مضامین کی فہرست


مارچ ۲۰۲۴

گذشتہ چند برسوں سے پاکستان سیاسی انتشار اور معاشی مشکلات میں گرفتار چلا آرہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ملکی قیادت پر اعتماد کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ مایوسی، نا اُمیدی، جھنجلاہٹ اور  منفی طرزِ فکر میں غیر معمولی اضافہ ہواہے ۔جس کا ایک پہلو ملک سے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی (Brain drain)ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ، ذ ہین اور باصلاحیت نوجوان ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے، اورغیر یقینی سیاسی حالات کے پیش نظر بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے باہر جارہے ہیں۔ ایسی ہی مایوسی اور دل گرفتگی اس وقت بھی پیدا ہوئی تھی، جب برطانوی سامراجی طاقت نے مسلم بادشاہت کا خاتمہ کیا اور برصغیر میں اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی سلطنت ِ عثمانیہ جس کی طرف مسلمان امیدوں کے ساتھ دیکھتے تھے، اپنے ہی گھر کی مصطفےٰکمال کی سیکولر قوم پرست قیادت نے ان اُمیدوںکا چراغ گُل کرتے ہوئے علامتی خلافت تک کا خاتمہ کر دیا۔ اس صدمہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں کو شدید دُکھ ، افسوس اور مایوسی کی فضا میں دھکیلا اور ہجرت کی تحریک کو جنم دیا۔

اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ  اپنے اس بندے کو بھی اپنی شفقت اور محبت سے محروم نہیں کرتا، جو بظاہر سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہو۔ اسی رحمت کی بنا پر رحیم و کریم رب نے ہر دور میں ایسے رجالِ کار پیدا کیے، جو اس کے بھیجے ہوئے دینِ مبین پرمبنی نظامِ حیات کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں۔

الحمدللہ! قیام پاکستان سے قبل ایک ایسی تحریک وجود میں آئی، جس کے سامنے اسلام کا حرکی تصور نہ صرف نظری طور پر بلکہ عملی طور پربھی موجود تھا اور یہ تھی جماعت اسلامی جو ۱۹۴۱ء میں منظم صورت میں سامنے آئی۔ اس سفر میں جماعت اسلامی کے بانی نے قرآن وسنت کے تابع حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک دعوتی اور اصلاحی تحریک منظم کی، اور اقامت دین کے لیے تربیت یافتہ افراد تیار کرنے کا آغاز کیا۔

مولانا مودودیؒ نے قوم کو علمی، فکری اور عملی قیادت فراہم کی اور ایسے افرادِ کار کی تیاری کا راستہ دکھایا جو اسلامی نظام حیات کا شعوررکھتے ہوں۔ اس تحریک کے دستور میں اس نصب العین کو واضح الفاظ میں یوں بیان کیا گیا:’’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملا ًاقامت ِدین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ ۴)

اقامت دین کی جامع قرآنی اصطلاح، اللہ کے دین کو زندگی کے ہر شعبہ میں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں نافذ کرنے کا نام ہے۔یہ دین کے کسی ایک پہلو اور اسلام کی کسی ایک تعلیم کو کُل قرار دینے کا نام نہیں ہے۔اللہ سے تعلق، تزکیہ، کردار سازی اور اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں حصہ لینا دین کا لازمی تقاضا ہے۔ البتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ تنہا سیاسی جدوجہداقامت دین نہیں ہے، بلکہ یہ اس جامع جدوجہد کا صرف ایک حصہ ہے۔ تحریک کو وہ سیاسی جدوجہد مطلوب ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بھیجے ہوئے نظام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے نفاذ کے لیے ہو، جس میں کسی فرد کی ذاتی غرض، حصولِ اقتدار کے ذریعے اپنی نمایش مقصود نہ ہو۔ گویا سیاسی جدوجہد اصل میں توسیع دعوت کا ایک ذریعہ بنے ۔

دستور جماعت کے مطابق، جماعت کوئی ایسے ذرائع استعمال نہیں کرے گی، جو صداقت اور دیانت کے منافی ہوں یا جن سے فساد فی الارض کا خطرہ ہو۔ دستورِ جماعت یہ بھی طے کر دیتا ہے کہ وہ مطلوبہ اصلاح اور اسلامی نظام کے قیام کی انقلابی جدوجہد کے لیے جمہوری اور دستوری ذرائع استعمال کرے گی اور نصب العین کے حصول کی یہ جدوجہد کھلم کھلا اور علانیہ ہو گی۔دستور کی یہ واضح دفعات اگر تحریکی کارکنوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ موجود ہوں، تو دعوتی کام میں پیش آنے والی مشکلات ہوں یا سیاسی رکاوٹیں اور سیاسی ناکامیاں، حالات جو بھی ہوں نہ کارکن اورنہ قیادت مایوسی کا شکار ہو گی اور نہ اس میں غصہ، نفرت، جھنجلاہٹ اور انتقام کے جذبات اُبھر سکیں گے ۔

اللہ پر توکّل کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک کارکن جتنی قوت اور اختیار رکھتا ہو، اس میں ہرممکنہ کوشش میں یکسوئی کے ساتھ لگا رہے۔ اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنا  سب کچھ اس کی راہ میں لگا دے ، پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے ،کیونکہ صرف وہی علم رکھتا ہے کہ  کس وقت کس نوعیت کی کامیابی مفید ہے اور کس وقت کامیابی میں تاخیر مفید ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے صرف رحم وکرم، محبت اور  یسّر پسند کرتا ہے۔ اس پہلو پر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو مکہ میں تیرہ سال آزمایشوں کی بھٹیوں سے گزار ے بغیر صرف ’کُن‘ فرما کر غالب کردیتا۔ اور اہل ایمان کے لیے پہلے سال میں کامیابیوں کے دروازے کھول دیتا اور مکّہ میں اسلامی ریاست قائم ہو جاتی ۔ لیکن مالک اور آقا کی حکمتیں وہی جانتا ہے۔ وہ علام الغُیوب ہے۔ انسانی عقل اپنی محدوددیت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات پر جلد جذباتی فیصلے کر بیٹھتی ہے، جب کہ دین صبر و استقامت دونوں کی تلقین کرتا ہے۔

 عام طور پر اسلامی تحریکات کو سیاسی جدوجہد میں جب مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو خود تحریک کے اندر اور باہر سے اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ عموماً رد عمل کے طور پر سارا الزام بیرونی قوتوں یا مدِمقابل عناصر پر رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ سیکولر اور لادینی عناصر کو کامیاب اور تحریکی نمایندوں کو ناکام بنانے کے ذمہ دار ہیں۔

 تحریکاتِ اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے مواقع پر نہ صرف زمینی حقائق پر مبنی تجزیہ و تحلیل کرتے وقت ممکنہ حد تک معروضی طور پر اپنی کارکردگی، منصوبہ بندی اور منصوبۂ عمل پر عمل درآمد میں انتظامی اور تربیتی کمزوریوں کا خصوصی طور پر جائزہ لے، کوئی رائے قائم کرنے میں جلدبازی نہ کریں اور پہلے سے قائم کردہ گمان پر اصرار سے بھی اجتناب کریں۔ انتخابی مہم میں اپنے اصولوں اور عوام کی نفسیات و مسائل پر اپنے موقف اور بیانیہ کو کڑی تنقیدی نگاہ سے دیکھیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بھی وہی چیزیں دُہرا رہے ہیں جن سے بچنے کی ضرورت تھی؟ کسی بھی جماعت کے الیکشن میں متوقع اہداف کے حصول میں یکساں طور پر اندرونی اور بیرونی عوامل کا دخل ہوتا ہے ۔اختصار کے ساتھ ان میں سے چندعوامل کی طرف توجہ دینا ضروری ہے:

عوامی تصویرو تصور اور منشور

نظریاتی اور اصولی تحریکات اپنے منشور پر غیر معمولی توجہ دیتی ہیں تاکہ عوام کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ وہ کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ چنانچہ معیشت، تعلیم، دفاع، معاشرتی فضا، قانون اور امن کی صورتِ حال، خواتین کے حقوق، بین الاقوامی پالیسی، زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی وہ موضوعات ہیں، جن پر سیاسی جماعتیں اپنا موقف مرتب کرتی ہیں اور اس کے اہم نکات کو مہم میں عام شہریوں تک پہنچاتی ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک غیر جانب دار تعلیمی اور تحقیقی ادارے PIDEنے اپنے سیاسی جماعتوں کے منشوروں کے تجزیہ میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منشوروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا، مگر جماعت اسلامی کو اس تقابل میں شامل نہیں کیا ۔ اس تعصب اور جانب داری کو تسلیم کرتے ہوئے، جو اس قسم کے نیم سرکاری اداروں میں پائی جاتی ہے ، سوچنا چاہیے کہ ہم اس مقابلے میں نمایاں کیوں نہیں ہوئے؟

ہم اپنے منشور کو کس طرح عوامی سطح پر ایک ایسی زبان میں پیش کریں کہ عوام اسے اپنے دل کی آواز سمجھیں۔ یہ چیز خود منشور سے زیادہ اہم پہلو ہے۔ ہر جماعت کا ایک مزاج ہوتا ہے اور قیادت اپنے بیان اور تقریروں میں جن باتوں پر زور دیتی ہے ،وہ خود تو اس سے مطمئن ہوتی ہے، لیکن اصل چیلنج اپنے سے باہر کے حلقوں اور عوامی رد عمل کا اندازہ کرناہوتا ہے، جس میں عام طور پر معروضیت (objectivity) اختیار نہیں کی جاتی۔ جو لوگ اس کے انتظامی امور کے ذمہ دار ہوتے ہیں، تحریکی قیادت کی کہی ہوئی بات کی توثیق کرتے ہوئے، وہ قیادت کے سامنے اپنی مقبولیت اور مؤثر ہونے ہی کی بات کرتے ہیں، جس سے قیادت کے ذہن میں بھی اپنی مقبولیت کا غیر حقیقی تصور راسخ ہو جاتا ہے، جب کہ بعد میں پیش آنے والے واقعات اس تصور کی تردید کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ ذیلی حلقے، نظم اور اردگرد کے لوگ ایک مبالغہ آمیزتصویر کشی کرتے ہیں ،جس پر اعتبار کرنے کا نتیجہ ایک بالکل برعکس صورتِ حال کا آئینہ دار بن کر سامنے آتا ہے۔

ایک اہم نفسیاتی غلطی یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے علاوہ دیگر جماعتوں یا ان کی قیادت کے بارے میں ہمیشہ منفی بات سوچی، کہی اور دُہرائی جاتی ہے۔ اس باب میں زبان اور لہجہ دونوں وہ ہوتے ہیں جن کی ایک داعی سے توقع نہیں کی جاتی۔ مختلف سطح پر قیادت اپنے خیال میں دوسرے کی تحقیر اور الزام تراشی کو کلمۂ حق کا اظہار سجھتی ہے جو تجربے کی روشنی میں غلط حکمت عملی ہے ۔ اصل چیز اپنی کارکردگی اور صلاحیت کو مثبت انداز سے، لیکن خودنمائی کے بغیر پیش کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو مشرکین کے بتوں تک کو تحقیرآمیز الفاظ اور لہجے میں پکارنے سے منع کیا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا قرآن کے اس واضح اصول کی پیروی ہر مقام پراور ہرمقرر نے کی ؟یہ ایک بڑا بنیادی اور اہم سوال ہے۔ اپنی کارکردگی یا اپنے پیش نظر مجوزہ تبدیلی کے پروگرام کی مثبت نمایندگی کی جگہ اگر مدِمقابل پارٹیوں پر ہمیشہ منفی انداز میں بات کی جائےتو عوام اسے تعصب سے تعبیر کرتے ہیں اور حق بات کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔

اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ ہرحلقے میں کتنے اجتماعات ہوئے، جن میں صرف منشور کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا اور دیگر افراد کی کارکردگی پر لعن طعن نہیں کی گئی۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہنگائی، اقرباپروری، لُوٹ مار، فحاشی، بیرونی قوتوں کی غلامی، مسلم اُمّہ کے مفاد سے لاپروائی جیسے موضوعات پر بات نہ ہو ۔بلکہ ان تمام موضوعات پر لازمی کھل کر بات کہے بغیر مہم نہیں چل سکتی، لیکن بنیادی اصول یہ ہے کہ بات کیسے کی گئی کہ اس کا رد عمل مثبت رہا؟ دلوں کو جیتنے کا اور نرم گفتاری کے ساتھ دلوں کو مسخر کرنے کا رہا یا تلخ وتُرش الفاظ کے ذریعے دوسروں کی کارکردگی کی تردید کرنے کا رہا؟ یہ جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم، موعظہ حسنہ اور قول لین (نرمی سے گفتگو) کا حکم دیتا ہے اور وقت کے فرعون سے بات کرنے کے لیے یہ نہیں کہتا کہ اس کے تمام کرتوتوں پر سخت تنقید کے بعد اسے حق کی دعوت دی جائے، بلکہ واضح طور پر کہتا ہے کہ طرز تخاطب میٹھا ہو، جو اس کو ہدایت سےقریب لے آئے۔ تنقید ہمیشہ مخالف کو دفاعی نفسیات پر اُبھارتی ہے، جو بات کی معقولیت اور مقبولیت کے راستے میں دیوار بن جاتی ہے۔ آج کے عوام سوشل میڈیا کی وجہ سے باخبر ہیں اور اشارتاً بات کہنے کو بھی سمجھ جاتے ہیں۔

اپنے جائزے میں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ دعوتی مہم اور سیاسی مہم کےفرق کو سمجھا جائے۔ ایک نظریاتی اور اصولی جماعت کی سیاسی مہم بھی اصلا ًدعوتی مہم ہوتی ہے، جس میں للہیت، استغفار،اللہ سے استعانت اور خصوصاً قرآن و سنت کے پیغام کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ بے شک اقامت دین کا مفہوم ہر سننے والے کے ذہن میں الگ ہوسکتا ہے۔ لیکن تحریک اسلامی کا فرض ہے کہ وہ سیاسی مہم میں اقامت دین کے مفہوم کو اس طرح بیان کرے کہ دیگر مسلکی جماعتوں کے موقف اور اس کے موقف میں فرق نمایاں ہو سکے۔ایک عام دیہاتی بلکہ شہری بھی جماعت اسلامی کو سیکولر جماعت نہیں بلکہ دینی جماعت سمجھتا ہے۔ اس لیے اس کے موقف میں قرآن و سنت کی دعوت کی توقع رکھتا ہے۔ وہ اگر صرف دوسروں پر تنقید ہی سنے، جو ہر دوسری جماعت بھی کر رہی ہوتی ہے تاکہ وہ دوسروں کو تاریک تر دکھا کر اپنے آپ کو روشن ترین دکھا سکے،تو وہ عام شہری، جماعت کو بھی مسلکی جماعتوں یا دیگر عام جماعتوں کی طرح سمجھنے لگتا ہے۔ مخاطب کی نفسیات کے پیش نظر اپنے موقف کا پیش کرنا دعوتی مہم میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اصلاح اور انقلاب کے خد و خال

انتخابی مہم کا جلسہ مسجد میں ہو رہا ہو یا میدان میں، ایک سننے والے کے لیے اہم چیز اعداد و شمار پر مبنی غیر جانب دارانہ موقف اور اس کے بعد تحریک کی جانب سے اس مخصوص مسئلے کا مجوزہ حل پیش کرنا ہے ۔ یہ اسلوب ہمارے طرزِ بیان کو مؤثر بناتا ہے، جب کہ ماضی کے حکمران کا نام لے کر یا اس جماعت کا نام لے کر اس کی ناکامی کا مبالغہ آمیز تذکرہ، تحریک کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے جلسے میں موجود عام سامعین بھی بجائے قریب آنے کے کچھ دور ہو جاتے ہیں۔دعوتی مہم کا ہدف اور مقصد ہم خیال اور ہمدرد بنانا ہوتا ہے، لوگوں کو دُور کرنا نہیں۔ اس بات کے جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم نے دعوتی اخلاقیات اور انبیا علیہم السلام کی سنت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس مہم میں کتنے دل و دماغ جیتے اور کتنوں کو دُور کیا؟

کارکردگی کی مثال

جن مقامات پر تحریک ماضی میں کسی اتحاد کا حصہ رہی ہو، خاص طور پر ان مقامات پر اس کے قول سے زیادہ اس کی کارکردگی لوگوں کو فیصلہ کرنے میں کارگر ثابت ہوتی ہے ۔ایسے مقامات پر محض نظری گفتگو اور دعوے متوقع نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔

دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے مقامات پر عام شہریوں سے ہمارے رابطے میں کیا کمی رہی ہے؟ مقامی مسائل میں ہم نے آگے بڑھ کراگر ان کے مسائل کو کسی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود حل نہیں کیا تو محض ہمارے خطبات کی تکرار اور پوسٹروں کی بھرمار انھیں متاثر نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا کسی ایک شہر میں نہیں، ایک گاؤں میں یا ایک محلے میں دعوتی مہم کے حصے کے طور پر ہر ہفتہ ایک طبی کیمپ لگایا گیا اور ڈاکٹر صاحب اور عملے نے خوش اخلاقی کے ساتھ مریضوں کی تیمارداری اور صحیح تشخیص کے ساتھ ان کی امداد کی؟ اگر اس نوعیت کے فلاحی کام کیے ہیں تو وہاں کسی عظیم الشان جلسے کی ضرورت نہیں ہوگی،بلکہ عوام بغیر کسی تقریر سنے اور سیاسی جلسے کا انعقاد کیے تحریک کو ووٹ دیں گے۔ اگر کسی مقام پر تحریکی فکر کے کسی ادارے، اسکول یا کالج نے تحریکی مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ادارے میں طلبہ وطالبات کی ذہنی، فکری، عملی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا ہو اور اس میں اساتذہ و معلمات اور ماحول وہ رہا ہو، جیساکہ تحریک ملک میں تعلیمی ادارے قائم کرنا چاہتی ہے، تو اسکول اور کالج کا ہر بچہ اور اس کے والدین کا ووٹ تحریک کے حق میں ہوگا۔

یہ چھوٹے چھوٹے کام ریاستی اقتدار کے بغیر بھی کیے جا سکتے ہیں اور جب یہ دعوتی جذبے کے ساتھ رضائے الٰہی کے حصول اور آخرت میں اجر کی نیت سے کیے جائیں گے، تو جس کے لیے یہ کام کیے جا رہے ہیں وہ وعدہ فرماتا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچ ہی ہوتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو جنّت دے گا، چاہے وہ اس دنیا میں اقتدار نہ بھی حاصل کر سکیں، مگر وہی اصل کامیاب افراد ہیں۔

سیاسی شعور کی جانب ایک قدم

۷۵سال کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے جوش و خروش کے زاویہ سے حالیہ انتخابات تمام انتخابات سے زیادہ کامیاب انتخابات ہیں کیونکہ اس انتخاب نے  جس عوامی شعور کو بیدار کیا، وہ اس سے پہلے کبھی وجود میں نہیں آسکا۔ ماضی میں ہارنے والی جماعت پہلا کام یہ کرتی تھی کہ پریس کانفرنس میں انتخابات کو متنازع اور غلط قرار دے۔ لیکن آج چند لیڈر نہیں، بلکہ ملک کا بچہ بچہ انتخابات کا ناقد ہے۔ انتخابی دھاندلی کے مختلف طریقوں پر عام بحث و مباحثہ کر رہا ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔

یہ عوامی شعور اس لیے ایک حقیقت ہے کہ اس کی بنا پر جن سیاسی جماعتوں کو سرکاری انتظامیہ ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی ہمدردی پر بھروسا تھا، یا جو اپنی ناجائز دولت کے ناجائز استعمال پر اعتماد کرتے تھے ،ان سب کو اس عوامی شعور نے کھلے عام آئینہ دکھا کر ایسے اُمیدواروں کو ووٹ دے کر ان تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا، جن پر انتظامی یا عدالتی وسیلوں کو برق رفتاری سے استعمال کرتے ہوئے، پاک صاف ہو کر دوبارہ قسمت آزمائی کرنے والوں کو بھروسا تھا۔ یہ عوامی شعور وہ اثاثہ ہے جسے ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تما م عناصر کو پارٹی تعصبات سے بالاتر ہوکر مثبت انداز میں صحیح رُخ دینے کی ضرورت ہے۔

 ان انتخابات کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ اس زمین کی زرخیزی میں کمی نہیں ہے۔ عوام کو اپنی قوت کا اندازہ ہو گیا ہے، وہ پُرامن تبدیلی کے لیے متحد ہیں۔ ان کی اس ذہنی اور جذباتی کیفیت کو مزید مثبت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قوت جو تعمیری کام کر سکتی ہے، وہ کسی شیطانی بہکاوے میں آکر لاوے کی طرح پھٹ نہ پڑے ۔ اللہ سے اچھی امید کے ساتھ اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد، دستوری ذرائع کا استعمال، قول لین کے ساتھ کرنا ہی دین کی حکمت ہے ۔ جن حالات میں انتخابات ہوئے ہیں، وہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں کہ آنے والے چند برسوں میں اداروں پر اعتماد کی بحالی ہی سب سے مشکل کام ہے، جس پر پوری قوم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ملکی ادارے غیرجانب دار اور ملکی مفاد کو اوّلیت نہیں دیں گے اور اپنے مفادات کے غلام بنے رہیں گے، ملک میں استحکام نہیں آسکتا۔ قومی سرمایے سے قوت اور اختیار حاصل کرنے والے طاقت ور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں واپس جانا ہوگا اور یہ فیصلہ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے دُہرا دیا ہے۔ یہ ووٹ جو عوامی شعور نے دیا،اس کا مظاہرہ آج سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ زیرِ لب الزام اور محدود سطح پر لعن طعن ہمیشہ تھا، لیکن قوم نے بڑے پیمانے پر آزاد نمایندوں کے حق میں ووٹ دے کر ان اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے جو سیاسی منجم لگا رہے تھے، اور جو ہر آمرانہ، سرمایہ دارانہ ماحول میں پلنے بڑھنے والے اہلکاروں کے ذہن میں پائے جاتے ہیں۔

قومیں ایسے ہی وجود میں آتی ہیں۔ جب خاکہ اُبھر کر سامنے آتا ہے اس میں رنگ بھرنے کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔ یہ رنگ محبت ،اطاعت، ایمانداری اور دین اور ملک کے مفاد کو محفوظ کرے گا۔تحریک اسلامی کو صبغت اللہ کو اپنی پہچان بنانا ہوگا۔اگر اس کا ہر اقدام دعوتی اور اصلاحی جذبے کے ساتھ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ملک ِعزیز کو اپنے قیام کے مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ یہ ملک بنا ہی اس لیے تھا کہ یہاں وہ نظام عدل قائم ہو جس کا درس ہمیں مدینہ منورہ میں قائم کردہ ریاست سے ملتا ہے۔ قائداعظم، علّامہ اقبال اور سیّد مودودی ایسی ہی عادلانہ، نہ کہ آمرانہ ریاست کے قائل اور علَم بردار تھے۔

 _______________

آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اشاعت

دُنیا کے ملکوں کے دساتیر میں جن شہری حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے، ان میں آزادیٔ رائے ، اجتماع، ملکیت، جان و مال، شہرت وغیرہ کا تحفظ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تمام انسانوں کے لیے جو ہدایت نازل فرمائی ہے،وہ سب دساتیر سے زیادہ اکرامِ انسانیت کی تعلیم دیتی اور ایسے قوانین فراہم کرتی ہے، جو آنے والے ہردور میں انسانوں کی جان، مال، عزّت، شہرت اور آزادیٔ فکر وغیرہ کو بنیاد شمار کرتی ہے۔

اسلام کا یہ اعجاز ہے کہ وہ نامکمل ہدایات نہیں دیتا۔ اگر ایک عمل کی آزادی دیتا ہے تو ساتھ ہی وہ حدود بھی متعین کردیتا ہے، جنھیں پار کرنا، قانون کو حرکت میں لے آتا ہے۔ قرآنِ عظیم نےدین اسلام کی اقامت کے حوالے سے واضح الفاظ میں اُمت مسلمہ کو باضابطہ طور پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور حاکمیت ِ اعلیٰ کے قیام کے لیے ذمہ داری سونپی ہے۔ قیامت تک یہ ذمہ داری ادا کرنے اور جواب دہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ مگر ساتھ یہ بات بھی طے کردی ہے کہ کسی فرد پر جبری طورپر کوئی تعلیم نافذ نہیں کی جائے گی۔ کسی غیرمسلم کو مجبور کرکے مسلمان نہیں بنایا جائے گا۔

لیکن چند ایسے افراد کا ایک گروہ اور ان کی پشت پناہی کرنے والے بعض بیرونی اور اندرونی ادارے، جو ببانگ ِدہل اپنی تحریروں میں دُنیا کے تمام مسلمانوں کو اس وقت تک ’کافر‘ ماننے پر اصرار کرتے ہیں، جب تک کہ وہ اُن کے وضع کردہ ایک جھوٹے مدعیِ مسیح و نبوت کو اپنا رہنما  نہ مان لیں۔ ان قادیانی یا مرزائی یا احمدی افراد کی شائع کردہ ایک تصنیف تفسیرصغیر  کی طباعت اور پاکستان اور ملک سے باہر اس کی تقسیم کرنے والے ایک فرد کے خلاف ملکی قانون کی رُو سے ایک مقدمہ (FIR) ۲۲/۶۶۱، ۶ دسمبر ۲۰۲۲ء کو چناب نگر تھانے میں دائر کیا گیا کہ ’’پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ء کے سیکشن ۱۷ ، ۹ (ب) اور ’تعزیراتِ پاکستان‘ (Pakistan Penal Code) کے سیکشن ۲۹۸-سی اور ۲۹۵-بی کے تحت سزا دی جائے، چنانچہ اسے قید کردیا گیا۔

مجرم کی جانب سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجداری درخواست دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے ایک فنی نکتہ کی بناپر یعنی مجرم نے یہ جرم ۲۰۱۹ء میں کیا تھا، اور قانون کا نفاذ ۲۰۲۱ء میں ہوا اور چونکہ مجرم کے جرم کرتے وقت یہ قانون حرکت میں نہیں تھا، اس لیے اس قانون کے تحت اس کی گرفتاری غیرقانونی تھی۔

محترم چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ نصیحت بھی فرمائی ہے: ’’(۶) عقیدے کے متعلق مسائل سے نمٹتے وقت عدالتوں پر لازم ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں…(۱۶) مذہب کے خلاف جرائم سے نمٹتے ہوئے جذبات، حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں‘‘___ چنانچہ فنی بنیاد پر مجرم کو رہا کردیا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے قطع نظر جو پہلو زیادہ غورطلب ہے، وہ یہ کہ اگر تفسیرصغیر ، جیساکہ نام سے ظاہر ہے، قرآن کی تفسیر ہونی چاہیے، اور ۹۷ فی صد مسلم آبادی کے ملک میں ایک ایسا فرد، جو قرآن کے واضح حکم یعنی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل نہیں ہے ، اور ایک جھوٹے مدعی کو نبی یا مجدد مانتا ہے تو FIR میں درج دیگر دفعات، جن کا تعلق توہینِ قرآن و رسالتؐ سے ہے،انھیں فیصلے میں کیوں مکمل طور پر ایسے نظرانداز کردیا گیا ہے، جیسے ان کا ذکر فردِ جرم میں ہوا ہی نہ ہو؟

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ: کیا آزادیٔ رائے کا اصول، چاہے وہ دستور ِ پاکستان میں ہو، ایک غیرمسلم قادیانی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی من مانی تفسیر قرآن کو ملکی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے (دیکھیے: ۲۹۸-سی، پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈ ایکٹ ۲۰۱۱ء، سیکشن ۷،۸،۹) تفسیرصغیر کے عنوان سے مسلمانوں کو دھوکا دےکر ایک ایسی تحریر جو قادیانی فکر کی نمایندگی کرتی ہے، مسلمانوں میں تقسیم کرے؟ کیا اسی کا نام آزادیٔ اظہار ہے؟

پاکستان کا ہرمسلمان شہری شریعت کے منافی یہ حق کسی قادیانی، فرد یا ادارے کو دینے پر تیار نہیں ہے، اور نہ یہ حق دستورِ پاکستان اور ’قانون تعزیراتِ پاکستان‘ کسی غیرمسلم کو دیتے ہیں۔  اندریں حالات، اس فیصلے کو قانونی کارروائی کے ذریعے کالعدم کرانا ایک دینی اور قومی فریضہ ہے۔

اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں ہے جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی زندگی کی اصلاح کرتا ہو اور جس کا کُل سرمایۂ حیات کچھ عبادات، چند افکار اور چند رسوم و رواج پر مشتمل ہو۔ اس کے برعکس یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو خدائے بزرگ و برتر اور اس کے نبی صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی صورت گری کرتا ہے، اور حیاتِ انسانی کے ہرپہلو کو خداکے نُور سے منور کرتا ہے۔ خواہ وہ پہلو انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا تمدنی، مادی ہو یا روحانی، معاشی ہو یا سیاسی، اورملکی ہو یا بین الاقوامی ۔ اسلام کی اصل دعوت یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو اور دل کی دُنیا سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہرگوشے تک خالقِ حقیقی کی مرضی پوری ہو۔ اور یہ کہ مسلمان نام ہے اس نظریاتی انسان کا، جو ایک طرف اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت کے لیے خالص کرلیتا ہے، اور دوسری طرف خدا کے دین کو تمام روئے زمین پر غالب کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔

اسلام کا انقلابی پروگرام

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے جس دین کو پسند فرمایا ہے وہ اسلام ہے، اس کو چھوڑ کر جو راہ بھی اختیار کی جائے گی، وہ دُنیا اور آخرت میں ناکامی اور نامرادی کی راہ ہوگی:

  • اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ (اٰل عمرٰن۳:۱۹) بے شک خدا کے نزدیک تو اصلی دین اسلام ہے۔
  • وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج (اٰل عمرٰن۳:۸۵) اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

اپنے پیرووں سے اس دین کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو اس کے تابع کردیں اور زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے روشنی اور ہدایت صرف اسی دین سے حاصل کریں اور کسی دوسرے سرچشمہ کی طرف رجوع نہ کریں ورنہ ان کی یہ روش شیطان کی پیروی کے مصداق ہوگی:

  • يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۰۸)اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کی راہ پر نہ چلو۔

’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی میں صرف ہو۔ ہم اپنی تمام انفرادی اور اجتماعی، نجی اور معاشرتی، معاشی اور سیاسی، اخلاقی اور تمدنی سرگرمیوں کو خدا کی ہدایت کے تابع کردیں۔ صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے روشنی طلب کریں۔جھکیں تو صرف اس کے آگے، مانگیں تو صرف اس سے، رجوع کریں تو صرف اس کی طرف، بڑھیں تو صرف اسی کی راہ پر۔ ہمارا مقصد صرف خالق و مالک کی رضا کا حصول ہو اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی ناراضی کی پروا نہ کریں۔ یہی معنی ہیں اسلام کے اور یہی حقیقت ہے توحید کی۔

پھر دین میں پورے داخل ہونے کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہمارا مقصد ِ زندگی اپنی ذاتی اغراض کا حصول نہ ہو، بلکہ ہم اپنی زندگیوں کو ایک اعلیٰ تر نصب العین کے لیے وقف کردیں اور یہ نصب العین ہے اقامت دین اور غلبۂ حق!

