ستمبر ۲۰۲۰

فہرست مضامین

مولانا مودودیؒ ، سیکولرزم اور جمہوریت

پروفیسر خورشید احمد | ستمبر ۲۰۲۰ | اشارات

Responsive image Responsive image

امت مسلمہ تاریخ کے ایک نازک مرحلے سے گزر رہی ہے، مگر یہ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ امت کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ اسے ہر زمانے میں طرح طرح کے چیلنجوں اور بحرانوں سے واسطہ رہا ہے۔ اُمت کی امتیازی شان ہے کہ وہ بحرانوں سے نبٹتے ہوئے ہربار اپنی قوت کو بحال کرلیتی ہے کیوں کہ اُسے نشاتِ ثانیہ کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے اس امت کے لیے یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔اسلام، ایک دائمی اور عالم گیر پیغام کے طور پر ، نہ تو بحران کی کیفیت سے بچ سکتا ہے اور نہ مدوجزر اور احیا و تجدید کے مراحل سے دامن چھڑا سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ معاملات میں تو تقسیم و تفریق اور پھر اتحاد و اتفاق کی بحالی کے عمل سے بھی گزرنا اس کی تاریخ کا لازمی حصہ رہا ہے۔

در حقیقت، ذات باری تعالیٰ نے انسان کو اختیار اور ارادے کی جس صلاحیت اور نعمت سے نوازا ہے، اس وہبی انتظام و انصرام کے پیش نظر تبدیلی کا یہ عمل ناگزیر ہے۔ اسلامی اسکیم کی ساخت میں کچھ عناصر ایسے ہیں، جو ناقابلِ تغیر اور مستقل حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ وہ ہردور اور ہرعہد کے نظام کے لیے بنیادی حوالے کی تشکیل کا کام کرتے ہیں۔ ان ناقابلِ تبدیل عناصر کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں، جو بنیادی خدائی اسکیم کے اندر رہتے ہوئے، لچک دار ہیں اور ہرزمانے کے تقاضوں کا ساتھ دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کی زبوں حالی

آج کے دور کی صورت حال ،کچھ بنیادی اختلافی اُمور کے باجود، بیسویں صدی کے  آغاز کے منظر نامے سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام پر، مسلم اُمّہ، جس نے ایک ہزار سال تک عالمی طاقت کی حیثیت سے ایک ممتاز کردار ادا کیا تھا، یورپی سامراج کی فوجوں کے حملوں سے مکمل طور پر مغلوب ہو گئی۔ طاقت کا توازن مسلم دنیا کے مفادات کے حوالے سے یکسر تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں پوری مسلم تہذیب کے وسیع دائرے پر اس غلبے کے دُور رس نتائج نکلے۔ مغربی سامراجی طاقتیں، ایک الگ تہذیب اور روایت کی نمایندگی کرتی ہیں۔ جب ان کے توسیع پسندانہ فکری عزائم نے طاقت کے ذریعے معاشرتی حرکیات پر قابو پانےکی کوشش کی تو معاندانہ تہذیبی رویے کھل کر سامنے آگئے۔ محکومی کے اس دور میں مسلم اُمّہ کی معیشت برباد کر دی گئی، اس کی سیاسی طاقت کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ انجامِ کار سائنسی، دنیاوی علوم اور ٹکنالوجی پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ اس کی اخلاقی، تہذیبی، روحانی اور فکری طاقت بھی زوال پذیر ہوگئی اور آخرکار ۳مارچ ۱۹۲۴ء کو اس کی تہذیبی شان و شوکت کا جو آخری علامتی نشان خلافت عثمانیہ کی شکل میں بچا ہواتھا ، اسے بھی مٹا دیا گیا۔ 

یہی وہ پس منظر تھا، جس میں پوری دنیا کے متعدد مسلم رہنماؤں نے اس سوال پر انتہائی غوروفکر کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی، کہ آخر امت مسلمہ سے کہاں غلطی سرزد ہوئی ہے جو اتنی بڑی افتاد آن پڑی ہے؟ کیا آج کے دور میں خدانخواستہ اسلام کی بنیادی تعلیمات واقعی غیرمتعلقہ ہوکر رہ گئی ہیں؟ یا ان تعلیمات کے بارے میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر اور ان کے تاریخی کردار و عمل ہی میں کچھ نقائص پیدا ہوگئے ہیں؟ مراد یہ کہ مسلمان اس ہدایت الٰہی کے ساتھ جس طرح کا سلوک کررہے ہیں، کیا یہ اس نافرمانی کا نتیجہ ہے؟ اور آخر کار امت مسلمہ کو بحالی اور تعمیر نو کے راستے پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟

