کسی تحریک (movement )کا دورانِ سفر اپنے سے یا کسی اور کا اس تحریک سے یہ سوال کرنا کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟___ ایک سادہ لیکن پُر معنی سوال ہے جس کا یہ مفہوم لینا درست نہیں ہوگا کہ وہ اپنے مقصد، اپنی ساخت اور اپنے طریقِ کار سے غیر مطمئن ہے،یا اس میں کسی انحراف کی بنا پر یہ سوال اُٹھا رہی ہے۔ درحقیقت یہ سوال اس لحاظ سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ وہ جس مقصد اور دعوت کو اپنی بنیاد سمجھتی ہے، اس کے حصول کے لیے اسے مزید کن اقدامات اور کس حکمت عملی کی ضرورت ہے، نیز کن پہلوؤں کو مزید قوی کرنا اور کن پہلوؤں کا اضافہ کرنا ہے؟
اس داخلی احتسابی اور تجزیاتی زاویے سے اگر تحریک اسلامی کے نصب العین، مقصد اور حکمت عملی پر ایک نظر ڈالی جائے، تو وہ دیگر سیاسی، معاشی ،ثقافتی ،مذہبی تحریکات سے بنیادی طور پر مختلف نظر آتی ہے۔گو، ان میں سے بعض اختلافات اتنے شدید نہیں کہے جا سکتے جنھیں سیاہ اور سفید کی طرح مکمل طور پر مختلف کہا جاسکے۔
یہ سوال کہ تحریک کیا ہے اور کیا نہیں؟ ہر انتخابی نتیجے کے بعد اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ ہر قومی انتخاب کے بعد صحافتی حلقوں میں اور خود کارکنوں میں اس سوال پر گفتگو کا پایا جانا حیران کن نہیں کہا جا سکتا اور انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی معاملہ توقع کے برعکس نظر آئے، تو ہر ذی فہم شخص اس کے اسباب کو تلاش کرنا چاہتا ہے تاکہ آیندہ کامیابی کے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر سکے۔
اقامتِ دین کی دعوت وجدوجہد تمام انبیائے کرام ؑ کا اسوہ ہے۔ قرآن کریم ان کی دعوت کا مرکزی مضمون اطاعت الٰہی اور طاغوت سے اجتناب کو قرار دیتا ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ (النحل ۱۶:۳۶)’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘ ۔
قرآنی زبان میں اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ ،انتہائی مختصر الفاظ میں نہ صرف انسان کے مقصد وجود کو بلکہ دنیا میں مسلمان کے مشن اور طرزِ حیات کو دوٹوک انداز سے پیش کردیتے ہیں۔ یہاں بات یہ کہی گئی کہ سوچ سمجھ کر اس کی بندگی اختیار کرو، جو تمھارا اور ساری کائنات کا خالق ہے۔ اور جو طاغوتی ادارے اور افراد ،تکبر اور غرور کی بنا پر خود کو کوئی چیز سمجھتے ہیں، ان سے نہ صرف اجتناب برتو بلکہ ان کی جگہ حقیقی خالق کی حاکمیت کو قائم کرو۔ یہ تمام باتیں محض دو الفاظ میں بیان کرنا درحقیقت قرآن کریم ہی کا اعجاز ہے۔
اس نصب العین کے حصول کے لیے انبیائے کرام ؑ نے خصوصاً خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نےاقامتِ دین کے لیے اللہ کے احکامات کو جوں کا تو ں، اسی شکل میں کہ جس میں وہ نازل ہوئے پہنچا کر افرادِ کار کی تعمیرِ سیرت یا تزکیہ کے کام کو انتہائی حکمت کے ساتھ سرانجام دیا، اور اس منہجِ دعوت کو سمجھ کر اختیار کرنے والوں کے لیے اقامت ِدین کے فریضے کو لازمی قرار دیا۔گویا اقامت ِدین دعوتِ الی القرآن اور اصلاح و تعمیر سیرت کو علیٰ منہاج النبوۃ حکمت و دانش کے ساتھ سرانجام دینے کا نام ہے۔
قرآن کریم واضح الفاظ میں یہ تعین کر دیتا ہے کہ اقامتِ دین ہی وہ فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لیے انبیائے کرامؑ اور امت مسلمہ کو برپا کیا گیا:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو دے چکے ہیں، اور اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو(اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ ) اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ ۔
یہاں قرآن کریم نے ایک عبد کی حیثیت سے اللہ کی بندگی کی اُس سنت کو جو حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ نے قائم کی تھی، اُمت مسلمہ کے حوالے سے اقامتِ دین سے تعبیر کیا جس کی ہدایت اور وصیت سیّدنا ابراہیم ؑ سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو کی تھی۔ اقامتِ دین کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر دیتا ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو سیدھا کر دیا جائے یعنی اس کی اصل حالت پر واپس لے جایا جائے۔ چنانچہ سورۂ کہف میں حضرت موسٰی اور حضرت خضر ؑ کے قصے میں دیوار کو سیدھا یا درست کر دینے کے لیے یہی اصطلاح استعمال ہوئی: يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ۰ۭ ۖ(الکہف۱۸:۷۷)۔
اس کا دوسرا مفہوم بھی قرآن ہی واضح کرتا ہے یعنی کسی عمل کو جیسا کہ اس کا حق ہے ادا کیا جائے۔ مثلاً اقامتِ صلوٰۃ اسی وقت صحیح طور پر ہوگی جب صلوٰۃ کو اس کی ظاہری اور باطنی شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔چنانچہ اقامتِ دین کا قرآنی مفہوم یہ ہوگا کہ دین کو اس طرح قائم کرنا جیساکہ اس کا حق ہے اور جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ،حضرت موسٰی، حضرت عیسٰی ؑاور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامتِ دین کو عملاً قائم کر کے اس کا حق ادا کر کے دکھایا: ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۲۸ۭ (الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔
اس قرآنی پس منظر میں دیکھا جائے تو اقامتِ دین کی تحریک حضرت نوحؑ سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا ؑ کا مقصد اور مشن رہا ہے، جس کا اظہار بار بار قرآن کریم نے صلوٰۃ کی اقامت کے الفاظ میں کیا ہے۔ نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے قیام کو قرآن نے ریاست اور معاشرہ دونوں کی ذمہ داری میں شامل کیا ہے: اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج۲۲:۴۱) ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
دین کو جیساکہ اس کا حق ہے قائم کرنا اور اس کے بنیادی ارکان صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا قیام جن کا تعلق نہ صرف تزکیۂ نفس اورتزکیۂ مال کے ساتھ ہے، بلکہ معروف کے قیام کی جدوجہد اور منکر کو مٹانے کے لیے ذرائع کا استعمال میں لانا اقامتِ دین کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں اگر زمین میں قوتِ نافذہ (تمکین )کے حصول کا مقصد وہ ہے جو یہاں بیان کیا گیا یعنی اقامتِ صلوٰۃ، نظامِ زکوٰۃ کا قیام اور اچھائی اور خیر کا حکم دینا اور برائی اور منکر سے روکنا تو اقامتِ دین ہے، اور اگر زمین میں اختیار و اقتدار اس لیے مطلوب ہے کہ ذاتی فائدہ ، شہرت حاصل ہو تو یہ دنیا طلبی اور دنیا پرستی ہے۔
عصر حاضر میں تحریک اسلامی کی دعوت اور جدوجہد کا محرک یہی اقامتِ دین کا قرآنی حکم ہے۔ کیونکہ امت مسلمہ کو جو عالمگیر ذمہ داری اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے تفویض فرمائی ہے وہ دین کو مجموعی طور پر قائم کرنا اور طاغوت کی حاکمیت کو مٹانا ہے۔ یہ کام اپنی نوعیت کے لحاظ سے اجتماعی جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے اور تحریک اسلامی کے قیام کا مقصد اس اجتماعی جدوجہد کے لیے افرادِ کار کی تیاری اور ان کی سیرت سازی ہے۔
قرآن کریم دین کی جامع اصطلاح سے مکمل دین مراد لیتا ہے۔ وہ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں کسی جزوقتی مومن کی گنجایش نہیں پائی جاتی کہ جمعہ کے دن پاک صاف ہو کر اللہ کی کبریائی ، عظمت و حاکمیت کا اقرار کرے اور ہفتہ کے بقیہ دنوں میں کہیں مال کا بندہ ہو، کہیں شہرت کا ، کہیں برادری اور کہیں اپنی پارٹی کا۔ مجموعی عبودیت سے مراد وہ طرزِ حیات ہے جس میں اللہ کی بندگی کو زندگی کے تمام معاملات میں شعوری طور پر اختیار کر لیا جائے۔ اس لیے اقامتِ دین کی جدوجہد بھی اس کوشش کا نام ہے جس میں کلّیت ہو اور دین کے کسی جز وکی نہیں بلکہ مکمل دین کا قیام مقصود ہو، اور اس طرح مقصود ہو جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک مثالی معاشرہ اور ریاست قائم کر کےدین کی اقامت کی مثال پیش فرمائی۔
جن تحریکات اسلامی نے اپنا دعوتی اور سیاسی کام الگ کرنے کا تجربہ کیا ان کے معروضی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جہاں یہ تجربہ کیا گیا اور اس کے نتائج وہ نہیں نکل سکے جن کے پیش نظر اسے کیا گیا تھا، بلکہ اس سے ذہنی خلفشار میں اضافہ ہی ہوا۔ زمینی حقائق یہ اشارہ کرتے ہیں کہ تحریک اسلامی کا اصولی اور عملی موقف یہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دعوتی اور سیاسی کام کو دو الگ دائروں میں تقسیم نہ کرے۔ اس کا سیاسی عمل بھی دعوتی اسلوب اور حکمت عملی پر مبنی ہوگا تو وہ اپنی فکری وحدت کو برقرار رکھ سکے گی، ورنہ سیاسی معاملات میں لبرل بننے کی تمنا اسے اصل دعوتی، اصلاحی اور تربیتی مقصد اور راستے سے غیر محسوس طور پر دور بلکہ منحرف کرسکتی ہے۔
دین ایک وحدت اور اکائی ہے۔ یہ عقائد ،انفرادی اور اجتماعی معاملات، معاشی ،سیاسی، قانونی دائروں میں حاکمیت الٰہی کے نفاذ کے ذریعے وحدت پیدا کرنے کا نام ہے۔ الہامی اصول و اخلاق ہر شعبۂ حیات میں یکساں طور پر نافذ کیے جائیں گے تو فرد، معاشرہ اور ریاست میں توازن و اعتدال ہوگا۔ ان اجزاء کو یا ان میں سے کسی ایک جزکو جب بھی الگ کیا جائے گا، انجام تصورِ دین سے دُوری ہی ہوگا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں جب سے ’توحیدی وحدت‘ کی جگہ ثنویت ، دو رنگی (Dualism) نے لی اور دین و سیاست دو الگ خانوں میں تقسیم ہوئے، وہ مرکزِ وحدت سے دُور ہوتے گئے اور روحانیت کے نام پر ایک الگ دنیا اور سلطانی نظام کے نام پر ایک دوسری دنیا پروان چڑھی جس نے وحدتِ دین کے مظاہر اور اُمت کے وجود تک کو تقسیم کردیا۔
تحریک اسلامی کا انقلابی کردار اس حوالے سے یہی ہے کہ اس نے دین کی ناقابلِ تقسیم وحدت کو دوبارہ زندہ کیا اور امت کی فکری قیادت کی۔ تحریک کا اصل مسئلہ اہداف میں توازن ہے۔ دینی حکمت عملی میں کسی ایک جزو کو الگ کر کے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
l تحریک اسلامی کیا نہیں ہـے: عام طور پر مذہب کے نام پر جو جماعتیں وجود میں آتی ہیں، وہ کسی مذہبی مسلک سے اپنی وابستگی کو اپنی بنیاد بناتی ہیں۔ ان جماعتوں کے نام ہی فقہی مذہب یا مسلکیت کو ظاہر کرتے ہیں اور ایک لحاظ سے اس کی ممبرشپ اس مسلک تک محدود سمجھی جاسکتی ہے۔
جماعت اسلامی یا تحریک اسلامی کا قیام کسی مذہبی مسلک کی بنیاد پر وجود میں نہیں آیا بلکہ اس میں ہر دینی مسلک کے افراد شامل ہو سکتے ہیں اور شامل رہے ہیں۔ گویا یہ صحیح معنوں میں دینی جماعت کہی جانے کی مستحق ہے اور یہ اس کا امتیاز ہے۔
تحریک اسلامی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس کی بنیاد نہ لسانی ہے، نہ علاقائی عصبیت پرہے اور نہ موروثیت پر، بلکہ یہ تمام مسلمانوں کو جو قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہوں،ایک اخلاقی اجتماعیت میں متحد کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ یہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد پر قائم ہے،جس کے حصول اور تحفظ کے لیے لاکھوں مسلمانانِ ہند نے اپنی جان و مال اور عزّت کی قربانی دی تھی۔ جماعت اسلامی بانیان پاکستان کے اسلامی تصورِ پاکستان کے نفاذ کو اپنی سیاسی جدوجہد کا مقصد قرار دیتی ہے۔ اس لیے یہ ایک نظریاتی جماعت ہے،جس کا ایک واضح سیاسی اور دستوری کردار ہے۔
تحریک اسلامی روزِ اوّل سے خفیہ طریقِ کار اور قوت کے استعمال سے تبدیلی لانے کے عمل کو غلط سمجھتی ہے، اور اپنے دستور اور منشور میں وضاحت سے یہ بات دہراتی ہے کہ وہ پُرامن دستوری جدوجہد کی پابند ہے۔ اس زاویے سے تحریک اسلامی شدت پسند جماعتوں کی تعریف میں نہیں آتی۔ بلکہ جمہوری دستوری ذرائع کے لحاظ سے یہ واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے جس میں باقاعدگی کے ساتھ بغیر کسی انتخابی مہم کے ارکان آزادانہ رائے کا استعمال کر کے اپنے امیر اور شوریٰ کا انتخاب کرتے ہیں۔ کسی اور سیاسی جماعت میں اس طرح کی شفافیت نہیں پائی جاتی۔
تحریک اسلامی ندوۃ المصنّفین کی طرح کی کوئی علمی و تحقیقی جماعت نہیں ہے، لیکن اس کا ایک بنیادی مقصد دین کے فہم کو فکری اور نظری بنیادوں پر دورِ جدید کے تناظر میں عام کرنا ہے۔ یہی وہ اعلیٰ مقصد تھا جس کے لیے مارچ ۱۹۳۳ء میں مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کا اجرا کیا اور بعد میں پٹھان کوٹ میں ایک علمی ، فکری اور تحقیقی ادارہ قائم کیا، تاکہ دین کی تعلیمات کو جدید نسل تک پہنچایا جاسکے۔ لیکن اس سب کے باوجود جماعت اسلامی محض ایک علمی یا فکری ادارہ نہیں ہے۔ یہ اہم کام اس کی دعوتی ترجیحات کا اوّلین اور لازمی حصہ ہے، کیوں کہ وہ دین کی تعلیمات کو براہِ راست قرآن و سنت کی بنیاد پر عام فہم انداز میں پیش کرتی ہے۔
تحریک اسلامی دین کی کلّی تعبیر کی قائل ہے یعنی یہ دین و سیاست میں کوئی تفریق نہیں کرتی اور اقامتِ دین کو اس وقت مکمل سمجھتی ہے ،جب ایک مسلمان کی زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور طاغوت سے مکمل نجات پائی جائے۔ اس لحاظ سے یہ اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔
ان چند ابتدائی گزارشات کی روشنی میں انتخابات کے نتائج کو اگر دیکھا جائے تو جماعت کے کارکن ہوں یا ہمدرد، سب کے ذہنوں میں جو سوالات گردش کرتے ہیں، ان پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات اس سلسلے میں یہ کہی جاتی ہے کہ تحریک اسلامی کو اپنے دینی تشخص اور سیاسی کردار میں تقسیمِ کار پر غور کرنا چاہیے۔ اس کا ایک سیاسی ونگ ہو جو سیاسی مسائل کی بنیاد پر عوامی حمایت حاصل کرے، اور ایک دینی ونگ ہو جو دعوت و تبلیغ میں مصروف رہے۔
اس سوال پر اقامتِ دین کے حوالے سے غور کیا جائے تو اقامتِ دین اس کلّی طرز عمل کا نام ہے، جس میں سیاسی اور غیر سیاسی کی تقسیم کرنا عملا ًناممکن ہے۔ اگر گھر گھر جا کر دعوت دین پیش کی جا رہی ہو، تو اس کا مقصد محض دینی معلومات نہیں ہو سکتیں۔ اس کے اثرات معاشرتی اور سیاسی سطح پر ہونے لازمی ہیں۔ اس لیے یہ دانش ورانہ تقسیم نظری تو ہو سکتی ہے عملاًممکن نہیں۔ اس تناظر میں اقامتِ دین کی دعوت کا مقصد خود بانی ٔ جماعت سیّد مودودی کے الفاظ میں صرف تین نکات میں پیش کیا جاسکتا ہے:
۱- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں اُن کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اُس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے اُس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے اور جب وہ مسلمان ہے، یا بنا ہے، تو مخلص مسلمان بنے، اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
۳- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فُساق و فُجار کی رہنمائی اور قیادت و فرماںروائی میں چل رہا ہے اور معاملاتِ دُنیا کے انتظام کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔(روداد جماعت اسلامی، سوم،ص ۵۶-۵۷)
گویا سیاسی اور خالص دعوتی اور تبلیغی کام کی تقسیم تحریک اسلامی کے قیام کے تصور سے مناسبت نہیں رکھتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی تحریک نہیں جس نے محض سیاسی مقاصد کے لیے مصلحتاً ایک مذہبی لبادہ اُوڑھ لیا ہو اور نہ اس کے مزاج میں خانقاہ اور تزکیۂ نفس کا یہ تصور ہے کہ ایک فرد کو اجتماعی زندگی سے کاٹ کر روحانی ترقی کے زاویے میں محدود کر دے۔ بلکہ یہ فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح و تربیت کے ذریعے نظام زندگی سے طاغوت کو خارج کر کے معیشت ،سیاست، معاشرت، عدلیہ، تعلیم، غرض ہر شعبۂ حیات کو اللہ کی بندگی میں لانے کی دعوت دیتی ہے۔
تحریک کے قیام کا ایک بڑا محرک بر صغیر میں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امکانات تھے۔ یہ بات واضح ہو کر سامنے آر ہی تھی کہ جلد ملک کو تقسیم ہونا ہے اور ایک نیا خطۂ ارض اسلامی ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔ انگریز کی غلامی سے آزادی کے بعد مسلم لیگ جو اس وقت مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تھی ، قیادت کی سطح پر بالعموم ایسے افراد پر مشتمل تھی، جو اس عظیم کام کے لیے نہ صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ان کا علمی اور ثقافتی پس منظر اس ذمہ داری میں مددگار ہو سکتا تھا۔ اس لیے اگر ملک کو اسلامی نظریۂ حیات کی بنیاد پر چلانا اور یہاں پر اسلامی نظام نافذ کرنا حصولِ پاکستان کا مقصد تھا، تو اس کے لیے وہ افرادِ کار کہاں تھے، جو اس خواب کو عملی شکل دے سکیں؟ یہی وہ فکر تھی جس نے قائد تحریک اسلامی مولانا مودودی کو ایسے صالح افراد کی تلاش اور ایک ایسی جماعت کے قیام پر اُبھارا، جو وجود میں آنے والے نئے ملک کے لیے اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل منتظمین اور کارکنان فراہم کر سکے۔ یہ ایک نئے انسان کی تلاش تھی، جو ایمان دار، دیانت دار، سچا، ایثار و قربانی کرنے والا اور بے غرض ہو۔ جسے اقتدار کی ہوس نہ ہو اور جو اپنے رب کی رضا کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو اور قیادت کی مطلوبہ صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
قیامِ پاکستان سے قبل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا:
ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی ڈھرّے پر لگادینے سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ ہمیں عوام میں عمومی تحریک (Mass Movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجہ کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیرِ افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دُوہرےفرائض کو سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلادینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہلِ دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور ان کو کھنگال کر ایسے صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے جو آگے چل کر عوام کے لیے لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیبی و تمدنی معمار بھی۔( روداد جماعت اسلامی، اوّل،ص ۹۸)
ان صالح افراد کی تلاش کے ساتھ تحریک کو درپیش چیلنج یہ تھا کہ ان افراد کی فکری اور عملی تربیت اور سیرت سازی کی جائے تاکہ ملک میں اخلاقی تبدیلی کا آغاز ہو سکے۔ آج جو صورتِ حال ملک میں پائی جاتی ہے، وہ بھی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان صالح نوجوانوں کو جو سرکاری اداروں پر اعتماد کھوچکے ہیں اور جن کے سامنے سوائے احتجاج کے اور کوئی منزل نہیں ہے۔ انھیں ہنگامہ آرائی کی جگہ اپنی فکر اور شخصیت کو قرآن و سنت میں ڈھالنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انھیں ایک تنظیم میں لاکر ان کی صلاحیتوں کو ترقی دی جائے اور تعمیری فکر ، مثبت رویہ اور پُرامن دستوری ذرائع کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کی جائے۔
یہ کام دیر طلب ہے، استقامت اور صبر سے کرنے کا ہے۔ یہ محض نعروں سے نہیں ہو سکتا۔ تحریکی افراد کو اپنے سنجیدہ اور متاثر کن کردار سے اسے کرنا ہوگا۔ ہر تحریکی کارکن کا علم مغربی اور اسلامی فکرو ثقافت میں دوسروں سے بڑھ کر ہونا چاہیے تاکہ وہ علمی اور عملی طور پر خود ایک نمونہ ہوں اور نوجوانوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ یہ کام صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرنا ہوگا۔
ہمیں ایسے افراد کو تیار کرنا ہے جو نہ صرف علم بلکہ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ عالمی معاشی نظام، سیاسی فکر ہو یا معاشرتی تصورات ،وہ جدید علوم اور اسلامی مصادر سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت کی علمی تربیت اور کردار سازی کے بغیر عوام کے ایک ہجوم کو چند جذباتی نعروں کے ذریعے جمع کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اصل کرنے کا کام دعوت و اصلاح و تربیت ہے۔ جس کے مطلوب انسانی اور مالی وسائل مہیا کرنے ہوں گے۔ دیر پا کلّی اخلاقی انقلاب کے لیے دعوتی ترجیحات میں توازن پیدا کرنا ہوگا، اور اوّلین نکات کو اوّلیت دینی ہوگی۔ تطہیر فکر، تعمیر سیرت ،تنظیم، انسانی وسائل کو مستحکم کیے بغیر سیاسی جدوجہد اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکتی۔ عوام کی نگاہ میں متبادل (choice) بننے کے لیے سیرت و کردار سازی ہی وہ عنصر ہے جو تحریک کو ممتاز اور قابل اعتماد بنا سکتا ہے۔ سیاسی جلسے اور جلوس رائے عامہ کی تشکیل کے لیے ناکافی ہیں۔
دوسرا اہم محاذہمارے اپنے گھر ہیں۔گذشتہ چند برسوں میں تحریکی گھرانے بھی سیاسی معاملات میں تقسیم ہو گئے اور بہت سے تحریکی گھرانوں کے نوجوانوں نے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دیے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خاندان کی اکائی کو بحال کیا جائے اور اس عمل میں حق کی حمایت، لاقانونیت اور غیرجمہوری اقدامات کی کھل کر مخالفت کی جائے تاکہ تحریک کے سیاسی عدم تعصب ، عادلانہ روش ، صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت اور کسی ادارے سے خائف یا پیروی کرنے کے منفی تاثر کو دُور کیا جا سکے اور اس کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے آسکے۔
پابندیوں اور غیرمنصفانہ کارروائیوں پر ردعمل:تحریک اسلامی ایک مثبت اور پیش قدمی کرنے والی تحریک ہے۔ اس کا کام رد عمل کے طور پر کام کرنا نہیں ہے۔ اسے اصول کی بنیاد پر ہی تنقید کرنا ہے، اور تنقید میں عدل و توازن کا دامن پکڑے رکھنا ہے۔اپنے قول اور عمل میں مثبت اور تعمیری رویے کی ضرورت ہے۔ ملکی حالات کے پیش نظر نوجوانوں میں شدت سے انتظامیہ کے خلاف رَدعمل پایا جاتا ہے۔ اس کی فوری اصلاح اور اس قوت کو مثبت اور تعمیری کاموں میں لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صرف جماعت اسلامی کرسکتی ہے۔ اس کے پیش نظر ہر شہر میں ایسے تعمیری منصوبے شروع کرنے ہوں گے، جو نوجوانوں کو تعمیری کاموں میں مصروف کریں۔ ان کی عملی تربیت معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل تلاش کرنے کا ذریعہ ہو اور وہ مثبت فکر اختیا ر کر سکیں۔
اجتماعی زندگی میں ایک درجہ ان خرابیوں کا ہے جن کے لیے موزوں ترین نام ’مزاج کی بے اعتدالی‘ ہے۔ نفسانیت کے مقابلے میں یہ ایک ’معصوم نوعیت‘ کی کمزوری ہے، کیونکہ اس میں کسی بدنیتی، کسی بُرے جذبے ، کسی ناپاک خواہش کا دخل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن خرابی پیدا کرنے کی قابلیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بسااوقات اس کے اثرات و نتائج اتنے ہی خراب ہوتے ہیں، جتنے نفسانیت کے اثرات و نتائج۔
مزاج کی بے اعتدالی کا فطری نتیجہ نظروفکر کی بے اعتدالی اور عمل و سعی کی بے اعتدالی ہے، اور یہ چیز زندگی کے حقائق سے براہِ راست متصادم ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بے شمار متضاد عناصر کی مصالحت اوربہت سے مختلف عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے۔ جس دُنیا میںا نسان رہتا ہے، اس کا بھی یہی حال ہے۔ انسانی افراد میں سے ہرایک فرداً فرداً بھی ایسا ہی بنایا گیا ہے، اور انسانوں کے ملنے سے جو اجتماعی ہیئت بنتی ہے، اس کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اس زندگی میں کام کرنے کے لیے فکرونظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے، جو مزاجِ کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔
حالات کے ہرپہلو پر نگاہ رکھی جائے، معاملات کے ہررُخ کو دیکھا جائے، ضرورت کے ہرگوشے کو اس کا حق دیا جائے، فطرت کے ہرتقاضے کو ملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو، مگر یہاں کامیابی کے لیے بہرحال اعتدال ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہوگا اتنا ہی مفید ہوگا، اور جس قدر وہ اس سے دُور ہوگا، اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہوکر نقصان کا موجب بنے گا۔ دُنیا میں آج تک جتنا بھی فساد رُونما ہوا ہے اور آج رُونما ہے، اسی وجہ سے ہے کہ غیرمتوازن دماغوں نے انسانی مسائل کو یک رُخے پن سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوششیں کیں، ان کو حل کرنے کے لیے غیرمتوازن اسکیمیں بنائیں، اور ان کو نافذ کرنے کے لیے غیرمعتدل طریقے اختیار کیے۔ یہی بگاڑ کا اصل سبب ہے، اور بنائو کا جو کچھ کام بھی ہوسکتا ہے فکرونظر کے توازن اور طریقِ عمل کے اعتدال ہی سے ہوسکتا ہے۔
یہ وصف خاص طور پر تعمیرواصلاح کی اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے، کیونکہ وہ بجائے خود توازن و اعتدال کے انتہائی کمال کا نمونہ ہے۔ اس کو کتابوں کے صفحات سے واقعات کی دُنیا میں منتقل کرنے کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ وہی کارفرما اور کارکن موزوں ہوسکتے ہیں، جن کی نظر اسلام کے نقشۂ تعمیر کی طرح متوازن اور جن کا مزاج اسلام کے مزاجِ اصلاح کی طرح معتدل ہو۔ افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے انتہا پسند لوگ اس کام کو بگاڑ تو سکتے ہیں، بنا نہیں سکتے۔
نتائج کے اعتبار سے بے اعتدالی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بالعموم ناکامی کی موجب ہوتی ہے۔ نظامِ زندگی میں اصلاح و تغیر کی کوئی اسکیم بھی لے کر آپ اُٹھیں، آپ کی کامیابی کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ خود اس کے برحق ہونے پرمطمئن ہوں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عام انسانوں کو اس کے صحیح، مفید اور قابلِ عمل ہونے پر مطمئن کردیں، اور اپنی تحریک کو اس شکل میں لائیں اور ایسے طریقے سے چلائیں، جس سے لوگوں کی اُمیدیں اور غایتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی چلی جائیں۔ یہ بات صرف اسی تحریک کو نصیب ہوسکتی ہے، جو نظروفکر میں بھی متوازن اور طریقِ عمل میں بھی متوازن ہو۔
ایک انتہاپسندانہ اسکیم جو انتہاپسندانہ طریقوں سے چلائی جائے، عام انسانوں میں اپنے لیے رغبت اور اُمید پیدا کرنے کے بجائے معترض اور غیرمطمئن بناتی ہے، اور اس کی یہ صفت خود ہی اس کی قوتِ تبلیغ اور قوتِ نفوذ کو ضائع کریتی ہے۔ اس کو بنانے اور چلانے کے لیے کچھ انتہاپسندلوگ اکٹھے ہوجائیں، تو سارے معاشرے کو اپنے جیسا انتہاپسند بنا لینا اور دُنیا بھر کی آنکھیں حقائق سے بند کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔خود اس جماعت کے لیے یہ چیز زہر کا حکم رکھتی ہے، جو اجتماعی اصلاح و تعمیر کا کوئی پروگرام لے کر اُٹھی ہو اور یہ آسان کام نہیں ہے۔
