مضامین کی فہرست


نومبر ۲۰۲۲

مسٹر جارج برناڈشا نے جب مشرق کا سفر کیا تو اس کے دوران میں سنگاپور کے عربی اخبار الہدٰی  کا نامہ نگار، ان سے ملا۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام، آزادی اور دستوری و ذہنی حریت کا دین ہے۔ اجتماعی نقطۂ نظر سے مسیحیت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کسی مذہب کا نظامِ اجتماعی اتنا مکمل نہیں ہے، جتنا اسلام کا نظام ہے۔ دنیائے اسلام کا تنزل اسلام سے دُور ہٹ جانے کی بدولت ہے۔ مسلمان جب صرف اسلام کی بنیادوں پر جدوجہد کریں گے تو عالم اسلامی کا خواب، بیداری سے بدل جائے گا‘‘۔

اِن خیالات کے سننے کے بعد نامہ نگار نے سوال کیا کہ ’’جب آپ اسلام کو اچھا سمجھتے ہیں تو پھر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیوں نہیں کر دیتے؟‘‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جو فطری طور پر  ان بیانات کے بعد پیدا ہوتا ہے، کیونکہ ایک سلیم الطبع آدمی کے لیے کسی چیز کے اعترافِ قبح اور اس کو ترک کر دینے اور کسی چیز کے اعترافِ حسن اور اس کو قبول و تسلیم کرلینے میں کوئی حد فاصل نہیں ہوسکتی۔ لیکن مسٹر شانے جو کچھ جواب دیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قبولِ اسلام کے لیے تیار نہیں ہیں، اور ایسا نہ کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں، بلکہ صرف اس چیز کی کمی [تھی] جس کو شرح صدر کہتے ہیں۔

ایک مسٹر شا ہی پر موقوف نہیں ہے، بہت سے اہل فکر و نظرپہلے بھی گزر چکے ہیں، اور اب بھی موجود ہیں، جنھوں نے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کیا۔ اس کے دنیوی یا دینی یا دونوں حیثیتوں سے مفید ہونے کا اقرار کیا، اس کی تہذیب، اس کے نظام اجتماعی، اس کی علمی صداقت اور اس کی عملی قوت کی برتری تسلیم کی، مگر جب ایمان لانے اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانے کا سوال سامنے آیا، تو کسی چیز نے ان کو قدم آگے بڑھانے سے روک دیا، اور وہ اسلام کی سرحد پر پہنچ کر ٹھیر گئے۔

برعکس اس کے، بہت سے آدمی ایسے بھی ہو گزرے ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسلام کی مخالفت اور اس کی دشمنی میں صرف کر دیا، لیکن اسی مخالفت کے سلسلے میں اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے حقیقتِ اسلام ان پر منکشف ہوگئی، اور اس انکشاف کے بعد کوئی چیز ان کو ایمان لانے سے نہ روک سکی۔

اختلاف اور قبولیت کی مختلف توجہیں

حقیقت یہ ہے کہ ہدایت و ضلالت [گمراہی] کا راز بھی ایک عجیب راز ہے۔

ایک ہی بات ہے جو ہزاروں آدمیوں کے سامنے کہی جاتی ہے، مگر کوئی اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا۔ کوئی توجہ کرتا ہے لیکن وہ اس کے پردۂ گوش پر سے اچٹ کر چلی جاتی ہے۔ کوئی اس کو سنتا اور سمجھتا ہے، مگر مانتا نہیں۔ کوئی اس کی تعریف و تحسین کرتا ہے، مگر قبول و تسلیم نہیں کرتا، اور کسی کے دل میں وہ گھر کر جاتی ہے اور وہ اس کی صداقت پر ایمان لے آتا ہے۔

ہمارا شب و روز کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص کو بازار میں چوٹ لگ کر گرتے ہوئے سیکڑوں آدمی دیکھتے ہیں۔ بہت سے اس کو معمولی واقعہ سمجھ کر یونہی بس دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ بہتوں کے دل میں رحم آتا ہے ،مگر وہ افسوس کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بہت سے اس کا تماشا دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ اور بعض اللہ کے بندے ایسے نکلتے ہیں جو بڑھ کر اسے اٹھاتے ہیں، اس سے ہمدردی کرتے ہیں اور اس کو مدد پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک مجرم کو پا بہ زنجیر جاتے ہوئے بہت سے آدمی دیکھتے ہیں۔ کوئی اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتا، کوئی اس پر حقارت کی نظر ڈالتا ہے، کوئی اس پر ترس کھاتا ہے، کوئی اس کی ہنسی اُڑاتا ہے، کوئی اس کے انجام پر خوش ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ جیسا کیا ویسا بھرا، اور کوئی اس کے انجام سے عبرت حاصل کرتا ہے اور جرم سے بچنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔

یہ تو مختلف لوگوں کی مختلف نفسی کیفیات و تاثرات ہیں، جن کا اختلاف زیادہ تعجب خیز نہیں۔ اس سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ ایک ہی شخص کے تاثر اور اس پر ایک ہی چیز کے اثر کی نوعیت مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہے۔ وہی ایک بات ہے جس کو ایک شخص ہزاروں مرتبہ سنتا ہے اور نہیں مانتا، مگر ایک ایسا موقع آتا ہے کہ یکایک اس کے دل کا بند کھل جاتا ہے۔ جو بات کان کے پردے میں اٹک کر رہ جاتی تھی،وہ سیدھی دل تک پہنچ جاتی ہے، اور وہ خود حیران ہوتا ہے کہ یہی بات میں پہلے بھی بارہا سن چکا ہوں، پھر آج یہ کیا ہوگیا کہ یہ خود بخود دل میں اتری چلی جارہی ہے؟

ایک ہی شخص کو بارہا آفت رسیدہ آدمیوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، اور وہ ان کی طرف التفات بھی نہیں کرتا۔ لیکن ایک موقعے پر کسی شخص کی مصیبت دیکھ کر دفعتاً اس کا دل بھر آتا ہے، شقاوت کا پردہ چاک چاک ہو جاتا ہے، اور وہ سب سے زیادہ ہمدرد، رحیم اور نرم دل بن جاتا ہے۔ ایک شخص کو اپنی عمر میں بے شمار عبرت ناک مناظر دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، کبھی وہ ان کو تماشا سمجھ کر دیکھتا ہے، کبھی ایک حسرت و افسوس کی نگاہ ڈالتا ہے، اور کبھی ایک معمولی نظر سے اس پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ دل پر ایک مستقل نقش بیٹھ جاتا ہے۔

یہی حال ہدایت و ضلالت کا بھی ہے۔

وہی ایک قرآن تھا، وہی ایک اس کی تعلیم تھی، وہی ایک اس کو سنانے والی زبان تھی۔ ابوجہل اور ابولہب تمام عمر اس کو سنتے رہے، مگر کبھی وہ ان کے کانوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ خدیجۃ الکبریٰ ؓ، ابوبکرؓ، اور علی ؓابن ابی طالب نے سنا اور پہلے ہی لمحے میں اس پر ایمان لے آئے، بغیر اس کے کہ ان کے دل میں شک کا شائبہ بھی گزرتا۔ عمرؓ ابن الخطاب نے بیسیوں مرتبہ اس کو سنا اور صرف یہی نہیں کہ تسلیم نہ کیا بلکہ جوں جوں سنتے رہے مخالف اور دشمن ہوتے چلے گئے۔ لیکن ایک مرتبہ انھی کانوں نے اس چیز کو سنا تو کان اور دل کے درمیان جتنی مضبوط دیواریں چنی ہوئی تھیں، یکایک منہدم ہوگئیں، اور اس چیز نے ان کے دل میں ایسا اثر کیا کہ ان کی زندگی کی بالکل کایا پلٹ دی۔

ہر چند، نفسی نقطۂ نظر سے اس اختلافِ کیفیت اور اختلافِ اثر و تاثر کی بہت سی توجیہیں کی جاسکتی ہیں، اور وہ سب اپنی اپنی جگہ درست بھی ہیں۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو چیز  چشم و گوش اور دل و دماغ کے درمیان کہیں ایک مستقل حجاب بن جاتی ہے۔ کہیں ایک مدت تک حجاب بنی رہتی ہے، اور ایک نفسی موقعے پر خود بخود چاک ہو جاتی ہے۔ کہیں سرے سے حجاب بنتی ہی نہیں، کہیں کسی بات کے لیے حجاب بنتی ہے، اور کسی بات کے لیے نہیں بنتی، وہ ہرگز انسان کے ارادے و اختیار کے تابع نہیں ہے، بلکہ فطری و جبلی طور پر خود بخود انسان میں پیدا ہوتی ہے۔

قرآن کا نقطۂ نظر

یہی نکتہ ہے جس کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:

  فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہٗ يَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۝۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللہُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَايُؤْمِنُوْنَ  ۝ (الانعام۶:۱۲۵) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ رکھنا چاہتا ہے، اس کے سینے کو ایسا تنگ کرتا اور ایسا بھینچتا ہے کہ گویا وہ آسمان پر چڑھا چلا جارہا ہے۔ یہ طریقہ ہے جس سے ایمان نہ لانے والوں پر اللہ کی طرف سے ناپاکی مسلط کی جاتی ہے۔

ایک اور موقعے پر اس کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ:

وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ يُّضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۝ (النحل۱۶:۹۳)اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک ہی اُمت بنا دیتا۔ مگر وہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔اور ضرور تم سے تمھارے اعمال کی بازپرس ہو کر رہے گی۔

پھر اس ہدایت کی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے کہ:

قُلْ اِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَـابَ  ۝۲۷ۖۚ (الرعد۱۳:۲۷)ان سے کہو کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔

اور ضلالت کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ:

وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۝۴۵ۙ  وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِـہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۝۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷: ۴۵-۴۶) جب تم نے قرآن پڑھا تو ہم نے تمھارے اور آخرت کا یقین نہ رکھنے والوں کے درمیان ایک گاڑھا پردہ ڈال دیا اور ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دئیے کہ قرآن نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی۔

اِن آیات میں اس فطری کیفیت کو، جو ایک حق بات سن کر اسے قبول کر لینے کے لیے اضطراری طور پر دل میں پیدا ہوتی ہے، اور جو آخر کار انسان کو ایمان کی طرف کھینچ لاتی ہے، خدائی ہدایت اور اس کے پیدا ہونے کو ’شرحِ صدر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس ہدایت کے برعکس انسان کے دل میں حق سے انکار اور اعراض کرنے پر آمادگی کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس کو اللہ کی طرف سے مسلط کی ہوئی گمراہی قرار دیا گیا ہے، اور ’شرح صدر‘ کے مقابل جو انقباضی کیفیت دل میں پیدا ہوتی ہے، اسے ’ضیق صدر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

پھر اس ’ہدایت و ضلالت‘ اور ’شرحِ صدر‘ اور ’ضیقِ صدر‘ کے پیدا ہونے کا سبب یہ بتایا ہے کہ انسان جب ایک مرتبہ خدا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، تو اس کو خود بخود وہ راستہ دکھائی دینے لگتا ہے، جو اسے سیدھا خدا کی جانب لے جاتا ہے، اور جو شخص سرے سے یہ احساس ہی نہیں رکھتا کہ مجھے کبھی خدا کے حضور میں حاضر ہونا اور اپنے قلب و جوارح کے افعال کا حساب دینا ہے، اس کو لاکھ کوئی شخص کلمۂ حق سنائے اور وعظ و تلقین کرے، کوئی بات اس کے دل میں نہیں اترتی اور وہ کسی طرح راہِ راست پر نہیں آتا۔

یہاں پھر دو باتیں مل گئی ہیں، جن کو الگ الگ سمجھ لینے سے قرآن مجید کے وہ مقامات بآسانی حل ہو جاتے ہیں، جن میں یہ مضمون مختلف پیرایوں سے بیان کیا گیا ہے:

ایک طرف ہدایت و شرح صدر اور ضلالت و ضیق صدر کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اس ہدایت و شرح صدر کے عطا کرنے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ انسان خدا کی طرف رجوع اور توجہ کرے۔ اور ضلالت و ضیق صدر کے مسلط کر دینے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ گمراہ شخص خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اس کے سامنے مسئول و جواب دہ ہونے کا احساس نہیں رکھتا۔

ان دونوں چیزوں کے باہمی تعلق کو یوں سمجھیں کہ انسان کی فطرت میں خدا نے ایک ایسی قوت رکھ دی ہے، جو اس کو حق و باطل کے امتیاز اور صحیح و غلط کا فرق سمجھنے میں مدد دیتی ہے، اور اس کے ساتھ ہی اسے حق کی طرف بڑھنے اور باطل سے احتراز کرنے پر مائل کرتی ہے۔ یہی قوت وہ فطری ہدایت ہے، جسے خدا اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور جس کی طرف ارشاد خداوندی: فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا  ط (الروم۳۰: ۳۰) [اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے] میں اشارہ کیا گیا ہے۔

اس کے خلاف ایک اور قوت بھی انسان میں کام کر رہی ہے، جو اس کو برائی کی طرف کھینچتی ہے، غلطی اور کج روی کی طرف مائل کرتی ہے اور جھوٹ اور باطل کو اس کے سامنے مزّ ین کرکے  پیش کرتی ہے۔ ان دونوں کے ساتھ بہت سی خارجی اور داخلی قوتیں ایسی ہیں، جن میں سے بعض ہدایت کی قوت کو مدد پہنچانے والی ہوتی ہیں، اور بعض ضلالت کی قوت کو۔ اکتسابِ علم اور اس کے مختلف مدارجِ تربیت اور اس کی مختلف کیفیات، سوسائٹی اور اس کے مختلف احوال، وہ چیزیں ہیں جو باہر سے اس پر اثرانداز ہوتی ہیں، اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں سے کسی ایک میں اپنا وزن ڈالتی رہتی ہیں۔ اور انسان کا اپنے اختیارِ تمیزی، اپنی فہم و فراست، اپنی عقل و بصیرت، اپنے ذرائع اکتسابِ علم سے صحیح یا غلط کام لینا، اور اپنی قوت فیصلہ کو بجا یا بے جا استعمال کرنا، یہ وہ چیز ہے جو خود اس کے ارادے کے تابع ہے، اور جس سے وہ ہدایت و ضلالت کی متضاد قوتوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔

اب ہوتا یہ ہے کہ خدا کی بخشی ہوئی ہدایت اور اس کی مسلط کی ہوئی ضلالت، دونوں غیر محسوس طور پر اپنا عمل کرتی رہتی ہیں۔ ہدایت کی قوت اسے راہ راست کی طرف لطیف اشارے کیا کرتی ہے، اور ضلالت کی قوت اسے باطل کے ملمع پر رجھائے جاتی ہے۔

مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلط اثرات سے متاثر ہو کر اور خود اپنی اختیاری قوتوں کو غلط طریقے سے استعمال کرکے ضلالت کے پھندے میں گرفتار ہو جاتا ہے اور ہدایت کی پکار پر کان ہی نہیں دھرتا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ غلط راستے پر چل رہا ہوتا ہے، اور اس دوران میں کچھ بیرونی اثرات اور کچھ خود اس کی اپنی عقل و بصیرت، دونوں مل جل کر اسے گمراہی سے بے زار کر دیتے ہیں۔ اور اس وقت ہدایت کی وہی روشنی جو پہلے مدھم تھی دفعتاً تیز ہو کر اس کی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مدت تک انسان ہدایت اور ضلالت کے درمیان مذبذب رہتا ہے، کبھی اِدھر کھنچتا ہے، کبھی اُدھر۔ قوت فیصلہ اتنی قوی نہیں ہوتی کہ بالکل کسی ایک طرف کا ہو جائے۔

بعض بدقسمت اسی تذبذب کے عالم میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ بعض کا آخری فیصلہ ضلالت کے حق میں ہوتا ہے، اور بعض ایک طویل کش مکش کے بعد ہدایت الٰہی کا اشارہ پا لیتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ خوش قسمت وہ سلیم الفطرت، صحیح القلب، اور سدید النظر لوگ ہوتے ہیں، جو خدا کی دی ہوئی عقل، اس کی عطا کی ہوئی آنکھوں، اس کے بخشے ہوئے کانوں اور اس کی ودیعت کی ہوئی قوتوں سے ٹھیک ٹھیک کام لیتے ہیں۔ مشاہدات اور تجربات سے درست نتائج اخذ کرتے ہیں۔ آیات الٰہی کو دیکھ کر ان سے صحیح سبق حاصل کرتے ہیں۔

باطل کی زینت اُن کو رجھانے میں ناکام ہوتی ہے۔ جھوٹ کا فریب ان کو اپنا گرویدہ نہیں بناسکتا۔ ضلالت کی کج راہیوں کو دیکھتے ہی وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ آدمی کے چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ پھر جونہی وہ حق کی طرف رجوع کرتے اور اس کی طلب میں آگے بڑھتے ہیں، حق ان کے استقبال کو آتا ہے۔ ہدایت کا نور ان کے سامنے چمکنے لگتا ہے اور حق کو حق سمجھ لینے اور باطل کو باطل جان لینے کے بعد پھر دنیا کی کوئی قوت ان کو راہ راست سے پھیرنے اور گمراہی کی طرف لگانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔

غیرمسلم مشاہیر کے اعتراف کی حقیقت

ایک اور بات بھی اس سلسلے میں قابلِ بیان ہے، اور ضرورت ہے کہ مسلمان اس کو ذہن نشین کرلیں۔

عام طور پر جب غیر مسلم مشاہیر کی جانب سے اسلام کے متعلق کچھ اچھے خیالات کا اظہار ہوتا ہے، تو مسلمان بڑے فخر سے ان خیالات کو شہرت دیتے ہیں، گویا ان کا اسلام کو اچھا سمجھنا اسلام کی خوبی کے لیے کوئی گراں قدر سرٹیفکیٹ ہے۔ لیکن یہ حقیقت فراموش نہ کرنی چاہیے کہ اسلام کی صداقت و حقانیت اس سے بے نیاز ہے کہ کوئی اس کا اعتراف کرے۔ جس طرح آفتاب کا روشن ہونا اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اس کو روشن کہے اور جس طرح آگ کا گرم ہونا اور پانی کا سیال ہونا اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اس کی گرمی اور اس کے سیلان کو تسلیم کرے، اسی طرح اسلام کا برحق ہونا اس کا حاجت مند نہیں ہے کہ کوئی اس کے برحق ہو نے کو مان لے۔ خصوصاً ایسے لوگوں کی تحسین اور مدح تو کوئی بھی وقعت نہیں رکھتی، جن کے دل ان کی زبانوں کا ساتھ نہیں دیتے، اور جو خود اپنے اعراض و انکار سے اپنی مدح و تحسین کی تکذیب کرتے ہیں۔ اگر حقیقت میں وہ اسلام کی خوبی کے معترف ہوتے تو اس پر ایمان لے آتے۔ لیکن جب انھوں نے زبانی اعتراف کے باوجود ایمان لانے سے انکار کر دیا تو اہل عقل کی نگاہ میں ان کی حیثیت بالکل اس شخص کی سی ہے، جو طبیب کی صداقت کو تسلیم کرے، اس کے تجویز کردہ نسخے کی صحت کا اعتراف کرے، مگر اپنی بیماری کا علاج کسی عطائی طبیب سے کرائے۔

مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بڑے سے بڑے غیر مسلم کا اعتراف بھی اسلام کے لیے قابلِ فخر نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک ہی فخر کافی ہے، اور وہ  اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ  قف (اٰل عمرٰن۳:۱۹) [اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے] اور رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا  ط   (المائدہ۵:۳) [تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا] کا فخر ہے۔

قرآن مجید میں چھ ہزار سے زیادہ آیات ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی آیت، سورۃ البقرہ کی آیت ۲۸۲ہے، جسے ’آیتِ دَین‘ بھی کہتے ہیں۔ وہ قرآن کے معاشی، اقتصادی اور مالیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’باہم لین دین کا معاملہ ایک متعین وقت کے لیے ہو تو لکھ لیا کرو‘‘۔ آج سے چودہ سو سال پہلے، جب کہ معاشرے میں گنتی کے چند ہی افراد لکھنے پڑھنے پر قادر ہوتے تھے، ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ’’لکھنے سے انکار نہ کریں‘‘۔ علم اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور اس نعمت کا استعمال دوسروں کے لیے کرنا چاہیے۔

دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دستاویز کا املا کون کرے؟ آج کے دور کی طرح قرض دینے والا نہیں بلکہ مقروض جو فریقین میں کم زور ہوتا ہے اور جس پر قرض دینے کا حق ہے۔ وہ اللہ سے ڈر کر معاملہ کے عین مطابق املا کروائے۔اگر مقروض بیمار ہے، ناسمجھ اور معذور و مجبور ہے تو دوسرے کاتب کی خدمات حاصل کرکے اسے املا کرایا جائے، جو عدل و انصاف سے لکھے۔ کاتب کو لکھنے سے پس و پیش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اس دستاویز پر دو لوگ گواہی کے لیے بلائے جائیں۔ اگر دو مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی لی جائے۔

یاد رہے کہ چھوٹے بڑے جزئیات بھی دستاویز کی دفعات میں شامل ہوں۔ تحریر صاف اور شک سے بالا تر ہو (اَ لَّا تَرْتَا بُوا)۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ کاتب کو اور شہادت دینے والوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ عرب کے اس معاشرے میں جہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، انھیں قرض کے لین دین کے معاملات کے ایک اہم مرحلے میں گواہی دینے کا موقع دے کر ان کے مقام و مرتبے کو اونچا اٹھایا گیا ہے۔

گویا قرض لینے والے معاشرے کے کم زور فرد کو املا کروانے کا حق دے کر اور خواتین کو قرض کی دستاویز میں گواہ کی حیثیت سے شامل ہونے کا حق دے کر، قرآن نے معاشرے کے کچلے اور دبے ہوئے حصے کو باعزّت مقام عطا کیا ہے۔

’آیتِ دین‘ کے علاوہ قرض کے بارے میں چند ارشادات رسولؐ بھی ملاحظہ فرمائیں:

  • جوشخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کر دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ اس طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے، جس سے وہ مال ہی برباد ہو جاتا ہے۔ (بخاری)
  • قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری)
  • اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، مگر قرض معاف نہیں کرتا۔(مسلم)

مال کے بارے میں صحیح اور متوازن تصور

قرآن مجید نے مال و دولت کو انسانی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے (النساء۴:۵)۔ مال کو خیر (العادیات) اور اللہ کا فضل (الجمعہ۶۲:۱۰) قرار دیا ہے۔ مال و دولت انسانی معاشرے کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے انسانی زندگی خون کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ کوئی بھی معاشرہ معاشی سرگرمی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس وجہ سے معاشرے کی ترقی کے لیے مال و دولت کے متعلق ایک صحیح اور متوازن فکر کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔(الجمعۃ۶۲:۱۰)

(حج کے دوران) تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (البقرۃ۲:۱۹۸)

پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہیں، تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔ (فاطر۳۵: ۱۳)

تجارت، زراعت، صناعت (ہنرمندی) اور ہر جائز وسیلے سے مال کمانے کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے، بلکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے اور دوسروں کا دست نگر بننے کے بجائے ہاتھ پاؤں مار کر محنت و مشقت کرکے روزی روٹی حاصل کرنے اور مال کمانے کی ترغیب دی ہے:

اچھا مال، اچھے انسان کے لیے اچھا ہے۔(صحیح البخاری، الادب المفرد)

اس کے برخلاف دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرکے عزلت نشین بننے کے بجائے دنیا میں رہ کر اور دنیا کے لوگوں سے مل کر ان کے ساتھ لین دین کرکے مال کمانے، پھر حاصل شدہ مال کو  اللہ کی راہ میں اور محتاج اور ضرورت مند انسانوں میں خرچ کرکے دنیا میں عزت و شرف اور آخرت میں بھی مقام بلند حاصل کرنے کی راہ بھی دکھائی ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے:’’ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے۔ ہمارے پاس ایک پھر تیلا نوجوان گزرا، جو غنیمت میں حصے کے طور پر ملے مویشی کو لیے جارہا تھا، تو ہم بول پڑے کہ ’اگر اس کی جوانی و سرگرمی اللہ کی راہ میں صرف ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا‘۔ ہماری یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐنے فرمایا: ’تم کیا کہہ رہے تھے؟‘ ہم نے بتایا کہ ’یہ اور یہ‘۔ آپ ؐنے فرمایا: ’’اگر وہ والدین یا ان میں سے کسی ایک کے لیے بھاگ دوڑ کرے، تو یہ بھی اللہ کی راہ میں شمار ہوگا، اور اگر وہ اہلِ دنیا کے کے لیے تگ و دو کر رہا ہو، تاکہ ان کی کفالت کر سکے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں گنا جائے گا، اور اگر اپنی ذات کے لیے کام کرے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہوگا‘‘۔(بیہقی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن میں وارد ہے: وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَأَغْنٰی ۝  (الضحٰی ۹۳:۸) ’’اور تمھیں نادار پایا اور پھر مال دار کردیا‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:’’مجھے ابو بکر کے مال کی طرح کسی کے مال نے فائدہ نہیں پہنچایا‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم خاص حضرت انسؓ کے لیے یہ دعا فرمائی: ’’اے اللہ ان کو مال فراواں دے‘‘۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ مال کمانے میں جائز وناجائزکی تمیز نہیں کی جا رہی ہے۔ جھوٹ، دھوکا، رشوت، ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی کا عام چلن ہے اور کسبِ معاش میں حرام و حلال کے حدود و قیود کا پاس و لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ ارشاد ربانی ہے: ’’اے رسول کے گھر والو! عمدہ اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو‘‘۔ (المؤمنون۲۳: ۵۱)

علما نے تشریح کی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل صالح سے پہلے رزق حلال اور طیب چیزوں کے کھانے کا ذکر کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اعمالِ صالحہ کی قبولیت کا دار و مدار رزقِ حلال پر ہے۔ اس لیے ہم میں سے ہر شخص پر لازم ہے کہ حلال رزق کے حصول کو دین کی اوّلین ذمہ داری سمجھے۔

مال کے حصول اور استعمال کے بارے میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’یہ مال ہرا بھرا اور دل آویز ہے۔ جو شخص اسے جائز طریقے سے حاصل کرے گا اس میں برکت ہوگی اور جو شخص اسے ناجائز طریقے سے حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہو گی، اور وہ اس شخص کے مانند ہوتا ہے جو کھاتا رہتا ہے اور سیر نہیں ہوتا‘‘۔

انسدادِ سود اور معاشی استحصال  کا خاتمہ

اللہ فرماتا ہے: اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سودی مطالبات باقی رہ گئے ہیں ان کو اگر تم درحقیقت مومن ہو چھوڑدو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اگر تم توبہ کرو اور سودی معاملات سے باز آجائو تو تمھارے راس المال تمھارے ہیں وہ تم کو ملیں گے۔ نہ تم زیادتی کرو نہ تمھارے ساتھ زیادتی کی جائے۔ (البقرۃ ۲:۲۷۸-۲۷۹)

سود کی مذمت اور اس سے اجتناب کی تلقین میں اسلام اس حد تک سخت ہے کہ اس معاملے میں جو کوئی کسی طرح شریک ہو، چاہے اس کی دستاویز لکھنے والا ہو یا اس پر گواہی دینے والا، ان سب پر وہ لعنت بھیجتا ہے۔ حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے اور اس کی دستاویز لکھنے والے، اس پر گواہی دینے والوں، سب پر لعنت بھیجی ہے اور فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔

اسلام محنت کی عظمت اور تقدس کو اہمیت دیتا ہے اور اسے ملکیت اور نفع کی اساس قرار دیتا ہے۔ وہ اس بات کو روا نہیں رکھتاکہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہنے والا فرد مال کا حق دار ٹھیرے یا دولت سے دولت پیدا کرے۔ دولت صرف محنت سے پیدا ہو سکتی ہے بصورت دیگر وہ مال حرام قرار پاتا ہے۔

حرمت سود میں ایک اور حکمت مضمر ہے جو آج ہم پر دور جدید میں منکشف ہو رہی ہے اور غالباً اس سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی، وہ یہ کہ سود ایک ایسا عامل ہے جو سرمایہ میں بے حد وحساب اضافہ کرتا جاتا ہے۔ یہ اضافہ نہ کسی سعی وجہد کا نتیجہ ہوتا ہے اور نہ کسی طرح کی محنت کا ثمرہ۔سود کی یہ صفت ایسی ہے جو ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہنے والوں کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ افزائش دولت کے سلسلہ میں تمام تر اسی ایک ذریعے پر انحصار کر بیٹھیں۔ یہ سب کچھ ان محنت کشوں کے بل پر جو دولت کے محتاج ہوتے ہیں اور تنگی کے عالم میں مجبور ہو کر سودی قرض لیتے ہیں۔ اس طرح دوخطرناک اجتماعی امراض سر اٹھاتے ہیں۔ سرمایہ میں بے حد وحساب اضافہ اور انسانیت کی بلند وپست دو طبقات کے مابین روز افزوں تفریق جو کسی بھی حد پر جا کر رکنے کا نام نہیں لیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سود کھانا اسلامی تصور زندگی کے اس بنیادی اصول سے ٹکراتا ہے کہ مال اللہ کا ہے جس میں اس نے انسانوں کو نائب بنایا ہے۔ ان شرطوں کے تحت کہ نائب بنانے والے اللہ کا منشا پورا کرے نہ کہ انسان جو چاہے کرے؟

بین الاقوامی مالی ادارے مثلًا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک آسان شرطوں پر امداد کے نام پر سودی قرضے فراہم کر کے ترقی پزیر اور کمزور ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور ان کے عالمی تعلقات کو اپنے مفاد میں کنٹرول کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی بیشتر آبادی قرضوں کے بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گزار رہی ہے۔ لاطینی امریکا میں پیدا ہونے والا ہر متنفس۱۶۰۰ ڈالر کے قرضے کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ افریقہ جنوبی صحارا کے ممالک میں پیدا ہونے والے ہربچے پر ۳۳۶ ڈالر کا قرضہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ حالانکہ سود کی شکل میں ان کے آبا واجداد ۵کھرب اور ۶۷ ارب ڈالر ادا کر چکے ہوتے ہیں۔اس طرح سود معاشی استحصال کا بڑا ذریعہ ہے۔ معاشی استحصال سے بچنے کے لیے انسدادِ سود ناگزیر ہے۔

نظم زکوٰۃ اور تقاضے

سورۂ توبہ کی آیت ۱۰۳ میں فرمایا گیا ہے:’’اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو‘‘۔ پھر آیت ۶۰ میں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ زکوٰۃ کے حاصل کرنے کے بعد ہدایت فرمائی کہ حاصل شدہ زکوٰۃ کے خرچ کرنے کی مدات کیا ہیں؟:’’صدقات (یعنی زکوٰۃ) اللہ کی طرف سے فرض ہے فقراء کے لیے، مساکین کے لیے، گردن چھڑانے کے لیے، قرض داروں کے لیے، راہِ خدا اور مسافروں کے لیے۔ اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے‘‘۔ (التوبہ ۹:۶۰)

در اصل زکوٰۃ صرف انفرادی طور پر صدقات اور خیرات کو تقسیم کرنے کا نام نہیں ہے اور نہ اس کی تقسیم کو امیروں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے، بلکہ یہ ایک سماجی اور فلاحی ادارہ ہے، جس کی نگرانی حکومتِ وقت کرے گی اور اس کا انتظام و انصرام عوامی ادارہ حکومت یا کسی اجتماعی نظم کے تحت ہوگا۔

مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ان کے مالوں میں سے صدقہ حاصل کرو اور انھیں پاک کرو اور ان کے تقویٰ اور پرہیزگاری کو بڑھاؤ‘‘۔ اس میں خذ (حاصل کرو) کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے بہ حیثیت سربراہ مملکت اور اس پر عمل خلیفہ نے بہ حیثیت خلیفۂ رسول کیا ہے۔ علما و فقہا نے تصریح کی ہے کہ ’خذ‘ کا اطلاق اوّلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا اور آپؐ کے بعد ہر شخص جو ملت کا ذمہ دار ہے یا وہ معتبر ادارہ جس پر ملت کا بھر پور اعتماد ہو۔

زکوٰۃ، اسلام کا تیسرا اہم ستون ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے مالوں، حکومت اور معاشرے کی ذمہ داریوں میں فقراء و مساکین کے حقوق کی ضمانت دی۔ آج ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو الحمد للہ، کلمۂ شہادت کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لیے محنت ہو رہی ہے، نماز کی اقامت اور اس کی ادائیگی کا اہتمام ہو رہا ہے، نہ صرف فرائض بلکہ نوافل میں چاشت، اوابین، صلوٰۃ التسبیح اور تہجد پر زور دیا جا رہا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنے، حتیٰ کہ شوال کے چھ روزے اور عاشورہ کا روزہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ مالی عبادات میں حج کا شوق کافی بڑھا ہے اور عمرہ کا بھی خوب اہتمام ہو رہا ہے، لیکن ایتائے زکوٰۃ جو پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے دراصل اُمت کے فقراء و مساکین کا حق ہے، اس کی طرف توجہ کی کمی ہے۔ حال یہ ہے کہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظم اور ان آٹھ مدات میں جہاں اس رقم کو خرچ ہونا ہے، اس سے امت کا ایک بڑا طبقہ ناواقف ہے۔

ہمیں اس کی بھی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اجتماعی نظمِ زکوٰۃ کس طرح کامیابی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے؟ ملایشیا میں غریبوں کو زکوٰۃ سے فائدہ اُٹھانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنھیں ’پیدا واری غریب‘ (Productive Poor) اور ’غیر پیداواری غریب‘ ( Non Productive Poor) کا نام دیا گیا ہے۔ ’غیر پیداواری غریب‘ سے مراد عمر رسیدہ، بوڑھے، اپاہج، دائم المریض وغیرہ ہوتے ہیں، جن کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور ان کی معاشی حالت خراب ہوتی ہے۔ ان کی مستقل اور مسلسل مدد کی جاتی ہے۔ ان پر زکوٰۃ کا ۲۰،۲۵ فی صد صرف ہوتا ہے، البتہ باقی۷۵، ۸۰ فی صد ’پیداواری غریبوں‘ پر خرچ کیا جاتا ہے۔

اس دوسرے گروپ میں ایسے مرد و خواتین ہوتے ہیں، جو سرمایے کی کمی کی وجہ سے اپنا کاروبار نہیں کرسکتے۔ بعض ایسے ہیں جن کو اگر ہنر سکھایا جائے اور اس کے لیے مدد کی جائے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کچھ ایسے طبقے بھی ہوتے ہیں جنھیں مشین یا آلہ و اوزار فراہم کیے جائیں تو وہ خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ ان کی مدد مسلسل اور مستقل نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان کی درخواستوں اور ضرورتوں کے پیش نظر بڑی رقم یکمشت یا قسط وار زکوٰۃ کی رقم سے دی جاتی ہے ۔ اس طرح سرمایہ کاری کے فروغ کے ذریعے انھیں بہت جلد خودکفیل بنا کر ’مستحق‘ (زکوٰۃ لینے والے) کو ’مزکی‘ (زکوٰۃ دینے والا) بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔

جنوبی افریقا کے اجتماعی نظم زکوٰۃ کی تنظیم SANZAF کو دو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور با صلاحیت خواتین فیروزہ محمد اور یاسمین فرانیک چلاتی ہیں اور اس ادارے میں ۵۲ فی صد کارکنان خواتین ہیں اور اس کی خدمات اور نظامِ کار کو دنیا کے مشہور کیمبرج انسٹی ٹیوٹ نے کھلے لفظوں میں سراہا ہے، جو ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔

زکوٰۃ کے علاوہ زراعت کے ذریعے سے جو آمدنی ہو سکتی ہے، اس کے بارے میں عشر اور اس کو جمع کرکے اسے بھی صحیح طریقے سے مختلف مدات پر خرچ کرنے کی طرف مسلم عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سورۂ قریش اور تجارت

عرب قوم ایک تجارت پیشہ قوم کی حیثیت سے مشہور تھی، سورئہ قریش میں اس کی تفصیلات آتی ہیں۔ قریش مکہ سال میں دو تجارتی سفر کرتے تھے، یعنی موسم سرما میں یمن کا سفر اور گرما میں شام کا تجارتی سفر۔ قرآن نے سورۂ قریش میں اس کا ذکر کیا ہے۔ انھی اسفار کی وجہ سے بنوہاشم اور خاندان قریش کو معاشی خوش حالی نصیب ہوئی اور ان کی دینی سیادت کو بھی تقویت ملی۔

’’اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام‘‘۔(البقرۃ۲:۲۷۵)

تجارت کے بارے میں سورۂ قریش میں اس دور کی تجارتی سفر کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ مدینہ آنے کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے معاشی استحصال اور احتکار کا مقابلہ کرنے کے لیے ’سوق المدینۃ‘ قائم کیا، جو سیرتِ رسولؐ کا ایک تاب ناک باب ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: الجالب الٰی سوقنا کا لمجاھد فی سبیل اللہ (مصنف ابن ابی شیبۃ، بلاذری) ’’جو ہمارے اس بازار میں مال لے کر آئے گا وہ اسی طرح کے اجر کا مستحق ہو گا جس طرح اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ وہ مدینہ مارکیٹ کا جائزہ لینے کے لیے خود تشریف لے جاتے تھے۔ ایک بار آپؐ ایک تاجر کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا۔ آپؐنے غلہ کے اندر ہاتھ ڈالا۔ اندر کا حصہ گیلا تھا۔ آپؐ نے پوچھا: ’یہ کیا ہے؟‘ اس نے کہا: حضور، بارش کی وجہ سے بھیگ گیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ’پھر اسے اُوپر کیوں نہ رکھا؟ ‘اور ارشاد فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا (مسلم)’’جو دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔

مدینہ مارکیٹ میں جہاں مردوں کا نام آتا ہے، وہاں خواتین کا بھی ذکر ہے۔ مثلاً اسماء بن محربہؓ، خولہ بنت صویبؓ، ملیکہ ام سائب اور قبلہ النماریہ۔(ابن ماجہ، کتاب التجارۃ)

آج مدینہ ایک گلوبل ولیج بن چکا ہے اور تجارت و صنعت و حرفت نئے طرز اور جدید صورتوں میں نمایاں طور پر اُبھر رہا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان سرمایہ کار سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ کی طرف متوجہ ہوں۔ آج دنیا کی ترقی کا مدار قدرتی وسائل کی کثرت پر ہی نہیں بلکہ انسان کی فکرکاروباری و فنی ندرت (Business and Technical skils)، ہنرمندی (Skill Devolopment) اور کاروباری ندرت (Entrepreneurship)  پر منحصر ہے۔ اس ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ مارکیٹ کے قیام سے معاشرے کی خوشحالی کے لیے تجارت کے لیے اہم اقدام اُس دور میں کیے گئے اور آج ہم کیا کر سکتے ہیں، اس کی طرف ملتِ اسلامیہ کو متوجہ کرایا جانا چاہیے۔

آپؐ کے فرمان: تِسْعَۃُ اَعْشَارِ الرِّزْقِ فِی التِّجَارَۃ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ الالبانی، ص۲۴۳۴) ’’رزق کے دس حصوں میں سے نوتجارت میں ہیں‘‘ اور مَنْ صَنَعَ مِنْکُمْ شَیْئًا فَلْیُحْسِنُہُ  (تم جو چیز بھی تیار کرو، وہ بہترین ہو اور دوسری اشیاء سے ممتاز ہو) سے امت مسلمہ نے دنیا بھر میں تجارت کو فروغ دیا۔ عشرۂ مبشرہ میں سے چار اصحاب: حضرت عثمانؓ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ جہاں ایک طرف میدانِ جنگ کے مجاہد تھے تو دوسری طرف کاروباری دنیا کے نامور ستارے تھے۔ وہ آج کے ارب پتیوں سے زیادہ صاحبِ ثروت تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ  صحابہ کرامؓ تجارت میں حصہ ہی نہیں لیتے تھے، بلکہ انھوں نے تجارت کو نئے انداز میں اور بڑے پیمانے پر منظم کرکے بین الاقوامی سطح پر فروغ دیا۔ ان کی کارپوریٹ تجارت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مسلمان تاجر دنیا بھر میں پھیل گئے۔ وہاں انھوں نے اسلام کی تبلیغ بھی کی اور رزق حلال کے طریقے دنیا کو سکھائے اور معاشی ترقی میں بھی بھر پور حصہ لیا۔

اسلامی بنکاری اور بلاسود سرمایہ کاری

آج کی دنیا میں سنجیدگی کے ساتھ اسلامک بنکنگ اور بلا سودی سرمایہ کاری پر غور کیا جارہا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں امریکا میں حاشیہ پر زندگی گزارنے والے غریب عوام کے مکانوں کے لیے قرض اور پھر ان کی رہن سہن کی ادائیگی میں ناکامی کے پیچیدہ عمل نے بڑے بڑے مالی اداروں اور جدید بنکوں کو دیوالیہ کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ اس بحران نے ایک طرف جدید معاشی و مالیاتی نظام کے منفی اثرات اور مضر نتائج کو دنیا کے سامنے اُبھارکر پیش کیا اور دوسری طرف اس نے اسلام کے نظام معیشت  و مالیات کی طرف پوری دنیا کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کیا ہے۔

جدید سرمایہ کاری جو سود اور سٹہ بازی پر مشتمل آزادانہ معیشت کی بنیادوں پر قائم ہے۔ اس کے پیش نظر پیداوار کی ان اقسام کو بڑھانا ہوتا ہے جس سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے۔  اس کے مقابلے میں اسلامی معیشت و بنکنگ کا بلا سودی نظام نفع کو بھی پیش نظر رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ حقیقی پیداوار (Real Economy Growth) کو اہمیت دیتا ہے اور انسانی اور اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ رکھتا ہے جس کے نتیجے میں مالیاتی کساد بازاری (Financial Meltdown)  اور بحرانی کیفیت سے بڑی حد تک نہ صرف غیر متاثر رہا، بلکہ اس کی شرحِ نمو پندرہ فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ترقی یافتہ، صنعتی اور سیکولر ممالک نے بھی اپنے سرمایہ اور بنکاری قوانین میں تبدیلی یا ترمیم کرکے اس کا عملی تجربہ شروع کر دیا ہے اور الحمد للہ بلاسودی اسلامی معیشت و مالیات پوری دنیا میں ایک متبادل کی حیثیت سے اُبھر رہا ہے۔لندن،پیرس، نیویارک، ہانگ کانگ اور سوئٹزر لینڈ اسلامی مالیات و بنکاری کے مراکز بن رہے ہیں۔

تقسیم دولت اور تصریف دولت

اسلامی نظام معیشت کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مادی (Equal) تقسیم کے بجائے منصفانہ (Equitable) تقسیم چاہتا ہے اور معاشرے کے محروم طبقہ کا خاص خیال رکھتا ہے۔ اہلِ ایمان کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ان کے مالوں میں حق ہے مانگنے والوں اور معاشی زندگی سے پیچھے رہ جانے والوں کا۔( الذاریات۵۱: ۱۹)

جن کے مال میں حصہ مقرر ہے سائل اور محروم کا۔( المعارج ۷۰: ۲۴-۲۵)

جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچ کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہوتا ہے۔(الفرقان۲۵:۶۷)

اس سلسلے میں مسلم سوسائٹی میں شادیوں میں جس طرح اسراف اور فضول خرچی ہوتی ہے اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے اسے سادہ اور سنت کے مطابق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں ہم نے اپنے آپ پر دوسرے معاشروں کی پیروی میں بندشیں باندھ لی ہیں اور بوجھ لاد لیا ہے، جو قابلِ مذمت بھی ہے اور اس کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔

اس دنیا میں تمام ممالک کے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی تحفظ و ترقی کے اجزا مشترک ہیں، جن کے ذریعے غربت کا مکمل خاتمہ، صحت مند انسانی زندگی، غربت و افلاس سے آزادی، صاف پانی کی فراہمی اور توانائی کی دستیابی ہو سکے گی۔

دنیا کے مسلم ممالک، انڈونیشیا، ملایشیا، ترکی اور سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم UNDP کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی ہے کہ وہ کس طرح زکوٰۃ اور اسلامی بنکاری کے ذریعے اس تاریخی SDG کے اہداف کی تکمیل کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔

لمحۂ فکریہ

معروف اسلامی اسکالر اور بین الاقوامی انعام یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی یہ بات خصوصی توجہ کی طالب ہے جو دولت کی پیدایش (Creation of Wealth) کے بارے میں کہی ہے:’’تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسی تحریک نہیں چلی جس نے عام مسلمانوں کو للکارا ہو کہ محنت کرو، دولت پیدا کرو، کماؤ اور اپنی کمائی کا ایک حصہ بچا کر نفع آور اور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی آمدنی اور دولت میں اضافے کی کوشش کرو۔

ایسی تحریک نہیں ملتی جس نے افراد کے مجموعوں یا پوری ملت کو معاشی قوت کی اہمیت جیسا کہ معاشی طور پر طاقت ور بننے کی خاطر بیش از بیش وسائل حاصل کرنے کی دعوت دی ہو۔ عرصۂ دراز سے مسلمانوں کے دینی ادب میں معاشی جد وجہد اور معاشی قوت کے حصول کا چرچا کم ہی ملتا ہے۔ شاید اس کا اثر ہے کہ بیسوی صدی میں جب مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور اشتراکی نظام کو رَد کرتے ہوئے ان کے بالمقابل اسلامی دانش وروں اور اسلامی تحریکوں نے اسلام کا عادلانہ معاشی نظام کو پیش کرنا شروع کیا تو اس کی تشریح و تعبیر میں زیادہ زور تقسیمِ دولت پر رہا ہے‘‘۔(معاش، اسلام اور مسلمان:ص ۳۶)

وقت آگیا ہے کہ منصفانہ تقسیم دولت کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے سرمایہ کاری اور پیدایش دولت کے لیے ایک طاقت ور ملک گیر تحریک چلائی جائے تاکہ امت مسلمہ معاشی طور پر مضبوط ہو اور دُنیا کو کچھ دینے والی بن سکے۔

’رَطْب‘ کے معنی ہیں:’تر‘ ،اور ’یَابِسْ‘ کے معنی ہیں: ’خشک‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں،انھیں اُس کے سوا (ازخود)کوئی نہیں جانتا اور وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندروں میں ہے اوروہ ہر اُس پتّے کو جانتا ہے جو(درخت سے) گرتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ اور ہر خشک وتر چیز لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے ، (الانعام۶:۵۹)‘‘۔

قرآنِ کریم میں ’رطب ویابس ‘ ہر قسم کی معلومات کے احاطے کے لیے آیا ہے ، لیکن ہمارے اُردو محاورے میں سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے اور صحیح اور غلط کے مجموعے کو ’رطب ویابس‘ کہتے ہیں ۔ جب کسی کتاب میں ثقہ اور غیر ثقہ دونوں طرح کی باتیں جمع ہوں تو کہاجاتا ہے: یہ ’رطب ویابس‘ کا مجموعہ ہے۔ ہمارے ہاں بظاہر میڈیا کی یلغار ہے۔ بے شمار ٹیلی ویژن چینل ہیں، اس کے علاوہ یوٹیوب پرڈیجیٹل چینلوں کی بھرمار ہے ،نیزواٹس ایپ ، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹویٹر کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ خبروں اورتجزیات کی بہتات ہے جن میں سے بعض حقائق پر مبنی ہوتے ہیں،لیکن زیادہ تر تخمینوں، قیاسات ،ظنّیات ، مفروضات اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایک ہی چیز سے ہر ایک اپنا مَن پسند نتیجہ نکالتا ہے۔سو، خبر ذریعۂ علم ہے ، لیکن اس سے بے خبری ،ذہنی انتشار اور فکری کجی عام ہورہی ہے۔ سراج اورنگ آبادی نے کہا ہے:

خبرِ تَحَیُّرِ عشق سن ،نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو، تُو رہا ،نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

قرآنِ کریم نے خبر کی بابت یہ اصول بیان فرمایا:’’اے ایمان والو! تمھارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی خبر لائے تو اچھی طرح چھان بین کرلیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچادو پھر تمھیں اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے،(الحجرات۴۹:۶)‘‘۔

 احادیثِ مبارکہ کے لیے بھی ردّوقبول کے معیارات مقرر کیے گئے ہیں اور اُس کے لیے علم کا ایک پورا شعبہ’’جرح وتعدیل‘ وجود میں آیا۔ حدیث کے راویوں کے احوال کو منضبط کرنے کے لیے ’اَسْمَآءُ الرِّجَال ‘کی کتب موجود ہیں، سند اور راویوں کے اعتبار سے احادیثِ مبارکہ کی درجہ بندی کی گئی ہے ۔ رسول اکرمؐ نے اپنی ذاتِ مبارکہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے پر بڑی وعید فرمائی ہے: ’’جو مجھ پر دانستہ جھوٹ بولے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، (بخاری:۱۰۷)‘‘، نیز حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: میرے حوالے سے کوئی بات بیان کرنے میں احتیاط کیا کرو، صرف وہی بات میری طرف منسوب کیا کرو، جس کا تمھیں یقینی علم ہو۔ جس نے مجھ پر دانستہ جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے اور جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی ،وہ (بھی )اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، (ترمذی: ۲۹۵۱)‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ علمائے حدیث نے بڑی عرق ریزی اورباریک بینی سے احادیث کی چھان بین کی ، حدیث کے راویوں کے احوال قلم بند کیے ،لوگوں کی وضع کردہ احادیث کو چھان بین کر کے الگ کیا، کھرے کو کھوٹے سے ممتاز کیا، اور موضوع احادیث پر کتابیں لکھیں۔ علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں:’’شعبی بیان کرتے ہیں :میں ایک مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، میرے پاس ایک لمبی ڈاڑھی والا شخص بیٹھا وعظ کر رہا تھا ، اس کے گرد لوگوں کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ اس نے بیان کیا: ’’ فلاں نے فلاں سے اور فلاں نے فلاں سے اور اس نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کی : اللہ تعالیٰ نے دو صور بنائے ہیں اور ہر صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا، ایک بار پھونکنے سے لوگ بے ہوش ہوں گے اور دوسری بار قیامت کے لیے پھونکا جائے گا‘‘۔ شعبی کہتے ہیں:مجھ سے برداشت نہ ہوا، میں نمازجلدی ختم کر کے اس کی طرف مڑا اور کہا: شیخ!اللہ سے ڈرو اور غلط بیانی نہ کرو، اللہ تعالیٰ نے صرف ایک صور پیدا کیا ہے ، اسی کو دوبار پھونکا جائے گا۔ اُس شیخ نے کہا:اے فاجر! مجھ سے فلاں، فلاں نے یہ حدیث بیان کی ہے اور تُو مجھ پر ردّ کرتا ہے، پھر اس نے اپنی جوتی اُٹھا کر مجھے پیٹنا شروع کر دیا اور اس کی پیروی میں اس کے تمام مریدوں نے بھی مجھے اپنے جوتوں سے مارنا شروع کر دیا ۔ بخدا!ان لوگوں نے مجھ کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ انھوں نے مجھ سے یہ نہیں کہلوالیا کہ اللہ تعالیٰ نے دو صور پیدا کیے ہیں،(موضوعاتِ کبیر،ص۱۲)

حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن المعروف بابن عساکرمتوفّٰی۵۷۱ھ بیان کرتے ہیں: ’’ہارون الرشید کے پاس ایک زندیق کو لایا گیا، خلیفہ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اس زندیق نے کہا: مجھ کو توتم قتل کر دو گے، لیکن چار ہزار حدیثوں کا کیا کرو گے جن کومیں نے وضع کر کے لوگوں میں پھیلا دیا ہے، ان میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمایا ہوا ایک حرف بھی نہیں ہے۔ہارون الرشید نے کہا:اے زندیق!تُو عبداللہ بن مبارک اور  ابن اسحاق الفزاری کو کیا سمجھتا ہے، ان کی تنقید کی چھلنی سے تیری وضع کی ہوئی حدیثوں کا ایک ایک حرف نکل جائے گا،(تاریخ دمشق ج۷، ص۱۲۷)‘‘۔

آج کل سوشل میڈیا پر ایسی خرافات کی یلغار ہے اور لوگ صحیح اور غلط کی تمیز کیے بغیرہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلادیتے ہیں۔ حالانکہ ہر اُس فرد کو جو مسلمان ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے، نبی اکرمؐ کا یہ فرمان ہرگز نہیں بھولنا چاہیے:’’کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ثبوت ہی کافی ہے کہ وہ (تحقیق کیے بغیر) ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا پھرے، (سنن ابوداؤد:۴۹۹۲)‘‘۔

علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں:’’امام احمد اور یحییٰ بن معین نے مسجد رُصافہ میں نماز پڑھی۔ ان کے سامنے ایک قصہ گو کھڑا ہوا، اور اس نے حدیث بیان کی:’’ احمد بن حنبل و یحییٰ بن معین نے عبدالرزاق سے،انھوں نے معمر سے ،انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے لا الٰہ الااللہ کہا، اللہ تعالیٰ اس کے ہر کلمہ سے ایک پرندہ پیدا کرتا ہے جس کی چونچ سونے کی ہوتی ہے اور پَر مرجان کے‘‘۔ امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ان دونوں نے اس حدیث سے لاعلمی کا اظہار کیا اورقصہ گوواعظ سے پوچھا:تم نے یہ حدیث کس سے روایت کی ہے؟ اس نے کہا:احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین سے۔یحییٰ بن معین نے کہا:میں یحییٰ بن معین ہوں اور یہ احمد بن حنبل ہیں، ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہرگز روایت نہیں کی، تم کیوں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہو۔ اس نے کہا:میں ایک عرصہ سے سن رہا تھا کہ یحییٰ بن معین احمق آدمی ہے، آج مجھے اس کی تصدیق ہو گئی۔ یحییٰ نے پوچھا:کیسے؟ اس نے کہا:تم یہ سمجھتے ہو کہ دنیا میں صرف تمھی یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل ہو، اور ان کا مذاق اُڑا کر چل دیا،(موضوعات کبیر،ص۱۲)‘‘۔

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:’’حدیث کے موضوع ہونے پر ایک قرینہ یہ ہے : کسی معمولی سی بات پر بہت سخت عذاب کی وعید ہو یا کسی معمولی سے کام پر بہت عظیم ثواب کی بشارت ہو اور یہ چیز بازاری لوگوں اور قصے اور واقعات بیان کرنے والوں کے ہاں بکثرت موجود ہے، (اَلنُّکَتْ عَلٰی کِتَابِ ابْنِ الصَّلَاح،ج۲،ص۸۴۳-۸۴۴)‘‘۔

اسی طرح ہمارے ہاں رمضان المبارک اور ربیع الاول کی آمد سے قبل ایک من گھڑت حدیث سوشل میڈیا پرپھیلائی جاتی ہے:’’ جس نے سب سے پہلے رمضان المبارک کی یا ربیع الاول کی آمد کی اطلاع دی، اس کو جہنم سے آزاد کر دیا جاتا ہے‘‘۔اس طرح کی حدیث کسی بھی صحیح بلکہ ضعیف اور موضوع احادیث پر لکھی گئی کتب میں بھی نہیں ملتی، اس لیے اس کی نسبت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے،پس اس طرح کے پیغامات دوسروں کونہیں بھیجنے چاہییں۔

حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا:کیا مسلمان بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:ہاں! پھر سوال ہوا:کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: ہاں! پھر سوال ہوا: کیا مسلمان جھوٹاہوسکتا ہے، آپؐ  نے فرمایا:نہیں، (موطا امام مالک: ۳۶۳۰)‘‘۔ لیکن ہمارے ہاں سچ جھوٹ میں تمیز ختم ہوگئی ہے۔ ہر ایک کو وہی سچ قبول ہے، جو اُس کے فائدے میں ہو۔

ایک شخص نے سوال کیا: کیا یہ روایت صحیح ہے:’’ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان نہیں دی تھی ، تو سورج ہی نہیں نکلا‘‘۔ اسی طرح یہ روایت بھی بعض قصہ گو واعظ سناتے ہیں: ’’حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان میں لکنت تھی اور وہ ’ش‘ کا تلفظ ’س‘ سے کرتے تھے، چنانچہ بعض لوگوں کی شکایت پر نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلال کو اذان سے منع کردیا تو اُس دن صبحِ صادق طلوع نہ ہوئی، صحابۂ کرام پریشان ہوگئے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک بلال کا’س‘ بھی ’ش‘ ہے،جب تک بلال اذان نہ دیں، صبح نہیں ہوسکتی‘‘، یہ روایت بھی موضوع اور من گھڑت ہے ،اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اس کی بابت حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی شارحِ بخاری لکھتے ہیں:’’تمام محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے :یہ روایت موضوع ،من گھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے، (فتاویٰ شارحِ بخاری،ج ۲،ص۳۸)‘‘، مزید لکھتے ہیں: ’’مقررین نے اُن کی زبان میں تتلا پن بتایا ہے، وہ بھی غلط ہے۔ اُن کی آواز انتہائی شیریں ، بلند اور دلکش تھی، (فتاویٰ شارحِ بخاری ،ج۲،ص۴۱)‘‘۔شیخ مرع بن یوسف کرمی مقدّسی (الفوائد الموضوعہ، ص ۳۸)،امام بدرالدین زرکشی (التذکرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ، ج۱، ص۲۰۸)، امام جلال الدین سیوطی (اَلدُّرَرُ الْمُنْتَثِرَۃ فِی الْاحَادِیث المشتھَرۃ)اوردیگر محدثین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔

عربی زبان کے علم المعانی میں خبر کی تعریف یہ لکھی ہے: ’’خبر وہ ہے جو صدق وکذب (دونوں) کا احتمال رکھتی ہے‘‘،یعنی جب تک خبر کا سچا ہونا ثابت نہ ہوجائے ، اُسے کسی بات کے ثبوت یا ردّ میں دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ’صدق‘ سے مراد یہ ہے : ’’جو کہا گیا ہے ،وہ نفس الامر اور واقع کے مطابق ہو‘‘اور ’کذب‘ سے مراد یہ ہے:’’جو کہا گیا ہے، وہ نفس الامر اور واقع کے خلاف ہو‘‘۔

 بعض خطبا ء اورمقررین اپنے خطبات میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:الْفَقْرُ فَخْرِیْ ( فقر میرا فخر ہے)‘‘۔ نہ صرف واعظین بلکہ بہت سی نامور شخصیات اپنی کتب ورسائل میں بکثرت اسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث کے طور پر ذکر کرتے ہیں اور نعت گو شعراء اپنے کلام میں اس مضمون کو منظوم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال نے کہا:

سماں الْفَقْرُ فَخْرِیْ  کا رہا شانِ امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوے زیبا را

حفیظ جالندھری نے کہا:

اگرچہ فَقْرُ فَخْری رتبہ ہے، تیری قناعت کا
مگر قدموں تلے ہے، فرِکِسرائی وخاقانی

بہادرشاہ ظفر نے کہا:

جس کو حضرت نے کہا: الْفَقْرُ فَخْرِی  اے ظفر!
فخرِدیں، فخرِ جہاں پر، وہ فقیری ختم ہے

محدثین کے نزدیک ایسی کوئی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور یہ جعلی اور من گھڑت ہے۔امیر المومنین فی الحدیث امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:’’اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ سے پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا:یہ جھوٹ ہے، مسلمانوں کے ذخیرۂ روایات میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور امام صغانی نے بھی اس کے موضوع ہونے کی تصدیق فرمائی ہے، (اَلتَّلْخِیْصُ الْحَبِیْر،ج۳،ص۲۴۱)۔ علامہ سخاوی نے اَلْمَقَاصِدُ الْحَسَنَہ (ص۴۸۰)، علامہ عجلونی نے کَشْفُ الْخِفَاء (ج۲،ص۸۷)،علامہ محمد طاہر پٹنی نے تَذْکِرَۃُ الْمَوْضُوْعَاتْ (ص۱۷۸)میں اس روایت کو باطل و من گھڑت قرار دیا ہے ۔

اس کے برعکس صحیح احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’فقروفاقے‘ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگاکرتے تھے اورآپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی یہی تعلیم ارشاد فرمائی کہ وہ فقروفاقے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں،چنانچہ آپؐ  یہ دعامانگا کرتے تھے:’’اے اﷲ! میں فقر کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں،(صحیح البخاری:۶۳۷۶)۔ ایک روایت میں ہے: آپ نے دعافرمائی: ’’(اے اﷲ!)میں کفر و فقر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، (سنن ابوداؤد: ۵۰۹۰)‘‘۔

البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااللہ تعالیٰ سے مَسکنت کی دعا مانگناثابت ہے۔حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اﷲ!مجھے مسکین ہی زندہ رکھ، مَسکنت میں موت عطافرما اور مساکین کے ساتھ میرا حشر فرما،(سنن ترمذی: ۲۳۵۲)‘‘۔ لیکن محدثین فرماتے ہیں:یہاں مَسکنت سے غربت اورفقر وفاقہ مراد نہیں، بلکہ تواضع وانکسار اور اپنے رب کے حضور عجز واحتیاج کا احساس اوراس کی حفاظت، رحمت اور نگرانی کا طالب ہوناہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک اس حدیث میں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس مَسکنت کو طلب نہیں کیا، جس کا معنی قِلّت لیا جاتا ہے، بلکہ آپ نے اس مَسکنت کا سوال کیا ہے، جس کے معنی انکسار اور عاجزی کے ہیں،(سنن بیہقی،ج۷،ص۱۸)‘‘۔

ائمہ دین وفقہائے اسلام نے انبیائے کرام کے متعلق فقیر ،غریب،یتیم،مسکین اور بے چارہ وغیرہ ایسے کلمات کے استعمال کو سختی سے ناجائز وحرام قرار دیا ہے ،جن میں بے توقیری ،بے ادبی اور اہانت کا پہلو پایا جاتا ہے۔چنانچہ امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا:’’ایک خطیب نے وعظ کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا:آپ یتیم، غریب،بے چارے تھے‘‘،امامِ اہلسنت نے اس کے جواب میں متعددکتب کے حوالہ جات کے ساتھ لکھا:یہ جائز نہیں کہ ہمارے آقا نبی کریمؐ  کو فقیر کہا جائے،رہا لوگوں کا الْفَقْرُ فَخْرِیْ کو آپ سے مروی کہنا تو اس کی کوئی اصل نہیں۔ امام بدر الدین زرکشی نے امام سبکی کی طرح یہ کہا ہے کہ یہ جائز نہیں کہ آپؐ کو فقیر یا مسکین کہا جائے اور آپؐ اللہ کے فضل سے لوگوں میں سب سے بڑھ کر غنی ہیں، خصوصاً اﷲتعالیٰ کے ارشاد: ’’ہم نے آپؐ کو حاجت مند پایا سو غنی کر دیا‘‘ کے نزول کے بعد، رہا! آپ کا یہ فرمان:’’ اے اﷲ!مجھے مسکین زندہ رکھ‘‘، تو اس سے مراد باطنی مَسکنت کو خشوع کے ساتھ طلب کرنا ہے اور الْفَقْرُ فَخْرِیْ  باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں، جیسا کہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا ہے،(فتاویٰ رضویہ، ج۱۴،ص۶۲۸)‘‘۔

اِسی طرح واقعۂ معراج کی بابت بہت سے لوگوں نے مختلف حدیثیں گھڑ رکھی ہیں، چنانچہ بہت سے مقررین بڑے ترنگ اورجوش کے ساتھ یہ روایت بیان کرتے ہیں:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شبِ معراج عرشِ الٰہی کی طرف عروج فرمانے کاارادہ فرمایا تو دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو’ وادیِ طُویٰ ‘میں نعلین اُتار نے کا حکم دیا تھا ،سو اس فرمانِ الٰہی کے پیشِ نظر آپؐ نے بھی اپنے نعلین اُتارنے چاہے،آواز آئی:اے محمد! اپنے نعلین نہ اُتارو،نعلین سمیت ہی آئو تاکہ آپؐ کے نعلین کی برکت سے عرش اعظم کو فضیلت حاصل ہوجائے‘‘۔ اس روایت کو بھی محدثین نے سراسرمن گھڑت اور بے اصل قرار دیا ہے۔

علامہ عبدالحیی لکھنوی اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں:’’اس قصے کا تذکرہ اکثر نعت گو شعراء نے کیا ہے اور اسے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے اور ہمارے زمانے کے اکثر واعظین اسے طوالت و اختصار کے ساتھ اپنی مجالسِ وعظ میں بیان کرتے ہیں،جب کہ شیخ احمد الْمُقْرِی نے اپنی کتاب فَتْحُ الْمُتَعَال فِیْ مَدْحِ النِّعَال  میں اور علامہ رضی الدین قزوینی اور محمد بن عبدالباقی زرقانی نے شَرْحُ مَوَاہِبِ اللَّدُنْیَہ  میں نہایت صراحت سے وضاحت کی ہے کہ یہ قصہ مکمل طور پر موضوع ہے،اللہ تعالیٰ اس کے گھڑنے والے کو برباد کرے۔معراج شریف کی کثیر روایات میں سے کسی ایک سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت پاپوش پہنے ہوئے تھے۔

علامہ شریف الحق امجدی لکھتے ہیں:’’اس روایت کے جھوٹ اور موضوع ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں ہے ،جو صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ نعلین پاک پہنے عرش پر گئے،ان سے پوچھیے کہ کہاں لکھا ہے ،(فتاویٰ شارحِ بخاری، ج۱،ص۳۰۷)‘‘۔

حضرت اویس قرنی کے بارے میں واعظین بیان کرتے ہیں:’’ جب انھوں نے غزوۂ اُحد میں حضورکے دودندانِ مبارَک کے ٹوٹنے کا سنا تو فرطِ عشق میں اپنے سارے دانت توڑ دئیے کہ نہ جانے آپؐ کے کون سے دندانِ مبارک شہید ہوئے ہیں۔ ایک جگہ تو یہ بھی پڑھنے کو ملا :’’ ان کے ٹوٹے ہوئے دانت پھر صحیح سالم نکل آئے ، انھوں نے پھر توڑے اور ایسا سات بار ہوا،پھر چونکہ وہ ٹھوس غذانھیں چبا سکتے تھے، اس لیے اُن کی خاطر قدرت نے کیلے کا پودا پیدا فرمایا‘‘۔ خوف ِخدا سے عاری نعت خواں ایسے اشعار پڑھ کر نذرانے سمیٹتے ہیں۔یہ روایت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ یہ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ معیار ہے، جو شریعت کو مطلوب ہے۔ اگر محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا معیار یہی ہوتا تو صحابۂ کرامؓ جو محبتِ رسولؐ میں اپنی جانیں نچھاور کررہے تھے، ضرور مشابہتِ رسول کی خاطر اپنے دانتوں کو توڑ دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پس وہی قرینۂ عشقِ رسول پسندیدہ اور معتبرہے، جوشریعت کے اصولوں کے مطابق ہو،جب کہ شریعت کی رُو سے اپنی جان یا کسی عضو کو تلف کرنا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح یہ مثال کہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ جبریلِ امینؑ سے پوچھا:تمھاری عمر کتنی ہے؟اُنھوں نے عرض کی:یارسول اللہ!مجھے اپنی عمر کا صحیح اندازہ تو نہیں ہے، البتہ مجھے اتنا یاد ہے کہ اس کائنات کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حجاباتِ عظمت میں سے چوتھے پردے میں ایک ستارہ چمکا کرتا تھا، وہ ستارہ ستّرہزار سال کے بعد ایک مرتبہ چمکتا تھا اور میں نے اُسے بہتّر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جبریلؑ!مجھے اپنے ربِ جلّ جلالہ کی عظمت کی قسم !وہ ستارہ جو ستّر ہزار سال کے بعد ایک مرتبہ طلوع ہوتا تھااور جسے تم بہتّرہزارمرتبہ دیکھ چکے ہو،وہ (طلوع ہونے والا)ستارہ میں ہی ہوں‘‘۔

ہمارے ہاں وعظ وخطابات کی کچھ معروف کتابوں میں یہ حدیث درج ہے اور بہت سے واعظین اورخطبا حضرات گھن گرج کے ساتھ اس حدیث کو محافل میں بیان کرتے ہیں۔حالانکہ اس روایت کے متن وسند کاکتبِ احادیث میں سے کسی کتاب میں کوئی نام ونشان ہے اور نہ ضعیف اور موضوع روایات کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں اس کاکہیںذکرملتا ہے۔اس روایت کا ذکر گیارھویں صدی ہجری کے سیرت نگار علامہ نور الدین علی بن ابراہیم حلبی کی کتاب اَنْسَانُ الْعُیُوْن فِیْ سِیْرَۃِ الْاَمِیْنِ الْمَامُوْن میں ملتا ہے۔ علامہ حلبی نے اس روایت کو التَّشْرِیْفَات فِی الْخَصَائِصِ وَالْمعجزات نامی کتاب کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور اِس کتاب کے مصنف کے متعلق وہ فرماتے ہیں:مجھے اِس کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہوسکا ہے، (ج۱،ص۴۷)‘‘۔ یعنی اس کتاب کے مصنف مجہول اور نامعلوم شخص ہیں ،نیز اصل مآخِذ میں بھی یہ حدیث کہیں نہیں پائی جاتی ، نہ جانے اُنھوں نے کہاں سے اس کو حدیث تصور کرلیا ہے ، لہٰذا اس کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

اِسی طرح کئی واعظین خلفاء ِ راشدین کی طرف یہ روایات منسوب کرتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:’’جس نے میلاد پڑھنے میں ایک درہم خرچ کیا، وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا‘‘،حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:’’جس نے محفلِ میلاد کی تعظیم کی، اُس نے اسلام کو زندہ کیا‘‘، حضرت عثمانؓ نے فرمایا:’’جس نے میلاد پڑھنے میں ایک درہم خرچ کیا ،گویا وہ غزوۂ بدر وحنین میں شریک ہوا ‘‘،حضرت علیؓ نے فرمایا:’’جس شخص نے میلادالنبیؐ کی تعظیم کی اور میلاد شریف پڑھنے کا سبب بنا ،تو ایسا شخص دنیا سے باایمان جائے گا اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا‘‘۔