ان سوالات پر جمال الدین افغانیؒ [م:۱۸۹۷ء]، محمدعبدہٗ ؒ[م:۱۹۰۵ء]،امیر شکیب ارسلانؒ [م:۱۹۲۱ء]، سعید حلیم پاشا ؒ[م:۱۹۲۱ء]، رشید رضاؒ [م:۱۹۳۵ء]، محمداقبالؒ [م:۱۹۳۸ء]، حسن البناؒ شہید [م:۱۹۴۹ء]،ابوالکلام آزادؒ [م:۱۹۵۸ء]، بدیع الزمان سعید نورسیؒ [م:۱۹۶۰ء]، مالک بن نبیؒ [م:۱۹۷۳ء] ، ابوالاعلیٰ مودودیؒ [م:۱۹۷۹ء] اور کئی دیگر دانش وَروں اور اصلاح پسندوں نے غورو فکر کیا، اور اُمت مسلمہ کو زوال سے نکالنے کے لیے بعض تجاویز پیش کیں اور راہِ عمل کی نشان دہی کی۔

احیاے اسلام کے لیے مولانا مودودیؒ کی مساعی

مفکرین اور مصلحین کی اس جگمگاتی کہکشاں میں ، مولانا مودودی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔  ان کی عمر بمشکل ۱۷ سال ہوگی، جب انھوں نے ۱۹۲۰ء میں اپنے نازک و ناتواں کندھوں پر امت مسلمہ کی تعمیر نو کے انتہائی بھاری کام کا بوجھ اُٹھانے کا تہیہ کیا۔ دس سال کی ابتدائی صحافتی زندگی کی   صف اوّل میں رہنے والے مولانا مودودی نے مسلم فکر کی تشکیل نو کے لیے اور اسلام کو عالمی نظریے اور ایک منفرد طرزِزندگی کے طور پر پیش کرنے کے لیے، اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔ان کا بنیادی مقصد احیاے امت کے لیے ایک ایسا نقشۂ کار (روڈ میپ) تیار کرنا تھا، جو مجموعی طور پر پوری انسانیت کے لیے منفعت بخش ثابت ہو۔

الجہاد فی الاسلام  (۱۹۲۹ء) اس سلسلے میں مولانا مودودی کی طرف سے کی گئی پہلی بھرپور کوشش تھی۔ اس وقت سے لے کر وفات (۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء ) تک،احیاے اسلام اور اصلاحِ ملّت اسلامیہ کے حوالے سے انھوں نے ۴۰ سے زائد کتب، اور سیکڑوں مضامین تحریر کیے، جو اسلامی فکر کے تقریباً ہر پہلو پر محیط ہیں۔ اس علمی سفرمیں ان کا سب سے عظیم کام کئی ہزار صفحات پر مشتمل تفہیم القرآن کی شکل میں وہ تفسیر قرآن ہے جو چھے جلدوں پر مشتمل ہے۔

 اسلامی فکر کی تشکیل نو کے علاوہ مولانا مودودی نے امت مسلمہ کے زوال کے اسباب، مسلم معاشرے میں در آنے والی کمزوریوں،اور خرابیوں کی نشان دہی پر مشتمل ایک وسیع تنقیدی لٹریچر بھی تخلیق کیا، اور اس سلسلے میں خرابی کو دُور کرنے کا حل بھی بتایا۔ وہ مغربی تہذیب کے ایک طاقت ور نقاد ، اور مغرب کو اسلام پر عصری حملوں کا اصل کھلاڑی قرار دینے والے اہم مفکر کے طور پر بھی سامنے آئے۔ وہ، مادی دنیا میں، مغربی تہذیب کی کامیابیوں اور اس کے عصری نظریات سے غافل نہیں تھے لیکن وہ ان کامیابیوں کے خوشہ چیں ہونے کے بجائے، اس تہذیب کی فکری اُلجھنوں، اخلاقی پستیوں، اس کے سیاسی اور ثقافتی عدم استحکام اور اس کی معاشی نا انصافیوں اور استحصال پر اس کے سخت ناقد تھے،تاہم اگر انھوں نے مغرب میں کوئی خوبی دیکھی تو اس کا اعتراف کرنے میں تنگ دلی سے کام نہیں لیا۔مولانا مودودی کے افکار نےمسلمانوں کی تین نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ انھیں عصر حاضر میں، احیاے اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کا ایک مرکزی معمار سمجھا جاتا ہے۔