فریضہ اقامتِ دین

اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا ؑ کو جس مقصد کے لیے بھیجا وہ یہی مقصد ِ اعلیٰ تھا کہ انسانوں تک حق کی دعوت کو پہنچائیں، بالآخر دین کو غالب اور خدا کے کلمہ کو ہرچیز پر بلند کردیں:

  • ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْـرِكُوْنَ۝۹ۧ (الصف ۶۱:۹) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں (اور نظاموں) پر غالب کردے ، خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

انبیائے کرام علیہم السلام کا بنیادی فریضہ یہی تھا کہ حق کی شہادت دیں اور زندگی کے پورے نظام کو اس کے تابع کردیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کام آپؐ کی پوری اُمت کے سپرد کیا گیا ہے کہ وہ اس شمع کو روشن رکھے، جسے انبیاعلیہم السلام نے روشن کیا۔ اس جھنڈے کو بلند رکھے جسے ان مقدس ہستیوں نے اُٹھایا تھا اور قیامت تک قیامِ دین کی جدوجہد میں مصروف رہے:

  • وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳)اور اس طرح ہم نے تم کو وسط شاہراہ پر قائم رہنے والی اُمتِ وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر (اللہ کے دین کی) گواہی دو اور رسولؐ تم پر (اللہ کے دین کی) گواہی دے۔
  • يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ (النساء۴:۱۳۵) اے ایمان والو! حق کے برپا کرنے والے بنو، اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے۔

اس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے ’خیرِ اُمت‘ بنایا ہے اور اس کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ دین کو قائم کرے، نیکیوں کا حکم دے اور بُرائیوں کو روکے اور خدا کی طرف انسانوں کو بلائے:

  • كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) تم بہترین اُمت ہو جو انسانوں کے لیے برپا کیے گئے ہو۔ نیکی کا حکم دیتےہو، بُرائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔

یہ ذمہ داری پوری اُمت کی ہے اور اس اُمت کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کارِعظیم کو انجام دینے کے لیے ایک منظم ادارے کی شکل اختیار کرے اور اگر خلافت علیٰ منہاج النبوت کا یہ ادارہ موجود نہ ہو تو پھر فرداً فرداً ہرشخص اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ذمہ دارہے، اور ان افراد کا فرض ہے کہ اس کوانجام کو دینے کے لیے وہ مناسب صورت اختیار کریں:

  • وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴  (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴) اور چاہیے کہ تم میں سے ایک گروہ ہو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ تین باتیں واضح ہوجاتی ہیں:

            ۱-         اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم ہرقسم کے شرک کو ترک کردیں اور اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت میں دے دیں۔

            ۲-         ہماری ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ دین کو اپنی ذات پر قائم کریں بلکہ بحیثیت مسلمان یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ دین کو قائم کریں، اور خدا کے بندوں کو ظلم کے غلبے سے نجات دلا کر دینِ حق اور امن وعدل کی طرف لائیں۔

            ۳-         اقامت ِدین کا یہ فریضہ پوری اُمت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک طرف خود دین کے قیام کی جدوجہد کریں، اور دوسری طرف دین کی سربلندی اور اس مرکزی نظامِ امر کے قیام کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں تاکہ اُمت پوری شانِ مرکزیت کے ساتھ دعوت الی الخیرکا عظیم کام انجام دے سکے۔

یہ ہے ہم سب مسلمانوں سے اسلام کا ناقابلِ انکار مطالبہ!

جماعت اسلامی کا مقصد

آج پورے عالم اسلام میں مسلمان جن مشکلات اور مصائب سے دوچار ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں اپنے ’خیراُمت‘ ہونے کا احساس باقی نہیں رہا ہے، اور وہ اپنے مسائل کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں حل کرنے کے بجائے محض اپنی ناپختہ عقل اور تجربات یا وقت کے چلتے ہوئے نظاموں کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح فی الحقیقت اپنی مشکلات کو پیچیدہ تر کرتے جارہے ہیں۔ ہمارے لیے فلاح کی صرف ایک راہ ہے اور وہ ہے محمد رسولؐ اللہ کے دین کی اطاعت اور اس دین کے قیام کی راہ۔

جماعت اسلامی کے قیام کا اصل محرک قرآن و سنت کے واضح احکام اور مسلمانوں کی تاریخ کے ناقابلِ انکار تقاضے ہیں۔ یہ جماعت نہ ان محدود معنی میں ایک مذہبی یا اصلاحی جماعت ہے، جن میں یہ الفاظ عام طور پر بولے جاتے ہیں، اور نہ ان معنوں میں ایک سیاسی جماعت ہے، جن میں سیاسی محاورے میں یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی ایک اصولی اور نظریاتی تحریک ہے، جو پوری انسانی زندگی کے لیے ایک جامع اور عالم گیر نظریۂ حیات پر یقین رکھتی ہے اور اس کو قائم کرنے کے لیے ایک واضح پروگرام رکھتی ہے۔ یہ جماعت دینِ حق کو انسانی عقائد و افکار میں، اخلاق و عادات میں، علوم و فنون میں، ادب و آرٹ میں، تمدن و تہذیب میں، مذہب و معاشرت میں، عدالتی و معاشی معاملات میں، سیاست اور نظمِ مملکت میں اور بین الاقوامی تعلقات و روابط میں عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔

جماعت اسلامی دنیا کے بگاڑ کا حقیقی سبب اخلاقی بگاڑ کو سمجھتی ہے۔ اس کی نگاہ میں تمام خرابیوں کا مرکز، خدا کی اطاعت سے انحراف، آخرت کی جواب دہی سے بے نیازی اور انبیا علیہم السلام کی رہنمائی سے رُوگردانی ہے۔ یہ جماعت نوعِ انسانی کے لیے فلاح کی صرف ایک ہی صورت دیکھتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور گوشوں سمیت خدائے واحد کی بندگی و اطاعت کے اصول پر قائم ہو۔ یہ بندگی و اطاعت آج اپنی صحیح اور کامل صورت میں صرف سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی میں موجود ہے، اور جس کی عملی صورت ہمیں آپ کے اسوئہ مبارکہ میں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقے میں ملتی ہے، اور افراد کی سیرتوں سے لے کر قوموں کے اجتماعی طرزِ عمل تک ہرچیز کو اس اخلاقی رویے پر قائم کیا جائے جس کی بنیاد آخرت کی جواب دہی کے احساس پر رکھی گئی ہو۔ اس جدوجہد کا نام اقامت ِ دین ہے۔ یہی جماعت اسلامی کا مقصد و نصب العین ہے اور اس کو جماعت کا دستور اس طرح پیش کرتا ہے:

جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔ اور اس نصب العین کی یہ تشریح دستور میں کی گئی ہے:

’اقامت ِدین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے ، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہویا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزے اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے اور ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہرمومن کو بطورِ خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے، اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہل ایمان کو اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

اگرچہ مومن کا اعلیٰ مقصد ِ زندگی ، رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دُنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے، اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین رضائے الٰہی ہے، جو اقامت دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ۴)

جماعت اسلامی کی دعوت

جماعت اسلامی کی دعوت تمام انسانوں کو، بالخصوص مسلمانوں کو یہ ہے:

  • خدا کی بندگی کرو، خدا کو پورے معنی میں الٰہ، ربّ، معبود، حاکم، آقا، مالک، ہادی، قانون ساز، محاسب اور جزا دینے والا تسلیم کرو اور پوری زندگی کو اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کردو اور زندگی کا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلائو۔
  • جو شخص اسلام کو قبول کرنے اور ماننے کا دعویٰ کرتا ہے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ اپنی زندگی سے منافقت،دو رنگی اور تناقض کو دُور کردے۔ منافقانہ رویہ یہ ہے کہ انسان جس دین کی پیروی کا دعویٰ کرے، اس کے بالکل برخلاف نظامِ زندگی کو اپنے اُوپر مسلط پاکر راضی اور مطمئن رہے اور اس کو بدل کر اپنے دین کو غالب کرنے کی کوئی جدوجہد نہ کرے۔ ہرمسلمان سے ہم کہتے ہیں کہ آیئے! اپنی زندگیوں سے دو رنگی اور دو رُخے پن کو دُور کریں اور مخلص مسلمان بنیں۔ صرف خدا، اس کے رسولؐ اور اس کے دین پر راضی ہوجائیں اور سب اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائیں۔
  • اپنے آپ کو بندگی ٔ ربّ کے حوالے کردینا، اور اپنی زندگیوں کو تناقضات سے پاک کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس اجتماعی نظام میں انقلاب چاہیں، جو آج لادینیت،فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور اس نظام کی جگہ اسلام کا حیات آفرین نظام قائم کریں۔ دُنیا کے معاملات کی باگ ڈور جو آج ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو خدا کی ہدایت سے بے نیاز اور اس کے قانون کے باغی ہیں، ان کی گرفت سے نکل کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں آئے، جو خدا کے مطیع اور فرماں بردار ہیں۔

 قیادت کی یہ تبدیلی ایک ہمہ گیر عمل ہے اور زندگی کے ہرشعبے اور ہر مقام پر یہ تبدیلی واقع ہونی چاہیے۔ جب تک علوم وفنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذِ قانون، ملکی سیاست وعدالت،مالیات، صنعت و حرفت اور تجارت، انتظام ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، غرض ہرشعبۂ زندگی کی قیادت اور امامت خدا کے فرماں بردار بندوں کے ہاتھوں میں منتقل نہیں ہوجاتی، زندگی کا نظام درست نہیں ہوسکتا۔ ہماری دعوت تمام مسلمانوں کو یہ ہے کہ آیئے! دین کو اپنی زندگیوں میں بھی قائم کریں اور پورے نظامِ زندگی پر بھی ۔ یہ ہے صراطِ مستقیم کی دعوت!

جماعت اسلامی کا لائحۂ عمل

اس مقصد کو حل کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے ایک مفصل اور مربوط لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ اس پروگرام پر یہ جماعت مسلسل کام کررہی ہے۔ یہ لائحۂ عمل چار اجزا پر مشتمل ہے:

۱- افکار ونظریات کی اصلاح اور ان کی تعمیر: جماعت کی اوّلین کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں میں وہ ایمان تازہ کیا جائے، جس کی دعوت رسولؐ اللہ نے دی تھی۔ اسلام سے ہماری جذباتی وابستگی بڑی گہری ہے، لیکن ہم اس تفصیلی ایمان اور علم سے محروم ہیں، جو زندگی کو خدا کے قانون کے مطابق گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ پھر ہمارے ذہن و فکر پر ایک طرف ’قدامت‘ کا غلبہ ہے، جو وقت کی حقیقی ضروریات تک کے احساس سے عاری ہے، تو دوسری طرف مغربی فکروفلسفہ کا تسلط ہے، جو ہمارے نوجوان اور ذہین طبقے کو مغرب کی لادینی تہذیب کی طرف کھینچے لیے جارہا ہے۔

جماعت اسلامی کی کوشش یہ ہے کہ ایک طرف غیراسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اسلام کی شاہراہِ مستقیم کونمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم و فنون اور نظامِ تہذیب کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ ہے۔ تیسری طرف تجدّد پسندی کے اس فتنے کا بھرپور مقابلہ کیا جائے، جو اسلام کے نام پر اسلام ہی کی بیخ کنی میں مصروف ہے اور جو زمانہ کو اسلام کے مطابق چلانے کے بجائے اسلام کوزمانے کےمطابق بدلنا چاہتا ہے۔

جماعت اسلامی، اسلام کی ابدی صداقتوں کو ان کے حقیقی رنگ میں پیش کرنے میں مصروف ہے اور اس کا لٹریچر مسکت دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام ہر زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور دُنیا اور عقبیٰ دونوں کی کامیابی کا ضامن ہے۔ یہ لٹریچر پوری وضاحت کے ساتھ اس امر کو پیش کرتا ہے کہ دورِ جدید کے مسائل اور معاملات کو اسلام کے مطابق کس طرح حل کیاجاسکتا ہے؟ اور آج کی دُنیا میں قرآن و سنت کے مطابق ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہوسکتی ہے؟ جماعت اسلامی کے اہل قلم نے اس مقصد کے لیے کتب اور مقالات لکھے ہیں، اور دُنیا کی زبانوں سے لٹریچر کو ترجمہ کرکے مطالعے کے لیے فراہم کیا ہے۔ ہمارے رسالے اور اخبار انھی حقیقتوں کو پیش کر رہے ہیں۔ ہزاروں دارالمطالعے جماعت کی زیرنگرانی اس خدمت کو انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے کارکن گھر گھر لٹریچر پہنچاکر تعمیر افکار کی یہی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ تبدیلی وہی مستقل اور مفید ہوتی ہے، جس کی جڑیں ایمان اور یقین میں ہوں اور جو دل ودماغ میں پیوست ہوں۔

۲- صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت:جماعت اسلامی کے پروگرام کا دوسرا جزو اچھے افراد کی تلاش اور اُمت کے تمام حق پسند عناصر کو ایک مرکز پر جمع کرکے ان کی تمام صلاحیتوں کو دینِ حق کے قیام کے لیے بروئے کار لانا ہے۔

ہم اپنے معاشرے میں ان مردوںاور عورتوں کو ڈھونڈتے ہیں جو پرانی اور نئی خرابیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوں، جن کے اندراصلاح کاجذبہ موجود ہو اور جو حق کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں، خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط، ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہیں ،ہم انھیں گوشۂ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی وعمل میں لانا چاہتے ہیں۔

ایسے لوگ اگر وہ ہمارے نظام کو کُلی طور پر اختیار کرلیں تو ہم انھیں جماعت اسلامی کا ’رکن‘ بنا لیتے ہیں اور اگر وہ رکنیت کی شرئط کو پورا کیے بغیر صرف تائید و اتفاق پر اکتفا کریں تو ان کو اپنے حلقۂ متفقین میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ہمارے معاشرے کا صالح عنصر جو منتشر ہونے کی وجہ سے مؤثر نہیں، ایک مرکز پر جمع ہوجائے اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کی منظم سعی میں لگایا جائے۔ پھر ہم ان عناصر کو منظم ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی سیرت و اخلاق کا تزکیہ کرنے میں مدد فراہم کرتے اور قابلِ اعتماد بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں، تاکہ اسلام کے کارکنوں میں وہ صالح سیرتیں اور تعمیری صلاحیتیں پیدا ہوں، جو قرآن و سنت کے مطابق نظامِ زندگی کو تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

۳- اصلاحِ معاشرہ:اس طرح جو قوت جماعت اسلامی کو حاصل ہوتی ہے، وہ اسے معاشرے کی اصلاح اور اس کی اسلامی بنیادوں پر تعمیر کی جدوجہد میں صَرف کرتی ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کا کام بڑا اہم اور وسیع کام ہے۔ اس میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاقِ عامہ کے تحفظ سے لے کر طبّی امداد،یتیموں اوربیوائوں کی مدد،طلبہ کی اعانت تک اور مسجدوں کی تعمیر اور فرقہ واریت سے بالاتر رہتے ہوئے ان کی تنظیم شامل ہے۔ اس طرح ہمارے پیش نظر اصلاحِ معاشرہ کے کاموں میں اس قوت کو منظم کرنے سے لے کر رشوت، خیانت، اخلاق باختگی کے انسدادتک اور تعلیم بالغاں سے لے کر ’اپنی مدد آپ‘ کے اصول پر خدمت ِ خلق کے کاموں تک تمام چیزیں شامل ہیں۔ ہمارے کارکن اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں یہ کام کر رہے ہیں تاکہ اس ذہنی، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے سارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے اور عوام سے لے کر خواص تک سب میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت اور سچّے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا ہوسکے۔ مسلمان ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ہوں، ان کے مال، جانیں اورآبرو ایک دوسرے سے محفوظ رہیں اور شانہ بشانہ جذبۂ اخوت سے سرشار ایک اعلیٰ مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔

۴- نظامِ حکومت کی اصلاح: اصلاحِ معاشرہ کے اس کام کے ساتھ ہم اس بات کے لیے بھی جدوجہد کرر ہے ہیں کہ نظامِ حکومت درست ہو اور زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آئے، جو اسلام کو اپنی زندگیوں پر بھی قائم کریں اور اپنے ملک و ملّت پر بھی۔

زندگی کے موجودہ بگاڑ کو درست کرنے کے لیے اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ نظامِ حکومت کو درست کرنا اَزبس ضروری ہے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق اور تقسیمِ رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اثرات پھیلا رہا ہو، اس کےمقابلے میں بنائو اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں، کبھی کارگر نہیں ہوسکتیں۔ لہٰذا، اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظام کوفسق و ضلالت کی راہ سے ہٹاکر دینِ حق کے صراطِ مستقیم پر چلانا چاہتے ہیں، تو ناگزیر ہے کہ بگاڑ کو مسند ِ اقتدار سے ہٹانے اور بنائو کو اس کی جگہ فائز کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اہل خیروصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند برسوں کے اندر وہ کچھ کرڈالیں گے، جو غیر سیاسی تدبیروں سے مدت تک نہیں ہوسکتا۔

یہ تبدیلی کس طرح ہوسکتی ہے؟ ہمارے نزدیک اس کا مؤثر راستہ انتخابی جدوجہد ہے۔ ضرورت ہے کہ رائے عامہ کی تربیت کی جائے۔ عوام کے معیارِ انتخاب کو بدلا جائے۔ انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ایسے صالح اور باصلاحیت لوگوں کو ذمہ داری اور اختیار کے مقام پر پہنچایا جائے، جو ملک کے نظام کو خالص اسلامی شورائیت کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔

جماعت اسلامی دعوتی، قانونی اور دستوری طریقہ سے ایک اسلامی جمہوری نظام قائم کرنے کی داعی ہے۔ وہ اپنے لیے نہیں، اسلام کے لیے اقتدار چاہتی ہے اور اس کی کوشش یہ ہے کہ ملّت کا صالح ترین عنصر اس کی زمامِ کار سنبھالے، تاکہ مسائل اُلجھنے کے بجائے سلجھیں اور ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔

جماعت اسلامی کا یہ مستقل پروگرام ہے اور اس لائحہ عمل کے ذریعے وہ ملک کی پوری زندگی پر دینِ حق کو قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ یہ ملکِ عزیز پوری دُنیا کے سامنے دین کی شہادت دے۔

جماعت اسلامی کی خصوصیات

جماعت اسلامی چند بنیادی خصوصیات کی بنا پر دوسری تنظیموں اور اداروں سے الگ ممتاز مقام رکھتی ہے۔ اس کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں:

۱- اصولی تحریک:جماعت اسلامی ایک اصولی اوردینی تحریک ہے، جو پورے نظامِ زندگی پر اسلامی نظریۂ حیات کو غالب اور حکمران کرنا چاہتی ہے۔ اس تحریک کا تعلق نہ کسی خاص گروہ سے ہے اور نہ کسی خاص مقام سے۔ اس کےدروازے ہراس شخص کے لیے کھلے ہیں، جو خدا کو اپنا حاکم اعلیٰ، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اورہادی، اورآپؐ کی لائی ہوئی ہدایت کو اپنی زندگی کا ضابطہ مانتا ہو۔ اس میں نہ رنگ کی تفریق ہے، نہ نسل کی، نہ مقامی عصبیت کا اس میں کوئی دخل ہے اور نہ علاقائی تعصب کا۔ یہ تمام انسانوں کو ایک کلمۂ حق پر جمع کرتی ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی کی بنیاد خدا اور اس کے آخری رسولؐ کی ہدایت ہے۔ اس میں بڑائی اور عزّت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ اس کا مسلک اورمشن صرف اسلام ہے۔ یہ اس فرد،ادارے اور تنظیم کی دوست ہے جو اسلام کو دوست رکھے اور اس کے مدِمقابل ہے جواسلام سے غداری کرے۔ یہ اس سے جڑتی ہے جو اسلام سے جڑے، اور اس سے کٹتی ہے جو اسلام سے کٹے۔ اس تحریک میں اسلام اور بنی آدم سے محبت ہے اور کسی عصبیت کےلیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

۲- اجتماعی تحریک :جماعت اسلامی ایک اجتماعی تحریک ہے۔ یہ اسلام کی دعوت کو صرف نظری اور کتابی حدتک ہی پیش نہیں کرتی، بلکہ یہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسے عملاً قائم کرنے کےلیے سرگرم ہے۔یہ جذبۂ جہاد کو بیدار کرتی ہے۔ یہ منکرکے خلاف تمام قوتوں کو صف آرا کرتی ہے اور معروف کےقیام کے لیے اپنی ساری طاقتیں صرف کر رہی ہے۔ اس کا اصل میدان گوشۂ عافیت نہیں ہے، بلکہ کارزارِ حیات ہے۔ یہ دُنیا سے فرار کی نہیں دُنیا کی تسخیر کی داعی ہے۔ اس کا کام صرف وعظ و تلقین تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ عملی جدوجہد کررہی ہے اور حق کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ یہ معاشرے کی ایک قوت ہے اور اجتماعی زندگی کے رُخ کو موڑ کر اسے دینِ حق کے تابع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ زندگی سے بھاگنے والوں کے لیے جائے امان نہیں، بلکہ حق کی خاطر جان د ینے والوں کی ’شہادت گہِ اُلفت ‘ ہے۔

۳- انقلابی دعوت: جماعت اسلامی ایک مثبت ، جامع اور ہمہ گیر انقلاب کی داعی ہے۔ یہ طاغوت سے مصالحت کے بجائے اس کے پورے نظام سے پنجہ آزمائی کے لیے اُٹھی ہے۔ یہ کسی جزوی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر تبدیلی کے لیے کام کرر ہی ہے۔ یہ زندگی کے سارے شعبوں کی اصلاح و تعمیر چاہتی ہے اور اس انقلاب کی دعوت دیتی ہے، جسے رسولِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا تھا، جسے آپؐ کے راشد خلفاء نے مستحکم کیا تھا۔ جس کا سرچشمہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ ہیںاور جس کی دعوت ہردور اورہرزمانہ میں صلحائے اُمت دیتے رہے ہیں۔ یہ تمام انسانوں کو شخصیات کی طرف بلانے کے بجائے قرآن و سنت کی اصولی دعوت اور جدوجہد کی طرف بلاتی ہے۔

۴- نظامِ صلاح واصلاح : جماعت اسلامی ایک نظامِ صلاح و اصلاح ہے۔ یہ تعمیرِاخلاق اور تشکیلِ سیرت کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ دلوں کو نفاق سےاورزندگی کو بدعملی سے پاک کرنا چاہتی ہے۔یہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تمام انسانوں کی، خصوصاً ان لوگوں کی زندگیوں کا، جو اس کی دعوت پر لبیک کہیں، کردار سازی کے عمل کے ذریعے ان کو اسلام کا سچا نمایندہ بنانا چاہتی ہے۔ اس کامقصد صرف خارجی دُنیا ہی میں تبدیلی نہیں بلکہ قلب و نظر اور اخلاق و سیرت کی بھی اصلاح ہے اور اس طرح یہ ایک نظامِ تربیت بھی ہے۔

۵- فرقہ بندی اور فقہی عصبیت سے  پاک:جماعت اسلامی کی دعوت دین کی اصولی اور کُلی تعلیمات کی طرف ہے۔ وہ کسی فقہی مسلک کی داعی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی فروعی و فقہی مسائل کے دائرے میں کوئی دخل نہیں دیتی۔ اس میں وہ تمام لوگ شریک ہیں، جو دین کو سربلند کرنا چاہتے ہیں، خواہ اس کا تعلق کسی بھی فقہی گروہ سے ہو۔ یہ جماعت فقہی اختلافات سے صرفِ نظر کرتی ہے اور ہرشخص کو اس بات کے لیے آزاد چھوڑتی ہے کہ اپنے فقہی مسلک کے مطابق فروعی معاملات میں جو راہ صحیح سمجھتا ہے، اسے اختیار کرے۔ البتہ یہ جماعت تمام مسلمانوں کو، بلالحاظ فرق و مذہب، شہادتِ حق اور شریعت اسلام کے قیام کی جدوجہد میں مصروف کرتی ہے۔ آج، جب کہ اسلام اور لادینیت کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ برپا ہے۔ جماعت اسلامی فقہی اختلافات میں رواداری اور اعتدال کی تلقین کرتے ہوئے مسلمانوں کے تمام مکاتب ِ خیال کے پیرووں کو لادینیت و الحاد کے مقابلے میں صف آرا کرنا چاہتی ہے اور دین کی اجتماعی قوت سے کفروضلالت کی قوتوں کے سامنے روک لگانا چاہتی ہے۔

۶- مستقل اور ہمہ گیر دعوت:جماعت اسلامی عام سیاسی جماعتوں سے یکسر مختلف قسم کی جماعت ہے۔ اس کا کام مستقل نوعیت کا ہے اور یہ محض الیکشن کے زمانے میں نمودار ہونے والی تنظیموں میں سے نہیں۔ یہ سیاسی اصلاح و تعمیرمیں تو ضرور مصروف ہے،لیکن محض ایک سیاسی جماعت نہیں ہے۔ یہ ایک فطری تحریک بھی ہے اور نظامِ اصلاح و تربیت بھی ہے۔ تعلیم و تزکیہ کا گہوارہ بھی ہے اور سماجی سدھار اور خدمت ِ خلق کا مرکز بھی ہے۔ یہ جماعت پوری زندگی کی اصلاح کے لیے اُٹھی ہے اوردوسری سیاسی جماعتوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔

جماعت اسلامی کا مقصد ہر طریقے سے اقتدار حاصل کرنا نہیں ہے۔ اس کا اصلی مقصد اسلام کا اقتدار ہے، اپنا اقتدار نہیں۔اس کی ساری جدوجہد اخلاقی اصولوں کے ذریعے ہے اور اس کی نگاہ میں ہر وہ کامیابی ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہے، جو اخلاقی اصولوں کو قربان کرکے حاصل ہو، اور ہروہ شکست گوارا اور عزیز ہے جو اخلاق کی فتح اور سربلندی کا نتیجہ ہو۔

پھر اس کے پیش نظر ’اپنے لوگوں‘ کو برسرِ اقتدار لانا نہیں ہے بلکہ معاشرے کے ان تمام افراد کو زمامِ قیادت سونپنا ہے، جو اسلام کو اپنی زندگیوں پر بھی نافذ کرتے ہوں اور اسے معاشرے پر بھی قائم کرنے کا عزم و صلاحیت رکھتے ہوں، خواہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہو یا کسی دوسرے تعمیری ادارے یا گروہ سے۔ ہم ہرتعصب کو ختم کرکے اسلام اور صرف اسلام کے لیے قوت و غلبہ چاہتے ہیں اور یہی ہماری بنیادی خصوصیت ہے۔

کونوا انصاراللہ!

