مضامین کی فہرست


فروری ۲۰۲۳

قرآن کریم انسانوں کو سمجھانے کے لیے اکثر روز مرہ کی مثالوں کا استعمال کرتا ہے تاکہ ایک غیر تعلیم یافتہ شخص ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ، وہ اس عظیم ہدایت کو نہ صرف سمجھے بلکہ اپنی نگاہوں اور عقل و فہم کا استعمال کرکے قرآن کریم کی تعلیمات کو بچشم سر خود دیکھ سکے ۔

قرآن کریم ایک بظاہر بنجر وادی کی مثال بیان فرماتا ہے، جہاں آس پاس کہیں بھی سبزہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہلکی سی بارش اس وادی کو سر سبز و شاداب کر دیتی ہے، اور وہ انسانی عقل جو کل تک اس وادی کے ویرانے کو حقیقت سمجھ رہی تھی، خود دیکھ سکتی ہے کہ وہاں ہر سمت سبزہ ہی سبزہ ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ہی سے کراچی تحریک اسلامی کی پہچان رہا ہے، اور جماعت اسلامی کے زیرانتظام بلدیاتی انتظامیہ کے اَدوار میں کراچی کے شہریوں نے دیکھا کہ تحریکی افراد کس طرح ایمان داری کے ساتھ عوام کی بہتری کے لیے شہر کا انتظام کر سکتے ہیں ۔ لیکن بہت سے اسباب سے خصوصاً شہرکراچی ایک دہشت گرد جماعت اور دوسری سیاسی مکر کی ماہر جماعت کے زیر اثر آجانے کے بعد سے جماعت اسلامی کے اثر اور مقبولیت میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی، اورا بلاغ عامہ نے خصوصاً اس تاثر کو گہرا کر دیا کہ ملکی سطح پر اب جماعت کا کوئی وجود نہیں ہے اور وہ جماعت جو دوحکمرانی کرنے والے ٹولوں کے بعد تیسری طاقت شمار ہوتی تھی ، اسے صحافت اور برقی ابلاغِ عامہ نے مکمل طور پر محو کر دیا۔

انھی حالات میں ربِّ کریم نے اپنے ابدی اصولوں کے پیش نظر ایک بار پھر قوم کو یہ دیکھنے کا موقع فراہم کیا کہ خلوص ، خوفِ الٰہی اور صبر و استقامت کو اختیار کیا جائے، تو جسے کل کمزور سمجھا گیا تھا اسے ربِّ کریم نے قوی کیا اور سرفراز کر دیا:

یاد کرو وہ وقت، جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا ، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا ، شائد کہ تم شکر گزار بنو۔ (الانفال۸:۲۶)

 اس آیت مبارکہ کو اگر موجودہ حالات کے تناظر میں پڑھا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ابھی ابھی نازل ہوئی ہے ۔

کراچی میں حالیہ کامیابی کے موقعے پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کل تک تحریکی کارکنوں سے گفتگو میں جو مایوسی اور نااُمیدی محسوس کی جا رہی تھی، ربِّ کریم نے انھی کارکنوں کے عزم ، ہمت ، جوش، اللہ پر توکّل او رخلوص کے ساتھ کی گئی کوششوں کو قبول فرمایا اور اپنی نصرت اور انتخابی کامیابی سے سرفراز کیا۔ کراچی میں تحریکی قیادت کو توفیق دی کہ وہ صحیح حکمت عملی وضع کرے اور کارکنوں کو حوصلہ دیا کہ وہ باد مخالف کا مقابلہ ایمانی اور عقابی روح کے ساتھ کریں اور کم تعداد اور محدود وسائل کے باوجود اپنے رب سے نصرت کے طالب رہیں ۔

سورۂ انفال میں ایک دوسرے مقام پر رب کریم فرماتے ہیں:

اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے۔(الانفال ۸:۶۴)

یہاں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اہل ایمان کی جدوجہد کو صبر و استقامت کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ ہم عموماً ’صبر‘ کا مفہوم ایک منفی زاویے سے اپنے آپ کو روکے رکھنے یا قابو میں رکھنے کا لیتے  ہیں۔ لیکن قرآن کریم اس اصطلاح کو وسیع معنی میں استعمال کرتا ہے ۔

یہاں پر خصوصاً ’صابرون‘سے مراد وہ مجاہدین ہیں، جو ربِّ کریم پر ایمان و اعتماد کے ساتھ اپنی جان اور مال بلکہ سارے وجود کے ساتھ نامساعد حالات سے ٹکرانے اور انھیں زیر کرنے کے لیے اپنی ساری قوت کو بروئے کار لانے والے ہوں ۔ یہاں ’صبر‘ سے مراد استقامت کے ساتھ جدوجہد کرنا اور ثابت قدمی سے جم جانا ہے اور ایک عزیمت کی مثال قائم کرنا ہے ۔ اس حوالے سے قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے:

 اےلوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو ، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اُمید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰)

یہاں تین بنیادی ہدایات انتہائی قابل غور ہیں:

  • اوّل یہ کہ اہل ایمان اگر کامیابی و کامرانی چاہتے ہیں تو وہ اللہ کے دین پر ثابت قدم ہو جائیں۔ چنانچہ صبر سے یہاں پر مراد استقامت اور راہِ حق پر جم جانا ہے ۔
  • دوسری اہم تعلیم یہ دی گئی ہے کہ حق کے مخالفین کے مقابلے میں کمزوری نہ دکھائی جائے اور سینہ سپر ہوکر اعتماد وتوکّل کے ساتھ اپنا تن من دھن اس راستے میں لگا دیا جائے۔
  • تیسری بات یہ سمجھائی گئی کہ حق کی سربلندی کے لیے چوکنے اور کمر بستہ رہیں اور فلاح اور کامیابی رب کریم کی ہدایت پر عمل کرنے سے ہی مل سکتی ہے۔

 کراچی کے انتخابات کے نتائج نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ جب بھی اللہ کی رضا کے لیے خلوص اور دعوتی غرض سے اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے حکمت عملی بنائی جائے گی ، کارکنوں کو مشاورت میں شامل کیا جائے گا، اور ا نھیں متحرک اور پُرامید کیا جائے گا، توربِّ کریم بھی اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے۔غیبی نصرت ہر قدم پر مددگار ہوگی۔ لیکن یہاں پر سب سے بنیادی بات جو قرآن و سنت اور اسوئہ حسنہؐ سے معلوم ہوتی ہے ، وہ یہ ہے کہ جب کامیابی سامنے ہو تو فخر و تکبر کی جگہ عاجزی اور شکر کے ساتھ استغفار کرنا لازمی ہے۔ جدوجہد کتنے ہی خلوص سے ہو، ہدایات پر کتنی بھی شدت سے عمل کیا جائے، لیکن اس سب کے باوجود انسانی کاوش میں کہیں نہ کہیں کمی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور (اے نبیؐ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (النصر۱۱۰: ۱-۳)

کامیابی حاصل ہونے پر کامیابی دینے والے کا شکر نہ صرف واجب ہے بلکہ کامیابی کو برقرار رکھنے اور نئی حکمت عملی اختیار کرنا بھی واجب ہے ۔ اس حکمت عملی کا آغازربِّ کریم کے شکر و نفل کے اعتراف ، اس کی حمد و ذکر اور تسبیح میں اضافے کے ساتھ ، اس کے حضور عاجزی اور انکسار سے اپنی بندگی کا اظہار، اور اس کے بندوں کی خدمت میں مزید اضافے کی کوشش بھی فرض ہوجاتی ہے۔

کامیابی کے حصول کے ساتھ ضروری ہے کہ بلا تاخیر اس بات پر غور کیا جائے کہ کہاں پر تمام کوششوں کے باوجود کیا کمزوری رہ گئی، جس کی وجہ سے مکمل ہدف حاصل نہ ہوسکا۔ تجزیے اور احتسابِ نفس کی ضرورت ہے، نیز اپنا اور اپنے تمام اقدامات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ جن مسائل اور اُمور کو بنیاد بنا کر مہم چلائی گئی، ان اُمور کے ماہرین کو جمع کر کے حد سے حد ایک ماہ میں ایسا منصوبہ بنایا جائے، جو قابلِ عمل ہو اور کم سے کم وقت میں نافذ کیا جاسکے ۔ جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کی تکمیل میں جو رکاوٹیں ہیں، ان سے عوام کو مکمل طور باخبر رکھا جائے اور ان کے مشوروں کو بھی شامل کیا جائے۔

جن حضرات نے اعتماد کا ووٹ دیا ہے، ان سے فرداً فرداً رابطہ قائم کیا جائے اور انھیں مشاورت میں شامل کیا جائے۔ جن حضرات نے تحریک پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ،انھیں تحریکی لٹریچر فراہم کیا جائے اور علمی و فکری مجالس کا انتظام کیا جائے۔ہر یونین کونسل میں صاحب الرائے حضرات سے الگ الگ مل کر ان کی تجاویز کو یکجا کیا جائے اور ان تجاویز پر غور کیا جائے ۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی صفات میں عہد، عقد اور وعدے کو پورا کرنے پر بہت متوجہ فرماتے ہیں۔ عوامی مہم میں عوام سے جو وعدے کیے گئے ہیں، انھیں بہ تدریج پورا کرنے کی کوشش کی جائے اور ان کے پورے ہونے کے مدارج سے عوام کو مطلع رکھا جائے۔

اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ صوبہ سندھ میں جاگیردارانہ سوچ کی حامل برس ہا برس سے حکمران پارٹی، جوڑ توڑ یا ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کرے، لیکن ایسے تمام منفی ہتھکنڈوں کا جواب صبر، حکمت اور اعتدال سے دینا ہوگا۔ معمولی سی بھی بے اعتدالی مخالف سیاسی قوت کے شرپسندانہ اقدامات کے لیے دروازے کھول دیا کرتی ہے۔

اس بات کو کون بھول سکتا ہے کہ ۱۹۸۶ء سے لے کر آج تک کراچی میں تحریک ِ اسلامی کے جوانوں اور بزرگوں نے اپنے مستقبل، اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی دے کر حق و صداقت کا پرچم بلند رکھا۔ بُرے سے بُرے حالات میں بھی اور جبروتشدد کے بدترین دور میں بھی ثابت قدمی، خیرخواہی اور اسلامی اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑا۔ ایک ایک دن میں تین تین کارکنوں کے جنازے اُٹھائے لیکن اشتعال کے بجائے، اللہ کریم ہی سے صبر،مدد اور سہارا مانگا۔ یہ تمام شہدا اور ان کے پسماندگان اس کامیابی کے وارث ہیں اور تحریک اسلامی کے کارکن ان قربانیوں کے امین ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ اسی کی توفیق سے ایک کمزور بندہ کامیابی تک پہنچتا ہے اور اسی کےکرم اور رزاقی سے ہمیں رزق ملتا ہے، جس سے ہمارا وجود وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریک کو مزید کامیابیوں سے نوازے۔

زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا:

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ (النجم۵۳:۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا بُرا)۔

غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے، جس پر انھوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز۔ ماؤنٹ ایورسٹ ۸ کلومیٹر بلند ہے، اگر میں ۱۰ کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر میں بحث کرنے کی کوشش کروں اور کہوں کہ وہ اور میں، دونوں زمین ہی پر تو چلے،تو لوگ اور بھی زور سے ہنسیں گے، کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے۔ اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اُتارے جاتے، تو یہ 'پہاڑ کی پیمایش کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔ کام کی مشکل ہی اسے باعزّت اور قابلِ قدر بناتی ہے۔

 لہٰذا اپنے آپ سے پوچھنے اور جواب سننے کے لیے، آپ کو اس بیرونی شور کو بند کرنا ہوگا، جو ہم نے اپنی مرضی سے اپنے آپ پر مسلّط کیا ہے۔ آپ اپنے دل کی بات سن سکتے ہیں، یا فون کو سن سکتے ہیں، آپ دونوں ایک ساتھ نہیں سن سکتے۔ براہِ مہربانی غور کریں آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں، 'میں کامیاب ہو سکتا ہوں؟ یا 'کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میں ضرور ناکام ہو جاؤں گا۔ دونوں جملےحقیقت نہیں ہیں، لیکن آپ کے لیے، دونوں درست ہو سکتے ہیں۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کس کو اکثر استعمال کرتے ہیں۔ میرے دوست ڈاکٹر فریڈولن سٹاری مجھے بتاتے ہیں کہ جرمن زبان میں ایک کہاوت ہے: ’’اُمید آخر میں مرتی ہے‘‘۔ ہمیں امید کو کبھی مرنے نہیں دینا چاہیے، اور اُمید کو حقیقت بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لہٰذا، پوچھیں کہ آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ وہیں سے شروع ہوتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اور توکّل کے تعلق کے بارے میں فرمایا:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ (الانفال۸:۲) مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں اور جب انھیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ اپنے رب پرمکمل بھروسا کرتے ہیں۔

 آپ براہِ مہربانی اپنے آپ سے پوچھیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر کھڑے ہو کر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو آپؐ کے دل پر کیا گزری ہو گی؟ جس چیز نے ان کو برقرار رکھا اور سہارا دیا وہ اللہ سے آپؐ کا تعلق تھا اور اللہ آپ کے لیے حقیقت تھا۔ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو فرماتے:

اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ، لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى الله عَلَيهِ وَسَلَّم حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَاِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَاِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا  اِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ ـ أَوْ لاَ اِلٰهَ غَيْرُكَ ،    اے میرے اللہ ! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے ، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے۔ آسمان اور زمین اور ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اور تعریف تیرے ہی لیے ہے ، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے ، تو سچا ہے ، تیرا وعدہ سچا ، تیری ملاقات سچی ، تیرا فرمان سچا ہے ، جنت سچ ہے ، دوزخ سچ ہے ، انبیا ؑ سچے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت کا ہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ ! میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں ، تجھی پر بھروسا ہے ، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں ، تیرے ہی عطا کیے ہوئے دلائل کے ذریعے بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں ، پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما ، خواہ وہ ظاہر میں ہوئی ہوں یا پوشیدہ ، آگے کرنے والا اور پیچھے رکھنے والا تو ہی ہے ، معبود صرف تو ہی ہے ۔

 ہمارا سب سے بڑا پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ ایک تصور اور ایک خیال ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ ہمارے لیے حقیقت ہیں ؟ اس بات کی نشانی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے حقیقت ہیں ، ہمارے اعمال میں مضمر ہے۔ جن کے لیے اللہ تعالیٰ حقیقت ہیں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے، وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہی تقویٰ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کا خوف ہے، چونکہ ہم اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

سب سے مشکل کام لوگوں کے ذہنوں، عقائد اور رویوں کو بدلنا ہے، لیکن یہ وہ کام تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کام سونپتے وقت، مقصد کو پورا کرنے کے لیےکوئی مادی مدد نہیں دی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی مؤرخ الفونس ڈی لامارٹین جیسے شخص نے بھی جو اسلام پر بہت تنقید کرتا تھا، اپنی کتاب تاریخ   ترکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اگر مقصد کی عظمت، اسباب کی کمی اور حیران کن نتائج تین معیار ہیں ایک انسانی ذہانت کا، تو کون تاریخ کے کسی عظیم انسان کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے موازنہ کرنے کی جرأت کر سکتا ہے؟‘‘

یہیں سے عقیدہ کے یقین کا مسئلہ آتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی دعوت میں سب سے پہلی اور سب سے زیادہ امتیازی خوبی، ان کا اپنے پیغام کی سچائی اور اہمیت پر مکمل ایمان، اعتماد اور یقین تھا۔ اس کے بغیر وہ کبھی اپنی کوشش کو جاری نہیں رکھ سکتے تھے اور کامیابی کا بظاہر کوئی نشان نہ ہونے کے باوجود مسلسل اپنی پوری کوشش کرتے رہے۔ یہی مقصد کی طاقت ہے۔ جب آپ اپنے مقصد کو جانتے ہیں، تو یہ آپ کو مضبوط کرتا ہے ، یہ آپ کو توجہ مرکوز رکھنے اور اپنے خوف سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔

 مشہور مصنف مارک ٹوین نے کہا تھا کہ ’’ہر آدمی کی دو سالگرہ ہوتی ہیں، جس دن وہ پیدا ہوا تھا اور جس دن اسے پتہ چلا کہ کیوں؟‘‘۔ میں جانتا ہوں کہ میں کس دن پیدا ہوا تھا، لیکن کیا یہ بھی جانتا ہوں کہ کیوں پیدا ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس لیے پیدا کیا؟ مجھے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے، جس کی بنیاد پر میرا فیصلہ کیا جائے گا؟ اب ذرا خاموشی سے بیٹھیں اور اپنے آپ سے تین سوال پوچھیں:

۱-میں کیوں زندہ ہوں؟

۲-کیا کھوجائے گا اور کس کے لیے، جب میں اس زندگی سے رخصت ہو جاؤں گا؟

۳- میں اپنے وجود کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے کیا کر رہا ہوں؟

یاد رکھیں کہ اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے، لیکن یہ سب سے اہم چیز ہے جو آپ کر سکتے ہیں اور جو آپ کو سب سے بہترین نتائج دے گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ فرق پڑتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی قابل قدر ہو یا نہیں، یہی آپ کی حقیقی سالگرہ ہوگی۔ وہ دن نہیں جس دن آپ پیدا ہوئے تھے، بلکہ جس دن آپ کو معلوم ہوا کیوں پیدا ہوئے؟ جو زندگی، ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے گزاری گئی، انسان کی زندگی ہے، جو زندگی ہرخواہش اور شوق کو پورا کرنے کے لیے گزاری گئی، وہ تو محض ایک جانور کی سی زندگی ہے۔ ہمیں اپنے لیے انتخاب کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے زندگی کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶  مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝۵۷  اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُ۝۵۸ (الذاریات۵۱:۵۶-۵۸)

میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی رضا کے لیے پیدا کیا ہے۔ اُس نے باقی مخلوقات کو لوگوں کی خدمت کے لیے بنایا جو اُسے خوش کرتے ہیں۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں مشغول ہوتے ہیں تو سب کچھ اپنی جگہ پر آ جاتا ہے۔ ہم مطمئن اور معزز رہتے ہیں، اثر و رسوخ کے مالک بنائے جاتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہتے ہیں، اور خوش رہتے ہیں۔ جب ہم ان سب کو اپنے طور پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کی پروا کیے بغیر، کہ ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں یا نہیں، تو ہم تناؤ، پریشانی، خوف، ذلت اور افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے پہلے ہی لکھ دیا ہے اس کا پیچھا کرنا اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز پر ہمیں قابو میں دیاہے اسے نظر انداز کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ ہم آخرت میں اپنے لیے جو چاہیں لکھیں۔ اگر ہم اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں تو ہم اس زندگی میں مطمئن ہوں گے اور آخرت میں جنت حاصل کریں گے، اگر نہیں، تو اس کے برعکس ہونے کا امکان ہے۔

امام حسن بصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کس طرح قناعت کی زندگی گزاری اور کسی چیز کے بارے میں آپ کو تناؤ سے دوچار نہیں ہونا پڑا؟ انھوں نے کہا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور عبادت کوئی اور میرے لیے نہیں کر سکتا، اس لیے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت پر توجہ دیتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی اور نہیں لے سکتا، اس لیے میں اس کی فکر نہیں کرتا۔ میں جانتا ہوں کہ ایک دن میں مر جاؤں گا، اس لیے میں اس دن کی تیاری کرتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے، اس لیے مجھے ہر وہ کام کرتے ہوئے شرم آتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے‘‘۔ میں اپنے آپ کو اور آپ کو اس پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔

اسلام ہمیں دنیا میں کسی کام سے نہیں روکتا بشرطیکہ وہ حلال ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں رہنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے امکانات پیدا کیے ہیں، اور ساتھ ہی اس کے لیے سرحدیں بھی متعین کردی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ممانعتیں ہیں۔ جب تک ہمارے اعمال ان حدود میں ہیں اور ہم ان چیزوں سے دور رہیں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، تو اللہ کی اطاعت میں اس صبر کا نتیجہ ہم جنت میں حاصل کریں گے۔ چونکہ انتخاب ہمارا ہے، لہٰذا دانش مندی سے انتخاب کریں۔

تحریری پیڈ اور پنسل ہاتھ میں رکھیں، اپنے مقصد کے بارے میں اپنے خیالات لکھیں۔ میں پنسل کہتا ہوں کیونکہ آپ کچھ چیزوں کو مٹا کر ان پر لکھنا چاہیں گے، وہ ضرور کریں، ہچکچاہٹ نہ کریں، آخر میں ۸/۱۰  الفاظ میں اپنےمقصد کو بیان کریں۔ اپنے مشینی یا الیکٹرانک آلات پر ایسا کرنے کی کوشش نہ کریں، کاغذ اور پنسل کا استعمال کریں۔ لکھنا دماغ کی طاقت کو جس طرح دعوت دیتا ہے، وہ فون یا ٹیبلٹ کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ لکھیں کہ یہ لکھنا ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔

 پھر اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھیں:’’آگے بڑھنے کے لیے مجھے کون سی تین چیزیں کرنی ہیں؟‘‘ یاد رکھیں، ہم ' آخری نتیجہ کی بات نہیں کر رہے ہیں ، ہم اس عمل کی بات کر رہے ہیں جو ہمیں آگے لے جائے گا۔ اگر آپ کسی منزل کی طرف گاڑی چلا رہے ہیں، اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا آپ صحیح سمت میں جا رہے ہیں؟ آپ اپنی منزل کے راستے میں پہلے شہر کے نشانات تلاش کرتے ہیں، پھر اگلا یہاں تک کہ آپ کو اپنی منزل کے آثار نظر آنے لگیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں صراط مانگنا سکھایا، الصراط المستقیم، سیدھا راستہ، ثابت قدمی کا راستہ، انبیا علیہم السلام کا اور ان لوگوں کا جن پر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا۔ اسلام میں راستہ اور منزل دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں، طریقے اور ذرائع۔ لہٰذا مقصد کو اپنے سامنے رکھیں اور پوچھیں: ’’اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مجھے سب سے پہلے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‘‘ یہ آپ کے جاگنے کے وقت کو تبدیل کرنا ہو سکتا ہے، یا آپ کا روزانہ کا شیڈول، یا اپنے دوستوں کی فہرست۔ عام طور پر، یہ تینوں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔

 یہ تبدیلی تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ کو مقصد کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ کو یاد دلائے گا کہ کام کی مشکل ہی اسے باعزت اور قابل قدر بناتی ہے۔

اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھیں:’’ آگے بڑھنے کے لیے مجھے تین چیزیں کیا کرنی ہیں؟‘‘ اپنی فہرست میں پہلی چیز پر توجہ دیں، جب آپ اسے ختم کر لیں تو اگلے پر جائیں۔ اگر آپ کو خلل پڑتا ہے، تو واپس جائیں، اور پہلا کام مکمل کریں۔ اپنی ترجیحی فہرست میں کسی کام کو کبھی نہ چھوڑیں، چاہے وجہ کچھ بھی ہو۔ ان وجوہ کو ختم کر دیں جو آپ کو اپنی ترجیحات سے دُور لے جاتی ہیں۔ ارتکاز یا فوکس غیر ضروری چیزیں نظر انداز کرنے کا فن ہے، جب کہ ملٹی ٹاسکنگ اور بہت سے جھنجٹ پالنا خلفشار کا دوسرا نام ہے۔ جب آپ ایک چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو آپ کو جان بوجھ کر باقی تمام چیزوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ زندگی کی ہر چیز میں کامیابی کا راز یہی ہے۔ جیتنے والے ایک کام پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جب تک کہ یہ مکمل نہ ہوجائے۔ جیتنے والوں اور ہارنے والوں کے درمیان فرق ارتکاز ہے۔

انٹرنیٹ کی بدولت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے ذرائع ہی کئی گنا بڑھے ہیں اور بدل گئے ہیں، مگر سیکھنے کا قانون ہرگز تبدیل نہیں ہوا۔ کشش ثقل کے قانون کی طرح، یہ ایک بنیادی قانون ہے، یہ کبھی نہیں بدلتا۔ سیکھنے کا قانون یہ ہے کہ سیکھنا اخلاص، ارتکاز اور استقامت کا عنصر ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ معلومات تک رسائی کے لیے کون سے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ یہ گہرے غور و فکر، سوچ سمجھ کر مشق کرنے اور اسباق کو تصور کرنے کے بعد ہی علم میں ڈھلتا ہے۔ ہم معلومات کو علم کے ساتھ الجھاتے ہیں اور حکمت کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار وہی غلطیاں کرتے ہیں اور بلاوجہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ الیکٹرانک گیجٹس کو بھول جائیں اور ارتکاز پیدا کریں۔

 اللہ تعالیٰ نے نماز میں ارتکاز کا ذکر فرمایا:

الَّذِيْنَ ہُمْ فِيْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ۝۲ۙ (المؤمنون۲۳:۲) جو اپنی نمازیں پورے خلوص اور پوری تواضع کے ساتھ پڑھتے ہیں۔

نماز میں ’خشوع‘ ارتکاز کا عنصر ہے۔ اندرونی اور بیرونی تمام خلفشار کو نظر انداز کرنے اور صرف اللہ پر توجہ مرکوز کرنے کا نام ’خشوع‘ ہے۔ آج ہم ایسے دور میں رہتے ہیں، جہاں ارتکاز کی کمی کو ایک خوبی بنا دیا گیا ہے۔ اساتذہ، سرپرستوں، یہاں تک کہ والدین کو بتایا جاتا ہے کہ بچے کسی بھی بات یا کام پر ۳۰سیکنڈ سے زیادہ توجہ مرکوز نہیں کر سکتے ۔ آپ کو پوچھنا چاہیے کہ یہ کس کے بچے ہیں؟ انسانی بچے یا بندر کے بچے؟ حقیقت یہ ہے کہ ارتکاز، پٹھوں کی طرح، محنت سے بنتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے بچوں کو ۳۰سیکنڈ سے زیادہ ارتکاز اور تحمل نہیں سکھایا تو آپ کو یہی نتیجہ ملے گا۔ ایک لمحے کے لیے رُکیں اور پوچھیں کہ وہی بچے جن کے بارے میں آپ دعویٰ کرتے ہیں، کہ ۳۰سیکنڈ سے زیادہ کوئی فائدہ مند بات نہیں سن سکتے، وہ ٹی وی اسکرین پر فیفا کے میچ  یا ون ڈے کرکٹ کو دن یا رات کے کسی بھی وقت گھنٹوں چپکے بیٹھ کر کیسے دیکھتے ہیں؟

گویا کہ یہ توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کا یا رضامندی کا سوال ہے۔ رضامندی، وجہ پر منحصر ہے۔ اگر ہم اس میں قدر دیکھتے ہیں تو ہم توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ ہم کس چیز کی قدر دیکھتے ہیں، جس کے لیے ہم اپنے پاس موجود واحد غیر قابل تجدید وسیلہ خرچ کرنے کے لیے ہروقت تیار ہیں۔ یہ غیرقابل تجدید وسیلہ یعنی ہمارا وقت ہے، جو زندگی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کیونکہ وقت کے ختم ہونے کا نام ’موت‘ ہے ۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ واقعی یہاں کیا دیکھ رہے ہیں؟ آپ اُن غلاموں کی مجبور زندگی کو دیکھ رہے ہیں جو بدمعاش قائدین کے ہاتھ کے کھلونے ہوتے ہیں، جیسا چاہا استعمال کر لیا۔ غلامی ایک ذہنیت ہے۔ کیا آپ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے یہ چاہتے ہیں؟ اگر نہیں، تو اس کے بارے میں کچھ کیجیے۔ یاد رکھیں کہ غلامی کی زنجیریں ذہن میں ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ آپ فیصلہ کریں کہ آپ کے لیے کیا اچھا ہے اور جو اچھا ہے اسے کرنا سیکھیں۔ ہرنئی چیز، بغیرکسی استثناء کے، سب سے پہلے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ہرمعاملے کے بعد،ہر وہ چیز جس کے لیے آپ نے وقت گزارا، ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھیں: ’’مجھے اس سے کیا حاصل ہوا؟ اور میں نے کیا سیکھا؟‘‘ یہ سوال سوچنا آپ کی زندگی کا قرینہ بدل دے گا، مکمل طور پر۔

دوسرا سب سے اہم کام مسئلہ حل کرنے والی ذہنیت کو تیار کرنا ہے۔ جب کسی چیلنج کا سامنا ہو تو دیکھیں کہ آپ کے اختیار میں کیا ہے، اور اسے کریں۔ جس چیز پر آپ قابو نہیں پا سکتے، اس میں نہ پھنسیں۔ لوگ کبھی کبھی اپنے اردگرد موجود مصیبتوں کو دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں، 'خدا تمام بیماروں اور بھوک سے مرنے والے لوگوں کے بارے میں کچھ کیوں نہیں کرتا؟ جواب ہے، 'خدا نے پہلے ہی انسان کو بہت کچھ عطا کر دیا ہے۔ اس نے آپ کو پیدا کیا ہے۔ آپ کو کم از کم ایک بھوکے کو کھانا کھلانے، ایک بچے کی تعلیم کا خرچہ برداشت کرنے، ایک بیمار کے ہسپتال کا بل ادا کرنے کے ذرائع عطا فرمائے۔ اگر آپ سو آدمیوں کو نہیں کھلا سکتے تو ایک کو ضرور کھلائیں۔ اگر آپ اسکول نہیں بناسکتے تو ایک بچے کے اسکول کی فیس ادا کریں۔ ہم ہرمسئلے کو عالم گیر بنادیتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر اپنی بے عملی کا جواز پیش کرتے ہیں:’’آخر میں صرف ایک شخص ہوں، میں کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔ اس کے برعکس ، سمجھ دار لوگ عالمی مسئلے کو مقامی بناتے ہیں اور پوچھتے ہیں:’’میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ وہ لوگ جو مدد کرنا چاہتے ہیں، دوسروں پر الزام نہ دھریں بلکہ خود سے پوچھیں، 'میں کیا کر سکتا ہوں؟ اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ہم عمل کریں، محض شکایات کا دفتر نہ کھولیں۔ مسائل کو شکایات نہیں، حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب ایک کھڑکی کھلتی ہے، اور ان کے پاس اثر انداز ہونے کا منفرد موقع ہوتا ہے۔ کامیابی کے لیے ہمیں تیاری، اور ہمت کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔

ہماری ترقی اور خوشی کے لحاظ سے ہمارا انتخاب بڑے مختلف نتائج مرتب کرتا ہے ۔ لیکن ہرانتخاب کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ بے وقوف لوگ پہلے قیمت معلوم کیے بغیر انتخاب کرتے ہیں اور پھر جب انتخاب کی قیمت کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو حیران اور مایوس ہوتے ہیں۔

زندگانی کے اس میدان میں’شکار‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مشکلات اور مصائب کے بارے میں محض شکایت کرتے رہتے ہیں، بہانے سوچتے ہیں، دوسروں پر الزام لگاتے ہیں، اُمید کھو دیتے ہیں، اور فنا ہو جاتے ہیں۔ ایسا ’شکار‘ افراد، گروہ، یا قومیں ہو سکتی ہیں۔ ’شکار‘ ذہنیت کا موقف ایک جیسا ہی ہوتا ہے : شکایت اور الزام۔ جب ’شکار‘ ذہنیت رکھنے والے لوگ اپنے آپ کو مشکلات میں پاتے ہیں، تو وہ کسی اور کو قصوروار ٹھیرانے کے لیے قربانی کے بکرے ڈھونڈتے ہیں ۔ وہ سازشی نظریات ایجاد کرتے ہیں اور ایسی 'محصور ذہنیت کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ ہر کسی کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے مسائل کی واحد وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر کوئی انھیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ یہ سوچنے سے باز نہیں آتے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس پر الزام لگاتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنی کوتاہی اور بے علمی کو خود پر لاگو کرتے تو فوراً جاگ جاتے!