اس مقام پر بھی بے اعتدالی رُک جائے تو خیریت ہے۔ لیکن اگر اسے خوبی سمجھ کر مزید پرورش کیا جائے، تو پھر معاملہ بدمزاجی اور چڑچڑے پن اور تیززبانی اور دوسروں کی نیتوں پر شک اور حملوں تک پہنچ جاتا ہے، جو کسی اجتماعی زندگی میں نبھنے والی چیز نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کام انفرادی کوششوں سے کرنے کے نہیں ہوتے، بلکہ جن کی نوعیت ہی اجتماعی ہوتی ہے، انھیں انجام دینے کے لیے بہرحال بہت سے لوگوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہرایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی بات سمجھنی ہوتی ہے۔ طبیعتوں کا اختلاف، قابلیتوں کا اختلاف، ذاتی خصوصیات کا اختلاف اپنی جگہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے، جس کے بغیر کوئی تعاون ممکن نہیں ہوتا۔ اس موافقت کے لیے کسرواِنکسار ناگزیر ہے اور یہ کسرواِنکسار صرف معتدل مزاج کے لوگوں ہی میں ہوسکتا ہے، جن کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبیعتیں بھی۔ متوازن اور غیرمتوازن لوگ جمع بھی ہوجائیں تو زیادہ دیر تک جمع رہ نہیں سکتے۔ ان کی جمعیت پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی ، اور جن ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر ایک ایک قسم کے عدم توازن کے مریض جمع ہوں گے،ان میں پھر تفرقہ رُونما ہوگا، یہاں تک کہ آخرکار ایک ایک امام، مقتدیوں کے بغیر ہی کھڑا نظر آئے گا۔
جن لوگوں کو اسلام کے لیے کام کرنا ہو اور جنھیں جمع کرنے والی چیز اسلامی اصول پر نظامِ زندگی کی اصلاح و تعمیر کرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو، انھیں اپنا محاسبہ کرکے اس بے اعتدالی کی ہرشکل سے خود بھی بچنا چاہیے، اور ان کی جماعت کو بھی یہ فکر ہونی چاہیے کہ اس کے دائرے میں یہ مرض نشوونما نہ پائے۔ اس باب میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی وہ ہدایات ان کے پیش نظررہنی چاہییں، جو انتہاپسندی اور شدت سے منع کرتی ہیں۔
قرآن جس چیز کو اہل کتاب کی بنیادی غلطی قرار دیتا ہے وہ غلو فِی الدِّیْن ہے، يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ (المائدہ ۵:۷۷)،اور اس سے بچنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
اِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فَاِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِالْغُلُوِ فِی الدِّیْنِ (مسنداحمد، مسند عبداللہ بن عباسؓ،حدیث:۳۱۴۴)، خبردار! انتہاپسندی میں نہ پڑنا، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں انتہاپسندی اختیار کرکے ہی تباہ ہوئے ہیں۔
ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطاب میں تین بار فرمایا: ھَلَکَ الْمُتَنِطِّعُوْنَ ’’برباد ہوگئے شدت اختیار کرنے والے، مبالغے اور تعمق سے کام لینے والے‘‘۔ دعوتِ محمدیؐ کا امتیازی وصف اس کے لانے والے نے یہ بتایا ہے کہ بُعِثْتُ بِالْحَنِیْفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ ، یعنی آپ پچھلی اُمتوں کے افراط و تفریط کے درمیان وہ حنیفیت لے کر آئے ہیں جس میں وسعت اور معاملاتِ زندگی کے ہرپہلو کی رعایت ہے۔ اس دعوت کے علَم برداروں کو جس طریقے پر کام کرنا چاہیے وہ اس کے داعی اوّلؐ نے یہ سکھایا ہے:
ان جامع ہدایات کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ، اسلامی نظامِ زندگی کے لیے کام کرنے والے لوگ اگر قرآن و سنت سے اپنے مطلب کی چیزیں چھانٹنے کے بجائے اپنے مزاج اور نقطۂ نظر کو ان کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں ، تو ان کے اندر آپ سے آپ وہ توازن اور توسط و اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دُنیا کے حالات و معاملات کو قرآن و سنت کے دیے ہوئے نقشے پر درست کرنے کے لیے درکار ہے۔
اس مرض میں جو شخص مبتلا ہو، وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجایش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے، اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہررعایت چاہتا ہے، مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں، اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرسکتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی رائے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الائونس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الائونس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کیے بغیر وہ ان سے انتہائی مطالبات کرتا ہے، جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی ہے تو آگے چل کر خوردہ گیری اور عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے، [مگر] جوابی عیب چینی پر بلبلا اُٹھتا ہے۔
اسی ’تنگ دلی‘ کی ایک اور شکل ’زُود رنجی‘، ’نک چڑھاپن‘ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے، جو اجتماعی زندگی میں اس شخص کے لیے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو اور ان لوگوں کے لیے بھی مصیبت جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔
کسی جماعت کے اندر اس بیماری کا گھس آنا حقیقت میں ایک خطرے کی علامت ہے۔ اجتماعی جدوجہد بہرحال آپس کی اُلفت اور باہمی تعاون چاہتی ہے، جس کے بغیر چار آدمی مل کر بھی کام نہیں کرسکتے۔ مگر یہ تنگ دلی اس کے امکانات کو کم ہی نہیں، بسااوقات ختم کردیتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ تعلقات کی تلخی اور باہمی منافرت ہے۔ یہ دلوں کو پھاڑ دینے والی، اور ساتھیوں کو آپس میں اُلجھا دینے والی چیز ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوں، وہ عام معاشرتی زندگی کے لیے بھی موزوں نہیں ہوسکتے، کجا یہ کہ کسی مقصد ِ عظیم کی خدمت کے لیے موزوں قرار پاسکیں۔
خصوصیت کے ساتھ یہ صفت ان صفات کے بالکل ہی برعکس ہے، جو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔ جو تنگ دلی کے بجائے فراخ دلی، بخل کے بجائے فیاضی، گرفت کے بجائے عفو و درگزر، اور سخت گیری کے بجائے مراعات چاہتا ہے۔ اس کے لیے حلیم اور متحمل لوگ درکار ہیں۔ اس کا بیڑا وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو بڑا ظرف رکھتے ہیں، جن کی سختی اپنے لیے اور نرمی دوسروں کے لیے ہو، جو خود کم سے کم الائونس چاہیں، اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ الائونس دیں، جو اپنے عیوب اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں، جو تکلیف دینے کے بجائے تکلیف سہنے کے خوگر ہوں، اور چلتوں کو گرانے کے بجائے گرتوں کو تھامنے کا بل بوتا رکھتے ہوں۔
جو جماعت ایسے لوگ پر مشتمل ہوگی، وہ نہ صرف خود آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑی رہے گی، بلکہ اپنے گردوپیش کے معاشرے میں بھی بکھرے ہوئے اجزا کو سمیٹتی اور اپنے ساتھ جوڑتی چلی جائے گی۔ اس کے برعکس تنگ دل اور کم ظرف لوگوں کا مجمع خود بھی بکھرے گا، اور باہر بھی جس سے اس کو سابقہ پیش آئے گا، اسے نفرت دلا کر اپنے سے دُور بھگا دے گا۔ (تحریکِ اسلامی کی کامیابی کی شرائط)
عربی زبان کے لفظ’ دعوۃ‘ کا سادہ مفہوم پکارنا، بلانا اور دعوت دینا ہے۔قرآن مجید میں یہ لفظ بنی نوع انسان کو اُس سچائی یا سیدھے راستے کی طرف بلانے یا دعوت دینے کے لیے استعمال ہوا ہے، جو انسانوں کے مالک اور خالق نے ان کے لیے متعین کیا ہے۔ قرآن میں ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ (النحل ۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو‘‘۔ البتہ اس اہم کام کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کے لیے کچھ دیگر اصطلاحات بھی قرآن میں اکثر مقامات پر استعمال ہوئی ہیں۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ(البقرہ ۲:۱۴۳) تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔
لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ۰ۚۖ (الحج ۲۲:۷۸) تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
وَاَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِيْنٌ۶۸ (الاعراف ۷: ۶۸) اور تمھارا ایسا خیرخواہ ہوں، جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔
وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ (ھود ۱۱:۳۴ ) اب اگر میں تمھاری کچھ خیرخو اہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیرخواہی تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۰ۭ (المائدہ ۵: ۶۷) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو۔
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ط (الانعام ۶: ۱۹) اور یہ قرآن میری طرف بذریعۂ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمھیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کردوں۔
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ (احزاب ۳۳: ۴۵) اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ۲ (النحل ۱۶: ۲) (لو گوں کو) آگاہ کردو، میرے سوا کوئی تمھارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو۔
فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى۹ۭ (الاعلٰی ۸۷: ۹) لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو۔
لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُـجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭ (النساء ۴: ۱۶۵) تاکہ ان رسولوںؑ کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔
لوگوں کو اللہ کے احکام کی اطاعت کی نصیحت یا تبلیغ کرنا اور بدی کی ان تمام طاقتوں کی ساری بُری ترغیبات کا مقابلہ کرنا، جن میں شیطان، ظالم حکمران، ظالم حکومتیں، گروہ، پارٹیاں اور اس کے علاوہ خود اپنا نفسِ امّارہ شامل ہے۔
بنی نوع انسان کے درمیان سچائی کے پیغام کو پھیلانا۔
حق و صداقت کے قبول کرنے سے سامنے آنے والے ان مثبت نتائج کی بشارت دینا جو دُنیا و آخرت دونوں میں حاصل ہوں گے۔
لوگوں کو اس خدائی ہدایت کے رَد کردینے یا اسے محض نظرنداز کردینے کے فوری اور دُور رس منفی نتائج سے آگاہ کرنا۔
لوگوں کو اس بھولی ہوئی حقیقت کی یاد دہانی کراناکہ اس زندگی میں کامیابی اور آخرت کی نجات صرف اللہ کے بتائے ہوئے نظامِ حیات پر عمل کرنے ہی پر منحصر ہے۔
سچائی کے پیغام کو اس حد تک لوگوں کے ذہن نشین کرانا کہ کوئی شخص جو اس پیغام کے بارے میں بے پروائی برتتا ہے وہ بھی اس بہانے کی آڑ نہ لے سکے کہ وہ اس پیغامِ الٰہی سے ناواقف تھا۔
دُنیائے اسلام کے اہل فکر میں اس وقت یہ عام احساس پایا جاتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے شدید ترین دورِ اضطراب سے دوچار ہیں۔ گذشتہ صدی کے دوسرے نصف میں، پرانے مغربی نوآبادیاتی نظام کے شکنجے سے نکل کر ایک طرف مسلم ممالک آزادی سے ہم کنار ہوئے اور ان ملکوں کو ملنے والی آزادی اپنے دامن میں تعمیرِنو (Reconstruction)کے مسائل کا ایک ہجوم لے کر سامنے آن کھڑی ہوئی۔ دوسری طرف مغرب کا ذہنی، فکری، معاشی، فوجی اور ثقافتی غلبہ اپنی انتہا کو پہنچا۔ نوجوانوں کے ذہن شک و تردّد کی آماج گاہ بنے۔سیاسی قیادت کی مداہنت پسندی، مغربیت زدہ تعلیم کی خود سپردگی، نئی نسلوں کو ملّی روایات اور اسلامی تہذیبی ورثے سے کاٹ کر، ہمارے معاشرے کی بیخ کنی کرنے پر پوری قوت سے تُل گئی۔ اس سب کے نتیجے میں رائج الوقت فلسفۂ حیات کے حملوں نے ذہنی اطمینان اور قلبی سکون کو پامال کرکے رکھ دیا ہے اور قوم کے ذہین و فعّال طبقے عقیدہ و عمل، دونوں کے اعتبار سے نیم مسلمان، بلکہ بعض حالات میں نامسلمان بنتے چلے گئے۔
بڑے دُکھ کی بات ہے کہ آج مسلم اُمت کی حالت اس جہاز کی سی ہے، جس کے سامنے ایک عظیم سفر کے امکانات تو موجود ہیں، لیکن جس کے لنگر ٹوٹ چکے ہیں اور اس قافلے کی سی حالت ہے، جس کے پاس یہاں وہاں، جوان ہمتیں تو موجود ہیں، مگر جو منزل کا پتا بھول گیا ہے۔ تاریخ کا یہ عجیب دوراہا ہے، جہاں ایک ارب ۸۰کروڑ مسلمانوں کی عظیم عددی قوت، اپنی ۵۷ آزاد مملکتوں کے ذریعے ایک شان دار عالمی کردار ادا کرسکتی ہے۔ لیکن اپنی اندرونی کمزوری، ذہنی غلامی، فکری انتشار، سیاسی غلامی اور نشۂ جاہلیت کی وجہ سے محض گھبراہٹ اور سراسیمگی کا شکار ہے۔
آج مسلمان اِس عظیم چیلنج کا جواب دینے کے لیے کھڑے ہیں: کیا عصرحاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کر صف بندی کرسکتے ہیں یا نہیں؟ صحیح حکمت عملی اور دانش مندانہ جدوجہد کے ذریعے تاریخ کا رُخ بدل کر ایک نئے دور کے بانی بن سکتے ہیں یا نہیں؟ خبردار ہونا چاہیے کہ اگر فکرودانش کی کمزوری اور تدبیر کی غلطی کے باعث عملی چیلنج کے جواب میں ہمارے قدم اُکھڑ گئے تو خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اور پھر معلوم نہیں کب سنبھل سکیں گے۔
وقت کے اس چیلنج کا مقابلہ جن محاذوں پر کیا جانا ہے، ان میں سے اہم ترین محاذ علم و ادب اورفکروفن اور تحقیق و جستجو اور مکالمہ و استدلال کے میدان ہیں۔ بے شک انسانی زندگی میں افکارونظریات کو حکمران قوت کی حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح انسان کے جسم میں دماغ کی حیثیت حکمران کی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک نظامِ تہذیب میں افکار و نظریات اور عقائد و خیالات سب سے مؤثر اور رہنما قوت کا مقام رکھتے ہیں، پھر تمام معاشی، سیاسی اور عمرانی اُمور اسی کے زیراثر طے ہوتے ہیں۔ وہی زمانے کا مزاج بناتے ہیں، وہی اقدار اور معیارات دیتے ہیں، انھی سے سوچنے کے انداز، غوروفکر کے زاویے اور عمل کے ضابطے مقرر ہوتے ہیں۔
اسی لیے اسلام اپنی اصلاحی دعوت کا آغاز ایمان سے کرتا ہے اور پوری زندگی کی اصلاح کو ایمان کی قدر اور پختگی سے وابستہ کرتا ہے۔ آج جس وجہ سے صورتِ حال بہت زیادہ تشویش ناک ہوگئی ہے، وہ یہ ہے کہ بگاڑ صرف ماحول پر ہی تباہ کن اثر نہیں ڈال رہا ہے، بلکہ ایمان و یقین بھی کمزور ہورہا ہے۔ مغربی جاہلی فکری غلبے کا سب سے بڑا نشانہ ایمان اور عقائد ہیں، اور پھر وسائل و اختیار۔
پچھلی چند صدیوں سے مغربی فکروفلسفہ کے ذریعے مسلمانوں کے افکارونظریات کو ہدف بنایا گیا ہے، ان کے دل و دماغ کو زہرآلود کیا جارہا ہے، اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کوششیں اپنے نتائج سامنے لارہی ہیں۔ یہ حملہ فلسفہ اور سائنس کے ہتھیاروں سے بھی کیا جارہا ہے اور تعلیم و تربیت کے اسلحے سے بھی، پھر نشرواشاعت اور اثرونفوذ کے تمام ذرائع کو پوری طرح استعمال کیا جارہا ہے۔
ذرائع ابلاغ اور تقریر و تحریر کا ہرحربہ اس مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے جواب میں اگرچہ محدود کوششیں تو ہوتی رہی ہیں، لیکن منظم اور ہمہ گیر جدوجہد کا فقدان چلا آرہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مؤثر طبقوں میں دُور دُور تک اس چیز کا احساس بھی نہیں پایا جاتا۔ ضرورت ہے کہ نئی نسل میں اعتماد بحال کرنے کے لیے درج ذیل ناگزیر اقدامات اُٹھائے جائیں:
۱- اسلام کے فلسفۂ زندگی اور اس کے نظامِ حیات کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور اس کی تعلیمات کو ایمانی اور عقلی دلائل کے ساتھ آج کی زبان میں پیش کیا جائے،تاکہ اسلام کی شاہراہِ مستقیم بالکل واضح اور نمایاں ہوکر سامنے آجائے۔ ہماری مشکلات کا ایک بڑا ذریعہ جہالت اور بے خبری ہے۔ اسلام کا علمی سرمایہ جن زبانوں میں ہے ان تک ہماری نئی نسلوں کی رسائی نہیں اور جن اصطلاحات میں ہے، اس سے آج کے لوگ نامانوس ہوگئے ہیں۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات کو آج کی زبان میں مختلف علمی سطحوں پر لوگوں کے سامنے پیش کردیا جائے، تو دین اسلام سے انحراف اور مغرب کی غلامی کا ایک بڑا سبب دُور ہوسکے گا۔
۲- مغربی علوم و فنون اور نظامِ تہذیب و تمدن کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ علمِ جدید کے پورے سرمائے کا کھلی آنکھوں اور ناقدانہ ذہن کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے؟ اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ؟بلاشبہہ خود مغرب کی ذہنی ترقی مسلمانوں کے اثرات کی پیدا کردہ ہے، لیکن ایک غلط نظامِ تہذیب اور خالص مادہ پرستانہ زاویۂ نظر نے علوم و فنون کی ترقی کو بالکل غلط رُخ پر ڈال دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فکروفلسفہ کا عمومی مزاج زہرآلود ہوگیا ہے اور درست سمت میں ترقی نہیں کر رہا ہے۔ آج بہت بڑی ضرو رت یہ ہے کہ غلامانہ ذہنیت کو ترک کرکے مغربی افکار کا مطالعہ کیا جائے۔
۳- تمام علوم کو دین اسلام کی دی ہوئی اقدار پر مرتب اور مدون کیا جائے، اور صحیح سمت میں ان کو ترقی دی جائے۔ اسلام کا نقطۂ نظر بڑا وسیع ہے، وہ تمام علوم و فنون کی ترقی چاہتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہ ترقی صحیح بنیادوں پر ہو اور مسلسل ہو۔
۴- آج کی دُنیا میں، خصوصیت سے معیشت، معاشرت، سیاست، انتظامیات اور قانون کے میدانوں میں جو نئی پیچیدگیاں رُونما ہوئی ہیں، ان کا مطالعہ بیدارذہن کے ساتھ اور بالغ نظری کے ساتھ کیا جائے۔ پھر پو ری وضاحت کے ساتھ بتایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانۂ حال کے مسائل و معاملات پر منطبق کرکے ایک صالح اور ترقی پذیر تمدن کی تعمیر کس طرح ہوسکتی ہے، اور اس میں ایک ایک شعبۂ زندگی کا عملی نقشہ کیا ہوگا؟ اسلامی اصولوں کے تحت آج کا سیاسی نظام کیا ہوگا؟ معیشت کا ڈھانچا کیسے بنے گا؟ سود کیونکر ختم کیا جاسکے گا؟ معاشی استحصال کیسے روکا جاسکے گا؟ اخلاقی ذوق کی آبیاری اور معاشی ترقی میں توازن کس طرح پیدا کیا جائے گا؟ قانونِ تجارت، قانونِ فوجداری، قانونِ شہادت وغیرہ کی شکل کیا بنے گی؟ بین الاقوامی سیاست کے ضابطے کیا ہوں گے؟ معاشرتی زندگی کی گتھیوں کو کس طرح سلجھایا جائے گا؟ فنونِ لطیفہ کس طرح صحت مند انسانی معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں؟ آج مسلم معاشرے میں پیش آنے والے عملی مسائل کو اسلام کی رہنمائی میں کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟ انھی علمی و فکری کاوشوں سے زندگیوں کے رُخ کو تبدیل کیا جاسکے گا اور وہ تہذیبی نظام قائم ہوسکے گا جو اسلام چاہتا ہے۔
یہ کام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نیک بندوں اور اسلامی تحریکوں پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے، جنھوں نے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی ہے، اور ذہنی غلامی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے اپنی اور زندگی بھر کی ساری صلاحیتیں اور تمام قوتیں کھپا دی ہیں۔ لازم ہے کہ اس کام کو منظم طریقے سے اور وسیع پیمانے پر انجام دیا جائے۔ایسے ادارے قائم کیے جائیں، جو اپنی ساری قوتوں کو اس علمی اور فکری جہاد کے لیے صرف کردیں۔ اعلیٰ صلاحیت کے حامل نوجوانوں کی ایک کھیپ اپنی زندگیوں کو اس عظیم کام کے لیے وقف کردے۔ صرف اسلام کی خدمت کو اپنا مشغلۂ حیات (Career) بنالے اور اس کے لیے اپنی زندگیوں کو یکسو کر دے۔
آزاد اور خودکار نظام کے تحت معیاری ،تحقیقی اور تربیتی اداروں کا قیام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے اداروں کو قائم کرتے وقت ماضی کے قائم شدہ اداروں کی کارکردگی، تجربات اور کامیابیوں، ناکامیوں کا بے لاگ جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔ اس جائزے کی روشنی میں یہ ادارے علم و فکر کے میدان میں اسلام کے دفاع اور ترجمانی کی خدمات انجام دینے کی جدوجہد کریں، جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے۔ ان اداروں کا پروگرام یہ ہونا چاہیے:
یہ کام ان علمی و فکری اداروں کے پیش نظر ہونے چاہییں، اور ان میں نگرانی، حوصلہ افزائی اور احتساب کا مؤثر نظام قائم کرنا چاہیے۔ جمود زدہ ماحو ل کو تحفظ دے کر اور باہم بے فیض کارگزاریاں دکھاکر ایک دوسرے کو بے خبر رکھنے کی روش ترک کی جانی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت پرسکون نیند بھی ہے۔نیند قدرت کا وہ عظیم تحفہ ہے، جو خالق کی عظمت و ربوبیت کا گواہ،اور اس کی بے مثال صنعت و کاریگری کا شاہ کار ہے۔ یہ ایک پیدائشی چیز ہے جو غیرشعوری طورپر انسان کی فطرت اور ساخت میں داخل ہے۔ اس کا انسانی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں، بلکہ خالق و مالک نے ایک مضبوط ومستحکم نظام کے مطابق، جان داروں کی راحت رسانی کے لیے اسے بنایا ہے۔انسان کو بس اتنا معلوم ہے کہ جب وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد تھکا ہارا بستر پر پہنچتا ہے تو بے ساختہ نیند اسے آدبوچتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق جب انسان گہری نیند سوجاتا ہے، تب دماغ کا کارخانہ اپنے اندر دن بھر کے کام کاج کے دوران صحت کو نقصان پہنچانے والے جمع شدہ زہریلے فضلے کونکال باہر کرتا ہے اور پورے دماغ کی مرمت کرکے اُسے نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔ جس سے دماغ اور اس کی وساطت سے سارا جسم ازسرنو مضبوط ومتحرک ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نیند کا آنا، نیند سے تھکن کا دُور ہونا اور پھر تھکن دُور ہونے پر تازہ دم ہو کر اَز خود ہی بیدار ہوجانا، یہ سب قوتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں، جو سراسر اس کی حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں۔
مولانا مودودی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
انسان کو دُنیا میں کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس حکمت کے ساتھ اس کی فطرت میں نیند کا ایک ایسا داعیہ رکھ دیا ہے، جو ہرچند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹے سونے پر مجبور کردیتا ہے۔(تفہیم القرآن، ج۶، ص۲۲۶)
مولانا مودودی مزید لکھتے ہیں:
وہ محض خالق ہی نہیں ہے، بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجے رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اُس سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے۔ انسان دُنیا میں مسلسل محنت نہیں کرسکتا، بلکہ ہرچند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لیے آرام درکار ہوتا ہے، تاکہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے۔ اس غرض کے لیے خالقِ حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس، اور صرف آرام کی خواہش پیدا کردینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے ’نیند‘ کا ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا، جو اس کے ارادے کے بغیر، حتیٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود، خود بخود ہرچند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آدبوچتا ہے۔ چند گھنٹے آرام لینے پر اس کو مجبور کردیتا ہے، اور ضرورت پوری ہوجانے کے بعد خود بخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے۔ یہ قطعاً ایک پیدائشی چیز ہے، جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر وضع کی ہے۔ اس میں ایک بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کارفرما نظر آتی ہے۔ مزیدبرآں یہی نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے، وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیرخواہ ہے، ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کرکے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کرکرکے اپنی قوتِ کار کو ہی نہیں، قوتِ حیات تک کو ختم کرڈالتا۔ (تفہیم القرآن، ج۳،ص ۷۴۷-۷۴۸)
مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ لکھتے ہیں:یہاں حق تعالیٰ نے انسان کی راحت کے سب سامانوں میں سے خاص طور پر نیند کا ذکر فرمایا ہے۔ غور کیجیے تو یہ ایک عظیم الشان نعمت ہے۔ اور اس نعمت کو حق تعالیٰ نے پوری مخلوق کے لیے ایسا عام فرما دیا ہے کہ امیر، غریب، عالم، جاہل، بادشاہ اور مزدور سب کو یہ دولت بہ یک وقت عطا ہوتی ہے،بلکہ دنیا کے حالات کا تجزیہ کریں تو غریبوں اور محنت کشوں کو یہ نعمت جیسی حاصل ہوتی ہے، وہ مال داروں اور دنیا کے بڑوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ نیند کی نعمت گدوں، تکیوں یا کوٹھی بنگلوں کی فضا کے تابع نہیں ہے، یہ تو حق تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو براہ راست اس کی طرف سے ملتی ہے۔ بعض اوقات مفلس کو بغیر کسی بستر تکیے کے، کھلی زمین پر یہ نعمت فراوانی سے دے دی جاتی ہے اور بعض اوقات سازوسامان والوں کو نہیں دی جاتی، ان کو خواب آ ور گولیاں کھا کر حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ گولیاں بھی کام نہیں کرتیں۔(ملخص از معارف قرآن)
نیند کی جو حقیقت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے،اس سے زیادہ نہ کسی نے بیان کی ہے اور نہ کوئی بیان کرسکتا ہے۔ نیند کو موت کی بہن قرار دیتے ہوئے حق تعالیٰ شانہٗ نے ارشاد فرمایا:اللہ تمام روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے، اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرلیتا ہے)۔ پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا۔ انھیں اپنے پاس روک لیتا ہے، اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں۔(الزمر۳۹:۴۲)
مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں: قبضِ روح کے معنی اس کا تعلق بدنِ انسانی سے قطع کردینے کے ہیں، کبھی یہ ظاہراً و باطناً بالکل منقطع کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً منقطع کیا جاتا ہے باطناً باقی رہتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ صرف حِس اور حرکت ِارادیہ جو ظاہری علامتِ زندگی ہے وہ منقطع کردی جاتی ہے اور باطناً روح کا جسم کے ساتھ تعلق باقی رہتا ہے، جس سے وہ سانس لیتا ہے اور زندہ رہتا ہے۔جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ روحِ انسانی کو عالمِ مثال کے مطالعہ کی طرف متوجہ کرکے اس عالم سے غافل اور معطل کردیا جاتا ہے، تاکہ انسان مکمل آرام پا سکے۔ اور کبھی یہ باطنی تعلق بھی منقطع کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کی حیات بالکلیہ ختم ہوجاتی ہے۔(تفسیر مظہری)
lنیند کا ذکر قرآن مجید میں:نیند خدا تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے،جسے قرآن مجید میں احسان و امتنان کے طور پر ذکر کیا گیاہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اُس کی نشانیوں میں سے تمھارا رات اور دن کو سونا اور تمھارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو(غور سے) سنتے ہیں‘‘ (الروم۳۰:۲۳)۔اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا:’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمھارے لیے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘۔(القصص۲۸:۷۳)
