مضامین کی فہرست


اپریل ۲۰۲۴

 اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ۸ فروری ۲۰۲۴ء کو ہونے والے انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کے شمار اور اعلان کردہ نتائج میں کوئی منطقی ربط نہیں پایا جاتا ۔ اس حقیقت کا اظہار جماعت اسلامی کے سندھ کی صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے عدل و دیانت پر مبنی بیان سے ہوتا ہے۔ انھوں نے سرکاری اعلان کردہ اپنی کامیابی کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کے مخالف پی ٹی آئی کے نمایندے کو ڈالے گئے ووٹ ان کے حق میں پڑنے والے ووٹوں سے زیادہ تھے، لیکن سرکاری اعلان میں انھیں تحریف کر کے جیتنے والے کو ہارنے والا بنا دیا گیا۔ یہ اخلاقی جرأت ہمارے یقین میں اضافہ کرتی ہے کہ جماعت اسلامی جس قسم کا انسان اور معاشرہ پیدا کرنا چاہتی ہے، اس میں حق گوئی، عدل اور بےغرضی کوٹ کوٹ کر بھری جاتی ہے۔ چنانچہ تحریک کا کارکن اپنے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے حق کی حمایت کو اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ایسا فرد ہی انسانی معاشرے میں مثبت، صحت مند اور عادلانہ تبدیلی لا سکتا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کی بڑی اخلاقی فتح ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی اصول پرستی اور بے لوثی پائی جاتی ہے۔

انتخابات میں اعلان شدہ نتائج کی صداقت کو نہ صرف سیاسی جماعتوں نے بلکہ ملک کے ہر باشعور شہری، حتیٰ کہ بیرون ملک کے ابلاغ عامہ نے بھی غلط اور جمہوری روایات کے مکمل منافی قرار دیا ۔ یہ بدقسمتی ہے کہ نتائج کو اپنی پسند کے مطابق ظاہر کرنے والوں کے ضمیر ابھی تک بیدار نہیں ہوسکے۔اگرچہ ’ن‘ لیگ کے چند سنجیدہ افراد نے بھی نتائج کی تبدیلی کے عمل کو شرمناک اور ان کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں براجمان ہونے والوں کی حیثیت پر اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ نفس لوامہ جب تک زندہ ہے، یہ یاد دہانی کراتا رہتا ہے کہ حق و باطل میں فرق کیا جائے اور حق بات کا اظہار کیا جائے، چاہے اس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہو ۔

عالمی طور پر نتائج میں کسی تحریف کو نہ صرف ایک قانونی اور اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے آمرانہ نظام کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تحریک اسلامی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کو آمریت سے بچانے کے لیےاور ملک کے نظام کو دستورِ مملکت کے مطابق جمہوری اداروں اور جمہوری روایات کے احیا کے لیے پُرامن ذرائع سے ملک گیر جدوجہد برپا کرے ۔

سیاسی شعور کی بیداری

ان انتخابات نے اس عام تاثر کے برعکس کہ عوام کو جو چاہے رقم سے خرید سکتا ہے یا سرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے دباؤ میں ان سے ووٹ ڈلوایا جا سکتا ہے ، یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچادی ہے کہ پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں میں ملکی مسائل کا شعور نہ صرف بیدار ہے بلکہ وہ تمام پابندیوں اور آزمایشوں کے باوجود استقامت اور صبر کے ساتھ پُرامن رہتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال اورظلم کے خلاف جمہوری انداز میں آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ احتجاج کے اظہار کےلیے توڑ پھوڑ کی جگہ صبر و استقامت اور پرامن احتجاج زیادہ مؤثر طرزِ عمل ہے ۔

انتخابات میں بے ضابطگی کےعلاوہ جمہوری روایات کو پامال کرتے ہوئے بعض اندازوں کے مطابق ملک میں بڑی تعداد میں سیاسی کارکن اس وقت جیلوں میں نظر بند ہیں۔ انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اس کے جائز حق سے محروم رکھا گیا ہے اور اس کے کارکنان پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں ۔ مزید یہ کہ پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت پارلیمنٹ کےا سپیکر، وزیراعظم اور صدر مملکت کے عہدوں پر من پسند افراد کو بٹھایا جا چکا ہے، جب کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عملاً کوئی انتظامی اختیار نہیں رکھتی۔ ان سب استحصالی اقدامات اور اپنے خیال میں حزبِ اختلاف سے نجات حاصل کر لینے کے باوجود، سیاسی قیدیوں کو رہا نہ کرنا غیر معمولی احساسِ عدم تحفظ و عدم استحکام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سیاسی آزادی کی بحالی کے لیے آواز بلند کرنا اور قوم کو ساتھ لے کر کلمۂ حق بلند کرنا ایک قومی فریضہ ہے ۔ ایک اصولی اور نظریاتی اساس پر قائم ہونے والی جماعت کا فرض ہے کہ تمام اختلافات اور تلخ تجربات سے بلند ہو کر اصولی طور پر حق کی حمایت اور ظلم و استحصال کی کھل کر مخالفت کرے۔ نوجوانوں کی راہنمائی کے لیے بھی ضروری ہے کہ پر امن دستوری ذرائع سے ظلم کے خلاف آواز اٹھتی رہے اور نفاذ جمہوریت کی تحریک ایک تسلسل سے آگے بڑھتی رہے۔

خواتین کا احترام

ملک گیر پیمانے پر تمام خواتین اور سیاسی کارکنان کی رہائی کے لیے منظم مہم وقت کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں سیاسی بنیاد پر خواتین کو جیلوں میں بند کرنا پاکستان کی سیاسی روایت سے انحراف اور ایک ظالمانہ اقدام ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں چادر اور چار دیواری کا احترام بنیادی اخلاقی اور انسانی فریضہ شمار کیا جا تا ہے۔ اسلام نے جو عزت و احترام کا مقام خواتین کو دیا ہے اس کی مثال کسی اور معاشرے میں نہیں پائی جاتی۔ سیاسی گرفتاریوں خصوصاً خواتین کی رہائی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر ملک گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر سیاسی اختلافات سے بلند ہو کر بات کرنا ، اسلامی روایات کا تقاضا اور تحریک اسلامی کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔

انتخابی نتائج کا معمہ

انتخابات میں مقتدر اداروں کی غیر دستوری دخل اندازی کے باوجود ایک بے نشان سیاسی جماعت کو ملک گیر سطح پر عوامی حمایت کا حاصل ہونا تحریکی نقطۂ نظر سے غیر معمولی توجہ کا مستحق ہے۔ ماضی کے انتخابات کے نتائج کا نظریاتی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو صرف جماعت اسلامی کو نظریاتی اور اصولی پارٹی کہا جا سکتا تھا کیونکہ اپنے اپنے منشور میں کیے گئے وعدوں کے باوجود، دیگر سیاسی پارٹیاں الگ الگ ناموں کے ساتھ، عملاً اقتدار کی دوڑ میں شریک اور ذاتی مفاد پرست افراد کا ایک مجموعہ بنی رہی ہیں ۔ جماعت ایک بے لوث اصلاحی اور اصولی پارٹی ہے۔ مزید یہ کہ جماعت وہ واحد دینی اور نظریاتی پارٹی رہی ہے ،جس کا وجودعوامی سطح پر ملک کے تمام صوبوں میں پایا جاتا ہے، جب کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ، ایک سندھ اوردوسری پنجاب میں سیاسی جڑیں رکھنے کی مدعی رہی ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی صورتِ حال کو بہتر بنایا ہے۔ خیبر پختونخوا ، پنجاب اور سندھ تینوں جگہ اس کے امیدواروں کو عوام نے ووٹ دیا۔ مگر یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کراچی کے علاوہ دیگر مقامات پر جماعت اسلامی اپنی مقبولیت میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کرسکی۔ کیا اس کا سبب پی ٹی آئی کی قیادت کا بظاہر مظلوم ہونا اور عوام کا انھیں ہمدردی کی بنا پر ووٹ دینا تھا، یا واقعتاً پی ٹی آئی کے منشور اور پروگرام سے آگاہی کی بنا پرعوام نے اس سے وابستہ افراد کو انتخابی نشان نہ ملنے کے باوجود اور غیر معروف سیاسی نشانوں پر بھاری تعداد میں ووٹ دیئے؟ اس کے کیا محرکات تھے اور پی ٹی آئی کی حکمت عملی کیا تھی ؟ سیاسی جلوس اور اسٹریٹ پاور کے اظہار کے بغیر محض سوشل میڈیا کے ذریعے انھوں نے کس طرح عوام کو ساتھ ملایا؟ یہ سب پہلو زمینی حالات کے حقیقت پسندانہ ادراک اور تجزیے کے طالب ہیں۔

 اس پہلو پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ مقتدر حلقوں کے ہاتھوں پس پردہ جو کچھ ہوا اگر وہ نہ ہوتا، تو کیا ملک گیر سطح پر ہمارا ووٹ بنک ہمارے اندازے کے مطابق ہوتا؟ اس اندازے اور حقائق کے درمیان توازن پیدا ہونا چاہیے۔

پیشہ ورانہ جائزے

انتخابات کے حوالے سے ایک سے زائد پیشہ ورانہ جائزوں اور تجزیوں کی ضرورت ہے، جو اس شعبہ کے ماہرین سے کرائے جائیں، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اگر کسی مقام پر جماعت کے امیدوار کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کو زیادہ ووٹ ڈالے گئے، تو کیا اس کا سبب اس امیدوار کا عوامی سطح پر فلاحی کاموں میں سر گرم ہونا تھا یا اس پارٹی کی شہرت کی بنا پر اسے ووٹ ملے ؟ جماعت کے امیدوار کی مہم میں کس جگہ کیا خامی رہی ؟ خود امیدوار کے حوالے سے یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امیدوار کی عمر، ظاہری وضع قطع، علمی استعداد ،محلے کی مسجد میں نماز باجماعت میں حاضری، اس کا پیشہ یا کسی مقامی معاشرتی و فلاحی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ، کس چیز نے ووٹر کو متاثر کیا؟ کیا دو معروف جماعتوں سے عدم اطمینان اور تیسری بڑی پارٹی کے معتوب ہونے کی بنا پر ووٹر نے جماعت کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہا، تاکہ کم از کم ووٹ کا وزن ایک جگہ پڑے، یا اس نے جماعت اسلامی کی دعوت ، امیدوار کی صلاحیت پر اعتماد کی بنا پر جماعت کے امیدوار کو پسند کیا ؟ ووٹر کی پسند ناپسند کا اندازہ کرنا آیندہ کے لیے رہنمائی فراہم کرنے اور خود تحریکی دعوتی سرگرمی کے لیے بھی بنیادی مواد فراہم کر سکتا ہے ۔

انتخابات سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی تصدیق اور تجزیہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ جب تک دعوت کے مخاطب کی نفسیات، زندگی کے بارے میں تصور اور معاشرتی اور معاشی تصورات کا اندازہ نہ کیا جائے، دعوت کی حکمت عملی طے نہیں کی جاسکتی۔ کیا وجہ ہے کہ پورے پنجاب میں سے جنوبی پنجاب کے دوحلقوں میں جماعت کے نمایندہ کو ۱۱ہزار سے زیادہ ووٹ ملے ہیں، جب کہ کراچی اور خیبرپختونخوا میں ۳۰،۳۰ہزار سے زیادہ ووٹ جماعت کے نمایندے کو ملے ہیں۔ اس فرق کا گہری نظر اور زمینی حقائق کی روشنی میں بے لاگ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔  ۲۵کروڑ آبادی کے ملک میں ملک گیر سطح پر جماعت کو ۲۵لاکھ ووٹ ملے ہیں، مگر   یہ منتخب نمایندے کی شکل میں کیوں نہیں ڈھل سکے؟

دعوتی حکمت عملی

انتخابات میں حصہ لینا تحریک اسلامی کے مجموعی کام کا ایک لازمی جزو ہے، جسے اقامتِ دین کی جامع اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے ۔تحریک کا اصل کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ، اس کے بندوں تک ان کے ربّ کا پیغام پہنچانا اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کی رہنمائی میں اپنے طرز عمل کے ذریعے دین کی تعلیمات کو متعارف کروانا ہے، اور تحریک اور اس کا ہرکارکن عند اللہ اس دعوتی فریضے کے لیے جواب دہ یا مسئول ہے۔ چونکہ انتخابات یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ عوام سے بڑے پیمانے پر رابطہ ہو، ان کی اخلاقی اورسیاسی تعلیم و تربیت کی جائےتاکہ وہ دیانت دار اور امانت دار افراد کو اپنا نمایندہ منتخب کریں۔ اس لیے سیاسی محاذ پر کام دعوتی کام کا ایک حصہ ہے،اسے محض ووٹ بنک بڑھانے کا ذریعہ سمجھنا سادہ لوحی ہے۔لیکن اقامت دین کے دیگر اُمور جن میں تربیت و تزکیۂ سیرت اور اجتماعیت اور نظم و ضبط کا پیدا کرنا شامل ہے، نظر انداز نہیں ہونے چاہییں ۔ ہماری انتخابی مہم کا حاصل محض ووٹوں کی گنتی اور نشستوں کی تعداد نہیں ہونا چاہیے، بلکہ توسیع دعوت، تعمیر کردار ، تطہیر افکار کرتے ہوئے سیاسی ، معاشی ،معاشرتی اور ثقافتی نظام کی اصلاح کی کوشش ہونا چاہیے، تاکہ عام سیاسی جماعتوں اور تحریک کے مزاج اور مقصد کے فرق کو ایک عام ناظر بھی محسوس کر سکے۔

اس لیے ضروری ہے کہ پورے ملک میں جہاں جہاں تحریک نے امیدوار کھڑے کیے تھے، ان کے حق میں جس شخص نے بھی ووٹ دیا، اس سے رابطہ اور تحریکی لٹریچر کے ذریعے یا قرآنی حلقۂ درس اور سیرت پاکؐ کے مطالعے کے ذریعے اسے تحریک کے قریب لانے کے منصوبہ پر فوری عمل کیا جائے اور اس میں ایک لمحہ کی تاخیر نہ ہو ۔یہ دور اعداد و شمار (Data) جمع کرکے، تجزیہ کرنے اور اس کی بنیاد پر قابلِ عمل منصوبہ بندی کرنے کا دور ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی تحریکی امیدوار کامیاب ہوا یا نہیں ، ووٹ دینے والے ہر فرد سے ذاتی رابطہ اور حکمت کے ساتھ انھیں اپنی دعوت پہنچانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

پارلیمنٹ سے باہر رہنے کے باوجود فرض کی ادائیگی

یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے نتیجے میں جماعت مرکزی پارلیمنٹ میں کوئی جگہ حاصل نہ کرسکی اور صوبائی سطح پر صرف کراچی میں ایک اور بلوچستان میں دو نشستیں حاصل ہوسکیں۔ سبب بہت واضح ہے۔ بعض مؤثر ادارے جن افراد کو لانا چاہتے تھے ریاستی قوت استعمال کرتے ہوئے انھیں ایوان تک پہنچا دیا گیا۔ان حقائق کے باوجود یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ فارم ۴۵ کے مطابق جماعت نے ملک گیر پیمانے پر اس انتخاب میں اور سابقہ انتخابات میں مرکز اور صوبوں میں کل کتنے ووٹ حاصل کیے اور کیا حاصل شدہ ووٹ اس کے متوقع ووٹوں کی تعداد سے مطابقت رکھتے تھے ؟

لیکن اس جائزے اور سروے کے نتائج کا انتظار کیے بغیر زمینی حقائق کی روشنی میں فوری طور پر دعوتی حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ داعی تحریک اسلامی سیّد مودودی نےایسے مواقع کے بارے میں اپنے ایک تاریخی خطاب میں جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا، یہ بات فرمائی تھی کہ تحریک کے کام میں اگر رکاوٹ کا پہاڑ بھی سامنے آ جائے تو تحریک رُکتی نہیں۔ وہ پہاڑی نالے کی طرح پہاڑ کے دائیں اور بائیں سے راستہ تبدیل کر کے اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی ہے، اور پہاڑ اپنی جگہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں جو لوگ بھی ہیں، ان سے سرگرم تعلقات کے ذریعے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے کون افراد نظریۂ پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں اور ملک کے دستور کی روشنی میں ملک میں اخلاقی اور اصلاحی کام کو ترجیح دیتے ہیں؟ ان کے ساتھ ان موضوعات پرجن کا تعلق نظریۂ پاکستان اورآئین پاکستان میں درج جمہوری روایات سے ہے، باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے رابطہ استوار کیا جائے۔

اس سلسلے میں ان موجود افراد کو علمی اور فکری زاویے سے جس تعاون کی ضرورت ہے وہ فوراً فراہم کیا جائے ۔ان نمایندگان سے ذاتی رابطہ پورے خلوص کے ساتھ قائم کیا جائے، انھیں مختلف موضوعات پر مواد کی فراہمی، تحریک سے وابستہ افراد کے ذریعے کی جائے۔اس عمل سے کسی پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچے تو ہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے ۔ ہمارا مقصد دین اور نظریۂ پاکستان کا نفاذ ہے۔ اگریہ کام ہمارے ہاتھ سے نہ بھی ہو لیکن کسی اور کے ذریعے ہو جائے تو یہ ہماری ہی کامیابی ہے۔

ان بنیادی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ چند امور پر فوری توجہ دی جائے:

کرنے کے کام

۱- دعوت الٰی اللہ

ایک عام شہری ہی نہیں پڑھے لکھے جہاں دیدہ افراد بھی سیاسی مہم کا مقصد حصولِ اقتدار و اختیارات ہی سمجھتے ہیں، اور انتخابات میں کسی پارٹی کی کامیابی سے یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر عوام سے کیے گئے وعدوں پر کام کرے گی۔ انتخابات سے پہلے، دوران انتخابات اور انتخابات کے بعد، ہر مرحلے میں تحریکی فکر یہ مطالبہ کرتی ہے کہ سیاسی جدوجہد کا مقصدحصولِ اقتدار کی جگہ اقامت دین کے لیے زمین کی تیاری کی جائے اور ذاتی اقتدار کی جگہ اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کے نفاذ کی کوشش کو اپنی گفتگو، حکمت عملی اور رابطہ مہم میں مرکزی مقام دیا جائے۔ انتخابات کےنتائج سے قطع نظر تحریک کے ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ اقامت دین اور اپنے مخاطبین کی فکری تربیت اور عملی تنظیم میں کمی نہ آنے دے اور سیاسی مہم کے دوران اور اس کے بعد بھی اپنے اصل مشن اور مقصد کے حصول کے لیے اس کے پاس واضح نقشۂ عمل ہو ۔ اصل مشن اور مقصد کے حصول کے لیے خود کو اوردوسروں کو یاد دہانی اور تاکید میں کمی نہ آنے دے۔ جگہ جگہ قرآنی حلقوں کا قیام اور سیرت پاکؐ کی روشنی میں تعمیر سیرت کی نشستوں اور تربیت گاہوں کا جتنا زیادہ اہتمام کیا جائے گا، اللہ کے کلام اور اللہ کے رسولؐ سے جتنی قربت ہوگی، دعوت کو اتنی ہی کامیابی ہوگی۔

۲-سیاسی آزادیوں کا تحفظ

دستور ریاست ِ پاکستان جن سیاسی آزادیوں کا تحفظ دیتا ہے تحریک کو ان کے حصول کے لیے ملک گیر مہم برپا کرنی چاہیے، تاکہ جن افراد کو جبراً لاپتہ کیا گیا ہے، ان پر کھلی عدالت میں کارروائی ہو، اور جو سیاسی کارکن خصوصاً خواتین اس وقت بلا کسی اخلاقی جواز کے جیلوں میں ہیں، اور جن صحافیوں کو ان کی حق گوئی کی بنا پر قید کر دیا گیا ہے، ان کو رہا کر ایا جائے اور ملک میں دستور میں دیے گئے جمہوری حقوق کو بحال کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تہذیبی اور سیاسی روایات اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کی حفاظت میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔

۳- معاشرتی تباہی سے بچاؤ

اداراتی دخل اندازی سے جن افراد کو برسر اقتدار لایا گیا ہے، وہ ایک حزبِ اختلاف کے موجود ہونے کے باوجود ایسی قانون سازی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں جو بیرونی دشمنانِ پاکستان کی مرضی کے مطابق ہو۔ ماضی میں بھی دشمنانِ وحدت ملت کی کوشش ہمیشہ یہ رہی کہ ملک میں سیاسی عدم توازن پیدا کرکے ایسے افراد کو اقتدار میں لایا جائے، جو ذہنی طور پر مغربی سامراج کے غلام اور تابع دار ہوں۔

 عدالت عظمیٰ پاکستان کے ایک حالیہ فیصلے سےبراہِ راست فائدہ قادیانیوں کو ہوا ہے اور ایسے اہم فیصلے کا انتخابات سے دو دن قبل آنا ایک معنی خیز اقدام کہا جا سکتا ہے ۔ایک عرصے سے بیرونی دشمن اس مہم میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح قادیانیوں کو جن کا وجود تاج برطانیہ کا مرہونِ منت تھا اور جو مرزا غلام احمد کے تحریری بیانات کے مطابق برطانوی مفادات کے تحفظ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے، مذہبی آزادی کے بہانے قادیانیت کی ترویج کے دروازے کو کھول دیا جائے۔ ایسے ہی ایک دوسرے فتنہ یعنی مخنث افراد سے ہمدردی کے نام پر جنسی تبدیلی اور اباحیت کے دروازے کو بھی کھول دیا جائے تاکہ پاکستانی نوجوان ان دو شیطانی وباؤں کا شکار ہو کر اپنی تعمیری اور اصلاحی صلاحیتوں سے محروم ہو جائیں ۔ ان دونوں فتنوں پر ملک گیر پیمانہ پر علمی مجالس کا انعقاد ، رائے عامہ کی ہمواری اور قانون ساز اداروں میں ہونے والی پس پردہ سرگرمیوں سے آگاہی قومی فلاح کے لیے بہت ضروری ہے۔ حزبِ اختلاف کا چوکنا رہنا اور تحریک کی جانب سے ان دونوں معاملات میں مددگار فکری و عملی اثاثہ (supporting material) اور اخلاقی حمایت فراہم کرنا لازم ہے۔

۴-ملکی اداروں کا دائرہ کار

ملک ِ عزیز میں موجودہ سیاسی عدم استحکام اور فکری انتشار کا بنیادی سبب ملکی اداروں کا اپنے دائرۂ کار کے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے شعبوں کو اپنے زیر تسلط لانے کا کھیل ہے، جو ملک کے دستور کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ملکی سالمیت اور بقا کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہر شعبہ دوسرے شعبے کے دائرۂ کار کا احترام کرتے ہوئے تعاون تو کرے، لیکن اس کا استحصال نہ کرے۔ اس حقیقت واقعہ کے نتیجے میں گذشتہ دو برس کے دوران میں جس تیزی سے عوام کا اعتماد مقتدر اداروں سے اٹھا ہے اور اداروں کی عزّت ان کی اپنی غیر دانش مندی کی بنا پر برباد ہوئی ہے،اس کو دوبارہ استوار کرنے کے لیےغیر معمولی محنت، دیانت، امانت اور سچائی کی ضرورت ہے۔

جس معاشرے میں عدل اور قانون کا احترام ختم ہو جاتا ہے، وہاں انتشار اور خودغرضی رواج پا جاتی ہے اور اخلاقی زوال زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر جاتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جن اقوام نے اخلاقی زوال کی روک تھام نہیں کی انھیں کوئی طاقت صفحۂ ہستی سے مٹنے سے نہیں روک سکی۔ اُمت مسلمہ کی پہچان اس کا وہ اخلاقی طرزِ عمل ہے، جسے قرآن کریم نے امر بالمعروف اور عملِ صالح کے الفاظ سے واضح کیا ہے ۔اس کے مقابلے میں اگر معروف کی جگہ ’منکر‘ اور ظلم و جبر کو اختیار کیا جائے، تو اس مدت ِمہلت کے گزرنے پر جس کا علم صرف اللہ کو ہے، وہ قوم اپنا وجود اور جواز کھوبیٹھتی ہے۔ قومی سطح پر معروف کا قیام اور منکر کا مٹانا قرآن کریم کی رو سے امت مسلمہ اور تحریک اسلامی کا فرض منصبی ہے ۔اس فرض کی ادائیگی کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

۵-ملکی وقار اور خود مختاری

سیاسی عدم استحکام اداروں کے دائرۂ کار کے اختلاط اور معاشی اضمحلال کا ایک بڑا سبب برسرِاقتدار آنے والوں کی وہ غلامانہ ذہنیت ہے، جو اپنے ذاتی مادی مفاد کو قومی وقار پر فوقیت دیتی ہے۔ یہ ٹولہ بیرون ملک ہر اس ملک کے فرماں روا کے سامنے کاسۂ گدائی اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا جہاں سے قرض ملنے کی توقع ہو۔ ایسے مالی قرضے کو یہ اپنا کارنامہ دکھانے کے ساتھ اس قرض کی رقم کو کسی دوسرے قرض کی ادائیگی میں استعمال کرلیتا ہے، اور اسے اپنی فنی مہارت کہہ کر اپنے آپ کو خوش کرتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ پالیسی معیشت کو قطعاً بہتر نہیں بنا سکتی ۔

عالمی مالی اداروں سے مزید قرض یا سود کی ادائیگی کے بارے میں مہلت کی مہنگی بھیک کی جگہ ان اداروں سے مکمل گلو خلاصی کی ضرورت ہے۔ تحریک کو چاہیے کہ ماہرین کی مدد سے قوم کے سامنے اس مرض کا علاج تجویز کرے تاکہ ملک میں معاشی ترقی اور اپنی ذات پر اعتماد پیدا ہوسکے۔ بے ساکھیوں کی مدد سے چلنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔جب تک جسم کو صحت مند نہیں بنایا جائے گا عارضی نسخے کسی بھلائی کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتے۔

۶- بیرون ملک پاکستانیوں کے حقوق

برسر اقتدار طبقہ نے یہ جاننے کی بنا پر کے بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی تعداد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست سے بیزار ہے، ان کے دستوری حق کو ان سے چھین کر انھیں ووٹ دینے سے محروم کیا۔ یہ قومی سطح کی بددیانتی ہے اور تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے حق کے لیے قوم کو اعتماد میں لے اور دستوری ذرائع سے یہ بات تسلیم کرائے کہ وہ برقی ذرائع سے اپنے ووٹ دے سکیں۔

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ملکی معیشت میں بیرون ملک پاکستانیوں کے کردار کے پیش نظر ان تک تحریک کی دعوت مؤثر انداز میں پہنچائی جائے ۔ان میں پاکستان سے وابستگی کو مزید مستحکم کیا جائے اور ان کی نا اُمیدی کو دُور کیا جائے اور ملکی مسائل پر ان کی آراء کو عوام اور نمایندہ ایوانوں میں پہنچایا جائے ۔اس غرض سے بیرون ملک پاکستانیوں کی قائم کردہ تنظیمات سے رابطہ اور ان کی مثبت رہنمائی بے حد ضروری ہے۔ وہ پاکستان کا اثاثہ ہیں اور ملک سے دُور ہونے کے سبب ملک کے بارے میں یہاں بسنے والوں سے زیادہ ملک کے تحفظ و ترقی کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ ان میں دعوت دین کا فروغ، ان کی پاکستانیت کو زیادہ مستحکم اور فعال بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

اللہ تعالیٰ اپنے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کی حفاظت فرمائے ۔ یہ وہ ملک ہے جو ۲۷رمضان المبارک کی شب قدر کو وجود میں آیا اور دورِحاضر میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والا پہلا ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے مستحکم اور قوی تر بنائے اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرے اور ہمیں پاکستان میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی توفیق دے، آمین!

