یہ ۲۰۱۴ء کی بات ہے، انڈیا کے عام انتخابات کو کورکرنے کے لیے مَیں صوبہ بہار کے سمستی پور قصبہ میں گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہوٹل کے سامنے ہی ایک مقامی منیجر کے کمرے میں قصبے کے سیاسی کارکن اور دانش ور شام کو جمع ہوتے ہیں، جہاں ایک مقامی کلب جیسا ماحول ہوتا ہے۔ سیاسی ماحول جاننے کے لیے میں بھی ان کے کلب میں پہنچا۔
نئی دہلی کے صحافی کی اپنے دفتر میں کوئی عزت و وقعت ہو یا نہ ہو، مگر دارلحکومت کے باہر قدم رکھتے ہی اس کا وقار خاصا بلند ہو جاتا ہے۔ اس کلب نما کمرے میں، پُرتپاک انداز سے میرا استقبال ہوا۔ ایک مقامی سیاسی کارکن نے گفتگو کے درمیان کہا کہ ’’اگر ان انتخابات میں نریندر مودی جیت جاتے ہیں، تو بھارت ہی نہیں، پوری دنیا میں آیندہ انتخابات کے لڑنے کا طریق کار ہی بدل جائے گا‘‘۔ مزید کہا: ’’یہ انتخاب روایتی طریقوں، انسانی احساسات اور ٹکنالوجی کے درمیان ایک جنگ ہے‘‘۔ دراصل ان انتخابات میں پہلی بار سوشل میڈیا اور ٹکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ، مودی نے بہت سی افواہیں اور آدھا سچ پھیلا کر عوام کی ذہن سازی کرکے اکثریت حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
اس نئی انتخابی حکمت عملی کے خالق تو بی جے پی کے لیڈر اور مودی کے گورو کیشو بائی پٹیل ہیں، جنھوں نے ۱۹۹۵ءمیں گجرات کے صوبائی انتخابات میں چھوٹے چھوٹے کیم کارڈرز کا استعمال کیا، جس کے لیے برطانیہ میں پارٹی کے ہمدرد افراد بڑی تعداد میں اپنے ساتھ یہ کیمرے لے کر آگئے۔ انتخابی مہم کے دوران وہ کیم کارڈرز ہاتھ میں لیے ریکارڈنگ کرتے نظر آتے تھے۔ ان کارڈوں نے انتخابی مہم میں ایسا رنگ ڈالا کہ کانگریس کی انتخابی مہم میں بھنگ پڑگئی اور تب سے اب تک اس صوبہ میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
اسی طرح انتخابات میں ٹکنالوجی کے استعمال کو بہار کے ایک شہری پرشانت کشور نے ایک انتہا تک پہنچادیا۔ موصوف اقوام متحدہ کے صحت عامہ پراجیکٹ میں کام کرنے کے بعد ملک میں واپس آئے تھے۔ انھوں نے سڑکوں پر گاجے باجے کے بجائے، موبائل فونز پر ایس ایم ایس، اور دیگر پلیٹ فارمز کی مدد سے مہم چلاکر براہِ راست عوامی ذہنوں کو متاثر کرنے کا بیڑا ٹھایا۔ ان کی پہلی محدود مہم ۲۰۱۲ء میں اس وقت رُوبہ عمل آئی تھی، جب مودی، گجرات صوبہ کے تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ ایک بار کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے مجھے بتایا تھا: کشور میری دریافت تھی جنھیں بھارت واپس آکر اپنے دفتر میں کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔
کشور نے ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر مودی کے لیے کام کرکے قطعی اکثریت حاصل کروانے میں مدد دی اور پھر ایک سال بعد الگ ہوکر بہار میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے اتحاد کے لیے کام کرکے بی جے پی کو ہروا دیا۔
پرشانت کشور کے دوست شیوم شنکر سنگھ نے کتاب How to Win an Indian Election? میں ایسے طور طریقوں کو بیان کیا ہے،جن سے موجودہ دور میں انتخابات کی جیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ مودی کے لیے چائے بیچنے والا یا نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والا برانڈ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت بنایا گیا تھا۔ پھر آن گراؤنڈ اور آن لائن مہم کے مؤثر امتزاج سے کانگریس اور گاندھی خاندان کے خلاف ایک بھرپور منفی فضا پیدا کی گئی۔ ایسی فضا شاید ہی خودبخود بنتی ہو۔ عوامی ذہنوں کو اپنی گرفت میں لینے والے ایک آئیڈیا کے لیے بڑی محنت اور مسلسل تکرار درکار ہوتی ہے، جسے جدید ٹکنالوجی نے آسان بنا دیا ہے۔