پرسکون نیند کی بنیادی ضرورت اندھیرا اور شور شرابہ کانہ ہونا ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے رات کو تاریک بنا کر پرسکون نیند کی ان فطری ضرورتوں کو پورا کردیاہے،جیساکہ ارشادربانی ہے:’’اور وہی ہے جس نے تمھارے لیے رات کو پردہ پوش اور نیند کو راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا‘‘(الفرقان۲۵:۴۷)۔ دوسرے مقام پر یوں فرمایا:’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمھارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن کیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘۔(المؤمن۴۰:۶۱)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رات کا ایک حصہ آرام و سکون حاصل کرنے کے لیے ہے،اس میں آرام کرنا ہی شریعت کا تقاضا ہے۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو،اور پھر دن میں بھی روزے رکھتے ہو؟‘‘میں نے کہا: جی ہاں، میں ایسا ہی کرتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا کروگے تو تمھاری آنکھیں بیٹھ جائیں گی اور تمھاری صحت کمزور پڑے گی۔جان لو کہ تم پر تمھارے نفس کا بھی حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔کبھی روزہ بھی رکھو، افطار بھی کرو۔ قیام بھی کرو اور سوؤ بھی‘‘(بخاری، کتاب الادب، حدیث:۵۷۸۹)۔اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بخشش و کرم کی انتہا دیکھیے کہ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی برکت سے ہماری نیند کو بھی عبادت بنا دیا ہے، جیسا کہ آپؐ نے فرمایا:’’جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا۔ اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گو یا پوری رات قیام کیا‘‘ (مسلم، کتاب المساجد، باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃٍ،حدیث: ۱۰۸۴)۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپؐ کی صحیح اتباع کرتے ہوئے عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت ادا کریں۔
ڈاکٹر حمزۃ الحمزاوی کے مطابق:عشاء کے بعد ۹سے ۱۲ بجے کے درمیان سونا سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ایک انسان اپنی نیند کا ۸۰ فی صد حصہ انھی اوقات میں پورا کر سکتا ہے،کیونکہ ان اوقات میں نیند کے لیے خاص برکت رکھی گئی ہے، سو اس وقت کی صرف ایک گھنٹے کی نیند تین گھنٹے کی نیند کے برابر ہے۔ پھر رات ۱۲ سے ۲ بجے کے درمیان سونے سے انسان کی ۲۰ فی صد گہری نیند پوری ہوجاتی ہے۔اس وقت ایک گھنٹے کی نیند ایک گھنٹے کے برابر ہے۔اس کے بعد کا سونا انسان کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں۔۲ بجے سے ۵ بجے تک یعنی فجر سے پہلے کے اوقات کچھ یاد کرنے، مطالعہ کرنے اور دیگر دماغی کاموں کے لیے نہایت مفیدہیں۔۵ بجے سے طلوع آفتاب کے بعد تک سونا بالکل بھی فائدہ مند نہیں۔اس وقت سونے میں کوئی برکت نہیں،بلکہ یہ سارا دن کاہلی وسُستی اور توجہ میں کمی کا باعث ہے۔
نیند وہ ارزاں نعمت ہے، جسے ہم اکثر نظر انداز کردیتے ہیں اور ہمیں اس پر شکر گزاری کی توفیق بھی نہیں ملتی، بلکہ بسا اوقات ہم اپنی بے حسی اور عدم التفات کے سبب اس کی اہمیت و افادیت کو محسوس نہیں کرتے۔در حقیقت وہی لوگ اس نعمت کے حقیقی قدر شناس ہوتے ہیں،جو خدا کی طرف سے کسی تکلیف میں مبتلا ہوں یا مسلسل جاگنے کی بیماری سے دوچار۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے صحت و غذا کے حوالے سے اپنی بے اعتدالی اور وقت کے عدم انضباط کی بناء پر نیند جیسی انمول و گراں قدر نعمت کو مصیبت بنا رکھا ہے۔بڑے شہروں کا حال یہ ہے کہ مسلمان رات رات بھر جاگنے اور آدھا آدھا دن سونے میں گزاردیتے ہیں،جب کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت کی دعا دی ہے (ترمذی)۔اور ایک روایت میں تو صبح کے سونے کو رزق کے لیے مانع قرار دیاہے۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے شب و روز گزارنے کی عادت ڈالیں،بالخصوص رات گئے تک جاگنے اور دوسرے دن نمازظہر تک سوتے پڑے رہنے کی عادت کو ترک کریں،تبھی جاکر ہم دین ودنیا میں عروج و سربلندی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔
مصر کے متجددین بعض دوسرے مسلم ممالک کے متجددین سے مختلف نہیں ہیں بلکہ دوچار قدم آگے ہیں۔ وہاں اس گروہ کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں ہے، لیکن سرکاری حکام کی سرپرستی کی وجہ سے ان کو اپنے خیالات کی اشاعت کے لیے ہر طرح کے وسائل و ذرائع مہیا ہیں۔ ان حضرات کا فتویٰ ہے کہ ’’سود حلال ہے، قومی معیشت اس کے بغیر مضبوط نہیں ہوسکتی۔ رقص اور موسیقی جائز ہے، عورتوں کے لیے ساتر لباس کی بات کرنا اُن کی آزادی میں خلل ڈالنا ہے۔ لباس نے زمانے کے ساتھ ترقی کی ہے اور زمانے کی ترقی کے ساتھ دین بھی ترقی پذیر ہے، اس لیے لباس کی بات کرنا بے جا ہوگی۔ مردوزن کے عام اختلاط میں کوئی حرج نہیں ہے ۔مرد کو عورت کا قوام بنانا، استعمار پرستانہ نظریہ ہے۔ جو عورت معاش پیدا کرلے وہ بھی قوام ہی ہے۔ قومی ضرورت کے پیش نظر روزہ ترک کیا جاسکتا ہے۔ شراب نوشی میں اگر نشہ نہ چڑھے تو جائز ہے۔ ہم جنسی رویہ فطری امر ہے، کج روی نہیں۔ حدیث کا ذخیرہ تاریخ کا دفتر ہے۔ الغرض شریعت کا ہرشعبہ خواہ وہ شخصی قوانین سے تعلق رکھتا ہو یا عبادات و معاملات سے ، اس گروہ کا نشانۂ تحریف و تنسیخ بننے سے محفوظ نہیں۔اس ’مسند ِ افتاء‘ پر متمکن صرف مرد ہی نہیں ہیں بلکہ بیگمات بھی شامل ہیں، جو مصلحت اور تقاضائے حالات کے نام پر دین کے ساتھ کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔
اس سے ملتا جلتا کھیل یہاں پاکستان میں بھی کھیلا جارہا ہے: کبھی براہِ راست حکومت کی سرپرستی میں اور کبھی بالواسطہ طور پر این جی اوز کے پردے میں، اور کبھی ابلاغی اداروں کی سکرین سے اور غیرملکی کمین گاہوں میں بیٹھ کر گمراہ کن عقائد و خیالات کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ایک دور میں یہ کام ’نیچریت‘ کے نام پر ہوا، پھرانکارِ سنت و حدیث کے عنوان سے، اور آج کل ’عقل و دانش‘ کے الفاظ کو چبا کر، لیکن منزل ان سب کی ایک ہے: ’’خودنہ بدلنا، مگر سینٹ پال بن کر، اسلام ہی کو تبدیل کرنا‘‘۔
اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ فوجی آمریت کے تمام تر ظلم اور زیادتی کے باوجود الحمدللہ، مصر کے مسلمان عوام اور علما کی بڑی جماعت، متجددین اور مغرب زدہ منحرفین کی ان حرکات سے نہ صرف بے زار ہے بلکہ ان خرافات کو اُٹھا کر ان کے منہ پر مار رہی ہے۔ چنانچہ جب کبھی وہاں کے گمراہ کن ’مفکرین‘ نے سود، عائلی اُمور، اجتہاد و قانون سازی کے اختیارات اور اسی طرح کے دیگر مسائل کے متعلق احکامِ شریعت کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اُسی وقت علمائے حق کی کثیر تعداد نے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی صورت میں بھی، اسلام کے صحیح احکام کو پیش کرکے حق اور باطل کے درمیان امتیاز قائم کیا ہے۔(ادارہ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرینِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمْسکتُمْ بِـھِمَا : کِتَب اللہِ وَسُنَّتِی (موطا امام مالک ، حدیث: ۳۳۱)،’’میں تمھارے اندر دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے ان کو پکڑ لیا تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے: ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری سنّت‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:
قرآن اور سنت کے یہ صریح احکام بتا رہے ہیں کہ ایمان اور کفر کے درمیان جو چیز امتیاز قائم کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت لے کر آیا ہے اُس کو سچا تسلیم کیا جائے، اُس کے آگے جھکا جائے، اور یہ یقین کرلیا جائے کہ اتباعِ رسولؐ ہی میں انسان کی مصلحت ہے۔ قرآن کریم نے یہ صراحت کردی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان پر بلاجھجک کاربند ہوجانا چاہیے، اور جن کاموں سے منع کیا ہے اُن سے بلاتامل دست بردار ہوجانا چاہیے۔ کسی مومن کے شایانِ شان یہ نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اُس کے لیے جو راستہ تجویز کیا ہو، اُس سے رُوگردانی کرکے اپنی مرضی سے کوئی دوسرا راستہ منتخب کرلے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
بکثرت صحیح احادیث میں یہ حکم وارد ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے احکام سے ہٹ کر جو چیز لائی جائے، اُسے لانے والے کے منہ پر مار دینا چاہیے۔
اللہ اور رسولؐ کے قطعی احکام اور شریعت کی واضح حدود سے جو شخص تجاوز کرتا ہے، وہ گمراہ اور بھٹکا ہوا ہے۔ جوان پر قائم رہتا ہے، وہ ایسی شاہراہ پر گامزن ہے جس میں کوئی خم اور پیچ نہیں ہے، نہ بہکنے اور بھٹکنے کی کوئی گنجایش ہے اور نہ فساد فی الارض کا احتمال ہے۔ لیکن قرآن و سنت کی اس حکیمانہ تعلیم اور محکم نظام کے باوجود مسلمان اُمت کے اندر ایک ایسا گروہ نمودار ہو گیا ہے، جو اسلام اور اسلامی احکامات کی بجاآوری سے بے زاری کا رویہ اختیار کرتا ہے اور شریعت کے احکام کو متروک ٹھیراتا ہے، بلکہ اس گروہ کے بعض افراد تو بڑی بے شرمی کے ساتھ احکامِ شریعت کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ چنانچہ ایک قانون دان سے وراثت کے ایک مقدمے میں جب یہ دریافت کیا گیا کہ ’کیا اس میں شرعی احکام کے مطابق فیصلہ کیا جائے؟‘ تو وہ صاحب کہنے لگے: ’کیا آپ نہیں جانتے کہ مُلّا کہتا ہے: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۰ۚ (مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوتا ہے)‘۔ گویا ان کے نزدیک نعوذ باللہ خود اللہ تعالیٰ بھی مُلّا ہے، کیونکہ یہ حکم تو اُسی نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے۔
اس گروہ کے کچھ افراد وہ ہیں، جو اسلام کی مضبوط اور مستحکم رسّی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے خاص منصو بے کے تحت اور تدریج کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی زبانیں بکثرت ’زمانے کے حالات‘ اور ’مصلحت کے تقاضوں‘ اور ’عقل کی بات‘ کے الفاظ دُہراتی رہتی ہیں۔ یہ بار بار کہتے ہیں کہ ’’اسلام کی خیر اسی میں ہے کہ وہ ترقی کے راستے کا پتھر بننے کے بجائے زمانے کے ساتھ چلے‘‘۔ ان کا ارشاد ہے کہ ’’اسلام کا اس وقت تک بول بالا نہیں ہوگا، جب تک وہ عصرحاضر کے مطالبات کے سامنے نہیں جھکے گا‘‘۔ گویا ان لوگوں کی قاموس میں اسلام کی بالاتری کے معنی یہ ہیں کہ اہل زمانہ ___ نہ کہ اصحابِ علم و بصیرت___ جس چیز کو اختیار کریں اسلام اُن کے آگے سرنگوں ہوجائے۔ بعض اوقات یہ لوگ بڑی پوچ باتیں کرتے ہیں اور اپنی ’دانش وری اور خردمندی‘ کے دعوئوں کے باوجود ایسے بھونڈے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک ذی عقل انسان انھیں سن کر ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا مگر یہ ہنسی نہیں ہے، بلکہ ان کی بددماغی کا ماتم ہے۔
یہ لوگ پہلے منکرات اور قبیح افعال کو رواج دیتے ہیں اور پھر احکامِ الٰہی کو انھی کے تابع کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام غسل کے وقت سر کے بالوں کو دھونے کی شرط کیوں عائد کرتا ہے؟ یہ شرط ان عورتوں کے لیے تکلیف اور نقصان کا ذریعہ ہے، جو ’مراکز آرایش‘ سے بال بنواتی ہیں۔ سوال اُٹھانے کے فوراً بعد یہ خود ہی فتویٰ دیتے ہیں کہ ’’چونکہ یہ شرط ایسی عورتوں کو غسل کے تمام احکام سے بے زار کردے گی، اس لیے بہتر یہ ہے کہ غسل میں سر پر صرف مسح کو کافی سمجھا جائے‘‘۔
جب ہم اُن سے عرض کرتے ہیں کہ غسل میں سر کا دھونا واجب ہے تو جواب میں ارشاد ہوتا کہ ’’یہ بیگمات بالوں کی تراش خراش پر جو رقم خرچ کرتی ہیں، کیا تم اس پر پانی پھیرنا چاہتے ہو؟ اس طرح تو دین میں تنگی پیدا ہوگی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ (اُس نے تم پر دین کے معاملے میں تنگی روا نہیں رکھی)‘‘۔ لیکن ہم ان حضرات سے پوچھتے ہیں کہ آخر عورت کو سر دھونے کے لیے کتنے دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ اور کیا وہ مہینوں اسے بلادھوئے رکھے گی؟ اور پھر مسلمانوں کے شہروں اور بستیوں میں اس نوعیت کی عورتوں کی کتنی تعداد ہے؟ کیا مسلمان قوم کے اندر ایسی عورتوں کا تناسب شاذونادر کے حکم میں نہیں ہے؟ محلات کو چھوڑ کر عام شہری آبادی کے اندر ان کی تعداد ایک فی ۲۰ہزار سے بھی زیادہ نہیں ہے۔ دیہاتی آبادی میں تو یہ تناسب اور بھی گھٹ جاتا ہے۔ کیا ان گنتی کی چند بیگمات کی خاطر ہم اپنے پروردگار کی شریعت کو تبدیل کردیں اور اپنے نبیؐ کی سنت کو ساقط کردیں اور ثابت شدہ حقائق کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیں؟
چند افراد کے انحراف (deviation)سے شریعت کی تبدیلی تو کجا خود ان منحرفین کی خبرگیری لازم آتی ہے، کیونکہ یہ انسانی فطرت سے بغاوت کر رہے ہیں۔ اس بات کو ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ احکامِ دین کا قلادہ گلے سے اُتارنے کے لیے کیا کیا حیلے بہانے تراشے جارہے ہیں اور کس طرح دین کو اپنی خواہشات کا غلام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: لا یومن احدکم حتٰی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ (تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک اُس کی خواہش میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع نہ ہوجائے)۔ اس گروہ کے لوگ نفس کی آگ بجھانے کے لیے اہل یورپ کی نقالی میں پہلے تو خود ہی ایک ’بدعت‘ قائم کرتے ہیں، پھر اُسے واجب الاتباع شریعت کا رنگ دینے کے لیے کتاب و سنت کے ثابت شدہ احکام میں تحریف و ترمیم کے درپے ہوجاتے ہیں، اور وقتی مصلحت کی آڑ لے کر ناقابلِ تردید حق کو اپنے نفس کے احکام کے آگے جھکا دینا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَہْوَاۗءَہُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۰ۭ (المو منون ۲۳:۷۱) ’’اگر حق ان کی خواہشوں کے تابع ہوجاتا تو آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان کے اندر ہے ان میں فساد رُونما ہوچکا ہوتا‘‘۔
شریعت انسانوں پر حاکم بن کر آئی ہے اور یہ اُس نظام کی دعوت دیتی ہے، جو اپنی فطرت میں افضل و اولیٰ نظام ہے، اور قانونِ اخلاق کی طرح حکم عام رکھتا ہے، جسے مخصوص اور محدود نہیں کیا جاسکتا۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ فضل و اکرام پر مشتمل انسانی اخلاق کے کسی قانون کو کسی ایک شخص کی خواہش کی بناپر، یا کسی نئے فعل یا نئے رواج کی پیروی کے لیے تبدیلی کا نشانہ بنایا گیا ہو، اگرچہ وہ فعل یا رواج تقلید پر مبنی نہ ہو بلکہ خود ساختہ ہو؟ لیکن مغرب کی یہ کورانہ تقلید جس میں ہم غرق ہورہے ہیں اور جس کی پشت پر تفکر و تدبر کا کوئی سرمایہ نہیں ہے، یہ بذاتِ خود ایک قومی اور اجتماعی آفت ہے اور اس مرض کا علاج ناگزیر ہے۔ کسی چیز کے ترک و قبول میں اُس کے اچھے یا بُرے پہلو کا جائزہ لیے بغیر اندھادھند کسی قوم کی تقلید کرنا عقلی تعطل کا باعث ہوتا ہے اور عملی زندگی میں جب عقلی تعطل اور فکری مرض اور تھکن رُونما ہوجاتا ہے تو لازماً انسانی نفس میں فساد اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں، جس سے قوم کا اجتماعی توازن بگڑ جاتا ہے اور معاشرتی بیماریوں کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔
اگر اسلام ہرتقلید کے آگے سپرانداز ہوجاتا تو اُس کی دعوت کو کبھی ثبات و استحکام حاصل نہ ہوتا اور اُس کے کلمے کو وہ سربلندی اور وسعت نصیب نہ ہوتی، جو اسے حاصل ہو ئی ہے۔ قرآن کی زبان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مقابلے میں مشرکین جو حجت پیش کرتے تھے، وہ اُسی طرز کی حجت تھی، جو عصرحاضر میں خبط ِ عظمت کے بھوکے ’دانشو ر‘ پیش کرتے ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۱۷۰ وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً۰ۭ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۱۷۱(البقرہ ۲:۱۷۰-۱۷۱) ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے اُس کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے باپ دادا کو پایا ہے، اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو (تو کیا پھر بھی انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے)۔ یہ لو گ جنھوں نے (خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے) انکار کردیا ہے ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔
بالکل یہی روش ان لوگوں کی ہے، جو اہل مغرب کی نقالی پر اُترے ہوئے ہیں۔ یہ کسی چیز کو اختیار کرتے وقت اُس کے حُسن و قبح کو پرکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے بلکہ تقلید کی رُو میں بالکل بے دست و پا ہوکر بہے جارہے ہیں۔ ان میں اور جاہلیت کے علَم برداروں میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا کہ اہل جاہلیت کے ہاں آبائواجداد کی تقلید کی منطق یہ تھی کہ ’’بیٹے اپنے بزرگوں کے وارث ہوتے ہیں، بزرگوں کے افکار و عادات ان میں سرایت کرچکے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جن خیالات پر ان کی تربیت اور نشوونما ہوئی ہوتی ہے، اُن میں تغیر و تبدل کے بارے میں سوچنا مناسب نہیں ہوتا۔
لیکن عہد ِ حاضر میں مغرب کے مقلدین کا معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ ان کی نشوونما کسی قدر اسلامی ماحول میں ہوئی ہے، لیکن یہ اسلام سے بغاوت (خروج) کرچکے ہیں۔ مغرب کی پُرفریب تہذیب کی لذتوں نے ان کو اپنا غلام بنا لیا ہے اور یہ بلادلیل و حجت اور بلاتشخیص و تمیز اُس کی پیروی کر رہے ہیں۔ اب ان کی کوشش یہ ہے کہ جن فاسد نظریات کو انھوں نے اپنے لیے منتخب کرلیا ہے، انھیں اسلام کی پشت پر لاد دیں۔ یہ دراصل وہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بالکل صحیح صادق آتا ہے:
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسولؐ پر او ر ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مو من نہیں ہیں۔ جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسولؐ کی طرف تاکہ رسولؐ ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے البتہ اگر حق ان کی مو افقت میں ہو تو رسولؐ کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آجاتے ہیں۔ کیا ان کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں یا ان کو خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ ان پر ظلم کرے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں۔ ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ (رسولؐ) ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور کامیاب بھی وہی ہیں۔(النور ۲۴: ۴۷-۵۱)
گنتی کے چند لوگوں کی خواہشوں پر احکامِ الٰہی کو ترک کردینے والے حضرات ہمیشہ ’مصلحت ‘کے نام پر گفتگو کرتے ہیں، اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’حقیقی مصلحت‘ وہی ہے، جس کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ نفس کی خواہشوں کو مصلحت پسندی کا لباس پہنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس طرح سے یہ حضرات حقائق پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ بھلا اس سے بڑھ کر انسانی مصلحت پر اور کیا ستم ہوگا کہ خواہشاتِ نفس کو حقیقی مصالح کا نام دے دیا جائے، اور اصل مصلحت کو گمنامی کی نذر کردیا جائے۔ یہ لوگ شتر بے مہار ہیں جن کو کوئی اخلاقی بندھن، کوئی دینی ضابطہ، کوئی شریفانہ رواج اور کوئی بھلی روایت، نظم و ضبط کے دائرے میں نہیں لاسکتی۔ان کی آرزو یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کے ساتھ کھیلیں اور اُسے اپنے محبوب اور مرغوب سانچوں میں ڈھالتے رہیں۔
خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی ایسے لوگ تھے۔ ایک مرتبہ ان کی ایک جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا : ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جہاں سردی سخت پڑتی ہے اور لوگ شراب پی کر جسمانی حرارت حاصل کرتے ہیں۔اس لیے ہم شراب نہیں چھوڑ سکتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا: اُقْتُلُوْھُمْ(ایسے لوگوں کی گردن مار دو)۔ پس جو لوگ اپنی خواہشات کے ہاتھوں گرفتار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی خواہشات حاکم اور شریعت الٰہی محکوم ہو، وہ اُن کج فطرت اور فتنہ جُو لوگوں کی صف میں شامل ہیں، جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا فرمان صادر فرمایا تھا، کیونکہ ان کی قانون شکنی سے دوسرے لوگ بھی ایمانی ضُعف و کمزوری کا شکار ہوں گے اور نتیجتاً فسق و فجور علانیہ ہونے لگے گا اور گناہ و ہوس کی اِتباع کے دروازے چوپٹ کھل جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے یہ نصیحت فرمائی ہے، مگر اُس کا رُخ ہر صادق الایمان مومن کی طرف ہے:
ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۱۸ اِنَّہُمْ لَنْ يُّغْنُوْا عَنْكَ مِنَ اللہِ شَيْـــــًٔا۰ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۚ وَاللہُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ۱۹ (الجاثیہ ۴۵: ۱۸-۱۹) پھر ہم نے تم کو دین کے راستہ پر چلایا ہے، پس، تم اُسی کی پیروی کرو اور نادانوں کی خواہشوں پر نہ چلو، وہ اللہ کے سامنے ہرگز تمھارے کام نہ آئیں گے۔ بے شک ظالم لوگ ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کا رفیق ہے۔
یہ حضرات دعوت تو دیتے ہیں نفس پرستی کی، مگر سمجھتے یہ ہیں کہ وہ ’مصلحت ِ قومی‘ کے علَم بردار ہیں۔ حالانکہ حقیقی مصلحت ان کی رائے کے یکسر خلاف ہے اور عقلِ سلیم ان کی دعوت سے صاف اِبا کرتی ہے۔ نفس پرستی کے ہاتھ میں جب فیصلوں کی زمامِ کار آجاتی ہے، تو وہ عقل پر غالب آجاتی ہے اور عقل اس کی بے دام لونڈی بن کر رہ جاتی ہے۔ اسلام جن مصالح کو قابلِ اعتبار سمجھتا ہے وہ بالکل واضح ہیں۔ فقہائے اسلام نے کہ جن کا نام سنتے ہی یہ حضرات اپنا سر مٹکانے لگتے ہیں، انھوں نے کمال حکمت، تدبّر اور اعلیٰ درجے کے دینی فہم سے ان مصالح کو جامعیت کے ساتھ منضبط کردیا ہے۔
چنانچہ فقہا کہتے ہیں: ’’شرعی مصلحت، انسان کی جان، مال، نسل، عقل اور دین کی حفاظت کا نام ہے‘‘۔ لیکن منحرفین کا گروہ ان تمام شرعی مصلحتوں پر خود ساختہ ’مصلحت‘ کے نام سے حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ لوگ شراب نوشی اور فسق و فجور کو مصلحتوں کے نام لے لے کر ہی رواج دے رہے ہیں۔ کیا یہ عقل انسانی اور نسل بشری پر غارت گری نہیں ہے؟ اسی طرح سے یہ ’رِبا‘ کی ہرمقدار کو، خواہ کم ہو یا زیادہ، حلال و طیب قرار دے رہے ہیں اور اکل الاموال بالباطل کا کوئی ایسا دروازہ نہیں ہے، جس میں یہ داخل نہ ہورہے ہوں۔ کیا یہ انسانی مال کی ظالمانہ لوٹ کھسوٹ نہیں ہے؟
پھر یہ لوگ الحاد و زندقہ اور دین سے بغاوت کی کھلم کھلا تشہیر کر رہے ہیں۔ اسلام کی بنیادی حقیقتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ اسلام کے کسی ایک شعار کو بھی یہ باوقار نہیں دیکھنا چاہتے۔ دین کی علانیہ بے حُرمتی کرتے ہیں۔ حرام چیزوں کا کھلے عام ارتکاب کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک شخص بھری مجلس میں اُٹھتا ہے اور منہ پھٹ ہوکر اسلامی حقائق واقدار کو کھوکھلا اور بے بنیاد ثابت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح کے ہر’مفکر‘ کے لیے اسلام ایک لذیذ کھانا بنا ہوا ہے۔
ان منحرفین کی سوسائٹی میں یہ عام مشہو ر ہے کہ ’’جو شخص بھی ناموری حاصل کرنا چاہتا ہو، وہ ادیانِ سماوی اور بالخصوص اسلام پر نکتہ چینی اور طعن و تشنیع شروع کردے‘‘۔ کیا یہ ملت مسلمہ کی بیخ کنی نہیں ہے؟ دین و ایمان کی چُولیں ڈھیلی ہوجانے کے بعد مسلمانوں کا ٹھکانا کہاں ہے؟ کیا واقعی ’مصلحت‘ یہی ہے کہ مسلمانوں کو ایک بے یقین، بے سیرت اور بداخلاق قوم بنا ڈالا جائے؟
اسلام کا ہرحکم بذاتِ خود ایک مصلحت ہے اور اس حکم کی ممانعت بذاتِ خود ایک شدید نقصان ہے۔ جو شخص اسلام کے قطعی حکم سے ہٹ کر مصلحت تلاش کرتا ہے، وہ جاہلیت اور ضلالت میں مبتلا ہے۔دورِ رسالتؐ کے، عرب عصرِحاضر کے منحرفین سے زیادہ دانش مند اور مصلحت شناس تھے۔ ایک بدوی سے پوچھا گیا: تم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر کیوں ایمان لائے ہو؟ اس نے جواب دیا: مَا رَأَیْتُ مُحَمَّدًا یَقُوْلُ فِی اَمْرٍ: اِفْعَلْ وَالْعَقْلُ یَقُوْلُ لَا تَفْعَلْ وَمَا رَأَیْتُ مُحَـمَّدًا یَقُوْلُ فِی اَمْرٍ: لَا تَفْعَلْ وَالْعَقْلُ یَقُوْلُ: اِفْعَلْ (میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ محمدؐ نے کسی کام کے کرنے کا حکم دیا ہو اور عقل نے کہا ہو: ’نہ کر‘۔ یا،محمدؐ نے کسی کام سے روکا ہو اور عقل نے کہا ہو:’کر‘)۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کو مہمل نہیں چھوڑا ہے بلکہ اُسے صراحت سے بتادیا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور گمراہی کیا ہے؟ مصلحت کیا ہے اور مضرت کیا ہے؟ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى۳۶ۭ (القیامۃ۷۵:۳۶) ’’کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اُس کو یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘
شریعت الٰہی ہی تمام انسانی امراض کی شفاء ہے اور معاشرے کی تمام خرابیوں کا علاج ہے۔ یہ انحراف، جو نوجوانوں کو لپیٹ میں لے رہا ہے، یہ اخلاق باختگی جو محفلوں پر چھائی جارہی ہے اور یہ بدعات جن کے پیچھے عورت روز بروز دوڑی جارہی ہے، ان سب کی دوا شریعت کے سوا کہیں نہیں ملے گی، اور ان سے نجات کی جگہ دین کی شہر پناہ کے سوا کہیں حاصل نہ ہوگی۔ اس وقت بگاڑ معاشرے کی رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے، حتیٰ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ٹیلی ویژن سکرین پر عالمی پروگرام پیش کیا جاتا ہے تو اس میں مناظر فطرت اور صنعتی ترقی اور تہذیبی مظاہر دکھانے کے بجائے عورتوں کی چو ٹیوں کے مختلف مناظر، زنانہ پوشاکوں اور پازیبوں کے رنگا رنگ نمونے دکھانے پر زور ہوتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ’’کل کی نسبت آج ان میں کیا تبدیلی آگئی ہے‘‘۔
کیا یہ بات حیران کُن نہیں ہے کہ اسی ثقافت کے ڈسے یہ لوگ ہمارے پاس آکر کہتے ہیں کہ ’’اسلام کو برتر مقام سے نیچے اُتارو، تاکہ وہ موجودہ حالات سے ہم آہنگ ہوجائے‘‘۔ بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس انحراف کو بیماری کی علامت سمجھ کر اسلام کو ذریعہ علاج بناتے اور حکومت سے اس کے انسداد کی مدد حاصل کرتے، یہ اس کی مزید حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اُلٹا اسلام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے احکام تبدیل کرلے، کیونکہ اسی میں مصلحت ہے‘‘۔