دوسری طرف سمجھ دار وہ لوگ ہیں، جو مشکل اور مصیبت کا سامنا ہونے پر پہلے اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس صورت حال میں کیسے اور کیوں آئے؟ پھر وہ اس صورتِ حال کے لیے حل تلاش کرتے ہیں۔ ان میں نئے طریقے آزمانے کی ہمت ہوتی ہے۔یہ کامیابی کا راستہ ہے کیونکہ اگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے صورتِ حال پیدا کی ہے، تو ہم اس کا حل بھی نکال سکتے ہیں۔

قرآن مجید میں ایک بہت ہی بنیادی بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں‘‘۔ اس علم سے کون سا علم مراد ہے اور اس کے حصول کے طریقے یا ذرائع کیا ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہیںکہ دنیا میں علم کی وہ کون کون سی شاخیں ہیں، جوخشیت الٰہی کے اس مقام تک پہنچنے میں معاون ہیں؟ ان باتوں کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس آیت قرآنی کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے جس میں یہ بات کہی گئی ہے۔ قرآن کریم کی اُس آیت کا ترجمہ مع ماقبل آیت کے اس طرح ہے: ’’کیا تم نے نہیں دیکھاکہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعے کئی طرح کے پھل نکال دیئے، جن کے رنگ جداگانہ ہیں اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ قطعے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیںاور کچھ گہرے سیاہ ہیں۔اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی مختلف رنگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔بے شک اللہ سب پر غالب اور بہت بخشنے والا ہے۔‘‘ (فاطر۳۵: ۲۷-۲۸)۔

ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں علم سے اللہ تعالیٰ، اس کی قدرت، اس کی تخلیقی عظمت اور اس کی عقل کو حیرت زدہ کرنے والی خلاقی فن کاری کی معرفت مراد ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کے لیے یا معرفت کے اس مقام تک پہنچنے کے لیے قرآن کریم نے یہاں چند چیزوںکی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ان میں سب سے اوّل بارش کا نظام ہے۔ قرآن نے انسان کو یہ ترغیب دی ہے کہ وہ بارش کے نظام پر غور کرے اور اس کے پیچھے کارفرما  اللہ کی قدرت کو سمجھے۔یہ خالصتاً سائنس بالخصوص جغرافیہ ، ماحولیاتی سائنس اور موسمیات (Meteorology) سے متعلق علم ہے۔ اگر پورے آبی چکر (Water Cycle) کا ہم گہرائی سے جائزہ لیں تو قدرت کے نظام کی عظمت اور ہیبت مانے بغیر نہیں رہیں گے۔ پانی کس طرح زمین کی سطح، دریاؤں، تالابوں، سمندروں وغیرہ سے عمل تبخیر (Evaporation) کے ذریعے اور درختوں،پیڑ پودوں سے اخراجِ بخارات کے عمل (Transpiration) کے ذریعے بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور عمل تکثیف (Condensation) کے ذریعے بادلوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے، پھر ہوا ان بادلوں کو دُور دراز کے پہاڑوں، میدانی علاقوں، دریاؤں اور سمندروں کے اُوپر بکھیردیتی ہے جہاں بارش ہوتی ہے اور دریاؤں و سمندروں کے ساتھ تراوش اور رساؤ (Percolation) کے ذریعے زمین کے اندر پانی کی سطح بنی رہتی ہے اورہم جہاں چاہیں وہاں سے کنوؤں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے پاک و صاف پانی حاصل کرلیتے ہیں۔ صاف پانی بڑی مقدار میں برف کی شکل میںپہاڑوں پر بھی جمع کردیا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے پگھل کر دریاؤں اور سمندروں کو زندہ رکھتا ہے اور زمینی سوتوں (Water Veins) کے ذریعے بھی دور دراز کے میدانی علاقوں تک پہنچ جاتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت اتنی بڑی مقدار میں سمندر کے پانی کو مکمل طور پر صاف کرکے پہاڑوں پر جمع کرنے یا میدانی علاقوں تک پہنچانے کا یہ انتظام نہیں کرسکتی اور نہ زمین ہی کے اندر پانی کی سطح کو برقرار رکھ سکتی ہے، جو قدرت کی منصوبہ بندی سے خود بخود جاری ہے۔

دوسری چیز جس کی طرف ان آیات نے ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ یہ ہے کہ بارش کا یہ پانی جب مختلف ذرائع سے خشک اور مردہ زمینوں تک پہنچ جاتا ہے تو پیڑ پودوں اور پھولوں و پھلوں سے وہ لہلہا اٹھتی ہیں۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی قسم کے پانی سے سیراب ہونے کے باوجود اس میں مختلف رنگوں اور اقسام کے پھول اور پھل نکلتے ہیں، جن کی خوشبو اور ذائقہ بھی جدا جدا ہوا کرتا ہے۔ انسان کیا سمجھتا ہے کہ یہ سب خود بخود ہورہا ہے؟ نہیں! بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے، جو ذرا بھی گہرائی سے سوچنے سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ علم، نباتیات (Botany) اور زراعت (Agriculture) کے شعبے سے متعلق ہے۔

تیسری چیز جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ مبذول کرائی ہے، وہ پہاڑوں کی ساخت اور ان کی رنگت میں پایا جانے والا اختلاف ہے جو کہ جغرافیہ ، علم الارض (Earth Science) اور علم زمین شناسی (Geology) کا موضوع ہے۔ بعض پہاڑ سفید، بعض سرخ اور بعض بہت گہرے سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض پہاڑ بالکل خشک، بنجر اور ویران ہوتے ہیں، جب کہ بعض پیڑ پودوں اور جنگلات سے سرسبزو شاداب۔ پھر اس پر بھی غور کیجیے کہ پہاڑوں سے کتنے اقسام کے نامیاتی (Biotic) اور غیر نامیاتی (Abiotic) قدرتی وسائل حاصل ہوتے ہیں۔انھیں کس نے پہاڑوں میں جڑ دیا ہے؟ یہ بھی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی قدرت اور صناعی کا مظہرہیں۔

چوتھی چیز جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ مبذول کرائی ہے وہ انسان کی خود اپنی صورت اور جانوروں و مویشیوں کی ساخت اور ان کارنگ و روپ ہے۔ ان میں اتنا تنوع (Diversity) اور پیچیدگی (Complexity) ہے کہ اگر ان پر غور کیا جائے تو ایک درجے کے بعد انسان کا ذہن یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اللہ کی قدرت بہت بڑی ہے۔ بشریات (Anthroplogy) ، حیاتیات (Biology) ، جینیات (Genetics) ، میڈیکل سائنس، بیطاریات (Veterinary Science) وغیرہ جن سے ان کا علم جڑا ہوا ہے، ان میں آئے دن نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں۔ سائنس کی ہر تحقیق دراصل مخلوقات میں پنہاں اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو ہی منظر عام پر لارہی ہے۔

قرآن کی سورۂ روم آیت ۲۱ میں انسانوں میں رنگوں کے اختلاف کے ساتھ بول چال اور زبانوں کے اختلاف کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اتنی ساری زبانیں اور بولیاں (Dialects) انسان کو کس نے سکھائے؟ آج بھی ماہرین لسانیات (Linguists) بہت سی قدیم زبانوں کی تحریروں کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں،جو تاریخی تحقیق کی بنا پر کتبے یا مخطوطے کی شکل میں منظر عام پر آئی ہیں۔ پھر انسانی رویے کو سمجھنے سے متعلق علوم کے شعبے جیسے نفسیات، عمرانیات، سیاسیات، اقتصادیات وغیرہ ان کے علاوہ ہیں۔

  • تدبر اور غوروفکر کی دعوت: علم کے ان تمام شعبوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں، جو علم رکھنے والے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان علم کے ان میں سے کسی بھی شعبے میں جتنی گہرائی سے مطالعہ کرتا جائے گا اور جتنی زیادہ مہارت و درجۂ کمال کی طرف بڑھے گا، اتنا ہی اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگی ، اتنا ہی وہ اس کی قدرت، حکمت اور عظمت کا قائل ہوگا۔ ان علوم کو حاصل کرنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچان سکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی تک سطحی علم کا مالک ہے، اس نے ان میں گہرائی سے غور و فکر ہی نہیں کیا۔

اسی طرح قرآن دیگر آیات (جیسے انعام: ۹۶، الاعراف: ۵۴، یونس: ۵، الرعد: ۲، النحل: ۱۲، الانبیاء: ۳۳، الحج: ۱۸، العنکبوت: ۶۱، لقمان: ۲۹، فاطر: ۱۳، یٰسین: ۴۰ وغیرہ) میں انسان کی توجہ سورج، چاند، ستاروں اور سیاروں کی طرف بھی مبذول کراتا ہے اور ان کی ساخت، ان کی حرکات و سکنات، ان کے مدار، مدار میں ان کی رفتار،اور ان کے درمیان قائم توازن پر بھی غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے، تاکہ وہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حکمت و منصوبہ بندی کو سمجھ کر اس کو پہچانے۔ یہ پوری کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور قدرتِ کاملہ کی آئینہ دار ہے۔ اس کی تمام چیزیں پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے لیکن ان کی پکار سننے اور سمجھنے کے لیے کامل علم (Perfect Knowledge) اور صحیح فکر (Judicious Thought) چاہیے۔ آدھے ادھورے علم سے معرفت کا یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا!

قرآن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے: سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (حٰمٓ سجدۃ ۳۲: ۵۳)’’عنقریب ہم انھیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ (قرآن) بالکل حق ہے‘‘۔

اس کائنات میں قدرت کی نشانیاں سب سے پہلے اور بہ آسانی کس کو سمجھ میں آسکتی ہیں؟ ظاہر ہے کسی عالم تکوینیات (Cosmologist)یا عالم فلکی طبیعات (Astrophysicist)کو۔ کہکشاؤں (Galaxies) اور بلیک ہولز (Black Holes) کو دیکھ دیکھ کر آج کون حیران و پریشان اور حواس باختہ ہے؟ ظاہر ہے ماہرین فلکیات (Astronomers) ! سائنس در حقیقت اس کائنات میں موجود قدرت کی نشانیوں کی پرتیں ہی کھول رہی ہے۔اسی طرح اپنے وجود کے اندر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں کس کو بہتر طور پر سمجھ میں آسکتی ہیں؟ ظاہر ہے علم تشریح الابدان (Anatomy) ، علم افعال الاعضاء (Physiology) یا علم النفس (Psychology) کے کسی ماہر کو ، شرط یہ ہے کہ وہ ایمان داری سے ان پر غور و فکر کرے یا اس کی صحیح ڈھنگ سے رہنمائی کی جائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر علم کے تمام شعبوں کے اسلامائزیشن (Islamization) کی ضرورت ہے۔ایسا شخص جو قدرت کے نظام اور اس کی مخلوقات میں صحیح منہج پر غور و فکر کرے گا ، وہ ملحد تو نہیں رہے گا۔

واضح رہے کہ قرآن کریم مختلف علوم و فنون کے درمیان تفریق نہیں کرتا، برخلاف اس کے ہر اس علم کی طرف انسان کی توجہ مبذول کراتا ہے بلکہ ان پر تحقیق کی دعوت دیتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت کی طرف لے جائے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ علما سے یہاں روایتی یا اصطلاحی علما ہی مراد نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ بھی مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت رکھتے ہوں، گو ان کا تعلق سائنسی علوم کے کسی شعبے سے ہی ہو۔ جو جتنی اللہ کی معرفت رکھتا ہے، اتنا ہی اس سے ڈرتا ہے۔ عبادات کا حقیقی لطف بھی ایسے ہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ ایک اللہ کی عبادت نہیں کرتے ، اس کی پیدا کردہ چیزوں کو ہی اس کا شریک ٹھیراتے ہیں، اس کے احکام سے رُوگردانی کرتے ہیں اور لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں ، وہ درحقیقت اللہ کی صحیح معرفت نہیں رکھتے۔

خیال رہے کہ قوانین شریعت کا علم اور چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور شے! شریعت کا علم رکھنے والے بہت سے افراد بھی اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت نہیں رکھتے، نتیجتاً خوف خدا سے عاری اور اس کی حکم عدولیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو معرفت خداوندی میں کامل اور خشیت الٰہی سے لبریز ہوتے ہیں لیکن شریعت کا بہت علم نہیں رکھتے۔

  • ایک سچّا واقعہ:اب اس بات پر ایک سچا واقعہ ملاحظہ کیجئے جسے بیان کرنے والے علامہ عنایت اللہ مشرقی (۲۵؍ اگست ۱۸۸۸ء ۔ ۲۷؍ اگست ۱۹۶۳ء) لکھتے ہیں:’’۱۹۰۹ء کا ذکر ہے، اتوار کا دن تھا اور زور کی بارش ہورہی تھی۔ میں کسی کام کے لیے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینس (۱۱؍ ستمبر ۱۸۷۷ء ۔ ۱۶ ؍ ستمبر ۱۹۴۶ء )پرنظر پڑی، جو بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے۔ میں نے قریب ہوکر سلام کیا۔ انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوبارہ سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اور کہنے لگے، ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘، میں نے کہا، دو باتیں؛ اوّل یہ کہ زور کی بارش ہورہی ہے اور آپ نے چھاتا بغل میں داب رکھا ہے۔ اگر کوئی مصلحت مانع نہ ہوتو تان لیجیے۔ سر جیمز اپنی بدحواسی پر مسکرائے اور چھاتا تان لیا۔

دوم یہ کہ آپ جیساشہرۂ آفاق (سائنس داں) چرچ میںعبادت کے لیے جارہا ہے، یہ کیا؟ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں سائنس کے انکشافات اور نوبنو حقائق نے مذہب کو تعلیمی حلقوں سے باہر نکال دیا تھا اور تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کے نام سے بیزار ہوچکا تھا۔ میرے اس سوال پر پروفیسر جیمزلمحہ بھر کے لیے رُک گئے اور میری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے: ’’آج شام کو چائے میرے ساتھ پیئو۔‘‘ میں شام کے وقت ان کی رہایش گاہ پر پہنچا۔ ٹھیک چاربجے لیڈی جیمز باہر آکر کہنے لگیں ، ’’سر جیمز تمھارے منتظر ہیں‘‘۔اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے ’’تمھارا سوال کیا تھا؟‘‘ اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اجرامِ آسمانی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام ، لرزہ فگن پنہائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں، نیز باہمی کشش اور طوفان ہائے نور پر وہ ایمان افروز تفاصیل پیش کیں کہ میرا دل اللہ تعالیٰ کی اس داستان کبریا و جبروت سے دہلنے لگا اور ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے ، آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں۔ اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے: ’’عنایت اللہ خان! جب میں اللہ کے تخلیقی کارناموں پر ایک سرسری سی نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے تصور و جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب کلیسا میں اللہ کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں ’’تو بہت عظیم ہے، تو بہت بڑا ہے‘‘ تو میری ہستی کا ہر ہر ذرہ میرا ہم نوا بن جاتا ہے، مجھے بے حد سکون و سرور نصیب ہوتا ہے اور ان سجدوں کے بعد میں کچھ ہلکا سا محسوس کرنے لگتا ہوں۔ عام لوگوں کی صرف زبان نماز پڑھتی ہے اور میری ہستی کا ہر ہر ذرہ محو تسبیح و تمجید ہوجاتا ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت ہزار گنا زیادہ کیف نماز میں ملتا ہے۔ کہو تمھاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے میں کیوں جاتا ہوں؟‘‘

میں نے کہا: ’’جناب والا ، میں آپ کی روح افروز تفاصیل سے بے حد متاثر ہوا ہوں ۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یاد آگئی ہے، اگر اجازت ہو تو پیش کروں؟ ‘‘ فرمایا: ’’ضرور ‘‘۔ چنانچہ میں نے آیت پڑھی: وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ۝۲۷ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ۝۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۝۰ۭ  (فاطر۳۵: ۲۷-۲۸) [پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ قطعات ہیں جن کے رنگ مختلف ہیںاور کچھ گہرے سیاہ ہیں۔اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی مختلف رنگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔]

            یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمز بولے: ’’کیا کہا؟ اللہ سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔ حیرت انگیز ! بہت عجیب! یہ بات جو مجھے پچاس برس کے مسلسل مطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی، محمدؐ کو کس نے بتائی؟ کیا قرآن میں واقعی یہ آیت موجود ہے؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے۔ محمدؐ کو یہ عظیم حقیقت خود بخود کبھی معلوم نہیں ہوسکتی تھی، انھیں یقینا اللہ نے بتائی تھی۔ بہت خوب! بہت عجیب! ‘‘ اور سر جیمز کئی منٹ تک اس آیت پہ سر دھنتے رہے اور محمد عربی علیہ السلام کی خدمت اقدس میںخراج عقیدت پیش کرتے رہے‘‘۔ (ماہنامہ نقوش، لاہور، شخصیات نمبر۲، اکتوبر ۱۹۵۶ء، صفحات ۱۲۰۸۔۱۲۰۹)۔یہ واقعہ محض ایک مثال ہے۔ پروفیسر جیمزنے اپنے علم، مشاہدے، تجربات اور تفکرات سے اللہ کو پہچان لیا۔

 اسی طرح مسلمانوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ سائنس کے ایسے عالموں کو حکمت کے ساتھ انھی کے سائنسی اسلوب میں بھی دین کی دعوت دیتے اور انھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی پہچان کراتے، لیکن مسلمانوں نے اس کام پر توجہ نہیں دی بلکہ روایتی علما کے ایک بڑے طبقے نے سائنس پڑھنے والوں کو جاہل سمجھا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس طرح علما نے سائنس سے وابستہ ایک بڑے حلقے کے یہاں اپنے داخلے کا راستہ ہی بند کرالیا اور دعوت کے متوقع مواقع گنوا دیئے۔ چنانچہ دونوں ہی طبقے ایک دوسرے سے کٹ گئے۔ مسلمانوں کی تمام تر توجہ روایتی علوم کی طرف ہی مرکوز رہی الا ماشاء اللہ اور سائنس کے میدان میں ہم کافی پیچھے رہ گئے۔ سائنس کی افادیت سے آنکھیں بند کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان بالخصوص روایتی علما سائنس اور ٹکنالوجی کے تئیں اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لائیں ، اگرچہ پہلے کے مقابلے میں اس معاملے میںبہت نمایاں فرق واقع بھی ہوا ہے۔ مسلم ماہرین سائنس کو بھی چاہیے کہ وہ قرآن و حدیث سے اپنا تعلق جوڑیں ، دعوتی فکر اختیار کریں اور اپنے اپنے شعبے کے علم کو اسلامائز کرکے دوسروں کے لیے مشعل راہ بنیں

اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اپنے ماضی قریب کی تاریخ کو ایک مسلمان کی نگاہ سے دیکھوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کروں کہ تاریخ کے یہ نشیب و فراز تحریک ِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے کس رجحان کا پتا دے رہے ہیں؟ تاریخ ایک آئینہ ہے، جس میں ایک قوم کے اجتماعی تشخص کا سراپا دیکھا جاسکتا ہے۔اس کی اصل قامت، اس کا رنگ و رُوپ، اس کے خدوخال، اس کے جذبات و احساسات، ہرچیز کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں اس میں صاف نظر آجاتی ہیں۔ تاریخ محض بادشاہوں کی داستان اور سیاسی بساط کے رنگ و آہنگ کا نام نہیں۔ یہ تو پورے تہذیبی سرمایے کی عکاس ہوتی ہے۔ واقعات کے دھارے میں تہذیبی شخصیت کا پورا اُبھار دیکھا جاسکتا ہے۔

میں نے حوادث کے پردے سے جھانک کر تہہ ِآب کارفرما تحریکات و عوامل پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر تاریخ نہیں، بلکہ تعبیرِ تاریخ کی ایک ابتدائی کاوش ہے، جس میں معنویت کے کچھ پہلو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور تاریخ کے دریا کی غواصی کرکے اس سے وہ موتی نکال لائیں، جن کی نئی نسلوں کو ضرورت ہے۔ پھر اس کی کوشش بھی کریں کہ اس دریا کا قیمتی پانی یوں ہی ضائع نہ ہوجائے بلکہ یہ کشت ِ ملّی کی آبیاری کے لیے استعمال ہو۔

تاریخ ایک قوم کا حافظہ ہوتا ہے اور جو قوم حافظے سے محروم ہوجائے، وہ اپنا وجود بھی باقی نہیں رکھ سکتی۔ جس کا حافظہ خود فراموشی اور دوسروں کی مرعوبیت کے نقوش سے بھرا ہوا ہو، اس کی شخصیت بھی احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہمیں اپنا حافظہ قوی کرنا ہے اور اسے ملّت اسلامیہ کے درخشاں ماضی اور یادوں سے بھی بھرنا ہے، تاکہ ان یادوں کے چراغوں کی روشنی میں مستقبل کے مراحل طے ہوسکیں۔

 پس منظر

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا پیغام ان مقدس ہستیوںکے ذریعے پہنچا، جن کی تربیت دست ِ نبوت نے کی تھی اور جنھوں نے قرنِ اوّل میں اسلام کی دعوت کو پھیلایا تھا۔ کاشانۂ رسالتؐ سے دعوتِ اسلامی کی جو لہر اُٹھی تھی، اس نے پہلی صدی ہجری کے اختتام تک سندھ کے ساحلوں کو چھو لیا تھا اور اس کے اثرات ملتان تک پہنچ گئے تھے لیکن بدقسمتی سے حالات نے ایک ایسا رُخ اختیار کیا کہ اسلام کی دعوت کو اس دور میں یہاں قدم جمانے اور مستحکم ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ یہ صحیح ہے کہ دعوتِ اسلامی کی اس قدر مختصر مدت کے لیےآمد بھی اپنی برکات یہاں چھوڑ گئی، جس کے نقش آج بھی یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن جو تہذیبی انقلاب اس کے جلو میں آنا مقدر تھا ، وہ یہاں برپا نہ ہوسکا۔

اس ابتدائی دور کے بعد اسلام برصغیر میںبادشاہوں اور سلاطین کے ذریعے سے پہنچا۔  ان ملوک میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی، نیک بھی تھے اور ظالم بھی، لیکن بنیادی طور پر ان کی حیثیت بادشاہوں کی تھی، داعی کی نہ تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، انسانیت کی خلافت اور قرآن کی حکومت قائم کرنے کے لیے نہیں آئے تھے۔ ان کے پیش نظر بڑی حد تک اپنی سلطنت کو وسیع کرنا، اور اس علاقے کو اپنے زیرانتظام لانا تھا۔ چوں کہ ان میں سے متعدد سلاطین کی ذاتی زندگیاں بڑی حد تک اسلام کی منشا کے مطابق تھیں، اس لیے اور دوسرے مسلمان معاشرے کے دبائو کی وجہ سے، انھوں نے اپنی حکمرانی کے اَدوار میں بھی اکثر اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے اسلام یہاں تک پہنچا، لیکن یہاں کا نظامِ حکومت بحیثیت مجموعی منہاج خلافت راشدہؓ پر قائم نہیں ہوا۔

مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جو فوجیں آئی تھیں، ان کے ذریعے سے بھی اسلام پھیلا۔ وہ لوگ یہاں آکر رہ بس گئے، مسلمانوں کا طرزِ زندگی اختیار کیا، دوسروں نے ان کو دیکھا اور ان سے مثبت اثر قبول کیا۔ اس طرح ان لوگوں نے بھی ایک طریقے سے تبلیغ کا کام انجام دیا اور اسلامی دعوت عوامی پیمانے پر پہنچائی۔ لیکن یہاں بھی اس کے اندر وہی خامی تھی کہ ایمان کی وہ حرارت اور دین کا وہ مزاج اپنی معیاری شکل میں موجود نہ تھا کہ جو قرنِ اوّل میں داعیانِ حق کی زندگیوں اور ان کے معاشرے میں نظر آتا ہے یا اُن مقامات پر ملتا ہے ، جہاں اسلام کی دعوت اُن کے ہاتھوں پہنچی تھی۔

 صوفیا کرام اور علما کا حصہ

پھر صوفیا اور علما نے برصغیر پاک و ہند کی آبادی کے ایک بڑے حصے میں دین اسلام کو پھیلایا۔ سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ دائرہ ٔ اسلام میں آئے، اُن کی اکثریت انھی نفوسِ قدسیہ کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئی۔ ان حضرات نے اپنی پارسا، ستھری ، متوازن اور پُرکشش زندگیوں، گھرگھر اپنی دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں اور اپنی پیہم قربانیوں کے ذریعے اسلام کا پیغام پہنچایا، لیکن ان کے پاس صرف زبان کی قوت تھی ، حکومت کی طاقت نہ تھی۔ یہ اس نظام کو زندگی کے تمام شعبوں میں قائم کر کے دکھا نہیں سکتے تھے اور نہ مدینہ کی ریاست کا نمونہ پیش کرسکتے تھے۔ بہرحال، انھی کی مساعی کی بنا پر اسلام پھیلا اور ایک بڑے طبقے نے اسلام کو قبول کیا۔

برصغیر پاک وہند میں تبلیغِ اسلام اور اشاعت ِدین کے حوالے سے صوفیائے کرام کی خدمات پر مبنی سنہری کارنامے کا تذکرہ ہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودود ی سے مستعار لے رہے ہیںـ:

مسلمانوں میںجو جماعت سب سے زیادہ تبلیغِ دین کے ذوق وشوق سے گرمِ سعی رہی ہے وہ وہی صوفیائے کرام کی جماعت ہے، جو آج [پاک وہند ] میں اس طرف سے تقریباً بالکل ہی غافل ہے۔خود یہاں اولیا و صوفیا نے جس بے نظیر استقلال اور دینی شغف کے ساتھ اسلام کی روشنیوں کو پھیلا یا ہے ، وہ ہمارے آج کل کے حضرات ِ متصّوِفین کے لیے اپنے اندر ایک عمیق درسِ بصیرت رکھتا ہے ۔یہاں کے سب سے بڑے اسلامی مبلغ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ [م:۱۲۳۶ء] تھے ،جن کی برکت سے راجپوتانہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور جن کے بالواسطہ اور بلاواسطہ مریدین تمام ملک میں اسلام کی شمع ہدایت لے کرپھیل گئے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ [م:۱۲۳۵ء] نے دہلی کے اطراف میں ، فرید الدین گنج شکرؒ [م:۱۲۸۰ء] نے علاقہ پنجاب میں، نظام الدین محبوب الٰہیؒ [م:۱۳۲۵ء] نے دہلی اوراس کے نواح میں،حضرت سید محمدگیسو درازؒ  [م: ۱۴۲۲ء] شیخ برہان الدین ؒاور حضرت زین الدینؒ اور آخرِ زمانہ میں (اورنگ آباد کے ) نظام الدین ؒ نے دکن میں اور دورِ آخر میں شاہ کلیم اللہ ؒ جہان آبادی نے دہلی مرحوم میں یہی دعوت الی الخیر اور تبلیغ اوامرِ اسلام کی خدمت انجام دی۔ ان کے علاوہ دوسرے سلسلوں کے اولیائے عظامؒ نے بھی اس کام میں اَن تھک مستعدی سے کام لیا۔ [اسلام کا سرچشمۂ   قوت، اخبار،الجمعیۃ کے مضامین ۱۹۲۶ء، کتابی شکل ۱۹۶۹ء، لاہور، ص۵۸ ]

مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’پنجاب میں سب سے پہلے اسلامی مبلغ سید اسماعیل بخاری ؒ تھے جو پانچویں صدی ہجری میں لاہور تشریف لائے تھے۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ لوگ ہزار ہا کی تعداد میں ان کے ارشادات سننے آتے تھے اور کوئی شخص جو ایک مرتبہ ان کا وعظ سن لیتا وہ اسلام لائے بغیر نہ رہتا۔ مغربی پنجاب میں اسلام کی اشاعت کا فخر سب سے زیادہ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ [م:۱۲۶۲ء ] کو حاصل ہے۔ علاقہ بہاول پور اور مشرقی سندھ میں سیدجلال بخاری ؒ کے فیضانِ تعلیم سے معرفت ِ حق کی روشنی پھیلی اوران کی اولاد میں سے مخدوم جہانیاںؒ [م:۱۳۸۴ء]نے پنجاب کے بیسیوں قبائل کو مسلمان کیا۔ ایک اور بزرگ سید صدر الدین ؒ اور ان کے صاحبزادے حسن کبیر الدین ؒ بھی پنجاب کے بہت بڑے اسلامی مبلغ تھے۔ حسن کبیر الدینؒ کے متعلق تواریخ میں لکھا ہے کہ ان کی شخصیت میں عجیب کشش تھی۔ لوگ خود بخود ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔(اسلام کا سرچشمۂ   قوت،ص۵۸- ۵۹)

’’سندھ میں آج سے تقریباً سات سو برس پہلے سید یوسف الدین ؒ تشریف لائے اور ان کے فیضِ اثر سے لوہانہ ذات کے سات سوخاندانوں نے اسلام قبول کر لیا۔ کَچھ اور گجرات میں حضرت امام شاہ پیرانوی  ؒ اور ملک عبداللطیف ؒ کی مساعی سے اسلام کی اشاعت ہوئی۔بنگال میں سب سے پہلے جلال الدین تبریزی ؒ نے اس مقدس فرض کو انجام دیا، جو شہاب الدین سہروردی ؒ [م:۱۲۳۴ء] کے مریدانِ خاص سے تھے۔آسام میں اس نعمت عظمیٰ کو شیخ جلال الدین فارسی ؒ اپنے ساتھ لے گئے، جو سلہٹ میںمدفون ہیں۔کشمیر میں اسلام کا علم سب سے پہلے بلبل شاہؒ نامی ایک درویش نے بلند کیا تھا اور ان کے فیضِ صحبت سے خود راجا مسلمان ہو گیا، جو تاریخوں میں صدرالدین کے نام سے مشہور ہے۔پھر ساتویں صدی ہجری میں سید علی ہمدانی ؒ سات سو [مریدوں]  کے ساتھ یہاں تشریف لائے اور تمام خطۂ کشمیر میں اس مقدس جماعت نے نورِعرفان کوپھیلایا ۔ اورنگ زیب عالم گیر [۳نومبر ۱۶۱۸ء-۳مارچ ۱۷۰۷ء]کے عہد میں سید شاہ فرید الدین ؒ نے کشتواڑ کے راجا کو مسلمان کیا اور اس کے ذریعے علاقۂ مذکور میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ دکن میں اسلام کی اِبتدا پیر مہابیر کھمدایتؒ سے ہوئی، جو آج سے سات سو برس پہلے بیجاپور تشریف لائے تھے۔ ایک اوربزرگ جو شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی اولاد میں سے تھے، علاقہ کونکن کے ہادی اور رہبر تھے۔ دھارواڑکے لوگ اپنے اسلام [قبول کرنے]کو شیخ ہاشم گجراتی ؒ کی طرف منسوب کرتے ہیں، جو ابراہیم عادل شاہ [م: ۱۵۵۸ء] کے پیر طریقت تھے۔ ناسک میں محمد صادق سرمتؒاورخواجہ اخوند میر حسینی ؒ کی روحانی برکات کا اب تک اعتراف کیا جاتا ہے۔ مدر اس بھی اپنی ہدایت کے لیے چند صاحبِ حال بزرگوں کارہین منّت ہے، جن میں سب سے زیادہ مشہور سیّدنثارشاہؒمدفون ترچناپلی ہیں۔ دوسرے بزرگ سید ابراہیم شہید ؒہیں جن کا مزار اَرداری میں ہے اور تیسرے بزرگ شاہ الحامد ؒ ہیں جن کا مدفن ناگور میں واقع ہے۔نیو گنڈا کی طرف اسلامی آبادی عام طور پر اپنے قبولِ اسلام کو بابافخرالدین ؒ کی طرف منسوب کرتی ہے، جنھوں نے وہاں کے راجا کو مسلمان کیا تھا۔ (اسلام   کا سرچشمۂ قوت، ص۵۹-۶۰)

’’صوفیائے کرام کی انھی تبلیغی سرگرمیوں کا اثر آج تک ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوئوں کی ایک بہت بڑی جماعت اگرچہ مسلمان نہ ہو سکی، مگر اب تک اسلامی پیشوائوں کی گرویدہ ہے۔چنانچہ ۱۸۹۱ء کی مردم شماری میں صوبہ شمال مغربی ہند کے ۶۴۳،۲۳،۲۳ ہندوئوں نے اپنے آپ کو کسی خاص دیوتا کا پرستار بتلانے کے بجائے کسی نہ کسی مسلمان پیر کا پجاری ظاہر کیا تھا۔ وہ لوگ ہندوئوں کی ایک کثیر آبادی پر اسلام کا غیر معمولی اثر چھوڑگئے مگر افسوس کہ آج ہم اس اثر سے بھی فائدہ اُٹھانے کے قابل نہیں ہیں ۔اسی طرح ہندستان سے باہر بعض دوسرے ممالک میں بھی اس مقدس تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں نے حیرت انگیز نتائج پیدا کیے ہیں۔ خصوصیت سے جب فتنۂ تاتار نے [ہلاکو خاں (م: ۸فروری ۱۲۶۵ء) کی قیادت میں ۱۰فروری ۱۲۵۸ء کو مسلم عباسی]حکومت کے قصرِ فلک بوس کی اینٹ سے اینٹ بجادی، توتمام وسطِ ایشیا میں صرف یہ صوفیائے اسلام کی روحانی قوت تھی ،جو اس کے مقابلے کے لیے باقی رہ گئی تھی اور بالآخر اسی نے اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن پر فتح حاصل کی، لیکن مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ زبردست قوت بھی جس نے اَقطاعِ عالم میں اسلام کی روشنی پھیلائی اور تاتارکے زبردست فتنے تک کو اس کے لیے مسخر کر دیا، جو قریب تھا کہ وسطِ ایشیا سے اس کو بالکل فنا کر دیتا، آج بالکل مضمحل ہو گئی ہے۔ اور اگر ہمارے محترم حضرات ِمتصوّفین ہمیں معاف کریں تو ہمیںاس امر واقعی کے اظہار میںکچھ تامل نہیں ہے کہ اب وہ اسلام کی برکات وفیوض سے دنیا کو معمور کرنے کے بجاے بہت حد تک خود ہی غیراسلامی مفاسد سے مغلوب ہو کر رہ گئی ہے۔ (ایضاً،ص ۶۰-۶۱)

’’ اسلام دشمن طاقتیں کہتی ہیں کہ اس کی اشاعت صرف تلوار کی رہینِ منّت ہے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ وہ صرف تبلیغ کی منت پذیر ہے۔ اگر اس کی زندگی تلوار پر منحصر ہوتی تو وہ تلوار ہی سے فنا بھی ہوجاتی، اور اب تک تلوار سے اس پر جتنے حملے ہوئے ہیں،وہ اسے فنا کردینے میں قطعی طور پر کامیاب ہوجاتے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اوقات اس نے تلوار سے مغلوب ہوکر تبلیغ سے فتح حاصل کی‘‘۔(ایضاً،ص۴۱)

 اجتماعی نظام کا قیام

اسلام ایک آزاد تحریک کی حیثیت سے بھی یہاں پروان چڑھا، لیکن وہ اجتماعی نظام برپا نہ ہوسکا جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، بلکہ جیسے جیسے سیاسی استحکام حاصل ہوتا گیا، ایک قسم کی داخلی کش مکش برپا ہوتی گئی۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسلام اس بات کا مطالبہ کرتا تھا کہ اقتدار اور غلبہ اس کو حاصل ہو، لیکن یہاں پر یہ پوزیشن عملاً اس کو حاصل نہ تھی۔ یہی وہ حقیقت تھی جس کی بنا پر تاریخ کے مختلف اَدوار میں کش مکش رُونما ہوئی، مطالبات اُبھرے، تحریکات پروان چڑھیں، اجتماعی طور پر جدوجہد کی گئی اور اس بات کی کوشش ہوئی کہ اسلام کو حکمرانی اور اجتماعی زندگی میں فیصلہ کن پوزیشن اختیار کرنے کا موقع دیا جائے۔

سیاسی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات بھی نظر آتے ہیں، جب ریاست کی قوت اسلام کے لیے بڑی حد تک استعمال بھی ہوئی، اس قسم کی ایک کوشش محمد بن تغلق [م:۲۰مارچ ۱۳۵۱ء] اور فیروز شاہ تغلق [۱۳۰۹ء-۱۳۸۸ء] کے زمانے میں ہوئی۔ پھر اسی قسم کی ایک کوشش اورنگ زیب عالم گیر [م:۳مارچ ۱۷۰۷ء] نے کی۔ ایسی مثالیں ہم کو کئی اور مقامات پر بھی ملتی ہیں۔ اسی طرح ذاتی طور پر اچھے بادشاہ بھی نظر آتے ہیں، لیکن جس چیز کی کمی رہتی ہے وہ پورے اجتماعی نظام میں اسلام کا غلبہ ہے۔ اسلامی احیا کی تحریکات کا اصل مقصد یہی تھا کہ اس سرزمین پر غلبہ اسلام ہی کو حاصل ہو۔

صوفیائے کرام میں حضرت خواجہ باقی باللہؒ [۱۵۶۳ء-۱۶۰۳ء]کی کوششیں بھی غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ مغلیہ دور میں آپ نے اسلام کی شمع کو تیز تر کیا اور عوام، خواص اور مغلیہ درباریوں کو متاثر کیا۔

 شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ 

آپ کے بعد احیائے دین کا پرچم، احمدالفاروقی سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ [۲۶جون ۱۵۶۴ء-۱۰دسمبر۱۶۲۴ء] نے اُٹھایا۔ انھوں نے عہد اکبری [۱۵۵۶ء-۱۶۰۵ء] میں جتنے فتنے پیدا ہوئے اور جو جو بدعتیں رائج کی گئیں، دین پر جس جس انداز سے مظالم ڈھائے گئے اور اس طرح اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، ان سب کے خلاف جہاد کیا۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ:

وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

حضرت احمد سرہندیؒ نے مسلمانوں میں دین کی تعلیمات کو پھیلایا ، معاشرے کی عام ذہنی فضا کو اسلام کے حق میں تیار کیا، مغلیہ دربار کے بااثر لوگوں کو دعوتِ اسلامی سے متاثر کیا،امرا پر اپنا اثر ڈالا، علما اور مشائخ کو خدمت ِ دین کی عملی مساعی کی ترغیب دی۔ خود حکومت کی فوج میں تقریباً چار سال تک عسکری خدمات انجام دیں، اور اپنے خیالات کا پرچار کرتے رہے، تاکہ فوج کا سمجھ دار طبقہ ان تمام خرابیوں کو اچھی طرح جان لے، جو معاشرے میں راہ پا گئی تھیں۔

پھر اپنے خطوط کے ذریعے سے، آپ نے ان تمام لوگوں کو جو قومی زندگی میں کوئی مؤثر کردار ادا کرسکتے تھے، انھیں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں شریعت کے قیام، احکامِ دینی کے نفاذ اور سنتِ  نبویؐ کے احیا کے لیے آمادہ کیا۔ انھیں اس بات کی مسلسل ترغیب دیتے رہے اور یہاں تک فرمایا کہ: ’’جو کام آپ حضرات کر رہے ہیں، اگر اس کو شریعت کے قیام کے ساتھ سرانجام دیں تو آپ وہی کام انجام دیں گے جو انبیا کرام ؑ نے انجام دیا ہے‘‘۔یہ وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے حضرت احمد سرہندیؒ نے دفاعِ اسلام کے لیے ایک مؤثر اور ہمہ گیر تحریک برپا کی تھی۔ انھوں نے شاہانہ استبداد کی پروا تک نہ کی اور دربار میں جاکر جہانگیر [۱۵۶۹ء-۱۶۲۷ء] کے سامنے کلمۂ حق بلندکیا اور اس ’جرم‘ پر قید کو ہنسی خوشی گوارا کیا۔ گوالیار جیل میں دو سال زیرحراست رہے۔   حضرت احمدسرہندی ؒکی پوری زندگی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی زندگی ہے اور ہماری تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔

’بدعت‘ کے حوالے سے حضرت مجددؒ کا قول ہے: ’’لوگوں نے کہا ہے کہ ’بدعت‘ کی دوقسمیں ہیں: بدعت ِ حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حُسن و نُورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا‘‘۔[مکـتوباتِ ربانی ،اوّل، مکتوب ۱۸۴، ۲۶۰۔ دوم، مکتوب ۲۳، ۵۴ ]

 اسی طرح حضرت مجددؒ نے ایک نیازمند کو خبردار کرتے ہوئے لکھا: ’’اے سعادت مند عزیز، آپ کے مکتوب گرامی کے ایک فقرے میں ’خدیونشا ٔتین‘ لکھا تھا (جس کا مطلب ہے دونوں جہان کے بادشاہ)۔ یہ وہ نعت اور تعریف ہے جو صرف حضرت واجب الوجود اللہ جل شانہ کے لیے مخصوص ہے۔ بندہ مملوک کو جو کسی شے پر قادر نہیں، کیا لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے اور اختیارات خداوندی میں دخل انداز ہو۔بالخصوص عالمِ آخرت میں کہ مالکیت و ملکیت کا کیا حقیقی اور کیا مجازی، حضرت مالک یوم الدین کے لیے مخصوص ہے‘‘ [مکتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۷۴]

جس ماحول میں حضرت احمد سرہندیؒ دعوتِ دین کا کام کر رہے تھے، اس کا اندازہ ان مکتوبات سے لگایا جاسکتا ہے:

ایک صدی سے اسلام پر اس قسم کی غربت چھا رہی ہے کہ کافر لوگ، مسلمانوں کے شہروں میں صرف کفر کے احکام جاری کرنے پر راضی نہیں ہوتے، بلکہ چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام [و شعائر] بالکل مٹ جائیں، اور اسلام اور اہلِ اسلام کا کچھ اثر باقی نہ رہے۔ نوبت اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسلامی شعائر کو ظاہر کرتا ہے تو بے دریغ قتل کیا جاتا ہے۔ (مکـتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۸۱)

اسلام اور کفر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دو اضداد کا جمع ہونا محال ہے۔ پس ، اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمن کے ساتھ محبت کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔(اُن سے)ہم نشینی اور ملنے جلنے میں کم سے کم نقصان یہ ہے کہ شرعی احکام کے جاری کرنے اور کفر کی رسموں کو مٹانے کی طاقت مغلوب ہوجاتی ہے ، اور یہ حقیقت میں بہت بڑا نقصان ہے۔ (مکـتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۶۳)

مرکزِ سلطنت و حکومت کی اہمیت اور اس میں کارخیر کے امکانات کو ان کی درج ذیل  تحریر سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات وہ اپنے زمانے کے حاکم کی کر رہے ہیں، مگر اس کے مخاطب ہرزمانے میں اور ہرجگہ پر اہلِ اقتدار اور اہلِ دعوت ہیں :

بادشاہ کی بہتری کے لیے کوشش کرنا گویا تمام بنی آدم کی اصلاح میں کوشش کرنا ہے، اور بادشاہ کی اصلاح اس امر میں ہے کہ بلحاظِ وقت جس طرح ہوسکے کلمۂ اسلام کا اظہار کیا جائے۔ کلمۂ اسلام کے معتقدات بھی کبھی کبھی بادشاہ کے کانوں تک پہنچا دیے جائیں اور مذہب [اسلام]کی مخالفت کی تردید کرنی چاہیے۔ اگر یہ دولت میسر آجائے تو گویا انبیاعلیہم السلام کی وراثت عظمیٰ ہاتھ آگئی۔ (مکتوبات ربانی، اوّل، مکتوب ۶۷)

حضرت مجدد صاحب کے انتقال کے بعد آپ کے خلفا اور آپ کے مریدوں کا ایک بہت بڑا حلقہ اپنے اپنے دائرے کے اندر، اور اپنے اپنے علاقے میں اس عظیم دعوتی، تربیتی اور اصلاحی کام کو انجام دیتا رہا۔ یہ اس کام ہی کا اثر تھا کہ مغل بادشاہ اکبر [۱۵۴۲ء-۱۶۰۵ء] کی بے دینی کے مقابلے میں جہانگیر کے زمانے میں حالات کچھ سنبھلے۔ پھر جہانگیر کے بیٹے شاہجہان [۱۵۹۲ء- ۱۶۶۶ء] کے زمانے میں اسلامی احیا کا آغاز ہوا اور اورنگ زیب عالم گیر کے زمانے میں حالات تقریباً بالکل بدل گئے۔ پہلے حالات جتنے اسلام کے مخالف تھے، اب وہ اتنے ہی اسلام کے حق میں ہوگئے،   پھر اورنگ زیب عالم گیر نے خود حضرت مجددؒ کے صاحبزادے خواجہ محمدمعصومؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔

عجمی تصوف کی اصلاح

دوسرا مغل فرماں روا نصیرالدین ہمایوں [۱۵۰۸ء-۱۵۵۶ء] جب ایران کی مدد سے دوبارہ ہندستان آیا تو وہ اپنے ساتھ بہت سے ایرانی ثقافتی اثرات اور شیعی عقائد کے پرچارک لے کر آیا۔ حضرت مجددؒ نے ان عجمی اثرات پر بھی کاری ضرب لگائی اور اسلام کو اس کے خالص رنگ میں پیش کیا۔ اسی طرح تصوف کی ہندستان میں جو شکل رواج پاچکی تھی وہ اسلام کی حقیقی روح سے بہت دُور ہٹی ہوئی تھی۔ آپ نے اس کی اصلاح کی اور اسے اسلام کے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔حضرت مجددؒ لکھتے ہیں: ’’بعض خلیفوں کو ان کے مرید سجدہ کرتے ہیں۔ اس فعل کی شناعت اورکراہت ، سورج سے زیادہ روشن ہے۔ انھیں روکنا چاہیے اور پوری سختی اور تاکید سے منع کرنا چاہیے‘‘۔ [مکتوباتِ ربانی، اوّل، مکتوب ۲۹]

’ہمہ اوست‘ کے ویدانتی، اشراقی اور ہندی تصور کے مقابلے میں ’ہمہ از اوست‘ کا تصور پیش کیا، جس میں خالق اور بندے کی تفریق باقی رہتی ہے، اور خلق، خدا میں گم نہیں ہوجاتی ۔ اسی طرح ’تصوف‘ اور ’شریعت‘ کی پرانی کش مکش کو آپ نے دُور کرنے، اور دونوں میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی اور سنت ِ نبویؐ کے اتباع اور شریعت کی پابندی پر بے حد زور دیا۔

پھر مجددؒ صاحب نے ایک طرف اسلامی عقائد کی تدریس و تعلیم کا کارنامہ انجام دیا تو دوسری طرف عجمی اثرات اور غیراسلامی تصوف کی مخالفت کی، اور اسلامی تصوف کے اصول اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں کو پیش کیا۔ آپ نے مسلم معاشرے کے ہرطبقے میں اسلامی زندگی کو فروغ دیا اور ان میں حرکت پیدا کی، ملک کی سیاسی زندگی کو متاثر کیا، اور نظامِ حکومت کو شریعت کے تابع لانے کی منظم اور مسلسل کوشش کی: ’’ان کی کوششوں کے نتیجے میں اسلام سے بغاوت کی جو مختلف لہریں چل رہی تھیں وہ قدرے سُست پڑگئیں، البتہ جو بگاڑ ابتدا سے ہندی مسلم معاشرے کو چاٹ رہا تھا، وہ ختم نہ ہوسکا۔مختلف حیلوں، بہانوں سے خود مشائخ و اہلِ تصوف کی ایک تعداد کے ہاتھوں گمراہیاں، پسپائیاں اور بدعتیں راہ پاتی رہیں‘‘[آباد شاہ پوری، تاریخ جماعت اسلامی، حصہ اوّل، ص۲۷]۔ بلاشبہہ حضرت شیخ احمد سرہندی کی زندگی اور جدوجہد ، برصغیر ہند میں اسلام کے ایک زریں دور کی بازیافت ہے۔

شیخ عبدالحق دہلویؒ

اسی زمانے میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ [۱۵۵۱ء-۱۶۴۲ء]کی کوششیں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہیں، جنھوں نے خاص طور پر حدیث کی تعلیم اور احیا کی کوشش کی اور دین کے بارے میں ایک معتدل نقطۂ نظر کے فروغ دینے کے لیے غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ وہ بلندپایہ فقیہ، بلندمرتبہ مصنف اور کمال درجے کے عالمِ دین تھے اور بعض حوالوں سے شیخ احمدسرہندیؒ کے ناقد بھی۔ علّامہ عبدالحیٔ حسنی لکھنوی لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالحق محدث دہلوی وہ پہلے عالمِ دین ہیں، جنھوں نے تصنیف و تدریس کے ذریعے سرزمینِ ہند میں علمِ حدیث کی نشرواشاعت کی‘‘ [نزھۃ الخواطر، ج۵، ص۲۰۱، بحوالہ فقہاے ہند، از محمداسحاق بھٹی، ج۴، ص ۱۸۰]۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان میں علمِ حدیث کو جو ترقی حاصل ہوئی ، اس کا اوّلین سہرا شیخ عبدالحقؒ ہی کے سر ہے۔

جب مغل جہانگیر بادشاہ نے اپنے باپ اکبر کے خیالات سے دُوری اختیار کی، تو شیخ عبدالحق کے دل میں جہانگیر کے لیے خیرخواہی کا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ نے طے کیا کہ حاکم بے خبر ہے اور خیر کی طرف آنا چاہتا ہے تو اس سے ملنا اور اس کی رہنمائی کرنا چاہیے۔ اس لیے انھوں نے جہانگیر سے ربط ضبط قائم کرنے کے لیے خود پیش رفت فرمائی۔ ایک ممتاز محقق نے لکھا ہے: ’’ممکن ہے        شیخ [عبدالحق] کے رویے میں تبدیلی کا سبب خواجہ باقی اللہ کی تعلیم ہو، کہ خواجہ کا اصول تھا: ’جھونپڑیوں سے لے کر محلوں تک ارشاد و تلقین کا کام کرنا چاہیے، اور سلاطین سے علیحدہ رہنے کے بجائے ان کو متاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔[خلیق احمد نظامی، حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص ۱۴۶]

  • اورنگ زیب عالم گیر:ایک طویل دورِ پُرفتن کے بعداورنگ زیب عالم گیر نے جو کارنامہ انجام دیا، وہ مختصراً یہ ہے کہ:
    •  پورے ملک میں اسلام کے لیے ایک سازگار فضا بنا دی۔ وہ غلط چیزیں جو کھلے بندوں ہو رہی تھیں، اُن کی حوصلہ شکنی کی اور بدعتوں کو بند کیا۔
    • جب ماحول اور فضا اعتدال پر آئے تو اسی فرماں روا نے اسلامی قوانین کو مرتب و مدون کیا اور ان کو نافذ بھی کیا۔ یہ بہت بڑا کارنامہ تھا جو اورنگ زیب نے انجام دیا۔ الفتاویٰ الہندیہ (فتاویٰ عالمگیری) کی تدوین ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ یہ فتاویٰ آج بھی اسلامی قانون کے بہترین مجموعوں میں شمار کیے جاتے ہیں، بلکہ انگریزوں کے دور میں بھی جو تھوڑا بہت اسلامی قانون باقی رہا، اس کی ایک وجہ اس مدون قانون کی موجودگی بھی تھی۔
    • اس کے ساتھ ہی اورنگ زیب نے ایک نئے نظامِ تعلیم کی داغ بیل بھی ڈالی، جس کے ذریعے اسلامی نقطۂ نظر سے نئی نسلوں کو تعلیم دی جاسکے اور ایسے افراد تیار کیے جاسکیں جو ملک کے نظام کو چلانے کے قابل بن سکیں۔

دعوتِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے اورنگ زیب کے یہ تینوں کام بے حد اہم ہیں۔ تاہم، اورنگ زیب کی آنکھیں بند ہوتے ہی، یعنی ۱۷۰۷ء کے بعد اٹھارھویں صدی میں وہ تمام اجتماعی، مذہبی، اخلاقی اور سیاسی کمزوریاں اور خرابیاں پوری قوت سے مسلمانوں میں اُمڈ کر  حاوی ہوتی نظر آئیں، جو خرابیاں گذشتہ صدیوں سے برگ و بار لا رہی تھیں۔ اس دورِ حکمرانی میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی تو کسی زمانے میں بھی مثالی نہیں رہی تھی، اب رہی سہی کسر بھی درہم برہم ہوگئی۔

شاہ ولی اللہ  ؒ

شاہ ولی اللہ ؒ [۱۷۰۳ء-۱۷۶۳ء]کا دور اُس زمانے پر مشتمل تھا، جب اورنگ زیب کی لائی ہوئی اصلاحات خطرے میں پڑگئی تھیں۔ مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ ملک کے گوشے گوشے میں بغاوتیں سر اُٹھا رہی تھیں۔ ہرطرف بدنظمی، بدامنی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ اس زوال اور ہمہ پہلو انتشار کو ہندوئوں کی قومی، نسلی اور عسکری بنیادوں پر اُٹھنے والی تنظیموں نے تیز تر کر دیا تھا۔ جنوب میں مرہٹے عروج پکڑ کر دہلی کی طرف یلغار کر رہے تھے۔ دہلی کے اُس پار گنگ و جمن دوآبے میں جاٹ اُمڈ رہے تھے۔ سرہند، پنجاب اور سرحد[خیبرپختونخوا] کے علاقے سکھوں کی خوں آشامی کا نوحہ لکھ رہے تھے۔ بنگال اور ہند کے ساحلی علاقے انگریزوں کی تنظیم، سیاست اور عسکریت سے مغلوب ہورہے تھے۔ اور یہ سب مل کر مغلیہ سلطنت کو مختلف محاذوں پر شکست دے رہے تھے۔ نئی قوت انگریز اپنے قدم جما نے کے ساتھ اپنے اثرات کو مسلسل بڑھا رہا تھا۔

ان حالات میں شاہ صاحبؒ نے اسلامی احیا کے کام کا آغاز کیا۔ آپ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو زندگی کے ایک ہمہ گیر پروگرام کی حیثیت سے قوم کے سامنے پیش کیا اور   اس پروگرام کے مطابق نہایت حکمت، دانش مندی اور حُسنِ توازن کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۷۰۳ء کے بعد سے جو بھی اصلاحی تحریک ہندستان میں اُٹھی، اس پر شاہ ولی اللہؒ کی فکر کی چھاپ نظر آتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ کوششیں جو راہِ اعتدال پر قائم نہ رہ سکیں،انھیں بھی اگر کہیں سے سنبھلنے کی تحریک حاصل ہوئی تو وہ شاہ ولی اللہؒ ہی کی فکر تھی۔ ایک ایمان دار مؤرخ     یہ کہنے پر مجبور ہے کہ: ’گذشتہ ڈھائی سوبرسوں کو شاہ ولی اللہؒ کا دور قرار دیا جانا چاہیے‘۔

شاہ ولی اللہ ؒ نے اس بات کی کوشش کی کہ اُمت قرآن اور حدیث سے دوبارہ وابستہ ہو۔ مسلمانوں کی تاریخ اور اسلام کے مزاج کے گہرے مطالعے سے آپ نے اس حقیقت کو پالیا تھا کہ: نہ کلامی مباحث مسلمانوں میں حرکت پیدا کرسکتے ہیں، نہ محض تصوف کی کرامات انھیں کسی بڑے کام کے لیے تیار کرسکتی ہیں، جو چیز مسلمانوں میں زندگی کی حرارت اور ہمہ گیر حرکت پیدا کرسکتی ہے وہ صرف قرآن اور سنت ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ آپ نے قرآنِ پاک کا فارسی میں ترجمہ فرمایا۔ حدیث اور علومِ حدیث کی ترویج کی اور احادیث نبویؐ کے ذریعے احکامِ دین کی حکمتوں کو بلکہ دین کے پورے نظام کو واضح کیا۔ یہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے اور اسی خدمت کا یہ نتیجہ تھا کہ اس اُمت میں دوبارہ اپنی اصل بنیادوں سے استواری کی کیفیت پیدا ہوئی۔

تاریخ اسلام سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ اس قوم کو جن لوگوں نے ترقی و تعمیر کی راہوں پر گامزن کیا ہے، وہ وہی افراد ہیں ، جنھوں نے اس کو قرآن اور سنت کی طرف بلایا ہے، خواہ وہ: حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہوں یا امام ابوحنیفہؒ ، خواہ وہ امام شافعیؒ ہوں یا امام احمد بن حنبلؒ، خواہ وہ امام مالکؒ ہوں یا امام ابن تیمیہؒ، خواہ وہ امام غزالی ؒ ہوں یا محمد بن عبدالوہابؒ۔ یہی دعوت ہے جو اس اُمت میں کامیاب ہوسکتی ہے اور اس کو نئی زندگی عطا کرسکتی ہے۔ ملت ِ اسلامیہ کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ صرف اُن حضرات نے کیا ہے جنھوں نے اس کو قرآن و سنت کی طرف بلایا ہے۔ اس حقیقت کو شاہ صاحب نے محسوس فرمایا اور ہندستان کے نہایت تاریک حالات میں مسلمانوں کا ربط قرآن و حدیث کے ساتھ قائم کیا۔

  • اسلام ، ایک مکمل دین: شاہ ولی اللہ ؒ کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلام کو ایک اجتماعی نظام، ایک مکمل دین اور ایک ہمہ گیر ضابطہ ٔ حیات کی حیثیت سے پیش کیا۔ آپ کے پیش نظر زندگی کے پورے نظام کی اصلاح تھی، اس کے محض کسی ایک پہلو کی نہیں۔ آپ نے زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے اسلام کی ہدایات کوواضح کیا۔ شاہ ولی اللہؒ کی تصانیف کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ: فلسفے سے لے کر عبادت کے مسائل تک، نجی زندگی سے لے کر سیاست و معیشت اور تمدن کے ارتقا کے اصولوں تک، فقہ کے مسائل سے لے کر تصوف کے حقائق تک، تمام پر  امام صاحب ؒ نے بحث کی اور ان کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا۔ اسی لیے شاہ صاحبؒ کی تحریروں کو پڑھتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہمارے اِس عہد کا کوئی مفکر اپنے خیالات پیش کررہا ہے۔ ان کے خیالات میں ذرا بھی قدامت اور ازکار رفتگی نہیں پائی جاتی۔ ان کی تحریروں میں ایسی تازگی ہے، جیسی نسیم صبح کے ہر آنے والے جھونکے کی نشاط پروری۔
  • اعتدال اور جامعیت :شاہ ولی اللہ ؒ کے ہاں بڑا ہی اعتدال، بے مثال توازن اور حسین جامعیت ملتی ہے۔ فقہ کے تقریباً تمام مسلکوں کو انھوں نے اپنے سامنے رکھا اور اعتدال کی راہ پیش کی۔ تصوف کے جتنے بھی سلسلے ہندستان میں جاری تھے، ان میں سے بیش تر سے آپ نے خود استفادہ کیا اور جو تعلیمات پیش کیں،ان میں سب کی روح کو سمو لیا۔ جامعیت کا ایک فطری تقاضا اعتدال پسندی ہوتی ہے اور یہ بھی امام صاحب کی تعلیمات میں ہمیں بدرجۂ اتم ملتی ہے۔
  • جدید علم الکلام :شاہ ولی اللہ  ؒ نے ایک جدید علم الکلام کی بنیاد بھی رکھی اور یہ علم الکلام اُس علم الکلام سے بنیادی طور پر مختلف ہے جس کی ترویج یونانی فکر کے زیراثر معتزلہ اور فلاسفۂ اسلام کے ہاتھوں ہوئی ، بلکہ ایک حد تک اشاعرہ کے علم الکلام سے بھی یہ مختلف ہے۔ یہ وہ علم الکلام ہے جس میں قرآن کے طرزِ استدلال کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ جس میں اس طریقے کو اختیار کیا گیا ہے، جو مشکوٰۃ نبوت سے ہم کو ملتا ہے۔ سیدھی سادی دلیلیں، دل میں اُتر جانے والی باتیں، دماغ کو مطمئن کر دینے والا استدلال، روز مرہ کے حقائق سے استشہاد، نہ اس میں فلسفیانہ موشگافیاں ہیں اور  نہ لایعنی اور لاطائل بحثیں۔ اس میں ذہنی عیاشی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ خیالی قسم کی غیرحقیقی بحثوں سے بھی یہ پاک ہے۔ یہ وہ علم الکلام ہے جس کا موضوع زندگی کے بنیادی حقائق و مسائل ہیں۔   یہ زندگی سے متعلق ہے، زندگی سے ہی مربوط ہے اور زندگی ہی کی حقیقتوں کو استعمال کرتا ہے۔ یہی وہ علم الکلام ہے جو ہمیں بیسویں صدی میں پروان چڑھنے والی تحریک ِ اسلامی (چاہے وہ جماعت اسلامی ہو یا الاخوان المسلمون وغیرہ)کے لٹریچر میں ملتا ہے۔ اس طرح شاہ صاحب اور عہدحاضر کی تحریک ِاسلامی کے طرزِاستدلال میں بڑی مناسبت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
  • معاشی نظریات  : اللہ تعالیٰ نے شاہ ولی اللہ ؒکو دینی اور الٰہیاتی اُمور کے ساتھ معاشی، اقتصادی اور سماجی اُمور میں منفرد شان عطا فرمائی تھی۔ ان کے معاشی نظریات کو ہم اِن بیانات سے پرکھ سکتے ہیں:
    • جو معاشرہ کسی کی محنت اور جدوجہد کا قدر دان نہیں، اور اس کی مناسب اُجرت ادا نہیں کرتا، آجر اور مزارع پر ناقابلِ برداشت محصولات عائد کرتا ہے ، وہ قوم کا دشمن ہے، اسے ختم ہو جانا چاہیے۔ 
    • پیداوار اور آمدنی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے سے تعاون کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو معاشرتی خرابیاں پیدا ہوں گی۔
    • زمین کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ملک کے باشندوں کی صرف اتنی حیثیت ہے کہ جیسے مسافرخانے میں قیام کرنے والے مسافر کی ہوسکتی ہے۔
    • ملک میں جاگیروں کی کثرت نہیں ہونی چاہیے۔ جاگیریں جتنی زیادہ ہوں گی، اس قدر حکومت کے نظم و نسق کا ڈھانچا کمزور اور استحکام متاثر ہوگا، جس کے نتیجے میں کاشت کار پریشانی میں مبتلا ہوں گے۔
    • کسی گروہ کی، کسی معاملے میں اس طرح اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے کہ وہ معاشرے کے کمزور افراد کو مالی یا ذہنی تکلیفوں میں مبتلا کرے۔
    • عیاشی کے مراکز اور جوئے خانے یک قلم بند کر دیے جائیں۔ اگر یہ باقی رہیں گے تو دولت کی تقسیم کا صحت مند نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔
    • تمام انسان یکساں حیثیت کے مالک ہیں۔ کوئی شخص مالک الملک یا ملک الناس یا مالک قوم نہیں کہلا سکتا۔
    • بلالحاظ مذہب و نسل، تما م انسانوں میں عدل و انصاف، مال و جان کا تحفظ، عزت و ناموس کی حفاظت اور شہری حقوق میں یکسانیت سب کا بنیادی حق ہے۔
    • دولت کے مستحق وہی لوگ ہیں، جو اُجرت اور زراعت کے ذریعے یا دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں۔
    • ریاست کے سربراہ کی حیثیت، کسی وقف کے متولی کی سی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ [فقہاے ہند، پنجم، ص ۱۰۰۶-۱۰۰۷، ۱۰۱۸]
  • نظام تعلیم و تربیت : آپ نے محض خیالات پیش کر دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک ایسا مرکز علم قائم کیا، جہاں سے ان خیالات کی اشاعت ہوسکے۔ جہاں ملک کے گوشے گوشے سے لوگ آئیں، ان خیالات کو حاصل کریں اور پھر اپنے اپنے دائرۂ اثر میں جاکر ان کو پھیلائیں اور فروغ دیں۔ شاہ صاحبؒ نے ایک مؤثر نظامِ تعلیم وتربیت بھی قائم کیا۔آپ نے انسانوں کا ایک ایسا گروہ تیار کیا، جس نے ملک کے ہرحصے میں اس پیغام کو پہنچایا۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اجتماعی حالات پر آپ نے غیرمعمولی اثرڈالا۔ ملک کے ایک ایک طبقے کو پکارا، اجتماعی زندگی پر تنقید کی۔ علما سے کہا: ’تم اپنا فرض یاد کرو‘۔ اہلِ سیاست سے کہا: ’تم اپنی قوم کو کہاں لیے جارہے ہو؟‘۔ امرا سے کہا: ’تمھاری یہ دولت کس کام آئے گی؟ اگر تم اس کو دین کی سربلندی کے لیے استعمال نہیں کرتے؟‘ عوام سے کہا کہ: ’اُٹھو اور اللہ کی راہ کے سپاہی بنو۔ اپنے فرائض کو پہچانو اور دین کو اجتماعی زندگی میں قائم کرنے کی جدوجہد کرو‘۔ ملک کے ہرطبقے کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر آپ نے دین کی دعوت پہنچائی۔

شاہ ولی اللہ کا عہد، ہندستان میں سیاسی لحاظ سے سخت بدامنی اور انتشار سے اَٹا ہوا تھا۔ ہرطرف بغاوت سر اُٹھائے ہوئے تھی۔ مرہٹے، سکھ، جاٹ، اُمڈ اُمڈ کر، دم توڑتی مغل سلطنت کو نوچ رہے تھے۔ ان شدید تاریک ماہ و سال میں بھی شاہ ولی اللہ مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔ مرہٹے ایک سیاہ آندھی کی طرح رام راج اور مسلمانوں کو برباد کرنے کے منصوبوں پر گامزن تھے۔ شاہ صاحب علم دین کے ساتھ سیاسی تدبر سے بھی سرفراز تھے۔ اس تباہ کن ماحول میں سیاسی مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے اُن کے سامنے دو راستے تھے: ایک یہ کہ روہیلوں کے رہنما نجیب الدولہ کو توجہ دلائیں اور دوسرے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو دعوت دیں۔

شاہ ولی صاحب نے احمد شاہ ابدالی [۱۷۲۲ء-۱۶؍اکتوبر ۱۷۷۲ء] کو ایک طویل خط لکھا، جس میں ہندستان کے سیاسی حالات اور عمومی زندگی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو درپیش شدید خطرات کا تفصیل سے تذکرہ تھا۔ ساتھ ہی یہ دعوت تھی کہ ان حالات کو درست رُخ دینے کے لیے وہ بامعنی قدم اُٹھائے۔ اس سے قبل احمدشاہ نےکئی بار ہندستان پر حملے کیے تھے، لیکن اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس نے ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ ہندستان کا رُخ کیا۔ یکم نومبر ۱۷۶۰ء کو احمدشاہ پانی پت پہنچا، جہاں مرہٹوں سے زبردست معرکہ آرائی ہوئی:’’پانی پت کا میدان کارزار سجا، مدرسہ رحیمیہ کا ایک مدرس [شاہ ولی اللہ ] اس تاریخی جنگ کے نقشے تیار کر رہا تھا‘‘ [خلیق احمد نظامی، شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات، ص ۵۴]۔ ڈھائی ماہ تک معرکہ بپا رہا، مرہٹوں کو اس جنگ میں شکست فاش ہوئی۔ مرہٹہ جرنیل شیورائو اور اس کا بیٹا وشواس میدانِ جنگ میں خاک آلود ہوئے اور مرہٹوں کی وہ طاقت کہ جس نے گذشتہ ڈیڑھ سو برس سے طوفان مچا رکھا تھا آن کی آن میں ماضی کا قصّہ بن گئی۔

امرِواقعہ ہے کہ یہ تدبیر حضرت شاہ ولی اللہ کی ہمت، دُوراندیشی اور بصیرت کا نتیجہ تھی۔[جاری]

حواشی

۱-         بعض مسلمان حکمرانوں نے اسلام کی اشاعت کے بجائے، ہندوئوں کو مندروں اور بت خانوں میں بھیجنے میں دل چسپی لی اور اس کو اسلام کی خدمت تصور کیا (محمداسحاق بھٹی ’فقہاے ہند، سوم، لاہور ، ص۴۳)۔ شیخ محمد اکرام نے ابتدائی زمانے کے مسلمانوں کی حالت ِ زار کے بارے میں لکھا ہے: ’’ان کی روحانی حالت میں کوئی اہم تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ اگر پہلے وہ مندروں میں مورتیوں کے سامنے ماتھا ٹیکتے تھے تو اب مسلمان پیروں اور قبروں کے سامنے سجدے کرتے اور ان سے مُرادیں مانگتے۔ پجاریوں اور برہمنوں کی جگہ [ایسے] مسلمان پیروں نے لے لی تھی، جن کے نزدیک انسان کی روحانی تربیت کے لیے احکام اسلام کی پابندی، اعمالِ حسنہ اور سنت ِ نبویؐ کی پیروی ضروری نہ تھی، بلکہ یہی مُدعا مراقبوں، وظیفوں اور مرشد کی توجہ سے حاصل ہوجاتا تھا۔ تعویذوں اور گنڈوں کا بہت زور تھا۔ ہندوجوگی اور مسلمان پیرکاغذ پر اُلٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر خوش اعتقادوں کو دیتے اور یوں انھیں حصولِ مقصد کے صحیح اسلامی طریقوں سے باز رکھتے۔ [اسی طرح] معاشرتی رسموں کے اعتبار سے بھی مسلمانوں اور ہندوئوں میں کوئی بڑا فرق نہ تھا‘‘ (موجِ کوثر، ۲۰۲۱ء، ص۱۳-۱۴)۔اور سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے بقول: ’’یہ تو مسلمانوں کا حال تھا، رہے وہ مسلمان جو باہر سے آئے تھے ان کی حالت بھی ہندستانی نومسلموں سے کچھ زیادہ بہتر نہ تھی۔ ان پر عجمیت پہلے ہی غالب ہوچکی تھی… خالص دینی جذبہ بہت ہی کم لوگوں میں تھا۔ وہ یہاں آکر بہت جلد عام باشندوں میں گھل مل گئے۔ کچھ نے ان کو متاثر کیا اور کچھ خود ان سے متاثر ہوئے۔ اس کے نتیجے میں یہاں مسلمانوں کا جو تمدن وجود میں آیا، وہ اسلامیت، عجمیت اور ہندوئویت کی ایک معجون مرکب بن کر رہ گیا‘‘۔ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان، اوّل[مرتب: خورشیداحمد]،ص ۲۲)

۲-         اگر ایک طرف غیرمسلم، ہندوئوں کے ذات پات پر مبنی نسل پرستانہ اور طبقاتی جبر سے نجات پانے کے لیے مسلمان ہورہے تھے، تو دوسری جانب مسلمانوں میں سے کچھ مذہبی اور کچھ سیاسی پنڈت، ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے اسلام اور ہندومت کا ایسا ملغوبہ تیار کرنے اور متعارف کرانے میں مصروف تھے کہ جس سے نومسلم خوش ہوسکیں۔ اس ’ترقی پسندانہ‘ تحریک کو واضح طور پر مسلمان صوفیوں کے ایک قابلِ ذکر طبقے نے آگے بڑھایا جس میں ویدانتی عملیات اور اشغال، وحدت الوجود کے گمراہ کن تصورات اور جذب و سکر کی کیفیات کی مبالغہ آمیزی تقویت پہنچانے کا سبب بنتی رہی (فقہاے ہند، سوم، ص ۱۳)۔ یہ چیز جب ذرا ترقی کرگئی تو نمک کی اس کان میں بہت کچھ نمک بن کر رہ گیا، جو وحدت الادیان اور وحدت الوجود کے پردوں میں تخریب ِ دین کی شاہراہ کو وسعت دیتا گیا۔ (ایضاً، ص۱۵)

سابق ڈائرکٹر ادارہ علوم اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی وفات (۱۲نومبر۲۰۲۲ء ) پر اخبارات و رسائل میں شائع شدہ رپورٹوں و مضامین سے مرحوم کی حیات و خدمات کے مختلف پہلو سامنے آئے۔ا ن کی تعلیمی زندگی کا یہ پہلو بلا شبہہ بڑا قیمتی اور سبق آموز ہے کہ انھوں نے جدید تعلیم کا سلسلہ درمیان میں چھوڑ کر محض اپنے شوق و طلب سے عربی زبان و ادب اور اسلامیات کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے لیے انھوں نے درس گاہ اسلامی، رام پور کا جدید تعلیم گاہوں کے طلبہ کے لیے خصوصی تشکیل کردہ قلیل المدتی چار سالہ کورس مکمل کیا، اور پھر قرآن کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسۃ الاصلاح میں ماہر قرآنیات مولانا حمیدالدین فراہیؒ (م:۱۹۳۰ء) کے تلمیذِ رشید مولانا اختر احسن اصلاحی ؒ(م: ۹؍اکتوبر ۱۹۵۸ء) سے تقریباً چھے ماہ استفادہ کیا ۔

