’امریکا، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات‘ کا ۱۳؍اگست کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان باہمی تعلقات معمول پر لانے کا مشترکہ بیان باعث حیرت نہیں۔ یہ اعلان خطے میں امریکا کی کئی برسوں سے جاری علانیہ اور غیر علانیہ کوششوں کا منطقی نتیجہ ہے۔
اس میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس میں متحدہ عرب امارات نے مسئلہ فلسطین کو ڈھال بناکر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور دنیا کو باور کرایا:’’اسرائیل- امارات نارملائزیشن کی برکت سے اسرائیل، مقبوضہ عرب علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے سے باز رہنے کا ’عہد‘ کر رہا ہے۔ یوں صہیونی وعدے نے قضیۂ فلسطین کے حل کی خاطر پیش کردہ دو ریاستی حل کو نزع کی حالت سے نکال کر ایک مرتبہ پھر زندہ کر دیا ہے‘‘۔
حقیقت اس کے برعکس ہے، جس کا اعتراف خود ۱۳؍اگست کے مشترکہ بیان میں موجود ہے: ’’انضمام کی کارروائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر روکی گئی ہے‘‘۔ ’ڈیل آف دی سنچری‘ کے ذریعے مقبوضہ عرب علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کی پالیسی فلسطینیوں کے متحدہ موقف، ناکافی امریکی حمایت اور بین الاقوامی برادری کی شدید تنقید کی وجہ سے اسرائیل پہلے ہی ’منجمد‘ کر چکا تھا۔
فلسطینیوں کو ان کے جائز اور قانونی حقوق دلوانے میں ناکامی کے بعد سعودی قیادت نے عرب لیگ کے پلیٹ فارم سے ۲۰۰۲ء میں ’دو ریاستی حل‘ کی تجویز پیش کی، جس میں اسرائیل کو تجویز پیش کی گئی تھی کہ اگر وہ جون ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد ہتھیائے جانے والے علاقوں سے باہر نکل جائے تو وہاں ایک ایسی آزاد وخود مختار فلسطینی ریاست تشکیل دی جا سکتی ہے، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ نیز فلسطینی مہاجرین کو بھی ان علاقوں میں واپسی کی اجازت ہو، جنھیں اسرائیل وقتاً فوقتاً اپنی ظالمانہ پالیسیوں کا نشانہ بنا کر آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ اس کے بعد عرب اور عالم اسلام اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔
غرب اردن کے مقبوضہ عرب علاقے ضم کرنے کی اسرائیلی کارروائی تو پہلے ہی موقوف ہوچکی تھی، اس لیے متحدہ عرب امارات نے تعمیر شدہ عمارت پر اپنے نام کی تختی سجانے کی بودی کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ متحدہ عرب امارات کا موجود حکومتی ڈھانچہ نہ سیاسی اور نہ جیو اسٹرے ٹیجک لحاظ سے اس قابل ہے کہ وہ فلسطینیوں کی خاطر کوئی اچھوتا ’آؤٹ آف دی باکس‘ کارنامہ سرانجام دے سکے۔
’اسرائیلی انضمام روکنے‘ کا نعرہ متحدہ عرب امارات حکومت کو ’بیچا‘ گیا تاکہ صہیونی ریاست سے تعلقات نارملائزیشن اور مسلّمہ دشمن [اسرائیل] کو کھلی چھوٹ دینے جیسے جرائم پر پردہ ڈالا جاسکے۔
مشترکہ بیان کے متن کے مطابق: ’’اس سفارتی کارنامے، صدر ٹرمپ کے ’مطالبے‘ اور متحدہ عرب امارات کی ’حمایت‘ سے اسرائیل اُن علاقوں میں اپنا اقتدار قائم کرنے سے باز رہے گا جن کی جانب امریکی صدر کے ’نظریۂ امن‘ میں اشارہ کیا گیا ہے‘‘___ متحدہ عرب امارات نے صرف امریکی صدر کے موقف کی حمایت کی ہے، وہ فیصلے کا اصل محرک قطعاً نہیں ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے نام نہاد تاریخی معاہدے کے روز ہی اعلان کیا کہ اسرائیل، غرب اردن کے علاقے ضم کرنے کی کارروائی کو ’ختم‘ نہیں بلکہ ’معطل‘ کر رہا ہے۔ انضمام کا منصوبہ ان کی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ اعلان دولت مند عرب خلیجی ریاست کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں تھا۔
