اجتماعی زندگی میں ایک درجہ ان خرابیوں کا ہے جن کے لیے موزوں ترین نام ’مزاج کی بے اعتدالی‘ ہے۔ نفسانیت کے مقابلے میں یہ ایک ’معصوم نوعیت‘ کی کمزوری ہے، کیونکہ اس میں کسی بدنیتی، کسی بُرے جذبے ، کسی ناپاک خواہش کا دخل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن خرابی پیدا کرنے کی قابلیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بسااوقات اس کے اثرات و نتائج اتنے ہی خراب ہوتے ہیں، جتنے نفسانیت کے اثرات و نتائج۔
مزاج کی بے اعتدالی کا فطری نتیجہ نظروفکر کی بے اعتدالی اور عمل و سعی کی بے اعتدالی ہے، اور یہ چیز زندگی کے حقائق سے براہِ راست متصادم ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بے شمار متضاد عناصر کی مصالحت اوربہت سے مختلف عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے۔ جس دُنیا میںا نسان رہتا ہے، اس کا بھی یہی حال ہے۔ انسانی افراد میں سے ہرایک فرداً فرداً بھی ایسا ہی بنایا گیا ہے، اور انسانوں کے ملنے سے جو اجتماعی ہیئت بنتی ہے، اس کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اس زندگی میں کام کرنے کے لیے فکرونظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے، جو مزاجِ کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔
حالات کے ہرپہلو پر نگاہ رکھی جائے، معاملات کے ہررُخ کو دیکھا جائے، ضرورت کے ہرگوشے کو اس کا حق دیا جائے، فطرت کے ہرتقاضے کو ملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو، مگر یہاں کامیابی کے لیے بہرحال اعتدال ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہوگا اتنا ہی مفید ہوگا، اور جس قدر وہ اس سے دُور ہوگا، اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہوکر نقصان کا موجب بنے گا۔ دُنیا میں آج تک جتنا بھی فساد رُونما ہوا ہے اور آج رُونما ہے، اسی وجہ سے ہے کہ غیرمتوازن دماغوں نے انسانی مسائل کو یک رُخے پن سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوششیں کیں، ان کو حل کرنے کے لیے غیرمتوازن اسکیمیں بنائیں، اور ان کو نافذ کرنے کے لیے غیرمعتدل طریقے اختیار کیے۔ یہی بگاڑ کا اصل سبب ہے، اور بنائو کا جو کچھ کام بھی ہوسکتا ہے فکرونظر کے توازن اور طریقِ عمل کے اعتدال ہی سے ہوسکتا ہے۔
یہ وصف خاص طور پر تعمیرواصلاح کی اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے، کیونکہ وہ بجائے خود توازن و اعتدال کے انتہائی کمال کا نمونہ ہے۔ اس کو کتابوں کے صفحات سے واقعات کی دُنیا میں منتقل کرنے کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ وہی کارفرما اور کارکن موزوں ہوسکتے ہیں، جن کی نظر اسلام کے نقشۂ تعمیر کی طرح متوازن اور جن کا مزاج اسلام کے مزاجِ اصلاح کی طرح معتدل ہو۔ افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے انتہا پسند لوگ اس کام کو بگاڑ تو سکتے ہیں، بنا نہیں سکتے۔
نتائج کے اعتبار سے بے اعتدالی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بالعموم ناکامی کی موجب ہوتی ہے۔ نظامِ زندگی میں اصلاح و تغیر کی کوئی اسکیم بھی لے کر آپ اُٹھیں، آپ کی کامیابی کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ خود اس کے برحق ہونے پرمطمئن ہوں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عام انسانوں کو اس کے صحیح، مفید اور قابلِ عمل ہونے پر مطمئن کردیں، اور اپنی تحریک کو اس شکل میں لائیں اور ایسے طریقے سے چلائیں، جس سے لوگوں کی اُمیدیں اور غایتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی چلی جائیں۔ یہ بات صرف اسی تحریک کو نصیب ہوسکتی ہے، جو نظروفکر میں بھی متوازن اور طریقِ عمل میں بھی متوازن ہو۔
