنٹرول (Conflict Management ) کرنے میں کسی حد تک کارگر ہوسکتی ہے اور اگر اسے Conflict Resolution  (تنازعہ کو حل کرنے) کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، تو ایسے اہتمام دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کبھی نئی دہلی کے حکمرانوں پر عالمی دبائو پڑتا ہے، تو وہ کسی ایسے اقدام کا اعلان کرکے سبزباغ دکھاتے ہیں، جو بعد میں سراب ثابت ہوتا ہے۔ پاکستانی اور کشمیری رہنما کئی بار اس سراب کے شکار ہو چکے ہیںاور گھڑی کی سوئیوں کی طرح واپس اسی مقام تک پہنچتے ہیں، جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔

ملٹری افسران کی طرف سے فائربندی کے اعلان سے صرف ایک روز قبل بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم ناراوا نے دہلی میں ایک سیمی نار کے دوران بڑے اعتماد سے کہا تھا: ’’پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے سے ہی کسی افہام و تفہیم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غیرمتعین سرحدوں کا ہونا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ بھارت اپنی سرحدوں پر امن و سکون چاہتا ہے، چاہے و ہ مغربی سرحد ہو یا جنوبی سرحدیں ہوں یا میانمار سے لگی سرحد ہو‘‘۔ ان کے اس بیان سے ان افواہوں اور تجزیوں کو تقویت ملتی ہے کہ یہ فائر بندی کوئی اچانک فیصلہ نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے اچھا خاصا   پس پردہ کام کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے یہ فوجی افسران ہر ہفتے منگل کی دوپہر کو ہاٹ لائن پر بات کرتے ہیں۔

 ایک ما ہ قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھاکہ ’’وقت آگیا ہے کہ سبھی اطراف سے امن کے ہاتھ آگے بڑھائے جائیں‘‘۔ اسی کے ساتھ کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیے سارک کے پلیٹ فارم پر ہونے والے آن لائن اجلاس میں پاکستانی مندوب نے بھی شرکت کی، جنھیں وزیر اعظم نریندر مودی نے مخاطب کیا۔ سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کے علاوہ بھی پاکستانی فوج کے سربراہ کئی برسوں سے اس طرح کے پیغامات دے رہے تھے، مگر نئی دہلی کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ پلوامہ اور بالاکوٹ کے بعد ایک قدم اور آگے جاکر انھوں نے بنیادی تنازعہ جموں و کشمیر ریاست کو ہی دولخت کرکے اس کی نہ صرف خصوصی آئینی پوزیشن کالعدم کردی، بلکہ کشمیری عوام کی زبان و کلچر کو ختم کرنے اور ان کی آبادیاتی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھرپور سامان بھی مہیا کرنے شروع کر دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے دوبرسوں کے دوران جنرل باجوہ کے سبھی بیانات کو نظرانداز کرکے ، اب اس وقت ان کی امن سعی کا جواب کیوں دیا گیا؟

کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۶ء کے اوڑی اور بعد میں ۲۰۱۹ء کے پلوامہ حملوں کے بعد جس طرح بھار ت نے دنیا بھر میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ۲۰۱۶ء میں پاکستان میں جنوبی ایشیا، یعنی سارک سربراہان مملکت کے ہونے والے اجلاس کا نہ صرف بھارت نے بائیکاٹ کیا، بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کو بھی تنبیہ کی گئی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے یا پاکستان کے ساتھ یک جہتی دکھانے کے نام پر قطعی طور پر اسلام آباد نہ جائیں۔

پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سارک کے اندر کئی ذیلی گروپ بھی بنائے گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سری لنکا کے حالیہ دورہ نے بھارت کی اس پالیسی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ایف اے ٹی ایف میں بھارت کی ایما پر گو کہ پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ (مشکوک فہرست)میں رکھا گیا ہے۔ بڑی کوشش کے باوجود اس کو ’بلیک لسٹ‘ (مجرم فہرست)میں دھکیلنے میں بھارت ناکام رہا ہے۔ ابتدا میں جب بھارت نے پورا زور لگاکر ترکی اور ملائیشیا کو اس کے لیے معاف نہیں کیا تھا کہ وہ پاکستان کی حمایت میں آگے بڑھے تھے۔ دو سال قبل ایک اہم شخصیت نے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ: ’’پاکستان کی حمایت پر ترک صدر رجب طیب اردوان کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اسی دوران چین کے ساتھ چپقلش کے بعد بھارت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ دومحاذوں پر جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف اگست ۲۰۱۹ءکو جموں و کشمیر میں کیے گئے بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستان نے عالمی برادری سے جس طرح کی حمایت کی امید کی تھی، وہ پاکستان کی داخلی سیاسی کش مکش اور سفارتی حلقوں کی بے توجہی کے باعث پوری نہیں ہوسکی۔ بھارت کے ان اقدامات کے بعد پاکستان نے بھارتی سفیر کو اسلام آباد سے نکلنے کا حکم دے کراور دہلی سے اپنے سفیر کو واپس بلا کر سخت پیغام دے کر بھارت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف عالمی برادری دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان باضابطہ جنگ سے خوف زدہ تو ہے، مگر تنازعے کو سلجھانے کے بجائے جوں کی توں پوزیشن پر ہی گزارا کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس دوران بھارت نے جو بریفنگ عالمی برادری کو یا دہلی میں مقیم سفیروں کو دی، اس میںاس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ ’’وہ مسئلہ کشمیر کو گراس روٹ ڈیموکریسی اور ترقی کے ماڈل کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں پاکستان ایک رکاوٹ ہے‘‘۔ وہ ان ممالک کو یہ باور کروانے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ کشمیر کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو وہاں عالمی دہشت گرد تنظیمیں اپنا اثر بڑھا کر اس کو شام، یمن اور افغانستان کی راہ پر ڈال دیں گی۔

       ہوسکتا ہے کہ فائر بندی کے اس فیصلہ سے لائن آف کنٹرول کے آس پاس زندگی کی رونقیں معمول کی طرف لوٹ آئیں ۔ مگر خاص طور پر۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور پھر ۲۰۱۶ء میں کشمیر کی سڑکیں یہ پیغام دے چکی ہیں کہ معمول کی زندگی یا سرحدوں پر خاموشی امن کا نام نہیں ہے۔ عوام اب زیا دہ دیر تک اس کیفیت کے ساتھ جینا نہیں چاہتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۲۱ء کے سیز فائر میں ایک بنیادی فرق ہے۔ نومبر ۲۰۰۳ء میں جب دونوں ممالک سیز فائر پر آمادہ ہوگئے، تو سیاسی قیادت کے بیانات سے اتنا تو ادراک ہو رہا تھا کہ یہ ایک مثبت قدم کا آغاز ہے، جو مسئلے کو حل کرنے پر منتج ہوگا۔ دونوں ممالک نے اس کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ بھی شروع کیا، اور اس کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم واجپائی، سارک کے سربراہ اجلاس میں اسلام آباد میں شریک ہوئے تھے۔ ان کا یہ دورہ صدر جنرل پرویز مشرف کے نو نکاتی فارمولا کی بنیاد بن گیااور اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بس سروس اور تجارت کے لیے راہداری کھل گئی۔ مگر حالیہ فائر بندی کے متعلق کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ’’یہ کہیں بجائے خود ہی اختتا م تو نہیں ہے‘‘۔

ہوسکتا ہے کہ ۲۰۰۳ءکی ہی طرز پر یہ قدم بھی اسلام آباد میں اس سال سارک سربراہ کانفرنس منعقد کروانے میں معاون ثابت ہو۔ مگر واجپائی یا من موہن سنگھ کی طرح نریندرا مودی کا کشمیر پر کسی پیش رفت کرنے کی یقین دہانی بھی کرانا فی الحال ناممکن نظرآرہا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں، تو کیا وہ اپنی پارٹی اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اس پر آمادہ کرواسکیں گے؟۲۰۱۴ء کہ جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، انھوں نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں و وزیروں کے لیے کسی بھی عہدے پر براجمان رہنے کے لیے ۷۰سال کی عمر کا پیمانہ بنایا اور چند ایک کو چھوڑ کر سختی کے ساتھ عمل بھی کروایا۔ اب ان کی اپنی عمر ۷۰سال سے تجاوز کررہی ہے۔ کیا آر ایس ایس اب ان کو برسر اقتدار رہنے دے سکتی ہے، جب کہ انھوں نے ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، سمترا مہاجن سمیت متعدد لیڈروں کو ان کی عمر کی وجہ سے ریٹائر کروایا ہے؟ کیا ان کا جانشین ان کے ذریعے کسی پیش رفت کے وعدے کا ایفا کر سکے گا؟

نئی دہلی میں اب یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں ناکامی کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اب ریاست کی ایک اور تقسیم کے خواہاں ہیں۔ اب جموں ڈویژن کو بھی الگ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی پیر پنچال اور وادی چناب میں بی جے پی کی شکست کی وجہ ان علاقوں کا وادیٔ کشمیر کے ساتھ رابطہ ہے۔ کرگل کو بھی اسی وجہ سے وادیٔ کشمیر سے الگ کرکے بودھ اکثریتی علاقہ لہیہ کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ بی جے پی کے لیڈروں کا پہلے خیال تھا کہ حدبندی کمیشن کے ذریعے جموں کے ہندو علاقوں کی اسمبلی سیٹوں میں اضافہ کرکے ا ن کو وادیٔ کشمیر کے برابر کیا جائے۔ مگر جب اس کمیشن کی سربراہ جسٹس رنجنا ڈیسائی نے بتایا کہ ’’وادیٔ کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۰لاکھ زیادہ ہے‘‘، تو یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ ’’حد بندی آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ رقبے کی بنیاد پر ہونی چاہیے‘‘۔ اسی وجہ سے فی الحال حد بندی کمیشن کی میعاد ایک سال اور بڑھادی گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادیٔ کشمیر کی آبادی ۶۸لاکھ  ۸۸ہزار ۴ سو ۷۵ ہے، جب کہ جموں میں۵۳ لاکھ ۷۸ ہزار ۵سو۳۸  نفوس رہتے ہیں۔ جموں کا رقبہ ۲۶ہزار ۲سو ۹۳ مربع کلومیٹر ہے، جب کہ وادیٔ کشمیر کا رقبہ  ۱۵ہزار ۹ سو ۴۸ مربع کلومیٹر ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بالخصوص سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔کرگل سے حاجی پیر درہ تک کنٹرول لائن کے علاقے تو سرینگر میں مقیم صحافیوں اور سول سوسائٹی کی دسترس سے بھی دُور رہتے ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں عوام پر کیا بیتتی ہے، بہت کم ہی باہر کی دنیا کے علم میں آتا ہے۔ کیا کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یک جا نہیں ہوسکتے ؟کیا یہ خونی لکیر مٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوںکے جمائو اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے میں امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی ؟ کیا بھارت اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟ امید ہے کہ یہ فائر بندی مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالنے کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کروانے کی طرف ایک قدم ہوگا۔

۱۳مارچ ۲۰۲۱ء کو افغان رہنما گلبدین حکمت یار نے منصورہ میں پشتو میں خطاب کیا اور پروفیسر محمدابراہیم صاحب نے رواں اُردو ترجمہ کیا۔ اس سے قبل ہم ترجمان کے شماروں(جون،اکتوبر۲۰۲۰ء) میں افغان طالبان کا موقف شائع کرچکے ہیں۔ یہ خطاب حبیب الرحمٰن چترالی صاحب (اسلام آباد) نے قلم بند کیا۔ (ادارہ)

میں بہت عرصے بعد ان حالات میں پاکستان کے دورے پر ہوں کہ ہم ایک اور جنگ سے دوچار ہیں، جس کے نتیجے میں ان شاء اللہ ہمارا دشمن افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوگا۔ ہمارے بزرگ اور ساتھی جان و مال کی لازوال قربانی دے کر اور سروں کے نذرانے پیش کرکے امر ہوگئے۔ آج وہ موجود نہیں، مگر ان شاء اللہ اُن کے ارمان ضرور پورے ہوں گے اور اُمت مسلمہ کو عروج نصیب ہوگا۔