مولانا مودودی کی بنیادی تحریروں کا رواں انگریزی ترجمہ وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں، میں نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۰ء کے دوران میں کچھ کام کیا تھا ۔ بعد ازاں ۱۹۸۰ء میں میرے عزیز ترین رفیق خرم مراد [م: ۱۹۹۶ء] نے بھی اس کارخیر میں بڑا قیمتی اضافہ کیا۔ اور میرے دوسرے نہایت عزیز ساتھی ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری [م: ۲۰۱۶ء] نے بہت جم کر، مولانا مودودی کے علمی کارنامے، یعنی قرآنِ کریم کی تفسیر تفہیم القرآن کا ترجمہ کرنے میں اپنی آدھی زندگی کے بہترین اوقات صرف کر دیے۔ اللہ تعالیٰ انھیں بلند درجات عطا فرمائے۔ لیکن یہ سارا کام مجموعی طور پر، مولانا مودودی کے کام کا ۲۰ فی صد بھی نہیں تھا، جو اردو سے انگریزی میں منتقل ہوا۔اس سلسلے میں ہم نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ مولانا مودودی نے جو تحریریں بالکل مقامی یا وقتی ضرورتوں کے پیش نظر لکھی تھیں، ان کے علاوہ باقی سب تحریروں کو انگریزی کے قارئین کے لیے پیش کیا جائے، اور پھر دنیا کی دوسری اہم زبانوں میں بھی ان کے تراجم کیے جائیں۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو  بیسویں صدی میں مولانا مودودی نے جو علمی خدمت انجام دی، اسے کم ازکم بیسویں صدی کی احیاے اسلام کی تحریکوں کے ایک چراغِ راہ کے طور پر ،اور اکیسویں صدی میں امت کی رہنمائی کے لیے ایک روشن مینار کے طور پر دستیاب ہونا چاہیے۔ یہ کام بدلتے ہوئے حالات اور نئے چیلنجوں کے پیش نظر، مستقبل کی نسلوں میں اسلامی تصورات اور حکمت عملی کو مزید ترقی دینے کے لیے مدد اور موقع فراہم کر سکتا ہے۔ ہر انسان خواہ وہ کتنی ہی عظیم خدمات انجام دینے والا ہو، اس کی کچھ نہ کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ان انسانی حدود کے باوجود مولانا مودودی نے ساٹھ سال کے عرصے میں جو کچھ لکھا، وہ نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے، مسلم معاشرے کی بحالی اورمسلم افکار کی تنظیم نو اور مسلم ثقافت کی تعمیر نو کےمسائل اور مشکلات سے لازوال مطابقت رکھتا ہے۔

مولانا مودودی کا کام نہ صرف فکری رہنمائی کے حوالے سے اہم ہے بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اسلامی تعلیمات کے پیغام اور مقاصد کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے درکار رہنمائی کے طور پر بھی اہم ہے۔ ان کا کام نہ صرف حقائق اور اصولوں کو جاننے میں رہنمائی کرتا ہے بلکہ ان کے اطلاق کے طریق کار میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

اس حوالے سے مولانا مودودی کے وہ مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں ،جو انھوں نے سیکولرزم کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کرتے ہوئے ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے عشرے میں مذہب اور معاشرے کی علیحدگی، خدائی ہدایت اور ریاست، سیکولر اور دینی تصورات پر بحث کرتےہوئے لکھے تھے۔  ان مضامین میں زندگی کے ان امور اور مسائل پر خاص توجہ دی گئی ہے، جن کے بارے میں اسلام اور سیکولرزم کا نقطۂ نظر باہم مختلف اورمتصادم ہے ۔اگرچہ ان تحریروں کو نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور زبان و بیان کے انداز اور بحث کے اسلوب بدل چکے ہیں، اس کے باوجود   یہ مباحث آج بھی تروتازہ اور متعلقہ ہیں۔ تاہم، یہاں سوال زبان و بیان کا نہیں بلکہ اصل مواد اور نقطۂ نظر کا ہے۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ مولانا مودودی نے سیکولرزم پر بہت سخت تنقید کی ہے اور اس کے ذیلی مباحث پر بہت جامع گفتگو کی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب آپ کسی غالب طرزِ اظہار اور منہاج فکرو عمل کو چیلنج کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر اس میں سب سے پہلے وحشی بیل کو اس کے سینگوں سے پکڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا اور یہی وہ ناگزیر عمل تھا، جو مولانا مودودی نے اپنے ابتدائی مباحث میں سرانجام دیا۔

بنیادی طور پر ان کے مخاطب، سامعین اور قارئین برطانوی مقبوضہ ہندستان کے مسلمان تھے، لیکن عمومی طور پر وہ پوری دنیا کے مسلمانوں سے خطاب کر رہے تھے۔ چونکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے بھی یہ مسائل اور معاملات ایک جیسے ہی ہیں اور اخلاقی اور نظریاتی میدان میں سیکولرزم اورلبرلزم کا چیلنج آج بھی اتنا ہی متعلق ہے، جتنا ۱۹۳۰ءکے عشرے میں تھا، اس لیے مولانا مودودی کی تنقیدِ مغرب پر مشتمل مقالات آج بھی نئی نسلوں کو سوچ اور فکر کے لیے ایک نئی غذا فراہم کر تے ہیں۔ ہماری اس تحریر کو مولانا مودودی کے مذکورہ مضامین پر ایک حاشیہ ہی تصور کیا جانا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ یہ حاشیہ قارئین کو سیکولرزم او ر اس کے ذیلی مباحث،  اصطلاحات اور ان کے پس منظر کو جاننے میں مدد فراہم کرے گا۔