ہرشخص بڑے کرب اور بے چینی کے ساتھ یہ دیکھ رہا ہے کہ حالات روز بہ روز بگڑتے جارہے ہیں۔ بُرائیاں پروان چڑھ رہی ہیں اور نیکیوں کو مٹانے کی کوشش ہورہی ہے۔ بدی نہ صرف یہ کہ بڑھ رہی ہے بلکہ منظم ہورہی ہے اور جری ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کی سرپرستی میںثقافت کے نام پر ہماری قیمتی تہذیبی روایات کو پامال کیا جارہا ہے۔ تعلیم، نئی نسلوں کو دین اور تمدن دونوں سے بے بہرہ کر رہی ہے۔ معاشی بے چینی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ صنعتی ترقی کے ساتھ معاشی فساد بھی بڑھ رہا ہے۔ ایک عام شہری کےلیے زندگی گزارنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں جمع ہورہی ہے۔ بیرونی قرضوں کی زنجیروں نے پورے ملک کو جکڑ لیا ہے، امن و امان غارت ہوچکا ہے۔ جان اور مال کی کوئی حفاظت باقی نہیں رہی ہے۔ عزّت و آبرو کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔ مایوسی برابر بڑھتی جارہی ہے۔ اس طرح بربادی کی طرف جاتے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہنا کسی محب ِ وطن کا کام نہیں ہوسکتا۔

اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ اس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنے کے لیے اُٹھے۔ گیہوں کا ایک دانہ بھی محنت و مشقت اور جہدوکوشش کے اس عمل کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا جو قدرت نے مقرر کردیا ہے ۔ اصلاح اسی وقت ممکن ہے کہ جب اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اس کا سامان فراہم کیا جائے اور اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردی جائیں:

  • اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ (الرعد ۱۳:۱۱) بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے۔

اِن حالات کا تقاضا ہے کہ ہر ذی شعور شہری ملک کی حفاظت اور دین کی مدافعت کے لیے سینہ سپر ہوجائے۔ یہ زمین و آسمان ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ حق کو پہچانیں اور اس کے لیے جان کی بازی لگادیں۔ جماعت اسلامی اپنی ساری قوتوں کو اصلاح و تعمیرکی جدوجہد میں لگاچکی ہے۔ اس کا نصب العین، طریق کار اورلائحہ عمل آپ کے سامنے ہے۔ یہ ہرمسلمان کو یہ دعوت دیتی ہے کہ وہ آگے بڑھے اوراس کا ساتھ دے۔ حق و باطل کی جو کش مکش آج برپا ہے آپ اس کے محض ایک خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور حق کا ساتھ دینے کا عزم لے کر آگے بڑھیں اور خیرواصلاح کی قوتوں کومضبوط کریں اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں عملاً شریک ہوں۔

جماعت اسلامی سے وابستگی کی دو صورتیں ہیں: وہ لوگ جو اپنی زندگیوں کو پوری طرح اسلام کے مطابق ڈھالنے کا اقرار کریں، فرائض کی پابندی اور کبائر سے اجتناب کریں اور اپنے آپ کو جماعت کے سپرد کردیں، وہ اس کے رکن بن سکتے ہیں، اور جو جماعت اسلامی کے مفید پروگرام اور طریقۂ کار سے اتفاق کریں، لیکن کسی وجہ سے جماعت کی رکنیت کی ذمہ داریاں قبول نہ کرسکیں، وہ جماعت کے متفق بن کر اس کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

جماعت اسلامی آپ کو اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کی طرف بلاتی ہے اورکہتی ہے کہ من انصاری الی اللہ،کون ہے جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرا ساتھی اورمددگار بنے؟

اب یہ فیصلہ کرنا ہرفرد کا کام ہے کہ وہ حق و باطل کی کش مکش میں اپنا وزن کس طرف ڈالے؟ اس ملک کو خطرے سے نکالنے اور اسلام کے رنگ میں رنگنے کے لیے جدوجہد اور قربانی کی راہ اختیار کریں گے یا محض ایک خاموش تماشائی کا رول اختیار کریں گے؟ یاد رکھیے! اس ملک میں جو کچھ بھی ہوگا، اس سے آپ، آپ کے اہل و عیال اور آپ کی آنےوالی نسلیں غیرمتعلق نہیں رہ سکتیں اور جو کچھ آپ یہاں کریں گے اس کا ایک دن بہت بڑی اور برگزیدہ عدالت میں آپ کو جواب بھی دینا ہوگا۔

دیہی آبادی میں اسلامی تحریک کا کام کیسے ہونا چاہیے؟ اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے دیہاتی لوگوں کی زندگی کے پس منظر سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھ کرہی کام کا نقشہ مرتب کیا جاسکتا ہے:

            ۱-         دیہات میں تعلیم کم ہے اور لوگ ناخواندہ، اور ان کی معلومات بہت محدود اورسطحی نوعیت کی ہیں۔

            ۲-         لوگوں کے پیش نظر مقامی اور علاقائی مسائل ہوتے ہیں، اس لیے ان کی گفتگو علاقائی نوعیت کی ہی ہوتی ہے۔ وسیع اور بلند مقصد سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

            ۳-         مزاج جذباتی ہوتا ہے۔ سنسنی خیز باتوں پر فوراً یقین کرلیتے ہیں، تنقید بالکل برداشت نہیں کرتے، جلد آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔

            ۴-         دین داری کا تصور محدود ہوتا ہے۔ قوی ایمان ہونے کے باوجود اس پر عمل کم پایا جاتا ہے۔

ماحول:(الف) دیہات میںا کثر فساد کی بنیاد معاشرتی رسومات ہوتی ہیں جیساکہ انتقامی کارروائی اور رشتہ میں اَدل بدل کا طریقہ وغیرہ۔ چنانچہ اغوا اور قتل کے واقعات بہت زیادہ نظرآتے ہیں۔ چوری بھی زیادہ تر انھی بنیادوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔

(ب) انتقامی کارروائی کی وجہ سے پورے علاقے میں عام لوگوں کے درمیان اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف قبیلوں کی باہمی لڑائیاں اور جھگڑے آئے دن کامعمول ہیں۔ یہ دشمنیاں اور لڑائیاں سالہا سال تک چلتی رہتی ہیں۔

(ت) دیہات میں وڈیرے، جاگیردار اور پیر وغیرہ بااثر لوگ ہوتے ہیں۔

(ث) دیہات میں اقتدار اعلیٰ پولیس اور چوروں کے تعاون سے وڈیرے کو حاصل ہے۔ لوگوں کی جان و مال اور عزّت و آبرو سب بڑے زمین داروں کے رحم و کرم کی محتاج ہے۔

(ج) مقدمہ بازی، پولیس کی پکڑ دھکڑ ، دیہی زندگی کا معمول ہے۔

ان حالات میں سمجھا جاسکتا ہے کہ دیہات میں دعوتِ دین کا کام کرنا کتنا دشوار ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا مثبت پہلو بھی ہے۔ دیہاتی لوگوں میں بعض اہم نوعیت کی خوبیاں بھی ہیں، جن کا اسلامی روایات سے گہرا تعلق ہے جس کی وجہ سے کام کے اثرات کی توقع رکھی جاسکتی ہے:

            ۱-         ابتدائی زمانے میں مسلمانوں کا مزاج بدویانہ تھا۔ عرب میں شہر بہت کم تھے خود مدینہ طیبہ کی اس وقت کی آبادی چھ سات ہزار سے زیادہ نہ تھی اور وہ بھی دوکلومیٹر میں پھیلی ہوئی تھی۔

            ۲-         دیہاتی لوگ بہادر، جرأت مند اور غیرت مند ہوتے ہیں۔ اب صرف ان کا رُخ تبدیل کرنا ہے۔

            ۳-         دیہات میں بہت ساری لڑائیاں مقدمات سے نہیں بلکہ برادری کے دبائو سے ختم ہوجاتی ہیں۔

            ۴-         وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ (آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔ البقرہ ۲:۲۳۷) کا مظاہرہ دیہات میں ہوگا۔

            ۵-         صلہ رحمی، دیہات کے مزاج کا حصہ ہے۔

            ۶-         مہمان نوازی بھی دیہاتی کلچر کا خاصہ ہے۔

ہمارے دیہات میں عربوں اور اسلامی حکومتوں کے اثرات ابھی تک بدرجہ اَتم قائم ہیں، اس لیے دیہاتی تہذیب پر ایک حد تک اسلامی پرتو بھی نظر آئے گا:

(الف) جہاں دو گھر ہوں گے وہاں مسجد ضرور قائم ہوگی۔

(ب) السلام علیکم کا رواج عام ہے۔

(ج) مہمانوں سے حال احوال اور خیر خیریت پوچھنے اور کھانا کھلانے کا رواج قائم ہے۔

(د) عورتوں اور مردوں کے درمیان حجاب قائم ہے۔ گوٹھ یا گائوں میں داخل ہوتے ہی گھوڑے پر سوار آدمی گھوڑے سے اُتر کر پیدل چلے گا۔

(ہ) شعائر اسلام کا احترام اب تک قائم ہے۔

(و) گھر کی تعمیر کا رُخ قبلہ کی مناسبت کا خیال رکھ کر کیا جانا ان کے رواج میں شامل ہے۔

(ظ) معاشرت میں سادگی اور بے تکلفی کا رواج ہے۔

(ح) گفتگو میں اسلامی روایات کا خیال رکھنا، بات بات پر ماشاء اللہ اور اللہ پر توکّل رکھنے کے الفاظ عام ہیں۔

(ط) عورتوں میں شرم و حیا کی فضا اب تک برقرار ہے۔

(ی) چھوٹوں کے دلوں میں بڑوں کے لیے اب تک احترام موجود ہے۔

یہ ہے دیہات کا وہ ماحول اور پس منظر، جس میں ہمیں کام کرنا ہے اور انھی حالات میں دیہات کے اندر کام کا نقشہ تیار کرنا ہوگا۔

سب سے پہلے کام کرنے کے لیے عزم چاہیے۔ خود کو اس قابل بنایا جائے کہ لوگ بات سن سکیں۔ لہٰذا دعوت کے نقطۂ نگاہ سے زیادہ اہمیت کارکنوں کو حاصل ہے اور کارکنوں میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے:

            ۱-         جذبۂ عمل اور حکمت دونوں ساتھ ہونے چاہییں: اُدْعُ   اِلٰی   سَبِیْلِ   رَبِّکَ اور علم نفسیات۔

            ۲-         کردار بُرائیوں سے پاک اور بے داغ ہونا چاہیے۔ کردار میں بڑی زبردست کشش ہے۔ ہیرا مٹی کے ڈھیر میں ہوگا تو دُور سے نگاہیں اس کی چمک محسوس کریں گی۔

            ۳-         کارکن، جاہلیت کے رسوم و رواج سے محفوظ ہو۔

            ۴-         وہ تحریک کو اچھی طرح سمجھ چکا ہو اور اس پر عامل ہو۔

            ۵-         کارکن جلد باز نہ ہو، مستقل مزاج ہو، وہ کسان کی طرح محنت کش ہو۔

            ۶-         مشکلات میں ہمت ہارنے والا نہ ہو۔

            ۷-         مکّی زندگی کی مشکلات کا تصور اس کے سامنے پوری طرح ہو۔

            ۸-         لباس اور نشست و برخاست میں سادگی اور وضع قطع اسلامی انداز کی ہو۔

            ۹-         دیانت دار ی، وعدہ وفا کرنے کی توفیق کے لیے دُعائیں۔ جماعت کے ساتھ نماز کی پابندی، تلاوت قرآنِ مجید کا اہتمام، شب خیزی کی عادت۔

یہ تمام صفات تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے لازمی ہیں:

            ۱-         مساجد کو دینی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے۔

__ممکن ہو تو مساجد کی امامت اختیار کی جائے۔

__دوسری صورت میں امام مسجد سے بہتر تعلقات استوار کیے جائیں۔

__مسجد کے معاملات اور اُمور میں بھرپور حصہ لیا جائے۔

__مسجد میں درس قرآن یا دینی کتاب کے پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا جائے، لیکن اس کے لیے مناسب وقت کا انتخاب بہت ضروری ہے۔

__جمعہ کے دن مسجد میں خطبہ یا تقریر کرنے کا اہتمام و انتظام کیا جائے اور حکمت عملی کے ساتھ یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔

__ دیہات میں ہونے والی مذہبی تقریبات میں پیش قدمی کی جائے۔

۲- دیہات میں اوطاق (بیٹھک) معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتی ہے۔

__ اوطاق میں جاکر عوامی مجلسوں میں حصہ لیا جائے اور وہاں پُروقار انداز سے اپنی بات کی جائے۔

__عوامی مجلسوں میں حکمت عملی کے ساتھ گفتگو کا رُخ اسلام کی طرف موڑا جائے۔

__وہاں اسلام کے مجاہد سپاہیوں کے واقعات سنائے جائیں، اس لیے کہ اس میں لوگ عام طور پر دلچسپی لیتے ہیں۔

__ بزرگانِ دین کے نصیحت آمیز واقعات بھی سنائے جائیں۔

__انھی چیزوں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ پھر لوگوں سے شخصی تعلقات قائم کیے جائیں۔

            ۳-         دیہات کے ذمہ داروں سے تعلقات رکھنے کی کوشش کی جائے: اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰي۝۲۴ۧ

__اسکول کے اساتذہ اور نوجوانوں سے تعلقات میں استواری کوخصوصی اہمیت دی جائے۔

__ دیہات میں بزرگوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، ان سے بھی رابطہ رکھا جائے۔

__لوگوں کی شادی و غمی میں ضرور شرکت کی جائے۔

__تنقید بنیادی طور پر اصولی ہونی چاہیے۔

__ تنقید میں افراد کا نام نہ لیا جائے،فانی تافکون۔

__ تنقید کے لیے پہلے فضا ہموار کی جائے اور اس وقت کی جائے جب دیکھا جائے کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ موجود ہے۔

            ۴-         رفاہی کاموں میں بھرپور حصہ لیا جائے۔

__ اس سلسلے میں مسجد کی تعمیرو مرمت کے کام کو اہمیت دی جائے۔

__قرآن پاک کی تعلیم و ترجمۂ قرآن پڑھنے کے لیے مدرسہ قائم کیا جائے اور اگر پہلے سے مدارس موجود ہوں ، تو ان کی توسیع میں تعاون کیا جائے۔

__تعلیم بالغاں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے، جہاں بھی ممکن ہو یہ تعلیم شروع کردی جائے۔

__راستے، کنویں، مال و مویشی کے لیے چراگاہیں، بجلی وغیرہ کے حصول میں بھرپور دلچسپی لی جائے۔ شادی و غمی میں رہائش کے لیے جگہ اور چٹائیوں اور برتن وغیرہ کا انتظام کیا جائے۔

__دیہات میں لوگوں پر انفرادی طور پر جو مظالم ہوتے ہیں ان کی داد رسی کا انتظام کیا جائے۔

__بیماروں، بیوائوں، یتیموں اور محتاجوں کی خدمت کرنے کی کوشش کی جائے۔

دیہاتی ماحول میں ان کاموں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکن اگر ان خطوط پر کام کرنا شروع کردیں تو دیہات میں بڑے پیمانے پر ہماری دعوت پھیل سکتی ہے اور ہمارے لیے پیدا شدہ رکاوٹیں دُور ہوسکتی ہیں۔ دیہات میں ان خطوط پر کام کرنے والا کوئی گروہ اور طبقہ موجود نہیں ہے اور ایک زبردست خلا ہے۔ اس خلا کو بہترطور پر ہمارے کارکن ہی پورا کرسکتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دیہات خصوصاً سندھ کے دیہات کے لوگ فطرتاً احسان شناس لوگ ہیں۔ ایک بار اگر کسی کی تھوڑی بہت مدد بھی کی گئی تو وہ مرتے دم تک اسے یاد رکھتے ہیں اور اپنے محسن کا شکریہ ادا کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ سارے کام خدا کی خوشنودی، اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرنے چاہییں۔

رمضان کے روزوں کی فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (بخاری، مسلم ،ابو داؤد)، ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔

اس پورے ایک ماہ کی تربیت و اصلاح کو تین مراحل میں تقسیم کرتے ہوئے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ انعامات سے نوازا گیا ہے، جن سے مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں نوازا گیا: پہلا انعام یہ ہے کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو (اللہ عزوجل امت محمدیؐ کو) نظرِ رحمت سے دیکھتا ہے اور جسے اللہ (نظرِ رحمت سے) دیکھتا ہے، اسے کبھی عذاب نہیں دیتا ۔دوسرا یہ کہ (روزہ دار) کی منہ کی بُو (دن بھر بھوکا رہنے سے ) جب وہ شام کرتے ہیں، اللہ کے ہاں کستوری کی مہک سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے۔ تیسرا یہ کہ فرشتے ہر رات دن میں ان کے لیے دعا کرتے ہیں ۔چوتھا یہ کہ اللہ اپنی جنت کو یہ کہہ کر حکم دیتا ہے کہ میرے بندوں کے لیے آمادہ و تیار ہو جا اور زینت کر لے، وہ (روزے دار)دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میری عزت افزائی میں آرام کریں گے۔ پانچواں یہ کہ جب آخری رات ہوتی ہے تو اللہ ان کی مغفرت فرماتا ہے (بیہقی ، عن جابر بن عبداللہ)۔

اس نوعیت کے انعام وبرکت کا ذکر اس حدیث میں بھی آتا ہے، جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے، اور جس شخص نےرمضان میں قیام کیا (رات کو کھڑے ہو کر عبادت کی) ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے وہ تمام قصور جو اس سے پہلے کیے ہوں گے،معاف کر دیے جائیں گے، اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کر دیے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیے ہوں گے (متفق علیہ)۔

رمضان کے روزوں کی شانِ نزول

رمضان کے روزوں کی فضیلت کو سمجھنے کے لیے اس ماہ میں روزے کی شانِ نزول کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں جس معاشرے اور ریاست میں دین کی اقامت ہونی تھی، اس کے لیے تین عناصر لازمی تھے: ایسی سرزمین جہاں حاکمیت الٰہی کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ نافذ کیا جا سکے، ایسی افرادی قوت جو اقامت دین کرنے کی خصوصیات و کردار سے آراستہ ہو، اور ایسا پیمانہ جو افراد اور معاشرے کی صالحیت، للہیت اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع و طاعت کو جانچنے میں مدد کر سکے___ ان تین بنیادی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے لیے ہجرت کے بعد اسلامی معاشرے کی تعمیر حاکمیت الٰہی اور اقامت دین کی صورتِ حال کا تعین کرنے کے لیے دو ایسے اقدامات تعلیم کیے گئے، جن کے بغیر یہ اہم کام ممکن نہیں ہوسکتا تھا یعنی تربیت نفس، قلب، ذہن اور جسم کے لیے ایک ماہ کا نظام تربیت اور اس نظام تربیت سے گزرنے والوں کے لیے جانچنے کا پیمانہ جہاد۔

یہ پہلا رمضان تھا، جس میں ایک جانب تزکیۂ نفس و اخلاق اور دوسری جانب تقویٰ، قرب الٰہی اور اطاعت ِرب اور اطاعت ِ رسولؐ کا پیمانہ اجتماعی جہاد کی شکل میں اہل ایمان کے لیے مقرر کیا گیا۔ ۱۷رمضان کو ہونے والے معرکۂ بدر نے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی کہ اہل تقویٰ اور اللہ کی مغفرت کے مستحق مجاہدین فی سبیل اللہ ہوتے ہیں یا جان بچا کر بیٹھنے والے قائدین؟ صیامِ رمضان کی فرضیت کو اس کے ممکنہ نتیجہ(out come) یعنی حصولِ تقویٰ سے وابستہ کر دیا گیا، کیونکہ تقویٰ کے بغیر نہ فرد، نہ معاشرہ اور نہ اقامت دین کا کوئی تصور ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس تقویٰ، توکل علی اللہ اور اطاعت الٰہی اور رسول کو جاننے کا پیمانہ جہاد بھی فرض کر دیا گیا، تاکہ کسی بھی دور میں اقامت دین کی جدوجہد کے لوازمات ،مطلوبہ نظامِ تربیت اور تعمیر سیرت کے ساتھ اسے جانچنے کا پیمانہ بھی سامنے آجائے۔

روزہ اور ضبط نفس

رمضان کے روزے نہ صرف اہل ایمان کی سیرت و کردار میں ظلم و استحصال کے خلاف عملی جدوجہد کرنے کی استطاعت پیدا کرتے ہیں بلکہ اس روایتی نفس کشی کی اصلاح بھی کرتے ہیں، جس کا تصور بعض دیگر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے ماننے والے بھوک، پیاس، نیند اور آرام اور جنسی خواہش سے آزاد ہونے کو معرفت ِنفس سمجھتے ہیں۔اسلام انسان کی فطرت سے انحراف نہیں کرتا۔ یہ جسم ونفس کی ضروریات کی نفی نہیں کرتا بلکہ انھیں ایک مصلح قوت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ بقول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ:’’اسلام جس ضبط کا قائل ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے انسان کی خودی اپنے خدا کے آگے سرِ تسلیم خم کر دے، اس کی رضا کی طلب اور اس کے قانون کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لے، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھ لے، پھر اس مسلم و مومن خودی کو اپنے جسم اور اس کی طاقتوں پر حاکمانہ اقتدار، اور اپنے نفس اور اُس کی خواہشوں پر قاہرانہ تسلط حاصل ہو، تاکہ وہ دنیا میں ایک مصلح قوت بن سکے‘‘۔( نشری تقاریر ،ص ۸۰-۸۱)

رمضان اور قرآن کے حقوق

رمضان کے روزوں سے جو تربیت اور تعمیرِ سیرت و کردار مقصود تھی، اس کو بھی قرآن کریم نے مبہم نہیں چھوڑا بلکہ چند الفاظ میں وضاحت سے بیان کر دیا، یعنی اس ماہ کی فضیلت اور برکت کا سب سے اہم سبب اس ماہ میں قرآن کریم کی شکل میں انسانوں کے لیے ہدایت کا مکمل نظام نازل کرنا ہے ،جو بذات خود شان کریمی کا ایک مظہر ہے کہ وہ جو مکمل طور پر عفو و درگزر سے اوراپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے۔ اپنے بندوں کو ٹھوکریں کھا کر حق و صداقت تک پہنچنے سے بچانے کے لیے اس نے اپنی جانب سے اسی ماہ میں وہ کلامِ عزیز نازل کیا ، جو قیامت تک انسانیت کے لیے واحد راہِ نجات و کامیابی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ (البقرہ۲:۱۸۳)اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

اس ایک ماہ کی تربیت سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اس مہینہ میں اس کی اصل روح اور مقصد کو سامنے رکھا جائے اور قرآن کریم سے وہ حقیقی تعلق قائم کیا جائے جو اقامت ِدین کی اولین شرط ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ (البقرہ۲:۱۸۵)رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔

 قرآن ِ کریم کی شکل میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے اس ماہ میں جو رحمت اہل ایمان اور تمام انسانوں کے لیے نازل کی گئی ہے اس کااوّلین مطالبہ بلکہ حق یہ ہے کہ اسے صحیح طریقے سے تلاوت کیا جائے اورساتھ ہی اس کے مفہوم پر غور کرتے ہوئے اپنی سیرت و کردار کو اس کے رنگ میں رنگ لیا جائے۔ صبغت اللہ کو اختیار کرنے سے یہی مراد ہے کہ ایک صاحبِ ایمان شخص اور ایک صاحب ِایمان معاشرہ اپنے ہر عمل اور اقدام کو کرنے سے پہلے یہ دیکھے کہ اس کے اس عمل سے اس کا ربّ خوش ہوتا ہے یا ناراض؟ تقویٰ اسی رضائے الٰہی کے حصول اور اللہ کے غضب سے بچنے کا نام ہے۔ جب تک اس کلامِ حق کی تلاوت صحیح طور پر نہ کی جائے اور اس کے معنی ومفہوم کو سمجھ کر وظیفۂ عمل نہ بنایا جائے، اس وقت تک ہمارا یہ کہنا کہ ہم اللہ ،اس کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کو مانتے ہیں صرف ایک زبانی دعویٰ ہے۔

 قرآن کریم کے ذریعے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے اس عظیم کلام کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کے فہم کو اپنے فکر و عمل میں اس طرح ڈھالا جائے جس کی زندہ مثال حیات طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب کسی نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کیا تھا تو ان کا انتہائی مختصر لیکن جامع جواب یہی تھا کہ کیا تم نے قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا؟ آپؐ کا ہر عمل قرآن کریم کی تفسیر و تشریح تھا۔قرآن پر جتنا تفکر و تدبر کیا جائے گا، اتنا ہی ایک صاحب ِایمان سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہوگا ۔اس کا سوچنا، کاروبار کرنا، فیصلے کرنا ہرمعاملہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہوگا۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر اقامت ِدین کا فریضہ جیسا کہ اس کا حق ہے، ادا نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین زندگی بھر کے تمام معاملات میں قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بناتے تھے اور یہی ان کی اقامت دین کی کوششوں کی کامیابی کا سبب تھا۔

قرآن کریم کا تیسرا اہم حق یہ ہے کہ قرآن کے سائے میں تعمیر سیرت کرنے کے ساتھ دعوتِ قرآن کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی جہدِ مسلسل ہو۔ گویا قرآن کو سمجھنے، اس پر تفکر اور تدبر کرنے کا تقاضا ہے کہ قرآن کی دعوت کو قائم کرنے کی جدوجہد میں شامل ہوکراور اس مقدس کام میں اپنی تمام متاع ِ حیات کو لگا دیا جائے ۔یہی وہ قیمتی ترین سرمایہ کاری ہے ، جس میں نہ کبھی نقصان ہوا نہ کمی بلکہ ہر لمحہ رب کریم کی غیر محدود رحمت کے سبب اضافہ اور بڑھوتری ہی ہوتی ہے۔

قرآن کریم جس تقویٰ کو پیدا کرتا ہے وہ ایک صاحب ِایمان کو حقیقی حریت سے آشنا کرتا ہے۔ وہ جو کل تک دن میں تین چار مرتبہ زبان کی لذت اور معدہ کی پکار پر کھانے پینے کا عادی تھا، جس کا دن بھر کا مشغلہ کہیں سبز ،کبھی سیاہ چائے، کبھی کافی ، کبھی پھلوں کا رس پینا تھا۔ وہ اپنے جسم کو لذّتِ کام و دَہن کی غلامی سے آزاد کر کے صبح سے شام تک ایک گھونٹ پانی یا چائے کے بغیر نہ تھکن محسوس کرتا ہے ،نہ اس کی طبیعت میں چڑچڑاہٹ پیدا ہوتی ہے بلکہ ہر آنے والے مہمان کے ساتھ مسکرا کر اور رمضان کی مبارکباد کے ساتھ اس کا استقبال کرتا ہے۔ وہ جو کل تک آٹھ نو گھنٹے سونے کو بھی کافی نہیں سمجھتا تھا کہ اس کے نفس کا حق ادا نہیں ہوا، اب فجر سے مغرب تک روزہ رکھنے کے بعد گرم جوشی کے ساتھ عشاء کی نماز اور پھر ایک ڈیڑھ گھنٹے مزید تراویح میں شرکت میں لذت اور سکون محسوس کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ چاہتا ہے کہ سحری سے پہلے بھی کم از کم دو رکعت تہجد پڑھ لے اور فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کر لے ۔یہ جوش اور ولولہ،یہ ایمان کی تازگی اس مبارک مہینہ کی رحمت و برکت ہی سے ہوتی ہے۔یہی وہ حریت و آزادی ہے، جس کا مطلب اپنی خودی اور نفس کو اللہ کی رضا کا تابع کرنا ہے ۔ یہ رمضان کے روزوں سے پیدا ہوتی ہے اور جس کی لذت ایک مسلمان محسوس کرتا ہے۔ اسی کا نام تقویٰ ہے۔

مطلوبہ صفات کا حصول

یہ پورا مہینہ انفرادی اور اجتماعی تربیت کے ذریعے اہلِ ایمان کو اپنی سیرت و کردار میں وہ صفات پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے،جن کے بغیر اقامت دین کا کام آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سب سے پہلی صفت صبر کی ہے۔ صبر کا ایک مفہوم وہ ہے کہ جو ہر بچہ اور بڑا جانتا ہے یعنی اپنی روز مرہ زندگی میں قناعت کا رویہ اختیار کرنا۔ بغیر کسی شکایت کے جو کچھ اللہ نے دیا اس پر شکرگزار ہونا، لیکن صبر کا وہ مفہوم جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایاہے بہت وسیع ہے ۔ اس میں دوچیزیں بنیادی ہیں۔ اوّلاً: حق پر جمنے کے ساتھ اعتماداور توکّل، اور دوسرے جہد ِ مسلسل ۔ یہی اقامتِ دین کی روح ہے اور یہ رمضان کے روزوں سے حاصل ہونے والی ایک بنیادی صفت ہے۔ ایک روزے دار صرف اللہ کے لیے بھوک و پیاس، جسمانی آرام، جائز لذت سے نہ صرف رُکتا ہے بلکہ ان تمام مواقع سے اپنے آپ کو بچاتا ہے جو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف کوئی رجحان پیدا کرتے ہوں۔ یہاں صبر میں سب سے زیادہ نمایاں پہلو استقامت کا نظر آتا ہے جو اقامتِ دین کے لیے ایک لازمی صفت ہے۔

اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نہ صرف انفرادی صالحیت ، تقویٰ اور احسان ضروری ہے، بلکہ اجتماعی طور پر ایک ایسی جماعت کا وجود میں آنا ضروری ہے جو اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی فرماں بردار ہو۔ جو کسی اقتدار ،منفعت، شہرت ،منصب اور لالچ کی غلام نہ ہو بلکہ اس جماعت کا ہر فرد اور بذاتِ خود و ہ جماعت شہرت، منصب اور منفعت سے بلند ہو۔ اس کے سامنے کامیابی صرف اور صرف آخرت کی کامیابی ہو ۔اگر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ دنیا میں اس جماعت کو اقامتِ دین میں کامیابی دے دیں تو یہ ان کا فضل و کرم ہے، لیکن اس جماعت کا اصل ہدف اور نصب العین اصلاً آخرت کی کامیابی ہو۔

اللہ کی حاکمیت اپنی ذات پر ، اپنے خاندان پر، اپنے معاشرہ میں اور اللہ کی زمین پر قائم کرنا اقامت دین کا پہلا مطالبہ ہے اور اس مقصد کے لیے فرد اور جماعت کا بے غرض ہونا پہلی شرط ہے۔للہیت کے ساتھ صرف اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت کو اپنے گھریلو معاملات میں، معیشت میں، اخلاق میں ،سیاست میں، غرض زندگی کے تمام معاملات میں صرف اللہ کی رضا کو مقصود بنانا ہی اس کا مقصود ہو۔ جب تک فرد اور جماعت اس حوالے سے ایک سطح پر (on one page) نہیں ہوں گے اقامت دین کا کام نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ دین کا کُلی قیام محض حصول اقتدار نہیں ہے بلکہ پوری زندگی کے معاملات میں بہ شمول افراد اور ریاست اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا قیام ہے۔ رمضان کے روزے اسی حاکمیتِ اعلیٰ کے قیام اور اقامت دین کے لیے مطلوبہ کردار اور سیرت یا تقویٰ کی تیاری کے لیے فرض کیے گئے ہیں۔

روزہ کے آداب

امام غزالیؒ نے روزہ کے آداب کو چھ مختصر نکات میں انتہائی مؤثر اور مدلل انداز میں بیان کیا ہے:

  • پہلا ادب یہ کہ ایک روزہ دار اپنی نگاہ کو باحیا بنائے۔ چنانچہ نگاہ صرف اسی جانب جائے جو خیر اور حلال ہو ۔اس بات کو حضرت جابرؓ سے مروی ایک حدیث میں یوں کہا گیا ہے کہ شہوت کی نگاہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
  • دوسرا ادب یہ ہے کہ زبان کو جھوٹ اور غیبت سے محفوظ رکھا جائے اور ان کے خلاف روزہ کو ڈھال بنا لیا جائے۔
  • تیسرا ادب یہ ہے کہ اپنے کانوں کو صرف حق اور سچائی کی بات سننے کی تربیت دی جائے اور جھوٹ اور غیبت کے سننے سے مکمل پرہیز کیا جائے کہ اس کا سننا حرام ہے ۔
  • چوتھا ادب یہ ہے کہ اپنے اعضا ہاتھ پاؤں کو گناہ کی جانب بڑھنے سے روکا جائے اور اپنے پیٹ اور جسم کو حرام غذا اور لباس سے روکا جائے۔ کیونکہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں روزہ سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
  • پانچواں ادب یہ ہے کہ افطار میں حلال کھانا بھی اعتدال کے ساتھ کھائے اور غذا کو اپنے اُوپر بوجھ نہ بنا لے۔
  • چھٹا ادب یہ ہے کہ روزہ مکمل کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے حضور استدعاکرتا رہے کہ وہ اپنی شان رحیمی سے اسے معاف فرما دے اور اُس کے اِس عمل کو قبول فرما لے کیونکہ یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ کسی عمل کو قبول کرے یا نہ کرے ۔

ان چھ آداب کا اہتمام روزہ کو نہ صرف تربیت و اصلاح اور حقیقیِ ضبط نفس کا ذریعہ بناتا ہے بلکہ اس دنیاوی زندگی میں ظلم و استحصال، کفر و طاغوت اور شرک کے خلاف جہاد کرنے کے لیے بہترین قوت، صلاحیت اور استعداد پیدا کرتا ہے۔