قرآنِ عظیم میں واضح حکم موجود ہے کہ جہاد سے جی چُرانا جرمِ عظیم ہے اور اللہ کی طرف سے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ جہاد کے راستے پر چلنے والے کس طرح سرخرو ہوتے ہیں، اس کا عملی مظاہرہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہم اُن نتائج اور اس راستے کے مسافر ہیں۔ محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۲۳سال کے اندر حجاز پر غلبہ حاصل کرلیا اور پھر چند ہی برسوں میں اسلامی سرحدات کی حدود روم اور فارس تک پہنچ گئیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اسلامی ریاست کی سرحدیں مشرق میں ہندستان اور چین و ترکستان اور شمال میں ہسپانیہ اور جنوب میں یمن تک اور مغرب میں مراکش تک پہنچ گئیں۔ اسی دوران مسلمانوں کو علم کے میدان میں بھی برتری حاصل ہوگئی۔ سیاسی اور مذہبی رہنمائی بھی مسلمانوںکے ہاتھ میں آگئی اور عسکری فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کا کوئی مدمقابل نہ رہا، یوں مکمل تہذیبی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ آگئی۔

 تاریخ انسا نی میں ایسی اُمت کی مثال نہیں ملتی کہ اقتصادی میدان میں بھی وہ خوش حالی کی زندگی ایسی گزارنے لگے کہ زکوٰۃ دینے والے افراد کی تلاش میں ہوتے تھے اور زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا، یعنی ہرطرف خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ ہزاروں قومیں، قبائل اور اُمتیں اُمت مسلمہ میں جذب ہوگئیں۔ وہ آپس میں جڑے ہوئے انسان تھے اور اُن کے اندر کوئی اجنبیت نہ تھی۔ یہ مسلمانوں کے عروج کا دور تھا۔ گھروں، بستیوں اور مملکتوں پر مجاہدین کے پرچم لہراتے تھے اور مجاہدین ہی دُنیا کی قیادت کر رہے تھے یعنی، حافظ بھی مجاہد اور عالم بھی مجاہد۔ اُن کے لیے دُنیا ایک میدانِ جہاد تھا اور ہر کوئی منزل کی طرف پیش قدمی میں مصروف تھا۔ وہ دین کو دُنیا کے حصول کا وسیلہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ فرقہ واریت میں مبتلا نہ تھے بلکہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ مسجد کا امام بھی ریاست کا امام ہوتا تھا، یعنی ہرمسجد اور ہربستی حرب گاہ اور جنگی مورچہ تھا۔ گھراور مسجد ایک ہی مقصد کا عنوان تھے۔ ان میں کوئی تضاد اور ٹکرائو نہیں تھا۔یوں ہمارا دورِ عروج تاریخ کے اَوراق پر پھیلاہوا تھا: تہذیب بھی ہماری اورتمدن بھی ہمارا اور دُنیاپر حاوی عالمی نظام بھی اُمت مسلمہ کا۔ اس میں ہمارا حریف کوئی نہ تھا جو سیاسی، عسکری اور اقتصادی میدان میں ہمیں چیلنج کرسکے۔

اب سے ایک سو سال پہلے یہ عظیم سلطنت ہم سے چھن گئی اور ایک عالمی جنگ کے نتیجے میں خلافت کے حصے بخرے کیے گئے۔ یہ عظیم سائبان ہم سے چھین لیا گیا اور وہ بھی ہمیں شکست دے کر نہیں، بلکہ ایک سازش کے ذریعے ہم سے چھین لیا گیا۔ اس سازش میں اندر اور باہر کے دشمن ملےہوئے تھے اور اندرونِ خانہ منافقین نے دشمنوں کا ساتھ دیا اور اُن کے دست و بازو بن گئے۔ یہ اُمت مسلمہ کا ایک المیہ ہے کہ دشمن اسلام پرغالب نہیں آسکتا، تو وہ آستین کے سانپوں کو پالتا ہے۔ اسی لیے خلافت کے خاتمہ کے لیے ترکوں اور عربوں کو لڑایا گیا۔ شیعوں اور سنیوں کو لڑایا گیا۔ آج وہ عظیم اُمت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔سامراجی قوتوں نے اس طرح اُمت کو تقسیم کر دیا اور مختلف چھوٹے چھوٹے ممالک وجود میں آگئے۔ پھر اُن پر حکمرانی کے لیے سیاسی حاکم اور فوجی جرنیل بٹھا دیئے گئے۔ ہمارے بازار، اُن کی تجارتی کمپنیوں کی مارکیٹ بن گئے۔ ہماری معدنیات اور خام قدرتی وسائل اُن کی خوش حالی و استحکام اور اُلٹا ہم پر حکمرانی کا ذریعہ بن گئے۔ یوں براہِ راست یا بالواسطہ انداز سے داخلی اور خارجی سیاست مکمل طور پر اُن کے ہاتھوں میں چلی گئی اور مسلم ممالک پر پھر جنگیں مسلط کی گئیں،تا کہ وہ آپس میں لڑبھڑ کر اپنی مادی، افرادی، عسکری اور سیاسی قوت سے محروم ہوجائیں۔ اِن تمام جنگوں میں مسلمان ہی کشتۂ اجل بنے۔ ہجرتیں ہوئیں اور آج بھی ۹۵ فی صد مہاجرین دُنیا میں مسلمانوں پر ہی مشتمل ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اُن کے ہاتھ میںہے۔ یہ دونوں مغرب کی طاقت کا ذریعہ ہیں۔ فساد پھیلاتے ہیں، نوجوانوں کوگمراہ کرتے ہیں اور اُمت کو بے راہ روی کے راستے پہ لگائے ہوئے ہیں۔ان کے شکارافراد اپنے شان دارماضی سے کٹے ہوئے پتنگ ہیں۔

ان گذشتہ سو برسوں میں مغرب اپنے مشن میں بڑی حد تک کامیاب ہوا ہے۔ ہماری نسلیں سیکولر ہوگئیں جو دین اور دُنیا کو الگ الگ اور سیاست کو دین سے جدا سمجھتی ہیں۔تاریخ انبیاء علیہم السلام نے کوئی غیرسیاسی دین نہیں دیکھا۔ [کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُہُمُ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہُ  نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ (متفق علیہ) بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء علیہم السلام چلاتے تھے۔ ایک نبی ؑ وفات پاتا تو دوسرا اس کی جگہ آجاتا تھا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور میرے بعد خلفاء ہوں گے، اور زیادہ تعداد میں ہوں گے]۔

  لہٰذا اس دردناک اور المناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ہمیں دوبارہ دین کی طرف پلٹنا ہوگا۔ برادری اور اخوت و بھائی چارگی کواپنانا ہوگا۔ فروعی اختلافات کو ترک کرنا ہوگا۔ دوسروں کو کافر بنانے کا سلسلہ دریا بُرد کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم دین کا فہم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کو کافر بنائیں؟ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم ’کافر سازی‘ تو شوق سے کرتے ہیں مگر فکرمندی سے ’مسلمان سازی‘ نہیں کرتے۔ ہمیں دین اس لیے سیکھنا چاہیے تاکہ وہ اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ بن جائے۔ معرفت ِ خدا اور معرفت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعہ بن جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے دین کی طرف رجوع کیا تو اللہ نے ضرور اُن کی مدد کی ہے۔

افغانستان کی مثال آپ کے سامنے ہے جو جنگ زدہ ہے، بدحال اور ناگفتہ بہ ہے، مگر جہاد کی برکتوں سے اللہ نے ان افغانیوں کی بھرپور مدد کی۔ گذشتہ دس عشروں یا ایک صدی کے دوران انھوں نے تین بڑی سامراجی طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا۔ وہ برطانیہ جس کا سورج کبھی دُنیا میں غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس نے طمطراق سے افغانستان پر جارحیت کی اور بار بار شکست کھائی۔آج وہ سلطنت دُنیا کے نقشے میں ایک انگوٹھے میں سما جاتی ہے، حالانکہ اُس زمانے میں تاجِ برطانیہ مشرق میں آسٹریلیا اور مغرب میں امریکا تک پھیلا ہوا تھا۔ پھر تاریخ نے پلٹا کھایا اور سوویت یونین (کمیونسٹ روس) نے افغانستان پر جارحیت کی۔کیا آج شکست کھانے کے بعد دُنیا کے نقشے میں سوویت یونین نام کی کوئی ریاست وجود رکھتی ہے؟ اب آپ دیکھیں امریکی سربراہی میں ناٹو نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اور ہزیمت اُٹھا کر افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۹۵ فی صد اُن کی فوجیں نکل چکی ہیں، پانچ فی صد نکلنے کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ سوپرپاور کا دعوے دار امریکا اس جلدی میں ہے کہ افغانستان سے نکل جائے اور اپنی افواج کو باعزّت طریقے سے نکال لے۔

افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے دو بڑے عوامل تھے: ایک افغانستان پر قبضہ اور دوسرا ایک غلام کٹھ پتلی حکومت کی تشکیل۔مگر افغان عوام نے ان دونوں عوامل کو مسترد کر دیا ہے۔اب ترکی اور مسقط میںافغانستان کے مستقبل میں اقتدارکی منتقلی کے مسئلے پر مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان کے ساتھ افغان احزاب سمیت چھے ممالک ان مذاکرات میں شامل ہیں۔ عنقریب ماسکو میں امن کانفرنس منعقد کی جارہی ہے تاکہ صلح کی بنیاد پر وسیع البنیاد حکومت تشکیل پائے۔ ہم دونوں عالمی کانفرنسوں کی تائید کرتے ہیں۔ افغانستان سے آٹھ آٹھ قائدین اور سیاسی جماعتوں کے نمایندے اِن مذاکرات میں شرکت کریں گے تاکہ افغان عوام کی لازوال قربانیاں رنگ لائیں۔ ان شاء اللہ افغانستان میں اسلامیانِ افغانستان کو کامیابیاں حاصل ہوں گی اور اسلام سربلند ہوگا:

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱  (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

ان شاء اللہ وہ دن بہت جلد آئے گا کہ جب افغانستان کے غیور عوام کی اُمنگوں کے مطابق افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہوگی، اور ایک پُرامن اسلامی مملکت ِافغانستان وجود میں آئےگی۔

اعمال کے مختلف درجات ہیں۔ ان کے اعتبار سے ان پر حاصل ہونے والے اجروثواب یا سزا و عذاب کے درجات بھی مختلف ہیں۔ کسی نیک عمل پر بڑے اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے تو  کسی پر اس سے کم تر اجروثواب کا۔اسی طرح کسی گناہ کے کام پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے تو کسی پر اس سے کم تر عذاب کی۔ لیکن یہ بڑی نادانی کی بات ہوگی کہ کم تر اجروثواب والے عمل کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اس پر توجہ نہ دی جائے اور معمولی گناہ کو ہلکا سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرلے ، وہ انسان کو روزِ قیامت سرخ رو کرسکتا ہے، خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ اور جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہو، وہ انسان کے لیے موجب ِ ہلاکت ہوسکتا ہے خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور ہلکا کیوں نہ ہو۔ احادیث میں اس پہلو پر بہت زور دیا گیا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کرامؓ کو بہ تاکید نصیحت فرمائی ہے کہ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے نیک عمل کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کریں۔

آپؐ نے فرمایا:  لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا (مسلم، ترمذی، سنن ابی داؤد، مسنداحمد) ’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو‘‘۔

عربی زبان میں یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب کسی چیز سے سختی سے روکنا مقصود ہو۔ اس اسلوب میں جو زور پایا جاتا ہے ، اسے زبان شناس بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ بطریق اجمال اس طرف توجہ دلائی بلکہ اپنے ارشادات میں ایسے متعدد کاموں کا تذکرہ کیا جنھیں عام طور سے بہت معمولی سمجھا جاتا ہے اور زور دے کر فرمایا کہ انھیں ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔

  • خندہ پیشانی سے پیش آنا: حضرت ابوذر غفاریؓ بڑے جلیل القدر اور قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:

لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَوْ اَنْ تَلْقٰی أخَاکَ بَوَجْہٍ طَلِقٍ (مسلم) اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہو۔

کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا بظاہر ایک بہت معمولی عمل ہے۔ بسااوقات ہم میں سے کسی کی بھی توجہ اس طرف نہیں جاتی۔ لیکن عملی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی سے گفتگو کرنا یا اس سے کچھ دریافت کرنا چاہیں اور وہ ہماری طرف التفات نہ کرے یا ترش روئی کے ساتھ جواب دے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر بات کرنے والا یا کچھ دریافت کرنے والا سماجی اعتبار سے کم مرتبے کا ہے تو جواب دینے والا اس کی طرف اس طرح متوجہ نہیں ہوتا جس طرح ہونا چاہیے اور اس کے چہرے پر وہ انبساط نہیں آتا جو مطلوب ہے۔ ایک مومن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے اس حال میں ملے کہ اس کے چہرے پر تکبر اور رعونت کے آثار ہوں یا وہ بالکل سپاٹ اور انبساط، محبت اور اپنائیت کے احساسات سے عاری ہو۔

حضرت ابوجری جابر بن سُلیم الھجیمیؓ بصرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک وفد کے ساتھ  آں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ ہمیں کچھ کارآمد باتوں کی نصیحت فرمایئے۔ آپؐ نے فرمایا:

لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَو اَنْ تَفْرَغَ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ اِنَاءِ الْمُسْتَسْقِیْ ، وَلَوْ اَنْ تَکَلَّم اَخَاکَ وَوَجْھُکَ اِلَیْہِ مُنْبَسِطٌ  (مسنداحمد، ۵؍۶۳) اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارے اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی انڈیلنا ہو، یا تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ گفتگو کرنا ہو۔

دوسری روایت میں ابتدائی الفاظ یہ ہیں: لَا تَزْھَدَنَّ فِی الْمَعْرُوْفِ (یعنی کوئی نیک کام کرنے میں بخل سے کام نہ لو)۔

اسے معمولی سمجھ کر چھوڑ نہ دو۔ اس حدیث میں آپؐ نے خندہ روئی سے ملنے کے علاوہ ایک دوسری مثال بھی دی ہے۔ کسی پیاسے کو پانی پلا دینا بظاہر بہت معمولی کام ہے۔ لیکن آپؐ نے تاکید فرمائی کہ اسے بھی انجام دینا چاہیے اور اس پر اجروثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اسے ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی ہمدردی میں اور محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں کیا جانے والا یہ معمولی عمل بھی انسان کو جنت کا مستحق بنا سکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ آں حضرتؐ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک کتے کو شدید پیاسا دیکھ کر ایک عورت کو ترس آیا اور اس نے اسے پانی پلا دیا۔ وہ عورت بدکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے (اس عمل کی وجہ سے) اس کی مغفرت کردی۔(بخاری، کتاب الانبیاء، ترجمہ مسنداحمد، ۲؍۵۰۷)

جب حیوانات کے ساتھ ہمدردی کرنے اور انھیں پانی پلانے کا یہ اجر ہے تو انسانوں کی پیاس بجھانے کا کتنا بڑا اجر ہوگا؟

ہجیمی صحابی ہی سے مروی دوسری روایت میں کسی قدر تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھے کاموں کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:

لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا ، وَلَوْ اَنْ تُعْطِیَ صِلَۃَ الْحَبْلِ ، وَلَوْ اَنْ تُعْطِیَ شِسْعَ النَّعْلِ ، وَلَوْ اَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ اِنَاءِ الْمُسْتَسْقِیْ ، وَلَوْ اَنْ تُنَحِّیَ                    الشَّیْءَ مِنْ طَرِیْقِ النَّاسِ یُؤُ؎ذِیْھِمْ ، وَلَوْ اَنْ تَلْقَی اَخَاکَ وَوَجْھُکَ اِلَیْہِ مُنْطَلِقٌ ، وَلَوْ اَنْ تَلْقَی أَخَاکَ فَتَسَلَّمَ  عَلَیْہِ ، وَلَوْ اَنْ تُؤْنِسَ الْوَحْشَانَ فِیْ الْاَرْضِ

(مسند احمد ؍۴۸۳) اچھے کاموں میں سے کسی کام کو معمولی نہ سمجھو خواہ یہ کام ہوں: کوئی چیز باندھنے کے لیے رسّی دینا، جوتے کا تسمہ دینا ، اپنے برتن سے پانی کسی پیاسے کے برتن میں انڈیلنا، راستے سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے والی کوئی چیز ہٹادینا، اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا، ملاقات کے وقت اپنے بھائی کو سلام کرنا، بدکنے والے جانوروں کو مانوس کرنا۔

حدیث ِ بالا میں جن کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ دیکھنے میں بہت معمولی ہیں۔ روزمرہ کی ضرورت کی چیز کسی کو دینا، کسی پیاسے کو پانی پلانا، کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا، خوش روئی کے ساتھ کسی سے گفتگو کرنا اور اس طرح کے دیگر کام یوں تو بہت معمولی نوعیت کے ہیں۔ اتنے معمولی کہ بسااوقات ان کی طرف ذہن بھی نہیں جاتا۔ لیکن سماجی اور اخلاقی حیثیت سے ان کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اس لیے انھیں نظرانداز کرنا اور خاطر میں نہ لانا درست رویہ نہیں ہے۔

سادگی سے دعوت اور معمولی تحفے کو حقیر جاننا :عموماً کسی کو دعوت اس موقعے پر دی جاتی ہے یا کسی کو کھانا اس وقت کھلایا جاتا ہے جب گھر میں معیاری اور اچھے کھانے کا اہتمام ہو، ورنہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس لیے کہ کھانے کے معیار کو کھلانے والے کی سماجی حیثیت سے جوڑا جاتا ہے۔ آدمی کسی کو گھر کا عام معیار کا کھانا کھلانے میں اپنی سبکی محسوس کرتا ہے۔ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کھانے والے اس کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا باتیں بنائیں اور کیسے کیسے تبصرے کریں؟ اسی طرح جس کو دعوت دی جاتی ہے وہ بھی کھانے کے معیار کو دعوت دینے والے سے اپنے تعلق کا پیمانہ بناتا ہے۔ دعوت کا زبردست اہتمام اس کے نزدیک قربت اور تعلقِ خاطر پر دلالت کرتا ہے اور اس کا عدم اہتمام تعلقات میں سردمہری کا پتا دیتا ہے۔ یہی معاملہ تحفے کے   لین دین کا بھی ہے۔ تحفہ دینے والے اور تحفہ لینے والے، دونوں کی نظر اس کے معیار اور مالیت پر ہوتی ہے۔ قیمتی تحفے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور معمولی اور کم قیمت تحفے کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔ اللہ کے رسولؐ نے اس رجحان پر تنقید فرمائی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ اصل اہمیت دعوت یا تحفے کو دینی چاہیے نہ کہ اس کے معیار کو۔ اس لیے کہ ایک دوسرے کو دعوت دینے سے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا ہے اور تحائف کا تبادلہ کرنے سے باہم محبت بڑھتی ہے۔ صحابیِ رسولؐ حضرت جابرؓ کی خدمت میں کچھ دوسرے صحابہ ملنے آئے۔ اس وقت ان کے گھر میں صرف روٹی اور سرکہ موجود تھا۔ انھوں نے وہی ان کے سامنے پیش کردیا اور کہا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:

نِعْمَ الْاِدَامُ اَلْخَلُّ، اِنَّہٗ ھَلَاکٌ بِالرَّجُلِ اَنْ یَدْخُلَ عَلَیْہِ النَّفَرُ مِنْ اِخْوَانِہٖ  فَیَحْتَقِرَ مَا فِی بَیْتِہٖ اَنْ یُقَدِّمَہٗ اِلَیْھِمْ ، وَھَلَاکٌ بِالْقَوْمِ اَنْ یَحْتَقِرُوْا مَا قُدِّمَ اِلَیْھِمْ (مسنداحمد، ۳؍۳۷۱) بہترین سالن سرکہ ہے۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس کے پاس اس کے کچھ بھائی آئیں تو اس وقت اس کے گھر میں جو کچھ کھانے کو موجود ہو، اسے ان کے سامنے پیش کرنے میں شرمائے اور ان لوگوں کے لیے بھی ہلاکت ہے جو اس معمولی کھانے کو، جو ان کے سامنے پیش کیا جائے، حقارت سے دیکھیں۔

ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

لَو دُعِیْتُ اِلٰی ذِ رَاعٍ اَوْ کُرَاعٍ لَأَجَبْتُ ، وَلَوْ أُھدِیَ اِلیَّ ذِراعٌ اَوْ کُرَاعٌ لَقَبِلْتُ (بخاری) اگر مجھے کھانے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کرلوں گا خواہ کھانے میں دست ہو یا پائے۔ اور اگر مجھے تحفہ دیا جائے تو قبول کرلوں گا خواہ تحفہ میں دست ہو یا پائے۔

شاید عورتوں میں یہ جذبہ دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ کسی کو کھانا کھلانا یا کسی کے یہاں کھانے کی کوئی چیز بھیجنا اس وقت پسند کرتی ہیں جب ان کے یہاں اہتمام ہو۔  دوسری صورت میں انھیں اپنی حیثیت مجروح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے یہاں پڑوس سے کھانے کی کوئی معمولی چیز آگئی تو وہ اسے پسند نہیں کرتیں اور اس میں اپنی تحقیر محسوس کرتی ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خاص طور سے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کتنی ہی معمولی چیز کیوں نہ ہو، نہ اسے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے یہاں بھیجنے میں شرمانا چاہیے اور نہ جس کے یہاں وہ بھیجی گئی ہو، اسے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

یَانِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ! لَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِھَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاۃٍ (مسلم)      اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو حقارت سے نہ دیکھے خواہ تحفہ میں بھیجی جانے والی چیز بکری کا کھُر ہو۔

اسی مضمون کی ایک حدیث عمرو بن معاذ الاشہلی کی دادی (حضرت حواء بنت یزید بن سنان الانصاریہؓ) کے واسطے سے مروی ہے جس میں ’محرق‘ کا اضافہ ہے (مسنداحمد، ۶؍۴۳۵)، یعنی اگر کوئی بکری کا جلا ہوا کھُر بھی دے تو اسے حقیر نہ سمجھو۔

  • معمولی اور حقیر گناہ موجبِ ہلاکت: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اچھے کاموں میں سے کسی کام کو حقیر اور معمولی سمجھ کر اسے ترک نہیں کرنا چاہیے اسی طرح بُرے اور گناہ کے کاموں میں سے بھی کسی کام کو معمولی سمجھ کر اس کے ارتکاب پر جری نہیں ہونا چاہیے۔ بُرا کام بُرا ہے خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا اور رائی کا ایک ایک دانہ جمع ہوکر پہاڑ بن جاتا ہے اسی طرح اگر انسان معمولی گناہوں سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہ کرے تو معمولی معمولی بہت سے گناہ اکٹھا ہوکر اس کے لیے موجب ِہلاکت بن جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِیَّاکُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ فِاِنَّھُنَّ یَجْتَمِعْنَ عَلَی الرَّجُلِ حَتّٰی یُھْلِکْنَہٗ (مسنداحمد، ۱؍۴۰۲-۴۰۳) معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ وہ اکٹھا ہوکر انسان کے لیے موجب ہلاکت بن سکتے ہیں۔