واقعہ یہ کہ دینی علوم کے اکتساب کے لیے پروفیسر نجات اللہ صدیقی اور ان کے رفقاء (بالخصوص ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور ڈاکٹر عبد الحق انصاری رحمہما اللہ تعالیٰ)کی طلبِ صادق اور ارادے کی یہ پختگی تھی، جس نے ان کے لیے راہیں ہموار کیں اور رام پور میں جماعت اسلامی کے ذمہ داروں نے ’ثانوی درس گاہ‘ کی صورت میں ان کی دینی تعلیم کا باقاعدہ نظم قائم کردیا۔ جماعت اسلامی ہند کے اولین مرکز ملیح آباد میں جب دینی تعلیم کے نظم کے لیے انھوں نے جماعت کے ذمہ داروں کے سامنے اپنی طلب پیش کی تو انھوں نے وہاں وسائل کی کمی کی وجہ سے اس نظم سے معذوری ظاہر کی۔ ۴۹ ۱۹ء میں جب مرکزِ جماعت اسلامی رام پور منتقل ہو ا اور جماعت کی افرادی قوت میں اضافے کے ساتھ یہا ں وسائل بھی بڑھ گئے تو ان حضرات نے پھر جماعت کے ذمہ دار وں سے اپنی طلب (جدید تعلیم یافتگان کے لیے دینی تعلیم کا خصوصی نظم) ظاہر کی اور اس کے لیے کوشش جاری رکھی۔

اس سلسلے میں اپنی کوششوں کے نتیجہ خیز مرحلے کا ذکر کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں پروفیسر نجات اللہ صدیقیؒ فرماتے ہیں:’’ اور آخر میں ہم سے کہا گیا کہ آ پ لوگ یہیں ( رام پورمیں) قیام کریں،آپ کی تعلیم کا نظم کیا جائے گا۔ چنانچہ میں نے اور حمید اللہ صاحب نے علی گڑھ کی تعلیم ترک کردی اور جنوری ۱۹۵۰ء سے وہیں قیام کیا اور چند ماہ بعد جب باقاعدہ ثانوی درس گاہ کا آغاز جولائی ۱۹۵۰ء میں ہوا تو [عبدالحاق] انصاری صاحب بھی ندوہ سے اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کر کے  رام پور آگئے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جماعت نے ثانوی درس گاہ کے قیام کا فیصلہ ہماری سچی طلب اورمستقل اصرار کے بعد کیا تھا‘‘(انٹرویو، رفیقِ منزل[نئی دہلی]،۲۵  ؍۱۱،نومبر ۲۰۱۲ء،ص ۲۷)۔ دینی تعلیم کے اس مخصوص سلسلے کی تکمیل کے بعد پھر پروفیسر نجات اللہ صدیقی نے جدید تعلیم کے اعلیٰ مراحل(بی-اے سے پی ایچ ڈی تک) علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں طے کیے۔ فروری ۱۹۷۷ء میں پروفیسر و ڈائرکٹر ا دارہ علوم اسلامیہ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل انھوں نے شعبہ معاشیات میں تقریباً ۱۶ برس لیکچرر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دی تھیں ۔

یہاں ذکر بے موقع نہ ہوگا کہ مؤقر رسالہ ماہنامہ ترجمان القرآن ( دسمبر ۲۰۲۲ء) میں پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم پر مدیرِ گرامی پروفیسر خورشید احمد صاحب کے مضمون میں یہ پڑھ کر مسرت ہوئی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں طالب علمی کے دوران جدید نظامِ تعلیم سے متعلق نامورمفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دو تحریروں کے مطالعے نے’’ نو عمر نجات اللہ کی زندگی کا دھارا بدل دیا اور انھیں زندگی بھر کے لیے تحریکِ ا سلامی سے وابستہ کردیا‘‘۔راقمِ عاجز کے خیال میں علی گڑھ کے فیوض و برکات کی طویل فہرست میں اسے بھی بلاشبہہ شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ اضافہ بے موقع نہ ہوگا کہ ابھی چند ماہ قبل محبِّ گرامی محترم مولانا عتیق الرحمن سنبھلی پر الفرقان (لکھنؤ) کے خصوصی شمارے کے لیے مضمون لکھتے ہوئے اس مضمون نگار نے علی گڑھ سے اپنی فیض یابیوں کے ضمن میں یہ تاثربھی ظاہر کیا تھا:’’ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی جدید تعلیم کے ایک عظیم مرکز کی حیثیت سے مشہور ہے، لیکن اس علمی و تر بیتی مرکز کی ایک ا نفر ا د یت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بہت سے فیض یافتگان میں دینی علوم میں دلچسپی بڑھانے ، بالخصوص قرآن و علمِ قرآن سے تعلق مضبوط کرنے کا بھی وسیلہ بنتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اس پہلو سے ادارۂ سرسید کا فیض پانے والوں میں یہ ناچیز بھی شامل ہے‘‘۔ (الفرقان[اشاعتِ خاص]،ذکر عتیق بیاد گارِ حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ،ستمبر تا دسمبر ۲۰۲۲ء، ص ۵۹۔۶۰)۔

پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم بلا شبہہ اسلامی معاشیات کے ایک ممتاز اسکالر تھے اور اس میدان میں ایک محقق و مصنف کے طور پر ہندستان اور بیرونی ممالک میں بھی انھیں ایک امتیازی مقام حاصل تھا ۔ اسلامی معاشیات کے موضوع پر اُردو و انگریزی میں متعدد کتب ان کی علمی یادگاروں میں شامل ہیں۔ ان میں اردو کی کچھ مشہو ر تصانیف یہ ہیں : اسلام کا نظریۂ ملکیت، اسلام کا نظامِ محاصل[امام ابو یوسف کی معروف تصنیف کتاب الخراج  کا اردو ترجمہ مع مبسوط حواشی ]، شرکت و مضاربت کے شرعی اصول، غیر سودی بنکاری، انشورنس اسلامی معیشت میں ، فقہ  اسلامی کے مسائل کی جدید تعبیر۔ اسرارِ شریعت کی وضاحت میں ان کی وقیع تصنیف مقاصدِ شریعت بھی بہت معروف ہے۔ ان سب کے علاوہ قرآن سے متعلق ان کی تحریریں (بالخصوص ان کے قرآنی مضامین کا مجموعہ ’ رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین‘) بڑی وقعت و اہمیت کی حامل ہیں۔ پروفیسر نجات ا للہ مرحوم کی ایک اور قرآنی خدمت ’’قرآن اور سائنس، افاداتِ سید قطب نامی کتاب ہے ۔ یہ در اصل قرآن اور سائنس سے متعلق سید قطب شہید کی تفسیر فی ظلال القرآن کے اقتباسات کا اُردو ترجمہ ہے، جسے انھوں نے مولانا سلطان احمد اصلاحی مرحوم کے اشتراک سے انجام دیا تھا ۔

زیر بحث موضوع کے اعتبار سے پروفیسر نجات اللہ صدیقی ؒکی کتاب ’’ رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین‘‘ خصوصی ذکر کی مستحق ہے۔ القلم پبلی کیشنز (بارہ مولہ، کشمیر ) سے ۲۰۱۵ء میں شائع شدہ اس مجموعۂ مضامین کی ہر تحریر رجوع الی القرآن کی دعوت دے رہی ہے اور   قرآن حکیم میں تدبر و تفکر کے بڑے قیمتی نتائج پیش کر رہی ہے ۔ اس کتاب کے مشتملات میں جو قرآنی نکات زیرِ بحث آ ئے ہیں، ان میں خاص اہمیت کے حامل یہ ہیں : (۱) رجوع الی القرآن کی ضرورت واہمیت اور اس کے تقاضے ، ( ۲) عصر حاضر میں قرآن کا پیغام ِ رحمت عام کرنے اور قرآنی علوم کی اشاعت کے لیے جدید ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ،(۳) فہمِ قرآن میں ہدایات ِ ربّانی کے مقاصد کو سمجھنے کی افادیت ،( ۴) آیات کی تشریح و ترجمانی میں شانِ نزول کی اہمیت و معنویت، ( ۵) نائن الیون کے بعد مغرب میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی بڑھتی ہوئی طلب اور مغربی زبانوں میں مزید مستند تراجمِ قرآن کی تیاری و اشاعت کے تقاضے ،( ۶) جدید تعلیم یا فتگان اور عرب دنیا میں نامور مفسر مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کے علمی کارناموں کے تعارف کی ضرورت و افادیت۔

 بلاشبہہ قرآن کریم سے رجوع کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور معاشر ے کی موجودہ بگڑی ہوئی صورتِ حال میں اصلاحِ ا حوال کی خاطر عظیم ترین کتابِ ہدایت سے رجوع اور حصولِ رہنمائی کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔اس پس منظر میں مذکورہ بالا کتاب میں شامل پروفیسر محمدنجات اللہ صدیقیؒ کی تحریر ’رجوع الی القرآن: اہمیت اور تقاضے‘ بڑی قدرو قیمت کی حامل ہے۔ اس میں انھوں نے اس نکتہ پرخاص زور دیا ہے کہ رجوع الی القرآن کی دعوت اب عام ہوچکی ہے، قرآن سمجھ کر پڑھنے کی طلب میں مزید اضافہ ہوا ہے، لیکن اس دعوت کے کچھ تقاضے ہیں،انھیں پور ا کرنے پر خصوصی توجہ مطلوب ہے۔ بہتر ہوگا کہ قرآن کے پیغامِ رحمت کی ترسیل اور اس کی ہدایات کی تشریح و ترجمانی کے لیے ایسی زبان، ایسا لہجہ اور ایسا اسلوب اختیار کیا جا ئے جو جدید دور کے لوگوں میں فہم قرآن کے فروغ اور روز مرہ زندگی کے معاملات میں کتاب ِ ہدایت کے مطالبات کو سمجھنے سمجھانے میں مفید اور زیادہ مؤثر ثابت ہو ۔

پروفیسر نجا ت اللہ صدیقی مرحوم کی رائے میں ’’لوگوں کو رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہوئے اُن رکاوٹوں پرتوجہ دینے اور انھیں ہمدر د ی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، جو عام لوگوں کو اس دعوت کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں در پیش ہوتی ہیں ۔ سب سے پہلی رکاوٹ زبان کی ہے۔ہر شخص عربی زبان سے واقف نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی مادری زبان کو بھی کان سے سن کر سمجھ سکتی ہے،آنکھ سے دیکھ کر نہیں سمجھ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں‘‘ (رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین، ص ۵)۔

وہ پُر زور انداز میں اپنی اس رائے کو پیش کرتے تھے کہ عام لوگ بھی قرآن کا ترجمہ پڑھ کر یا سن کر قرآن کی ہدایات و تعلیمات سے واقف ہو سکتے ہیں۔ وہ اس فکر کے داعی تھے کہ شروع ہی سے بچوں کو ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھانے یا قرآن کے معنی و مطالب سے باخبر کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔ اس کام کی قدر و قیمت ذہن نشین کرنے کے لیے انھوں نے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مقدمہ فارسی ترجمۂ قرآن کے ایک اقتباس کی اردو ترجمانی ان الفاظ میں پیش کی ہے: ’’ یہ کتاب بچپن ہی میں پڑھا دینی چاہیے تاکہ سب سے پہلے ان کے ذہن میں جو چیز آئے وہ اللہ کی کتاب اور اس کے مطالب ہوں‘‘( رجوع الی القرآن اور دوسرے مضامین، ص ۶) ۔

مزید یہ کہ پروفیسر نجا ت اللہ صدیقی صاحب اس نکتہ کی طرف خاص طور سے توجہ دلا تے تھے کہ قرآن کریم چونکہ اللہ کا کلام ہے، اس لیے دین کی تعلیمات یا نصیحت و بھلائی کی باتیں قرآن کو سمجھ کر اس سے بر اہِ راست معلوم کی جائیں یا لوگوں کو بتائی جائیں تو وہ زیادہ اثر انداز ہو تی ہیں اور دل و دماغ میں اتر جاتی ہیں۔ اس نکتہ سے متعلق ان کا بہت ہی وا ضح مو قف یہ تھا:’’کوئی بات جب خدا کے حکم کے طور پر سامنے آتی ہے تو اس کا اثر کسی انسان کے وعظ و نصیحت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے‘‘(رجوع الی القرآن،ص۷ )۔

اس ضمن میں انھوں نے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے ترجمہ قرآن کے مقدمہ کا دل میں نقش کر جانے والا یہ اقتباس نقل کیا ہے : ’’سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو سب چیزوں سے ناواقف اور محض انجان ہوتا ہے، پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے۔ اسی طرح حق کا پہچاننا اور اس کی صفات اور احکام کا جاننا بھی  بتلانے اور سکھلانے سے آتا ہے ، لیکن جیسا حق تعالیٰ نے ان باتوں کو قرآن شریف میں خود بتلایا ہے ویسا کوئی نہیں بتلاسکتا اور جو اثر اور برکت اور ہدایت خدائے تعالیٰ کے کلام میں ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں ہے۔ اس لیے عام و خاص جملہ اہلِ اسلام کو لازم ہے کہ اپنے اپنے درجے کے موافق کلام اللہ کے سمجھنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں‘‘(ترجمۃ القرآن المجید، محمود حسن، مع تفسیر شبیراحمد عثمانی، مجمع الملک فہد، المدینۃ المنورۃ، ۱۴۰۹ھ،ص۷)۔

رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہوئے پروفیسر نجات اللہ صدیقی مرحوم شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔وہ اس فکر کے داعی و مبلّغ تھے کہ قرآن کے ترجمے کے ذریعے عام پڑھے لکھے لوگ اسلام کے بنیادی عقائد،روز مرہ زندگی سے متعلق اہم ہدایات اور اخلاقی تعلیمات معلوم کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں،اس لیے ( عربی زبان جانے بغیر بھی) قرآن کے تراجم سے استفادہ میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ قرآن کا پیغام سمجھنا ہرمسلمان سے مطلوب ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ’’  قرآن کے جن مطالب کو شاہ صاحب بچوں کے ذہن نشیں کرانا چاہتے ہیں اور انھیں ان کے لیے قابلِ فہم سمجھتے ہیں وہ مکارمِ اخلاق،آدابِ زندگی، عقائد توحید وآخرت ورسالت جیسے اصول ہیں نہ کہ نکاح و طلاق اور وراثت کے قوانین یاجرم و سزا کے مباحث۔ گمان کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ آج بھی عام لوگوں کو ترجمہ کے ذریعہ قرآن پڑھنے کے قابل نہیں سمجھتے، ان کی نظر اول الذکر کی جگہ قرآن کے مشکل مباحث[ یعنی فقہی مسائل اور ان کی تفصیلات] پر ہوگی‘‘ (رجوع الی القرآن، ص۴۵)۔

واقعہ یہ کہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے آج سے تقریباً ۳۰۰برس پہلے جو آواز بلند کی تھی اسے ایک انقلابی آواز کہا جاسکتا ہے۔ اس پس منظر میں پروفیسر نجات اللہ صدیقی حیرت ظاہر کرتے ہیں کہ آج اکیسویں صدی میں بھی بعض لوگ عام لوگوں کو ترجمۂ قرآن کے ذریعے قرآن پڑھنے کی دعوت کے خلاف ہیں (حوالۂ مذکور، ص۴۵) ۔ مزید برآں وہ اس پہلو سے بھی ا س مسئلے پرغور وفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ’’ آخر اللہ تعالیٰ نے اَن پڑھ اُونٹ چرانے والوں سے قرآن کو سمجھنے کا مطالبہ کیا تھا تو اس سے زیادہ ترقی یافتہ لوگوں سے اس کا مطالعہ کرنے کو کہنا کیوں کر باعثِ تردد ہوسکتا ہے؟ رہا زبان کا فرق تو ہر سمجھ دار انسان کی طرح شاہ صاحب بھی جانتے تھے کہ ترجمہ کے ذریعے اس مشکل کو حل کیا جاسکتا ہے ‘‘ (حوالۂ مذکور، ص ۴۴- ۴۵)۔

شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی دعوتِ رجوع الی القرآن کا ماحصل واضح کرتے ہوئے مصنفِ محترم رقم طراز ہیں:’’ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ[شاہ ولی اللہ] عام مسلمانوں اور ہدایتِ الٰہی کے درمیان صدیوں سے حائل تہ در تہ حجابات کو ہٹانے کا سب سے مؤثر طریقہ انسان کو قرآن تک پہنچادینے کو سمجھتے تھے۔وہ یقین رکھتے تھے کہ جب انسانوں کے خالق کا فیصلہ ہے کہ وہ اس کا کلام سمجھ سکتے ہیں تو کسی دوسرے کو اس مسئلے میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ترجمہ قرآن اور اسے بچوں کو پڑھانے کی تلقین کے پیچھے ان کا حکیمانہ شعور ہے، جس سے اکثر لوگ محروم رہے ہیں ‘‘ ( حوالۂ مذکور، ص۴۵)۔

پروفیسر نجات اللہ صدیقیؒ کی پیشِ نظر تحریر وں کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ا ن میں رجوع الی القرآن کے حوالے سے عام لوگوں کے علاوہ خواص کی توجہ بھی مبذول کرائی گئی ہے کہ ہرمعاملے میں کتابِ ہدایت سے رجوع کرنے کی دعوت کے مخاطب عام و خاص سبھی لوگ ہیں ۔ اس ضمن میں انھوں نے موجودہ صورتِ حال پر اظہارِ افسوس کرتے ہو ئے اپنا یہ تاثر بیان کیا ہے: علما و دانش ور وں نے عام طور پر در پیش مسائل میں اپنا رہنما فقہ ا سلامی کو بنا رکھا ہے ، خواہ اِن مسائل کا تعلق معاشرت سے ہو یا معیشت و سیاست سے ۔ یہ سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے علما و دانش ور نئے مسائل کے حل کے لیے رجوع الی القرآن سے جھجکتے ہیں ؟ یہ لمحۂ فکریہ ہے،اس صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جدید مسائل کے  حل کے لیے بھی قرآن سے رجوع کیا جاتا۔ اس کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ نئے حالات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے۔ سائنس و ٹکنالوجی کی ترقیات کے سماج پر اثرات کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے۔ زمانے کے انقلابات سے لوگوں کے مزاج،نفسیات اور طور وطریق میں جو تبدیلی آئی ہے اس پر بھی نظر رکھی جائے۔انسانی مسائل کے حل کی خاطر قرآن کریم سے حصولِ رہنمائی اور رجوع الی القرآن کی دعوت کے لیے تیاری ان سب باتوں کو مدِّ نظر رکھنے کا مطالبہ کرتی ہے ۔ مزید برآں اسی ضمن میں یہ مطالعہ بھی مفید رہے گا کہ پہلے کے لوگوں نے بدلتے ہوئے حالات میں احکامِ الٰہی کی تعمیل کس طرح کی؟ ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد ہی رجوع الی القرآن کی دعوت اور اس پر عمل مؤثر و مفید ثابت ہوگا ( حوالۂ مذکور ، ص ۹ -۱۱)۔

محترم نجات اللہ صدیقی نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ بڑے پیمانے پر قرآنی علوم کی توسیع وترقی مطلوب ہے۔ پھر ان علوم کی نسبت سے اس پہلو سے غورو فکر کی بھی ضرورت ہے کہ  ان کو کس طرح نئی وسعتوں سے روشناس کرایا جائے اور دوسروں بالخصوص مغربی اسکالرز و مستشرقین سے تبادلۂ خیالات کر تے ہوئے ا پنی باتوں میں قرآنی روح پھونکی جائے؟ موجودہ حالات میں، جب کہ پوری دنیا ایک عالمی گائوں کی شکل اختیار کر چکی ہے ،یہ دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر خاص طور سے کن زبانوں میںقرآن کے ترجمے کی زیادہ ضرورت ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کے لیے علو مِ قرآنی پر عبور کے ساتھ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے والے اسکالرز در کار ہو ں گے ۔

امام مودودیؒ کے بارے میں گفتگو کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اس لیے کہ ہم علم کے ایک بحرِ ذخّار کے بارے میں بات کرنے جا رہے ہیں۔جن کی فکر بہت سے نظریاتی، سیاسی اور سماجی مسائل کا احاطہ کررہی ہے۔میں صرف یہ کوشش کروں گا کہ اس جلیل القدر سیّد مودودی رحمہ اللہ سے وابستہ بہت سے أمور میں سے چندایک کے متعلق اپنی معروضات پیش کروں۔

یہ جلیل القدر امام اور رہنما ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ایک ایسے علمی خانوادے میں انھوں نے جنم لیا جہاں ان کے والد صاحب کی شعوری طور پر کوشش رہی، کہ انھیں تعلیم کے لیے ایسے انگریزی اسکول میں نہ بھیجیں جو قابض استعمار اور انگریزی اقتدار کے زیر انتظام ہیں۔ اس کے برعکس انھوں نے سیّد کو عربی سکھائی، انھیں قرآن کریم کی تعلیم دی، انھیں فقہ، تفسیر اور حدیث کا سبق پڑھایا۔ اس کے بعد مولانا نے گہرائی کے ساتھ اجتماعی، معاشی اور سیاسی علوم پر اس قدر دسترس حاصل کی کہ ان علوم میں امامت کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔ حقیقت اور حق یہ ہے کہ امام مودودی رحمہ اللہ گذشتہ صدی کے امام اور مجدد ہیں، خصوصاً وہ میدانِ فکرو نظر اور سماجی و اجتماعی علوم کے امام ہیں۔

انھوں نے دو انتہائی خطرناک اور بے پناہ اثرات کی حامل فکری لہروں کا ڈٹ کر اور پوری قوت سے مقابلہ کیا ہے:

پہلے نمبر پر اس فکر کو چیلنج کیا، جسے ہم جمود اور ماضی پرستی کی فکر کہہ سکتے ہیں۔خصوصاً اس ماضی کی تقدیس کرنے والی جو پسماندہ دور کی علامت اور بدعت اور خرافات پر مبنی تھا۔ بیشتر علما اسی فکر کے حامل اورانھی خیالات کے اسیر تھے۔

دوسری فکری لہر جدیدیت اور تجددپسندی کی تھی۔ یہ مغربی اقدار کی محبت میں بدمست اور زندگی کے ہر میدان میں مغرب کی تقلید کرنا چاہتی تھی۔ اس کی شیرینی میں بھی اور اس کی کڑواہٹوں میں بھی، ہرہرقدم پر مغرب کی اندھی تقلید۔ یہ دراصل تہذیبی خودکشی کی فکر تھی۔ اس فکر کے حاملین اُمت مسلمہ کو مغرب یا مشرق کی بھٹی میں ڈال کر پگھلانا چاہتے تھے۔

ان دونوں فکری تحریکوں کے خلاف امام مودودی ایک طاقت ور قلم اور ایک عملی تحریک کے ذریعے پُراعتماد شان سے معرکہ زن ہوئے۔ انھوں نے فکر اسلامی کی تجدید کی اور ’وسطیۃ‘ اور اعتدال کا راستہ ہموار کیا۔ وسط و اعتدال کا وہ راستہ جو استخلاف فی الارض ،اللہ کی زمین کی آباد کاری کے لیے،اور صالح تہذیب و تمدن کے قیام و بقا کی خاطر اسلام کا حقیقی منشا تھا۔ سید مودودیؒ اُس الٰہی پیغام کو خوب اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کو مکلّف ٹھیرا کرفرمایا: اِنِّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً اور یہ کہ ہُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِیْہَا (ھود ۱۱:۶۱) ’’وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کے نام جو پیغام بھیجا اور اس کے ذمے جو کام لگایا، وہ تھا اللہ کی بندگی اور عبودیت اپنے جامع اور پورے مفہوم کے ساتھ۔ سیّد مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے عبودیت اور مکمل بندگی کے اسی جامع مفہوم کو اپنے سفر کا نقطۂ آغاز بنایا۔ دین و دنیا کے جامع اور دنیا و آخرت کے جامع، علومِ شرعیہ، علومِ کونیہ اور علومِ انسانیۃ کے جامع، اس پیغام کو اپنے فکروعمل کا محور بنایا۔ خالق کے مطلوب و مقصود اسی جامع اور کامل پیغام کو لے کر وہ آگے بڑھے اور انھوں نے دونوں طاقت ور فکری تحریکوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اہل جمود و تقلید کا، علم و فہم اور شرعی استدلال سے،اور سیکولر فکر و نظر رکھنے والے، اسلامی تہذیب و تمدن کے درپے، مغرب زدہ لوگوں کا، علم و حکمت کے ساتھ۔

سیّد رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیبی انحطاط اور اس کے خطرناک نتائج کو پوری قوت کے ساتھ بیان کیا۔ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کے مادہ پرستانہ فکر و فلسفہ کے نقائص، تضادات اور انسانیت کےلیے اس میں مضمر خطرات کو پوری وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ سرمایہ دارانہ نظریات کے حاملین، کمیونسٹ نظریات کے علَم برداروں اور قوم پرستی و نسل پرستی کے پرچارک لوگوں کا مسکت جواب دیا۔ اشتراکی، سرمایہ دارانہ اور جدلی مادیت کے بطلان کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا۔ خصوصاً لادینیت، الحاداور شکوک و شبہات سے لتھڑی اس فکر کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے۔ مولانا نے بے حد کامیابی کے ساتھ ایک ایسے مکتب فکر کی بناڈالی جو وسط و اعتدال پر قائم رہتے ہوئے، تہذیب اسلامی کے احیا کے لیے کامیابی کے ساتھ جامع فکر و نظر کو لے کر آگے بڑھے۔ انھوں نے اپنی قیمتی کتب کے ذریعے راستے کے نشیب و فراز کو واضح کرنا شروع کیا۔ انھوں نے استخلاف فی الارض اور حاکمیت الٰہیہ خصوصاً  قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں پر انتہائی باریک بینی اور گہرائی سے لکھا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سید مودودی امام بھی ہیں اور مجدد بھی۔ تاہم، جیسا کہ وہ خود بھی کہتے ہیں، دیگر انسانوں کی مانند وہ بھی ایک انسان ہیں، معصوم عن الخطا  نہیں ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ  وَکُلُّ اِنْسَانٍ یُؤْخَذُ مِنْہُ وَ یُرَدُّ  اِلَا صَاحِبُ  ہٰذَا القَبَر۔ اللہ تعالیٰ سیّد مودودی رحمتہ اللہ علیہ سے راضی ہوں کہ انھوں نے ہی آغاز کیا تھا اس نقشۂ کار اور اس حکمت عملی کا___فکری، سیاسی اور تہذیب اسلامی کے احیا کی حکمت عملی۔اور یہ تہذیب اور یہ ثقافت ہمیشہ اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتی ہے اور بہنوں اور بھائیوں کو دعوت دیتی ہے کہ اس شاندار تہذیب و ثقافت کی طرف آؤ  جس میں دُنیا و آخرت، دونوں کی بھلائیاں اور سعادتیں جمع ہیں۔

امام مودودی کا شمار فی الحقیقت مجتہدین میں ہوتا ہے۔ وہ دونوں اُمور کی جامع، ایک ایسی مثال ہیں، جو طبقۂ علما میں شاذ و نادر ہی کہیں یک جا ملتی ہیں۔اکثر علما یا تو صرف مفکر، ’مبدع‘ اور بہت سی کتابیں تالیف کرنے والے مصنف ہوتے ہیں، یا وہ صرف جماعت قائم کرتے اور تحریک اٹھاتے اور لوگوں کے تربیت و تزکیہ جیسے اُمور کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے دونوں طرح کی خیر کو جمع کرلیا۔علمی لحاظ سے دیکھیں تو وہ اجتہادی مرتبے پر فائز ایسے   صاحب ِتصنیف تھے جن کی کتب کی تعداد ۷۰ سے متجاوز ہے۔ اس میں ترجمان القرآن اور ان کی تفسیر تفہیم القرآن بھی شامل ہیں جن میں زیادہ تر مسائل اور ایشوز پر انھوں نے قلم اٹھایا ہے۔ ایسے عظیم علمی ذخیرے کے ساتھ ساتھ انھوں نے عملی سیاست اور اجتماعی قیادت،کے میدان میں قدم بھی بڑھایا۔اقتصاد و معیشت کے باب میں ان کا شمار ان ابتدائی لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اسلامی معیشت کے بارے میں لکھا ہے۔ فقر و تنگ دستی کا علاج کیسے کیا جائے؟ بے روزگاری پر کیسے قابو پایا جائے؟ ان مسائل پر سلف صالحین عموماً اس انداز میں نہیں لکھا کرتے تھے، جس انداز میں استاد مودودی رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔اس عظیم کام کے ساتھ ساتھ، انھوں نے افرادِ کار بھی تیار کیے اور۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کے نام سے ایک عظیم جماعت کی تاسیس کی۔

ہمارے عہد کے دو عظیم اسلامی مفکرین، مجتہدین اور عملی رہنمائوں حسن البنا شہید اور سیّدمودودی نے ایک دوسرے سے اثر لیا۔ سیّد کے افکارِ عظیم سے امت کے کثیر علما متاثر ہوئے۔ سیّد قطب رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ کبار علمااور مفکرین کی ایک بڑی تعداد سید مودودی رحمہ اللہ اور ان کے کام کے بارے میں رطب اللسان ہے۔ سید قطبؒ اپنے کئی مضامین میں انھیں عظیم مسلمان، عظیم مفکر،اور عظیم مجتہد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان کی تعریف ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے کی ہے۔۱۹۷۹ء میں، جس سال امام مودودی رحمہ اللہ کی وفات ہوئی الاعتصام میگزین [یمن]کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں: میں نے اس صدی میں کوئی اور ایسا فرد نہیں دیکھا جس نے اپنے علم، اپنی فکر اور اپنی ثقافت سے نوجوان نسل کو اتنا متاثر کیا ہو، جتنا امام مودودی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔انھوں نے مذکورہ انٹرویو میں سید مودودی رحمہ اللہ کی بہت تحسین کی ہے۔ اسی طرح علامہ یوسف القرضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سیّدمودودی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں امام مجدد اور مفکر عظیم کے لقب سے یاد کیا ہے۔ وہ انھیں اسلامی تہذیب کو جاننے والا اور شریعت کے نفاذ اور اس کے امکانات کا یقینی علم رکھنے والا، اسلامی نظام کو اس کے مکمل اصول و فروع کے ساتھ جاننے والا کہتے ہیں۔علمائے اُمت کی یہ گواہیاں اس امام کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں اور اسلام کی خدمت اور اسلام کی تجدید کے باب میں ان کے عظیم الشان کردار پر شاہد ہیں۔

اس عظیم امام کی کہ جنھوں نے تجدید بھی کی اور فکر سازی بھی،کتب بھی تالیف کیں اور افرادِ کار بھی تیار کیے۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم تجدید کے میدان میں ان کے طریقۂ کار و منہج کی پیروی کریں۔ تجدید واحیا کے معاملے میں ان کے افکار کی پیروی کریں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے لیے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہم مقلد ِمحض نہ بنیں بلکہ سیّد مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے منہجِ تجدید پر چلنے والے بنیں۔ جہاں اُس میں کمی رہ گئی ہے، اس کمی کو پورا کریں، اور جو انھوں نے کہا ہے اسے تسلیم بھی کریں اور کھلی آنکھوں سے اس کا تجزیہ بھی کریں اور اپنا جائزہ بھی لیں۔سب میدانوں میں، خاص طور پر سیاست اور معیشت اور سماجی ترقی کے میدان میں نئے راستے تراشیں، تاکہ ہم ان کی چھوڑی ہوئی میراث میں نیا اضافہ کرسکیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو فرد یا جو جماعت کسی مقام پر جا کر ٹھیراؤ اور جمود کا شکار ہوجاتی ہے، رُک جاتی ہے،آگے نہیں بڑھتی پھر وہ پیچھے کی طرف ہی جاتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

لِمَنْ شَآءَ مِنْکُمْ اَنْ یَّتَقَدَّمَ اَوْ یَتَاَخَّرَ  (المدثر ۷۴:۳۷) ’’تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے ڈراوا جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے‘‘۔ اللہ رب العالمین نے یہاں او یتوقف نہیں کہا اس لیے کہ توقف  ، تاخر ہی کا حصہ ہے۔اللہ تعالی اُمت مسلمہ کو بھی آزماتا ہے اور جماعت اسلامی کو بھی آزمارہا ہے۔مفکرین اور علماء کو بھی آزماتا ہے کہ کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ تمھارا امتحان لیتا ہے کہ کائنات کی تعمیر و ترقی میں،انسان کی اصلاح میں اور ہرہرمیدان میں اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ، بہتر کام کرنے والا کون ہے۔اَحْسَنُ عَمَلًا  کے باب میں علما نے کہا ہے کہ اس میں کسی جگہ اور کسی مقام پر پہنچ کر ٹھیرجانا بھی شامل ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور ساری اسلامی تحریکوں کے لیے بلکہ پوری اُمت کے لیے بھی یہی طرزِ عمل مناسب ہوگا کہ ان کا آج ان کے کل سے بہتر ہو اور آنے والا کل ان کے آج سے بہتر ہو فکر کے لحاظ سے، تجدید کے  لحاظ سے، عمل کے لحاظ سے، تطبیق کے لحاظ سے، تربیت کے لحاظ سے، تزکیۂ نفس کے لحاظ سے۔ اگر ہم یہ اہداف پورے کر لیتے ہیں اور اس نہج پر چلتے چلے جاتے ہیں، جو سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا منہج ہے تو افکار میں بھی تازگی آئے گی، اُمت بھی ترقی کرے گی اور جماعت بھی ترقی کرے گی اور اس قابل ہو گی کہ ترقی کے اس سفر کی قیادت کرسکے۔

میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے دعاگو ہوں۔ اسی طرح پاکستان کے لیے بھی دعاگو ہوں کہ یہ ہمارا سرمایۂ فخر ہے۔ آپ میں ہم خیر اور بھلائی پاتے ہیں بلکہ پورے پاکستان میں خیر ہی خیر ہے۔ یہ وطن عزیز تو بنیادی طور پر انھی مفکرین کی جدوجہد سے قیام پذیر ہوا تھا، اور اس لیے قائم ہوا تھا کہ ایک ترقی یافتہ اور اسلامی ریاست کی صورت میں ہمیشہ قائم رہے۔ ایک ایسی ریاست کی صورت میں قائم رہے جو تجدید اور جدت و اختراع پر قادر ہو۔