قوتِ ایمانی

 رمضان کے روزے ایک مسلمان کے دل و دماغ کو وہ غذا فراہم کرتے ہیں جو ان کی حقیقی تقویت کا باعث ہو۔جس طرح ایک ماہر قلب ایک شخص جس کا قلب کسی مرض کا شکار ہو، اس کو نہ صرف کوئی دوا بلکہ ساتھ ہی کچھ ورزشیں، کھانے پینے اور اوقات کار کے بارے میں ہدایات دیتا ہے ۔ایسے ہی رمضان کے روزے قلب و دماغ کی قوت کے لیے یہ آزمودہ نسخہ تجویز کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی زندگی کو بے شمار آقاؤں کی غلامی سے نکال کر صرف ایک اللہ کی بندگی اختیار کر لے، صرف اس کا عبد اور عابد بن کر اپنے قلب و دماغ کو یکسو کر لے۔ اللہ کا بندہ بننے سے جو قوت ملتی ہے، اس کی اعلیٰ مثال مکہ کی موسم گرما میں تپتی ہوئی سنگلاخ وادی میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال ؓ کا طرزِ عمل ہے جو قیامت تک ایک زندہ مثال رہے گا۔ جلتی ہوئی سنگلاخ زمین پر چت لٹا کر ان کے سینے پر پتھر کی گرم سلیں رکھ دی جاتیں اور تپتی زمین پر گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹا جاتا ہے لیکن وہ تمام غلامیوں سے آزاد ہو کر جس رب کے ہو رہے تھے اسی کا نام احد، احد کہہ کر پکارتے ہیں اور ظلم و تشدد انھیں ایک لمحے کے لیے مفاہمت پر آمادہ نہیں کرپاتا۔

اللہ سے تعلق جڑنے کے بعد حضرت بلالؓ نے عزیمت کی جو مثال قائم کی وہ ہمیشہ اہل ایمان کے لیے ایمان اور یقین کے روشن راستے کی نشان دہی کرتی چلی آرہی ہے ۔ ان کے سینے پر پر پتھر کی گرم سلیں رکھ کر کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا رب مان لو تو ان کا جواب صرف یہی ہوتا ہے کہ نہیں میں تو صرف اس ربّ کا بندہ ہوں جو احد ہے ،جس کا کوئی مثل نہیں، جویکتا ہے، جو تمام کائنات کا مالک ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو قلب اور دماغ کو یکسو کر دیتی ہے اور ایک مسلمان اِس قوت کی بنا پر ظلم و استحصال کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔

 یہی قوتِ ایمانی ہے کہ چار ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے پر بھی غزہ اور فلسطین کے مظلوم مسلمان اپنے سے دس گنا زیادہ بڑی آبادی اور دنیا کی چوتھی عسکری طاقت کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں اور انھوں نے نہ عربوں پر بھروسا کیا نہ ترکوں اور پاکستانیوں پر، بلکہ وہ صرف اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر ایمان رکھتے ہیں ۔یہی تقویٰ اور ایمان کا پیمانہ ہے ،یہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہی اقامت دین کے لیے اپنے آپ کو منظم کرنا ہے۔ گویا قوت ایمانی جو رمضان کے روزہ سے حاصل ہوتی ہے اگر اسے صحیح طریقے سے دل و دماغ میں جاگز یں کر لیا جائے، تو پھر میدان بدر ہو یا حنین، جو ایک مرتبہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے بھیج کر ان کی امداد فرماتے ہیں ۔

 اہم اورقابلِ غور پہلو صرف یہ ہے کہ کیا واقعی جو لوگ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نکلے ہیں کیا ان کا اللہ پر ایمان و توکّل اور طرزِ عمل اس معیار کا ہے، جس کی بنا پر رب کریم فرشتے بھیجتے ہیں، یا ابھی ان کی استقامت اور اللہ کی حاکمیت کو اپنی سیرت اور اپنی معاشرت میں مکمل طور پر نافذ کرنے میں کوئی کمی ہے؟ مدینہ کا معاشرہ اور ریاست اسی وقت وجود میں آئی جب تحریک اسلامی کے کارکن اور قیادت آزمایشوں کی بھٹی سے گزر کراور ہر تکلیف دہ مرحلہ سے کامیاب ہو کر مکہ کی سنگلاخ چٹانوں سے مدینہ کی زرخیز زمین میں پہنچے، تو اس کے پاس وہ افراد کار تھے جو آزمائشوں میں ثابت قدم اور ہر لمحہ تقویٰ اور ایمان اور احسان میں ترقی کی طرف گامزن تھے۔

رمضان کے روزے انفرادی اور اجتماعی اصلاح اور فلاح کی ضمانت ہمیں صرف اس وقت دیتے ہیں جب قرآن کریم کے ساتھ ہمارا تعلق کتاب کو محض پڑھنے کی جگہ کتاب پر عمل کرنے والا ہو اور اس کتاب کے ذریعے تزکیۂ نفس ،تزکیۂ مال، تزکیۂ اوقات اور تزکیۂ معاشرتی رسومات کرنے والا ہو۔ رمضان کا حق ایک صاحب ایمان پر یہ ہے کہ اس کا استقبال محض مسجد کے میناروں پر چراغاں کر کے نہ کیا جائے بلکہ دل کی ویران بستی کو اس کے نور سے منور کیا جائے۔اس کی دعوت انقلاب کواپنے ذاتی معاملات اور معاشرہ میں اللہ کی حاکمیت کے قیام اور اللہ کے دین کو اپنی مجموعی شکل میں اللہ کی زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کا کام تیز سے تیز تر کیا جائے۔ اپنے گھروں میں اس ہدایت اور فرقان کی روشنی میں تعمیر سیرت و کردارکی جائے۔ اس ابدی ہدایت کی سربلندی کے لیے معاشرہ سے استحصال، جہالت، جاہلانہ رسومات کی غلامی، مغربی استعمار سے مرعوبیت، بیرونی اداروں کی غلامی اور خصوصاً ملک کے دستور کی خلاف ورزیوں کو دور کیا جائے۔ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اس کے حصول کی جدوجہد کے لیے سرگرم ہوا جائے ۔

اس ماہ کی ۲۷ویں شب کی اہمیت اور برکت پر نہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم جیسی لازوال نعمت کے نزول کے حوالے سے بلکہ خود قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو غور و فکر کا موضوع بنایا جائے اور جس طرح قرآن کریم نے شرک اور بت پرستی کے فتنہ کو دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دور کیا، ایسے ہی آج اس عظیم کلام کے ذریعے پاکستان سے بدعتوں، بد عنوانیوں، دہشت گردی، معاشی استحصال ، نظام خاندان کے انہدام،معاشرتی زوال اور سیاسی بےیقینی کو دُور کر کے ملک کے دستور کی روشنی میں ایسے افراد کو برسرِ اقتدار لایا جائے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے وفادار، ایماندار، سچے اور امین ہوں ۔جو نظریۂ پاکستان کے محافظ اور اسلامی طرزِ حیات پر عامل ہوں۔ جن کا ماضی ہر قسم کی بد عنوانیوں سے پاک ہو اور جو بے لوثی کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی اس عظیم نعمت و امانت پاکستان میں اللہ کے دیے ہوئے نظام کو نافذ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے زیادہ وعدہ کی پابندی کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ اس کا وعدہ ہے کہ وہ ایسے افراد کو جو خلافت فی الارض کی امانت کے اہل ہوں اور اس جدوجہد میں مخلص ہوں، جو اپنی ذات کی نمایش کی جگہ غلبۂ حق و صداقت اور عدل اجتماعی کو اہمیت دیتے ہوں، ایسے افراد کو وہ جنتوں کا وارث بنائے گا اور عین ممکن ہے کہ وہ انھیں اس دنیا میں میں بھی سلطنت اور اقتدار بخش دے ۔ اگر اس وعدہ کی تکمیل میں تاخیر ہے تو اس کا واضح سبب اہل امانت میں صلاحیت کا فقدان ہے کیوں کہ وہ صرف اصحاب رُشد وکمال ہی کو قیادت دیتا ہے ۔

ہرسا ل ہماری زندگی میں رمضان المبارک کا مہینہ آتاہے اور چلا جاتاہے لیکن ہماری حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔کیا ہم لوگوں نے اس پر کبھی غور کیا ہے کہ ایسا کیوں ہوتاہے؟ یہ اس لیے کہ ہم روزے کے اصل مقصد کو نہیں جانتے اور رمضان المبارک کی فضیلتوں سے ناآشنا ہیں جس کی وجہ سے ہم روزے تو رکھتے چلے جاتے ہیں مگر تقویٰ ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ ماہِ رمضان میں مسجدیں اتنی بھری ہوتی ہیں کہ دیر سے آنے والے نمازیوں کو مسجد میں جگہ نہیں ملتی، جب کہ اس مہینے سے پہلے اور بعد میں مسجدوں میں مشکل سے دو یا تین صفوں کے نمازی ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے عبادات کو صرف رمضان تک ہی محدودکررکھاہے جو کہ درست نہیں ہے۔ ہماری ان کوتاہیوں کی کئی وجوہات ہیں جن میں چند بڑی کوتاہیوں کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔

روزے کے مقصد سے لا پروائـی

روزے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے جیسا کہ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۸۳ میں بیان ہواہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ ،اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

تقو یٰ اصل میں اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے، ممنوعات سے بچنے اور احکامِ الٰہی پر عمل کرنے کا نام ہے۔روزے سے خواہشاتِ نفسانی کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتاہےاوریہی تقویٰ کی بنیاد ہے۔اگر ہم روزے کے اس مقصد کو سمجھیں اور جو قوت اور طاقت روزہ دیتاہے اس کو اپنانےکے لیے تیار ہوجائیں اور روزے کے ذریعے اپنے اندر اللہ کا خوف اور نبی ؐ کی اتباع کا جذبہ پیدا کرلیں، توجو تقویٰ پیدا ہوتاہے وہ صرف رمضان المبارک ہی میں نہیں بلکہ باقی گیارہ مہینوں میں بھی باقی رہے گا۔روزوں کے اہتما م کے باوجودکسی کی زندگی میں تقویٰ نہ پیدا ہوسکے تو ایسے روزہ دار وں کو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے ایمانی کیفیت کے ساتھ اور اجرِآخرت کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا جوپہلے ہوچکے ہیں۔جس نے رمضان کی راتوں میں ایمانی کیفیت اور اجرِ آخرت کی نیت کے ساتھ نمازیں پڑھیں تو اس کے ان گناہوں کواللہ تعالی معاف کردے گاجوپہلے ہو چکے ہیں‘‘۔ اس حدیث کی رُو سے ہم پر واجب ہوتا ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ کی بندگی و اطاعت اور عبادات سے غافل نہ ہوں۔

گناہوں کے بارے میں غفلت

احادیث میں صراحت سے فرمایا گیاہے کہ روزہ محض کھانے پینے سے رُکے رہنے اور گناہ کے کام کرتے رہنے کا نام نہیں ہے۔ایسے شخص کو بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ہمیں چاہیئے کہ روزہ کی حالت میں شریعت کے احکام کی پابندی کے ساتھ ساتھ اپنے سارے اعضا کوبھی اپنے قابو میں رکھیں۔مثلاً آنکھ کا روزہ یہ ہوگا کہ کسی غیر شرعی چیز یا کسی حرام چیز یامنظر کو نہ دیکھیں۔ کان کا روزہ یہ ہے کہ بری باتیں سننے سے رکیں۔زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے کوئی فحش کلامی یا گالی گلوچ نہ کریں۔دیگر اعضا کا روزہ یہ ہے کہ ا ن کوہر گناہ سے روکے رکھیں۔

انھی اعضامیں ہماری زبان بھی ہے۔حالاں کہ یہ جسم کا ایک چھوٹا سا عضو ہے لیکن اس سے بڑ ے بڑے گناہ سرزد ہوتے ہیں، جیسے جھوٹ، غیبت، چغلی، کسی کی تحقیر، لایعنی باتیں وغیرہ۔آج ہماری زبان سے جو باتیں نکلتی ہیں قیامت کے دن ان کاحساب دینا پڑے گا۔ سورئہ نور کی آیت ۲۴میں بیان ہوا ہے:  يَّوْمَ تَشْہَدُ عَلَيْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۴ ’’اس دن جس دن ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے سامنے ان کے اعمال کی گواہی دیں گے کہ وہ جوکچھ کرتے رہے تھے ‘‘۔

زبان کے استعمال کے حوالے سے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کوئی روزہ سے ہوتووہ نہ گالی گلوچ کرے اور نہ شور وہنگامہ ہی مچائے۔اگر کوئی اس کے ساتھ گالی گلوچ کرے یا جھگڑاکرے تو وہ کہے کہ میں روزہ سے ہوں (متفق علیہ)۔جو شخص روزے سے ہو تووہ فحش باتیں نہ کرے (بخاری ،جلد اوّل، ص۲۵۵ )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے روزہ رکھنے کے باوجود جھوٹ بات کہنا اور اس پر عمل کرنانہیں چھوڑا تو اللہ کو اس سے کوئی دل چسپی نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہتاہے‘‘۔

قیمتی وقت کا غلط استعمال

اکثر لوگ رمضان کے مہینہ کو کھانے پینے کا مہینہ سمجھتے ہیں۔ سارا دن روزہ رکھ کر جب افطار کرتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ کھالیتے ہیں جس سے تراویح کی نماز ادا کرنے میں سُستی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ مرد حضرات کا اکثر وقت بازاروں میں کھانے پینے کی چیزیں خریدنے اور عورتوں کا ان کو پکانے میں صرف ہوتاہے۔ اس طریقے سے روزہ کے دوران عبادات کاموقع بہت کم ملتاہے اور لوگ روزہ کی برکات سے محروم رہ جاتے ہیں۔

جن لوگوں کو بھوکے رہنے کی عادت نہیں ہوتی یا جومسلسل سگریٹ نوشی کے عادی ہوتے ہیں، ان کے لیے رمضان المبارک کے روزے رکھنا بہت ہی دشوار ہوجاتاہے۔ایسے میں یہ لوگ ایسے مشغلے اختیار کرلیتے ہیں جو روزے کے ثواب کے بجائے روزے کو خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔کچھ لوگ اپناسارا وقت سوکر گزارلیتے ہیں،یعنی سحری کھاکرسارادن سوتے رہتے ہیں،  صرف اُٹھ کر نماز اداکرلیتے ہیں اور مغرب کے وقت اٹھ کر افطار کرلیتے ہیں۔اس طریقے سے انھیں بھوک کا احساس نہیں ہوتا، تاہم روزہ کا بنیادی مقصد فوت ہوجاتاہے۔

کچھ حضرات وقت گزاری کے لیے عبادات میں وقت صرف کرنے کے بجائے ٹی وی سیریل یا فلمیں دیکھنے کاسہارا لیتے ہیں۔اول تو یہ کہ غیر شرعی قسم کے ٹی وی سیریل اور فلمیں دیکھنا عام دنوں میں حرام ہے، پھررمضان المبارک میں یہ کیسے حلال ہوسکتاہے؟

کچھ حضرات اپنے دوستوں کو گھر بلالیتے ہیں اور تاش کھیلنے یاشیخیاں بگھارنے میں وقت گزار لیتے ہیں۔تاش کھیلنا لایعنی فعل ہے اور ان کی شیخیوں میں جھوٹ اور غیبت جیسے گناہ کبیرہ شامل ہوتے ہیں۔اپنی وقت گزاری کے اس مرحلے میں یہ حضرات ثواب کمانے کے بجائے الٹا گناہ کبیرہ کے مستحق ہوجاتے ہیں، جب کہ روزہ ہماری روحانی اور اخلاقی بیماریوں اور خرابیوں کا مؤثر علاج ہے۔

موجودہ وقت کی بہت بڑی بیماری یعنی موبائل فون اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنا بھی رمضان کے نہایت قیمتی لمحات کی ناقدری ہے۔ بعض لوگ تو اعتکاف کی زریں ساعتیں بھی ان کی نذر کردیتے ہیں، اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنا کتنا بڑا نقصان کررہے ہیں۔

بـے مقصد دعوتیں اور پارٹیاں

اکثر لوگ اپنے دوست احباب کو افطار کے لیے مدعوکرتے ہیں۔ رمضان میں افطار کرانا ثواب کا کام ہے، لیکن اس کا بنیادی مقصد غریبوں اور مسکینوں کو کھلانا ہے تاکہ انھیں بھی روزہ رکھنے میں آسانی ہو۔ حضرت زید بن خالد جہنیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایااس کو اتنا ہی اجر ملے گاجتنا اس روزہ دار کو ملے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں سے کچھ کم ہو (ترمذی)۔اس لیےغریب پڑوسی،رشتہ دار یادوست کو افطار کرانا ثواب کا کام ہے۔

مگر افطار کرانے کا اصل مقصد فراموش ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ عام طور پر ان دعوتوں میں ایسے لوگوں کو مدعو کیاجاتا ہے جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں اور جن کے پاس ضرورت سے زیادہ مال واسباب ہوتاہے۔ان پارٹیوںمیں افطار کے وقت تذکیر و دُعا کے بجائے آپس میں ہنسی مذاق اور گپ شپ ہوتی ہے۔ دعا وتسبیح یا اللہ اور رسول کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔

آخری عشرے کی ناقدری

رمضان المبارک کا آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کا ذریعہ ہے۔اس عشرے میں عبادات کا زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔اس عشرے میں ایک رات ایسی بھی ہوتی ہے جسے شبِ قدر کہتے ہیں۔اس عشرے کی راتوں میں عبادت کا بہت ثواب ہے، اس لیے ان راتوں کو ضائع کرنا بڑے گھاٹے کی بات ہے۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کوبیداررہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے (کہ اٹھ کر عبادت کریں)اورعبادت میں بہت کوشش فرماتے اور اس کے لیے کمر ہمت باندھ لیتے۔(مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: جس نے لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

اکثر دیکھاجاتاہے کہ رمضان کی راتوں میں لوگ مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے اہل وعیال کے ساتھ عید کے کپڑے اور سامان خریدنے کے لیے گھومتے رہتے ہیں اور عبادتوں سے غافل اور لاپروا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وقت برباد کرنا آخری عشرے کی فضیلتوں سے محروم ہونے کا سبب بنتا ہے۔

نوجوانوں کا لا اُبالی پن

تمام لوگوں کی طرح بچوں اور نوجوانوں میں بھی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اس ماہ کی برکتوں سے خوب فیض یاب ہوں۔رمضان المبارک بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایک روحانی تربیت کا مہینہ ہے۔والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولادکی صحیح تربیت کرتے وقت روز ہ کے مقصد کو اجاگر کریں۔ مگر مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض نوجوان روزہ رکھنے کے بعدبدمزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔انتہائی معمولی باتوں پر دوسروں سے جھگڑ پڑتے ہیں۔ ان کے مزاج میں چڑچڑاہٹ پیدا ہوجاتی ہے، جب کہ روزہ تو نام ہی صبروبرداشت کا ہے۔کچھ نوجوان تو صبح سے شام تک پورادن سوکر گزارتے ہیں جس سے ان کا روزہ بے مقصد ہوجاتاہے۔

بعض نوجوان روزے کی حالت میں بھی ڈرامے، فلمیں دیکھنے اور موبائل فون اور سوشل میڈیا پر فضول باتوں میں اپنا وقت بربادکرنے سے باز نہیں آتے۔اکثر نوجوان تراویح کی نماز کے لیے مسجد میں تو آجاتے ہیں مگر نماز میں شامل ہونے کے بجائے گپ شپ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ان کے والدین ان کی اس حرکت سے غافل ہوتے ہیں اور ان کی غلط تربیت کے ذمہ دار بنتے ہیں۔

کچھ خاص ہدایات

رمضان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے درج ذیل باتوں کا لحاظ ضرور کرنا چاہیے:

رمضان کے مہینے کو روزے رکھنے کے لیے مخصوص کیا گیاہے اور مسلمانوں کے لیے یہ لازم قرار دیاگیاہے کہ وہ روزے کے اصل مقصد اللہ کی اطاعت و بندگی کو جانیں اور اس پورے مہینے کے روزے رکھیں۔

جب تک کوئی شرعی عُذر نہ ہو،روزہ نہ چھوڑیں۔اگر کوئی عذر ہوتو روزہ چھوڑدیں اور رمضان کے بعد ان کی قضاکر لیں۔افطاری اور سحری میں ضرورت کے بقدرکھانا کھائیں۔ حد سے زیادہ کھانے سے پرہیز کریں تاکہ تراویح کی نمازمیں کوئی مشکل نہ ہو۔خواتین کو کھانے پکا نے میں زیادہ مصروف نہ رکھیں،تا کہ انھیں بھی کثرت سے عبادت کرنے کا موقع مل سکے۔

روزے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کریں، ہر آیت کے معنی اور مطلب کو سمجھیں، اور اس پر سختی سے عمل کریں۔ہروقت اللہ تعالی کے اذکار سے اپنی زبان کو تر رکھیں۔ احادیث اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کریں۔خود بھی اور اپنے اہل وعیال کو بھی رمضان المبارک کی عظمت سے آگاہ کریں۔گھر میں درس کا بھی اہتمام کریں تاکہ اہل خانہ بھی مستفید ہوسکیں۔خود بھی اہتمام کریں اور اپنے بچوں کو بھی تاکید کریں کہ وہ تراویح کی نماز پابندی سے اداکریں۔گپ شپ اور کھیل کود میں قیمتی وقت کو ضائع نہ کریں۔ اپنے بچوں کو وقتاًفوقتاً رمضان المبارک کی فضیلتوں کی تعلیم دیتے رہیں، تاکہ رمضان کا مقصد اور فوائد ذہن نشین ہوجائیں اور ان کی عاقبت سنور جائے۔

رمضان المبارک میں ہر نیکی کی جزا دس سے سات سو گنا تک ملتی ہے، اس لیےاس مہینے میں انفاق فی سبیل اللہ میں اضافہ کردیں۔ غریبوں کو کھانا کھلائیں، محتاجوں کی حتی المقدور ضروریات پوری کریں، بیماروں کی تیمارداری کریں، لوگوں کو درس و تدریس یا زبانی گفتگو کے ذریعے ہدایت کی راہ دکھائیں، یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھیں، گھر کے ملازموں کے کاموں میں کمی کریں یا ان کی مدد کریں، مجالسِ خیر میں شرکت کریں، اہل خانہ کو زیادہ آرام پہنچانے کی کوشش کریں وغیرہ۔ یہ سب کام بے پناہ اجر کا باعث ہوتے ہیں۔عید کے کپڑوں اور سامان کی خریداری رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی کرلیں تاکہ اطمینان سے آخری عشرے کی عبادات کا اہتمام کرسکیں۔

اگر ہم ماہِ رمضان کے تقاضے سامنے رکھیں اور اپنی کوتاہیوں کے سلسلے میں حساس رہیں، تو ماہِ رمضان کی برکتوں سے مالا مال ہوسکیں گے۔

رمضان المبارک کا مہینہ ایک مرتبہ پھر ہم پر سایہ فگن ہے۔ ماہِ رمضان نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہ مہینہ اُمت مسلمہ کے لیے حرکت، توانائی اور زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے اور اس حقیقت کا پوری دُنیا کے سامنے اظہار کرتا ہےکہ اُمت کا اجتماعی ضمیر خوابیدہ ضرور ہے مگر مُردہ نہیں۔ یہ مہینہ ہمارے احساسات کو پھر سے جگاتا ہے اور روح کو گرمانے والی زندہ تمنّا عطا کرتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک ماہ کے لیے سہی مگر لوگوں کی بڑی تعداد تقویٰ کے راستے پر چلنا شروع کردیتی ہے۔ یہ مہینہ تقویمِ اسلامی کا اہم ترین اور سب سے مبارک مہینہ ہے۔ قرآن حکیم میں اس ماہ کی فضیلت کے تین اسباب بیان کیے گئے ہیں:

۱- نزولِ قرآن: اس ماہِ مبارک میں قرآن حکیم نازل کیا گیا اور یہ ماہِ رمضان کی فضیلت کا بہت بڑا سبب ہے۔ ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں‘‘۔(البقرہ۲:۱۸۵)

۲- لیلۃ القدر: ماہِ رمضان کی فضیلت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس میں لیلۃ القدر موجود ہے۔ وہ رات کہ جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔’’ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزارمہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔(القدر۹۷:۱-۳)

۳- فرضیتِ صوم: یہ رمضان المبارک کی فضیلت کا تیسرا اہم سبب ہے جو قرآن حکیم میں بیان ہوا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۸۳)

اُمت مسلمہ کے ہرفرد کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بھی شخص اس مہینے کو پائے اس کے لیے لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اور کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا، ہمیشہ نرمی کا معاملہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف اُمت کے ہرفرد کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ روزے رکھے۔دوسری طرف ان لوگوں کے لیے استثنیٰ بیان کردیا گیا جو کسی مجبوری کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھ سکتے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۸۵)

اس آیت میں روزہ نہ رکھنے کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں اور یہ دونوں وجوہات عموماً عارضی ہوتی ہیں۔ انسان سفر کی حالت میں مستقل نہیں رہتا۔ مسافر کو اپنی منزل پر پہنچ کر روزے رکھنے ہوں گے اور جو روزے سفر میں چھوٹ جائیں ان کی تعداد بھی قضا کی صورت میں پوری کرنی ہوگی۔ جہاں تک مریضوں کا تعلق ہے تو یہ معاملہ تھوڑا وضاحت طلب ہے۔ امراض دو قسم کے ہوسکتے ہیں:

۱- عارضی نوعیت کا مرض (Acute Illness):ہم سب وقتاً فوقتاً مختلف بیماریوں اور حوادث کا سامنا کرتے ہیں۔ بعض اوقات مشکلات شدید نوعیت کی نہیں ہوتیں اور ان کی موجودگی میں روزہ رکھا جاسکتا ہے، مثلاً نزلہ، زکام، کھانسی،بخار وغیرہ۔ اگر مرض یا مشکل کی شدت زیادہ ہو تو روزہ مؤخر کیا جاسکتا ہے۔ جتنے بھی روزے قضا ہوں، ان کی گنتی بعد میں پوری کرنی ہوگی۔

۲- مستقل نوعیت کا مرض (Chronic Illness): ان امراض کی مزیددو نوعیتیں ممکن ہیں: (i)شدید نوعیت کے وہ امراض جن میں مکمل صحت یابی کا امکان نہیں ہوتا، مثلاً سرطان، گردوں کے افعال میں واضح کمی یا ناکامی، جگر کے پیچیدہ امراض جیسے Liver Cirrhosis۔ دل کے امراض اور بعض اعصابی امراض۔ ایسے امراض میں مبتلا افراد کے بس میں نہیں ہوتا کہ روزہ رکھیں۔ ڈاکٹر حضرات بھی مرض کی شدت اور مستقل علاج کی وجہ سے روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کو شریعت کی طرف سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، البتہ انھیں فدیہ دینا ہوتا ہے۔ ایک روزے کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو ایک دن میں دو وقت کا کھانا کھلایا جائے۔ اگر کوئی شخص اتنا محتاج ہے کہ فدیے کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا تو اسے اللہ سے معافی طلب کرنی چاہیے۔ جب کبھی حالات بہتر ہوں تو اسے فدیہ کی ادائیگی کردینی چاہیے۔

(ii) مستقل نوعیت کے کچھ امراض ایسے ہیں جن کے ساتھ عمومی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ ایسے امراض کی طویل فہرست ممکن ہے مگر ہم چند امراض کا تذکرہ کریں گے: 

  • بلند فشارِ خون یا ہائی بلڈپریشر 
  • ذیابیطس یا شوگر
  • امراضِ تنفس
  • تپ دق یا ٹی بی
  • معدے اور آنتوں کا السر یا تیزابیت
  • گردے اور پتے کی پتھریاں 
  • ہرنیا 
  • مرگی 
  • جگر کا ورم یا ہیپاٹائیٹس
  • مختلف نفسیاتی امراض وغیرہ وغیرہ۔

ان تمام امراض کی موجودگی میں روزہ رکھنا ممکن ہوتا ہے۔ البتہ ساتھ میں دوا کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے سے دوا کے اوقات مقرر کیے جاسکتے ہیں۔ اگر روزہ رکھنا مریض کے لیے خطرناک ہو تو روزہ چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔ اس پورے معاملے میں ایک دین دار اور ماہر ڈاکٹر کا مشورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔

ذیل میں ہم کچھ ایسے مسائل، کیفیات اور امراض بیان کریں گے جن پر ماہِ رمضان میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے:

  • دودھ پلانے والی خواتین :عموماً دودھ پلانے والی مائیں روزہ رکھ سکتی ہیں۔ اگر روزہ رکھنے سے دودھ کی مقدار کم ہوجائے اور بچّے کو پوری خوراک نہ مل پائے تو روزہ چھوڑا جاسکتا ہے۔ چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد بعد میں پوری کرنا ہوگی۔
  • خواتین کے مخصوص ایام :ان ایام میں شریعت کی طرف سے خواتین کو نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کی اجازت نہیں۔ ان دنوں کی نمازیں معاف ہوتی ہیں اور بعد میں ادائیگی کی ضرورت نہیں۔ قضا ہونے والے روزے بعد میں رکھنے ہوتے ہیں۔
  • روزے کی حالت میں انجکشن اور ڈرپ کا استعمال: اس معاملے میں علما کی آراء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ انجکشن اور ڈرپ کا استعمال ماضی قریب میں شروع ہوا تھا۔ نبی کریمؐ کی بعثت کے کئی صدیوں بعد تک ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔ اس مسئلے پر علما کی انفرادی آراء سامنے آتی رہی ہیں۔ جون ۱۹۹۷ء میں کاسابلانکا، مراکش میں ’اسلامی فقہی کونسل‘ کی نویں کانفرنس منعقد ہوئی جس میں طبّی ماہرین اور جید علما نے شرکت کی۔ کچھ دنوں کے بعد جدہ، سعودی عرب میں اسی نوعیت کی دسویں کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ ان دونوں کانفرنسوں میں دیگر فقہی مسائل کے ساتھ روزہ فاسد ہونے کی طبّی وجوہات پر ماہرین نے اظہارِ خیال کیا۔ عوام الناس کی رہنمائی کے لیے مندرجہ ذیل فتاویٰ جاری کیے گئے:

            ۱-         غذائیت والے انجکشن سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ اس نوعیت کے انجکشن کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے منہ کے راستے کچھ کھانا پینا۔

            ۲-         روزے کی حالت میں نمکیاتی محلول (Normal Saline) کا بین الورید (Intravenous) استعمال بھی روزے کو فاسد کردیتا ہے۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ ۹/۱۷۸ ، اور ۱۰/۲۵۲؛ مجموعہ فتاویٰ و رسائل العثیمین، ۱۹/۲۱، ۱۹/۲۰۴؛ شیخ ابن العثیمین مجالس شہر رمضان،ص ۷۰)

بعض علما درد اور بخار کے لیے انجکشن لگانے کی اجازت دیتے ہیں مگر غذائیت بخش انجکشن کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اس معاملے میں احتیاط بہتر ہے۔ انجکشن خواہ غذائیت بخش ہو یا درد اور بخار کے لیے استعمال کیا جائے، دونوں صورتوں میں پانی یا محلول کی مناسب مقدار جسم میں داخل ہوکر دورانِ خون کا حصہ بن جاتی ہے۔ فقہ کے ایک بنیادی اصول کو ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مطابق جس شے کی زیادہ مقدار حرام ہوتی ہے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔ شراب اور دیگر منشیات مقدار سے قطع نظر ہرحال میں حرام قرار دی گئی ہیں۔ روزے کی حالت میں پانی کا ایک گھونٹ یا گلاس دونوں ناجائز اور روزے کے فاسد ہونے کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح انجکشن خواہ ایک ملی لیٹر ہو یا پانچ سو ملی لیٹر، دونوں صورتوں میں ممنوع ہوگا۔