اسی بات کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تمثیل کے ذریعے سمجھایا ہے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ ایک بیابان میں ٹھیرے۔ وہاں انھیں کھانا پکانے کے لیے ایندھن کی ضرورت پڑی۔ تمام لوگ منتشر ہوگئے اور ایک ایک آدمی ایک ایک لکڑی لے آیا۔ اس طرح انھوں نے ڈھیر سا ایندھن اکٹھا کرلیا اور اس کے ذریعے کھانا تیار کرلیا۔ اسی طرح کہنے کو تو ایک بہت معمولی سا گناہ ہوتا ہے لیکن ایک ایک کرکے انسان بہت سے گناہوں میں لت پت ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہلاکت اور خسران اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ (مسنداحمد، ۱؍۴۰۲- ۴۰۳، ۵؍۳۳۱)

دنیا کی کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انسان جو کچھ یہاں کرتا ہے ، سب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے اور اس کے مقرر کردہ فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں:

وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَ لَآ اَکْبَرَ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ o (یونس۱۰: ۶۱) اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو، اس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔( مزید دیکھیے، السبا۳۴ :۳)

قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں انسان کا نامۂ اعمال اس کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس کا معمولی سے معمولی عمل بھی خواہ وہ نیکی کا ہو یا گناہ کا، اس میں درج ہوگا اور اس کے مطابق اس کے ساتھ برتائو کیا جائے گا:

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸) پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔

اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو معمولی معمولی گناہوں سے بھی بچنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے اور انھیں ہوشیار کرتے تھے کہ بارگاہِ الٰہی میں ان کا بھی حساب دینا ہوگا۔  اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

یَاعَائِشَۃُ! اِیَّاکِ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ ، فَاِنَّ لَھَا مِنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ طَالِبًا (مسنداحمد ، ۶؍۷۰، سنن ابن ماجہ) اے عائشہ! معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ اللہ کے یہاں ان کا بھی حساب ہوگا۔

مسند احمد کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کو برابر اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔

شیطان انسانوں کو بہکانے کے لیے اسی چور دروازے کا سہارا لیتا ہے۔ وہ ان کے سامنے بظاہر معمولی گناہوں کو ہلکا کرکے پیش کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ ان سے بچنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اچھے اچھے لوگ آسانی سے اس کے اس بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعے پر اپنی اُمت کو جہاں بہت سی چیزوں کی تعلیم دی تھی اور بہت سے معاملات میں انھیں متنبہ کیا تھا، وہاں آپؐ نے اس پہلو سے بھی ان کی رہنمائی فرمائی اور شیطان کے اس ہتھکنڈے سے انھیں ہوشیار کیا تھا۔ حضرت عمرو بن الاحوصؓ سے روایت ہے کہ آں حضرتؐ نے ارشاد فرمایا:

اَ لَا وَ اِنَّ  الشَّیْطٰنَ قَدْ  أَیِسَ اَنْ یُعْبَدَ فِیْ بِلَادِکُمْ ھٰذِہٖ اَبَدًا ، وَلٰکِنْ سَتَکُوْنُ لَہٗ طَاعَۃٌ فِیْمَا تَحْتَقِرُوْنَ مِنْ اَعْمَالِکُمْ فَسَیَرْضٰی بِہٖ (ترمذی، ابواب الفتن،               باب ماجاء فی تحریم الدماء والاموال، مسند احمد ،۲؍۳۶۸) خبردار! شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں اس کی پرستش کی جائے گی لیکن اس کا اندیشہ ہے کہ جن کاموں کو تم بہت معمولی سمجھتے ہو، ان میں اس کی اطاعت کرو گے اور وہ اسی سے خوش رہے گا۔

علما نے لکھا ہے کہ صغیرہ گناہ اگر کثرت سے اور بار بار کیے جائیں تو وہ کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔ محدث ابن بطال فرماتے ہیں:

اَلْمُحَقَّـــرَاتُ اِذَا کَثُرَتْ صَارَتْ کِبَارًا مَعَ الْاِصْرَارِ (فتح الباری، ابن حجر عسقلانی، دارالمعرفۃ، بیروت،۱۱؍۳۳۰ ) یعنی معمولی گناہ جب بہت زیادہ ہوجائیں اور انھیں بار بار کیا جائے تو وہ کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔

حضرات صحابہ کرامؓ اس معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہتے تھے۔ وہ جتنی اہمیت کبیرہ گناہوں کو دیتے تھے اور ان سے بچنے کی کوشش کرتے تھے اتنی ہی اہمیت صغیرہ گناہوں کو دیتے تھے اور انھیں بھی موجب ِ ہلاکت و خسران تصور کرتے تھے اور شعوری طور پر ان سے بچنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ نے اپنے شاگردوں میں جب اس معاملے میں تساہل دیکھا تو انھیں ٹوکتے ہوئے فرمایا:

اِنَّکُمْ لَتَعْمَلُوْنَ اَعْمَالًا ھِیَ اَدَقُّ فِیْ أَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعْرِ ، اِنْ کُنَّا نَعُدُّھَا عَلٰی عَھْدِ النَّبِیِّ مِنَ الْمُوْبِقَاتِ (بخاری) تم لوگ ایسے کام کرتے ہو جو تمھاری نگاہوں میں بال سے زیادہ باریک ہیں (یعنی تم انھیں بہت معمولی سمجھتے ہو) لیکن ہم نبیؐ کے عہد میں انھیں موجب ِ ہلاکت تصور کرتے تھے۔

کامیاب انسان وہ ہے جو گناہوں کو صغیرہ اور کبیرہ کے خانوں میں تقسیم کر کے صغیرہ گناہوں کے معاملے میں ڈھیل نہ اختیار کرے بلکہ گناہ کے ہرکام سے بچنے کی کوشش کرے، چاہے وہ بڑے سے بڑا گناہ ہو یا چھوٹے سے چھوٹا۔ اور نیکی کے ہرکام کی طرف لپکے، چاہے وہ بڑے سے بڑا کام ہو یا معمولی سے معمولی کام۔

 '’الفاوومن‘ اور’ سپر وومن‘ جیسے افسانوی اور فلمی کردار، پیسہ بٹورنے کی خاطر پاپولر فیمنزم، کارپوریٹ کلچر اور فیشن انڈسٹری میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کا آلۂ کار بننے والی خواتین، دولت اور شہرت تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن اپنی حیثیت، فطرت اور نسوانی شناخت کھو دیتی ہیں۔

  • جانوروں کا مطالعہ کرنے والے محققین اعلیٰ درجے کے جانوروں کے لیے ’الفا‘ یعنی فعال اور برتر کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ جانوروں کی کچھ انواع میں نر اور مادہ مل کر شاہانہ کردار اداکرتے ہیں جس کو '’الفا جوڑی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

’ الفا‘ جانوروں کو عام طور پر کھانے پینے اور دیگر مطلوبہ اشیا و سرگرمیوں تک ترجیحی بنیاد پر رسائی حاصل ہوتی ہے۔ جانوروں کی کچھ انواع میں ’الفا‘ حیثیت مستقل نہیں ہوتی بلکہ 'جو جیتا وہی اسکندر کے مصداق، مستقل طور پر جاری لڑائیوں میں غالب آنے والے کو ہی یہ عہدہ ملتا ہے۔  وہ طاقت ور جانور جو ان لڑائیوں کے آغا ز میں ہی اپنے سے زیادہ قوی جانور کی الفا حیثیت تسلیم کرلیتے ہیں انھیں دوسری پوزیشن (سیکنڈ ان کمانڈ، وزیر) مل جاتی ہے۔ جنھیں حیوانی معاشروںمیں نچلی ذات کے ’بیٹا جانور‘ (Beta)کا نام دیا جاتا ہے۔

 الفا مرد کیا ہوتا ہے؟

  •  انسانوں کے وہ معاشرے اور تہذیبیں جووحی الٰہی سے ہدایت لینے کے بجائے انسان کےاختیار، ارادے اور خواہشات سے تشکیل پاتی ہیں، ان کے اصول اور اقدار بھی حیوانوں کی طرح جبلّتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں '’الفا مرد‘ معاشرتی درجہ بندی میں سب سے اوپر ہوتے ہیں جن کے پاس زیادہ دولت، جسمانی قوت، دھونس، دھمکی، غلبہ اور سیاسی طاقت ہوتی ہے۔ الفا مردوں کو ’مرد کا بچہ‘ (رئیل مین) بھی کہا جاتا ہے اور ان کے مقابلے میں دیگر کمزور، مطیع اور محکوم حیثیت کے لوگ '’بیٹا مرد‘ کہلاتے ہیں۔ الفا مردوں کے لیے نکاح یا قانونی تعلق کی کوئی قید نہیں ہوتی، جب کہ بیٹا مرد عموماً اپنی بیوی کے ساتھ ہی زندگی گزارتے ہیں اور انھیں عام طور پر '’بھلے مانس‘  (Nice Guy') بھی کہا جاتا ہے۔
  •  ان معاشروں، تہذیبوں اور ثقافتوں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کے مطابق مردانگی کی کثیر الجہتی اقسام میں تمیزکرنے کا ایک اہم امر یہ بھی ہے کہ وہ صنف ِ مخالف کے لیے کس قدر جاذبیت اور دل کشی رکھتا ہے۔ خواتین صرف ان جارح مردوں کو ترجیح دیتی ہیں، جو اپنی جارحیت، تشدد اور غلبے کا استعمال گھر سے باہر کے مرد وں اور حریفوں پر کرتےہوں اور اپنی قائدانہ صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کو ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کرنے والے ہوں۔ لیکن اگر اس کے غلبے اور جارحیت کا رُخ خاتون خانہ کی جانب ہو تو ایسے مرد کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔

’الفا‘ عورت کیا ہوتی ہے؟

  •  تہذیبوں اور معاشروں کے مطالعات میں ’الفا مرد‘ کے لیے بہت حوالے موجود ہیں اور اس کا اطلاق ایک ایسے آدمی پر ہوتا ہے جوجسمانی قابلیت، اعلیٰ کامیابیوں کے حصول، کشش، دھونس اور دوسروں کو اپنی مرضی کے مطابق جھکانے والے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ’الفا عورت‘ کیا چیز ہے؟ کیا اس کا کوئی حقیقی وجود ہے یا یہ ایک خیالی اور فلمی کردار ہے؟ کاروباری کلچر میں اگر الفاگرل ماڈل کو الفامرد کے ماڈل پر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا وجود شاید کسی کمپنی کے بورڈ آف گورنرز کے ارکان میں تو نظر آئے، جہاں وہ اپنے کاروباری عزائم کی تکمیل میں تحکمانہ لہجے میں رعب جھاڑتی ہوئی نظر آئے گی، لیکن معاشرے میں چلتے پھرتے کردار کی شکل میں یہ شاید ہی نظر آئے۔ کام کی جگہوں پر نظر آنے والی نمایاں خواتین بھی دبائو ڈالنے والے دبنگ کردار کی حامل نہیں ہوتیں، اس لیے عملاً بہت کم خواتین جاب میں اعلیٰ مقام تک پہنچ پاتی ہیں۔

اس لیے ’ 'الفاوومن‘ کا اصل وجود حقیقی زندگی میں نہیں بلکہ قصے، کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ افسانوی نثر میں دکھایا جاتا ہے کہ الفا خواتین کی زندگی کا اصل محور 'کامیابی کا حصول ہےاور باقی سب چیزیں ثانوی ہیں۔ وہ رشتوں کا جنوں نہیں پالتیں، ہر چیز پر غالب رہنا چاہتی ہیں۔ کہانیوں میں ’الفاگرل‘ کا '’الفامین‘ کے ساتھ رشک، حسد اور مقابلہ تو دکھایا جاتا ہے، لیکن ان کی آپس میں شادی نہیں دکھائی جاتی۔ ناول نگار فے ویلڈن (Fay Weldon) الفا فیمیل کو کارپوریشن چلاتے ہوئے دکھاتی ہے، مگر گھر یلو دائرہ جہاں وہ ’سپرمین‘ سے مختلف نظر آسکتی ہے، وہ اس کو بالکل نظرانداز کردیتی ہے۔