______ 

’سیکولرزم‘ ایک اہم، سیاسی، تاریخی، فکری تحریک کی نمایندگی کرتا ہے ، جس نے گذشتہ تین صدیوں کے دوران یور پ اور امریکا میں تشکیل پانے والے معاشرتی اور سیاسی نظم کی اساس اور خصوصیات کو تبدیل کر دیا ہے ۔ یہ رومن سلطنت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی ایک نئی سوچ ہے، جو خدائی رہنمائی کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے، پورے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور قانونی نظام کو خالص انسانی عقل اور تجربے کی بنیاد پر چلانےکے ضمن میں تشکیل پائی ہے۔اگر یہ سوچ ،مذہب کو کچھ معمولی جگہ دینے کے لیے تیار بھی ہے تو صرف اس حد تک کہ مردوں اور خواتین کی نجی اور خانگی زندگی میں، چند رسم و رواج یا عبادات وغیرہ کی شکل میں، مذہب اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ لیکن سیکولرزم انسانی زندگی اور معاشرے کے سیاسی و معاشرتی طول و عرض میں پالیسیوں کی بڑی جہتوں کو طے کرنے میں اورقواعد و ضوابط تشکیل دینے میں مذہب کا کوئی کردار تسلیم نہیں کرتا۔ یہ سیکولرزم کےبنیادی اصول کی اصل ہے۔ لیکن جہاں تک فروع کی بات ہے تو تفصیلات کے اندر،سیکولرزم کا کردار، زیادہ متنوع اور کثیر جہتی ہے۔کم از کم ان میں سے تین اہم جہتوں کو واضح طور پر بیان کرنا مفید ہوسکتا ہے جن میں سیکولرزم کی شراکت اوراس کا کردارزیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

سیکولرزم: دینی اور دُنیاوی تقسیم

پہلی جہت یہ ہے کہ ، چرچ کے اقتدار کے دور میں یورپی مذہبی تجربے کی تاریخی مطابقت جو بھی ہو، عیسائی دنیا کا نظریۂ زندگی (مسیحی ورلڈ ویو)، دنیا کو الوہی اور دنیاوی یا مقدس اورسیکولر کے خانوں میں تقسیم کرنے کےخیال میں مگن رہا۔ ’’جو خدا کا ہے خدا کو دو، اور جو قیصر کا ہے قیصر کو دو‘‘ جیسی تعلیمات اس نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتی ہیں۔ جس میں مذہب کی غرض اور خدا اور انسان کے تعلق کا سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق سیکولر زندگی کا پورا دائرہ جو دنیاوی اُمور سے متعلق تھا، اسے دنیادار لوگوں کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی شخصیات کی طرف سے دنیاوی امور کو نظر انداز کرنا ایک حقیقت تھی۔ گویا روحانی دنیا کے ساتھ ان کا تعلق محض ایک جنون اور تقدس کی علامت بن کر رہ گیا ۔ دنیاوی زندگی سے بے رغبتی کا طرزِ عمل دنیا سے نفرت کی علامت بن گیا اور یہ نقطۂ نظر مذہبی اخلاق کا ایک خاصہ بن گیا۔ اس نقطۂ نظر کا فطری نتیجہ رہبانیت اور خانقاہیت کی شکل میں نکلا۔ دنیا وی دائرے کو مقدس دائرے کی نسبت سے اس قدر کم تر اور فروترتصور کیا گیا کہ اسے روحانی لوگوں کے لیے قابل قبول ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کی بدترین اور چشم کشا مثال مغربی مصنّفین نے یہ دی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں عیسائی راہب صرف اَزدواجی زندگی ہی سے اجتناب نہیں کرتے تھے بلکہ صفائی ستھرائی اور غسل تک کو بھی دُنیاداری سمجھتے تھے، نتیجتاً ان کے بدن اور کپڑوں سے بدبو دُور ہی سے آنا شروع ہوجاتی تھی۔

اس کے مقابلے میں بزعمِ خود’روشن خیالی‘ اور ’نشاتِ ثانیہ‘ کی تحریک نے اس نظریے کو چیلنج کیا اورزندگی کے جسمانی اور دنیاوی دائرے کےتقاضوں کو زیادہ اہمیت دی۔ جس کےنتیجے میں ساری توجہ مذہب سے ہٹ کر، دنیاوی معاملات پر مرکوز ہوگئی۔ اس لیے اب مطالعہ اورعمل جیسے شعبہ جات کا محور ’خدا‘ کے بجائے ’انسان‘ اور اُخروی زندگی کے بجائے مادی دنیا قرار پایا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سیکولر تحریک، اُخروی زندگی پر دنیاوی زندگی کے غلبے کی جدوجہد پر مبنی ایک ہمہ پہلو اورجارح تحریک ہے، جس میں فسطائی فکروعمل کے عناصر بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں، انسانی معاشرتی زندگی میں، روحانی دنیا کے معاملات اور اُمور سے لاتعلقی نے ایک مریضانہ رُخ اختیار کیا۔ جس سے دنیاوی ضروریات کی طرف رغبت اور مادہ پرستی و ذاتی مفاد کی پرستش کے جنون نے ایک بھونچال برپا کردیا۔