ایک شخص جس کی عملی زندگی فسق و فجور سے آلودہ ہوتی ہے، اُٹھ کر اسلام پر اظہارِ خیال کرنا شروع کردیتا ہے، اور جب اُسے ٹوکا جاتا ہے تو ایسے گمراہ کن ’مفکرین‘ کی ایک فوج جو اس کی ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتی ہے، یہ فتویٰ دینا شروع کر دیتی ہے کہ ’’وسیع چیز کو لوگوں پر محدود اور تنگ نہ کرو کہ دین میں آسانی ہے، دشواری نہیں ہے‘‘۔ یہ الفاظ ان ’مفکرین‘ کو خوب اَزبر ہوتے ہیں، تاکہ اسلام ہی کی چیزوں کو اسلام کے خلاف استعمال کر کے فسّاق و مُترفین کو خوش کرسکیں اور ان کی قربت حاصل کرسکیں۔ مگر درحقیقت یہ لوگ اسلام پر بدبختی مسلط کرتے ہیں، اسلام کے چہرے کو بدنُما بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسلام کی شان و شوکت کو لوگوں کے دلوں سے مٹاتے ہیں۔
اس وقت مسلمان اور مسلم دُنیا جس آزمایش میں مبتلا ہیں، ماضی میں انھوں نے یہ آزمایش کبھی نہیں دیکھی، حتیٰ کہ تاریک ترین اَدوار میں بھی وہ ایسے حالات سے نہیں گزرے: عباسی عہد میں زندیقوں کے ہاتھوں عالم اسلام پر آزمایش نازل ہوئی۔ صلیبی جنگوں کے زمانے میں مسلمان اپنی ہی سرزمین میں مبتلائے فتنہ ہوئے، تاتاریوں کی یورش اسلام نے برداشت کی، اور آخر میں استعماری دو ر، جو صلیبی جنگوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھی، اسلام کے لیے آزمایش کا پیغام لے کر آیا، لیکن اسلام صحیح وسلامت باقی رہا، اللہ کی کتاب حفظ و تواتر کی بدولت باقی رہی، بلکہ حفظ و تواتر میں اضافہ ہوا۔ سنّت زندہ رہی، علما کے حلقہ ہائے درس اس کی روایت و درایت میں مشغول رہے، اور فسادِ اُمت کی مایوس کن فضا میں کتاب و سنّت سے تسلّی کا سامان حاصل کرتے رہے۔
اجتہادی اَدوار کا فقہی سرمایہ جو سلف سے منقول چلا آرہا تھا، بہرحال وہ مقلّدین کی بدولت محفوظ رہا۔ بے شک اس دور کے علما منقولات پر جامد رہے، کوئی تجدید و اضافہ انھوں نے نہیں کیا۔ لیکن اس جمود کا یہ فائدہ تو ہوا کہ انھوں نے ورثۂ اسلام کی نگرانی کی، قرآن پر پہرہ دیا، تحریف سے اُسے بچایا اور اس کی خانہ ساز تاویل کرنے والے کے ہاتھ پکڑ لیے۔ ان محافظین اور جامدین کو آپ جو کچھ چاہیں کہہ لیں، مگر یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ انھوں نے امانت ِ اسلام کی نگرانی کا حق ادا کیا اور آنے والی نسلوں تک نے اسے زیغ و انحراف سے پاک و محفوظ پہنچا دیا۔
لیکن اب حالت یہ ہے کہ ہم میں سے ایک گروہ تو اپنے سابق بزرگوں کی طرح محض جمود پر قائم ہے، اور دوسرے گروہ نے تجدد کی ٹھان لی ہے۔ تجدید کے نام پر تحریف فی الدین کے ان مدعیوں میں سے کوئی قرآن پر ہاتھ صاف کر رہا ہے، اس کی من مانی تفسیریں کر رہا ہے اور اسے وقت کی مصلحت کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبو ر کر رہا ہے۔ کچھ لوگ سنّت پر حملے کر رہے ہیں، اور اس کے اکثروبیش تر ذخیرے کو ناقابلِ اعتبار قرار دے رہے ہیں۔ کچھ حضرات نے اجماعِ اُمت ہی کو سرے سے ساقط کردیا ہے اور بعض ایسے لوگ بھی پیدا ہوگئے ہیں، جن کے نام تو مسلمانوں جیسے ہیں، مگر اُن کا خیال ہے کہ ملّت اسلامی نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے عہد سے لے کر آج تک نماز اور دوسرے ارکانِ اسلام کا صحیح مطلب ہی نہیں سمجھا: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَھَآءُ مِنَّا۔
ان حضرات سے ہماری درخواست ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح۔ تم لوگ دین کے خدوخال کو مسخ کرنے کا کام سرانجام نہ دو۔ خودفریبی کسی عقل مند کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اگر تم لوگ مسند ِ فتویٰ کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو کم از کم اپنے خودساختہ نظریات کو اللہ اور رسولؐ سے منسوب نہ کرو، دین کو خواہشات کا کھلونا نہ بنائو، اور کسی دُنیا پرست کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی آخرت کو باطل کے عوض نہ بیچو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیش نظر رکھو:
ثَلَاثٌ مُنْجِیَاتٌ وَثَلٰثٌ مُھْلِکَاتٌ ، فَاَمَّا الْمُنْجِیَاتُ فَتَقْوَیٰ اللہِ فِی السِرِّ وَالْعَلَنِ وَقَوْلُ الْحَقِّ فِی الرِّضَا وَالسَّخَطِ ، وَالصِّدْقُ فِی الْغِنٰی وَالْفَقْرِ وَاَمَّا الْمُھْلِکَاتُ فَھَوًی مُتَّبَعٌ ، وَشُـحٌّ مُطَاعٌ وَاِعْـجَابُ الْمَرءٍ بِنَفْسِہٖ وَھِیَ اَشَدَّھُنَّ، تین خصلتیں انسان کو نجات دینے والی ہیں اور تین ہلاک کرنے والی۔ تین نجات دینے والی یہ ہیں: پوشیدہ و علانیہ اللہ سے ڈرنا، رضامندی و ناراضی دونوں حالتوں میں حق بات کہنا، توانگری و ناداری دونوں صورتوں میں سچائی پر کاربند رہنا۔ اور تین ہلاک کرنے والی خصلتیں یہ ہیں: خواہشات کی پیروی کرنا، بخل کا طریقہ اختیار کرنا اور خودپسندی میں مبتلا ہونا اور یہ سب سے مہلک ہے۔ (بروایت بیہقی)
قرآن مجید کائنات کے خالق اور مالک کا انسانوں کے نام آخری پیغام ہے۔ وہ لوگ جو اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ان کے لیے بھی، اسے پڑھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اسے کلامِ الٰہی مانتا ہے، اور اس دعوے کو جانچنے کے لیے سب سے پہلا اور سب سے ضروری کام یہی ہے کہ اسے پڑھ کے دیکھا جائے۔لیکن خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جویہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے اور انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے آخری بار دنیا میں بھیجا گیاہے، اس کتاب سے زیادہ اہم اور قیمتی نہ کوئی چیز ہوسکتی ہے اور نہ کوئی کام۔
اس کے برعکس واقعہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی ذاتی اور سماجی زندگی کے بیش تر معاملات اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ عمومی طور پر مسلمان اور قرآن کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ اس دوری کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اور قرآن کے درمیان کچھ رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو جانی مانی ہیں، مثلاً ترجیحات کا غلط انتخاب، کم ہمتی، سُستی، مفاد پرستی وغیرہ۔ لیکن چند ایسی بھی دیواریں ہیں جو نیک نیتی کے ساتھ اٹھائی گئی ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کے بارے میں جاننا زیادہ ضروری ہے۔
ناظرہ سے مراد ’دیکھنا‘ہے۔ اصطلاحاً قرآن کے معنے سمجھے بغیرمحض عربی عبارت پڑھنے کو ’ناظرہ‘ کہتے ہیں۔ جب تک قرآن ان لوگوں کے زیرِ مطالعہ رہا، جنھیں اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے کسی ترجمے کی ضرورت نہیں تھی، دنیا ایک اصطلاح کے طور پر اس لفظ ’ناظرہ‘ سے ناواقف تھی۔ اگرچہ اصلاً ناظرہ، قرآن کے الفاظ اور آیات کے ساتھ روشناس ہونے کا ایک ذریعہ اور اس سلسلے کا پہلا مرحلہ تھا، لیکن بدقسمتی سے غالباً یہی وہ پہلی دیوار ثابت ہوئی، جو بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں اور اس عظیم پیغام کے درمیان حائل ہوگئی۔ عربی زبان اور خاص طور پر قرآن کی عربی پڑھ لینے پہ قدرت رکھنا اور اس میں مہارت حاصل کرلینایقیناً نہایت قابلِ ستائش ہے۔ لیکن اسی پر رُک جانا اور اس مشق کواس عظیم سفر کی پہلی ہی نہیں آخری منزل بھی مان لینا، قرآن کے ساتھ ہمارا وہ تعلق کبھی پیدا نہیں ہونے دیتا، جو اس پیغام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
قرآنِ ناظرہ کا مرحلہ دراصل ایک اجنبی زبان سے مانوسیت پیدا کرنے اور بعدازاں قرآن کی تلاوت میں روانی لانے کے لیے متعارف کروایا گیا تھا۔ مگر غلط یہ ہوا کہ اسے قرآن پڑھنے کا متبادل سمجھ لیا گیا۔لوگوں نے اتنا تو ضروری جانا کہ ان کے بچے قرآن کی تعلیم کا پہلا سبق حاصل کریں اور اس طرح اس کی تلاوت کرنے کے قابل ہوسکیں،لیکن یہ بھول گئے کہ اس سے زیادہ ضروری اس کا پڑھنا، یعنی سمجھنا ہے تاکہ اس کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارسکیں۔ اسی پہلے سبق پہ اڑے رہنے، اس سے آگے نہ بڑھنے اور یہیں سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردینے کا نتیجہ باقی کی ساری زندگی تلاوت کی ایک ایسی مشق کی صورت میں نکلتا ہے، جس میں قاری کے پلے کچھ نہیں پڑتا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، کجا یہ کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلوں میں اس مطالعے سے مدد حاصل کرے۔
قرآنِ ناظرہ کے ساتھ جڑا ہوا ثواب کا تصوروہ دوسری چیز ہے، جسے ہم نے اپنے اور قرآن کے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل کر رکھا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ نہ تو ناظرہ قرآن کے پڑھنے میں کوئی حرج ہے اور نہ اس کلام کے الفاظ کی تلاوت سے ملنے والے ثواب سے کوئی انکار کرسکتا ہے۔ لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہی نیکی، اور نیکی کے یہ تصورات ہمارے لیے قرآن فہمی سے دُوری کا سبب بن رہے ہیں۔ درحقیقت ثواب کمانے کا یہ راستہ ہم میں سے بہت سوں کو تلاوت سے آگے نہیں بڑھنے دیتا اور ہم جب بھی قرآن پڑھنے بیٹھتے ہیں، یہ تصور ہمیں ترجمہ پڑھنے میں وقت صرف کرنے سے روکتا ہے کہ ہم ترجمے پر وقت لگانے کے بجائے وقت صرف عربی آیات کے پڑھنے میں لگائیں اور یوں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرسکیں۔
قرآن کے پیغام اور اوامرونواہی سے متعلق چونکہ ہمیں والدین، اساتذہ، واعظین، علما اور خطیب ایمان کی بنیادی شرائط کی حیثیت سے بتا چکے ہیں، اور بار بار بتاتے ہیں۔ توحید، رسالت، آخرت پر کامل یقین، ، نماز، روزے کی پابندی، حج، زکوٰۃ کی ادائیگی اور سچائی، امانت داری اور ایفائے عہد پر عمل اور جھوٹ، چوری، زنا، سود وغیرہ سے بچنا، غرض سب اچھی بُری باتیں تو ہمیں معلوم ہیں۔ انبیاؑ کی حیاتِ مقدسہ کے واقعات بھی سن رکھے ہیں (بلکہ جتنا کچھ قرآن میں بیان ہوئے ہیں، اس سے بھی کہیں زیادہ ہی سن رکھے ہیں)۔پھر قرآن میں ایسی اور کیا بات ہوگی جس کے لیے ہم عربی پڑھنے کے ثواب کو چھوڑ کر ترجمہ پڑھنے بیٹھ جائیں۔
ایسے بہت سے نیک نیت اور مخلص لوگ، جو کسی نہ کسی صورت میں دین کی تبلیغ سے وابستہ ہیں، وہ بھی قرآن مجید کو عملاً صرف ثواب کمانے ہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور دعوت کے کام میں، جسے وہ خود ’دین کی محنت‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور انبیاؑ کے مشن کا تسلسل گردانتے ہیں، براہِ راست اس الوہی پیغام کو بیان کرنے کے بجائے مختلف عبادات اور اعمال کے فضائل کی روایات کے سننے سنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ملنے والی انسانیت کے لیے سب سے بڑی دولت ہے۔ اور اگر کوئی ایک پیغام ہمیں اپنی تمام جدوجہد، قربانی اور تگ ودو کے نتیجے میں لوگوں تک پہنچانے کا موقع ملے تو وہ یہی ہوسکتا ہے کہ اللہ کے اس کلام کو جو قلبِ رسولؐ پر ہمارے لیے اترا ہے، پڑھیں، پڑھنا شروع کردیں، زندگی بھر پڑھتے رہیں۔کیونکہ اسے پڑھیں گے، اور سمجھیں گے تبھی اس کی ہدایات پر عمل کرسکیں گے اور پھر دوسروں کو اس سے جوڑنے کی کوشش کرپائیں گے۔
کوئی شخص جو یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ واقعی اللہ کا کلام ہے، کیسے خود اپنی آنکھوں سے قرآن پڑھے بغیر، پڑھنے کی کوشش کیے بغیر، ایک دن بھی گزار سکتا ہے۔ کجا یہ کہ ساری زندگی اس کتاب کی عبارت کو دیکھتے، اور سمجھے بغیر دُہراتے رہنے میں گزار دی جائے اور کبھی یہ خیال تک نہ آئے کہ آخر خود بھی تو جاننا چاہیے کہ میرے مالک نے مجھ سے کیا بات کی ہے؟ فرض کیجیے آپ کو کسی بڑے ادارے کے مالک یا کسی سربراہِ مملکت کی جانب سے ایک مراسلہ موصول ہوتا ہے ۔ خط لانے والا ضروری ہدایات اور پیغام کا خلاصہ زبانی سمجھادیتا ہے۔ آپ کو بتا دیتا ہے کہ آپ کو خط بھیجنے والی شخصیت سے ملنا ہے اور ملاقات میں چند ضروری سوالات ہوں گے جس کا نتیجہ آپ کے لیے کسی بڑی سزا یا کسی بہت بڑے انعام کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے کی کوشش سے پہلے آپ کوئی بھی اور کام کریں گے؟ اور اگر یہ خط کسی ایسی زبان میں ہے جو آپ نہیں سمجھتے تو یقین ہے کہ جب تک کسی زبان دان سے آپ اس کے ایک ایک لفظ کا ترجمہ نہیں سمجھ لیں گے، آپ کو چین نہیں آئے گا، ہوسکتا ہے رات کو سو بھی نہ سکیں۔تو پھر اس سب سے بڑی ہستی کی طرف سے ملنے والے سب سے بڑے پیغام کے لیے ہی ایسی بے پروائی اور بے خوفی کیوں؟
قرآن دنیا اور مافیہا میں سب سے زیادہ مقدس کتاب ہے، اس امر میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کی تعظیم کے لیے اختیار کیے گئے انداز بھی ہمارے اور اس کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں قرآن مجید عام طورپرجز دان میں لپیٹ کر ایسی اونچی جگہوں پر رکھا جاتا ہے، جو تقریباً ناقابلِ دسترس ہوتی ہیں۔اگر کبھی قرآن پڑھنے کاخیال آ بھی جائے تو اس کی یہ دُوری اور سُستی کے جذبے پر غالب آنے میں مدد دیتی ہے: پہلے وضو کیجیے، پھر کسی کرسی یا صوفے پر کھڑے ہوکر قرآن پاک اٹھائیں، جزدان سے نکالیں، جزدان کی دھول مٹی جھاڑ کر اسے ادب سے تہہ کر کے رکھیں اور پھر سلیقے سے ترجیحاً قبلہ رو ہو کر بیٹھیں اور پڑھیں۔ اس کے مقابلے میں اپنی کسی نصابی کتا ب کو لے لیں، یا ایسی کوئی کتاب جس سے آپ اپنے کام، بزنس یا کسی ایسے معاملے میں رہنمائی حاصل کررہے ہوں جو آپ کو درپیش ہے۔ یہ کتاب ہر وقت آپ کی رسائی میں ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ آپ کی سائیڈ ٹیبل پر دھری رہتی ہو تاکہ جب آپ سب کاموں سے فارغ ہو کر آرام کرنے لگیں، تو سکون کے ساتھ اسے پڑھ سکیں۔ہم قرآن کی بے ادبی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن ضروری ہے کہ تقدیس اور تعظیم کے اظہار کے لیے ایسے انداز اختیار کیے جائیں، جو قرآن پاک تک ہماری رسائی کو آسان رہنے دیں اور اس سلسلے میں ارادہ شکن نہ ثابت ہوں۔
ایک خیال آیت (سورۂ واقعہ آیت ۷۹) کی تشریح سے اخذ کیا گیا ہے، جو ہمارے اور اس کتاب کے درمیان فاصلہ پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ سیاق و سباق کا لحاظ رکھا جائے تو آیت ۷۵ سے ۷۹ تک اللہ تعالیٰ ستاروں کے غروب ہونے کے ٹھکانوں یا مواقع کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ یہ ایک نہایت عزّت والا قرآن ہے، جو (اس کے ہاں) ایک محفوظ کتاب میں درج ہے اور اسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ یعنی شیاطین کی جانب سے اس میں ملاوٹ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس سے ذرا آگے آیت ۸۱ پڑھیں تو اس کا مضمون جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ’’کیا اس پیغام کو تم معمولی سمجھتے ہو، اس سے بے پروائی برتتے ہو؟‘‘ یعنی ایک ایسا کلام جو اللہ کے نزدیک انتہائی عزت والا ہے، جسے اس کے محافظ فرشتے کسی بھی قسم کی آمیزش سے بچا ئے ہوئے لے کر آتے ہیں، جو ناپاک شیاطین کی دراندازی سے محفوظ ہے، مگر تم اس سے مداہنت کا رویہ روا رکھتے ہو۔اس لیے قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کو آسان بنانے کے لیے، قرآن مجید کو تلاوت کے ساتھ ساتھ مطالعے کی کتاب بھی بنایا جائے۔
اس مقصد کے لیے سب سے بہترین انداز تو یہ ہے کہ عربی کو ایک زبان کے طور پر سیکھا جائے، قرآن کی تاریخ اور آیا ت کے شانِ نزول سے واقفیت حاصل کی جائے، اورپھر قرآن کو ایسے پڑھا جائے کہ فوری طور پر اس کے سمجھنے کے لیے کسی ترجمے کی ضرورت نہ رہے۔ یہ طویل سفر ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ لوگوں نے قرآن فہمی کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہے۔ علمائے کرام نے انتہائی محنت اور دقّتِ نظر سے کام لیتے ہوئے سادہ ترین لفظی ترجمے ، سلیس معانی اور بامحاورہ ترجمانی سے لے کر بہت تفصیلی تشریحات اور تفاسیرلکھی ہیں۔ وہ بڑا قیمتی اثاثہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ خود، اللہ سے دعا کیجیے کہ میں تیرے کلام کو سمجھنے کی اپنی سی کوشش کا آغاز کرنے لگا ہوں، مجھے سمجھا دے، ہدایت عطا فرما اور گمراہی سے بچا لے۔ پھر پڑھنا شروع کریں۔ ابتدا کے لیے کسی بہت سادا اور مختصر ترجمے کا انتخاب کریں۔ کہیں کوئی سوال اٹھے، کوئی اُلجھن پیدا ہو تو بددل نہ ہوں، پڑھتے جائیں، قرآن آگے کہیں خود اس کو حل کرے گا۔ اگر پہلی بار کے پڑھنے میں نہیں تو دوسری بار میں، اگر کسی ایک ترجمے میں نہیں تو کسی دوسرے ترجمے میںمعاملہ صاف ہوجائے گا۔ قرآن ایک دفعہ کا مطالعے کی کتاب نہیں ہے، یہ زندگی بھر کی پڑھائی (life time study)کا نصاب ہے۔ قرآنی عربی سیکھنے کے لیے آن لائن آسان کورس بھی موجود ہیں، ان سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔
اس طرح آپ اپنی زندگی میں قرآن کے مطالعے کو روزانہ دس منٹ دیںیا ایک گھنٹہ، یا پھر ہفتہ وار کچھ وقت مخصوص کریں، لیکن یہ خیال رکھیںکہ تسلسل اور باقاعدگی برقرار رہے۔ بغیر اندیشہ کیے، نیک نیتی اور خوش گمانی کے ساتھ پڑھتے جائیں۔ مختلف تفسیریں اور تشریحات پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ قرآن اپنے معانی ہم پر کھول رہا ہے، اور اس قابل ہوتے جارہے ہیں کہ سمجھ سکیں کہ یہ عظیم ہدایت نامہ ہماری نجی اور سماجی زندگی کے حوالے سے ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟
’تحریک ِ راست اقدام‘ کاعظیم المیہ یہ تھا کہ مولاناابوالاعلیٰ مودودی کو مارشل لا کے تحت خودساختہ جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔ ۲۷فروری ۱۹۵۳ء کو مجلس عمل کے مقتدر راہنما کراچی میں گرفتار کیے گئے۔ انھیں سندھ کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ۔ ادھر حکومت نے عوام کے جوشِ ایمان سے بے بس ہوکر لاہور میں ۶مارچ ۱۹۵۳ء کو مارشل لا نافذ کردیا۔ اس کے بائیس روز بعد ۲۸مارچ کو حکومت کے لادین عناصر نے پُخت و پز کرکے مولانا مودودی کو فوج کی معرفت مارشل لا کے تحت گرفتار کرلیا اورلاہور کے شاہی قلعہ میں رکھا۔ وہاں مولانا سے تحریک ِ ختم نبوت کی داستان پوچھی۔مولانا فرماتے ہیں کہ ’’پوچھ گچھ دو روز رہی، مجموعی طور پر تین گھنٹے صرف ہوئے۔ اس کے بعد ۳۵ روز تک قلعہ میں رہا۔ جب ایک مقدمہ تصنیف کرلیا گیا تو مجھے سنٹرل جیل لاہور بھیج دیا‘‘۔
ملک غلام محمد گورنر جنرل پاکستان ۳مئی کو لاہور آئے۔ ان کے ساتھ اسکندر مرزا بھی تھا۔ یہاں انھوں نے اس وقت کے بعض اعلیٰ فوجی افسروں سے بات چیت کی۔ پھر ۵ مئی کو واپس چلے گئے اور ۹مئی کو اس امر کا آرڈی ننس جاری کیا کہ ’’مارشل لا کی عدالتیں، مارشل لا کے نفاذ سے قبل سرزد ہونے والے جرائم کی بھی سماعت کرسکتی ہیں، اور ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ملک کی کسی عدالت میں کوئی اپیل نہیں ہوسکتی‘‘۔ مولاناکا مقدمہ چار پانچ دن ہی میں ۹مئی کو ختم ہوگیا اور ۱۱مئی کی رات کو اندھے ضابطے کے تحت انھیں سزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔ اس فیصلے سے تمام دُنیا میں رنج و اندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان میں ہرچہرہ مغموم ہوگیا۔ اُدھر حکومت کو دو تین دن ہی میں پتہ چل گیا کہ اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ اور موت ان اربابِ حکومت کے لیے بھی ہے، جن کی ذہنی عیاری اس سزا کا باعث ہوئی ہے۔چنانچہ ۱۴مئی کو موت کی سزاعمرقید میں بدل دی گئی۔
مولانا مودودی کے خلاف مارشل لاکے ضابطہ نمبر۸ اور تعزیرات کی دفعہ ۱۵۳ الف کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ جرم یہ تھا کہ انھوں نے قادیانی مسئلہ نامی پمفلٹ لکھا، جو مارشل لا سے ایک دو روز پہلے چھپ چکا تھا اور مارشل لا کے پورے زمانے میں شائع ہوتا رہا اور کبھی ایک دن کے لیے بھی اس پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی۔اس پمفلٹ کا مضمون یہ تھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس بارے میں کوئی سی غلط فہمی نہ رہے اور لوگ کسی طرز کے مصنوعی پراپیگنڈے کاشکار نہ ہوں۔
اس پمفلٹ میں ایسی کوئی بات نہ تھی، جو حکومت کی پیشانی کے لیے کسی شکن کا باعث ہوتی، لیکن حکومت ایک ارادہ کرچکی تھی۔ اس کی تکمیل کے لیے اس نے پمفلٹ کی آڑ لی اور مولانا کو سزائے موت سنادی۔ اس کےعلاوہ جماعت اسلامی کے روزنامہ تسنیم کو ماخوذ کیا اور اس کے ایڈیٹر کواس جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزادی۔ تماشا یہ تھا کہ مولانا مودودی کے جن دوبیانوں کو حکومت نے ’’بغاوت پھیلانے کے مترادف‘‘ قرار دیا،وہ تسنیم کے علاوہ لاہور وکراچی کے دوسرے اخبارات میں بھی شائع ہوئے تھے۔ پھر جس پمفلٹ کی اشاعت پر مولانا مودودی کو سزائے موت کا مستوجب گردانا گیا، اس کے خلاف نہ مارشل لا کی پوری مدت میں فوجی حکام نے کوئی پابندی لگائی اور نہ مرکزی یا کسی صوبائی حکومت نے قابلِ قدغن سمجھا۔ آج تک وہ پمفلٹ مسلسل فروخت ہورہا ہے اور مئی ۱۹۵۳ءتک اُردو، انگریزی، سندھی، گجراتی اور بنگلہ میں۹۰ہزار سے زائد شائع ہوکر لاکھوں افراد کی نظر سے گزرچکا تھا۔
مولانا کا ’جرم‘ دراصل یہ تھا کہ ۱۹۵۳ء تک وہ اسلامی دستور کی تحریک کو عامۃ المسلمین کے رگ و ریشے میں اُتارچکے تھے اور یہ لادین مقتدرین کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ انھوں نے قادیانی مسئلہ کے جرم میں مولانا کو سزائے موت سنا کر اس خطرے کا تدارک کرنا چاہا، لیکن سزائے موت دینے کا حوصلہ نہ کرسکے کہ انھیں اپنی موت بھی نظر آرہی تھی، البتہ اس مارشل لا کے بعد ملک سے جمہوری روح ختم ہوگئی۔ مارشل لا نے اس طرح بال و پَر پیدا کیے کہ ملک کا مقدر ہی مارشل لا ہوگیا۔ اگر اس وقت کے سیاسی حکمران مارشل لا کی مشق نہ کرتے تو ملک اس حال کو نہ پہنچتا اور نہ جمہوری سیاست ہی اس طرح پامال ہوتی۔
اس مارشل لا نے دو بڑی خرابیاں پیدا کیں۔ ایک خرابی یہ کہ فوج کے جرنیلوں کو حصولِ اقتدار کا چسکا لگادیا۔ دوسری خرابی یہ کہ سیاست دان پِٹ گئے۔ ملک غلام محمد اور اسکندرمرزا تو جلد ہی انٹاغفیل ہوگئے لیکن جنرل ایوب خاں اور جنرل یحییٰ خاں نے ملک کو جو تحفے دیئے وہ اس کے جمہوری وجود اور قومی سالمیت کے لیے سرطان ہوگئے، ملک دو لخت ہوگیا، جمہوریت میں دم ہی نہ رہا۔ مولانا مودودی ملک میں اسلامی دستور کی تحریک کے بانی تھے اور اس سلسلے میں خان لیاقت علی خاں کے زمانے ہی میں ایک ذہنی فضا پیدا کرچکے تھے۔ اس فضا ہی کا نتیجہ آئین کے سرِآغاز میں ’قراردادِ مقاصد‘ کا چہرہ نما تھا۔ ان کی مساعی مشکور کی بدولت ۱۹جنوری ۱۹۵۳ء تک یعنی راست اقدام کی تحریک سے ڈیڑھ ماہ پہلے ملک کے ۳۳ سربرآوردہ علما نے کراچی میں جمع ہوکر دستوری سفارشات میں کئی ایک ترامیم منظور کرائی تھیں، انھی میں ایک ترمیم یہ تھی کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دیا جائے۔
مولانا مودودی کا خیال تھا کہ ’’آئین کی بنیادیں طے ہوجائیں تو آئینی سفارشات کی روشنی میں یہ مسئلہ خودبخود طے ہوجائے گا اور اگر اس سلسلے سے راست اقدام کی تحریک چھڑگئی تو نہ صرف صورتِ حال ہی مختلف ہوجائے گی بلکہ ان سفارشات کے تمام و کمال تاراج ہونے کا احتمال ہے۔ اس صورت میں حکومت مسئلہ بھی حل نہ کرے گی بلکہ آئین کو اسلامی بنانے کی تحریک ہی سے فرار کرجائے گی، جو اس وقت تمام حلقہ ہائے خیال کے برگزیدہ علما کی متحدہ کوششوں سے اٹل ہوچکی ہے‘‘۔ لیکن مجلس عمل کے دوسرے زعماء فوری طور پر راست اقدام کے حق میں تھے۔
حکومت کے مرکزی بزرجمہروں نے ۲۷فروری کی شب کو انھیں پکڑ لیا۔ ان کی گرفتاری سے مسلمانوں میں احتجاج کا ایک طوفان اُٹھا۔ اس کے بعد لادین مقتدرین نے جس جس انداز میں گُل کھلائے وہ ڈھکے چھپے نہ رہے۔ پنجاب کو خون میں نہلایا گیا اور ان تمام فدایانِ رسالتؐ کی ذہنی یا جسمانی اہانت، بے دین وزرا و حکام کا لازمہ بن گئی، جو ختم نبوتؐ کے مسئلے میں متفقہ آواز رکھتے تھے۔ مولانا مودودی کا تنہا قصور یہ تھا کہ وہ اس مسئلے میں اپنے قلم سے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کی رہنمائی کر رہے تھے اور قادیانی مسئلہ پمفلٹ لکھ کر انھوں نے مسئلہ کی حقیقی روح کو پیش کیا تھا۔ ان کا اصل جرم، دستور کو اسلامی بنانے کی تحریک کا نشوواستحکام تھا۔
مولانا مودودی ۲۸مارچ کی شب کو گرفتار کیے گئے جس کی جزوی رُوداد اُوپر آچکی ہے۔مولانا نے موت کی سزا سن کر جو بے نظیر استقامت دکھائی، حکومت اس سے لرز گئی۔ آپ نے پہلے ہی دن پھانسی کی کوٹھڑی میں اپنے لواحقین سے کہا کہ ’’میرے لیے کسی عنوان سے کوئی اپیل نہ کرنا اور نہ حکومت سے کوئی استدعا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب مجھے پھانسی دے دی جائے تو مجھے انھی کپڑوں میں دفنا دینا اور اپنی زندگی اسی مقصود کے تحت بسر کرنا جس کے لیے ہم سب کوشاں ہیں اور جو اسلام کواقتدار میں لانے کا قرآنی نصب العین ہے‘‘۔ بزدلانِ حکومت کو اندازہ ہی نہ تھا کہ جو لوگ اسلام کے لیے جیتے اور اسلام کے لیے مرتے ہیں، ان کی سیرت اس طرز کے سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے اور انھیں کوئی سی دُنیاوی آلائش یا ابتلا زیر نہیں کرسکتے۔
یہ ذکر آچکا ہے کہ حکومت نے تین چار روز ہی میں موت کی سزا منسوخ کردی۔ پھر اس کے بعد پنجاب ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی بناپر مولانا ۱۹۵۵ء میں رہا ہوگئے۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ جسٹس محمد منیر نے مولوی تمیزالدین خاں کے مقدمے میں گورنر جنرل کو شاہی اختیارات کا حامل قرار دے کر فیصلہ کیا کہ ’’مرکزی اسمبلی کے پاس کیے ہوئے وہ تمام قوانین غیرآئینی ہیں جو اس نے دستورساز مجلس کی حیثیت سے وضع کیے اور جن پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں ہوئے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ بہت سے قوانین کے ساتھ وہ ’اینڈمنٹی ایکٹ‘ بھی غیرآئینی قرار دیا گیا جس کے تحت مارشل لا کی سزائیں بحال رکھی گئی تھیں۔ اس بناپر پنجاب ہائی کورٹ نے مولانا کی سزا ختم کردی۔
ادھر مولانا مودودی صاحب کی سزا کے اعلان سے ختم نبوتؐ کا مسئلہ نہ صرف عرب ریاستوں میں ایک عالم گیر اسلامی ذہن کی شکل اختیار کرگیا بلکہ یورپ کے کئی ایک ملکوں کی علمی اور سیاسی فضا تک پہنچ گیا۔ یعنی ان ملکوں میں مستشرقین کی حد تک یہ بات نمایاں ہوگئی کہ پاکستان میں قادیانی مسئلہ کیا اہمیت رکھتا ہے، اور مسلمان اس جماعت کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا چاہتے ہیں؟