یہ ۱۹۸۲ء کی بات ہے جب مَیں لڑکپن میں تھا تو یہ سنا کہ لاہور میں ایک اسلامی انسٹی ٹیوٹ ہے جس کا نام ’سیّد مودودی انسٹی ٹیوٹ‘ ہے۔ اسی سال کے اواخر میں، پاکستان آیا اور یہاں داخلہ لے کر پڑھنے لگا۔بعد میں پتہ چلا کہ یہاں اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی بھی ہے۔ اس یونی ورسٹی کی اصول الدین فیکلٹی میں بی اے اور ایم اے کے لیے پڑھتا رہا۔ میرا یہ تعلیمی پس منظر بہت قیمتی حوالہ رکھتا ہے۔ جب میں سیّد مودودی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ، لاہور میں پڑھ رہا تھا، اس دوران میں نے جماعت اسلامی کے تجربے سے بہت کچھ سیکھا، اور جب ہم جماعت اسلامی کے تجربہ کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد سیّد مودودی رحمہ اللہ کا تجربہ ہے۔ ہم نے یہاں رہتے ہوئے جماعت اسلامی کی قیادت سے واقفیت حاصل کی جن میں میاں طفیل محمد صاحب، قاضی حسین احمد صاحب، خلیل احمد حامدی صاحب اور دیگر فکری و سیاسی قائدین شامل ہیں، جب کہ سیّد مودودی رحمہ اللہ کی تقریباً ساری کتب میں نے پڑھ ڈالیں۔یہ اس دور کی بات جب مَیں فکری اور نظریاتی انتشار کا شکار تھا۔

یاد رہے سیّد مودودی رحمہ اللہ کی تقریباًساری کتب،دیگر بہت سی زبانوں کی طرح، ترکی میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں۔ ہمارے ہاں ترجمہ کی تحریک بہت تیز ہے۔یہ ذکر کرتے ہوئے ہمیں بہت فخر ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی فکری قیادت، جس میں سیّد مودودی، علامہ محمد اقبال اور سیّدابوالحسن علی ندوی رحمہم اللہ علیہ شامل ہیں، ان سے ترکی کی معاصر اسلامی فکرنے بہت استفادہ کیا۔ ان کی فکر سے استفادہ کرنے کے ساتھ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم یہاں آپ کے پاس پاکستان آئے اور تعلیم حاصل کی اور یہاں کے بہت سے علما و مفکرین اور سیاست دانوں سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان کے مختلف تجربات سے خوب استفادہ کیا۔

استاذ المودودی کے مسلمان نوجوانوں پر بڑے احسانات ہیں،خصوصاً ساٹھ اور ستّر کی دہائی کے نوجوانوں پر۔اس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ کمیونسٹ نظریات نوجوانوں کی ہر تحریک کو بُری طرح سے متاثر کررہے تھے۔ اشتراکی افکار اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کو بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے اور ان افکار و نظریات کے مقابل کوئی طاقت ور اسلامی لہر موجود نہیں تھی۔اگر تھے تو صرف اور صرف استاد مودودی،سیّد قطب، ابوالحسن علی ندوی،مالک بن نبی اور بڑی حد تک علامہ محمداقبال کے افکار و نظریات۔ اس کے بعد بڑی تعداد میں ایسے مفکرین سامنے آئے جنھوں نے کتب تالیف کیں،اور احیائے اسلام میں سرگرم کردار ادا کیا اور ان عظیم شخصیات کی شاگردی و پیروی اختیار کی۔

فی الحقیقت سیّد مودودوی کا یہ تجربہ کوئی خلا میں نہیں تھا بلکہ اس کی جڑیں تہذیب، معاشرے اور تاریخ میں پیوست تھیں۔ انھوں نے اسلام کے بنیادی مآخذ سے استفادہ کیا، اور پھر تجدید ِ دین کی اس روایت میں گراں قدر اضافہ کیا، جو امام شاطبی، امام طاہر بن عاشور، امام عزبن عبدالسلام، مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلو ی نے قائم کی تھی۔ فکر اسلامی کی تجدید کی اسی روایت کو اقبال ، حسن البنا ، سیّد قطب اور سیّد مودودی نے عصرحاضر میں ایک جان دار رُخ دیا۔ سیّدمودودی نے اس کے ساتھ ساتھ یہ عظیم کارنامہ بھی انجام دیا کہ فکر کی تشکیلِ نو کے ساتھ عملاً ایک تحریک برپا کردی۔

سیّد مودودی رحمہ اللہ کی کتب عرب ممالک میں ترجمہ ہوکر پہنچیں تو عرب نوجوانوں نے ان سے بھرپور استفادہ کیا، خصوصاً ان کی کتاب قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں عرب حلقوں میں بہت معروف ہے،جس سے سیّد قطب شہید نے بھی استفادہ کیا تھا۔ جب انھوں نے تفسیر فی ظلال القرآن اور پھر معالم فی الطریق تالیف کی تو ان کی یہ تحریریں بڑی حد تک مولانا مودودی کی اسی کتاب 'قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھیں۔ مجھے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے بہت سے افراد سے ملنے کا موقع ملا۔ان نوجوانوں سے جو سیّد مودودی رحمہ اللہ کی کتب سے مستفید ہوچکے تھے، لیکن مجھے ان میں سے کوئی ایک فرد بھی تکفیری سوچ کا حامل اور انتہا پسند نہیں ملا۔

دو ہفتہ قبل الجزائر کی ایک کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا، جس کا انعقاد المعھد العالی للامن القومی الوطنی نے کیا تھا۔ اکثر مقررین مولانا کی کتاب 'قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں  کا تذکرہ کررہے تھے کہ یہ کتاب تحریک اسلامی کے بنیادی لٹریچر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔مگر اس کے باوجودعالمِ عرب میں اس کتاب کے خلاف فضا بھی قائم کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کتاب کو انتہاپسندی سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟ حالانکہ پاکستان میں اس کتاب کا براہِ راست اُردو میں مطالعہ کرنے والوں میں تو ایسی کوئی سوچ پیدا نہیں ہورہی۔ درحقیقت استعماری قوتیں اپنے کارندوں کے ذریعے ایسا منفی پروپیگنڈا کررہی ہیں۔

 سیّد مودودی رحمہ اللہ نے اپنی کتب،اپنے افکار اور اپنے اس تجربے سے گذشتہ صدی کی معاصر اسلامی فکر کو بڑے مثبت اور تعمیری انداز میں متاثر کیا ہے۔آج بھی سیّد مودودی کی کتب دُنیابھر میں،ترکی اور عالم عرب میں یہ خدمت انجام دے رہی ہیں۔ اگرچہ بعض ممالک میں ان کتب پر پابندی بھی لگائی گئی ہے، تاہم ترکی میں یہ کتب آج بھی نوجوانوں میں مقبول ہیں۔ مفکرین کی ایک نئی نسل نے ان افکار سے استفادہ کیا ہے اور اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے نئی کتب تالیف کی ہیں۔

مختصراً یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ترکی ہو یا دیگر ممالک، سیّد مودودی رحمہ اللہ کو ہرجگہ اسلامی فکر و عمل کے میدان میں قیادت اور فکری رہنمائی کا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ جب میں اسلامی یونی ورسٹی سے ایم اے کررہا تھا تو ہم نے چند مفکرین جیسے سیّد مودودی اور مالک بن نبی، سیّدقطب اورابولحسن علی ندوی کے درمیان تقابلی مطالعہ کیا تھا۔بعدازاں میں نے تقابلی مطالعہ کے اس تجربے کو دیگر مفکرین کے فکر و فلسفہ تک وسعت دی۔ اس دوران دیکھا کہ حسن البنا، سیّدمودودی،ڈاکٹر حسن الترابی اور نجم الدین اربکان کے درمیان ایک اور قدر مشترک بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ چاروں مفکرین مضبوط اسلامی فکر و فلسفہ بھی رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ میدان عمل کے شہ سوار بھی تھے۔ اگر میں انگریزی میں کہوں تو یہ چاروںMen of Theory  بھی تھے اور ساتھ ساتھ Men of Action  بھی۔ وہ اسلامی فکر و فلسفہ کے شہ سوار بھی تھے اور میدانِ عمل کے رہوار بھی۔یہ بڑی نادر مثال ہے۔ ان کے علاوہ دیگر مفکرین اپنی فکر کے ساتھ عمل کو اکٹھا نہیں کرپائے۔ ان کے پاس فکرو فلسفہ تو ہے لیکن ان کی کوئی تنظیم اور تحریک نہیں تھی۔اسی طرح محمداقبال اور سیّد قطب رحمہم اللہ کی الگ سے کوئی تحریک نہیں تھی بلکہ وہ خود ایک تحریک کا حصہ تھے۔ استاد اربکان نے ساٹھ کے عشرے میں جب اپنی تحریک کا آغاز کیا، تو ابتداً یہ ایک اسلامی فکری تحریک تھی۔ انھوں نے اس موضوع پر بہت سے شہروں میں لیکچر دیئے تاکہ نوجوانوں کو مطمئن کیا جاسکے کہ اسلام ہی مسلمان کے لیے تمام علوم کی اساس و بنیاد ہے۔ اسی طرح ہم نے اسلامی یونی ورسٹی میں پڑھتے ہوئے ایک اور مضمون ’الدستور الاسلامی‘ سیّد مودودی کی کتاب  Islamic Law and Constitution  [اسلامی ریاست] سے پڑھا۔ اس مطالعے نے اسلام کے دستوری قانون کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی اور ریاستی تصورات کو روزِ روشن کی طرح ذہن میں راسخ کردیا۔ ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّد مودودی کا فکری میدان میں مسلمان نسلِ نو پر بڑا احسان ہے۔

ہمارے عقیدہ اور ہماری اسلامی فکر میں ہے کہ کوئی فرد معصوم عن الخطا  نہیں ہے۔ ہرفرد خطا بھی کرتا ہے اور ٹھیک نتیجۂ فکر تک بھی پہنچ سکتا ہے۔لہٰذا ہم سبھی سے اخذ و استفادہ بھی کرسکتے ہیں اور ان کی رائے کو ترک بھی کرسکتے ہیں،خواہ یہ فرد اقبال، حسن البنا، نجم الدین اربکان ہوں یا حسن الترابی اور سیّدمودودی۔ تاہم، اگر ہم ان سے کسی معاملے میں اختلاف کرنا بھی چاہیں تو ضروری ہے کہ ہم عدل و انصاف سے کام لے لیں۔ اسی قاعدہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم انھیں معصوم تو نہیں کہتے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ انھیں گذشتہ اور اس صدی کے نوجوانوں کو درست سمت میں گامزن کرنے اور رکھنے کے معاملے میں فضیلت و برتری کا مقام حاصل ہے۔ہم اس فکری قیادت کے احسان مند اور قرض دار ہیں جنھوں نے جدید اسلامی فکر کی ترقی و ارتقا میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نوجوانوں کے دل و دماغ کو روشن تر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

بلاشبہہ ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب مسلمان ہی ہیں،ہم سب بشر ہیں،ہم سب خطا بھی کرتے ہیں اور صحیح فیصلہ تک بھی پہنچ سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ ہم جن اُمور پر متفق ہوں ان میں باہم تعاون کریں تاکہ ہم مشترکہ طور پر جہان کی تعمیرنو کرسکیں۔ ایک ایسا جہان جو سب کا ہو، سب کے لیے ہو۔

قومی کردار کے متعلق بامعنی اور تعمیری بحث کرتے وقت درج ذیل سوالوں پر غور کرنا ہوگا:

  • قوم کی تعریف کیا ہے؟
  • کردار کے معنی کیا ہیں؟
  • قومی کردار کیسے تشکیل پاتا ہے؟
  • وہ کون سے بنیادی عوامل ہیں جو ہمیں ایک قوم بناتے ہیں ؟ اور
  • پاکستانی قوم میں اعلیٰ اور بہترین پایہ کے قومی کردار کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے؟

قوم کی تعریف

قوم افراد کے ایسے مجموعے کا نام ہے جو ایک مشترک نظریۂ حیات پر یقین رکھتے ہوں۔ کسی قوم کا نظریۂ حیات اس قوم کے مخصوص نفسیاتی اور تعلیمی ماحول کے مطابق مطلوبہ اوصاف یا اجزائے ترکیبی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک قوم اس لیے قوم ہے کہ وہ قومی انداز میں سوچتی ہے اور اس کی سوچ اس لیے قومی ہوتی ہے کہ اس کے تمام افراد اس نظریہ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ قومی نصب العین یا آئیڈیل کے اجزائے ترکیبی میں نسل، زبان، رنگ و ثقافت، تاریخ، عقیدہ و مسلک اور فلسفہ یا مذہب خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی آئیڈیل میں یہ تمام اجزا شامل ہوتے ہیں اور کسی میں بعض۔

کردار کے معنی

کردار کو ذہن نشین کرنے سے پہلے ہمیں نظریۂ حیات کی مزید وضاحت کرنا ہوگی۔ کردار سب سے پہلے فرد کی زندگی میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ ہرشخص اپنی جبلت اور فطرت کے مطابق کسی نہ کسی نظریۂ حیات کو اپنانے پر مجبور ہے جو مندرجہ ذیل پانچ شرائط پوری کرتا ہو:

            ۱-         وہ نصب العین دوسرے تمام نظریات سے زیادہ پُرکشش اور محبت کے لائق ہو۔

            ۲-         اس میں اتنی جاذبیت ہو کہ فرد کے جملہ خیالات پر چھا جائے۔ اسے ایک مثالی آورش بنایا جاسکے۔

            ۳-         یہ آئیڈیل بلند ہو یا پست، دل کش ہو یا قابلِ نفرت، صحیح ہو یا غلط، مکمل ہو یا نامکمل، عالم گیر ہو یا علاقائی ، تاہم فرد کے لیے اس میں دل کشی ، پسندیدگی اور سچائی کی وہ جملہ خوبیاں موجود ہوں جو اس کی یا دوسروں کی نظر میں کچھ اہمیت رکھتی ہیں۔

            ۴-         جو فرد کے لیے ایک ایسے پیمانہ، معیار اور کسوٹی کا کام دے سکے، جس پر صحیح اور غلط، اچھے اور بُرے ، خوب صورت اور بدشکل کو پرکھا جاسکے۔ جو یہ بتا سکے کہ کس چیز کو قبول کیا جائے اور کون سی کو مسترد۔ جس سے یہ پتہ چل سکے کہ کون سی چیز محبت کرنے کے لائق ہے اور کون سی قابلِ نفرت۔ جو یہ بتا سکے کہ کون کون سے کام کرنے کے ہیں اور کن کن کاموں سے پرہیز بہتر ہے۔

            ۵-         وہ نظریہ شخصی زندگی پر اس طرح حاوی ہوجائے کہ اس کی تمام سرگرمیاں اسی کے تابع ہوجائیں۔ عادات و خصائل، عقائد و اعمال، خیالات و جذبات، مرغوبات ومیلانات، آرزو اور خواہش غرض یہ کہ ہرچیز پر اس نصب العین کی گہری چھاپ ہو۔

انھی چیزوں سے شخصی کردار نشوونما پاتا ہے۔ انسانی کردار فطرتاً ترقی پذیر ہوتا ہے۔ جوں جوں اس کے شعورو آگہی کی سطح بلند ہوتی ہے اور اپنے نظریہ کے مطابق عمل کرتا ہے ، اسی حساب سے اس کا کردار ترقی کرتا ہے۔ کردار کی بنیاد چونکہ نظریہ پر ہوتی ہے، اس لیے ایک شخص کا نظریۂ حیات جس قدر بلند یا پست، اچھا یا بُرا، دل کش یا بھونڈا ہوگا،اسی قدر اس کا کردار بلند یا پست اور اچھا یا بُرا ہوگا۔

قومی کردار کیسے اُبھرتا ہے؟

چونکہ ایک قوم کے تمام افراد کسی ایک مشترک نظریے کے قائل اور پیروکار ہوتے ہیں۔ اس کی بقا اور ارتقا کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے اندر مشترک عادات و خصائل، میلانات و مرغوبات، عقائد و خیالات، جذبات و محسوسات، اُمنگ و خواہشات ترقی کرکے کردار کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ہرقوم اپنا جدگانہ کردار رکھتی ہے جس کی ایک خاص نوعیت ہوتی ہے۔ جب اس نصب العین پر عملی زندگی کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو وہ قومی آئیڈیل بن جاتا ہے۔ اسی لیے ہرقوم کو ایک نظریاتی گروہ کہتے ہیں۔ قومیں یا نظریاتی فرقے نفسیاتی طور پر اسی طرح ترقی کرتے ہیں جس طرح مختلف عناصر حیاتیات کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ جس طرح ہرعنصر اپنا منفرد وجود اور خاص خصوصیات رکھتا ہے بعینہٖ ہرقوم اپنی جداگانہ نظریاتی حیثیت یا کردار رکھتی ہے۔

تعمیر قوم کے بنیادی عوامل

ہم محض اس لیے ایک الگ قوم نہیں ہیں جیساکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مصنوعی حالات نے ہمیں ایسا بنادیا ہے،بلکہ اس لیے ایک قوم ہیں کہ بعض قدرتی اسباب اور فطری عوامل ہماری قومیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ مسلمان قوم کی تعمیر کرنے والے یہ عوامل (دوسری قوموں کی طرح) علاقائی زبان، نسل، رنگ، ثقافت یا تاریخ نہیں بلکہ اسلام کے اس زندہ عقیدے پر پختہ یقین ہے جس کا بنیادی پتھر خدائے واحد پر ایمان لانا ہے۔

ہمارا وطن پاکستانی جغرافیائی لحاظ سے کئی خطّوں میں تقسیم ہے۔ ان میں سے ہرخطّہ اپنی جداگانہ ثقافت ، تاریخ اور زبان رکھتا ہے۔ اندریں حالات اگر ہرخطّہ اپنی علاقائی زبان، تہذیب و ثقافت، تاریخ یا نسل کو اپنی توجہ کا مرکز اورقومی آئیڈیل بنالے تو قومی کردار کی تعمیر کیسے ہوسکتی ہے؟ لیکن اگر تمام خطّے اسلامی نظامِ حیات کو مشترکہ آئیڈیل کے طور پر اپنالیں تو نہ صرف علاقائی زبان، نسل، تہذیب و ثقافت اور تاریخ و تمدن کے بُت پاش پاش ہوجائیں گے بلکہ ملّی شعور اور قومی کردار بھی فروغ پاسکے گا۔

اعلٰی اور بلندپایہ قومی کردار کا فروغ

اس سوال کا جواب ہم ’’کردار کی تعریف‘‘ کے ضمن میں دے چکے ہیں۔ جیساکہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ قومی کردار ان عادات و خصائل، میلانات و مرغوبات، عقائد و خیالات، جذبات و محسوسات اور اُمنگ و خواہشات کے مجموعے کا نام ہے جو کسی قوم کے افراد میں مشترک طور پر پائے جاتے ہوں اور ان کی بنیاد ایک مشترک نصب العین پر ہو۔

اس سے ظاہر ہوا ہے کہ اگر ہم اپنے قومی کردار کی تشکیل اعلیٰ اور بلند ترین پیمانے پر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک اعلیٰ ترین مقصد ِ حیات اور بلندترین آورش کو قومی نصب العین بنانا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسا مثالی نظریہ اختیار کرنا ہوگا جو ہرلحاظ سے دل کش، جاذبِ نظر اور درست ہو۔ وہ نظریہ ایک اور صرف ایک ہوسکتا ہے،یعنی اسلام کا نظریۂ توحید۔ ہم اس سے زیادہ بلند، بہتر، مکمل، سچے اور عالم گیر نظریے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

پس، اگر ایک طرف ملک کے جغرافیائی حالات کے تحت اسلامی ضابطۂ حیات کو قومی آئیڈیل کے طور پر اپنانا ہماری سیاسی ضرورت ہے، تو دوسری طرف اعلیٰ درجے کے کردار پیدا کرنے کے لیے ہماری نفسیاتی ضرورت بھی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری فطرت کے غیرمستحکم اصول بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ بلند مرتبہ قومی کردار صرف اسی صورت میں اُبھر سکتا ہے، جب ہم اعلیٰ ترین اصولوں کو قومی نصب العین بنائیں، اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ نصب العین صرف اسلام ہوسکتا ہے۔

اسلامی نظریۂ حیات کو قومی آئیڈیل بنانے کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ خدا پر ہمارا غیرمتزلزل اور مستحکم یقین ہو۔ یہ اس یقینِ محکم ہی کا کرشمہ تھا کہ ہندستان کے مسلمانوں نے اپنے سے کہیں طاقت ور اور بااثر انگریز اور ہندو قوم سے ٹکرلی اور اپنی جدوجہد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کرکے پاکستان بنالیا۔ اس کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے نظریے سے جنوں کی حدتک پیار کریں۔ ہماری زندگی کے سیاسی، اخلاقی، عسکری، قانونی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی غرضیکہ تمام شعبوں میں اسے فیصلہ کن طاقت کا مقام حاصل ہو۔ ہم جس قدر جلد یہ قدم اُٹھا سکیں ہمارے حق میں اسی قدر بہتر ہے۔

جب ایک آورش یا آئیڈیل کے ساتھ کسی فرد یا قوم میں سچی محبت پیدا ہوجاتی ہے، تو اس کے تمام عقائد و نظریات، خیالات و محسوسات، میلانات ومرغوبات، عادات و اَطوار، علم و عرفان، ارادے اور طریق کار، اُمنگ اور خواہشات پر اس آئیڈیل کی گہری چھاپ لگ جاتی ہے۔ گویا ایک نصب العین شخصی یا قومی کردار کی اسی طرح تعمیر کرتا ہے، جس طرح مناسب کاشت اور آبپاشی سے ایک بیج کا دانہ تناور درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مناسب تعلیم و تربیت سے ہم قومی آئیڈیل کو قومی کردار میں ڈھال سکتے ہیں۔ ایک بیج سے وہی پودا اُگتا ہے جس کی قوتِ نمو اس بیج میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ ہم ایک قومی نصب العین منتخب کرکے اسی نوعیت کا قومی کردار پیدا کرسکتے ہیں، جس کی صلاحیت اس نصب العین میں ہوگی۔ خدا کا تصور اپنی فطرت کے اعتبار سے وہ واحد نظریۂ حیات ہے، جس سے بہترین اور اعلیٰ پایہ کا قومی کردار فروغ پاسکتا ہے۔

بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ہمیں اسلام کے محض مسلّمہ اسلامی اُصولوں، مثلاً مساوات انسانی، آزادی، انصاف، صداقت، اخوت، جرأت، بُردباری اور دیانت داری وغیرہ کو اپنا لینا چاہیے اور نظریۂ توحید پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے، اس سے قومی کردار کی تشکیل میں بڑ ی آسانی ہوجائے گی۔ لیکن ایسا کرنا ہمارے لیے عملاً ناممکن ہے کیونکہ مسلّمہ عالم گیر اخلاقی اصول نظریۂ توحید کی اسی طرح وکالت کرتے ہیں جس طرح کسی درخت کا بیج خاص طرح کے پتوں اور پھولوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص تازہ اور مہکتے ہوئے پھولوں کا شوقین ہے تو اسے خود اپنے باغ میں ان پھولوں کا پودا لگانا اور اس کی نگہداشت کرنی ہوگی ورنہ اسے باسی، پژمُردہ اور کاغذی پھولوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ جس طرح پھول درخت سے ٹوٹنے کے بعد مُرجھا جاتے ہیں، اسی طرح سچے اور عالم گیر اخلاقی اصول اپنےاصل سرچشمۂ توحید سے کٹنے کے بعد مُردہ اور بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم کسی شخص سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ان اخلاقی اصولوں کی پیروی کرے تو پہلے ہمیں یہ تسلی کرنی ہوگی کہ وہ خدا کو آئیڈیل بنائے اور اس آئیڈیل سے سچا اور بھرپور پیار کرے۔ چونکہ سچے اور عالم گیر اخلاقی ضابطوں کا منبع و سرچشمہ نظریۂ توحید ہے، اس لیے ان پر وہی شخص عمل پیرا ہوسکتا ہے جو   اس نظریے کا قائل اور چاہنے والا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہرشخص اپنی پسند کے مطابق کسی نہ کسی نظریے سے محبت کرتا ہے۔ اگر اسے نظریۂ توحید پسند نہیں تو لازماً اس سے فروتر کسی دوسرے نظریے کو اعمال کا مرکز بنائے گا اور اسی کو ایسا معیار مان لے گاجس پر بُرے اور بھلے، سچ اور جھوٹ،   دل کش اور بدنما کو پرکھا جاسکے۔ اسی نظریے کی روشنی میں وہ یہ طے کرے گا کہ کس چیز کو قبول کیا جائے اور کس کو مسترد، کس سے محبت کی جائے اور کس سے نفرت، کون سا کام کیا جائے اور کون سا نہیں؟ اگر ایسا شخص زبان سے اخلاقی اصولوں کی پیروی کا دم بھرتا ہے، تو سمجھ لو یا تو وہ دانستہ اپنے باطل نظریات کو چھپا رہا ہے یا ان کی حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے۔ یعنی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہے۔ جس طرح ہم ببول کے درخت سے آم حاصل نہیں کرسکتے بالکل اسی طرح غلط نظریۂ حیات کو اپناکر اچھے قومی کردار کی توقع نہیں کرسکتے۔

بظاہر برطانیہ، فرانس، اٹلی، امریکا اور دُنیا کے دوسرے کمیونسٹ ممالک میں خدا پر ایمان ایک مسلّمہ اصول کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم وہاں خدا کوآئیڈیل کا درجہ حاصل نہیں، ان کا آئیڈیل سیکولرنیشنلزم ہے۔ ان کے نزدیک سیکولر نیشنلزم آئیڈیل کی ان پانچوں شرطوں پر پورا اُترتا ہے جو ہم ابتدا میں بیان کرآئے ہیں۔ نظریۂ توحید ان کی نگاہوں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انگریز قوم کی اکثریت اگرچہ خدا کو مانتی ہے لیکن عملاً نیشنلزم ان کے نزدیک تمام نظریات سے بالاتر اور پسندیدہ ہے اور نظریۂ توحید کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ ان کے تمام اعمال و افعال، عقائد و نظریات، اقدار و روایات اور جذبات و میلانات کا معیار نیشنلزم (جذبۂ قومیت) ہے نا کہ خدا کا تصور۔ اگر کسی معاملے میں دینی تقاضے قومی تقاضوں سے متصادم ہوں، تو انگریز قوم بے دھڑک دینی تقاضوں پر قومی تقاضوں کو ترجیح دیتی ہے۔ ایک لادین اور نیشنلزم کی پجاری قوم سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔

پاکستان میں متعدد مذاہب کے پیرو موجود ہیں، مثلاً مسلمان،عیسائی، ہندو اور پارسی۔ اس لیے ہمیں ریاست کے سرکاری فلسفہ میں توحید اور اس سے وضع کیے گئے ان معروف و مسلّمہ اخلاقی اصولوں کو شا مل کرنا چاہیے جن کے بارے میں مختلف مذہبوں کے درمیان کوئی اختلافِ رائے نہیں۔ ایسا کرنا نہ صرف ملکی حالات کا تقاضا ہے بلکہ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں قرآن پاک میں ہے: اے اہلِ ایمان! اس اصول کی طرف لوٹ آئو جو ہمارے اور تمھارے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور اپنے ہم جنسوں کو اپنا آقا اور مالک بھی نہیں مانتے۔

اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہم سرکاری طور پر ایک ایسے بنیادی اور مشترک اصول کو اپنے نظریۂ حیات کی اساس بنالیں گے جو پاکستان کے تمام مذہبی فرقوں کے فلسفۂ حیات کا سنگ ِ بنیاد ہے۔ اس طرح تمام مذہبی فرقوں کے اہم ترین جذبات___مذہبی جذبات سے فائدہ اُٹھا کر سارے فرقوں کو ایک متجانس (Homo Genous) قوم میں ڈھال سکیں گے۔ پوری قوم کا ایک مشترک آئیڈیل ہوگا جسے اپنانے میں ہم مسرت اور فخر محسوس کریں گے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات پر اس حد تک قابو پالیا جائے گا کہ ہرفرقہ اپنی حد تک انھیں عزیز رکھے۔ اس طرح فرقہ وارانہ کشیدگی اور تلخی ختم ہوجائے گی۔ اس مشترک فلسفۂ حیات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے فرقوں کو ان کے مذہب کے مطابق عقیدہ و عمل کی مکمل آزادی دی جاسکے گی۔ اس سے ایک طرف ہم غیرمسلم اقلیتوں کے عقائد و عبادات میں مداخلت سے باز رہ سکیں گے، دوسری طرف اس فلسفۂ حیات سے انھیں اضافی مدد مہیا کرسکیں گے۔ اس سے ملک کے تمام فرقوں (مسلمان، عیسائی، ہندو، پارسی) کے درمیان یگانگت اور ہم آہنگی بڑھے گی۔ تمام فرقے خدا کے ایک کنبے کی مانند رہ سکیں گے جس میں مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت یا بدخواہی کی کوئی گنجایش نہیں ہوگی۔ سب فرقے ایک مشترک قومی احساس کے تحت اتحاد اور تعاون کی فضا میں کام کرسکیں گے۔

سچے محب ِ وطن پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں اس بات پر خاص توجہ دینی ہوگی کہ یہاں کا ہرشہری خدا تعالیٰ پر ایمان کو ایسی زندہ اور فعال قوت بنالے جو اس کی سرکاری اور غیرسرکاری سرگرمیوں پر غالب ہو۔ اس کے لیے ہمیں ایک مخصوص نظام اختیار کرنا ہوگا، جو ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچا دے۔

کسی قوم کے اتحاد، سالمیت اور کارکردگی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی واضح مقصد اور نظریۂ حیات ہے یا نہیں؟ اگر کوئی نظریہ ہے تو قوم میں اس کے لیے کتنی تڑپ اور لگن موجود ہے؟ یہ نظریہ ان کے قومی مزاج اور روایات کے مطابق ہے یا نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے، تو آیا اس آئیڈیل میں ایسی خوبیاں موجود ہیں جو خود بخود لوگوں کے دلوں میں گھر کرجائیں؟ اگر اس میں یہ خوبیاں موجود نہیں، تو بڑے سے بڑا معلّم بھی اپنے تعلیمی منصوبوں اور انتظامات کے باوجود لوگوں کے جذبات کو اس حد تک بیدار نہیں کرسکتا کہ لوگ اس نظریے پر فریفتہ ہوجائیں۔ اگر کسی نظریے میں داخلی اور باطنی خامیاں موجود ہیں، تو اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ ہم پاکستانی اس لحاظ سے بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس ایسا نصب العین موجود ہے جو تمام شرطیں پوری کرتا اور اپنے اندر جملہ خوبیاں رکھتا ہے۔

جو نظریات مصنوعی اور نمایشی طور پر کسی قوم کو عزیز ہوں انھیں خود ہی قوم چیلنج کردیتی ہے، مثلاً بھارت میں وہاں کی اقلیتوں نے انڈین نیشنلزم کے نظریہ کو چیلنج کردیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا نصب العین ایک حقیقی اور قابلِ عمل ہے۔ وہ ہمارے مزاج، روایات اور نفسیات سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اسے دل کی گہرائیوں میں جگہ دیں۔ کمیونسٹوں سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں انسان کی تمام تر ترقی کے باوجود خدا کا تصور آج بھی اتنا ہردلعزیز، نیا، تازہ اور جبلت انسانی کے قریب ہے، جتنا پہلے کبھی نہ تھا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بنی نوع انسان کو اس نظریے کی آج جتنی ضرورت ہے شاید ماضی میں کبھی نہ تھی۔

موجودہ دور میں انسانی حالات کا جو مفکرانہ مطالعہ کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ قومی نصب العین کے طور پرسیکولر نیشنلزم کی بنیادیں متزلزل ہورہی ہیں اور اس کی جگہ انسان اور کائنات کے مختلف نظریے لے رہے ہیں۔ دُنیاکی جدید ترین ترقی یافتہ ریاستیں بھی دراصل نظریاتی ریاستیں ہیں، جنھوں نے فرد کی رہنمائی کے لیے بزعمِ خویش صحیح یا غلط، چند اصول بنالیے ہیں۔ ان میں روس اور چین ہی نہیں امریکا بھی شامل ہے۔ کیونکہ امریکی قوم کے نزدیک جمہوریت نہ صرف ایک بہترین نظامِ حکومت ہے بلکہ ایک نظامِ حیات بھی۔ چنانچہ انھوں نے جمہوریت کو قومی آئیڈیل بنالیا ہے۔ بہت سی قومی ریاستیں جو کسی زمانے میں آسمانِ سیاست پر درخشندہ ستاروں کی طرح چمکتی تھیں، آج رُوبہ زوال ہیں۔ بعض نئی قومی ریاستیں بھی جو ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہی ہیں اسی صورتِ حال سے دوچار ہیں اور تیزی سے کمیونزم کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ آج نیشنلزم کی مٹی اس طرح پلید ہورہی ہے جیسے ماضی میں قبائلی نظام کی ہوئی تھی۔

ارتقا کی تندو تیز لہریں نسلِ انسانی کو ایک ایسی عالمی ریاست کی طرف کشاں کشاں لیے جارہی ہیں جس کی اساس انسان اور کائنات کے فلسفہ پر ہوگی۔ ظاہر ہے یہ فلسفہ کمیونزم نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم اس بات کو درست تسلیم کرلیں کہ ارتقائی عمل تیزی سے اس نقطۂ عروج تک پہنچنا چاہتا ہے جہاں پوری دُنیا ایک مکمل معاشرے کی شکل اختیار کرے گی، تو ہمیں یہ بات بھی لازماً ماننا پڑے گی کہ اس معاشرے کی بنیاد ایک مکمل اور جامع نظریے___ خدا کے تصور پر ہوگی۔ انسانی ارتقا جو دراصل نظریاتی ارتقا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر اہلِ پاکستان خدا کے تصور کو اپنا قومی آئیڈیل بنالیں، تو پاکستان آیندہ وجود میں آنے والی عالم گیر ریاست کا نقطۂ اجتماع اور مستقبل کے مکمل ترین معاشرے کا مرکز ہوگا۔ اس کے علاوہ اپنے قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان دوسری اقوام کے ساتھ خیرسگالی اور دوستی کے رشتے بھی قائم کرسکے گا۔ دوسری ریاستوں کے ساتھ ایسے دوستانہ تعلقات اسی صورت میں قائم ہوسکتے ہیں جب عالم گیر ریاست کے شہریوں کو پاکستان پر اعتماد ہو۔ دوسری اقوام کے ساتھ اس کا سلوک منصفانہ اور دیانت دارانہ ہواور عالمی اتحاد قائم کرنے کے لیے خود پاکستان دوسروں کے ساتھ تعاون کرے۔ اگر خدا ترس اور خدا سے محبت کرنے والی قومیں بھی اپنے معاملات میں انصاف پسند، دیانت دار،پُرامن اور قابلِ اعتماد ثابت نہ ہوں، تو دوسری قوموں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ میں اس مقالے کو علّامہ اقبال اور قائداعظمؒ کے ارشادات سے دواقتباسات پر ختم کرتا ہوں۔ جنوری ۱۹۳۸ء میں ’سالِ نو کے پیغام‘ میں علّامہ اقبال نے فرمایا تھا:

دُنیا بھر کے مفکر اور دانش ور حیران و پریشان ہیں کہ کیا جدید تہذیب اور ارتقا کا انجام یہی ہوگاکہ انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں اور روئے زمین پر حیاتِ انسانی کا وجود ناممکن ہوجائے؟ یاد رکھو! انسان دُنیا میں فقط اسی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے اور ترقی پاسکتا ہے جب وہ انسانیت کا احترام کرنا سیکھ لے۔ جب تک انسان انسانیت کا احترام کرنا نہیں سیکھتا یہ دُنیا خونخوار درندوں کی شکارگاہ بنی رہے گی۔ قوموں کے درمیان صرف وہی اتحاد پائیدار اور قابلِ اعتماد ہوسکتا ہے جس کی بنیاد برابری پر ہو۔ جو نسل، قومیت، رنگ اور زبان کے امتیازات سے پاک اور بالاتر ہو۔ جب تک یہ نام نہاد جمہوریت، یہ منحوس نیشنلزم اور یہ ذلیل ملوکیت فنا نہیں ہوجاتی اور لوگ اپنے اعمال سے اس یقین کا اظہار نہیں کرتے کہ پوری دُنیا خدا کا کنبہ ہے، جب تک دُنیا میں نسل، رنگ اور جغرافیائی قومیتوں کے بُت موجود ہیں، انسان ایک خوش حال اور سکون بخش زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اخوت، مساوات اور آزادی کے دل کش نعرے محض ایک ڈھونگ ہیں۔

اس طرح جون ۱۹۴۵ء میں ایک تقریر کے دوران قائداعظم محمدعلی جناح نے فرمایا:

حصولِ پاکستان سے ہمارا مقصد محض آزادی حاصل کرنا نہیں بلکہ اس اسلامی نظریۂ حیات کو فروغ دینا ہے جو قدرت کی طرف سے ہمیں قیمتی عطیے اور بیش بہا خزانے کی شکل میں ملا ہے۔ اُمید ہے کہ دوسری قومیں بھی اس سلسلے میں ہم سے تعاون کریں گی۔

اسلامی نظریۂ حیات کے فروغ میںدوسری قومیں اس طرح تعاون کرسکتی ہیں کہ وہ بھی  اس نظریے کے اہم ترین جزو، یعنی خدا کے تصور اور اس سے ماخوذ عالم گیر اسلامی اخلاقی اصولوں کو اپنالیں۔ اس لیے صرف یہی نظریہ ہمارے اعلیٰ اور بلندپایہ کردار کی بنیاد بن سکتا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی زندگی کا کوئی پہلو بھی حکمران جماعت بی جے پی کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ ۲۰۲۲ء کے آغاز سے نسل پرست بھارتی حکومت، کشمیر کا آبادیاتی تناسب بدل کر کشمیری مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کشمیری ثقافت، زبان، مذہبی شناخت، غرض زندگی کا ہر پہلو نئی دہلی حکومت کی جانب سے منظم حملوں کی زد میں ہے۔

لوگوں کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں۔ کشمیریوں کی زمین چھین کر باہر سے آنے والوں کو دی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ خاموش ہیں اور صحافی قید کاٹ رہے ہیں۔ انھیں ملک سے باہر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں،ماورائے عدالت قتل اور حراستی تشدد عام ہے، کل جماعتی حُریت کانفرنس کی ساری قیادت جیل میں ہے، لیکن ہندستانی سرکار کو دُنیابھر میں کوئی پوچھنے والا نہیں، بلکہ حال ہی میں دنیا کی سب سے بڑی چھاؤنی میں مزید فوجیں بھیج دی گئی ہیں۔

کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی مثال دنیا میں کہیں اور ملنا مشکل ہے۔لیکن پھر بھی اس صورتِ حال کے سامنے وہ تمام ممالک، ایک بے حس دیوار کی مانند خاموش ہیں، جو دنیا میں انسانی حقوق کے علَم بردار کہلاتے ہیں۔ دوسری طرف ان مظالم کے خلاف پاکستان کی بین الاقوامی مہم کوئی خاطر خواہ نتائج پیدا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ہم اپنے اندرونی مسائل میں ہی اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ کشمیر کے مظلوموں کے لیے وقت نکالنے سے قاصر ہیں۔ کشمیر سے متعلق اسلام آباد کی ساری کوششیں اب صرف اقوام متحدہ کو خط لکھنے تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔

اگرچہ مقبوضہ وادی کی داستان خونچکاں سات عشروں پر محیط ہے لیکن ۵ ؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی سرکار کی یک طرفہ کارروائی نے مظالم کا ایک نیا باب شروع کیا ہے، جو کشمیریوں کے خون سے لکھا جا رہا ہے۔ بھارتی سرکار نے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کو ہندستان میں ضم کر کے اس کے دو ٹکڑے کیے اور انھیں زبردستی ہندستانی یونین کا حصہ بنا دیا۔ یہ ساری کارروائی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی جانب سے منظور کردہ قراردادوں کی صریح طور پر خلاف ورزی ہے۔ کشمیر سے متعلق اب تک ۱۱ قراردادیں منظور ہو چکی ہیں، لیکن خصوصی طور پر سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۳۸ قابل ذکر ہے، جس کے پیرا نمبر ۲ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی بھی فریق کشمیر کے مادی (material) حالات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتا۔

اس سب کے باوجود کشمیر میں ایک طویل کرفیو نافذ کر کے مواصلات کا نظام معطل کردیا گیا، فوجی محاصرہ سخت تر ہو گیا، عوامی اجتماعات پر پابندی لگ گئی،میڈیا کو خاموش کروا کر بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں سمیت تمام کشمیری رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ سب صرف اس لیے کیا گیا کہ کشمیری اس غیر قانونی اقدام کے خلاف کوئی مزاحمت نہ کر سکیں، جس نے بیک جنبش قلم ان کو تمام تر حقوق سے محروم کر دیا ہے۔

اس دن سے لے کر آج تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت، کشمیریوں کو کمزور کرنے، انھیں ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنے اور ان کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لیے کئی قسم کی انتظامی، آبادیاتی، اور انتخابی تبدیلیاں کر چکی ہے۔یہ کم و بیش وہی اقدامات ہیں جو مقبوضہ فلسطین کو دبانے کے لیے اسرائیلی حکومت کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں۔ مئی ۲۰۲۲ء میں انڈین حدبندی کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا اعلان کیا تھا، جن کے ذریعے جموںو کشمیر اسمبلی میں جموں کو زیادہ نمایندگی دے دی گئی تھی کہ پارلیمنٹ میں مسلم نمایندگی کو کم کر کے ہندو اکثریت حاصل کی جا سکے۔ ۲۰۱۱ء کی آخری مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کی آبادی میں ۶۸فی صد سے زائد حصہ مسلمانوں کا ہے، جب کہ ہندو ۲۸ فی صد سے بھی کم ہیں۔ ان نئی حدبندیوں کے ذریعے بھارتی حکومت مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتی ہے۔

آبادی کے اس تناسب کو اُلٹ دینے کے لیے نئی دہلی نے شہریت کے نئے قانون بھی متعارف کروائے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کی معطلی کے بعد شہریت کے اہل ہونے والے تقریباً ۳۴ لاکھ ہندستانیوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کر دیے گئے ہیں۔  جولائی ۲۰۲۲ء میں مقبوضہ وادی کے چیف الیکشن کمشنر نے تمام شہریوں، حتیٰ کہ عارضی طور پر کشمیر میں رہایش پذیر افراد کو بھی ووٹ کا حق دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مضحکہ خیز قدم بھی کشمیر کے آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لیے اٹھایا گیا ہے اور اس سے تقریباً ۲۵ لاکھ نئے رائے دہندگان انتخابات کا حصہ بن جائیں گے، جن میں سے اکثر غیر مقامی ہیں۔ یوں رائے دہندگان کی تعداد تقریباً ۳۰ فی صد بڑھ جائے گی۔ نئی حد بندیوں کی طرح اس جارحانہ قدم نے بھی کشمیریوں کے اندر غم و غصے کو ہوا دی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس اور روایتی طور پر بھارت نواز سمجھے جانے والے وزرائے اعلیٰ اور دیگر سیاست دانوں نے بھی ان اقدامات کو مسترد کر دیا ہے۔ فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کا کہنا تھا کہ ’’غیر مقامیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنا اس بات کا کھلم کھلا اعلان ہے کہ کشمیریوں سے ان کی نمائندگی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘ ۔

تاہم، یہ مذمتی بیانات مودی حکومت کو شرم دلانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس حکومت کی سرگرمیاں صرف انتخابی عمل تک محدود نہیں ہیں۔ پچھلے سال بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے ’وقف بورڈ‘ کو سرکاری تحویل میں لے لیا تھا اور جس کے نتیجے میں بورڈ کی تمام املاک بھی سرکاری قبضے میں چلی گئی ہیں۔ یہ سب دراصل اس منظم مہم کا حصہ ہے، جس کے ذریعے کشمیر میں مزارات سمیت مسلمانوں کے تمام مذہبی مقامات پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ مسلمان علما اور مذہبی پیشواؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اکثر مسجدوں میں نماز پر پابندی ہے۔ جموں و کشمیر جماعت اسلامی پر ۲۰۱۹ء میں پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن اب اس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں حکومت لاکھوں روپے مالیت کی جائیدادوں پر قبضہ کر رہی ہے۔ ان املاک میں اس عظیم حُریت رہنما سید علی گیلانی کا گھر بھی شامل ہے، جس سے ۲۰۲۱ء میں مناسب تدفین کا حق بھی چھین لیا گیا تھا۔

کشمیری ثقافت پر بی جے پی کے حملوں کا خصوصی نشانہ اُردو زبان بھی بن رہی ہے۔ یہ زبان ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے تک کشمیر کی سرکاری زبان رہی ہے لیکن ۲۰۲۰ء میں نئی قانون سازی کے ذریعے اردو کے اس استحقاق کو ختم کر کےہندی، کشمیری اور ڈوگری کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان بنا دیا گیا ہے۔ اب کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے بدل کر ’دیوناگری‘ کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔

            بی جے پی کے یہ تمام اقدامات بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری صحافت کا گلا گھونٹے جانے، غداری اور دہشت گردی کے قوانین کے تحت صحافیوں کی گرفتاری، اور ۲۰۲۰ء کی نئی میڈیا پالیسی کے تحت خوف کی جو فضا پیدا کی گئی ہے، اس کی مذمت کی ہے۔ فروری ۲۰۲۲ میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ (Human Rights Watch) نے کشمیر میں صحافت پر ظالمانہ کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں، ان کو ہراساں کیے جانے اور ان کو درپیش خطرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ستمبر ۲۰۲۲ء میں ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (AI) نے بھی میڈیا کے خلاف سخت کارروائیوں اور آزادیٔ اظہار پر عائد پابندیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ’کشمیر پریس کلب‘ کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

بی جے پی کی حکومت حد سے بڑھے ہوئے مظالم، تبدیلیٔ تناسب آبادی، اور نئی حدبندیوں کے ذریعے ہندو اکثریت کی راہ ہموار کرنے کے بعد انتخابات کروانا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد اپنے ۲۰۱۹ء کے اقدامات کی توثیق کے علاوہ یہ تاثر دینا بھی ہے کہ کشمیر میں حالات ’معمول‘ پر آچکےہیں۔ تاہم اس کی کشمیری رہنماؤں یہاں تک کہ بھارت پسند کشمیری رہنماؤں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ نئی حدبندیوں اور نئے انتخابی قوانین کے خلاف کشمیریوں کی شدید مزاحمت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخابات ہو سکیں گے، اور اگر ہوبھی جائیں تو وہ کیسے معتبر ہوں گے؟ کشمیر میں بھارت کی جابرانہ و منافقانہ پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ ان پالیسیوں نے کشمیریوں کے جذبۂ حُریت کو مزید مضبوط کیا ہے اور بھارت کے خلاف کشمیریوں کی نفرت مزید بڑھی ہے۔ ایسے منفی بھارتی اقدامات، مستقبل میں بھی کوئی مختلف نتائج پیدا نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے نئی دہلی سرکار کو تاریخ سے لڑنے کے بجائے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

پچھلے ۳۰برسوں کے دوران جموں و کشمیر کی شورش میں ۲۵۰ کے قریب پنڈتوں کی ہلاکت کےلیے ۲۰۲۲ءمیں بنی ایک فلم ’کشمیر فائلز‘ کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کو پوری دنیا میں معتوب و مغضوب بنانے اور مزاحمتی تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے بعد آخرکار سچ پھوٹ ہی پڑا۔ پچھلے ہفتے جموں و کشمیر کے گورنر منوج سنہا نے ہی بھارتی عوام سے اپیل کی کہ ’’خطے میں اقلیتی افراد کی ہلاکت کو مذہب کی عینک سے دیکھنا بند کردیں ، کیونکہ اس شورش زدہ خطے میں دوسری برادریوں [یعنی مسلمانوں]کے لوگ بھی بڑی تعداد میں مارے گئے ہیں‘‘۔ میڈیا اور دیگر ذرائع کے مطابق۱۵ ہزار ۶سو ۹۶ ؍ افراد اور سرکاری ذرائع کے مطابق ۴۰ہزار افراد ۱۹۹۰ءسے لے کر اب تک کشمیر میں ہلاک ہو چکے ہیں ، جن میں بڑی تعداد مقامی مسلمانوں کی ہے ۔

اسی دوران خطے کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ اور ان کے نائب وجے کمار نے سال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سال ۲۰۲۲ء سیکورٹی کے محاذ پر پچھلے چار برسوں کے مقابلے میں پُرامن سال تھا جس میں ۵۶غیر ملکیوں سمیت ۱۸۶ عسکریت پسندوں کو مارا گیا‘‘ ۔ ان کا کہنا تھا کہ سال ۲۰۲۳ءمیں پولیس کی توجہ دہشت گردی ختم کرنے پر مرکوز ہوگی، یعنی سیاسی جماعتوں اور سویلین آبادی میں مزاحمتی تحریک کے حمایتی یا سرکردہ افراد کو تختۂ مشق بنایا جائے گا ۔ جس کا آغاز پہلے ہی ہوچکا ہے ۔ سنگھ کے مطابق پچھلے سال پولیس نے ۵۵گاڑیاں اور ۴۹ جائیدادیں ضبط کیں، کیونکہ ان کے مالکان علیحدگی پسندی کو شہ دیتے تھے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سال ۲۰۲۲ء میں ۱۰۰ نوجوانوں نے عسکریت میں شمولیت اختیار کی، جن میں سے ۱۷ کو گرفتار کیا گیا اور باقی مختلف مقابلوں میں مارے گئے ۔ اب صرف ۱۸ باقی ہیں ۔ اب اگر ان سے کوئی پوچھے کہ ان ۱۸عسکریت پسندوں سے نپٹنے کےلیے فوج کی دو کورز، نیم فوجی دستوں کی سیکڑوں بٹالین اور پولیس کی ہزاروں کی تعداد میں نفری کی آخر کیاضرورت ہے؟ لیگل فورم فار کشمیر کے مطابق اپریل ۲۰۲۲ء میں نیم فوجی دستوں کی مزید۳۰۰کمپنیاں اور پھر مئی میں مزید ۱۵۰۰فوجی کشمیر میں تعینات کیے گئے ۔ اس نئی تعیناتی کی بھی پھر کیوں ضرورت پیش آئی؟

اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انھوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، کچھ غلط نہیں ہے ۔ مگر یہ قبرستان کی پُراسرار خاموشی جیسی ہے ۔ خود بھار ت کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھ داری یا نااُمیدی؟ آیا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟

’لیگل فورم فار کشمیر‘ کے سال ۲۰۲۲ء کے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے دوران خطے میں ۳۱۲ ہلاکتیں ہوئیں ، جن میں ۱۸۱عسکریت پسند، ۴۵شہری اور ۸۶سیکورٹی کے افراد شامل ہیں ۔ ان ۱۲ماہ کے دوران سیکورٹی دستوں نے ۱۹۹سرچ آپریشن کیے اور عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم کے ۱۱۶واقعات پیش آئے ۔ ان سرچ آپریشنز کے دوران ۲۱۲شہری جائیدادوں کو تختۂ مشق بنایا گیا ۔ اسی طرح سال میں ۱۶۹ بار انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنبیہ کے باوجود جموں خطے کے مسلم اکثریتی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی میں عسکریت سے نپٹنے کےلیے سویلین ملیشیا ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کا احیا کیا گیا ۔ اس میں ہندو آبادی کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ مقامی آبادی کو ہراساں کرنے کےلیے اس ملیشیا کے خلاف ۲۱۲ فوجداری مقدمات درج ہیں ۔ حالانکہ ۲۰۱۲ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے سول افراد کو مسلح کرنے اور شورش سے نمٹنے کے لیے انھیں ہراول دفاعی دستوں کے طورپراستعما ل کرنے پر پابندی لگائی تھی ۔ عدالت عظمیٰ کا استدلال تھا کہ عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرناحکومت کے اوّلین فرائض میں شامل ہے اورسکیورٹی کی نج کاری کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایک پٹیشن کی سماعت کے بعد صادر کیا، جس میں وسطی بھارت کے قبائلی علاقوں میں بائیں بازو کے انتہاپسندوں کے خلاف حکومتی اداروں کی طرف سے قائم کردہ ایک سویلین آرمی ’سلواجدوم‘ کے وجود کوچیلنج کیا گیا تھا ۔ اس آرمی نے شورش سے نمٹنے کے نام پر مقامی آبادی کو ہراساں اور پریشان کر رکھا تھا ۔

لیگل فورم کی رپورٹ کے مطابق ۱۹؍اکتوبر کو سیکورٹی دستوں نے ایک نوجوان عمران بشیر کو شوپیاں علاقہ میں اس کے گاؤں ہرمین سے گرفتار کیا ۔ اس پر عسکریت پسندوں کی معاونت کا الزا م تھا ۔ آج کل سیکورٹی ایجنسیوں نے ایک ٹرم ’ہائبرڈ ملی ٹنٹ‘ وضع کی ہے، یعنی وہ عسکریت پسند جس کے پاس ہتھیار نہ ہوں ۔ پولیس نے بعد میں بتایا کہ عمران نوگام میں تصادم کے دوران مارا گیا، جو اس کے گھر سے ۱۵کلومیٹر کی دوری پر ہے ۔ گویا حراست میں لینے کے بعد اس کوہلاک کیا گیا ۔ اسی طرح ۹ جولائی کی صبح کو سرینگر کے ایک رہائشی مسلم منیر لون کو حراست میں لیا گیا ۔ دوپہر کو اس کی لاش اس کی والدہ شفیقہ کے حوالے کی گئی ۔ لیگل فورم کے مطابق اس سال کے دوران سیکورٹی دستوں کا خصوصی نشانہ سویلین جائیدادیں رہیں ۔ بلڈوزروں کا استعمال یا اگر کسی مکان میں کسی عسکریت پسند کی موجودگی کا شک ہو، تو اس کو پوری طرح تباہ کرنا اس نئی حکمت عملی کا حصہ تھا ۔ اس رپورٹ کے مطابق جنگ زدہ علاقوں میں بھی بین الاقوامی قوانین کی رو سے اور جنیوا کنونشن کی کئی دفعات کے تحت سویلین جائیدادوں کو تحفظ حاصل ہے ۔ حریت کانفرنس کے معروف لیڈر شبیر احمد شاہ، جو خود جیل میں ہیں کی رہایش گا ہ کو سیل کردیا گیا ۔ ان کے اہل خانہ کو دس دن کے نوٹس پر مکان خالی کرنے کے لیے کہا گیا ۔ جماعت اسلامی ، جس پر پابندی لگائی گئی ہے، کی جائیدادوں، جن میں اسکول، دفاتر اور اس کے کئی لیڈروں کی رہایش گاہیں شامل ہیں ، کو سیل کر نے کا عمل متواتر جاری ہے ۔

اپریل میں قومی تفتیشی ایجنسی نے ایک اسکالر عبدل اعلیٰ فاضلی کو گرفتار کرکے اس کے دس سال قبل ایک ویب سائٹ پر لکھے آرٹیکل کا حوالہ دے کر اس کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ ایک قابل احترام پروفیسر شیخ شوکت حسین کو یونی ورسٹی سے صرف اس لیے برطرف کیاگیا کیونکہ ۲۰۱۶ء میں انھوں نے دہلی میں ایک سیمینار میں شرکت کی تھی ۔ جن دیگر اسکالروں کو نوکریوں سے نکالا گیا ان میں ڈاکٹر مبین احمد بٹ اور ڈاکٹر ماجد حسین قادری بھی شامل ہیں۔

عام بھارتیوں کو جموں و کشمیر میں جائیدادیں خریدنے اور ڈومیسائل حاصل کرنے کے اختیار سے پیدا شدہ صورت حال سے پریشان سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی چیخ اُٹھی ہیں ۔ بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ ۲۰۱۹ء میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد سے جموں و کشمیر میں اعتماد کی کمی اوربیگانگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ بھارتی آئین میں درج بنیادی حقوق اب بس صرف ان منتخب شہریوں کو عطا کیے جا رہے ہیں ، جو نئی دہلی حکومت کی صف میں شامل ہیں ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کشمیر کے ہر باشندے کے بنیادی حقوق من مانی طور پر معطل کیے گئے ہیں اور خطے کو الحاق کے وقت دی گئی آئینی ضمانتوں کو اچانک اور غیر آئینی طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے ۔ سیکڑوں نوجوان جموں و کشمیر سے باہر جیلوں میں بند ہیں ۔ ان کی حالت نہایت خراب ہے ۔ فہد شاہ اور سجاد گل جیسے صحافیوں کو ایک سال سے زیادہ عرصے سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت قید رکھا گیا ہے ۔

محبوبہ مفتی نے بھی بھارتی عدلیہ کے رویے کی شکایت کی ہے: ’’میری بیٹی کی طرف سے ۲۰۱۹ء میں دائر کردہ اپنے حبس بے جا کیس میں ، سپریم کورٹ کو میری رہائی کا حکم دینے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا، جب کہ مجھے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیا گیا تھا ۔ میری بیٹی التجا کے علاوہ اور میرا پاسپورٹ بھی بغیر کسی واضح وجہ کے روک لیا گیا ہے ۔ میں نے یہ مثالیں صرف اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کے لیے پیش کی ہیں کہ اگر سابق وزیر اعلیٰ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے میرے اپنے بنیادی حقوق کو اتنی آسانی سے معطل کیا جا سکتا ہے تو آپ کشمیر میں عام لوگوں کی حالت زار کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ‘‘۔

دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے سے پہلے صرف جموں و کشمیر کے رہائشی ہی ریاست میں جائیداد کی  خرید و فروخت کر سکتے تھے ۔ لیکن اب کوئی بھی بھارتی شہری یہاں جائیداد خرید سکتا ہے ۔ اسی طرح سے صرف مستقل رہایشی ہی جموں وکشمیر میں ووٹ ڈال سکتے تھے یا یہاں امیدوار کے بطور انتخابات لڑسکتے تھے ۔ اب یہ پابندی ختم ہو گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اب کوئی بھی شخص جو کشمیر میں پچھلے ۱۵سال سے مقیم ہے، ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے ۔ مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد ۱۰سال ہے، جب کہ کسی طالب علم کو سات سال بعد ہی ڈومیسائل مل سکتا ہے ۔ یعنی اگر بھار ت کے کسی بھی خطے کا کوئی طالب علم کشمیر کے کالج یا یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتا ہے، تو وہ بھی ڈومیسائل کا حق دار ہوگا ۔

اس سب سے بھارتی حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟ ایک بڑا سوال ہے ۔ کشمیر میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ضرور ہیں لیکن بھارت اور کشمیریوں کے درمیان جو بھروسے اور اعتماد کی پہلے سے ہی کمی تھی وہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے ۔ کسی سیاسی عمل کی غیر موجودگی میں یا اعتماد بحال کیے بغیر اور عوام کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنے سے قبرستان کی خاموشی ہی پیدا کی جاسکتی ہے، امن و امان کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔

اور یاترائوں کا ہتھیار

بھارت میں کانگریس پارٹی کے لیڈر راہول گاندھی نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے نام سے ملک کے انتہائی جنوبی سرے بحر ہند کے ساحل پر کنیا کماری سے جو مارچ ۷ستمبر ۲۰۲۲ء کو شروع کیا تھا، وہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس کی آخری منزل جموں و کشمیر کا دارالحکومت سرینگر قرار دی گئی ہے۔

۱۹۸۳ءمیں جب پنجاب میں سکھ علیحدگی تحریک عروج پر تھی، تو جنتا پارٹی کے لیڈر چندر شیکھر نے اسی طرح کنیا کماری سے دہلی تک چھ ماہ تک مارچ کیا۔ تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے اس مارچ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف عوامی ماحول بنانے میں خاصی کامیابی حاصل کی تھی، مگر ان کی ہلاکت نے پانسہ پلٹ دیا اور ان کے فرزند راجیو گاندھی کی قیادت میں ہمدردی کا ووٹ بٹور کر کانگریس نے بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی۔

مگر موجودہ دور میں جس یاترانے بھارتی سیاست پر اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں بی جے پی کے لیڈر لال کشن ایڈوانی کی ”رتھ یاترا“ہے، جو ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور ہندوتوا نظریہ کے احیا کے لیے شروع کی گئی تھی۔ دس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے ایڈوانی کے لیے ایک خصوصی ایر کنڈیشنڈ رتھ تیار کیا گیا تھا۔ ۱۹۹۲ءمیں بابری مسجد کی مسماری،بی جے پی کا سیاسی عروج اور اس کا اقتدار تک پہنچنا اسی یاترا کا ’پھل‘ ہے۔

ایڈوانی کی اس یاترا کے بعد ان کے جانشین مرلی منوہر جوشی نے ۱۹۹۱ء میں ’ایکتا یاترا‘ کے نام سے کنیا کماری سے کشمیر تک مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ اس یاترا کے منتظم نریندر مودی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ ’رتھ یاترا‘ کی وجہ سے ایڈوانی اور اس کے منتظم پر مودمہاجن کا پروفائل کافی اُونچا ہوگیا تھا، اس لیے پارٹی کی اندرونی چپقلش کے شاخسانہ کے بطور جوشی اور مودی نے بالترتیب ایڈوانی اور مہاجن کے قد کی برابری کرنے کے لیے یہ یاتراترتیب دی تھی۔ اس سفر کے دوران جوشی دعویٰ کر رہے تھے کہ ’’میرے پاس کشمیر ی عسکریت پسندوں کی گولیوں سے زیادہ رضا کار ہیں اور میں ان سب کے ساتھ سرینگر کے لال چوک میں بھارت کے یوم جمہوریہ یعنی ۲۶ جنوری، ۱۹۹۳ءکو قومی پرچم ترنگا لہرائوں گا‘‘۔ مگر جب وہ سرینگر پہنچے، تو ان کے ساتھ صرف ۶۷کارکنان ہی تھے، اور تقریب بھی بس ۱۲منٹ میں ختم کرنی پڑی۔ زمینی سفر کے بجائے جوشی اور ان کے رفقا جموں سے ایر فورس کے اے این ۳۲  طیارہ میں رات کے اندھیرے میں سرینگر پہنچے اور ان کو ایر پورٹ کے پاس ہی بارڈر سیکورٹی فورس کے میس میں ٹھیرایا گیا۔

اس سے دو دن قبل یعنی ۲۴جنوری [۱۹۹۳ء] کو سرینگر کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں جب اس یاترا کے انتظام کے حوالے سے پولیس سربراہ جے این سکسینہ دیگر حکام کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے، تو اسی کمرے میں بم دھماکہ ہوا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔ سکسینہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ۲۳جنوری کو پنجاب سے گزرتے ہوئے اس قافلہ پر حملہ ہوا، جس سے جموں تک پہنچتے پہنچے اس یاترا کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ گورنر گریش چند سکسینہ نے بی جے پی کے لیڈروں کو بتایا کہ اگر وہ بذریعہ سڑک کشمیر جانے پر بضد ہیں، تو و ہ سیکورٹی فراہم کر سکتے ہیں اورپوری قومی شاہراہ کو فوج کے حوالے کر سکتے ہیں، مگر اس کے باوجود ان کی زندگیوں کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اگلے روز ادھم پور سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بی ایل نمیش نے شاہرائوں پر لینڈسلائیڈنگ کا خطرہ بیان کرکے قافلے کو روک دیا اور اس یاترا کے منتظم مودی نے شامل افراد کو گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر راجستھان کے ایک ممبر اسمبلی تارا بھنڈاری اس قدر بدکے کہ انھوں نے الزام لگایا کہ ’’ان کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور آخر اس جگہ تک لانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

 شمالی بھارت کے اکثر شہروں میں اس یاترا کی رپرٹنگ کرتے ہوئے مجھے ادراک ہوا کہ شاید ہی کسی کو پتہ تھا کہ اس کا موضوع کشمیر ہے، اکثر افراد اس کو رام مندر تحریک کا ہی ایک جز تصور کر رہے تھے۔انتہائی سیکورٹی کے درمیان جب جوشی کا قافلہ سرینگر کے لال چوک میں پہنچا، تو معلوم ہوا کہ جو جھنڈا کنیا کماری سے بطور خاص اس جگہ پر نصب کرنے کے لیے ساتھ تھا، وہ جموں میں بھول گئے یا پھر طیارہ میں ہی رہ گیا ہے۔ خیر مودی نے جوشی کو ایک جھنڈا تھما دیا، مگر وہ اس کو لگا نہیں پارہے تھے۔ کہیں قریب ہی گولیوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ جس پر مدن لال کھورانہ نے لقمہ دیا کہ ’’عسکریت پسند اس جھنڈے کو سلامی دے رہے ہیں‘‘۔ کئی بار کی کوشش کے بعد بھی جب جھنڈا نصب نہیں ہوا تو بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکاروں نے جوشی کے ہاتھ میں متبادل جھنڈ ا تھما دیا، جس کو انھوں نے نصب کرکے تقریب کے ختم ہونے کا اعلان کیا اور ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس پوری تقریب میں شاید ہی کوئی مقامی فرد شریک ہو ا ہوگا۔ پوری وادی میں انتہائی سخت کرفیو نافذ تھا۔

راہول گاندھی کی یاترا کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایک طویل مدت کے بعد کانگریس نے بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہے۔ اس سے قبل خاص طور پر راہول گاندھی بی جے پی کے سخت گیر ہندو توا کے مقابلے میں نرم ہندو توا کے علَم بردار بن گئے تھے۔ اس لیے ان کو بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم سے بھی تشبیہہ دی جاتی تھی۔ مگر اس مارچ کے دوران پارٹی کواَز سرِ نو منظم کرنے کے علاوہ راہول نے سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر ’ہندوتوا‘ نظریے کے مخالفین کو منظم کرکے ایک نظریاتی محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔

بی جے پی ۲۰۲۳ء میں بھارت کی گروپ ۲۰ممالک یعنی جی ۲۰کی صدارت، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور اسکو درشن کے لیے اگلے سال جنوری میں کھولنے کو اہم انتخابی موضوع بنارہی ہے۔اس دوران سب سے اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ رام مندر کے مہنت اور اس کے دیگر  ذمہ داروں نے بھی راہول گاندھی کی یاترا کی حمایت کی ہے، مگر یہ بھی طے ہے کہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی ہندوتوا کو اپنے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے جا رہی ہے۔ اس لیے پاکستانی حکمران اور اس کے تجزیہ کار کتنی ہی خوشامد اور تعلقات کی بہتری کی بات کریں، فی الحال مودی حکومت ان کی بات سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔ انتخابات تک آئے دن ہندوؤں کو یاد دلایا جائے گا کہ ’’اس ملک کو مسلمان حملہ آوروں نے زخم لگائے ہیں‘‘، پاکستان پر لفظی یا حقیقی حملے ہوں گے، تاکہ اس شور میں بے روزگاری اور مہنگائی جیسے موضوعات دب جائیں۔

؍اگست ۲۰۱۹ء میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارت نے کشمیر کی نیم خودمختاری کو یک طرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔ساڑھے تین سال بعد وہاں رہنے والے کہتے ہیں کہ احتجاج تو دُور کی بات ہے، لوگ آپس میں کھل کر بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔

کچھ عرصے سے ایسا لگتا ہے کہ کشمیر سے خبریں تو آرہی ہیں، لیکن ذرا مختلف نوعیت کی۔ سڑکوں پر احتجاج یا کوئی سیاسی سرگرمی بھی نہیں ہے۔ کیا کشمیر میں واقعی سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے؟

ہم نے ایک نوجوان کشمیری خاتون سے بات کی جن کا کہنا کچھ یہ تھا:

’’گھر پربھی اگرہم لوگ ڈنر کر رہے ہوں گے تو لوگ بولتے ہیں کہ بات نہ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ فون ٹیپ ہورہا ہو۔ایسا اتنا سائیکالوجیکلی ہوگیا ہے کہ اگر کوئی راستے میں بھی ہو تو لوگ دھیمی دھیمی آواز میں بات کر تے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہیں۔ بھارتی حکومت بہت مختلف طریقے سے لوگوں کی آواز کو دبا رہی ہے۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ احتجاج ہوگا تو ہارڈ اپروچ تھی۔ یعنی گنز ہوں گی، پیلٹ گنز ہوں گی، تشدد ہوگا اور راستوں پر تصادم ہوگا مگر اب بہت کچھ تبدیل گیا ہے۔ بہت سی ویب سائٹس جو کشمیر کے بارے میں بات کرتی ہیں وہ کشمیر میں نہیں چلتی ہیں۔ سوشل میڈیا اکائونٹس معطل ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کرنا ’نرم جبر‘ (Soft Violence)  کا طریقہ ہے، جہاں پر ہم لوگوں کو مار تو نہیں رہے، لیکن چھوٹے چھوٹے طریقوں سے لوگوں کو ہراس زدہ کر رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پر کچھ لکھیں گے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی الزام کے تحت انھیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح [احتجاج کرنے والے] لوگوں کو اُٹھا کر لے جائیں گے اور ان کی تفتیش کریں گے۔ یعنی دھیرے دھیرے وہ ماحول بن رہا ہے جہاں لوگوں کو لگ رہا ہے کہ اگر اپنی زندگی بچانی ہے تو پھر بات کم کرنی ہے‘‘۔

گویا کشمیر میں خوف کے ماحول کا تاثر ملتا ہے۔ اس بارے میں جب ہم نے عام کشمیریوں سے بات کرنی چاہی تو لوگوں نے کیمرے پر آکر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ نے لکھ کر ہمیں اپنے تاثرات بھیجے۔ایک نوجوان کشمیری خاتون نے لکھا: ’’کشمیریوں کو یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ انھیں بات کرنے کی، خطے میں خلاف ورزی کرنے کی قیمت چکانی پڑے گی۔ کچھ لوگوں کو [عبرت کی] مثال بناکر سب کو خاموش کر دیا گیا ہے‘‘۔ایک اور نے بتایا:’’لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ کوئی لکھے تووہ گرفتار ہوجاتا ہے۔ صرف کشمیر کے باہر ہی نہیں بلکہ کشمیر کے اندر بھی کوئی خبر نہیں۔ ہم جو سانس لیتے ہیں اُس تک میں خوف گھلا ہوا ہے‘‘۔