چرچ کی حکومتوں کی مذہبی عدم رواداری

سیکولر تحریک کی دوسری جہت یہ ہے کہ یورپ میں زمانۂ وسطیٰ (Middle Ages) میں چرچ کی حکومتیں، عدم رواداری، مذہبی و فرقہ وارانہ ظلم و ستم، معمولی جرائم پر شدید سزائیں دینے، حتیٰ کہ پھانسیاں دینے کے حوالے سے مشہور تھیں۔ان کی اس پہچان اور جبر نے مذہب کو ایک ظالمانہ طاقت کے طور پر بدنام کیا۔ اس زمانے میں یورپ کے عیسائی فرقوں کے درمیان بدترین جنگیں برپا ہوئیں، جن میں لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے، اور محض مسلکی اختلاف کی بناپر خون کے دریا بہائے گئے، جو بالآخر ۲۴؍اکتوبر ۱۶۴۸ء کو ’ویسٹ فالیا معاہدے‘ (Treaty of Westphalia ) پرمنتج ہوئے،  جس سے سیکولر دور کا آغاز ہوتا ہے۔

ان حکومتوں کی اس مذہبی عدم رواداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک آبادی نے یورپ سے امریکا کی طرف نقل مکانی بھی کی۔ سیاسی نظام میں پاپائی طاقت کے غلط استعمال سے مذہب کے خلاف بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ اس تناظر میں سیکولر تحریک نے ’کثیرعقیدگی‘ اور’مذہبی تنوع‘ کے اصول کو پیش کیا اور نتیجے کے طور پر سیاست و ریاست سے مذہب کے کردار کو خارج کر دیا۔ اس طرح نہ صرف سیاست میں مذہب کا کردار ختم ہوگیا، بلکہ سیاست سے ان روحانی اور اخلاقی اقدار کا بھی خاتمہ ہوگیا جن کی بنیاد مذہب پر تھی۔یوں چرچ اور سیاست کے مابین کشیدگی اور مسابقت اپنے بدنما انجام کو پہنچی اور دونوں اپنے اپنے دائرے میں خود مختار ہو گئے۔

بےخدا کائنات کی تعبیر اور لادینیت

سیکولر تحریک کی تیسری جہت یہ ہے کہ یہ تحریک مذکورہ دو بڑی تہذیبی تبدیلیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے مزید وسعت اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا منہاج اور ماڈل تشکیل دے دیا، جس میں تمام سیاسی اور معاشرتی امور’خدا‘ سے غیر متعلق ہو گئے۔ کائنات اور فطرت کے قوانین کی ایک نئی تعبیر و تشریح تیار کی گئی، جس میں خدا کو تمام چیزوں کےوجود کے پیچھے کارفرما اصل قوت کے طور پر نظر انداز کرتے ہوئے خارج کر دیا گیا۔ اس کی وضاحت فرانسیسی بادشاہ اور نیوٹن [م: ۱۷۲۷ء] کے مکالمے کی مثال سے بخوبی ہوتی ہے کہ جب فرانسیسی بادشاہ نے نیوٹن سے پوچھا کہ کائنات کے بارے اس کی میکانکی تشریح میں خدا کی طاقت کی کارفرمائی کا کوئی ذکر کیوں نہیں ہے؟ تو نیوٹن نے سیدھا سادا جواب دیا: جہاں پناہ! مجھے میکانکی دنیا کی وضاحت کے لیے خدا کی ضرورت نہیں ہے۔

نیوٹن کی یہ بات ، کائنات کی اس نام نہاد میکانکی وضاحت تک ہی محدود نہیں تھی، بلکہ یہ انسانی زندگی کے وسیع دائرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے مطابق یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کرۂ ارض پر انسانوں کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے صرف انسان کی عقل اور تجربات کی رہنمائی ہی کافی ہے۔ لوگوں کو صرف اس حد تک رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنی انفرادی اور ذاتی زندگی میں خدا پر بھروسا رکھنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں، لیکن جہاں تک معاشرے، معیشت، عدل اور سیاست کے مسائل اور معاملات کا تعلق ہے تو وہ لوگوں کی خواہشات کی بنیاد پر حل کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں صرف انسانی عقل اور تجربے ہی سے رہنمائی لی جائے گی۔ چنانچہ انسان کی حاکمیت اور خود مختاری، ایک نئے تجربے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور یہ انسانی حاکمیت اور خودمختاری، ایک رہنما اصول بن گیا اور انسانی عقل اور تجربے کو ، معاشرے کے ارتقا کے لیے درکار تمام اقدار کے حتمی وسیلے اور بنیاد کے طور پر مان لیا گیا۔

فلسفے کے پروفیسر ورجیلیس فرم (م:۱۹۷۴ء) نے روشن خیالی اور سیکولرزم کے تصورات پر اپنے خیالات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