قرآن مجید، اللہ کی کتاب ہونے کے ساتھ زمین کے اوپر خالقِ کائنات کی نشانی ہے۔ اس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مخلوق نہیں بلکہ خالق کا کلام ہے۔اس سے مراد اس کا کاغذ، سیاہی یا اس کی جلدنہیں بلکہ اس کی روح ہے، جو ایک غیر مرئی کلام ہے۔خود مالکِ کائنات اسے کفار کے اس اعتراض:’’یہ اکٹھا کیوں نہیں اتر تا؟ کہیں اس کو بیان کرنے والا سوچ سوچ کر موقع محل کے لحاظ سے کچھ دل سے تو نہیں گھڑلیتا ہے (نعوذ باللہ)‘‘، کے جواب میں یہ فرماتا ہے کہ’’ اے نبیؐ، یہ ہم ہیں جو اسے تم پر تھوڑا،تھوڑا بتدریج ( نجمًا، نجمًا) اتار رہے ہیں‘‘۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِيْلًا۝۲۳ۚ (الدھر ۷۶:۲۳)، خیال رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والے کلامِ الٰہی کا یہ نامِ نامی نزولِ قرآن کے دوران پہلی مرتبہ سورئہ دھر میں آیا جو نبوت کے پانچویں برس میں نازل ہوئی۔ جب سہ سالہ خاموش دعوتی دور کے بعد ہر چوک، بازار اور میلے میں ایمان کی دعوت دی جارہی تھی ۔

lکتابُ اللہ کو اللہ تعالٰی کے عطا کردہ نام: اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اس کلام کا نام بھی بتا دیا جائے کہ اہلِ مکہ’ توراۃ اور 'انجیل‘ کے ناموں سے تو واقف تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل حسرت و یا س سے کہا کرتے تھے کہ ’کاش! ہمارے پاس بھی کوئی آسمانی کتاب آتی تو ہم اُس پر عمل کرتے اور ہدایت یاب ہوتے‘۔ کلام پاک میں خود اس کتاب کے الْقُرْاٰنَ تَنْزِيْلًا سے ماسوامزید چھ (۶) نام آئے ہیں اور یہ تمام نام مکی سورتوں ہی میں وارد ہوئے ہیں۔

مدینے پہنچنے سے قبل سارے حجاز میں کتابُ اللہ کی حیثیت معلوم، معروف اور مستحکم ہو گئی تھی۔ اس کتاب کو جب نخلہ کے مقام پر جنوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں تلاوت کرتے ہوئے سُنا تو کہا: اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَـجَــبًا۝۱ۙ ( الجن۷۲:۱)، یعنی یہ قراءت کی جانے والی، تلاوت کی جانے والی یا پڑھی جانے والی بے مثال اور حیرت انگیز چیز ہے۔اسے سورئہ قٓ میں وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ ،انتہائی بزرگی والا کہا گیا، درحقیقت خالق کائنات کی بزرگی اِس کے ساتھ ملحق ہے۔ سورئہ طٰہٰ میں قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا کہا گیا۔ سورئہ یٰسٓ میں اسے حکمت سے بھرپور ہونے اور اپنے بنیادی معانی اور مفاہیم کو باوضاحت کھول کربیان کرنے والی نصیحتوں سے بھر پور ہونے کی بنا پر قُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ اور ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ کے ناموں سے پکارا گیا۔ سنہ ۶ نبوی میں اہلِ شہر پر اتمامِ حجت کرتی ہوئی سورۂ کافرون کے بعد سورئہ واقعہ میں بڑا فیض بخش بتانے کے لیےاسے قُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ   کہا گیا کہ نادانو، جس چیز کو تم ٹھکرا رہے ہو، وہ تو انتہائی فیض بخش و فیض رساں ہے۔ اپنے کلام کو اللہ تعالیٰ نےآخری مرتبہ ۱۲ویں سنہ نبوت میں، جس برس معراج ہوئی قُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ کےنام سے سورئہ فجر میں پکارکے اس کی شان و عظمت کو بیان کیا۔ کسی مدنی سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب کو اِن ناموں سے ماسوا کسی دیگر نام سے نہیں پکارا۔

قرآن مجید کے ۲۳ سالہ دورِ نزول میں لفظ ’قرآن‘ ۶۳ مرتبہ مکہ میں نازل ہونے والے قرآن میں اور ۷ مرتبہ مدینہ میں اُترنے والے قرآن میں وارد ہوا ہے۔ ہر مرتبہ یہ اُس کے مقاصدِ نزول، اُس کی برکات، اُس کے مقام اور اس کے ساتھ انسان اور اہلِ ایمان کے تعلق اور پسندیدہ روّیے کو بیان کرتا ہے۔ یہ حالتِ رفعی، نصبی و جرّی، تینوں صورتوں میں آیا۔ باطل کے ساتھ کش مکش اور آخر کار دین کے کامل اور غالب ہوجانے کے مختلف مراحل میں اس کا بیان دینِ اسلام کے دعوتی، تربیتی اورانقلابی تینوں پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اقامت ِ دین کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد اور کارِ نبوت کی تکمیل کی تاریخی ترتیب پر اس لفظ کے استعمال پر تدبر، تفہیمِ دین کی راہیں کشادہ کرتاہے۔

یہاں پر ۲۳ برسوں کے مختلف مراحل میں اس دور کےاحوال سے مناسبت رکھنے والی کچھ نمائندہ مکّی آیات پر گفتگو سے قارئین کو لفظ ’قرآن‘ کو سمونے والی آیات پر غوروتدبر سے قرآن فہمی اور اُس کے مقاصدِ نزول سے عمیق آگہی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ مختصر مضمون میں تمام ۷۰ آیات پر روشنی ڈالنا مشکل ہے۔ تاہم ہر برس کی ایک دو آیات کو اُس زمانے اور اُس وقت کے احوال میں قرآن ، جو کچھ خود اپنے بارے میں بیان کرتا ہے ہم پیش کرتے ہیں، جن کا بنیادی اور مرکزی فہم ہر سننے والے کو حاصل کرنا آسان ہوتا تھا۔

حیاتِ طیّبہ کے دوسرے برس، سورئہ قیامہ میں فرمایا گیا: اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۝۱۷ۚۖ  فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۝۱۸ۚ  ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗ۝۱۹ۭ (القیامۃ ۷۵:۱۷ -۱۹) کہ اے نبیؐ، نزولِ قرآن کے موقع پر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے تمھارے ذہن نشین کر ا دیں(جَمْعَهٗ) اور تم سے پڑھوا دیں (قُرْاٰنَهٗ)۔ اسے یاد کرنے کے لیے کسی تردّد کی ضرورت نہیں۔ پس، جب جبریلؑ امین اسے تمھیں سنا رہے(قَرَاْنٰهُ) ہوں تو تم اس قراءت کا تتبع کرو، یعنی توجہ سے سنو۔ رہا اس کی تشریح و تفسیر سمجھنے (بَیَانَهٗ) کے لیے بھی کسی پریشانی کا کیا معاملہ، یہ تو ہمارے ذِمّے ہے۔

یہاں ذرا ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ غور کریں کہ رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہنِ مبارک پرقرآن کی تشریح و تفسیر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام اللہ کی جانب سے  آپؐ پر کسی خیال و مضمون کا القا، وحی کی شکل میں ہی ممکن ہے، جسے ہم ’وحی غیر متلو‘ کہتے ہیں۔  پس معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ’وحی متلو‘ (قرآنِ مجید) کے علاوہ بھی وحی کا ایک بڑا خزانہ اتارا گیا، جس کے ذریعے آپؐ نے قرآن مجید کی قولی اور عملی تفسیر دنیا کے سامنے پیش کی۔ آخر کس نادانی سے منکرینِ اسلام، سنّت کی اہمیت و وجوب کا انکار کرتے ہیں۔

حیاتِ طیّبہ کے چوتھے برس میں، جب مکّہ شہر والےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا اپنے لیڈروں کی پیروی میں مذاق اُڑا رہے تھے اور بات کو مان کر نہ دےرہے تھےاور نہ بات کوسمجھنا ہی چاہ رہے تھے، تو ایسی صورتِ حال میں سورئہ سبا میں فرمایا گیا: وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ۝۰ۭ وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚۖ يَرْجِــعُ بَعْضُہُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ۝۰ۚ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ۝۳۱(السبا ۳۴:۳۱) ’’کافر کہتے ہیں کہ ’’ہم ہرگز اس قرآن کو نہ تسلیم کریں گے اور نہ اِس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کو‘‘، کاش! تم ان کا حال اس وقت(روزِ محشر) دیکھو جب یہ ظالم مشرک اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہوں گے۔ اس وقت یہ ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے، جو پیچھے چلنے والےلوگ (عوام کالانعام)دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے، وہ بڑے بننے والے اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ ’’ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے‘‘۔

پانچویں برس میں، جب مومنین پرایمان لانے کے جرم میں زندگی تنگ کردی گئی تھی، جسمانی اذیتوں اور معاشرتی پابندیاں اُن کا مقدّر بن رہی تھیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی جانب سے انکار و ناقدری پر بہت افسردہ تھے۔ سورئہ قٓ میں فرمایا گیا: نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِجَبَّارٍ ۝۰ ۣ  فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ۝۴۵ۧ  (قٓ۵۰:۴۵)، ’’اے ہمارے پیغمبرؐ، ہمیں معلوم ہے، جو باتیں تمھاری دعوت کے جواب میں یہ بناتے ہیں۔ سنو، تم اِن پر زور زبردستی کرکے اسلام میں داخل کر دینے والے داروغہ بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو، تمھارا کام بس اتنا ہے کہ جو ہماری تنبیہات سے ڈرتا ہو اُسےقرآن مجید کے ذریعے نصیحت کرو ‘‘۔

پانچویں برس کے وسط میں اپنے دین و ایمان کو بچانے اور دیارِ غیر میں اسلام کی دعوت  پہنچانے کی غرض سے اللہ تعالیٰ کی مشیت مسلمانوں کے ایک گروہ کو ہجرت کرا کے قریب کی مسیحی مملکت حبشہ کی جانب لے گئی۔ قریش کی جانب سے اِن مسلمانوں کو واپس مکہ لانے کی سفارتیں اور تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور وہاں کے سربراہِ مملکت نجاشی نے مسلمان مہاجرین کو عزّت و اکرام دیا۔ اس کے نتیجے میں اِس خوف سے کہ مکہ میں باقی رہ جانے والے مسلمان بھی کہیں وہاں نہ چلے جائیں اور پھر اُن کی مملکت مسلمان ہو کر اِن پر حملہ آور نہ ہو جائے، وہ مسلمانوں کو مزید تنگ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تُل گئے۔ اسی برس کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیّدناحمزہ ﷛ بھی ایمان لے آئے۔

اِن کے ایمان لانے کے چند ہی روز بعد چھٹے برس کا آغاز ہو گیا اور عمرؓ بن الخطاب ایمان لے آئے۔یہ چھٹا برس ہے اور اہلِ ایمان کے لیے دورِ تشدد اختتام کی جانب ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اہلِ ایمان کو بتایا جاتا ہے:طٰسۗ۝۰ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ۝۱ۙ ہُدًى وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝۲ۙ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ يُوْقِنُوْنَ۝۳ (النمل ۲۷:۱ -۳)۔ فرمایا جا رہا ہےکہ ’’طٰسٓ، یہ آیات ہیں قرآن اور کتابِ مبین کی، ہدایت اور بشارت اُن ایمان لانے والوں کے لیے جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پُورا یقین رکھتے ہیں‘‘۔ قرآن اعلان کر رہا ہے کہ اپنے معانی بیان کرنے میں وہ ایک کھلی کتاب، كِتَابٍ مُّبِيْنٍ ہے، ایک عام قاری جو اسے اخلاص کے ساتھ مطالعہ کرکےسمجھنا چاہے اُسے یہ اپنا مرکزی خیال بہ آسانی مہیا کرتی ہے۔

آنے والے دنوں میں، آٹھویں برس، قرآن نے اپنے بارے میں یہی بات تکرار کے ساتھ بتائی: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۴۰ۧ (القمر۵۴: ۴۰ )، یعنی تحقیق ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے بڑا آسان اور موزوں بنایا ہے، پس ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔

اس مقام پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ رسالت کا ساتواں، آٹھواں اور نواں برس وہ زمانہ تھا،جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے بنو ہاشم کو آپؐ کی پشت پناہی کے ’جرم‘ میں سارے قریش کے مقاطعے کا سامنا تھا، نہ کوئی بات کرتا تھا، نہ اِن سے خرید و فروخت ، نہ شادی بیاہ۔    اِن حالات میں ابو طالب، سردارِ بنو ہاشم اپنے پورے قبیلے کو لے کر آبادی سے باہر کی جانب قبیلے کے ایک قطعۂ زمین، شعبِ بنو ہاشم پر جا کر قیام پذیر ہو گئے تھے۔اسی مقاطعہ کے دوران سورئہ فرقان نازل ہوئی، جس میں روزِ قیامت اللہ کے رسولؐ کی جانب سے اپنی قوم کے قرآنِ مجید کے ساتھ بے اعتنائی برتنے اور اسے نشانہ تضحیک بنانے پر احتجاج کیے جانے کا تذکرہ یوں وارد ہوا: وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝۳۰(الفرقان ۲۵:۳۰) ’’اور رسولؐ کہے گا کہ ’’اے میرے ربّ، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنالیا تھا‘‘۔

شعب بنوہاشم میں مقاطعے کے تین برس گزارنے کےبعد، جب بنو ہاشم نبوت کے دسویں برس کے اوائل میں واپس شہر میں آئے تو ابو طالب مرض الموت میں تھے، دیگر سردارانِ قریش نے چاہا کہ ابوطالب اپنے انتقال سے قبل محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ بقائے باہمی کا کوئی معاہدہ کروا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ لوگ توحید کی گواہی دیں تو عرب و عجم کی بادشاہی اِن کی ہو گی۔ یہ سُن کر تمام سردار مایوس ہو کر یہ بڑبڑاتے ہوئے پلٹ گئے کہ یہ تو وہی اپنی پرانی رٹ لگائے ہوئے ہے ۔ سورئہ صٓ اِس اجلاس کی رُوداد بیان کرتی ہے اور اس سورہ کا آغاز قرآن مجید کے سراسر نصیحت ہونے کے اعلان سے ہوتا ہے:صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ۝۱ۭ (صٓ ۳۸:۱)

اس سال کے اواخر میں آپؐ نے اہلِ مکہ کی طرف سے فوری طور پر مزید کسی تعاون کا قرینہ نہ پاکر طائف کا رخ کیا کہ شاید وہ بات کو سمجھیں، لیکن اُن کے سرداروں نے آپؐ کو سخت تضحیک کا نشانہ بنایا۔ واپسی کے سفر میں مکہ کی سرحد، نخلہ کے مقام پر جنوں نے آپؐ کو قرآن مجید تلاوت کرتے ہوئے سُنا اور وہ ایمان لے آئے۔ اس بات کا تذکرہ سورئہ احقاف میں اِن الفاظ میں وارد ہوا:وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا۝۰ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِيْنَ۝۲۹(احقاف۴۶:۲۹)،’’جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمھاری طرف لے آئے تھے، تاکہ قرآن سنیں، جب وہ اس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے ) تو انھوں نے آپس میں کہا: خاموش ہو جاؤ۔ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے‘‘۔ یہ بات آپؐ کے لیے اطمینان کا ذریعہ بنی۔

بنو ہاشم کے سردار، ابو لہب نے اپنے بھتیجے کو بنو ہاشم سے خارج کرتے ہوئے اُس کی پشت پناہی سے ہاتھ اُٹھا لیا تھا۔ مطعم بن عدی کی جانب سے پناہ مل جانے پر اُس کی حفاظت میں آپؐ مکہ میں داخل ہو سکے۔ چند ہی ہفتوں بعد حج کا موسم آ گیا اور حسبِ معمول آپؐ باہر سے آنے والے حاجیوں تک توحید کی دعوت پہنچانے میں سرگرم ہوگئے۔ اس سرگرمی کےدوران یثرب سے آئے ہوئے چھ افراد کے سامنے ایمان کی دعوت پیش کی تو سیّدنا اسعدبن زرارہ  کی تحریک پر یہ تمام لوگ ایمان لے آئے۔ یہ واقعہ یثرب کے مدینۃ النبی بننے کا نقطۂ آغاز تھا۔

ادھر اسلام اپنے غلبے کی ایک اڑان لے رہا تھا، مگر قریش اپنی بڑائی کے زعم میں اس بات سے غافل تھے کہ زمین اُن پر تنگ ہوتی جارہی ہے۔ اسلام حبشہ ، یمن اور یثرب ہی میں نہیں تمام اطراف شہرِ مکہ میں اپنی جڑیں پکڑنا شروع کر چکا تھا۔ یہ نبوت کا گیارھواں برس تھا۔ آپؐ کی قوم کے مشرکینِ قریش قرآن مجید کو اللہ کی کتاب تسلیم نہ کرنے پر اڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے معجزبیان کے کلام کو انسانی کلام کہہ رہے تھے۔ چنانچہ اب قریش پر اتمامِ حجت ہو رہا تھا۔

سورئہ یونس اسی اتمام حجت کو بیان کرنے والی سورہ ہے۔ اس میں قرآن کی حقیقت یوں بیان کی جاتی ہے:وَمَا كَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۳۷(یونس ۱۰:۳۷)،’’اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کی جاسکے، بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آسمانی کتب آچکی ہیں اُن کی تصدیق اور لوح محفوظ میں ثبت و رقم الکتاب کی تفصیل ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے جہانوں کے پالنہار کی جانب سے ہے‘‘۔

بارھویں برس میں اہلِ مکہ پر جاری اتمامِ حجت کے دوران، جب بیعت عقبہ اولیٰ ہو چکی اور یثرب میں تعلیم کے لیے حضرت مصعب بن عمیرؓ وہاں تشریف لے جا چکے اور اہلِ یثرب کی مختلف جماعتوں کے لیے نقیب مقرر کیے جا چکے، تو اہلِ مکہ کی ضد اور ہٹ دھرمی پر آزردہ اہلِ ایمان کوسورئہ رعد میں یہ بتایا گیا کہ ناممکنات کو ممکن بنا دینا اللہ کے لیے ناممکن نہیں۔ کیا اہلِ ایمان نہیں جانتے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟ لیکن اللہ کی مشیت یہ نہیں کہ وہ زبردستی بغیر لوگوں کی چاہت کے ایمان اُن کے سینوں میں اُنڈیل دے۔ ایمان اُن ہی لوگوں کو عطا ہوتا ہے، جو اُس کی طلب میں صادق ہوتے ہیں۔فرمایا گیا: وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِہِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلْ لِّلہِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا   ط (الرعد ۱۳:۳۱)،’’اور کیا ہوجاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا، جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟‘‘ اس بارھویں برس میں نازل ہونے والی سورۃ الحجر میں سات آیات والی سورۂ فاتحہ کی عظمت کے بارے میں فرمایا گیا:وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ۝۸۷  (الحجر ۱۵: ۸۷)،’’ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں اور تمھیں قرآنِ عظیم عطا کیا ہے‘‘۔

علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ  سے مرادسورۂ فاتحہ ہی ہے جیساکہ بخاری و موطا، امام مالک کی احادیث بیان کرتی ہیں (بخاری کی احادیث ۴۴۷۴، ۴۷۰۳؛ موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ ۸، مَاجَاءَ فِی اُمِّ الْقُراٰنِ) اور تمام متقدمین مفسرین بیان کرتے ہیں۔ دورِحاضر کےبعض محققین نے اس سے مراد کلام مجید کے نہ ختم ہونے والے اسرار و رُموز کو کھولتے ہوئے اس سے کچھ دوسرے بالکل مختلف معانی بھی اخذ کیے ہیں۔(تدبر قرآن، چہارم، ص ۳۷۸)

سیرت النبیؐ کے مطالعے میں یہ بارھواں برس اس لحاظ سے بھی اہم اور بابرکت ہے کہ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا ہوئی۔ معراج کا تذکرہ سورئہ بنی اسرائیل میں وارد ہے، جیسا کہ لوگ جانتے ہیں کہ معراج میں پنج وقتہ نماز کا حکم ملا، جس کا تذکرہ یوں وارد ہوا : اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۝۰ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہُوْدًا۝۷۸  (بنی اسرائیل ۱۷: ۷۸)،’’نماز قائم کرو(اہتمامِ وقت کے ساتھ خشوع و خضوع سے معاشرے میں نماز کی ادائیگی کا نظام) زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) اور فجر کے قرآن (با اہتمام طویل قراءت)کا بھی التزام کرو، کیونکہ (فرشتوں کی گواہی/ شہادت سے) قرآنِ فجر مشہُود ہوتا ہے‘‘۔نماز کے پانچوں اوقات کی جانب سورۂ ہود میں اشارات موجود ہیں (تفہیم القرآن، دوم، حاشیہ ۹۵، ص ۶۳۵)، منکرین حدیث کا یہ دعویٰ کہ ’’پانچ اوقات کی جانب قرآن مجید میں کوئی اشارہ نہیں‘‘، بالکل بے بنیاد ہے۔

دورِ نبوت کا تیرھواں برس مکہ میں دورِ نبوت کا آخری برس ہے۔ آپؐ ماہِ صفر کی آخری تاریخوں میں یثرب کی جانب ہجرت کے لیے غارِ ثور میں قیام پذیر ہوئے۔ تین روز یہاں قیام کرکے یہیں ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کے آگے روانہ ہوئے۔ تیرھویں برس میں ہجرت سے کچھ قبل سورئہ اعراف اور سورئہ نحل کی دو آیات نازل ہوئیں جن میں قرآن کو توجہ سے سننے اور تلاوت سے قبل تعوذ کے کلمات ادا کرنے کی ہدایت کی گئی: وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۲۰۴ (اعراف ۷:۲۰۴) ’’جب قرآن تمھارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے‘‘، اور فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۝۹۸ (النحل ۱۶:۹۸)’’پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو‘‘۔

مرد عورتوں پر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ۔ اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے ۔(النساء۴:۳۴)

مرد عورتوں پر قوام ہیں

’’قوام یا قیم ّاس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت ونگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کر نے کا ذمہ دار ہو‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص ۳۴۹)

’مرد قوام ہے‘ ،بڑی بحث کا عنوان ہے ۔جدید ترقی یافتہ ،تعلیم یافتہ اور حقوق نسواں اور مساوات مرد و زن کی علَم بردار خواتین کو تو یہ بالکل ہضم نہیں ہوتا ۔ہاں، ادارے کا سربراہ ہونا ،گوارا ہے، مرد حاکم ہے تو بالکل گوارا نہیں ۔اس قسم کی عورتوں کے گروپ یا میٹنگ میں اس طرح کا بیان دینا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے۔ پورا نظام معاشرت سمجھا کر، گھر میں تقسیمِ کار کی بات کریں اور پھر اس نکتے پر آ ئیں تو سننے پر کچھ آمادگی ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کی فضیلت کی جو وجوہ بیان کی ہیں، ان میں سے ایک وجہ مال خرچ کرنا ہے۔ اس پر  سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جو مرد کماتے نہیں ہیں،یا بیویاں کماتی ہیں اور کمائی شوہر سے کئی گنا زیادہ ہے ،تو اب مرد قوام تو نہیں رہے گا اور مال خرچ کرنے کی وجہ ساقط ہوگئی۔ ویسے تو مہر اور نان و نفقہ بھلے عورت مال دار ہو ، مرد کی ہی ذمہ داری ہے ۔ خیال رہے کہ مرد کی فضیلت کی دوسری وجہ ہے: ’’اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘‘۔لہٰذا اگر ایک وجہ نہ بھی رہے تو دوسری تو موجود ہے۔

’’یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزّت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اُردوخواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا،بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں۔اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبرگیری کے تحت رہنا چاہیے۔

حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمھارا جی خوش ہو جائے، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمھاری اطاعت کرے، اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمھارے پیچھے تمھارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے‘‘ ۔

یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر بیان کرتی ہے ،مگر یہاں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم ایک اور اقدام اپنے خالق کی اطا عت ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دے، یا خدا کے عائدکیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے، اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے۔ اس صورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گناہ گار ہوگی ۔بخلاف اس کے اگر شوہر اپنی بیوی کو نفل نماز یا نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہےتو لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ اس صورت میں اگر وہ نوافل ادا کرے گی تو مقبول نہ ہوں گے‘‘۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ نساء، ص ۳۴۹)

’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ ‘‘___ اس کا ’’یہ مطلب نہیں ہے کہ تینوں کام بیک وقت کرڈالے جائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبیروں کی اجازت ہے ۔ اب رہا ان پر عمل درآمد،تو بہرحال اس میں قصو ر اور سزا کے درمیان تناسب ہوناچاہیے، اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہو سکتی ہو ،وہاں سخت تد بیر سے کام نہ لینا چاہیے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے ،بادلِ نخواستہ دی ہے ،اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے۔ تاہم، بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جوپٹے بغیردرست ہی نہیں ہوتیں ۔ایسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ منہ پر نہ مارا جائے، بےرحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیزسے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے‘‘۔(ایضاً، ص۳۵۰)

غیب میں حفاظت کو سمجھنا بھی اہم ہے ۔ایک تو شوہر کے مال کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر دودھ اُبلتا رہے ،لائٹس جلتی رہیں، پانی بہتا رہے وغیرہ، یہ اشیا کا ضیاع ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح ہر فنکشن کے لیے نیا بڑھیا جوڑا اور جیولری، اپنی استطاعت سے زیادہ کی خریدی جائے ۓ اور ضروری مدات کا بجٹ کم کر دیا جائے، تو یہ بھی مال کی حفاظت کےمنافی اقدام ہیں۔

دوسری اور بڑی اہم حفاظت ہے بیوی کی عصمت جو شوہر کی عزت ہے ۔وہ اس کی غیرموجودگی میں اپنی حفاظت کر کے گویا اس کی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔غیر مردوں، نامحرم رشتہ داروں سے بے تکلفی، ان کو بیڈ روم میں بٹھانا ،گھر میں مرد نہ ہو تو اندر بلانا ،مہمان بنانا ،خاطر تواضع کرنا وغیرہ اسی ذیل کی تفصیلات ہیں۔تیسرے شوہر کے راز، کسی بھی طرح کے ہو سکتے ہیں، نجی، کاروباری، خاندانی امور سے متعلق وہ فاش کرنے سے بھی تعلقات میں خرابی پیدا ہو سکتی ہے ۔

پھر جن عورتوں سے سرکشی کا اندیشہ ہو، یعنی اگر کسی عورت کے رویے سے ہی سرکشی، ضد اور ہٹ دھرمی ظاہر ہوتی ہو ۔شوہر کی بات مان کر نہیں دینی، ہر کام میں اپنی منوانی ہے۔ ذرا کمی کوتاہی ہو جائے تو بے جا واویلا کر کے شوہر کی کردار کشی کرنی، بچوں کو بھی نافرمان بنانے کے لیے ان کی ذہن سازی کرنا جیسے مسائل کا سامنا ہو۔ لہٰذا وہ امور جو گھر کو فساد کی طرف لے کر جانے والےہوں، ان سے روکنے کے لیے قوّام ہونے کی وجہ سے اللہ نے مرد کو تادیبی اختیارات دیے ہیں۔ مقصود مرد کی اَنا اور مَیں کی تسکین نہیں، گھر کے نظام کی اصلاح ہے۔وہ تین مراحل اور درجات ہیں۔ ان کی ترتیب یا قصور کا لحاظ رکھے بغیر ،ان کو جواز بنا نا اور فائدہ اٹھانا دین کا منشا اورمطلوب نہیں ہے۔

اصلاحِ احوال کے لیے حَکم کا تقرر

اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلّقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے ۔ (النساء۴:۳۵)

’’اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں اور بیوی میں ناموافقت ہو جائے وہاں نزا ع سے انقطا ع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کے لیے مقرر کیا جائے کہ دونوں مل کر اسبابِ اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صورت نکالیں۔ یہ پنچ یا ثالث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تاکہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کر لیں، ورنہ دونوں خاندانوں کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے پنچ مقرر کریں ،اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ ہی جائے تو عدالت خود کوئی کارروائی کرنے سے پہلے خاندانی پنچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔

 اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارات کیا ہیں؟ فقہا میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، البتہ تصفیہ کی جو صورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لیے سفارش کر سکتے ہیں،ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے۔ ہاں، اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لیے واجب ہوگا ۔یہ حنفی اور شافعی علما کا مسلک ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں پنچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، مگر علیحدگی کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے ۔یہ حسن بصری اور قتادہ اور بعض دوسرے فقہا کا قول ہے۔ ایک اور گرو ہ اس بات کا قائل ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کر دینے کے پورے اختیارات ہیں۔

 حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے ان کو حاکمانہ اختیارات دے دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عقیل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمانؓ کی عدالت میں پیش ہوا تو انھوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباسؓ اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہؓ کو پنچ مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کردینا ہی مناسب ہو تو تفریق کر دیں ۔اسی طرح ایک مقدمہ میں حضرت علیؓ نے حَکم مقرر کیے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہے ملا دیں اور چاہے جدا کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطور خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے ۔البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انھیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہوگا‘‘۔(ایضاً، اوّل، ص۳۵۰-۳۵۱)

ہر جھگڑے میں صلح ہو سکتی ہے۔ دونوں فریق شوہر و بیوی گوابتدا میں تو زیادہ غصے میں ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ،غصہ کم ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنے جھگڑے کی وجوہات اور اثرات پر غور کرتے ہیں۔انصاف سے جائزہ لیں تو ہر فریق کا ہی کچھ نہ کچھ قصور ہوتا ہے۔ اس کے اعتراف میں پہل کر لی جائے تو معاملہ بہت آسان ہو جاتا ہے ۔لیکن اگر ساری سوچ بچار فریق ثانی کو غلط ثابت کرنے کے لیے، گذشتہ واقعات کی کڑیاں بھی ملا لی جائیں تو معاملات اُلجھتے چلے جاتے ہیں۔ اگر والدین ،رشتہ دار، غم خوار اور دوست احباب بھی ایک فریق کے مظلوم اور دوسرے کے ظالم ہونے کی تائید کردیں تو سلگتی آگ بھڑک کر الاؤ بن جاتی ہے جو پھر کسی طور بجھنے کا نام نہیں لیتی۔

معاملات کو ابتدا میں ہی درست کرلینا بہتر ہوتا ہے۔ اسی وقت دو ایسے افراد جو فریقین میں اصلاح چاہتے ہو ں،ایک لڑکی اور ایک لڑکے کے خاندان میں سے’ حَکم ‘مقرر کرنا چاہیے کہ طرفین کی سن کر ان کو سمجھایا جا سکے ۔آج کے دور کا بہت بڑے المیہ یہ ہے کہ اول تو سب کھسر پھسر، ناموس کی حفاظت کی خاطر،صیغۂ راز میں رکھی جاتی ہے۔’حَکم ‘مقرر کر بھی لیا جائے تو اس سے توقع یہی ہوتی ہے کہ یہ ہمارا وکیل ہے، ہمارا مقدمہ لڑے اور جیتے ۔اگر حَکم دونوں کی سن کر ، توقع کے خلاف رائے دے تو اس پر شک کیا جاتا ہے اور علانیہ یہ بھی کہا جانے لگتا ہے کہ ہمارا معاملہ تو سلجھ جاتا مگر ان ’بیچ والو ں‘ نے جو صلح کروانے کے لیے آئے تھے، انھوں نے بگاڑا ہے۔ چنانچہ لوگ حَکم بننے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر یہ اللہ کا حکم ہے، موقوف نہیں ہونا چاہیے۔

معاشرتی تعلیمات

اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور   اُن لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضے میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔ (النساء۴:۳۶)

 پہلا حق اللہ کی بندگی کا ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ اس کا کوئی شریک نہیں۔ متصلًا بعد والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم ہے اور پھر رشتہ داروں کا دائر ہ آگیا ۔معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کو بھی حقیر نہ جانو بلکہ ان کے ساتھ بھی،خواہ یتیم ہو یامسکین ،اچھا سلوک کرو ۔ پڑوسی کا بڑ ا مقا م ہے اور اس میں بھی درجات ہیں۔ پڑوسی رشتہ دار اور مسلمان ہے تو بڑا درجہ ، پڑوسی مسلمان ہے،رشتہ دار نہیں ہے تو درمیانہ درجہ، پڑوسی نہ رشتے دار، نہ مسلمان مگر پڑوسی ہے تو بھی اس کے تین درجو ں تک نہ سہی ایک درجے کے حقوق تو ہیں ۔ اس کے علاوہ ساتھی ،جو تھوڑے سے وقت کے لیے ساتھ رہے ،انتظار گاہ میں بیٹھا ہو،گاڑی میں آپ کے ساتھ بیٹھ جائے، خریداری کرتے ہوئے وغیرہ وغیرہ، اس کے ساتھ بھی یو ں معاملہ کرو کہ وہ اچھا ہی یاد کرے۔ مسافر کا بھی بڑا احترام ہے، اس کے ساتھ بھی اچھے سلوک کی ہدایت ہے۔ پھر جو بہت کمزور اور بے بس، معاشرے کا پسا ہوا طبقہ ہے ،ان کے ساتھ بھی برابری نہیں احسان کا معاملہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ سارے رویے ان لوگوں کے ہیں جو متکبر نہیں ہوتے، جو اپنے آپ کو برتر نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تلقین کی ہے۔ ان سب پر عمل کر کے ہمیں معا شر ےکی اسلامی خطوط پر تعمیر کرنی ہے۔

کنجوسی کی ممانعت

اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ۔ ایسے کافرِ نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیّا کر رکھا ہے۔ (النساء۴:۳۷)

’’اللہ کے فضل کو چھپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا کہ اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گر کر رہے ۔ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے ، نہ بندگان خدا کی مدد کرے ، نہ نیک کاموں میں حصہ لے ۔ لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ بڑا ہی خستہ حال ہے ۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی سخت ناشکری ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو ۔ یعنی اس کے کھانے پینے ، رہنے سہنے ، لباس اور مسکن ، اور اس کی داد و دہش، ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کا اظہار ہوتا رہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۵۲)

خاندان میں خرچ کرتے ہوئے، رشتہ داروں اور عزیز وا قا رب پر خرچ کرتے ہوئے، کنجوسی کرنا بھی تعلقات میں دُوری اور سرد مہری کا باعث بنتا ہے ۔اس لیے اگلی آیات (۳۸-۴۲) میں اللہ تعالیٰ مال خرچ کرنے کی تلقین اور تفصیلات بیان کرتے ہیں۔

غسلِ جنابت

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ۔ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو ۔ اور اسی طرح جَنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، اِلّا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو ۔ اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفعِ حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لَمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے ۔ (النساء۴:۴۳)

’’جنابت کے اصل معنی دُوری اور بیگانگی کے ہیں ۔اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے ۔اصطلا حِ شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضاء شہوت سے یاخواب میں مادہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ٓادمی طہا رت سے بیگا نہ ہو جاتا ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۳۵۵)

’’فقہا اور مفسرین میں سےایک گروہ نےاس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چا ہیے اِلاّ یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو۔ اسی رائےکو عبداللہ بن مسعود، انس بن مالک ،حسن بصر ی اور ابراہیم نخعی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے ۔دوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے۔ یعنی اگر آدمی حالت ِسفرمیں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے تو تیمّم کیا جاسکتا ہے۔ رہا مسجد کا معاملہ ،تو اس گر وہ کی رائے میں جُنبی کے لیے وضو کر کے مسجد میں بیٹھنا جائز ہے ۔یہ رائے حضرت علی ، ابن عباس، سعید بن جبیراور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے۔ اگرچہ اس امرمیں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالت ِسفر میں ہو اور جنابت لاحق ہوجائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمّم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔لیکن پہلا گروہ اس مسئلہ کو حدیث سے اخذ کرتا ہے اور دوسرا گرو ہ اس روایت کی بنیاد قرآن کی مند ر جہ بالا آیت پر رکھتا ہے‘‘۔(ایضاً، ص۳۵۵)

غسل جنابت بھی جدیدیت کے حامیان اور ماڈرن افراد کے لیے ایک اضافی عمل ہے، جس کی ان کے نزدیک کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔

’’حکم کی تفصیلی صورت یہ ہے کہ اگر آدمی بے وضو ہے یا اُسے غسل کی حاجت ہے اور پانی نہیں ملتا تو یہ تیمّم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔اگر مریض ہے اور غسل یا وضو کرنے سے اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو پانی موجود ہونے کے باوجود تیمّم کی اجازت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

تیمّم کےمعنی قصدکرنے کے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جب پانی نہ ملے یا پانی ہو اور اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پاک مٹی کا قصد کرو۔

 تیمّم کے طریقے میں فقہاکے درمیان ا ختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر منہ پر پھیر لیا جائے ،پھر دوسری دفعہ ہاتھ مار کر کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے ۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور اکثر فقہا کا یہی مذہب ہے،  اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی، عبداللہ بن عمر، حسن بصری، شعبی اور سالم بن عبداللہ وغیرہم اس کے قائل تھے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے۔ وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے۔کہنیوں تک مسح کر نےکی ضرورت نہیں۔ یہ عطا اور مکحو ل اور اوزاعی اوراحمد ابن حنبل ر حمہم اللہ کا کا مذہب ہے اور عموماً حضراتِ ا ہل حدیث اسی کے قائل ہیں ۔

 تیمّم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مارا جائے ۔اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خشک اجزاء ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے ۔

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر منہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حِس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تد بیرہے۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدت تک پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو،بہرحال اس کے اندر طہارت کا احساس برقرار رہے گا، پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دیے گئے ہیں ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا ،اور اس کے ذہن سے قابلِ نماز ہونے کی حالت اور قابلِ نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا‘‘۔(ایضاً، ص ۳۵۶)

باہمی اختلافات میں فیصلہ

نہیں، اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں ۔ (النساء۴:۶۵)

یہ حکم ،کہ باہمی اختلافات میں تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ کرنے والا مان لو اور اس پر خوشی کے ساتھ عمل کرو ، حجت بازی نہ کرو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود نہیں تھا۔ یہ نہ صرف ملکو ں اور قبائل کے اختلافات پر محیط ہے،بلکہ گھر میں شوہر، بیوی،بچوں اور والدین، بزرگوں اور جوانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کے لیے بھی ہے۔

قرآن اور حدیث سے ہمیں واضح ہدایات مل جاتی ہیں۔ ان کی روشنی میں ہم اپنے درمیان سراٹھانے والے اختلافات کو خوش اسلوبی سے سلجھا سکتے ہیں۔دین کو تھوڑا بہت بھی سمجھنے والے ہوں تو دونوں فریقین بالعموم ان حوالوں پر مطمئن ہوجاتے ہیںیا چپ ہو جاتے ہیں۔اور اگر نفس اور شیطان غالب ہو تو پھر تصفیہ مشکل ہوپاتا ہے۔

خیال رہے کہ ’’خدا کی طرف سے رسول اس لیے نہیں آتا ہے کہ بس اس کی رسالت پر ایمان لے آئو اور پھر اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو، بلکہ رسول کے آنے کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ زندگی کا جو قانون وہ لے کر آیا ہے، تمام قوانین کو چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی کی جائے اور خدا کی طرف سے جو احکام وہ دیتا ہے، تمام احکام کو چھوڑ کر صرف انھی پر عمل کیا جائے۔ اگر کسی نے یہی نہ کیا تو پھر اس کا محض رسول کو رسول مان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا‘‘۔ (تفہیم القرآن، اوّل، ص۳۶۸)

اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ میرے لیے علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شہر لاہور میں آنا بھی بے پناہ خوشی کا باعث ہے، کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھیں علّامہ اقبال کے سیکڑوں اشعار کا عربی ترجمہ زبانی یاد ہے۔ اسی دوران مجھے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، جن سے مجھے بے حد محبت ہے اور میں نے ان کی کتب اور ملفوظات سے بہت فیض حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیّدی مودودی کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، آمین!

