۱۹۹۰ء سے بھارتی مسلح افواج نے کشمیر کے آزادی پسند عوام کے خلاف دہشت گردی کا راج مسلط کر رکھا ہے، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ ۱۶ سے زیادہ بنیادی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس جائز، قانونی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ مطالبے کے جواب میں بھارتی قابض فوج کی وحشیانہ کارروائیوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک ۱۵ سے ۳۰ سال کی عمر کے نوجوانوں سمیت مقبوضہ جموں و کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ کشمیری مسلمان خواتین کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ غیرجانب دار اور بین الاقوامی این جی اوز کے مطابق ۱۰ہزار سے زائد افراد لاپتا ریکارڈ ہوچکے ہیں۔ کشمیر میں ہندستانی دانش وروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بڑی تگ و دو کے بعد اجتماعی قبریں دریافت کیں، لیکن مزید تلاش ترک کردی گئی ہے کیونکہ ان اجتماعی قبروں کی تلاش میں ملوث افراد کو ہندستانی حکام نے گرفتار یا ملک بدر کر دیا۔
بھارت نے پیلٹ گن کا بے دردی سے استعمال کیا ہے اور اس وحشت کاری میں ۹ سال کی عمر کے کمسن کشمیری بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ ایسے متاثرین میں سے سیکڑوں بچّے نابینا ہو چکے ہیں۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے، نریندر مودی کی سربراہی میں ہندو نسل پرست حکومت نے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور اے-۳۵ کو منسوخ کردیا ہے۔ اس کے بعد غیر کشمیریوں کو ملازمتیں حاصل کرنے اور مقبوضہ وادی میں جائیداد خریدنے میں سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔ اس کے بعد سے، لاکھوں آرایس ایس کے عسکریت پسند ہندوؤں کو کشمیر پہنچایا گیا ہے اور انھیں رہائشی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔
مقدس مقامات کی زیارت کے بہانے روزانہ ہزاروں ہندوؤں کو کشمیر لے جایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں سے (سیکورٹی ایشوز کی آڑ میں) بہت بڑی اراضی ضبط کی جا رہی ہے، تاکہ باہر سے آنے والے ہندوؤں کے لیے بستیاں بنائی جا سکیں۔ اصل کھیل اور منصوبہ تو یہاں پر مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنا اور انھیں روزگار، جائیداد اور عزّت و احترام اور تحفظ سے محروم کرنا ہے۔
نوجوانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے اور فوج کے سرچ آپریشن کے دوران انھیں گرفتار کر کے فوجی کیمپوں میں لے جاکر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، معذور کیا جاتا ہے یا پھر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان کے لواحقین اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں اگر وہ ان کی لاشیں حاصل کرسکیں۔ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں مظالم میں اضافے کا حوصلہ ملا ہے۔ کشمیر کے بے بس عوام آزادی پسند لوگوں سے التجا کررہے ہیں کہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کے حق میں آواز بلند کریں، چاہے وہ واشنگٹن ہو، لندن ہو، برسلز ہو، پیرس ہو، ٹوکیو ہو یا کوئی اور۔
کشمیر کا المیہ فلسطینیوں کے المیے کے مترادف ہے اور کئی صورتوں میں اُن سے بڑھ کر اذیت ناک صورتِ حال پیش کرتا ہے۔ کشمیری اور فلسطینی اپنے حقوق اور آزادیوں کو تسلیم کرانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں او ر انتہائی جارحیت پسند ریاستوں کے ہاتھوں کچلے جارہے ہیں۔ ۱۲؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جب اسرائیل غزہ پر بے دردی سے مسلسل فضائی حملے کر رہا تھا، ہندستان میں اسرائیل کے سفیر، نور گیلن نے ایشین نیوز انٹرنیشنل کو بتایا کہ انھیں ہندستان میں لوگوں کی طرف سے اتنی زیادہ حمایت ملی کہ وہ صرف ہندستانی رضاکاروں سے ایک اور اسرائیلی فوج کو بھرتی کرسکتے ہیں: ’’ہر کوئی مجھے کہہ رہا ہے کہ 'میں رضاکارانہ طور پر اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہوں، میں اسرائیل کے لیے لڑنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس نے کہا: ’’ہندو قوم پرست کھلے عام اور زوروشور سے اس بات پر جشن مناتے ہیں کہ جو کچھ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے‘‘۔ نسل پرست بی جے پی کے کارکنوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل ہمیں نسلی تطہیر کا سبق دے رہا ہے کیونکہ ہم کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بالکل یہی کرنے جا رہے ہیں۔ ہم ہندو جنونیوں کو بھارتی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے، خواتین کی عصمت دری کرنے اور قتل و غارت گری کے لیے بھیجیں گے کیونکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ یہی کرنا چاہتے ہیں‘‘۔(دی یروشلم پوسٹ، ۲۱جنوری ۲۰۲۴ء)