جمالیاتی اور دانش ورانہ بیداری کی لہر اور سیکولر ثقافت کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا ظہور چودھویں صدی عیسوی میں اٹلی میں ہوا___خواہ اس کو بہتر کہیں یا بدتر، مگر نشاتِ ثانیہ کے انقلاب میں اس کا کردار ضرورموجودتھا۔ اور یہ کلیدی کردار سیکولر ہیومن ازم کا تھا، جس کا تعلق انسانی غوروفکر اور دنیاوی اقدار کی پہچان پر مبنی ہے اور یہ مذہبی اور کلیسائی منظوری سے مشروط نہیں ہے (انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن، فلسفیانہ لائبریری، نیویارک، ص۶۵۶،۶۵۷)۔

روشن خیالی اس تحریک کا نام ہے، جو اٹھارھویں صدی کے عام ماحول کی خصوصیات کی حامل ہے۔ اس کے ماخذ کو ، نشاتِ ثانیہ کے دو ر میں تشکیل پانے والے اس انسانی ذہن اور روحانی فضا میں تلاش کرنا چاہیے، جو اپنے مادیت پسندی اور انفرادیت پسندانہ رجحانات کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں منطقی اور عقلی خود مختاری کا فخر اور شعور اجاگر کر رہی تھی۔ ایک تاریخی مظہر کی حیثیت سے، روشن خیالی کی تحریک، حقیقی انسانی زندگی میں عقلی و منطقی کردار کو اپنانے اور اس کا اطلاق کرنے کی جدوجہد کی نمایندگی کرتی ہے۔(حوالہ بالا، ص ۲۵۰)

’سیکولرزم‘ خاص طور پر مختلف افادی معاشرتی نظریۂ اخلاقیات جسے برطانیہ کے معروف سیکولرسٹ جارج جیکب ہولوک نے انیسویں صدی میں تشکیل دیا جو مذہب کے حوالے کے بغیر انسانی ترقی کی بات کرتا ہے ، اور خاص طور پر انسانی عقل ، منطق، سائنس اور سماجی تنظیم کو بنیاد بناتا ہے۔

سوشل سائنس انسائی کلوپیڈیا میں سیکولرزم اور سیکولرائزیشن کے ’اصولوں‘ کی نشان دہی اس طرح کی گئی  ہے:’’ سیکولرائزیشن سے مراد معاشرے کی اخلاقی زندگی سے مذہبی عقائد، رسم و رواج اور معاشرتی احساس کو تبدیل کرنا ہے ۔ سیکولر سوسائٹی میں روزمرہ زندگی کا ہر تجربہ ، مقدس دعا کے آغاز کے بغیر جاری رہتا ہے۔ تاہم، یہ ’روشن خیالی‘ کا فلسفہ تھا، جس نے مکمل سیکولرائزیشن کا بنیادی محرک فراہم کیا۔ پھر یہ تجویز پیش کی کہ معاشرے کی بنیاد ایسے اخلاقی اصولوں پر رکھی جائے، جو انسانی معاشرتی زندگی کی آفاقی نوعیت کی عقلی تحقیقات کے ذریعے وضع کی جائیں۔ یاد رہے معاشرتی تنظیم کے عقلی اصولوں کو اکثر مذہبی روایات کے خلاف عدم اعتماد کے طور پر پیش کیا جاتا تھا‘‘۔ (سیکولرائزیشن، سوشل سائنس انسائی کلو پیڈیا،ص۷۳۷)

اسی طرح جدید مسلم دنیا کے بارے میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کا انسائیکلوپیڈیا بھی تقریباً اسی موقف کو دُہراتا ہے: ’’سیکولرزم کی اصطلاح اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ مذہبی نہیں ہے۔ اس کی بنیاد لاطینی زبان کے لفظ ’سیکولم‘ میں ہے، جس کے بنیادی معنی’نسل‘،’عمر‘ یا ’زمانہ اور دور‘ کے ہیں۔ بعد میں یہ لفظ اس مادی دنیا کے معاملات سے وابستہ ہو گیا، جو جنت کے حصول کی غرض سے کیے گئے اعمال وغیرہ سے بالکل الگ ہیں۔سیکولرزم یا سیکولرائزیشن کا عمل یورپی تاریخی تجربے سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب یہ تھا کہ زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں اور فکر ی سوچ کو مذہبی تعلق اور کلیسائی مداخلت سے آہستہ آہستہ بالکل آزاد کر دیا جائے‘‘۔ (اوکسفرڈ انسائی کلو پیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ، مدیر: پروفیسر جان ایل اسپوزیٹو، جلد چہارم، ص۲۰)