غرب اردن میں اسرائیلی انضمام کی کارروائی میں تاخیر، امریکی اعلان اسرائیل کی عرب خطے میں تعلقات نارملائزیشن کی کوششوں کے لیے سہارا ثابت ہوئی ہے۔ اس سے فلسطینیوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا اور ان کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے، جیساکہ یہ شرمناک کارروائی فلسطینیوں کی سیاسی تنہائی میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ ’اسرائیل- اماراتی اعلان‘ سے عرب دنیا کے انتشار میں اضافہ ہوا ہے، جو پہلے ہی ’دو ریاستی حل‘ کا راگ الاپ کر قضیۂ فلسطین کے آسان ترین حل کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرتے نہیں تھکتے۔ نارملائزیشن، دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ڈیل آف دی سنچری‘ اور غرب اردن کے علاقوں پر بہترین انداز میں ہاتھ صاف کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔
’اسرائیل اور امارات کے درمیان اعلان کردہ نارملائزیشن وسیع البنیاد ہے۔ آنے والے چند ہفتوں کے دوران ابوظبی اور تل ابیب کے درمیان ایک دوسرے کے ملکوں میں سفارت خانے کھولنے، سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سکیورٹی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات سمیت دوسرے شعبوں میں تعاون سے متعلق معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔
نارملائزیشن کے اسیر فریقین کو اس میں معاشی ترقی، امن اور خطے میں نئی ایجادات کی راہیں ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ سکیورٹی کے ضمن میں اسرائیل کو خطے کا ’تسلیم شدہ بدمعاش‘ بننے کا موقع ملے گا۔ صہیونی دشمن سے دوستی کا ہاتھ ملا کر فرقہ واریت، لسانی تنازعات اور ایران کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کیا جائے گا۔ نیز خطے کی بدعنوان اور طاغوتی حکومتوں کی حمایت کرتے ہوئے انھیں اپنی حکومتوں کو برقرار رکھنے میں مدد دی جائے گی۔ اسی ہلّے میں اسلامی رحجان، تہذیبی قوتوں اور نشاتِ ثانیہ کے حامیوں کے خلاف کھلی جنگ ہو گی۔
اگر صدر ٹرمپ ’امارات- اسرائیل امن معاہدہ‘ کو ربع صدی کے دوران خطے میں ہونے والی سب سے اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں تو اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ نیتن یاہو نے بھی اسے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے تاریخی اقدام قراردیا ہے۔
اماراتی امن لائحہ عمل کو فلسطینیوں نے اجتماعتی طور پر مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم آزادیِ فلسطین، فلسطینی اتھارٹی، مختلف سیاسی جماعتوں اور مزاحمتی تنظیموں نے صہیونی دشمن سے اس ’تعلق خاطر‘ کو مسئلہ فلسطین کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے تعبیر کیا ہے۔ وہ اسے القدس، مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے ساتھ خیانت اور امارات کی حکومت کے ماتھے پر ایک کلنک کا داغ سمجھتے ہیں۔ نارملائزیشن کا کھیل کھیلنے والوں نے دشمن سے تعلقات معمول پر لا کر اُس کے جرائم پر اسے ’انعام‘ سے نوازا ہے۔
تنظیم آزادی فلسطین، فلسطینی اتھارٹی، الفتح اور حماس کی قیادت کا کہنا ہے کہ ’’نارملائزیشن کا ڈول ڈال کر جامع امن عرب منصوبہ سمیت قضیۂ فلسطین کے پرامن حل کی تمام راہیں مسدود کردی گئی ہیں‘‘۔
اس اسرائیلی ، امریکی اوراماراتی اقدام کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت کی جانی چاہے۔ ہردلِ درد مند اورانصاف پسند یہ چاہتا ہے کہ ہم فلسطینی، عرب اور بین الاقوامی برادری اس نام نہاد نارملائزیشن کے خلاف سخت موقف اختیار کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ ’اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے‘ کے مترادف تنظیم آزادی فلسطین اور فلسطینی اتھارٹی نے ’نارملائزیشن‘ کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی اور قضیۂ فلسطین کو موجود حال تک پہنچانے میں ان کا بھی کسی نہ کسی حد تک ہاتھ رہا ہے۔