ناول، افسانے اور فلم میں ’الفا وومن‘ اور '’سپر وومن‘ دو الگ کردار ہیں۔ ’سپروومن‘ کردار کی عورت ہر کام کرتی ہے۔ وہ اچھی بیوی ہونےاوراچھی کمائی کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی سرانجام دیتی ہے۔ لیکن ’الفا وومن‘ کا گھریلو کاموں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ ان کاموں کے لیے کسی اور کوملازم رکھتی ہے۔ اسے شادی شدہ عورت کے رُوپ میں نہیں دکھایا جاتا، لیکن وہ شادی کی خواہش ضرور رکھتی ہے۔ وہ الفا مردوں کو حقارت سے دیکھتی ہے اور وہ اس سے گھبراتے بھی ہیں۔ اس لیے تنہائی اس کا مقدر ہوتی ہے (ہو سکتا ہے یہ کردار عورت کو تنہا کرنے کے لیے ہی تخلیق کیا گیا ہو؟)۔

  •  ’الفا عورت‘ کا کردار امریکی فلموں میں بھی دکھایا جاتا رہاہے، لیکن یہاں بھی یہ کردار خواتین کی اصل صفات کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یہ کردار درحقیقت عورت کے رُوپ میں’الفا مرد‘ کی خصوصیات ہی کا حامل ہوتا ہے اور اس کو عموماً ایسےعفریت اور ولن کے طور پر دکھایا جاتا ہے، جو بہت ہوشیار، سفاک، خود غرض اور جنس کا رسیا ہوتا ہے۔ ہالی ووڈ موویز میں ’الفا عورت باس‘ کو مطلب کی رانی، ڈریگن لیڈی، لڑاکا عورتوں کے گینگ کی ملکہ [یعنی پھولن دیوی] اور مردوں کو اپنے اشاروں پر نچانے والی خاتون کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ تاہم، ساراہ ڈنانت(Sarah Dunant) کے مطابق ہالی ووڈ سے باہران ’الفاخواتین‘ کو ’سپر انسانی مخلوق‘ کے بجائے غیر انسانی وجود تصور کیا جاتا ہے۔
  •  فلم پروڈیوسر لیزی فرانک کے مطابق کچھ برسوں سے ہالی ووڈ میں بھی ’الفا عورت‘ کے کردار پسند نہیں کیے جاتے بلکہ اس کے بجائے لارا کروفٹ اور ٹرمینٹریکس جیسی ایکشن ہیروئین کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ ایکشن ہیروئینز کے کردار بھی ’الفاگرل‘ کردار ہی کی نئی شکل ہیں،جنھیں   فلم بینوں کی پسند کے مطابق تخلیق کیا گیا ہے۔ ان میں کچھ مردانہ صفات کے ساتھ ساتھ نسوانی خصوصیات کو بھی بڑھا چڑھا کر دکھا یا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ اپنے دشمن پرغیرانسانی طریقے سے تشدد کرتے ہوئے اسے گولیوں سے بھون رہی ہوتی ہیں اور دوسری طرف انھیں بہت ہی تنگ سوٹ میں (جس میں جلداور لباس کا کوئی فرق واضح نہیں ہوتا) دکھا کر نوجوانوں میں ہیجان انگیز جذبات ابھارے جاتے ہیں اور گاہک بنا کر ان سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔

’الفا عورت‘ کا کردار شاید ہاتھیوں کی زندگی سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا ہو؟ ہاتھیوں کے جنگلی معاشرے کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ ہر معاملے میں ہتھنی کا کردار غالب نظر آتا ہے۔ لیکن فیمنسٹ ڈسکورس میں جس طرح افلاطونی ’مدرسری نظام‘ دکھایا جاتا ہے۔ اس کا ہاتھیوں کے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یاد رہے، ہاتھیوں کے معاشرے کی قیادت بزرگ ہتھنی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ ایک بہت ہی مضبوط مادہ ہوتی ہے، جسے ’دانش مند اور مہربان‘ سمجھا جاتا ہے۔  اس میں کمال یہ ہے کہ وہ اپنے غول کے ارکان کو مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے اور نر ہاتھیوں کا بھی اتنا ہی خیال رکھتی ہے، جتنا مادہ ہاتھیوں کا۔ و ہ اپنی قیادت اور طاقت سے دھونس نہیں جماتی اور نہ لطف اُٹھاتی ہے بلکہ اس میں سب کو شریک کرتی ہے اور اپنےہاتھی معاشرے کے فروغ کے لیے اَن تھک محنت کرتی ہے۔ وہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ اپنی جسمانی قوت کو مثبت مقاصد کے لیے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ ماہرین حیوانات کے مطابق بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے، وہ ہر وقت سب سے جڑی ہوتی ہے۔ وہ فیمنزم کے ’الفا گرل‘ ماڈل کی طرح نہیں ہوتی کہ شادی اور بچوں سے دُور بھاگے، بلکہ اس کےلیے اس اہم عہدے پر برقرار رہنے کے لیے زچگی کے عمل سے گزرنالازمی شرط ہے۔ وہ زچگی پر نہ کوئی سمجھوتہ کرتی ہے اور نہ اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کو برداشت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاتھیوں کے معاشرے کا کوئی بھی رکن اس پر تصنع، غیر فطری عمل، جعل سازی یا مقابلہ کرنے کا الزام نہیں لگاتا۔ تمام نر ہاتھی اسے دل و جان سے چاہتے اور اس کا بہت احترام کرتے ہیں۔

  • ’الفامؤنث‘ کا کردار نہ صرف جانوروں میں ناممکن العمل ہے بلکہ انسانی معاشروں میں بھی اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسی کوئی حقیقی ’الفاعورت‘ وجود نہیں رکھتی جو مردانہ صفات کے بغیر اپنی شناخت رکھتی ہو۔ جولیا پیٹن جونز (Julia Peyton Jones) کے مطابق ’الفا مرد‘ ایک مردانہ تصور ہے، لیکن جب اسے خواتین پر لاگو کیا جاتا ہے تو وہ خواتین نہیں رہتیں بلکہ مردانہ صفات کی حامل شخصیت نظر آتی ہیں۔ خواتین مردوں کی طرح طاقت ور ہو سکتی ہیں، لیکن انھیں ’الفا خواتین‘ کہنا بہت محدود کرنے اور ان کی نسائی شناخت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ فطرت نے خواتین کو مختلف قسم کی صلاحیتوں اور مہارتوں سے نوازا ہے اور وہ اپنی نسوانیت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر خواہش کو بہت زیادہ جارح اورجھگڑالو ہوئے بغیر بھی پورا کر سکتی ہیں۔

الفا عورت، فیمنزم اور فیشن انڈسٹری میں

  •  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’الفاگرل‘ کے خیالی تصور کو فکشن اور فلموں میں استعمال کرنے کے بعد فیمنسٹ ڈسکورس میں کیوں اور کیسے متعارف کرایا گیا؟ فیمنزم اور سرمایہ داری نظام کے گٹھ جوڑ سے اسے کارپوریٹ کلچر اور فیشن انڈسٹری میں لاگو کرنے کی کس طرح کوشش کی جارہی ہے ؟ معاشرے کی عام نوجوان خواتین بلا سوچے سمجھے فیشن کی بھیڑ چال میں اس غیر فطری تصور کو مقبول بناکر، استحصالی طبقے اورمنافع خوروں کے ہاتھ کیوں مضبوط کر رہی ہیں؟
  •  ۲۰۱۵ء میں ایک پرچون فروش اُودر وائلڈ نے عورتوں کی ایک ٹی شرٹ متعارف کرائی، جس پر لکھا تھا The Future is Female (مستقبل خواتین کا ہے)۔ یہ ڈیزائن اتنا مقبول ہوا کہ اس کی پہلی کھیپ دو دن کے اندر فروخت ہو گئی۔ اس ڈیزائن میں فیمنسٹ خواتین کے احساسِ برتری کو ’الفاگرل‘ تصور کے اندرسموکر اس خوبی سے پیش کیا گیا کہ راتوں رات یہ ہر لڑکی کی اولین خواہش بن گیا۔ فیمنزم کی سیاسی تاریخ میں اس ٹی شرٹ نے ایسا دھماکا کیا کہ اس کے بعد فیمنسٹ تحریک، حقوق نسواں کی جدوجہد چھوڑ کر پاپولر فیمنزم کے راستے پر گامزن ہو گئی۔ اب جلسے جلوس کی مشکلا ت اٹھانے، لاٹھیاں کھانے اور کتابیں لکھنے کے بجائے خوب صورت نعروں کے ذریعے فیمنزم کی نئی جدوجہد کا رخ متعین کیا گیا۔ ان نعروں میں  My Uterus, My Choice (میری بچہ دانی، میرا انتخاب)۔ Girls just wanna have fun-damental Rights  (لڑکیاں صرف تفریحی حقوق حاصل کرنا چاہتی ہیں) وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔

’الفاگرل‘ماڈل کوفیشن انڈسٹری اورپاپولر فیمنزم کے بے ہودہ جنسی نعروں کے ذریعے پروموٹ کرنےکا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر سارہ بنیٹ ویزرنے لکھا ہے: ’’ہم کسی آئیڈیالوجی کو لطیفوں، چٹکلوں اور نعروں کی شکل میں مقبول عام بنا دیتے ہیں تو وہ سننے یا دیکھنے والے کو وقتی طور پر تو راغب کرتے ہیں، لیکن پھر فوراً اس کے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ سطحی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ پیسے بٹورنے کا دھندہ تو ہو سکتا ہے، لیکن اس کا تبدیلی کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘‘۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ یوٹیوب کی ایک سیریز Girls Who Code کی ایک ڈاکومینٹری GTFO کی مثال دیتی ہیں جس میں ایک لڑکی، مردوں کا مذاق اڑاتے ہوئے، انھیں پاگل قرار دیتی اور متعدد تضحیک آمیز اور فحش جملے کہتی ہے۔

پروفیسر سارہ مزید کہتی ہیں: ’’پاپولر فیمنزم اور فیشن انڈسٹری کے گٹھ جوڑ میں عورتوں کو  آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنا، جہاں خواتین کی بے توقیری ہے وہاں یہ انسانیت اور تہذیبی اقدار کے بھی خلاف ہے‘‘۔

  •  پاپولر فیمنزم اور فیشن انڈسٹری سے متاثر ہو کر مختلف تنظیمیں اور کارپوریشنیں بھی دوسروں پر اثر انداز ہونے، مقصد اور اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کرنے والے قائدین کو '’الفا قائد‘ کا نام دیتے ہیں۔ یعنی یہ تصور قصے، کہانیوں، فکشن، فلموں، پاپولر فیمنزم سے ہوتا ہوا کاروباری کلچر میں بھی پہنچ چکا ہے اور یہاں '’الفا لیڈر‘ کی اصطلاح مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ الفا قیادت کے اصل معنی کیا ہیں؟ یہ تو کسی پر واضح نہیں لیکن اسے ادارے کے بلند حوصلہ، آرزومند اور نوجوان سربراہ یا سی ای او کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاروباری کلچر میں ’الفا مرد‘ کو تو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن ’الفا خاتون‘ کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ مشکل اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ’الفا مرد‘ اور ’الفا خاتون‘ کی شناخت کی بات ہو۔کاروباری کلچر کی سخت تربیت سے خواتین میں مصنوعی طور پر مردوں کی کچھ خصوصیات تو پیدا کر لی جاتی ہیں، لیکن جب وہ '’الفا خاتون‘ کا رُوپ دھارتی ہیں تو ان میں نسوانی شناخت کہیں نظر نہیں آتی، وہ ایک مرد ہی نظر آتی ہیں۔