یہ روایات دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم علامہ ابن حجرہیتمی کی طرف منسوب کتاب اَلنِّعْمَۃُ الْکُبْریٰ عَلَی الْعَالَمِ فِیْ مَوْلِدِ سَیِّدِ وُلدِآدَم میں پائی جاتی ہیں۔اس کتاب کے علاوہ   کتبِ احادیث وآثاراور کتبِ موضوعات وسِیَر میں کہیں ان روایات کا نام ونشان تک موجود نہیں ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو تمھیں ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو نہ تم نے سُنی ہوں گی اور نہ تمھارے آباء نے، تم اُن سے دور رہنا،(صحیح مسلم:۶)‘‘۔

سوال یہ ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دیگر بزرگانِ دین کے یہ ارشادات علامہ علی القاری ،علامہ سیوطی ، علامہ نبہانی،امام رَبّانی مجدِّدِ الفِ ثانی،شیخ عبدالحق محدّث دہلوی، امام احمد رضا قادری رَحِمَہُمُ اللہُ اَجْمَعِیْن اوردیگر علمائے اسلام کی نگاہوں سے کیوں پوشیدہ رہے، جب کہ ان حضرات کی وسعتِ علمی کے اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں۔خود ان اقوال کی زبان اور اندازِ بیان بتا رہا ہے کہ یہ دسویں صدی کے بعد تیار کیے گئے ہیں۔میلاد شریف پڑھنے پر دراہم خرچ کرنے کی بات بھی خوب رہی۔صحابہ کرام ؓکے دور میں نہ تو میلاد شریف کی کوئی کتاب پڑھی جاتی تھی، نہ میلاد کے پڑھنے کے لیے اُنھیں دراہم خرچ کرنے کی ضرورت تھی۔ تاہم، ان کی ہر محفل اور ہرنشست میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے فضل وکمال اور آپؐ کی تعلیمات کا ذکر ہوتا تھا۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: لوگوں کے انتساب سے خالی ہے ،جب کہ لوگوں کے ہاتھ میں جو میلاد نامے پائے جاتے ہیں،ان میں سے اکثر میں موضوع روایات موجود ہیں،(جواہر البحار، ج۳،ص۳۲۹)‘‘۔

لوگوں میں یہ بھی معروف ہے کہ گلاب کا پھول، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے سے پیدا ہوا ہے۔ حضرت انسؓ کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی جاتی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے آسمانوںپر معراج کے لیے بلایاگیا توزمین رونے لگی ،جب میں معراج سے زمین پر واپس ہوا تو میرے پسینے کے قطرات زمین پرپڑے ،اس سے گلاب کاپھول پیدا ہوا، اب جو شخص میری خوشبو سونگھنا چاہتا ہے ،اسے چاہیے کہ گلاب سونگھے‘‘۔ اِسی کے مثل ایک یہ روایت ہے:’’معراج کی شب سفید گلاب میرے پسینے سے پیدا کیا گیا ،سرخ گلاب حضرت جبریلِ امین کے پسینے سے پیدا کیا گیا اور زرد گلاب براق کے پسینے سے پیدا کیا گیا ‘‘۔ ان روایات کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں:’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘ اورامام ابن عساکر فرماتے ہیں:’’یہ حدیث موضوع ہے‘‘ (اَلدُّرَرُالْمُنْتَثِرَہْ فِی الْاَحَادِیْثِ الْمُشْتَـہَرہ،ج۱،ص۲۱۹)۔ علامہ سخاوی نے بھی ’’اَلْمَقَاصِدُ الْحَسَنَہ، ص۲۱۶‘‘میں اس حدیث کوشیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے موضوع قرار دیا ہے اورعلامہ علی القاری نے بھی’’اَلْمَصْنُوْع فِیْ مَعْرِفَۃِ حَدِیْثِ الْمَوْضُوْع، ص۷۰‘‘میں  اس حدیث کوحافظ ابن حجر کے حوالے سے موضوع قرار دیا ہے ،نیز علامہ یوسف بن صالح شامی نے بھی’’سُبُلُ الْہُدیٰ وَالرَّشَاد،ج۲،ص۸۸‘‘میںاس حدیث کو باطل وموضوع قرار دیا ہے۔

دسویں صدی ہجری کے مجدّد،مفسرومحدّث،فقیہ ومؤرّخ تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف اور دولاکھ احادیث کے حافظ خَاتِمُ الْمُحَدِّثِیْن وَالْمُحَقِّقِیْن علامہ جلال الدین سیوطی شافعی اپنی ایک کتاب تَحْذِیْرُ الْخَوَاصِّ مِنْ اَکَاذِیْبِ الْقِصَاص کی وجہ ِتالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’حال ہی میں مصر کے ایک معروف پیشہ ور خطیب کے متعلق مجھ سے یہ فتویٰ طلب کیا گیا کہ اس نے اپنے خطاب میں ایک حدیث بیان کی ہے ،میں اس حدیث کو یہاں نقل کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتاہوں ،اگر مجبوری نہ ہوتی تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گھڑے ہوئے جھوٹ کو ہرگز بیان نہ کرتا۔اس جاہل خطیب نے بیان کیا:’’ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے (الانبیاء ۲۱:۱۰۷)‘‘،  تونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل امینؑ سے فرمایا : اے جبریلؑ!کیا میری رحمت سے تجھے بھی کوئی حصہ حاصل ہوا ہے؟جبریلؑ نے عرض کیا:جی ہاں،یا رسولؐ اللہ!اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہزاروں فرشتوں کو پیدا کیا تھا اور ان سب کا نام جبریل رکھا تھا اور ان میں سے ہر ایک سے یہ سوال فرمایا تھا:میں کون ہوں، لیکن ان میں سے کسی کو جواب معلوم نہیں تھا،چنانچہ سب پگھل گئے ،پھر جب مجھے پیدا کیا گیا تو مجھ سے بھی یہی سوال ہوا ، (الخ)‘‘۔

علامہ سیوطی فرماتے ہیں:میں نے فتویٰ دیا :’’ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے ،یہ باطل ہے ،اسے روایت کرنا اور اسے عوام الناس کے سامنے بیان کرنا ہر گز جائز نہیں ہے ۔ اس خطیب پر لازم ہے کہ جو احادیث وہ محافل میں بیان کرنا چاہتا ہے، پہلے اُنھیں محدثین کے سامنے بیان کرکے ان کی تصحیح کرائے ،اگر وہ اُسے بیان کرنے کی اجازت دیں تو بیان کرے ،بصورتِ دیگر اُنھیں بیان نہ کرے‘‘۔جب میرا یہ فتویٰ اُس خطیب تک پہنچا تو قبول کرنے کے بجائے اس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور شدید غصے کے عالم میں ِ منبرپر کہا:اب مجھ جیسا انسان اِن شیوخ الحدیث سے احادیث کی تصحیح کرائے گا اور یہ مجھے بتائیں گے کہ کونسی حدیث صحیح اور کون سی باطل ہے،جب کہ میں روئے زمین کا سب سے بڑا عالم ہوں۔اِس طرح اُس نے اور بھی ہذیان بکا،پھر اس نے عوام کو میرے خلاف اس قدر بھڑکایا کہ ایک عظیم فتنہ پیدا ہوگیا ،یہاں تک کہ لوگوں نے مجھے سَبّ وشَتْم کا نشانہ بنایا ،بلکہ قتل اور سنگسار کرنے کی بھی دھمکیاں ملنے لگیں۔جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو دوبارہ تحریر کیا:’’اگر یہ شخص شیوخ الحدیث سے احادیث کی تصحیح نہ کروائے گااور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب جھوٹ منسوب کرنے پر ہٹ دھرمی دکھاکر اس حدیث کو پھر سے بیان کرے گا، جب کہ اس پر حدیث کا باطل ہونا بھی واضح ہوچکا ہے ،تو میں اس پر کوڑے مارنے کا فتویٰ جاری کروں گا‘‘۔لیکن اس نام نہاد خطیب پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ مزید اشتعال انگیزی پر اُترآیا اور ساتھ ہی جاہل عوام بھی اس تعصب میں اس کا ساتھ دینے لگے ،سو میں اس مسئلے پر :  تَحْذِیْرُ الْخَوَاصِّ مِنْ اَکَاذِیْبِ الْقِصَاص کے نام سے یہ کتاب لکھ رہا ہوں،اس کا معنٰی ہے: ’’واعظوں کی من گھڑت اور جھوٹی روایتوں اور قصے کہانیوں سے خواص کو خبر دار کرنا ‘‘۔

تمام پیغمبر ؑ ایک ہی دین لے کر آتے رہے، اس دین کا نام اسلام ہے۔ وہ دین جب دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوپ میں ظاہر ہوا، تو کمال کو پہنچ گیا۔ گویا ہروحی جو رسولوںؑ پر نازل ہوئی، آخرکار قرآن مجید کی صورت میں اتمام سے ہمکنار ہوئی۔ تمام رسولوں کی سیرتیں، سیرتِ محمدیہؐ کے جلو میں پروان چڑھیں، اور یوں انھوں نے اپنی معراج و منتہا کو پالیا۔ اب تاقیامت دینِ محمدیؐ، یعنی اسلام کامل بنوآدم کا ضابطۂ حیات رہے گا۔ اس ضابطۂ حیات کا مقصد آخری لفظی وحی، قرآن کریم ہے، اور آخری عملی معیار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے۔

زندگی ایک مسلسل حقیقت ہے اور اس تسلسل میں کہیں انقطاع نہیں۔ حضرت علّامہ اقبال کے نزدیک پوری کائنات ایک نامیاتی (Organism) وجود ہے۔ جب سے یہاں آدم کا ظہور عمل میں آیا ہے، سیرتِ آدم کا تکمیلی سفر حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخ کی طرف رہا، اور تاقیامت سیرتِ آدم کا یہ سفر جاری رہے گا، اس لیے کہ تکمیلِ سیرتِ آدم ؑ کا نقطۂ آخریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ قدسی صفات ہے۔ آپؐ ہی کا طریقۂ زندگی، اسوئہ حسنہ ہے، اور اسی اسوے کو اپنا کر بنوآدم اپنی ذات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

دین کا فہم گویا روحِ محمدؐ و ابراہیم ؑ تک رسائی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ روح ابراہیم ؑ خود آپ ہی کی ذات میں پہنچ کر کمال یاب ہوئی۔ اسی لیے ملت اسلام کا دوسرا نام ’دینِ ابراہیمی‘ ہے۔ عربی میں ’ملت‘ کا معنی ’دین‘ ہے، اس کے معنی ’اُمت‘ نہیں ہیں۔ ملتِ ابراہیمیؑ یا دینِ ابراہیمیؑ کے تکمیلی سفر کو حضرت علّامہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

شعلہ ہائے او صد ابراہیمؑ سوخت
تا چراغِ یک محمدؐ برفروخت

[اس کے شعلوں نے سیکڑوں ابراہیم ؑ جلادیے، تاکہ ایک محمدؐ کا چراغ روشن ہو]۔

حضرت علّامہ نے ایک خط میں واضح کیا ہے، اور یہ خط حافظ محمد فضل الرحمٰن انصاری کے نام (۱۶جولائی ۱۹۳۷ء) لکھا ہے، یعنی علّامہ کی وفات سے تقریباً نو ماہ پہلے۔ مکتوب الیہ ریسرچ کی نیت سے یورپ جانا چاہتے تھے۔ علّامہ نے انھیں منع کیا اور تلقین یہ کی کہ عربی زبان میں مہارت پیدا کرکے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ مکتوب کے الفاظ یہ ہیں:

مصر جایئے،عربی زبان میں مہارت پیدا کیجیے۔ اسلامی علوم، اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ، تصوف، فقہ، تفسیر کا بغور مطالعہ کرکے محمدؐ عربی کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کیجیے۔ پھر اگر ذہن خداداد ہے اور دل میں خدمت ِ اسلام کی تڑپ ہے تو آپ اس تحریک کی بنیاد رکھ سکیں گے، جو اس وقت آپ کے ذہن میں ہے۔

واضح ہوا کہ:

بمصطفےٰ برساں خویش را کہ  دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

اجتہاد دراصل اس عملی ارتقا کا نام ہے جو فقہ کے باب میں جلوہ گر ہو۔ رہا یہ کہ فقہ کیا ہے؟  تو علّامہ زمخشری کا قول ہے: ’’فقہ کی حقیقت تحقیق و تفتیش کرنا اور کھولنا ہے‘‘۔

ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قانون اور ضابطہ، اُمت مسلمہ کی توحیدی روح ہے۔  قدرتی امر ہےکہ علّامہ اقبال جو مسلمانوں کی شخصی وحدت کے بھی متمنی تھے اور اجتماعی توحید کے بھی، وہ فقہ کی اس حاوی کیفیت اور بھرپور اہمیت کو بخوبی محسوس کرتے تھے، اور یہ ان کا عقیدہ تھا کہ اسلام آخری ضابطۂ حیات ہے، جسے تاحشر انسانی معاشروں کی رہنمائی اور روح افزائی کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ لہٰذا، اصل روح کو بحال رکھتے ہوئےفقہ اسلامی کو ہرزمانے کا ساتھ دینا ہوگا۔ حضرت علّامہ کہتے ہیں:

باطن او از تغیر بے غمے
ظاہرِ او انقلابِ ہر دمے

[اس کا باطن (بنیادی اصول) تغیر ناپذیر ہوگا، لیکن اس کے ظاہر میں ہردم نئی تبدیلی ہوگی]۔

اس حقیقت کے شدید احساس کے باعث، حضرت علّامہ کی دلی تمنا تھی کہ وہ زمانے کے بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں قرآن کے مطالب قلم بند کریں، مثلاً ۱۹۳۵ء میں انھوں نے سرراس مسعود کے نام ایک خط میں یہ اظہار کیا:

چراغِ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں۔ تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کرجائوں۔جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے، اسے اسی خدمت کےلیے وقف کردینا چاہتا ہوں، تاکہ قیامت کے دن آپ کے جدامجد (حضور نبی کریمؐ) کی زیارت مجھے اس اطمینانِ خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضورؐ نے ہم تک پہنچایا، کوئی خدمت بجا لاسکا۔

خود علّامہ کے الفاظ ہیں:

میں نے اپنے خیالات کا بڑی تفصیل سے، اشعار میں اظہار کر دیا ہے، لیکن ابھی میرے دل میں ان سے بھی بڑی چیز ہے، جسے قرآن حکیم کی شرح کی صورت میں ظاہر کرنے کی آرزو رکھتا ہوں۔

یہ الفاظ حضرت علّامہ نے اپنے دوست خواجہ عبدالوحید صاحب سے اکتوبر ۱۹۳۴ء میں کہے تھے۔ یہی وہ کتاب تھی جس کے قلم بند کرانے کی خاطر سر راس مسعود کے توسط سے نواب صاحب بھوپال نے ۱۹۳۵ء میں حضرت علّامہ کا ۵۰۰ روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر فرمایا تھا تاکہ آپ وکالتی دھندوں سے فارغ الذہن ہوکر اس کتاب کی تصنیف کی جانب متوجہ ہوسکیں، مگر صحت نے ساتھ نہ دیا۔ یہ آرزو شکست یاب ہوکر حسرت بن گئی، جسے علّامہ اپنے ساتھ عالم عدم میں لے گئے۔

اسلامی فقہ سے ان کی یہ دلچسپی زندگی کے آخری برسوں ہی میں پیدا نہ ہوئی تھی۔ سیّد سلیمان ندوی کے ساتھ ان کی جو خط کتابت ہوئی، اس میں بھی کئی خطوط میں فقہی مسائل زیربحث رہے۔ کوئی خط ۱۹۲۴ء میں تحریر ہوا، کوئی ۱۹۲۵ء میں،اور کوئی ۱۹۲۶ء میں، مثلاً مارچ ۱۹۲۶ء میں سیّد سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں:

اس وقت سخت ضرورت اس امر کی ہے کہ فقہ کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے۔ اسی بحث پر مصر میں ایک چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی ہے، جو میری نظر سے گزری ہے، اور جن مسائل پر بحث کی ضرورت ہے مصنف نے ان کو نظرانداز کردیا ہے۔ اگر مولانا شبلی زندہ ہوتے تو میں ان سے ایسی کتاب لکھنے کی درخواست کرتا۔ موجودہ صورت میں سوائے آپ کے اس کام کو کون کرے گا۔ میں نے ایک رسالہ اجتہاد پر لکھا تھا، مگر چونکہ میرا دل بعض اُمور کے متعلق خود مطمئن نہیں، اس واسطے اس کو اب تک شائع نہیں کیا۔

حضرت علّامہ نے مکتوب بالا کے بعد اپریل ۱۹۲۶ء کے ایک مکتوب میں بھی اپنے رسالہ اجتہاد کا ذکر دُہرایا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ علّامہ نے اجتہاد کےباب میں جن خیالات کا ذکر کیا، سیّد سلیمان ندوی نے گمان کیا کہ شاید عبادات بھی اجتہاد کی زد میں آگئی ہیں یا آسکتی ہیں۔ اس غلط فہمی کا ازالہ حضرت علّامہ نے بایں الفاظ کیا:

عبادات کے متعلق کوئی ترمیم و تنسیخ میرے پیش نظر نہیں بلکہ میں نے اپنے مضمون اجتہاد میں ان کی ازلیت و ابدیت پر دلائل قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں، معاملات کے متعلق بعض سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں چونکہ شریعت احادیث (وہ احادیث جن کا تعلق معاملات سے ہے) کا مشکل سوال پیدا ہوجاتا ہے، اور ابھی تک میرا دل اپنی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوا۔ میرا مقصود یہ ہے کہ زمانۂ حال کے ’جورس پروڈنس‘ کی روشنی میں اسلامی معاملات کا مطالعہ کیا جائے، مگر غلامانہ انداز میں نہیں بلکہ ناقدانہ انداز میں۔

چند سطور آگے جا کر اسی مکتوب میں علّامہ نے ایک دو فقہی مسائل سے تعرض کیا ہے:

آپ کے خط کے آخری حصے سے ایک سوال میرے دل میں پیدا ہواہے، اور وہ یہ کہ امام کو اختیار ہے کہ قرآن کی کسی مقرر کردہ حد (مثلاً سرقہ کی حد) کو ترک کردے اور اس کی جگہ کوئی اور حد مقرر کردے۔ اس اختیار کی بنا کون سی آیت قرآنی ہے؟ حضرت عمرؓ نے طلاق کے ضمن میں جو مجلس قائم کی ہے، اس کا اختیار ان کو شرعاً حاصل تھا؟میں اختیار کی اساس معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ زمانۂ حال کی زبان سے یوں کہیے کہ آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن ان کو ایسا اختیار دیتی تھی؟ امام ایک شخص واحد ہے یا جماعت بھی امام کی قائم مقام ہوسکتی ہے؟ہر اسلامی ملک کے لیے اپنا امام ہو یا تمام اسلامی دُنیا کے لیے ایک واحد امام؟ مؤخرالذکر صورت موجودہ فرق اسلامیہ کی موجودگی میں کیوں کر بروئے کار آسکتی ہے؟

فقہ سے ان کی دلچسپی واضح ہے اور فقہ کو معاصر احوال پر منطبق ہونے کے لائق بنانا اجتہاد ہے، اور حضرت علّامہ نے۱۹۲۶ء میں کوئی رسالہ اجتہاد کے موضوع پر مرتب بھی کیا تھا جس کا ذکر سطوربالا میں گزر چکا ہے کہ جسے حضرت علّامہ نے بوجوہ شائع نہ کرایا۔ بہرحال، وہ خواہاں تھے کہ اسلام کے اساسی اصولوں کی روح کو پیش نظر رکھ کر ہرزمانے میں اُبھرنے والے سوالوں کا جواب دیا جائے۔ یہ مباحث یوں محسوس ہوتا ہے گویا مدراس میں دیے جانے والے خطبات، خصوصاً چھٹے خطبے کے تمہیدی یا پس منظری تعاونات تھے۔

حضرت علّامہ فرماتے ہیں کہ فتوحات اسلامی کے ساتھ ساتھ نئے نئے مسائل نے سر اُٹھایا۔ چنانچہ فقہا نے خوب محنت صرف کی، ضابطے اور قاعدے مرتب کیے، مسائل کے حل تجویز کیے، جو ہوتے ہوتے چند مستقل مذاہب کی صورت میں متعین ہوگئے۔ علّامہ کی رائے میں ان فقہی مذاہب کے یہاں اجتہاد کے تین درجے ہیں:

       ۱-    تشریح یا قانون سازی کی مکمل آزادی، جس سے فقط بانیانِ مذاہب نے فائدہ اُٹھایا۔

       ۲-    محدود آزادی جو کسی مذہب کی حدود کے اندر ممکن ہو۔

       ۳-    وہ مخصوص آزادی جس کا تعلق کسی ایسے مسئلے سے ہو، جسے مؤسسین مذاہب نے جوں کا توں چھوڑ دیا ہو۔ یہاں علّامہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بحث شق اوّل تک ہی محدود رکھی۔

اسی ضمن میں حضرت علّامہ وضاحت کرتے ہیں کہ علمائے سنت والجماعت اصول اور نظریے کے طور پر تو اس امر کے قائل ہیں کہ اجتہاد ہونا چاہیے، مگر انھوں نے اس ضمن میں شرائط ایسی عائد کررکھی ہیں، جن کا پورا کرنا اگر ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے۔ یہاں حضرت علّامہ بعض مستشرقین کی اس رائے یا الزام کی تردید کرتے ہیں کہ اجتہاد کی راہ ترکوں کے اثر سے بند ہوئی۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ترکوں کا اثر شروع ہونے سے قبل حرکتِ فقہ میں جمود رُونما ہوچکا تھا۔ بہرحال، حضرت علّامہ فقہ و اجتہاد کے باب میں بندش کے اسباب بیان کرتے ہیں:

       ۱-    بنوعباس کے دور میں فروغ پانے والی تعقلیت جس نے بعض ایسے مسائل کھڑے کر دیے کہ جن کے نتائج آگے چل کر بڑے خطرناک ہوتے، مثلاً خلقِ قرآن کا مسئلہ۔ علما و فقہائے اُمت کو (خواہ بربنائے غلط فہمی) خوف لاحق ہوا کہ نظام جیسے متکلمین کی حد سے بڑھی ہوئی بے باک کلامی بحثیں کہیں اُمت کے فکری انتشار کا باعث نہ بن جائیں۔ اس ڈر کے مارے انھوں نے فقہ و اصول میں اور بھی زیادہ تشدد پیدا کرلیا تاکہ اسلامی سوسائٹی کا ڈھانچا بحال رہے۔

       ۲-    متکلمین اور فقہا کی عقلی و فقہی موشگافیوں سے بے زار ہوکر ایک گروہ الگ ہوبیٹھا۔ وہ گروہ غیراسلامی مؤثرات سے متاثر تھا۔ یہ اہل تصوف کا گروہ تھا۔ علّامہ کہتے ہیں کہ تصوف کو عقلیین کے خلاف ایک طرح کی بغاوت قرار دیا جاسکتا ہے۔ علّامہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سوسائٹی کے عالی دماغ لوگوں نے تصوف کے دامن میں پناہ لے لی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اصول و قانون کا شعبہ متوسط درجے کے افرادِ علم و عقل کے قبضے میں چلا گیا۔

       ۳-    سقوطِ بغداد سے مسلمانوں کو شدید دھچکا لگا اور اس کے جلو میں آنے والی تباہی و بربادی نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر اسلامی سوسائٹی اور دین کے مستقبل کے باب میں نیم مایوسی کا سایہ ڈال دیا۔ نتیجہ یہ کہ فکری و قومی اضمحلال بڑھا اور انتشار بھی۔ حضرت علّامہ خود بھی اس صورتِ حال میں جس امر پرزور دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ’’قوائے انحطاط کا سدباب نظم وربط ہی سے ہوتا ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھے، اور ہمارے زمانےکے علما نہیں سمجھتے تو یہ کہ قوموں کی تقدیر اور ہستی کا دارومدار اس امرپر نہیں کہ ان کا وجود کہاں تک منظم ہے، بلکہ اس بات پر کہ افراد کی ذاتی خوبیاں کیا ہیں، قدرت اور صلاحیت کیا ہے۔ یوں بھی جب معاشرہ حد سے زیادہ منظم ہوجائے تو اس میں فرد کی ہستی سرے سے فنا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے گردوپیش کی اجتماعی افکار کی دولت سے تو مالا مال ہوجاتا ہے، لیکن اپنی حقیقی روح کھو بیٹھتا ہے‘‘۔

ترکوں کے تجدد کو زیربحث لاتے ہوئے علّامہ نے کہا: ’’پھر اگر اسلام کی نشاتِ ثانیہ ناگزیر ہے جیساکہ میرے نزدیک قطعی ہے، تو پھر ہمیں بھی ترکوں کی طرح ایک نہ ایک دن اپنے عقلی اور ذہنی ورثے کی قدروقیمت کا اَزسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اصل بات جو توجہ طلب ہے، وہ یہ ہے کہ حقِ اجتہاد کس کو حاصل ہے؟ فرد کو یا جماعت کو؟ ترکوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے یا اسلامی تعلیمات کے مطابق اس منصب کو افراد کی ایک جماعت بلکہ منتخب شدہ مجلس کے سپرد بھی کیا‘‘۔ علّامہ اس طریق کو اس لیے درست قراردیتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ طرز عصرحاضر میں بحالی جمہوریت کے لیے ناگزیر تھا۔

علّامہ اقبال تاکید کرتے ہیں کہ علما کا بھی ایک گروہ اسمبلی میں شامل ہونا چاہیے، جو دین سے متعلق زیربحث آنے والے مسائل اور ان کے ضمن میں روپذیر ہونے والے ضوابط و قواعد کا جائزہ لیتے رہیں۔ یہاں حضرت علّامہ نے ایرانی دستور کی مثال دی جس کی رو سے مجلس قانون ساز کی ایک مجلس علما نگران تھی۔ ساتھ ہی علّامہ نے خدشہ بھی ظاہر کیا کہ علما کی یہ مجلس خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ حضرت علّامہ کے مزاج میں تو لذت کاری کا جوہر ایسا رچا ہوا تھا کہ وہ ہرشے کے محاسن و مصائب پر بیک وقت نظر رکھتے ہیں۔

حضرت علّامہ نے اذان و نماز کے ترکی زبان میں تبدیل کیے جانے کو قابلِ اعتراض قرار دیا۔ حضرت علّامہ متنبہ کرتے ہیں کہ جن احوال سے ترک دوچار ہیں، انھی احوال سے دیگر مسلمان اقوام کو بھی واسطہ پڑنے والا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ خوش آیند ہے کہ حقیقت حال سے گریبان گیر ہونے کا جذبہ پیدا ہو، مگر اس ساری تائید کے ہمراہ یہ حرفِ انتباہ بھی ہے جو علّامہ اقبال کے مزاج کی توازن پسندی اور اعتدال جوئی پر دلالت کرتا ہے:

بہرحال ہم اس تحریک کا جو حُریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے، دل سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ ہے، آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقے اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔

انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی متاع دو صورتوں میں سامنے آتی ہے: پہلی ایمان اور دوسری دانش۔ دانش اگر ایمان کے بغیر ہو تو بعض اوقات وہ انسانیت کے لیے ضرررسانی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے بلکہ انسانی تاریخ میں ایسا بارہا ہوا ہے۔ آج ہمارے گرد پھیلی سماجی تاریکی کا ایک بڑا سبب یہی ’بلاایمان دانش‘ ہے۔ نہایت عزیز اور محترم بھائی، ڈاکٹر محمدیوسف القرضاوی، ہمارے عہد میں ایمان اور دانش سے رچے ایک عظیم رہنما اور ایک قابلِ رشک عالم دین تھے، جو ۹۶برس کی عمر میں ۲۶ستمبر۲۰۲۲ء کو خالق حقیقی سے جاملے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

ہر صاحب ِعلم و فضل انسان اور تحریک اسلامی کے کسی بھی حبیب کی جدائی میرے دل پر گہرا زخم لگاتی ہے ، جس کی کرب ناکی دل اور روح کی پنہائیوں میں محسوس کرتا ہوں، اور جس کا اثر، تادیر اعصاب پر رہتا ہے۔ ایسے پے درپے صدمات کو بار بار دیکھا اور جھیلا ہے، اور اپنے ربِّ جلیل کے ان برحق اور اٹل فیصلوں کو اسی کی ہدایت کے مطابق برداشت کرنے کی کوشش کی ہے مگر امرواقعہ ہے کہ محبی و مکرمی مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے انتقال (۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) کے بعد، جناب القرضاوی کی جدائی، دوسرا بہت بڑا صدمہ ہے۔ اور یہ بات کسی مبالغے کے طور پر نہیں کہہ رہا، بلکہ بہت سوچ سمجھ کر اس بڑی محرومی کا تذکرہ کر رہا ہوں، جس کی بہت سی جہتیں ہیں، مثلاً یہ کہ:

  • سب سے اوّلین اور بنیادی قدر تو یہ ہے کہ القرضاوی جیسے عالی دماغ نے ایمان کی لذت پانے کے بعد اپنی زندگی کا مقصد دین اسلام کی خدمت قرار دیا۔ امام حسن البنا شہیدؒ کی طرف سے دعوتِ دین اور طریق کار کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا اور الاخوان المسلمون سے وابستگی کا کانٹوں سے اَٹا ایک مشکل راستہ چُنا۔پھر پوری زندگی اسی مقصد کے لیے اپنی صلاحیتیں، اپنی کوششیں ، اپنے خواب اور اپنے مادی مستقبل کو تج دیا۔ دورِ جوانی ہی میں انھیں اپنے وطن مصر کو چھوڑنا پڑا، اور پھر زندگی کے بقیہ ۶۲برس کے طویل عرصے پر محیط   جلاوطنی کی زندگی میں کسی طرح کا شکوہ شکایت زبان پر نہ لائے۔
  • دوسرے یہ کہ انھوں نے اپنی ذہنی ، فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کو تحقیق و جستجو، اور عصرحاضر میں اسلام کے پیغام کی اشاعت کے لیے مخصوص کر دیا۔ آپ کے قلم نے ایمانیات سے لے کر اجتماعیات تک، قوانین سے لےکر تنظیمی اُمور تک، دعوتی پہلو سے لے کر تربیتی اُمور تک اور اسلام کے پیغام کو پیش کرنے سے لے کر اسلام پر ہونے والے حملوں کا جواب دینے تک، ہرزاویے کو برتا اور ہراسلوب کو اختیار کرکے حق کی برملا گواہی دی۔ ان کے ہاں ایک طرف قرآن و حدیث سے استدلال ہے تو دوسری طرف منطق اور کلام کا رنگ نمایاں ہے۔ ایک جگہ خطیبانہ آہنگ ہے تو دوسری طرف وکیلانہ دھیماپن دعوتِ غوروفکر دیتا ہے۔ ایک جگہ تاریخ سے استشہاد ہے تو دوسری جگہ عصرحاضر کے احوال و ظروف میں منفرد طرزِ بیان کی وسعتوں کا آہنگ۔ فہم کو مہمیز دینے کے لیے ادب کی چاشنی اس پر سوا ہے۔
  • ان کی تیسری نہایت متاثر کن خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تمام حیثیتوں پر، ایک معلم کی حیثیت کو غالب رکھا۔ معلّم کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ علم بانٹتا ہے، وہ نئی نسل کو اُس شاہراہ پر چلاتا ہے کہ جسے اُس نے خیر کی حیثیت سے قبول کیا تھا۔ الاستاذ قرضاوی مرحوم نے تعلیمی نظام کی بہتری اور اسے اسلامی تصورِ تعلیم سے مربوط کرنے کے لیے گراں قدر کوششیں کرکے: الجزائر، مراکش، سوڈان اور قطر کی یونی ورسٹیوں اور تعلیم و تحقیق کی دُنیا میں نئی راہیں کشادہ کیں۔ دوسری جانب غیرعرب ممالک پاکستان، انڈونیشیا، ملایشیا اور ترکی میں جس قدر امکان اور گنجایش میسر آئی، انھوں نے نظامِ تعلیم کی سمت درست کرنے کی کوشش کی۔
  • چوتھے یہ کہ وہ ایک محقق اور منفرد شان کے حامل مفکر ہی نہیں تھے، بلکہ وہ اسلامی احیائی تحریک کے ایک کارکن، ایک لیڈر اورایک داعی بھی تھے۔ اس حیثیت سے انھوں نے بڑی باریک بینی سے تحریک و تنظیم کے عملی اور داخلی و اجتماعی اُمور پر شان دار رہنمائی کے لیے کتب اور مقالات لکھے۔ دعوت و تربیت کے عملی اور اطلاقی پہلوئوں پر زور دیا۔ تحریک اسلامی میں اختلاف رائے کو اتفاق و ترقی کا وسیلہ بنانے کے اصول ذہن نشین کرائے، اور وقت کی گرد ہٹا کر تحریک اور تحریک کے کارکنوں کو ندرتِ خیال اور روشن خیال راستوں کا سراغ دیا۔
  • پانچویں یہ کہ ایک فقیہ اور روحِ عصر کے نباض کی حیثیت سے انھوں نے انسان کے معاشی مسئلے کو سمجھتے ہوئے اسلام کی روشنی میں اسے حل کرنے کے لیے گراں قدر کتب تحریر کیں۔ اُن میں کتاب فقہ الزکوٰۃ کے پائے کی کوئی دوسری کتاب پیش نہیں کی جاسکتی۔ غربت کے خاتمے، بنک کے سود کی حقیقت، اسلامی اصولِ تجارت اور معاملات پر محکم دلائل اور علمی آثار کی بنیاد پہ لکھا۔اس طرح اسلامی معاشیات کے موضوع پرگراں قدر تصانیف ان سے یادگار ہیں۔
  • چھٹا یہ کہ عصرحاضر میں اسلام اور مسلمانوں کو، مغربی سامراجی قوتوں کی جانب سے جس ریاستی، ابلاغی، فوجی، تزویراتی اور عالمی اداراتی یلغار کا سامنا ہے، اس کے جواب میں فقہ الجہاد، جیسی جامع کتاب لکھی اورجہاد کے حوالے سے حالیہ عرصے میں خود بعض پُرجوش مسلم نوجوانوں میں جو افراط و تفریط دیکھنے میں آرہی تھی، اس کی اصلاح کرتے ہوئے درست سمت کی نشان دہی کی۔

اس طرح تقریباً۱۷۵ چھوٹی بڑی کتب، اسلامیانِ علم کے لیے جناب قرضاوی کا قیمتی تحفہ ہیں، جن میں کئی کتب دُنیا کی ۴۵ زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ جناب یوسف القرضاوی نے جامعیت اور انسائیکلوپیڈیائی ذہن کے ساتھ علمی کارنامہ انجام دیا۔ ’یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیق‘ کے ذریعے مغربی دُنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی دینی و فقہی رہنمائی کے لیے ایک مؤثر ادارے کی داغ بیل ڈالی۔یوں علم و نُور کے سفر کے تسلسل کو عملی شکل دی۔

مجھے ذاتی طور پر ان کی تحقیقات سے استفادے کا موقع ملا۔ پاکستان، برطانیہ اور عالمِ عرب میں متعدد مرتبہ ملنے، گفتگو کرنے اور الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے میں اُن کی گراں قدر آرا سے بہت مدد ملی۔ ہمارے درمیان گہرے برادرانہ تعلقات تھے۔ قطر کے سفر کے دوران انھوں نے اپنے گھر پر اہلِ خانہ کے ساتھ ایک عزیز بھائی کی طرح میرا اِکرام کیا۔ بڑی دیر تک اسلامی تحریکوں کے مسائل و مشکلات پر اپنی فکرمندی اور اُمید کے حوالے سے خیالات کااظہار کرتے رہے۔ جب بھی اُن سے ملاقات کی سبیل پیدا ہوئی تو علم و فضل کا کوئی نہ کوئی پہلو نکھر کرسامنے آیا۔

جناب قرضاوی کی اجتہادی بصیرت، اس زمانے میں ایک بڑی گراں مایہ خوبی تھی۔ تاہم، ان کی بعض آرا سے ہمیں اختلاف بھی ہوا جو علم کی دُنیا میں ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن اس اختلاف رائے کے باوجود اُن کے اخلاص،علم و فضل اور اجتہادی شان میں کچھ فرق نہیں پڑتا، بلکہ اُن کے اُٹھائے ہوئے نکات پر مزید غوروفکر کرکے، روحِ عصر کو اسلام کے اصولوں، پیغام اور شریعت سے متعارف کرانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ نوجوان تحقیق کاروں پر لازم ہے کہ وہ سنجیدگی سے القرضاوی کے کارِ اجتہاد اور آثارِ اجتہاد پر باریک بینی سے کام کریں اور علم و فضل کا پرچم اس شان سے بلند کریں کہ اُن کے لیے صدقۂ جاریہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین!

پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو میں خوشاب میں زیرتعلیم تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کا اسم گرامی میری ’سبز کتاب‘ میں درج تھا، کیونکہ وہ تحریک پاکستان میں حضرت قائداعظمؒ کے دست راست  رہ چکے تھے او رعلما کے ایک خاص گروہ سے بالکل الگ اپنا لائحہ عمل خود تیار کیا تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں البتہ سنا کہ ’وہابی‘ ہیں اور پاکستان کے مخالف بھی، لہٰذا مجھے اس مانوس قسم کے نام سے کچھ چڑ سی ہو گئی۔

انھی دنوں مولاناشبیر احمد عثمانی ؒ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی طویل مراسلت کا پورا متن اخبار میں شائع ہو گیا۔ میں نے اس خیال سے کہ مولانا مودودیؒ جیسے ’ناپختہ‘آدمی نے مولانا شبیر احمد عثمانی ؒجیسے بزرگ عالم دین سے کیا بحث کرنی ہے، اخبار خرید لیا اور اس مراسلت کو ایک خاص  جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے مکمل یکسوئی سے پڑھنا شروع کر دیا۔ بحث غالباً جہادِ کشمیر کے بارے میں تھی۔ شروع شروع میں تو میری یہ خوش گوار توقع برقرار رہی کہ مولانا مودودیؒ چت گرے کہ گرے، مگر جوں جوں میں خط کتابت کے اندر بڑھتا گیا تو مولانا کا اسلوب نگارش نسبتاً زیادہ واضح اور کسی قسم کے ابہام سے پاک محسوس ہوا، مقابلتاً زیادہ باوزن اور قائل کرنے والا۔ میں اس صورت حال کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ میں نے مایوسی اور غصے کی حالت میں اخبار ایک طرف پھینک دیا اور اپنے آپ کو تسلی دی کہ میں چونکہ مسئلے کے ادراک کی پوری صلاحیت سے بہرہ مند نہیں ہوں، لہٰذا غلط فہمی کا شکار ہو گیا ہوں، ورنہ اصل بات وہی ہے جو اس مراسلت کو پڑھنے سے پہلے میرے ذہن میں موجود تھی۔ اس کے بعد کافی محاذوں سے مولانا کے خلاف توپوں کے دہانے مکمل کھل گئے اور وہ ان پر مسلسل گولے برسانے لگیں۔

ایک دن مجٹیھیا ہاسٹل میں اپنے کمرے کے اندر موجود تھا کہ ایک واقف کار پڑوسی نے مختصر سا کتابچہ مجھے تھما دیا، جس میں مختلف حوالوں اور تحریروں کی روشنی میں مولانا کو غیرمقلد، پاکستان دشمن، جہادِ کشمیر کا مخالف بلکہ کافر تک ثابت کیا گیا تھا۔ میں نے سوچا چونکہ صاحبزادہ عبدالرسول ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ان کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے، چنانچہ شام کو میں نے پمفلٹ کے مندرجات اور مولانا کی وہ تحریریں جو مؤلف نے واوین میں درج کی تھیں، انھیں پڑھ کر سنائیں۔ آج بڑا مسرور تھا کہ میرے ’عقیدے‘ کی کامرانی کا وقت  آن پہنچا ہے، لیکن مجھے مایوسی ہوئی کہ انھوں نے ان باتوں کا کوئی خاص اثر قبول نہ کیا اور بات سنی اَن سنی کر دی۔ چونکہ معاملہ اعتقاد اور ایمان کا تھا، میں نے اس بے حسی کی وضاحت چاہی۔ انھوں نے مختصر سی بات کہی کہ یہ پمفلٹ حکومت کے ایما پر لکھا گیا ہے اور اس کے مندرجات بددیانتی اور افترا کی بدترین مثال ہیں۔ میں نے کہا کہ واوین میں دی گئی عبارتیں کس طرح غلط ہوسکتی ہیں تو انھوں نے پھر مختصراً کہا کہ یہ عبارتیں ترمیم کے عمل سے گزار کر درج کی گئی ہیں‘‘۔

میں نے عزم کر لیا کہ اصل حوالوں کے ساتھ خود تقابل کروں گا۔ جب میں نے اسلامیہ کالج کی لائبریری میں ایک دو حوالوں کا تقابل اصل کتاب کھول کرکیا توواقعی میری حیرانی حد سے تجاوز کرگئی۔ اصل عبارت، واوین میں دی گئی عبارتوں سے بالکل مختلف تھی اور جہاں واقع تھی اس کا مطلب ہی کچھ اور تھا۔ میں کافی دیر تک سرگرداں وہیں بیٹھا، اس انوکھی بددیانتی پر حیران رہا۔  میرے نزدیک اس کتابچے کا مؤلف چور تھا۔ ان فرضی اور ’مرمت شدہ‘ اقتباسات کی بنیاد پر مولانا مودودی کے خلاف جس طرح دشنام طرازی کی گئی تھی اور انھیں جس طرح خارج از اسلام ثابت کیا گیا تھا، اس بنا پر مولانا ’وہابیت‘ کی بدنامی کے باوجود مجھے قابلِ رحم نظر آئے۔

اس کے کچھ عرصے بعد مجھے ان کی کتاب ’خطبات‘ پڑھنے کا موقع ملا، جس میں نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی خوبیاں اور انسانی فطرت سے ان کا تعلق اس طرح بیان کیا گیا تھا کہ میں پڑھ کر حیران رہ گیا۔ رمضان المبارک کے ایک جمعے کے روز نماز سے قبل میں نے ’خطبات‘ کے  انھی خیالات کو ’سردھی‘ گائوں میں حاضرین کے سامنے بیان کیا، تو ایک ضعیف العمر نمازی تقریر کے اختتام پر اُٹھ کھڑا ہوا اور نمازیوں کے مجمعے سے مخاطب ہو کر قسم کھائی کہ ’’رمضان المبارک کے موضوع پر اُس نے اپنی ساری زندگی میں ایسی تقریر نہیں سنی تھی‘‘۔ ’خطبات‘ اور اسی طرح کی دیگر ابتدائی تالیفات کے مطالعے سے میں نے محسوس کیا کہ ان کتابوں کا لکھنے والا انتہائی راست فکر انسان ہے اور اس کی علمی کاوشوں سے مستفید نہ ہونا ایسا ہی ہے، جس طرح روشنی کے لیے بجلی اور سفر کے لیے جدید ایجادات سے محروم رہنا۔

مجھے اگرچہ ایک ممتاز متدین گھرانے میں ہونے کی سعادت حاصل تھی اور بڑے بڑے صوفیا اور صاحب ِباطن بزرگوں کو بچشم خود دیکھنے کا شرف بھی نصیب تھا۔ تاہم، کفر والحاد کی بادِصرصر کے تھپیڑوں اور اس کے تندوتیز جھکڑوں سے میرے ایمان کا پودا اپنی تازگی برقرار نہ رکھ سکا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خالق کائنات کی ذات سے انکار اور اسلامی شعائر کی تضحیک اپنے آپ کو مہذب اور تعلیم یافتہ ظاہر کرنے کے لیے ایک بنیادی شرط تھی۔ مجھے فیشن اور پالیسی کے طور پر الحاد کی تبلیغ کرنے والے ان تہذیب کے پتلوں سے نفرت توتھی، لیکن مجبوری یہ تھی کہ ہمارے علمائے دین ان فیشنی ملحدین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے کتراتے تھے۔ دوسری طرف میری مذہبی حس ان کو ایک لمحہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ میں ان کو علمی میدان میں رسوا اور ذلیل دیکھنا چاہتا تھا۔

اسی ذہنی کش مکش بلکہ مجبوری کی کیفیت میں مَیں نے والد محترم کی ذاتی لائبریری میں سے ایک کتاب نکالی، یہ ’تنقیحات‘ تھی۔ اس پر مصنف کا نام ’ابوالاعلیٰ مودودی‘ تحریر تھا۔ میں چونکہ اس مصنف کی تحریریں، خطبات وغیرہ پڑھ چکا تھا، لہٰذا اسے بھی شوق سے پڑھنا شروع کر دیا۔ پہلا مضمون [جولائی ۱۹۳۳ء]جو میں نے اپنے مطالعے کے لیے منتخب کیا وہ تھا:’’تجدد کا پائے چوبیں‘‘۔

الحاد کے فتنے کاسامنا

یہ مضمون جناب نیاز فتح پوری کی لغویات پر ایک دلچسپ مگر انتہائی شان دار بحث پر مشتمل تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جب ماہ نامہ ترجمان القرآن کی اشاعت کا آغاز کیا، تو نیازصاحب نے جو مولانا کے احباب میں سے تھے، اپنے رسالے ’نگار‘ میں ترجمان القرآن کے اغراض و مقاصد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ مشورہ بھی دیا:’’اب، جب کہ علومِ جدیدہ اور ’اکتشافاتِ حاضرہ‘ نے ’عمل و خیال‘ کی بالکل نئی طرح ڈال کر ’حریت فکرو ضمیر‘ کی دولت سے دماغوں کو مالامال کر دیا ہے، [چنانچہ] مذہب صرف اس دلیل کی بنیاد پر زندہ نہیں رہ سکتا کہ اس کے اسلاف کا طرزِعمل بھی یہی تھا‘‘۔

مزید فرمایا: ’’اب زمانہ ’یومنون بالغیب‘ کا نہیں رہا بلکہ ’یومنون بالتجر بہ والشھود‘ کا ہے۔ ایسے نازک وقت میں کسی شخص کا مذہب کی حمایت کے لیے کھڑا ہوجانا آسان کام نہیں، جب کہ خود نفسِ مذہب کا خیال بھی اپنی جگہ چنداں قابلِ قبول نہیں‘‘۔

نیاز صاحب نے یہ بھی لکھا: ’’قرآنِ پاک اپنے معانی کے لحاظ سے تین حصوں میں منقسم ہے: ایک وہ جس میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے۔ دوسرا وہ جس میں اعتقادات پیش کیے گئے ہیں، اور تیسرا وہ جو قصص و تمثیلات پر مشتمل ہے‘‘۔

بقول حضرت نیاز: ’’حصہ اوّل کے متعلق نہ زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی دلیل و بُرہان کے لانے کی، کیونکہ تعلیمِ اخلاق تمام مذاہب میں تقریباً یکساں ہے۔ البتہ حصہ دوم اور حصہ سوم پر زیادہ توجہ کرنا چاہیے، کیونکہ علومِ جدیدہ اور اکتشاف عالیہ نے انھی حصوں کی طرف سے ’ریب و تذبذب‘ کی کیفیات لوگوں کے دلوں میں پیدا کردی ہیں، اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان شبہات کو   دُور کرنے میں کامیاب ہوجائے، تو اس صدی کا مجددکہلائے جانے کا مستحق ہو گا‘‘۔

بحث کو سمیٹتے ہوئے حضرت نیاز نے فرمایا: ’’آیندہ کے لیے میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے وحی و الہام کی حقیقت پر گفتگو کریں کہ اسی کے سمجھنے پر کلام اللہ کی حقیقت کا سمجھنا منحصر ہے اور مسئلہ معاد کو لیںکہ اسی کے حل ہونے پر انحصار مذہبیت ولامذہبیت ہے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں،وہ کلام الٰہی اور معاد کا کیا مفہوم متعین کرتے ہیں؟ اس کے بعد میں اپنے شبہات و اعتراضات پیش کروں گا،اور اگر ان کی کوشش سے وہ دُور ہوگئے تو مجھے بڑی مسرت ہو گی، کیونکہ ’ناچار مسلماں شو‘ کی جس لعنت میں بہت سے لوگ گرفتار ہیں ان کا ایک بڑا سبب عقیدہ معاد بھی ہے‘‘۔

نیازفتح پوری صاحب،مذبذبین کے امام مانے جاتے تھے۔ چونکہ بنیادی طور پر ایک  عالم دین تھے، اس لیے علمائے دین کے کمزور پہلوئوں کو یوں اُچھالتے کہ عام آدمی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ دوسری طرف علمائے دین قرآن و سنت کی روشنی میں ان شبہات کا جواب دیتے، لیکن جو اللہ کا بندہ قرآن و سنت کو حجت نہ مانتا ہو، اس کے لیے یہ جوابی دلائل کسی وزن کے حامل نہیں ہوسکتے تھے۔

میں نے نیاز صاحب کے اعتراضات کو پڑھا تو پریشان ہوا کیونکہ ان کاتوڑ ایک غیرجانب دار آدمی کے نقطۂ نظر سے ممکن نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ مولانا مودودی ایک بلند مرتبہ انشا پرداز ہونے کے باوجود شاید دین کا اس طرح دفاع نہ کر سکیں جو کہ ایک غیر مسلم کو بھی باوزن نظر آئے، کیونکہ اس میں شک نہیں کہ مذہب کا تمام تر دارومدار ایمان بالغیب پر ہی ہے۔

بہرحال، نیاز صاحب کے اقتباسات ختم ہوئے تو مولانا مودودی نے اپنی جوابی گزارشات کا حق استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ ’’قرآنِ مجید کے مباحث کوہم بآسانی صرف دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں‘‘۔ پھر لکھا:

ایک وہ حصہ جس کا تعلق اُن امور سے ہے جو ہمارے علم کی حدود سے باہر ہیں اور ہمارے ادراک کی سرحد سے ماورا ہیں۔ جن کے متعلق ہم قطعیت کے ساتھ صحیح یا غلط ہونے کا کوئی حکم نہیں لگا سکتے، اور جن میں قرآن ہم کو ایمان بالغیب لانے کی دعوت دیتا ہے۔

دوسرے وہ امور، جو ہمارے دائرۂ علم سے باہر نہیں ہیں، اور جن میں قطعیت کے ساتھ کوئی حکمِ عقلی لگانا ہمارے لیے ممکن ہے۔

پہلے حصے میں وجود وصفات الٰہی، فرشتے، وحی و کتب آسمانی، حقیقت نبوت، بعث بعد الموت، عذاب و ثوابِ آخرت اور ایسے ہی دوسرے مسائل کے علاوہ وہ تمام ماورائے علم و ادراک باتیں بھی آ جاتی ہیں، جو قصص اور تمثیلات کے سلسلے میں وارد ہوتی ہیں۔

مجھے مولانا مودودی کی یہ تقسیم زیادہ واضح اور ہر قسم کی الجھن سے پاک نظر آئی۔ اس کے بعد مولانا نے لکھا کہ حضرت نیاز کی: ’’اس [مذکورہ] رائے کی بنیاد چند غلطیوں پر ہے، جن میں پہلی غلطی گذشتہ اور موجودہ زمانے کے حقیقی فرق کو نہ سمجھنا ہے۔ بدقسمتی سے تنہا حضرت نیاز ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا گروہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مذہب کی شمع صرف گذشتہ زمانے کی تاریکی میں جل سکتی تھی۔ علومِ جدیدہ کا آفتاب طلوع ہونے کے بعد اس کا روشن ہونا مشکل ہے۔ حالانکہ علومِ عقلیہ، جن کو یہ لوگ روشنی سے تعبیر کرتے ہیں، کچھ اس زمانے کی مخصوص متاع نہیں ہیں۔ گذشتہ زمانے میں بھی ان علوم کی روشنی نے آنکھوں کو اسی طرح خیرہ کیا، اور گذشتہ زمانے میں بھی جن لوگوں کی آنکھیں ان سے خیرہ ہوئی ہیں، انھوں نے یہی سمجھا کہ مذہب کی شمع اب روشن نہیں رہ سکتی‘‘۔

مولانا مودودی نے نیاز فتح پوری کی اس غلط فہمی پر کہ ’علوم جدیدہ‘ اور ’اکتشافاتِ حاضرہ‘ صرف ہمارے زمانے کی متاع مخصوص ہے، مفصل تبصرہ کرنے کے بعد فرمایا:’’دوسرا نظریہ جو اِسی پہلے نظریے سے نکلا ہے۔ یہ ہے کہ اب زمانہ ’یومنون بالغیب‘ کا نہیں رہا بلکہ’ یومنون بالتجربہ و الشہود‘  کا ہے۔ میں بہت غور کرنے کے بعد بھی نہیں سمجھ سکا کہ ان الفاظ سے قائل کا حقیقی مقصود کیا ہے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ زمانے میں کوئی ایسی بات تسلیم نہیں کی جاتی جس پر غیب کا اطلاق ہوتا ہو، اور جس کا تجربہ یا مشاہدہ نہ کیا گیا ہو، تو یہ بالکل غلط ہے۔ ایسا کہنے کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہوگا کہ اس زمانے میں لوگوں نے صرف اسی حد کے اندر رہنا قبول کر لیا ہے، جس میں ان کا تجربہ و مشاہدہ ان کے لیے وسیلۂ اکتسابِ علم بن سکتاہے، اور جس میں ان کے حواس کام دے سکتے ہیں اور اس دائرے کے باہر جتنے اُمور ہیں، ان کے بارے میں فکر کرنا اور قیاس و استقراء سے ان کے متعلق حکم لگانا انسان نے چھوڑ دیا ہے۔ مگر کوئی شخص جس نے ’علمِ جدیدہ و اکتشافاتِ حاضرہ‘ کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہے، اس بیان کو تسلیم نہ کرے گا۔ فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کو چھوڑیے، جس کی بحث تمام تر امورِ غیب سے ہے۔ خود سائنس اور اس کے امورِ طبیعیہ کو لے لیجیے، جن کے اعتماد پر آپ ’ایمان بالتجربہ و الشہود‘ کا اعلان کررہے ہیں۔ اس فن کا کون سا شعبہ ایسا ہے جس کی تحقیق کا مدار قوت، انرجی، قانون، فطرت، مادۂ رشتہ علت و معلول اور ایسے ہی دوسرے امور کے اقرار و اثبات پر نہیں؟ کون سا عالم طبیعیات ایسا ہے جو ان چیزوں پر ایمان نہیں رکھتا؟ اب ذرا کسی بڑے سے بڑے حکیم سے جا کر پوچھیے کہ ان میں سے کس کی حقیقت وہ جانتا ہے؟ کس کی کنہہ تک اس کے حواس پہنچ سکے ہیں؟ کس کے نفسِ وجود کا تجربہ و مشاہدہ اس نے کر لیا ہے؟ اور کس کے موجود ہونے کا حقیقی ثبوت وہ پیش کر سکتا ہے؟ پھر یہ غیب پر ایمان نہیں تو کیا ہے؟‘‘

پھر مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’ان الفاظ کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں صرف وہی بات مانی جاتی ہے جس کا تمام انسانوں نے تجربہ و مشاہدہ کیا ہے، اور جو نوعِ انسانی کے تمام افراد کے لیے شہود و حضور کا مرتبہ رکھتی ہے۔ لیکن یہ ایسی بات ہے جو کسی مردِ عاقل کی زبان سے نہیں نکل سکتی۔ اس لیے کہ یہ بالکل بدیہی امر ہے کہ تمام انسانی معلومات افرادِ انسانی کو فرداً فرداً حاصل نہیں ہیں، بلکہ ان کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے، جس میں مخصوص جماعتوں اور مخصوص افراد کو اختصاص کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ ان خصوصی معلومات کا ہر شعبہ صرف اپنے مختص عالموں کے لیے حاضر اور باقی تمام انسانوں کے لیے غائب ہوتا ہے، اور جمہور کو اس شخص یا اس گروہ پر ایمان بالغیب لانا پڑتا ہے، جو اس شعبے کا عالم ہو‘‘۔

مولانا نے لکھا: ’’تیسرا مفہوم اس قضیۂ کلیہ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمانے کا ہر شخص صرف وہی بات مانتا ہے جو اس کے ذاتی تجربے یا مشاہدے میں آئی ہو، اور ایسی کسی بات کو نہیں مانتا جو خود اس کے لیے غیب کا حکم رکھتی ہو، لیکن یہ ایسی بات ہے کہ اس سے زیادہ مہمل کوئی بات انسانی دماغ سے نکل نہیں سکتی۔ اس صفت کا نہ کوئی آدمی کبھی پایا گیا ہے، نہ آج پایا جاتا ہے، نہ قیامت تک اس کے پائے جانے کی اُمید ہے۔ اور اگر وہ فی الواقع کہیں موجود ہے تو اس کی نشان دہی کرنے میں ہرگز تامل نہ کرنا چاہیے، کیونکہ ’انکشافاتِ حاضرہ‘ میں یہ انکشاف سب سے اہم ہوگا‘‘۔

’’ خود تجربہ و مشاہدہ اس پر گواہ ہے کہ یہ زمانہ بھی اسی طرح ’یومنون بالغیب‘ کا ہے جس طرح گذشتہ زمانہ تھا، اور’ ایمان بالغیب‘ جس چیز کا نام ہے، اس سے انسان کو نہ کبھی چھٹکارا ملا ہے، نہ مل سکتاہے۔ ہرشخص اپنی زندگی کے ۹۹۹فی ہزار بلکہ اس سے زیادہ معاملات میں ایمان بالغیب لاتا ہے اور لانے پر مجبور ہے۔ اگروہ یہ عہد کر لے کہ صرف اپنے تجربے و مشاہدے پر ہی ایمان لائے گا تو اس کو معلومات کا وہ تمام ذخیرہ اپنے دماغ سے خارج کر دینا پڑے گا، جسے دوسروں پر اعتماد کر کے اس نے مقامِ علم و یقین میں جگہ دی ہے۔ اکتساب علم کے ان تمام ذرائع کا مقاطعہ کردینا پڑے گا جو خود اس کے اپنے تجربے و مشاہدے سے ماسویٰ ہیں ،اور یہ ایسی حالت ہو گی جس میں وہ زندہ ہی نہ رہ سکے گا، کجا کہ دنیا کا کوئی کام کر سکے۔ درحقیقت ایمان بالغیب کی کلّی نفی اور ایمان بالتجربہ والشہود کا کلّی اثبات نہ اس زمانے میں ممکن ہے اور نہ اس سے زیادہ روشن کسی زمانے میں ہونے کی توقع ہے۔ لامحالہ ہر زمانے اور ہر حالت میں انسان مجبور ہے کہ اپنے ذاتی تجربے و مشاہدے کے بغیر بہت سی باتیں محض دوسروں کے اعتماد پر مان لے۔ کچھ باتیں اس کو خبر متواتر کی بنا پر ماننی پڑتی ہیں، جیسے یہ کہ سنکھیا کھانے سے آدمی مر جاتا ہے، درآنحالیکہ ہر شخص نے نہ خود سنکھیا کھا کر اس کا تجربہ کیا نہ کسی کو کھا کر مرتے ہوئے دیکھا۔ کچھ باتوں کو ایک یا چند معتبر آدمیوں کی روایت سے مان لینا پڑتا ہے، جیسے عدالتوں کا شہادت پر اعتماد کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو قانون کی مشین ایک لمحے کے لیے بھی حرکت نہ کرسکے۔ کچھ باتیں صرف اس بنا پر تسلیم کرنی پڑتی ہیں کہ ان کو ایک ماہر فن کہہ رہا ہے۔ یہ حالت ہر مدرسہ اور ہر کالج میں ہر طالب علم پر گزرتی ہے۔ اگر وہ اپنے فن کے اکابر علما و ماہرین کی تحقیقات اور ان کے اکتشافات و نظریات پر ایمان بالغیب نہ لائے تو علم کے میدان میں ایک قدم بھی آگے نہیںبڑھ سکتا اور نہ کبھی ترقی کرکے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے، جہاں وہ خود ان علما و ماہرین کی طرح حقائق علمیہ کی تحقیق کرنے کے قابل ہو‘‘۔

’’اس سے ثابت ہوا کہ ہم ان تمام معاملات میں دوسروں پر ایمان بالغیب لاتے ہیں اور لانے پر مجبور ہیں جن میں ہم نے اپنے ذاتی تجربہ و مشاہدہ سے اکتسابِ علم نہیں کیا ہے اور دوسرے لوگوں نے کیا ہے۔ اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے اور اسی پر فیصلے کا انحصار ہے کہ کس معاملے میں کس پر ایمان بالغیب لانا چاہیے؟‘‘ اصولاً یہ بات ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ ایسے ہر معاملے میں صرف اس شخص یا جماعت پر ایمان لانا چاہیے جس کے متعلق ہم کو یہ اطمینان ہو کہ اسے اس معاملے کا بہتر علم حاصل ہے اور اس کے پاس اس کے جاننے کے بہتر ذرائع موجود ہیں۔ اسی قاعدہ کلیہ کے ماتحت ایک مریض ڈاکٹر کو چھوڑ کر وکیل سے مشورہ نہیں کرتا اور ایک اہل مقدمہ وکیل کو چھوڑ کر انجینئر کے پاس نہیں جاتا۔ لیکن الٰہیات و روحانیت کے مسائل میں یہ اختلاف واقع ہوتا ہے کہ آیا ان میں علمائے فلسفہ و ماہرین علومِ عقلیہ کی رائے تسلیم کی جائے، یا عالم انسانی کے مذہبی و روحانی پیشوائوں کی؟ خدا اور ملائکہ، وحی و الہام، روح اور حیات بعد الموت، عذاب و ثوابِ آخرت اور ایسے ہی دوسرے امورِ غیب میں کانٹ اور اسپنسر، آئین سٹائین اور برگسان جیسے لوگوں کی بات مانی جائے یا ابراہیم، موسیٰ اور محمد علیہم السلام جیسے بزرگوں کی؟ ’’حُریت فکر و ضمیر‘‘ کے مدعیوں کا رجحان پہلے گروہ کی جانب ہے اور وہ انھی کی مہیا کی ہوئی کسوٹی پر گروہِ ابنیا کی باتوں کو کس کر دیکھتے ہیں۔ جو باتیں اس کسوٹی پر کھری نکلتی ہیں انھیں مان لیتے ہیں، اس لیے نہیں کہ انبیا علیہم السلام نے کہی ہیں، بلکہ اس لیے کہ حکما و فلاسفہ نے ان کو شرفِ قبول عطا کیا ہے۔ اور بدقسمتی سے ایسی باتیں بہت ہی کم بلکہ بالکل نہیں ہیں۔ اور جو باتیں اس کسوٹی پر کھوٹی نکلتی ہیں، ان کو وہ غیر معتبر قرار دے کر رد کردیتے ہیں۔ برعکس اس کے ’قدامت پرستوں‘ اور ’اسلاف پرستوں‘ کا مسلک یہ ہے کہ نہ طبیعیات و عقلیات کی باتیں الٰہیات و روحانیات والوں سے پوچھو، اور نہ اس کے برعکس الٰہیات و روحانیت کی باتیں عقلیات و طبیعیات والوں سے۔ دونوں کے دائرے الگ الگ ہیں، اور ایک علم میں دوسرے علم کے ماہر کی رائے دریافت کرنا بنیادی غلطی ہے‘‘۔

میں ذاتی طور پر حضرت نیاز کی نوتراشیدہ اصطلاح ’یومنون بالتجربہ والشھود‘سے متاثر تھا، لیکن مولانا مودودی کے اس محکم اور مدلل تجزیے کے بعد میرے نزدیک یہ اصطلاح بدنیت ذہن کی پُرپیچ ترکیب اور شرارتِ محض ہو کررہ گئی۔

مغرب سے مرعوبیت کا رَد

ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان جو اتفاق سے مسلمان بھی تھے۔ چین و جاپان کی سیاحت کے دوران سؤر کا گوشت کھاتے ہوئے واپس آئے، اور پھر ہم وطن مسلمانوں کو بھی اس لذت میں شریک کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ انھوں نے اپنے سفر نامے میں لکھا کہ مذہب عبادت کی حد تک تو ایک جائز بات ہے، لیکن کھانے پینے کی اشیا میں مداخلت، سراسر زیادتی ہے۔ بقول حضرت سیاح کھانے کی میز کے آداب اور مذہبی احکام میں کوئی فطری ربط موجود نہیں ہے۔ چنانچہ اسلام کی ترقی اگر مقصود ہے تو ان ناروا پابندیوں کو ختم کرنا ہو گا۔ ’مسلمان‘ سیاح نے اس بات پر زبردست حیرت کا اظہار کیا کہ چین و جاپان کی خوش و خرم مخلوق جس کا شمار بھی ممکن نہیں۔ چند برسوں کے بعد کیوں جہنم کا ایندھن بن جائے گی؟ صرف اس لیے کہ وہ اچھے انسان، شراب اور سؤر کے گوشت جیسی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان سیاح صاحب نے یہ بھی لکھا کہ عیسائیت کی ترقی کا راز   یہ ہے کہ وہ اس قسم کی ناروا پابندیوں اور فضول بندشوں پر ایمان نہیں رکھتے۔ چنانچہ انھوں نے فتویٰ دیا کہ ’’میں سؤر کے گوشت کے معاملے میں اہل یورپ اور اہل چین کے نومسلموں کے ساتھ ڈھیل دینا پسند کرتا ہوں‘‘ اور یہ کہ ’’قرآن سے بھی مجھے اس کے قطعی حرام ہونے میں شک ہے۔‘‘

اس قسم کی بے سروپا تحریریں شاید اُس زمانے میں عام ہوں۔ بہرحال تعجب کی بات ہے کہ اس قدر دیدہ دلیری سے قرآن شریف پر’تنقید‘ ایک ’مسلمان‘ نے کی اور اس کا صحیح نوٹس سوائے مولانا کے کسی دوسرے باقاعدہ ادارے کی طرف سے سامنے نہ آیا۔ مولانا نے دسمبر۱۹۳۴ء کے  ماہ نامہ ترجمان القرآن میں اس جدید تعلیم یافتہ  نوجوان کی کج روی پر سیر حاصل تبصرہ کرنے کے بعد فرمایا:

’’مضمون نگار کی زیرنظر تحریر چشم بددُور، ان دونوں خصوصیات کی حامل ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے مضمون سے یہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ مسلم کی حیثیت سے کلام کر رہے ہیں یا غیرمسلم کی حیثیت سے؟ اسلام کے متعلق گفتگو کرنے والے کی دو ہی حیثیتیں ہو سکتی ہیں: مسلم ہو یا غیرمسلم۔ جو شخص مسلم کی حیثیت سے کلام کرے گا عام اس سے کہ وہ خوش عقیدہ (Orthodox) ہو یا آزاد خیال یا اصلاح طلب، بہرحال اس کے لیے لازم ہو گا کہ دائرہ اسلام کے اندر رہ کر کلام کرے، یعنی قرآن کو منتہائے کلام (Final Authority) سمجھے اور ان اصولِ دین و قوانین شریعت کو تسلیم کرے، جو قرآن نے مقرر کیے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ قرآن کی سند کو نہ مانے گا ،اور کسی ایسی بات میں کلام کی گنجایش سمجھے گا جو قرآن سے ثابت ہو، تو دائرہ اسلام سے باہر نکل آئے گا اور اس دائرے سے نکلنے کے بعد اس کی مسلمانہ حیثیت باقی ہی نہ رہے گی کہ وہ اس میں کلام کر سکے۔ رہی دوسری حیثیت یعنی یہ کہ بولنے والا غیرمسلم ہو تو اس حیثیت میں اسے پورا حق ہو گا کہ قرآن کے اصول اور اس کے احکام پر جیسی چاہے تنقید کرے، اس لیے کہ وہ کتاب کو منتہائے کلام نہیں مانتا۔ لیکن یہ حقیقت اختیار کرنے کے بعد اسے مسلم کی حیثیت سے گفتگو کرنے اور مسلمان بن کر مسلمانوں کو اسلام کے معنی سمجھانے، اور اسلام کی ترقی کے وسائل بتانے کا کوئی حق نہیں ہو گا۔ ایک صاحب ِعقل و شعور آدمی جب سوچ سمجھ کر اسلام کے متعلق گفتگو کرے گا، تو وہ سب سے پہلے یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ ان دونوں حیثیتوں میں سے کون سی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ پھر وہ جو حیثیت بھی اختیار کرے گا، اس کے عقلی شرائط کو ملحوظ رکھے گا۔ کیونکہ بیک وقت اپنے آپ کو مسلمان بھی کہنا اور قرآن کے مقرر کیے ہوئے اصول و قوانین پر نکتہ چینی کا حق بھی استعمال کرنا، قرآن کی سند میں کلام بھی کرنا اور مسلمان کو موعظۂ حسنہ بھی سنانا کسی عاقل کا فعل نہیں ہو سکتا۔ یہ نقیضین کو جمع کرنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص بیک وقت مسلم بھی ہو اور غیر مسلم بھی، دائرہ اسلام کے اندر بھی ہو اور باہر بھی‘‘۔

آگے چل کر فرمایا:’’مضمون نگار صاحب کی علمی قابلیت اور ان کی معقولیت کی طرف سے ہم اتنے بدگمان نہیں ہیں کہ ان سے یہ امید رکھیں کہ اگر وہ اسلام کے سوا کسی مسئلے پر کلام فرماتے تو اس میں بھی اس طرح دو مختلف حیثیتوں کو بیک وقت اپنے اندر جمع کر لیتے۔ ہم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ قیصر ہند کی عدالت میں بیٹھ کر قیصر ہند کے منظور کیے ہوئے قوانین پر نکتہ چینی کرنے کا حق استعمال فرمائیں گے۔ نہ ہم ان سے اس جرأت کی امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی مسلک فکر (School of Thought) کی پیروی کا دعویٰ کرنے کے بعد ان اصولوں پر مخالفانہ نکتہ چینی کریں گے جن پر وہ مذہب قائم ہے۔ لیکن طرفہ ماجرا ہے کہ اسلام کے معاملے میں انھوں نے دو بالکل مختلف حیثیتیں اختیار کی ہیں، اور یہ محسوس تک نہیں کیا کہ وہ باربار اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، مسلمانوں کا سا نام رکھتے ہیں، مسلمانوں کی زبوں حالی پر رنج فرماتے ہیں، اسلام کی ترقی کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو ’احسان‘ یعنی ’اصل دین‘ کا وعظ سناتے ہیں۔ دوسری طرف اس کتاب کے مقرر کیے ہوئے اصول اور قوانین پر نکتہ چینی بھی کرتے ہیں، جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے، اور جس کو آخری سند تسلیم کرنا مسلمان ہونے کی لازمی شرط ہے۔ قرآن ایک نہیں چار جگہ بالتصریح سور کے گوشت کو حرام قرار دیتا ہے، مگر آپ اس معاملے میں ڈھیل دینا پسند فرماتے ہیں، اور لطف یہ ہے کہ ڈھیل دینے کی یہ خواہش بھی ’ترقی ٔاسلام‘ کے لیے ہے۔ گویا ’ترقی ٔاسلام‘ کی فکر آپ کو قرآن سے بھی زیادہ ہے، یا کوئی اسلام، قرآن سے باہر بھی ہے جس کی ترقی آپ چاہتے ہیں‘‘۔