اسلام اورجمہوریت

اوپر کے اقتباسات میں ’سیکولرزم‘ کے جو تین پہلو بیان کیے گئے ہیں، ان میں پہلے دوپہلوؤں سے اسلام ان معاملات کو مختلف اور منفردطریقے سے مخاطب کرتا ہے ۔تاہم، اس کا اصل فرق معاشرے اور ریاست کے معاملات میں مذہب کے کردار سے متعلق ہے۔ اسلام ، زندگی کو روح اور مادے، مقدس اور غیر مقدس، روحانی اور دنیاوی جیسے خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام، زندگی ’بطور ایک کُل‘ پر یقین رکھتا ہے۔یعنی سیکولر دنیا بھی اسلام سے اتنی ہی متعلق ہے جتنی روحانی دنیا۔ اسلام کے اس طرزِ عمل کا خلاصہ ایک قرآنی دعا میں اس طرح پیش کیا گیا ہے :

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة ۲:۲۰۱)اے ہمارےرب!ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں بہترین چیز عطا فرما۔ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

اسلام میں یہ دنیا اور اس کے بعد کی دنیا ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں،اور وہ دونوں ایک تسلسل کی نمایندگی کرتی ہیں۔اسلام زندگی کے دنیاوی امور سے بھی اسی طرح متعلق ہے،   جس طرح وہ روحانی اور اخلاقی جہات سے متعلق ہے۔یہ جہتیں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ ہرایک حصہ، دوسرے پر منحصر ہے اور دونوں ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔ اسلام، کچھ مذاہب یا مذہبی شخصیات کی طرف سے دنیوی امور کو نظر انداز کرنے کے معاملے کو ، ان کی ناکامی قرار دیتا ہے۔ اسلام نے ان سب امور کو بہت اچھے طریقے سے مخاطب کیا ہے اور ان پر قابو پایا ہے۔

اسلام بنی نوع انسان کی تکریم کرتا ہے کیوںکہ انسانوں کے مابین یہ اس کے دنیاوی عمل اور عدل و انصاف کے کردار کا بڑا دائرہ ہے۔ اس طرح یہاں ان کی مطابقت کے حصول کے لیے کسی مبینہ اور مفروضہ ’روشن خیالی‘ کی ضرورت نہیں ہے۔یہاں پورے سیکولر یا دُنیوی دائرے کو روحانی شکل دی گئی ہے۔ اسلام روحانی طول و عرض میں اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دُنیوی (سیکولر) میدانوں میں بھرپور اظہار کرتا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زمین کا پورا منظر نامہ ایک مسجد کی طرح ہے ۔ اس کا محض یہی مطلب نہیں کہ کوئی شخص دنیا میں کہیں بھی عبادت یا دعا کر سکتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کے دُنیاوی یا سیکولر معاملات پوری طرح روحانی معاملات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اسلام نے بھی کثیر العقیدگی ، کثیر الثقافتی آزادی اور متنوع انتخاب کی آزادی کے اصولوں کی واضح اور دلیرانہ تصدیق کی ہے۔ یہ خلافت کے تصور کی ایک فطری شکل ہے، جس کی بنیادیں انسانی آزادی اور صواب دید کے اصول پر مبنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہر انسان کو آزادی کی نعمت عطا کی ہے کہ وہ جو بھی چاہے عقیدہ منتخب کرے اور اس پر عمل پیرا ہو: لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶)’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے‘‘۔

اسی طرح ’میثاقِ مدینہ‘ انسانی تاریخ کا پہلا دستور ہے، جس میں مسلمانوں اور مدینہ کے غیرمسلم قبائل کے درمیان سیاسی، عسکری اور اجتماعی معاملات کے خطوطِ کار طے کیے گئے ہیں، اور جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اُمور میں آخری سند (authority) تسلیم کرکے مسلمانوںاور غیرمسلموں کے باہمی حقوق و فرائض کو مرتب کیا گیا ہے۔

یہ مذہبی آزادی کا ایک میثاق ہے، جو انسان کے وقار کی توثیق پر مبنی ہے اور ہر ایک کو عقیدے کے انتخاب کی آزادی کا حق حاصل ہے ۔اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ، انسانوں کی رہنمائی کے لیے ، نازل کردہ سچا مذہب ہے، لیکن اگر کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ عقائد کے کسی دوسرے نظام کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور اسلام ان کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔

چنانچہ رواداری، اسلامی طریقۂ کار کا بنیادی عنصر ہے۔ عقائد کی کثرت کو فطری رجحان کے طور پر قبول کرنا اسلامی فریم ورک کا لازمی عنصر ہے۔ مسلمان بھی انسان ہیں اور ساڑھے چودہ سو سال پر محیط طویل تاریخ میں ، اس حوالے سے ان کے طرز عمل میں ضرور کچھ غلطیاں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اسلام بطور دین ، دیگر مذاہب اور عقائد کی آزادی کے اس بنیادی اصول کے معاملے میں بہت واضح ہے اور اس حوالے سے اصل فیصلہ اُخروی زندگی میں ہونا ہے نہ کہ اس دنیاوی زندگی میں۔ اس لیے ہرشخص کو، جس طرح اپنے اپنے عقیدے کے مطابق یقین رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق ہے، اور اسی طرح اس انتخاب کے نتائج کا ذمہ دار بھی وہی شخص ہوگا اور آخرت میں اس کا احتساب کیا جائے گا۔اس لیے جہاں تک اس دنیا میں انسانی تقسیم کا تعلق ہے، تو مذہبی تکثیریت اور ثقافتی بقاے باہمی کےاصول ، اسلام کے سیاسی نظم کے لازمی اجزا ہیں۔