اگرچہ ’منیر انکوائری کمیشن‘ اپنی طبعی افتاد کے باعث ایک غلط نہاد کھڑاگ تھا، جماعت اسلامی نے اپنے اندازِ فکر کے مطابق جسٹس منیر کی اُڑان گھائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پھر جب منیر رپورٹ چھپ کر سامنے آئی تو اس کا اس طرح پوسٹ مارٹم کیا کہ وہ رپورٹ دینی اور علمی حلقوں میں ایک فحش کتاب ہوکر رہ گئی۔ اس کتاب کا بنیادی نقص یہ تھا کہ جسٹس منیر نے اپنے قلم کے اللّے تللوں سے ایک ایسی داستان مرتب کردی تھی، جس کو خلافِ اسلام طاقتوں ، مثلاً امریکا و یورپ کے عیسائیوں اور یہودیوں کی ریاست اسرائیل کے دانش وروں اور حاکموں اورہندستان کے سنگھٹیوں اور مہاسبھائیوں نے خوب خوب استعمال کیا۔ قادیانی، مغربی ممالک کے علاوہ افریقی ریاستوں میں اس کا چرچا کرتے رہے۔ اس رپورٹ میں مسلمان کی تعریف کے تحت اسلام کا مذاق اُڑایا گیا اور علما کے استخفاف کی آڑ میں قادیانیت کا جواز قائم کیا گیا۔تاہم، مولانا مودودی نے تبصرے کے زیرعنوان رپورٹ کا تجزیہ کرکے اس کے مندرجات کا رَد کیا اور بیرونی ممالک کے جن حلقوں میں اس کی مضرتیں پھیل گئی تھیں، وہاں ان مضرتوں کو ہمیشہ کے لیے زائل کردیا۔
پہلے سال یہ تبصرہ اُردو میں نکلا، پھر چند ماہ کے وقفے سے عربی میں ضروری تلخیصات مرتب کی گئیں اور اس طرح ایک کتابچہ مدوّن ہوگیا۔ اگلے سال تبصرے کا انگریزی ترجمہ [از:پروفیسرخورشیداحمد] ہوکر امریکا، افریقہ اور یورپ کے ملکوں میں تقسیم کیا گیا۔ تمام نامور مستشرقین اور خاص خاص اساتذہ کے علاوہ انگریزی ترجمے کی بے شمار کاپیاں یورپی و امریکی جرائد و صحائف کو پہنچائی گئیں ۔ اس کے علاوہ مغربی ملکوں کی تمام یونی ورسٹیوں اور لائبریریوں میں اس کے نسخے ارسال کیے گئے۔ اس کا بنیادی فائدہ یہ ہوا کہ امریکا،یورپ اور افریقہ میں کسی غیرمسلم مصنف و مقرر نے پھر کبھی ’منیر رپورٹ‘ کا حوالہ نہ دیا۔ گویا اس اعتبار سے رپورٹ ساقط الاعتبار ہوگئی۔
پاکستان میں اس انداز کے سیاسی حالات تھے کہ پرانی نسلوں کے تعلیم یافتہ بہ وجوہ اس مسئلے ہی سے ناواقف تھے، یا واقف نہیں ہونا چاہتے تھے، یا پھر دین کے مقتضیات کو سیاست کی ضروریات کے تحت دیکھتے اور جو نسلیں تحریک ِ پاکستان میں جوان ہوئی تھیں، یعنی جن کی آنکھیں قومی سیاست کے ہنگاموں میں کھلی تھیں، ان کے ذہنوں میں یہ مسئلہ اُتر نہیں رہا تھا۔ مولانا مودودی نے قادیانی مسئلہ میں تعلیم یافتہ طبقات کو اس سے آگاہ کیا تو خانہ نشین قسم کے عبقری و نابغہ بھی مسئلے کے اور چھور سے واقف ہوگئے۔ اس کتابچے کا بنگلہ اور انگریزی میں فی الفور ترجمہ کیا گیا، جس سے پورے ملک کو مسئلے کے تمام پہلو معلوم ہوگئے اور حکومت کا پہلودار پراپیگنڈا باطل ہوکر رہ گیا، حتیٰ کہ منیر انکوائری رپورٹ بالاخانہ کے قہقہوں سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرسکی۔
مولانا نے اس مسئلے کو علما کی طرح محض مذہبی حیثیت ہی سے پیش نہ کیا بلکہ قادیانیت کے عمرانی، سیاسی اور معاشی پہلو بیان کیے، جس سے دینی اور سیاسی دوائر کا ہرگوشہ چوکنا ہوگیا۔ جو لوگ اب تک مسئلہ کو مُلائیت کی شعبدہ بازی گردانتے تھے، ان کی اکثریت چند بیمار ذہنوں کے سوا، اس حقیقت سے آگاہ ہوگئی کہ قادیانی پاکستان کے لیے ایک مہیب مسئلہ ہیں اور اُن سے ملت اسلامیہ کی وحدت مجروح و مسلوب ہوتی ہے۔ اب تک علما قادیانیت کے جواب میں مذہبی نوعیت کے مباحث اُٹھاتے تھے، اور ان کا تمام تر لٹریچر اس طرز پر تھا کہ خاتم کے کیا معنی ہیں؟ حیات و ممات مسیح کا مبحث کیا ہے؟ وغیرہ۔ خود قادیانی، علما کو حیات و ممات مسیح میں اُلجھاتے رہے کہ وہ اصل مسئلہ کی طرف نہ آسکیں،یا پھر خاتم النبیینؐ کے معانی میں لسانی اشقلے چھوڑتے رہے۔ اس میں قادیانی اُمت کا یہ فائدہ تھا کہ وہ مغربی تعلیم کی پیداوار نسلوں اور ملک کے سیاسی فرزندوں کو مغالطہ دے سکتے تھے۔
انگریزوں نے ہندستان میں مذہب کے خلاف مذہب کی معرفت کچھ اس قسم کے شوشے چھوڑے یا قلم لگائے تھے کہ تکفیر کا مسئلہ مخصوص دینی فضا سے باہر خواص میں بالخصوص اور عوام میں بالعموم کوئی اہمیت نہ رکھتا تھا۔ غرض مذہبی فضا کے اس انتشار سے قادیانی اپنےتئیں مسلمانوں میں عمرانی طور پر ملّت کا جزو بن کر رہ رہے تھے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے اس کتابچے نے مرزائیت کی ان بنیادوں کو ہلا ڈالا اور جو لوگ لادینی فضا میں زندگی بسر کر رہے تھے ، انھوں نے محسوس کیا بلکہ انھیں یقین ہوگیا کہ مرزائیت نظرانداز کرنے کی چیز نہیں۔ اس زمانے میں مولانا مودودی کا متذکرہ پمفلٹ تقریباً ہرفوجی افسر نے مطالعہ کیا کیونکہ حکومت نے مولانا کو سزا دے کر اس خواہش کو پیدا کردیا تھا کہ آخر یہ مسئلہ کیا ہے؟
علّامہ محمد اقبالؒ نے اس مسئلے پر ایک مفکر کی حیثیت سے قلم اُٹھایا اور عالمانہ سطح سے فلسفہ کی زبان میں گفتگو کی تھی۔ علّامہ کی موت کے بعد ان کے سجادہ نشینوں اور ان کی تعلیمات پر قلم اُٹھانے والوں نے علّامہ کی ان تحریروں سے اعتنا ہی نہ کیا بلکہ خلیفہ عبدالحکیم جیسے بزرگوں نے حکومت کی منشا کے مطابق اقبال اور مُلّا لکھ کر ہرزہ سرائی کی۔ جو لوگ ان تحریروں کی اشاعت کے وقت عالم طفلی میں تھے اور نہ اس مسئلہ کا شعور رکھتے تھے، ان کے لیے علّامہ اقبالؒ کی محولہ تحریریں بے وجود تھیں، اور وہ نہیں جانتے تھے کہ مصورِ پاکستان نے قادیانیت کے بارے میں کیا کہا ہے اور اس سلسلہ میں علّامہ کیا چاہتے تھے؟ ادھر علمائے کرام قادیانیت کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے تھے، وہ عوام کی زبان نہ تھی، ان کی تلمیحات و اصلاحات عوام کے دماغ سے کہیں زیادہ بلند تھیں۔
مولانا مودودی نے قادیانی مسئلہ میں سلیس و شگفتہ اور سہل و شُستہ زبان استعمال کرکے نہ صرف وقت کی اہم ضرورت کو پورا کیا بلکہ ان دماغوں میں یہ مسئلہ اُتار دیا، جن دماغوں کے دروازے اس مسئلے کی طرف سے بند تھے۔ بلاشبہہ علما نے اس سلسلے میں حیرت انگیز کام کیا اور منبرومحراب نے مرزائیت کو عوام کے اذہان میں ثمرآور نہ ہونے دیا، لیکن پاکستان میں اس مسئلے کی پہچان کے لیے مولانا مودودی کے قلم نے ایک ایسی خدمت انجام دی کہ قادیانیت کی حیثیت محلاتی سازشوں کے استعماری گماشتے کی رہ گئی۔ وہ ملک کی سیاسی و عمرانی فضا میں کجلا گئی۔
حکومت کے جبر و تشدد سے ’تحریک راست اقدام‘ کا احتجاج ضرور ختم ہوگیا۔ اُدھر بعض افراد کی کمزوریوں اور کئی علما کی غداریوں سے اس کا زور بھی ٹوٹ گیا، اور من حیث الجماعت وہی آثار پیدا ہوگئے جو حکومت سے ٹکرائو میں عوامی تحریک کے ضُعف و اختلال کا باعث ہوتے ہیں۔ لیکن ایک چیز بہرحال قائم رہی کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاشرے میں مرزائیت کے لیے کسی موڑ یا مرحلے میں کوئی سی جگہ پیدا نہ ہوسکی۔ ایک طرف مجلس احرار کے راہنمائوں نے ’مجلس تحفظ ختم نبوت‘ قائم کرکے اپنے محاذ کو سرد نہ ہونے دیا، دوسری طرف مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے عالمِ اسلام میں مرزائیت کے اعمال و افکار پر نگاہ رکھی۔ اُدھر پاکستان میں جمہوریت کی ویرانی کا آغاز ہوچکا تھا۔ ملک غلام محمد نے آئینی روایات کو ذبح کردیا تھا۔اِدھر حکومت بیوروکریسی کی معرفت استعماری طاقتوں کی دست پناہ ہورہی تھی اور ان طاقتوں کی پاکستان میں آلۂ کار جماعت کا نام قادیانی اُمت تھا۔
قادیانی اُمت نے ملک غلام محمد کے زمانے ہی سے فوج میں اپنی طاقت پیدا کرنے کا ارادہ کیا۔ اسکندر مرزا کے عہد میں اس ارادے کو بال و پَر لگے۔ جنرل ایوب خاں کے زمانے میں قادیانیت نے عسکری طاقت کے علاوہ سیاسی رسوخ پیدا کیا۔ مرزا غلام احمد کے پوتے اور بشیرالدین محمود کے چچیرے مسٹر ایم ایم احمد نے اوّلاً سیکرٹری مالیات کا عہدہ سنبھال کر، ثانیاً اقتصادی منصوبہ بندی کا مختار ہوکر مرزائیت کے لیے معاشی استحکام کی راہیں پیدا کیں۔ ایوب خان کے دور میں خلافت ربوہ نے ملک کی فوجی اور اقتصادی زندگی پر اس طریق سے قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ بالواسطہ سیاسی زندگی اسی کی زندگی میں ہو۔
اس سے پہلے جب ۱۹۵۶ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی اور مصر نے ہزیمت اُٹھائی تو اس سے عرب ریاستوں کے عسکری وقار کو سخت صدمہ پہنچا۔ ان کی پسپائی کو تمام دُنیائے اسلام میں ایک جاںگداز المیہ کی طرح محسوس کیا گیا۔اس جنگ کے فوراً بعد ۱۹۵۷ء اور ۱۹۵۸ء میں عرب ریاستوں نے پاکستان سے فنی ماہرین طلب کیے۔ پاکستان سے ایک زبردست کھیپ مختلف شعبوں کے بڑے بڑے عہدوں پر روانہ کی گئی۔ اس کھیپ میں زیادہ تر فوجی ماہرین تھے، لیکن جو لوگ یہاں سے گئے، ان میں زیادہ تر قادیانی اُمت کے افراد تھے۔ انھوں نے سعودی عرب کو ترجیح دی اور وہاں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوگئے۔ سب سے خطرناک پہلو یہ تھاکہ سعودی عرب میں قادیانی العقیدہ فوجی افسروں نے اہم جگہیں حاصل کیں۔اسرائیل کے جارحانہ منصوبوں میں مدینہ منورہ کو فتح کرنے کا پلان بھی تھا اور ہے۔ اس پلان کو پروان چڑھانے کے لیے قادیانی افسر آلۂ کار ہوسکتے تھے۔ سعودی عرب کے حکمران انتہائی پریشان تھے کہ ان کی فوجی خبریں اسرائیل کے ہاتھ کیونکر لگتی ہیں۔ معاملہ بالکل واضح تھا، لیکن سعودی حکومت کا ذہن اس طرف منتقل نہیں ہورہا تھا۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے سعودی حکومت کو اس طرف توجہ دلائی تو ان پر راز کھلااور حجازو نجد سے قادیانی اُمت کا اخراج شروع ہوگیا۔ جن حکومتی شعبوں میں قادیانی گھس آئے تھے، انھیں وہاں سے نکال کر پاکستان رخصت کردیا گیا۔بعض اہم محکموں میں قادیانی چھپ چھپا کر رہنا چاہتے تھے، لیکن مولانا مودودی کی حسب ِ ہدایت واقفانِ حال نے ان سب کے حدود اربعہ کا پتا لگاکر سعودی حکومت کو مطلع کیا، تو انھیں سبکدوش کرکے پاکستان لوٹا دیا گیا اور اس طرح حرمین شریفین قادیانیوں کے اسرائیلی منصوبے سے محفوظ ہوگئے۔
انھی دنوں سعودی عرب حکومت نےمولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی سے درخواست کی کہ وہ قادیانیت پر ایک کتاب لکھیں، جس سے عرب دُنیا کو معلوم ہو کہ قادیانیت کیا ہے اور اس کا وجود کن عناصر کا مرکب ہے؟ مولانا نے ما ھتی قادیانیۃ لکھی، جو کویت میں چھپی اور تمام عرب ریاستوں میں بڑے پیمانے پر پھیلا دی گئی۔ مولانا نے فروری ۱۹۶۲ءمیں ختم نبوت کے نام سے مسئلے کی دینی بنیادوں پر قلم اُٹھایا اور ایک رسالہ لکھا جو عربی میں ترجمہ ہوکر تمام عرب دُنیا میں پھیلا دیا گیا۔ ان دونوں رسالوں کا بنیادی فائدہ یہ ہوا کہ عرب ریاستوں میں یہ تصورختم ہوگیا کہ قادیانی پاکستان کی ملّت اسلامیہ کا فرقہ یا گروہ ہیں۔
جب قادیانی فتنہ واضح و آشکار ہوگیا تو سعودی عرب کی حکومت نے مولانا مودودی صاحب کی تحریک پر اپنی مملکت میں قادیانیوں کا داخلہ بند کردیا۔ ان کی آمدورفت پر پابندی لگادی اور جس کے متعلق یہ شبہہ ہوا کہ وہ قادیانی ہے، اس کے بارے میں مقامی شہادت فراہم نہ ہونے کی صورت میں مولانا کے نائبین سے استفسار کیا جاتا رہا کہ وہ اس کے بارے میں حقیقت ِ حال سے مطلع کریں۔ اس صورتِ حال سے تل ابیب اور ربوہ دونوں پریشان ہوگئے کیونکہ عرب ریاستوں کی اطلاعات حاصل کرنے کے لیے ’عجمی اسرائیل‘کے جن باشندوں سے کام لیا جارہا تھا، وہ عرب ریاستوں سے نکالے جارہے تھے۔ مولانا کے متذکرہ بالا ہر دو کتابچوں کا عربی کے علاوہ کئی ایک افریقی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس طرح قادیانی اُمت کی حقیقت مختلف افریقی ریاستوں پر آشکار ہوگئی، اور اس کا پیدا کردہ طلسم ٹوٹ گیا کہ وہ پاکستان کی نوزائیدہ اسلامی مملکت کے حکمرانوں میں سرخیل ہے اوراس کا مذہب پاکستان کی سب سے بڑی دینی طاقت ہے۔
اس کے بعد مئی ۱۹۶۳ء میں جماعت اسلامی نے قادیانی مسئلہ کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی پہلو کے نام سے ۴۲۵صفحات کی ایک کتاب شائع کی، جس میں اس مسئلے کے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا۔ اس کتاب کے پانچ باب ہیں اور آخر میں کئی ایک ضمیمے ہیں۔ پہلا باب قادیانی مسئلہ ہے۔ دوسرے باب میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے مقدمے کی رُوداد ہے۔ تیسرے باب میں مولانا کے اس بیان کی نقل ہے، جو آپ نے جسٹس منیر کی عدالت میں تحریراً پیش کیا۔چوتھے باب میں تحقیقاتی عدالت میں داخل شدہ دوسرے بیان کا متن ہے۔ پانچواں باب عدالت میں پیش کردہ تیسرا بیان ہے۔ ان تین بیانوں کے بعد ضمیمہ ایک میں عیسیٰؑ ابن مریم ؑ کے نزول کی احادیث کا بیان ہے۔ ضمیمہ۲ میں حضرت مہدی کے ظہور سے متعلق احادیث ہیں۔ ضمیمہ ۳ میں فقہا، محدثین اور مفسرین کی نزولِ عیسٰیؑ سے متعلق ان تصریحات کا ذکر ہے جو ان کے قلم سے مختلف کتابوں میں نکل ہوچکی ہیں۔ ضمیمہ ۴ ختم نبوت سے متعلق احادیث کا مجموعہ ہے۔ ضمیمہ ۵ میں تیسری صدی ہجری سے تیرھویں صدی ہجری تک کے اکابر مفسرین کے خاتم النبیینؐ سے متعلق اقوال ہیں۔ ضمیمہ ۶ میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور حضورؐ کے بعد دعویدارانِ نبوت کی تکفیر پر علمائے اُمت کے اقوال ہیں۔ ضمیمہ ۷ میں مرزا غلام احمد کی تحریک کے مختلف مراحل اور مختلف دعاویٰ کا تذکرہ ہے۔ اس ضمیمہ کے الف میں بنیادی اصولوں سے متعلق علما کی پیش کردہ ترامیم کا خاکہ ہے۔ ضمیمہ ۹ میں قادیانیت سے متعلق علّامہ اقبال کی تحریر کے اقتباس ہیں۔ روزنامہ اسٹیٹس مین کے نام اسی مسئلے سے متعلق علّامہ کا خط نقل کیا گیا ہے، نیز پنڈت نہرو کے سوالات کا جواب ہے۔ ضمیمہ۱۰ میں ڈسٹرکٹ جج بہاولنگر اور ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی کے دو فیصلوں کی تلخیصات ہیں، جن میں قادیانی اُمت کو دائرۂ اسلام سے خارج کیا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ مولانا مودودی نے قادیانیت اُمت کے متعلق اس حقیقت کو تمام دُنیائے اسلام کے ذہنوں میں راسخ کردیا کہ مرزا غلام احمد کی استعماری نبوت کے پیروکار مسلمانوں سے الگ ایک دوسری اُمت ہیں اور ان کا وجود پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام دُنیائے اسلام کے لیے موجبِ خسران ہے۔
کہتے ہیں کہ جنگل میں چڑیوں کا ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں پورے جنگل کی چڑیاں شریک تھیں۔ ایک طرف کھانا پکانے کی ذمہ دار چڑیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ سب کے لیے کھانا پکانے میں بہت محنت لگتی ہے۔ دوسری طرف چڑیوں کے ایک گروہ کا خیال تھا کہ اصل محنت تو ہماری ہوتی ہے کہ ہم دن بھر اپنی جان خطرے میں ڈال کر کھانے کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ اس دوران میں ایک چڑیا کو انوکھا خیال سوجھا۔ اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایک اُلو ہونا چاہیے، جو ہمارے سارے کام کرے۔ ہمارے گھونسلے بنانے سے لے کر کھانا پکانے تک، بچوں کی تربیت سے لے کر ہماری حفاظت تک ساری ذمہ داریاں اسی اُلو کی ہوں گی، تو ہمیں کچھ کرنا نہیں پڑے گا اور یوں ہم زندگی کو صحیح معنوں میں بسر کرسکیں گے۔ یہ رائے سن کر ساری چڑیاں خوش ہوگئیں۔ سب نے اس رائے کی تائید کی سوائے ایک بزرگ چڑیا کے۔ اس بزرگ چڑیا کا کہنا تھا کہ ’’اُلو کو لانے سے پہلے ہمیں اُلو کو قابو کرنا اور اپنا اطاعت گزار بنانا سیکھنا چاہیے۔ کہیں وہ اُلو ہماری سلطنت پر قبضہ کرکے خود ہمیں ہی اپنا غلام نہ بنالے اور پھر کہیں یہ ہمارا اختتام ہی نہ بن جائے‘‘۔
مگر اکثر چڑیوں کے خیال میں یہ ایک مشکل کام تھا، اس لیے زیادہ تر چڑیاں اُلو ڈھونڈنے نکل گئیں۔ اس بزرگ چڑیا کے ساتھ صرف دو چڑیاں رہ گئیں، جنھوں نے اُلو کو اپنا فرماںبردار بنانے کے طریقے سوچنے شروع کردیے۔ مگر کچھ ہی دیر میں ان دو چڑیوں کو بھی یہ سمجھ آگیا کہ یہ مشکل کام اُلو کی غیر موجودگی میں تو ناممکن ہے۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ جب اُلو آجائے گا، تب ہی اس کو اطاعت گزار بنانے کا طریقہ بھی ڈھونڈ لیں گے۔
اس کہانی کا اختتام کیا ہوا؟ یہ کسی کوبھی نہیں پتہ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں چڑیوں نے اُلو کے آنے کے بعد اس کو قابو کرنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا اور یوں ان کی ساری مشکلات آسان ہوگئی تھیں ،اور کچھ لوگوں کے خیال میں اُلو کے آنے کے بعد چڑیاں اس کو قابو نہ کرسکیں اور اُلو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر تمام چڑیوں کو اپنا غلام بنالیا، یعنی کہانی کا اختتام سنانے والا کوئی بھی نہیں بچا۔
آج ٹکنالوجی کے جس دور میں ہم جی رہے ہیں انسانیت کو بھی یہی سوال درپیش ہے۔ جہاں ہر بندہ کہہ رہا ہے کہ آنے والا دور ’مصنوعی ذہانت‘ (Artificial Intelligence - AI)کا ہوگا۔ بہت سارے لوگ اس کے خطرات کو نظرانداز کرنے کو ایک بھیانک غلطی کہہ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ انسانیت کی ترقی میں ایک اہم قدم ہے، تو کچھ اس قدم کو آخری انسانی غلطی بھی کہہ رہے ہیں۔
کیا ہم انسان واقعی ’مصنوعی ذہانت‘ کو اس کی معراج پر پہنچا سکیں گے، جہاں ہمارے سارے کام ’مصنوعی ذہانت‘ کے ذمے ہوں گے یا پھر اس کہانی کا اختتام بھی بالکل اسی طرح کسی کو کبھی معلوم نہ ہوسکے گا، جیسے ان چڑیوں کا انجام، کہ جو اُلو کو ڈھونڈنے اور اس کو سدھانے نکلی تھیں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ’مصنوعی ذہانت‘ کیا ہے اور اس کے انسانی زندگی اور مسلم معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ اگلی سطور میں اس پر گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں:
یورپ میں نشاتِ ثانیہ کی بہت سی اہم بحثیں کائنات، انسان اور انسان کی اس دنیا میں موجودگی، زندگی اور اس کی وجوہ کے گرد گھومتی ہیں۔ جہاں بہت سے فلاسفر حضرات انسانی وجود کے بارے میں مختلف نظریات پیش کررہے تھے، وہیں بہت سے ماہرین ریاضی اور سائنس دان اپنے مقالات کے ذریعے کائنات، زندگی اور مادہ سے متعلق مختلف رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوششوں میں لگے تھے۔ فلسفہ، حساب اور سائنس کے اس ملاپ نے جدید دنیا کی تشکیل میں مدد تو کی مگر جلد ہی عملی سائنس، فلسفے پر حاوی ہوگئی۔ انسانیت نے فلسفے کی خیالی باتوں پر سائنس کی محیرالعقل ایجادات کو ترجیح دینا شروع کی، اور یوں مغرب سے مادیت کا ایک ایسا نیا طوفان اُٹھا، جس نے جلد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس طرح وہ ساری بحثیں جو کائنات کی حقیقت جاننے کے لیے شروع ہوئیں تھیں، جلد ہی کائنات کو فتح کرنے کی عملی کوششوں میں تبدیل ہوگئیں۔ انسان جس کا خود اپنا وجود ہی فلسفیوں کے لیے ایک سوال تھا، اب ایسی مشینیں بنانے میں لگ گیا، جو دنوں کا کام گھنٹوں میں انسان سے بہتر انداز میں کرنے لگ گئیں۔
پھر یہ سوال اٹھا کہ کیا ہم ایسی کوئی مشین بھی بناسکتے ہیں، جو ہماری طرح سوچنا اور ہماری طرح کام کرنا شروع کردے ؟ ویسے تو بعض لوگوں کے نزدیک انسان کی یہ خواہش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ کام نہ کرنے کی خواہش، مگر کمپیوٹر کی ایجاد نے انسان کا صدیوں پرانا یہ خواب دوبارہ جگادیا۔
’مصنوعی ذہانت‘ (AI)ایسی مشینوں کی تیاری کو کہتے ہیں، جو وہ کام کرسکیں جن کو عام طور پر کرنے کے لیے انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو دیکھ کر یا اس کی آوازکو سن کراس کو پہچان لینے کی صلاحیت، فیصلہ سازی کی صلاحیت، یا دو مختلف زبانوں میں ترجمے کی صلاحیت وغیرہ۔ ان مشینوں کو مخصوص موضوع پر مواد یا ڈیٹا دیا جاتا ہے اور اس مواد یا ڈیٹا میں مماثلت یا پیٹرن ڈھونڈ کر یہ مشینیں خود کو اس قابل بناتی ہیں کہ اگر ان کو اسی قسم کا مختلف مواد ملے تو وہ اس کو پہچان سکیں۔مثلاً اگر ایک مشین کو بہت سارے مرد اور عورتوں کی تصاویر دکھائی جائیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ یہ ایک جوان ایشیائی مرد کی تصویر ہے، یا یہ ایک بوڑھی ہسپانوی خاتون کی تصویر ہے، تو وقت گزرنے کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ مختلف تصویروں کو پہچان کر یہ مشینیں اس قابل ہوجاتی ہیں کہ جب ان کو دوسری مگر مختلف تصاویر دکھائی جائیں تو وہ ان کو صحیح طور پر پہچان لیتی ہیں۔
اب آپ ان مشینوں کو جتنی زیادہ تصویروں کی پہچان کروائیں گے، یہ مشینیں اتنے ہی بہتر طریقے سے یہ فیصلہ کرسکیں گی کہ دکھائی جانے والی تصویر کسی نوجوان امریکی مرد کی ہے یا کسی افریقی خاتون کی؟ ان مشینوں کو مواد یا ڈیٹا کی فراہمی کا عمل ’مشین لرننگ‘ کہلاتا ہے اور نتیجے میں ہمیں ایک ایسا تربیت یافتہ ڈیٹا ماڈل ملتا ہے، جو ایک مخصوص کام کرسکتا ہے۔ مثلاً ایک ڈیٹا ماڈل اگر انسانوں کو پہچان سکتا ہے تو دوسرا ماڈل جانوروں یا جگہوں کی پہچان کرسکتا ہے۔ آپ ایک زیادہ ذہین ڈیٹا ماڈل بھی بناسکتے ہیں، جو انسانوں کے ساتھ ساتھ مختلف جانوروں اور چیزوں کو الگ الگ پہچان سکے۔ اسی طرح آپ ایک مشین کو مختلف زبانوں کی لغت یا ڈکشنری دے کر ایسا ڈیٹا ماڈل تیار کرسکتے ہیں جو دی گئی تحریر کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرسکے۔
کمپیوٹر کی ایجاد نے جہاں ’مصنوعی ذہانت‘ کے لیے دروازے کھولے، وہیں انٹرنیٹ کی ترقی نے ڈیٹا ماڈلز کی تیاری کے کام کو بہت آسان کردیا۔ اب کوئی بھی گھر بیٹھے ایسے ڈیٹا ماڈلز تیار کرسکتا ہے جو کوئی بھی مخصوص کام نہایت ہی سرعت کے ساتھ سرانجام دے سکیں۔ کچھ لوگ اس ترقی کو ’صنعتی انقلاب‘ کی توسیع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یعنی جس طرح صنعتی انقلاب نے خودکار مشینوں کو عام کردیا تھا اور وہ کام جو کئی انسان مل کر کئی دنوں میں کرتے تھے مشینوں نے کچھ گھنٹوں میں کرنے شروع کردیئے تھے۔ اسی طرح ’مصنوعی ذہانت‘ سے جدید ترین مشینیں وہ کام کرسکتی ہیں جو اَب تک مشینیں نہیں کرسکتیں تھیں اور ان کے لیے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
مثلاً معاشروں میں امن و امان اور نظم و ضبط برقرار رکھنا اب تک سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری رہی ہے۔ صنعتی ترقی کے بعد کسی بھی نظم و نسق کی بگڑتی صورتِ حال کو قابو کرنا پہلے کے مقابلے میں کافی آسان ہوگیا ہے۔ پہلے انسانوں کے ساتھ پہرے دینے کا کام کتّے کرتے تھے، تو اب ان کی جگہ سی سی کیمروں نے لے لی ہے اور ہم اپنے دفتر میں بیٹھ کر اپنے گھر پر آنے والے کو دیکھ لیتے ہیں۔ مگر ’مصنوعی ذہانت‘ اس سب سے بھی آگے بڑھ کر کام کرتی ہے۔ مثلاً ایسے ڈیٹا ماڈلز بن گئے ہیں، جو حالات خراب ہونے سے پہلے ہی بتاسکتے ہیں کہ کس جگہ حالات خراب ہونے والے ہیں، یا کون، کب اور کہاں کسی جرم کا ارتکاب کرنے والا ہے؟
اسی طرح پہلے آپ کو اپنے کسی بینکنگ کے مسئلے کے حل کے لیے بینک جانا پڑتا تھا۔ پھر ٹکنالوجی کی ترقی نے یہ کام آسان کردیا اور ہم کال سینٹر پر فون کرکے اپنے مسائل حل کروانے لگے۔ لیکن جس کال سینٹر پر ہم کال کرکے اپنے بینک کے مسئلے کو حل کرتے ہیں، وہاں پر موجود افرادی قوت کی تربیت، تنخواہ اور دوسری چیزوں پر کافی پیسہ خرچ ہوتا تھا۔ پہلے تو اس کا حل یہ نکلا کہ امریکا اور یورپ میں مختلف کمپنیوں نے اپنے کال سینٹرز بند کرکے ایسے ایشیائی ممالک میں کھول لیے جہاں سستی افرادی قوت موجود تھی۔ مگر اب ’مصنوعی ذہانت‘ نے یہ کام اور بھی زیادہ آسان کردیا ہے اور اب ایسے ڈیٹا ماڈل سے تربیت یافتہ ’چیٹ باٹس‘ آگئے ہیں جو انسانوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ گویا پہلے اگر ایک شخص اپنے بینک کے کال سنٹر پر کال کرتا تھا تو اسے یہ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اس کی کال کا جواب دنیا کے کس کونے سے ملے گا، تو اب اس کو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ اس کی کال کا جواب دینے والا کوئی انسان ہی ہے یا پھر کوئی مشین، جس کو اسی کام کے لیے تربیت دی گئی ہے۔
بظاہر تو ایسا ہی نظر آتا ہے کہ یہ ترقی بالکل صنعتی ترقی کی ہی طرح ہے، یعنی کچھ ملازمتیں ختم ہوں گی تو کچھ نئی پیدا ہوجائیں گی۔ مگر یہ سب اتنا سادہ بھی نہیں۔ جب صنعتی انقلاب نے زندگی کے شعبہ جات میں ہنرمندوں کی ضرورت کم کردی، تو اس کا نتیجہ خاندانی منصوبہ بندی کی صورت میں نکلا اور حکومتی سطح پر آبادی کو کم کرنے کے پروگرام شروع کردیے گئے۔ کیونکہ جو وسائل انسانی بہبود پر لگ رہے تھے، اس سے کہیں زیادہ وسائل خودکار مشینوں کی تیاری میں لگنا شروع ہوگئے تھے ۔ اس خاندانی منصوبہ بندی کے جو نتایج آج جاپان یا مختلف یورپی معاشرے دیکھ رہے ہیں وہ تو ایک بالکل علیحدہ موضوع ہے، لیکن چھوٹے خاندان اور سرمائے کی بہتات نے اسراف یا کنزیومرزم کے جس کلچر کو پھیلایا ہے، اس نے زمین پر موجود محدود وسائل کے ضیاع کو ایک بالکل نئی اور ہولناک سطح پر پہنچادیا ہے۔ لہٰذا، بعض مفکرین زمین کو بیمار اور انسان کو اس بیماری کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
یہ مفکرین ’مصنوعی ذہانت‘ کو اس بیماری یعنی انسان کے خاتمے کے حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ گویا جب ’مصنوعی ذہانت‘ انسانی ہنرمندوں کی ضرورت کو ختم کردے گی تودنیا کے امیروں کے لیے ہنرمندوں یا ورکنگ کلاس کی ضرورت باقِی نہیں رہے گی۔ نتیجتاً زمین پر انسانی آبادی کو ڈرامائی انداز میں بہت کم کرکے زمین کا نظم ونسق چلانا باآسانی ممکن ہوجائے گا۔ کچھ سازشی نظریات کے پرچارک، کورونا لاک ڈاؤن اورپوری دنیا میں زبردستی ویکسنیشن کے عمل کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ، نشاتِ ثانیہ کے دور کی جو بحث انسان کے وجود کا سوال اُٹھا رہی تھی، وہ سائنس اور فلسفے کے اشتراک سے کائنات کو مسخر کرنے کی طرف چلی، تو اب خود انسانی وجود کے درپے نظر آرہی ہے۔
چین میں ’مصنوعی ذہانت‘ کا جس طرح استعمال ہورہا ہے، اس سے خود یورپ پریشان نظر آرہا ہے۔ چین نے پچھلے عرصے میں ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے سوشل کریڈٹ سسٹم کے نام پر ایک ایسا ہمہ گیر نظام تشکیل دیا ہے، جو ہر چینی باشندے کی ہرحرکت کو نوٹ کرتا ہے اور پھر اس نظام کی بنیاد پر سزا و جزا کا فیصلہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر آپ نے کوئی جرم نہ بھی کیا ہو، مگر آپ معاشرے کے لیے کوئی مثبت کام نہیں کررہے، تو یہ نظام آپ کو سزا دینے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اور کوئی کام تعمیری ہے یا تخریبی، اس کا فیصلہ ایک حکومتی کمیٹی کرتی ہے۔ اگر آپ نے کوئی چوری کی، یا کہیں کوئی غلط بیانی کی، یا پھر آپ نے آن لائن اسٹور سے بہت سارے کمپیوٹر گیمز خریدے ہیں، تو یقینا آپ اپنا وقت غلط یا غیر تعمیری سرگرمیوں میں لگا رہے ہیں اور یہ نظام آپ کی تربیت کا فیصلہ کرسکتا ہے۔
بظاہر آپ کو شاید یہ نظام معاشرے کی ترقی کے لیےبہت اچھا لگے،مگر یہ نظام اتنا ہولناک ہے کہ یورپ اور امریکا میں اس نظام کو جدید غلامی کی طرف ایک قدم قرار دیا گیا ہے۔ جہاں نجی زندگی، فیصلے کی آزادی اور آزادیٔ اظہار کا کوئی تصور نہ ہوگا۔ جہاں آپ نے کسی حکومتی فیصلے پر تنقید کی، وہاں آپ کا بینک اکاونٹ بند کردیا گیا۔