مَیں چونکہ بین الاقوامی تعلقات کی کلاسیں پڑھاتا ہوں، لہٰذا ذرا گہرائی میں جا کر موجودہ عالمی سیاسی منظرنامہ کے اندر اُمتِ مسلمہ کی صورت حال پر عمومی بات کروں گا۔ دورِ حاضر میں ہم دُنیا میں زمینی سطح پر اور سمندروں میں بڑی طاقت ور عالمی قوتوں کے درمیان ایک تاریخی کش مکش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ موجودہ عالمی سیاست میں بَرّی طاقتوں سے مراد چین، روس اور ہندستان جیسے مشرقی ممالک ہیں،جب کہ بحری طاقتوں سے مراد امریکا اور یورپ ہیں۔

عالمی منظرنامہ

گذشتہ چند عشروں میں کارفرما یک قطبی (Uni-polar)عالمی سیاست میں بین الاقوامی نظام کی باگ ڈور بلاشرکت غیرےامریکا کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اب ہم بین الاقوامی نظام میں ایک نئی ٹوٹ پھوٹ کا مشاہدہ کررہے ہیں، اور عالمی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف بالخصوص چین کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویراتی مفکرین کی اکثریت آج چین کی اُبھرتی ہوئی طاقت کے ظہور کی بات کر رہی ہے۔ ’چین کا طلوع‘ (Rise of China) ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کی تکرار مغربی مفکرین،روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے سامنے عالمی میدان میں ایک مسابقت اور ایک کش مکش کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں، جسے سردجنگ (Cold War) کی نئی شکل بھی کہا جا سکتاہے، اوراسے پہلے سے قائم سپر پاورزاور ’نئی اُبھرتی سپرپاورز‘ (Emerging Powers )کے درمیان ہمیشہ رہنے والے ٹکراؤ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔

آج ایک طرف چین اور روس کی ابھرتی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف امریکا و یورپ روایتی سپرپاورز کے درمیان ٹکراؤ چل رہا ہے ۔اس ٹکراؤ اور کش مکش کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا مسلم دُنیا کے ایک ایک فرد کےلیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ان دونوں بَرّی طاقتوں اور بحری قوتوں کے درمیان پس رہے ہیں، موجودہ سپرپاورز اور نئی اُبھرتی ہوئی پاورز کے درمیان پس رہےہیں۔

ہم اُمتِ وسط ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے محلِ وقوع اور جغرافیہ کے لحاظ سے بھی اُمتِ وسط ہیں، اور اس لحاظ سے بھی کہ ہم نہ مشرقی بلاک کا حصہ ہیں اور نہ مغربی بلاک کا۔ لاشرقية لاغربية، إسلامية إسلامية کا نعرہ میرے خیال میں اُمت ِ مسلمہ کی سیاسی و جغرافیائی پوزیشن کا درست اظہار ہے۔ اُمتِ مسلمہ نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ یہ اُمتِ وسط ہے۔ یہ نہ محض خشکی پر ہے اور نہ صرف بحرپر متمکن بلکہ یہ بحروبر کی طاقت کا ایک امتزاج ہے۔

اللہ عزّوجل کی حکمت کاکس قدر خوب صورت مظاہرہ ہے، جو اللہ نے اپنا پیغام انسانیت تک پہنچاتے ہوئے دنیا کو دکھایا۔ آپ دیکھیے کہ اسلام کا ظہور مکہ میں ہوا، جو ہے توایشیا کے شمال میں ، مگر ایک جانب وہ برِاعظم افریقہ سے بہت قریب ہے اور دوسری جانب یورپ سے بھی اس کا فاصلہ انتہائی کم ہے ۔ گویا اسلام کا سوتا جہاں پھوٹا وہ سرزمین تین بڑے براعظموں کے سنگم پر واقع ہے۔ اور پھر اسلام جزیرہ نما عرب سے ،پَر پھیلائے ایک ایسے بڑے پرندے کی مانند پھیلتا چلا گیا، جس کا ایک پَر ایشیا کے جنوب میں تھا تو دوسرا افریقہ کے شمال پر محیط۔ آپ جانتے ہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کے لیے عام طور پر ’شاہین‘ کی تمثیل استعمال کی ہے۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کی جغرافیائی ہیئت ایک عظیم الجثہ ’شاہین‘ کی مانند ہے، جس کا دل مکہ و مدینہ ہے اور اس کے پَر ایشیا کا جنوب اور افریقہ کا شمال ہیں۔ یہی وہ جیو پولیٹیکل تناظر ہے، جو طاقت کی بحری و برّی طاقتوں اورحالیہ سپر پاورز اور اُبھرتی ہوئی نئی سپر پاورز کے درمیان درپیش رہا ہے ۔

چین کی اُبھرتی طاقت جسے شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر جان میرشیمر (Mearsheimer) کی اصطلاح میں ’زور پکڑتا طوفان‘(The Chinese Gathering Storm) کہا جا سکتا ہے۔ گویا چین ایک ایسا طوفان ہے جو تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے قوت پکڑ رہا ہے۔ اسی دوران ہم، بے سمتی کے کچھ برسوں کے بعد روس کوبھی ایک نئی کروٹ لیتا دیکھ رہے ہیں ۔ بے سمتی کا یہ عرصہ گورباچوف اور بورس یلسن کے اقتدار پر محیط رہا، جس کے بعد ولادی میر پیوٹن ایک زخمی بھیڑیئے کی روح سمائے روس کا مطلق العنان حکمران بن گیا۔ پیوٹن روس کو عظیم بنانا چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کا نعرہ امریکا کو دوبارہ عظیم تر بنانے کا تھا۔

طاقت کاتیسرا مشرقی کھلاڑی ہے ہندستان۔ یہ عالمی سیاست کا ایک نہایت گنجلک کیس ہے۔ یہ بحری و برّی دونوں طرح کی طاقت رکھنے کے باوجود کئی تضادات کا شکار ہے۔ تاریخی طور پر ہندستان دنیا کی ایک عظیم مسلم سلطنت مغل بادشاہت کی سرزمین رہا ہے، تاہم آج یہ مسلم اکثریتی ملک بھی نہیں ہے۔ انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد تیسری بڑی مسلم آبادی رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ مسلم ملک نہیں ہے۔ ہندستان مسلم جغرافیہ کے بیچوں بیچ واقع ہےکہ یہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے مسلمانوں کو جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں سے جدا کررہاہے۔ مزید یہ کہ ہندستان اپنے جغرافیہ اور اپنی آرزوؤں کے درمیان بٹا ہوا ہے ۔ جغرافیائی طور پر مشرق میں واقع ہے ، لیکن اس کی اُمنگوں کی منزل مغرب ہے۔ گویا گھر تو اس کا ایشیا ہے، مگر دل یورپ میں ہے۔ یقیناً مسلم دُنیا کے لیے ہندستان بہ حیثیت ایک نسل پرست ہندو ریاست کے، ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کے لیے تو یہ ہمیشہ ہی سے ایک مسئلہ رہا ہے، مگر جب سے مودی اقتدار میں ہے، آج کا ہندستان اپنے ملک میں سیکڑوں برسوں سے آباد مقامی ہندستانی مسلمانوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ فاشزم کے راج اور فاشزم کے خواب نے اسے بڑی خطرناک صورت حال میں لاکھڑا کیا ہے۔

سرد جنگ اور حریفانہ کشاکش کے اس منظرنامہ میں عالم اسلام کی حیثیت، جنگ کے ایک میدان کی سی ہے ۔ برطانوی ماہرسیاسیات جیمز فیرگریو نے ’تباہی کا علاقہ‘ (Crash Zone) کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ہم اس کشاکش میں بطور فریق شریک نہیں ہیں بلکہ اس حریفانہ کش مکش کا شکار ہیں۔ گویا عالمِ اسلام طاقت کے اس کھیل میں بطور ’جنگی اکھاڑہ‘ (Battle field) کے استعمال تو ہورہا ہے، لیکن بطور کھلاڑی شریک نہیں ہے ۔یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے بلکہ جب سے مسلم اُمہ، دو عظیم طاقتوں (یعنی) مغلیہ سلطنت اور عثمانی خلافت سے محروم ہوئی ہے، عالم اسلام کی حیثیت اوروں کے لیے ایک میدانِ جنگ ہی کی بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ مسلمان آج عالمی نظام کا فعال حصہ نہیں رہے۔اُمت اس وقت اندرونی خلفشار کا شکار ہے اور اور بیرونی طاقتوں کے سامنے بے آسرا ۔ ایک ایسی امت کا یہ حال بہت افسوس ناک ہے کہ جس نےانسانیت کی رہنمائی اورقیادت کرنی تھی ، اور جسے شهداء على الناس بننا تھا۔ تزویراتی طور پر جب آپ بے آسرا، دفاعی حوالے سے کمزور،اور معاشی و سیاسی انتشار کا شکار ہوں تو کبھی بھی شهداء على الناس نہیں بن سکتے۔ جب آپ عالمی اتار چڑھاوٴ میں کوئی وزن ہی نہیں رکھتے، پوری انسانیت کے لیے حجت اور شہادت کیوں کر بن سکتے ہیں ؟

مسلم دُنیا میں علاقائی وحدت کی ضرورت

بطور امت ہمیں آج جن خوفناک چیلنجوں کا سامنا ہے، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایمان اور اتحاد کی قوت درکار ہے۔ مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتحاد، وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور ہمیں اس وحدت کے قیام کی کوشش کرنی ہے۔ وحدت سے میری مراد ایک عالم گیر خلافت کے تحت قائم سیاسی وحدت نہیں ہے، بلکہ میری مراد مسلم دنیا کے مابین اسٹرے ٹیجک ارادے اور عزم (Will)کی وحدت ہے۔آپ جانتے ہیں کہ مغربی دنیا سیاسی طور پر ایک نہیں ہے۔ ۲۴سرکاری زبانوں اور بہت سی نسلی اکائیوں کے حامل ۲۸ ممالک،’یورپی یونین‘ (EU)کہلاتے ہیں۔ یورپ کے باسیوں کے درمیان قدرِ مشترک یا تو ان کا مسیحی پس منظر ہے، یا ان کا یونانی و رومی ورثہ مشترک ہے، جس کی بنیاد پر یہ ممالک اپنا اسٹرے ٹیجک ارادہ ایک بنانے میں کامیاب ہوئے۔ فرانس اورجرمنی، پولینڈ اور برطانیہ اور دیگر یورپی قوموں کا اتحادان مشترکات پر قائم ہے۔حالانکہ ان قوموں کے درمیان بڑی خوں ریز جنگوں کی ایک طویل تاریخ، یہاں کے لوگوں کو اَزبر بھی ہے۔ ان کے مقابلے میں  ہم مسلمانوں کے درمیان اس سے کہیں زیادہ مماثلتیں اورمشترکات موجود ہیں۔ طویل یکساں تاریخ، مشترک عقیدہ، ایک ہی قبلہ اور ایک ہی کتاب ہماری بڑی طاقت ہیں۔

 مسلم دنیا جغرافیائی لحاظ سے بھی مغرب سے کہیں زیادہ باہم مربوط ہے۔بطور مثال اگر ہم آسٹریلیا کو دیکھیں ،آسٹریلیا اور برطانیہ کا درمیانی فاصلہ کتنا زیادہ ہے ؟لگ بھگ ۱۵ہزار کلومیٹر ۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ، امریکا سے کس قدر فاصلہ پر ہیں ؟وہی ۱۵ ہزار کلومیٹر کی مسافت پر ۔ مسلم دنیا میں ہمیں باہم اس قدر فاصلہ کہیں نہیں ملتا ۔ مثال کے طور پر مسلم دنیا کے قلب (خطۂ حجاز) سے بعید ترین ملک کا فاصلہ ، مثلاً یمن کا انڈونیشیا سے فاصلہ اگر لیں تو ۵ہزارکلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوگا۔

گویا مسلم دنیا میں اسٹرے ٹیجک اتحاد و یگانگت کی صلاحیت اور امکان کہیں زیادہ ہے۔ اگر یہ اتحاد بروئے کار آجائے تو عالمی منظرنامے پر اس کی موجودگی اور اس کا اثر بہت گہرا ہوگا۔ مسلم دنیا کے روایتی حدود کو بتانے کے لیے مسلم جغرافیہ دان ایک اصطلاح استعمال کرتے آئے ہیں من فرغانا اِلٰى غانا  (فرغانہ سے گھانا تک)۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں فرغانہ، ازبکستان میں ہے ، اور گھانا مغربی افریقہ میں ۔اور آج بھی عالم اسلام کی حد بندی یہی ہے ۔اس دور کے عظیم الجزائری مفکر مالک بن نبی نے مسلم دنیا کی حدود بتانے کے لیے من طنجا اِلٰى جاكرتا   (طنجا سے جکارتا تک) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مراکش کےشہر طنجا سے لے کر انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ تک مسلم دنیا کے حدودہیں۔یہ کم و بیش وہی جغرافیہ ہے جس کا احاطہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اپنےسفرنامے میں کیا تھا۔ ابن بطوطہ چودھویں صدی کے سیاح تھے۔انھوں نے اپنے سفر کا آغاز طنجا سے کیا،اور بہت سے مسلم ممالک ،اوراس وقت کی اصطلاح میں بلاد الهند والسند یعنی برصغیر ہند و پاک میں بھی آئے۔وہ آٹھ برس تک ہندستان میں قیام پذیر رہے اور نہ صرف یہاں قاضی کے فرائض انجام دیئے بلکہ ہندستانی فرماںروا کے سفیر بن کر چینی بادشاہ کے ہاں بھی گئے۔ اس طرح انھوں نے مغربی افریقہ سے جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا تک تمام مسلم دنیا میں سفر بھی کیا اور قیام بھی ۔ لہٰذا، ہمیں مسلم دنیا کے اسی تاریخی اسٹرے ٹیجک اتحاد کی بازیافت کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔

ہمیں مسلمانوں کے اسٹرے ٹیجک ارادے اور خواب کو ایک کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم ایک سیاسی اکائی بن جائیں ۔ہمیں مسلم ممالک کے درمیان اپنی باہمی سرحدیں کھولنے کی ضرورت ہے ۔مسلم ممالک کے درمیان باہمی طور پر معاشی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ہمیں عالم اسلام میں فوجی اتحادوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں، ویسا ہی دفاعی معاہدہ جیسا کہ مغرب میں ’ناٹو‘ ہے ۔ہمیں ایسی چیز کی ضرورت ہے، جسے اقبال نے ’اسلامی دولت مشترکہ‘ کہا تھا ۔ انھوں نے ’مسلم کامن ویلتھ‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے اور ’مسلم لیگ آف نیشنز ‘کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے ۔ دوسرے اسلامی محققین نے بھی اس کے بارے میں بات کی ہے ۔جیسا کہ مالک بن نبی نے اپنی کتاب اسلامک کامن ویلتھ میں اور سنہوری نے اپنی کتاب خلافت میں بات کی ہے، کہ کیسے ایک ’اسلامک لیگ آف نیشنز‘ کو ترقی دی جاسکتی ہے ۔موجودہ زمانے کے محققین بھی اس طرح کی ملتی جلتی فکر پیش کررہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے محدود تصوراتی خول سے نکلیں اور عالمی تناظر میں اس معاملے کو دیکھیں۔ مسلمانوں کی آج کے عالمی منظرنامے میں کیا پوزیشن ہے یا کیا پوزیشن ہوسکتی ہے؟ اس پر غور کریں۔اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں  ایک حکمت عملی پر مبنی فکر کی ضرورت ہے۔

اسلامی تحریکیں: نئی حکمت عملی کی ضرورت

دنیا بھر کی تحریکات اسلامیہ کو نئی سوچ بچار (thinking) کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اسٹرے ٹیجک تعلیم کی نئی طرح ڈالنی ہوگی۔ ہم سب تحریک اسلامی سے وابستہ لوگ ہیں اور تحریک اسلامی کے تربیتی پروگراموں سے گزرے ہیں، لیکن افسوس اور حسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ مجھے ان سارے تربیتی مرحلوں میںکہیں اسٹرے ٹیجک تھنکنگ اور اسٹرے ٹیجک تعلیم کے بارے میں کوئی سنجیدہ پروگرام یاد نہیں آتا کہ ہواہو۔میری پختہ رائے ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کے لیے اسٹرے ٹیجک تھنکنگ کا نیا پراگرام متعارف کرانا چاہیے ۔

دراصل اسٹرے ٹیجک تھنکنگ نہ ہوئی تو قربانی و ایثار کا سلسلہ تو بڑھتا چلا جائے گا، لیکن نتیجہ انتہائی محدود برآمد ہوگا۔یہ اسٹرے ٹیجک سینس کی کمیابی کی علامت ہے ۔جب قربانیاں عظیم تر ہوں اور کامیابیاں انتہائی قلیل ہوں تو اس کا سیدھا مطلب اسٹرے ٹیجک تھنکنگ کا قحط ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے ہاں اسی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں تزویراتی تعلیم (Strategic Education) کی راہ اپنانی چاہیے۔ چنانچہ اس قسم کی سوچ کی افزائش کے لیے ہمیں تحریکِ اسلامی کی نئی نسل کے لیے نئے پروگرامات ترتیب دینا ہوں گے۔ تزویراتی سوچ کے بغیر قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ بات پھر دُہرائوں گا کہ ان قربانیوں کا ثمر بہت قلیل رہے گا۔ کسی مقصد کی راہ میں بڑی قیمت چکانے کے باوجود قابلِ ذکر نتائج کا حاصل نہ ہونا اس بات کی علامت ہےکہ منصوبہ سازوں کے ہاں تزویراتی بصیرت اور فہم کا فقدان اور افلاس پایا جاتا ہے۔

اپنی یونی ورسٹی میں عسکری تاریخ کا مضمون پڑھاتا ہوں اور اس دوران میں میری کوشش ہوتی ہے کہ طلبہ کو اسٹرے ٹیجک سوچ پر کلاسیکل کتب سے متعارف کرواؤں۔ چنانچہ اس سلسلے میں طلبہ کا تعارف The Art of War کے عنوان سے چار مختلف ماہرینِ حرب کی لکھی کتابوں سے کرواتا ہوں۔ یہ چار ماہرینِ حرب: سن زو (Sun Tzu)، میکیاولی(Machiavelli)، کلازوٹز (Clausewitz) اور جومینی(Jomini) ہیں۔ ان سب نے ایک ہی عنوان The Art of War پہ کتب تصنیف کی ہیں۔ یاد رہے کہ تزویراتی سوچ کا آغاز دراصل عسکری منصوبہ بندی کے تناظر میں ہی ہوا تھا۔

ہمیں اس تاریخی ذخیرے کی طرف لوٹنے اور اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارک اور اسلامی فتوحات کا احوال تزویراتی نقطۂ نظر سے پڑھیں۔ کچھ اہلِ علم نےیہ کام بڑی خوش اسلوبی سے کیا بھی ہے، جیسے بریگیڈئیر محمود خطاب نے الرسول القائد کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک کتاب سفراء النبی ؐ کے عنوان سے ہے۔اپنے عسکری پس منظر کی وجہ سے مصنف نے سیرتِ نبویؐ کو کامیاب حربی اور تزویراتی منصوبہ بندی کے تناظر میں ہی دیکھا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات کو محض معجزات کے ایک سلسلے کے طور پر ہی نہیں دیکھتے بلکہ آپؐ کی کامیاب حربی حکمتِ عملی اور کامیاب ترین جنگی چالوں (Tactics)کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ آج ہمارے مطالعۂ سیرت اور عمومی تعلیم میں یہ عنصر بڑی حد تک ناپید ہے ۔اپنی تعلیم میں موجود اس کمی کو دور کرنے کے لیے ہمیں بہت محنت کی ضرورت ہے۔

تزویراتی طرزِ فکر ایک خالص تخلیقی، حکیمانہ، ہمہ جہتی طرزِ فکر کا نام ہے۔ تخلیقی اس لیے کہ ہمیں مقصد کے حصول کے لیے درکار ذرائع کو بدلتے رہنا ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ زندگی میں ہماری بہت سی ناکامیوں کاسبب عام طور پر ہماری سابقہ کامیابیاں ہوتی ہیں۔ ہم ایک مخصوص صورت حال میں کامیابی کے لیے کچھ ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ پھر صورت حال میں تو تبدیلی واقع ہوجاتی ہے، لیکن ہمارے نقطۂ نظر اوراس کے لیے ہمارے اختیار کردہ ذرائع میں تبدیلی نہیں آئی ہوتی، یوں نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بالکل اسی طرح آج کے دور میں بھی اسلامی تحریکات کے تنظیمی ڈھانچہ میں موجود بہت سی چیزوں میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تنظیمی ڈھانچے میں، قیادت کی نوعیت اور اسلوب میں ، حکمتِ عملی اور اس کے اسلوب میں ، معاشرے کے ساتھ اپنے ربط و ضبط اور تعامل کے طریقوں میں ،دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ معاملات کرنے کے انداز میں ، نظام عالم اور عالمی طاقتوں کو دیکھنے کے روایتی انداز میں ، اور اپنی سرزمین پر ان کی موجودگی اور ان کے اثر ونفوذکو پرکھنے کے انداز میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ہمیں تجزیہ کرنا ہے کہ ہم ان سب چیزوں کو کس زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں، اور پھر کئی حوالوں سے ان سب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ہمیں تبدیلی کی مختلف حکمتِ عملیوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ تحریکِ اسلامی مثبت تبدیلی لانے والی قوت کا نام ہے، اس لیے ہمیں تبدیلی کی اسٹرے ٹیجی کو بھی سمجھنا چاہیے ۔تبدیلی خاموش انقلاب کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے اور ایک پُرشور، ہنگامہ خیز انقلاب کی شکل میں بھی۔ یہ تبدیلی سیاسی قوتوں اورطاقت کے مراکز مثلاًفوج کے مزاج، اس کی گرفت اور کردار کو سمجھنے سے بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ بعض جنوبی امریکی ممالک میں ہوا۔تبدیلی کئی طرح کی ہوتی ہے اور ہر تبدیلی کا سیاق و سباق بھی الگ ہی ہوتا ہے ۔

امریکی مفکر جوزف نائے(Joseph Nye) جس نے ’سافٹ پاور‘ اور ’سمارٹ پاور‘ کی اصطلاحات متعارف کروائی ہیں، اس کی ایک اور اہم اصطلاح ’Contextual Intelligence‘ بھی ہے، جس کا مطلب ہے ایسی ذہانت کا حامل ہونا، جس کے بل پر ہر چیز کا سیاق و سباق اور موقع محل متعین کیا جاسکے۔ حقیقی قائدین، کامیاب سیاست دان اور کامیاب مصلحین وہی ہوتے ہیں، جو اپنی ذات اور اس کے تناظر کی درست تفہیم رکھتے ہیں۔ چنانچہ تحریکات اسلامیہ کو ایک ہی مقصد اور ایک ہی منزل ہونے کے باوجود ایک ہی انداز میں کام نہیں کرتے رہنا چاہیے ۔ ہر ایک کا اپنا پس منظر اور ماحول (context) ہے، آج ہمیں کامیابی کے لیے کچھ اسی طرح کی Contextual Intelligence درکار ہے ۔


سوال :کیا ہمیں اب محض بات برائے بات اور نرے اصولی مباحث کے بجائے عملی اقدامات کی جانب جانے کی حکمتِ عملی نہیں ترتیب دینی چاہیے؟

ڈاکٹر محمدمختار: میری رائے میں ہمیں گفت و شنید اور عملی اقدامات میں ہم آہنگی اور توازن لانے کی ضرورت ہے۔ نظریاتی مباحث اہم ہیں۔ نظریاتی رہنمائی کے بغیر ہم طویل المدت منصوبہ بندی سے محروم رہ کر ہر چیز کو محدود زاویے سے ہی دیکھ پاتے ہیں۔ اس لیے قلیل المدت ترجیح کے طور پر، سب سے پہلے ہمیں تزویراتی سوچ کا رویہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہمیں اپنے سابقہ تجربات کا ناقدانہ تجزیہ کرنے، ان کے نتائج و عواقب، فوائد و نقصانات پر غور کرنے اور خواہشات پر مبنی تجزیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کے ماضی کے سفر کا بے لاگ جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ جانتے ہوں گے کہ حکمت عملی کے ماہرین ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں  ’Net assessment‘۔ہر اسٹرے ٹیجک غور و فکر کا آغاز Net assessment سے ہوتا ہے ۔ تحریک اسلامی اور مسلم معاشروں کے تجربات میں مثبت اور طاقت ور پہلو کیا تھے اور ان کے کمزور پہلو کون کون سے ہیں؟ اس مقصد کے لیے ہمیں صرف اسلامی تحریک ہی کو مدنظر رکھ کر نہیں سوچنا چاہیے ، نہ اسلامی تحریک کوکسی فرقے اور جماعت تک محدود رہنا چاہیے، بلکہ ہمیں پوری امت اور سارے مسلمانوں کو مدنظر رکھ کر اپنی سوچ اور حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور تجزیے کے بعد عملی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مسلمان نوجوان کی تعلیم و تربیت میں جو عنصر غائب یا نظرانداز ہے وہ نظریاتی ہے۔ہمیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

سوال :ایک بہت بڑا خلا ہے، اس میں جو کچھ مسلم حکومتیں کررہی ہیں، اور ان کے عوام کی اُمنگوں اور آرزوؤں کے درمیان ایک بہت بڑا خلاہے؟

جواب:میرے نزدیک اس کا بنیادی سبب حکمرانوں کی قانونی حیثیت کا فقدان ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکمران کی قانونی حیثیت جائز (Legitimate )حکمران کی ہوجائے تو اس سے حاکم اور محکوم دونوں کے درمیان مکمل اتفاق اورہم آہنگی وجود میں آجائے گی۔ ایسی حکومت کو ہیکل نے مکمل ہم آہنگ ریاست کا نام دیا ہے۔ مکمل ہم آہنگ ریاست میں حاکم اور محکوم کی خواہش ایک ہی سمت میں ہوتی ہے ۔جہاں تک ہماری صورت حال ہے، مسلم دُنیا کے اندر سیاسی ہیئت حاکمہ یامقتدرہ کے قانونی و دستوری جوازکے فقدان کی بنا پر عوام اور ہیئت مقتدرہ کی آرزوؤں اور اُمنگوں کے درمیان ایک کش مکش اور تصادم جاری رہتا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری قوتیں اور صلاحیتیں کسی تعمیرو ترقی میں نہیں کھپتیں بلکہ باہمی کش مکش کی نذر ہوتی رہتی ہیں۔ مسلم معاشروں میں برپا اسی سیاسی کشاکش کی بنا پر ہی ہم کبھی ترقی نہیں کرپاتے اور پسماندگی ہی ہمارا مقدر رہتی ہے ۔اسی سوال کا جواب دینے کے لیے میں نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کانام اسلامی تمدن میں دستوری بحران ہے ۔اس کتاب کی بنیادی فکر اور بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ مقتدرہ کی قانونی حیثیت اور جواز کا مسئلہ ،اسلامی تہذیب و تمدن کا دیرینہ مسئلہ ہے ۔معروف کتاب الملل والنحل کے مصنف امام شہرستانی، نویں صدی ہجری میں اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کتاب کے آغاز میں ہی لکھتے ہیں : ’’اُمت میں دَر آنے والا اوّلین اختلاف امامت و خلافت کے باب میں تھا۔ کسی دینی اصول اور قاعدے پر اتنی تلواریں نہیں چلیں جتنی ہر زمانے میں امامت و خلافت کے مسئلے پر چلیں‘‘۔

مقتدرہ کا دستوری و قانونی اور شرعی جواز ہمارے معاشرے کا کمزور ترین پہلو ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان قوم پر اس اہم اسٹرکچرل پرابلم کا حل نکالنا واجب ہے ۔میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ہمارے ملکوں میں جہاں جہاں فی الحقیقت جائز مقتدرہ ہوگی وہاں قومی اُمنگوں اور حکومتی کارگزاریوں میں تناقض جنم ہی نہیں لے گا ۔علّامہ اقبالؒ کا ایک قول ہے جس کا عربی ترجمہ مجھے یاد ہے:

ان السادۃ يدينون للعبيد بسيادتهم فلو لم يقبلوهم سادۃ لما سادوا، یعنی سرداروں کی سرداری غلاموں کے مرہون منت ہے۔ اگر غلام انھیں سردار نہ تسلیم کرتے تو سردار، سردار نہ ہوتے۔

اس لیے جب تک مسلم دنیا اندرونی آقاوٴں یعنی مطلق العنان آمریتوں سے چھٹکارا نہیں پائے گی،بیرونی غلامی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہنری کسنجر کا عرب سیاست کے بارے میں ایک مشہور نظریہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’عرب دنیا میں جائو تو سمجھو کہ عوام کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور کوئی عوامی ادارہ نہیں ہے۔ اس لیے عرب دنیا کو ایک بدو قبیلے کے طور پر لو ،اور سب سے بڑا خیمہ قبیلے کے سردار کا ہوگا، اسی کے ساتھ معاملات طے کرو۔ عوام کی کوئی فکر نہ کرو ۔ سردار اپنے لوگوں کو خود مطمئن کر لے گا‘‘۔افسوس کہ اس مشاہدے میں مبالغہ نہیں ہے۔