مولانا لکھتے ہیں: ’’قرآن فی الواقع انسان کے لیے کھانے کا مینو (Meno) تیار کرتا ہے، کھانے کی چیزوں میں حرام و حلال، خبیث و طیب کا فرق قائم کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ تم اپنے اختیار سے کسی شے کو حلال اور حرام قرار دینے کا حق نہیں رکھتے، مگر آپ کو اپنے حق پر اصرار ہے، اور خود قرآن کا یہ حق تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ وہ کھانے پینے میں مذہب کو دخل دے۔ قرآن، مذہب کو ان حدود میں نہیں رکھتا، جن میں سینٹ پال (نہ کہ مسیح ؈) کے متبعین نے اس کو محدود کیا ہے۔ وہ لباس، اکل و شرب، نکاح و طلاق، وراثت، لین دین، سیاست، عدالت، تعزیرات وغیرہ کے قوانین وضع کرتا ہے۔ مگر آپ اس قسم کی قانون سازی کو غلط سمجھتے ہیں، اس کو ’ترقی ٔاسلام‘ میں مانع قرار دیتے ہیں۔ اس پر الزام رکھتے ہیں کہ وہ انسان کوایک لاشۂ بے جان اور بے بس بچہ بنادیتا ہے، اور تجویز کرتے ہیں کہ مذہب اسی قدر ہونا چاہیے جس قدر عیسائیوں (دراصل پولوسیوں) نے سمجھا ہے۔ قرآن نے خود قوانینِ شریعت بنائے ہیں، اور ان کو’ حدود اللہ‘ سے تعبیر کرکے ان کی پابندی کا حکم دیا ہے۔ مگر آپ شریعت کی ان حدوں کو بیڑیوں (chains) سے تعبیر کرتے ہیں، اور سینٹ پال کی طرح مذہب کی توسیع و ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ ان بیڑیوں کو توڑ ڈالا جائے۔ قرآن کے نزدیک ایمان نجات کی پہلی اور لازمی شرط ہے، اور جو لوگ، خدا پر یقین نہیں رکھتے، ان کے متعلق وہ بالفاظ صریح کہتاہے کہ ’وہ دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے‘۔ خواہ وہ بے شمار ہوں یا شمار میں آ جائیں، خوش حال ہوں یا بدحال۔ مگرآپ کا یہ حال ہے کہ کافروں اور بت پرستوں کی بے شمار خلقت کو خوش و خرم و خوشحال دیکھ کر آپ کا دل گواہی نہیں دیتا کہ چند سال کے بعد وہ سب دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے اور آپ کو سمجھ میں نہیں آتا کہ انھوں نے خدا کی زمین کو معمور کر دینے کے سوا اور کون سا قصور کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن سے اتنا کھلاہوا اختلاف رکھتے ہوئے آپ مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں، اور مسلمان ہوتے ہوئے قرآن سے اختلاف کیوںکر کرسکتے ہیں؟ اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن سے اختلاف نہ فرمایئے اور اگر قرآن سے اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو دائرہ اسلام سے باہر کھڑے ہو کراختلاف کیجیے۔‘‘

اسلام کی تبلیغ اور غیر مسلموں کی طرف سے شکوک و شبہات رفع کرنے کے ضمن میں جو تحریریں اس سے پیشتر موجود تھیں ان میں مبلغین کا انداز اتنا پُراعتماد، جرأت آمیز اور جارحانہ نہیں تھا۔ اکثر اوقات یوں فرمایا گیا: ’’ہمارے دین میں ایسا ہی ہے۔‘‘ لیکن اس طرح کا استدلال غیرمسلموں کو قائل کرنے کے لیے کافی نہ تھا۔ معذرت خواہانہ انداز دورِ انحطاط کی مرعوبیت کا نتیجہ تھا۔ جب مجھے اعتماد سے بھرپور اور جرأت مندانہ طریق سے اپنے دین کی وکالت کا علم ہوا تو میرا سینہ خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہو گیا۔ میرے دل کے نہاں خانے میں مرعوبیت کا جو احساس چھپا ہوا تھا وہ یکسر غائب ہو گیا۔

ایھا الاخوان فی الاسلام

اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹:۱۰)،یعنی تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ باہمی محبت اور آفت کے اعتبار سے تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جب جسم کے ایک حصے کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو تمام جسم بے چین ہوجاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاکہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے سیسہ پلائی ہوئی عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کے لیے پشتی بان کا کام دیتا ہے۔ تمام اکنافِ عالم کے مسلمان، بھائی بھائی ہیں، نہ جغرافی حدود انھیں جدا کرسکتے ہیں اور نہ زبان اور رنگ کا اختلاف ان میں تفرقہ ڈال سکتا ہے۔پس تمام عالمِ اسلام ایک عمارت ہے یا ایک جسم کی مانند ہے جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

 جس طرح اہلِ اسلام ایک ربّ کی عبادت کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان کا شعور اور ان کا احساس بھی ایک ہے۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی(المائدہ ۵:۲)،یعنی نیکی اور تقویٰ کے معاملے میں ایک دوسرے کا ساتھ دو۔

اے بھائیو! ہم فلسطین کی ارضِ مقدسہ سے آئے ہیں، جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے اور جو مسلمانوں کا قدیم قبلہ ہے۔ اسی سرزمین میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسریٰ اور معراج کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ اس میں بہت سے مقدس مقامات اور اسلامی آثار موجود ہیں اور بڑے بڑے انبیاؑ، صحابہؓ ، شہدا اور اولیا کی متبرک یادگاریں واقع ہیں۔ ہم [آپ کے] اس ملک میں اس غرض سے آئے ہیں کہ اپنے ہندی مسلمان بھائیوں کو ان کا دینی فرض یاد دلائیں، تاکہ جس کام کا ہم نے بیڑا اُٹھایا ہے،اس میں وہ دل کھول کر ہماری مدد فرمائیں۔

یہ امر کسی مسلمان پر مخفی نہیں کہ فلسطین کی ارضِ مقدسہ صرف اہلِ فلسطین کے لیے مبارک نہیں بلکہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر باعث ِ برکت ہے۔ فلسطین کے مسلمان تو محض اس کےپاسبان ہیں اور اس بارے میں ان کا فرض ان کی تعداد کی مناسبت سے ہے۔ تعداد میں وہ صرف آٹھ لاکھ ہیں۔ درآں حالیکہ [غیرمنقسم] ہندستان کے مسلمان آٹھ کروڑ ہیں۔ اسی لیے اس سلسلے میں ان کی ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہے اور اس معاملے میں وہ اللہ تعالیٰ ، دُنیائے اسلام اور آیندہ نسلوں کے حضور میں جواب دہ ہوں گے۔ چنانچہ ان مقاماتِ مقدسہ کی امداد میں انھیں ایک دوسرے پر سبقت کرنا چاہیے۔

فلسطین کی مقدس سرزمین تیرہ سو برس سے اسلام کی آغوش میں پرورش پارہی ہے اور اس کے لیے قدیم زمانے سے مسلمانوں نے نہایت شان دار قربانیاں دی ہیں۔ فلسطین کا ملک نہ صرف دُنیائے اسلام کےمرکز میں واقع ہے بلکہ حجازِ مقدس کے قریب بھی ہے۔ اگر فلسطین پر کوئی آنچ آئی تو اس کا اثر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس شہروں پر بھی ضرور پڑے گا۔ اس لیے اے برادرانِ اسلام، آپ پر واجب ہے کہ آپ ایک دوسرے کی مدد کریں جیساکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے معاملات کی تنظیم کریں اور ایک واحد جسم کی مثل ہوجائیں، جیساکہ نبی علیہ السلام کا حکم ہے۔ مسلمانوں نے ایک دوسرے کی امداد کرنا چھوڑ دیا، اور اللہ کے احکام کی پیروی میں کوتاہی کی، اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے دُور جاپڑے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی جسم کے جوڑ ہل گئے، اور اس کے اعضا شل ہوگئے اور اسلامی عمارت کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں۔ ا ب اسلامی اقوام و ممالک اس قدر کمزور ہوگئے ہیں کہ دُنیا کی کمزور ترین قومیں بھی اسلامی ملکوں کو اپنے قبضے میں لے آنے کی ہوس رکھتی ہیں، اور ان کے مقدس مقامات میں بھی ان کے مقابلے پر اُتر آنے کی جرأت کرنے لگی ہیں۔

اگر مسلمانوں نے ایک دوسرے کی امداد میں کوتاہی کی تو ان کے تمام ممالک یکے بعد دیگرے اندلس کی طرح ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے، اور اس وقت مسلمانوں کو عدل کا استحقاق ہوگا اور نہ رحم کا: سُـنَّۃَ اللہِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝۲۳  (الفتح۴۸:۲۳) ’’یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے‘‘۔ہمیں اس بات کی قوی اُمید ہے کہ ہمارے ہندی مسلمان بھائی، جن کی دینی حمیت اور اسلامی احساس شہرئہ آفاق ہیں، اس مقصد کے حصول میں جس کے لیے ہم یہاں آئے ہیں ہماری اعانت میں سبقت کریں گے اور تمام دُنیائے اسلام کے لیے نمونہ ثابت ہوں گے۔ ہرایک مسلمان پر لازم ہے کہ ان بلادِ مقدسہ کی جو کہ اس وقت دُنیائے اسلام کی امداد کے محتاج ہیں، اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرے۔

؍اکتوبر ۲۰۲۲ء کی رات جب آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، دہلی سے تہاڑ جیل میں پانچ برسوں سے قید حریت لیڈر اور بزرگ کشمیری رہنما مرحوم سید علی گیلانی کے داماد ، الطاف احمد شاہ کے انتقال کی خبر آئی، تو شاید ہی کسی کو اس الم ناک خبر پر حیرت ہوئی ہو۔ قیدیوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے صرف پچھلے ایک سال میں یہ کسی سیاسی قیدی کی موت کا چھٹا واقعہ ہے۔ جن میں کشمیر سے جماعت اسلامی کے رکن غلام محمد بٹ، تحریک حریت کے صدر محمد اشرف صحرائی کے علاوہ مہاراشٹرا میں ماؤ نواز کمیونسٹوں کی حمایت کے الزام میں قید ۸۳سالہ پادری سٹن سوامی، ۳۳ سا ل کے پانڈو ناروتے اور ۳۸برس کے کنچن نانووارے شامل ہیں۔ افسوس کہ عدالتیں ، پولیس اور تفتیشی ایجنسیوںکے اس استدلال کو تسلیم کرتی ہیںکہ جیلوں میں علاج کی سہولیات موجود ہیں، اس لیے اس بنیاد پر ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ مگر جیل میں کس قدر علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں اور وہاں ڈاکٹروں کا رویہ کیسا ہوتا ہے، اس کا میں خود گواہ ہوں۔

تہاڑ ، جسے ایک ماڈل جیل کے بطور پیش کیا جاتا ہے، اس کی جیل نمبر تین میں واقعی ایک خوش کن ہسپتال ہے، جس کو ججوں اور معائنے پر آئے افسروں اور بعض اوقات غیر ملکی ٹیموں کو دکھا کر متاثر کیا جاتا ہے ۔ ۲۰۰۲ء میں جب نو روز تک دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انٹروگیشن بھگتنے کے بعد مجھے تہاڑ جیل منتقل کیا گیا ، تو داخلے کے وقت ہی جیل کے ڈاکٹروں کے رویے کا اندازہ ہوگیا تھا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں باقاعدہ پٹائی ہونے کے بعد، کاغذی کارروائی پورا کرنے کے لیے مجھے جیل آفس سے متصل ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا گیا، تو وہ ڈاکٹر بجائے میری حالت دیکھنے کے،  اُلٹا مجھ پر لگائے گئے الزامات دریافت کرنے لگا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں آفیشل سکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہوں، تو اس نے پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر مجھے بُرابھلا کہنا شروع کردیا۔

ڈاکٹر اور اس کے اسسٹنٹ پر لازم ہے کہ نئے قیدیوں کو سیل یا وارڈوں میں بھیجنے سے قبل ان کی طبی جانچ اور اگر وہ زخمی ہوں، تو اس کیفیت کا اندراج کرنا ہوتا ہے۔ میری ناک اور کان سے خون رس رہا تھا۔ جیل کے ڈاکٹر نے ان زخموں کو پولیس اور انٹروگیشن کے کھاتے میں ڈال کر مجھے دستخط کرنے کے لیے کہا۔ میں نے جواب میں کہا کہ ’’یہ خاطرمدارات چند لمحے قبل جیل آفس میں ہی ہوئی ہے، اس کا پولیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔

جیل نمبر تین کے اس ہسپتال میں ، جہاں الطاف شاہ کو کئی ماہ تک کینسر کا علاج کرنے کے بجائے بس درد روکنے کی ادویات دے کر واپس سیل میں بھیج دیا جاتا تھا۔ یہاں کی او پی ڈی کا بھی مَیں نے باربار مشاہدہ کیا تھا۔ اسٹتھ سکوپ لگاکر دیکھنا تو دُور کی بات ہے، ڈاکٹر قیدیوں کو دُور سے انھیں ہاتھ لگائے بغیر علاج تجویز کرتے ہیں۔ بجائے مریض سے ا س کی تکلیف کے بارے میں پوچھنے کے، وہ اس کے کیس کے بارے میں تفتیش کرکے، سزا ئیں بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی پوری اخلاقیات کا جیل کے ان ڈاکٹروں نے جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ علاج کے نام پر تمام مریضوں کو ایک ہی دوا دیتے تھے، چاہے پیٹ کا درد ہو یا نزلہ، زکام۔ ایک بار ہمارے وارڈ میں ایک قیدی کو شدید نزلہ ، زکام لاحق ہو گیا تھا اور دوسرے قیدی کو پیچش ہوگئی تھی۔ دونوں جب ہسپتال سے واپس جیل وارڈ میں آئے تو معلوم ہوا کہ ان کو ایک ہی طرح کی دوا دی گئی ہے۔

تہاڑ میں ایک رات میرے پیٹ میں سخت درد اٹھا کہ برداشت سے باہر ہوگیا اور کئی بار قے ہوگئی۔ جیل میں، رات کی ڈیوٹی پر مامور جیل حکام، بیرکوں اور وارڈوں کو بند کر کے جیل آفس میں جاکر آرام کرتے ہیں۔ میرے ساتھی قیدیوں نے شور مچاکر جیل آفس تک آواز پہنچانے کی کوشش کی۔ آدھے گھنٹے کے بعد ایک وارڈن آگیا اور بیرک کی سلاخوں کے باہر سے ڈانٹ کر پوچھا: ’’کیوں شور مچارہے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا:’’قیدی کی طبیعت خراب ہے‘‘۔ اس نے نام پوچھا۔ گیلانی کا نام سنتے ہی اس نے کہا کہ ’’مرنے دو‘‘ اور واپس چلا گیا۔ قیدیوں کو اس پر سخت صدمہ ہوا۔ تھوڑی دیرکے بعد بیرک میں موجود پچاس سے زائد قیدیوں نے دوبارہ چیخ پکار بلند کی۔ دراصل کچھ عرصہ قبل اسی وارڈ میں ایک قیدی کی رات کے وقت موت واقع ہوگئی تھی اور صبح سویرے پورے وارڈ کے قیدیوں کو سخت بُرا بھلا کہا گیا تھا کہ: ’’آپ نے جیل حکام کو کیوں آگاہ نہیں کیا؟‘‘۔جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہدایت دی تھی، کہ ’’ایسی صورت حال میں گلاپھاڑ کر چیخ پکا ر بلند کیا کریں، تاکہ آواز جیل کنٹرول روم تک پہنچے‘‘۔ ایک گھنٹے کے بعد دوسرا وارڈن، ڈاکٹر سمیت آگیا اور بیرک کھول کر مجھے ہسپتال میں داخل کروایا۔ اگلے روز پہلے والے وارڈن نے ہسپتال میں آکر معذرت کرتے ہوئے کہا: ’’میں سمجھ رہا تھا کہ یہ پارلیمنٹ حملہ کیس والا گیلانی (مرحوم عبدالرحمان گیلانی، جو اُن دنوں اسی جیل میں تھے، اور بعد میں بری ہوگئے) ہے۔ اس لیے اس نے دھیان نہیں دیا‘‘۔

پرانے سرینگر شہر کے خانقاہ معلی محلہ میں الطاف شاہ کے والد محمد یوسف شاہ، شیخ محمد عبداللہ کے دست راست اور ایک معروف تاجر تھے۔ سری نگر کے مرکز لال چوک میں’ فنتوش ہوزری‘ کے نام سے ان کی دکان تھی، جس کی نسبت سے بعدازاں الطاف احمد کو الطاف فنتوش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جب شیخ عبداللہ ’’محا ذِ رائے شماری‘‘ کی قیادت کررہے تھے، تو وہ ان کے ساتھ جیل بھی گئے۔ مذکورہ دکان میں پہلے ’ محاذِ رائے شماری‘اور پھر ’نیشنل کانفرنس‘کے لیڈروں غلام محمد بھدروائی، بشیراحمد کچلو، شیخ نذیر وغیرہ اپنی دوپہر یہیں پر گزارتے۔ الطاف شاہ ایک پختہ کار نیشنل کانفرنس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر زمانہ طالب علمی ہی میں وہ شیخ عبداللہ کے سحر سے اس وقت آزاد ہوگئے، جب نیشنل کانفرنس کے خلاف شہر سرینگر میں ہلکی سی کانا پھوسی بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوا کرتی تھی۔ شیخ عبداللہ کے علاوہ شہر کے چند علاقوں میں میرواعظ خاندان کا طوطی بولتا تھا اور یہ دونوں مل کر کسی تیسری قوت کو شہر میں پیر جمانے نہیں دیتے تھے۔ چونکہ دونوں ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہتے تھے ، ان کی ساری اساس غنڈا سیاست پر ہی ٹکی ہوئی تھی اور عدم برداشت ان کے کارکنوں میںکوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

۱۹۷۸ء میں جموں و کشمیر، اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کی ذمہ داری محمداشرف صحرائی کو سونپ دی۔ الطاف شاہ کو ۲۱سال کی عمر میں اس کا پہلا جنرل سیکرٹری بنادیا گیا۔ ۱۹۷۹ء میں جب اس تنظیم کا پہلا اجلاس گول باغ (حال ہائی کورٹ کمپلیکس) میں منعقد ہوا، تو اس میں تقریباًدس ہزار طلبہ نے شرکت کی۔ ۱۹۸۰ء میں اس تنظیم نے شیخ تجمل اسلام کی قیادت میں ایک اسلامی کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا، جس پر حکومت نے پابندی لگاکر اس کے منتظمین کو حراست میں لے لیا۔یہ الطاف احمد شاہ کی غالباً پہلی گرفتاری تھی۔ و ہ اس وقت کشمیر یونی ورسٹی کے شعبۂ تعلیم میں ایم اے کے طالب علم تھے۔ ان کو پہلے ادھم پور اور پھر ریاستی جیل میں رکھا گیا۔۱۹۸۱ءتک جمعیت بیشتر تعلیمی اداروں میں اپنی شاخیں قائم کر چکی تھی۔ اسی دوران جماعت میں یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ آگے چل کر یہ کہیں ایک متوازی تنظیم نہ بن جائے۔ ایک سال بعد جماعت اسلامی نے اسلامی جمعیت طلبہ کی انفرادی خودمختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کردیا۔ جب جمعیت نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا، تو جماعت نے اس طلبہ تنظیم میں موجود اپنی افرادی قوت کو واپس بلایا اور ان کو شعبۂ طلبہ کی ذمہ داری دی، ان افراد میں الطاف احمد بھی شامل تھے۔

میں نے پہلی بار ان کو غالباً اکتوبر ۱۹۸۳ءمیں دیکھا، جب اسکول کے امتحانات ختم ہوچکے تھےاور سوپور سے اپنے ننھیال سرینگر کے قدیمی علاقے مہاراج گنج آیا ہوا تھا۔ سرینگر سے شائع ہونے والے روزنامہ آفتا ب میں الطاف صاحب کے مضامین پڑھتا تھا۔ ان دنوں اسمبلی انتخابات کی مہم زوروں پر تھی ۔ شیخ عبداللہ کی وفات کے ایک سال بعد ’نیشنل کانفرنس‘ یہ انتخابات فاروق عبداللہ کی قیادت میں اور میرواعظ کی پارٹی ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کے اشتراک کے ساتھ لڑ رہی تھی۔ جماعت اسلامی نے زینہ کدل کی نشست سے الطاف احمد کو کھڑا کیاہوا تھا، جو شیروں کی کچھار میں پنجہ آزمائی کے مترادف تھا۔ ان دنوں مجھے وہاں گھر کے باہر کچھ شور سنائی دیا۔ ایک نوجوان دروازہ کھٹکھٹا کر لوگوں سے جماعت اسلامی کے نشان ترازو پرووٹ ڈالنے کی استدعا کر رہا تھا۔ ان سے علیک سلیک تو نہیں ہوئی، مگر میں نے دیکھا کہ گلی میں لوگ اس نوجوان کو گالیاں بک رہے تھے کہ وہ کیسے  شیخ عبداللہ کی پارٹی کی مخالفت کی جرأت کر رہا ہے۔مقامی مسجد کے پاس چند لوگ باتیں کر رہے تھے کہ یوسف شاہ صاحب جیسے شریف آدمی نے کیسی ناخلف اولاد کو جنم دیا ہے اور وہ کیسے اس کو برداشت کر رہے ہیں؟ اس الیکشن میںالطاف صاحب کو بس ۴۶۱ ووٹ ملے تھے۔

جیساکہ پہلے بتایا گیا ہے کہ ’فنتوش ہوزری‘کی دکان نیشنل کانفرنس وغیرہ کا گڑھ ہوا کرتی تھی، لیکن جب الطاف احمد نے کاروبار میں اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کیا تو یہ دکان جماعت اسلامی، پیپلزلیگ اور آزادی پسند کشمیری تنظیموں کے لیڈروں کا بھی ٹھکانا بن گئی۔ کمال یہ کہ یہ دکان دونوں متحارب خیالات کے لیڈروں کے مل بیٹھنے کا میٹنگ پوائنٹ بن گئی۔ الطاف احمد کی جان توڑ کوششوں سے سری نگرشہر شیخ عبداللہ اور ان کی نیشنل کانفرنس کے جادو سے آزاد ہوگیا۔

۱۹۸۶ءمیں جب ان کی شادی، محترم سیّد علی گیلانی کی تیسری بیٹی زاہدہ سے طے ہوئی، تو وہ کئی بار جیل کی صعوبتیں برداشت کرچکے تھے اور جماعت اسلامی کے سرگرم ارکان میں شامل تھے۔ اس رشتہ کی وجہ سے اگلے سال ۱۹۸۷ءکے ریاستی الیکشن میں ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا،کیونکہ ’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘ (MUF) کا اتحاد جو ’نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد‘ کے خلاف بنا تھا،اس نے علی گیلانی صاحب کو پارلیمانی بورڈ اور انتخابی مہم کا سربراہ بناکرا میدواروں کو منتخب کرنے کا کام سپرد کر دیاتھا۔ اس وقت حکومتی اتحاد کے خلاف ایک زبردست لہر چل رہی تھی۔ فاروق عبداللہ کے کانگریس کے ساتھ اتحاد نے شہر میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی تھی۔ بھارت میں اس امرواقعہ پر اتفاق رائے ہے کہ ان انتخابات میں بے تحاشا دھاندلیوں اور نتائج میں ہیر پھیر کی وجہ سے ہی ۱۹۸۹ءمیں عسکری تحریک کا جنم ہوا۔ الطاف احمد شاہ، شہر سرینگر میں انتخابی اسٹریجی کی کمان کر رہے تھے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ محمد یوسف شاہ (صلاح الدین) لال چوک حلقے سے انتخابی میدان میں تھے، اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کے سربراہ محمد یاسین ملک ان کے انتخابی ایجنٹ تھے۔

الطاف شاہ سے میری پہلی ملاقات کشمیر ہاؤس دہلی میں ۱۹۹۰ءمیں ہوئی، جب میں پڑھائی کے لیے دہلی میں مقیم تھا۔ ہمارے ایک رشتہ دار کشمیر یونی ورسٹی میں پروفیسر وجیہہ احمد علوی امریکا جا رہے تھے۔ انھوں نے مجھے شام کو کشمیر ہاؤس آنے کے لیے کہا، جہاں و ہ ٹھیرے تھے۔ انھی کے کمرے میں الطاف شاہ بھی ٹھیرے تھے، جو دہلی میں سفارتی اور میڈیا اداروں کو کشمیر کی خراب صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ کشمیر ہاؤس سے باہر کہیں رہایش چاہتے تھے۔ ڈنر کے بعد وہ میرے کمرے میں ہی مقیم ہوئے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے علیحدہ رہایش کا انتظام کرلیا۔ چند ماہ بعد جب وہ عیدکے لیے سرینگر جا رہے تھے، تو ایئر پورٹ پر ان کو گرفتار کرکے جموں کے ’جائنٹ انٹروگیشن سینٹر‘ (JIC) پہنچادیا گیا۔

انھی دنوں وہاںسیّد علی گیلانی کو بھی پہنچایا گیا تھا۔ ان کے سامنے الطاف شاہ کو پورے آٹھ ماہ تک ایک تاریک قبر نما ’سیل‘ میں رکھا گیا ۔ رُوداد قفس میں سید علی گیلانی لکھتے ہیں: ’’یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نوجوان اس قبر میں کیسے زندہ رہا؟ کسی جاندار شے کو ایک طویل عرصے تک سورج کی روشنی سے محروم رکھا جائے، تو اس کی جان دھیرے دھیرے نکلتی ہے ۔ جسم پھول جاتاہے اور اعضاء پر کائی جم جاتی ہے۔ پھر خودبخود اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔الطاف احمد شاہ صرف اس لیے اس مقتل سے زندہ لوٹ آیا کہ اللہ نے ابھی اس کی زندگی باقی رکھی تھی، ورنہ پروگرام تو یہی نظر آرہا تھا کہ گھٹ گھٹ کر، سڑ سڑ کر ، ایڑیا ں رگڑتے رگڑتے، وہ جان جانِ آفریں کے سپرد کردے‘‘۔

آٹھ ماہ تک اس اندھیری قبر میں رہنے کے بعد ان کو جموں سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔ جب ان کے والد اور بچے ملنے آئے، تو وہ الطاف شاہ کو پہچان ہی نہیں پا رہے تھے۔ ان کا بدن پھول چکا تھا اور آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں۔ اس لیے ان کی فیملی نے جموں ہی میں قیام کیا ، تاکہ ادویات اور خوراک کی فراہمی سے ان کی بحالی صحت کی کوشش کریں۔ غالباً چار سال اس جیل میں قید رہنے کے بعد ان کو اس زمانے میں رہائی ملی،جب حریت کانفرنس کی تشکیل ہورہی تھی۔

الطاف احمد شاہ اور حسام الدین ایڈووکیٹ دو ایسے اشخاص ہیں، جو سید علی گیلانی کے ساتھ حکمت کار اور منصوبہ ساز کے طور پر کام کرتے تھے۔ یہ دونوں کوئی شعلہ بیان مقرر تو نہیں تھے، مگر پلاننگ اوراسٹرے ٹیجی ترتیب دینا ان کا کمال تھا۔ الطاف شاہ اپنے آپ کو خاصے لو پروفائل میں رکھتے تھے۔ پورا اسیٹج وغیرہ ترتیب دے کر وہ خود پیچھے یا سامعین میں ہی بیٹھ جاتے تھے۔ ۲۰۰۳ء کے بعد جب کچھ کشمیری لیڈروںکو سیاسی ماحول حاصل ہو گیا تھا، تو ان کے مشورے پر سیّدعلی گیلانی نے اس کا بھر پور استعمال کرکے عوامی رابطہ مہم شروع کی۔ الطاف شاہ اس گھر گھر مہم کے آرگنائزر تھے۔ جس کے نتیجے میں پونچھ، راجوری اور جموں شہر سے لے کر گریز، اوڑی اورکرنا کے دُور دراز علاقوں تک علی گیلانی نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور مجالس میں تقاریر کیں۔

جب بارہمولہ میں ان کے میزبان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ، تو اس کے بعد سیّدعلی گیلانی رات کو کسی مسجد میں رکتے تھے۔ اس سے عوامی رابطہ کی اور راہیں نکلتی تھیں، کیونکہ ان کے ساتھ مسجد میں پورا محلہ یا کم و بیش قصبہ کے لوگوں کا ازدحام بیٹھتا تھا۔ ۲۰۰۸ء میں کشمیر کی سیاسی تحریک کو جو جہت ملی، تو یہ عوامی رابطہ مہم، اس کی ایک بڑی بنیاد تھی۔ پھر ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۴ءکی اسٹریٹ ایجی ٹیشن، جس کو کشمیر کا ’انتفادہ‘ کہا جاتا ہے، وہ اسی مہم کی پیداوار تھی۔ اس مہم کی کامیابی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اس بامعنی اُبھار سے بوکھلا کر ۱۵ستمبر ۲۰۰۴ءکو حسام الدین ایڈووکیٹ جیسے دانش ور اور محسن کو سرینگر میں ان کے گھر پر نامعلوم بندوق بردارو ں نے ہلاک کردیا۔ اس کے دو ماہ بعد ۷نومبر ۲۰۰۴ء کو الطاف احمد شاہ جب افطار کرنے کے بعدنماز مغرب ادا کرنے مسجد کی طرف جارہے تھے، انھیں فائر کرکے شدید زخمی کردیا گیا۔ان کے ایک پڑوسی ڈاکٹر نے بروقت طبی امداد دے کر خون روکنے کا کام کیا اور پھر سرینگر اور دہلی میں ڈاکٹروں کی اَن تھک محنت اور متعدد آپریشن کروانے کے ایک سال بعد وہ شفا یاب ہوگئے۔ ان دونوں پر قاتلانہ حملوں کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ لوگ سیّدعلی گیلانی صاحب کے قریب آنے اور کھل کر سرگرمیاں کرنے سے باز رہیں۔  علی گیلانی صاحب نے ۲۰۰۷ء میں اپنی تنظیم ’تحریکِ حریت کشمیر‘ بنائی تو اس کی تشکیل میں الطاف احمد شاہ نے مرکزی کردار نبھایا اور اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔

جب نوے کے عشرے میں بدبختی کے نتیجے میں ’العمر‘، ’حزب‘ اور ’جے کے ایل ایف‘ کے درمیان تنازعات نے سر اُٹھایا تو یہ الطاف احمد ہی تھے، جنھوں نے اپنے رابطوں سے معاملات کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دراصل ان کے قدرشناس ہرگروپ میں موجود تھے کہ جنھیں بُرے وقتوں میں الطاف صاحب نے مدد اور پناہ مہیا کی تھی۔ دُنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں کہ جس سے شکایت پیدا نہ ہو۔ غلام قادروانی، سیّدعلی گیلانی صاحب کو بہت عزیز تھے۔ پہلے اُن کو اور پھر  بعض دیگر احباب کو شکایت ہوئی کہ الطاف شاہ عام لوگوں اور گیلانی صاحب کے درمیان رکاوٹ پیدا کرتےہیں۔ وانی صاحب جب مایوس ہوکر کنارہ کش ہوئےتو کچھ مدت بعد نامعلوم دہشت گردوں نے ۴نومبر ۱۹۹۸ء کو انھیں بانڈی پورہ میں ہلاک کر دیا۔

لگتا ہے کہ ۱۹۹۰ءمیں جے آئی سی اور پھر ۲۰۰۴ء میں نامعلوم بندوق بردار جس مہم میں ناکام ہوئے، ’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی‘ ( این آئی اے) کے ذمہ داروں، تہاڑ جیل کے افسروں اور جیل ڈاکٹروں نے اس امر کو یقینی بنادیا کہ الطاف احمد شاہ اس دنیا سے کوچ کرجائیں۔ یکم اکتوبر ۲۰۲۱ء کو این آئی اے کی درخواست کے جواب میں رام منوہر لوہیا ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ میں درج ہے: ’’مریض ایک سے زیادہ اعضاء کی خرابی کے ساتھ شدید بیمار ہے، اس کو زندہ رکھنے کے لیے وینٹی لیٹر اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔ مریض کو آنکولوجی سپورٹ اور پی ای ٹی اسکین کی ضرورت ہے جو ہمارے ہسپتال میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے مریض کو اوپر بیان کردہ مرکز میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کی بیٹی روا شاہ آخری وقت تک ان کے علاج کی اپیل کرتی رہی۔

بی بی سی، لندن سے بات کرتے ہوئے روا شاہ نے بتایا تھا کہ’’ ڈاکٹروں نے بتایا کہ  اُن کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں،اور اب صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا، لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی‘‘ ۔ جیل کے ڈاکٹر مہینوں تک ان کو  پین کلر دے کر واپس سیل میں بھیج دیتے تھے ۔ جب ان کی طبیعت بگڑ گئی، تو پہلے ’دین دیال اپادھیائے ہسپتال‘ میں اور پھر دہلی کے ’رام منوہر لوہیا ہسپتال‘ میں منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ ’’کینسر ان کے جسم میں آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہے اور اُن کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں‘‘۔ روا شاہ اپیلیں کرتی رہیں کہ ’’میرے والد کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کیا جائے، جہاں سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے‘‘۔ دہلی ہائی کورٹ کے آرڈر پر جب ان کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیاتو اس وقت تک وہ کوما میں چلے گئے تھے۔

واضح رہے تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنمائوں یاسین ملک، شبیر احمدشاہ ، آفتاب شاہ عرف شاہد الاسلام اور انجینیر رشید سمیت متعدد کشمیری لیڈروں کو کئی عارضوں کا سامنا ہے۔ یاسین ملک کی اہلیہ اور ہمشیرہ ، شبیر احمد شاہ اور آفتاب شاہ کی بیٹیاں بھی آئے روز حکام سے اپیل کرتی رہتی ہیں کہ اْن کے علاج کی خاطر انھیں انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے یا کم از کم ان کا تسلی بخش علاج کرایا جائے۔ الطاف احمد شاہ کی کسمپرسی میں موت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان قیدی لیڈروں کی زندگیوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وہ موت کی لکیر پر چل رہے ہیں۔

  جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا، اس میں یہ نتیجہ معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے گی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت، زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے ۔ اس میدان میں جمے رہنے کے لیے ایمان، عزم اور ثابت قدمی چاہیے۔ دوبار انھوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے___انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ہندستان میں کشمیریوں کی ثقافتی و مذہبی شناخت، حکمران جماعت کی جانب سے مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنی تمام تر منفی صلاحیتیں مقبوضہ وادی پر ’ہندوتوا‘  نظریے کو مسلط کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے دنیا کی توجہ اس واقعے کی طرف دلائی تھی کہ ’’کلگام اور دیگر قصباتی اسکولوں میں بچوں کو بھجن گانے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘‘۔ بھجن گاتے ہوئے طلبہ و طالبات کی وڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر خاصی مشہور ہوئی اور مسلم تنظیموں کی جانب سے اس پر شدید احتجاج بھی کیا گیا۔