 مشہور اور بااثرخواتین کیا الفا خواتین ہیں؟

  • پروفیسر سوزن گرین فیلڈ ایک معروف سائنس دان ہیں اورکئی عہدے رکھنے کے ساتھ ساتھ برطانوی دارالامراء کی ممبر بھی ہیں۔ وہ ہر وقت خوب صورت نظر آنے کے لیے بھی خاصا وقت نکالتی ہیں اور’الفا خاتون‘ بننے کی امیداوار بھی رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اگر کوئی خاتون ’الفا‘ اسٹیٹس حاصل کر بھی لے، تو وہ ممکنہ طور پر مردوں کے گروپ میں واحد خاتون ہوتی ہے۔ وہ ایک لیڈر بن سکتی ہے لیکن اس کی خوبیوں میں مردانگی پوری طرح نہیں سما سکتی، ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کی نسوانی شناخت میں واضح طور پر کمی ہوجاتی ہے‘‘۔

 ثقافتی ماہرین کے مطابق برطانیہ میں مردوں کا عورتوں کا رُوپ دھارنا اور عورتوں کا مردانہ خصوصیات اور اقدار کی نمایش کرنا عام بات ہے۔ لیکن اس کے باوجود برطانوی معاشرے میں  ’الفا خاتون‘ کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ ملکہ الزبتھ اول ایک زبردست رہنما، بہت قابل اور اسٹائلش خاتون تھیں، لیکن انھیں مرد رہنمائوں جیسا نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے ان پر ’الفا خاتون‘ کا لیبل لگانا درست بات نہیں اور یہی معاملہ موجودہ ملکہ الزبتھ کا ہے۔

 نیکولا ہارلک (Nicola Horlick) برطانیہ میں اعلیٰ مالیاتی حیثیت اور سیاسی مقام و مرتبے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں میڈیا نے انھیں '’سپر خاتون‘ کا خطاب دیا۔ پچھلے سال، ایک روز اپنے گھر سے باہر نکلی ہی تھیں کہ ایک ڈاکو نے انھیں لوٹنے کی غرض سے گھیر لیا۔ ہارلک کے پاس حفاظت کے لیے ذاتی پستول موجود تھا،لیکن گھبراہٹ میں وہ اسے استعمال نہ کر پائیں اورڈاکو نے ان کے سر پر چوٹ ماردی۔ ضرب کھانے کے باوجود انھوں نے ہمت نہ ہاری اورڈاکو کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے ہارلک نے کہا: کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ 'میڈیا مجھے ’سپر خاتون‘ کہتا ہے، لیکن میں اپنے چھے بچوں کو سنبھالنے سے قاصر ہوں، اس کے لیے مجھے دوسروں کی مدد چاہیے ہوتی ہے۔ نچلے طبقے کی کچھ ایسی خواتین بھی ہیں، جو ملازمت کے ساتھ اپنے بچوں کو خود سنبھالتی ہیں۔ میرے ساتھ نوکروں کے علاوہ بچوں کی نانی بھی ہے جو ہروقت ان کا خیال رکھتی ہے۔ ہارلک نے مزید بتایا کہ ’’مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ’سپرخاتون‘ خودانحصاری کے کس مقام پر فائز ہوتی ہے، لیکن اگر میرے ساتھ ماں، نانی اور شوہر کی طرف سے دیا گیا اعتماد اور دعائیں نہ ہوتیں تو میں شاید ڈاکو کا مقابلہ نہ کر پاتی‘‘ ۔

  •  ڈیم سٹیلا ریمنگٹن (Dame Stella Rimington) برطانیہ کی ہوم انٹیلی جنس سروس   ایم آئی فائیو کی پہلی خاتون سربراہ تھیں۔ انھوں نے اس ادارے کو جدید خطوط پر استوار کیا اور جب وہ ڈائرکٹر جنرل بنیں، تو ان کے لیے یہ اعزاز باعث حیرت تھا کیونکہ انھیں اس کی توقع نہیں تھی۔ انھوں نے کئی کتابیں اور ناول بھی لکھے اور میڈیا میں وہ ’الفا وومن‘ تصور کی جاتی ہیں۔ انھوں نےریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ اس طرح کے عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کی شخصیت اورنقطۂ نظر عام خواتین سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ان کی عام زندگی اور کیرئیر کبھی معمول کے مطابق نہیں چلتے۔ ساری زندگی مردوں کی طرح اور ان کے درمیان ان تھک محنت، عزم، ہمت، اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک عورت میں سے نسوانی خصوصیات غائب ہوجاتی ہیں۔ ایسی خواتین کو اہم اداروں کی سربراہ بننے کے بعد ’الفا مرد‘ تو شاید کہا جا سکتا ہو، لیکن '’الفاوومن‘ کہنا بہت مشکل ہے‘‘۔
  •  امریکا کے ایک فیشن میگزین US Vogue کی ایڈیٹر اینا ونٹور بھی دنیا کی بااثر خاتون سمجھی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اینا ونٹور کو افسانوی کردار اور ’الفاخاتون‘ ظاہر کرتے ہیں،جب کہ وہ انجانے خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ہروقت ڈارک شیشوں کے پیچھے زندگی گزارتی ہیں۔ وہ کسی تصوراتی دنیا کی ’الفا خاتون‘ تو ہو سکتی ہیں، لیکن حقیقی دنیا میں ان کا ایسا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔
  •  مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام و جدید ریاست، سیکولرازم، لبرل ازم، فیمنزم جیسے نظریات اورمیڈیا، فیشن انڈسٹری، کاروباری کارپوریشنوں کے ذریعے پوری دنیا پر ہوس، حرص، دولت اور جنس زدگی کا جابرانہ نظام مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر نت نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں نوجوان اور پُرکشش خواتین کو کم لباسی اور تیز میک اَپ سے مسلح کرکے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنا بھی شامل ہے۔ ترقی اور شہرت کی خواہش مند خواتین ان کے دام میں پھنس کر’الفاخاتون‘ اور’سپر خاتون‘ بننے کا جنون اپنے اُوپر سوار کر لیتی ہیں۔ لیکن خواتین کی اکثریت نہ ان کرداروں کو پسند کرتی ہے اور نہ ایسا بننا چاہتی ہے۔ یہ ادارے خواتین کی انفرادیت اوراحساس برتری کو اس قدر ابھار تے ہیں کہ وہ تضادات کا مرقع بن کر اپنی اصل حیثیت اور فطرت کو بھول جاتی ہیں اور کمال نادانی میں اس بات سے انکار کرنے لگ جاتی ہیں کہ وہ دوسری خواتین کی طرح ہیں۔ جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو پانی سر سے گزرچکا ہوتا ہے اور وہ حسرت و پامال زندگی کا نمونہ بن کر زندگی کے بقیہ دن گزارتی ہیں۔

عبادات کا مقصد

سوال : میرے ایک عزیز جواَب لامذہب ہوچکے ہیں، عبادات، نماز، روزہ وغیرہ کو صرف بُرائی سے بچنے کے بہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے اس نظریے کی تبلیغ بھی کرتے ہیں۔ میں ان کے مقابلے میں اسلامی احکام و تعلیمات کے دفاع کی کوشش کرتا ہوں۔ میری راہ نمائی اور مدد کیجیے۔

جواب :عبادات کے بارے میں ان کے جو نظریات آپ نے بیان کیے ہیں وہ بھی سخت ژولیدہ فکری (confused thinking)بلکہ بے فکری کا نمونہ ہیں۔ شاید انھوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ نماز، روزہ وغیرہ اعمال صرف اسی صورت میں بُرائی سے بچنے کابہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ ہوسکتے ہیں جب انھیں خلوص کے ساتھ کیا جائے ، اور خلوص کے ساتھ آدمی ان پر اسی صورت میں کاربند ہوسکتا ہے جب وہ ایمان داری سے یہ سمجھتا ہو کہ خدا ہے اور مَیں اس کا بندہ ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسولؐ تھے اور کوئی آخرت آنے والی ہے جس میں مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان سب باتوں کو خلافِ واقعہ سمجھتا ہو اور یہ خیال کرتا ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اصلاح کے لیے یہ ڈھونگ رچایا ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں بھی یہ عبادت بُرائی سے بچنے کا ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ بن سکے گی؟ ایک طرف ان عبادات کے یہ فوائد بیان کرنا اور دوسری طرف اُن فکری بنیادوں کو خود ڈھا دینا جن پر ان عبادات کے یہ فوائد منحصر ہیں، بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی کارتوس سے سارا گن پائوڈر نکال دیں اور پھر کہیں کہ یہ کارتوس شیر کے شکار میں بہت کارگر ہے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۲ء)

عبادات میں اخلاص پیدا کرنے کا مطلب

سوال : ہمیں یہ کیوں کر معلوم ہو کہ ہماری عبادت خامیوں سے پاک ہے یا نہیںاور اسے قبولیت کا درجہ حاصل ہورہا ہے یا نہیں؟… قرآن و حدیث کے بعض ارشادات جن کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو روزے میں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ اپنی نمازوں سے رکوع و سجود کے علاوہ کچھ نہیں پاتے، یا یہ کہ جو کوئی اپنے عابد سمجھے جانے پر خوش ہو تو نہ صرف اس کی عبادت ضائع ہوگئی بلکہ وہ شرک ہوگی، اور اس طرح سے دیگر تنبیہات جن میں عبادت کے بے صلہ ہوجانے اور سزا دہی کی خبر دی گئی ہے، دل کو نااُمید و مایوس کرتی ہیں۔

اگر کوئی شخص اپنی عبادت کو معلوم شدہ نقائص سے پاک کرنے کی کوشش کرے اور اپنی دانست میں کربھی لے پھر بھی ممکن ہے کہ اس کی عبادت میں کوئی ایسا نقص رہ جائے جس کا اسے علم نہ ہوسکے اور یہی نقص اس کی عبادت کو لاحاصل بنادے.... اسلام کا مزاج اس قدر نازک ہے کہ بشریت کے تحت اس کے مقتضیات کو پورا کرنا ناممکن سا نظر آتا ہے۔

جواب : اسلام کا مزاج بلاشبہہ بہت نازک ہے، مگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔ قرآن و حدیث میں جن چیزوں کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عبادات کو باطل یا بے وزن کردینےوالی ہیں، ان کے ذکر سے دراصل عبادات کو مشکل بنانا مطلوب نہیں ہے بلکہ انسان کو ان خرابیوں پر متنبہ کرنا مقصود ہے تاکہ انسان اپنی عبادات کو اُن سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے، اور عبادات میں وہ روح پیداکرنے کی طرف متوجہ ہو جو مقصود بالذات ہے۔ عبادات کی اصل روح تعلق باللہ، اخلاص للہ اور تقویٰ و احسان ہے۔ اس روح کو پیداکرنے کی کوشش کیجیے اور ریا سے، فسق سے، دانستہ نافرمانی سے بچیے۔ ان ساری چیزوں کا محاسبہ کرنے کے لیے آپ کا اپنا نفس موجود ہے۔وہ خود ہی آپ کو بتا سکے گا کہ آپ کی نماز میں، آپ کے روزے میں، آپ کی زکوٰۃ اور حج میں کس قدر اللہ کی رضاجوئی اور اس کی اطاعت کا جذبہ موجود ہے، اوران عبادتوں کو آپ نے فسق و معصیت اور ریا سے کس حد تک پاک رکھا ہے۔ یہ محاسبہ اگر آپ خود کرتے رہیں تو ان شاء اللہ آپ کی عبادتیں بتدریج خالص ہوتی جائیں گی اور جتنی جتنی وہ خالص ہوں گی، آپ کا نفس مطمئن ہوتا جائے گا۔ ابتداء ً جو نقائص محسوس ہوں، ان کا نتیجہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ آپ مایوس ہوکر عبادت چھوڑ دیں، بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اخلاص کی پیہم کوشش کرتے جائیں۔