بعض ماہرین اسے جارج اْرول کے مشہور زمانہ ناول ’۱۹۸۴ء‘ میں بیان کی گئی سوسائٹی سے تشبیہ دے رہے ہیں، جہاں ایک جابر حکومت پورے معاشرے کو کنٹرول کرتی نظر آتی ہے۔ ذرا اب تصور کریں کہ اگر خدا کے وجود سے انکاری خالص مادی معاشرے میں کام اور نماز پڑھنے کے اوقات ٹکرا جائیں، تو اس نظام کے بنانے والے نماز پڑھنا ایک غیر تعمیری سرگرمی قرار دے کر آپ کے کریڈٹ رینک کو کم کرسکتے ہیں۔ اور اگر آپ کا کریڈٹ شمار خطرے کی حد پار کر گیا تو یہ نظام آپ کی عقل ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق ایغور مسلمانوں کی نازی طرز کے انسانیت سوز کیمپوں میں تربیت اسی سلسلے کی ایک کڑی نظرآتی ہے۔
مگر چین ان سب باتوں کو مغرب کا پروپیگنڈا کہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ جو چین پر اس حوالے سے تنقید کرنے سے باز نہیں آتا، خود اپنے ہاں ایسا ہی نگرانی کا کڑا نظام نافذ کررہا ہے، جو ’مصنوعی ذہانت‘ کی انسانی چہروں کو پہچان لینے کی صلاحیت رکھنے والے کیمروں پر مشتمل ہے۔ پچھلے دنوں مشرقی لندن میں برطانوی پولیس نے ایک شہری کو محض اس لیے گرفتار کرلیا کیونکہ اس شخص نے ان چہروں کی نگرانی کرنے والے کیمروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے اپنا چہرہ اپنے مفلر سے ڈھانپ لیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اپنا چہرہ ڈھانپنا کوئی جرم نہیں اور میں کسی کو بھی اپنی حرکات کو ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا، مگر پولیس نے اسے قبول نہیں کیا۔ بعد میں اس شخص کو جرمانہ کردیا گیا۔ نام نہاد آزاد برطانوی معاشرے میں پولیس کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی جارہی ہے، مگر برطانوی پولیس کے نزدیک یہ شہریوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔
اکثر ماہرین اسمارٹ فونز کو جاسوسی کے آلات سے تشبیہ دیتے ہیں، کیونکہ جب آپ اپنا اسمارٹ فون استعمال نہیں بھی کررہے ہوتے تب بھی یہ آپ کی باتیں سن رہا ہوتا ہے اور اس کو آپ کی تمام حرکات کا ادراک ہوتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ آپ ایک پرانے واقف کار سے بات کرنے کھڑے ہوتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں فیس بک آپ کو اس بندے کو فیس بک پر اپنی فرینڈ لسٹ میں شامل کرنے کا مشورہ دے دیتا ہے، یا اکثر وہ چیز جس کے بارے میں آپ صرف سوچ ہی رہے ہوتے ہیں، وہ آپ کی ’سرچ‘ میں آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب آپ کے اسمارٹ فون میں موجود مختلف ایپلی کیشنز کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے، جو یہ سب ریکارڈ کرکے کسی ڈیٹا سینٹر کو بھیجتی ہیں، اور وہاں ’مصنوعی ذہانت‘ اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے آپ کو مختلف چیزیں دکھارہی ہوتی ہے۔
’مصنوعی ذہانت‘ آنے والے دنوں میں جنگوں کو کس طرح تبدیل کردے گی؟ اس کا اندازہ بی بی سی کی اس خبر سے ہوتا ہے، جس کے مطابق اسرائیل نے ’مصنوعی ذہانت‘ کے ذریعے لاکھوں فلسطینیوں کی جاسوسی کرتے ہوئے تقریباً ۳۷ہزار فلسطینیوں کو حماس کا جنگجو قرار دے کر حالیہ جنگ میں خصوصی طور پر اپنے نشانے پر رکھا۔ تفصیلات کے مطابق اسرائیل کا ’مصنوعی ذہانت‘ کا پروگرام، جسے لاوینڈر (Lavender) کا نام دیا گیا ہے، فلسطینیوں کے موبائل فونز اور دیگر حرکات و سکنات کی جاسوسی کرنے کے بعد ان کی ایک سے ۱۰۰کی حد کے درمیان درجہ بندی کرتا ہے اور کسی فلسطینی کا حماس سے کتنا گہرا تعلق ہے؟ اس کی نشاندہی کرتا ہے۔
مثلاً ایک فرد جو ایک ایسے ’وٹس ایپ‘ گروپ میں تھا، جہاں ایک حماس کا مجاہد بھی شامل تھا یا پھر دونوں نے ایک مسجد میں نماز پڑھ لی، یا اگر ایک فرد اپنا سیل فون بار بار تبدیل کررہا تھا، یا اگر عام فلسطینی کا موبائل فون اسی علاقے میں پایا گیا، جہاں ایک حماس کا جنگجو بھی موجود تھا، تو ایسے افراد کو اسرائیلی ’مصنوعی ذہانت‘ کے پروگرام نے خودبخود حماس کا ہمدرد یا جنگجو قرار دے دیا۔ خود اسرائیلی ماہرین کے مطابق اس پروگرام میں کم از کم ۱۰ فی صد غلطی کا امکان موجود ہے، مگر حالیہ جنگ میں اسرائیلی فوج کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ ’’نہ صرف ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے بلکہ ان پر ہر حملے کے دوران اگر ۲۰ کے قریب دوسرے عام افراد بھی مارے جائیں تو کوئی پروا نہیں‘‘۔
پھر ’مصنوعی ذہانت‘ کا یہ پروگرام ان افراد کی حرکات و سکنات پر مستقل نظر رکھتا۔ جیسے ہی وہ اپنے گھروں میں داخل ہوتے، یہ پروگرام اسرائیلی فوج کو ایک خصوصی پیغام بھیج دیتا ہے۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ایسے بہت سارے افراد کے گھروں پر میزائل حملے کیے گئے، جب ’مصنوعی ذہانت‘ کے اس پروگرام نے گھروں میں ان کی موجودگی ظاہر کی۔ جس کے نتیجے میں بے شمار عام افراد، جن کا حماس سے کوئی تعلق بھی نہ تھا، مارے گئے۔ اس پورے عمل میں اسرائیلی فوجی اپنے دفاتر میں بیٹھے یہ کارروائیاں کرتے رہے اور ان کو اپنی جان خطرے میں ڈالنے یا زمینی حملے کی ضرورت نہیں پڑی۔
’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو کس طرح تبدیل کردے گا اورہمارا ایک دوسرے سے میل ملاپ کس طرح بدل جائے گا؟ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک مشہور ماڈل کا انسٹاگرام اکاؤنٹ’ہیک‘کرلیا گیا، جو اپنی روزمرہ کی تصاویر اپنے انسٹاگرام پر ڈالتی تھی۔ اکاؤنٹ ’ہیک‘ کرنے والے نے اس ماڈل سے مطالبہ کیا کہ جب تک وہ ماڈل دنیا کو اپنی حقیقت نہیں بتائے گی اس وقت تک اس کو اس کا اکاونٹ واپس نہیں ملے گا۔ انسٹاگرام پر ایک ملین سے زائد رابطے رکھنے والی اس ماڈل نے بالآخر یہ تسلیم کرلیا کہ وہ کوئی حقیقی انسان نہیں بلکہ مصنوعِی ذہانت کے ذریعے بنایا گیا ایک روبوٹ ہے اور اس کا اکاؤنٹ جس نے ’ہیک‘ کیا ہے، وہ بھی کوئی انسان نہیں بلکہ ایک دوسرا روبوٹ ہے۔
دنیا کے سامنے جب یہ حقیقت آئی تو اس ماڈل کے لاکھوں فالورز حیران و پریشان رہ گئے کہ کس طرح حقیقت سے قریب اس کی تصاویر دیکھ کر نہ صرف وہ اس سے مرعوب تھے بلکہ بعض تو اس کی جیسی زندگی گزارنے کے خواہش مند بھی تھے۔ کچھ حضرات تو اس سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے سے بھی باز نہ آئے تھے اور اس یک طرفہ پیار کا یہ ڈراپ سین ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ آپ نے ایسے کئی قصے سنے ہوں گے کہ کس طرح کسی لڑکے نے لڑکی بن کردوسرے لڑکے کو بے وقوف بنایا، مگر سوشل روبوٹس کے ذریعے یہ کام اب مشینیں کررہی ہیں۔
ٹکنالوجی کے جریدے Wired کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت کروڑوں سوشل میڈیا سائٹس ایکٹو ہیں، جو ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال سے کہیں کسی برانڈ کی مارکیٹنگ میں مصروف ہیں تو کہیں آپ کا کریڈٹ کارڈ چوری کرنے کے درپے۔
سوشل میڈیا پر روبوٹس کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا اور مخالفین کو دیوار سے لگانا اب کتنا عام ہوگیا ہے، اس کا ایک مظاہرہ دو سال قبل پورے پاکستان نے دیکھا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو جب عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تو ان کے چاہنے والوں نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری کے چند ہی گھنٹوں میں ٹویٹر ،جس کا موجودہ نام ایکس ہے، پر کئی کئی ملین لوگوں نے مذمتی ٹویٹ کرنا شروع کردیے۔ امپوڑٹڈ حکومت نامنظور، میر جعفر اور میر صادق نامنظور جیسے بے شمار ٹرینڈز چھاگئے۔
روس کے زیر اثر مشرقی یورپ کے چند ممالک میں بیٹھے چند سرپھروں پر روسی مدد کے ذریعے امریکا اور مختلف یورپی ممالک کے انتخابات میں سوشل میڈیا کے ذریعے مداخلت کا الزام باربار لگا ہے ۔ مگر خود امریکا میں کس طرح سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والے مواد یا ڈیٹا کو ’مصنوعی ذہانت‘ کے ساتھ ملا کر ووٹرز کی نفسیات سے کھیلنے کے لیے استعمال کیا گیا؟ اس کا انکشاف اس وقت ہوا، جب ۲۰۱۸ء میں کیمرج انالیٹکا اسکینڈل سامنے آیا۔ کیمرج انالیٹکا ایک ’مصنوعی ذہانت‘ پر مبنی سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی تھی جس نے فیس بک پر موجود امریکی ووٹرز کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا اور پھر ان ووٹرز کی پسند ناپسند اور سیاسی ترجیحات کا ایک مفصل ڈیٹابیس بنایا، جو یہ بتاسکتا تھا کہ امریکا کی ریاست الاسکا میں موجود ایک چالیس سالہ سیاہ فام شخص کس کو ووٹ دے گا اور اور واشنگٹن میں موجود ایک پرائمری اسکول ٹیچر کیا سوچ کر ووٹ دے گا؟
کروڑوں امریکیوں کی تفصیلات پر مشتمل اس ڈیٹابیس کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتیوں نے خرید کر اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ اور ہر ووٹر کو اس کی ذاتی پسند ناپسند اور سیاسی ترجیحات کے مطابق پیغامات دکھا کر ایک طرف تو ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لیے آمادہ کیا، تو دوسری طرف مخالف سیاسی رہنماوں کے حمایتیوں کو ان کے پسندیدہ رہنما کی ناکامیوں پر مبنی پروپیگنڈا دکھا کر بدظن کیا گیا، تاکہ اگر وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہ دیں تو کم از کم ٹرمپ مخالف اُمیدوار کو بھی ووٹ نہ دیں اور اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ یہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس لیے اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ آخری الیکشن میں آپ نے اپنا ووٹ شعوری طور پر دیا تھا اور آپ کسی پروپیگنڈا کا شکار نہیں ہوئے تھے، تو آپ کو حالات کی سنگینی کا اندازہ بالکل نہیں ۔ ایک تجزیہ کے مطابق یہ سوشل میڈیا کمپنیاں آپ کے بارے میں خود آپ سے زیادہ جانتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آن لائن اسٹور پر جو آخری چیز آپ نے خریدی ہے اس کی آپ کو ضرورت ہی نہ ہو مگر آپ نے ایک انجان پروپیگنڈا کا شکار ہوکر وہ چیز خرید لی، اور یہ سب ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال سے ممکن ہوا ہے۔
بیسویں صدی کے نصف میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی جنگ تو آپ کو یاد ہوگی۔ صرف امریکا اور روس ہی نہیں بلکہ تمام چھوٹے بڑے ممالک یا تو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی دوڑ میں لگے تھے کہ ہر ایک کے نزدیک یہ ان کی بقا کے لیے ضروری تھا۔ ’مصنوعی ذہانت‘ کے ماہرین کے خیال میں کچھ ایسی ہی صورتِ حال اکیسویں صدی میں بھی پیش آنے والی ہے۔ اس بار یہ صورتِ حال ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال پر کسی بھی دوسرے ملک یا گروہ سے زیادہ مہارت حاصل کرنے کی ہوگی۔ اور برتری حاصل کرنے کی یہ جنگ زیادہ خطرناک ہوگی کیونکہ ’مصنوعی ذہانت‘ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرے گی۔ آپ صرف کوئی چیز ہی ’مصنوعی ذہانت‘ کی وجہ سے نہیں خرید رہے ہوں گے بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی یہ آپ کے فیصلوں پر اثرانداز ہوگی۔
یہ معاملہ صرف تجارت کے میدان تک محدود نہیں بلکہ اگلی ہونے والی جنگوں میں وہی فاتح ہوگا جو ’مصنوعی ذہانت‘ کا زیادہ بہتر استعمال کرے گا۔ جنگوں میں صحیح اور بروقت فیصلے ہی آپ کی فتح کا باعث بنتے ہیں۔ چین اور امریکا ایسے ہتھیاروں کی دوڑ میں لگ گئے ہیں، جو ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے آنے والی معلومات کو نہ صرف انسانوں سے زیادہ جلدی قابلِ استعمال بناسکیں گے بلکہ انسانوں سے زیادہ جلدی اور شاید انسانوں سے بہتر فیصلے کرکے دشمن کو زیر کرلیں گے۔
دوسری طرف زراعت کے ماہرین ’مصنوعی ذہانت‘ سے لیس ایسے ڈرون استعمال کررہے ہیں، جو فصل پر موجود کسی آنے والی بیماری کا پہلے ہی اندازہ لگا کر پیشگی اقدام کے ذریعے بہتر پیداوار لے رہے ہیں۔ کہیں اساتذہ کی کمی کا حل ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل روبوٹ اساتذہ کی صورت میں نکالا جارہا ہے۔ پھر ملٹی نیشنل کمپنیاں مختلف بیماریوں کا علاج ’مصنوعی ذہانت‘ کے ذریعے جلد از جلد حاصل کرکے اپنی دوائیاں مارکیٹ میں دوسروں سے پہلے لاکر زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں لگ گئی ہیں۔
آج ’مصنوعی ذہانت‘ کے گرد گھومنے والی تحقیق، ڈیٹا ماڈلزاور معلومات کی نہ صرف حفاظت کی جارہی ہے بلکہ دشمن ملکوں کی اس میدان میں ہونے والی تحقیق کو حاصل کرنے کے لیے جاسوسوں کی مدد بھی حاصل کی جارہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق انٹرنیٹ سرچ انجن کمپنی گوگل نے اپنے ایک چینی نژاد ملازم کو ’مصنوعی ذہانت‘ سے متعلق انتہائی خفیہ معلومات چین کو دینے کے الزام میں ملازمت سے برطرف کردیا اوراب اس کو گرفتار کرکے مقدمہ چلانے کی تیاری ہورہی ہے۔
’مصنوعی ذہانت‘ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ہی اس کے اخلاقی پہلوؤں پربھی سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ منفی ذہن رکھنے والے نوجوان ’مصنوعی ذہانت‘ کے منفی استعمال سے باز نہیں آرہے۔ انھوں نے ایسی ویب سائٹس بنالی ہیں، جہاں آپ کسی بھی خاتون کی تصویر ڈالیں اور وہ ویب سائٹ نتیجہ کے طور پر اس خاتون کی جعلی مگر حقیقت سے بہت قریب برہنہ تصاویر شائع کردیتی ہے۔ اس عمل کو ڈیپ فیک ٹکنالوجی کے استعمال سے ممکن بنایا جاتا ہے ۔ اس عمل سے متاثرہ خاتون اور اس کے قریبی لوگوں پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
رائٹرز نیو ز ایجنسی کی خبر کے مطابق ایلون مسک کی ائے آئی کمپنی نے ایسی کمپیوٹر چپ بنا لی ہے جو انسانی دماغ کو پڑھ کر کام سرانجام دیتی ہے۔ اسے نیورولنک کا نام دیا گیا ہے۔ فی الحال تو ایک طبقہ اسے جسمانی طور پر مفلوج لوگوں کے لیے بہت کارآمد قرار دے رہا ہے۔ مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کہیں کوئی دوسرا فرد ایسی کسی چپ کو ہیک کرکے کوئی ایسا غلط کام کرلے جو اس مفلوج شخص کی خواہش نہیں تھا مگر اس غلط کام کی سزا اس کو مل سکتی ہے کیونکہ جس چپ نے یہ کام کیا وہ اس کے دماغ کے ساتھ منسلک تھی۔
’مصنوعی ذہانت‘ کے ماہرین نے ایسی کسی ایپ کی اخلاقی حیثیت پر کافی سوالات اٹھائے ہیں اور ان کے خیال میں بڑھتا ہوا ’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال آنے والے دنوں میں ایسے بہت سے خطرات پیدا کردے گا۔ مثال کے طور پر انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے زوال، ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے دہشت گردی ، بڑھتی ہوئی ہیکنگ کا اندیشہ۔
’مصنوعی ذہانت‘ کے ماہرین اب ایسی مشینوں پر کام کررہے ہیں، جو ہم انسانوں کی طرح سوچ سکیں اور جس طرح ہم کام کرتے اور زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح وہ مشینیں بھی کرسکیں۔ اس انسانی درجے کی ذہانت کو ’مصنوعی عام ذہانت‘ یا آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس کہا جا تا ہے، یعنی ایسی ’مصنوعی ذہانت‘ کی حامل مشینیں جو بالکل انسانوں کی طرح مختلف امور سرانجام دے سکیں۔
کچھ ماہرین کے نزدیک تو ایسی کسی ذہانت کا حصول ممکن نہیں مگر بعض ماہرین زیادہ محتاط رہنے کا مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں قانون سازی اور بین الاقوامی معاہدوں کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم نے ایسی مشینیں بنالیں جو انسانوں جیسی ذہانت رکھتی ہوں تو پھر کیا ضمانت ہوگی کہ وہ مشینیں ہم سے زیادہ ذہانت کا حصول نہ کرلیں، اور پھر مشینوں اور انسانوں میں زمین پر قبضے کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوجائے؟ مشہور فلم ٹرمینیٹر اسی نظریے کے گردگھومتی ہے۔
وال اسٹریٹ جنرل کی ایک خبر کے مطابق اوپن اے آئی کے سربراہ سام الٹ مین اپنے ایک نئے منصوبے کے لیے آج کل دنیا بھر کے امیروں سے سات ٹریلین ڈالرز اکٹھا کرنے کی مہم پر ہیں۔ یاد رہے کہ دو سو برسوں میں دنیا کے ہر خطے میں جنگ کرنے اور بے تحاشا ڈالر چھاپنے کے باوجود امریکا کا کل قرضہ ۲۳ ٹریلین ڈالر کا ہے۔ یعنی یہ خفیہ منصوبہ کل امریکی قرضے کے ایک تہائی رقم کے برابر ہے۔
آخر سام الٹ مین کو اتنی خطیر رقم کس منصوبے کے لیے درکار ہے؟ اس کے بارے میں تو کوئی نہیں جانتا مگر ۲۰۲۳ء کے آخر میں سام الٹ مین کو اوپن اے آئی کمپنی کے بورڈ نے نوکری سے برطرف کردیا تھا۔ یہ تو معلوم نہ ہوسکا کہ اسے برطرف کیوں کردیا گیا تھا، مگر اس کی وجہ وہ انٹرویو تھا جو چند دن قبل سام الٹ مین نے دیا تھا، جس میں انھوں نے اپنی کمپنی کی ’مصنوعی ذہانت‘ کے میدان میں ایک ایسی ایجاد کے بارے میں گفتگو کی تھی، جس کو وہ مشین کہنے کو تیار نہیں تھے۔ رائٹرز کی ایک خبر کے مطابق اوپن اے آئی کمپنی میں کام کرنے والے کچھ سینئر ماہرین نے ایک خط کے ذریعے کمپنی کو خبردار کیا تھا کہ کمپنی کی نئی ایجاد انسانیت کے لیے شدید خطرہ بن سکتی ہے۔
کئی مہینے گزرنے کے بعد اب تک نہ تو اس خط کے مندرجات پر کوئی بات سامنے آئی ہے اور نہ سام الٹ مین کی اچانک برطرفی اور مائکروسافٹ کے سربراہ کی غیرمعمولی دلچسپی کی وجہ سامنے آئی ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں سام الٹ مین کا 7 ٹریلین ڈالرز کا منصوبہ اور اس نئی اور خفیہ ایجاد کا تعلق ’مصنوعی عام ذہانت‘ یعنی آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس سے ہے، جو کچھ ماہرین کی نظر میں خود انسانیت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سام الٹ مین اس خطرے سے متفق نظر آتے ہیں کہ ’مصنوعی عام ذہانت‘ انسان کا خاتمہ کردے گی، مگر انھیں ساتھ ہی یہ بھی یقین ہے کہ اس سے قبل انسان ’مصنوعی ذہانت‘ سے بہت سی دلچسپ کامیابیاں حاصل کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ’مصنوعی ذہانت‘ نیورولنک، جینیٹکس انجینئرنگ اور ایسی بہت سی جدید ایجادات سے ملا کر کسی انسان نما ڈیجیٹل مخلوق کی تخلیق کرسکنے کے قابل ہوگئی ہے؟ کیا ٹرانس ہیومنزم کے نظریات سچ ثابت ہونے والے ہیں؟
’مصنوعی ذہانت‘ انسانوں کو اپنا غلام بنالے گی یا انسانوں کا خاتمہ کردے گی؟ اس بحث کا نتیجہ نکالنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا چڑیوں کے لیے اُلو کو سدھانا۔ مگر نشاتِ ثانیہ کے دور میں جب انسان نے خدا کا انکار کردیا تو اس نے عقل کو خدا بنالیا۔ ڈیکارٹ کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ ’’میں ہوں کیوں کہ میں سوچتا ہوں‘‘۔ اور یوں انسان اشرف المخلوقات کے منصب سے گر کر محض ایک 'سوچنے والا جانور قرار پایا۔
اس سوچ نے مادی ترقی کے نت نئے دروازے تو کھول دیے، مگر جلد ہی مغرب پر یہ بات آشکار ہوگئی کہ عقل محدود ہے۔ بیسویں صدی میں جب سائنسی ایجادات کی رفتار تقریباً رُک گئی، تو انسان کو ایک بار پھر اپنی بیچارگی کا غم ستانے لگا۔ مگر کمپیوٹنگ اور کمپیوٹر کے استعمال کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ’مصنوعی ذہانت‘ کے میدان میں ملنے والی کامیابیوں نے اس کی امیدیں دوبارہ ہری کر دی ہیں۔ بہت سے ماہرین ایسی ’مصنوعی ذہانت‘ کے حصول کی بات کررہے ہیں، جو ذہین سے ذہین انسان سے بھی زیادہ ذہین ہوگی اور اسے سپر انٹیلی جنس کہا جاتا ہے۔
طوفانوں اور انقلابات میں کئی چیزیں مشترک ہوتی ہیں، مثلاً دونوں ہی پوری زمین پر ایک ساتھ نہیں بلکہ زمین کے کسی مخصوص خطے اور کسی مخصوص معاشرے میں تبدیلی اور تباہی لاتے ہیں۔ معلوم انسانی زندگی میں صرف ایک ہی طوفان ایسا تھا، جس نے پوری زمین کو ایک ساتھ لپیٹ میں لے لیا تھا اور وہ طوفان نوحؑ تھا۔ مگر اب انسانیت کو ایک ایسے ہی طوفان یا انقلاب کا سامنا ہے جو بیک وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کا یہ طوفان ذہنوں کو ماؤف، زبانوں کو گنگ اور ہاتھ پاؤں شل کردے گا۔
اُمت مسلمہ جسے نائن الیون کے بعد اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے، اس معاملے میں بالکل مفلوج نظرآتی ہے۔ صرف عمل کی طاقت ہی نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم اُمت مسلمہ کے لیے یہ طوفان بالکل اسی طرح زندگی اور موت کا سوال بن کر کھڑا ہوجائے گا، جیسے عقل کی محدودیت کا اقرار کرنے کے بعد جب مغرب نے اسلام کو مستقبل کے طور پر دیکھنا شروع کیا اور بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی میں اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب نظر آنے لگا، تو ایک طرف اسلام کو ’دہشت گردی‘ کے ساتھ جوڑ کرمادیت سے مغلوب مغرب کو اسلام سے بدظن کیا گیا۔
اس ضمن میں ہم بحیثیت مسلمان کم ازکم اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے طوفان کو محض سطحی دائرے میں دیکھنے کے بجائے اس کی حقیقت کو سمجھیں اور پھر کوئی لائحہ عمل طے کریں۔ ’مصنوعی ذہانت‘ اور کوانٹم کمپیوٹرز کی پراسسنگ طاقت ایک ساتھ مل کر کیا کچھ نئے گل کھلائے گی؟ اس کا آج سوچنا بھی محال ہے۔ جدید مغرب کو سمجھنے کے لیے فلسفہ اور سائنس کو ایک ساتھ لے کر سمجھنا ہوگا اور شاید جدید تاریخ میں پہلی بارعملی سائنس ’مصنوعی ذہانت‘ کی مدد سے ایک نیا فلسفہ، ایک نیا مذہب اور ایک نیا خدا تخلیق کرنے کی آخری کوشش کرے گی۔
فلسطین مغرب میں صحرائے سینا و بحر ابیض متوسط اورمشرق میں نہر اردن کے درمیان میں ایک چھوٹا سا خطہ ہے، جہاں قدیم ترین زمانے سے ’کنعانی‘ یا ’اموری‘ قوم رہتی آئی ہے۔ یہ تاجر اور کسان لوگ تھے۔ مصر سے آنے والے یہودیوں کی انھی سے لڑائی ہوئی تھی ۔ یہودیوں نے ان کو ’فلستینی ‘ کہا اور اس کے معنی ’شرابی،کبابی‘ کے رکھ دیئے۔ یہودیوں کے نزدیک اس علاقے کے قدیم باشندوں کی غلطی صرف یہ تھی کہ انھوں نے یہودیوں کے مصر سے نکلنے کے بعد ان کا استقبال ’’پانی اور روٹی سے نہیں کیا‘‘ (توریت، تثنیہ ۲۳)۔ اس لیے وہ گردن زدنی کے مستحق ہوئے۔
کنعانی یبوسی قبیلہ (Jebusites) بیت المقدس کے ارد گرد رہتا تھا۔ یہ لوگ ۱۴۰ سال تک یہودیوں کا مقابلہ کرتے رہے اور صرف ۱۰۴۹ قبل مسیح میں حضرت داؤدؑ اس علاقے پر قبضہ کرپائے۔ شاؤل ۱۰۲۰ قبل مسیح میں پہلا حاکم ہوا، جس نے سب یہودیوں کو ایک جھنڈے کے تحت جمع کیا۔ اس کے بعد حضرت داؤد ؑ آئے، جن کا زمانہ ۱۰۰۰ -۹۶۱قبل مسیح کا ہے۔ انھوں نے ۹۹۰ قبل مسیح میں فلسطینی قبائل پر قابو پایا اور دمشق کو خراج دینے پر مجبور کیا۔صرف حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کے ایک بڑےخطے پر حکومت کی۔
حضرت داؤدؑ کے بعد حضرت سلیمانؑ آئے، جن کا زمانہ ۹۶۱– تا ۹۲۲ قبل مسیح کا ہے۔ انھوں نے بیت المقدس میں ایک یہودی معبد بنایا جو ’ہیکل‘ (Temple)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک دیوار آج بھی موجود ہے۔ اس دیوار کو مسلمان مسجد اقصیٰ کی ’مغربی دیوار‘ (الحائط الغربی) کہتے ہیں،جب کہ یہودی اس کو’دیوار گریہ‘ (Wailing Wall) کا نام دیتے ہیں۔ اس سلطنت کے تعلقات یمن تک سے تھے۔ حضرت سلیمانؑ کے۹۲۲ قبل مسیح میں وفات پاتے ہی ان کی سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ جنوب میں ’یہودا‘ اور شمال میں ’اسرائیل‘ نامی دو ملک وجود میں آئے، جو آپس میں دوسو سال تک لڑتے رہے۔
حضرت داؤد اور سلیمان علیہم السلام دونوں نے ۴۰،۴۰ سال حکومت کی، اس کے بعد سب ختم ہوگیا۔ لڑائیوں وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو فلسطین پر صرف ۷۰ سال پورے طور پر یہودی حکومت رہی (انگریز مؤرخ جفریز [JMN Jafferies Palestine- The Reality] ۔
مراد یہ ہے کہ بہترین حالات میں بھی یہودیوں نے پورے فلسطین پر کبھی قبضہ نہیں کیا۔ مؤرخ بیلوک کے مطابق اس زمانے میں بھی اس مملکت کی لمبائی ۱۸۰ کلومیٹر اور چوڑائی ۹۰کلومیٹر تھی (یعنی موجودہ غزہ سے ملتی جلتی)۔انھوں نے زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر قبضہ کیا، جب کہ وادی کے علاقے فلسطینیوں کے پاس رہے۔
آشوریوں نے ۷۲۱ قبل مسیح میں پہلی بارـ ’اسرائیل‘ کو ختم کرکے یہودیوں کو مشرق کی طرف کھدیڑ دیا اور دوسرے لوگ ان کی آبادیوں میں بسادیئے۔ یوںان کا تاریخ سے نام ونشان مٹ گیا۔ البتہ دوسری یہودی حکومت’یہودا‘ بچ گئی تھی، جس کا صدر مقام ’اورشلیم‘ تھا۔ ۵۹۷ قبل مسیح میں نبوخدنصر (بخت نصر) نے اس دوسری یہودی حکومت کا بھی خاتمہ کردیا اور اس کے بادشاہ یواقیم (Joacqim) سمیت ۱۰ہزار یہودیوں کو یرغمال بناکر بابل لے گیا۔ ان میںنبی حضرت حزقیال شامل تھے۔ جلد ہی باقی ماندہ یہودیوں نے بغاوت کی،جس کی وجہ سے نبوخدنصر ۵۸۷ق م میںدوبارہ فلسطین آیا، اورشلیم کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ مزید بہت سے یہودیوں کو غلام بناکر بابل لے گیا اورباقی ماندہ یہودیوں کو اس علاقےسے نکال دیا۔ یوںسلطنت ’ــاسرائیل‘ کے ختم ہونے کے ۱۳۰سال بعد سلطنت ’یہودا‘ کا بھی مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔
۵۳۹ قبل مسیح میں یہودیوں کی بابل کی غلامی ختم ہونے پر واپسی ہوئی ۔ ایران کے بادشاہ کور ش دوم نے فلسطین کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں دو بارہ بسنے کی اجازت دی۔ یوں ۵۱۵ قبل مسیح میںدوبارہ ہیکل سلیمانی بنا۔
۶۳ ق م - ۷۰ء میں فلسطین پر رومن قبضہ ہوا۔ قبضہ پورا ہونے پر یہودیوں کی بغاوت کی وجہ سے ۷۰ء میں رومن جنرل ٹائٹس (Titus) فلسطین آیا اور پوری طرح اورشلیم اور ہیکل کو تباہ کر کے اس کی جگہ ایک رومن شہر بنام ایلیا کاپیتولینابنا کرواپس گیا اور یہودیوں کو وہاں سے پوری طرح سے جلاوطن کر دیا۔
۲۷۳ء میں ’انباط‘ (عربوں) نے اس علاقےپرقبضہ کرلیا۔
۶۳۹ء ( ۱۵ھ) میں بیت المقدس حضرت عمرؓ بن الخطاب کے ہاتھوںفتح ہوا، جب وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ مسجداقصیٰ کی جگہ اس وقت کوڑا پڑا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس جگہ کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے صاف کیا اور وہاں نماز پڑھی۔ بعد میں اس جگہ پرایک مسجد بنی۔حضرت عمرؓ کے ہاتھوں ’العہد العمری‘ نامی وثیقہ لکھا گیا، جس میں یہودیوںکا بیت المقدس میں داخل ہونا منع کیا گیا اور یہ وہاں کے عیسائیوں کی درخواست پر ہوا۔
۱۰۹۹ء سے ۱۳۶۹ء تک صلیبی جنگیں جاری رہیں، جو فلسطین پر یورپی عیسائی قوموں کے قبضے کی کوشش تھی، کیونکہ ان کے خیال میں ’’حضرت مسیحـؑ کی جائے پیدائش کو غیر عیسائیوں کے قبضے میں نہیں رہنا چاہیے‘‘۔ کل ۹ صلیبی جنگیں ہوئیں۔ آخرکار اکتوبر ۱۱۸۷ءمیں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے ۹۹ سال قبضے کے بعدواپس لیا اور یہودیوں کو دوبارہ بیت المقدس آنے کی اجازت دی۔ انھوں نے بیت المقدس کی حفاظت کے لیے مراکش سے جفاکش مسلمانوں کو بلاکر مسجد اقصیٰ کے پاس بسایا۔ ان کا محلہ ’حی المغاربۃ‘ ۱۹۶۷ء تک باقی تھا۔ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضے کے بعد چھ گھنٹے کے نوٹس پر ان کو باہر کر دیا اور ان کے گھرمسمار کرکے ’دیوار گریہ‘ کے سامنے ایک بڑا میدان بنا دیا، جہاں یہودی اب عبادت کرتے ہیں۔