ایک نوجوان کشمیری نے بتایا: ’’صرف کشمیر ہی نہیں، مجھے لگتاہے کہ انڈیا بھی اس خاموشی سے سراسیمہ (کنفیوژ) ہے۔ پتا نہیں کشمیریوں کی خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھ داری ہے یا پھر وسیع نااُمیدی‘‘۔

اگر ہم سول سوسائٹی ، ہیومن رائٹس کے فعال علَم برداروں اور صحافیوں کے خلاف ریاستی کارروائیوں، نظربندیوں اور گرفتاریوں کی تعداد دیکھیں تو شاید اس خوف اور خاموشی کی وجوہ واضح ہوجائیں گی۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تک کشمیر میں کم از کم ۲۷صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی عرصے میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈائون کے ۶۰ واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اگست ۲۰۲۲ء تک ان تین برسوں میں غیرقانونی نظربندی کے خلاف پٹیشنوں میں ۳۲فی صد اضافہ ہوا ہے اور ان مقدمات میں یو اے پی اے اور پی ایس اے جیسے متنازع قوانین کے استعمال کے شواہد ملے ہیں۔

اس بڑی تعداد میں آصف سلطان اور فہد شاہ جیسے صحافی اور خرم پرویز [اور محمداحسن انتو] جیسے انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں جو طویل عرصے سے نظربند ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کی  نقل و حرکت پر پابندیوں کی خبریں بھی ہیں جیساکہ پلئرز پرائز جیتنے والی فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو ہیں، جنھیں ویزا اور ٹکٹ رکھنے کے باوجود ملک سے باہر سفر کرنے سے روک دیا گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات نے ایک خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔

کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر اور تجزیہ کار انورادھا بھسین کا کہنا ہے: حکومت کی سرویلنس (خفیہ نگرانی) کی اَپروچ ہے۔ اس کے ذریعے بہت سے لوگ خاموش ہوجاتے ہیں۔ یہ ڈر اور خوف کا ایک ایسا ماحول ہے کہ ہم پر نظر رکھی جارہی ہے۔ کئی سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو کئی بار ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ انھیں کئی طریقوں سے خوف زدہ کیا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے، گرفتار بھی ہوئے ہیں، کریمنل مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں اور ان کے علاوہ کبھی فون کال کے ذریعے دھمکایا جاتا ہے، کبھی طلب کیا جاتا اور باقاعدہ ایک انٹروگیشن ہوتی ہے۔ وہاں پر ایک ڈر اور خوف کا ماحول بنا ہوا ہے اور لوگ کچھ نہیں بول پارہے ہیں‘‘۔

کشمیر میں اس وقت غیر یقینی کیفیت اور پریشانی کی ایک وجہ شاید بدلتے ہوئے قوانین بھی ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کشمیر میں سیاسی اور انتظامی طور پر غیرمعمولی تبدیلیاں آئی ہیں۔

تین اہم قوانین جن کے بارے میں خدشات ہیں کہ وہ وادی کا پورا لینڈاسکیپ (منظرنامہ) بدل دیں گے:l جائیداد کی خریدوفروخت: آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے پہلے صرف جموں و کشمیر کے رہایشی جائیداد کی خریدوفروخت کرسکتے تھے۔ اب کوئی بھی بھارتی شہری یہاں پر جائیداد خرید سکتا ہے۔l  ووٹنگ اور سیاسی اُمیدوار بننے کا حق:آرٹیکل ۳۷۰ کی وجہ سے صرف مستقل رہایشی جموں و کشمیر میں ووٹ ڈال سکتے تھے یا یہاں انتخابات میں اُمیدوار بن سکتے تھے۔ اب یہ پابندی ختم ہوگئی ہے۔l  ڈومیسائل کا حق: عشروں سے اس خطے میں ڈومیسائل صرف مقامی لوگوں کو مل سکتا تھا۔ اب کوئی بھی شخص جو یہاں ۱۵سال سے رہ رہا ہو اسے ڈومیسائل مل سکتا ہے۔ مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد کم ہوکر ۱۰سال ہوجاتی ہے، جب کہ ہائی اسکول کے طالب علموں کے لیے یہ مدت سات سال ہے۔ مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ ایک بڑی تعداد میں باہر سے آنے والے لوگوں کو یہ حق حاصل ہوگا اور یہ وادی کی شکل بدل کر رکھ دے گا۔

بھارتی حکومت کہتی ہے کہ یہ خدشات بے بنیاد ہیں اور آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے دراصل کشمیریوں کو فائدہ ہورہا ہے۔جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کہتے ہیں: ’’میں ایک بات کہہ سکتا ہوں کہ جس مقصد سے آرٹیکل ۳۷۰ ہٹایا گیا ہے، ان تین برسوں میں وہ مقصد کافی حد تک پورا ہوگیا ہے۔ اب کئی ملکی قوانین جموں کشمیر پر بھی لاگو ہوں گے۔ یہ ۸۹۰ کے لگ بھگ قوانین ہیں جو جموں کشمیر پر لاگو ہوگئے ہیں‘‘۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) ایک کشمیری سیاسی پارٹی ہے، جو اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے کشمیر میں بی جے پی کی اتحادی تھی۔ موہت بھان ، ترجمان پی ڈی پی کے مطابق ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے لوگ ایک صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ لوکل انتظامیہ یا مرکزی حکومت کے جو فیصلے آرہے ہیں، لوگ اس پر رِدعمل کا اظہار ہی نہیں کر رہے۔ لوگوں کے اندر جمہوری نظام پہ    عدم اطمینان ہے، اور بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ وہ یہ بھی ضروری نہیں سمجھتے کہ وہ اس پر کوئی بات کریں۔ لوگوں کا بھروسا اس قدر ٹوٹ چکا ہے اور اندر اتنا زیادہ غصہ ہے کہ وہ کہتے ہیں اب بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ا نھیں اگر ہمیں کچلنا ہی ہے تو پھر کچلنے دو‘‘۔

آخر اس سب کچھ سے حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟

انورادھا بھسین کہتی ہیں: ’’بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا صرف جغرافیہ کو تبدیل کرنا نہیں ہے بلکہ وہاں کی آبادی کو بے اختیار اور بے بس کرنا ہے۔ اس لیے جتنے بھی قوانین بن رہے ہیں، چاہے وہ ووٹ دینے کا حق ہو، یعنی آپ جن لوگوں کو باہر سے لارہے ہیں، اور ان کو ووٹ کا حق دے رہے ہیں، ان کو وہاں کا ڈومیسائل دے رہے ہیں، یا پھر مقامی علاقائی جماعتوں کو جس طرح سے سائیڈ لائن کیا جارہا ہے اور ان کے لیے مختلف طریقوں سے جگہ کو کم کیاجارہا ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ وہاں کے لوگ ایسی تبدیلیوں سے خوش نہیں ہیں اور اگر خوش نہیں ہیں تو پھر احتجاج کے لیے باہر کیوں نہیں نکل رہے؟ وہ اس لیے باہر نہیں نکل رہے کہ ڈر اور خوف کا ایک ماحول پیدا کیا ہوا ہے، الگ الگ طریقوں سے لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے‘‘۔

مگر بھارتی حکومت کہتی ہے کہ ’’کشمیر میں خاموشی دراصل امن کی وجہ سے ہے‘‘۔ لیکن کشمیر میں ایک واضح تاثر یہ ملتا ہے کہ بھارت اور کشمیریوں کے درمیان اعتماد کا جو فقدان عشروں سے چلا آرہا ہے، وہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا ہے اور کشمیری ہونا اگر پہلے مشکل تھا تو اب بھی آسان نہیں۔

پاکستان میں عسکری منظر بدلتے ہی کئی معروف صحافیوں نے تواتر کے ساتھ یہ انکشاف کرنا شروع کیا ہے کہ ’’سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے بھارت کے ساتھ ایک ’پیس پروسیس‘ شروع کیا تھا، جس کا منطقی نتیجہ کشمیر کو نظرانداز کرکے پاک بھارت تعلقات کی بحالی تھا‘‘۔ اس انکشاف کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، دوحہ میں بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے بعد اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ نریندر مودی ۹؍ اپریل۲۰۲۱ء کو پاکستان آئیں گے۔ مودی ہنگلاج ماتا کے پجاری ہیں، وہ سیدھا ہنگلاج ماتا کے مندر جائیں گے، وہاں دس دن کا بھرت رکھیں گے، واپسی پر عمران خان سے ملیں گے، ان کا بازو پکڑ کر ہو ا میں لہرائیں گے اور پاک بھارت دوستی کا اعلان کریں گے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اور تجارت کھولنے کا اعلان کریں گے اور کشمیر کو بیس سال کے لیے پس پشت ڈال دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ہونے کے بعد جب وزیراعظم عمران خان سے اس پر عمل درآمد کی رضامندی لی گئی تو انھوں نے صاف انکار کردیا، اور یوں بھارت سے معاملات طے کرنے کا موقع ضائع ہوگیا‘‘۔

اس حقیقی یا افسانوی کہانی کو دیکھا جائے تو یہ ساری پیش رفت ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد ہوئی، جب بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کا تشخص ختم کرکے اسے ’بھارتی یونین ٹیریٹری‘ قرار دیا۔ اس فیصلے کے ردعمل میں عمران خان نے بھارت سے سیاسی، سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرکے ۵؍ اگست کا فیصلہ واپس لینے کی شرط عائد کی۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد عمران خان کا غیرمعمولی ردعمل اس امر کا واضح اظہار تھا، کہ موصوف بھی بہت سے پاکستانیوں کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ بھارت کے سخت گیر اور انتہا پسند وزیراعظم نئے مینڈیٹ کے ساتھ آکر کشمیر کے حوالے سے کوئی مثبت اور بڑا فیصلہ کریں گے، مگر انتہاپسند مودی نے اس کے جواب میں پاکستان کو مایوس کن جواب دیا اور یک طرفہ طور پر کشمیر کا اسٹیٹس بدل دیا، جس کو عمران خان نے اپنی طرف سے بڑھے ہوئے دوستی کے ہاتھ کو جھٹکنے سے تعبیر کرکے نریندر مودی کی انانیت، نخوت اور تکبر کے بخیے ادھیڑنا شروع کیے۔ انھوں نے مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دے کر بجاطور پر مغرب میں ان کی خوفناک شبیہ پیش کرنا شروع کی۔یہاں تک کہ مودی اس قدر زچ ہوئے کہ اُنھوں نے اگلے ہی ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے بھی گریز کیا۔ ہماری معلومات کے مطابق جنرل فیض اور اجیت دووال کی عرب ملک میں پکائی گئی کھچڑی جب عمران خان کے سامنے رکھی گئی تو ان کا بے ساختہ سوال تھا کہ ’’اس میں کشمیر کہاں ہے؟‘‘ جواب ملا کہ ’’کشمیر تو بیس سال کے لیے ڈیپ فریزر میں رکھ دیا گیا ہے‘‘۔ اس پر عمران خان نے اس ڈیل کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

ملک کے تین صحافیوں کے بعد اب نئی دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اور پاکستانی دفتر خارجہ کے سینئر ترین ڈپلومیٹ عبدالباسط صاحب نے ایک وی لاگ میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس عمل کی مشاورت میں شریک تھے اور بہت سے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ انھوں نے اپنے وی لاگ کے آخر میں تسلیم کیا کہ ’’عمران خان نے کشمیر کے بغیر اس ڈیل کو ماننے سے انکار کیا‘‘، اور ساتھ انھوں نے اس حرف ِانکار کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک اچھا فیصلہ تھا‘۔

عبدالباسط صاحب کا کہنا تھا کہ اس ڈیل میں مسئلہ کشمیر کو ۲۰ برس فریز کرنے کی بات نہیں ہورہی تھی بلکہ یہ ڈیل بھی جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس فارمولے میں دوطرفہ مفاہمت اور اقدامات کا بیس سال بعد جائزہ لینے کا ذکر تھا اور اسی ماحول کے زیراثر بزنس ٹائیکون میاں منشا اور سابق وزیر تجارت دائود ابراہیم نے بھارت سے تجارت کی مکمل بحالی کی وکالت شروع کی تھی۔ اس ڈیل سے عمران خان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ بھارت نے کشمیر پر کسی پیش رفت کی ہامی نہیں بھری اور عمران خان نے کہا کہ یہ ڈیل ہوجائے اور بھارت آگے نہ بڑھے تو اس طرح ہمارا مؤقف ہی ختم ہوجائے گا۔ وہ اس ڈیل کو ’کشمیر کی مرکزیت‘ میں رکھنا چاہتے تھے، مگر بھارت کشمیر پر کچھ بھی لچک پیدا کرنے کو تیار نہ تھا۔

اس گواہی میں ایک المیہ پوشیدہ ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت ۵؍ اگست کو کشمیر کی خصوصی شناخت کو بے رحمی سے ختم کرچکا تھا اور ۸۰ ہزار افراد کو جانوروں کی طرح لاک ڈائون کے ذریعے گھروں میں قیدی بناکر رکھا گیا تھا۔ ان سے جدید ذرائع ابلاغ سمیت ہر سہولت چھین لی گئی تھی اور ان کی مساجد اور درگاہوں پر تالے چڑھا دیے گئے تھے۔ سید علی گیلانی جیسے مقبول قائد کے جنازے کو رات کی تاریکی میں گھر سے اُٹھایا جارہا تھا اور خواتین سے چھین کر کسمپرسی کے عالم میں پیوندِ خاک کیا جارہاتھا۔ اشرف صحرائی جیسے دلیر لیڈروں کو سلو پوائزننگ کے ذریعے جیل میں موت کی جانب دھکیلا جارہا تھا اور ان کے اہلِ خانہ کو اپنے مرحومین کے سرہانے پر آخری لمحوں میں کلمہ پڑھنے کے حق سے محروم رکھا جارہا تھا۔ یاسین ملک کی بہنیں دہلی اور سری نگر کے درمیان بے بسی اور کرب کے عالم میں ماہی  بے آب کی طرح تڑپ رہی تھیں، کیونکہ ان کا بھائی پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بہ قدم بڑھ رہا تھا اور اس کی صحت خراب سے خراب تر ہورہی تھی، اس کے باوجود ان بہنوں کو ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب نوجوانوں کو قتل کرکے آبائی قبرستانوں کے بجائے سیکڑوں کلومیٹر دُور ویرانوں اور جنگلوں میں مٹی میں دبایا جاتا تھا، اور یہ اہلِ خانہ کو مستقل طور پر ایک نفسیاتی عذاب میں مبتلا کرنے اور ذہنی ٹارچر کی ایک شکل تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارت کشمیرکی شناخت اور تشخص بدلنے کے لیے نازی جرمنی طرز کے قوانین متعارف کرا رہا تھا۔ کشمیر کی تقدیر دہلی میں امیت شا اور اجیت دووال کے دفتروں میں لکھی جارہی تھی۔ خطرے کی سطح اس قدر بلند تھی کہ خود بھارت نواز سیاست دان بھی پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے پلیٹ فارم سے بھارت کے اقدامات کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور انھی لمحوں میں سابق وزیراعلیٰ کشمیر محبوبہ مفتی کا یہ جملہ مشہور ہوا تھا کہ ’’ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے قائداعظم کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی تھی‘‘۔ ایسی ’کشمیر ڈیل‘کے اندر مستقل خرابی یہی ہے کہ اس میں کشمیر کہیں نہیں ہوتا۔

یوں لگ رہا ہے کہ اب کی بار بھارت کا یہ فیصلہ یک طرفہ نہیں تھا۔ اس کھیل کا آغاز عمران خان اور جنرل باجوہ کے بیک وقت امریکا کے دورے سے ہوا تھا۔ عمران خان بڑے جلسوں سے خطاب کرتے اور ٹرمپ کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے، جب کہ عین انھی لمحوں میں جنرل باجوہ ’سینٹ کام‘ میں امریکی فوج کے شاہانہ اور پُرتپاک استقبال اور سلامی کا لطف لیتے رہے۔ وائٹ ہاؤس میں محض گپ شپ جاری رہی،جب کہ ’سینٹ کام‘ میں اصل فیصلے ہوگئے تھے۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ  ’’نریندر مودی نے مجھ سے کشمیر پر کردار ادا کرنے کو کہا تھا‘‘۔ یہ حقیقت میں امریکا کو ۵؍ اگست کے فیصلے پر اعتماد میں لینے اور پاکستان کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے کی درخواست تھی۔ اس کھیل میں بعض عرب ممالک اور سرمایہ دار شریک تھے، جنھیں بھارت نے یہ جھانسہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر کے مقامی قوانین اور تشخص کی موجودگی میں بھارت بے بس ہے، وہ نہ تو عرب سرمایہ داروں کی کشمیر میں کوئی مدد کرسکتا ہے نہ اپنے طور پر انھیں وہاں رسائی دے سکتا ہے۔ اس کے لیے کشمیر کا تشخص ختم کرنا ہوگا، تاکہ قانونی پوزیشن بدل جانے کے بعد بھارت اپنے بل بوتے پر عرب سرمایہ داروں کو کشمیر تک رسائی دے سکے۔ مغربی ملکوں کو بھی یہی جھانسہ دیا گیا، اور یوں خاموش بین الاقوامی حمایت حاصل ہونے کے بعد بھارت نے یہ فیصلہ لیا تھا۔

۵؍ اگست کے فیصلے کے خلاف آزادکشمیر سے کسی صدائے احتجاج کو بلند ہونے سے روکنے کے لیے اُس وقت کے وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر کو منظر سے غائب کرکے امریکا پہنچا دیا گیا۔ ان بیس سال میں بھارت کو کشمیر کی آبادی کا تناسب اور تشخص تبدیل کرنے کی مہم میں کامیابی حاصل کرنا تھی، مگر پاکستان اس عمل پر زبانی کلامی رسمی احتجاج کے حق سے بھی دست بردار ہورہا تھا۔ یہ پسپائی کی بدترین شکل تھی جس میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا بنیادی تصور ہے۔ شملہ معاہدے کے بعد بھارت نے کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرانے کے لیے پلان بنا رکھا ہے۔کچھ بھارتی حلقوں کا دعویٰ رہا ہے کہ شملہ میں غیر تحریری طور پر ذوالفقارعلی بھٹو یہ یقین دہانی کرا چکے تھے کہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنایا جائے گا۔

۱۹۹۰ء کے عشرے میں پہلی بار ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نتیجے میں میاں نوازشریف نے بھارت کے ساتھ معاہدہ کرنے کا بڑا فیصلہ کیا۔ اس مفاہمت میں کشمیر میں ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات کو بحال کیا جانا مقصود تھا۔ کنٹرول لائن کو نرم کرکے مستقل قرار دینا بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔ اسی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے واجپائی لاہور آئے، مگر پاکستان کی ہیئتِ مقتدرہ نے اس کوشش کو کشمیر فروشی قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا، جس کے بعد کرگل کی جنگ ہوئی اور سارا منظر بدل گیا۔ جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف حکومت کو برطرف کرکے عنان ِ حکومت سنبھالی اور وہ بھارت کے ساتھ پُراعتماد ہوکر مذاکرات کرتے رہے اور کشمیر کے مسئلے کو اولیت دینے کی بات پر کاربند رہے۔ ان کی کشمیر دوستی کا یہ دور آگرہ مذاکرات تک چلتا رہا، جہاں انھوں نے پاک بھارت مشترکہ اعلامیے میں کشمیر کا ذکر نہ کرنے پر اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کیا اور واک آؤٹ کے انداز میں آگر ہ سے وطن واپس چلے آئے۔ مگر اگلے ہی برس وہ دوبارہ بھارت گئے، دہلی میں انھوں نے اپنے آبائی گھر نہروالی حویلی کا دورہ کیا اور یہاں انھوں نے آگرہ والے پرویزمشرف کو خداحافظ کہہ کر دہلی والا پرویزمشرف بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ کشمیر کو نظرانداز کرکے یا کنٹرول لائن کو نرم کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاہدے کی راہ پر چل پڑے۔ یہ قریب قریب وہی تصور تھا جس کی آبیاری نوازشریف نے کی تھی، مگر وہ اس کوشش پر جنرل پرویزمشرف کے معتوب ٹھیرے تھے۔ اب جنرل پرویزمشرف یہی کام خود کررہے تھے، مگر وکلا تحریک نے عین اُس وقت جنرل پرویز کے اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں جب بقول خورشید محمود قصوری ’’ہم کشمیر پر معاہدے سے تین ماہ کی دُوری پر تھے‘‘۔

اب یوں لگتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوازشریف اور جنرل پرویزمشرف کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر تاریخ میں پہلی بار ایک سویلین حکمران عمران خان نے اس رنگ میں بھنگ ڈال دی اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے کی یہ کوشش بھی بہت قریب پہنچ کر کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکی۔

کیا ہمارا معاشی اور مالیاتی نظام وفاقی شرعی عدالت کے حکم کے مطابق دسمبر ۲۰۲۷ء تک سود کو ختم کرسکے گا؟ اگر ماضی کی روایت کو پیش نظر رکھا جائے تو اس ٹائم فریم پر عمل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ہماری معیشت کو سود سے پاک نظام میں تبدیل کرنے میں کیا چیلنج درپیش ہیں؟ پاکستان میں اب تک بنکوں کی اسلامائزیشن کتنی تیز یا سُست رہی ہے؟ مؤخر الذکر سوال کا جواب دینے کے لیے، بنکاری نظام کو اسلامی بنانے کی پہلی سنجیدہ کوشش ۲۰۰۲ء میں میزان بنک کے قیام کے ساتھ شروع ہوئی۔ اس کے بعد اسلامی بنکاری کے اثاثے تیزی سے بڑھنے لگے، لیکن کمرشل بنکاری میں اسلامی اثاثوں کا حصہ بہت آہستہ آہستہ بڑھا۔ یہ ۲۰۰۲ء میں صفر فی صد، ۲۰۱۲ء میں ۸ء۲ فی صد، جون ۲۰۲۲ء میں ۱۹ء۵ فی صد تک پہنچ گیا۔ اس طرح یہ حصہ تقریباً ایک فی صد سالانہ کی اوسط رفتار سے بڑھا۔ اگریہ حصہ اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو اسلامی بنکاری کے اثاثے ۲۰۵۲ء کے آس پاس سود پر مبنی بنکاری اثاثوں کو پیچھے چھوڑ جائیں گے، جب کہ ہمارا نصف بنکنگ نظام اسلامی ہوچکا ہوگا۔

اسلامائزیشن کی اصل رفتار یقینا، اس بات پر منحصر ہوگی کہ ہم کتنی جلد دیگر چیلنجوں پر قابو پالیتے ہیں۔ بنیادی چیلنج سود پر مبنی بنکوں کے شریعت کے مطابق بننے سے متعلق نہیں ہے، بلکہ حکومتی، ملکی اور بیرونی قرضوں کو شریعہ کے مطابق سیکیورٹیز جیسے صکوک میں تبدیل کرنے سے ہے۔ اس تبدیلی کے بعد بنکاری اور مالیاتی شعبے کو سود سے پاک نظام کی طرف بڑھنا آسان ہوجائے گا۔ یہ بات کہنا تو آسان ہے، لیکن کرنا مشکل ہے۔

جون ۲۰۲۲ء کے آخر تک وفاقی حکومت پر ملکی اور بیرونی قرض ۴۷ء۸ ٹریلین روپے تھا، جب کہ اس میں عالمی مالیاتی فنڈ کا قرض اور اسٹیٹ بنک کے غیرملکی زرمبادلہ کے واجبات شامل نہیں تھے۔ یہ پہلے ہی ۵۰ ٹریلین روپے کی حد کو عبور کرچکا ہے۔ ملکی قرضوں کی تبدیلی کے بغیر بنکاری اور مالیاتی ادارے شریعت کے مطابق نہیں بن سکتے۔

تبدیلی اگرچہ ناممکن نہیں لیکن ۲۰۲۷ء تک اسے حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ سود پر مبنی مالیاتی نظام کے تحت بنکوں سے حکومتی قرض لینے کے لیے وفاقی حکومت سے کسی حقیقی اثاثے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سود سے پاک نظام کے لیے حقیقی اثاثوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بدلے قرض لینے والا صارف، اسلامی بنک سے شریعہ کے مطابق سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ اسلامی مالیاتی نظام کے تحت تمام مالیاتی سرگرمیاں حقیقی اثاثوں کی مدد سے ہونی چاہییں۔  یہ شریعت کے مطابق اور سود پر مبنی سرگرمی کے درمیان پائے جانے والے بنیادی فرق میں سے ایک ہے۔ مؤخر الذکر کو ایک حقیقی اثاثے سے جوڑنا ایک براہِ راست کوشش ہے، کوئی دورازکار بات نہیں ہے چونکہ مالی سرگرمیاں ، خواہ سود پر مبنی ہوں یا شریعت کے مطابق، بظاہر تو ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ اس لیے یہ لوگوں کو غلطی سے یہ سوچنے میں اُلجھا دیتی ہیں کہ یہ نظام ایک جیسے ہیں۔ مگر امرواقعہ ہے کہ اسلامی مالیاتی سرگرمیاں بظاہر ایک جیسی نظر آنے کے باوجود ہمیشہ مختلف ہوتی ہیں۔

حکومتی قرض کو شریعت کے مطابق بنانے کے چیلنج کو حکومت نے صکوک، جن کی قیمت جون ۲۰۲۲ء کے آخر میں ۲ء۳ ٹریلین روپے تھی کے کامیاب اجرا کے ذریعے تقریباً ۵ فی صد (۴۷ء۸ ٹریلین روپے) کی حد تک پورا کیا ہے۔ یہ ۵ فی صد تبدیلی دو عشروں میں حاصل کی گئی۔ ہماری وفاقی حکومت اپنے بقیہ ۹۵ فی صد قرضوں کو تبدیل کرنے میں کتنے عشرے لے گی؟ اس کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس بہت بڑی تبدیلی کو شروع کرنے میں اپنی جگہ حکومت کے حقیقی مسائل ہیں۔ اس کے پاس حقیقی اثاثے ۵۰ٹریلین روپے نہیں ہیں۔ بنیادی طور پر کیونکہ زمین ایک صوبائی موضوع ہے۔ نتیجتاً ہمارے ملک میں زیادہ تر زمین صوبائی حکومتوں ہی کی ملکیت ہے۔

اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی کتنی اراضی ہے، لیکن ایک سادہ انٹرنیٹ سرچ سے پتا چلتاہے کہ امریکا میں ۲۸ فی صد اراضی وفاقی حکومت اور ۷۲ فی صد ریاستی حکومتوں کی ملکیت ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ہماری وفاقی حکومتوں نے ایسی ملکیت کا تخمینہ لگانے کے لیے کبھی اثاثوں کا سروے یا رقبہ شماری نہیں کی ہے۔ پھر اس کا حل کیا ہے؟ کیا ہمارے آئین میں ترمیم کرکے زمین کو وفاق کا حصہ بنایا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں، تو وفاقی حکومت کو مزید وفاقی اجارہ صکوک جاری کرنے کے لیے صوبائی اثاثوں کو استعمال کرنے کے مناسب طریقے وضع کرنے چاہییں۔ اس چیلنج کی نوعیت واضح ہونی چاہیے۔ یہ کاوش بھی بہت وقت لے گی۔

اسی طرح کا چیلنج اسٹیٹ بنک سے متعلق ہے۔ یہ ۱۶۵ بلین روپے کے رئیل اسٹیٹ اثاثوں کے مقابلے میں تقریباً ۶ء۱ ٹریلین روپے کے PIBs کا مالک ہے۔ایک بار جب حکومت اپنے PIBs کو صکوک میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو مرکزی بنک کو شریعت کے مطابق بننے کے لیے سود پر مبنی ضمانتوں کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ اس کے کریڈٹ کے لیے اسٹیٹ بنک نے پہلے ہی اسلامی بنکوں میں ضرورت پڑنے پر لیکویڈیٹی داخل کرنے کے لیے اوپن مارکیٹ آپریشنز کا ایک شریعہ کے مطابق نسخہ وضع کیا ہے۔ اسلامی بنکاری میں داخلے کے لیے مضاربہ کی بنیاد پر پیش کش کی سہولت بھی موجود ہے، حالانکہ موپ اَپ سہولیات یا OMO کا ابھی تک انتظار ہے۔ دونوں سہولیات کے کام کرنےکے بعد اسٹیٹ بنک، اسلامی مالیاتی نظام میں اپنی مانیٹری پالیسی کو نافذ کرنے کے قابل ہوجائےگا۔

شریعت کے مطابق ضمانتوں (securities)کی قیمتوں کا تعین کرنا اب کوئی چیلنج نہیں ہے، لیکن جب یہ ضمانتیں سود پر مبنی ضمانتوں سے آگے نکل جائیں گی تو اس میں ترمیم کرنا ہوگی۔ فی الحال اسلامی مالیاتی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین (منافع کی شرح) شرحِ منافع کے معیارات (جیسے اسٹیٹ بنک کی پالیسی ریٹ یا Kibor)سے منسلک ہے۔ شریعہ ماہرین نے اس کی اجازت دی ہے، غالباً اس لیے کہ اسلامی مالیات کے ابتدائی مرحلے میں، آزاد قیمتوں کے تعین میں غالب سود پر مبنی بنکاری کے شعبے میں مسابقت اور منافع کو مدنظر رکھا جارہا ہے۔ ایک بار جب اسلامی بنکاری کے اثاثے سود پر مبنی اثاثوں سے آگے نکل جائیں گے تو یہ استدلال ختم ہوکر رہ جائے گا اور ایک آزاد اسلامی مالیاتی بنچ مارک منافع کی شرح کی ضرورت ناگزیر ہوجائےگی۔ یہ تصورکرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ کتنا مضحکہ خیز نظر آئے گا اگرغالب اسلامی سیکیورٹیز، شرحِ سود کا بنچ مارک استعمال کرتی رہیں۔ اب بھی، یہ واسطہ اسلامی سیکیورٹیز کے بارے میں بہت زیادہ شکوک پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

اس بینچ مارک کو قائم کرنا اسٹیٹ بنک کی ذمہ داری ہے اور ہوگی۔ یہ ایک مشکل لیکن قابلِ عمل کام ہے۔ رئیل سیکٹر میں موجودہ منافعے کی شرح کا تخمینہ لگانے کے لیےسہ ماہی سروے کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی اہم ذیلی شعبوں کا اندازہ کرنا جیسے رئیل اسٹیٹ برائے اجارہ صکوک  جن کی پشت پر زمین یا جائیداد ہو۔ اس کے بعد اسٹیٹ بنک مستقبل کی پالیسی کی شرحوں کے لیے ایک مناسب بنچ مارک منتخب کرسکتا ہے۔

اگرچہ ہمارے ملک میں اسلامی مالیات کی دو عشروں کی پیش رفت سُست رہی ہے لیکن اس صداقت کے بارے میں موجود شکوک و شبہات کے باوجود یہ اب بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔ شکوک و شبہات ایک طرف مالیاتی مصنوعات کے درمیان موروثی مماثلت سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسری طرف مالی اعانت کے اسلامی طریقوں کے موجودہ ڈھانچے کی چھان بین کرنے میں ہچکچاہٹ سے ، جو ہرقسم کے لین دین کے لیے مکمل طور پر دستاویزی اور واقعی شفاف ہوں۔(ڈان، ۶جنوری ۲۰۲۳ء)

عقل و دانش بلاشبہہ انسان کو فہم و ادراک( Cognitive Science )کا عظیم علم عطا کرتی ہے، مگر سکرات و منشیات، نشے کےعادی انسان سے جوہرِ آدمیت چھین لیتے ہیں۔ یوں شیطانی مکروفریب کا مارا اور دین و شریعت سے بے بہرہ انسان، خاندان اور معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے اور سفاکیت کی نذر ہوجاتا ہے۔ شریعت، معروفات اور منکرات پر مشتمل قانونِ الٰہی ہے۔ ہروہ عمل معروف ہے شریعت نے جس کے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا کرنا باعث ِ ثواب اور اس کا ترک کرنا باعث ِ سزا ہے: مَا یُثَابُ فَاعِلُہُ وَلَا یُعَاقَبُ تَارِکُہُ۔اس کے برعکس ہر وہ عمل جس سے شریعت نے منع کیا ہے وہ منکر ہے۔ اس کا ترک کرنا باعث ثواب اور اس کا ارتکاب کرنے والا مستوجب ِ سزا ہے: مَا یُثَابُ تَارکۃ وَ  یُعَاقَبُ فَاعْلَہُ۔شریعت میں حلال و حرام کا یہ تصور ہے، جب کہ مقاصد ِ شریعت پانچ ہیں جو اپنے اندر بہت وسعت اور جامعیت رکھتے ہیں۔

مقاصد ِ شریعت میں تحفظ ِدین، تحفظ ِجان،تحفظ ِ مال، تحفظ ِ نسل کے علاوہ تحفظ ِ عقل شامل ہیں اور ان میں تحفظ ِ عقل کوان پانچ مقاصد میں اوّلین حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کے بغیر فہم و ادراک ممکن نہیں۔ منشیات یا دیگر وجوہ سے اگر عقل میں فتور آگیا تو دیگر مقاصد ِ شریعت اس کی زد میں آتے ہیں۔ بذریعہ دین اپنے ربّ سے اس کا تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔ جان و مال اور نسل و عزّت و آبرو ملیامیٹ ہوجاتے ہیں۔ شریعت محمدیؐ عطا کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مفقود ہوجاتی ہے۔ یوں بنی آدم شرفِ آدمیت سے محروم ہوجاتا ہے، بالآخر علمِ وحی اورعلمِ اکتساب سے بے بہرہ ہونے کے سبب انسانیت ہلاکت خیزی کا شکار ہوتی ہے۔ یہ ہے منشیات اور نشے کا ناسُور!