خبردار رہیے کہ عبادت میں نقص کا احساس پیدا ہونے سے جو مایوسی کا جذبہ اُبھرتا ہے، اُسے دراصل شیطان اُبھارتا ہے اور اس لیے اُبھارتا ہے کہ آپ عبادت سے باز آجائیں۔ یہ شیطان کا وہ پوشیدہ حربہ ہے جس سے وہ طالبین خیر کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ان کوششوں کے باوجود یہ معلوم کرنا بہرحال کسی انسان کے امکان میں نہیں ہے کہ اس کی عبادات کو قبولیت کادرجہ حاصل ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اس کو جاننا اور اس کا فیصلہ کرنا صرف اس ہستی کا کام ہے جس کی عبادت آپ کر رہے ہیں ، اور جو ہماری اور آپ کی عبادتوں کے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہروقت اس کے غضب سے ڈرتے رہیے اور اس کے فضل کے اُمیدوار رہیے۔ مومن کا مقام بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاء (خوف اور اُمید کے درمیان)ہے۔ خوف اس کو مجبور کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بہتر بندگی بجا لانے کی کوشش کرے، اور اُمید اس کی ڈھارس بندھاتی ہے کہ اس کا ربّ کسی کا اجر ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)

نماز میں توجہ کی کمی کا مسئلہ

سوال : توجہ اور حضورِقلب کی کمی کیا نماز کوبے کار بنادیتی ہے؟ نماز کو اس خامی سے کیوں کر پاک کیا جائے؟ نماز میں عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نہایت بے حضوریٔ قلب پیدا ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ کیوں کہ ہم سوچتے ایک زبان میں ہیں اور نماز دوسری زبان میں پڑھتے ہیں۔ اگر آیات کے مطالب سمجھ بھی لیے جائیں تب بھی ذہن اپنی زبان میں سوچنے سے باز نہیں رہتا۔

جواب : توجہ اور حضورِ قلب کی کمی نماز میں نقص ضرور پیدا کرتی ہے۔ لیکن فرق ہے اس بے توجہی میں جو نادانستہ ہو اور اس میں جو دانستہ ہو۔ نادانستہ پر مؤاخذہ نہیں ہے بشرطیکہ انسان کو دورانِ نماز میں جب کبھی اپنی بے توجہی کا احساس ہوجائے، اسی وقت وہ خدا کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کرے، اور اس معاملے میں غفلت سے کام نہ لے۔ رہی دانستہ بے توجہی، بے دلی کے ساتھ نماز پڑھنا اور نماز میں قصداً دوسری باتیں سوچنا، بلاشبہہ یہ نماز کو بے کار کردینے والی چیز ہے۔

عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر جو بے حضوری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کی تلافی جس حد تک ممکن ہو، نماز کے اذکار کا مفہوم ذہن نشین کرنے سے کرلیجیے۔ اس کے بعد جو کمی رہ جائے، اس پر آپ عنداللہ ماخوذ نہیں ہیں، کیوں کہ آپ حکمِ خدا و رسولؐ کی تعمیل کر رہے ہیں۔ اس بے حضوری پر آپ سے اگر مؤاخذہ ہوسکتا تھا تو اس صورت میں جب کہ خدا و رسولؐ نے آپ کو اپنی زبان میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہوتی اور پھر آپ عربی میں نماز پڑھتے۔(ترجمان القرآن، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)

روزے میں کھانا چکھنے کی حدود

سوال : کیا ایک عورت روزہ کے دوران کھانا تیار کرتے وقت، کھانا چکھ سکتی ہے،   جب کہ اس کا شوہر سخت مزاج بھی ہو اور کھانے کا ذائقہ صحیح نہ ہونے پر غصّہ بھی کرتا ہو؟ اسی طرح ایک ماں اپنے بچے کے لیے غذا تیار کرتے وقت کیا اسے چکھ سکتی ہے؟

جواب :  ’کھانے‘ اور ’چکھنے‘ میں فرق ہوتا ہے۔ کسی چیز کا ذائقہ چکھنے کے لیے اس چیز کو بڑی مقدار میں کھانا، چبانا اور نگلنا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت چمچہ بھر غذا اپنے منہ میں ڈالتی ہے، اس کو چباتی ہے اور نگل لیتی ہے، تو یقینا اس نے اپنے روزے کو ضائع کر دیا۔ اب یہ حرکت خواہ اس نے اپنے شوہر کے غصے کی تلافی کی وجہ سے کی ہو یا کسی اور وجہ سے۔ اس صورتِ حال میں حکم یہی لاگو ہوگا کیونکہ اس نے غذا کو کھا لیا ہے، جو روزے کی حالت میں ممنوع ہے۔

کسی غذا کا ذائقہ چکھنے کے لیے اس کو نگلنا ضروری نہیں۔ ذائقہ چکھنے کا کام زبان کی نوک انجام دیتی ہے۔ اگر ایک عورت غذا کا بہت معمولی سا حصہ منہ میں لیتی ہے اور ذائقہ معلوم کرنے کے بعد غذا حلق تک پہنچنے سے پہلے اس کو تھوک دیتی ہے تو اس کا روزہ برقرار رہے گا۔ علما اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اجازت صرف اس وقت ہے جب اس کی واقعی ضرورت ہو۔ کھانے کے ذائقے پر شوہر کے غصے کا اندیشہ ایسی ہی ایک صورت ہے۔

بچے کے لیے غذا تیار کرتے وقت اسے چکھنے کا مسئلہ کم شدید نوعیت کا ہے۔ بچے کی غذا کے گرم ہونے کا اندازہ ہاتھ سے لگایا جاسکتا ہے، جب کہ اس میں شکر یا نمک کی مقدار اس غذا کے پکانے کے نسخے سے درست رکھی جاسکتی ہے۔ تاہم، اگر اس صورتِ حال میں بھی غذا کا ذائقہ اُوپر بتائے ہوئے طریقےکے مطابق پرکھا جائے تو اس سے روزہ ساقط نہیں ہوگا۔(ڈاکٹر اُمِ کلثوم)

روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوتؐ، (جلد۱۰)، پروفیسر ڈاکٹر تسنیم احمد۔ ناشر: مکتبہ دعوۃ الحق، ۹۳-اے، اٹاوہ سوسائٹی، احسن آباد، کراچی۔ ۷۵۳۴۰- فون مدیر:  ۹۲۴۲۶۰۶-۰۳۰۰۔ صفحات: ۴۰۸۔ قیمت: ۸۵۰ روپے۔

فاضل مؤلف کی اس کتاب کی ماسبق جلدوں پر تبصرہ ترجمان کے انھی صفحات میں شائع ہوچکا ہے۔ اب مؤلف نے جلد۱۰ پیش کی ہے۔ ایک طرح سے یہ قرآنِ حکیم کی تفسیر ہے، جس میں سیرت النبیؐ کے اہم واقعات اور جدوجہد کے مختلف مراحل کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ سرورق کی توضیح کے مطابق یہ ’’نزولِ قرآنِ مجید کے پس منظر میں لکھی گئی حیاتِ طیّبہ کی رُوداد ہے‘‘۔

’پیش لفظ‘ میں ڈاکٹر سیّد زاہد حسین کہتے ہیں: ’’میری نظر میں کاروانِ نبوت صرف سیرت النبیؐ کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ تو اس انقلاب کی رُوداد ہے جو قرآن اور صاحب ِ قرآن کے ذریعے برپا ہوا‘‘۔

مصنف نے ہر باب میں موضوعات کی الگ فہرست دی ہے اور غزوات میں شہدا کے ناموں کا تعین بڑی تحقیق کے بعد مرتب کیا ہے۔ ناشر نے کتاب طباعت کے اعلیٰ معیار پر شائع کی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


قولِ مبین، ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم۔ ناشر: مثال پبلشرز،رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پورہ بازار، فیصل آباد۔ فون: ۶۵۰۶۵۸۵-۰۳۳۳۔ صفحات: ۴۰۰ ۔ قیمت، مجلد: ۷۰۰ روپے۔

قرآن کریم کی روشنی میں روز مرہ زندگی گزارنے کے اصولوں اور دعوت کو دل نشین پیرایے میں بیان کیا گیا  ہے۔ فاضل مصنف عربی کے معروف استاد اور انشا پرداز ہیں۔ یہ کتاب ریڈیو پاکستان سے ان کی نشر ہونے والی مختصر تقریروں پر مشتمل ہے۔ جس میں چار سے پانچ صفحات پر مشتمل اکہتر تقاریر اور ایک مقالۂ خصوصی کو کتاب میں شامل کیا ہے۔

مصنف، قرآن کریم سے آیات کا انتخاب کرتے اور ان کی روشنی میں ہماری زندگی کو ہدایت ِ الٰہی سے منور کرنے والے نکات مرتب کرتے ہیں اور پھر تذکیر، انذار اور تبشیر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے رواں دواں انداز سے قاری کو قرآن اور زندگی سے جوڑتے ہیں۔

کتاب کی پیش کش ، دل کش ہے اور خاص نکتے کی بات یہ ہے کہ ’’جملہ حقوق غیرمحفوظ‘‘ ہیں، جو چاہے جس شکل میں، اس کا فیض عام کرے۔ (سلیم منصور خالد)


آئینہ اسلام، پروفیسر عبدالقیوم۔ناشر:  بزمِ اقبال، ۲- کلب روڈ، لاہور۔ صفحات:۱۱۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

یہ کتاب کسی زمانے میں ایف اے کے طلبۂ اسلامیات کے لیے لکھی گئی تھی۔ بقول مصنف: ’’دینی ذوق اور مذہبی رجحان رکھنے والے حضرات کے لیے بھی مفید ہے۔ امتحانی مقابلے میں بیٹھنے والے حضرات بھی آئینہ اسلام کو مفید پائیں گے‘‘۔ مصنف نے آسان اور واضح انداز میں اجزائے ایمان (توحید، ملائکہ، رسولؑ، آسمانی کتابیں، ایمان بالآخرت)، ارکانِ اسلام (کلمۂ طیبہ، نماز، زکوٰۃ، حج بیت اللہ، روزے)، اسلامی اخلاق (امانت، صدق، ایفائے عہد، ایثار، رحم، عفو) کی تشریح کی ہے۔حضرت موسٰی کے حالات میں واقعات کی زمانی ترتیب ملحوظ نہیں رہی۔ اس وجہ سے مطالعہ کرتے ہوئے ربط کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

’عرضِ ناشر‘ میں وہی باتیں دُہرائی گئی ہیں، جو مصنف نے ’حرفِ اوّل‘ میں کہی ہیں۔ ضرورت تو یہ تھی کہ مصنف کا کچھ تعارف ہوتا اور بتایا جاتا کہ وہ کس پائے کے عالم تھے؟ اور یہ کتاب کس زمانے میں لکھی گئی؟ کتاب خوب صورت چھاپی گئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


مجالسِ سیّد مودودی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔فون: ۰۰۳۴۹۰۹-۰۳۳۲۔ صفحات: ۲۷۶۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

  مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ(۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) کی تصانیف جس طرح علم و معرفت کا مخزن ہوتی ہیں، اسی طرح ان کی مجالس میں بھی حکمت و دانش کے جام لنڈھائے جاتے تھے۔ _ یہ مجالس عموماً لاہور میں مولانا کی رہایش گاہ (۵-اے، ذیلدار پارک ، اچھرہ ) میں ، جو جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی دفتر بھی تھا ، نمازِ عصر کے بعد شروع ہوتی تھیں اور نمازِ مغرب سے کچھ پہلے ختم ہوجاتی تھیں۔ _ نمازِ مغرب وہیں سبزہ زار پر مولانا کی امامت میں ادا کی جاتی تھی _۔

مولانا کی ان عصری مجالس میں ہر عام و خاص بلا جھجک شریک ہوتا اور بے تکلّفی سے ہرقسم کا اور ہر طرح کا سوال پوچھتا اور مولانا اس کا اطمینان بخش جواب دیتے تھے۔ _ بعض حضرات کو وہاں ہونے والی گفتگو اور مولانا مودودی کے فرمودات کی اہمیت کا احساس ہوا ، چنانچہ انھوں نے انھیں ضبطِ تحریر میں لانا شروع کیا ۔ ان حضرات میں ہفت روزہ آئین لاہور کے مدیر جناب مظفر بیگ ، مجلّہ سیارہ کے مدیر جناب حفیظ الرحمٰن احسن اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قابلِ ذکر ہیں۔ _ ہاشمی صاحب  ان مجالس میں شرکت کرتے، نوٹس لیتے اور انھیں مرتب کرکے ہفت روزہ آئین میں اشاعت کے لیے فراہم کرتے۔بعدازاں ان مجالس کا انتخاب ہاشمی نے ۵-اے ذیلدار پارک، دوم کے عنوان سے ۱۹۷۹ء میں شائع کیا، اور اب یہی کتاب مزید اضافوں اور نظرثانی کے بعد مجالسِ سیّد مودودی کے نام سے شائع کی گئی ہے۔