۳۰ کشمیری تنظیموں کی نمایندہ ’متحدہ مجلس علما‘ نے اس سرکاری عمل کی سخت مذمت کی اور کہا: ’’ ہندوتوا نظریات نئی نسل پر ٹھونسنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اوریہ منصوبہ کشمیری شناخت کو مٹانے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے‘‘۔ اس جماعت کے قائد میر واعظ عمر فاروق پچھلے تین سال سے بھارتی حراست میں ہیں۔ علما کی اس تنظیم نے یہ عندیہ بھی دیا کہ ’’قابض قوتوں کی طرف سے ڈرا دھمکا کر علما کو دبانے اور انھیں کمزور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جنھیں فوراً بند ہونا چاہیے‘‘۔ اوریہ کہ ’’بھارتی حکومت اپنے مظالم کا دائرہ وسیع تر کرنے میں مصروف ہے‘‘۔

کشمیر میں مسلم تنظیموں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے تحت صرف ستمبر ہی میں درجنوں قائدین پبلک سیفٹی کے ظالمانہ قانون کا نشانہ بن چکے ہیں۔ پاکستان نے ان اقدامات کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے بجاطور پر کہا ہے: ’’یہ غیر قانونی گرفتاریاں کشمیریوں سے ان کی جداگانہ مذہبی اور ثقافتی شناخت چھینے جانے کی ایک اور کوشش ہے‘‘۔

اسی طرح بی جے پی نے ریاست جموں و کشمیر کے وقف بورڈ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب سرینگر کی عیدگاہ بھی براہ راست غاصب سرکار کے قبضے میں ہے۔ یہ تاریخی میدان کشمیر میں نماز عید اور دیگر اجتماعی عبادات کے لیے پہچانا جاتا ہے۔ کُل جماعتی  حریت کانفرنس کے نائب چیئرمین شبیر شاہ نے جیل سے جاری ردعمل میں کہا ہے:’’ بی جے پی حکومت، کشمیریوں کے بنیادی مذہبی حقوق کو پامال کر رہی ہے‘‘۔ دیگر رہنماؤں کے مطابق ’’یہ قدم بھی بی جے پی کے اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے، جس کے ذریعے وہ کشمیر میں مسلمانوں کی تمام قابلِ احترام املاک پر قبضہ کرنے کی ہوس رکھتی ہے۔‘‘ ان املاک میں بزرگوں کے مزار بھی شامل ہیں۔

اس سلسلے میں ایک کشمیری صحافی نے بجا طور پر کہا ہے: ’’ مزارات پر حکومتی قبضے کو معمولی قدم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ان مزارات کی سیاسی اہمیت سے خائف ہے اور ان کے ساتھ وابستہ مذہبی تاثر کو ختم کرنا چاہتی ہے‘‘۔ مزید یہ کہ مزارات اور درگاہیں ہمیشہ سے کشمیر کے سیاسی اور ثقافتی منظر نامے کا جزو لاینفک رہی ہیں۔ یہ صرف عبادت کے مقام نہیں ہیں بلکہ وہ مقامات ہیں، جہاں عام مسلمان مل جل کر کوئی بات کر سکتے ہیں اور جنھیں چھین لینے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔

کشمیری ثقافت کے خلاف بی جے پی کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ پچھلے سو برسوں سے اُردو کو کشمیر میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن ۲۰۲۰ء میں بھارتی حکمران جماعت نے نئی قانون سازی کے ذریعے اردو کا یہ صد سالہ استحقاق ختم کرتے ہوئے ہندی، کشمیری، ڈوگری، اور اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی سرکاری زبان قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان کا رسم الخط بھی نستعلیق سے بدل کر دیوناگری کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ وادی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری و غیرعلانیہ طور پر یہ قدم اٹھایا جا چکا ہے۔

 ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیر کے غیر قانونی انضمام کے بعد کشمیریوں کو بے اختیار کرنے اور کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لیے ایسے اقدامات تسلسل سے جاری ہیں۔ ہندستانی آئین کا آرٹیکل ۳۷۰ ریاست کشمیر کو ہندستان میں ایک خصوصی حیثیت فراہم کرتاتھا۔ لیکن اس آرٹیکل کی معطلی کے بعد کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ہندستانی یونین میں ضم کر دیا گیا۔ یہ تمام کارروائی، اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی بھی فریق متنازعہ علاقے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کر سکتا، جو علاقے کے سیاسی و جغرافیائی حالات پر اثر انداز ہو سکے۔ اس غیر قانونی عمل کے بعد نئی دہلی حکومت نے انتہائی ڈھٹائی دکھاتے ہوئے وادی میں مکمل کرفیو نافذ کردیا، مواصلات کے ذرائع مسدود کر دیے اور بڑی تعداد میں سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔

  ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ستمبر ۲۰۲۲ءمیں جاری کردہ رپورٹ: ’قانون، کشمیریوں کا دشمن ہے‘  ہمیں بتاتی ہےکہ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے اب تک تین برسوں میں ’’بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے۔ وادی میں کھلم کھلا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاری ہے۔کشمیر کے شہری اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکتے۔ان کی جان و مال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ۔ انھیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے اور ان کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔انصاف تک ان کی رسائی ناممکن ہے۔ وادی میں صرف سرکاری ادارے کشمیری عوام کے خلاف کوئی بھی ظلم روا رکھنے اور ہر جواب دہی سے آزاد ہیں‘‘۔

بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے بھارتی حکومت، کشمیر کے انتظامی معاملات اور آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ کشمیریوں کو ہرلحاظ سے بے بس کر دیا جائے۔ اس دوران ڈومیسائل کا نیا قانون متعارف کروایا گیا ہے،جس کے تحت اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تک باہر سے آنے والے ۳۴لاکھ لوگوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل آرٹیکل ۳۷۰،اور۳۵-اے کے تحت بیرون کشمیر سے آنے والے کسی بھی شخص کو ڈومیسائل جاری کرنے پر پابندی تھی۔ یہ وہی مخصوص حربہ ہے، جو قبل ازیں اسرائیل بھی فلسطینی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے برت چکا ہے۔

اس سب کے ساتھ ساتھ مودی سرکار انتخابی حلقہ بندیوں کو بھی بدل رہی ہے، تا کہ انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ طاقت کے توازن کو ہندوؤں کے حق میں پلٹنے کے لیے مسلم علاقوں کی نمایندگی کم کر کے جموں کی نمایندگی بڑھائی جا رہی ہے۔ مئی ۲۰۲۲ءمیں بھارتی حدبندی کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کا منصوبہ جاری کیا گیا۔اس منصوبے کے مطابق کشمیر کی۹۰ رکنی پارلیمان میں جموں کی ۶ ، جب کہ کشمیر کی صرف ایک نشست کا اضافہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ اب ایوان میں جموں کی ۴۳، جب کہ کشمیر کی ۴۷نشستیں ہوں گی۔ اس منصوبے میں پوشیدہ بھارت کے مذموم عزائم کواس حقیقت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ۲۰۱۱ء میں ہونے والی ہندستان کی آخری مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی ۷۰ لاکھ، جب کہ جموں کی آبادی ۵۳ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ کشمیر کی موجودہ آبادی یقیناً اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔

ان نئی حلقہ بندیوں کا مقصد ایک ہی ہے: اپنی مرضی کے انتخابات کروائے جائیں اور پھر ساری دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ ’’حالات معمول پر آ چکے ہیں اور انتخابات نے اگست ۲۰۱۹ء کے حکومتی اقدامات کی توثیق کر دی ہے‘‘۔لیکن بجاطور پر کشمیری ان منصوبوں کے خلاف شدید مزاحمت کر رہے ہیں۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس تو آغاز سے ہی انتخابات کو بوگس کارروائی قرار دے کر مسترد کرتی آ رہی ہے، اور اب وہ سیاست دان بھی انتخابات کے خلاف کمربستہ ہیں جو روایتی طور پر بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتے اورانتخابات میں شریک ہوتے رہے ہیں۔تمام سیاسی حلقوں نے اس منصوبے کو ناقابل قبول اور انتخابی اصولوں کی’ایک مضحکہ خیز شکل‘ قرار دیا ہے۔ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے جولائی میں چیف الیکشن آفیسر نے اعلان کیا تھا: ’’ تمام ہندستانی شہریوں کو کشمیر میں ووٹ ڈالنے کی آزادی ہو گی چاہے وہ عارضی طور پر ہی کشمیر میں رہایش رکھتے ہوں‘‘۔

سوال یہ ہے کہ کیا مودی سرکار اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو پائے گی؟کیا کشمیریوں کی شناخت اتنی کمزور ہے کہ یوں زور زبردستی کے ذریعے مٹائی جا سکے؟اس کے برعکس حالات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ان اقدامات نے کشمیریوں میں پائے جانے والے غم و غصے میں مزید اضافہ کیا ہے ۔ غیر قانونی قبضے کی شکل میں جو ظلم کئی عشروں سے جاری ہے، اس کے خلاف مزاحمت کا جذبہ اور مضبوط ہوا ہے۔کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے بقول ’’کشمیر ایک آتش فشاں کی طرح کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے‘‘۔

’عہد نامہ جدید‘ ۱ کے مختلف حصوں کی تاریخِ تصنیف کا تعین، بائیبل کے علوم کے ماہرین کے لیے غیرمعمولی دل چسپی کا حامل رہا ہے، اور اسے ہر دور کے جدید عیسائی علما اور محققین نے تحقیق و توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ بے یقینی کے اس میدان میں دوہزار سال کی کوشش بھی کوئی حتمی جواب نہیں پیش کرسکی۔ ایک نئے قاری کو جب اس سوال سے سابقہ پڑتا ہے تو وہ اختلاف آراء اور ظن و تخمین کے اس حیرت کدے میں قدم رکھتے ہی وحشت زدہ ہوکر رہ جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب امریکی ہفت روزہ ٹائم (Time) کے شمارے (۲۳ جنوری ۱۹۹۵ء) میں جرمن ماہر آثارِ قدیمہ کارسٹن پیٹر تھائیڈی (Carston Peter Thiede، م:۲۰۰۴ء) کی اس تحقیق کا تعارف شائع ہوا، جس میں اس نے ’انجیلِ متی‘ (The Gospel of Matthews) کی تصنیف کا سال ۷۰ء کو قرار دیا ہے، تو اسے محض ایک رائے سمجھ کر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ اس محقق کا دعویٰ ہے کہ ’’متی کے سنِ تصنیف کے بارے میں مشہور قول، جو اسے ۸۰ء کی تصنیف قرار دیتا ہے، نظرثانی کا محتاج ہے‘‘۔ اس کے خیال میں ’اسے ۷۰ء کی تصنیف سمجھنا زیادہ قرین قیاس ہے‘۔

اس سلسلے میں اس کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے:

’انجیلِ متی‘ کے یونانی نسخے کے تین پُرزے، جنھیں ریورنڈ چارلس بوسفیلڈ ہولیٹ [م:۱۹۰۸ء] نے ۱۹۰۱ءمیں مصر کے قدیمی شہر کوپٹس سے دریافت کیا اور۱۹۵۳ء میں شائع ہوئے۔ یہ اس انجیل کے وہ قدیم ترین باقیات ہیں، جو ہمارے پاس موجود ہیں۔ یہ پُرزے اوکسفرڈ کے مگدلین کالج میں محفوظ ہیں۔ اور ’مگدلینی پرزے‘ (Papyrus Magdalen) کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ بمشکل چند مربع انچ کے برابر ہیں۔ ان پر متی کے باب ۲۶ کی کچھ آیات کے اجزا اب بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ تھائیڈی نے ان کے رسم الخط کو پہلی صدی عیسوی کے رسم الخط سے مماثل پاکر یہ استدلال کیا ہے کہ ’’یہ وہ رسم الخط ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے عہد ہی میں متروک ہونا شروع ہوگیا تھا۔ لہٰذا، اسے ۸۰ء کی تصنیف بتانا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ انجیل ۸۰ء میں لکھی گئی تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قدر جلد اس کا اتنا ابتدائی نسخہ مصر جاپہنچا ہو۔ لہٰذا، یہ بات زیادہ قرین قیاس ہوگی کہ یہ انجیل اس سے کم از کم دس برس پہلے لکھی گئی ہو‘‘۔ تھائیڈی کی اس تحقیق کے نتائج اس لیے اہم ہیں کہ ان کے درست ہونے کی صورت میں یہ امر ثابت ہوجائے گا کہ متی کی تصنیف کے وقت حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کے کئی چشم دید گواہ موجود تھے،اوران کے اصحاب کی زندگی میں شائع و رائج ہونے والی انجیل ظاہرہے کہ بڑی حد تک ثقہ ہوگی اور وہ سنی سنائی اور بے بنیاد روایت نہیں ہوسکتی، جیساکہ اب اکثر خیال کیا جاتا ہے۔

تھائیڈی کا استدلال ان نسخوں کے مخصوص یونانی رسم الخط کی جانچ پرکھ پر منحصر ہے۔ وہ خود بھی اعتراف کرتا ہے کہ ’’قدیم مخطوطات (Manuscripts)کی تاریخِ تصنیف متعین کرنے کا یہ طریقہ خطرات سے بھرپور ہے۔ تاریخ تصنیف طے کرنے کی غرض سے قدیم نسخوں کے تجزیئے (Dating Analysis)  کے لیے اب کیمیائی عمل کے نت نئے طریقوں سے مدد لی جاتی ہے، جو اپنی سائنسی خوبیوں کے باوجود حتمی نہیں ہوتے۔ رسم الخط کے راستے سے تاریخ تک پہنچنے کا تو ذکر ہی کیا، کیونکہ یہ تو کسی اعتبار سے بھی ایک معروضی تکنیک نہیں ہے۔ اب تک جن قدیم نسخوں کی کسی حد تک درست تاریخ متعین کی جاسکی ہے اس میں ریڈیو کاربن (Radio Carbon Dating) اور پوٹاشیم آرگون (Potassium Argon Dating) کے ذرائع کا بڑاہاتھ ہے۔۲  انھی طریقوں سے کسی قطعیت کے ساتھ ’مگدلینی پاروں‘ کی قدامت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا تھا، لیکن تھائیڈی نے اعتراف کیا ہے کہ ’’یہ مخطوطات اس قدر خستہ حالت میں ہیں کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی کیمیائی عمل کامتحمل نہیں ہوسکتا اور ان مخطوطات کے ضائع ہوجانے کا خطرہ ہے۔ لہٰذا، یہ سائنسی طریقے بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتے‘‘۔ اس لیے ان کی تاریخ تصنیف کے بارے میں یہ نئی رائے بھی ظن و تخمین کے درجے سے آگے نہیں بڑھتی۔

دراصل بائیبل کی کسی بھی تحریر کے بارے میں، خواہ وہ ’پرانے عہدنامے‘ کی ہو یا نئے کی، بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ اس کا سنِ تحریر کیا ہے، بلکہ بنیادی اہمیت ان سوالات کی ہے کہ:

       ۱-    کتاب کا مصنف کون ہے؟ (کیونکہ تحریر کی ثقاہت کا انحصار اس پر ہے)۔

       ۲-    کیا مصنف اپنی آنکھوں دیکھے واقعات بیان کر رہا ہے اور الہام کا مدعی ہے؟

       ۳-    اگر وہ کسی اور کی شہادت پر انحصار کر رہا ہے، تو اس صورت میں اس راوی کا حال اور اس کا عینی شاہد ہونا معلوم ہے یا نہیں؟

       ۴-    واقعے کے بیان کا انحصار ایک شخص پر ہے یا اس کی تائید کے لیے اضافی مواد موجود ہے؟

       ۵-    یہ سوالات تو تحریر کے بارے میں خارجی شہادت کو سامنے لاتے ہیں، جب کہ اس کے بعد یہ بھی دیکھا جائے گا کہ خود تحریر کا متن اس میں کیا دعویٰ کرتا ہے؟ (یعنی داخلی شہادت)۔

اگر ان سوالات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو ’انجیلِ متی‘ ، یکسر ناقابلِ اعتبار ٹھیرتی ہے۔ نہ تو اس کے مصنف کا نام معلوم ہے، نہ اس کے حالات (یعنی اس کا ثقہ یا غیرثقہ ہونا)، نہ وہ الہام کا دعویٰ کرتا ہے، نہ چشم دید واقعات بیان کرنے کا مدعی ہے ، اور نہ وہ کسی چشم دید راوی کا حوالہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ان تمام واقعات کی صحت کا انحصار انھی دوچار انجیلوں پر ہے، جو ہرباب اور ہرآیت پر ایک دوسرے سے کثرتِ اختلاف کی وجہ سے پکار پکار کرکہتی ہیں کہ یہ محض سنی سنائی باتیں ہیں۔

اور جب ہم اس کے متن پر غور کرتے ہیں تو تاریخی اغلاط، تضادات، غلط حوالوں اور خیال آرائیوں کی ایک دُنیا آباد پاتے ہیں۔ یہ جملہ معترضہ ضروری تھا تاکہ واضح ہوجائے کہ ’انجیل متی‘ کی صحت و اصلیت اور مبنی بروحی ہونے کا معاملہ یہاں زیرغور نہیں ہے، اور نہ وہ تھائیڈی کے دعوے کی صداقت پر منحصر ہے۔ بلکہ یہاں تو فقط ’متی‘ کی اس انجیل کا سنِ تصنیف زیربحث ہے، جو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ بہ فرضِ محال اگر یہ ثابت ہوبھی جائے کہ یہ انجیل، عہد ِ مسیح میں یا اس کے معاً بعدلکھی گئی، تو بھی اس انجیل کا الہامی اور مستند ہونا ثابت نہیں ہوگا۔

’انجیل متی‘ کے لکھے جانے کی درست تاریخ معلوم کرنے سے پہلے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ یہ انجیل ، اصلاً کس زبان میں لکھی گئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ آرامی زبان بولتے تھے، جو عبرانی (Hebrew) کی ایک شکل تھی۔ جب کہ متی کی انجیل کا قدیم ترین نسخہ، جو اَب موجود ہے، یونانی زبان میں ہے۔ اس کی دو ہی ممکن توجیہات ہوسکتی ہیں:

پہلی یہ ہے کہ یہ انجیل، اصلاً، یونانی (Greek) زبان میں لکھی گئی۔

دوسری یہ کہ اصلاً، یہ آرامی (Aramaic) زبان میں تھی، لیکن بعد میں اس کا ترجمہ یونانی میں کیا گیا اور اب اصل آرامی نسخہ معدوم ہوجانے کے بعد اس کا انحصار فقط یونانی ترجمے ہی پر رہ گیا۔

پہلی توجیہ ماننے کی صورت میں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں:

اس سے متن کی ثقاہت مزید مشکوک ہوجاتی ہے اور اس میں منقول حضرت عیسٰی ؑ کی تعلیمات کی روایت باللفظ کے بجائے روایت بالمعنٰی قرار پاتی ہے۔ یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ مصنف نے کہاں تک نفسِ مضمون کی حفاظت کی ہے، خاص طور پر زیرغور معاملے میں تو یہ شک اور بھی قوی ہوجاتا ہے ، کیونکہ یہاں نہ تو مصنف کا نام معلوم ہے، جو حضرت مسیحؑ کے آرامی زبان میں ادا کیے گئے اقوال کو یونانی میں منتقل کر رہا ہے اور نہ تاریخی معلومات میسر ہیں، جن سے اس کی قابلیت کا اندازہ لگایا جاسکے ۔ جس ’متی نامی‘ شخص کا خود متی کی انجیل میں ذکر ہے، اس کے حالات پڑھنے سے تو یہ امر تقریباً ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ اس قسم کی ادبی تصنیف کا اہل نہیں۔ ۳

دوسرے یہ کہ جس یہودی تہذیب کی کوکھ سے یہ نیا مسلک جنم لے رہا تھا، اس میں مذہبی صحیفوں کو عام طور پر عبرانی زبان میں محفوظ کیا جاتا تھا۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم انجیل متی کے بارے میں فرض کریں کہ وہ اس روایت کے علی الرغم ، یونانی میں لکھی گئی ہوگی، بالخصوص جب کہ پہلی صدی کے مسیحی مبلغوں کے مخاطب صرف آرامی بولنے والے اسرائیلی ہی تھے، اور انھیں غیرقوموں کو دعوت دینے سے صراحت کے ساتھ روکا گیا تھا۔

 تیسرے یہ کہ قدیم عیسائی بزرگ پیپیاس(Papias) ۴کا جو قول مؤرخ یوسی بیس (Eusebius) نے نقل کیا ہے ، اس کا انکار لازم آتا ہے حالانکہ یہ اس ضمن کی قدیم ترین خارجی شہادت ہے:

"Matthew compiled the Sayings in Aramaic language, and everyone translated them as well as he could. (Eusablus The History of the Church, Penguin Classics 1965, p339).

متی نے اقوال کو آرامی زبان میں جمع کیا اور ہرکسی نے اپنی استعداد کے مطابق بہترانداز میں اس کے تراجم کیے۔

عیسائی رہنما ارینیوس (Irenaeus) اور اوریگن (Origen) کی بھی یہی رائے ہے۔ معلوم نہیں ہوتا کہ اقوال سے پیپیاس کی کیا مراد ہے؟ لیکن غالب گمان یہی ہے کہ اس سے حضرت مسیح علیہ السلام کے اقوال مراد ہیں، جنھیں بعد میں ’اناجیل اربعہ‘ (جن میں انجیل متی بھی شامل ہے) کے مصنّفین نے اپنے رسائل میں موقع بہ موقع استعمال کیا ہے۔ لگتا ہے کہ اصل میں یہی وہ انجیل ہے، جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور جو حضرت مسیح علیہ السلام  کے ان اقوال کا مجموعہ تھی، جو مبنی بروحی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ تحریرہم تک نہیں پہنچ سکی، لیکن اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اوّل اوّل انجیل آرامی زبان ہی میں لکھی گئی۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ انجیل، جو یونانی میں ہے اور اس میں حضرت مسیح علیہ السلام  کے اقوال کے علاوہ بھی بہت کچھ اضافے ہوچکے ہیں۔ یہ حضرت مسیح علیہ السلام  کے بہت بعدوجود میں آئی اور یہ ان کی تعلیمات کو جاننے کا اوّلین ماخذ نہیں ہے ، بلکہ زیادہ سے زیادہ اس کو ایک ثانوی ماخذ کے طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔

اس صورت میں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ اگر یہ انجیل،اصلاً ، آرامی زبان میں تحریر ہوئی تو اس کا یونانی ترجمہ، جسے تھائیڈی ۷۰ء سے متعلق بیان کرتا ہے، ہرگز ۷۰ء کا تصنیف کردہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ قدیم مذہبی کتب اور صحائف کے بارے میں ان کے ماننے والوں کے رویے ہمارے سامنے ہیں۔ بالعموم ان کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کی شدید مخالفت ہوتی رہی ہے۔ بالخصوص ابتدائی دور میں تو اس طرح کی کسی بھی کوشش کو ہرممکن طریقے سے دبایا گیا ہے۔ یہودیوں نے صدیوں کے بعد جب سکندریہ میں ’عہدنامہ عتیق‘ کا پہلایونانی ترجمہ کیا ، جو ’نسخہ سبعینہ‘ ۵ (Septuagint) کے نام سے مشہور ہے، تو قدامت پسندوں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔  بعض یہودی ربی کہتے تھے کہ ’’جب یہ ترجمہ کیا گیا تو تین دن تک زمین پر اس کی نحوست کی وجہ سے اندھیرا چھایا رہا‘‘۔ دوسروں نے کہا کہ ’’یہ دن بنی اسرائیل کی زندگی میں ایسا ہی افسوس ناک تھا، جیسا وہ دن کہ جب انھوں نے موسٰی کی غیرموجودگی میں بچھڑے کی عبادت کی تھی‘‘۔ (میکنزی، قاموس، بائیبل، ص ۷۸۸)۔ اس ردعمل کی روشنی میں یہ امر خاصا مستعبد ہے کہ متی کی انجیل کا ترجمہ اتنے ابتدائی دو ر میں یونانی زبان میں کردیا گیا ہو۔

’انجیل متی‘ میں موجود داخلی شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مروج نسخہ یروشلم کی تباہی کے بعد لکھا گیا، جو ۷۰ء کا واقعہ ہے۔ عیسائی علما کا اس بات پر تقریباً اجماع ہے کہ ’انجیل متی‘، ’انجیل مرقس‘ کے بعد لکھی گئی اور یہ کہ ’انجیل مرقس‘ ۶۵ء سے ۷۰ء کے درمیان کسی وقت لکھی گئی۔اس وجہ سے بھی یہ کہنا درست ہے کہ ’انجیل متی‘ کا سنِ تصنیف ۷۰ء سے پہلے نہیں ہوسکتا۔ دوسرے الفاظ میں یہ انجیل حضرت مسیحؑ کےانتقال کے کم از کم چالیس برس بعد ضبط ِ تحریر میں آئی ہوگی۔

اس سے یہ تاثر نہ پیدا ہو کہ مسیحی علما کو کسی درجے یقین کے ساتھ یہ تاریخ معلوم ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ محض اٹکل کی بنیاد پر قائم ہے اور عیسائی مؤرخوں میں مختلف آراء متداوّل رہی ہیں جن میں سے بعض انجیل کو۱۰۰ء کی تصنیف قراردیتے ہیں ۔ یہاں پر یہ اضافہ بھی کر دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس نوعیت کے اختلافات ’انجیل متی‘ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ’عہدنامہ جدید‘ کی تمام کتابوں کا یہی حال ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کتب کی تاریخی صحت کا کوئی تقابل قرآنِ مجید، سنت یا حدیث سے نہیں ہوسکتا۔ اگر قواعد ِ روایت کی روشنی میں بغور دیکھا جائے تو ’تورات‘ اور ’انجیل‘ کی حیثیت ایک ضعیف روایت سے زیادہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی محققین کسی ایسی دریافت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہتے، جس سے ان مذہبی صحیفوں کی تاریخِ تصنیف دوچار سال پیچھے لے جائی جاسکے۔  ان صحیفوں کا یہی کمزور تاریخی پہلو اور ان کے مندرجات کا ناقابلِ اعتبار ہونا، اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ اللہ بندوں پر، اپنی مرضی ظاہر کرنے کے لیے، ہدایت کا ایک اور راستہ کھولتا اور اس کو ہرقسم کی تبدیلی، تحریف اور تغیر سے محفوظ رکھتا۔ مسیحی علما کو قرآن پر اس نقطۂ نظر سے تدبر کرنا چاہیے، لیکن افسوس ہے کہ انھوں نے ، محض تعصب کی وجہ سے، اپنے آپ کو ہدایت کے لیے ایسے بیش قیمت خزانے سے محروم رکھا ہے۔

حواشی

۱-    عہد نامہ جدید (New Testament) جسے اسلامی لٹریچر میں، ’انجیل‘ کہا جاتا ہے، دراصل اس الہامی کتاب کی موجودہ شکل کا نام ہے، جو قرآن کے بیان کے مطابق حضرت عیسٰیؑ پر نازل ہوئی۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے بقول:’ انجیل‘ دراصل نام ہے ان الہامی خطبات اور اقوال کا، جو مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت ِ نبی ، ارشاد فرمائے۔ وہ کلماتِ طیبہ آپؑ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کیے گئے تھے یا نہیں؟ اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعۂ معلومات نہیں ہے۔ ممکن ہے بعض لوگوں نے انھیں نوٹ کرلیا ہو، اور ممکن ہے کہ سننے والے معتقدین نے ان کو زبانی یاد کر رکھا ہو۔ بہرحال، ایک مدت کے بعد جب آنجناب علیہ السلام کی سیرت پاک پر مختلف رسالے لکھے گئے تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ ساتھ، وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسب ِ موقع درج کر دیئے گئے ، جو ان رسالوں کے مصنّفین تک زبانی روایات اور تحریری یادداشتوں کے ذریعے سے پہنچے تھے۔ آج متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کی جن کتابوں کو اناجیل کہا جاتا ہے ، دراصل انجیل وہ نہیں ہیں بلکہ انجیل حضرت مسیحؑ کے وہ ارشادات ہیں، جو ان کے اندر درج ہیں۔ ہمارے پاس ان کو پہچاننے اور مصنّفین سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتا ہے کہ مسیحؑ نےیہ فرمایا، یا لوگوں کو یہ تعلیم دی، صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزاء ہیں۔ قرآن انھی اجزاء کے مجموعے کو ’انجیل‘ کہتا ہے اور انھی کی وہ تصدیق کرتا ہے۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزاء کو مرتب کرکے قرآن سے ان کا مقابلہ کرکے دیکھے، تو وہ دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا، اور جو تھوڑا بہت فرق محسوس ہوگا، وہ بھی غیرمتعصبانہ غوروتامل کے بعد بآسانی حل کیا جاسکے گا۔ (تفہیم القرآن، جلداوّل، ص۲۳۲-۲۳۳)

۲-    Radio Carbon Dating نامیاتی مادوں میں تابکاری عناصر کے تناسب کو ناپنے سے، قدیم نسخوں اور دیگر اشیاء کی تاریخ متعین کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔ آثارِ قدیمہ کے میدان میں کاربن (۱۴) کے ذریعے سے بڑی حد تک درست تاریخیں معلوم کی گئی ہیں۔ اس طریقے کو Carbon Dating کہتے ہیں۔ تمام نامیاتی مادوں (یعنی جانوروں اور درختوں) میں کاربن کی دو شکلیں ایک متعین تناسب کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، ایک کاربن (۱۲) تابکاری نوعیت کا مادہ ہے، اوروقت کے ساتھ نامیاتی انحطاط (Decay) کے عمل کی وجہ سے اس کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس کے نامیاتی انحطاط کے عمل کی رفتار معلوم ہے۔ چنانچہ اگر ہم کسی قدیم شے میں کاربن (۱۲) اور کاربن (۱۴) کی مقدار کا تناسب معلوم کرلیں تو اس شے کی قدامت کا بڑی حد تک درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

۳-    متی کی علمی قابلیت کا جو شخص انجیل متی کا مصنف سمجھا جاتا ہے، اس کا ذکر ’عہد نامہ جدید‘ میں پہلی دفعہ اس طرح کیا گیا ہے: ’’یسوع نے وہاں سے آگے بڑھ کر متی نام کے ایک شخص کو محصول کی چوکی پر بیٹھے دیکھا اور اس سے کہا: میرے پیچھے ہولے، وہ اُٹھ کر اس کے پیچھے ہولیا (متی، باب ۹، آیت ۹)۔

       مفسرین نے اس پر بحث کی ہے کہ ’محصول لینے والا یہ متی ‘، عبرانی زبان کی ایسی استعداد اور تورات و صحف ِ انبیاءؑ کے فہم کے فن کی ایسی مہارت کا حامل نہیں ہوسکتا، جو ایک ادبی و علمی تصنیف کے لیے درکار ہے۔

۴-    پیپیاس (Papias of Hierapolis) قدیم ترین مسیحی مصنّفین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ ایشیائے کوچک [اناطولیہ، ترکی کا ایشیائی علاقہ] میں مقیم رہا اور ۱۳۰ء میں اس نے اپنی مشہور کتاب’شرح اقوالِ مسیح‘ تالیف کی، جس کے اجزاء آج بھی موجود ہیں۔ عیسائی مؤرخین کے مطابق اس نے حضرت مسیحؑ کے حواری اور ایک انجیل کے مصنف یوحنا سے تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ پیپیاس قدیم مسیحی بزرگوں کی اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے، جن کی تحریریں ایک زمانے تک ’عہدنامہ جدید‘ کی الہامی تحریروں میں شامل کی جاتی تھیں۔ ان میں پیپیاس کے علاوہ اوریگن (Origen)، کلیمنٹ (Ciement)، ہرمس (Hermas)، اگنیشیس (Ignatius)، پولیکارپ (Polycarp) اور دوسرے بزرگ شامل ہیں۔   ان تمام کے بارے میں خیال ہے کہ انھوں نے حضرت مسیحؑ کے کسی نہ کسی حواری کی صحبت پائی۔ مغربی مسیحی اصطلاح میں انھیں Apostolic Fathers کہا جاتا ہے۔ یہ گویا مسیحی تاریخ کے ’تابعین‘ ہیں۔

۵-    نسخہ سبعینہ (Septuagint) ’عہد نامہ قدیم‘ کا یونانی زبان میں پہلا ترجمہ ہے، جو سکندریہ کے یہودیوں نے ۲۵۰ ق م سے ۱۰۰ ق م کے دور میں عبرانی نسخے سے کیا۔ اس کی وجۂ تسمیہ یہ روایت ہے کہ اس کام میں ۷۰علماء نے حصہ لیا۔ یہودیوں کے نزدیک یہ مستند ترین تراجم میں سے ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی ’بھارتی جنتا پارٹی‘ کے زیر حکومت صوبوں میں گذشتہ کچھ مہینوں سے ایک نئی کارروائی شروع ہوئی ہے۔ جن مسلمانوں پر ذرا بھی شبہہ ہو کہ وہ حکومت مخالف احتجاج میں شامل ہوتے ہیں، ان کے گھر، دکانیں اور دیگر کاروباری مراکز مسمار کیے جا رہے ہیں۔ اور ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ انتخابی مہمات میں اس حکمت عملی پر بڑے فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہماری داغدار جمہوریت کا خاتمہ کیونکر ہوا تو میں کہوں گی کہ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک کمزور اور ناقص جمہوری نظام نے ببانگ دہل ایک ظالمانہ ہندو فسطائیت کا رُوپ دھار لیا، جسے عوام کے ووٹ کے ذریعے مکمل حمایت حاصل تھی۔ یوں لگتا ہے کہ اب ہمارے اوپر ہندو سادھوؤں کے بھیس میں غنڈے حکومت کر رہے ہیں اور یہ غنڈے مسلمانوں کو اپنا دشمنِ اوّل سمجھتے ہیں۔

ماضی میں بھی بھارتی مسلمانوں کو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی رہی ہے۔ ان کی نسل کشی کی گئی، بازاروں میں سنگسار کیا گیا، ان کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی، انھیں ریاستی حراست میں قتل کیا گیا، ان کو جھوٹے پولیس مقابلوں میں مارا گیا اور بوگس مقدمات میں قید بھی کیا گیا۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلانا انھی روایات کا تسلسل ہے۔ یہ حربہ حددرجہ ظالمانہ اور بہت ہی زیادہ ’مؤثر‘ پایا گیا ہے۔