مغربی حکمران اور دیگر استعماری طاقتیں جب تک مسلم عوام اور اداروں کو نظرانداز کرکے انفرادی طور پر آمر حکمرانوں سے معاملہ بندی اور سمجھوتہ کرتی رہیں گی ،صورتِ حال میں کوئی تبدیل نہیں آئےگی۔ جارج بش، مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو فون کرتا ہے اور جو چاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے، یا پاکستانی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو ایک فون کال کرکے اپنے من پسند نتائج حاصل کرلیتا ہے، اور فرانسیسی صدر الجزائر کے صدر کو فون کرکے جو بات چاہتا ہے منوا لیتا ہے، قطع نظر اس کے کہ پاکستانی ،مصری یا الجزائری عوام کی خواہش کیا ہے ۔ یہ ہے ہمارا سب سے بڑا چیلنج ۔یہ چیلنج ہمیں واپس جس جگہ پہنچادیتا ہے وہ ہے ’قانونی و سیاسی قبولیت‘ (Political Legitimacy) کا بحران۔ ہربحران یہیں سے جنم لیتا ہے اور اس کا اختتام بھی اسی نکتے پر ہوتاہے۔ہمیں اپنے اپنے ممالک میں موجود اس اس بڑے ہی بنیادی سقم (structural problem) کو دُور کرنا ہوگا ۔ اس کے بغیر ہم آگے بڑھنے کے قابل کبھی نہیں ہو پائیں گے ۔

بادشاہوں کے ’خدائی حق‘ کا تصور اتنا ہی قدیم ہے، جتنا خود بادشاہت کا ادارہ۔ دونوں ساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں۔ اس اصول کے مطابق مشرق و مغرب دونوں جگہ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ’بادشاہ اپنے اختیارات براہِ راست خدا سے حاصل کرتا ہے‘۔ بظاہر یہ عقیدہ مشرق کی ایجاد معلوم ہوتا ہے، جسے عیسائیت کی ابتداء کے بعد مغرب میں درآمد کیا گیا۔ اس تصور کے منطقی نتیجے میں دو اور اصول پیدا ہوتے ہیں:

  • پہلا اصول یہ ہے کہ بادشاہ، زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے، اس لیے وہ رعایا کی ہرذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔ اس کا فرمان ہی قانون ہے، اور وہ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے کرسکتا ہے، اس کا احتساب نہیں کیا جاسکتا۔ انگریزی کی ایک ضرب المثل ہے کہ ’بادشاہ غلطی نہیں کرسکتا‘۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اسی الٰہیاتی تقدس کی باقیات میں سے ہے، جسے بادشاہ کی ذات سے مخصوص کردیا گیا تھا۔
  • دوسرا اصول یہ ہے کہ بادشاہت اسی ایک خاندان تک محدود رہے گی، جسے مقدس شمار کیا جائے گا۔

بادشاہت کے اسی ’تقدس آمیز‘ تصور کی بنا پر ازمنہ وسطیٰ (Middle Ages)کی عیسائی دُنیا میں بادشاہوں کو تاج پوشی کے وقت مذہبی اداروں کی طرف سے ’اصطباغ‘ (Baptism)دیا جاتا تھا۔ شکسپیئر [م:۱۶۱۶ء] بادشاہ رچرڈ دوم کی زبان سے یہ الفاظ کہلواتا ہے: ’دُنیا کی تمام تخریبی قوتیں مجتمع ہوکر بھی اصطباغ شدہ بادشاہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں‘‘۔

تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ انگلستان میں سترھویں صدی کی خانہ جنگی میں کس قدر کشت و خون ہوا، یہ سب اسی اصول پر لوگوں کے سیاسی اختلافات کا نتیجہ تھا۔ شاہ پسندوں کا خیال تھا کہ ’تمام عیسائی بادشاہوں، شہزادوں اور حاکموں کو اقتدار منجانب اللہ حاصل ہوتا ہے‘۔ [اس کے برعکس] جمہوریت پسندوں کا خیال تھا کہ ’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘۔ بادشاہ چارلس اوّل کا پھانسی پانا، اس مؤخرالذکر اصول کے حامیوں کی جیت تھی۔ ’انقلابِ فرانس‘ [۱۷۸۹ء-۱۷۹۹ء]نے آخرکار بادشاہوں کے خدائی حق کا تصور بالکل پاش پاش کردیا۔ اگرچہ ہر مغربی ملک میں شاہ پسندوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں یہ نظریہ اب بھی مقبول ہے۔

بہرطور، اب سوال یہ ہے کہ اِن ’خدائی حقوق‘ کے بارے میں بادشاہوں کے دعوے یا اس اصول کے حامی عوام کا اعتقاد کہاں تک حق بجانب ہے اور انھیں اس دعوے کا استحقاق کس قدر ہے؟ اس مسئلے پر نظر ڈالتے ہی خیال آتا ہے کہ اس میں خدائی کی بات تو کوئی ہے ہی نہیں۔ ان لوگوں نے اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے عام انسانی ذرائع استعمال کیے۔ ان کے پاس آزادی کے مطالبوں کا گلا گھونٹنے کے لیے پولیس اور جیل خانے موجود تھے۔ نیز دوست اور ہمدرد خریدنے کے لیے بے اندازہ دولت تھی۔ان لوگوں نے مادی ذرائع استعمال کرکے انسانوں پر حکومت کی۔ اگر کسی اور شخص کو بھی یہ سہولتیں مہیا کردی جائیں، تو وہ بھی حکومت کرسکتا ہے۔ اس میں اُلوہیت کہاں سے آگئی؟ کوئی آدمی جس میں اُلوہیت کا شائبہ بھی موجود نہ ہو ، بس ذرا سی عقل رکھتا ہو، اُسے فوج، خزانہ اور جملہ شاہی لوازمات فراہم کردیجیے، وہ ایسا ہی بادشاہ بن جائے گا جیساکہ خود اعتقادی اور تقدس کے ہالے میں گھرا کوئی اور بادشاہ ہوتا ہے!

حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے سادہ لوح انسانوں پر محض طاقت کے بل پر حکومت کی ہے نہ کہ خدائی حق کے زور پر۔ ان مادی وسائل کے علاوہ بادشاہ عوام پر اپنا رُعب داب قائم رکھنے کے لیے نفسیاتی طریقے بھی استعمال کرتے تھے۔ خدا کی نیابت کے یہ دعوے دار، خدا ہی کی طرح عام لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے یہ اصول بنا رکھا تھا کہ عام لوگوں کی نظروں سے دُور رہیں۔ مغل بادشاہ اپنے محلّات کے جھروکوں سے کبھی کبھی عوام کو اپنا درشن دیا کرتے تھے، اور اس کا خاص نفسیاتی اثر ہوتا تھا۔موجودہ زمانے میں بھی کئی بادشاہ اپنی رعیّت سے آزادانہ میل جول نہیں رکھتے بلکہ بالکونی سے اپنی ایک جھلک دکھانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ بھی اسی جانب ایک قدم ہے کہ اپنے آپ کو رُعب و جلال کے لبادے میں چھپائے رکھیں۔ وہ اس عام نفسیاتی اصول پر عامل ہیں کہ لوگوں سے بہرحال کچھ فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ ان باتوں میں اُلوہیت کہاں سے آگئی؟ اگر کسی خدائی خوار کو بھی یہ مواقع اور ذرائع میسر آجائیں تو وہ بھی ایسا ہی کچھ کرسکے گا بلکہ شاید اس سے بہتر۔ یہ تو وہی مصنوعی انسانی طریقے ہیں، جنھیں سبھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اس میں اُلوہیت کا کوئی دخل نہیں۔

ربانی حقِ حکمرانی ان تمام مادی اور نفسیاتی ڈھکوسلوں سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اسے نہ مال و دولت کی ضرورت ہو، نہ سنگینوں کی حاجت۔ لوگوں میں رُعب و جلال کےباطل اوہام پیدا کرنے کے لیے اُسے نفسیاتی بیساکھیوں کا سہارا بھی نہ لینا پڑے۔ یہ اقتدار تو فوج، خزانہ، جیل اور پولیس کے بغیر ہی قائم ہونا چاہیے۔ صرف ایسا حکمران ہی بجا طور پر اس امرکا دعویٰ کرسکتا ہے کہ اسے لوگوں پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی حکمران تھے۔ ان کے پاس لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے کوئی مستقل فوج نہیں تھی۔ وہ صرف ایک یتیم لڑکے تھے، جو ہرطرف پھیلی ہوئی بدی کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تن تنہا ڈٹ گئے۔ بجائے اس کے کہ لوگوں کو زیر کرنے کے لیے آپؐ کی اپنی فوج ہوتی، فوجیں آپؐ کے خلاف صف آرا تھیں۔ ایک پوری قوم آپؐ کے خلاف مسلح ہوکر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ لوگ انھیں بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے پر تلےہوئے تھے، اور پھر انجامِ کار یہی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرماں ہوگئے۔ درحقیقت یہ ہے عوام پر حکومت کا خداداد حق!

اسلام کے نبیؐ برحق کے پاس دولت بھی نہ تھی کہ اس کا لالچ دےکر لوگوں کو اپنا معتقد بناتے۔ آپؐ تو [مادی زبان میں] غریب آدمی تھے، جنھیں بعض اوقات کئی کئی دن فاقہ کشی کرنا پڑتی تھی۔ عرب کے حکمران بننے کے بعد بھی آپ کھردری چٹائی پر سوتے تھے۔ اس طرح آپؐ کی پشت پر کھجور کے پتوں کے نشانات پڑ جاتے تھے۔ ایک بے کس اور مظلوم انسان سے ترقی کرتے کرتے آپؐ جزیرہ نمائے عرب کے حکمران بن گئے۔ پھر بھی نہ آپؐ کو پولیس کی حاجت ہوئی، نہ جیل کی۔ دراصل یہی وہ حکمران تھے، جن کی بابت بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے کسی فوق الفطرت حق کی بناپر حکومت کی۔ اس لیے کہ آپؐ نے عام بادشاہوں کا سا اقتدار قائم کرنے والا کوئی ایک طریقہ بھی استعمال نہ کیا۔ نہ آپؐ کے پاس سلطنت کے تحفظ کی خاطر کوئی مستقل فوج تھی، نہ آپ کا ذاتی حفاظتی دستہ تھا، نہ کوئی خزانہ تھا، نہ پولیس تھی اور نہ کوئی جیل۔ ایسی کوئی چیز بھی تو نہ تھی۔

بجائے اس کے آپؐ لوگوں پر اثرانداز ہونے کے لیے انھیں کسی اُلوہیت آمیز رنگ میں اپنی طرف ملتفت کرنے کی کوشش کرتے، رسولِؐ پاک نے لوگوں کے دلوں کو اس شائبے سے پاک رکھنے کے لیے ہر وہ طریقہ استعمال کیا جو آپؐ کے بس میں تھا۔ آپؐ نے ایسے لوگوں کے درمیان زندگی بسر کی جو پتھر کے اَن گھڑ بتوں کی پوجا کرتے اور ان کی بابت اُلوہیت کے عقائد رکھنے کے عادی تھے۔ آپؐ کے لیے خدائی کا دعویٰ کرنا بھی کچھ مشکل نہ تھا، لیکن رسولِؐ پاک ایسی باتوں سے بالاتر تھے۔آپؐ نے لوگوں کے سامنے، جو بخوشی آپؐ کی پرستش کرنے کو بھی تیار ہوجاتے، صرف یہ دعویٰ کیا کہ ’’میں تو صرف تمھاری طرح ایک انسان ہوں‘‘۔

ان دُنیاوی بادشاہوں کے برعکس جو عوام کے دلوں میں اپنے فوق الفطرت مقام کا عقیدہ پیدا کرنے کے لیے سو سو جتن کرتے ہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں پر ہرممکن طریقے سے یہ بات نقش کرنے کی کوشش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسان ہیں اور بس۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بوجھ کر بطورِ حفظ ماتقدم، اس بات کو کلمہ کا جزولاینفک قراردیا کہ’’محمدؐ اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘ مبادا آیندہ چل کر ان کے نام لیوا عقیدت کے جوش میںا نھیں خدائی کے درجے تک پہنچا دیں، جیساکہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شخصیت اور اختیار کے بارے میں لوگوں کے تمام شکوک و شبہات واضح الفاظ میں دُور کردیئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمھارے آگے یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں خزانوں کا مالک ہوں یا غیب کا علم رکھتا ہوں‘‘۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے [ابراہیم]کے انتقال کے وقت اتفاقاً سورج گرہن لگ گیا، تو لوگوں نے سمجھا کہ شاید خدا اظہارِ غم کر رہا ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلمنے فوراً اُن کے اوہامِ باطلہ کو یہ کہہ کر رَد کردیا کہ ’انسان کی موت و حیات کے ساتھ مظاہر قدرت کا کوئی تعلق نہیں‘۔ قرآن مجید ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے کہ رسولؐ اللہ نے کیوں کر لوگوں کو ہرممکن طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپؐ کی ذات میں کوئی مافوق الفطرت بات موجود نہیں۔ جب ایک نابینا بوڑھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا اور آپؐ نے اُس سے بے اعتنائی برتی تو خدا کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی۔ بجائے اس کے کہ آپؐ اُسے چھپاتے، آپؐ نے اُسے قرآن مجید میں اللہ کی مرضی کے مطابق تمام آنے والے وقتوں کے لیے محفوظ کردیا۔ کوئی دُنیاوی صاحب ِ اقتدار شخص اپنے خلاف کسی بات کو، چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، اس طرح مشتہر نہیں کرتا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بے تکلفانہ انداز میں عام لوگوں سے میل جول رکھتے تھے۔ آپؐ کے کردار میں دوسروں سے بالاتر ہونے کی کوئی امتیازی علامت موجود نہ تھی۔ عوام کے ساتھ آپؐ کا ربط ضبط ایسا تھا کہ جب کوئی اجنبی مسجد میں مسلمانوں کے اجتماع میں آتا، تو اُسے دریافت کرنا پڑتا کہ ’’تم میں سے محمدؐ کون ہیں؟‘‘۔ آپؐ بطور حکمران اپنے کپڑے سینا، اپنے جوتے مرمت کرنا، اپنی بکریوں کا دودھ دوہنا، اپنے گھر کی صفائی کرنا اور اُمورِ خانہ داری میں اہل خانہ کا ہاتھ بٹانا، اپنی کسرِشان نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب کھانا پکانے کا وقت آیا تو ہرشخص نے اپنے اپنے حصے کا کام سنبھال لیا۔ رسولِؐ پاک بھی اس کام میں شریک ہوئے اور لکڑیاں چُن لائے۔ جب آپؐ کے پیروکاروں نے کہا کہ آپؐ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں، تو آپؐ نے واضح طور پر جواب دیا کہ آپؐ کو اپنے حصے کا کام کرنا ہی چاہیے۔

ایسا تھا یہ سب سے طاقت ور حکمران، جو دُنیا نے کبھی دیکھا!

وہ حکمران جس کا حکم صرف جسم پر نہیں دلوں پر بھی چلتا تھا۔ وہ حکمران جس کی کوئی فوج تھی نہ کوئی محل اور نہ خزانہ۔ اور نہ ان لاتعداد وسائل میں سے کوئی ایک وسیلہ کہ جسے دُنیاوی حکمران لوگوں کو مطیع کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ آپؐ لوگوں سے ہر ممکن طور پر بے تکلف ہوتے اور اپنی شخصیت تمام ممکنہ اوہامِ باطلہ سے بچائے رکھنے کی کوشش کرتے، پھر بھی آپؐ حکمران تھے۔

آپؐ کے پیروکار آپؐ سے ایسی محبت کرتے تھے کہ دُنیا کے کسی اور بادشاہ کو نصیب نہ ہوئی۔ آپؐ کے ایک پیروکار کو جب اس امر کا علم ہوا کہ جنگ میں آپؐ کا ایک دانت شہید ہوگیا ہے، تو اُس نے اپنے تمام دانت خود توڑ ڈالے۔ جب کسی جنگ کے خاتمے پر مدینہ کی ایک عورت نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کی، تو اُسے بتایا گیا کہ اس کا شوہر شہید ہوگیا ہے۔ اس اندوہ عظیم سے بے پروا ہوکر اُس نے دوبارہ رسولِؐ پاک کی خیریت پوچھی۔ اُسے بتایا گیا کہ جنگ میں اس کا بیٹا بھی شہید ہوگیا ہے۔ اُس نے اپنا وہی سوال پھر دُہرایا۔ اسے جواب ملا کہ اس کا بھائی بھی شہید ہوگیا ہے۔ اُس نے زور دے کر پوچھا: ’’رسولِؐ پاک کا کیا حال ہے؟‘‘ جب اُسے بتایا گیا کہ آپؐ خیریت سے ہیں تو اُس نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا کہ اس صورت میں تمام غم قابلِ برداشت ہیں۔

تاریخ میں صرف ایک حکمران کا ذکر ملتاہے، جس کی بابت بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسے حکومت کا خدائی حق حاصل تھا اور وہ حکمران اسلام کے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اگرچہ آپؐ کو لوگوں پر حکومت کرنے کا خدائی حق حاصل تھا، لیکن آپؐ نے کبھی ملوکیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ دُنیا کے اس عظیم ترین حکمران کا پیغام اپنے پیروکاروں کے لیے صرف اس قدر تھا:

’’میں تو تمھارے ہی جیسا ایک انسان ہوں‘‘۔

یہ نظم علامہ محمد اقبال نے اپنی والدہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی تھی۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت علامہ نے اس میں سے کئی اشعار حذف کردیے اور چند شعروں کا اضافہ بھی کیا اور ترتیب بھی بدل دی۔ موجودہ شکل میں نظم کُل تیرہ بندوں کے ۸۶؍اشعار پر مشتمل ہے۔

علامہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل، متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ ان کی پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ علامہ کے والد شیخ نورمحمد جس زمانے میں سیالکوٹ کے ڈپٹی وزیرعلی بلگرامی کی ملازمت میں پارچہ دوزی کا کام کرتے تھے، وہ اپنے شوہر کی اس تنخواہ سے اجتناب کرتیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں ڈپٹی وزیر علی کی آمدنی کا غالب حصہ شرعاً جائز نہ تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعد شیخ نورمحمد نے ملازمت ترک کردی۔ گھر میں انھیں ’بے جی‘ کہا جاتا تھا۔ وہ بالکل اَن پڑھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہمی، ملنساری اور حُسنِ سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطورِ امانت رکھواجاتیں۔ برادری کے گھرانوں میںا گر کوئی جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوتا تو ’بے جی‘ کو سب لوگ منصف ٹھیراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کردیتیں۔ ’بے جی‘ غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیاررہتیں۔ غریب گھرانوں کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ محلے داری کے غریب مگر شریف گھرانوں کی دس بارہ سال کی عمر کی تین چار لڑکیاں اپنے گھر لے آتیں اور ان کی کفیل ہوجاتیں۔ تین چار سال تک ان کی پوری تربیت کرکے اپنی بیٹیوں کی طرح کسی مناسب جگہ ان کی شادی کردیتیں۔

اقبال کو اپنی والدہ سے شدید محبت اور بے حد لگائو تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں۔ زیرِنظر نظم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ان کی بخیریت واپسی کے لیے دُعائیں مانگتیں اور ان کے خط کی ہمیشہ منتظر رہتیں۔ان کا انتقال ۷۸برس کی عمر میں ۹نومبر ۱۹۱۴ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ ان کی وفات پر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے ایک قطعہ لکھا، جس کے چندشعر یہ ہیں:

مادرِ مرحومۂ اقبال جنّت کو گئیں
چشم تر ہے آنسوئوں سے قلب ہے اندوہ گیں

اکبرؔ اس غم میں شریکِ حضرتِ اقبال ہے
سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے

واقعی مخدومۂ ملّت تھیں وہ نیکو صفات
رحلت ِ مخدومہ سے پیدا ہوا ہے تاریخِ وفات       [۱۳۳۳ھ]

اکبر کا ایک اور قطعۂ تاریخ وفات مرحومہ کے لوحِ مزار پر کندہ ہے۔

والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے۔ مہاراجا کشن پرشاد کے نام ۲۳نومبر ۱۹۱۴ء کو خط میں لکھتے ہیں:

اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کردیا ہے۔ میرے لیے دُنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دُنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظار ہے۔ دُنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جاپہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں، کسی طرح مَیں اس تک پہنچ جائوں!(صحیفہ، اقبال نمبر ۱۹۷۳ء، (اوّل)،ص ۱۳۲)

شیخ نُورمحمد کو بھی اپنی رفیقۂ حیات کی جدائی کا قلق تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے بھی اس موقعے پر دس بارہ اشعار کی ایک نظم لکھی تھی۔ اقبال نے زیرمطالعہ نظم کاتب سے خوش خط لکھوا کر اپنے والد ماجد کو بھیجی جسے وہ اکثر پڑھا کرتے تھے۔

اس نظم یا(مرثیے) کا اصل موضوع والدہ محترمہ کی وفات حسرت آیات پر فطری رنج و غم کا اظہار ہے۔ اس اظہار کے دو پہلو ہیں:۱- فلسفۂ حیات و ممات اور جبروقدر؛ ۲- والدہ سے وابستہ یادیں اور ان کی وفات کا ردعمل۔

پہلے موضوع کا تعلق فکر سے ہے اور دوسرے کا جذبات و احساسات سے۔ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ اُردو میں اقبال کی شاید واحد نظم ہے، جس میں وہ پڑھنے والے فکر اور جذبے دونوں کے دام میں اسیر نظر آتے ہیں۔(سیّدوقار عظیم: اقبال، شاعر وفلسفی، ص۳۲۲)

  • فلسفۂ جبروقدر:موت کے تصوّر سے اور خاص طور پر اُس وقت جب انسان کی کسی عزیز ہستی کو موت اُچک کر لے گئی ہو، حسّاس قلب پر تقدیر کی برتری اور تقدیر کے مقابلے میں انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا نقش اُبھرنا ایک قدرتی بات ہے۔ اس لیے اس نظم کا آغاز ہی فلسفۂ جبروقدر سے ہوتا ہے  ع

ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے

پہلے بند میں بتایا گیا ہے کہ سورج اور چاند ستارے، سبزہ و گُل اور بلبل، غرض دُنیا کی ہرشے فطرت کے جبری قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور قدرت کے تکوینی نظام میں ایک معمولی پُرزے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے پر مجبور ہے۔

  • انسانی ذہن پر فلسفۂ جبر کاردِّعمل :تقدیر کے مقابلے میں اپنی بے چارگی پر رنج و غم کا احساس اور اس پر آنسو بہانا انسان کا فطری ردِّعمل ہے۔ مگر دوسرے بند میں اقبال کہتے ہیں کہ چونکہ جبروقدر مشیت ِ ایزدی ہے، اس لیے گریہ و زاری مناسب ہے۔ آلامِ انسانی کے اس راز کو پالینے کے بعد، کہ عیش و غم کا یہ سلسلہ خدا کے نظامِ کائنات کا ایک لازمی حصہ ہے، نہ میں زندگی میں انسان کی بے بسی و بے چارگی پر افسوس کرتا ہوں اور نہ کسی ردعمل کا اظہار کرتا ہوں۔ لیکن والدہ کی وفات ایسا سانحہ ہے کہ اس پر خود کو گریۂ پیہم سے بچانا اور خاموش رہنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہاں (دوسرے بند کے آخری شعر میں) اقبال نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ انسان جس قدر بھی صابر و شاکر کیوں نہ واقع ہوا ہو، زندگی میں کسی نہ کسی موقعے پر اس کی قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ بے اختیار آنسو بہانے پرمجبور ہوجاتا ہے۔ ایسے عالم میں زندگی کے سارے فلسفے، ساری حکمتیں اور محکم ضابطے، دُکھی دل کے ردعمل کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں اور والدہ مرحومہ کی وفات پر مجھ پر بھی یہی کچھ بیت رہی ہے۔
  • گریہ و زاری کا مثبت پہلو :گریہ و زاری کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے زندگی کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ روح کی آلودگی اور داخلی بے قراری ختم ہونے سے قبل قاری کو ایک گونہ طمانیت اور استحکام نصیب ہوتا ہے۔ جس سے انسان ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ زمانے کی سختیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ نفسیات دان بھی یہ کہتے ہیں کہ رونے سے انسان کے جذبات کی تسکین (catharsis) ہوتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے  ع

موجِ دُودِ آہ سے آئینہ ہے روشن مرا

  • والدہ اور بچّے کا باہمی تعلق : والدہ کی یاد میں بہائے جانے والے آنسوئوں نے دل کے بوجھ کو ہلکا کردیا ہے۔ اب وہ خود کو بالکل ہلکا پھلکا اور معصوم بچّے کی مانند محسوس کرتا ہے۔ شفیق والدہ کی یاد شاعر کو ماضی کے دریچوں میں لے گئی ہے۔ جب وہ چھوٹاسا تھا اور ماں اس ننھی سی جان کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتی اور دودھ پلاتی تھی۔ اب وہ ایک نئی اور مختلف دُنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے، جو علم و ادب اور شعروسخن کی دُنیا ہے اور ایک عالَم اس کی شاعری پر سر دُھنتا ہے۔ ماضی اور حال کی ان کیفیات میں اس زبردست تضاد کے باوجود، اقبال کے خیال میں ایک عمررسیدہ بزرگ یا عالم و فاضل شخص بھی جب اپنی والدہ کا تصوّر کرتا ہے تو اس کی حیثیت ایک سادہ بچّے کی رہ جاتی ہے جو ماں کی صحبت کے فردوس میں بے تکلف خوشی پاتا ہے (یہ مضمون تیسرے بند کے تیسرے شعر سے بند کے آخرتک بیان ہوا ہے)۔
  • والدہ اور بھائی سےوابستہ یادیں : والدہ کو یاد کرتے ہوئے گذشتہ دور اور اس سے متعلق حالات و واقعات کا یاد آنا سوچ کے سفر کا حصہ ہے۔ اقبال ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کے دور کو یاد کرتے ہیں، جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں مقیم تھے۔ اس زمانے میں امام بی بی، اقبال کی سلامتی کے لیے فکرمند رہتیں، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر ان کی خیریت سے واپسی کے لیے دُعائیں مانگتیں۔ اُنھیں ہمیشہ اقبال کے خط کا انتظار رہتا۔ یہاں اقبال اپنی والدہ کی عظمت کے اعتراف میں بتاتے ہیں کہ میری تعلیم و تربیت، میری عظیم والدہ کے ہاتھوں میں ہوئی، جن کی مثالی زندگی میرے لیے ایک سبق تھی۔ مگر افسوس! جب مجھے والدہ کی خدمت کا موقع ملا تو وہ دُنیا سے رخصت ہوگئیں۔ البتہ بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے ایک حد تک والدہ کی خدمت کی اور اب والدہ کی وفات پر وہ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدہ نے اپنے پیار اور خدمت کے ذریعے اپنی محبت کا جو بیج ہمارے دلوں میں بویا تھا، غم کا پانی ملنے پر اب وہ ایک پودے کی شکل میں ظاہر ہوکر اُلفت کا تناور درخت بنتا جا رہا ہے۔
  • زندگی اور موت کا فلسفہ : والدہ سے وابستہ باتوں کو یاد کرتے ہوئے شاعر کو تقدیر اور موت کی بے رحمی کا خیال آتا ہے۔ چنانچہ (چھٹے بند سے) سلسلۂ خیال زندگی اور موت کے فلسفے کی طرف مڑ جاتا ہے۔ نظم کے آغاز میں بھی اقبال نے فلسفۂ جبروقدر پر اظہارِخیال کیا تھا، مگر یہاں موت اور تقدیر کے جبر کا احساس نسبتاً شدید اور تلخ ہے۔ کہتے ہیں: دُنیا میں جبراور مشیّت کا پھندا اس قدر سخت ہے کہ کسی چیز کو اس سے مفر نہیں۔ قدرت نے انسانوں کی تباہی کے لیے مختلف عناصر (بجلیاں، زلزلے، آلام و مصائب، قحط وغیرہ) کو مامور رکھا ہے۔ ویرانہ ہو یا گلشن، محل ہو یا جھونپڑی، وہ اپنا کام کرجاتے ہیں۔ مجبور انسان اس پر آہ بھرنے کے سوا اور کیا کرسکتا ہے، نہ مجالِ شکوہ اور نہ طاقت ِ گفتار۔ غرض زندگی گلا گھونٹ دینے والے طوق کے سوا کچھ نہیں۔

لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ کائنات کے اندر موت کے مقابلے میں زندگی کا بھی بہرحال ایک مقام اور مرتبہ ہے۔ دُنیا کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں زندگی اور موت کی کش مکش  ہی سے قائم ہیں۔ چنانچہ ساتویں بند میں اقبال اسی دوسرے رُخ کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جبروقدر کی یہ حکمرانی دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے۔ موت ،زندگی پر مستقل طور پر غالب نہیں آسکتی۔ کیونکہ اگر موت کو زندگی پر برتری ہوتی تو پھر زندگی کا نام و نشان بھی نظر نہ آتا اور یہ کارخانۂ کائنات نہ چل سکتا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اصلاً زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اس نے زندگی کو مغلوب نہیں، غالب بنایا ہے۔ لیکن انسان کو زندگی کے مقابلے میں موت اس لیے غالب نظر آتی ہے کہ اس کی ظاہردیکھنے والی نگاہیں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔ موت تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے، جس طرح انسان لمحہ بھر کے لیے نیندکرکے پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے  ؎

مرگ اِک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
(میرتقی میر)

آٹھویں بند کے آخر میں اقبال دُنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی ناپائیداری کی ایک توجیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فطرت ایک بااختیار خلاق کی حیثیت رکھتی ہے جسے، بنائواور بگاڑ پر پوری قدرت حاصل ہے۔فطرت کو چونکہ خوب سے خوب تر کی جستجو رہتی ہے، اس لیے اپنے بنائے ہوئے نقوش خود ہی مٹاتی رہتی ہے تاکہ اس تخریب سے تعمیر کا ایک نیا اور مطلوبہ پہلو برآمد ہوسکے۔ اس طرح موت اور تخریب کا جواز یہ ہے کہ اس سے حیاتِ نو کی ایک بہتر بنیاد فراہم ہوتی ہے۔

موت کو ایک عارضی کیفیت قرار دینے کے بعد اس سلسلۂ خیال کو ایک مثال کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ نویں بند کو چھوڑ کر دسویں بند میں اقبال نے ایک بیج کی مثال دی ہے، جو مٹی کی تہہ میں دبا پڑا ہے۔ ظاہری طور پر وہ مُردہ حالت میں ہے، مگر درحقیقت وہ ایک نئی اور بہترشکل میں زمین پر نمودار ہونے کی تیاری کرر ہا ہے۔

اس مُردہ دانے میں بھی زندگی کا شعلہ چھپا ہوا ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ زندگی کی تجدید میں مصروف ہے، لہٰذا زندگی کو موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں___ فلسفۂ زندگی و موت سے متعلق یہ سلسلۂ خیال دسویں بند کے اختتام پر ختم ہوجاتا ہے۔

  • عظمتِ انسان :اس کے درمیان (نویں بند میں) اقبال نے نظامِ کائنات میں انسان کے مقام اور اس کی عظمت کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ آغاز، آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کے ذکر سے ہوتا ہے۔ اقبال کے خیال میں ستارے اپنی تمام تر آب و تاب، چمک دمک اور عمر کی طوالت کے باوجود قدرت کے تکوینی نظام کے بے بس کارندے ہیں، اور نہ جانے کب سے ایک محدود دائرے کے اندر اپنا مقرر کردہ فرض ادا کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انسان کے مقاصد کہیں زیادہ پاکیزہ تر، اس کی نگاہیں کہیں زیادہ وسیع تر ہیں اور وسیع اور اِس لامحدود کائنات میں اس کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند تر ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ کائناتی نظام میں انسان کا مقام ایسا ہی ہے، جیسے نظامِ شمسی میں سورج کا مرتبہ___ اس لیے موت انسان کو فنا نہیں کرسکتی۔
  • غم و اندوہ کا ردِّعمل : گیارھویں بند میں اقبال نے انسانی قلب و ذہن پر رنج و غم کے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ ’موت کے زہر کا کوئی تریاق نہیں۔ البتہ زخمِ جدائی کے لیے وقت مرہمِ شفا کی حیثیت رکھتا ہے‘۔ مگر اقبال کو اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب انسان کسی شدید مصیبت سے دوچار ہو اور مصیبت بھی ناگہاں ہو تو صبروضبط انسان کے اختیار میں نہیں رہتا۔ اس کی آنکھیں خون کا سرشک آباد بن جاتی ہیں۔ البتہ ایسے عالم میں انسان کے لیے تسکین کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے (اور یہ وہی پہلو ہے جس کی طرف اقبال نے نظم کے آغاز میں ذکر کیا تھا) کہ موت کسی دائمی کیفیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عارضی حالت ہے۔ انسان مرتا ہے لیکن فنا کبھی نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے۔ تسکین کا دوسرا پہلو یہ ہے، جس طرح ہررات کی سحر ہوتی ہے (اور صبح کے وقت طائرانِ سرمست نوا، نیند کو عروسِ زندگی سے ہمکنار کردیتے ہیں)، بالکل اسی طرح موت کے وقفۂ ماندگی کے بعد انسان پھر بیدار ہوکر اُٹھ کھڑاہوگا۔ یہ اس کی زندگی کی نئی سحر ہوگی اور پھر وہ ایک نئے دور کا آغاز کرے گا (یہ بات بارھویں بند کے آخر تک بیان ہوئی ہے)۔
  • والدہ کے لیـے دُعا :نظم خاتمے کے قریب پہنچتی ہے۔ سلسلۂ خیال والدہ مرحومہ کی جانب مڑجاتا ہے۔ ابتدا میں شاعر نے والدہ کی رحلت پر جس بے قراری، اضطراب اور بے چینی کا اظہار کیا، وہ والدہ سے محبت رکھنے والے ایک مغموم و متاسّف بچّے کے درد و کرب اور تڑپ کا بے تابانہ اظہار تھا۔ لیکن فلسفۂ زندگی و موت پر غوروخوض کے بعد شاعر نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ ایک پختہ کار مسلمان کی سوچ ہے۔ اقبال نے والدہ کی جدائی کے درد و غم کو اپنی ذات میں اس طرح سمولیا ہے کہ اب جدائی ایک مقدس اور پاکیزہ کیفیت بن گئی ہے  ع