قانون کے پروفیسر ڈاکٹر خالد ابو الفضل نے Usuli انسٹی ٹیوٹ چینل پر یو ٹیوب لائیو سٹریم میں کہا کہ ’’غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے بدترین قتل عام میں سے کچھ حملے اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے والے ہندستانی فوجیوں کی طرف سے کیے گئے ہیں‘‘۔ اس بات کا انکشاف میموری ٹی وی نے ایک رپورٹ میں کیا ہے۔معروف اخبار ہارٹز (Haarretz) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق: ’’اسرائیل، بھارت کو اسلحہ فروخت کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے‘‘۔ ہتھیاروں کی نگرانی کرنے والے اداروں کے مطابق، بھارت اسرائیلی ساختہ اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے، جو ہرسال ایک بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرتا ہے، جس میں آنے والے برسوں میں کئی گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ کشمیر اور فلسطین کے لیے شدید خطرہ ہے۔ یہ دونوں ممالک توسیع پسندی اور اپنی مقبوضہ سرزمین کی مسلم آبادی کو ختم کرنے کے شیطانی منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ جیو اسٹرےٹیجک مفاد ہے۔ ہندستان اور اسرائیل کا اتحاد ان کے غیراخلاقی اسلاموفوبیا نظریہ کی بنیاد پر بڑے عالمی تنازعات کا ایک مضبوط نسخہ ہے، اور دونوں ممالک بین الاقوامی معاہدوں کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔ دونوں ممالک کی طرف سے عالمی سطح پر پروپیگنڈا ایجنسیوں کو وافر مقدار میں فنڈز فراہم کیے گئے ہیں، جن کا واحد کام اسلام کی تصویر کو مسخ کرکے دُنیا کے لیے اسلام کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرنا اور حقیقی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردانہ تحریکوں کے طور پر پیش کرنا ہے۔
بہ بات بہت تشویش کا باعث ہے کہ بار بار یہ خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ اسرائیلی ایجنٹ اکثر کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں اور مغربی کنارے کی طرز کی بستیوں کو بڑھانے اور خطے کے اکثریتی کردار کو تبدیل کرنے کے بارے میں بھارت کو اسٹرے ٹیجک معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے بھارت جارحانہ انداز میں اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور لاکھوں ہندو شدت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں رہائشی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔ ان دونوں غاصب اور جارح ملکوں کی ڈھٹائی پر مبنی اور کھلم کھلا مجرمانہ سرگرمیاں، اقوام متحدہ کی عالمی طاقتوں کے زیراثر کمزور پالیسی اور جانب دارانہ روش کا نتیجہ ہے، کہ جو اپنی ہی منظور کردہ قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔اس وقت اسرائیل فلسطینیوں کی بے دریغ نسل کشی میں ملوث ہے۔ بالکل اسی انداز سے انڈیا بھی کشمیر میں اقدامات کرتا آرہا ہے۔
مسلم دنیا اور دیگر تمام امن پسند یہودی اور عیسائی ان وحشیانہ اقدامات کے خلاف احتجاج میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ بڑے مسلم ممالک کے حکمران اپنے عیش و عشرت یا ذاتی مفادات پر مبنی ایجنڈے میں الجھے ہوئے ہیں اور فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو نظر انداز کرچکے ہیں۔ اس موقعے پر، امن پسند شہریوں کی طرف سے مظلوم فلسطینی عوام کا ساتھ دینا بالکل جائز ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی مشکلات کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، ہندستانی مسلح افواج کے ہاتھوں کشمیر میں ہزاروں افراد کا قتل عام، عصمت دری اور بڑی تعداد میں لوگوں کو معذوری سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ کشمیر کو جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور بھارتی فوج سزا سے بریت اور کسی پکڑ دھکڑ کے خوف سے بے نیاز ہوکر قتل، عصمت دری، لُوٹ مار اور املاک کو تباہ کر سکتی ہے۔ غزہ کے معصوم لوگوں کی آہیں اور چیخ پکار کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد دلانا چاہیے کہ کشمیری بھی انڈین قبضے کے ہاتھوں اسی طرح کی اذیتوں سے گزر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ غزہ میں عالمی میڈیا کی محدود رسائی کے باوجود کچھ نہ کچھ خبریں باہر نکلتی رہتی ہیں، لیکن مقبوضہ کشمیر میں تو میڈیا کی صورتِ حال اس قدر مخدوش ہے کہ نیویارک میں قائم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے مطابق کشمیر میں نیوز میڈیا ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔
بلاشبہہ ہمیں فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی غیر متزلزل اور بے دریغ حمایت کرنی چاہیے۔ ہم کشمیر پر اپنی آواز کو پست نہیں کر سکتے کہ جہاں مسلم آبادی کو نیست و نابود ہونے اور صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ آئیے ہم جنوری ۲۰۲۲ء میں امریکی کانگریس کے سامنے اپنی گواہی کے دوران ’جینوسائیڈواچ‘ کے چیئرمین ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن کی جانب سے دی گئی اس وارننگ پر توجہ دیں کہ ’’کشمیر نسل کشی کے دہانے پر ہے‘‘۔