اس سارے عمل کے بارے میں جس طرح لکھا اور پڑھا جا رہا ہے، اسے دیکھ کر بلڈوزر کے بارے میں یوں گمان ہوتا ہےکہ جیسے یہ کوئی ’خدائی خدمتگار‘ ہے جو ’گنہ گاروں‘ کو سزا دینے پر مامور کیا گیا ہے۔ ’دشمنوں کے لیے‘ تباہی کا پیغام بننے والے اپنے دیو ہیکل جبڑوں کے ساتھ یہ خوفناک مشین ایک ایسا دیوتا بن کر سامنے آئی ہے، جو دنیا میں ’شیطانی طاقتوں‘ [یعنی مسلمانوں] کو نیست و نابود کر کے رکھ دے گا۔ یہ مشین نئی، ظالم نسل پرست ہندو قوم کے لیے دیوتائوں کی طرف سے بھیجا ہوا کوئی اوتار بن گئی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی چندماہ قبل دورۂ ہندستان میں ایک بلڈوزر کے ساتھ تصویر بنوائی ہے۔ میں یہ نہیں مان سکتی کہ وہ اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اس حرکت سے کن حرکتوں کی توثیق ہو رہی ہے۔ وگرنہ کسی بھی ریاست کا سربراہ ایک سرکاری دورے پر ایسی عجیب حرکت کیوں کرے گا کہ بے وجہ کسی بلڈوزر پر چڑھ کر کھڑا ہو جائے اور پھر اس پر باقاعدہ تصویر بھی کھنچوائے؟

مودی حکومت کا اصرار ہے کہ یہ کارروائی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں کی جا رہی بلکہ سرکاری مشینری تو صرف غیر قانونی تعمیرات کو گرا رہی ہے، جسے ایک بلدیاتی مہم سمجھنا چاہیے۔ تاہم، یہ جواز اس قدر بھونڈا ہے کہ اس کے گھڑنے والے بھی جانتے ہیں کہ اس پر کوئی یقین نہیں کرے گا، مگر کسی کے یقین کرنے یا نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس کا مقصد ایک طبقے کا مذاق اُڑانا اور اس کی صفوں میں دہشت پھیلانا ہی ہے، ورنہ یہ بات تو حکومت بھی جانتی ہے اور ہربھارتی شہری بھی کہ ہمارے ہر شہر میں زیادہ تر تعمیرات یا تو غیر قانونی ہیں یا نیم قانونی حیثیت رکھتی ہیں۔

جب صرف بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں کے گھر بغیر کسی نوٹس، شنوائی یا حقِ اپیل کے گرائے جاتے ہیں، تو اس سے بہت سارے مقاصد یکبارگی حاصل ہو جاتے ہیں۔

یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف کبھی ایسی کارروائی نہیں کی جاتی۔ مثلاً ۱۶جون کو بی جے پی کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی فوج میں بھرتیوں کی نئی پالیسی کے خلاف شمالی ہندستان کے لاکھوں نوجوانوں نے پُرتشدد احتجاج کیا۔ٹرینوں اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی، سڑکیں بند کر دی گئیں اور ایک شہر میں تو بی جے پی کے مقامی دفتر کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ یہ احتجاج کرنے والے زیادہ تر غیر مسلم ہیںاس لیے ان کے گھر محفوظ رہیں گے۔

سابقہ دو انتخابات (۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء) میں بی جےپی نے کامیابی سے یہ باور کروا دیا ہے کہ اسے قومی سطح پر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ حقیقی طور پر یہ سارا معاملہ جو ہم دیکھ رہے ہیں، وہ مسلمانوں کو انتخابی عمل سے تقریباً باہر کرنے کے مترادف ہے، جس کے نتائج بڑے بھیانک ہوں گے۔ کیونکہ جب آپ کی انتخابی اہمیت ختم ہو جائے تو آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور آپ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بی جے پی کی ایک اعلیٰ عہدے دار کی جانب سے مسلمانوں کی انتہائی مقدس شخصیات کی توہین کے بعد بھی اس پارٹی کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا، نہ کوئی سنجیدہ تنقید کی گئی۔

احتجاج ہوئے تو ان کے نتیجے میں قوم مزید تقسیم ہوئی اور اس کا فائدہ بھی بی جےپی کو ہوا۔ توہین آمیز بیان جاری کرنے والی اس جماعت کی ترجمان کو پارٹی سے ’معطل‘ کر دیا گیا، لیکن ویسے جماعت کے حلقوں میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔اس کا سیاسی مستقبل اب مزید تابناک ہے۔

 جنگ میں یہ حکمت عملی اپنائی جاتی ہے کہ ہر وہ چیز خود تباہ کر دی جائے، جو دشمن کے کام آسکتی ہو۔ اسے Scorched Earth Policy (زمین سوز حکمت عملی) کہا جاتا ہے۔ آج ہر چیز اور ہرادارہ، جسے بنانے میں کئی سال لگے تباہ کیا جا رہا ہے۔نوجوانوں کی ایک نئی نسل اپنی تاریخ اور اپنے ملک کی ثقافتی پیچیدگیوں سے بے نیاز ایک پراپیگنڈا کے زیر اثر پروان چڑھ رہی ہے۔ ہندومسلم خلیج کے دونوں طرف موجود نفرت اُگلتے کردار اور یہ مبنی بر ظلم حکومت مل کر ۴۰۰ ٹیلی ویژن چینلوں، لاتعداد اخباروں اور رسالوں کے ذریعے نفرت کی وہ آگ اُگل رہی ہے، جو پورے نظام کو جلا کر راکھ کر دے گی۔

ہندو نسل پرستوں کا ایک انتہائی تشددپسند طبقہ پیدا ہوچکا ہے، جسے واضح طور پر بی جے پی کے لیے قابو میں لانا مشکل ہے، کیونکہ یہی طبقہ اس جماعت کی جڑ بنیاد ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر اب مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ ایک معمول بن چکا ہے۔ ہم ایسی بند گلی میں ہیں، جہاں واپسی کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ اس نظام کے خلاف سربستہ ہم جیسے لوگوں اور مسلمانوں کو اب صرف یہ سوچنا ہے کہ ہم اپنی زندگیاں کیسے بچا سکتے ہیں اور مزاحمت کیسے جاری رکھ سکتے ہیں؟

بڑی بدقسمتی سے ان سوالوں کا کوئی آسان جواب موجود نہیں کیونکہ اب بھارت میں ہر قسم کی مزاحمت، جس قدر بھی پرامن ہو، ایک جرم بن چکی ہےاور اس جرم کی سزا دہشت گردی سے بڑھ کر ہے۔

بھارت میں نسل پرست ہندو ایک لمبے عرصے سے نفرت آمیز نظریات کو عالمی سطح تک پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں راشٹریہ سوامی سویم سنگھ (آر ایس ایس)کی تابع بھارتی جنتا پارٹی کی بیرونِ ہند شاخیں اور دیگر ہم خیال تنظیمیں جیسے وشوا ہندو پریشد اور عالمی ہندو کونسل کافی مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ چنانچہ گذشتہ دنوں انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں پیش آنے والے واقعات اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ انھیں اب اپنے سیاسی نظریے ’ہندوتوا‘ کے فروغ کا خواب پُرتشدد طریقوں سے پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس خواب کی سرزمین اب ہندستان کی گلیاں نہیں، بلکہ دُور دراز ممالک کے شہر بھی ہیں۔

۱۷ ستمبر کو ہندو نوجوانوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے لیسٹر کی گلیوں میں جلوس نکالا اور مسلمانوں پر حملے کیے۔ ’جے شری رام‘ کا نعرہ اب نسل پرست ہندوؤں کے لیے ایک رجز بن چکا ہے، جو اقلیتوں پر حملے کے وقت بلند کیا جاتا ہے۔ یہ مذہبی تفاخر اور شاونزم کا وہ طاقت ور اظہار ہے، جو نہ جانے کب سے ہندو قوم پرستوں کا خواب رہا ہے۔

اس کشیدگی کے واقعات اتنے غیر متوقع بھی نہیں تھے۔ مئی میں اسی شہر لیسٹر کے ایک مسلمان بچے کو ہسپتال داخل ہونا پڑا کیونکہ ہندو نوجوانوں کے ایک گروہ نے اس پر بلا اشتعال حملہ کر دیا تھا۔اگست میں ہونے والے ایک کرکٹ میچ میں پاکستان کی ہندستان سے شکست کے بعد ہندو نوجوان ’پاکستان مُردہ باد‘کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور ایک سکھ پر حملہ کردیا۔ دوسرے میچ میں ہندستان کو شکست ہوئی تو بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے۔ ان واقعات کے جواب میں مسلم نوجوانوں نے بھی احتجاج کیا۔ مثلاً ایسے ایک واقعے میں کسی آدمی نے ہندوؤں کے مذہبی مرکز کے باہر نصب جھنڈے کو اُکھاڑ پھینکا تھا۔

تاریخی طور پر برطانیہ میں ہندو نسل پرستوں اور کنزرویٹو پارٹی کے درمیان سیاسی و سماجی اشتراک چلا آرہا ہے۔ ۲۰۱۶ میں لندن کے میئر کے انتخاب کے لیے بھی کنزرویٹو پارٹی کے اُمیدوار زیک گولڈسمتھ (Zac Goldsmith) نے اپنے مخالف لیبر پارٹی کے مسلم امیدوارصادق خان کو ہرانے کے لیے شہر کے ہندوؤں اور سکھوں کو مذہبی منافرت پر مبنی لٹریچر بھیجا تھا۔ پھر ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں یہ خبریں بھی عام تھیں کہ ہندو نسل پرست تنظیمیں، کنزرویٹو پارٹی اُمیدواروں کے حق میں مہم چلا رہی ہیں کیونکہ لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوبرین (Jeremy Cobryn) نے ۲۰۱۹ء میں کشمیریوں کے خلاف کریک ڈاؤن پرانڈین مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان میں سے بہت سی تنظیموں کا بی جے پی کےساتھ براہ راست رابطہ ہے۔ چنانچہ ان کے اقدامات بیرون ملک انتخابات پر اثر انداز ہونے کے مترادف سمجھے جا سکتے ہیں۔ تاہم، یہ مسئلہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں ہے بلکہ امرواقعہ ہے کہ ہندو انتہاپسندی کا ناسور پوری دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

  • وائٹ ہاؤس میں ایک سچا دوست: برطانیہ کی طرح امریکا میں بھی ہندو قوم پرستوں کی جانب سے، وہاں گورے نسل پرستوں اور دائیں بازو کے اسلام مخالف امیدواروں کی بھرپور حمایت کی جاتی ہے۔مثلاً ۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخابات میں یہ منظر سب نے دیکھا کہ ہندو تنظیمیں ریپبلکن امیدواروں کو جتوانے کے لیے ہندو رائے دہندگان پر اپنا پورا زور لگارہی تھیں۔

اس سے ایک سال پہلے ۲۰۱۵ء میں ایک ہندستانی امریکن لابی تنظیم ’ری پبلکن ہندو اتحاد‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تنظیم کے روح رواں شکاگو سے تعلق رکھنے والےایک تاجر شلبھ کمار ہیں، جو مسٹرمودی کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اس تنظیم نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بھرپور مدد کی اور تنظیمی ارکان نے اس مہم کے لیے دل کھول کر فنڈ دیئے۔ انتخابات سے قبل اس تنظیم کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’میری صورت میں، وائٹ ہاؤس میں ہندوؤں اور ہندستان کو ایک حقیقی دوست میسر ہوگا‘‘۔ صدارتی اُمیدوار ٹرمپ  نے مودی کی تعریف کرتے ہوئے انھیں ایک ’عظیم انسان‘ قرار دیا اور ہندو رائے دہندگان کو لبھانے اور اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ایک خصوصی ویڈیو پیغام بھی جاری کیا۔

۲۰۲۰ء کے انتخابات میں تو مودی نے باقاعدہ طور پر ٹرمپ کے ایک مہم کار کا فریضہ سرانجام دیا، اور جائیدادوں کی خریدوفروخت کے کاروبار سے سیاست میں قدم رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ دو مشترکہ انتخابی ریلیاں بھی نکالیں۔ ایک ریلی احمد آباد ، بھارت میں اور دوسری ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں نکالی گئی۔ دوسری ریلی میں مودی نے ملفوف لفظوں میں ٹرمپ کی حمایت تو کی، لیکن پھر فرطِ جذبات میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ نعرہ بھی لگا دیا کہ ’’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘‘۔

برطانیہ کی طرح امریکا میں بھی اب ہندو قوم پرست انتخابات سے آگے بڑھ کر سڑکوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ رواں سال کے اگست میں ہندستانی یوم آزادی کے حوالے سے امریکی شہر ایڈیسن، نیو جرسی میں ہونے والی پریڈ میں کچھ بلڈوزر بھی شامل تھے، جن پر وزیراعظم نریندر مودی اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کی تصاویر چسپاں تھیں۔ یاد رہے کہ ہندستان کے مختلف شہروں میں مقامی حکومتوں کی جانب سے مسلمانوں کے مکانات گرائے جارہے ہیں اور یہ بلڈوزر اس اندوہناک عمل پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیے پریڈ میں مظاہرے کی خاطر بلائے گئے تھے۔ تاہم،عوام الناس کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بننے کے بعد اس پریڈ کی منتظم ’بھارتی بزنس ایسوسی ایشن‘ نے اس عمل پر معذرت کر لی۔

  • کھلی دھمکیاں:کینیڈا میں بھی ہندو نسل پرست اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلا رہے ہیں۔ گذشتہ سال دسمبر میں ایک سکھ اسکول کے باہر سکھ مخالف نعرے لکھ کر، ساتھ ہی ہندو مذہب کا نشان سواستیکا بنا دیا گیا تھا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان ہندو نسل پرستوں کی جانب سے کینیڈین اساتذہ کو ہراساں کیا جاتا ہے اور مودی حکومت پر تنقید کرنے والے اساتذہ کو ہندو شہریوں کی جانب سے قتل اور ریپ کی دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔

جون میں ایک کینیڈین ہندو انتہا پسند رون بینر جی کی جانب سے کھلے عام مسلمانوں اور سکھوں کے قتل عام کا مطالبہ کیا گیا۔ ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بینرجی کا کہنا تھا: ’’مودی جی بڑا زبردست کام کر رہے ہیں۔میں جمہوریہ ہندستان میں مسلمانوں اور سکھوں کے قتل عام کی بھرپور حمایت کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ اسی قابل ہیں کہ انھیں مارا جائے‘‘۔

اسی طرح آسٹریلیا میں بھی ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کئی سکھوں پر پے در پے حملہ کرنے والا ایک ایسا ہی مجرم ویشال سود آخرکار گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اسے سزا سنا کر ڈی پورٹ کردیا گیا کیونکہ اس کے ویزا کی میعاد ختم ہوچکی تھی۔ جب یہ آدمی واپس بھارت پہنچا تو ایک قومی ہیرو کی طرح اس کا استقبال کیا گیا۔

آسٹریلیامیں موجود بھارتی حکام کی جانب سے بھی نریندر مودی اور اس کی انتہا پسندانہ پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یونی ورسٹی آف میلبورن کے ’آسٹریلیا-انڈیا انسٹی ٹیوٹ‘ سے تیرہ اساتذہ استعفیٰ دے چکے ہیں، کیونکہ بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے ان کے کام میں مداخلت کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق بھارت کا منفی رخ دنیا کے سامنے لانے والی ان کی تحقیقات اور تصانیف کو سینسر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

  • وجہ کیا ہـے؟: اس میں کلام نہیں کہ عالمی سطح پر ہندو انتہا پسندی کا عروج ہر حوالے سے بھارت میں مودی کے عروج کے ساتھ منسلک ہے۔ ۲۰۱۴ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی کی نگرانی میں اب تک ایک انتہائی متنازع شہریت کا قانون پاس ہو چکا ہے، جو صریحاً مسلمان پناہ گزینوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کو آئینی طور پر ملنے والی خودمختاری ختم ہو چکی ہے اور ۱۹۹۲ء میں ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے شہید کی جانے والی ایک مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کے رہنماؤں، سیاسی کارکنوں اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں بھی جاری ہیں۔

مودی نے ہندوتوا کی بنیاد پر ہندستانیوں سے جو وعدے کیے تھے، انھیں پورا کر دکھایا ہے اور یہی چیز بیرون ملک موجود ہندوؤں کے حوصلے بلند کرنے اور ان کے اندر ایک احساس تفاخر کو بیدار کرنے کا باعث بن رہی ہے۔

دوسری جانب اس سلسلے میں دیگر عالمی رہنما بھی برابر قابل تعزیر ہیں، جنھوں نے مودی کو نہ صرف قبول کیا ہے، بلکہ بیرونی ممالک میں موجود ہندو انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ  ان کے متعصب نظریات کے لیے عالمی سطح پر گنجایش موجود ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر سابقہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن تک، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور برازیلی صدر جئیر بولسونیرو  سمیت کئی سیاست دانوں نے مودی کو اپنا ’دوست‘ قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ بظاہر دائیں بازو کی طرف جھکاؤ نہ رکھنے والے سیاست دان بھی بھارت کے ساتھ تجارتی اور اسٹرے ٹیجک تعلقات قائم کرنے کے لیے مودی سرکار کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔

  • ہندوتوا کا مستقبل؟ :اسلاموفوبیا کا معاملہ اب ہندستان کی سیاسی اور خارجہ پالیسیوں کا محور بن چکا ہے۔ تاہم، اب یہ ضروری ہے کہ ان واقعات کو خطرے کی گھنٹی سمجھا جائے۔ ہندو قوم پرستی کو محض ایک بھارتی مسئلہ سمجھتے ہوئے اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تحریک اب عالمی سطح پر پھیل رہی ہے اور دیگر ممالک میں بھی بہ تدریج پُرتشدد رُخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ تحریک اب اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ یہ پوری دنیا میں جمہوری اصولوں،مساوات اور انسانی حقوق کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ دہلی میں مودی حکومت کے ہوتے ہوئے ہندستان سے کوئی توقع رکھنا عبث ہے، دنیا کو اب خود ہی اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

اسلامی نظامِ تعلیم ایک ہمہ جہت تعمیری وانقلابی تعلیم کا خواہاں ہے جس کے جلو میں نہ صرف سیاسی ہنگامہ خیزی اور فکری آزاد روی پروان چڑھتی ہے بلکہ جو ہمہ نوع وہمہ جہت مثبت وتعمیری تبدیلیوں کا سبب وذریعہ بنتی ہے۔ اس کے بنیادی خدوخال پیش کرنا خود ایک طویل مقالے کا موضوع ہے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ اس کے چند اہم نکات پیش کیے جاتے ہیں:

  • لازمی و جبری تعلیم: اسلا م میں تعلیم لازمی ہے۔ تعلیم کی ہمہ جہت اہمیت کے پیش نظر اختیاری تعلیم کا اسلام کے ہاں کوئی تصور نہیں۔ تعلیم ہر ایک کے لیے ہے اور لازمی ہے۔ خواندگی ایسی چیز نہیں ہے جسے عوام کی مرضی پر چھوڑا جا سکے کیونکہ ناخواندہ افراد تو علم رکھتے ہی نہیں، ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ سب علم کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہوں گے۔ یہ فریضہ تو حکومت کا ہے کہ وہ ان کے سامنے تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کرے اور انھیں حصول علم پر آمادہ کرے۔ خصوصاً کسی اسلامی معاشرے میں ناخواندہ افراد قطعاً قابل قبول نہیں ہو سکتے۔۱  اس لیے آپؐ نے فرمایا کہ ’’علم کا حصول ہر ایک پر فرض ہے‘‘ ۔۲  آپؐ کے عہد مبارک میں ہر نومسلم کے لیے مختلف علوم کا جاننا ضروری تھاجس کے لیے مختلف افراد اور تعلیمی ادارے سرگرم تھے۔۳    حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاص طور پر خانہ بدوش بدوؤں کے لیے قرآن مجید کی جبری تعلیم کا نظام قائم کیا تھا اور اس کے لیے گشتی ٹیمیں مقرر کی تھیں۔۴  نیز ایسے گشتی تعلیمی دستے مقرر تھے، جو لوگوں کی تعلیمی صلاحیت کا جائزہ لیتے تھے اور ضرورت کے مطابق ایسے افراد کو اساتذہ کے سپرد کرتے تھے۔۵ 
  • مفت تعلیم: اسلام مفت تعلیم کا قائل ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تعلیم مفت تھی۔ آپؐ نے ہر مسلمان عالم پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ دوسروں تک علم پہنچائے۔۶  اس لیے کتمانِ علم پر شدید وعید بیان فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس سے علم کے متعلق کوئی سوال ہوا اور اس نے چھپایا تو اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت آگ کی لگام پہنائے گا‘‘۔۷   بعد کے دور میں بھی تعلیم مفت رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں نومسلموں کی تعلیم وتربیت کے لیے مختلف مکاتب قائم کیے جن کے معلمین کی تنخواہیں بیت المال سے ادا کی جاتی تھیں۔ اس دور میں سرکاری انتظام میں قرآن کریم کے علاوہ حدیث، سیرت وغزوات، فقہ،   ادب عربی، علم الانساب اور کتابت وغیرہ کی تعلیم مفت ہوتی تھی اور قرآن کریم کی تعلیم پانے والے   طلبہ کے لیے وظائف کا بھی انتظام تھا۔۸  حکومتی اہتمام کے علاوہ نجی طور پر اساتذہ بھی تنخواہ لینے سے گریز کرتے تھے اور عام طور پر معاوضے قبول نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے یزید بن ابی مالک اور حارث بن ابی محمد اشعری کو سفری معلّم مقرر کر کے ان کی تنخواہ مقرر کر دی۔ یزید نے تنخواہ قبول کر لی، حارث نے نہ کی۔ حضرت عمرؒ نے فرمایا کہ یزید نے جو کچھ کیا، اس میں کوئی خرابی نہیں، البتہ اللہ تعالیٰ حارث جیسے افراد کثرت سے پیدا کرے۔۹  
  • بچوں کی تعلیم:بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم کا انتظام کرنا درحقیقت خود اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے: ’’تم علم حاصل کرو۔ اگر تم قوم میں سب سے چھوٹے ہو تو کل دوسرے لوگوں میں (علم کی وجہ سے) تم بزرگ بن جاؤ گے‘‘۔۱۰  اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ نیز بچپن میں حافظہ قوی ہوتا ہے۔ حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے: ’’بچپن میں تعلیم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے پتھر پر نقش اور بڑھاپے میں تعلیم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے نقش بر آب‘‘۔۱۱  آپؐ نے والدین کو بچوں کی تعلیم کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’کوئی والد اپنے بچے کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم دے۔۱۲   مزید فرمایا: ’’آدمی کا اپنے بیٹے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے‘‘۔ ۱۳ 
  • معذوروں کی تعلیم: اسلام کی نظر میں کسی قسم کی کمی یا کمزوری کسی کے فرائض کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ ہاں، کسی پر بھی اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ تعلیم کے معاملے میں بھی اسلام کا یہ اختصاص وامتیاز ہے کہ اس نے جسمانی کمزوریوں کو حسن عمل وجہد مسلسل کی دولت سے چھپا دیا اور معذوروں سے وہ کارہائے نمایاں لیے کہ صحت مند افراد رشک کر اٹھے۔ اس کی سب سے اہم مثال حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی ہے، جنھیں یہ فخر وشرف حاصل ہے کہ آپؐ نے انھیں اپنی غیر موجودگی میں مدینہ منورہ جیسی اسلامی ریاست کے لیے اپنا قائم مقام مقرر کیا اور انھیں یہ شرف دس بار حاصل ہوا۔۱۴   ایک نابینا صحابی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا فریضہ، تعلیم وتربیت میں اعلیٰ مدارج طے کیے بغیر یہ مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ اسلام میں معذوروں کی قدر ومنزلت کا یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہردور میں اور ہر فن میں بڑے بڑے جلیل القدر نابینا علما گزرے ہیں۔۱۵  آج بھی معذوروں اور عام جسمانی صلاحیتوں سے محروم افراد کی تعلیم کا خاص اہتمام ناگزیر ہے۔
  • خواتین کی تعلیم:خواتین کے لیے ایسا انتظام ضروری ہے کہ جس کے تحت وہ اپنی بنیادی ضروریات کی تعلیم، خواہ وہ دینی ہو یا دُنیاوی، بسہولت حاصل کر سکیں اور ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ خواتین کی تعلیم کا سلسلہ خالص اسلامی ماحول میں اسلامی تعلیمات کی ادنیٰ مخالفت اور ان سے معمولی رُو گردانی کے بغیر بھی جاری رہے۔ آپؐ نے انھی مقاصد کے پیش نظر خواتین کی تعلیم کے لیے علیحدہ دن اور الگ مقام متعین فرمایا۔۱۶  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس سلسلے کو مزید وسعت ہوئی اور خواتین کے باقاعدہ الگ مدرسے قائم ہوئے۔۱۷  ان کے دور میں خواتین کی بھی جبری تعلیم رائج ہو گئی تھی۔۱۸ 

اسلام میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہے۔ یہ امر اس کا متقاضی ہے کہ صرف جامعات کی سطح پر نہیں بلکہ پرائمری کے بعد ہر درجے اور مرحلے میں طلبہ کے ادارے الگ اور طالبات کے ادارے الگ ہونے چاہییں جن میں صرف طلبہ وطالبات ہی الگ الگ نہ ہوں، اساتذہ بھی علی الترتیب مرد اور خواتین ہوں۔ یہ مطالبہ کوئی نئی چیز نہیں، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان نے ایک موقعے پر اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ان واہی باتوں کو مسلمان سننا بھی گوارا نہیں کرتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ تعلیم ہو۔ آج تک مشترکہ تعلیم کا کوئی ایسا فائدہ کسی نے بیان نہیں کیا ہے جو دل نشین ہو… ممکن ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد ایسے ہوں، جو مخلوط تعلیم کے موید ہوں مگر مسلمانوں کی ساری قوم اس کے خلاف ہے‘‘۔ ۱۹ 

  • تعلیمِ بالغاں:تعلیم بالغاں کی اہمیت مسلّم ہے۔ بڑی عمر کے بہت سے افراد محض اس سبب سے حصولِ علوم سے رہ جاتے ہیں کہ بچپن میں کسی مجبوری کے سبب سے وہ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ اسلام میں تعلیم کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ میں ایسے صحابہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں، جنھوں نے نہ صرف بڑی عمر میں علم حاصل کیا بلکہ مرتبۂ کمال کو پہنچے۔ یہ سلسلہ بعد کے زمانے میں بھی جاری رہا بلکہ قرآن کریم کو بڑی عمر میں حفظ کرنے کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’تم لوگ سردار بنائے جانے سے قبل علم حاصل کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے تو بڑی عمر میں علم حاصل کیا ہے‘‘۔۲۰  اس لیے ہمارے ہاں بھی تعلیم بالغاں کے حلقے قائم ہونے چاہییں جہاں بڑی عمر کے ناخواندہ افراد دینی معلومات اور دنیاوی ضروریات کا علم اپنی ضرورت کے مطابق بہ سہولت حاصل کر سکیں۔
  • غیرمسلموں کی تعلیم:ایک اسلامی ریاست میں اسلامی نظام تعلیم کی موجودگی میں کسی غیر مسلم کو یہ اندیشہ لامحالہ ہو سکتا ہے کہ اس کی تعلیمی ضروریات کا کون کفیل ہوگا؟ لیکن یہ اندیشہ بے جا ہے۔ ایک تعلیمی نظام کیا،اسلامی ریاست کے تو تمام امور ہی اسلامی نظام کے تحت چلتے ہیں مگر خود یہ نظام تمام غیرمسلموں کو ان کے مذہبی وتعلیمی معاملات میں مکمل آزادی دیتا ہے اور اس کی ضمانت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے معاہدے میثاق مدینہ میں غیر مسلموں کو دی ہے۔۲۱  اس لیے اسلامی نظام میں ان کے حقوق اور تعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔
  • تخصّصات: عام تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم اور خاص موضوعات پر تخصّصات کی اہمیت بھی مسلّم ہے۔ خود قرآن حکیم نے اس کی اہمیت کی جانب توجہ دلائی ہے۔ مثلاً فرمایا:

فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ (التوبہ ۹: ۱۲۲) سوکیوں نہ نکلے ان کے ہرگروہ میں سے کچھ لوگ تاکہ دین کی سمجھ پیدا کریں۔

اس آیت میں تخصص فی الفقہ کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ایک اور مقام پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لیے متخصّصین کی تیاری کی تاکید ہے۔فرمایا:

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ  ط  (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴) تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے، نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر تربیت بہت سے صحابہ کرامؓ نے مختلف مضامین میں تخصص وامتیاز حاصل کر لیا تھا، جن میں سے بعض خوش نصیب ایسے تھے، جنھیں اس اختصاص کی سند خود زبانِ نبوت سے ملی۔ مثال کے طور پر حضرت ابیؓ بن کعب کو قراء ت وتجوید میں اختصاص حاصل تھا۔ آپؐ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔۲۲   حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قضاۃ میں امتیاز حاصل تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہمارے سب سے بڑے قاضی حضرت علیؓ اور سب سے بڑے قاری ابیؓ ہیں۔۲۳  اسی طرح  علوم قرآنی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ امتیاز کے حامل تھے۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ صحابہ میں سب سے زیادہ علمِ قرآن رکھتے تھے۔۲۴  اور علم تفسیر و فقہ میں ابن مسعودؓ کو شہرت ملی۔ خود آپؐ نے یہ فرما کر انھیں سند عطا کی کہ تم تعلیم یافتہ لڑکے ہو۔۲۵  علم الفرائض میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ممتاز ہوئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک ہے کہ ’’میری امت میں علم فرائض سب سے زیادہ زید بن ثابت جانتا ہے‘‘۔۲۶  اور حلال وحرام کے علم میں معاذ بن جبلؓ درجۂ امتیاز کے حامل تھے۔ آپؐ نے فرمایا: میری امت میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص معاذ بن جبلؓ ہے۔۲۷ 

عصر حاضر میں بھی ہمیں ان خصوصیات کو زندہ رکھتے ہوئے آج کی ضرورت کے مطابق مختلف علوم وفنون کے ماہر تیار کرنا ہوں گے۔

حوالہ جات

۱۔ سید عزیز الرحمٰن، استحکام پاکستان، سیرت طیبہ کی روشنی میں، کراچی، ۱۹۹۷ء، ص ۲۴

۲- طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم : ابن ماجہ ، السنن ، ج ۱، ص ۹۷، رقم ۲۲۴

۳-    مولانا قاضی اطہر مبارک پوری، خیر القرون کی درس گاہیں، ادارہ اسلامیات، لاہور۔l محمد یاسین شیخ، عہد نبویؐ کا تعلیمی نظام، کراچی lمولانا محمد عبد المعبود، عہد نبویؐ میں نظام تعلیم، لاہور lپروفیسر سید محمد سلیم، اسلام کا نظام تعلیم، لاہور

۴-    شبلی نعمانی، الفاروق، ج ۲، ص ۴۴۲

۵-    پروفیسر سید محمد سلیم، اسلام کا نظام تعلیم، ص ۸۶

۶-    احمد، ابو عبد اللہ محمد بن حنبل الشیبانی، ج ۲، ص ۳۴۱، رقم ۶۵۰۔ ترمذی، ج ۴، ص ۳۰۵، رقم ۲۶۷۸

۷-    احمد، ج ۲، ص ۵۱۷، رقم ۷۵۱۷                 ۸- الفاروق ، ص ۴۴۲، ۴۵۰

۹-    مجلہ تعلیم، مرتبہ: مسلم سجاد، سلیم منصور خالد۔ شمارہ ۷،اسلام آباد lپاکستان میں تعلیم اور نجی شعبہ، مرتبہ:مسلم سجاد، سلیم منصورخالد،مضمون: پروفیسر سید محمد سلیم، تعلیم فی سبیل اللہ کا احیا، ص ۸۸

۱۰-  ابن قتیبہ ، عیون الاخبار، بیروت، ج ۲، ص ۱۲۳      ۱۱-  ایضاً، ص ۱۶۴

۱۲-  بیہقی، شعب الایمان، ج ۲، ص ۲۵۶۔ ترمذی، ج ۳، ص ۳۸۳، رقم ۱۹۵۹

۱۳- ترمذی، ایضاً، رقم ۱۹۵۸

۱۴- یہ واقعات ذیل کے غزوات واسفار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ سے غیر موجودگی میں پیش آئے: ملاحظہ کیجیے ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، بیروت، ۱۹۹۷ء، ج ۲ (۱) غزوۂ قرقرۃ الکدر، ص ۲۳ (۲)غزوۂ بنی سلیم، ص ۲۷ (۳) غزوۂ اُحد، ص ۲۹ (۴) غزوۂ بنی نضیر، ص ۲۴ (۵) غزوۂ احزاب، ص۵۱ (۶) غزوۂ بنی قریظہ، ص ۵۷ (۷) غزوۂ بنی لحیان، ص ۶۰ (۸)غزوۂ الغابہ، ص ۶۲ (۹) صلح حدیبیہ، ص۷۳ (۱۰) فتح مکہ، ص ۱۰۲۔ اس کے علاوہ آپؐ نے ابن ام مکتومؓ کو غزوۂ بدر میں صرف نمازوں کی امامت کے لیے اپنا قائم مقام مقرر فرمایا تھا: دیکھیے طبقات، ج۲،ص ۸

۱۵- دیکھیے مولانا حبیب الرحمن خان شروانی، نابینا علما، کراچی

۱۶- بخاری، کتاب العلم وکتاب الاعتصام بالسنۃ، باب تعلیم النبیؐ امۃ من الرجال والنساء

۱۷- اسلام کا نظام تعلیم، ص ۹۰    

۱۸-ایضاً

۱۹۔ سید مصطفیٰ علی بریلوی، شہید ملت لیاقت علی خان، آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس، کراچی، ۲۰۰۱ء، ص ۶۳

۲۰- بخاری، کتاب العلم

۲۱- ڈاکٹر محمد حمید اللہ، الوثائق السیاسیۃ، بیروت، ۸۵ء، ص ۵۹

۲۲- شمس الدین ابی عبد اللہ محمد بن احمد، معرفۃ القراء الکبار، ج ۱، ص ۲۹

۲۳۔ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، بیروت، ج ۷، ص ۳۳۷

۲۴- الصابونی، محمد علی، التبیان فی علوم القرآن، بیروت، ۱۹۸۵ء، ج ۷، ص ۶۸

۲۵- احمد، ج ۱، ص ۶۲۶، رقم ۳۵۵۸    

۲۶- کنز العمال، رقم ۳۳۳۰۴

۲۷- ڈاکٹر، احمد امین، فجر الاسلام، مصر، ج ۲، ص ۱۷۱

ایک گلوب لے کر گھمائیں اور آنکھیں بند کر کے اس پر کہیں بھی انگلی رکھ دیں۔ اس بات کا بھرپور امکان موجود ہے کہ جس جگہ آپ کی انگلی رُکے، وہیں یا اس کے آس پاس کوئی نہ کوئی ارب پتی رہایش پذیر ہو یا اپنے پُرآسایش بجرے پر سیر کر رہا ہو۔

ساری دنیا میں ارب پتی لوگ پائے جاتے ہیں۔اس سال ’Forbes  ‘میگزین کی جانب سے شائع ہونے والی ارب پتیوں کی سالانہ فہرست میں ۲ہزار۶سو ۶۸ لوگ شامل ہیں۔ اس کے بعد حال ہی میں ’کریڈٹ سوئیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ (Credit Suisse Research Institute) نے انتہائی مالدار لوگوں سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، جس کا دائرہ کار نسبتاً وسیع تر ہے۔ اس تجزیے کے مطابق دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ارب پتی لوگ موجود ہیں۔