جیسے کعبے میں دُعائوں سے فضا معمور ہے

یوں کہنا چاہیے کہ اقبال نے غم کا ترفّع (sublimation) کرلیا ہے۔ وہ والدہ کی وفات اور جدائی پر اس لیے متاسّف نہیں کہ موت کے بعد آخرت بھی زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ آخری تین اشعار دُعائیہ ہیں۔ اقبال دُعاگو ہیں کہ جس طرح زندگی میں والدئہ ماجدہ ایک مہتاب کی مانند تھیں، جن سے سب لوگ اکتسابِ فیض کرتے تھے، خدا کرے کہ ان کی قبر بھی نُور سے معمور ہو، اور خدا ان کی لحد پر بھی اپنی رحمت کا نزول فرماتا رہے۔ ’سبزئہ نُورستہ ‘خدا کی رحمت کی علامت ہے۔

  • لہجے کا تنوع : ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ ایک مرثیہ ہونے کی بنا پر یہ نظم اپنے موضوع کی مناسبت سے معتدل، نرم اوردھیما لہجہ رکھتی ہے۔ جن مقامات پر انسان کی بے بسی، قدرت کی جبریت او زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ہوا ہے، وہاں لہجے کا سخت اور پُرجوش ہونا ممکن ہی نہیں۔ جن حصوں میں شاعر نے والدہ سے وابستہ یادِ رفتہ کو آواز دی ہے، وہاں اس کے لہجے میں درد و کرب اور حسرت کی ایک خاموش لہر محسوس ہوتی ہے۔ اس حسرت بھری خاموشی کو دھیمے پن سے بڑی مناسبت ہے۔ شاعر کے جذبات کے اُتارچڑھائو نے بھی اس کے دھیمے لہجے کا ساتھ دیا ہے۔ پھر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کی بندش اور مصرعوں کی تراش سے بھی یہی بات نمایاں ہے۔ ملاحظہ ہو:

زندگی کی اوج گاہوں سے اُتر آتے ہیں ہم
صُحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

_____

یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دُعائوں سے فضا معمور ہے

_____

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

اس لہجے میں شاعر کے دل کا درد، خستگی اور حرماں نصیبی گھل مل گئے ہیں۔

نظم میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شاعر کا لہجہ، مرثیے کے مجموعی لہجے سے قدرے مختلف ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شاعر نے فلسفۂ جبرواختیار اور زندگی و موت پر غوروخوض کے بعد اپنے مثبت نتائج پیش کیے ہیں۔ یہ نتائج یاس و نامرادی اور افسردگی کے بجائے تعمیری نقطۂ نظر کے مظہر ہیں۔ اس لیے ایسے مقامات پر شاعر کے ہاں جوش و خروش تو نہیں، البتہ زندگی کی ایک شان اور گرمجوشی کا لہجہ ملتا ہے، مثلاً:

شعلہ یہ کمتر ہے گردُوں کے شراروں سے بھی کیا
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا

_____

موت ، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے

_____

سینۂ بُلبل کے زِنداں سے سرود آزاد ہے
سیکڑوں نغموں سے بادِ صبح دم آباد ہے

  • سوز و گداز : زیرمطالعہ نظم اپنے تاثر کے اعتبار سے اقبال کے تمام مرثیوں میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ غلام رسول مہر کے بقول اس کے اشعار اتنے پُرتاثیر ہیں کہ الفاظ میں ان کی کیفیت بیان نہیں ہوسکتی۔غالباً یہ مرثیہ شعروادب کی پوری تاریخ میں بالکل یگانہ حیثیت رکھتا ہے اور شاید ہی کوئی دوسری زبان اس قسم کی نظم پیش کرسکے۔ اس انفرادیت اور اثرانگیزی کا سبب اس کا وہ سوز و گداز ہے جس سے نظم کے کسی قاری کا غیرمتاثر رہنا ممکن نہیں۔ روایت ہے کہ مرثیہ پڑھتے ہوئے اس کے سوزوگداز  سے ان پر گریہ طاری ہوجاتا، اور وہ دیر تک روتے رہتے۔ مرثیے میں یہ سوزوگداز اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اقبال کے پیش نظر ایک جذباتی موضوع تھا۔
  • فارسیّت :یہ اقبال کی ان نظموں میں سے ہے، جن پر فارسی کا غالب اثر ہے۔  بعض مصرعے ایک آدھ حرف یا لفظوں کے سوا فارسی میں ہیں:

پردئہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے

_____

علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے

_____

ُخفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رُود باد

_____

مثلِ ایوانِ سحر مرقد ُفروزاں ہو ترا

حُسنِ بیان کے چند پہلو : فنی اعتبار سے حُسنِ بیان کا خوب صورت نمونہ ہے۔ پروفیسر رشیداحمد صدیقی نے ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’فن کا کمال ہی یہ ہے کہ فن کے سارے وسائل کام میں لائے گئے ہوں، لیکن ان میں ایک بھی توجہ پر بار نہ ہو‘‘۔

نظم میں زبان و بیان، صنائع بدائع اور حُسنِ بیان کے چند پہلو ملاحظہ ہوں:

تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ

_____

آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں
انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں

_____

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دُخترانِ مادرِ ایّام ہیں

_____

علم کی سنجیدہ گُفتاری، بُڑھاپے کا شعور
دُنیوی اعزاز کی شوکت ، جوانی کا غرور

_____

جانتا ہوں آہ! مَیں آلامِ انسانی کا راز
ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز

_____

دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دُنیا کا سبق تیری حیات

_____

مثلِ ایوانِ سحر مرقد ُفروزاں ہو ترا
نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

_____

نظم کا اختتام دُعائیہ ہے۔ اقبال ایک مفکر و فلسفی کی نظر سے زندگی و موت اور جبروقدر کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور ساتھ ہی دُنیا میں اپنی عزیز ترین ہستی ماں کی یاد میں مغموم اور مجبور انسان کی طرح آنکھوں سے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ گویا یہاں:’’اقبال کی شخصیت دو مختلف اندازوں میں جلوہ گر ہوئی۔ ایک شخصیت تو اقبال کی وہی فلسفیانہ شخصیت ہے جس کی بدولت اقبال کو اُردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ملی ہے، اور دوسری شخصیت اس مجبورو مغموم انسان کی ہے، جو ماں کی یاد میں آنسو بہاتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہے۔(سیّدوقار عظیم، اقبال، شاعر اور فلسفی، ص ۱۶۳-۱۶۴)

آخر میں والدئہ مرحومہ کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے دست بہ دُعا ہیں کہ باری تعالیٰ مرحومہ کی قبر کو نُور سے بھر دے اور اس پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔ یہاں اقبال کا طرزِ فکر اور پیرایۂ اظہار ایک سچّے مومن اور راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔

۴ مارچ ۲۰۲۴ ء مصر کی ’اسٹیٹ سیکورٹی کریمنل کورٹ‘ نے اخوان المسلمون کے چوٹی کے آٹھ رہنماؤ ں کو سزائے موت سنادی ۔ سزاپانے والوں میں اخوان المسلمون کے ۸۰ سالہ مرشد عام ڈاکٹر محمدبدیع [پ:۷؍اگست ۱۹۴۳ء]، قائم مقام مرشد عام محمود عزت کے علاوہ ڈاکٹر محمود بلتاجی ، اُمور نوجوانان کے سابق وزیر اسامہ یاسین ،صفوت حجازی ،عاصم عبد الماجداور محمدعبدالمقصود کے نام شامل ہیں ۔

ان قائدین پر لگائے جانے والے الزامات:

  • غیر قانونی قرار دی گئی جماعت کی قیادت کرنا، سرکاری کاموں میں مداخلت،شہریوں کی شخصی آزادیوں پر دست اندازی کرنا ، ملکی سلامتی اور معاشرتی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالنا۔
  • ایسی جماعت کا حصہ ہیں جو حکومتی نظام کو بزور تبدیل کرنا چاہتی ہے جس نے فوجیوں اور فوجی تنصیبات پر، پولیس اور پولیس کی تنصیبات پر حملہ کیا ہے۔
  • غیر قانونی قرار دی گئی جماعت کے لیے وسائل فراہم کرنا ،افراد اکٹھے کرکے اجتماع کرنا ، ارادۂ قتل عمد تاکہ اس کے ذریعہ دہشت پھیلائی جاسکے ۔
  • تشدد کا استعمال کرتے ہوئے عام ملا زمین کو ہڑتال پر اکسا نا، پبلک مقامات پر توڑ پھوڑ کرکے دہشت پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔
  • اسلحہ کی نمایش یا اسلحہ کے استعمال کا عملاً یا اشارۃًذکر کرنا، تاکہ دہشت پھیلے اور امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہو،ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے والے حکام کو متاثر کرکے انھیں ان کے فرائض کی بجا آوری سے رو کا جاسکے۔
  • النصر سٹریٹ پر لوگوں کو اکٹھا کرکے مذکورہ مقصد کے حصول کے لیے لوگوں کو ڈیوٹیاں تفویض کیں اور انھیں آتشیں اسلحہ اورچاقو اور خنجر وغیرہ فراہم کیے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان لغو اور بیہودہ الزامات اور مقدمات کی بنیاد صرف اور صرف پولیس کی من گھڑت رپورٹس ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ مصر کا عدالتی نظام ا س قدر بودا ، بے بس، غیر شفاف اور لچر کیوں ہے کہ صرف پولیس کی یک طرفہ تفتیشی رپورٹ کی بنیاد پر ہی عمر قید اور پھانسی کی سزائیں سنائی جارہی ہیں ۔

یاد رہے، مرشد عام کو سنائی جانے والی پھانسی کی یہ تیسری سزا ہے۔ ملک کے مختلف اضلاع کے درجنوں تھانوں میں درج ان کے خلاف دیگر کئی مقدمات میں انھیں پہلے ہی عمر قید کی کئی سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ سنائی گئی سزائوں کو اگر جمع کرلیاجائے تو قید بامشقت کی یہ مدت ۲۱۰برس بنتی ہے۔ اور ابھی ۲۳ کے قریب ایسے مقدمات ہیں، جو اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکے ہیں اور  ان مقدمات کی متوقع سزائوں کو بھی جمع کرلیا جائے تو ۸۵ برس قید کامزید اضافہ ہوجائے گا۔

کیا اخوان المسلمون کے لوگ واقعی دہشت گردی اور دہشت زدگی کے ذریعہ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول پر یقین رکھتے ہیں ؟

اس کا بہترین جواب تو مرشد عام اخوان المسلمون نے جماعت کی طرف سے مصر کے اولین منتخب صدر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے دنوں میں قاہرہ کے رابعہ عدویہ کے میدان میں مسلح مصری فوجی دستوں اور پولیس کی مسلح بھاری نفری کے سامنے ڈٹ کر دیا تھا:

سلمیتنا اقوی من الرصاص،’’ ہماری پر امن جد و جہد تمہاری گولیوں سے طاقت ور ہے ‘‘۔

اسی طرح جمعة الغضب میں میدان رمیسیس میں جب مرشد عام کے نوجوان بیٹے انجینئر عمار کو شہید [۱۶؍اگست ۲۰۱۳ء]کیے گئے تو بھی انھوں نے کمال صبر، تحمل اور پہاڑوں جیسی برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنے رفقاء کو پُرامن جدوجہد ہی کا راستہ دکھایا اور اختیار کیا۔ پھر جب ان کے نہایت عزیز ساتھی اور رفیق ڈاکٹر محمود بلتاجی اپنی عزیز از جان بیٹی شہیدہ اسما ء بلتاجی کا جنازہ اُٹھا رہے تھے، تب بھی انھیں پُرامن رہنے کی تلقین کی ۔ میدان رابعہ کو جب جنرل سیسی کی قیادت میں باغی فوج نے عملاً صدر مرسی کے حامیوں کے لیے قتل گاہ بنا دیا اور فی الحقیقت فوجی ٹینکوں اور مسلح دستوں کی طاقت استعمال کرتے ہوئے نہتے مظاہرین کو بیددردی سے شہید کیا جاتا رہا، تب بھی مرشد عام کے ہمراہ ساری قیادت پُرامن سیاسی جدوجہد کے موقف پر مضبوطی سے کھڑی رہی۔

اخوان کی ۳جولائی ۲۰۱۳ء کی فوجی بغاوت کے بعد اپنی گرفتاری اور دس برس کی مسلسل قید تنہائی اور قید بامشقت کے بعد آج بھی جناب ڈاکٹر محمد بدیع کے پائے استقامت میں ذرہ سی بھی لغزش نہیں آئی اور قید و بند کی تمام صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں اور اپنے طرزِعمل سے دنیا پر واضح کرچکے ہیں کہ ہماری سیاسی جدوجہد پُر امن تھی ،پُر امن ہے اور پُر امن رہے گی ۔

مرشدعام کون ہیں؟

۱۹۹۹ء کی درجہ بندی کے مطابق سال کے سو بہترین عرب سائنس دانوں میں شمار کیے جانے والے ڈاکٹر محمد بد یع اس سے پہلے بھی کئی برس تک فوجی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتوں کا سامناکر چکے ہیں۔ ۱۹۶۵ء میں سید قطب شہید اور ان کے رفقاء کے ساتھ ساتھ انھیں بھی ۱۵برس قید کی سزا سنائی گئی تھی جس میں دس  برس کی قید بامشقت کاٹ کر ۱۹۷۴ء میں رہا ہوئے اور اسیوط یونی ورسٹی میں درس و تدریس شروع کی پھر زقازیق یونی ورسٹی میں پروفیسر رہے اور و ہیں سے تدریس کے لیے یمن چلے گئے۔جہاں انھوں نے عالم عرب کے بہترین ویٹرینری انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔

۱۹۹۵ء میں ایک بار پھر گرفتار کر لیے گئے اور فوجی عدالت نے پانچ سال قید کی سزاسنائی اور ۲۰۰۳ء تک گرفتار رہے ۔

صدر محمد مرسی حکومت کا تختہ اُلٹ کر جنرل سیسی کی قیادت میں مصری فوج نے اقتدار پر قبضہ کیاتو ۲۰؍اگست ۲۰۱۳ء کو پھر گرفتار کر لیے گئے۔ اس بار ان پر ۴۸ مقدمات قائم کیے گئے اور اُس وقت سے مسلسل قید میں ہیں ۔

اخوان المسلمون نے تازہ سزاوں کو انصاف کے ادنیٰ ترین درجہ سے بھی خالی قرار دیا ہے کہ نہ یہ عدل وانصاف کے تقاضوں پرپورا اترتی ہیں اور نہ شفافیت کا ادنیٰ درجہ ہی انھیں حاصل ہے۔

 مصر کی انسانی حقوق کی ۱۳ تنظیموں جن میں ’ہیومین رایٹس واچ‘ اور قاہرہ مرکز برائے حقوق انسانی پالیسی اسٹڈیز، بھی شامل ہیں کہا ہے کہ ’عرب بہار‘ میں مصری عوام کے بنیادی مطالبات الْخُبْزُ الْحُرَّیَۃُ العَدَالَۃ الاَجْتِمـَاعِیَۃ میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا ۔ دوسری طرف سیاسی آزادیوں اور حقوق کی بیخ کنی کے لیے استبدادی روش جاری ہے اور معاشی بحران بدسے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے ۔جنرل سیسی انتظامیہ نے شہری حقوق کی بیخ کنی کے لیے بدترین اور گھنائونی روش اپنا رکھی ہے۔ قانون اور ساری عدلیہ کے ہاتھ پائوں باندھ کر رکھ دیئے گئے ہیں۔ حزب اختلاف کی آواز کو مکمل طور پر دبادیا گیا ہے۔

جنرل سیسی حکومت نے عدلیہ اور سول انتظامیہ پر آمرانہ پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ سول سوسائٹی، اپوزیشن اور آزاد میڈیا پر نگرانی کے سخت پہرے بٹھارکھے ہیں۔ جیلوں میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات عام ہیں، حتیٰ کہ علاج معالجے کی سہولیات کے فقدان اور عدم فراہمی کی وجہ سے بدر نامی جیل خانے میں ماہِ جنوری میں ۵، اور ماہِ فروری میں ۲ ؍اموات اور خودکشی کے کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں ۔ وفات پانے والوں میں عادل رضوان سابق ممبر پارلیمنٹ اور محمدشربینی معروف وکیل رہنما بھی شامل ہیں۔پورے مصر پر دفعہ ۱۴۴ مسلسل نافذ ہے اور دو ماہ پیش تر ہونے والے نام نہاد صدارتی انتخابات ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ بھی نہ تھے۔

مصر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین، مرشد عام اخوان المسلمون اور شوریٰ کے اراکین کو سنائی جانے والی ان سزاؤں کی ٹائمنگ کو بھی غزہ اور فلسطین کی صورت حال کے تناظر سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں ۔مرحوم صدر محمد مرسی نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے جواب میں اپنی مشہور صدارتی تقریر میں کہا تھا: لَنْ نَتْرُکَ غَزَّۃَ وَحْدَھَا، ’ہم غزہ کو ہرگز تنہا نہیں چھوڑیں گے‘۔اور کہا تھا: ’’مصری عوام عرب بہار کی صورت میں اگر عشروں سے مسلط آمریتوں اور ان کے ظلم وستم کو اٹھا کر پھینک سکتے ہیں تو اسرائیلی تسلط اور ظلم کا جڑ سے خاتمہ بھی کرسکتے ہیں۔ تم ظلم و زیادتی اور جارحیت سے کبھی امن اور سلامتی نہیں حاصل کرسکو گے۔ جو خون تم بہا رہے ہو یہ تم پر لعنت بن کر برسے گا اور اس خون کے جواب میں علاقے کی ساری قومیں تمھارے خلاف متحرک ہوجائیں گی۔ ظالم اسرائیل سے کہتا ہوں تاریخ سے عبرت حاصل کرے‘‘۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اخوان کا یہی جرأت مندانہ موقف ہے، جسے اس موقع پر مزید دبانے کی کوشش کی گئی ہے !

محترم صدر بائیڈن! میں آپ کو دوسری بار خط لکھ رہی ہوں۔ پہلی بار آپ کو ۴نومبر کو خط لکھا تھا، جب میری قوم کے ۴۷؍ افراد بشمول میرے اپنے خاندان کے ۳۶؍ افراد کو اسرائیلی قابض افواج کے ایک ہی حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ قتل عام غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے میں واقع خان یونس پناہ گزین کیمپ میں ہوا، جہاں آپ کے اتحادی اسرائیل کے دعوے کے مطابق لوگ ’محفوظ‘ تھے۔

مجھے یقین نہیں کہ میرا پہلا خط آپ تک پہنچا، یا آپ کی میڈیا ٹیم نے آپ کو اس کے مندرجات سے آگاہ کیا۔ اس کے باوجود آپ نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا ہے۔ اسرائیل کے لیے آپ کی واضح حمایت، بشمول بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فراہمی کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد سے آپ کی مدد سے اس طرح کے بہت سے قتل عام کیے جا چکے ہیں۔اس خط کو لکھنے کے بعد، میں نے اپنے ہی خاندان کے مزید ۲۲۰؍ افراد کو کھو دیا ہے۔

صرف ایک ماہ قبل، ۳۱ جنوری [۲۰۲۴ء]کو، میرے والد کے کزن، ۴۰ سالہ خالد عمار، جو خان یونس میں بے گھر ہو گئے تھے، اپنے پورے خاندان کے ساتھ جس جگہ پر مقیم تھے، اسرائیلی ٹینک کی گولہ باری سے ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں خالد کی اہلیہ ۳۸ سالہ مجدولین، ان کی چار بیٹیاں، ۱۷ سالہ ملک، ۱۶ سالہ سارہ، ۹سالہ آیا اور ۷ سالہ رفیف اور ان کے دو بیٹے، ۱۴سالہ اسامہ اور دو سالہ انس سب کے سب اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔

ہلاک ہونے والوں میں خالد کا معذور بھائی ۴۲ سالہ محمد اور ان کی والدہ ۶۰سالہ فتیہ بھی شامل ہیں۔ ان کی لاشیں ایک ہفتے سے زائد عرصے تک بے گوروکفن پڑی رہیں۔ خالد کے زندہ بچ جانے والے بھائی، ۳۵ سالہ بلال نے فلسطینی ریڈ کراس سوسائٹی کو مدد کے لیے بار بار فون کیے، لیکن وہ بچ جانے والوں کی تلاش کے لیے ریسکیو ٹیم روانہ نہیں کر سکے کیونکہ قابض اسرائیلی فوج نے انھیں جانے کی اجازت نہیں دی۔

مجدولین اور اس کی دو جوان بیٹیاں، رفیف اور آیا، گذشتہ موسم گرما میں مجھ سے ملنے آئیں، جب میں غزہ گئی تھی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ رفیف میری سب سے چھوٹی بھانجی راشا کی موٹر سائیکل پر سوار ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ وہ سڑک پر دوڑتے ہوئے، وہ کینڈی کھاتے تھے جو انھوں نے میرے کزن، اسد کی دکان سے خریدی تھی۔ ان کی ہنسی آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔

لیکن جناب صدر!آج کوئی آیا، کوئی رفیف، کوئی اسد نہیں، جسے اسرائیلی فوج نے اس کے بیوی بچوں، ماں، دو بہنوں، بھابھی اور ان کے بچوں سمیت مارا تھا۔ یہاں اب سڑکیں نہیں، گھر نہیں، دکانیں نہیں، قہقہے نہیں۔ صرف تباہی کی بازگشت اور تباہی و بربادی کی بہری خاموشی ہے۔

 خان یونس پناہ گزین کیمپ کا رہایشی علاقہ جس میں مَیں پلی بڑھی، آج ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ دسیوں ہزار پناہ گزین، بشمول میرے خاندان کے باقی زندہ بچ جانے والے افراد، اب المواسی اور رفح میں بے گھر ہو گئے ہیں۔ وہ خیموں میں رہتے ہوئے بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

صدرصاحب! ان سے میری کوئی بات چیت نہیں ہوئی، اس لیے کہ اسرائیل نے رابطہ منقطع کر دیا ہے۔ ۱۰فروری کو میرا بھتیجا ۲۳سالہ عزیز، خطرے کے باوجود تین کلومیٹر پیدل چل کر انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے رفح کے کنارے پہنچا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کئی بار موت ان کے پاس سے گزر چکی ہے، لیکن ابھی تک وہ زندہ ہیں۔ وہ بھوکے، پیاسے اور سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔

بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے باوجود کہ اسرائیل کو غزہ تک امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، وہاں نہ کوئی طاقت ہے، نہ صفائی، نہ ادویات، نہ مواصلات، اور نہ کوئی انسانی خدمات انھیں میسر ہیں۔

اگر لوگ اسرائیلی بموں سے بچ جاتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیلی بمباری سے زخموں کی تاب نہ لاکر اور متعدی اور غیر متعدی بیماریوں کا شکار ہوکر موت سے نہ بچ سکیں گے۔ اسرائیلی حملے کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔

فروری میں اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی خان یونس میں واقع دوسرے بڑے ہسپتال نصیر کا محاصرہ کرلیا۔ ہسپتال میں ۳۰۰ کی تعداد میں طبّی عملہ ۴۵۰ مریضوں کے ساتھ پھنسا ہوا تھا اور تقریباً ۱۰ہزار اندرونی طور پر بے گھر افراد ہسپتال کے اندر یا اس کے آس پاس پناہ کی تلاش میں تھے۔

کئی دنوں تک اسرائیلی فوج نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی ریسکیو ٹیم کو مریضوں اور عملے کو نکالنے، خوراک اور انتہائی ضروری، طبّی سامان اور ایندھن کی فراہمی نہیں کرنے دی۔ اس پورے عرصے میں، طبّی عملے نے مریضوں کے لیے غیر معمولی ہمت اور لگن کا مظاہرہ کیا۔ اسرائیلی حملوں کے باوجود انھیں زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ ڈاکٹر امیرہ السولی، جو ہسپتال کے صحن میں زخمیوں میں سے ایک کی مدد کے لیے اسرائیلی فائرنگ کی زد میں آئیں، اس کی ایک روشن مثال ہے۔ہسپتال کے احاطے میں پناہ لینے والے لاتعداد لوگ مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ ان میں سے کچھ افراد کے قتل کے واقعہ کی ریکارڈنگ کیمرے میں محفوظ ہے۔

۱۳ فروری کو، اسرائیلی فوج نے جمال ابو الا اولا نامی ایک نوجوان کو، جسے اسرائیلی فوجیوں نے حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا، ہسپتال بھیجا تاکہ وہاں پناہ لینے والے فلسطینیوں کو وہاں سے نکل جانے کے لیے کہے۔ سفید پی پی ای کا لباس پہنے اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، اس نے پیغام دیا اور پھر – جیسا کہ ہدایت کی گئی – ہسپتال کے گیٹ کی طرف بڑھا، لیکن گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کی موت کی دستاویزی فلم ہسپتال کے ایک صحافی نے بنائی اور اسے عوام کے لیے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا۔

کیا آپ تحقیقات کا حکم دیں گے جناب صدر؟ کیا آپ نصیر ہسپتال میں جمال اور دیگر بہت سے لوگوں کے قتل کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کریں گے یا پھر اسرائیلی فوج کے سفاکانہ مظالم کو فخر سے قبول کریں گے؟

۱۵ فروری کو، اسرائیلی فوج نے ہسپتال پر چھاپہ مارا، شدید بمباری کے دوران ہزاروں لوگوں کو نکال دیا اور سیکڑوں کو جبری طور پر غائب کر دیا، – جن میں سے کم از کم ۷۰ افرادطبّی شعبے سے تعلق رکھنے والے کارکن تھے۔ یہ غزہ میں شروع ہونے والے مظالم اور جنگی جرائم کا ایک نمونہ ہے۔ جب اسرائیلی فوج نے الشفاء ہسپتال پر چھاپہ مارا تو اس نے اس کے کچھ عملے کو حراست میں لے لیا۔ ان میں ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ بھی شامل ہیں، جو اسرائیلی جیل میں ہیں۔ اس وقت بہانہ یہ پیش کیا گیا اور جیساکہ اب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ حماس کے کمانڈ سینٹر کو تلاش کررہے تھے جو کہ ایک جھوٹی داستان ہے۔ جنابِ صدر! آپ نے اس جھوٹی داستان کو بآسانی قبول کرلیا۔

نصیر ہسپتال پر چھاپے کے دوران بجلی اور آکسیجن منقطع ہونے سے کم از کم آٹھ مریض جاں بحق ہو گئے۔ جب آخر کار ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کو ہسپتال میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تو اس کے عملے نے اسے ایک ’قتل گاہ‘ قرار دیا۔ سیکڑوں مریضوں کے انخلا کے بعد، طبّی عملہ کے تقریباً ۲۵؍ارکان ہسپتال میں بقیہ ۱۲۰ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہ گئے جس میں خوراک، پانی یا ادویات کی محفوظ فراہمی نہیں تھی۔

نصیر ہسپتال کے مریضوں میں میری رشتہ دار انشیرہ بھی تھی جس کے گردے فیل ہوگئے تھے اور اسے ہر ہفتے ڈائیلاسز کی ضرورت تھی۔ وہ خان یونس کے مشرق میں القرارہ کے علاقے میں رہتی تھی۔جب اسرائیلی فوج نے اس کے علاقے پر بمباری کی تو وہ بے گھر لوگوں کے لیے ایک کیمپ میں چلی گئی۔ جب اسرائیلی فوج نے وہاں بھی کیمپ پر حملہ کیا تو وہ ایک اور کیمپ میں چلی گئی۔ جب وہاں بھی بمباری کی گئی تو اس کے بچوں نے اسے نصیر ہسپتال کے قریب منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے جیسے ہسپتال میں حالات خراب ہوتے گئے، اس کے ڈائیلاسز ہر دوہفتوں میں ایک بار اور پھر ہرتین ہفتوں میں ایک بار کر دیئے گئے، جس کی وجہ سے اسے کافی تکلیف ہوئی۔ جب اسرائیلی فوج نے ہسپتال کا محاصرہ کیا تو انشیرہ کو وہاں سے جانے پر مجبور کیا گیا۔ پھر ہمارا اس سے اور اس کے بچوں سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں!

اسرائیل کی طرف سے غزہ میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو منظم طریقے سے تباہ کرنے کے بعد انشیرہ جیسے دائمی طور پر بیمار لوگوں کی اکثریت مناسب صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ ان کے لیے ’سزائے موت‘ کے مترادف ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو تباہ کرنا ایک جنگی جرم ہے، کیا واقعی آپ یہ بات جانتے ہیں جناب صدر؟

جنابِ صدر! غزہ میں ۲۳ لاکھ لوگ ایک حراستی کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ وہ بھوک اور بے دردی سے مارے جاتے ہیں۔ ان کے گھروں میں، سڑکوں پر، پانی لاتے ہوئے، خیموں میں سوتے ہوئے، امداد وصول کرتے ہوئے، اور کھانا پکانے کے دوران بھی بمباری کی جاتی ہے۔ غزہ میں لوگ مجھے کہتے ہیں کہ پینے کے لیے پانی کی قیمت خون سے چکائی جاتی ہے، روٹی کا ایک لقمہ خون میں ڈوبا ہوتا ہے، اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا مطلب خون کا دریا پار کرنا ہے۔

یہاں تک کہ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے کھانا تلاش کرنے کا عمل بھی آپ کی جان لے سکتا ہے، جیسا کہ ۲۸ فروری کو بہت سے والدین کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا۔ تقریباً ۱۱۲فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے اس وقت قتل کر دیا، جب وہ اپنے اور اپنے خاندانوں کو کھانا کھلانے کے لیے آٹا لینے کی کوشش کر رہے تھے۔

ان کی دردناک موت ایک تلخ حقیقت ہے۔ جیسا کہ انس جیسے چھوٹے بچوں، آیا جیسے بچے، مجدولین جیسی مائیں، اور فتیہ جیسے بوڑھے کی موت واقع ہوئی۔ یہ ان ۳۰ہزار سے زیادہ افراد میں شامل ہیں جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق موت کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہزاروں مزید ہلاک ہو چکے ہیں، لیکن ’لاپتا‘ کے طور پر درج ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں تقریباً ۱۳ہزار بچّے ہیں۔ بہت سے لوگ اب بھوک سے مر رہے ہیں۔ اسرائیل ایک گھنٹے میں چھ بچوں کو مار رہا ہے۔ ان بچوں میں سے ہر ایک کا ایک نام، ایک کہانی اور ایک خواب تھا، جو کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔ کیا غزہ کے بچے زندگی کے مستحق نہیں؟جناب صدر!

فلسطینیوں کا شمار مشرق وسطیٰ کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قوموں میں ہوتا ہے۔ آج سب سے ان کا سلگتا ہوا سوال ہے:’کیوں‘؟ فلسطینی عوام کو آپ کے اتحادیوں کے ہاتھوں نسل کشی کیوں برداشت کرنی پڑ رہی ہے، جو آپ کے ہتھیاروں اور پیسوں سے کی گئی ہے، جب کہ آپ جنگ بندی کے مطالبے سے انکار کر رہے ہیں؟ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کیوں جناب صدر!