ان تنظیموں کی قیادت نے دشمن سے تعلقات استوار کرنے کے قانونی جواز تراشے اور فلسطین کے بڑے حصے سے دست کشی کے لیے بھی قانونی موشگافیوں کا سہارا لیا۔ انھی تنظیموں نے اسرائیل کی خادم ’فلسطینی اتھارٹی‘ تشکیل دی، جس نے قابض اسرائیلی حکام کو تعاون پیش کیا اور مزاحمتی گروپوں کا پیچھا کرتے رہی۔ انھوں نے اسرائیل کو ایسی راہ سجھائی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ فلسطینی اراضی اور وہاں موجود مقامات مقدسہ کو یہودی رنگ میں رنگتا چلا گیا۔ اسرائیلی کی خادم ایسی ہی تنظیموں نے فلسطینی نمایندگی پر مخصوص سوچ کے حامل افراد کی اجارہ داری قائم کرکے دوسری سرگرم قوتوں کو بھی تنہائی کا شکار کیا۔ فلسطین سے باہر موجود تارکین وطن کو فراموش کر دیا اور انتہائی کمزور فلسطینی موقف کی ترویج شروع کر دی، آج عرب حکومتیں اس کمزور موقف کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔
اسرائیل ، امارات سفارتی تعلقات کا اعلان گذشتہ دوبرسوں کے دوران باہمی سفارتی دوروں کا نتیجہ ہے۔ اسرائیلی وزرا کے امارات کے دوروں نے اہم کردار ادا کیا۔ اسرائیلی فوج کی سابق ترجمان اور وزیر ثقافت میری ریجیو اور وزیر مواصلات ایوب قرا نے ۲۰۱۸ء میں امارات کا دورہ کیا۔ ۲۰۱۹ءمیں اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کاٹس نے امارات کا سفر کیا۔
اقتصادی محاذ پر یہ معاہدہ طے پایا کہ اسرائیل کو یورپ سے ملانے والی دو ہزار کلومیٹر طویل پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کے لیے ابوظہبی سرمایہ فراہم کرے گا۔ سکیورٹی اور فوجی تعاون کے میدان میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات کو بغیر پائلٹ جاسوسی طیارے فروخت کرے گا۔ اسرائیل سے ’جاسوس‘ نامی انٹلیجنس سافٹ ویر خریدے جائیں گے۔ مشترکہ فوجی مشقوں کا اہتمام کر کے نارملائزیشن کی روح اجاگر کی جائے گی۔
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی تال میل بڑھا کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی دوسری مدت صدارت کے لیے ڈیموکریٹس مخالفین پر ’واک آوور‘ دلانے کی کوشش کی ہے۔ اس ڈیل کو صدر ٹرمپ داخلی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے ثبوت کے طور پر پیش کررہے ہیں کہ انھوں نے عربوں کو کس طرح اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا ہے!
خفیہ ذرائع سے منظر عام پر آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اس متنازعہ معاہدے میں اس امر پر امریکا اور اسرائیل کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے کہ ابوظہبی کے حکمرانوں کے مشیر سلامتی محمد دحلان کو فلسطینی اتھارٹی کے زیر نگیں علاقوں میں آگے بڑھایا جائے تاکہ وہ صدر ٹرمپ کی ’ڈیل آف دی سنچری‘ کو مسترد کرنے والی موجودہ فلسطینی قیادت کا متبادل بن کر زمامِ کار سنبھال سکیں۔
اس معاہدے میں طے شدہ جملہ امور کی روشنی میں امارات، اسرائیل کے ساتھ صرف عملی تعاون نہیں کر رہا بلکہ وہ یروشلم کو یہودیانے اور غرب اردن کے وسیع علاقوں کو اسرائیلی عمل داری میں لینے سے متعلق کوششوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل اپنے اس اقدام کو عملی شکل دینے کے لیے وسائل مجتمع کر رہا ہے۔ اس لیے آج اس ایشو کے منصفانہ حل کی خاطر پہلے سے زیادہ حمایت اور تعاون درکار ہے۔
نارملائزیشن سے متعلق متحدہ عرب امارات کے سرکاری موقف کے مقابلے میں اماراتی عوام کو ان کی مسئلہ فلسطین کے ساتھ گہری وابستگی اور عملی تعاون یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ مسلّمہ اصولی موقف کے تحفظ کی خاطر فلسطینیوں کا قومی محاذ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے عرب عوام اور مسلم دنیا کو اسرائیل سے نارملائزیشن کے خلاف بیدار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ قضیۂ فلسطین اور اس کی مقبوضہ اراضی کی یہودی قبضے سے آزادی ممکن ہو سکے۔