تاہم، اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے کچھ ممالک میں ایسے لوگوں کی تعداد باقی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔اس سے بھی ایک قدم آگے، امریکا ایک ایسا ملک ہے جس کا کسی اور سے موازنہ ہی نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے ۳۹ء۲ فی صد لکھ پتی امریکا میں رہتے ہیں۔ اس کے بعد ۹ء۹ فی صد کے ساتھ چین کا نمبر ہے، جب کہ جاپان تیسرے نمبر پر ہے، جہاں دنیا کے ۵ء۴فی صد امیر ترین لوگ رہتے ہیں۔

امرا کی دنیا میں مزید اوپر جائیں تو یہ تضاد اور گہرا ہو جاتا ہے۔ کم از کم ۱۰۰ ملین ڈالر کی دولت رکھنے والے دنیا کے تقریباً ۵۳ فی صد کروڑپتی امریکا سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے امیرترین لوگوں کی اکثریت امریکا سے تعلق رکھتی ہے، لیکن بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟

واشنگٹن ڈی سی میں واقع ’اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ کی سالانہ رپورٹ اس ضمن میں کچھ مزید اعدادوشمار ہمارے سامنے لاتی ہے۔ ان نئے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکیوں کی امارت کے پیچھے ایک اہم وجہ بڑی کمپنیوں میں بڑے عہدوں پر موجود لوگوں کو ملنے والی تنخواہیں ہیں۔ امریکا میں افسران بالا کی تنخواہوں سے متعلق اعداد و شمار کے حوالے سے اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کو ایک معتبر ادارہ سمجھا جاتا ہے اور اسی ادارے کے محققین کی گذشتہ دنوں جاری کردہ رپورٹ کاخلاصہ یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں کام کرنے والی امریکا کی ۳۵۰ بڑی کمپنیوں کے سربراہان کو اس سال اوسطاً ۲۷ء۸ ملین ڈالر فی کس تنخواہ دی گئی۔ یہ گذشتہ سال کی نسبتاً ۱۱ء۱ فی صد اور ایک عام امریکی کی تنخواہ سے ۳۹۹ گنا زیادہ ہے۔

ایک نظر ماضی پر بھی ڈالیے۔ ۱۹۶۵ء میں بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز کی تنخواہ عام امریکی شہری کے مقابلے میں صرف ۲۰گنا زیادہ تھی۔ ایک ربع صدی بعد ۱۹۸۹ء میں بھی یہ فرق ۵۹گنا تھا لیکن اس کے بعد سے اب تک یہ فرق دو اعداد سے بڑھتا ہوا سات اعداد تک آ گیا ہے۔

مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو مجموعی طور پر امریکی سی ای اوز کی تنخواہ میں ۱۹۷۸ء کے بعد اب تک ۱۴۶۰  فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک عام امریکی محنت کش کی تنخواہ کتنی بڑھی ہو گی؟ صرف ۱۸فی صد۔

’اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ کےتجزیہ کاروں جوش بیونز (Josh Bivens) اور جوری کاندرا (Jori Kandra) کے مطابق ’’کارپوریٹ اداروں میں سربراہان کی بڑھتی تنخواہوں سے بالائی ایک فی صد اور ۰ء۱ فی صد طبقے کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے، اور اس کے مقابلے میں نچلے درجے کےمحنت کشوں کے لیے معاشی ترقی کے ثمرات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ یوں ۱۰ فی صد امیر اور ۹۰ فی صد غریب طبقے کے درمیان خلیج مزید گہری ہو جاتی ہے‘‘۔

تنخواہوں میں یہ غیر متوقع اضافہ صرف کمپنیوں کے سربراہان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اُونچے درجے پر موجود دیگر افسران بھی اس بہتی گنگا میں اچھی طرح ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مثلاً پچھلے سال ’ایمازون‘ نے اپنی دولت چیف ایگزیکٹو سے لے کر نچلے درجے کے افسران تک بڑے کھلے دل سے بانٹی۔ کمپنی کے سی ای او اینڈریو جیسی (Andrew Jassy)کو ۲۱۲ء۷ ملین ڈالر ملے۔ لیکن ’ایمازون‘ کے انٹرنیٹ سروسز کے چیف ایڈم سیلپسی ( Adam Selipsy) کو بھی مایوس نہیں کیا گیا، اس کی ایک سال کی تنخواہ۸۱ء۴ ملین ڈالر تھی۔ اسی کمپنی کے عالمی کنزیومر چیف ڈیوڈ کلارک کا بھی یہ سال بڑا خوش حال گزرا، کیونکہ اس کی تنخواہ ۵۶ ملین ڈالر رہی۔ دوسری طرف ایمازون کے گودام میں کام کرنے والے ایک عام ملازم کی اوسط تنخواہ پچھلے سال۳۱ہزار ۷سو ۵  ڈالر تھی۔

امریکا میں تنخواہوں کا یہ فرق مستقبل قریب میں ختم ہونا تو کجا، کم ہوتا بھی نظر نہیں آتا۔لیکن یہ بات اتنی حیران کن نہیں ہونی چاہیے۔ یہی کاروباری اعلیٰ منتظمین ایک دوسرے کی کمپنیوںمیں بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ معاشی حالات جیسے بھی ہوں وہ اپنی تنخواہیں کم کرنا نہیں چاہتے، بلکہ ان کا تو اصرار ہے کہ کمپنیوں میں اچھی قیادت کو برقرار رکھنے کے لیے تنخواہیں مزید بڑھائی جائیں۔

اگلا سوال یہ ہے کہ امریکا کے امیر ترین لوگوں کی دولت میں انھیں ملنے والی اس کارپوریٹ تنخواہ کا کتنا حصہ ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب ہے:’کافی زیادہ‘۔سال ۱۹۷۸ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان امریکا کے ۰ء۱ فی صد امیر ترین افراد کی آمدنی میں ۳۸۵ فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اسی دورانیے میں اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ’’سی ای اوز کی تنخواہیں اس سے چار گنا زیادہ تیزی سے بڑھی ہیں‘‘۔

اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امریکا میں دولت کی تقسیم یونہی مضحکہ خیز حد تک اشرافیہ کے حق میں رہے گی جب تک کہ کارپوریٹ اداروں کے سربراہان کو ملنے والی مراعات کو لگام نہیں ڈالی جائے گی۔اس بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں:

سب سے پہلے ٹیکس اور محصولات کو دیکھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اگلے دو عشروں تک دو لاکھ ڈالر کی انفرادی آمدن پر وفاق کی طرف سے ٹیکس کی شرح تقریباً ۹۰ فی صد تک سالانہ تھی۔ ٹیکس کا یہ بوجھ اعلیٰ افسران کی تنخواہیں مناسب حد تک رکھنے میں مددگار ہوتا تھا، یعنی بڑی بڑی تنخواہیں لے کر بھی کیا فائدہ؟ جب آپ جانتے ہیں کہ اس میں سے زیادہ تر حصہ ’انکل سام‘ کی جیب میں ہی جانے والا ہے۔

افسران بالا اور عام ملازمین کی تنخواہوں میں فرق کو گھٹانے کے لیے ایک اور طریقہ بھی پچھلے ایک عشرے سے کافی مقبول رہا ہے۔ سان فرانسسکو اور ریاست اوریگان کے شہر پورٹ لینڈ میں اب ہر اس اعلیٰ افسر کی تنخواہ پر ٹیکس زیادہ لگتا ہے جو عام ملازم کی تنخواہ سے ۱۰۰گنا زیادہ ہو۔

 انٹرنیٹ سائیٹ Inequality.org  کے مطابق قومی سطح پر بھی کچھ ترقی پسند قانون ساز سرکاری ٹھیکوں اور مراعات کو افسران اعلیٰ اور عام ملازم کی تنخواہ کے درمیان فرق سے مشروط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ کسی بھی ایسی کمپنی کو سرکاری ٹھیکہ نہ دیا جائے، جس میں کام کرنے والے اعلیٰ افسر اور ایک عام ملازم کی تنخواہ میں فرق بہت زیادہ ہو۔

تاحال امریکی کمپنیاں تنخواہوں کے معاملے میں تفریق کو ختم کرنے میں ناکام ہیں اور ان کی یہ ناکامی ’کریڈٹ سوئس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار میں واضح جھلک رہی ہے۔ یہ رپورٹ مختلف ممالک میں اوسط اور درمیانی آمدن کا موازنہ پیش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال امریکا میں ایک بالغ آدمی کی اوسط آمدن ۵لاکھ ۷۹ ہزار ڈالر تھی، جو فرانس کی  ۳لاکھ۲۲ہزار ڈالر کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے۔ لیکن دوسری طرف فرانس میں درمیانے درجے کے ایک عام آدمی کی تنخواہ ایک لاکھ ۴۰ ہزار ڈالر ہے ،جو ایک عام امریکی کی تنخواہ سے تقریباً ۵۰ ہزار ڈالر زیادہ ہے۔

اسی طرح ڈنمارک، کینیڈا اور ہالینڈ کے باشندوں کی اوسط تنخواہ، امریکی شہریوں کی اوسط تنخواہ کے مقابلے میں بہت کم ہے، لیکن اس کے باوجود ڈنمارک، کینیڈا اور ہالینڈ میں ایک عام شہری کی تنخواہ امریکا کے عام شہریوں کی نسبت ۵۳گنا زیادہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ چند ہاتھوں میں مرتکز دولت، اعدادوشمار کو تھوڑا گھما دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ معاشی ناہمواری کے شکار ممالک میں اوسط آمدن بہت زیادہ نظر آئے، لیکن انھی ممالک میں ایک عام آدمی کی آمدن اس اوسط کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتی۔

حاصل بحث؟ بڑی بڑی امریکی کمپنیاں دنیا میں معاشی ناہمواری پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہیں اور ہمیں اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔

(Inequality ، ۷؍اگست ۲۰۲۲ء، ترجمہ: اطہررسول زیدی)

جون ۲۰۲۲ء افریقا کے مسلمانوں کا سپین ،پرتگال اور جنوبی فرانس پر تقریباً سات سو سالہ دورِ حکمرانی کے اختتام کی یاد دلاتا ہے۔ آج سے تقریباً چار سو سال پہلے سپین کے بادشاہ فلپ نے حکم جاری کیا جو نسلی صفائی کی ابتدائی مثالوں میں سے ایک ہے۔ سپین پر حکمرانی کے دورِ عروج میں فلپ سوم [م: ۳۱مارچ ۱۶۲۱ء] نے تقریباً تین لاکھ بربر مسلمانوں کو سپین سے نکال باہر کرنے کا حکم جاری کیا، جس سے سپین کی تاریخ کے انتہائی ظالمانہ اور المناک دور کا آغاز ہوا۔

روایتی تصور کے برعکس یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ قدیم افریقی ہی تھی، جنھوں نے سپین اور یورپ کے بڑے حصے کو تہذیب سے آشنا کیا۔

یورپ کی تہذیب کی بنیاد یونان کے جزیرے ’کریٹ‘ (Crete ) میں ۱۷۰۰قبل مسیح میں رکھی گئی اور یونانیوں کو بنیادی طور پر وادیٔ نیل کے سیاہ فام افریقیوں نے تہذیب یافتہ بنایا۔ پھر یونانیوں نے اس تہذیب کو رومیوں تک منتقل کیا، لیکن بالآخر انھوں نے اسے کھو دیا ۔ اس طرح مغرب کے تاریک دور(Dark Ages)کا آغاز ہوا، جو پانچ صدیوں پر محیط رہا۔ یورپ ایک بار پھر تہذیب سے اس وقت آشنا ہوا، جب سیاہ فام افریقی بربروں نے ’تاریک دور‘کا خاتمہ کیا۔

مغرب میں جب تاریخ پڑھائی جاتی ہے تو تاریخ کا وہ دور جو’ وسطی عہد‘ (Middle Ages) کہلاتا ہے، اسے عموماً ’تاریک دور ‘سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اور اس سے مراد وہ عہد لیا جاتا ہے جب عمومی تہذیب بہ شمول آرٹس اور سائنس نے بنیادی ترقی کی۔ بلاشبہہ یورپیوں کے لیے تو یہ سچ ہے، لیکن افریقیوں کے لیے یہ بات درست نہیں۔

معروف مورٔخ شیخ انتادیوب [۱۹۲۳ء-۱۹۸۶ء]واضح کرتے ہیں کہ وسطی عہد کے دوران دنیا کی عظیم سلطنتیں افریقیوں کی تھیںاور دنیا کے غالب اور ثقافتی مراکز افریقی تھے۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں یہ یورپین ہی تھے جو قانون شکن اور وحشی وسفاک تھے۔

سلطنت روم کے زوال کے بعد گاؤرس کے سفید فام جنگجوقبائل کو مغربی یورپ کی طرف ایک جنگجو ایشیائی قوم ’ہنز‘ (Huns)کے ذریعے دھکیل دیا گیا۔ ۷۱۱ء عیسوی میں،سپین کے ساحلوں پر  بربر حملہ آور ہوئے اور افریقا کے مسلمانوں نے کاکس کے وحشی سفیدفام قبائل کو واقعتاً تہذیب سکھائی۔ اس طرح بربر قبائل نے سپین ،پرتگال ، شمالی افریقا اور جنوبی فرانس پر تقریباً سات سو سال حکمرانی کی۔ اگرچہ سپین کے حکمرانوں نے اس عہد کو تاریخ کے صفحات سے مٹانے کے لیے بہت کوشش کی، تا ہم قدامت شناسی [Archaeology]کی جدید ترین تحقیقات اور محققین نے اس حقیقت کو اُجاگر کیا ہے کہ کس طرح بربروں نے ریاضی، فلکیات ، آرٹ اور فلسفہ کو ترقی دی اور یورپ کے لوگوں کو ’تاریک دور‘سے نکالنے اور نشاتِ ثانیہ کے لیے مدد کی۔

معروف برطانوی مؤرخ باسل ڈیوڈسن [۱۹۱۴ء-۲۰۱۰ء] نے بیان کیا ہے کہ ’’آٹھویں صدی میں کوئی خطہ جس کی تعریف اس کی ہمسائیہ قومیں کرتی تھیں ، یا جو رہنے کے لیے زیادہ آرام دہ تھا، وہ شان دار افریقی تہذیب تھی جس نے سپین میں فروغ پایا۔‘‘یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بربر سیاہ فام افریقی تھے اور سو لھویں صدی کے انگریز ڈرامانویس شیکسپیئر [م: ۱۶۱۶ء]نے ’بربر‘کا لفظ سیاہ فام افریقی کے لیے بطور علامت استعمال کیا تھا۔

مسلم سپین میں تعلیم عام تھی ، جب کہ مسیحی یورپ میں ۹۹ فی صد آبادی ان پڑھ تھی، حتیٰ کہ بادشاہ تک لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے ۔ بربروں نے ماقبل عہد جدید میں نمایاں طور پر بلند شرح خواندگی کو فروغ دیا۔ جس زمانے میں یورپ میں صرف دو یونی ورسٹیاں تھیں ، اس وقت بربروں کے ہاں سترہ یونی ورسٹیاں تھیں۔ اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے بانیوں کو یونی ورسٹی کی تعمیر کے لیے تحریک سپین میں یونی ورسٹیوں کے دورے کے بعد ملی۔ اقوام متحدہ کی ’تعلیمی مقتدرہ‘ کے مطابق آج بھی دنیا کی قدیم ترین فعال یونی ورسٹی، مراکش کی قرہ وین یونی ورسٹی ہے۔ ۸۵۹ء میں، بربر سلطنت کے عروج کے زمانے میں اس یونی ورسٹی کی بنیاد ایک سیاہ فام خاتون فاطمہ الفہیری نے رکھی تھی۔

ریاضی کے میدان میں صفر کا ہندسہ جو کہ عربی ہندسہ ہے، اعداوشمار کا جدید نظام (ڈیسی مل نظام) جس سے یورپ متعارف ہوا، یہ مسلمانوں کے ذریعے ممکن ہوا، اور اس کے ذریعے مسائل کو تیزی سے اور درست طور پر حل کرنا ممکن ہوا اور اس طرح سے سائنسی انقلاب کے لیے بنیاد فراہم ہوئی۔

بربروں کا سائنسی علوم کے لیے تجسس، ذوق پر واز اور کئی علوم پر دسترس رکھنے والے شخص پر منتج ہوا۔ ابن فرناس نے دنیا میں پہلی مرتبہ ۸۷۵ء میں سائنسی انداز میں اُڑان بھرنے کی کوشش کی۔ تاریخی دستاویزات (archives ) بتاتی ہیں کہ اس کی کوشش کامیاب رہی، تاہم اسے زمین پر اترنے میں پوری طرح کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ افریقی مسلمانوں نے آسمان پر پرواز، لیوناڈو ڈاُونچی [م: ۱۵۱۹ء] جس نے لٹکنے والا گلائیڈر بنایا تھا، اس سے چھ صدیاں قبل کر لی تھی۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بربروں نے اہل یورپ کو ’تاریک دور‘ سے نکلنے کے لیے مدد دی اور ان کی نشات ثانیہ کے لیے راہ ہموار کی۔ درحقیقت بہت سی وہ خصوصیات جنھیں مغرب فخر سے اپنا طرۂ امتیاز سمجھتا اور قرار دیتا ہے، ان کی بنیاد مسلم سپین میں رکھی گئی۔ مثال کے طور پر آزاد تجارت، سفارت کاری، کھلی سرحدیں، تہذیب واخلاق، تحقیق کے طریقے اور علم کیمیا میں ترقی کے نمایاں اقدامات اور جہاز سازی کی صنعت میں پیش رفت اس کی نمایاں مثال ہیں۔

جس زمانے میں بربروںنے ۶۰۰ عوامی غسل خانے تعمیر کیے اور ان کے حکمران شان دار محلوں میں رہتے تھے، جرمنی ،فرانس اور برطانیہ کے شہنشاہ اور مذہبی پیشوا، عوام کو اس بات پر قائل کر رہے تھے کہ ’’صفائی ایک گناہ ہے‘‘، اور یورپی باد شاہ مویشیوں کے بڑے بڑے باڑوں میں رہتے تھے جن میں نہ کھڑکیاں تھیں اور نہ چمنیاں ، اور دھواں نکالنے کے لیے چھتوں میں ایک سوراخ ہوتا تھا۔

دسویں صدی عیسوی میں قرطبہ نہ صرف بربروں کے سپین کا دارالخلافہ تھا بلکہ یورپ میں بہت اہم اور ایک جدید شہر بھی تھا۔ قرطبہ کی آبادی ۵ لاکھ تھی، اس کی گلیوں میں روشنی کا انتظام تھا، ۵۰ ہسپتال تھے جن میں تازہ پانی کی فراہمی کا نظام موجود تھا، ۵۰۰ مسجدیں اور ۷۰ کتب خانے تھے، جن میں سے صرف ایک کتب خانہ میں ۵ لاکھ سے زائد کتب تھیں۔

یہ تمام کامیابیاں اس زمانے میں وقوع پذیر ہوئیں، جب لندن کی ۲۰ ہزار پر مشتمل آبادی بڑے پیمانے پر اَن پڑھ تھی اور رومن نے چھ سو سال قبل جو فنی ترقی کی تھی اس کو فراموش کر چکی تھی۔ گلیوں کو روشن رکھنے کے لیے لیمپ اور پختہ گلیاں لندن یا پیرس میں سیکڑوں سال بعد تک نہیں پائی جاتی تھیں۔ کیتھولک چرچ نے پیسہ لینے دینے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، جس نے معاشی ترقی میں رکاوٹ کھڑی کر دی تھی۔ قرون وسطیٰ کے مسلم سپین نے نہ صرف قدیم مصری ،یونانی اور رومی تہذیبوں میں علمی وفکری ترقی کو فروغ دیا، بلکہ اس نے تہذیب وتمدن کو بھی فروغ دیا اور اس نے فلکیات، دواسازی کے علم، فن تعمیر، قانون سازی اور جہاز رانی کے میدانوں میں اہم کردار ادا کیا۔ کچھ مغربی محققین کی طرف سے پھیلایا گیا صدیوں پرانا یہ تاثر خلافِ حقیقت ہے کہ افریقا نے تہذیب کے فروغ میں کم یا کوئی کردار ادا نہیں کیااور اس کے باشندے دقیانوسی تھے اور جو غلامی اور نو آبادیاتی کی بنیاد بنے اور افریقا کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئے۔ افریقا کے لوگوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اَزسرِ نو اپنی تاریخ مرتب کریں۔ تا ہم، افریقا کے شان دار مستقبل کی راہ میں اگر کوئی بڑی رکاوٹ ہے، تو وہ خود اس کے لوگوں کی اپنے شان دار ماضی سے لاعلمی اور عصرحاضر میں سُستی وبے عملی ہے۔ (کاؤنٹرپنچ، ۱۰ جون ۲۰۲۲ء)

حضورؐ کی بعثت سے قبل اسلام کا وجود

سوال : کیاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بھی اسلام موجود تھا؟ جس قرآنی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ’مسلم‘ ہونے کی خبر دی گئی ہے، اس میں اسلام سے مرادکیا یہی دین اسلام ہے، جسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟

جواب :اسلام کا مفہوم ہے اپنی ذات اور اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکانا اور اس کا مکمل مطیع و فرماں بردار بن جانا، یعنی اللہ کی توحید کا اقرار کرنا، اس کی عبادت کرنا اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا۔ یہی ہے وہ طریقۂ زندگی،جسے لے کر تمام انبیا و رُسل علیہم السلام آئے۔ تمام نبیوںؑ اور رسولوںؑ نے اسی طریقۂ زندگی کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ اس لیے یہی بات حقیقت ہے کہ تمام انبیاؑ ورُسل کا مذہب، دینِ اسلام ہی تھا، کیوں کہ درحقیقت جو دین، اللہ کے نزدیک اَزل سے محبوب اور مطلوب ہے، وہ دین اسلام ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ عظیم میں فرماتا ہے:

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ   (اٰل عمٰرن۳:۱۹) اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

دوسری آیت میں ہے:

وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ ۝۰ۚ (اٰل عمٰرن۳:۸۵) اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ تمام انبیا و رُسل علیہم السلام نے اسی دین اسلام کی طرف دعوت دی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کیا اور فرمایا:

وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۷۲(یونس ۱۰:۷۲) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود مسلم بن کر رہوں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا:

اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ ۝۰ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۳۱ (البقرہ ۲:۱۳۱) اس کا یہ حال تھا کہ جب اس کے ربّ نے کہا: مسلم ہوجا، تو اس نے فوراً کہا: میں مالکِ کائنات کا مسلم ہوگیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا بلقیس کے پاس بھی اسی اسلام کا پیغام بھیجا تھا:

اَ لَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِـمِيْنَ۝۳۱ۧ (النمل۲۷:۳۱) میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہوکر میرے پاس حاضر ہوجائو۔

آنحضور محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی دینِ اسلام کی دعوت دی۔ اسی طریقۂ زندگی کی طرف لوگوں کو بلایا۔ یہ الگ بات ہے کہ خاتم الانبیاؐ ہونے کی حیثیت سے ان کا لایا ہوا دین، ایک مکمل دین ہے۔ حضورؐ کوئی نیادین لے کر نہیں آئے تھے ۔ انھوں نے بھی اسی دین کی دعوت دی، جس کی دعوت تمام انبیاؑ و رُسل نے دی تھی۔ البتہ خاتم الانبیاؐ ہونے کی حیثیت سے ان کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ پچھلی شریعتوں میں جو بھی کمی رہ گئی تھی، اسے دُور کرکے دین کو مکمل کریں۔ لوگوں نے جو تحریفات کردی تھیں، ان کی تصحیح کریں اور ایک مخصوص انسانی طبقے کے بجائے تمام عالم کو اس دین کی دعوت دیں۔

یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ پچھلی شریعتوں اور شریعت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین بعض فروعی مسائل میں واضح فرق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی شریعتیں اپنے وقت اور حالات و ضروریات کے مطابق تھیں، جب کہ شریعت محمدیہ، رہتی دُنیا تک کے حالات و ضروریات کے عین مطابق ہے۔


نئے گھر میں رہایش سے قبل قربانی

سوال : بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ’’نئے گھر میں رہایش کے موقعے پر ایک قربانی کرنی چاہیے ورنہ جِنّ اس گھر پر قابض ہوجاتے ہیں اور گھر والوں کو تنگ کرتے ہیں‘‘۔ کیا یہ عقیدہ صحیح ہے؟

جواب : درحقیقت جنوں کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو جنوں کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔ وہ صرف انھی چیزوں پر یقین کرتے ہیں، جسے وہ دیکھ سکیں یا محسوس کرسکیں۔ ان کے بالمقابل کچھ ایسے لوگ ہیں، جو جنوں کے وجود کے اثرات کو ثابت کرنے میں غلو کرجاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہرچھوٹے بڑے معاملات میں جنوں کی دخل اندازی کے قائل ہیں۔ ان کے ذہنوں پر جِنّ اس طرح سوار ہوگیا ہے کہ ہرحادثے میں انھیں جِنّ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ گویا ساری دُنیا پر جنوں کی حکمرانی ہوگئی ہو۔ یہ دونوں عقیدے غلو کا شکار اور اسلامی تعلیمات کے مخالف ہیں۔

جنوں کے معاملے میں اسلام کا عقیدہ افراط و تفریط سے پاک ہے۔ اسلام نے جنوں کے وجود کا انکار نہیں بلکہ اقرار کیا ہے۔ جنوں کی اپنی ایک الگ دُنیا آباد ہے۔ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر جنوں کا تذکرہ موجود ہے۔ وہ لوگ جو روحوں کو بلانے کا عمل کرتے ہیں، وہ بھی دراصل جنوں کوبلاتے ہیں۔ جنوں کے اقرار کے ساتھ ساتھ اسلام کاعقیدہ یہ بھی ہے کہ جِنّ اس حدتک بااختیار اور بااثر نہیں ہیں کہ تمام کائنات پر حکمرانی کریں۔ جہاں چاہیں اپنی مرضی سے کام کریں۔ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کی منشا اور تصرف کےماتحت ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر ایک ادنیٰ سی جنبش پر بھی قادر نہیں ہیں۔

رہا لوگوں کا یہ عقیدہ کہ ’’نئے گھر کو بسانے سے قبل اگر قربانی نہ کی جائے تو جِنّ اس گھر پر قابض ہوجاتے ہیں اور گھروالوں کو تنگ کرتے ہیں‘‘ تو یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے۔ یہ تو غیب کی بات ہے۔ عقیدے اور غیب کی بات جب تک قرآن سے ثابت نہ ہو ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ لہٰذا، نئے گھر میں رہایش کے وقت قربانی کرنے والی بات بالکل بے بنیاد اور لغو ہے۔(ڈاکٹر محمد یوسف القرضاوی، ترجمہ: سیّد زاہد اصغرفلاحی)

کشمیر،۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد، مرتب: سلیم منصور خالد۔ اہتمام: منشورات، منصورہ، لاہور۔فون:0320-5434909  صفحات: ۵۳۴۔قیمت: ۱۲۰۰ روپے، مجلد: ۱۵۰۰ روپے۔

خط ِ متارکۂ جنگ کے اُس پار ریاست ِ جموں و کشمیر، یوں تو اکتوبر ۱۹۴۷ء ہی سے بھارت کے زیرتسلط آگئی تھی، لیکن ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے تو ظلم کی وہ حکمرانی، درندوں کے راج میں بدل گئی، داد نہ فریاد، نہ شنوائی۔ دُنیا، کشمیریوں پر ناقابلِ بیان مظالم پر چیخ رہی ہے۔ جیل، تشدد، گولیاں، پیلٹ گنیں___ مگر کشمیری پُرعزم ہیں۔ اُنھیں مارا تو جاسکتا ہے، جھکایا نہیں جاسکتا۔

۵؍اگست ۲۰۱۹ء کی سفاکانہ قانون سازی کے نام پر بدترین فسطائیت پہ نہ صرف پاکستان بلکہ غیرممالک، حتیٰ کہ بھارت میں ردّعمل سامنے آیا۔ کتابیں اور مضامین سیکڑوں کی تعداد میں چھپے۔ ہزاروں تحریریں ماقبل بھی موجود تھیں۔ یہ کتاب گذشتہ تین برسوں کے دوران فقط ترجمان القرآن میں شائع شدہ ۶۶ مضامین پر مشتمل ہے۔ لکھنے والوں میں سیّد علی گیلانی، پروفیسر خورشیداحمد، افتخار گیلانی، مفتی منیب الرحمٰن، ارشاد محمود، عبدالباسط اور ڈاکٹر غلام نبی فائی شامل ہیں۔

یہ ایک ’مکمل کشمیر کہانی‘ ہے، جو مرتب کے بقول: ’’موجودہ عہد میں ظلم کے خلاف حق گوئی کی بہترین مثال ہے‘‘۔ کتاب اعلیٰ معیارِ طباعت پر شائع کی گئی ہے اور مؤثر اشاریہ سازی نے کتاب کی معنویت کو بڑھا کر مضامین کی قدروقیمت میں اضافہ کیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)

 


اُردو میں اسلامی ادب کی تحریک، فکری و ارتقائی مطالعہ، ڈاکٹر صائمہ ذیشان۔ ناشر: مکتبہ تعمیرانسانیت،غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: 042-37310530۔صفحات: ۴۷۸۔ قیمت: درج نہیں۔

’ادب‘ زندگی کا ایک بڑا بنیادی حصہ ہے۔ عصرحاضر میں اسلامی ادب کی تحریک، مطالعہ و تحقیق کا تقاضاکرتی ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کی نگرانی میں فاضل مصنفہ نے زیرنظرمقالہ ڈاکٹریٹ کی سند کے لیے لکھا ہے، جو اپنے موضوع پر ایک جامع اور مبسوط دستاویز ہے۔ اس میں موضوع کےجملہ پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی جامع کوشش کی گئی ہے۔ موضوع سے منسلک تقریباً سارے ہی ممکنہ اُمور اور تمام ضمنی و ذیلی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔(ادارہ)

اور پاکستان بن گیا، فرزانہ چیمہ۔ ناشر: ادبیات، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار ، لاہور۔ فون:042-37232788۔ صفحات: ۱۶۷۔ قیمت (مجلد): ۳۵۰ روپے ۔

ہمارے نظامِ تعلیم کی خرابی، ذرائع ابلاغ کی منفی یلغار اور سوشل میڈیا پر برہمنی سامراج کے زیراثر پراپیگنڈے کے نتیجے میں، ہماری نئی نسل، تحریکِ پاکستان سے بےخبری کا شکارہے۔ یہ چیز پاکستان کے نظریاتی اور جغرافیائی وجود کے لیے حددرجہ خطرناک ہے۔محترمہ فرزانہ چیمہ نے غیرروایتی انداز سے، تاریخی واقعات کو ٹھیک پس منظر کے ساتھ پیش کرکے ایک قابلِ قدر کتاب تحریر کی ہے، جس سے استفادہ کرنا بہت مفید ثابت ہوگا۔ (ادارہ)


کچھ یاد رہا، کچھ بھول گئے (آپ بیتی)، سعید اکرم۔ اہتمام: کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ملنے کا پتا: الہدیٰ ، صادق کالونی، سہگل آباد ضلع چکوال۔ فون:  0346-5826840۔ صفحات: ۵۵۱۔قیمت: درج نہیں۔

مصنف کہتے ہیں: ’’میری کہانی ایک عام آدمی کی کہانی ہے‘‘۔ آپ بیتی میں انھوں نے  بڑی بے تکلفی سے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ابتدائی جماعتوں کے ایک استاد سے چل کر اللہ کے فضل و کرم اور اپنی محنت اور مسلسل جدوجہد سے ترقی کرتے کرتے وہ ڈگری کالج کے پر نسپل کے منصب سے وظیفہ یاب ہوئے۔

سعید اکرم صاحب کی زیرنظر داستان میں ان کے گائوں بلکہ ضلع بھر کی تاریخ، جغرافیے، نامور اور غیرنامور شخصیات، اساتذہ بطور طالب علم اور استاد، مختلف تعلیمی اور تربیتی اشعار اور حج بیت اللہ کے سفر کی تفصیل ملتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی سیاست کے اُتارچڑھائو، حکمرانوں اور آمروں کے کرتُوت، سقوطِ ڈھاکا وغیرہ کا تذکرہ بھی ہے۔ دوستوں اور اعزّہ و اقربا کی بہت سی تصویریں بھی شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ بقول ڈاکٹر بشیر منصور: ’’سعید اکرم کی داستانِ حیات، عزم، حوصلے اور جہد ِ مسلسل سے عبارت ہے۔ ان کی آپ بیتی ایک فرد کی نہیں، ایک عہد کی آپ بیتی ہے‘‘۔ اشاعتی معیار بہت عمدہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)

کسی حدیث کو رَد کرنے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کہ آدمی اس کے مضمون پر تھوڑا سا غور کرے اور اگر بات سمجھ میں نہ آئے، یا اس کا کوئی غلط مفہوم ذہن میں پیدا ہوجائے، تو بے تکلف یہ فیصلہ کردے کہ’ حدیث گھڑی ہوئی ہے‘، اور ایک نظریہ یہ بھی ساتھ ساتھ قائم کرے کہ ’فلاں فلاں وجوہ سے یہ گھڑی گئی ہوگی‘۔ اس طریقے سے احادیث پرکھی جانے لگیں تو نہ معلوم کتنی صحیح حدیثوں کو دریابُرد کرڈالا جائے گا۔ حدیثوں کو پرکھنے کے لیے علمِ حدیث کی گہری واقفیت ضروری ہے اور اس کے بعد دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی میں بات کے مغز کو پہنچنے کی عمدہ صلاحیت ہو۔ اس طرح جب روایت اور درایت میں صحیح توازن قائم ہوجائے، تب انسان اس قابل ہوسکتا ہے کہ احادیث کو جانچ کر ان کی صحت و سقم اور ان کے مضمون کی معنوی حیثیت کے متعلق کوئی رائے قائم کرے۔

جس حدیث کے متعلق آپ نے تنقید کی ہے وہ مسلم، ترمذی اور مُسنداحمد میں متعدد طریقوں سے منقول ہوئی ہے اور روایت کے اعتبار سے اس پر کوئی وزنی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ رہا اس کا مضمون، تو اس موضوع سے متعلق جو دوسری احادیث وارد ہوئی ہیں، ان سب کے ساتھ ملا کر اسے پڑھاجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ’’آدمی کو جان جان کر گناہ کرنا چاہیے اور پھر توبہ کرلینی چاہیے‘‘۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’انسان بالکل بے خطا اور بے گناہ نہیں ہوسکتا۔ انسان کی اصل خوبی یہ نہیں ہے کہ اس سے کبھی گناہ سرزد ہی نہ ہو، بلکہ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ جب بھی اس سے گناہ سرزد ہوجائے ، وہ نادم ہو اور اپنے خدا سے معافی مانگے‘‘۔ اس مضمون کو ذہن نشین کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کو بے گناہ مخلوق ہی پیدا کرنی ہوتی، تو انسانوں کے بجائے کوئی اور مخلوق پیدا کرتا۔ انسان کو تو خدا نے نیکی اور گناہ دونوں کی صلاحیت و استعداد کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس نوعیت کی مخلوق سے بے گناہی مطلوب نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے تو بڑے سے بڑا مقام یہی ہوسکتا ہے کہ بتقاضائے بشریت جب بھی اس سے قصور سرزد ہو، اس پر اصرار نہ کرے بلکہ نادم ہوکر استغفار کرے۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۹، عدد۲، نومبر ۱۹۶۲ء، ص۵۶-۵۷)