لہٰذا، پہلی دو جہتوں کے حوالے سے اسلام اور سیکولرزم کے مابین اختلاف کے باوجود کوئی بڑا تصادم سامنے نہیں آتا۔اصل فرق تیسری جہت کے حوالے سے ہے، جہاں سیکولرزم ، مذہب اور ریاست ، ایمان اور معاشرے کو الگ الگ کرتا ہے اور اسلام کے نزدیک، انسانی زندگی کی ایسی تقسیم ، خود انسان کی فطری زندگی میں ایک رکاوٹ ہے۔ اسلام کا منہاج بنیادی طور پر ’خدا مرکز‘ (God-Centred) ہے، لیکن اس میں انسان اورخدا کے تعلق، انسان اور کائنات کے تعلق ، اور انسان اور انسان کے تعلق پر بھی بہت توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ خدائی ہدایت اس دنیا اور اگلی دنیا (آخرت) میں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے رہنمائی ہے۔ افراد اور اداروں کے درمیان، عدل و انصاف، مساوات اور ہم آہنگی کی بنیاد پر منصفانہ معاشرے کا قیام اور انسانوں کے مابین تعلقات استوار کرنے کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے، جتنی روحانی اور اخلاقی معاملات میں فضیلت کی اہمیت ہے۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق، جس کی بنیاد پر اسلام کا منہاج، سیکولرزم سے بالکل الگ ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ مسلم دنیا میں، سیکولرزم ، نو آبادیاتی حکومت کے لبادے میں چھپ کر آیا ہے۔ جب یورپی سامراجی قوتوں کی سرپرستی میں چلنے والی ، عیسائی مشنری تحریک خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی تو یورپی استعماری حکمرانوں (یعنی برطانوی، ہسپانوی،ولندیزی،فرانسیسی، پرتگیزی، جرمن وغیرہ) نے سیکولرزم کو مسلط کرنے، اور پورے خطے کی سماجی اور سیاسی زندگی میں سے مذہبی اثرورسوخ کو ختم کرنے پر توجہ دی۔ چونکہ یہ بات مسلمانوں کے عقائد اور اُمنگوں کے منافی تھی، لہٰذا مسلم معاشرہ: لبرلز اور روایت پسندوں، تبدیلی پسندوں اور مزاحمت کاروں، سیکولر اور اسلام سے محبت رکھنے والوں میں بٹ گیا۔

یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ لبرلز نے بے دریغ طاقت کے ذریعے سیکولرزم کو ان لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جو اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔یوں سیکولرزم اور استبداد لازم و ملزوم ہو گئے۔ درحقیقت کچھ مغربی مفکرین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’جمہوریت اور اسلامائزیشن ایک ساتھ چل سکتے ہیں، لیکن مسلم ممالک میں سیکولرزم کو صرف آمرانہ طرز حکمرانی کے تحت ہی مسلط کیا جا سکتا ہے‘‘۔

امریکی فلسفی ڈاکٹر فلمر ایس سی نارتھروپ [م: ۱۹۹۲ء] نے ۱۹۵۳ء کے ’کلوکیم آن اسلامک کلچر‘ میں اس  حقیقت کو ان الفاظ میں تسلیم کیا ہے: ’’کئی دیگر وجوہ میں سے ، میں اس وجہ پر یقین رکھتا ہوں کہ سیکولر قانون کو عام طور پر آمر کے ذریعے نافذ کرنا پڑتا ہے کہ یہ ایک عوامی تحریک سے نہیں آسکتا کیوںکہ عوام پرانی روایت سے جڑے ہوتے ہیں‘‘(پرنسٹن یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹)۔

کمال اتاترک [م:۱۹۳۸ء] کے ماتحت ترکی کی سیکولرائزیشن ،اور رضا شاہ پہلوی [م:۱۹۸۰ء] کے تحت ایران کی سیکولرائزیشن، سوئیکارنو [م:۱۹۷۰ء]کے تحت انڈونیشیا اور جمال ناصر [م:۱۹۷۰ء] کے تحت مصر کی سیکولرائزیشن اسی سفاکانہ عمل کی واضح مثالیں ہیں۔

مسلم عوام میں اخلاقی قدروں کا وجود اور عمل ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نظام سیاست و ریاست چلانے کے لیے، اسلامی احیا اورجمہوری کلچر ایک ساتھ چل سکتے ہیں لیکن مسلم ملکوں میں  سیکولرزم کی حمایت کرنے والا لبرل طبقہ سب سے زیادہ استبداد پسند واقع ہوا ہے۔ ان کے برعکس اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

[مدیر کے انگریزی مضمون کا ترجمہ اور تدوین۔ ادارہ]