  • روزے کے دوران ناک، کان اور آنکھ میں دوا ڈالنا:ناک کے معاملے میں فقہا کی عمومی رائے یہی ہے کہ روزے کے دوران ناک میں دوا کے قطرے نہ ڈالے جائیں۔ ناک کا تعلق براہِ راست حلق سے ہوتا ہے۔ ناک میں ڈالے جانے والے قطرے حلق میں اور بعدازاں معدے تک پہنچ سکتے ہیں۔ آنکھ اور کان کے حوالے سے علما کی آراء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔  اس لیے آنکھ اور کان کی ساخت کو طبّی نقطۂ نظر سے دیکھنا بہتر ہوگا۔ آنکھ سے ایک باریک نالی ناک کے پچھلے حصے تک جاتی ہے۔ اس نالی کو Nasolacrimal Ductکہا جاتا ہے۔ آنکھ میں قطرے ڈالے جائیں تو مذکورہ نالی کے ذریعے حلق تک پہنچتے ہیں اور بعض اوقات دوا کا ذائقہ بھی محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے روزے کے دوران آنکھ میں قطرے ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کچھ علما احتیاط کے ساتھ آنکھ میں مرہم لگانے کی اجازت دیتے ہیں۔ کان کا براہِ راست تعلق حلق یا معدے سے نہیں ہوتا۔ ایک صحت مند کان میں ڈالی جانے والی دوا حلق یا معدے تک نہیں پہنچ سکتی۔ اگر کان کا پردہ سلامت نہ رہے اور کسی وجہ سے اس میں سوراخ یا Perforationہوجائے تو کان میں ڈالے جانے والے قطرے حلق تک پہنچ سکتے ہیں۔ روزے کے دوران عمومی حالات میں کان کے اندر دوا کے قطرے ڈالے جاسکتے ہیں۔ کان کے کسی مرض کی صورت میں کسی ماہر ڈاکٹر سے معائنہ کروا لینا چاہیے جس سے حتمی طور پر معلوم ہوجائے گا کہ کان کا پردہ سلامت ہے یا نہیں۔
  • روزے کے دوران خون کا عطیہ:خون کا عطیہ دینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا البتہ شدید نقاہت پیدا ہوسکتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خون کا عطیہ افطار کے بعد دیا جائے۔ اگر کسی روزہ دار مریض کو خون کے حصول کی ضرورت پڑجائے تو ڈاکٹر کی اجازت سے ایسے مریض کو روزہ توڑ دینا چاہیے ۔بعد میں یہ روزہ قضا رکھا جاسکتا ہے۔ روزے کے کفّارے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
  • روزے کے دوران قے آنا اور نکسیر پھوٹنا:قے یا اُلٹی سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، البتہ منہ بھر کر قے آئے اور اس کا کچھ حصہ واپس حلق یا معدے میں چلا جائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔نکسیر پھوٹنے سے بھی روزہ برقرار رہتا ہے لیکن خون حلق یا معدے میں جانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
  • دانتوں کی صفائی اور علاج:روزے کی حالت میں مسواک کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں روزہ دار کو مسواک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ تاہم ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ پائوڈر کا استعمال ممنوع ہے۔

روزہ دار شدید ضرورت کے تحت دانت نکلوا سکتا ہے مگر خون یا دوا معدے میں جانے سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔ بہتر ہوگا کہ دانتوں کا تفصیلی معائنہ اور علاج افطار کے بعد کروایا جائے۔

  • مقعد، اندامِ نہانی اور پیشاب کی نالی:یہ تینوں انسانی جسم کے اہم اور نازک حصے ہیں۔ ان حصوں کے معائنہ اور ان میں دوا کا استعمال انتہائی اہم معاملہ ہے۔ اس حوالے سے علما کی آراء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہاں ہم دوبارہ اسلامی فقہی کونسل اور شیخ ابن العیثمین سے رجوع کرتے ہیں تو درج ذیل فتاویٰ سامنے آتے ہیں:

            ۱-         روزے کے دوران مقعد کا اندرونی معائنہ کیا جاسکتا ہے۔

            ۲-         بواسیر یا کسی زخم کے لیے مرہم کا اندرونی اور بیرونی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

            ۳-         حقنہ (Suppositories) اور قبض کشا مائع روزے کے دوران مقعد میں داخل کرسکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔

            ۴-         پیشاب کی نالی میں کوئی دوا یا نلکی (Catheter) ڈال سکتے ہیں اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

  • دمے کے مریض اور روزہ:دمے کے مریض سانس چڑھنے کی صورت میں انہلیر (Inhaler) یا شمامہ کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے نیبولائزر (Nebulizer) کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں دوا سانس کے راستے پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے مگر دوا کی معمولی مقدار حلق میں جاتی ہے اور معدے میں بھی دوا جانے کا امکان ہوتا ہے۔ اسی لیے روزے کے دوران انہیلر اور نیبولائزر کا استعمال ممنوع ہے۔ وہ مریض جن کا گزارا انہلیر یا نیبولائزر کے بغیر نہیں ہوسکتا انھیں چاہیے کہ روزہ رکھنے سے گریز کریں اور فدیہ ادا کریں۔
  • امراضِ قلب :امراضِ قلب کئی اقسام کے ہوسکتے ہیں۔ کچھ شدید نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔ بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیں جو صبح و شام دوا استعمال کرکے معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھنا چاہیے۔ مرض کی شدت زیادہ ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہوگا۔ کچھ لوگ دل کے درد سے نجات حاصل کرنے کے لیے زبان کے نیچے گولی رکھتے ہیں۔ گولی کا کچھ حصہ لعابِ دہن کے ذریعے معدے میں چلا جاتا ہے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسے لوگ جن کے دل کی حالت قابو میں نہ ہو تو ان کو روزہ رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ وہ فدیہ دے سکتے ہیں۔
  • ذیابیطس کے مریض کیا کریں؟ ذیابیطس کے مریضوں کا علاج عموماً دو طریقوں سے ہوتا ہے: اوّل وہ مریض جو گولیاں استعمال کرتے ہیں اور دوسرے وہ جنھیں انجکشن کے ذریعے انسولین دینی پڑتی ہے۔ گولیاں استعمال کرنے والے مریض ڈاکٹر کے مشورے سے صبح و شام کے اوقات مقرر کرسکتے ہیں اور ایسی صورت میں روزہ رکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی وقت وہ شوگر کی شدید کمی کا شکار ہوجائیں تو روزہ توڑ دینا چاہیے۔ شوگر کی اچانک کمی کا معاملہ بے حد اہم ہوتا ہے اور اس کی علامات سے مریضوں کو آگاہی ہونی چاہیے۔ یہ علامات عام طور پر درج ذیل ہوتی ہیں:
    • غیرمعمولی نقاہت اورکمزوری
    • بھوک کا شدید احساس اور میٹھا کھانے کی خواہش
    • دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا
    • ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہوجانا
    • ٹھنڈے پسینے آنا
    • ذہنی کیفیت میں تبدیلی
    • بے ہوشی طاری ہونا۔

ان علامات والے مریضوں کو روزہ توڑ دینا چاہیے اور فوری طور پر کوئی میٹھی چیز کھا کر قریبی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔انسولین استعمال کرنے والے مریضوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسولین کے انجکشن کئی مرتبہ دیئے جاتے ہیں اور اکثر کھانے سے قبل دیئے جاتے ہیں۔ یہ مریض انجکشن کے بعد کچھ نہیں کھائیں گے تو شدید نقاہت اور شوگر کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور فدیہ دے دینا چاہیے۔

ہم نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ روزے کے حوالے سے اہم طبّی مسائل کا حل پیش کردیا جائے۔ طبّی مسائل مزید بھی ہوسکتے ہیں مگر ہرمسئلے کا تذکرہ چند سطور میں کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم نے قرآن و سنت کے بنیادی رہنما اصول بیان کردیئے ہیں۔ ان کی روشنی میں بقیہ مسائل کے لیے بھی رہنمائی مل جائے گی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جن چیزوں کی اجازت اور ممانعت قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے ان پر بحث کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اگر علما کی آراء اپنے دور کی طبّی معلومات کی بنیاد پر سامنے آتی ہیں تو اس پر بحث اور رائے میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نےہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان کے روزے رکھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اللہ ہمیں روزے کی حقیقت سمجھنے، اس پر عمل اور بھرپور فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ اس کا بنیادی مقصدانسان میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ کھانے پینے سے پرہیز تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاءؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔(البقرہ۲:۱۸۳)

صوم کا مطلب ہے (اپنے آپ کو ) روکنا ا ور اس کے معنی صبرہیں ۔ صبر کا کم سے کم تقاضا حرام سے رکنا ہے، اور مزید یہ کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل کی جائے۔

رمضان کے مہینے کی عظمت

رمضان کی عظمت قرآن کی وجہ سے ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (متفق علیہ)

قرآن اور رمضان

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔ (بخاری، مسلم) 

حضرت عبداللہ ؓبن عمرو کی روایت کردہ حدیث میں ہے: ’’روزہ اور قرآن (قیامت کے دن) بندےکے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے رب میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! اور قرآن یہ کہے گا کہ میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے) سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا‘‘۔ پس رمضان میں خصوصی طور پر قرآن سے جڑنے، اس کی تلاوت کرنے اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔

روزے کی حقیقت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل احادیث میں روزے کی حقیقت بیان کی گئی ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے روزے کی حالت میں بے ہودہ باتیں (مثلاً: غیبت ، بہتان ، تہمت ، گالی گلوچ ، لعن طعن ، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے۔ ( بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی ، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے، اور کتنے ہی رات کو تہجد میں قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(دارمی ،  مشکوۃ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے (کہ نفس و شیطان کے حملے سے بھی بچاتاہے، اور گناہوں سے بھی باز رکھتا ہے، اور قیامت میں دوزخ کی آگ سے بھی بچائے گا)، پس جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ تو ناشائستہ بات کرے ، نہ شور مچائے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی جھگڑا کرے تودل میں کہے یا زبان سے اس کو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں (اس لیے تجھ کو جواب نہیں دے سکتا، کہ روزہ اس میں مانع ہے)۔ (بخاری ومسلم ، مشکوٰۃ)

روزہ ڈھال ہے جب تک (تم) اس میں سوراخ نہ کر دو۔(نسائی)

مندرجہ بالا احادیث میں جن بُرے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہی اس ڈھال کے سوراخ ہیں جن سے روزہ کی افادیت اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسےڈھال میں سوراخ ہو جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے۔

روزہ گذشتہ گناہوں کا کفّارہ

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کار وزہ رکھا ، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گا‘‘ (صحیح ابنِ حبان ، بیہقی)۔ یعنی کھانے پینے سے رُکنے کے ساتھ ساتھ بُرے اعمال سے بھی رکا جائے اور منہ کےروزے کے ساتھ دوسرے اعضا کا روزہ بھی ہونا ضروری ہے۔

  • حقیقی روزہ : وہ روزہ ہے جس میں آنکھ ، زبان ، کان ، ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا کے گناہوں سے بچا جائے اور یہی ان اعضا کا روزہ ہے اور یہی حقیقی روزہ ہے جس پر اللہ سے پورے اجر کی امید کی جا سکتی ہے اور جو زندگی میں تبدیلی کا باعث بھی بنے گا۔
  • آنکھ کا روزہ: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ  بِمَا يَصْنَعُوْنَ۝۳۰ (النور۲۴:۳۰) ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ،یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، جوکچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نظر ، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا ۔(رواہ الحاکم )

  • کان کا روزہ: حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔
  • زبان کا روزہ: زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔ اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’روزہ ڈھال ہے ، پس جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بے ہودہ بات کرے ، نہ جہالت کا کوئی کا م کرے ، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے تو کہہ دے کہ میر ا روزہ ہے‘‘۔( بخاری)

کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ کے حکم پر ہم روزے میں سحری سے لے کر افطاری تک حلال کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن اسی اللہ نے قرآن مجید میں جس چیز (یعنی غیبت ) کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے، اس حرام کو ہم رغبت سے کھاتے ہیں ،نعوذ بک من ذٰلک!

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ۝۰ۡاِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۝۱۲ (الحجرات ۴۹:۱۲)اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسّس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

  • منہ اور پیٹ کا روزہ: افطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے‘‘ (احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم)۔اگر شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزہ سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوت توڑنے کا مقصد حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام پینےیا کھانے میں مشغول ہو جائے۔

افطار کے وقت روزہ دار حالتِ خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود ؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے۔ اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔

  • دل کا روزہ: دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے ۔ البتہ وہ دُنیا جو دین کے لیے مقصود ہو، وہ تو دُنیا نہیں بلکہ توشۂ آخرت ہے۔ چار چیزوں کی کثرت سے پرہیز کیا جائے: طعام، کلام، نیند اور اختلاط اور ان راستوں کی نگہبانی کی جائے جہاں سے دل کی بیمار ی لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے یعنی آنکھ، کان، زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی جائے ۔
  • بقیہ اعضاء کا روزہ: ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶  (بنی اسرائیل۱۷: ۳۶) ’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو۔ یقینا آنکھ ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے‘‘۔
  • رمضان کی آخری شب مغفرت کا پروانہ ہـے:  ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ بخشش کی جاتی ہے میر ی اُمّت کی رمضان کی آخری رات میں۔ عر ض کیا گیا: یا رسول ؐاللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا:نہیں۔ بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے‘‘(مسنداحمد)، یعنی جب وہ پورے اہتمام سے حقیقی روزہ رکھتے ہیں تو رمضان المبارک کی آخری شب اُجرت اور انعام کے طور پر ان کی بخشش کر دی جاتی ہے ۔ ہمیں یہ رات فضولیات اور خرافات میں نہیں بلکہ عبادات اور دوسرے نیک اعمال میں گزارنی چاہیے کہ معلوم نہیں پھر یہ رات ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔

اللہ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائےا ور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائےاور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے۔ آمین یا ربّ العالمین!

 ضروری نوٹ: راقم کو اپنی دعا ؤں میں(خصوصاً افطار کے وقت) یاد رکھنے کی درخواست ہے!

اسلام کی بنیاد دو ستونوں پر ہے:  ایک اللہ کی عبادت اور دوسرے مخلوق کی خدمت۔ اگر ان میں سے کوئی ایک ستون بھی ڈھے جائے تو پوری بنیاد ہل جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ان کے بارے میں ارشاد ہے:

 نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق اور مغرب کی طرف کرو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم ایمان لائو، اللہ پر، یوم آخرت پر، اور فرشتوں پر، کتاب اور پیغمبروں پر اور مال خرچ کرو، اس کی محبت کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلاموں کی آزادی پر اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔(البقرہ۲: ۱۷۷)

اسلام نے اللہ کی عبادت کے ساتھ مخلوق کی خدمت کو یکساں اہمیت دی ہے۔ اس کے لیے انسان کو  ذمہ دار بنایا ہے اور اس کی جواب دہی بھی ہے۔ اگر معاشرے میں حاجت مند اور مفلوک الحال لوگ موجود ہوں اور صاحب ِحیثیت ان کی دستگیری نہ کریں تو ان کا عقیدہ بے اثر اور عبادت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ کیوں کہ اللہ کی رضا کا راستہ بندوں کی خدمت کے درمیان سے گزرتا ہے۔ اس لیے دینی اعمال سماجی تقاضوں کی تکمیل کے بغیر معتبر نہیں ہوتے۔ اس نکتہ کو قرآنِ پاک نے اس طرح سمجھایا ہے:

اس نے گھاٹی نہیں پار کی اور تمھیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ گھاٹی؟ غلام آزاد کرانا، فاقہ کے دن میں کھانا کھلانا قرابت دار یتیم کو یا خاک نشین مسکین کو، پھر وہ ہوجائے ایمان والوں میں اورصبر کی اور رحم کھانے کی تاکید کرنے والوں میں۔وہ لوگ بڑے نصیب والے ہیں۔(البلد ۹۰:۱۱-۱۸)

یعنی اللہ پر ایمان لانا ایک دعویٰ ہے اور اس کی دلیل اللہ کے نادار بندوں کی خدمت کرناہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی آبادی کو اللہ کا کنبہ قرا ردیا ہے اور فرمایاہے:

اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عِیَالِہٖ (مشکوٰۃ المصابیح، باب الشفقۃ) پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کو وہی شخص پسند ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔

مال کا بہترین مصرف

انسانوں کی خدمت اور ناداروں کی حاجت روائی اخلاص سے اور بدلہ کے جذبہ کے بغیر ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ بندوں کے بارے میں فرمایا ہے :

وہ لوگ کھانا کھلاتے ہیں اللہ کی محبت میں مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو اور کہتے ہیں کہ ہم تمھیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ، تم سے بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے۔(الدھر۷۶: ۸-۹)

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارث کامال اپنے مال سے زیادہ عزیز ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کو اپنے مال سے زیادہ وارث کا مال پیارا ہو۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مال تم نے آگے بھیج دیا وہ تمھارا مال ہے اور جو پیچھے چھوڑ دیا وہ وارث کامال ہے۔ (الصحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب ماقدم من مالہٖ فہو لہ)

نادار انسانوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جو مال خرچ کیا جائے درحقیقت وہ اپنا مال ہے کیوں کہ آخرت میں اس کااجر ملے گا اور جو مال انسان دنیا میں چھوڑ کر جاتا ہے وہ تو وارثوں کا ہوتاہے۔قرآن یقین دہانی کراتاہے:

اور جو خیرات تم کروگے اس کا پورا بدلہ تم کو دیا جائے گااور تم پر ظلم نہ ہوگا۔(البقرہ ۲:۲۷۲)

اسلام نے انسانوں کی خدمت کا اعلیٰ معیار مقرر کیاہے۔ اس نے بے غرض خدمت اور بے لوث محبت کے ساتھ اپنا عمدہ اور پسندیدہ مال خرچ کرنے کی تعلیم دی ہے۔ عام طور پر لوگ غریبوں اور ناداروں کو کھانے پینے ، پہننے یا ضرورت کی اشیا دیتے ہیں تو اپنے گھر کا ناکارہ حصہ نکال کر دیتے ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ انسانی خدمت نہیں بلکہ تحقیر ہے۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے لیے جس مال کو اچھا اور کارآمد سمجھتا ہے وہ غریبوں اور ناداروں پر خرچ کرے۔ قرآن پاک نے یہ اصولِ زندگی عطا کرتے ہوئے فرمایا:

تم لوگ نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنے پسندیدہ مال میں سے خرچ نہ کرو اور جو کچھ بھی تم خرچ کروگے اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔(ال عمرٰن۳: ۹۲)

اسلام نے یہ نکتہ بھی واضح کردیا کہ ضرورت مندوں اور ناداروں پر مال خرچ کرنا ان پر احسان کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہے۔کیوں کہ خالق کائنات نے مال داروں کے مال میں ناداروں کا حق رکھ دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ مال دار لوگ ناداروں کا حق ادا کریں۔ معاش میں پیچھے رہ جانے والوں کو اوپر اٹھانے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

ان کے مالوں میں متعین حصہ ہے سوال کرنے والوں کا اور محروم لوگوں کا۔(المعارج۷۰:۲۴-۲۵)

پھر ان حق داروں کا حق ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔ (الروم ۳۰: ۳۸)

مادہ پرست ذہن لوگوں سے مال حاصل کرنے کو مالداری اور ان پر خرچ کرنے کو ناداری کا ذریعہ سمجھتاہے۔ اسلام اس نظریۂ زندگی کا رُخ بدلتا ہے اور لوگوں کا ناحق مال لینے کو ناداری اور ان پر خرچ کرنے کو مالداری سے تعبیر کرتاہے۔ قرآن میں اس نظریہ کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:

جومال تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کر بڑھ جائے، وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ اللہ کی رضا کے لیے تم دیتے ہو تو انھی لوگوں کے مال میں اضافہ ہوتاہے۔(الروم ۳۰:۳۹)

اسلام نے انسانی زندگی کو کارآمد اور کامیاب بنانے کے لیے بقائے نفع کا اصول دیا۔ دنیامیں جو چیز غیر نفع بخش ہوگی وہ جلد ختم ہوجائے گی اور جو چیز نفع بخش ہوگی وہ دیر تک قائم رہے گی۔ اس کے مطابق اگر انسان دوسرے انسان اور دوسری مخلوق کے لیے نفع بخش ہوگا تو وہ باقی رہے گا اور اگر وہ نفع بخش نہ ہوگا تو اپنے وجود کا جواز کھودے گا اور روئے زمین پر بے آبرو ہوجائے گا۔ قرآن پاک نے ندی نالوں کے جھاگ کی مثال دے کر سمجھایا:

اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اُٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اُٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔(الرعد۱۳:۱۷)

اسوئہ رسولؐ

یہ بات نہایت بلیغ اور خوب صورت طریقہ سے قرآن نے سمجھادی کہ روئے زمین پر باقی رہنے کے لیے دوسروں کے لیے نفع بخش ہونا ضروری ہے۔ اسی نکتہ کی وضاحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی ہے:

خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَنْفَعُ النَّاسَ (کنز العمال، باب خطب النبیؐ، ومواعظہ)لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے نفع بخش ہو۔

مسلمانوں کو خاص طور پر نبی پاکؐ نے یہ حکم دیا کہ وہ عام انسانوں کے لیے نفع بخش بنیں اور ان کی بھلائی کے لیے کام کریں تاکہ ان کا وجود معنی خیز ہو، ان کی ضرورت محسوس کی جائے اور ان سے خیر کی توقع کی جائے۔ اس مشن کے لیے وہ اپنا وقت اور مال لوگوں پر خرچ کریں۔ یہی راستہ ہے دنیا میں عزت پانے اور آخرت میں نجات حاصل کرنے کا۔ اللہ تعالیٰ ان بندوں کی تکلیف کو دُور کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کی تکلیف کا مداوا کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدرت کا یہ زریں اصول ان لفظوں میں بیان فرمایا:

جو شخص دنیا میں کسی مومن کی کوئی تکلیف دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیف دُورکرے گا، اور جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی فراہم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بندہ کی مدد میں رہتاہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتاہے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعا، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے دعوائے ایمان کو غلط ٹھیرایا ہے جو خود تو پیٹ بھر کے کھا لیتا ہے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جاتاہے۔(الادب المفرد، باب لایشبع دون جارہ)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت خلق اور انفاق کی خود بڑی روشن مثال تھے۔ آپؐ کی پہچان مکہ میں خدمت خلق سے تھی۔ آپؐ ہمیشہ ناداروں کی ضرورت پوری کرتے۔ انسانی معاشرے میں آپؐ سے زیادہ ناداروں پر مال خرچ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ جب رمضان کا مہینہ آتا تو تیز رفتار ہواؤں سے زیادہ مال خرچ کرتے تھے۔(الصحیح البخاری)

آپؐ ہی کے بارے میں حضرت ابوطالب نے کہا تھا:

وَاَبْیَضُ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہٖ

ثُـمَالُ الْیَتَامٰی عِصْمَۃٌ لِلْاَرَامِلِ

وہ گورے مکھڑے والا جس کے واسطے سے بارش کی دعائیں مانگی جاتی ہیں، یتیموں کا سرپرست اور بیواؤں کا پشت پناہ۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب مال واسباب آتے تھے تو ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ بحرین سے بہت سا مال آپؐ کے پاس آیا۔ یہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والے مالوں میں سب سے زیادہ تھا۔ آنجنابؐ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں پھیلادو، پھر آپؐ نماز کے لیے چلے گئے، نماز ادا کرنے کے بعد تشریف لائے اور اس مال کے پاس بیٹھ گئے۔ پھر جو کوئی بھی نظر آیا آپؐ اسے دیتے چلے گئے۔ اس جگہ سے اس وقت اٹھے جب سارا مال تقسیم ہوگیا اور ایک درہم بھی باقی نہ بچا۔(الصحیح البخاری)

اَزواجِ مطہراتؓ کا اسوہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اَزواج مطہراتؓ میں بھی خدمت خلق اور محتاجوں کی حاجت روائی کی روایت پورے طور پر قائم رہی۔ رسو ل پاکؐ کا گھرانہ محتاجوں کی ضرورت کی تکمیل کا مرکز بنارہا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں ام ذرہ بیان کرتی ہیں کہ عبداللہ ابن زبیرؓ نے ان کی خدمت میں دو تھیلیوں میں بھرا ہوا مال بھیجا، میرے اندازے کے مطابق ۸۰ ہزار یا ایک لاکھ درہم تھے۔ حضرت عائشہؓ اس وقت روزہ کی حالت میں تھیں۔ وہ بیٹھ کر ان درہموں کو تقسیم کرنے لگیں، شام ہوتے ہوتے ان کے پاس ایک درہم بھی نہیں بچا۔ جب افطار کا وقت قریب ہوا تو اپنی باندی سے کہا کہ افطار کا سامان لے آؤ۔ وہ ایک روٹی اور زیتون لے کر آئی۔ اُمِ ذرہ نے حضرت عائشہؓ سے کہا: اگر آپ چاہتیں تو کم سے کم ایک درہم سے گوشت خرید لیتیں۔ اُم المومنینؓ نے جواب دیا کہ تم نے پہلے یاد دلایاہوتا تو شاید میں خرید لیتی۔(حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج۲،ص ۴۷)

اسی طرح حضرت عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضر ت عائشہؓ کو ۷۰ ہزار درہم تقسیم کرتے ہوئے دیکھا، جب کہ خود اپنے دوپٹے میں پیوند لگا کر اوڑھتی تھیں (ابوالفرح ابن جوزی، صفۃ الصفوۃ ، دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد، ۱۹۶۸ء، ج۲،ص۱۳)

صحابہ کرامؓ کا جذبۂ خدمتِ خلق

ازواجِ مطہر اتؓ کے علاوہ صحابہ کرامؓ نے غربا پر وری اور انسانی خدمت کے مشن کو آگے بڑھایا۔ مال دار صحابہؓ نے غربا پروری میں مثال قائم کی تو عام صحابہؓ نے بھی حسب استطاعت ضرورت مندوں کی اعانت وخدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حضرت ابوبکرؓ کی پوری زندگی غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور غلاموں کی امداد اور خدمت میں گزری ۔ حضرت عمر فاروقؓ خدمتِ خلق کے معاملے میں کتنے فکر مند اور مستعد تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے :

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ رات کوگشت لگاتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام صرار پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکارہی ہے اور اس کے پاس دو تین بچے رورہے ہیں۔ قریب جاکر حقیقت دریافت کی تو اس عورت نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا ہے۔ ان کو بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھادی ہے۔ حضرت عمرؓ اسی وقت اٹھے، مدینہ آکر بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اپنے غلام اسلم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا کہ میں لے کر چلتا ہوں۔ فرمایا: ہاں، لیکن تم قیامت کے دن میرا بار نہیں اٹھاؤگے۔  (شبلی نعمانی، الفاروق، نئی دہلی، ۲۰۱۴ء، ص۳۰۲)

خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ بڑے تاجر تھے اور اپنے مال کا بڑا حصہ غریبوں ، یتیموں اور بیواؤں پر خرچ کردیتے تھے۔ یہی اسوہ خلیفۂ چہارم حضرت علیؓ کا بھی تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت طیارؓ کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:

مسکینوں کے لیے جعفر بن ابی طالب بہترین انسان تھے۔ وہ ہمارے پاس آتے تھے اور ان کے گھر میں جو کچھ ہوتا تھا وہ ہم لوگوں کوکھلاتے تھے۔(الصحیح البخاری، کتاب الاطعمۃ، باب الحلوا والعسل)

قرآن پاک نے مسکینوں اور یتیموں کی کفالت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا جو حکم دیا اور حدیث پاک میں یتیموں کی کفالت کی جو ترغیب دی گئی، اس کی وجہ سے صدر اسلام کا مسلم معاشرہ محتاجوں کے لیے نعمت کدہ اور جنت نشاں بن گیا۔ یتیموں کو ایسے مشفق سرپرست مل گئے کہ ان کو اپنے والد یا والدین سے محرومی کا احساس ختم ہوگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا :

 كُنْ لِلْيَتِيْمِ كَالْاْبِ الرَّحِيْمِ (الادب المفرد، باب کن للیتیم کالاب الرحیم) یتیموں کے لیے رحمت کرنے والے باپ بن جاؤ۔

آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میںیتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔ یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں دو انگلیوں کی طرح قریب ہوں گے‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب، فصل من یعول یتیما)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیح بخاری میں صراحت سے بیان کیاگیا ہے کہ: کَانَ لَا یَاْکُلُ طَعَامًا حَتَّی یُؤْتٰی بِـمِسْکِیْنٍ (الصحیح البخاری)وہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کوئی مسکین ان کے کھانے میں شریک نہ ہوجائے۔

روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ خاص طور پر یتیموں کو اپنے ساتھ کھانا کھلانے کا اہتمام کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ایک واقعہ معروف تابعی ابومحذورہ نے اس طرح بیان کیاہے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس میںبیٹھا تھا کہ صفوان بن امیہ کھانے کی ایک دیگ کے ساتھ آئے جسے کچھ لوگ اٹھائے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے وہ دیگ حضرت ابن عمرؓ کے سامنے رکھ دی۔ انھوں نے پاس پڑوس کے غربا ومساکین اور لوگوں کے غلاموں کو بلالیا اور ان کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرمایا۔ (الادب المفرد، باب ھل یجلس خادمہ  معہ اذاا کل)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کھانا کھلانے میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز نہیں کرتے تھے بلکہ ہر انسان کی بلاتفریق مذہب وملت خبرگیری کرتے تھے۔ چنانچہ مشہور تابعی حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں حاضر تھا، ان کا غلام بکری ذبح کررہا تھا۔ حضرت عبداللہ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ جب تم ذبح کرنے سے فارغ ہوجاؤ تو سب سے پہلے بکری کا گوشت ہمارے پڑوسی یہودی کے گھر پہنچاؤ۔ (الادب المفرد، باب جار الیہودی)