یورپ میں مستقل بُرے سلوک اور ابھرتی ہوئی نئی قومیتوں کی وجہ سے وہاں کے یہودیوں میں ’یہودی وطن‘ کی بات شروع ہوئی، حالانکہ نہ ان کا اپنا کوئی ملک تھا اور نہ کسی علاقے ہی میں ان کی اکثریت تھی ۔ آسٹرین صحافی ہرتزل (Herzl) نے صہیونی تحریک شروع کی۔ ۱۸۶۰ء میں دوبارہ یہودیوں نے فلسطین میں بسنا شروع کیا۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی ۵ہزار تھی۔ فرانس کے بارون ہرش(Baron Hirsh) نے اس کام کے لیے پیسے دیئے۔ بعد میں برطانیہ کے لارڈ روچائلڈ (Lord Rothchild)نے بھی اس مقصد کے لیے کافی پیسے دیئے تاکہ یہودی فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں بسنا شروع کریں۔
اکتوبر۱۹۱۸ء میں فلسطین پر برطانوی قبضہ ہوگیا، جس کے بعد ’اعلان بالفور‘ کے تحت فلسطین کو یہودی ہجرت کے لیے کھول دیا گیا۔ ۶۰ سال سے مسلسل ہجرت کے باوجود اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۶ہزار تھی۔
برطانیہ نےفلسطین میں یہودیوں کوہر سہولت کے ساتھ نیم فوجی دہشت گرد مسلح تنظیم ہاگاناہ (Haganah) بنانے کی اجازت دی، جس کی وجہ سے عملًافلسطین میں ہر طرح سے مسلح یہودی فوج تیار ہوئی، جب کہ عربوں کے اسلحے چھینےگئے اوریہودیوں کے برعکس عربوں کے اسلحہ رکھنے پر جیل اور جلاوطنی کی سزا مقرر ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد یہودی دہشت گرد تنظیموں کا قیا م عمل میں آیا، جن میں ارگون ، شترن،لیہی اور اتزیل شامل ہیں۔ جنھوں نے ۱۹۴۸ء میں عربوں کو اپنے وطن سے بندوق کے ذریعے کھدیڑنے کا کام کیا۔ ان کو بعد میں اسرائیلی فوج میں ضم کر دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔برطانیہ کو فلسطین سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے اب یہودی دہشت گردوں نے انگریز فوج اور انتظامیہ پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ فلسطین میں یہودی دہشت گردی کا سامنا کرنا کمزور برطانیہ کے بس میںنہیں تھا، اس لیے اس نے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ عرب اکثریت کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کا۴۴ فی صد عربوں کو اور یہودی اقلیت کو ۵۶ فی صد دے دیا۔ عربوں نے اس ظالمانہ فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا، جب کہ یہودیوں نے مارچ ۱۹۴۸ء سے ہی ’آپریشن دالیت‘ کے تحت فلسطین میں اسرائیل بنانے کے لیے عربوں پر حملے اور قتل عام شروع کر دیا، تاکہ وہ یہودی سلطنت سے بھاگ جائیں۔ اس کے رد عمل کے طور پر عرب ممالک (مصر، اردن اور عراق وغیرہ) نے فلسطین میں اپنی فوجیں بھیجیں، جن کو واضح حکم تھا کہ تقسیم پلان کے تحت یہودیوں کو دیئے گئے حصے پر قبضہ نہ کریں۔ یوں عرب فوجیں آگے نہیں بڑھیں، جب کہ یہودی دہشت گرد تنظیمیں حملے کرکے عربوں کوقتل اور مختلف علاقوں سے نکالتی رہیں۔ یہاں تک کہ فلسطین کے ۷۰ فی صد عرب اپنے علاقوں سے بھاگ کر قریبی علاقوں اور ملکوں میںپناہ گزیں ہوگئے اور پھر اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادوں کے باوجود آج تک اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکے۔
۵جون ۱۹۶۷ءکو اسرائیل نےحملہ کرکے باقی ماندہ ۲۲ فی صد فلسطین کے ساتھ مصر کے صحراء سیناء اورشام کی جولان پہاڑیوں(Golan Heights) پر بھی قبضہ کرلیا۔
باقی ماندہ فلسطین پر مسلسل اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کا پہلا ’انتفاضہ‘ دسمبر ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۱ء کی میڈرڈ کانفرنس تک چلا ۔
’اوسلو معاہدہ‘ کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو یہودی شدت پسندوں نے ۴ نومبر ۱۹۹۵ء کو قتل کر دیا۔ اسرائیل میں فلسطینیوں سے کسی بھی سمجھوتے کی مخالف لیکوڈ پارٹی نے کلین بریک (Clean Break ) نامی پلان امریکی نیوکون کی مدد سے بنوایا، تاکہ ’اوسلو معاہدے‘ کو عملاً کالعدم کیا جاسکے۔ ۱۹۹۷ء میں لیکوڈ پارٹی کے برسراقتدار آتے ہی اس پلان پر عمل شروع ہوگیا اور دھیرے دھیرے فلسطینی مقتدرہ کو بے اختیار بنانےکے عمل کا آغازہوگیا اور فلسطینی حکومت کو دیئے جانے والےعلاقوں میں یہودی نوآباد بستیاں بنانےکا کام تیزی سے شروع ہوگیا۔ سارا الزام عربوں پر رکھا گیا، جب کہ معاہدے کو اسرائیل نے ناکام بنایا۔ اس کےنتیجے میں ۲۰۰۰ء میں ’دوسراانتفاضہ‘ شروع ہوا، جو پانچ سال چلا۔
مئی۲۰۱۲ء میں یوسی بیلین(Yossi Beilin) نے، جو ’اوسلو معاہدہ‘ کا اسرائیل کی جانب سے موجد تھا، فلسطین اتھارٹی کو مشورہ دیا کہ اتھارٹی کے وجود کو ختم کر دو تاکہ دنیا کے سامنے اسرائیل بے نقاب ہوجائے۔ یہودی نوآبادیا ں فلسطینی عربوں کی ان زمینوںپر مستقل قائم ہو رہی ہیں، جنھیں اسرائیل بھی مانتا ہے کہ انھیں فلسطینیوں کو واپس کرنا ہے۔
جنوری ۲۰۰۶ء میں حماس کی منتخب حکومت کو اسرائیل ، امریکا اور یورپ وغیرہ نے چندمہینوں کے اندر مل کر توڑدیا اور ۲۰۰۷ء سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ شروع کیا، جو اَب تک جاری ہے۔
غزہ پر اسرئیلی حملے ۲۰۰۶ء ، ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء ، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۲ء میں ہوئے۔ ۲۰۱۴ء میں رمضان کے دوران اسرائیل نے حملہ کر کے غزہ کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن مزاحمت کو شکست نہ دے سکا۔ حماس نے ۲۰۱۴ء کی جنگ کا ۵۱ دن تک مقابلہ کیا اور دنیا کی پانچویں سب سے طاقت ور فوج کو جنگ بندی پر مجبور کردیا اور بڑی حدتک اپنے مطالبات منوالیے۔ اسرائیل اپنے مطالبات، یعنی راکٹ کے حملے بند کرانے ، غزہ کو اسلحے سے خالی کرانے اورسرنگوں کا خاتمہ کرانے میں ناکام رہا۔
۲۰۱۸ء میں غزہ کے لوگوں نےمحاصرے کے خلاف سرحد پر احتجاج شروع کیا، جس پر اسرائیل نے فائرنگ کر کےسات فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
مارچ۲۰۱۹ء میں اسرائیل نے غزہ پر پھر حملہ کیا۔اس کے بعد مئی۲۰۱۹ء، نومبر۲۰۱۹ء، ۲۰۲۱ء، ۲۰۲۲ء اور مئی۲۰۲۳ء میں بھی غزہ پر اسرائیلی حملے ہوئے۔ مئی۲۰۲۱ء میں اسرائیلی حملہ پہلے کی طرح نہ صرف ناکام رہا بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حماس اور الجہاد الاسلامی، اسرائیل کے مقابلے میں فوجی برابری (deterrence) کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ پہلی دفعہ ۲۰۲۱ء میں اسرائیل کا بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا۔ اسرائیل کے اندر فلسطینیوں نے انتقامی کارروائی کی اور اسرائیل کو یک طرفہ جنگ بندی پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ کے دوران ۲۴۲ فلسطینی شہید ہوئے، غزہ کے ۸۰ہزار لوگ بے گھر ہوئے اور ۱۷ہزار رہائشی اور تجارتی مراکز تباہ ہوئے۔
اسرائیل اور امریکا کا اندازہ اور منصوبہ یہ تھا کہ شدید بمباری اور کھانے پینے کی اشیاء کو بالکل روکنے سے غزہ کےلوگ مصر کے صحرائے سیناء کی طرف بھاگ جائیں گےاور یوں غزہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا۔ لیکن غزہ کے لوگوں نے جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
غزہ میں مکمل اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں اور دواؤں کی شدید قلت ہے، جس کی وجہ سےوہاں درجنوں لوگ خاص طور سے بچے بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ تمام ہسپتال تقریباً تباہ اور اکثر بند ہیں۔ اسرائیل نےغزہ کے تقریباً ۱۳؍لاکھ لوگوں کو اپنے اپنےعلاقوں سے نکل کر صحرائے سیناء سے ملے ہوئے غزہ کے جنوب مغربی شہر رفح میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے، لیکن وہ وہاں بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔جہاں موجودہ جنگ سے پہلے غزہ میں روزانہ ۵۰۰ٹرک کھانے اور ادویات وغیرہ کے داخل ہوتے تھے، اب وہاں صرف ۸۰ ٹرک روزانہ داخل ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں۱۵مارچ تک ۱۴۱ صحافی قتل ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر فلسطینی ہیں۔
نسل کشی کے مقدمے کے علاوہ ،دنیا کے ۵۲ ممالک نےبین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف ایک اور مقدمہ دائر کیا ہے کہ غزہ ، مغربی پٹی اور بیت المقدس پر ۱۹۶۷ء سے جاری اسرائیلی قبضہ ہٹایا جائے۔ ابھی اس مقدمے کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ افسوس ہے کہ مقدمہ زیادہ تر غیرعرب اور غیر مسلم ملکوں ہی نے دائر کیا ہے۔ یہ توفیق کسی مسلم ملک کو حاصل نہیں ہوسکی۔ غزہ کی جارحیت کی وجہ سےمتعدد غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں، لیکن کسی عرب یا مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ کچھ درپردہ اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔
اس جنگ کے دوران حزب اللہ اور لبنان کی الجماعۃ الاسلامیۃ نے شمالی اسرائیل پر حملے کیے ہیں ۔ عراق کی کچھ ملیشیا نے بھی اسرائیلی اور امریکی ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ یمن کی انصاراللہ حکومت نےباب المندب اور بحر احمر سے اسرائیلی بحری جہازوں یا اسرائیل سامان لے جانے والے بحری جہازوں پر پابندی لگا دی ہے اور اس طرح کے کچھ جہازوں پر حملہ بھی کیا ہے، جب کہ یمن پر اسی وجہ سے امریکا اور برطانیہ مستقل حملے کر رہے ہیں۔
سارے نقصانات کے با وجود موجودہ جنگ نے اسرائیل کے خلاف پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اسرائیل کی فوجی برتری کا دعویٰ اور اس کی بنیاد پر عربوں کا بلیک میل اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ سفارتی طور پر اسرائیل کو ہر جگہ منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات کی گاڑی رک چکی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اب دو بارہ عرب اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکزی مسئلہ بن چکا ہے۔ حماس اور فلسطینی مزاحمت کو اب کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ غزہ اور حماس نے اسلامی تاریخ میں ایک نئے سنہری باب کا اضافہ کیا ہے، جو عینِ جالوت اور حطین کی طرح صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
قرآن پاک میں سور ۂ بنی اسرائیل کی آیات۴ تا ۸ میں بتایا گیاہے کہ یہودی فلسطین میں تین بار سرکشی کریں گے اور تینوں بار اللہ پاک ان کو سخت سزا دیں گے۔ اب تک دوبار ہو چکا ہے (۵۸۷قبل مسیح اور ۷۰عیسوی)، ایک سرکشی ابھی باقی ہے۔ اس سرکشی پر بھی ان کی پہلے کی طرح سرکوبی کی جائے گی۔ شاید اس کا وقت آگیا ہے۔ آج پہلی بار دنیا اور بالخصوص ایشیا ، افریقہ اور جنوبی امریکا کے اکثر ممالک اسرائیل کے خلاف ہیں۔مغربی ممالک کے بہت سے باشندے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں اور اپنی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنی تاریخ میں آج پہلی دفعہ اسرائیل تنہا کھڑاہے۔اس کے جھوٹوں کا گھڑا پھوٹ چکا ہے۔
یہ صدی مغرب یعنی امریکا اور اتحادیوں کے عہد ِزوال کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ ہرآنے والا بحران، اس کے زوال کے عمل کو تیز تر کیے چلا جارہا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ اس صورتِ حال کا تازہ ترین مظہر ہے۔ مغربی اخبارات واضح گھبراہٹ کے عالم میں یہ پکارتے نظر آتے ہیں کہ ’’غزہ میں نظر آنے والے ملبے تلے کئی ہزار نامعلوم لاشوں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ دفن ہوچکا ہے‘‘۔ ٹائمز میگزین میں میتھیو پیریسس نے لکھا ہے کہ ’’فلسطینی ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ساکھ بھی اس قدر تباہ ہو چکی ہے کہ اس کا اندازہ مشکل ہے۔‘‘ ان کی یہ بات بجا، لیکن اس کو صرف اسرائیل کا مسئلہ سمجھنا ایک سطحیت ہی نہیں حماقت بھی ہے۔ سابقہ فلسطینی مذاکرات کار ’ڈیانا بٹو‘ جب کہتی ہیں کہ ’’یہ دراصل امریکا و اسرائیل کا مشترکہ حملہ ہے‘‘ تو یہ اسی حقیقت کا بیان ہے، جسے ہرلمحہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل کے کٹر حامیوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اسے حقیقی معنوں میں شکست ہو چکی ہے اور تمام تر ساکھ مٹی میں مل چکی ہے۔ بہت جلد دنیا کو یہ احساس ہوجائے گا کہ یہی صورتِ حال اسرائیل کو ہلہ شیری دینے والے مغربی ممالک کو بھی درپیش ہے۔
مغرب کا زوال، غزہ میں جاری تاریخی ظلم سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مغربی دائیں بازو کے نزدیک یہ زوال امیگریشن، ثقافتی تنوع، اسلام، جدید افکار، نئے جنسی نظریات، خاندانی نظام کے خاتمہ وغیرہ کو سمجھا جاتا ہے۔ لز ٹروس کی نئی کتابTen Years to Save the West،جو آزاد تجارت کے خلاف برسرپیکار نام نہاد بائیں بازو کے خلاف لکھی گئی ہے، انھی خدشات کی نمایندگی کرتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو معاملہ بڑا سادہ ہے۔ ۳۰سال قبل سویت یونین ٹوٹنے کے بعد مغربی اشرافیہ، قبل از وقت ’فتح کے نشے‘ میں مدہوش بلکہ بدمست ہو گئی تھی۔ انہدامِ دیوار برلن کے موقعے پر نیوکنزرویٹو امریکی صحافی میج ڈیکٹر کا فخروگھمنڈ اسی طرف اشارہ کرتا ہے، جس نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا تھا: ’’یہ کہنے کا وقت آ گیا ہے کہ ہم جیت چکے ہیں۔ گڈبائے۔‘‘
اس نام نہاد ’فتح‘سےدو نتائج اخذ کیے گئے: اوّل، ۱۹۸۰ء کے عشرے میں سامنے آنے والا ’’بے لگام سرمایہ داری نظام انسانیت کی معراج ہے‘‘ جس میں بہتری کی گنجایش باقی نہیں رہی ہے۔ امریکی دانش ور فرانسس فوکویاما نے اپنی کتابوں End of Historyاور Last Man میں بڑھ چڑھ کر ان خیالات کا اظہار کیا۔ دوسرا یہ کہ امریکا اور اس کے اتحادی اب لا محدود طاقت کے مالک ہیں، جس کی بنیاد پر وہ پوری دنیا میں تھانیداری اور داداگیری کر سکتے ہیں۔ ان کے اس غرور اور احساس برتری کا نتیجہ یونانی رزمیوں کے ہیرو کی طرح زوال کی صورت میں نکلا۔
۷۰ کے عشرے میں امریکی طاقت کو شدید دھچکا پہنچا تھا، جب دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ویت نام جنگ میں شکست کے بعد سائیگاؤن میں امریکی نمایندے افراتفری کے عالم میں ہیلی کاپٹروں پر چڑھ کر بھاگ رہے تھے۔ تاہم، اس کا مرکزی حریف سوویت یونین (اشتراکی روس) اس سے بھی زیادہ بُرے حالوں میں تھا اور کچھ عرصے بعد اس کی شکست و ریخت نے مغرب کو دوبارہ سنبھلنے کا موقع دے دیا۔ اسی تناظر میں پہلی خلیجی جنگ (۱۹۹۱ء) اور سابقہ یوگوسلاویہ میں عسکری دخل اندازی کو ’لبرل دخل اندازی‘ کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے بعد ستمبر ۲۰۰۱ء میں نائن الیون کا المیہ ہوگیا اور انسانی کرب اور شرمندگیوں میں ڈوبی شکستوں کی ایک نئی داستان شروع ہوئی۔
افغانستان میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کے بعد اگست ۲۰۲۱ء میں طالبان نے اپنی شرائط پر اس طویل جنگ کو ختم کیا، جس سے اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گئے، جتنے وہ جنگ سے پہلے تھے۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے ۲۰۰۳ء میں کہا تھا کہ ’’عراق پر حملہ سارے شرق اوسط کو جہنم میں دھکیل دے گا‘‘ اور دنیا نے دیکھا کہ پھر یہی ہوا۔ لیبیا کی خانہ جنگی میں نیٹو کی شمولیت سے یہ فتح تو حاصل ہوئی کہ لیبیا کے صدر معمر قذافی کا تختہ اکتوبر ۲۰۱۱ء میں اُلٹ دیا گیا۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ آج یہ ملک خانہ جنگی سے تباہ حال ، ناکام ریاست کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اس ساری مہم جوئی کے نتیجے میں صرف مغرب کی عسکری بالادستی کا ہی دھڑن تختہ نہیں ہوا ہے، بلکہ اس دوران عالمی قوانین اور ضابطوں کو جس طرح روندا گیا، اس نے دوسری ریاستوں کو بھی ایک عالمی بدنظمی کی راہ دکھا دی ہے۔ براؤن یونی ورسٹی، امریکا کی تحقیق کے مطابق: ’’نائن الیون کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگوں میں تقریباً ۴۵لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ ان جنگوںمیں ہونے والی خون ریزی اور گوانتانامو بے یا ابو غریب میں ہونے والی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں نے دنیا بھر میں مغرب کے اخلاقی برتری کے دعوے کو بہت نقصان پہنچایا‘‘۔ اس نقصان کو روسی صدر ولادی میرپیوٹن جیسے کچھ لوگوں نے اپنی جارحیت کی دلیل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ میں جاری قتل عام میں اپنے کردار کے ساتھ ساتھ مغرب کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس نے کیونکر وہ حالات پیدا کیے، جن سے پیوٹن جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوکرین پر جارحانہ حملے کی ذمہ داری پیوٹن حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کیونکہ امریکا بہرحال واحد ریاست نہیں ہے، جو دنیا میں بدامنی اور تباہی برپا کر سکتی ہے۔ لیکن کیا بات یہیں ختم ہو جاتی ہے؟ کیا امریکا اور مغربی دنیا کی جانب سے روس کو برآمد کیا گیا ’نیو لبرل معاشی نظریہ‘ اس تباہی میں حصہ دار نہیں ہے؟ بلاشبہہ پیوٹن ازم نے سرد جنگ کے خاتمے پر روس میں پیدا ہونے والی مایوسی سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک نے ’’Economic Shock Therapy‘‘ کے نام پر روسی معاشی نظام سے بے جا چھیڑچھاڑ کی ہے، جس کا نتیجہ ’’عظیم معاشی بحران‘‘ سے بھی بڑے بحران کی صورت میں نکلا، اور ناقابل برداشت مہنگائی، اوسط عمر میںاچانک کمی اوراشرافیہ کی لُوٹ مار نے روس کو اس حال تک پہنچا دیا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد ایک مستحکم روس، پیوٹن جیسے ڈکٹیٹر کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف اپنا دفاع کر سکتا تھا۔
اس تباہ کن معاشی نظام نے نہ صرف روس کو غیر مستحکم کیا بلکہ مغربی لبرل جمہوریتوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس بے لگام سرمایہ داری نے براہ راست ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کی بنیاد رکھی، جس سے مغرب آج تک نکل نہیں سکا۔ بہت سے مغربی ممالک نے کفایت شعاری کے ایسے منصوبے شروع کیے، جن کا نتیجہ معاشی جمود اور زوال کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ صورتِ حال دائیں بازو کی آمریت کے لیے موزوں ترین سمجھی جا سکتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دائیں بازو کی تحریک شروع ہوئی، جو خود امریکی جمہوریت کے لیے ہی چیلنج بن چکی ہے۔ ساری دنیا میں لبرل جمہوریت زوال پذیر ہے اور آمریت اس کی جگہ لے رہی ہے۔ ایک مثال ہنگری کی بھی ہے جس پر یورپی یونین بہت چیں بہ جبیں ہوتا ہے، لیکن کچھ کر نہیں پاتا۔ یورپ کے اکثریتی ممالک میں انتہائی دایاں بازو واپس آ رہا ہے، جو اس براعظم کے لیے نیک شگون نہیں سمجھا جا سکتا۔
دیوار برلن کے انہدام پر مغربی اشرافیہ کا جشن منانا درست نہیں تھا۔ آج تین عشرے گزرنے کے بعد ان کے غرور کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور دنیا خاک و خون میں غرق ہورہی ہے۔ غزہ کی صورتِ حال مغربی ساکھ کی تباہی کا بدترین خونی استعارہ ہے۔ زیادہ تر دنیا پہلے ہی مغرب کی اخلاقی برتری کے دعوؤں کی حقیقت جان چکی تھی، لیکن اب کی بار واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمارا اخلاقی زوال مکمل ہو چکا ہے، کیونکہ ساری مشرقی دنیا اب اسرائیل کو بچانے والوں سے شدید نفرت کرتی ہے۔
صورتِ حال اس سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ مغرب کی سابقہ ناکام مہم جوئیوں کا حساب ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کے برعکس ہوا یہ کہ حکومتی وزرا سے لے کر جنگ پر اُکسانے والے تجزیہ کاروں تک، تمام لوگ ہر قسم کے خونی ایڈونچر کے بعد بھی نہ جانے کس طرح اپنی پوزیشن پر موجود رہے ہیں۔ دوسری طرف ان تباہ کن فیصلوں کی مخالفت کرنے والے معاملہ فہم لوگوں کو عزّت کے بجائے رسوائی کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ اگرچہ تاریخ نے انھیں ہر دفعہ درست ثابت کیا،لیکن آج بھی ایسے لوگوں کو بڑی آسانی سے ’شدت پسند‘ یا ’غدار‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
ہم چاہتے تو ایک ایسا معاشی نظام تشکیل دے سکتے تھے، جو صرف چند لوگوں کے بینک اکاؤنٹس میں دنیا کی ساری دولت اکٹھی کرنے کے بجائے اس کی عادلانہ تقسیم کا ضامن ہوتا۔ اسی طرح ہم چاہتے تو اسرائیل کے ظالمانہ حملے کی حمایت نہ کر کے اپنی ساکھ کو بچا سکتے تھے۔ صدافسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ یہ گذشتہ چند برس ہمارے لیے بڑے تکلیف دہ اور تھکا دینے والے ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن انتظار کیجیے، زوالِ مغرب کے کئی مرحلے ابھی آنا باقی ہیں۔
۱۹۹۰ء سے بھارتی مسلح افواج نے کشمیر کے آزادی پسند عوام کے خلاف دہشت گردی کا راج مسلط کر رکھا ہے، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ ۱۶ سے زیادہ بنیادی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس جائز، قانونی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ مطالبے کے جواب میں بھارتی قابض فوج کی وحشیانہ کارروائیوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک ۱۵ سے ۳۰ سال کی عمر کے نوجوانوں سمیت مقبوضہ جموں و کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ کشمیری مسلمان خواتین کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ غیرجانب دار اور بین الاقوامی این جی اوز کے مطابق ۱۰ہزار سے زائد افراد لاپتا ریکارڈ ہوچکے ہیں۔ کشمیر میں ہندستانی دانش وروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بڑی تگ و دو کے بعد اجتماعی قبریں دریافت کیں، لیکن مزید تلاش ترک کردی گئی ہے کیونکہ ان اجتماعی قبروں کی تلاش میں ملوث افراد کو ہندستانی حکام نے گرفتار یا ملک بدر کر دیا۔
بھارت نے پیلٹ گن کا بے دردی سے استعمال کیا ہے اور اس وحشت کاری میں ۹ سال کی عمر کے کمسن کشمیری بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ ایسے متاثرین میں سے سیکڑوں بچّے نابینا ہو چکے ہیں۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے، نریندر مودی کی سربراہی میں ہندو نسل پرست حکومت نے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور اے-۳۵ کو منسوخ کردیا ہے۔ اس کے بعد غیر کشمیریوں کو ملازمتیں حاصل کرنے اور مقبوضہ وادی میں جائیداد خریدنے میں سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد سے، لاکھوں آرایس ایس کے عسکریت پسند ہندوؤں کو کشمیر پہنچایا گیا ہے اور انھیں رہائشی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔
مقدس مقامات کی زیارت کے بہانے روزانہ ہزاروں ہندوؤں کو کشمیر لے جایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں سے (سیکورٹی ایشوز کی آڑ میں) بہت بڑی اراضی ضبط کی جا رہی ہے، تاکہ باہر سے آنے والے ہندوؤں کے لیے بستیاں بنائی جا سکیں۔ اصل کھیل اور منصوبہ تو یہاں پر مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنا اور انھیں روزگار، جائیداد اور عزّت و احترام اور تحفظ سے محروم کرنا ہے۔
نوجوانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے اور فوج کے سرچ آپریشن کے دوران انھیں گرفتار کر کے فوجی کیمپوں میں لے جاکر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، معذور کیا جاتا ہے یا پھر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان کے لواحقین اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں اگر وہ ان کی لاشیں حاصل کرسکیں۔ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں مظالم میں اضافے کا حوصلہ ملا ہے۔ کشمیر کے بے بس عوام آزادی پسند لوگوں سے التجا کررہے ہیں کہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کے حق میں آواز بلند کریں، چاہے وہ واشنگٹن ہو، لندن ہو، برسلز ہو، پیرس ہو، ٹوکیو ہو یا کوئی اور۔
کشمیر کا المیہ فلسطینیوں کے المیے کے مترادف ہے اور کئی صورتوں میں اُن سے بڑھ کر اذیت ناک صورتِ حال پیش کرتا ہے۔ کشمیری اور فلسطینی اپنے حقوق اور آزادیوں کو تسلیم کرانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں او ر انتہائی جارحیت پسند ریاستوں کے ہاتھوں کچلے جارہے ہیں۔ ۱۲؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جب اسرائیل غزہ پر بے دردی سے مسلسل فضائی حملے کر رہا تھا، ہندستان میں اسرائیل کے سفیر، نور گیلن نے ایشین نیوز انٹرنیشنل کو بتایا کہ انھیں ہندستان میں لوگوں کی طرف سے اتنی زیادہ حمایت ملی کہ وہ صرف ہندستانی رضاکاروں سے ایک اور اسرائیلی فوج کو بھرتی کرسکتے ہیں: ’’ہر کوئی مجھے کہہ رہا ہے کہ 'میں رضاکارانہ طور پر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں، میں اسرائیل کے لیے لڑنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس نے کہا: ’’ہندو قوم پرست کھلے عام اور زوروشور سے اس بات پر جشن مناتے ہیں کہ جو کچھ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے‘‘۔ نسل پرست بی جے پی کے کارکنوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل ہمیں نسلی تطہیر کا سبق دے رہا ہے کیونکہ ہم کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بالکل یہی کرنے جا رہے ہیں۔ ہم ہندو جنونیوں کو بھارتی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے، خواتین کی عصمت دری کرنے اور قتل و غارت گری کے لیے بھیجیں گے کیونکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ یہی کرنا چاہتے ہیں‘‘۔(دی یروشلم پوسٹ، ۲۱جنوری ۲۰۲۴ء)
قانون کے پروفیسر ڈاکٹر خالد ابو الفضل نے Usuli انسٹی ٹیوٹ چینل پر یو ٹیوب لائیو سٹریم میں کہا کہ ’’غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے بدترین قتل عام میں سے کچھ حملے اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے والے ہندستانی فوجیوں کی طرف سے کیے گئے ہیں‘‘۔ اس بات کا انکشاف میموری ٹی وی نے ایک رپورٹ میں کیا ہے۔معروف اخبار ہارٹز (Haarretz) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق: ’’اسرائیل، بھارت کو اسلحہ فروخت کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے‘‘۔ ہتھیاروں کی نگرانی کرنے والے اداروں کے مطابق، بھارت اسرائیلی ساختہ اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے، جو ہرسال ایک بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرتا ہے، جس میں آنے والے برسوں میں کئی گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ کشمیر اور فلسطین کے لیے شدید خطرہ ہے۔ یہ دونوں ممالک توسیع پسندی اور اپنی مقبوضہ سرزمین کی مسلم آبادی کو ختم کرنے کے شیطانی منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ جیو اسٹرےٹیجک مفاد ہے۔ ہندستان اور اسرائیل کا اتحاد ان کے غیراخلاقی اسلاموفوبیا نظریہ کی بنیاد پر بڑے عالمی تنازعات کا ایک مضبوط نسخہ ہے، اور دونوں ممالک بین الاقوامی معاہدوں کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔ دونوں ممالک کی طرف سے عالمی سطح پر پروپیگنڈا ایجنسیوں کو وافر مقدار میں فنڈز فراہم کیے گئے ہیں، جن کا واحد کام اسلام کی تصویر کو مسخ کرکے دُنیا کے لیے اسلام کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرنا اور حقیقی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردانہ تحریکوں کے طور پر پیش کرنا ہے۔