صدربائیڈن! آپ غزہ میں نسل کشی کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟

(الجزیرہ انگلش،۳مارچ ۲۰۲۴ء)

بین الاقوامی برادری کئی مہینوں سے اسرائیل سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ غزہ کی شہری آبادی کے خلاف بھوک کا شکار کرنے والے ہتھیار کا استعمال بند کرے۔ مگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ فلسطینی عوام کو تکلیف پہنچا کر وہ حماس کے ساتھ ایک بہتر مذاکراتی معاہدہ کر سکتا ہے۔

درحقیقت اس طرح کی اسرائیلی کارروائی ایک جنگی جرم ہے، جس کا بدترین مظاہرہ جمعرات کو اس وقت ہوا، جب اسرائیلی فوجیوں نے غزہ شہر کے باہر امدادی ٹرکوں کے قافلے سے خوراک کے لیے بھاگنے والے بھوکے فلسطینیوں پر فائرنگ کرکے ان میں سے ۱۰۰ سے زائد افراد شہید کردیئے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون اور جنگی قوانین یہ واضح کرتے ہیں کہ جنگی ہتھیار کے طور پر شہریوں کو بھوکا مارنا ممنوع ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم کے قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جان بوجھ کر شہریوں کو ’’ان کی بقا کے لیے ناگزیر چیزوں سے محروم رکھنا، بشمول جان بوجھ کر امدادی سامان میں رکاوٹ ڈالنا‘‘ ایک جنگی جرم ہے‘‘۔ غزہ کے معاملے میں ارادے اور عمل دونوں کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیردفاع نے جنگ کے پہلے دن سے علانیہ کہا کہ کسی بھی قسم کی خوراک، پانی یا بجلی کو محصور علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

’’اسرائیل کا غزہ کی مسلسل ناکہ بندی، اور ۱۶ سال سے زیادہ مدت پر پھیلی بندش، شہری آبادی کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے، جو ایک جنگی جرم ہے۔ غزہ میں قابض طاقت کے طور پر، چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت اسرائیل کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ شہری آبادی کو خوراک اور طبّی سامان ملے‘‘، ہیومن رائٹس واچ نے دسمبر ۲۰۲۳ء میں یہ مطالبہ کیا تھا۔ تاہم، مارچ ۲۰۲۴ء کے آخر تک صورتِ حال بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی۔

اسرائیلیوں نے نہ صرف غزہ کے شمالی علاقوں میں، جہاں اسرائیل کے ساتھ سرحد ہے، خوراک اور طبّی امداد کے داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے، بلکہ انھوں نے مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر بھی ایسا کیا ہے۔ اسرائیل نے مصر سے امدادی سامان لے کر آنے والے ٹرکوں پر بمباری کی، تاکہ مصریوں کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ اسرائیلی کنٹرول کو قبول کریں کہ کب اور کیسے غزہ میں کسی بھی چیز کو عبور کرنے کی اجازت دی جائے۔ نتیجے کے طور پر، کھانے پینے کا سامان لے جانے والے ہر ٹرک کو سب سے پہلے اسرائیلی سرحدی مقام تک جانا پڑتا ہے، جہاں اس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اس جانچ پڑتال میں کافی وقت لگتا ہے اور پھر ان ٹرکوں کو، اسرائیل کے ساتھ، رفح راہداری کے ذریعے غزہ جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ خوراک کے ٹرکوں کی قلیل تعداد جو بالآخر رفح تک پہنچتی ہے قدرتی طور پر بھوک سے مرنے والی آبادی کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔

امدادی سامان پہنچانے میں مصروف کارکن بتاتے ہیں کہ بھوک سے مرنے والی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں خوراک کے ٹرک غزہ میں داخل کرنے کی ضرورت ہے۔ خوراک کی عدم دستیابی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ۳ کلو گندم کا تھیلا ۱۰۰ ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے جسے غزہ کا کوئی بھی خاندان برداشت نہیں کر سکتا۔

غزہ کے جنوب میں صورتِ حال اس وقت اور بھی سنگین ہوگئی، جب اسرائیلی فوج شمال سے جنوبی مرکز کی طرف منتقل ہو گئی۔ انھوں نے غزہ شہر پر قبضہ کر لیا، پھر فلسطینیوں کو جنوب میں رفح کی طرف دھکیلتے ہوئے خان یونس پر بھی قبضہ کرلیا، جہاں پہلے سے تقریباً ۱۵لاکھ لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر شمال کی طرف واپس نہیں جا سکتے، اور مصری کسی کو بھی اس خوف سے سینا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے کہ اسرائیل انھیں کبھی واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس طرح نسل کشی کرنا ایک اور جنگی جرم ہے۔

غزہ میں خوراک کی وافر مقدار میں عام داخلے کی اجازت دینے کے بجائے، بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی اسرائیلی کوشش نے بھوک سے مرتے فلسطینیوں کو ’مُردہ فلسطینیوں‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف جنوبی غزہ کی صورتِ حال تشویشناک ہے، تو وہیں شمال میں غذائی قلت کی صورتِ حال اس سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ اسرائیل مٹھی بھر نسل پرست یہودی اسرائیلی مظاہرین کی وجہ سے گندم کے ٹرکوں کو شمال میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کر رہا ہے۔ اگر وہ فلسطینی ہوتے تو یقیناً انھیں فوراً گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا۔ لیکن چونکہ وہ اسرائیلی ہیں، اس لیے فوج دباؤ کو برقرار رکھنے میں مستعد ہے۔ اس نے گندم کے ٹرکوں کو فلسطین میں داخلے کی بہت کم اجازت دی ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے اپنے اتحادی امریکا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ شمالی غزہ تک گندم کے ٹرک جانے کی اجازت دے گا۔

شمالی غزہ کی سنگین صورتِ حال نے اُردن کی فضائیہ کو روزانہ خوراک کے پیکٹ پھینکنے پر مجبور کیا ہے، حالانکہ قابض فوجیں بین الاقوامی قانون کے تحت لوگوں کی تمام انسانی ضروریات کو اپنے براہ راست فوجی کنٹرول میں فراہم کرنے کی پابند ہیں۔

جمعرات کے قتل عام میں اسرائیلیوں نے نہ صرف ان لوگوں پر گولیاں چلائیں جن سے انھیں کوئی خطرہ نہیں تھا،بلکہ یہ دعویٰ کیا کہ زیادہ تر مرنے والے کھانے کے لیے افراتفری اور بھگدڑ میں کچلے گئے۔ لیکن جیسا کہ صحافی گیڈون لیوی جیسے روشن خیال اسرائیلیوں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ اسرائیل حقیقی متاثر فلسطینیوں کو اپنی موت کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔

عالمی عدالت انصاف، امریکا سمیت اسرائیل کے مضبوط ترین اتحادیوں اور پوری دنیا سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیل بھوک کو بطور جنگی ہتھیار کے استعمال کرنا بند کرے۔ اس سفاکیت میں لازم ہے کہ دنیا اسرائیل پر پابندیاں لگانا شروع کر دے۔ کوئی بھی ملک جو اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے وہ بھی جنگی جرائم اور فلسطینی عوام کی نسل کشی میں ملوث ہے۔

 اب تک۳۲ہزار سے زیادہ فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں دو تہائی تعداد میں فلسطینی خواتین اور بچے شامل ہیں۔اسرائیل کو مغربی دنیا میں ہونے والے مظاہروں کی پروا ہے نہ ۵۷رکنی ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کا کوئی دبائو۔ وہ پوری طرح دولت و ثروت اور قوت و سلطنت کے حاملین سے بےنیاز ہے۔ اسی سبب رمضان المبارک کے دوران بھی اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کرنے سے انکار اور رفح پر جنگی یلغار کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ صرف یہی نہیں غزہ کے ۲۳لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے لیے رمضان المبارک میں بھی خوراک اور ادویات تک کی فراہمی میں حائل بے رحمانہ رکاوٹوں کو ہٹانے تک کے لیے تیار نہیں ہوا۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس حد تک کہہ کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ ’غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے،‘ مگر تاحال سلامتی کونسل کے ضمیر کی نیند پوری طرح سلامت ہے۔

نہ صرف یہ کہ غزہ میں اسرائیل نے اشیائے خورد و نوش کی ترسیل رمضان المبارک میں بھی روکے رکھی بلکہ فلسطینیوں کو سحر وافطار اور صلوٰۃ و تراویح کے دوران کسی بھی وقت بمباری کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح اسرائیلی میزائل اور ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ ٹینکوں سے گولہ باری اور سنائپرز کا استعمال بھی جاری رکھا اور غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بناکر رکھ دیا ہے۔ واضح طور پر اسرائیل کا اعلان ہے ’کر لو جو کرنا ہے، میں اسرائیل ہوں! جو چاہوں گا کروں گا‘۔اس بہیمانہ طرزِ ریاست نے پورے خطے ہی نہیں عرب و عجم میں پھیلی مسلم دُنیا کو ایک سانپ کی طرح سونگھ کر چھوڑ دیا ہے۔

بات غزہ میں ملبے کے ڈھیراور چند بچے کھچے بے چراغ گھروں کی ہو رہی تھی۔ یہ درمیان میں ’راکھ کے پرانے چلے آ رہے ڈھیر‘ کا ذکر آ گیا۔ واپس اسی بےچراغ اور تاراج غزہ کی گلیوں کی طرف چلتے ہیں جہاں موت و حیات کی کش مکش جاری ہے، مگر اہل غزہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ہر قیمت اور ہر صورت زندہ رہیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ چھٹے ماہ میں داخل اسرائیلی جنگ نہ ان کے عزم کو کمزور کر سکی ہے اور نہ اُمید کو مایوسی میں بدل سکی ہے۔اس عزم اور امید کا تازہ اظہار رمضان المبارک کی آمد کے موقعے پر دیکھنے میں آیا۔ اگرچہ غزہ اور اس سے جڑے فلسطینی علاقوں، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس بشمول مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی جبر کے سائے گہرے اور سنگین پہرے ہیں، اس کے باوجود غزہ میں گھروں کے ملبے پر بھی اہل غزہ نے علامتی طور پر ہی سہی رمضان المبارک کا استقبال کیا۔

روایتی انداز میں غزہ کے فلسطینیوں نے رمضان کی آمد پر اپنے اپنے گھروں کے ملبے کے ڈھیروں پر بھی سجاوٹی جھنڈیاں لگائیں اور چراغاں کرنے کی کوشش کی۔ بلاشبہہ یہ جھنڈیاں اور یہ چراغاں وسیع پیمانے پر نہیں، مگر یہ ان کی اللّٰہ کی رحمت و نصرت اور برکت سے اُمید کا غیر معمولی اظہار ضرور ہے۔

ایک ایسا اظہار جس سے صاف لگ رہا ہے کہ جس طرح فلسطینی روایتی طور پر اپنی اگلی نسلوں کو اپنے ’حق وطن واپسی‘ کی علامت کے طور پر ’کنجیاں‘ منتقل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس رمضان المبارک کی آمد کے موقعے پر بھی اپنے پُرجوش جذبے کا حتی المقدور اور روایتی اظہار کرکے انھوں نے اپنی اگلی نسلوں کو رحمتِ خداوندی سے جڑے رہنے کا سبق اور بےرحم دنیا کو پیغام دیا ہے: ’مایوس نہیں، پُرامید اور پرعزم ہیں ہم‘۔

غزہ کے فلسطینی بدترین جنگ میں اپنے بہت سے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ چھتوں سے محروم ہو کر بے گھر ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ کھانے پینے کی بنیادی اشیا تک سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔ بزبان حال کہہ رہے ہیں کہ امید اور حوصلے کا دامن چھوڑ دینا ان کا شعار نہیں ہے۔

ان فلسطینیوں کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ عالم اسلام کے قبلہ اول کے امین اور متولی ہونے کے ناتے وہ مسجد اقصیٰ کے لیے بھی تمام تر مشکلات کے باوجود بلا کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ آج بھی ارضِ فلسطین کو معراج کی سرزمین کے طور پر عقیدت و محبت سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے اس کے تحفظ اور مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے اپنی زندگیوں کی ہی نہیں بچوں کی جانیں تک قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

مسجد اقصیٰ کے گرد لگے اسرائیلی فوجی پہروں کو بار بار توڑتے ہیں۔ خصوصاً رمضان المبارک میں یہاں جوق در جوق پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ خود آتے ہیں بلکہ اپنے اہل خانہ کو ساتھ لاتے ہیں۔ فلسطینی خواتین اس سلسلے میں مردوں سے کسی بھی طرح پیچھے رہنے والی نہیں ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے غزہ کی چھٹے ماہ میں داخل اسرائیلی جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں جانیں پیش کر کے بھی ثابت کیا ہے۔

یہ فلسطینی خواتین ’المرابطات‘ کی صورت رمضان المبارک میں مسجد اقصیٰ آ کر تلاوت و نوافل کا اہتمام کرتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ افطاری کے اوقات میں حرمِ اقصیٰ میں موجود نمازیوں کے لیے سامان افطار کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔گویا تمام تر اسرائیلی پابندیوں کے باوجود رمضان المبارک میں بطور خاص مسجد اقصیٰ کا آنگن رحمتوں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ فلسطینیوں کے پورے پورے گھرانے رحمت و برکت اور اسرائیلی عذاب سے نجات کی تمناؤں کے ساتھ اپنی جانوں پر کھیل کر یہاں پہنچ کر تلاوت و تراویح اور اعتکاف کا اہتمام کرتے ہیں۔

فلسطینی عوام اپنی اس روایت کو اس رمضان المبارک میں بھی تمام تر اسرائیلی رکاوٹوں اور جنگی قہر سامانیوں کے باوجود جاری رکھنے کے لیے تیار رہے۔ وہ مسجد اقصیٰ جسے اسرائیل کھنڈر میں تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے، آباد رکھنے کی کوشش میں رہتے ہیں، اس پر چراغاں کا اہتمام کرتے ہیں۔

اسرائیل ایک عرصے سے مسجد اقصیٰ میں ۴۰ سال سے کم عمر کے فلسطینیوں کے داخل ہونے پر پابندی لگائے ہوئے ہے۔ بڑی عمر کے لوگوں کو اجازت بھی انتہائی محدود تعداد میں دی جاتی ہے۔ جگہ جگہ ناکے، چوکیاں، جامہ تلاشیاں اور پہرے اسرائیلی ریاست کی سالہا سال سے امتیازی شناخت بن چکے ہیں تاکہ مسلمان مسجد اقصیٰ میں نہ جا سکیں۔

رمضان المبارک سے پہلے بھی یہ پابندیاں اور رکاوٹیں پورا سال موجود رہتی ہیں، لیکن رمضان المبارک میں مزید سخت کر دی جاتی ہیں۔ یہودی بستیوں میں گھرے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیلی فوج، پولیس اور یہودی آبادکاروں کو مسجد اقصیٰ کی طرف آنے والے مسلمانوں کو روکنے کے لیے بےرحمی سے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس سال نتن یاہو کے انتہا پسند اتحادی بن گویر نے بیان دیا ہے کہ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ جانے کی اجازت دینے کا رسک نہیں لے سکتے۔لیکن حقائق نے بتایا یہ سوچ غلط ہے کہ اہل فلسطین بھی ہماری طرح کے دیگر مسلمانوں کی طرح تذبذب میں پڑ کر رُک جائیں گے، چپ ہو کر بیٹھ جائیں گے، خوفزدہ ہو جائیں گے یا سمجھوتہ کر لیں گے۔ صیہونیوں کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا، اور مسلمان مردوزن پروانوں کی طرح، مسجد اقصیٰ کی طرف کھچے چلے آئے۔

غزہ میں اتنی وسیع پیمانے پر تباہی اور بڑے پیمانے پر اموات کے بعد بھی اگر فلسطینی بھائی رمضان المبارک کی آمد پر اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر جھنڈیاں لگاتے اور چراغاں کرتے ہیں تو کیونکر ممکن ہے کہ مسجد اقصیٰ کے لیے اسرائیلی ایجنڈے کی راہ ہموار کرنے میں وہ بھی دوسروں کی طرح سہولت کار اور معاون بننے کے الزام کی کالک اپنے منہ پر ملیں؟ رمضان المبارک تو رحمت، برکت و نصرت کا مہینہ ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا تھا۔ اس میں تو اللّٰہ کے فرشتوں اور روح الامین کی آمد ہوتی ہے۔ فرشتے نصرت لے لے کر آتے ہیں، اس لیے کوئی تیل بھیجے نہ بھیجے، وہ تو اپنے خون سے بھی مسجد اقصیٰ کے چراغوں کو روشن رکھیں گے۔

خواہ ان کے سحر وافطار کے دستر خوان، ان کے اڑوس پڑوس اور دور و نزدیک کے آسودہ حال مسلمانوں کے دستر خوان انواع واقسام کے کھانوں سے محروم رہیں، کہ وہ اب پرندوں کی خوراک اور جانوروں کے چارے یا درختوں کے پتوں پر گزارا کرنے کے عادی ہورہے ہیں۔

جنگ بندی کا نہ ہونا اور ناکہ بندیوں کا ہونا، اب ان کے لیے معنی نہیں رکھتا۔ انھیں یقین کی دولت مل چکی ہے کہ اصل روشنی تو خونِ جگر سے جلائے جانے والے چراغوں سے ہوتی ہے، کہ جنھیں حق نے دیئے ہیں اندازِ خسروانہ!

بھارت میں عام انتخابات ۱۹؍اپریل سے شروع ہوں گے اور سات مرحلوں میں مکمل ہونے کے بعد ۴جون کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ حکمران پارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج جنوبی ہند میں اپنی پوزیشن محفوظ بنانا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف ’شمالی انڈیا‘ کا لیڈر ہونے کا داغ مٹانا چاہتے ہیں۔ پھر یہ کہ جنوبی ہند بنیادی طور پر انڈیا کی معاشی قوت کا مرکز ہے۔ اگرچہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہروقت ہی انتخابی مہم کی حالت میں رہتی ہے، مگر اس بار ۷مارچ کو سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریند را مودی نے یہ عندیہ دے دیا کہ اس بار ہندستان میں ووٹروں کو لبھانے کے لیے ’کشمیر کارڈ‘ کا بھرپور استعمال کیا جائے گا۔ یاد رہے ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں پاکستان کو سبق سکھانے کو انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ ماضی میں بھی بھارت کے وزرائے اعظم سرینگر آتے رہے ہیں۔ مودی کے پیش رو من موہن سنگھ نے اپنے دس سالہ دو رِ اقتدار میں چار بار سرینگر کا دورہ کیا۔

مودی نے اس سے قبل ۲۰۱۵ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید، جن کی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ انھوں نے ریاست میں مخلوط حکومت بنائی تھی، کے ہمراہ سرینگر میں عوامی ریلی سے خطاب کیا تھا۔مگر اب کی بار خصوصیت یہ تھی، کہ اس خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ان کا سرینگر کا پہلا دورہ تھا۔ پھر یہ خالصتاً بی جے پی کی اپنی ریلی تھی۔

بھارت کی ملک گیر پارٹیوں میں ماضی میں اس طرح کی ریلیاں صرف کانگریس پارٹی ہی وزیراعظم اندرا گاندھی کے لیے اپنے بل بوتے پر کشمیر میں منعقد کراتی تھی۔ ان کے بعد راجیو گاندھی سے لے کر ڈاکٹر من موہن سنگھ تک ، جن وزرائے اعظم نے سرینگر میں کسی ریلی سے خطاب کیا ہے، ان کومقامی پارٹیوں: نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کے لیے منعقد کیا تھا۔ اندرا گاندھی نے ہمارے قصبے سوپور میں بھی دو بارعوامی جلسے سے خطاب کیا ہے۔۱۹۸۳ء میں کانگریس نے جب ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے خلاف انتخابات میں پوری طاقت جھونک دی تھی، تو اس انتخابی مہم کی کمان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خود ہی سنبھالی تھی، اور ایک کھلی جیپ میں ہمارے گھر کے سامنے سے ہی گذر کر جلسہ گاہ میں پہنچی تھیں۔

نریندرا مودی کی ریلی کے بارے جموں و کشمیر روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ایک عہدے دار نے اعتراف کیا کہ ’’شرکا کو لے جانے کے لیے ۹۰۰ سرکاری بسوں کا انتظام کیا گیا تھا‘‘۔ اس سے قبل، یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ ’’تقریباً ۷ہزار سرکاری ملازمین، اساتذہ اور جموں اینڈ کشمیر کے بینک کے عملے کو ریلی میں لازمی شرکت کا حکم دیا گیا تھا۔ انھیں فجر سے پہلے مختلف مخصوص جگہوں پر جمع ہونے کو کہا گیا تھا، جہاں سے ان کو بسوں میں لاد کر اسٹیڈیم پہنچایا گیا تھا۔ ان میں سے ۱۴۵بسیں بارہمولہ ضلع سے لوگوں کو جلسہ گاہ تک پہنچانے کے لیے وقف کی گئی تھیں۔

جس طرح ماضی میں اندرا گاندھی کو یہ شوق چرایا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقہ وادیٔ کشمیر سے سیٹیں جیت کر ایک طرح کا پیغام دیا جائے، اسی راستے پر مودی چل رہے ہیں۔ وادیٔ کشمیر میں جگہ بنانے کے لیے کانگریس بھی اپنی بھر پور طاقت جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ کی سیٹ حاصل کرنے کے لیے لگاتی تھی، بی جے پی بھی اسی سیٹ کو حاصل کرنے کے لیےپر تول رہی ہے۔

۱۹۸۷ء کے دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد یہاں کے عوام کا جمہوری نظام پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے اور ووٹر ٹرن آوٹ عدم دلچسپی اور آزادی پسند پارٹیوں کے بائیکاٹ کال کی وجہ سے  بہت ہی کم ہوتا آیا ہے ۔ مگر پھر بھی ماضی میں حکومتی عہدوں پر جو افراد براجمان ہوتے تھے، وہ کسی حد تک ان کے مسائل سے آگاہ ہوتے تھے۔ لیکن ۲۰۱۸ءکے بعد سے یعنی پچھلے سات سال سے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو مرکزی بیور کریسی چلا رہی ہے۔ اس وقت ۲۰ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں میں سے صرف آٹھ ہی مقامی ہیں۔ خطے کے ۱۱۲؍اعلیٰ پولیس افسران میں صرف ۲۴مقامی ہیں۔

جموں و کشمیر کی چھ پارلیمانی نشستوں میں تین وادیٔ کشمیر ، دو جموں اور ایک لداخ کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ چونکہ اب لداخ کو علیحدہ کر دیا گیا ہے، اس لیے یہ سیٹیں اب پانچ ہی رہ گئی ہیں۔ ۲۰۱۸ء میںہونے والے پنچایتی انتخابات کا نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ کیونکہ وہ وزیر اعظم سے دفعہ۳۷۰ ، اور ۳۵-اے کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی چاہتے تھے۔ اس وجہ سے بی جے پی نے غیر متعلقہ افراد کو کھڑا کرکے اور ان کو جتوا کر سیاسی کارکنوں کی ایک نئی کھیپ تیار کرلی،  جو اب ان کو چیلنج دے رہے ہیں، گو کہ ان میںسے کئی تو مزاحیہ کردار لگتے ہیں۔

اس وقت دو بڑی مقامی پارٹیوں کے علاوہ سید الطاف بخاری کی ’اپنی پارٹی‘، غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس بھی میدان میں ہے۔ سابق ممبر اسمبلی انجینئر رشید، جو پچھلے پانچ برسوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں ہیں، کی عوامی اتحاد پارٹی بھی انتخابات میں اُترنے کا عزم رکھتی ہے۔ گویا بی جے پی سمیت سات پارٹیاں انتخابات میں قسمت آزمائی کریں گی۔

چونکہ بی جے پی جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ سیٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہے، اس لیے حدبندی کمیشن کے ذریعے اس کا حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں اب جموں ڈویژن کے دو اضلاع یعنی راجوری اور پونچھ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ دونوں اضلاع اس سے قبل جموں،توی سیٹ کا حصہ ہوتے تھے۔ ریاسی ضلع کو ادھم پور سیٹ سے الگ کر کے جموں حلقے میں شامل کیا گیا ہے۔

اسی طرح شوپیاں کو جو جنوبی کشمیر کے بالکل وسط میں ہے، سرینگر کی سیٹ کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ اس کا سرینگر حلقہ کے ساتھ زمینی رابطہ ہی نہیں ہے۔ اننت ناگ کو راجوری پونچھ سے ملانے کا واحد ذریعہ شوپیاں کے راستے مغل روڈ ہے اور یہ راستہ سردیوں میں بند رہتا ہے ۔ کسی بھی امیدوار کو اس انتخابی حلقہ کے پیر پنچال کے دوسری طرف کے علاقوں کی طرف انتخابی مہم کے لیے جانا ہو، تو پہلے ڈوڈہ، پھر ادھم پور او ر پھر جموں یعنی تین اضلاع کو عبور کرکے اپنے حلقہ کے دوسری طرف پہنچ سکتا ہے۔

 جنوبی کشمیر واحد ایسا خطہ ہے، جو خالصتاً کشمیری نژاد نسل پر مشتمل تھا۔ ورنہ چاہے وسطی کشمیر ہو یا شمالی کشمیر ، اس میں دیگر نسل کے افراد بھی آباد ہیں۔ اب پونچھ ، راجوری کو شامل کرکے اس میں گوجر اور پہاڑی آبادی کو شامل کیا گیا ہے، تاکہ کشمیری آبادی کے اثر و رسوخ پر روک لگائی جاسکے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب اس حلقے کی کُل ۲۶لاکھ ۳۱ہزار کی آبادی میں ۱۴لاکھ ۸۰ہزار کشمیری یعنی ۵۶ء۲۵فی صد، گوجرو بکروال ۸۱ فی صد، پہاڑی ۸۴ فی صد، ڈوگرہ۴۷ فی صد اور پنجابی ۴۹ فی صد ہوں گے۔

بی جے پی کو یقین ہے کہ حال ہی میں پہاڑی آبادی کو شیڈول ٹرائب (ST) کی فہرست میںشامل کرنے سے یہ آبادی یکمشت اس کے امیدوار کو ووٹ دے گی۔ پہلے یہ سہولت صرف گوجربکروال کمیونٹی کو ہی مہیا تھی، جو پس ماندہ قوم تصور کی جاتی تھی۔ اس سہولت کی وجہ سے پہاڑی کمیونٹی ، جو جموں و کشمیر کی آبادی کا ۷فی صد یعنی کل ۷ء۹ لاکھ ہیں، کے لیے اسمبلی، ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نشستیں مخصوص ہوں گی۔ مگر اس کی وجہ سے گوجر بکروال کمیونٹی ناراض ہے، کیونکہ ابھی تک وہ اکیلے ہی ان نشستوں کی دعوےدار تھی۔

مگر اس سب کے باوجود اور جموں و کشمیر میں ’امن و امان کی بحالی‘ کے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود اسمبلی کے انتخابات نہیں ہوں گے۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کا کہنا ہے: ’’اگرچہ سب سیاسی پارٹیوں نے لوک سبھا کے ساتھ ہی یہاں کی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی وکالت کی تھی، مگر سیکورٹی اداروں نے اس کی مخالفت کی ہے‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ ’’نئی حدبندی کے مطابق جموں و کشمیر  کی ۹۰نشستوں کے لیے تقریباً ایک ہزار اُمیدوار ہوں گے، اور سیکورٹی فورسز کی اضافی ۵۰۰ کمپنیوں کی ضرورت ہوگی‘‘۔

کشمیر میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ سبھی روایتی سیاسی قوتوں کی ایک طرح سے زبان بندی کرکے ان کو بے وزن کر دیا گیا ہے اور کشمیر میں واقعی قبرستان کی سی خاموشی کا ماحول مسلط کردیا گیا ہے۔ اگر اطمینان کی خاموشی درکار ہے، تو اس کے لیے سیاسی عمل کے ساتھ سیاسی زمین بھی واپس دینی ہوگی، اور مسئلہ کے دیرپا حل کے لیے بین الاقوامی کوششیںبھی کرنا پڑیں گی۔

ذرائع ابلاغ اور اہم ٹی وی چینلوں پر تقریباً مکمل کنٹرول اورسوشل میڈیا پلیٹ فارم میں زبردست دراندازی کے بعد اب ’ہندوتوا تحریک‘ ہندستانی مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اپنے نسل پرستانہ سیاسی مقاصد کے لیے ہندستانی فلم اور سنیما کو استعمال کر رہی ہے۔ چنانچہ گذشتہ چند برسوں کے دوران مسلمانوں کو بدنام کرنے کی غرض سے متعدد فلمیں منظر عام پر آئی ہیں۔ اس نئی سرگرمی کے پس پشت یقینی بات ہے کہ ہندستان کے موجودہ حکام ہی ہیں، اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ حکمران پارٹی کے لیڈران اور ان کی ریاستی حکومتیں بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ان کوششوں کی تائید کر رہی ہیں۔ ان فلموں کی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔ان فلموں کے مفت خصوصی شو چلانے کا اہتمام  کیا جاتا ہے، اور جن ریاستوں میں بی جے پی حاکم ہے وہاں تفریحی (انٹرٹینمنٹ) ٹیکس بھی معاف کیا جا رہا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں منظر عام پر آنے والی فلموں میں یہ شامل ہیں:

  • کشمیر فائلز:اس سلسلے کی ایک اہم فلم ’کشمیر فائلز‘ ہے۔ اس فلم میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’کشمیر کے مسلمانوں نے ہندوؤں پر مظالم ڈھائے اور انھیں کشمیر سے نکل جانے پر مجبور کیا‘۔ فلم کا اشارہ اس واقعے کی طرف ہے جس میں مبینہ طور پر ۱۹۹۰ء میں پنڈتوں کی ایک تعداد کشمیر سے اس وقت نقل مکانی کر گئی تھی، جب کہ وہاں مسلح تحریک چل رہی تھی۔ اس مسلح تحریک میں بعض ہندو جانیں بھی گئی تھیں ، لیکن اس دوران مسلح علیحدگی پسندوں یا فوج کی گولیوں سے جن مسلمانوں کی جانیں گئی تھیں، وہ ہندوؤں کو پہنچنے والے نقصانات سے کئی گنا زیادہ تھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وادیٔ کشمیر سے اچانک ان ہندوؤں کی نقل مکانی کا اصل سبب آج تک متعین کرنے کے لیے کوئی تحقیقاتی کارروائی نہیں کی گئی، حالانکہ اس کے لیے کشمیر کی مسلم تنظیموں نے بارہا مطالبہ کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں کشمیر کے گورنر جگ موہن نے، جو کہ مسلم دشمنی کے لیے معروف تھا، وادیٔ کشمیر کے ہندوؤں سے کہا کہ وہ چند ہفتوں کے لیے کشمیر سے چلے جائیں تاکہ مسلمانوں کو سبق سکھایا جا سکے اور کشمیر کی سڑکوں پر آزادی کے ساتھ گولیاں چلائی جاسکیں۔  پھر وادیٔ کشمیر سے ہندوؤں کے نکل جانے کے فوراً بعد جگ موہن نے یہی کیا بھی۔ اس نے ایک جنازے پر گولیاں برسانے کا حکم بھی دیا ، جس کے نتیجے میں چند منٹوں کے اندر ہی ۴۰ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ یہ وہی گورنر ہے جس نے ان ہندوؤں کو ہندو اکثریت والے علاقے ’جموں‘ میں منتقل کرنے کے لیے آدھی رات کو فوجی گاڑیاں فراہم کی تھیں۔ جموں میں ان ہندوؤں کے لیے گھر بنائے گئے اور انھیں وظیفے، ملازمتیں اور دوسری بہت سی سہولتیں آج بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مگر ایسی سہولتیں نقل مکانی کرنےو الے متاثر مسلمانوں کو کبھی نہیں فراہم کی گئیں۔