حضرت کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبلؓ اپنی قوم کے افضل ترین نوجوانوں میں سے تھے۔ جب بھی کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا تو اس کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ خدمت خلق کے لیے انھوں نے اتنے قرضے لیے کہ ان کا سارا مال ختم ہوگیا۔ بالآخر انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے درخواست کی کہ قرض داروں سے تھوڑی تخفیف کرادیں، لیکن قرض دار اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے ان کا بچا ہوا مال بیچ کر ان میں تقسیم کردیا اور حضرت معاذ کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ (صفۃ الصفوۃ ، ج۲، ص ۱۹۷)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب کوئی مصیبت زدہ ان کے پاس اپنی فریاد لے کر آتا تو وہ ہر طرح سے اس کی مدد فرماتے۔ خدمت خلق کے اتنے حریص تھے کہ اعتکاف سے نکل کر لوگوں کی مدد کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ ایک مرتبہ وہ مسجد نبویؐ میں اعتکاف کررہے تھے کہ ایک شخص وہاںآیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے اسے غم زدہ دیکھا تو فرمایا: اے شخص میں تم کو غمگین دیکھتا ہوں؟ اس نے کہا کہ ہاں اے رسول کریمؐ کے چچازاد بھائی! فلاں آدمی کا میرے اوپر قرض ہے اور اسے ادا کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اپنے اعتکاف سے نکل آئے اور اس محتاج کے ساتھ چل پڑے اور فرمانے لگے کہ میں نے اس قبر کے مکین (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں چل پڑا اور اس کی ضرورت پوری کی تو اس کے لیے دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے‘‘۔ (طبرانی، بیہقی، المستدرک للحاکم)۔اس طرح کی مثالیں دیگر صحابہ کرامؓ کی بکثرت موجود ہیں۔

تابعین کی خدمتِ خلق کی روش

خدمتِ خلق کی وراثت صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین کے حصہ میں آئی ۔ بڑی تعداد ان تابعین کی ہے جنھوں نے انسانی خدمت کو اپنا مشن بنایا۔ ربیع بن خیشم مشہور تابعی اور محدث تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے شاگرد تھے۔ غربا پروری اور انسانی خدمت کو وظیفۂ زندگی بنائے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی اہلیہ سے عمدہ کھاناپکانے کو کہا: بیگم نے نہایت اہتمام سے یہ کھانا پکایا۔ ربیع نے وہ کھانا لے جاکر شہر کے ایک پاگل کو اپنے ہاتھ سے کھلایا، اس کے منہ سے لعاب بہتا تھا اور ربیع اسے کھانا کھلاتے تھے۔ کھانا کھلاکر گھر پہنچے توبیوی نے کہا کہ میں نے اس قدر اہتمام سے کھانا تیار کیا اور آپ نے ایسے آدمی کو کھلادیا جو یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ اس نے کیا کھایا۔ ربیع نے جواب دیا کہ خدا تو جانتا ہے۔ (شاہ معین الدین ندوی، تابعین، ۲۰۰۹ء، ص۱۱۸)

ایک اور نامور تابعی مسروق بن اجدع یمن کے رہنے والے تھے۔ علم وعبادت میں مشغول رہتے اور خدمت خلق کے لیے وقت اور دولت صرف کرتے تھے۔ جب بھی ان کو کوئی رقم ملتی، اسے ضرورت مند انسانوں پرخرچ کردیتے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک متمول انسان سائب بن اقرع سے کی۔ ان سے بیٹی کے مہر کے علاوہ دس ہزار دینار لیے اور یہ ساری رقم مساکین، غلام اور مجاہدین فی سبیل اللہ میں تقسیم کردی۔ (تابعین، ص۴۵۷)

تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ مال دار مسلمانوں نے نادار انسانوں کی دست گیری کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ لگادیا۔ چند مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ تاریخ کا یہ روشن باب نئی نسلوں کے ذہن میں رہے اور وہ اس سے روشنی اور رہنمائی حاصل کریں۔

صوفیا کرام اور خدمتِ خلق

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا نام اسلام کی دعوت اور خدمت خلق کے لیے بہت روشن ہے۔ وہ ایک طرف لوگوں کو دین کی طرف بلاتے اور لوگوں کا عقیدہ اور اعمال درست کرتے تھے اور دوسری طرف محتاجوں کی حاجت روائی کرتے اور مسافروں کوکھانا کھلاتے تھے۔ ان کے دسترخوان پر ہر قوم کے لوگ شریک ہوتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی یہ روایت لنگر میں تبدیل ہوئی اور ان کی خانقاہ میں آنے والوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ خواجہ اجمیری فرماتے ہیں:’’میں نے خواجہ عثمان ہارونی کی زبان سے سنا کہ جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کو دوست رکھے گا۔ اول: سخاوت، دریا کی سخاوت کی طرح۔ دوم: مخلوق سے شفقت، آفتاب کی شفقت کی طرح۔ سوم: تواضع، زمین کی تواضع کی طرح‘‘۔(عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار، کتب خانہ رحیمیہ دیوبند، ص ۲۹)

مغلیہ عہد کے ایک بزرگ شیخ عبدالعزیز چشتی (م:۱۵۶۷ء) بڑے عالم وفاضل اور بلندمرتبہ اخلاق کے حامل تھے۔ مخلوق پر شفقت وعنایت کرنے میں بے مثال تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان کے بارے میں لکھا ہے :’’شیخ عبدالعزیز محتاجوں کی حاجت روائی میں بڑی کوشش کرتے تھے۔ جب وہ شیخ قاضی خاں کے پاس پہنچے تو اپنا مال ومتاع، گھوڑا گاڑی جو کچھ ان کے پاس تھا سارا کاسارا راہ خدا میں تقسیم کردیا‘‘۔ (شیخ محمد اکرام، رود کوثر، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص۷۰)

مغلیہ عہد کے ایک اور بزرگ شیخ داؤد شیرگڑھی (م۱۵۷۴ء) تھے۔ بڑے عابد اور زاہد شب بیدار تھے۔ خلق خدا کی دینی رہنمائی کے علاوہ مالی خدمت بھی کیا کرتے تھے۔ان کی خانقاہ میں لنگر تھا جس سے لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام ہوتاتھا۔ ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ:’’آپ کا معمول تھا کہ سال میں ایک دو دفعہ جو کچھ آپ کے پاس نذر وفتوحات کی قسم سے آتا، تقسیم کردیتے اور اپنے گھر میں ایک مٹی کے کوزے کے سوا کچھ نہ رکھتے‘‘۔ (ایضاً، ص ۶۸)

ایک اور بزرگ شیخ علاء الدین لاہوری بنگالی غرباپروری اور خدمت خلق میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ ’’بخلق بخششہائے بے اندازہ می کرد‘‘ مخلوق پر بے انتہا بخشش کرتے تھے۔ ان کے والد بادشاۂ وقت کے مہتمم خزانہ تھے۔ بادشاہ کو خیال ہوا کہ شیخ اپنے والد کی مدد سے خزانہ کو تصرف میں لے آئیں گے۔ چنانچہ ان کو دوسال کے لیے سنار گاؤں جو ڈھاکہ سے ۱۸ میل کے فاصلہ پر ہے بھیج دیا۔ آپ سنار گاؤں چلے گئے اوروہاں بھی آپ کی فیاضی جاری رہی۔ خادم کو حکم تھا کہ جو خرچ ہوتا تھا اسے دوگنا کردو۔ شیخ نے جلاوطنی قبول کرلی مگر خلق خدا کی خدمت نہ چھوڑی۔ (عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار، ص۱۴۹)

خدمت خلق اور انسانی ہمدردی کی مثالیں اسلامی تاریخ میں بے شمار ہیں۔ خاص طور پر علما اور مشائخ میں۔ یہ حضرات دین کی اشاعت اور لوگوں کی اصلاح وتربیت ہی سے سروکار نہ رکھتے تھے بلکہ ان کے دُکھ درد میں شریک ہوتے، ان کی ضرورت پوری کرتے اور ان کی مالی مدد کرنے میں بہت کوشش کرتے تھے۔ ان بزرگوں کے بارے میں سید حسن عسکری نے لکھاہے:’’خود تو فقروفاقہ، اَوراد ووظائف اور ذکر واشغال میں منہمک رہتے، لیکن کمزوروں، دکھی لوگوں ، حاجت مندوں،  علما ومشائخ، ضعفا اور فقرا کی حاجتوں ،وجۂ معاش اور ضروریات دنیوی کے لیے سفارشات کے لیے ہمیشہ تیار رہتے اورحقیقت یہ ہے کہ امراء، رؤسا اور سلاطین سے جو کچھ تھوڑا بہت انھیں واسطہ تھا محض ان لوگوں کی داد رسی اور حاجت روائی کے لیے ہوتاتھا‘‘۔(پروفیسر سید حسن عسکری، عہد وسطٰی کی ہندی ادبیات میں مسلمانوں کا حصہ، پٹنہ، ۱۹۹۵ء، ص ۲۱۲-۲۱۳)

خدمتِ خلق کی روایت کا تسلسل

انیسویں صدی میں برصغیر ہند میں مسلم حکومت کا زوال ہوا تب بھی مسلمانوں میں انسانی خدمت کا جذبہ ختم نہیں ہوا۔ مسلمان اگرچہ مصیبت سے گزر رہے تھے مگر خدمت خلق کے کاموں سے غافل نہ تھے۔ ۱۸۶۰ء میں شمالی ہند میں قحط پڑا تھا، جس میں ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے بانی سرسیّداحمد خاں اس زمانہ میں مرادآباد میں صدر الصدور تھے۔ انھوں نے کلکٹر جان اسٹریچی کی اجازت سے قحط زدہ لوگوں کی راحت رسانی، تیمارداری اور خوراک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

خواجہ الطاف حسین حالی نے لکھاہے:’’محتاج خانہ کے حُسنِ انتظام کا یہ حال تھا کہ چودہ ہزار محتاجوں کو گھنٹہ بھر میں کھانا تقسیم ہوجاتا تھا۔ بیماروں کے لیے شفاخانہ اور ڈاکٹر موجود تھا، بیماروں کو پرہیزی کھانا ملتا تھا، زچاؤں اور شیرخوار بچوں کو دودھ یا کھیر ملتی تھی۔ مسلمانوں کے لیے مسلمان اور ہندوؤں کے لیے ہندو کھانا پکاتے تھے۔ جو ہندو اپنے سوا کسی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتے تھے ان کے لیے علیحدہ چوکے بنے ہوئے تھے۔ شہر کی پردہ نشین اور عزت دار عورتیں جو محتاج خانہ میں نہیں آسکتی تھیں،ان کے پاس سوت کاتنے کے لیے آٹھ آٹھ آنہ فی اسم اور ایک ایک پٹاری روئی کے گالوں کی میر محلوں کی معرفت بھیج دی جاتی تھی۔ جب سوت کت کر آجاتا تھا، تو اور روئی اور کاتنے کی اُجرت بھیج دیتے تھے۔ سرسیّد صبح وشام دونوں وقت بلاناغہ محتاج خانہ میں خود جاتے تھے۔ ایک ایک بیمار کو دیکھتے تھے، جن کنگالوں کی صورت اور حالت آنکھ سے دیکھی نہ جاسکتی تھی، جن کے دست جاری ہوتے تھے اور کپڑے بول وبراز میں لتھڑے ہوتے تھے، ان کو سرسیّد  خود اپنی گود میں اٹھا کر دوسری صاف جگہ احتیاط سے لٹادیتے تھے اور ان کے کپڑے بدلواتے تھے‘‘۔ (الطاف حسین حالی، حیاتِ جاوید، نئی دہلی، ۲۰۰۴ء، ص ۱۰۹)

آج کے زمانہ میں بھی ایسی روشن مثالیں پائی جاتی ہیں۔کویت میں ایک مشہور تاجر تھے، شیخ عبداللہ علی المطوع۔ وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور رفاہی اداروں پر خرچ کرتے تھے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ عمرہ کرنے کے لیے گئے، مکہ مکرمہ میں کھجوریں خریدیں اور دوکان دار سے قیمت کم کروائی۔ واپسی پر اپنے سکریٹری سے کہا کہ میراکاروبار میرے وارثوں کے لیے ہے اور میری جائیداد کا معقول حصہ (غالباً ایک تہائی) چیچنیا کے یتیموں اور بیواؤں کے لیے ہے جس کی آمدنی کروڑوں میں ہے۔ سکریٹری نے کہا کہ ابھی تو آپ چند کلوکھجوروں کے لیے مول بھاؤ کررہے تھے اور اب اتنی بڑی جائیداد چیچنیا کے غریبوں کو دے رہے ہیں؟ شیخ نے کہا کہ تجارت میں مول بھاؤ کرنا خریدار کا حق ہے اور یہ سودا اللہ سے ہے جس کا اجر آخرت میں مقرر ہے۔

خدمتِ خلق کا اداراتی نظام

اسلام نے خدمت خلق ، انفاق فی سبیل اللہ اور انسانوں کی نفع رسانی کے کاموں کو انفرادی عمل کے ساتھ اجتماعی شکل بھی عطا کی اور اسے ادارہ کی حیثیت عطاکردی تاکہ انسانوں کی خدمت کی پائیدار اور دائمی صورت پیدا ہوجائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب کوئی انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین اعمال کے (۱) علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، (۲) صدقۂ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس کا فیض جاری رہے (۳) نیک اولاد جو اپنے مرحوم والد/والدہ کے لیے دعا کرتی رہے (مسلم ، کتاب الوصیۃ)

انسان اپنی زندگی میں خدمت خلق کے لیے جو انفاق وقتی طور پر کرتا ہے وہ عارضی ہے، اس کا اجر وثواب قیامت میں ضرور ملے گا۔ لیکن ایسا صدقہ وخیرات جومرنے کے بعد بھی جاری رہے وہ صدقۂ جاریہ ہے، اس کا فیض جاری رہے گا، اس لیے اس کا اجر بھی بے حساب ہے۔ صدقۂ جاریہ کی مختلف شکلیں ہیں اور زمانہ کی ضرورت اور ترقی کے لحاظ سے یہ شکلیں بدلتی رہتی ہیں، مثلاً عبادت گاہ بنوانا، تعلیم گاہ بنوانا، یتیم خانہ اورکتب خانہ بنوانا، خانقاہ اور قبرستان بنوانا، مسافر خانہ بنوانا، سرائے بنوانا، اسپتال اور سینی ٹوریم بنوانا، علمی و ادبی اور تحقیقی ادارہ بنوانا، کنواں اور تالاب بنوانا، حمام اور طہارت خانہ بنوانا، لنگر اور سبیل بنوانا وغیرہ۔

یہ کام ایسے ہیں کہ ان سے فائدہ وقتی طور پر بھی اٹھایا جاتا ہے اور دائمی طور پر بھی یعنی  نسل در نسل اٹھایا جاتاہے۔ اسی لیے اسے صدقۂ جاریہ کہاجاتاہے۔ یہ سارے کام مسلمانوں کے صدقات وخیرات سے انجام پاتے ہیں۔ اسلام نے ان کاموں کو بہتر اور پائیدار بنانے کے لیے وقف کا تصور دیا، یعنی کوئی مال یاجائیداد اس طرح فی سبیل اللہ وقف کیا جائے کہ اس کی اصل مالیت باقی رہے، البتہ اس کی آمدنی سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں، جائیداد ختم نہ ہو اور انتفاع باقی رہے۔خدمت خلق کا یہ ایک عہد آفریں تصور تھا جو اسلام نے دیا۔ اس نے نظریہ کو اقدار میں اور اقدار کو ادارہ میں ڈھالنے کا شعور عطا کیا۔

وقف کی اسلامی روایت

انسانی خدمت کے اس اداراتی نظام کاآغاز خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہوا۔ مخیریق نام کا ایک یہودی تھا، جنگ احد میں شریک ہوا۔ وہ مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ لڑا اوراسی جنگ میں مارا گیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ اگر میں مار ا جاؤں تو میری جائیداد  محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی جائے تاکہ وہ اللہ کی رضا کے مطابق تصرف میں لائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مخیریق اچھا یہودی تھا‘‘ (ابوجعفر ابن جریر طبری، تاریخ الطبری، القاہرۃ، ج۲، ص۵۳۱)۔مخیریق کے سات باغ تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے قبضہ میں لیا اور فی سبیل اللہ وقف کردیا‘‘۔ (برہان الدین الطرابلسی، الاسعاف فی احکام الاوقاف، ص۱۰)

اسلامی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں انجام دیا گیا۔ دوسرا وقف خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کاتھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمرؓکو خیبر میں ایک زمین ملی تو انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے خیبر میں ایک مال ملا ہے جس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو اس کے اصل مال کوباقی رکھو اور اس کی آمدنی کو صدقہ کردو، مگر شرط یہ ہوگی کہ اصل مال نہ بیچاجائے گا،نہ ہبہ کیاجائے گا اور نہ وراثت میں جائے گا۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کردیا کہ نہ وہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ اس میں وراثت جاری ہو۔ اس کی آمدنی فقراء، قرابت داروں ، غلام کی آزادی، مہمان اور مسافر کے لیے ہوگی۔ (الصحیح البخاری، کتاب الشروط)

صدر اسلام کاتیسرا وقف خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ نے کیاتھا۔ اس وقف کی تاریخ خود حضرت عثمان غنیؓ اس طرح بیان کرتے ہیں:’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں رومہ کنواں کے علاوہ کوئی میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو بیرِ رومہ کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے گا؟ اس کی وجہ سے جنت میں اسے خیر ملے گی، تو میں نے اپنے اصل مال سے اس کنواں کو خرید لیا اور اس میں اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کوبھی شریک کرلیا‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب المناقب)

اس کے بعد صحابہ کرامؓ میں خدمت خلق کے لیے زمین، جائیداد وقف کرنے کا رجحان عام ہوگیا، اور لوگ کثرت سے رفاہی کاموں کے لیے جائیداد وقف کرنے لگے۔عرب اور عجم کے ملکوں میں مسلمانوں نے وقف کا ایک بے مثال نمونہ قائم کردیا۔ مسلمان جہاں بھی گئے خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے لیے مال وجائیداد وقف کرتے رہے۔ حجاز سے لے کر اندلس تک، ایران سے لے کر ازبکستان تک، ترکی سے لے کر مراقش تک اور مصر وشام سے لے کر ہندستان، پاکستان اور انڈونیشیا تک مسلمانوں نے عام انسانوں کی بھلائی اور ترقی کے لیے بے دریغ جائیداد وقف کی۔ وقف کی املاک سے مسلم اور غیر مسلم ہر طبقے کے انسانوں کو فیض پہنچا۔ کیوں کہ جائیداد مسجد وخانقاہ کے علاوہ ہسپتال، سرائے ، لنگر اور تعلیم گاہوں کے لیے بھی وقف کی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے صرف انسان نہیں بلکہ حیوانات اور پرندوں کی خوراک کے لیے بھی جائیداد وقف کی۔ وقف کی یہ روشن روایت آج بھی آگے بڑھ رہی ہے۔

جنگی جرائم اور بین الاقوامی دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ اگر فلسطین کی صورت حال پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، تو اس کے ردعمل کے نتیجے میں ممکنہ طور پر غیر ریاستی عناصر کے ذریعے یہ تنازع دوسرے خطوں تک پھیل سکتا ہے۔ اس طرح یہ عناصر دُنیا کے باقی علاقوں میں مسلح تصادم پھیلانے کے لیے عالمی نیٹ ورکس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور امن کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تشدد بڑے پیمانے پر اور بڑی تیزی سے پھوٹ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ غزہ میں مسلسل جنگ مشرق وسطیٰ میں طاقت کی حرکیات کو مزید غیرمتوازن کردے گی، جہاں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کی وجہ سے امریکی اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے۔ انجامِ کار امن اور علاقائی سلامتی کی امیدیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود حل طلب ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو آزاد ریاست بنانے کی اجازت نہ دے کر ’بالفور اعلامیہ‘ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کی مسلسل توہین کی ہے۔

بالکل اسی طرح بھارت بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری نہیں کرتا اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، اور کسی نیوٹرل پارٹی کے ذریعے ثالثی کے عمل کو بھی خارج از امکان قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنی سرپرستی میں رائے شماری کروا کر معاملے کا فیصلہ کرنے میں غیر مؤثر رہی ہے۔ دونوں مسائل نسلی، علاقائی، تاریخی اور نظریاتی نوعیت کے ہیں۔ بھارت کشمیر کی آئینی پوزیشن کو تبدیل کر کے آبادیاتی تبدیلی لانے کے لیے جنگی قوت اور جبری قانون سازی کے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔

اسرائیل، حماس کو الگ تھلگ کر کے مقامی لوگوں کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس طرح، ’اسرائیل اور بھارت‘ دونوں امریکا کے اسٹرے ٹیجک شراکت دار اپنے مضبوط گٹھ جوڑ سے پیدا ہونے والی اسی طرح کی حکمت عملیوں کا استعمال کرتے ہوئے فلسطین اور کشمیر کی آبادیوں کو ہدف بناکر ان کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ مسلم دنیا کی حکمران اشرافیہ جو اپنی قوم کے بجائے مغرب کے مفادات کی وفادار ہے، بھارت اور اسرائیل کی حکومتوں کے ان اقدامات کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کر رہی ہے۔بھارتی اور اسرائیلی قیادت اپنے زیرتسلط خطّوں میں بے بس اور مظلوم لوگوں کو زیرتسلط لانے کے لیے سنگین اقدامات کررہی ہے۔ فلسطین میں اسرائیل  اور کشمیر میں بھارت اپنے جبری قبضہ سے بچوں سمیت ہزاروں لوگوں کا وحشیانہ قتل اور تشدد، قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک سمیت مسلسل متعدد جنگی جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ وحشیانہ جرائم منظم طریقے سے فلسطین اور کشمیر دونوں میں بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر رُوبہ عمل ہیں۔اس کے علاوہ شہریوں اور طبّی عملے پر حملے اور مسلح تصادم انسانیت کے خلاف صریح جرائم کی مثالیں ہیں۔

۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل رد عمل کے طور پر فلسطین کے اسپتالوں، یادگاروں، مذہبی اور ثقافتی ورثے کے مقامات پر خوفناک حملے کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بھارت اور اسرائیل دونوں نے بین الاقوامی قوانین کے تحت ممنوعہ دھماکا خیز ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ کشمیر میں، بھارت ماورائے عدالت قتل، حراستی تشدد، غیرقانونی حراستوں، شہریوں کے خلاف تشدد اور جبری گمشدگیوں میں ملوث چلا آرہا ہے۔ بھارتی سیکورٹی فورسز نے پیلٹ گنز کا بھی بے دریغ استعمال کیا ہے جس سے معصوم شہری زخمی اور اندھے ہورہے ہیں۔ مزیدبرآں کشمیریوں کی اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی پر سنگین پابندیاں لگانا اور طویل کرفیو عائد کرنا اور لاک ڈائون، عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں چلنے چاہییں۔ ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور جنیوا کنونشنز میں درج انسانی حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔ فلسطین کی صورتِ حال روم کے قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، اور بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی سی) انسانیت کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث افراد کی تحقیقات اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اختیار رکھتی ہے۔ بہت سے قوانین جو جنگ اور امن میں انسانوں کی حالت زار کے خلاف انسانی وقار کی حفاظت کرتے ہیں، انھیں حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، نسل کشی کی روک تھام کے کنونشن کو اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء میں قابل سزا جرم کے طور پر اپنایا تھا۔ ۱۹۶۵ء میں، اقوام متحدہ نے نسلی امتیاز کی تمام اقسام کے خاتمے اور روک تھام اور انسانی مساوات کے فروغ کے لیے ICERD کنونشن منظور کیا۔ ۱۹۸۴ء میں ٹارچر کے خلاف کنونشن (سی اے ٹی) انسانوں کے ساتھ تشدد اور ظالمانہ سلوک کو روکنے کے لیے اپنایا گیا۔ سال ۲۰۰۲ء کے دوران تشدد اور غیرانسانی کارروائیوں کو روکنے کے لیے ایک طریق کار تیار کرنے کے لیے پروٹوکول بنایا گیا۔ جبری گمشدگیوں سے تمام افراد کے تحفظ کے لیے، ۲۰۰۶ء میں ایک بین الاقوامی کنونشن منظور کیا گیا تھا، تاکہ مختلف شکلوں میں جبری گمشدگیوں کے قابلِ سزا جرم کو روکا جا سکے، جس میں ریاست یا اس کی رضامندی سے افراد کی گرفتاری، حراست اور اغوا شامل ہے۔

 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۱۶۷۴(۲۰۰۶ء) کو نسل کشی اور تشدد جیسے جرائم کے خلاف ایک مؤثر قانون کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کی صورتِ حال مقبوضہ سرزمین کی طرح ہے، لہٰذا بین الاقوامی انسانی بہبود کا قانون (IHL) اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون (IHRL) کا اطلاق ماورائے عدالت پھانسیوں کی مختلف صورتوں سے نمٹنے کے لیے ہے، جو کہ روم کے قانون کے آرٹیکل ۷ کے تحت جرم ہے اور IHL کے تحت جان بوجھ کر قتل، چوتھا جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ روم انسٹی یٹوٹ آف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کے مطابق یہ جنگی جرائم کے مترادف ہے۔

تاہم، IHL اور IHRL کو نافذ کرنے میں عالمی اداروں کی راہ میں بڑی طاقتوں کے شاونزم (وطن پرستی) کی وجہ سے بڑی رکاوٹ کھڑی ہے۔ بڑی طاقتیں عالمی فیصلہ سازی میں آمرانہ اختیار رکھتی ہیں۔ اس اختیار کے باوجود، وہ جارحیت کو روکنے سے گریزاں ہیں اور اگر ان کے جغرافیائی، سیاسی، فوجی اور سفارتی مفادات کو پورا نہ کیا جائے تو وہ سفاکانہ تنازعات میں ثالثی کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ عسکری کارروائیاں کرکے، اسلحہ بیچ کر، مالیاتی بحران کو بڑھا کر اور اتحاد اور جوابی اتحاد بنا کر اپنے اثر و رسوخ کے نیٹ ورک کے ذریعے خطّوں کو غیرمستحکم کرکے عالمی سیاست کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اس وجہ سے اقوام متحدہ کی حیثیت اور ساکھ ختم ہوکر رہ گئی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنگجو ریاستوں پر اقتصادی اور سفارتی پابندیاں لگا سکتی ہے جو امن کو خطرے میں ڈالتی ہیں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ سلامتی کونسل کو غزہ میں بڑھتے ہوئے مسلح تصادم میں جارح فریقوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دینے کا اختیار ہے۔ تاہم فلسطین کی صورتِ حال پر ویٹو کے یک طرفہ اور غیر جمہوری انداز نے خود سلامتی کونسل کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور امن کے امکان کو شدید دھچکا لگایا ہے۔  بین الاقوامی برادری کو سلامتی کونسل کو جمہوری بنانے اور شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل ۶ پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں جو تسلیم کرتا ہے کہ ’’ہر انسان کو زندگی گزارنے کا حق ہے‘‘۔

اس پس منظر میں ہرزندہ ضمیر انسان پر لازم ہے کہ وہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کی مظلومیت کو دل و دماغ میں زندہ رکھے اور اپنی آواز بلند کرے۔(ایکسپریس ٹربیون، ۲۲جنوری ۲۰۲۴ء)

امریکی ریاست پنسلوینیا کی سٹنفرڈ یونی ورسٹی سے پروفیسر حفصہ کنجوال کی حال ہی میں شائع شدہ کتاب Colonizing Kashmir ایک اہم تحقیقی اضافہ ہے۔یہ کتاب ۱۹۵۳ءکے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیر اعظم کہلاتا تھا) شیخ عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند پر بٹھایا گیا تھا، جو اگلے دس سال تک اقتدار میں رہے۔ ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام ، دام، ڈنڈ اور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، تاکہ وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے دستبردار ہوکر بھارتی یونین میں ضم ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے ، کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد اُوپر تلے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، کم وبیش اسی طرح کے اقدامات ، جن میں مقامی آبادی کو محصور کرنے، میڈیا پر قدغن اورمفت یا کم قیمت پر چاول فراہم کروانا وغیر ہ شامل رہے ہیں، بخشی دورِ حکومت میںبھی کشمیر میں آزمائے گئے ہیں۔ کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔

مصنفہ نے بتایا ہے کہ جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار ادا کرنے پر، جب شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو ۱۹۴۹ء ہی میں وہ بھارتی حکمرانوں کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو چکے تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرزم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا بھارت میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ ’’آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجا کے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔ ۱۹۵۳ءتک بھارتی لیڈروں بشمول شیخ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ۹؍اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ صاحب، گلمرگ سیر و تفریح کرنے کے لیے گئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپرد کر دی گئی۔ جس کو آج تک کشمیری بکائو اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، اگرچہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے بخشی کا دور امتیازی رہا ہے۔

پروفیسر حفصہ کا کہنا ہے: ’’سری نگر کی حضرت بل درگاہ کے قریب واقع نسیم باغ کے قبرستان جہاں شیخ عبداللہ کی قبر ہے ، رات دن پولیس کے دستے حفاظت کرتے ہیں۔کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے چیمپئن ہونے ا ور جیل جانے کے باوجود، ۱۹۹۰ءکے عشرے میں جب مسلح عوامی بغاوت شروع ہوئی تو شیخ عبداللہ کی قبر کی حفاظت ایک مسئلہ بن گئی۔ کشمیر کی نئی نسل نے ان کو نئی دہلی کے ساتھ ۱۹۷۵ء کے معاہدے کے لیے معاف نہیں کیا۔ اس کے برعکس سرینگر کے مرکز میں واقع میر سید علی ہمدانی یا شاہ ہمدان کی خانقاہ کے احاطہ سے ذرا دور بخشی غلام محمد کی قبر ہے، جس کی حفاظت کے لیے انتظامیہ کو کبھی پولیس کی مدد نہیں لینی پڑی۔ شاید کسی کو اس قبر کے بارے میںمعلوم بھی نہیں ہے۔

کتاب کے مطابق ۱۹۵۲ء میں نہرو نے شیخ کو ایک خط میں بتایا تھا کہ: دستاویز الحاق کی آئین ساز اسمبلی میں توثیق کرنا ضروری ہوگئی ہے، کیونکہ بیرونی طاقتیں ، جمو ں و کشمیر میں استصواب رائے کروانے پر دباؤ ڈال رہی ہیں اور اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی قانونی اور عوامی تائید پر مبنی دستاویز کی ضرورت ہے۔ چونکہ آئین ساز اسمبلی عوامی ووٹ سے منتخب ہوئی ہے، اس لیے عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے کی گئی توثیق کو بھارت رائے شماری کے متبادل کے بطور پیش کرے گا___ مگر جب شیخ نے ان کو یاد دلایا: ’’ رائے شماری کے حوالے سے آپ نے جو وعدے مختلف فورموں پر کیے ہیں ، تو ان کا کیا ہوگا؟‘‘ تو نہرو نے بتایا: ’’ وادیٔ کشمیر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لوگ، اگرچہ ذہین اور ہنر مند ہیں، وہ کسی قسم کے تشدد اور غیض و غضب سے دُور رہنے والے ہیں۔ وہ (کشمیری) نرم مزاج کے مالک اور آسان زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ عام لوگ بنیادی طور پر چند چیزوں میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ایک ایماندار انتظامیہ، سستی اور مناسب خوراک‘‘۔ چونکہ یہ قوم صدیوں سے قحط اور کم خوراک کی شکار رہی تھی، نہرو کا کہنا تھا: ’’اگر وہ یہ حاصل کرتے ہیں، تو وہ کم و بیش مطمئن رہیں گے اور حقِ خود ارادیت اور رائے شماری کو بھول جائیں گے‘‘۔ نہرو کی اسی منطق کو اگلے دس سال تک بخشی غلام محمد نے اپنی حکومت کی اساس بنادیا۔