نشہ اور حیاتیاتی جنگ

بائیولوجیکل یا حیاتیاتی جنگ کے موجودہ دور میں ہیروئن ، شیشہ اور آئس نے نوجوانوں پر منشیات کےاثرات کو تباہ کن صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے۔ انسانی سوچ کو قابو کرنے کے لیے عصرحاضر میں ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹ اور Cyborg میں آفتابی شعائوں، برقی مقناطیسی ذرّات ، Cosmic particle اور ڈی این اے سے متعلق سائنسی تحقیقی اداروں نے انسانی دماغ میں تبدیلی کو جنگی مقاصد کے لیے سہل الحصول بنادیا ہے، تاکہ مستقبل کی حیاتیاتی جنگ، فتوحات کا پیش خیمہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی سوچ کے بدلنے اور حواس میں تبدیلی سے انسان تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس طرح اکیسویں صدی کا بدلاہوا انسان آج سے ہزارسال پہلے نشے کی حالت میں بدلے ہوئے انسان سے کہیں زیادہ حواس باختہ ہوگا اور قتل و غارت کا رسیا۔

گیارھویں صدی میں نشے کا فساد چرس اور افیون مافیاکے ہاتھوں انجام پارہا تھا۔ اس گروہ کے بانی اور منشیات کے بڑے پرچارک، حسن بن صباح (۱۰۲۴ء)، نظاری ریاست اور ساتھی، ایک مافیا تھے۔ یہ لوگوں کو نشہ آور اشیا پلا کر اُن کو خودساختہ عشرت کدوں میں بساتے اور اپنے دشمنوں میں ہلاکت خیزی پھیلاتے تاکہ قاتل اور مقتول اس مافیا کی بھینٹ چڑھ کر موت کے منہ میں چلے جائیں۔ معروف سیاح مارکوپولو نے شخ الجبال کی زیرنگرانی الموت قلعے میں واقع اپنے عہد کی اس جنت کا نقشہ کھینچا ہے جو منشیات کا بڑا اڈا تھا اور جہاں خودکش حملہ آور تیارکیے جاتے اور علما، سیاسی زعماء ، سپہ سالاران اور معتبر سماجی شخصیات کو قتل کیا جاتا تھا۔ ان نظاری افواج کو عیش و عشرت کی جو سہولتیں دستیاب تھیں ، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فردودسِ بریں کے نام سے عبدالحلیم شرر نے ایک ناول تحریر کیا ہے جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ یہ تھا ہزار سال قبل منشیات کا ناسُور جس کو پہلی بار ریاست کی پشت پناہی حاصل تھی۔ شریعت مطہرہ نے جسے منکر کہہ کر حرام قرار دیا تھا، اور ریاست ِ مدینہ میں اسے ممنوع قرار دیا تھا کیونکہ عقل و حواس کی حفاظت مقاصد شریعت کی بنیاد ہے اور منکرات کی اشاعت اور منشیات پھیلانے سے اجتناب ضروری ہے۔ نشہ آور اشیا مختلف النوع ہیں، بہرحال ان کے استعمال سے منکر کے خلاف قوتِ مزاحمت جواب دے جاتی ہے۔ پاکستان کے ضابطۂ قانون کے مطابق شراب اور نشہ ممنوع ہے۔ اس سلسلے میں ۱۹۴۸ء میں پہلا حکم خود بانی ٔپاکستان نے نافذ کیا تھا۔

شراب کی بندش اور بانیٔ پاکستان

قائداعظم محمدعلی جناح، قانونی و دستوری ضوابط کی رُو سے بحیثیت گورنر جنرل مسلح افواج کے چیف کمانڈر کے عہدے پر فائز تھے۔ قائد کے حین حیات، میجر جنرل محمد اکبر خاں مدتِ ملازمت میں بلند درجے کی بنیاد پر فوج میں ترقی پاکر کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ قائد سے ملاقات کے دوران شراب کی بندش سے متعلق ۱۹۴۸ء کا وہ اپنا ایک ذاتی تجربہ اور سرگزشت قلم بند کرتے ہیں:

ہمارے افسروں کے تربیتی اسکولوں میں ضیافت کے وقت شراب پی جاتی تھی کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔

میں نے بانی ٔ پاکستان سے یہ عرض کیا: ’’شراب کے استعمال کو ممنوع قرار دینے کا اعلان فرمائیں‘‘۔ قائد نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ’’میرا کنیفیڈنشل باکس لے آئو‘‘۔ جب باکس آگیا تو قائداعظم نے چابیوں کا گچھا اپنی جیب سے نکال کر اور باکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلدبند ایک کتاب نکالی اور اسے اُس مقام سے کھولا جہاں انھوں نے نشانی  رکھی ہوئی تھی اور فرمایا: ’’جنرل،  یہ قرآنِ مجید ہے۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ شراب و نشہ حرام ہیں‘‘۔

تبادلۂ خیالات کے بعد اسٹینو کو بلوایا گیا۔ قائداعظمؒ نے آیاتِ قرآنی کا حوالہ دے کر ایک مسودہ تیار کیا کہ ’’شراب اور منشیات حرام ہیں‘‘۔

میں نے مسودے کی نقل چسپاں کرکے اپنے ایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک مؤثر رہا۔ اس موقعے پر میں نے قائداعظم سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی ہے تو آپ نے فرمایا: ’’ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہرشعبے میں قرآنِ مجید سے رہنمائی لینی چاہیے‘‘۔ (میری آخری منزل، ص ۲۸۱)

قرآنِ مجید اور حُرمت شراب

قرآنِ مجید میں شراب کی حُرمت بتدریج مختلف مراحل میں نافذالعمل ہوئی۔ قرآنِ مجید کی کل چارسورتوں میں مرحلہ وار احکامات آئے: سورئہ بقرہ کی آیت ۲۱۹، سورئہ نحل کی آیت ۶۷، سورئہ نساء کی آیت ۴۳ اور سورئہ مائدہ کی آیت ۹۰۔ حُرمت ِ شراب کا آخری اور قطعی حکم سورئہ مائدہ کی آیت۹۰ کے نزول کے بعد نافذ ہوا۔ اس آیتِ کریمہ میں ارشاد ہوا:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰ (المائدہ ۵:۹۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو یہ شراب و جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، اِن سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی۔

یہ شراب کی ممانعت کا واضح شرعی حکم ہے۔ اس کے معاً بعد آیت۹۱ میں شراب اور جوا کے امتناع کے شرعی مقاصد کو بیان کیا گیا:

اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ۝۰ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۝۹۱ (المائدہ ۵:۹۱) شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان عداوت اور بُغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم اِن چیزوں سے باز رہو گے؟

اس حکمِ خداوندی کا نازل ہونا تھا کہ صحابہ کرامؓ نے علانیہ کہا: رَبَّنَا انتھینا، اے پروردگار ہم باز آگئے(مسنداحمد، جلد دوم)۔اس وحی کے نزول کے بعد مدینہ میں شراب کے مٹکے بہادیئے گئے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

سُکر، نسخ اور اضطرار کی قرآنی اصطلاحات

حُرمت شراب اور سُکر کے علاوہ نسخ اور اضطرار کی اصطلاحات قرآنِ مجید میں استعمال ہوئی ہیں۔

  • سَكَرًا:  سورئہ نحل میں آیت ۶۷ میں ارشاد ہوا: تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَكَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنًا۝۰ۭ ’’تم جس سے نشہ آور مشروب بھی بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی‘‘۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۶۷’’یقینا اُس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے‘‘۔ اس آیت میں ایک ضمنی اشارہ شراب کی حُرمت کی طرف بھی ہے کہ وہ پاک رزق نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن، آیت۶۷)
  • نسخ: ’نسخ‘ کی اصطلاح سورئہ بقرہ کی آیت ۱۰۶ میں اِن الفاظ میں استعمال ہوئی ہے:  مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا۝۰ۭ ’’ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہترلاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی‘‘۔اس حکم کے تحت اس منسوخ آیت کا سورئہ مائدہ (آیت ۹۰-۹۱) شراب و دیگر نشہ و سکرات ناسخ ہے۔
  • اضطرار:’اضطرار‘ کی اصطلاح سورئہ بقرہ کی آیت ۱۷۳ میں مقاصد ِ شریعت کی تکمیل اور سخت مجبوری کی صورت میں حرام اشیا کے استعمال کے لیے اجازت کے لیے استعمال ہوا ہے: فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ  فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۭ ’’ہاں، جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو، اور وہ ان میں سے کوئی چیزکھا لے بغیر اس کے وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں‘‘۔ چونکہ مقاصد ِ شریعت تاقیامت انسانوں کے فائدے کے لیے ہیں، لہٰذا مرا ہوا جانور، خون، سُور کا گوشت، غیراللہ کے لیے مذبوحہ سمیت اضطرار کی صورت میں شراب بھی غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ  کے تحت حلال ہو جاتی ہے۔

اطلاق اصطلاحات و مقاصد شریعت

سورئہ مائدہ کی ان آیتوں میں بیان کردہ حُرمت شراب مستوجب سزا حد میں داخل ہے اور یہ حکمِ شرعی ناسخ ہے پچھلی تین آیاتِ الٰہی کا جو مختلف مراحل میں نازل ہوئیں۔ علمائے کرام کے نزدیک بعد میں نازل ہونے والی آیات اور اُن کے احکامات کو منسوخ کرتی ہیں۔ مثلاً پہلے مرحلے میں نازل ہونے والی سورئہ بقرہ کی آیت۲۱۹ کے حکم کے لحاظ سے مقاصد شرع کے استثنا کے ساتھ منسوخ ہوچکی ہے:

 يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ۝۰ۭ قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ  لِلنَّاسِ۝۰ۡ وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ  مِنْ  نَّفْعِہِمَا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۱۹) پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے منافع بھی ہیں ، مگر اِن کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النساء ۴:۴۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔

اگرچہ یہ آیت عہد ِ نبویؐ میں شراب پی کر نماز پڑھنے سے متعلق ہے۔ سورئہ مائدہ کی آیت۹۰ کے اس حکم سے منسوخ ہوچکی ہے۔ علمائے فقہ کی رائے کے مطابق ’الحکم بالعموم‘ ہے، یعنی آیت میں سُکرٰی کا اطلاق عمومی طور پر ہرقسم کی سُکر یا نشہ پر ہوگا، صرف شراب کے لیے مخصوص نہ ہوگا۔ زیرعلاج لوگوں کے لیے مقاصد ِ شریعت کے تحت طبّی Insthesia کا نشہ جائز اور ضروری ہے۔ ایسے نشہ کے عالم میں پورے ہوش و حواس بحال ہونے تک نماز کے قریب نہ جانے کے حکم کا اطلاق غیرمنسوخ قرار پائے گا۔

منشیات اور ادارتی ابلاغ

نشہ آور اشیا کی تشہیر بھی مقاصد شریعت کے سد الذریعہ کے تحت منع ہے کیونکہ: منشیات کی تشہیر اور منکرات کی اشاعت و ابلاغ سے بُرائی کو فروغ حاصل ہوتاہے اورنسل انسانی اخلاقی بگاڑ اور فساد کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتی ہے۔ شریعت محمدیؐ اور پاکستان کے مروجّہ قانون و دستور میں منشیات کا استعمال ممنوع ہے۔ اس کے باوجود پچھلے دو عشروں کے دوران تعلیمی اداروں اور معاشرتی سطح پر نوجوان نسل، علم، صحت اور اخلاق سے محروم ہوتی جارہی ہے مگر اس لعنت کے پس پردہ بڑے مجرم، قوانین و ضوابط کی گرفت سے آزاد ہیںاور ریاستی ادارے، نشہ آور اشیا کی سپلائی لائن منقطع کرنے اور ’حشیشن مافیا‘کو جکڑ لینے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اس وجہ سے قوم نئی نسلوں کے مخدوش مستقبل  کے بارے میں سخت تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ یہ معاشرتی ناسُور مملکت خدادادِ پاکستان کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے جس کی رُوسیاہی نشہ کے سبب بڑھتی جارہی ہے۔ نیز کوتاہی کے مرتکب مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے اندر قوتِ نافذہ کے حامل نمایندوں، منصفوں اور انتظامی افسران کی سُست روی پر عوام سخت نالاں ہیں۔

اس ضمن میں والدین، رضاکار، اساتذہ اور محراب و مسجد کے کردار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ کیا ہمارے ائمہ اورخطبا، حفاظت ِ دین ، حفاظت ِ عقل و دانش، حفاظت ِ نسل و عزّت اور جان و مال کے پانچ بنیادی مقاصد ِ شریعت کو عوام الناس کے ذہنوں میں نہیں بٹھا سکتے اور خطباتِ جمعہ میں مقاصد ِ خمسہ کی تفہیم و تشریح نہیں کرسکتے؟ ہمارے ذرائع ابلاغ لایعنی گفتگو پر وقت ضائع کرنےکے بجائے اپنے ایڈیٹروں اور رپورٹروں کا ارتکاز توجہ اِن اہم تربیتی و معاشرتی اُمور کی طرف نہیں کر سکتے جس کے وہ شرعاً اور قانوناً پابند ہیں؟

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) اپنے اداراتی ضوابط میں ترمیم و اضافہ کرکے تمام چینلوں کو منشیات کے خلاف معاشرتی اقدار کا پابند بناسکتی ہے۔ ریاستی اداروں میں اہم ادارہ فوج کا ہے جو جنگ اور دفاعی اُمور کا ذمہ دار ہے۔ عصرحاضر میں جنگ و جدال پیچیدہ صورت اختیار کرچکی ہے۔ فورتھ جنریشن وار سمیت دشمن کے مختلف النوع چالوں کے مقابلے میں اپنا اورملک و قوم اور نظریہ کا دفاع غیرمعمولی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ قوم کا نظریاتی دفاع، قرآن و سنت اور شریعت و مقاصد ِ شریعت کا دفاع ہے۔ منشیات کی حُرمت قرآنی حکم ہے۔ مختلف وسائل و ذرائع سے منشیات کا تدارک ضروری ہے۔

جسمانی فعال صحت کے ساتھ ساتھ ہمیں قوم کی ذہنی صحت کا بھی دفاع کرنا ہوگا جو مقاصد ِ شریعت کے پہلو بہ پہلو عقل و دانش کا بھی تقاضا ہے۔ اجتماعی طور پر یہ اُسی طرح فریضہ ہے جس طرح باجماعت نماز اور نظریۂ جہاد کے بلند مرتبہ کی خاطر جان و مال اور اولاد کی قربانی۔ قرآن کریم نے اس ایثار اورحیات و ممات کو اللہ کی خاطر جینے اور اللہ ربّ العالمین کی خاطر مرنے سے تعبیر کیا ہے۔ ممانعت نشہ دینِ اسلام کا اہم مرکزی نقطہ ہے اور کوہان کی اُونچی چوٹی یعنی ذرْوَۃ السَنَام جہاد کا طرئہ امتیاز بھی۔

تصوف کی اصطلاحات

سوال : سلسلۂ تصوف میں چند اصطلاحات معروف و مروج ہیں: قطب، غوث، اَبدال اور قیوم۔ قرآن و حدیث میں ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے متعلق جناب اپنی ذاتی تحقیق سے آگاہ فرمائیں۔

جواب :تصوف کی جن اصطلاحات کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان میں سے صرف ’ابدال‘ کا ذکر حضرت علیؓ کے ایک قول میں ملتا ہے۔ باقی رہے غوث، قطب اور قیوم، تو ان کا کوئی ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، یا صحابہ و تابعین کے اقوال میں نہیں ملتا، اور خود ابدال کے متعلق بھی جو عام تصورات صوفیہ کے ہاں پائے جاتے ہیں، ان کی طرف کوئی اشارہ حضرت علیؓ کے اس قول میں نہیں ہے، جس سے یہ اصطلاح لی گئی ہے۔ (سیّد ابوالاعلٰی مودودی ، اگست ۱۹۶۵ء)


تصوف کے سلاسلِ اربعہ

سوال :  تصوف کے سلاسلِ اربعہ کے متعلق اپنی رائے عالیہ سے مستفیض فرمائیں۔ 

جواب :تصوف کے ان سلسلوں کی ابتدا ایسے بزرگوں سے ہوئی ہے جو یقینا صلحائے اُمت میں سے تھے اور ان کا مقصود بھی تزکیہ و اصلاح تھا، جس کے ایک پاکیزہ مقصد ہونے میں کلام نہیں کیا جاسکتا۔ مگر جس طرح مسلمانوں کی زندگی کے دوسرے شعبے بتدریج انحطاط کا شکار ہوئے اور  ان میں صحیح و غلط کی آمیزش ہوتی چلی گئی، اس طرح یہ سلسلے بھی اپنی اصلی ابتدائی پاکیزہ حالت پر باقی نہیں رہ سکے ہیں۔ لیکن خدا کے فضل سے قرآن و سنت دُنیا میں محفوظ ہیں۔ ان کی راہ نمائی میں ہم جہاں اپنی زندگی کے دوسرے شعبوں میں صحیح و غلط کے درمیان تمیز کرسکتے ہیں، سلاسلِ تصوف کے افکارواعمال میں بھی یہ تمیز ممکن ہے۔ (سیّد ابوالاعلٰی مودودی  ، اگست ۱۹۶۵ء)


کیا تصوف مفید ہے؟

سوال :  تصوف جس کی دوسری تعبیر احسان و سلوک بھی ہے، جس کی تعلیم اکابرنقش بندیہ، چشتیہ ، سہرودیہ، قادریہ وغیرہ نے دی ہے، جیسے حضرت شیخ شہاب الدین محمد نقش بند، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی۔ اس تصوف کو آپ حضرات دین کے لیے مفید سمجھتے ہیں یا مضر؟

جواب : ہمارے نزدیک ہر وہ چیز جو کتاب اللہ و سنت رسولؐ اللہ سے مطابقت رکھتی ہے وہ مفید ہے اور جو مطابقت نہیں رکھتی وہ مضر ہے۔اسی کلیے میں تصوف بھی آجاتا ہے۔ تصوف میں بھی کتاب و سنت کے مطابق جو کچھ ہے، حق ہے۔ اس کا مفید ہونا شک و شبہہ سے بالاتر ہے۔ لیکن جو آمیزش بھی کتاب و سنت سے ہٹی ہوئی ہے، اس سے ہم اجتناب کرتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔(سیّد ابوالاعلٰی مودودی ، اگست ۱۹۶۱ء)


الفاظ کا غلط استعمال

سوال : ۱- ایک صاحب نے ایک مسجد تعمیر کرائی، اس کا افتتاح ہو رہا تھا۔ ایک عالم نے جذبے سے مغلوب ہو کر اپنی تقریر میں فرمایا: ’’جس نے مسجد تعمیر کرائی ہے، اس کے ہم سب شکرگزار ہیں، یہاں تک کہ اللہ بھی ان کا شکر گزار ہے‘‘۔ کیا ایسا کہنا درست ہے؟ پھر ایک اور موقعے پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید الفطر میں ہم سب اللہ کے مہمان ہو جاتے ہیں اور اللہ ہمارا خادم ہو جاتا ہے‘‘۔ کیا ایسا کہنا درست ہے؟

جواب :ہر زبان کے کچھ محاورے اور اسلوب ہوا کرتے ہیں۔ وہ لوگ ہوش مند نہیں ہیں جو ایک زبان کے کسی محاورے یا اسلوب کو دوسری زبان میں لفظی ترجمہ کرکے جوں کا توں بول دیں، اور یہ نہ دیکھیں کہ اس دوسری زبان میں یہ الفاظ کس مفہوم و معنٰی میں مستعمل ہیں۔ مثلاً لفظ ’شکر‘ کا مفہوم عربی استعمال میں ’قدردانی‘ ہے، ’شکور‘ کے معنٰی ’قدر کرنے والا‘یا ’قدردان‘۔ جیسے قرآن میں فرمایا گیا:  اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ۝۳۰ (اللہ بخشنے والا ہے، قدر فرمانے والا ہے)، اور اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۨ۝۳۴ۙ (بے شک ہمارا رب درگزر کرنے والا اور قدردان ہے) ۔اب ظاہر ہے کہ قدردانی اور قدر افزائی میں کسی طرح کا چھوٹا پن نہیں پایا جاتا، نہ اس کا مطلب ’ممنونِ احسان‘ ہونا ہوتا ہے۔ احسان بھلا اللہ پر کوئی کیا کرے گا،جب کہ تمام مخلوق خود اللہ کے احسانات میں بال بال بندھی ہوئی ہے۔

لیکن اُردو استعمال میں ’شکر گزاری‘ کے الفاظ بالکل دوسرا مفہوم اور دوسرے مضمرات رکھتے ہیں۔ کوئی بڑا اپنے چھوٹے کے لیے ’شکر گزاری‘ کا اظہار کرے، یہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ’شکر گزاری‘ کا مطلب اردو محاورے میں احسان کا اعتراف ہے، اور ’محسن‘ کا درجہ اس احسان کی حد تک اُس شخص سے بڑھا ہوا مانا جاتا ہے، جس پر احسان کیا گیا ہے۔

 لہٰذا جو صاحب آیاتِ قرآنیہ میں اللہ کے لیے ’شکور‘ کا لفظ دیکھ کر اردو میں بھی یوں فرمانے لگے ہیں کہ ’’اللہ اس شخص کا شکر گزار ہے، جس نے مسجد تعمیر کی‘‘، وہ صاحب کم سمجھ اور بدمذاق ہیں۔ ’شکر گزاری‘ جیسا کہ ہم نے کہا اعترافِ احسان کے ہم معنیٰ ہے، جب کہ قرآن کا لفظ ’شکور‘ صرف قدر دانی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قدردانی کہتے ہیں کسی عمل کا بھرپور صلہ دینے کو، فرماںبرداری پر اپنی خوش نودی کا اظہار کرنے کو۔ یہ بے شک اللہ کی شان ہے اور ایسی شان اس کی عظمت کے منافی نہیں بلکہ عین مطابق ہے، لیکن اس کے برعکس ’شکرگزاری‘ دوسری شے ہے۔ شکر گزار وہی ہو سکتا ہے جس پر احسان کیا گیا ہو، یعنی اسے اس کے حقِ واجب سے زیادہ دے دیا گیا ہو۔ بھلا اللہ کو کوئی اس کے حق سے زیادہ کیا دے گا، بہت بڑی بات ہے اگر اس کے حق کا ہزارواں حصہ بھی بندہ ادا کردے۔

اب لفظ ’خادم‘ پر نظر کیجیے۔ سلیقے کی بات یہ تھی کہ مولوی صاحب ’مہمان‘ کے مقابلے میں ’میزبان‘ کا لفظ بولتے۔ میزبانی اللہ کے شایانِ شان ہے، مگر انھوں نے ’خادم‘ کا لفظ بول کر بہت بڑی جرأت کی۔’خادم‘ اردو بول چال میں جو پست مفہوم رکھتا ہے وہ بھی محتاجِ بیان نہیں ہے۔

’خادم‘ کا درجہ ’مخدوم‘ سے کم مانا گیا ہے۔ خادم تو عموماً نوکر کےلیے بولتے ہیں، اور یہی لفظ شائستہ حضرات خود اپنے لیے اس وقت استعمال کرتے ہیں جب عجز و انکسار مقصود ہو۔ خدا جانے ان مولوی صاحب نے عربی کے کس لفظ کا ترجمہ ’خادم‘ کرکے اسے اللہ کےلیے بول دیا ہے، استغفراللہ من ذٰلک۔ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی روایت میں ایسا کوئی لفظ آیا بھی ہو، جس کا ترجمہ ’خادم‘ ہو سکتا ہو، تب بھی یہ حماقت ہی ہوگی کہ اردو میں لفظ خادم کے محلِ استعمال کو نظر انداز کر دیا جائے۔

اللہ نے بندوں کی حوصلہ افزائی کےلیے بعض الفاظ بطورِ مجاز استعمال کیے ہیں، مثلاً:  وَاَقْرَضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا (اللہ کو قرضِ حسنہ دو)، یعنی اہلِ ایمان راہِ جہاد میں اپنا جو مال خرچ کرتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمّے قرض قرار دیا، تو کیا خود ہمارے لیے بھی اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرکے یہ کہتے پھرنا مناسب ہے کہ’’ اللہ ہمارا مقروض ہے!‘‘

اللہ نے فرمایا:  اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمھاری مدد کرے گا)۔ یہ بھی حوصلہ افزائی ہی کا انداز ہے اور عربی سے مخصوص۔ اب کیا خود ہمیں بھی یہ زیب دے سکتا ہے کہ جب جہاد کرنے چلیں تو اکڑ کر کہیں کہ ’’ہم اللہ کی مدد کرنے جا رہے ہیں!‘‘

جب عقل تناسب سے کم ہو تو علم صحیح طور پر ہضم نہیں ہوتا، بلکہ کچا پکا باہر نکلتا ہے۔ کاش وہ صاحب الفاظ کے استعمال میں ہمیشہ سورۂ بقرہ کی اس آیت کو ملحوظ رکھیں: يٰٓاَ يُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا (ایمان والو! راعنا مت کہو، بلکہ اُنظرنا   کہو)۔ لفظ رَاعِنَا کے معنٰی یہی تو ہیں کہ ہماری طرف توجہ دو، ہماری رعایت کرو، اُنْظُرْنَا  بھی تقریباً یہی مفہوم رکھتا ہے، ہماری طرف دیکھو، متوجہ ہو۔ مگر یہود کی زبان میںراعِنا  احمق کو بھی کہتے تھے، اور اسی لفظ کو ذرا زبان دباکر کہہ دیجیے تو راعینا بن جاتا ہے، جس کے معنٰی ہیں: ’اے ہمارے چرواہے‘۔ حضورؐ کی مجلس میں بعض یہود کی طرح کچھ صحابہؓ بھی حضورؐ سے مخاطب ہوکر راعنا  کا لفظ استعمال کرلیتے تھے، اور ظاہر ہے کہ ان کی نیتیں آبِ کوثر کی طرف پاک تھیں، پھر بھی اللہ نے اِبہام و اِلتباس سے بچانے کےلیے اور ادب و احترام کا بلند معیار قائم کرنے کےلیے اس ذومعنی لفظ کے استعمال سے روکا۔

تو کیا خود اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ ادب و احترام کا مستحق نہیں، اور جو رہنمائی اس نے قرآن میں اپنے اسمائے حسنیٰ پر دی ہے، اس کا تو کھلا تقاضا ہے کہ اس کےلیے کسی اسمِ صفت کا استعمال انتہائی احتیاط سے کیا جائے: ہُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ (وہ اللہ ہے پیدا کرنے والا، نکال کھڑا کرنے والا، صورتیں بنانے والا، اس کے اچھے اچھے نام ہیں)۔ (مولانا عامر عثمانی، مئی ۱۹۷۰ء)

مشرقی پاکستان ،ٹوٹا ہوا تارا، الطاف حسن قریشی ۔ ناشر : قلم فائونڈیشن ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ ۔ رابطہ:  0323-4393422 ۔ صفحات: ۱۴۰۶، قیمت (مجلد): ۵۰۰۰ روپے۔

قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد کا اعزاز ۳۰دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں قائم ہونے والی  کُل ہند مسلم لیگ کو حاصل ہے۔ پھر برطانوی مقبوضہ ہند کے تمام صوبوں اور ریاستوں میں آزادی کے لیے سب سے زیادہ ذہنی وعلمی یکسوئی کے ساتھ کوششیں، خطۂ بنگال کے مسلمانوں ہی نے کی تھیں۔ ان کاوشوں میں ہند کے دیگر علاقوں میں بسنے والے اسلامیان نے بھی اپنا حصہ ادا کیا ۔۱۴ـ؍ اگست ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم کی قیادت میں یہ سفر مکمل ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

خطۂ بنگال جو تحریکِ پاکستان کا دھڑکتا ہوا دل اور اس کی سراپا پہچان تھا، مگر قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد یہ خطّہ اندیشہ ہائے دُور دراز کی دلدل میں اس طرح دھنستا چلا گیا کہ اگر   ایک طرف تحریک ِقیامِ پاکستان کے دشمن ملک نے اپنا جال پھینکا ، تو دوسری طرف تنگ نظر  بنگالی قوم پرستوں نے جسدِ ملّی میں مبالغہ آمیز پراپیگنڈے کا زہریلا مواد بھردیا، اور تیسری جانب مغربی پاکستان کی سیاسی، انتظامی اور فوجی قیادت کی حماقتوں نے اس منفی عمل کو تیز تر کر دیا ۔ یوں، وہ مرکز جو قیام پاکستان کا عنوان تھا، ۲۴ برس بعد اندرونی تخریب، بیرونی یلغار اور حکومتی بداعمالیوں کی بھینٹ چڑھ کر، مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا اور اس طرح ایک آزاد پاکستان کے بجائے دشمن ملک کی طفیلی ریاست بن کر رہ گیا۔

یہ ایک بڑا تکلیف دہ، اور حد درجہ عبرت ناک سفر ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز صحافی ،منفرد تجزیہ نگار اور راست فکر دانش ور جناب الطاف حسن قریشی (پ:مارچ۱۹۳۰ء)نے اس سفرکی کھلی اور چھپی داستان کو ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ ، ہفت روزہ زندگی اور روز نامہ جسارت کے اوراق پر رقم کیا۔انھوں نے ۷۲ مضامین کی صورت میں اپنے گہرے مشاہدے ، وسیع مطالعے ، مسلسل تحقیق، فکرانگیز مکالمے اور ایمان افروز تجزیے سے اس عمل معکوس کو پرکھا ہے ، اور برملا سچائی بیان کرنے میں کسی کوتاہی ،سستی اور مداہنت کو قریب تک نہیں پھٹکنے دیا۔اس دوران وہ دو مارشل لا حکومتوں اور ایک فسطائی حکومت کے تحت قیدوبند سے بھی گزرے، مگر ثابت قدم رہے۔

 ۹۲ سالہ الطاف صاحب کا یہ تحریری سرمایہ پاکستان کی تاریخ کے نازک ترین دورکی ایسی نمایاں تصویر پیش کرتا ہے جس میں ایک ایک کردار اپنی پستی کے ساتھ بے نقاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری، ٹھیک اس ماحول میں پہنچ جاتا ہے جب رنج واَلم کے ہرکارے اور وطن فروشی وغداری کی بساط کے مہرے ستم ڈھارہے تھے ،مگر افسوس کہ قوم اور قوم کے اہل حل وعقد مصنف کی پکار سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ابتدا میں ’محشرِخیال‘ کے عنوان سے الطاف صاحب کا ۲۳صفحات کا طویل دیباچہ پڑھنے کے لائق ہے۔

۱۹۶۴ء سے لکھی جانے والی یہ تحریریں المیۂ سقوطِ مشرقی پاکستان ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء اور پھر اس کے بعد قومی احتساب کی بانگِ درا بن کر نیند کے ماتوں کو جگانے کی مسلسل کوشش کرتی آ رہی ہیں ۔ ان تحریروں میں پاکستان کے: دستوری ، بین الصوبائی ، ثقافتی ، لسانی ،تعلیمی ، معاشی ، صحافتی ، فوجی، حکومتی ، مذہبی ، انتظامی اور عدالتی شعبوں کی دانستہ اور نادانستہ کج رویوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پھر غور سے دیکھیں تو اصلاحِ اَحوال کے لیے اس کتاب کے اوراق پہ ایک بے لاگ قومی پارلیمنٹ کے پُرمغز اور فاضلانہ مباحث کا گمان ہوتا ہے، جہاں تیرہ شبی سے لڑنے والا جہاں دیدہ قلم کار، پُرپیچ گرہوں کو کھولنے کے ساتھ، اُلجھے معاملات کو سدھارنے کا راستہ بھی دکھا رہا ہے۔ جس میں کمال کی چیز یہ ہے کہ ہرلمحہ حسِ اعتدال اور ہمدردی ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہے۔جہاں جس کو جادئہ اعتدال سے ہٹا دیکھا، اسے نمایاں کردیا اور جس فرد کو معقول بات یا عمل کرتے دیکھا، اس کا کھلا اعتراف کیا۔بدقسمتی سے عموماً ہمارے لکھنے والے اس خوبی کو اپنانے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔

سقوطِ مشرقی پاکستان پر بیش تر لکھی گئی کتابیں بعد اَز مرگ واویلا کی بازگشت ہیں، یا پھر وکیل صفائی کا بیان ، ورنہ استغاثہ کا دفتر۔ مگر یہ کتاب ، ایک بھلے چنگے ملک کو بیماری سے بچنے ، بداعمالی سے پرہیز برتنے اورعلاج کے لیے خبر دار کرنے کا دیانت دارانہ نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں دانش ، درد مندی اور عبرت کے اتنے رنگ ہیں اور معلومات کے اتنے خزانے ہیں کہ ایک مختصر تبصرہ ان کو نمایاں طور پر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اگر ہمارے صحافی بھائی بے خبری کے گنبد اور زعم باطل کے افیون کدے سے نکل کر اس کتاب کو پڑھیں گے تو ان کے لیے یہ ایک صحافتی تربیت اور مطالعۂ تاریخ کا نصاب ہے۔ فوج اور سول انتظامیہ کے افسران پڑھیں گے تو انھیں جھنجوڑنے کا تازیانہ اور منصبی فرائض انجام دینے کا آموختہ ہے۔ سیاست دان پڑھیں گے تو ان کے لیے سیاسی شغل کاری سے توبہ کرنے اور قومی خدمت و احساسِ ذمہ داری بیدار کرنے کا درس ہے۔ اساتذہ اور طلبہ پڑھیں گے تو ان کے لیے تاریخ سے زندہ سبق سیکھنے کا ریفریشر کورس ہے، اور اگر سفارت کار پڑھیں گے تو ان کے لیے سفارت کاری کی باریکیوں کو سمجھنے کا زائچہ ہے۔

بظاہر کتاب کی قیمت زیادہ لگتی ہے، لیکن امرواقعہ ہے کہ خریدنے والا، جب مطالعہ کرے گا تو اسے محسوس ہوگا کہ اس کی رقم ضائع نہیں ہوئی۔ ناشر بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ پاکستانی تاریخ کے ایک اہم باب کو بلاکم و کاست پیش کیا ہے۔ کتاب میں بنگالی اور بنگال سے متعلق شخصیات کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ (سلیم منصور خالد)

اُردو زبان کے راستے میں اصل رکاوٹ صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا بالائی طبقہ چونکہ خود انگریزی ماحول میں پلا ہوا ہے، اور اُردو لکھنے بولنے پر قادر نہیں ہے، اس لیے وہ چاہتاہے کہ اس کے جیتے جی ساری قوم پر انگریزی زبان مسلط رہے۔ پھر یہ لوگ اپنی اولاد کی  بھی انگریزیت ہی کے ماحول میں پرورش کر رہے ہیں، اور اس بات کا انتظام کررہے ہیں کہ حکومت کی باگ ڈور آیندہ انھی کی نسل کے قبضے میں رہے۔

اس لیے ۱۹۷۲ء میں بھی اس امر کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی کہ اُردو زبان کو یہاں کی سرکاری اور تعلیمی زبان بنانے کا فیصلہ ہوجائے گا۔ کمیشن کی تجویز صرف طفل تسلی کے لیے ہے، تاکہ وقت ٹالا جائے اور مطالبہ کرنے والوں کو فی الحال کم از کم دس سال کے لیے چپ کرا دیا جائے۔۱

ہماری مصیبتوں کا کوئی حل اس کے سوا نہیں ہے کہ ان دیسی انگریزوں سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑایا جائے۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ انگریز خود تو چلا گیا ہے، مگر اس کا بھوت ہمیں چمٹ کر رہ گیا ہے۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۵۹، عدد۵، فروری ۱۹۶۳ء، ص۳۱۰)

_________________________

۱          جنوری ۱۹۶۳ء میں صدر ایوب خان کی حکومت کے وزیرقانون نے اعلان کیا تھا کہ ۱۹۷۲ء میں ایک کمیشن قائم کیا جائے گا، جو اس بات کا جائزہ لے گا کہ انگریزی کے بجائے کون سی زبان متبادل ہوگی؟ یہ سوال اور اشارہ اسی پس منظر میں ہے، اور یہ ۲۰۲۳ء ہے مگر اس باب میں حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہوچکی ہے۔ (ادارہ)