شیوم سنگھ نے پرشانت کشور سے الگ ہوکر اپنی تمام مہارت بی جے پی کے سپرد کردی۔ سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا سب سے بڑا کارنامہ ۲۰۱۸ء میں شمال مشرقی صوبہ تری پورہ کو کمیونسٹوں سے چھیننا قرار دیا گیا، جو اس صوبہ پر ۲۵برسوں سے بر سر اقتدار تھے۔ ۲۰۱۳ء کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو کل ووٹوں کا محض ۱ء۵۴ فی صد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ریاست کے وزیر اعلیٰ سی ایم مانک سرکار نے ایک سادہ آدمی کی حیثیت سے صاف ستھرے اور مخلص ہونے کی مضبوط ساکھ بنا رکھی تھی۔ یہ انتخابات دو مخالف نظریاتی دھڑوں دائیں اور بائیں بازو کی جنگ تھی۔ ڈیٹا پر کام کرتے ہوئے سنگھ اور اس کی پارٹی نے ویژولائزیشن ٹولز بنانے پر توجہ مرکوز کی، نقشوں پر ڈیٹا پلاٹ کرنے اور بار گرافس اور چارٹس جیسے دیگر گرافیکل فارمیٹس تشکیل دیے۔ ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ مل کر ایک موبائل ایپ پر بھی کام کیا، جو ڈیٹا کو پارٹی رہنماؤں کے لیے آسان بناتا تھا۔ صوبہ کے قبائلی، کمیونسٹ حکومت سے نالاں ہیں۔ اس ناراضی اور پھر ڈیٹا کی بھر مار کا ایک ایسا مجموعہ حرکت میں لایا گیا ، جس نے کمیونسٹوں کو زچ کردیا اور بی جے پی کا ووٹ بینک ایک فی صد سے اُٹھا کر ۳۶ فی صد تک پہنچا دیا۔
سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پاس پہلے سے راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کیڈر کی طاقت موجود ہے۔ آر ایس ایس نے ملک بھر میں ووٹر لسٹ کے ایک ایک صفحے پر انچارج تعینات کر رکھے ہیں۔ یہ انچارج ووٹر لسٹ کے ایک صفحے پر درج تمام ووٹروں کے درمیان رسائی اور مہم کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور جو اوسطاً ساٹھ ناموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ایک بار جب کسی پارٹی نے ووٹروں کی ذاتوں اور مذاہب کو انتخابی فہرست میں ان کے ناموں کے ساتھ کمپیوٹر کے سافٹ ویئر میں درج کرادیا، تو اگلا مرحلہ ان کے فون نمبر حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا بروکرز کے پاس سے دستیاب رہتا، جنھوں نے ممکنہ طور پر اسے ٹیلی کام کمپنیوں کے نچلے درجے کے ملازمین یا سم کارڈ ڈیلرز سے حاصل کررکھا ہوتا ہے۔
بھارت میں اس وقت ۵۳۵ملین واٹس ایپ صارفین ہیں۔ سنگھ کے مطابق مغربی ممالک کے برعکس بھارت میں دیہات کے سفر میں احساس ہوا کہ ووٹروں کا خیال ہے کہ سیاسی واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے سے انھیں کسی قسم کی اندرونی معلومات یا طاقت کے محور تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔چونکہ اس گروپ میں چند معتبر افراد بھی ہوتے ہیں، تو اس سے ان کو لگتا ہے کہ وہ مؤثر لوگوں کے قریب ہوگئے ہیں۔ اگر انھیں کسی معروف سیاسی لیڈر یا ورکر کے خلاف غلط بیانی موبائل پر ملتی ہے، تو وہ اس کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ جھوٹے پراپیگنڈا کو پھیلانے کا یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ ۲ستمبر ۲۰۱۸ء کو، ایک ٹویٹر صارف نے ایک غریب بھکاری کی ویڈیو ٹویٹ کی ، جس میں لکھا کہ ’اس کو مسلمانوں نے پیٹا ہے‘۔ ایک اداکارہ نے ۹۸ لاکھ فالوورز کے ساتھ اس خبر کو فارورڈ کرکے اعلان کیا کہ ’’جس شخص کی پٹائی کی جارہی ہے وہ ناگا سادھو سنیاسی ہے، جو ہندوؤں کے ایک طبقہ کے لیے نہایت ہی متبرک ہوتے ہیں‘‘۔اس کے بعد خدا کی پناہ، سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر افواہوں کا بدترین بازار گرم ہوگیا۔ ایک دن کے بعد تھانے کے ایس ایچ او اور دہرادون کے ایس ایس پی نے واضح کیا کہ ’’یہ شخص ناگا سادھو نہیں تھا بلکہ ایک عادی نشہ باز تھا ، جس نے ایک ہندو عورت کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اور اس عورت کے بھائی نے اس کی پٹائی کی‘‘۔یعنی اس پورے واقعے میں کوئی بھی مسلمان ملوث نہیں تھا۔ مگر اس ویڈیو کلپ نے اُس وقت تک اپنا کام کر دیا تھا، تردید پڑھنے کی بھلا کسے فرصت؟
سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’علاقائی پارٹیوں کو شکست دینے کے لیے ، بی جے پی نے ہندو ووٹ بینک کو تیار کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس کے لیے بابری مسجد ، رام مندر کو بار بار یاد دلانا اور یہ پیغام دینا کہ رام مند ر کو ایک مغل جنرل میر باقی نے ۱۵۲۸ء میں توڑ کر مسجد بنائی تھی۔ کتاب کے مطابق: ’’بی جے پی نے اپنے آپ کو ایک ایسی پارٹی میں ڈھالا ہے، جو ہندو مقاصدکی آبیاری کرتی ہے اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہے اور اپوزیشن ان کی خوشامد اور پذیرائی کرنے میں لگی ہوئی ہے‘‘۔ یہ کوئی حادثاتی نعرہ نہیں ہے، بلکہ بی جے پی کا انتخابی اور نسل پرستانہ برانڈ ہے۔
۲۰۱۷ء کے اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا کیے بغیر ۴۰۰ میں سے ۳۲۵ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔موجودہ انتخابات میں بھی پارٹی نے ایک ہی مسلم امیدوار کو کیرالا سے کھڑا کیا ہے، جو جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی کو اپنا ہندو ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے، کیونکہ پولرائزیشن میں اضافے سے ہی پارٹی کو انتخابی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔مسلمانوں کے علاوہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانش وروں کو بھی دشمنوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور وزیراعظم نریندرا مودی نے خود ان کے لیے ’اربن نکسل‘ اور ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ بی جے پی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مثبت ایجنڈے پر وہ انتخابات جیت نہیں سکتی ہے۔ مگر اس کے سامنے عملی مشکل ہے کہ دو اہم ایشوز یعنی ’گائے‘ اور ’پاکستان‘ کو وہ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں کیش کرا چکی ہے ۔ اب لے دے کے ۲۰۲۴ء کے لیے ’مسلمان‘ بچا ہے۔ لوگوں کو اُمید تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈے کو لے کر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو کرناٹک کے حالیہ صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا،جہاں ٹیپو سلطان سے لے کر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا ۔ یاد رہے مودی نے کئی انتہا پسند لیڈروں کو اس بار ٹکٹ نہیں دیے ، تاکہ خلیجی مسلم ممالک میں اپنی پارٹی کی شبیہہ کو تبدیل کرنے میں کامیابی ہو۔
تاہم، ابھی اچانک راجستھان میں نریندرا مودی نے جیسی زبان استعمال کی ہے، اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے، وہ سارے اندیشوں کو سچ ثابت کر رہی ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں یہ نفرت انگیز جملے بولتے ہوئے موصوف نے کہا ہے :’’اگرکانگریس اقتدار میں آئی تو وہ بھارت کی دولت ’دراندازوں‘ میں تقسیم کردے گی، جو زیادہ سے زیادہ بچّے پیدا کرتے ہیں‘‘۔ مودی کی اس بات پر جلسے میں زوردار نعرے بلند ہوئے، تو نریندرا مودی نے جوش میں آکر یہ کہا:’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی محنت کا کمایا ہوا پیسہ دراندازوں کو دے دیا جائے، کیا آپ یہ قبول کرو گے؟‘‘کہنے کو تو یہ ایک دو جملے ہیں، لیکن زہر کی تلخی بڑھانے کا بڑا مؤثر ہتھیار بھی ہیں۔ اس چیز نے صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کے میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ۲۰۲۴ء میں انڈیا کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جارہا ہے۔ یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ابھی تک جن علاقوں میں پولنگ ہوئی ہے، وہ بی جے پی کی توقعات کے برعکس نتائج ظاہر کر رہی ہے۔ اس لیے اب ان کو لگتا ہے کہ لازمی طور پر ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ہی ان سے ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں۔