بخشی غلام محمد ۲۰ جولائی ۱۹۰۷ء کو سری نگر کے مرکز میں صفاکدل نامی محلے میں پیدا ہوئے۔ اپنے چچا کی مالی مدد سے، بخشی نے مقامی عیسائی مشنری اسکول میں تعلیم توحاصل کی،مگر آٹھویں جماعت مکمل کرنے کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔ اپنی تحقیق کے دوران پروفیسر حفصہ نے  کئی ایسی کہانیاں ریکارڈ کیں ہیں، جن میں بتایا گیا کہ بخشی سڑک پر گاڑی کھڑ ی کرکے لوگوں کو بلا کر ان کی استعداد معلوم کرتے تھے، جونہی معلوم ہوتا تھا کہ مذکورہ شخص کسی طرح پڑھا لکھا ہے، تو وہیں پر تقرر کا پروانہ تھما دیتے تھے۔ تقرر کے پروانے لکھنے کے لیے وہ کاغذ ڈھونڈنے کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے۔ کبھی ماچس کی ڈبیہ پر اور تو کبھی سگریٹ کے پیکٹ کے کاغذ کو پھاڑ کر اسی پر متعلقہ محکمہ کو اس شخص کے تقرر کا حکم صادر کردیتے تھے۔ انھوں نے ہفتہ وار اپنے دفتر میں عام لوگوں سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا ہوا تھااور موقع پر ہی انتظامیہ کو حکم دے کر اس کا فالو اَپ بھی کرتے تھے، جب تک سائل کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تھا۔

اپنے دور میں شیخ عبداللہ نے بھارتی حکومت سے فنڈز لینے میں احتیاط برتی تھی۔ ان کے دور میں کشمیر جانے کے لیے پرمٹ لینا پڑتا تھا۔ اسی طرح کسٹم کا سسٹم قائم تھا۔ جس سے ریاست کو آمدن ہو جاتی تھی۔وہ کشمیریوں کو باور کرارہے تھے کہ وہ چاول کھانا ترک کرکے آلو کو بطور غذا اپنائیں، کیونکہ چاول درآمد کرنے پڑتے تھے۔ مگر جب اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے بخشی نے نئی دہلی سے مالی امداد طلب کی تو ان کو بتایا گیا کہ الحاق کی توثیق کے بعد ہی وہ مالی امداد فراہم کرسکتے ہیں۔ رائے شماری کے کسی بھی امکان کو روکنے کے لیے، فروری ۱۹۵۴ء میں، بخشی نے قانون ساز اسمبلی سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی توثیق کرنے کی قرارداد پیش کی، جس کو منظور کرکے معاشی طور پر کشمیر کو بھارت کے ساتھ ضم کیا گیا۔

بخشی کو احساس تھا، کہ کشمیر ی عوام کو قابو میں رکھنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ گرفتاریوں اور سخت نگرانی وغیرہ کے ساتھ ساتھ خطے کو معاشی خوش حالی فراہم کرنے کے علاوہ عوام کو ثقافتی سطح پر مصروف بھی رکھا جائے، جس کے لیے ہر سال جشنِ کشمیر منانے کی روایت قائم ہوئی اور تقریباً ہر نئے دن فلمی اداکاروں کو کشمیر کے دورے کرائے جاتے۔ خوراک کی رعایتی قیمت بخشی کا ایک بڑا کارنامہ تھا، جس کی وجہ سے اس کو اب بھی یاد کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے ایک معمر صحافی پران ناتھ جلالی نے ایک بار راقم کو بتایا کہ وہ شیخ عبداللہ سے جیل میں ملاقات کے لیے گئے، تو انھوں نے شکوہ کیا کہ ’’کشمیریوں کا پیٹ بخشی نے چاولوں سے بھر دیا ہے۔ وہ مجھے بھول گئے ہیں اور مجھے جیل میں سڑنے کے لیے چھوڑدیاہے‘‘۔ قانون ساز اسمبلی سے الحاق کی توثیق کرواکے بخشی کا کام دنیا کو باور کروانا تھا کہ ’’کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور عوا م نے تبدیلی کو تسلیم کرلیاہے‘‘۔

مصنفہ کے مطابق کشمیر کے تناظر میں نارملائزیشن کا مطلب یہ تھا کہ ریاست کا سیاسی اور اقتصادی فائدہ بھارتی یونین میں ضم ہونے میں ہی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے شعبہ میں اسکول و کالج کی ٹیکسٹ کی کتابوں میں سیکولرزم پر ازحد زور اور کشمیر اور بھارت کے درمیان زمانہ قدیم کے رشتوں کا بار بار ذکر کرنا اور کشمیر کو ہندو دیوی دیوتاؤں کا مسکن قرار دینا، اسی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ بخشی دور، کشمیر میں بدعنوانی کے لیے بھی بدنا م ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر کوئی بخشی دور میں دولت حاصل نہیں کرسکا تو وہ کبھی نہیں کرسکتا ہے۔کہتے ہیں کہ کسی ٹھیکے دار کو ایگزیکٹو انجینیر نے بطور رشوت کسی مخصوص قالین کی فرمایش کی۔ قالین توٹھیکے دار نے فراہم کرادیا، مگر اس نے تہیہ کیا کہ اس انجینیر کی شکایت بخشی سے ضرور کرے گا۔ جب ملاقات کا وقت لے کر مقررہ وقت پر وزیراعظم کی رہایش گاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ وہی قالین وہاں بچھا ہو ا تھا۔

تعمیر وترقی اور خوراک کی خریداری میں رعایت کے علاوہ بخشی نے اپنی ایک فورس پیس بریگیڈ کے نام سے بناکر انٹیلی جنس کا ایک وسیع نیٹ ورک ترتیب دیا تھا۔ ان کا کام مخالفین کی سن گن لینا، ان پر حملہ یا ہراساں کرنا ہوتا تھا۔ اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پیس برگیڈمیں گلی محلے کے غنڈوں کو بھرتی کردیا گیا تھا۔ وہ مخالفین کے منہ میں گرم آلو ڈالنے، ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھنے اور گرم لوہے سے داغدار کرنے کے لیے مشہور تھے۔ان کو مقامی زبان میں خفتن فقیر یا رات کے بھکاری کے نام سے جانا جاتا تھا، کیونکہ عشاء کی نماز کے بعد وہ گشت کرکے معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے، کہ کوئی ریڈیو پاکستان تو نہیں سن رہا ہے۔ ایسے شخص کا ریڈیو ضبط ہوتا تھا اور اس کو گرفتار کیا جاتا تھا یا مارپیٹ کر چھوڑا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ علیحدہ سرکاری ملیشیا بھی بنائی گئی تھی، جن کا کام شیخ عبداللہ کے حامیوں سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنا تھا۔ یہ خاص محلوں کو کنٹرول کرتے تھے، اور ان کو کشمیری میں گوگہ کہتے تھے۔

ان دونوں میلیشاز کی وحشت زدگی کی داستانیں جب نئی دہلی پہنچیں، تو اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ، گووند بلبھ پنت نے بخشی سے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا۔ میرقاسم، جو کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور بخشی حکومت میں وزیر تھے، ان کے مطابق،بخشی نے پنت کو بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ جب یہ دونوں گروپ غیر مسلح ہیں، تو کیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں؟ بھارتی وزیر داخلہ نے بتایا کہ سرکاری سرپرستی میں پلنے والا ایک غنڈا، ہزاروں لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا سکتا ہے۔مگر کتاب کے مطابق اس کے تحفظات کے باوجود بھارتی حکومت نے بخشی کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی اور کبھی ان گروپوں کو لگام نہیں ڈالی گئی۔

مصنفہ کے مطابق نہرو، کشمیر کو ایک خوب صورت عورت کے ساتھ تشبیہہ دیتے تھے، جو ’اُمیدوں اور خواہشات‘ کو بھڑکاتی ہے اور اس کے کئی عاشق ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر کی یہ جنسی تصویر کشی، بھارت میں آج کل زیادہ ہی زور و شور کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات کے بعد تو کئی لیڈروں نے بیانات داغے جن کے مطابق کشمیر کے تصور کو ایک نسائی جنت کے طور پراُبھارا جاتا ہے، جس کو دریافت کرنا اور جس کے اندر جگہ بنانا ضروری ہے۔ جنسی زبان کا استعمال کرکے کشمیرکے پہاڑوں اور مناظر کو نسوانی حوالہ بنا دیا گیا ہے۔ مصنفہ کا استدلال ہے، خواتین کے اجسام کے ساتھ کشمیر کے منظر نامہ کا موازنہ کرنا اور پھر بھارتی فوج کی مردانگی بیان کرنا، جو ان مناظر اور وادیوں کو پاؤں تلے روندتے رہتے ہیں، ایک طرح کے تعصب اور غیض و غضب کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہ کتاب ان واقعات اور پالیسیوں کا ایک جامع تجزیہ پیش کرتی ہے، جو اس نازک دور میں کشمیر میں رُونما ہوئے۔کتاب کا مرکزی موضوع سیاست ہے کہ اس سیاست کو کس طرح کشمیری باشندوں کے روزمرہ کے معمولات ، بشمول روزگار، خوراک، تعلیم اور بنیادی خدمات سے متعلق مسائل کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ یہ طے کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی کشمیری روزگار یا زندگی کے مسائل کے لیے جدو جہد کرتا ہے یا اس کا طالب ہوتا ہے ، تو اس کو حقِ خود ارادیت سے دستبرداری یا ہتھیار ڈالنے سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ جس سے ایک پیچیدہ اور اکثر متضاد منظر نامہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کنجوال نے ان طریقوں کا بھی جائزہ لیا ہے جن میں بخشی دور میں کشمیر میں بھارت کے کنٹرول کومضبوط کرنے کے لیے ’سیکولر‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اسی کے ساتھ مسلم تاریخ کو مٹانے اور ’اچھے‘ مسلم اور ’بُرے‘ مسلم کے فرق کو واضح کیا گیا۔

پروفیسر حفصہ کی یقینا یہ ایک چونکا دینے والی تحقیق ہے۔یہ کتاب نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی قوم کی تشکیل کے روایتی دہرے معیار کو چیلنج کرتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت بھی بھارتی حکومت کشمیر میںپرانے آزمائے ہوئے طریقوں ہی کو ٹھونس رہی ہے۔ یہ سبھی اقدامات بخشی دور کی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیں گے۔ بخشی کے دس سالہ اقتدار کے بعد ۱۹۶۳ء میں حضرت بل میں موئے مقدس کی گم شدگی کو لے کر جب کشمیر اُبل پڑا ، تو بخشی اور اس کے حواریوں کو کہیں جائے پناہ بھی نہیں مل پا رہی تھی۔ نہرو کو سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر تھی کہ دس سال تک جس نسل کو سیکولرزم اور کشمیر کے بھارت کے ساتھ قدیمی رشتوں کا پاٹھ پڑھایا گیا اور جس کی ذہن سازی کی گئی تھی، وہی اس ایجی ٹیشن میں پیش پیش تھی۔

جن افراد نے بخشی کو شیخ عبداللہ کے متبادل کے بطور اقتدار میں بٹھایا تھا، انھوں نے ہی اس کے خلاف بدعنوانی اور دیگر کئی معاملوں میں مقدمے درج کرکے اس کو جیل میں پہنچا دیا۔ دوسروں کی چاکری کرنے اور اپنوں سے بے وفائی کرنے والوں کی یہ تاریخ بار بار دُہرائی جاتی ہے، مگر افسوس کہ مفاد پرست عناصر اس سے کچھ بھی سبق نہیںلیتے۔ آخرکار ۱۹۷۲ء میں ایک تنہا اور غیر مقبول شخص کے رُوپ میں بخشی غلام محمد کا انتقال ہوگیا۔ یہ موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی ایک سبق اور تازیانہ ہے، جو اختراعی اقدامات کے بجائے جز وقتی اقدامات کا سہارا لے کر ایک پریشر ککر جیسی صورت حال پیدا کرکے اس کو ’نارملائزیشن‘ کا نام دیتے ہیں۔ اُن سب کے لیے سوچنے کا     یہ وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر خطّے میں دیرپا اور حقیقی امن قائم کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے، نہ کہ ڈگڈگی بجاکر قبرستان کی خاموشی کو امن قرار دے کر اپنے آپ کو دھوکا دیا جائے۔

غزہ شہر سے گذشتہ ماہ لاپتہ ہونے والی ایک چھ سالہ بچی اپنے کئی رشتہ داروں اور انھیں بچانے کی کوشش کرنے والے دو طبی اہلکاروں کے ساتھ مُردہ پائی گئی ہے، جسے اسرائیلی ٹینکوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا ہے۔

چھ سالہ ہند رجب کو اس وقت نشانہ بنایا گيا جب وہ اپنی چچی، چچا اور تین کزنز کے ساتھ کار میں شہر سے فرار ہو رہی تھیں۔ہند اور ایمرجنسی کال آپریٹرز کے درمیان فون پر ہونے والی باتوں کی آڈیو ریکارڈنگ سے پتا چلتا ہے کہ کار میں صرف چھ سالہ بچی زندہ بچی تھی اور وہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کے درمیان اسرائیلی فورسز سے چھپ رہی تھی۔

ایک موقعے پر وہ ایمرجنسی سروسز سے کہتی ہیں کہ ’’ٹینک میرے کافی قریب ہے۔ وہ پاس آ رہا ہے۔ کیا آپ مجھے آ کر بچا سکتے ہیں؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے‘‘۔

ان کی التجا اس وقت ختم ہو گئی جب مزید فائرنگ کی آواز کے درمیان فون لائن کٹ گئی۔

فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (پی آر سی ایس) کے پیرامیڈیکس ہفتہ کے روز اس علاقے تک پہنچنے میں کامیاب رہے جسے ایک فعال جنگی زون ہونے کی وجہ سے پہلے بند کر دیا گیا تھا۔

انھیں موٹر کمپنی کِیا کی سیاہ کار نظر آئی جس میں ہند رجب اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کررہی تھیں۔ اس کار کی ونڈ سکرین اور ڈیش بورڈ پاش پاش ہو گئے تھے اور گاڑی پر چار اطراف سے گولیوں کے سوراخ تھے۔

ایک پیرامیڈیک نے صحافیوں کو بتایا کہ کار کے اندر سے ملنے والی چھ لاشوں میں ہندرجب کی میت بھی شامل تھی، جن میں سے سبھی پر گولیوں اور گولہ باری کے نشانات تھے۔ چند میٹر کے فاصلے پر ایک اور گاڑی پڑی تھی جو مکمل طور پر جل چکی تھی۔ اس کا انجن نکل کر زمین پر پھیل گیا تھا۔ ہلال احمر کا کہنا ہے کہ یہ ہند رجب کو لانے کے لیے بھیجی گئی ایمبولینس تھی۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ رجب کو بچانے کے لیے روانہ کیا جانے والا ان کا عملہ یوسف الزینو اور احمد المدعون اس وقت مارے گئے جب ایمبولینس پر اسرائیلی فورسز نے بمباری کر دی۔

ایک بیان میں پی آر سی ایس نے اسرائیل پر ایمبولینس کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس گاڑی کو ۲۹ جنوری کو جائے وقوعہ پر پہنچتے ہی نشانہ بنایا گیا۔ اس میں کہا گیا: 'قابض (اسرائیلیوں) نے جان بوجھ کر ہلال احمر کے عملے کو نشانہ بنایا، حالانکہ ان سے پیشگی تعاون حاصل کرنے کے لیے ایمبولینس کو جائے وقوعہ پر پہنچنے کی اجازت دی گئی تھی تاکہ بچی ہند کو بچایا جاسکے۔

پی آر سی ایس نے بتایا کہ اسے ہند کو بچانے کے لیے پیرا میڈیکس بھیجنے میں کافی وقت لگا کیونکہ اسرائیلی فوج کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں کئی گھنٹے لگ گئے تھے۔پی آر سی ایس کے ترجمان نیبل فرسخ نے رواں ہفتے کے شروع میں مجھے بتایا: 'ہمیں کوآرڈینیشن ملا، ہمیں گرین لائٹ ملی۔ ہمارے عملے نے وہاں پہنچنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ انھیں وہ کار نظر آ رہی ہے، جس میں ہند رجب پھنسی ہوئی تھیں، اور وہ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ آخری بات جو ہم نے سنی وہ مسلسل فائرنگ تھی۔ فون کال آپریٹرز کے ساتھ ہند کی بات چیت کی ریکارڈنگز کو فلسطینی ہلال احمر نے پبلک پلیٹ فارم پر شیئر کیا ہے۔ جس کے بعد اس بات کو جاننے کی ایک مہم چل پڑی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟

ہند کی ماں نے ہمیں بتایا کہ بیٹی کی لاش ملنے سے پہلے تک وہ 'ہر لمحے، ہر پل اس کی آمد کی منتظر تھیں۔اب وہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ اس کا احتساب ہونا چاہیے اور کسی نہ کسی کو اس کا ذمہ دار ٹھیرایا جانا چاہیے۔انھوں نے بتایا کہ 'میں ہر اس شخص کو جس نے میری اور میری بیٹی کی التجا سنی، پھر بھی اسے نہیں بچایا، قیامت کے دن اللہ کے سامنے ان سے سوال کروں گی۔ میں نتن یاہو، بائیڈن اور ان تمام لوگوں کے لیے اپنی دل کی گہرائیوں سے بددعا کروں گی جنھوں نے ہمارے خلاف، غزہ اور اس کے لوگوں کے خلاف تعاون کیا ہے۔

اس ہسپتال میں جہاں وہ اپنی بیٹی کی خبر کا انتظار کر رہی تھیں ہند کی والدہ وسام کے پاس اب بھی وہ چھوٹا سا گلابی بیگ ہے جو وہ اپنی بیٹی کے لیے رکھے ہوئے تھیں۔ اس بیگ کے اندر ایک نوٹ بک ہے جس میں ہند اپنی خوش خطی کی مشق کرتی تھی۔

ہند رجب کی والدہ پوچھتی ہیں: 'آپ اس درد کو محسوس کرنے کے لیے اور کتنی ماؤں کا انتظار کر رہے ہیں؟ اور کتنے بچوں کو مارنا چاہتے ہیں؟ہم نے دو بار اسرائیلی فوج سے اس دن علاقے میں ان کی کارروائیوں کے بارے میں تفصیلات جاننے کی کوشش کی اور ہند کے لاپتہ ہونے اور اسے بازیافت کرنے کے لیے بھیجی گئی ایمبولینس کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں جانچ کر رہے ہیں۔ہم نے ہفتے کے روز فلسطینی ہلال احمر کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر ان سے دوبارہ جواب طلب کیا ہے۔

جنگ کے اصولوں میں کہا گیا ہے کہ طبی عملے کو تحفظ دیا جانا چاہیے اور انھیں کسی تنازعے میں نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اور یہ کہ زخمی افراد کو ممکنہ عملی حد تک اور کم سے کم تاخیر کے ساتھ ہی سہی وہ طبّی دیکھ بھال فراہم کی جانی چاہیے جس کی انھیں ضرورت ہو۔

یہ خبر دوپہر ۲ بجے کے قریب آئی کہ غزہ میں طبی عملے کے رُکن محمود المصری اور اُن کی ٹیم کے ارکان شمالی غزہ کے العودہ ہسپتال میں ایمرجنسی کال کا انتظار کر رہے تھے۔

اس دوران اعلان ہو گیا کہ ’ایمبولینس ۵-۱۵ کو نشانہ بنایا گیا ہے‘۔ یہ وہی ایمبولینس تھی کہ جس میں محمود المصری کے والد اور اُن کی ٹیم کے ارکان سوار تھے۔ یاد رہے محمود کے والد بھی  طبّی عملے کے رُکن تھے۔محمود اور اُن کے ساتھی یہ دیکھنے کے لیے اُس جانب بھاگے کہ آخر ہوا کیا ہے؟جب وہ وہاں پہنچے، تو انھوں نے دیکھا کہ ایمبولینس سڑک کے کنارے متعدد ٹکڑوں میں بکھری پڑی تھی۔ محمود چیختے ہوئے گاڑی کے ملبے کی طرف بھاگے، لیکن اس ایمبولینس کے اندر موجود تمام افراد ’بُری طرح جل چکے تھے اور اُن کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے‘ ہو چکے تھے۔  محمود نے روتے اور ہچکیاں لیتے ہوئے کہا کہ ’میرے والد کا چہرہ قابلِ شناخت نہیں رہا تھا‘۔

یہ اسرائیل، غزہ جنگ شروع ہونے کے پانچ دن بعد یعنی ۱۱؍ اکتوبر کی بات ہے۔ محمود کے والد یوسری المصری کا بے جان جسم سفید کفن میں لپٹا ہوا تھا اور اسی کے ساتھ اُن کا خون آلود ہیلمٹ بھی پڑا تھا۔جنازے کے موقعے پر جب محمود اپنے والد کی میت کے پاس گھٹنے ٹیکے اپنے آنسو پونچھ رہے تھے تو ایسے میں اُن کے دوست اُن کے قریب جمع ہو گئے۔ ایسے ہولناک واقعات کو غزہ کے ایک مقامی صحافی فراس الاجرامی نے دستاویزی فلم ’غزہ ۱۰۱: ایمرجنسی ریسکیو‘ کے لیے فلم بند کیا ہے۔

اپنے والد کی موت کے بعد، ۲۹ سالہ محمود، جن کے اپنے تین بچے ہیں، نے چند ہفتوں کی چھٹی لے لی۔لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’گہرے دُکھ کے باوجود مَیں کام پر واپس جانا چاہتا ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری سب سے بڑی خواہش فلسطینی عوام کی خدمت کرنا ہے‘۔

انھوں نے اپنے فون کے وال پیپر پر اپنے والد کی تصویر لگا رکھی ہے ،صرف اس لیے تاکہ ’وہ اپنے والد کے چہرے کو دن رات دیکھ سکیں‘۔محمود کی اپنے والد سے آخری ملاقات اُن کی ہلاکت سے چند گھنٹے قبل ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے محمود سے ایک کپ کافی کی فرمایش کی تھی جو انھوں نے دوپہر کی نماز سے قبل پی لی تھی۔ اس کے بعد ایمبولینس سنٹر میں محمود کے والد یوسری کی ایمبولینس کا نمبر پُکارا گیا اور انھیں زخمیوں کو طبی امداد دینے کے لیے روانہ ہونا پڑا۔

اس واقعے سے صرف دو دن پہلے محمود خود بھی زخمی ہوئے تھے اور اُنھیں سٹریچر پر ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ ایک حملے کے دوران محمود کی گردن اور پیٹھ میں چھرے لگے تھے۔ اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے محمود نے کہا کہ ’ان کے والد شدید پریشانی کے عالم میں اُن کے پہلو میں کھڑے رو رہے تھے اور وہ بہت پریشان تھے‘۔

مگر اب چند ہفتے گزر جانے کے بعد خود محمود کو اپنے والد کی تباہ شدہ ایمبولینس کو دیکھنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ محمود نے کہا کہ ’جب بھی میں اکیلا بیٹھتا ہوں، میں انھیں یاد کرتا ہوں کہ میں ایمبولینس کی طرف بھاگ رہا تھا، میں اپنے والد کی طرف بھاگ رہا تھا، میں ان کے جسم کے ٹکڑے دیکھ کر نیم بے ہوشی کے عالم میں ڈوب چکا تھا۔ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ میرے والد کے ساتھ کیا ہوا؟ میں حواس باختہ ہوگیا تھا‘۔

محمود سات سال سے میڈیکل عملے کے رکن ہیں اور اِس وقت ’فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی‘ (پی آر سی ایس) کی ٹیم میں شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں مقیم تھے۔

اس دستاویزی فلم میں ۷؍اکتوبر کے ایک ماہ بعد تک کے واقعات کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یادرہے حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۳۰ ہزار سے بڑھ چکی ہے۔

اس دستاویزی فلم میں طبّی عملے کے اراکین کو قریب سے اس دورانیے میں فلمایا گیا ہے، جب وہ اندھیری گلیوں سے گزر رہے تھے اور زخمی بچوں کی لاشوں اور ان کے جسموں کے ٹکڑے جمع کر رہے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کس طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھی۔ اس صورتِ حال نے اس صدمے کو ظاہر کیا جس کا انھیں سامنا تھا، خاص طور پر جب انھیں بچوں کی لاشوں سے نمٹنا پڑا۔

جنگ کے ان ابتدائی دنوں میں طبی عملے کے ایک اور رُکن رامی خمیس اپنی ایمبولینس کے سٹیرنگ ویل کے سامنے بیٹھے روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ایک ایسے گھر کی جانب بلایا گیا کہ جو اس کے اپنے ہی مکینوں پر آن گرا تھا، اور اس گھر میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہی موجود تھے۔ جب وہ اس تباہ حال گھر کے ایک کمرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو انھوں نے وہاں تین فلسطینی بچیوں کو مُردہ حالت میں پایا اور انھیں یہ منظر دیکھ کر اپنی بیٹیوں کا خیال آیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا، میں یہ دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا‘۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب رامی کی روتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔گذشتہ برس اکتوبر کے آخر میں ٹیم کے ایک اور رکن علاء الحلبی کو ایک رشتہ دار کی طرف سے ایک ایمرجنسی کال موصول ہوئی۔

علاء نے کہا کہ ’ان کے چچا کے گھر کو دو روز قبل اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن ہلاک ہونے والے کچھ افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے کزن کی لاش نکال لی گئی تھی اور وہ اسے ہسپتال لے جانے کی کوشش میں تھے‘۔جیسے ہی وہ ایک تنگ گلی میں داخل ہوئے، جہاں لوگوں کا ایک گروپ کنکریٹ کے ڈھیر کو ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا، ایک رشتہ دار نے انھیں بتایا کہ ’ایک لڑکی ہے، یا تو اس کا آدھا یا پورا جسم ہے‘۔

وہ رُک گئے، ایک گہری سانس لی، اُن کا چہرہ جزوی طور پر ان کے میڈیکل ماسک کے پیچھے چھپا ہوا تھا، انھوں نے کہا کہ ’لڑکی کے اعضا اس کے ساتھ ہی رکھ دیں‘۔

اسی دن علاء ایک ایسے گھر میں پہنچے جہاں بُری طرح جھلسے ہوئے پانچ مردہ بچوں کو رکھا گیا تھا۔ انھوں نے ایک ٹیم کو ہدایت کی کہ بچوں کو پلاسٹک کے کفن میں اُن کی ایمبولینس میں رکھ دیں۔انھوں نے کہا کہ جب آپ کسی بچے کے جسم کے اعضا کو پکڑتے ہیں تو سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ آپ کے اپنے بچے ہوتے ہیں۔

طبّی عملے کے یہ اراکین فون پر یا ریڈیو نیٹ ورک پر ہونے والی گفتگو کے ذریعے اپنے بیوی بچوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ رامی دو عشروں سے طبی عملے کے رُکن کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی غزہ میں تشدد کا کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے تو میری بیٹیاں مجھ سے چپک جاتی ہیں اور مجھ سے کام پر نہ جانے کی التجا کرتی ہیں۔ علاء نے یہ بھی کہا کہ جب وہ بچوں کی بات نہ مانتے ہوئے کام پر چلے جاتے ہیں تو اُن کے بچے روتے ہیں۔

ایک اور واقعے میں، جب طبی عملے کے چند اراکین العودہ ہسپتال کے باہر اپنی گاڑی میں انتظار کر رہے تھے تو ایک بڑے دھماکے نے انھیں ہلا کر رکھ دیا۔ اس حملے میں کم از کم دو ایمبولینسوں کو نقصان پہنچا۔ طبی عملے کے ایک رُکن نے بتایا کہ اسرائیلی فضائی حملے میں ہسپتال کے قریب واقع ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ ۷؍ اکتوبر سے اب تک غزہ میں اس کی ٹیموں کے گیارہ ارکان ہلاک ہو ئے ہیں۔تنظیم کی ترجمان نیبل فرسخ کا کہنا ہے کہ ’ہر مشن میں ہماری ٹیموں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے‘۔وہ کہتی ہیں کہ ’ڈیوٹی کے دوران ہمارے عملے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جن حالات میں ہم کام کر رہے ہیں وہ خطرناک اور خوفناک ہیں‘۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اسرائیلی کارروائیوں کے دوران استعمال ہونے والی ٹکنالوجی کے ہوتے ہوئے یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ اسے دیکھا ہی نہیں گیا‘۔

پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ ۷؍ اکتوبر سے جاری لڑائی کی وجہ سے اس کی اپنی ۱۶ گاڑیاں ناکارہ ہوئی ہیں اور غزہ بھر میں مجموعی طور پر ۵۹؍ ایمبولینسیں مکمل طور پر تباہ ہو ئی ہیں۔

فرسخ کہتی ہیں کہ ’پی آر سی ایس کو کبھی فلسطینی جنگجوؤں کی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘۔ وہ کہتی ہیں کہ ’زمین پر ہمارا کام صحت اور انسانی ہمدردی کی خدمات فراہم کرنا ہے‘۔

جنوری کے اواخر میں، جب خان یونس کے ارد گرد لڑائی میں شدت آئی، محمود نے اپنی بیوی اور بچوں، ۶سالہ محمد، ۵ سالہ لیلیٰ اور ۳ سالہ لیان کو ساحلی صحرائی علاقے المواسی میں ایک خیمے میں رہنے کے لیے منتقل کر دیا، جسے پہلے اسرائیل نے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا۔اپنے والد کی موت کے چار ماہ بعد بھی وہ کہتے ہیں کہ بیماروں اور زخمیوں کی مدد کرنے کا ان کا عزم جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ میرے والد کا پیغام اور مشن تھا اور مجھے اسے جاری رکھنا ہے‘۔

۱۹۷۱ءکی جنگ میں ہندستان نے اس اُمید پر مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی عسکری اور سفارتی مدد کی تھی کہ مشرقی سرحد پر بننے والی یہ نئی ریاست آزادی کے بعد مستقل اس کے تسلط میں رہے گی۔ بھارتی رہنماؤں کو اُمید تھی کہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگالی رفتہ رفتہ اپنا اسلامی تشخص بھول جائیں گے اور ہندو بنگالی ثقافت کو قبول کر کے ’عظیم بھارت‘ کا حصہ بن جائیں گے۔  جنوبی ایشیا میں مجموعی طور پر ہندستان کی حکمت عملی یہی ہے کہ کمزور ہمسایوں کو ڈرا دھمکا کر یا ان کے اندرونی اختلافات کو ہوا دے کر انھیں اپنا دست نگر رکھا جائے۔