بہ بات بہت تشویش کا باعث ہے کہ بار بار یہ خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ اسرائیلی ایجنٹ اکثر کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں اور مغربی کنارے کی طرز کی بستیوں کو بڑھانے اور خطے کے اکثریتی کردار کو تبدیل کرنے کے بارے میں بھارت کو اسٹرے ٹیجک معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے بھارت جارحانہ انداز میں اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور لاکھوں ہندو شدت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں رہائشی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔ ان دونوں غاصب اور جارح ملکوں کی ڈھٹائی پر مبنی اور کھلم کھلا مجرمانہ سرگرمیاں، اقوام متحدہ کی عالمی طاقتوں کے زیراثر کمزور پالیسی اور جانب دارانہ روش کا نتیجہ ہے، کہ جو اپنی ہی منظور کردہ قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔اس وقت اسرائیل فلسطینیوں کی بے دریغ نسل کشی میں ملوث ہے۔ بالکل اسی انداز سے انڈیا بھی کشمیر میں اقدامات کرتا آرہا ہے۔
مسلم دنیا اور دیگر تمام امن پسند یہودی اور عیسائی ان وحشیانہ اقدامات کے خلاف احتجاج میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ بڑے مسلم ممالک کے حکمران اپنے عیش و عشرت یا ذاتی مفادات پر مبنی ایجنڈے میں الجھے ہوئے ہیں اور فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو نظر انداز کرچکے ہیں۔ اس موقعے پر، امن پسند شہریوں کی طرف سے مظلوم فلسطینی عوام کا ساتھ دینا بالکل جائز ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی مشکلات کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، ہندستانی مسلح افواج کے ہاتھوں کشمیر میں ہزاروں افراد کا قتل عام، عصمت دری اور بڑی تعداد میں لوگوں کو معذوری سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ کشمیر کو جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور بھارتی فوج سزا سے بریت اور کسی پکڑ دھکڑ کے خوف سے بے نیاز ہوکر قتل، عصمت دری، لُوٹ مار اور املاک کو تباہ کر سکتی ہے۔ غزہ کے معصوم لوگوں کی آہیں اور چیخ پکار کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد دلانا چاہیے کہ کشمیری بھی انڈین قبضے کے ہاتھوں اسی طرح کی اذیتوں سے گزر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ غزہ میں عالمی میڈیا کی محدود رسائی کے باوجود کچھ نہ کچھ خبریں باہر نکلتی رہتی ہیں، لیکن مقبوضہ کشمیر میں تو میڈیا کی صورتِ حال اس قدر مخدوش ہے کہ نیویارک میں قائم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے مطابق کشمیر میں نیوز میڈیا ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔
بلاشبہہ ہمیں فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی غیر متزلزل اور بے دریغ حمایت کرنی چاہیے۔ ہم کشمیر پر اپنی آواز کو پست نہیں کر سکتے کہ جہاں مسلم آبادی کو نیست و نابود ہونے اور صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ آئیے ہم جنوری ۲۰۲۲ء میں امریکی کانگریس کے سامنے اپنی گواہی کے دوران ’جینوسائیڈواچ‘ کے چیئرمین ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن کی جانب سے دی گئی اس وارننگ پر توجہ دیں کہ ’’کشمیر نسل کشی کے دہانے پر ہے‘‘۔
یہ ۲۰۱۴ء کی بات ہے، انڈیا کے عام انتخابات کو کورکرنے کے لیے مَیں صوبہ بہار کے سمستی پور قصبہ میں گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہوٹل کے سامنے ہی ایک مقامی منیجر کے کمرے میں قصبے کے سیاسی کارکن اور دانش ور شام کو جمع ہوتے ہیں، جہاں ایک مقامی کلب جیسا ماحول ہوتا ہے۔ سیاسی ماحول جاننے کے لیے میں بھی ان کے کلب میں پہنچا۔
نئی دہلی کے صحافی کی اپنے دفتر میں کوئی عزت و وقعت ہو یا نہ ہو، مگر دارلحکومت کے باہر قدم رکھتے ہی اس کا وقار خاصا بلند ہو جاتا ہے۔ اس کلب نما کمرے میں، پُرتپاک انداز سے میرا استقبال ہوا۔ ایک مقامی سیاسی کارکن نے گفتگو کے درمیان کہا کہ ’’اگر ان انتخابات میں نریندر مودی جیت جاتے ہیں، تو بھارت ہی نہیں، پوری دنیا میں آیندہ انتخابات کے لڑنے کا طریق کار ہی بدل جائے گا‘‘۔ مزید کہا: ’’یہ انتخاب روایتی طریقوں، انسانی احساسات اور ٹکنالوجی کے درمیان ایک جنگ ہے‘‘۔ دراصل ان انتخابات میں پہلی بار سوشل میڈیا اور ٹکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ، مودی نے بہت سی افواہیں اور آدھا سچ پھیلا کر عوام کی ذہن سازی کرکے اکثریت حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
اس نئی انتخابی حکمت عملی کے خالق تو بی جے پی کے لیڈر اور مودی کے گورو کیشو بائی پٹیل ہیں، جنھوں نے ۱۹۹۵ءمیں گجرات کے صوبائی انتخابات میں چھوٹے چھوٹے کیم کارڈرز کا استعمال کیا، جس کے لیے برطانیہ میں پارٹی کے ہمدرد افراد بڑی تعداد میں اپنے ساتھ یہ کیمرے لے کر آگئے۔ انتخابی مہم کے دوران وہ کیم کارڈرز ہاتھ میں لیے ریکارڈنگ کرتے نظر آتے تھے۔ ان کارڈوں نے انتخابی مہم میں ایسا رنگ ڈالا کہ کانگریس کی انتخابی مہم میں بھنگ پڑگئی اور تب سے اب تک اس صوبہ میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
اسی طرح انتخابات میں ٹکنالوجی کے استعمال کو بہار کے ایک شہری پرشانت کشور نے ایک انتہا تک پہنچادیا۔ موصوف اقوام متحدہ کے صحت عامہ پراجیکٹ میں کام کرنے کے بعد ملک میں واپس آئے تھے۔ انھوں نے سڑکوں پر گاجے باجے کے بجائے، موبائل فونز پر ایس ایم ایس، اور دیگر پلیٹ فارمز کی مدد سے مہم چلاکر براہِ راست عوامی ذہنوں کو متاثر کرنے کا بیڑا ٹھایا۔ ان کی پہلی محدود مہم ۲۰۱۲ء میں اس وقت رُوبہ عمل آئی تھی، جب مودی، گجرات صوبہ کے تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ ایک بار کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے مجھے بتایا تھا: کشور میری دریافت تھی جنھیں بھارت واپس آکر اپنے دفتر میں کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔
کشور نے ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر مودی کے لیے کام کرکے قطعی اکثریت حاصل کروانے میں مدد دی اور پھر ایک سال بعد الگ ہوکر بہار میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے اتحاد کے لیے کام کرکے بی جے پی کو ہروا دیا۔
پرشانت کشور کے دوست شیوم شنکر سنگھ نے کتاب How to Win an Indian Election? میں ایسے طور طریقوں کو بیان کیا ہے،جن سے موجودہ دور میں انتخابات کی جیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ مودی کے لیے چائے بیچنے والا یا نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والا برانڈ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت بنایا گیا تھا۔ پھر آن گراؤنڈ اور آن لائن مہم کے مؤثر امتزاج سے کانگریس اور گاندھی خاندان کے خلاف ایک بھرپور منفی فضا پیدا کی گئی۔ ایسی فضا شاید ہی خودبخود بنتی ہو۔ عوامی ذہنوں کو اپنی گرفت میں لینے والے ایک آئیڈیا کے لیے بڑی محنت اور مسلسل تکرار درکار ہوتی ہے، جسے جدید ٹکنالوجی نے آسان بنا دیا ہے۔
شیوم سنگھ نے پرشانت کشور سے الگ ہوکر اپنی تمام مہارت بی جے پی کے سپرد کردی۔ سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا سب سے بڑا کارنامہ ۲۰۱۸ء میں شمال مشرقی صوبہ تری پورہ کو کمیونسٹوں سے چھیننا قرار دیا گیا، جو اس صوبہ پر ۲۵برسوں سے بر سر اقتدار تھے۔ ۲۰۱۳ء کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو کل ووٹوں کا محض ۱ء۵۴ فی صد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ریاست کے وزیر اعلیٰ سی ایم مانک سرکار نے ایک سادہ آدمی کی حیثیت سے صاف ستھرے اور مخلص ہونے کی مضبوط ساکھ بنا رکھی تھی۔ یہ انتخابات دو مخالف نظریاتی دھڑوں دائیں اور بائیں بازو کی جنگ تھی۔ ڈیٹا پر کام کرتے ہوئے سنگھ اور اس کی پارٹی نے ویژولائزیشن ٹولز بنانے پر توجہ مرکوز کی، نقشوں پر ڈیٹا پلاٹ کرنے اور بار گرافس اور چارٹس جیسے دیگر گرافیکل فارمیٹس تشکیل دیے۔ ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ مل کر ایک موبائل ایپ پر بھی کام کیا، جو ڈیٹا کو پارٹی رہنماؤں کے لیے آسان بناتا تھا۔ صوبہ کے قبائلی، کمیونسٹ حکومت سے نالاں ہیں۔ اس ناراضی اور پھر ڈیٹا کی بھر مار کا ایک ایسا مجموعہ حرکت میں لایا گیا ، جس نے کمیونسٹوں کو زچ کردیا اور بی جے پی کا ووٹ بینک ایک فی صد سے اُٹھا کر ۳۶ فی صد تک پہنچا دیا۔
سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پاس پہلے سے راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کیڈر کی طاقت موجود ہے۔ آر ایس ایس نے ملک بھر میں ووٹر لسٹ کے ایک ایک صفحے پر انچارج تعینات کر رکھے ہیں۔ یہ انچارج ووٹر لسٹ کے ایک صفحے پر درج تمام ووٹروں کے درمیان رسائی اور مہم کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور جو اوسطاً ساٹھ ناموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ایک بار جب کسی پارٹی نے ووٹروں کی ذاتوں اور مذاہب کو انتخابی فہرست میں ان کے ناموں کے ساتھ کمپیوٹر کے سافٹ ویئر میں درج کرادیا، تو اگلا مرحلہ ان کے فون نمبر حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا بروکرز کے پاس سے دستیاب رہتا، جنھوں نے ممکنہ طور پر اسے ٹیلی کام کمپنیوں کے نچلے درجے کے ملازمین یا سم کارڈ ڈیلرز سے حاصل کررکھا ہوتا ہے۔
بھارت میں اس وقت ۵۳۵ملین واٹس ایپ صارفین ہیں۔ سنگھ کے مطابق مغربی ممالک کے برعکس بھارت میں دیہات کے سفر میں احساس ہوا کہ ووٹروں کا خیال ہے کہ سیاسی واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے سے انھیں کسی قسم کی اندرونی معلومات یا طاقت کے محور تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔چونکہ اس گروپ میں چند معتبر افراد بھی ہوتے ہیں، تو اس سے ان کو لگتا ہے کہ وہ مؤثر لوگوں کے قریب ہوگئے ہیں۔ اگر انھیں کسی معروف سیاسی لیڈر یا ورکر کے خلاف غلط بیانی موبائل پر ملتی ہے، تو وہ اس کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ جھوٹے پراپیگنڈا کو پھیلانے کا یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ ۲ستمبر ۲۰۱۸ء کو، ایک ٹویٹر صارف نے ایک غریب بھکاری کی ویڈیو ٹویٹ کی ، جس میں لکھا کہ ’اس کو مسلمانوں نے پیٹا ہے‘۔ ایک اداکارہ نے ۹۸ لاکھ فالوورز کے ساتھ اس خبر کو فارورڈ کرکے اعلان کیا کہ ’’جس شخص کی پٹائی کی جارہی ہے وہ ناگا سادھو سنیاسی ہے، جو ہندوؤں کے ایک طبقہ کے لیے نہایت ہی متبرک ہوتے ہیں‘‘۔اس کے بعد خدا کی پناہ، سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر افواہوں کا بدترین بازار گرم ہوگیا۔ ایک دن کے بعد تھانے کے ایس ایچ او اور دہرادون کے ایس ایس پی نے واضح کیا کہ ’’یہ شخص ناگا سادھو نہیں تھا بلکہ ایک عادی نشہ باز تھا ، جس نے ایک ہندو عورت کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اور اس عورت کے بھائی نے اس کی پٹائی کی‘‘۔یعنی اس پورے واقعے میں کوئی بھی مسلمان ملوث نہیں تھا۔ مگر اس ویڈیو کلپ نے اُس وقت تک اپنا کام کر دیا تھا، تردید پڑھنے کی بھلا کسے فرصت؟
سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’علاقائی پارٹیوں کو شکست دینے کے لیے ، بی جے پی نے ہندو ووٹ بینک کو تیار کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس کے لیے بابری مسجد ، رام مندر کو بار بار یاد دلانا اور یہ پیغام دینا کہ رام مند ر کو ایک مغل جنرل میر باقی نے ۱۵۲۸ء میں توڑ کر مسجد بنائی تھی۔ کتاب کے مطابق: ’’بی جے پی نے اپنے آپ کو ایک ایسی پارٹی میں ڈھالا ہے، جو ہندو مقاصدکی آبیاری کرتی ہے اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہے اور اپوزیشن ان کی خوشامد اور پذیرائی کرنے میں لگی ہوئی ہے‘‘۔ یہ کوئی حادثاتی نعرہ نہیں ہے، بلکہ بی جے پی کا انتخابی اور نسل پرستانہ برانڈ ہے۔
۲۰۱۷ء کے اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا کیے بغیر ۴۰۰ میں سے ۳۲۵ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔موجودہ انتخابات میں بھی پارٹی نے ایک ہی مسلم امیدوار کو کیرالا سے کھڑا کیا ہے، جو جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی کو اپنا ہندو ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے، کیونکہ پولرائزیشن میں اضافے سے ہی پارٹی کو انتخابی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔مسلمانوں کے علاوہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانش وروں کو بھی دشمنوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور وزیراعظم نریندرا مودی نے خود ان کے لیے ’اربن نکسل‘ اور ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ بی جے پی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مثبت ایجنڈے پر وہ انتخابات جیت نہیں سکتی ہے۔ مگر اس کے سامنے عملی مشکل ہے کہ دو اہم ایشوز یعنی ’گائے‘ اور ’پاکستان‘ کو وہ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں کیش کرا چکی ہے ۔ اب لے دے کے ۲۰۲۴ء کے لیے ’مسلمان‘ بچا ہے۔ لوگوں کو اُمید تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈے کو لے کر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو کرناٹک کے حالیہ صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا،جہاں ٹیپو سلطان سے لے کر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا ۔ یاد رہے مودی نے کئی انتہا پسند لیڈروں کو اس بار ٹکٹ نہیں دیے ، تاکہ خلیجی مسلم ممالک میں اپنی پارٹی کی شبیہہ کو تبدیل کرنے میں کامیابی ہو۔
تاہم، ابھی اچانک راجستھان میں نریندرا مودی نے جیسی زبان استعمال کی ہے، اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے، وہ سارے اندیشوں کو سچ ثابت کر رہی ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں یہ نفرت انگیز جملے بولتے ہوئے موصوف نے کہا ہے :’’اگرکانگریس اقتدار میں آئی تو وہ بھارت کی دولت ’دراندازوں‘ میں تقسیم کردے گی، جو زیادہ سے زیادہ بچّے پیدا کرتے ہیں‘‘۔ مودی کی اس بات پر جلسے میں زوردار نعرے بلند ہوئے، تو نریندرا مودی نے جوش میں آکر یہ کہا:’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی محنت کا کمایا ہوا پیسہ دراندازوں کو دے دیا جائے، کیا آپ یہ قبول کرو گے؟‘‘کہنے کو تو یہ ایک دو جملے ہیں، لیکن زہر کی تلخی بڑھانے کا بڑا مؤثر ہتھیار بھی ہیں۔ اس چیز نے صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کے میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ۲۰۲۴ء میں انڈیا کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جارہا ہے۔ یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ابھی تک جن علاقوں میں پولنگ ہوئی ہے، وہ بی جے پی کی توقعات کے برعکس نتائج ظاہر کر رہی ہے۔ اس لیے اب ان کو لگتا ہے کہ لازمی طور پر ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ہی ان سے ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں۔
فرانسیسی سیکولرزم کے تحت ۲۰۰۰ء کے اوائل میں، میں نے تحریک آزادئ نسواں سے وابستگی کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے حقوقِ نسواں کی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت سیکولرزم کے نام پر ایک قومی بحث چل رہی تھی کہ ’’کیا سیکولر سرکاری اسکولوں میں مسلم طالبات کو سر ڈھانپنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟‘‘ مہینوں کی بحث کے بعد، مارچ ۲۰۰۴ میں، فرانسیسی پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کرکے ’ہیڈ اسکارف‘ پر پابندی عائد کر دی۔ اسکولوں میں ’’ایسی علامتیں یا ملبوسات جو طالب علموں کی مذہبی وابستگی کو واضح کرتی ہوں‘‘ کا پہننا غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔
اس وقت میں نے محسوس کیا کہ یہ فیصلہ تحریکِ حقوقِ نسواں کے حلقوں میں کافی مقبول ہے، بشمول اس سفید فام گروہ کے، جس کا میں حصہ تھی۔ بہت سے سفید فام حقوقِ نسواں (Patriarchy) کی علَم برداروں (Feminists)کا خیال تھا کہ ان کا مشن مسلمان خواتین اور لڑکیوں کو اسلام سے جڑے اس خاص قسم کے پدرانہ برتری کے نظام سے نجات دلانا ہے ۔ اگر مسلم خواتین اس پدرانہ جبر کو برداشت کر رہی ہیں، اور حجاب پہننے کے معاملے میں ان کی اپنی کوئی مرضی یا آزادی نہیں ہے ،جس سے میں اختلاف کرتی ہوں، تو انھیں اسکولوں سے دور رکھنا کس طرح انھیں بنیادی حقوق تک رسائی دینے میں مدد کرے گا؟ میں نے یہ نقطۂ نظر اپنایا کہ ان کے تجربے کی وضاحت ثقافتی تسلط (cultural domination) کی عینک سے کرنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ خواتین اور لڑکیاں اپنے لیے خود کیا چاہتی ہیں؟
۱۹۰۵ء کا قانون، جس نے سب سے پہلے فرانس میں لادینیت /سیکولرزم کا اصول قائم کیا، آزادی کی ضمانت کے بارے میں تھا۔ اس نے بلا کسی عقیدے کی تفریق کے چرچ اور ریاست کی علیحدگی، فرانسیسی شہریوں کی مذہبی آزادی، اور قانون کے سامنے تمام شہریوں کے احترام کے نظام کو قائم کیا۔ سیکولرزم نے فرانسیسی ریاست اور قومی اداروں پر غیر جانب داری نافذ کی، لیکن شہریوں سے ذاتی غیر جانب داری کا مطالبہ نہیں کیا۔ مگر پھر ایک سو سال بعد ۲۰۰۴ءمیں سیکولرزم کے اصول کی تفہیم میں ایک اہم موڑ دیکھا گیا، جس میں ریاستی اسکولوں میں جانے والوں سے مذہب کے بارے میں غیر جانب دار رہنے، یا کم از کم اپنے عقائد کے بارے میں محتاط رہنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تعلیم ہی وہ واحد عوامی محکمہ تھا، جس پر ۲۰۰۴ء کا یہ قاعدہ لاگو ہوا۔
نائن الیون کے بعد، بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے تناظر میں، فرانس کے عوام کی اور میڈیا اور سیاسی طبقے کی یہ رائے بن گئی کہ مسلمانوں کے شناختی وجود (visibility) پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ طالب علموں کو ان قومی تعلیمی اداروں کی طرف سے تحفظ حاصل ہونا چاہیے، جس میں وہ شرکت کرتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انھوں نے خود کو کس طرح پیش کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن سیکولرزم کے اصول نے ترقی کر کے یہ مطالبہ بھی شامل کر لیا کہ لوگ مذہبی عقیدے کو مکمل طور پر نجی رکھیں، جب کہ ۲۰۰۴ءکا قانون تمام ’نمایاں‘ مذہبی علامتوں پر پابندی کے لیے بنایا گیا تھا، جس میں عیسائی صلیب بھی شامل تھی۔ لیکن یہ تو محض ایک حوالہ تھا، جب کہ عملی طور پر اس نے اسلام کے اظہار کو ہی نشانہ بنایا۔ اس طرح اس قانون نے پچھلے ۲۰ برسوں میں بے لگام اسلاموفوبیا کے تعاقب کے دروازے کھولے، جس کی علامتی اور متعین شناخت مسلم خواتین اور لڑکیوں کی ظاہری شکل میں کی گئی۔
۲۰۲۳ءمیں میکرون کی فرانسیسی حکومت نے ریاستی اسکولوں میں ’عبایا‘ (لمبے بازو والا لباس) پر ایک اور پابندی، وضاحت کیے بغیر، شامل کر دی، جس سے اسکولوں کو من مانے احکامات صادر کرنے کی گنجایش ملی۔ لمبے لباس اور عبایہ میں فرق بتانا مشکل ہے۔ بہت سی مسلمان لڑکیاں اور خواتین عام دکانوں پر بکنے والے ملبوسات سے جسم کو ڈھانپتی ہیں۔ لہٰذا، یہی لباس ایک مسلمان لڑکی کے لیے مذہبی سمجھا جاتا ہے، لیکن ایک غیر مسلم کے لیے آزادانہ طور پر قابلِ قبول تصور کیا جاتا۔ یہ نسلی امتیاز (Racial Profiling)نہیں تو کیا ہے؟
۲۰۱۱ءمیں عوامی و سرکاری مقامات پر اپنے چہرے کو ڈھانپنا غیرقانونی قرار دیا گیا۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ اس عمل سے صرف برقعوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ۲۰۱۶ء میں میونسپلٹیوں نے عوامی تالابوں اور ساحلوں میں ’برکینی‘ (burkini: یعنی پیراکی کے وقت پورے جسم کو ڈھانپنے والا لباس) پہننے پر پابندی لگانا شروع کی۔ اس حکم کے خلاف درخواست بھی عدالت میں ۲۰۲۲ء میں مسترد ہوگئی۔
حجاب پہننے والی خواتین کھلاڑیوں کو ٹیموں سے خارج کر دیا گیا،اور ان کے کھیلنے پر پابندی لگادی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جہاں فرانسیسی کھلاڑی اپنے ملک میں حجاب نہیں پہن سکیں گی، وہیں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے قوانین دوسرے ممالک کی خواتین کو حجاب پہننے کی اجازت دیں گے۔
سرکاری محکموں کے برعکس، نجی ملکیت کے کاروبارسیکولرزم کے قوانین کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن بہت سےاُلجھن کے شکار لوگ ان کو بھی ان قوانین کا پابند سمجھتے ہیں، جس کا مظہر اسٹراسبرگ شہر میں جوتوں کی دکان پر کام کرنے والی ایک با حجاب عارضی ملازمہ کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک میں یہ رویہ دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ سیکولرزم، جو آزادی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا، وہی ہراساں کرنے، ذلیل کرنے اور متعصبانہ سلوک کرنےکا ذریعہ بن گیا ہے۔
غیر یورپی خواتین کے ساتھ اس طرح کا سرپرستانہ سلوک (Patronising) اور ان کے ’تسلیم کرنے‘ (Submission) کے بارے فرضی گمان کی نفسیات فرانسیسی نوآبادیاتی دور سے جا ملتی ہے۔ نوآبادیاتی الجزائر کی خواتین کی عوامی نقاب کشائی کی تقریبات، فوج نے ۱۹۵۰ کے عشرے میں اس لیے کی تھیں تاکہ ’یکسانیت‘ (Assimilation) ’تسلیم‘ (Submission) اور ’تہذیب‘ (Civilisation) کو وہاں فروغ دیں۔ عورتوں کی نقاب کشائی کا عمل نوآبادیات اور وہاں کے لوگوں کے جسموں پر کنٹرول جمائے رکھنے کا ایک طریقہ تھا۔
MeToo [’میں بھی نشانہ بنی‘]کے دورکے بعد، ایسے اقدامات جو خواتین کی ’جسمانی خودمختاری‘ پر حاوی نظر آتے ہیں، کھلی مذمت کے مستحق ہیں۔ خواتین کو یہ انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے جسم کو کس طرح ڈھانپنے کا انتخاب کریں یا نہ کریں۔
مگر مذہبی نشانات کی کھوج کی خواہش نے مسلمانوں کے لیے عدم برداشت کی فضا پیدا کردی ہے، جو خواتین کو نشانہ بنانے سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ داڑھیوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے، اور ایک مسلمان شخص کی پولیس میں بھرتی کی درخواست اس لیے مسترد کی گئی کیونکہ اس کی پیشانی پر کثرتِ سجود سے نشان بنا ہوا تھا۔ ابھی حال ہی میں، فرانسیسی فٹ بال فیڈریشن نے فیصلہ صادر کیا ہے کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو رمضان میں روزے رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
مسلمانوں کے لیے یہ پیغام بہت واضح ہے کہ وہ ثقافتی طور پر ’ضم‘ (assimilate) ہوجائیں یا عوامی حلقوں سے دُور رہیں۔ یہ کوئی بڑی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مسلم افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد فرانس چھوڑ کر جا رہی ہے۔
حال ہی میں پیرس کے ایک ہائی اسکول کے پرنسپل نے آن لائن، دھمکیاں موصول ہونے پر ملازمت چھوڑ دی جب ایک طالبہ کے ساتھ اس بات پر چپقلش ہوئی کہ وہ نقاب اتار دے۔ طالبہ جس کی عمر ۱۸سال سے زیادہ تھی، نے یہ الزام لگایا کہ اس پر جسمانی حملہ کیا گیا، مگر عدالت نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔ اس معاملے میں وزیراعظم گیبریل اٹل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ریاست پرنسپل پر بدسلوکی کا جھوٹا الزام لگانے پر طالبہ پر مقدمہ دائر کرے گی‘‘۔
۲۰ سال گزرنے کے باوجود نقاب پر پابندی اور مسلم لباس کے لیے عدم برداشت کی شکل میں فردِ جرم عائد کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ اسکولوں کو ابھی تک اس قانون کے نفاذ میں مشکل پیش آرہی ہے۔ بہت سے مسلمان اسے امتیازی سلوک سے تعبیر کرتے ہیں جو اکثر اس حد تک تناؤ کی شکل اختیار کرجاتا ہے کہ اکثر حکومتی مداخلت کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ اپنی جگہ یہ قانون ایک صریح ناکامی ہے۔
مثبت خبر یہ ہے کہ مسلمان اور خاص طور پر مسلم خواتین نے گذشتہ ۲۰ برسوں میں نت نئے مزاحمتی طریقے تلاش کیے ہیں۔ انھوں نے مختلف تنظیمیں بنائی ہیں جیسا کہ:’Lallab‘ ، جو مسلم خواتین کے بارے میں بیانیوں کو چیلنج کرتی ہے۔ پھر ’Mums are All Equal‘ ،جو حجاب پہننے والی ماؤں کو اپنے بچوں کی سکول کی زندگیوں میں شامل ہونے کی حمایت کرتی ہے، اور Les Hijabeuses ، حجاب پہننے والی خواتین کی فٹ بال ٹیم۔
خوش قسمتی سے، نوجوان نسل سیکولرزم کے مسخ شدہ تصور کو مسترد کر رہی ہے۔ اُمید ہے کہ وہ ایک ایسا مستقبل تعمیر کر پائیں گے جو ہر شہری کے لیے خوش آیند اور اسے خوش آمدید کہنے والا ہو، چاہے وہ کچھ بھی اپنا سر ڈھانپنے کے لیے انتخاب کرتے ہوں۔ جب یہ ہدف حاصل ہو جائے، تب ہی یہ ملک ایک مستند آزاد فرانسیسی معاشرہ سمجھا جائے گا۔
سوال: ایمان بالغیب کے حوالے سے عام انسان اور رسول میں کیا فرق ہے؟
جواب: ایمان بالغیب کے لحاظ سے عام انسان اور رسول میں یہ فرق ہے کہ عام انسانوں کو اللہ تعالیٰ وہ علم نہیں دیتا جو رسول کو دیتا ہے۔ اس وجہ سے عام انسانوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ رسول پر ایمان لائیں، اور جو علم رسول انھیں دیتا ہے اسے تسلیم کریں، اور اس کی پیروی کریں۔ ایمان بالغیب عام انسانوں کے لیے اور رسولوں کے لیے علم بالشہادۃ ہوتا ہے۔(آئین، ۲۱؍اپریل ۱۹۷۶ء)
سوال: بوڑھی والدہ کی خدمت کے خیال سے اگر شادی نہ کی جائے تو شریعہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: شادی کرنا فرض تو نہیں ہے، ہاں سنت ہے، اور ایک بڑی اہم سنت ہے۔ اگر شادی نہ کی جائے تو اس سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کئی دائروں میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ والدہ ضعیف ہیں تو ان کی خدمت کرنا آپ کا فرض ہے۔ لیکن محض اس بنیاد پر شادی نہ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ شادی کرنے کے بعد آپ اپنی والدہ کی خدمت اور زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