اس کتاب کے مشمولات بہت متنوّع ہیں: قرآن ، حدیث ، فقہ ، تاریخ ، تصوّف ، شخصیات، افکار ، کتب ، ادارے ، مقامات ، سیاسیات ، معاشیات ، سماجیات ، جدید مسائل ، غرض ہر موضوع پر علمی لوازمہ اس میں ملتا ہے۔ _ مولانا مودودی سائل کے سوال کا بہت مختصر ، لیکن دو ٹوک جواب دیتے تھے _۔ فاضل مرتّب نے آخر میں موضوعات ، کتب ، اداروں اور مقامات کا مفصل اشاریہ مرتّب کردیا ہے ، جس سے قارئین کے لیے استفادہ میں بہت سہولت ہوگئی ہے _۔ چند عناوین کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا : آسمان و زمین کی تخلیق ، اجتہاد و تقلید کا مسئلہ ، اسرائیلی انٹیلی جنس اور عرب دُنیا، اسلامی انقلاب کے امکانات ، اسلام میں انفرادی ملکیت ، اسلام میں عورت کی حدود ، ظہورِ مہدی ، تقدیر کی حقیقت ، ائمہ میں سے کسی ایک کی پیروی کیوں؟ ، ایصالِ ثواب کا مسئلہ ، ایک مسجد میں متعدد جماعتیں ، بنک کی ملازمت اور سود ، بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل ، پوسٹ مارٹم اور اسلام ، تعویذ کا جواز؟ ، ٹیلی فون پر نکاح ، جمہوریت اور اسلام ، جہیز اور شریعت ، خاندانی منصوبہ بندی، خفیہ سازشیں اور فوجی انقلاب ، خنزیر کیوں حرام ہے؟ ، عورت کی خود اختیاریت کا مسئلہ ، غائبانہ نمازِ جنازہ ، قادیانی فہمِ قرآن ، مسجد میں نمازِ جنازہ، ملوکیت کے نقصانات ، نمازِ جنازہ میں عورتوں کی شرکت ، وغیرہ _۔ اس کتاب سے مولانا مودودی کی شخصیت ، افکار و تصوّرات اور جدّوجہد کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)


بصیرت، ڈاکٹر صفدر محمود۔ناشر: قلم فائونڈیشن، یثرب کالونی، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔ فون: ۰۵۱۵۱۰۱- ۰۳۰۰۔ صفحات:۲۸۷۔ قیمت: ۷۰۰ روپے

ہمارے ہاں ایسے اساتذہ اور اہلِ قلم دوچار ہی ہوں گے جنھیں ’پاکستانیات‘ پر عبور حاصل ہو اور وہ پاکستان کے ساتھ تحریک ِ پاکستان اور قائداعظم پر بھی توازن کے ساتھ کچھ لکھ سکیں۔ ایسے عالم میں ڈاکٹر صفدر محمود کا دم غنیمت ہے۔ کچھ عرصہ درس و تدریس کے بعد وہ سول سروس میں چلے گئے۔ اب کئی برسوں سے کالم نگاری کرتے ہیں۔

بالعموم کالموں کی زندگی فقط ایک دن کی ہوتی ہے۔ مگر صفدرمحمود کے زیرنظر مجموعۂ بصیرت میں شامل کالم مستقل نوعیت کے حامل ہیں۔ چند عنوانات: آزمایش، بیٹی: اللہ کی رحمت، امارت اور غربت، محبت اور خدمت، استغفار کیوں؟ حضرتِ ابوذر غفاریؓ، ہوس، منکرینِ تصوف۔

مصنف نے چھوٹے چھوٹے کالموں میں بڑی بڑی باتیں کَہ دی ہیں، مثلاً: ’’سچ یہ ہے کہ استغفار کنجی ہے: بخشش کی، دُنیاوی کامیابیوں اور مشکلات و مسائل کے حل کی۔ اور انسان استغفار کی کنجی سے اللہ پاک کے خزانے کھول کر، جو چاہے لے سکتا ہے۔ جن میں مال و دولت بھی شامل ہے‘‘(ص ۱۲۶)۔ایک جگہ مولانا روم کا حسب ِذیل فرمان نقل کیا ہے: ’’خدا تک پہنچنے کے لیے بہت سے راستے ہیں لیکن مَیں نے آسان ترین اور اللہ پاک کا پسندیدہ ترین راستہ چُنا اور وہ راستہ ہے: اللہ کی مخلوق سے محبت اور اللہ کی مخلوق کی خدمت‘‘۔(ص ۶۹)

بصیرت کے کئی معنی ہیں: دانائی، عقل مندی اور ہوشیاری۔ ایک معنی ’دل کی بینائی‘بھی ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے یہی معنی مراد لیا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کو ’دل کی بینائی‘ مطلوب ہے۔ ان کے الفاظ میں جب انسان:’’من کی دُنیا میں ڈوب جاتا ہے [تو] قلم بخودبخود لکھنا شروع کر دیتا ہے‘‘___ یہ کتاب ایسی ہی تحریروں پر مشتمل ہے، جو’’ قلب سے نکلیں اور صفحۂ قرطاس پرپھیل گئیں‘‘(ص۱۰)۔(رفیع الدین ہاشمی)

نور محمد عباسی ، اسلام آباد

مارچ کا شمارہ متعدد مقالات سے مالا مال ہے۔ ’’پاکستان کا نظریاتی وجود اور تقاضے‘‘ پروفیسر خورشیداحمد صاحب کا مقالہ وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔ انھوں نے جہاں ایک طرف پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو اُجاگر کیا ہے، وہیں پاکستان کے عملی مسائل کی نشان دہی بھی کی ہے، خصوصاً پاکستان کے معاشی بحران کے اسباب کو متعین کیا ہے۔ مضمون کے آخر میں انھوں نے جتنے نکات بیان کیے ہیں، ان پر باری باری، ایک ایک جامع مضمون ترجمان میں آنا چاہیے۔


نائلہ گُل ، لندن

جناب سعادت اللہ حسینی کا مضمون: ’’خاندان اور خواتین: اسلام کی نظریاتی قوت‘‘ (مارچ ۲۰۲۱ء) علمی وسعت اور سماجی بحران کی بہترین بحث اور راہِ عمل پر مشتمل یادگار تحریر ہے۔


سعادت اللہ خلیل، کراچی

’اشارات‘ اور سعادت اللہ حسینی صاحب کے مضمون نے فکرونظر کو روشنی عطا کی۔ اسی طرح عبدالہادی احمد صاحب نے پاکستان میں سود کے خاتمے کے لیے مختلف کاوشوں کا ایک نقشہ پیش کیاہے، جو عام قارئین کے لیے معلومات کا ذخیرہ ہے۔ تاہم، یوں لگتا ہے کہ یہ مضمون کئی حوالوں سے مزید تحقیق، تفصیلات اور تجزیے کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر کوئی ماہر معاشیات اس موضوع پر دادِ تحقیق دےتو قیمتی لوازمہ سامنے آئے گا۔


ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری ، کراچی

حبیب الرحمٰن چترالی صاحب کے مضمون ’’اصطلاحات اور تحریف کا جادو‘‘ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس سے پریشان فکری اور مغرب سے مرعوبیت چھلک رہی ہے۔


ڈاکٹر وقاص احمد ، لاہور

بلاشبہہ ترجمان کے مضامین بلندپایہ اور قیمتی معلومات سے لبریز ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ مارچ کے شمارے میں محترم حبیب الرحمٰن چترالی صاحب کا مضمون ’’اصطلاحات اور تحریف کا جادو‘‘ کئی حوالوں سے پرچے کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا۔ مفروضہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ: ’’کورونا عبرانی کا لفظ ہے اور تلمود کی آیت۱۹ میں آیا ہے۔ پھر اس عالمی وبا کو کسی یہودی سازش کا شاخسانہ قرار دے ڈالا گیا ہے۔ اور اس کے لیے عربی، انگریزی ماخذ اور لُغات کا سہارا لیا گیا ہے۔ بات یہ ہے کہ اس وائرس کو۱۹ کہیں یا ۲۰ اور کورونا کہیں یا ’مون‘ ،وائرس کی تباہ کاری میں کچھ فرق واقع نہیں ہوگا۔ سائنس دانوں کی سالہا سال تحقیق کے نتیجے میں اس وائرس کی تباہ کاریاں سامنے آئی ہیں جس کے خاتمے کے لیے وہ دن رات کوشاں ہیں۔

[مضمون کی اشاعت کے وقت یہ پہلو سامنے تھا کہ دُنیا بھر میں ، اس بیماری کے حوالے سے کئی مفروضے گردش میں ہیں۔ اس لیے مثال کے طور پر ایک نقطۂ نظر شائع کیا گیا کہ لوگ یوں بھی سوچتے ہیں اور اس کا ’اینٹی تھیسس‘ شائع کرنے کے لیے بھی ترجمان حاضر ہے۔ دوسری رائے سننا کوئی غیر علمی فعل نہیں۔ اگر کوئی بات خلافِ واقعہ ہے تو اس کی معقول دلائل سے تردید کرنی چاہیے۔ ادارہ]


سعید علی ، فیصل آباد

مارچ کے شمارے میں افتخارگیلانی صاحب نے ایک منفرد کشمیری دانش وَر کی سوچ اور خدمات سے متعارف کرایا ہے، جب کہ ہمیشہ کی طرح جناب وحید مراد نے معلومات افزا مضمون لکھ کر ’بے راہ رویٔ نسواں تحریک‘ کی حقیقت سے پردہ ہٹایا ہے۔ کاش! یہ تحریریں عام اخبارات کی بھی زینت بنیں۔


زاہدہ عتیق ، گوجرانوالہ

ہمیشہ کی طرح جناب بشیر جمعہ کا مضمون، زندگی گزارنے کی بہترین ’ٹپس‘ لیے ہوئے ہے۔ پروفیسر وسیم احمد کا مضمون ’دھو پ اور سایہ‘ تذکیر کا دل میں اُترتا پیغام ہے۔ یارا حواری نے اسرائیلی نسل پرست ریاست کی بدباطنی کو بیان کرکے ان دانش وروں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے، جو اسرائیل پر ریجھے جارہے ہیں۔

رؤیت ِ ہلال کے مسئلے کو حل کرنے کی موزوں ترین صورت یہی ہے کہ پورے شرعی قواعدو ضوابط اور تحقیق و تفتیش کے بعد ملک کے کسی ایک مرکزی مقام سے چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلانِ عام ایسے اصحاب کے ذریعے سے کیا جائے، جن کے دین و تقویٰ پر عام مسلمانوں کو اعتماد ہو، اور جن کی آواز ملک بھر میں پہچانی جائے، اور اس اعلان کو پورے ملک کے لیے معتبر تسلیم کیا جاناچاہیے۔

بہرحال اس ملک کے باشندے دینی معاملات میں جو اعتماد علما پررکھتے ہیں، وہ کسی اور پر نہیں رکھتے۔ برسرِاقتدار لوگوں کو ’مُلّا‘ سے جو بھی نفرت ہے، ہواکرے۔ مگر دینی معاملات میں عام مسلمان بہرحال ’مُلّا‘ ہی پر بھروسا رکھتا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ریڈیو پرکوئی خبریں سناتے ہوئے چاند ہونے کی اطلاع دے، اور ان کے ارشاد پر ملک میں روزے رکھے اورتوڑے جائیں۔ (’رسائل و مسائل‘ ، ترجمان القرآن،  جلد۵۶، عدد۶، اپریل ۱۹۶۱ء، ص۶۰-۶۱)