عوامی لیگ کے دعوئوں اور حقائق کے مطابق شیخ مجیب نے پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد اس ہندستانی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا لیکن تب ذرا جھجک باقی تھی۔ اس ضمن میں ’اگرتلہ‘ بھارت مجیب گٹھ جوڑ اور سازشوں کا مرکزبنا۔ جس سے پہلے تو عوامی لیگی انکار کرتے رہے، مگر ۲۰۱۱ء کو اس سازش کے ایک براہِ راست کردار ڈپٹی اسپیکر شوکت علی نے بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں کھل کر اعتراف کیا کہ ’’ہم اگرتلہ میں ۱۹۶۲ء سے بھارت کے رابطے میں تھے‘‘۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ مجیب کے خلاف خون ریز فوجی بغاوت کی ایک بڑی وجہ ان کی ہندستان نوازی بھی تھی، اگرچہ وسیع بدعنوانیوں، ۱۹۷۴ میں پڑنے والے قحط کے اثرات اور یک جماعتی آمر حکومت سےلوگوں کی بیزاری نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہندستانیوں نے خاموشی سے اس صدمے کو برداشت کیا اور دوبارہ ایسے عالمی و مقامی سیاسی حالات کا انتظار کرنے لگے، جن کے اندر اپنی کٹھ پتلی حکومت کو بنگلہ دیش پر دوبارہ مسلط کر سکیں، تاکہ شیخ مجیب الرحمٰن کے جانے سے ہونے والے نقصان کی تلافی ہو سکے۔ ہندستان کو یہ مراد پوری ہونے کے لیے تین عشروں تک انتظار کرنا پڑا۔

تاہم، اس دوران ہندستان فارغ نہیں بیٹھا رہا۔ اس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لوگ پیہم بنگلہ دیشی عدلیہ، انتظامیہ، فوج، صحافت، تعلیم اور سول سوسائٹی میں نقب لگاتے رہے، تا کہ حتمی وار سے پہلے زمین ہموار کی جا سکے۔ نائین الیون کے بعد پیدا ہونے والی اسلام مخالف سیاسی صورتِ حال کا ہندستان نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور امریکی انتظامیہ کے تعاون سے بنگلہ دیش کے خلاف شکنجہ تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکی صدر بش نے ’’آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن‘‘ کا نعرہ لگایا، تو مسلم ممالک میں پائی جانے والی سیکولر جماعتوں کی اہمیت مغربی دنیا میں بڑھنے لگی۔ عراق اور افغانستان پر خوفناک اور خوں ریز حملے کے بعد بش حکومت مسلم ممالک میں ایسی جماعتوں کو مضبوط کرنا چاہتی تھی، جو اسلامی نظریات کو دباسکیں۔ ہندستان نے اس صورتِ حال کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۲۰۰۹ء میں امریکی حکومت کے تعاون سے بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کی حکومت قائم کروا دی۔

بنگلہ دیشی فوج پہلے ہی ’را‘ کے ذریعے رام کی جا چکی تھی۔ چنانچہ اس نے ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی فتح یقینی بنانے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا، تا کہ ایک ایسی آمرانہ حکومت (Orwellian State) قائم کی جا سکے جو اپنے شہریوں پر ہر جبر کو روا رکھتے ہوئے ہندستانی غلبے کو قبول کرے اورقبول کرائے۔ تب بنگلہ دیشی فوج کے سپہ سالار جنرل معین نے پہلے ہی اپنے عہدے اور معاشی مفادات کے لیے بنگلہ دیشی خودمختاری کا سودا کر لیا تھا۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی (م: ۲۰۲۰ء)اپنی یادداشتوں The Presidential Years میں لکھتے ہیں: ’’فروری ۲۰۰۸ء میں بنگالی سپہ سالار معین احمد چھ دن کے دورے پر ہندستان آئے۔ اس دوران وہ مجھ سے بھی ملے۔غیر رسمی گفتگو کے دوران میں نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے زور دیا۔ وہ حسینہ واجد کی رہائی کے بعد اپنی نوکری کے لیے فکر مند تھے۔ تاہم، میں نے ذاتی ذمہ داری لیتے ہوئے انھیں یقین دہانی کروائی کہ حسینہ واجد کے آنے پر ان کی نوکری متاثر نہیں ہو گی‘‘۔ (ص ۱۱۴)

پرناب مکھرجی اور حسینہ واجد دونوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ جنرل (ر) معین نے حسینہ واجد کی سربراہی میں اپنی مدت اطمینان سے پوری کی۔ اس دوران انھوں نے ۲۰۰۹ء کی بی ڈی آر بغاوت میں ۵۷ افسران کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے اور بڑی مہارت سے بنگلہ دیشی فوج کا مورال کچل کر اسے نااہل، بزدل، بدعنوان اور ملک دشمن فوج بنا دیا۔ آج کل وہ اپنے خاندان کے ساتھ بہت ساری دولت سمیٹ کر نیویارک منتقل ہوکر زندگی بسر کررہے ہیں۔

۲۰۰۹ء سے حسینہ واجد، ہندستان کی کھلی حمایت کے ساتھ تین جعلی انتخابات کروا چکی ہیں اور ریاستی طاقت پر ان کی گرفت سخت سے سخت ہوتی جا رہی ہے۔ جنوری ۲۰۱۴ میں قاضی راکب الدین کے الیکشن کمیشن نے یک جماعتی الیکشن کروایا، جس میں ۳۰۰ کے ایوان میں عوامی لیگ کے ۱۵۳ ؍ارکان بلامقابلہ الیکشن سے پہلے ہی منتخب کرا دیئے گئے۔ چنانچہ پہلے سے جاری حکومت کو بغیر ایک بھی ووٹ ڈالے، آئندہ پانچ سال کا مینڈیٹ سونپ دیا گیا۔

ہندستان نے سفارتی سطح پر کوششیں کرکے واشنگٹن اور دیگر دارالحکومتوں میں الیکشن کے نام پر ہونے والے اس فراڈ کے لیے قبولیت پیدا کی۔ اس وقت کے ہندستانی سیکرٹری اور وزیر خارجہ نے واشنگٹن، لندن اور برسلز کا دورہ کر کے حسینہ واجد کے لیے سازگار فضا پیدا کی۔ دریں اثناء حسینہ واجد نے امریکی حمایت برقرار رکھنے کے لیے ’اسلامی دہشت گردی ‘ کا بھی بھرپور شور مچایا۔ ان کے خفیہ اداروں نے ڈھاکہ اور گردونواح میں کئی جعلی دہشت گرد حملے کر کے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا اور کئی افراد کو بغیر کسی ثبوت کے ’دہشت گرد‘ قرار دے کر تختۂ دارپر چڑھا دیا گیا۔ اسلام مخالف مغربی مقتدرہ کی جانب سے حسینہ واجد کی اس حکمت عملی کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور مغربی ممالک ایک بے رحم آمر کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ یوں بنگلہ دیش میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی رات طویل تر ہوتی چلی گئی۔

دسمبر ۲۰۱۸ء میں نورالہدیٰ کی سربراہی میں ہونے والے الیکشن میں عوامی لیگ کے غنڈے اور پولیس کے سپاہی الیکشن سے ایک رات قبل انتخابی باکس بھرتے رہے، تا کہ عوامی لیگ کی جیت یقینی بنائی جا سکے۔ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۸ کو ٹائم میگزین نے رائے دہندگان کی حق تلفی پر ایک مضمون شائع کیا، جس کا عنوان ’’ حسینہ واجد کی جیت ووٹروں کی واضح حق تلفی سے عبارت ہے‘‘ تھا۔ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے قتل پر جہاں ہر طرف سے مذمت ہوئی، وہیں ہندستان اس دفعہ بھی اپنی کٹھ پتلیوں کے ساتھ کھڑا رہا۔

جنوری ۲۰۲۴ء میں ہونے والے انتخابات کو حسینہ واجد خود ’ڈمی الیکشن‘ قرار دے چکی ہیں۔ ان انتخابات میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں خصوصاً بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش [یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے براہِ راست انتخاب میں حصہ لینے پر اس حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے]کے بائیکاٹ کے بعد عوامی لیگ نے حسینہ واجد کے ’ڈمی‘[جعلی] اُمیدواروں کو میدان میں اتارا اور الیکشن ’جیت‘ لیا۔ بنگالی عوام نے بھی انتخابات کے نام پر ہونے والے اس شرمناک ڈرامے کو مسترد کر دیا اور تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود صرف ۱۰ فی صد لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلے۔ تقریباً ۹۵ فی صد حلقوں میں عوامی لیگ کے اصل اور ’ڈمی‘ اُمیدواروں کو ’فاتح‘ قرار دے دیا گیا۔ کچھ نشستیں دوسری ہندستان نواز جماعتوں کو بھی دے دی گئیں، جن کا انتخاب خود حسینہ واجد نے ’را‘ کے مشورے سے کیا تھا۔ ’حبیب الاول کمیشن‘ نے ۴۱ فی صد ٹرن آؤٹ کا دعویٰ کرتے ہوئے فسطائی حکمرانوں کی خواہش کے مطابق انتخابی نتائج کا اعلان کر دیا۔ نسل پرست اور متنازعہ ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے ۴۸ گھنٹوں کے اندر فون کرکے حسینہ واجد کو اس فراڈ الیکشن میں ’کامیابی‘ اور چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے پر مبارک باد دی۔

 حسینہ واجد نے بھی ہندستان کے ان احسانات کا پورا پورا بدلہ ادا کیا ہے اور اکثریتی عوام کی اُمنگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تمام ہندستانی مطالبات پورے کیے ہیں۔ تاریخی تناظر میں بنگلہ دیش سے متعلق ہمیں بھارت کے مندرجہ ذیل سفارتی اہداف نظر آتے ہیں:

            ۱-         ہندستان، بنگلہ دیش میں ایک وفادار حکومت چاہتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں اس کے عزائم کو پورا کرنے کے لیے معاون ہو سکے۔

            ۲-         ہندستان کو بنگلہ دیش کے بری، بحری اور فضائی وسائل کی ضرورت، تا کہ علیحدگی کے خواہش مند اور متنازعہ شمال مشرقی علاقوں پر گرفت برقرار رکھ سکے۔

            ۳-         ہندستان نہ صرف یہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش کی جانب سے اسے کوئی دفاعی خطرہ نہ ہو بلکہ یہ مشرق میں بنگلہ دیش کو اپنی چھاؤنی کے طور پر بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔

            ۴-         بنگلہ دیش، ہندستان کے سول اور عسکری منصوبوں کے لیے ایک راہداری ہو سکتا ہے۔

            ۵-         بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری اور ہندستان مخالف سوچ کو دبانے کے لیے بھارت کو یہاں ایک وفادار حکومت کی ضرورت ہے۔

            ۶-         ہندستان اپنی معاشی ترقی کے لیے بنگلہ دیشی وسائل پر قبضے کا خواہش مند ہے تا کہ ایک چھوٹے ہمسائے کی ملکیت کو غصب کر کے اپنے مفادات کو آگے بڑھایا جائے۔

گذشتہ ۱۵ سال میں ہندستان نے یہ تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ ایک اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے حسینہ واجد نے نہ صرف ملک کا جمہوری انتخابی نظام تباہ کر دیا ہے بلکہ شہریوں کی آزادی اور خودمختاری بھی نئی دہلی کے ہاتھ بیچ دی ہے۔ ایک سابقہ سینئر جرنیل لیفٹیننٹ جنرل (ر) حسن سہروردی جو آج کل سرکاری حراست میں ہیں، کے بقول: ’’بنگلہ دیش ہندستانی مقتدرہ کی پیشگی منظوری کے بغیر اپنا آرمی چیف بھی تعینات نہیں کر سکتا‘‘۔

            ملک کے تمام عسکری، عدالتی اور انتظامی عہدوں پر تعیناتی، ہندستان کے خفیہ اہلکاروں کی ایما اور کلیرنس پر کی جاتی ہے، جو سیکریٹیریٹ اور چھاؤنیوں میں قیام پذیر ہیں۔ ہندستان میں برسرِاقتدار شدت پسند جماعت کی پالیسیوں کے مطابق حسینہ واجد نے ’عظیم بھارت‘ کے لیے ملک کے ۹۰ فی صد مسلمان عوام پر ہندو غلبہ قائم کر دیا ہے۔ ہندو غلبے کے اس عمل کوتیز تر کرنے کے لیے حسینہ واجد حکومت نے تعلیمی نظام میں بھی ہندو ثقافت، روایات، عقائد، داستانوںاور مذہبی رسوم و رواج کو شامل کیا ہے۔ نصابی کتب میں تیرھویں سے سترھویں صدی تک سلاطین کے زمانے میں بنگال کی آزاد سیاسی تاریخ کو بھی مسخ کر کے دکھایا جاتا ہے۔ دوسری طرف بالکل یہی عمل ہندستان میں دُہرایا جا رہا ہے، جہاں نسل پرست حکومت اپنی کتابوں میں مغل سلطنت اور سلاطین دہلی کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرتی ہے۔ اس سب کا حتمی مقصد یہ ہے کہ آغاز میں ہی نوجوانوں کے ذہن میں غلط معلومات اور مسخ تاریخ کو داخل کر کے بنگالیوں کا اسلامی تشخص ختم کر دیا جائے۔

سارک ریاستوں میں سے بھوٹان باضابطہ طور پر ہندستانی تسلط میں ہے۔ ہمالیہ میں واقع اس سلطنت نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر بھی آزادی کا چہرہ نہیں دیکھا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یہ علاقہ برطانوی ہندستان کے انتداب میں تھا۔ ہندستان کو نہ صرف یہ تعلق ورثے میں ملا، بلکہ ۱۹۴۹ء میں بھارت۔بھوٹان معاہدے کے ذریعے اس کو قانونی حیثیت بھی دے دی گئی۔ تب سے یہ ریاست باقاعدہ طور پر براہ راست نئی دہلی کے زیرتسلط ہے۔ اکیسویں صدی میں حسینہ واجد کے ذریعے ہندستان نے بنگلہ دیش کو بھی یہی حیثیت دے دی ہے۔ بھارت میں انتہاپسند نسل پرستی کے عروج کے ساتھ عسکری طور پر کمزور ممالک مثلاً بنگلہ دیش اور بھوٹان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’ہندوتوا‘ کا فلسفہ جنوبی ایشیا میں ہندو غلبے کا علَم بردار ہے۔ سخت قسم کے شدت پسند ہندو سمجھتے ہیں کہ ’اکھنڈ بھارت‘ کا نقشہ بنگلہ دیش سے لے کر افغانستان تک پورے جنوبی ایشیا پر مشتمل ہو گا۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کا جنون انتہا پسند ہندوؤں کی کئی نسلوں کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ مشرق اور جنوب میں واقع ممالک کو فتح کرنا نسل پرست مودی حکومت کے لیے ضروری ہے تاکہ اپنے ووٹروں کو مطمئن رکھا جا سکے۔ حسینہ واجد اس مہم میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ بڑی ذمہ داری سے تمام علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر ہندستانی موقف کی تائید کرتی نظر آتی ہیں۔ چنانچہ ہندستان کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ بنگلہ دیش میں عوامی حمایت کے ساتھ یا اس کے بغیر، حسینہ واجد کی حکومت قائم رکھی جائے۔ پس حسینہ واجد کی فسطائی حکومت کے خلاف بنگلہ دیش کے جمہوریت پسند، مگر مظلوم اور مجبور عوام کی جدوجہد دراصل ملکی خودمختاری کے حصول کے ساتھ براہِ راست جڑی ہوئی ہے۔

نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا ایک سعادت اور عظیم منصب ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرامؑ کو عطا فرمایا ۔جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’خاتم النبیین‘ قرار دیا اور نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا، اور دین اسلام کو مکمل دین قرار دے دیا (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ)، اور دین اسلام کو اپنی بڑی نعمت بتایا اور یہ فرمادیا کہ یہ نعمت میں نے تم پر مکمل کر دی (وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ )،تو اس منصب پر نبی ؐ کی امت کو سرفراز فرمادیا۔اور اس عظیم خوبی کی وجہ سے انھیں سب سے بہتر امت قرار دیا: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہؐ کو دنیا میں اس مقصد کے لیے لائے ہیں کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔کیونکہ انسان بھول جاتا ہے ،اسی لیے اللہ رب العزت نے ہر زمانہ اور ہر قوم کے لیے نبی مبعوث فرمائے،جو انھیں بھولا ہوا سبق یاد دلاتے تھے،گمراہی سے بچنے اور راہِ ہدایت کی طرف راہنمائی کرتے تھے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔آپؐ کے وصال کے بعد یہ فرض آپؐ کی امت پر عائد کر دیا گیا۔ اسی لیے آپؐ کی اُمت کو’ خیر اُمت‘ قرار دیا گیا کیونکہ انسانیت کو سیدھی راہ پر بلانا ہی سب سے بڑی نیکی اور خیر ہے ۔امام رازیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

۱-امت مسلمہ کو بہترین امت اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں ہمیشہ سے کمر بستہ ہے (اللہ کے حقوق میں پہلا حق یہ ہے کہ وہ حاکم مطلق ہے ۔تکوینی احکام کے ساتھ ساتھ تشریعی احکام میں بھی اُسے حاکم مانا جائے۔ اس لیے کہ پوری کائنات کا خالق ،مالک ،رازق اور رب صرف وہی ذات وحدہُ لا شریک ہے)۔

۲- اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو اس لیے فضیلت دی ہے کیونکہ وہ اللہ کے احکام کو پوری انسانیت تک پہنچاتی ہے۔ ’معروف‘ اللہ کے حکم کا نام ہے ۔ اس لیے امت اجتماعی طور پر جس چیز کا حکم دے وہ معروف ہونے کی وجہ سے اللہ کا امر بن جائے گا ۔ اور امت مسلمہ کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔

۳- اہل ایمان منکر کو روکتے ہیں ،منکر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ۔اس صفت کی وجہ سے اِن افراد کی مرضی وہی ہوتی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔

حضرت درہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھتا ہے ،سب سےزیادہ پرہیزگار ہے ،اچھے کاموں کا حکم دیتا ہے، سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا ہے اور رشتہ ناتا ملانے والا ہے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل :۲۷۴۳۴)

اُمت مسلمہ کی فضیلت

حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جنت والوں کی ۱۲۰ صفیں ہوں گی ۔ان میں سے ۸۰  صفیں اُمت ِمحمدیہؐ کی ہوں گی اور چالیس صفیں دوسری امتوں کی ہوں گی‘‘۔ (سنن ابن ماجہ:۴۲۵۹)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: ہم آخری امت ہیں مگر ہمارا حساب پہلے ہوگا‘‘۔(سنن ابن ماجہ: ۴۲۹۰)

کتب احادیث میں امت محمدیہ ؐکی فضیلت کے اعتبار سے بہت سی احادیث مبارکہ ملتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کی فضیلت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے۔

دین اسلام ایک مکمل ،عالمگیر اور آخری دین ہے جسے قیامت تک برقرار رہنا ہے ۔ یہی دین تمام انسانیت کے لیے راہ نجات ہے ،لائحہ عمل ہے ،ضابطۂ حیات ہے ،کامیابی وکامرانی کا ذریعہ اور مسائل کا حل ہے۔

 اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ خدا کے حکم پر قائم رہے گا اور انھیں جھٹلانے والے اور مخالفت کرنے والے نقصان نہیں پہنچا پائیں گے‘‘۔(صحیح    مسلم : ۲۸۸۹)

اس سے مراد ہے کہ دشمن اسے ختم نہیں کر پائیں گے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ حق وباطل کا معرکہ ہمیشہ ہی جاری رہا۔باطل خواہ کتنا ہی طاقت ور رہا ،مگر وہ راہِ حق پر چلنے والوں کو ختم نہیں کرسکا۔ اُن کی منزل کھوٹی نہیں کر پایا ،ہر طرح کے آلام ومصائب میں یہ مومن بندے اپنا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے بعد اس وسیع وعریض کرۂ ارض پر مجدد دین، اسلامی تحریکوں اور علمائے کرام کی محنتوں سے دین اسلام محفوظ ومامون ہے۔ہر دور میں اسلامی تحریکیں آگے بڑھتی رہی ہیں اور دین اسلام اپنی صحیح تعریف وتشریح کے ساتھ اگلی نسلوں تک منتقل کرتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: سنو آج رات انبیائے کرامؑ پنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے۔ بعض انبیاؑ کے ساتھ صرف تین اشخاص تھے۔بعض کے ساتھ مختصر گروہ ،بعض کے ساتھ ایک جماعت اور کسی کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔حضرت موسی ؑ آئے تو ان کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے۔مجھے یہ جماعت پسند آئی ۔

میں نے پوچھا یہ کون ہیں تو جواب ملا: یہ موسٰی ہیں اور اُن کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر میری اُمت کہاں ہے؟جواب ملا: اپنی داہنی طرف دیکھو ،دیکھا تو بہت بڑا مجمع تھا۔جس سے پہاڑیاں بھی ڈھک گئی تھیں۔مجھ سے پوچھا گیا کہ خوش ہو؟میں نے کہا: اے اللہ میں راضی ہوں‘‘۔( صحیح بخاری :۶۵۴۳)

جامع ترمذی کی حدیث (۴۶۷۹) اس کی تائید وتوثیق کرتی ہے ۔آپ ؐ نے فرمایا: ’’اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں سے ۸۰صفیں صرف اس امت کی ہوں گی‘‘۔

حضرت ابوہریرہؓ سے جو تفسیری احادیث ملتی ہیں اُ ن احادیث میں کنتم خیر امۃ کی تشر یح میں فرمایا گیا:’’تم اس لیے بہترین امت ہو کہ تم لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ کر لاتے ہو‘‘۔

جنّت میں داخلـے کی بشارت

ہر صاحب ِایمان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلا جائے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے عائشہؓ! جس کا حساب ہوا وہ مارا گیا‘‘۔

شہید کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا،کیونکہ جہاد کی غرض بھی اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے۔اسی مقصد کے لیے حضوؐر اور صحابہ کرامؓ نے جنگیں لڑیں اور اپنی جانیں قربان کیں۔قرآن پاک میں شہداء کے لیے حکم ہے کہ انھیں مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں،مگر تم اس بات کا شعور نہیں رکھتے۔جہاد کی فضیلت بھی اسی لیے ہے کہ اس کے نتیجے میں افراد اور اقوام کا بنایا ہوا نظام زندگی ختم کر کے اللہ کا بھیجا ہوا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ہم مسلم اکثریت کے حامل ملک کے شہری ہیں۔یہاں پر قرآن کے احکامات کو جاری و ساری کرنے کے لیے، اپنی قوم کو بھولا ہوا سبق یاد کروانے،قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے،اپنی زندگیوں کو خدا کے قانون کے مطابق ڈھالنے،بندگیٔ ربّ پر اُبھارنے، منافقت سے دُور رہنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے، تاکہ زندگی کی گاڑی ٹھیک ٹھیک اللہ کے راستے پر چل سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کی گئی ہر طرح کی کوشش جہاد فی سبیل اللہ کے ذیل میں آتی ہے۔ داعی الیٰ اللہ بھی راہِ حق کا وہ مجاہد ہے جس کے لیے نبیؐ کی بشارت ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّـمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ  وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳ ( حم السجدہ ۴۱:۳۳) ’’اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے وہ خدا کی زمین میں خدا کا نائب ہے ، خدا کے رسول ؐ کا نائب ہے اور خدا کی کتاب کا نائب ہے ‘‘۔گویا کہ اُمت محمدیہؐ کو جو فضیلت حاصل ہے وہ اِ س بنیاد پر حاصل ہے کہ وہ دعوت اور تربیت کا فریضہ انجام دیتی ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق اس اُمت کا مقصد بھی یہی ہے۔

معروف و منکر ایک دعوتی و تربیتی فریضہ

امر بالمعروف ونہی عن المنکر دراصل دو کاموں کا مجموعہ ہے:دعوت و تبلیغ اور تنظیم وتربیت۔ یہ دونوں کام ایک فطری ترتیب کے ساتھ انجام پاتے ہیں ۔پہلے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جاتا ہے ۔اس کے بعد اُن افراد کی تنظیم اور تربیت کی جاتی ہے جو اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں ۔اسی تنظیم وتربیت پر دعوت کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے ۔اگر تنظیم مضبوط اور تربیت صحیح ہے تو دعوت کامیاب ہوگی ورنہ اس کی ناکامی یقینی ہے۔اس لیے دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت کے درمیان بہت ہی گہرا اور قریبی ربط ہے۔امت مسلمہ کو دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت دونوں ہی کام کرنے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض اپنے دائرے کے باہر بھی انجام دینا ہے اور اندر بھی ،جو کام اپنے دائرے سے باہر کریں گے وہ دعوت وتبلیغ ہے اور جو اپنے دائرے کے اندر انجام دیں گے وہ تنظیم وتربیت ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۝۱۹۹(اعراف ۷:۱۹۹)، اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جائو، اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔

آپ ؐ نے یہود ونصاریٰ ،مشرکین اور منافقین سب کو دین کی دعوت دی،اخلاقِ حسنہ کی نصیحت کی،آداب زندگی کی تلقین کی ۔وہ سب امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں شامل ہے۔ اس وقت اگر ہم اپنی قوم کی حالت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح وتربیت کی بھی ضرورت ہے اور اُس کے ساتھ ساتھ کچھ عقائد کی اصلاح بھی مطلوب ہے۔ لہٰذا دعوت وتبلیغ اور تنظیم وتربیت کا فریضہ انجام دینا اور تسلسل کے ساتھ اسے جاری رکھنا ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔ اس کی انجام دہی ہماری نجات اور فلاح کی ضامن ہے۔(جلال الدین عمری، معروف و منکر)

فریضۂ معروف و منکر اور علمی خدمات

دعوتِ دین بالکل سادہ کام نہیں ہے،بلکہ اس میں جہاں وعظ ونصیحت اور تذکیر وتلقین کی ضرورت پڑتی ہے وہاں دین کو دلائل سے ثابت کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے ۔یہ علمی اور استدلالی خدمت بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ایک اہم پہلو ہے ۔امام رازی ؒ لکھتے ہیں: ’’معروف کا حکم دو ،یعنی دینِ حق کی وضاحت اور اس کے دلائل کے اثبات کے ذریعے‘‘۔

ابن عربی مالکی کہتے ہیں کہ دین کو علمی رنگ میں پیش کرنا اور اسے دلائل سے ثابت کرنا امربالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ یہ بات بھی امر بالمعروف ونہی المنکر میں شامل ہے کہ مخالفین پر حجت قائم کرکے دین کی مدد کی جائے۔

ہم اس وقت فریب اور دھوکا دہی پر مبنی دورِ دجل میں جی رہے ہیں۔ہر طرف سے اسلام پر حملے ہو رہے ہیں۔عورت کی حیثیت ،عورت کا مقام اور اس کا دائرہ موضوع بحث ہے۔ تاریخ اسلام اور مسلمان حکمرانوں کے کارہائے نمایاں پر حرفِ تنقید ہے۔حضورؐ کی ذاتِ مبارکہ بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں۔ علم حدیث اور سنت متواتر ہ تک پر حملے ہو رہے ہیں۔اس لیے دینِ  اسلام کے پورے نظام کا دفاع بہت ضروری ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں دعوت دین کی پوری جدوجہد شامل ہے۔اس کا فطری اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جائے۔ اس بات کو دلائل سے ثابت کیا جائے کہ اللہ کا دین ہی حق ہے ۔اسی میں ہماری نجات ہے۔ اس دین کو فروغ دینے،اسے پھیلانے اور اس کا نظام نافذ کرنے کی جدو جہد وقت کا تقاضا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی،اس کے لیے بھی اتنا ہی ثواب ہےجتنا اس پر عمل پیرا ہونے والوں کا ہے‘‘ ۔(صحیح    مسلم:۱۸۶۰ )

مزید ارشاد فرمایا:’’اللہ کی قسم! اگر اللہ تیرے ذریعے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت بخش دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘۔(صحیح       بخاری: ۱۱۹۳)

الغرض امت مسلمہ کو دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد حاکمیت الٰہیہ کا قیام ہے ۔اس مقصد کے حصول کے لیے جان و مال سے جہاد کرنا ہو، قرآن پاک کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے دروس قرآن اور دروس حدیث کا سلسلہ ہو،اسلامی لٹریچر کا مطالعہ ،دین کی دعوت دینے کے لیے ملاقات ہو یا اجتماع عام، یا انسانی زندگیوں کو اخلاق و معاملات کےدائرے میں لانے کے لیے تربیت گاہوں کا انعقاد___ یہ سب کوششیں جہاد فی سبیل اللہ کے ذیل میں آتی ہیں۔

نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مستحق ہیں وہ سب داعیانِ دین جنھوں نے اپنی زندگیاں اس راہ میں لگا دیں۔

سوال: ایک ملازم روزہ رکھتا ہے، مگر اس کا مسلمان مالک بلاعُذر شرعی روزہ نہیں رکھتا۔ کیا ملازم کا اپنے مالک کے لیے کھانا پکانا اور کھلانا درست ہے؟

جواب: ملازم اس صورت میں گنہگار نہیں ہوگا۔ روزہ ترک کرنے اور ملازم سے کھانا پکوانے کا گناہ مالک کے ذمے ہے۔افسوس کہ ایسے مسلمان آقائوں اور مشرکین و کفّار آقائوں کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں رہا۔ البتہ ملازم ایسے آقا کو توجہ ضرور دلائے کہ وہ روزہ رکھے۔

روزہ اور نماز

سوال: بعض لوگ روزہ تو رکھتے ہیں، لیکن نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ایسی صورت میں روزے کا اجر انھیں مل جائے گا؟

جواب: میرے علم میں ایسے آدمی کے روزے کا کوئی اجر نہیں ہے، جو نماز ترک کردے اور روزے رکھے۔


’انذار اور ’خشیت‘

سوال: ’انذار‘ اور’خشیت‘ میں کیا فرق ہے؟

جواب: ’انذار‘ کے معنی ہیں ڈرانا اور ’خشیت‘ کے معنی ڈرنا۔ لیکن ڈرانا، دہشت زدہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ تنبیہ [وارننگ] کے لیے ہے۔ ’خشیت الٰہی‘ کا یہی مطلب ہے کہ خدا کی عظمت و جلال سے متاثر اور مرعوب ہوکر اس کی رضا طلب کی جائے۔