ایک انتہاپسندانہ اسکیم جو انتہاپسندانہ طریقوں سے چلائی جائے، عام انسانوں میں اپنے لیے رغبت اور اُمید پیدا کرنے کے بجائے معترض اور غیرمطمئن بناتی ہے، اور اس کی یہ صفت خود ہی اس کی قوتِ تبلیغ اور قوتِ نفوذ کو ضائع کریتی ہے۔ اس کو بنانے اور چلانے کے لیے کچھ انتہاپسندلوگ اکٹھے ہوجائیں، تو سارے معاشرے کو اپنے جیسا انتہاپسند بنا لینا اور دُنیا بھر کی آنکھیں حقائق سے بند کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔خود اس جماعت کے لیے یہ چیز زہر کا حکم رکھتی ہے، جو اجتماعی اصلاح و تعمیر کا کوئی پروگرام لے کر اُٹھی ہو اور یہ آسان کام نہیں ہے۔
اس مقام پر بھی بے اعتدالی رُک جائے تو خیریت ہے۔ لیکن اگر اسے خوبی سمجھ کر مزید پرورش کیا جائے، تو پھر معاملہ بدمزاجی اور چڑچڑے پن اور تیززبانی اور دوسروں کی نیتوں پر شک اور حملوں تک پہنچ جاتا ہے، جو کسی اجتماعی زندگی میں نبھنے والی چیز نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کام انفرادی کوششوں سے کرنے کے نہیں ہوتے، بلکہ جن کی نوعیت ہی اجتماعی ہوتی ہے، انھیں انجام دینے کے لیے بہرحال بہت سے لوگوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہرایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی بات سمجھنی ہوتی ہے۔ طبیعتوں کا اختلاف، قابلیتوں کا اختلاف، ذاتی خصوصیات کا اختلاف اپنی جگہ رہتا ہے۔ اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے، جس کے بغیر کوئی تعاون ممکن نہیں ہوتا۔ اس موافقت کے لیے کسرواِنکسار ناگزیر ہے اور یہ کسرواِنکسار صرف معتدل مزاج کے لوگوں ہی میں ہوسکتا ہے، جن کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبیعتیں بھی۔ متوازن اور غیرمتوازن لوگ جمع بھی ہوجائیں تو زیادہ دیر تک جمع رہ نہیں سکتے۔ ان کی جمعیت پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی ، اور جن ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر ایک ایک قسم کے عدم توازن کے مریض جمع ہوں گے،ان میں پھر تفرقہ رُونما ہوگا، یہاں تک کہ آخرکار ایک ایک امام، مقتدیوں کے بغیر ہی کھڑا نظر آئے گا۔
جن لوگوں کو اسلام کے لیے کام کرنا ہو اور جنھیں جمع کرنے والی چیز اسلامی اصول پر نظامِ زندگی کی اصلاح و تعمیر کرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو، انھیں اپنا محاسبہ کرکے اس بے اعتدالی کی ہرشکل سے خود بھی بچنا چاہیے، اور ان کی جماعت کو بھی یہ فکر ہونی چاہیے کہ اس کے دائرے میں یہ مرض نشوونما نہ پائے۔ اس باب میں کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی وہ ہدایات ان کے پیش نظررہنی چاہییں، جو انتہاپسندی اور شدت سے منع کرتی ہیں۔
قرآن جس چیز کو اہل کتاب کی بنیادی غلطی قرار دیتا ہے وہ غلو فِی الدِّیْن ہے، يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ (المائدہ ۵:۷۷)،اور اس سے بچنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
اِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فَاِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِالْغُلُوِ فِی الدِّیْنِ (مسنداحمد، مسند عبداللہ بن عباسؓ،حدیث:۳۱۴۴)، خبردار! انتہاپسندی میں نہ پڑنا، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں انتہاپسندی اختیار کرکے ہی تباہ ہوئے ہیں۔
ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطاب میں تین بار فرمایا: ھَلَکَ الْمُتَنِطِّعُوْنَ ’’برباد ہوگئے شدت اختیار کرنے والے، مبالغے اور تعمق سے کام لینے والے‘‘۔ دعوتِ محمدیؐ کا امتیازی وصف اس کے لانے والے نے یہ بتایا ہے کہ بُعِثْتُ بِالْحَنِیْفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ ، یعنی آپ پچھلی اُمتوں کے افراط و تفریط کے درمیان وہ حنیفیت لے کر آئے ہیں جس میں وسعت اور معاملاتِ زندگی کے ہرپہلو کی رعایت ہے۔ اس دعوت کے علَم برداروں کو جس طریقے پر کام کرنا چاہیے وہ اس کے داعی اوّلؐ نے یہ سکھایا ہے:
ان جامع ہدایات کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ، اسلامی نظامِ زندگی کے لیے کام کرنے والے لوگ اگر قرآن و سنت سے اپنے مطلب کی چیزیں چھانٹنے کے بجائے اپنے مزاج اور نقطۂ نظر کو ان کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں ، تو ان کے اندر آپ سے آپ وہ توازن اور توسط و اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دُنیا کے حالات و معاملات کو قرآن و سنت کے دیے ہوئے نقشے پر درست کرنے کے لیے درکار ہے۔
اس مرض میں جو شخص مبتلا ہو، وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجایش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے، اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہررعایت چاہتا ہے، مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں، اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرسکتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی رائے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الائونس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الائونس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کیے بغیر وہ ان سے انتہائی مطالبات کرتا ہے، جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی ہے تو آگے چل کر خوردہ گیری اور عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے، [مگر] جوابی عیب چینی پر بلبلا اُٹھتا ہے۔
اسی ’تنگ دلی‘ کی ایک اور شکل ’زُود رنجی‘، ’نک چڑھاپن‘ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے، جو اجتماعی زندگی میں اس شخص کے لیے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو اور ان لوگوں کے لیے بھی مصیبت جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔
کسی جماعت کے اندر اس بیماری کا گھس آنا حقیقت میں ایک خطرے کی علامت ہے۔ اجتماعی جدوجہد بہرحال آپس کی اُلفت اور باہمی تعاون چاہتی ہے، جس کے بغیر چار آدمی مل کر بھی کام نہیں کرسکتے۔ مگر یہ تنگ دلی اس کے امکانات کو کم ہی نہیں، بسااوقات ختم کردیتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ تعلقات کی تلخی اور باہمی منافرت ہے۔ یہ دلوں کو پھاڑ دینے والی، اور ساتھیوں کو آپس میں اُلجھا دینے والی چیز ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوں، وہ عام معاشرتی زندگی کے لیے بھی موزوں نہیں ہوسکتے، کجا یہ کہ کسی مقصد ِ عظیم کی خدمت کے لیے موزوں قرار پاسکیں۔
خصوصیت کے ساتھ یہ صفت ان صفات کے بالکل ہی برعکس ہے، جو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔ جو تنگ دلی کے بجائے فراخ دلی، بخل کے بجائے فیاضی، گرفت کے بجائے عفو و درگزر، اور سخت گیری کے بجائے مراعات چاہتا ہے۔ اس کے لیے حلیم اور متحمل لوگ درکار ہیں۔ اس کا بیڑا وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو بڑا ظرف رکھتے ہیں، جن کی سختی اپنے لیے اور نرمی دوسروں کے لیے ہو، جو خود کم سے کم الائونس چاہیں، اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ الائونس دیں، جو اپنے عیوب اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں، جو تکلیف دینے کے بجائے تکلیف سہنے کے خوگر ہوں، اور چلتوں کو گرانے کے بجائے گرتوں کو تھامنے کا بل بوتا رکھتے ہوں۔
جو جماعت ایسے لوگ پر مشتمل ہوگی، وہ نہ صرف خود آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑی رہے گی، بلکہ اپنے گردوپیش کے معاشرے میں بھی بکھرے ہوئے اجزا کو سمیٹتی اور اپنے ساتھ جوڑتی چلی جائے گی۔ اس کے برعکس تنگ دل اور کم ظرف لوگوں کا مجمع خود بھی بکھرے گا، اور باہر بھی جس سے اس کو سابقہ پیش آئے گا، اسے نفرت دلا کر اپنے سے دُور بھگا دے گا۔ (تحریکِ اسلامی کی کامیابی کی شرائط)