حکومتِ کشمیر یا حکومتِ ہند نے کشمیر سے ہندوؤں کی نقل مکانی کے اصل حقائق کا پتہ لگانے کے لیے آج تک عدالتی کمیشن مقرر نہیں کیا۔ لیکن یہ چیز بھی انتہا پسند ہندوؤں کو مسلمانوں پر یہ الزام عائد کرنے سے نہیں روک پائی کہ انھوں نے ہی ہندؤوں کو کشمیر سے نکالا ہے ، جب کہ کشمیر کے مسلمان تو خود ا ٓج تک مغلوب و شکست خوردہ ہیں، اور اس فوج کا قہر برداشت کر رہے ہیں جو کشمیر کے اندر بڑی تعداد میں موجود ہے ۔ کشمیریوں کے خلاف فوج کی ظلم وزیادتی کو قانون کی حمایت حاصل ہے۔فلم ’کشمیر فائلز‘ انھی جھوٹی باتوں کو دُہراتی ہے، تاکہ عام ہندوؤں میں یہ پیغام پہنچایا جا سکے کہ ’’ہندستان کے واحد مسلم اکثریتی خطے کشمیر میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا ہے اور جہاں بھی یہ اکثریت میں ہوتے ہیں یہی کرتے ہیں‘‘۔

  • کیرالا اسٹوری :فلم ’کشمیر فائلز‘ کے بعد ’کیرالا اسٹوری‘ فلم آئی۔ اس فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’۳۲ ہزار ہندو لڑکیوں کو لالچ دے کر مسلمان بنا لیا گیا اور پھر انھیں شام میں داعش کے کیمپوں میں بھیج دیا گیا‘‘۔ یہ ایک حددرجہ بے بنیاد اور گھنائونا جھوٹ ہے ۔ اس لیے کہ ا ن تمام برسوں کے دوران بھارتی حکومت نے جن ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے داعش کے کیمپ میں شامل ہونے کے لیے ملک کو خیر باد کہا ہے، ان کی تعداد ایک سو کے اندر ہی ہے، اور ان میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔

ہم نے ذاتی طور پر ہندستان کی وزارت داخلہ سے (ہندستان کے آر ٹی آئی قانون کے تحت) داعش کیمپ میں شامل ہونے والی تعداد کے متعلق معلوم کیا تو وزارت داخلہ کا جواب یہ تھا کہ اس کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہے۔ پھر جب ہم نے ریاست کیرالا کے ڈائرکٹر جنرل پولیس سے بھی یہی سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ ’یہ خفیہ معلومات ہیں، انھیں بیان نہیں کیا جا سکتا‘۔ پھر فلم بنانے والوں کو یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں؟ اس پر ہنگامہ ہوا تو بعض مسلمان عدالت چلے گئے۔ نتیجہ یہ کہ فلم پروڈیوسر بھی پلٹ گئے اور کہنے لگے کہ ’’تین ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد داعش کیمپ میں شامل ہو گئی تھیں‘‘۔ لیکن وہ لڑکیاں کون تھیں،ان کی متعین نشان دہی آج تک نہیں کی گئی۔

گذشتہ نومبر۲۰۲۳ء کے دوران جب ہندستان کے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ’دی کیرالا اسٹوری‘ کو پیش کیا گیا تو حیرت کی بات یہ ہوئی کہ سلیکشن کمیٹی کے صدر اسرائیلی فلم پروڈیوسر نداف لبید نے سلیکشن کمیٹی کے ارکان کی طرف سے یہ بیان دیا کہ یہ ’’ایک پروپیگنڈا فلم ، معیار سے فروتر اور بے ہودہ فلم ہے اور فیسٹیول میں پیش کیے جانے کے لائق نہیں ہے‘‘۔ مذکورہ بالا اسرائیلی پروڈیوسر کو ہندستان سے نکالنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ اس بیان کے خلاف فوراً بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ، کیوں کہ انتہاپسند نسل پرست ہندوؤں کے نزدیک اسرائیل تو ہندستان کا جگری دوست سمجھا جاتا ہے۔ آخرکار مجبور ہو کرہندستان میں اسرائیل کے سفیر کو معذرت کرنا پڑی کہ’’وہ بیان اسرائیلی فلم پروڈیوسر کی ذاتی رائے پر مبنی ہے‘‘۔

جھوٹ کا پردہ فاش ہوجانے کے باوجود یہ فلم ہندستان بھر کے سنیما ہالوں میں دکھائی جارہی ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کر رہی ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے لیڈر، جن میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں، نے اس فلم کی تعریف کی اور بی جے پی کے لیڈروں نے بعض مقامات پر اس فلم کو مفت میں دکھانے کا بندوبست بھی کیا، بلکہ سینما کے ٹکٹ خرید کر انھیں ہندوؤں میں تقسیم کیا تاکہ وہ فلم دیکھ سکیں۔

  • ۷۲ حوریں :اسی سلسلے کی تیسری فلم ’۷۲ حوریں‘ ہیں۔ اس فلم کا پلاٹ یہ ہے کہ مسلمان دہشت گردی کرتے ہیں ۔ انھیں شہادت سے پیار ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مذہب کہتا ہے کہ شہادت کی موت مرنے والے کو جنت میں ۷۲ حوریں ملیں گی۔

ان فلموں کے پرڈیوسروں کا کہنا ہے کہ ’’یہ آرٹ فلمیں ہیں، جن کی بنیاد ایسے قصے کہانیاں ہیں جن کا درست ہونا ضروری نہیں ہے‘‘۔ تاہم، یہ بات تو طے شدہ ہے کہ سادہ لوح ہندو اِن فلموں کو دیکھ کر یہ تاثر لیں گے کہ اسلام ظلم و تشدد اور دہشت گردی کا مذہب ہے اور اس مذہب پر ایمان رکھنے والے دہشت گرد ہوتے ہیں جو دہشت گردی کے ذریعے سے اپنے مذہب پر عامل ہیں۔

  • ہندوؤں کو اُکسانے والی فلم :اس سلسلے کی چوتھی فلم کچھ عرصہ پہلے ’ہندوتوا تحریک‘ کے لیڈران کی تائید و حمایت کے ساتھ منظر عام پر آئی ہے ۔ اس فلم کا نام ’’آدی پُرُش‘ ہے۔ یہ فلم راماین کی دیومالائی کہانی پیش کرتی ہے جس میں ہندوؤں کے افسانوی دیوتا ’رام‘ ، ان کی بیوی ’سیتا‘ اور ان دونوں کے وفادار ساتھی ’بجرنگ‘ (بندر) کی زندگی کو فلمایا گیا ہے۔

فلم کے اندر ’رام‘ کو ایک جنگ جُو اور انتہاپسند کے رُوپ میں دکھایا گیا ہے، جو ان کی اس تصویر سے مختلف ہے جس میں انھیں ایک نرم خُو،فیاض اور انسانیت نواز شخصیت کے طور پر دکھایا جاتا ہے، اور ہندو آج بھی انھیں انسانیت کے اعلیٰ نمونے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن ’ہندوتوا‘ کی سیاسی تحریک افسانوی کرداروں کے ہاتھوں میں اسلحہ دے کر ہندو نوجوانوں کو مشتعل کرنا اور انھیں انتہا پسندی و دہشت گردی پر اُبھارنا چاہتی ہے۔اس فلم کی وجہ سے ہند کے اندر ایک بحران کی صورت نے جنم لیا ۔ حزب مخالف کے لیڈروں نے فلم اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر شدید تنقید شروع کردی، کیوں کہ فلم میں ہندو دھرم کی مذہبی علامتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔نیپال کے اندر تو معاملہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ اس نے اپنی سرزمین پر اس فلم کی نمایش کو ممنوع کر دیا۔

  • دوسری فلمیں: مذکورہ بالا فلموں کے علاوہ بھی اسی قسم کی بہت ساری فلمیں پچھلے چند برسوں میں ’ہندوتوا‘ کے پروپیگنڈا کے طور پر نمایش کے لیے مارکیٹ میں پیش کی چکی ہیں،جن کے ذریعے جھوٹ یا مسخ شدہ سچ کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے تاکہ سیاسی پولرائزیشن ہو سکے اور اس کا فائدہ موجودہ حکمران پارٹی (بی جے پی) کو مل سکے۔ ان میں یہ فلمیں شامل ہیں: ’ہر ہر مہادیو‘ (۲۰۲۲)، ’پانی پت‘ (۲۰۱۹)، ’ہندوتوا‘ (۲۰۲۲)، ’مجیب‘ (۲۰۲۳)، ’تنہا جی‘ (۲۰۲۰)، ’باجی راؤ مستانی‘ (۲۰۱۵)، ’      پدماوت‘ (۲۰۱۸)، ’سوریا ونشی‘ (۲۰۲۱)، ’لپسٹک انڈر مائی برقعہ‘ (۲۰۱۶)، ’رام سیتو‘ (۲۰۱۹)، ’دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ (۲۰۱۹)،’ٹھاکرے‘ (۲۰۱۹)، ’یوری‘ (۲۰۱۹)، ’نریندر مودی‘ (۲۰۱۹)، ’رومیو اکبر و الٹر‘ (۲۰۱۹)، ’سمراٹ پرتھوی راج‘ (۲۰۲۲)، ’کیسری‘ (۲۰۱۹)، ’غنڈے‘ (۲۰۱۴)، ’بیل باٹم‘ (۲۰۲۱)، ’کمانڈو ۳ ‘(۲۰۱۹)، ’فراز‘ (۲۰۲۲)، ’مشن مجنوں‘ (۲۰۲۳) وغیرہ۔ ان سب کا مقصد ایک نئی خود ساختہ تاریخ بنانا، اشتعال پھیلانا اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔

کچھ اور فلمیں اگلے چند ہفتوں میں ریلیز ہونے والی ہیں تاکہ آنے والے انتخابات میں حکمران پارٹی کو فائدہ پہنچ سکے۔ ان آنے والی فلموں میں چند یہ ہیں: ’فائٹر‘ (پلواما کے بارے میں)، ’آرٹیکل ۳۷۰ ‘(کشمیر کی خود مختاری کے بارے میں)، ’نکسل اسٹوری، جے این یو‘ (دہلی کی لیفٹ نوازیونی ورسٹی کے بارے میں)، ’سابر متی رپورٹ‘ (گودھرا ٹرین کے حادثے کے بارے میں جس کو گجرات فسادات ۲۰۰۲ بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا)، ’رضاکار‘ (حیدر آباد دکن کی ملیشیا کے بارے میں)، ’گاندھی گوڈسے، میں اٹل ہوں‘ (اٹل بیہاری کے بارے میں)، ’سواتنتر ویر ساورکر‘ (ہندوتوا کے نظریہ ساز کے بارے میں)۔ یہ سب فلمیں واقعات کو ایسا رُخ دیں گی، جو ’ہندوتوا‘ کے نظریے سے میل کھاتا ہے تاکہ الیکشن میں بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکے ۔

  • مشکوک فنڈنگ :آخر میں ایک سوال باقی رہ جاتا ہےکہ یہ اور اس طرح کی مزید فلمیں جو آچکی ہیں یا عن قریب منظر عام پر آنے والی ہیں ، ان کی فنڈنگ اور سرمایہ کاری کون کرتاہے؟ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ فلم سازی مالی اعتبار سے بڑے پیمانے پر اخراجات کا عمل ہے۔ پھر ممبئی فلم انڈسٹری کی عام فلموں کے برعکس اس قسم کی فلموں کے بارے میں یہ توقع بھی نہیں ہوتی کہ واقعی بڑی نفع بخش ہوں گی۔ اس لیے لازمی طور پر کچھ خفیہ ہاتھ ہیں، جو ان فلموں کی فنڈنگ اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان سے سیاسی فائدے حاصل کیے جائیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی ، جو کہ دنیا کی سب سے مال دار سیاسی جماعت ہے یا اس جماعت کی حمایت کرنےو الے تاجر اوربزنس مین وہی لوگ ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس پروپیگنڈا مہم کی فنڈنگ کرتے ہیں، تاکہ حکمران جماعت کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے ان فلموں سے سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے ۔موجودہ حکومت ِ ہند کی پالیسی مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مسلسل ہوا دینے کی ہے، تاکہ شدید قسم کی گروہی پولرائزیشن ہو اور انتخابات میں وہ اس کا فائدہ اُٹھا سکے۔ ’اسلامک کونسل آف وکٹوریہ‘ آسٹریلیا (ICV)کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۹ء- ۲۰۲۱ء کے دوران دنیا بھر میں مسلم مخالف (Islamophobic)سوشل میڈیا پوسٹ سب سے زیادہ ہندستان سے نکلے، جب کہ دُنیا بھر سے مسلم مخالف سوشل میڈیا مہم کا ۸۵ فی صد زہریلا لوازمہ تین ملکوں (انڈیا، امریکا، برطانیہ) سے پھیلایا جارہا ہے:

نفرت کی آگ بھڑکانے والی اس پست درجے کی سیاست کاری کو روکنے کے لیے ابلاغی، صحافتی، ادبی ، علمی، فکری اور ثقافتی حلقوں کی جانب سے افسوس کہ کوئی قابلِ ذکر کوشش دکھائی نہیں دے رہی۔ خوف کی اس فضا میں مجموعی طور پر نقصان ہوگا، کاش کوئی اس پر سوچے!

گذشتہ ہفتے برطانوی پارلیمنٹ میں ، کمیونٹی سیکریٹری مائیکل گوو نے ’انتہاپسندی‘ کی ایک نئی ’تعریف‘ (definition)بطور ریاستی پالیسی کے متعارف کروائی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف برطانیہ بلکہ دُنیا بھر میں خدمت دین سے وابستہ مسلم تنظیمات میں گہری تشویش پیدا ہوئی۔ اس تعریف میں کہا گیا ہے :

 انتہا پسندی،تشدد، نفرت یا عدم برداشت پر مبنی کسی نظریے کی ترویج یا ترقی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ؛ اول : دوسروں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی نفی؛ یا دوم: برطانیہ کے لبرل پارلیمانی جمہوریت اور جمہوری حقوق کے نظام کو کمزور کرنا، الٹ دینا یا تبدیل کرنا؛ یا سوم: جان بوجھ کر (اوّل یا دوم نوعیت کے) نتائج حاصل کرنے کی سہولت دینے والا ماحول پیدا کرنا۔

Extremism is the promotion or advancement of an ideology based on violence, hatred or intolerance, that aims to: (1)  negate or destroy the fundamental rights and freedoms of others; or (2) undermine,  overturn or replace the UK’s system of liberal parliamentary democracy and democratic rights; or (3)intentionally create a permissive environment for others to achieve the results in 1 or 2.

یاد رہے برطانوی حکومت نے اس سے پہلے ۲۰۱۱ء میں ’انتہا پسندی‘ کی ایک تعریف متعین کی تھی، جس کا بنیادی ہدف پُرتشدد حملوں یا اس نوعیت کا عملی اقدام تھا۔ لیکن اس ۲۰۲۴ء کی نئی تعریف کے مطابق محض کوئی بھی ایسا نظریہ رکھنا، جو برطانوی اقدار کے خلاف ہو، وہ ’انتہاپسندی‘ سمجھا جائے گا۔ اس کے لیے کسی پُرتشدد یا کسی عملی اقدام کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ۲۰۱۱ء کی تعریف یہ تھی:

برطانوی بنیادی اقدار کی فعال مخالفت، بشمول جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انفرادی آزادی اور مختلف عقائد اور عقائد کے باہمی احترام اور رواداری کے خلاف اقدامات کرنے والے گروہ یا افراد کو انتہا پسند تصور کیا جائے گا۔

vocal or active opposition to British fundamental values, including democracy, the rule of law, individual liberty and the mutual respect and tolerance of different faiths and beliefs

یہاں اس بات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ پیش کردہ نئی تعریف، پرانی سے کس طرح مختلف ہے۔ ۲۰۱۱ء میں، انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے حکومت نے ’عملی انتہا پسندی‘ کو ’’بنیادی برطانوی اقدار، بشمول جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انفرادی آزادی اور مختلف عقائد اور عقائد کے باہمی احترام اور رواداری کی فعال مخالفت‘‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔

لیکن ۲۰۲۴ء میں وضع کردہ نئی تعریف کے تحت اصل ہدف فعال مخالفت یا اقدام سے بدل کر محض ’برطانوی اقدار‘ کے مخالف نظریہ اور اس کی ترویج ہے۔ یعنی اب اصل ہدف صرف پُرتشدد اقدام نہیں بلکہ صرف ایسے نظریات بھی انتہا پسندی کے دائرے میں آئیں گے، جو برطانوی لبرل نظریات سے منافی ہوں۔ یہ بات سمجھنا چاہیے کہ نئی وضع کردہ تعریف کے، برطانیہ میں رہنے بسنے والے مسلمانوں، مسجدوں، اشاعتی اداروں اور مسلم تنظیمات پر گہرے دُوررس اثرات پڑیں گے۔

اس حوالے سے اگر مائیکل گوو کی پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر کا جائزہ لیا جائے تو اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک نئی تعریف نہیں ہے بلکہ انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مکمل ریاستی پالیسی بیان ہے۔ جس کا اطلاق فوری طورپرکیا جائے گا۔ اس لیے وزیروں اور سرکاری ملازموں پر ایسی تنظیموں سے رابطہ کرنے یا فنڈنگ کرنے پر پابندی ہوگی، جنھیں انتہا پسند شمار کیا جائے گا۔ ابتدائی طور پر اس پالیسی کا نفاذ صرف حکومت اور اس کے محکمہ جات پر ہوگا، جب کہ کونسلوں سے توقع کی جائے گی کہ وہ حکومت کی پالیسی کی پیروی کریں گے۔ یعنی وہ تنظیمات جو نئی تعریف کے تحت ’انتہا پسند‘ قرار پاتی ہیں، اب ریاستی سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی۔ پالیسی کے تحت، ’انتہا پسند‘ دائرے میں نشان زدکی گئی تنظیمات اور افراد کو ’بلیک لسٹ‘ (ناپسندیدہ) قرار دیا جائےگا اور انھیں ریاست برطانیہ کی طرف سے ایک طرح کے بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مائیکل گوو نے اپنی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا کہ ’’یہ دراصل ۷؍اکتوبر کو حماس، اسرائیل جنگ کی وجہ سے برطانوی معاشرے میں پیدا ہونے والے ردعمل اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خطرے کا جواب ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ فلسطین کی حمایت میں برطانیہ میں ہونے والے احتجاج اور اسرائیل مخالف جذبات درحقیقت یہ نئی پالیسی بنانے کی وجہ قرار دئیے گئے ہیں۔

خود مائیکل گوو کے مطابق اس کا مقصد انتہائی دائیں بازو کے اسلامی اور انتہا پسندوں کو نشانہ بنانا ہے۔لہٰذا، ’ہاؤس آف کامنز‘ میں اپنے اعلان میں، کمیونٹی سیکرٹری نے کہا کہ ابتدائی طور پر مسلم گروپ ’مسلم ایسوسی ایشن آف برٹین‘، مسلم انگیج منٹ اینڈ ڈویلپمنٹ اور انتہائی دائیں بازو کے گروہ برٹش نیشنل سوشلسٹ موومنٹ اینڈ پیٹریاٹک الٹرنیٹو وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر گروہ مثلاً فرینڈز آف الاقصیٰ ، فائیو پلرز اور فلسطین ایکشن وغیرہ بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ مسلم تنظیموں کا نام لیتے ہوئے مائیکل گوونے پارلیمانی استثناء کا سہارا لیا، تاکہ وہ اس حوالے سے قانونی مضمرات سے بچ سکیں۔

یاد رہے برطانیہ میں اس سال عام انتخابات ہوں گے، لہٰذا کنزرویٹو پارٹی، مسلمانوں کے خلاف اقدام کرکے سیاسی طور پر دائیں بازو کے ووٹر کی حمایت بھی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ ہتھکنڈا ہے، جسے بعض ملکوں میں استعمال کرکے فائدہ اُٹھایا گیا ہے۔

یہاں ان اُمور کی نشاندہی ضروری ہے جن کی وجہ سے نئی تعریف مسلمان حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔اگرچہ یہ تعریف اور اس کی بنیاد پر بنی پالیسی کوئی قانون نہیں ہے لیکن اس کے باجود، انتہا پسند قرار دئیے جانے کی صورت میں حکومتی تعصب کا شکار ہونے اور اپنے حقوق سے محروم ہونے والے افراد یا تنظیمات کے پاس، انتہا پسند گردانے جانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود نہیں۔مزید برآں یہ نئی تعریف پیش کرنے سے پہلے کوئی تفصیلی مشاورت یا بحث بھی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ اس بات کا واضح خدشہ موجود ہے کہ یہ تعریف، آزادیٔ اظہار جو جمہوریت اور لبرل اقدار کا مسلّمہ اصول ہے کے خلاف ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔

مائیکل گوو کی تقریر کے اندر برطانیہ میں بروئے کار مسلم تنظیموں کو خصوصی طور پر نشانہ بنانا اور فوری وجۂ جواز مشرق وسطیٰ کے حالیہ تنازعے کو قرار دینا، اور ’انتہاپسندی‘ کو مسلمانوں ہی سے منسلک کردینا، یہ ثابت کرتا ہے کہ دراصل برطانوی پالیسی سازوں کے ذہن میں مسلمانوں کے حوالے سے چھپا تعصب کارفرما ہے۔ اس گمان کو مائیکل گوو کے وہ خیالات مزید تقویت دیتے ہیں، جن میں انھوں نے مسلمان سیاسی مفکروں جیساکہ سیّدمودودی، حسن البنا اور سیّد قطب کے نظریات کو انتہا پسندی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے خاص طور پر برطانوی معاشرے کے لیے ’خطرہ‘ قرار دیا، اور کہا کہ ’’اس حوالے سے برطانوی حکومت مستقبل میں اپنا ردعمل دیتی نظر آئے گی‘‘۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ، جدید سیاسی، سماجی و اخلاقی نظریات اپنے آپ میں کئی صدیوں کی فلسفیانہ اور ادبی تنقید کا حاصل ہیں۔ لہٰذا ، کسی ریاست میں نافذ العمل سیاسی ،سماجی و اخلاقی نظریات اور اقدار کو، تنقید سے بالاتر سمجھنا اور ایک جابرانہ پالیسی، معاشرے کے تمام طبقات سے زبردستی تسلیم کروانا خود جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مائیکل گوو کے پالیسی بیان کے عملی نفاذ کی صورت میں، کثیرقومی برطانوی معاشرہ ایک نئی تقسیم کا شکار ہوسکتا ہے، جس کی بنیاد خود حکومتی پالیسی ہو گی۔ اس کے علاوہ انتہا پسندی کی نئی تعریف کے مضمرات صرف برطانوی معاشرے تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ دنیا کے دیگر خطوں بالخصوص برطانوی استعمار میں رہنے والے، غیر مسلم اکثریتی ممالک مثلاً آسٹریلیا، اور ہندستان وغیرہ میں دُور رس اثرات کے حامل ثابت ہوں گے۔ جس کے نتیجے میں برطانیہ اور دیگر غیر مسلم ممالک خاص طور پر دائیں بازو کی سیاسی تحریکوں کی اٹھان سے متاثر یورپی ممالک میں بسنے والے مسلمان اور کام کرنے والی تنظیمات کو عملی مشکلات اور قدم قدم پر تعصب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اس سارے منظر نامے کے پیش نظر اگرچہ ’مسلم کونسل آف برطانیہ‘ (MCB)نے اس تقریر کے بعد حکومت کی متعصبانہ پالیسی کو چیلنج کیا ہے، لیکن یہاں پر اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ’انتہا پسندی‘ کی نئی تعریف پر نمایندہ مسلم ممالک، خاص طور پر ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) اور دیگر مؤثر ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو فوراً نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔*

*برطانیہ کی ۴۰۰ مساجد کے  اماموں اور اسلامی اسکالروں نے ایک مشترکہ بیان میں حکومت کی جانب سے کی گئی اس غلط تعریف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی لابی کے زیراثربرطانیہ میں ۳۵لاکھ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش ہے۔ (۲۲مارچ ۲۰۲۴ء)

کیا مسلم لیگ کی لگی بندھی معاشی حکمت عملی ۲۰۲۴ء میں بھی کارگر ہو سکے گی؟ دراصل روایتی طور پر ’ن‘ لیگ کی معاشی منصوبہ بندی کا دارومدار انفراسٹرکچر کی ترقی اورشرح تبادلہ کے کنٹرول پر رہا ہے۔ گذشتہ تین عشروں میں اس پارٹی کی مختلف حکومتوں کے دوران مذکورہ حکمت عملی کے ملتے جلتے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں اس جماعت کی پہلی حکومت اسی حکمت عملی کے ساتھ ۷ء۷فی صد کی حیرت انگیز شرح نمو حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی، جب کہ ۱۹۹۷ء میں یہی شرح نمو گھٹ کر ایک فی صد پر آگئی ہے۔ مسلم لیگ کے آخری دور حکومت (۱۸-۲۰۱۳ء) میں معیشت اوسطاً ۵ فی صد سالانہ کی شرح نمو پر چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم ۲۰۲۲ء تا ۲۰۲۳ء کے مختصر دور میں شرح نمو کافی کمی کے بعد ۰ء۲۹ فی صد پر آگئی تھی۔

تاہم، یہ معاشی ماڈل ۲۰۲۴ء میں دو عوامل کے سبب کامیاب نہیں ہو سکتا: اوّل، اس سال بجٹ خسارہ بہت زیادہ یعنی ساڑھے آٹھ کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے،نتیجہ یہ کہ ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کے لیے رقم موجود ہی نہیں ہے۔ دوم، اسٹیٹ بینک کے پاس موجود زرِ مبادلہ کے ذخائر اتنے نہیں ہیں کہ انھیں استعمال کرتے ہوئے مارکیٹ میں روپے کی قدر کو مستحکم رکھا جاسکے۔ ان مشکلات کے سبب اس ماڈل کا کامیاب ہونا خاصا مشکل ہے۔

پاکستان شدید اور گہری معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ ایک طرف ادائیگیوں میں عدم توازن کا بحران درپیش ہے تو دوسری طرف مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور قرض کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ مسائل کے حل کے لیے دو خوبیاں درکار ہیں: ایک، وژن اور دوسرا فیصلہ کن اقدامات کی صلاحیت اور حوصلہ۔

  • ادائیگیوں میں عدم توازن: پاکستان کی تمام معاشی مشکلات ادائیگیوں کے بحران سے جنم لیتی ہیں کیونکہ مستقل زرمبادلہ کی کمی درپیش رہتی ہے۔ گذشتہ آٹھ مہینوں میں مجموعی طور پر تجارتی خسارہ۱۴ء۸۷ ؍بلین ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس میں پہلے کی نسبت ۳۰ فی صد کمی ہوئی ہے، لیکن بیرونی دنیا میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے نپٹنے کی ان ذخائر میں صلاحیت کم ہے۔ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنا اور مجموعی طور پر معاشی استحکام کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
  • بڑھتی ہوئی مہنگائی: جنوری میں Sensitive Price Indexکے حوالےسے مہنگائی کی سال بہ سال شرح ۳۶ فی صد تک جا پہنچی ہے۔ گیس کی قیمت میں ۵۲۰ فی صد، بجلی ۷۱ فی صد، ٹماٹر ۱۵۴ فی صد، تازہ سبزیاں ۸۰ فی صد، چینی ۵۵ فی صد اور آٹے کی قیمت میں ۴۱ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ عام شہریوں کی قوتِ خرید میں واضح کمی آئی ہے اور غربت بڑھ گئی ہے۔ اشیائے خوردونوش اور بجلی و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شہریوں کے لیے اخراجات پورے کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔

فوری طور پر مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقتصادی نظم و ضبط، رسد میں اضافہ، اور معاشرے کے مخصوص طبقوں کے لیے سماجی تحفظ کے اقدامات کرنے ضروری ہیں، تا کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات سے بچایا جا سکے۔

  • شدید معاشی خسارہ: ۸ہزار ۵سو بلین روپے کا شدید معاشی خسارہ بھی ایک بڑا دردسر ثابت ہو گا۔ کئی برسوں سے جاری شاہ خرچیوں اور نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں پر اٹھنے والے بے تحاشا اخراجات نے پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں کر رکھی ہے۔ سرکاری آمدن اور اخراجات کا فرق بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اور اس سے حکومت کی اہم ترقیاتی منصوبوں اور سماجی خدمات پر خرچ کرنے کی صلاحیت کم ہوئی ہے۔ اس عدم توازن سے نکلنے کے لیے ایک نئے وژن کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں کئی مشکل فیصلے مثلاً اخراجات میں کمی، بنیادی نوعیت کی اصلاحات اور بڑے پیمانے پر نجکاری کی ضرورت ہے۔
  • قرضوں کا بوجھ :پاکستان کا کل بیرونی و اندرونی قرضہ ۸۰ ٹریلین روپے یعنی ۲۸۵؍بلین ڈالر تک پہنچنے والا ہے۔ قرضے کا یہ ہر دم بڑھتا ہوا حجم ہماری معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے اور طویل مدتی استحکام میں رکاوٹ ہے۔ آیندہ ایک سال میں ہمیں کل ملا کر ۲۵ بلین ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ بڑھتے ہوئے قرضے اور ان پر سود کی ادائیگی نے پاکستان کو بیرونی سہاروں کا محتاج کر رکھا ہے۔

اس لیے سب سے پہلے قرضوں کے انتظام اور تنظیم نو پر دھیان دینا ہو گا تا کہ ان کا ایک پائیدار بندوبست تلاش کیا جا سکے۔ قرضوں میں چھوٹ اور قرض خواہوں کے ساتھ بہتر شرائط کے حصول کے لیے بات چیت کرنی ہو گی۔انھیں قرض کے بندوبست اور معاشی پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے ایک بالکل نئے زاویۂ نظر کی ضرورت ہو گی۔

نئی حکومت کو کئی خوفناک مسائل کا سامنا ہے۔ ’ن‘لیگ کے روایتی معاشی ماڈل پر کاربند رہتے ہوئے ان مسائل سے نپٹنا ناممکن ہے۔ چنانچہ نئے وزیر خزانہ کو ماضی کے تجربات کے بجائے حقیقی معنوں میں پائیدار اصلاحات کی ضرورت ہو گی اور پاکستان کے معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے کئی مشکل اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

فرسودہ معاشی نظام اور پرانے تجربات پر گزارا کرنے کے دن جاچکے ہیں، اب ایسی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو ماضی کی زنجیروں سے آزاد ہو۔ پاکستان کو روایتی حربوں سے جان چھڑوانا ہوگی، اور غیر روایتی حل تلاش کرنا ہوں گے۔

آئی ایم ایف کی شرائط پر بے چون و چرا سر تسلیم خم کرنے کے بجائے پاکستان کی خودمختاری کا احساس کرتے ہوئے اپنی شرائط منوانے کی کوشش کرنا ضروری ہوگا۔ وژن، تجربے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے ایک نیا وژن ضروری ہے۔

سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پرانے معاشی ماڈلوں کی باقیات سے پیچھا چھڑوانا ہو گا۔ ’ن‘لیگ کی معاشی حکمت عملی متروک ہو چکی ہے اور موجودہ مسائل کا حل اس کے ذریعے ممکن نہیں۔ اس لیے ماضی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جدت، پائیداری اور نئے تجربات کا رُخ کیا جائے، جن کی ضرورت آج سے پہلے کبھی اتنی نہ تھی۔ عمل کی گھڑی آن پہنچی ہے!

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ہماری دنیا میں پائی جانے والی ظالمانہ معاشی ناہمواری کی چند مزید چشم کشا جھلکیاں سامنے آئی ہیں۔ مہنگی کاریں بنانے والی مشہور زمانہ کمپنی ’لیمبورگنی‘ نے پہلی دفعہ ایک سال میں دس ہزار کاریں فروخت کرنے کا ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔ اس کمپنی کے موجودہ ماڈل Revuelto 2024 کی قیمت ۶ لاکھ ۸ ہزار ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔

’گوگل‘ کے شریک بانی لیری پیج کے ذاتی جزیروں کی تعداد بڑھ کر پانچ ہو گئی ہے۔ ان کی تازہ ترین خرید پورٹو ریکو اور برٹش ورجن آئی لینڈز کے درمیان واقع ایک جزیرہ ہے جو انھیں ۳۲ملین ڈالر (یعنی بارہ ارب ۲۳کروڑ روپے ) میں پڑا ہے۔

آسٹریا کی کمپنی ’موشن کوڈ: بلیو‘ نے ایک نئے بحری جہاز کا ڈیزائن جاری کیا ہے، جو چار ہفتے تک مسلسل زیر آب رہنے کی صلاحیت سے لیس ہے۔اس ۵۴۱ فٹ لمبے جہاز ’Migaloo M5 ‘کے اندر ایک سوئمنگ پول اور ہیلی پیڈ بھی موجود ہے اور اس کی قیمت ۲  بلین ڈالر رکھی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آسٹریائی تخلیق کار اپنی توانائیاں ارب پتیوں کے لیے ایسے ۲بلین ڈالر کے مہنگے کھلونے بنانے میں کیوں لگا رہے ہیں؟ اس کی وجہ ظاہر ہے: عصر حاضر کے امرا دولت کے ان پہاڑوں پر براجمان ہیں، جہاں ایسے چند ارب ڈالر کا خرچ ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

دولت کے یہ پہاڑ کیونکر پھیل رہے ہیں؟ ’آکسفام‘ (Oxfam)کے محققین نے اپنی حالیہ تحقیق میں اس سوال کا متاثر کن جواب پیش کیا ہے:’’گذشتہ چار عشروں میں جی-۲۰ ممالک کی کل قومی آمدن کا ’ٹاپ ایک فی صدی سرمایہ داروں‘ کو جانے والا حصہ بڑھتے بڑھتے ۴۵ فی صد تک پہنچ چکا ہے‘‘۔ یعنی دنیا کے بیس بڑے ممالک اپنی کل آمدن کا ۴۵ فی صد صرف ’ایک فی صد طبقے‘ کو پیش کرتے ہیں، اور یہ کہ: ’’ان کی آمدن پر لگنے والے ٹیکس کی شرح تقریباً ایک تہائی کم ہو چکی ہے‘‘۔

’آکسفام‘ کے مطابق ۲۰۲۲ میں جی-۲۰ ممالک کے ’ٹاپ ایک فی صد طبقے‘ کی آمدن ۱۸ٹریلین ڈالر تھی۔ یہ اعداد و شمار اس ہفتے شروع ہونے والے جی-۲۰ کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے سربراہان کے اجلاس سے قبل جاری کیے گئے ہیں۔ دراصل جی-۲۰ میں ۲۱؍اراکین شامل ہیں، جن میں سے دنیا کے ۱۹طاقت ور ترین ممالک ہیں، جب کہ بیسواں ’یورپی یونین‘ اور اکیسواں امسال پہلی دفعہ شامل ہونے والا رکن ’افریقی یونین‘ ہے۔

۲۰۲۴ء کے لیے جی-۲۰ کے سربراہ برازیل نے ساؤ پاؤلو میں اس اجلاس کا اہتمام کیا ہے۔ برازیل میں لُول ڈاسلوا کی بائیں بازو کی حکومت نے اس اجلاس کی میزبانی کے لیے خاصے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے پیچھے ان کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی دولت پر ٹیکس عائد کرنے کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر پیش کیا جائے۔

پچھلے ہفتے برازیلین وزیر خزانہ فرنانڈوحداد نے برازیلی اخبار ’او-گلوبو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:’’ دنیا کا کوئی ملک اس وقت امیروں پر ٹیکس لگانے کے معاملے میں برازیل پر برتری نہیں رکھتا‘‘۔ گذشتہ سال برازیلی صدر لُول ڈا سلوا نے برازیلی امرا کی بیرون ملک سرمایہ کاری پر ۱۵ فی صد محصول عائد کیا تھا، اور امرا کے مددگار چور دروازے بند کرنے کے لیے برازیلی حکومت نے ذاتی پنشن فنڈز میں ڈالی جانے والی رقم پر بھی ایک حد مقرر کر دی ہے۔

ساؤ پاؤلو اجلاس میں افتتاحی تقریر کرتے ہوئے برازیلی وزیر خزانہ فرنانڈو حداد کا کہنا تھا:  ’’ماحولیاتی تباہی اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کے خلاف ایک نئی عالمی مہم کا وقت آ گیا ہے۔ہم ایک بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ ایک فی صد امیر ترین طبقہ دنیا کے ۴۳ فی صد اثاثوں پر قابض ہے اور دنیا کی دو تہائی غریب آبادی کے برابر کاربن فٹ پرنٹ پیدا کرتا ہے۔قومی معیشتوں کے مقابلے میں اقتصادی اداروں کے بڑھتے ہوئے حجم نے امیروں کو ٹیکس سے فرار کے نئے طریقے فراہم کر دیئے ہیں۔تاہم، حالیہ برسوں میں ایسی ٹیکس چوری سے بچنے میں ریاستوں کو کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے‘‘۔ (کاؤنٹرپنچ، ۶مارچ ۲۰۲۴ء)

اخلاق کی اہمیت انفرادی و اجتماعی زندگی میں مسلّمہ ہے۔ اچھے اور پُرامن معاشرے کی تعمیر میں اخلاقِ حسنہ کلیدی رول ادا کرتے ہیں ۔تمام آسمانی کتب میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے کامیابی کے لیے اس کو لازمی قرار دیا ہے ۔ آ ج اخلاقی زوال ہر سطح پر عام ہے۔ تعلیم گاہیں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس کی روک تھام کی اشدضرورت ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کل ملک و ملت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں۔ لہٰذا ان تعلیم گاہوں کا ماحول ایسا بنایا جائے کہ طلبہ اچھے اخلاق کے حامل ہو سکیں ۔ اس سلسلے میں چند عوامل کا ذکر کیا جا رہا ہے ۔ ان کے ذریعے سے تعلیم گاہوں میں اخلاقیات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

  • اخلاق حسنہ : اللہ تعالیٰ نے جن اخلاق کو اختیارکرنے اوراپنانے کا حکم دیا ہے، اُن کی قرآنی اخلاقیات سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے۔
  • اخلاق سئیہ :جن اخلاق کو اللہ ناپسند کرتا ہے، ان کو ’رذائل اخلاق‘ کہتے ہیں۔  قرآن میں ان کے لیے منکر، فحشاء، فاحشہ، سیئہ، سوء، مکروہ ، خطا، اثم عدوان جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
  • اعلٰـی اخلاق : اعلیٰ اخلاق سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق کواصولوں پر استوار کرے ۔ دوسرے لوگوں کے رویے کی پروا کیے بغیر وہ اپنا رویہ متعین کرے، خواہ دوسروں کا رویہ اس کے ساتھ حُسن سلوک کاہو یا بد اخلاقی کا،  اس کا رویہ ہمیشہ حُسن سلوک ، نرمی، تعلقات کو استوار کرنے والا ہو۔ کوئی اس کا حق نہ دے، بُرا سلوک کرے، اس پر ظلم کرے ، بدتمیزی سے پیش آئے مگر ایسے لوگوں کے ساتھ بھی اس کا رویہ جوڑنے والا، نظر انداز کرنے والاہو ۔ اس رویہ کو اعلیٰ اخلاق کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیءِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْ  اِذَا قَطَعْتَ رَحِمَہٗ وَصَلَھَا( بخاری) ’’وہ شخص مکمل درجہ کی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو بھلائی کے مقابلے میں بھلائی کا رویہ اختیار کرے لیکن مکمل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب تُو اس سے قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑدے‘‘۔ صِلْ مَنْ قَطَعَکَ وَاَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَاءَ اِلَیْکَ (بخاری) جو شخص تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس سے حسن سلوک کر اور جو تجھ سے بُرا برتاؤ کرے تو اس پر احسان کر ۔

حُسنِ خلق کے مقاصد: حُسن اخلاق کو اختیار کرنے کے درج ذیل مقاصد ہیں:

  • رضائے الٰہی:ایک مومن جو بھی کام کرتا ہے، وہ اللہ کی رضا و خو ش نودی حا صل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ اچھے اخلاق اختیا ر کر نے سے مقصو د یہ ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ سے خوش ہو جائے۔
  • امدادباہمی: کوئی انسان اپنی ساری ضرورتیںخود پوری نہیں کر سکتا۔ وہ دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔اچھے اخلاق اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے کام آئیں، ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے بنیں،تاکہ ایک اچھے معاشرے کی بنیاد بنے۔
  •  مثبت تبدیلی:انسان اچھی وبری خصلتوں کا مجموعہ ہے: فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ (الشمس ۹۱:۸) ’’پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کردی‘‘۔ اچھے اخلاق کا خو گر بنانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر مثبت تبدیلی آئے۔ وہ بُرے اخلاق کو چھوڑ دے اور اچھے اخلاق سے اپنے آپ کو مزین و آراستہ کر لے۔
  • خدمت خلق:اچھے اخلاق اپنانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے لیے نفع بخش بن جائے اور مخلوق کی خدمت کرے۔
  •  کردار سازی: اچھے اخلاق کو اختیارکرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ انسان کی شخصیت تعمیر کی جا سکے۔ انسان کے اندر اعلیٰ اخلاق نشوو نما پائیں اور اس کی زندگی پاکیزہ بن سکے۔
  • حُسنِ خلق کی اہمیت: افراد اور قوموں کی شناخت و پہچان اخلاق سے ہوتی ہے۔ جو حُسن خلق کا خوگر ہوتا ہے، لوگ اور معاشرہ اس کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔
  • اسلام میں اخلاق کی اہمیت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد بتاتے ہوئے فر مایا: بُعِثْتُ لِاُتَـمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ ( موطا امام مالک) اِنَّـمَا بُعِثْتُ لِاُتَـمِّمَ مَکَارَمَ الْاَخْلَاقِ (السنن الکبریٰ، للبیہقی) ’’میں تو اسی لیے بھیجا گیا کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں‘‘۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں آپؐ کی اخلاقی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ایک مقام پراللہ تعالیٰ نے نبیؐ کے بلند اخلاق کاذکر کرتے ہوئے فر مایا : وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۝۴ (القلم ۶۸:۴) ’’بے شک آپ ؑ اعلیٰ اخلاق والے ہیں‘‘۔کتب سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دعوت کا کام کر رہے تھے تو حضرت ابوذر ؓ نے اپنے بھائی کو مدینہ سے مکہ بھیجا کہ وہ رسول اکرمؐ کے بارے میں معلومات حاصل کر کے لائیں ۔انھوں نے آکر اطلا ع دی کہ رَاَیْتُہٗ یَاْمُرُ بِـمَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ (مسلم) ’’میںنے ان کو دیکھاکہ وہ لوگوں کواخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اخلاق کے عظیم الشان مرتبہ پر فائز تھے ۔ انسانوں کوبھی آپؐ اچھے اخلاق اپنانے کی تعلیم دیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:اِتَّقِ اللہَ حَیْثُ مَاکُنْتَ وَاَتْبِعِ السَّیِئَۃَ الْحَسْنَۃَ تَمْحُھَا وَخَالِقِ النَّاسِ بِخُلُقٍ حَسَنٍ (ترمذی)’’جہاں کہیں بھی رہواللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہواور برائی کے بعد نیکی کرلو تاکہ نیکی برائی کو مٹا دے اور لوگو ں کے ساتھ خوش خوئی سے پیش آؤ‘‘۔

  •  رسولؐ کو محبو ب لوگ:رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ لوگ پسندیدہ ہیں جو اچھے اخلاق کے خو گر ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:اِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ اِلَیَّ اَحْسَنُکُمْ اَخْلَاقًا (بخاری) ’’تم میں سب سے زیادہ مجھے وہ لوگ محبوب ہیں جو تم میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھے ہیں‘‘۔
  • سب سے اچھے لوگ: اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنُکُمْ اَخْلَاقًا (بخاری و مسلم) ’’تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو اخلاق کے لحاظ سے تم میں سب سے اچھے ہیں‘‘۔
  • اخلاق  حسنہ  کی فضیلت :دین اسلام میں نماز روزہ کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اچھے اخلاق کو اختیار کرتا ہے تو وہ عبادت کے اعلیٰ درجات کو پالیتا ہے ۔ اِنَّ الْمُوْمِنَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہٖ دَرَجَۃً  الصَّائِمِ  الْقَائِمِ (ابوداؤد ) ’’مومن اپنے حُسن اخلاق سے ان لوگوں کا درجہ حا صل کر لیتا ہے جو رات میں اللہ کے حضور کھڑے رہتے اور دن کو روزہ رکھتے ہیں‘‘۔
  • جنت میں داخلہ کاسبب :قیامت کے دن جنت میں جانے والوں میں وہ لوگ زیادہ ہوں گے جن کے دنیا میں اخلاق اچھے تھے ۔ابوہریر ہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: عَنْ اَکْثَرِمَا یُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّۃَ ؟ قَالَ : تَقْوٰی اللہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ  ( ترمذی) ’’اکثر لوگ کس وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے؟ آپ ؑنے فرمایا: تقویٰ اور حسن اخلاق کی وجہ سے‘‘۔

ایک شخص نے نبی کریم ؐ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ؐ !فلاں عورت نفل نماز پڑھنے ، نفل روزے رکھنے اور صدقہ کرنے کے لیے مشہور ہے۔ لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا : وہ جہنمی ہے ۔ اس آدمی نے پھر کہا : اے اللہ کے رسول ؐ !ایک دوسری عورت ہے جو کم نماز پڑھتی، کم روزے رکھتی ہے اور کم مقدار میں صدقہ کرتی ہے۔ مگر وہ پنیر کے چند ٹکڑے غریبوں کو دیتی ہے اور پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں پہنچاتی ۔ آپ ؐ نے فرمایا:’’وہ جنتی ہے‘‘۔(احمد)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا تم جانتے ہوکہ مفلس کون ہے ؟ لو گوں نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ مال و اسباب۔ آپؐ نے فر مایا :’’ میری امت کا مفلس شخص وہ ہے، جو قیامت کے روز اس حال میں حاضر ہو کہ اس کے پاس نماز، روزہ اور زکوٰۃ سب ہو، مگر اسی کے ساتھ دنیا میں اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ،  کسی پر بہتان تراشی کی ہو گی ، کسی کا مال ہڑپ کرکے کھایا ہوگا،کسی کی پٹائی کی ہوگی،تو ان تمام مظلوموں کو اس کی زیادتیوں کی بنا پر بدلے میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ اگر نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور مظلوموں کے حقوق باقی رہ جائیں گے تو ان کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔(مسلم)

اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ نماز وروزہ کی دین میں اپنی جگہ پر اہمیت مسلّمہ ہے۔ لیکن یہ حدیثیں بتاتی ہیں کہ آخرت کی کامیابی کے لیے اچھے اخلاق کو اختیار کرنا لازمی و ضروری ہے۔

  • قیامت کے دن سب سے وزنی چیز: قیامت کے دن جب انسانوں کے اعمال تولے جائیں گے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اِنَّ اَثُقَلَ شَیْءٍ  یُوْضَعُ فِیْ مِیْزَانِ الْمُوْمِنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خُلُقٌ حَسَنٌ ( ابوداؤد، تر مذی) ’’قیامت کے روز مومن کی میزان میں جو سب سے وزنی چیز رکھی جائے گی وہ حُسنِ اخلاق ہے‘‘۔
  • اخلاق و ایمان کا تعلق :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا ، وَ خِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَاءِ ھِمْ (تر مذی)، ’’اہل ایمان میں ایمان کے لحاظ سے سب سے کامل شخص وہ ہے جوان میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے بہتر ہے۔اور تم میں اچھا وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو‘‘۔ اِنَّ رَجُلًا سَاَلَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا الْاِیْمَانُ ؟ قَالَ : اِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَاءَ تُکَ سَیِّئَتُکَ فَاَنْتَ مُوْمِنٌ ۔ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللہِ : فَمَا الْاِثْمُ ؟ قَالَ: اِذَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ شَیْءٌ  فَدَعْہُ( احمد ) ایک شخص نے رسولؐ اللہ سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ؑ نے ارشاد فرمایا : جب تمھاری نیکی تمھارے لیے خوشی کا باعث ہو اور تمھاری بدی تمھارے لیے ناگواری کا سبب ثابت ہو تو تم مومن ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گنا ہ کے بارے میںدریافت کیا گیا تو آپ ؑ نے فرمایا: الْبِرُّ حُسْنُ الْخَلُقِ ( مسلم) ’’حُسن اخلاق نیکی ہے‘‘۔
  • دعاکرنا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کے لیے اللہ سے دعا کیا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَاَحْسِنُ خُلُقِیْ (احمد) ’’اے اللہ تو نے میری پیدائش کو حُسن و خوبی سے نوازا ، پس میر ے اخلاق کو بھی حسن و خوبی عطا کر ‘‘۔

تعلیم کا مقصد

 تعلیم کا مقصد انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ تعلیم کا مقصد ’تعلیم برائے معاش‘، ’ تعلیم برائے علمیت‘ ہو تو طلبہ پیسے کمانے کی مشین بنتے ہیں یا ساری توجہ اچھے نمبروں کو حاصل کرنے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اخلاقیات، انسانیت کے تقاضے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ تعلیم کے مقاصد میں سے ایک مقصد معاش اور علمی لیاقت تو ہوسکتا ہے لیکن اس کو اصل کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ تعلیم کا مقصد تویہ ہے کہ نئی نسل کی تربیت و نشوونما ایسی ہو کہ ان کی خوابیدہ فطری صلاحیتوں کو جِلا بخشی جا سکے۔ انھیں اپنی انفرادی و اجتماعی، عائلی و سماجی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی اداکرنے والا بنایا جا سکے۔پاکیزہ سیرت و کردار ، اخلاق کریمہ کا خو گر بنایا جاسکے۔ اپنی ذات ،سماج ومعاشرے کے لیے نفع بخش و مفید تر بنایا جا سکے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے کہ انسان اللہ کا صالح بند ہ بن جائے،تاکہ اس دنیا میں انسانوں کے کا م آنے والا ، لوگوں میں خیر و بھلائی پھیلانے والابن سکے اور آخرت میں کامیاب ہو سکے۔ہمارے ادارے قائم کرنے کا مقصد یہی ہے۔ یہ مقصد ذمہ داران، تدریسی وغیر تدریسی عملہ ، والدین ، سر پرستوں،طلبہ سب کے سامنے رہنا چاہیے۔

  • ادارہ کے قیام کا مقصد: طلبہ کے اندر اخلاقیات کوفروغ دینے کے لیے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اسکول کے مقاصد و نصب العین سے اسکول سے متعلق تما م لوگ واقف ہوں اور ادارے کے اندر اخلاقی ماحول بنانے کی فکر ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر ادارے میں اخلاقیات کے فروغ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ذمہ داران کا ادارے کے مقصد سے لگاؤ ہو گا تو وہ طلبہ کی نہ صرف اسکول کی حد تک بلکہ ان کے گھروں کی سرگرمیوں پر بھی نگا ہ رکھنے کی کوشش کریں گے۔
  • نصاب تعلیم: اداروں میںاخلاقیات کو پروان چڑھانے و فروغ کے لیے ماحول ساز گار بنانے میں نصاب تعلیم کا اہم کلیدی کردار ہو تا ہے۔ موجودہ دور میں رائج عمومی نصاب تعلیم، مادی ترقی، معاشی خوش حالی ووطن پرستی کو اہمیت دیتا ہے۔ اخلاقی اقدار کی نصاب تعلیم میںکو ئی جگہ نہیں ہے، اگر ہے تو اس کی حیثیت اضافی چیز کی ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نظام کے فارغین اخلاقی اقدار سے نابلد، ناآشنا اور محروم ہوتے ہیں ، مادہ پرست ، مفاد پرست،خواہش نفس کے بندے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں حیاسوزواقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔

معیاری تعلیمی ادارے کا  عملی خاکہ

اسلام کے نظامِ تعلیم میں اخلاقیات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی نظام تعلیم کی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت کے عقیدے پر ہے ۔ وہ خلافت، وحدت انسانیت، احترام انسانیت، آزادیٔ رائے جیسے تصور کو اہمیت دیتا ہے۔ نظام تعلیم میں درسیات کی بنیادی حیثیت ہے ۔ کتابیں اپنا اثر چھوڑتی ہیں، لہٰذا نصاب ایسا ہو نا چاہیے، جن سے طلبہ کے اندر اعلیٰ نصب العین، پاکیزہ نظریۂ حیات اور مقصد ِزندگی ذہین نشین ہو سکے، جو بچوں کے کردار کوپاکیزہ اخلاق کا حامل بنائے۔

  • اسمبلی/دعا: اداروں میں اخلاقیات کو فروغ دینے میں اسکول اسمبلی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ صبح کے وقت طلبہ و اساتذہ ترو تازہ دماغ اورتازہ دم ہوتے ہیں، لہٰذ ا اسکول اسمبلی کی بہت اچھے انداز میں منصوبہ بندی کر کے لائحہ عمل بنا کر رُوبہ عمل لا نا چاہیے۔
  • دعا: اسمبلی میں ہر دن کے لیے منتخب دعا پڑھنے کا نظم ہو۔ ماہانہ بنیادپر ان میں تبدیلی کی جاتی رہے تو ایک سال میں تقریباً ۲۰ دُعائیں بچے یاد کرنے میں کا میا ب ہو جائیں گے۔
  • نظمیں و ترانے: اسمبلی میں روزانہ اخلاقیات پر مبنی نظمیں و ترانے پڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔ یہ بھی بچوں کے اخلاق پر اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
  • آداب:روزمرہ کے مختلف کام کرتے وقت کے آداب بتانے کا سلسلہ ترتیب سے چلا یا جائے۔ اس سے بھی بچوں میں اچھے اخلاق کا فروغ ہو گا۔
  • مختصر اخلاقی کہانیاں: اسمبلی میں مسلسل اخلاقی کہانیوں یا قصوں کو سناتے رہنے سے بھی بچوں میں اچھے اخلاق کا فروغ ہو گا۔
  • حوصلہ افزائی: جو بچے مختلف میدانوں میں( خواہ وہ نصابی ہوں یا ہم نصابی) سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوں اور اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوں، ان کی حوصلہ افزائی اسمبلی میں کی جانی چاہیے۔ اس سے بھی ادارے میں اخلاقی ماحول پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔
  • اسکول کیلنڈر: تعلیمی ادارے میں اسکول کیلنڈر کی بڑی اہمیت ہے۔ اسکول کیلنڈر سے مراد یہ ہے کہ ایک تعلیمی سال میں اسکول میں جتنی بھی سرگرمیاں انجام دی جانی ہیں، خواہ وہ نصابی ہوں یا ہم نصابی یا ثقافتی و تہذیبی مصروفیات و مشاغل ہوں، ان سب کا تعلیمی سیشن سے قبل یا آغا ز پرلائحہ عمل تیار کرنا ۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر کا م نظم و نسق کے ساتھ انجام پاتا ہے۔
  • اخلاقیات پر چارٹ : طلبہ سے قرآنی آیات، احادیث ، اقوال زریں پر چارٹ تیار کرائے جائیں اور انھیں آویزاں کرنے کا اہتما م کیا جائے۔ وہ باتیں بار بار دیکھنے سے طلبہ کے ذہین نشین ہو جائیں گی۔ اس طر ح یہ اسکول میں اخلاقی ماحول پروان چڑھانے کا ذریعہ بنے گی۔
  • اسکول کے درو دیوار: اسکول کے اہم مقامات پر قرآنی آیات و احادیث، آداب کی باتیں خوب صورت اندازمیں کاتب سے تحریر کرائی جائیں تاکہ اچھے اثرات مرتب کرسکیں۔
  • خصوصی لیکچرز: اخلاقیات کے موضوع پر گاہ بہ گاہ ماہرین تعلیمات وعلما سے توسیعی لیکچروں کا اسکول میں اہتمام کیا جاتا رہے۔ اسکول کے ماحول کو بہتر بنانے میں مددملے گی۔
  • پروجیکٹ ورک: بڑے درجات کے طلبہ کو ایسے پروجیکٹ پر کا م دیاجائے جس سے ان کے اندر معاشرے کی خدمت کا جذبہ اور اخلاقی قدریں نشو ونما پا سکیں ۔ مثلاً کسی محلہ میں سروے کا کام دیا جائے کہ اس محلہ کے کتنے بچوں نے درجہ پنجم یا ثانوی درجات کے دوران تعلیم ترک کردی۔بعد میں ان سے اور ان کے سرپرستوں سے اساتذہ کی سرپرستی میں گروپ بنا کر ملاقاتیں کی جائیں۔ اس سے طلبہ کے اندر لوگوں کے کام آنے اور سماجی امور میں دلچسپی پیدا ہوگی۔
  • ہم نصابی سر گرمیاں: ہم نصابی سرگرمیاں[غیر نصابی / زائد از نصابی سرگرمیاں] کسی بھی ادارے کے لیے بڑی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ دورانِ تدریس میں طلبہ جن باتوں کو فکری، علمی انداز سے سیکھتے ہیں ،زائد از نصابی سر گرمیوں کے ذریعے سے عملی طور پر سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ طلبہ میں احسا س ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ تخلیقی و انتظامی صلاحیت نشو ونما پاتی ہے۔ بچوں کے اجتماعات،طلبہ کی انجمن قائم کرنا، اسکول کی مختلف تقریبات کے موقع پر طلبہ کو انتظامی امورمیں شامل کرنا، تعلیمی سیرو سیاحت، پکنک، کھیل کود وغیرہ اخلاقی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
  • معلم کا طلبہ سے تعلق:اداروں میں اخلاقیات کا ماحول سازگار بنانے کے لیے طلبہ و معلّمین کا رشتہ خوش گوار ہونا چاہیے۔ معلم طلبہ کے روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ۔معلم کی دوحیثیتیں ہیں ۔ ایک تو وہ علم سکھانے والا ہے اور دوسری حیثیت اس کی مربی کی ہے ۔آج کے دور میں یہ رشتہ کمزور پڑتا نظر آرہا ہے۔ ایک معلم طلبہ کو پیشہ وارانہ انداز میں علمی لیاقت منتقل کرنے کو کافی سمجھتا ہے اور طلبہ کے افکار وخیالات کی پختگی، صالحیت، اور ان کے اچھے بُرے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا ہے۔ اس جذبے کے ختم ہو جانے کی وجہ سے طلبہ اساتذہ کا احترام نہیں کرتے ہیں اور نہ معلم ہی طلبہ کے مستقبل سے سروکار رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں پیشۂ تعلیم ایک تجارت بن کر رہ گیا ہے۔ طلبہ میں اخلاقیات کے پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ رشتہ جتنا مضبوط ہو گا، طلبہ اتناہی اپنے استاد کا ادب و احترام ، ان کی خدمت اور ان کی باتوں کو غور سے سنیں گے۔
  • معلم وطالب علم کا انفرادی تعلق: دورانِ تدریس معلم، طلبہ پر گہری نظر رکھے ۔ ہر طالب علم کے ذوق، دلچسپیاں اور قابلیت سے اچھی طرح واقفیت حا صل کرے۔ ہرطالب علم کو ایک اکائی سمجھتے ہوئے طلبہ کے مابین انفرادی فرق اور ان کے مخصوص میلانات و رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے طلبہ کی رہنمائی کرے، اور ان کی تربیت کا فریضہ انجام دیے۔ جب تک معلم اس کردار کو ادا نہیں کرتا، تب تک کسی ادارے میںطلبہ کے اندراخلاقیات کا فروغ ممکن نہیں ۔
  • طلبہ کے باہمی تعلقات: اخلاقیات کے فروغ کے لیے طلبہ کے باہمی تعلقات بہتر ہو نا چاہییں۔ ان میں خیرخواہی و ہمدردی کا جذبہ ہو۔ ایک دوسرے کے تئیں احترام و محبت ہو۔ ایک دوسرے کے کام آئیں۔ پڑھنے لکھنے کی چیزیں مثلاً قلم، پینسل،کتاب، نوٹس بک وغیرہ ایک دوسرے کو دینے کا چلن ہو۔ پڑھنے اور ہوم ورک کے پورے کرانے کاایک دوسرے کی مدد کرنے کا داعیہ ہو۔
  • معلّم کی ذمہ داری: کسی بھی اسکول کا ایک اہم رکن معلم ہوتا ہے۔ ادارے میں اخلاقیات کے فروغ کے لیے اس کا رول بہت ہی اہم ہوتا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا،’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ اَفْضَلُ الصَّدَقَۃٍ اَنْ یَتَعَلَّمَ الْمُرَءُ عِلْمًا ثُمَّ یُعَلِّمَہٗ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ (ابن ماجہ)’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ آدمی علم سیکھے پھر اپنے کسی مسلمان بھائی کو سکھائے‘‘۔ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوْہُ النَّاسُ ( بیہقی)’’علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ‘‘۔ بلغوا عنی و لو ایۃ (بخاری) ’’میری تعلیم لو گوں تک پہنچاؤ خواہ ایک ہی آیت ہو‘‘۔

اچھی باتیں سکھانے کا بڑا اجر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ اَجْرِ فَاعِلِہٖ ( مسلم) ’’جو شخص کسی بھلائی کی طرف راہ نمائی کرے اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ نیکی کرنے والے کو‘‘۔ مُعَلِّمُ الْخَیْرِ  یَسْتَغْفِرْ لَہٗ کُلُّ شَیْ ءٍ ( ترمذی) ’’معلم خیر کے لیے تمام چیز یں دعا ئے مغفرت کرتی ہیں‘‘ ۔ ان احادیث سے پیشۂ معلمی کی اہمیت کا انداز لگا یا جاسکتا ہے ۔ اس فر ض کی ادائیگی معلم کے لیے دنیا میںباعث خیر ہے اور آخرت میں کا میابی کی ضمانت ہے۔ اس فرض سے غفلت سے ، سستی ، کوتاہی ، لاپراوہی آخرت میں نامرادی کا سبب بنے گی ۔

معلم کو چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ سے حسن سلوک ، محبت ، شفقت ، ایثارسے پیش آئے۔ طلبہ کی غلطیوں پر در گزرسے کام لے اور اگر قابلِ گرفت بات ہو تو بہت احتیاط کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ ان کی غلطیوں پر ان پر طعن و تشینع سے اجتنا ب برتے ۔طلبہ کی عزّتِ نفس کا خیال رکھے۔ طلبہ کی پریشانیوں ، دقتوں، مسائل کو سمجھنے اور ان کوہمدردی سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ خود بھی اخلاق کریمہ سے متصف اور اصول پسند ہو۔ اس کے قول و عمل میں مطابقت ہو۔ طلبہ کو انبیاءؑ، صحابہؓ و تابعینؒ کے واقعات ، اخلاقی کہانیاں سنا کر ان کو اخلاق حسنہ کا خوگر بنادے۔

  • والدین کی ذمہ داری: بچوں کواخلاق فاضل سے متصف کرنا کیا اسکولوں کی ذمہ داری ہے یا والدین کی بھی ؟ دراصل اس ذمہ داری کی ادائیگی کے دونوں ذمہ دار ہیں ۔ والدین کو یہ سوچ کر بے فکر نہیں ہو ناچاہیے کہ بچے کا اسکول میں داخلہ کراد یا ہے بس کافی ہے ۔ بچوں کی تربیت اور ان کے اندر اچھے اخلاق فروغ پائیں، یہ والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ کیونکہ تعلیم و تربیت پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں والدین، اسکول ، معاشرہ اور حکومت ہے۔ اخلاق وکردار، سیرت، عادات ، جذبات وخیالات وغیرہ میں بچّے سب سے زیادہ والدین کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا ماںباپ کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بہت حسا س رہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ  اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶)، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے آپ کواور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’کوئی باپ اپنے بیٹے کو اچھا اخلاق سکھانے سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دے سکتا‘‘۔

اس ذمہ داری کے بابت آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سکھائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:  اَكْرِمُوْا اَوْلَادَكُمْ‌ وَ اَحْسِنُوْا أَدَبَهُمْ(ابن ماجہ ) ’’تم اپنی اولاد کی عزت کرو اور انھیں ادب سکھاؤ‘‘۔

  • اساتذہ اورطلبہ کے والدین کے تعلقات: طلبہ اور اسکول میں اچھے اخلاق کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ طلبہ کے والدین اور اسکول کے اساتذہ کے تعلقات استوار ، بااعتماد ، خوش گوار ہوں۔ دونوں مل کر بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں اپنا رول ادا کریں ۔ اچھے تعلقات کی بنا پر آپس میں مشورہ ورائے لی و دی جا سکتی ہے ۔ ہر ایک بچوں کے لیے فکر مند ہو۔

سرپرستوں کی میٹنگ میں عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ معلّمین سرپرستوں سے بچوں کے سامنے بچوں کی کمزویوں کا ذکر کرتے ہیں اور بعض والدین بچوں کو وہیں تنبیہ شروع کر دیتے ہیں۔ معلّمین کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ والدین سے بچوں کی خوبیوں اور دلچسپیوں کا ذکر کر کے ان کی رہنمائی کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں ان کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اوراگر بچے میں تعلیمی یا کوئی کمزوری ہے تو بچوںکے سامنے اس کا ذکر نہ کیا جائے بلکہ علیحدہ سے بتائی جائے۔اس طر ح کا رویہ اپنانے سے سرپرستوں اور طلبہ کے والدین میں روابط اچھے ہوجائیں گے۔