پچھلے تین برسوں سے ملک میں ایک بڑا شدید مغالطہ پیدا کیا گیا ہے کہ ’’موجودہ وفاقی حکومت، ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے لیے پہلی بار ’یکساں قومی نصاب‘ (سنگل نیشنل کریکولم) نافذ کررہی ہے۔ اس طرح ۲۰۲۳ء تک سکول کی سطح پر مکمل واحد قومی نصاب نافذ ہوجائے گا جو سرکاری، پرائیویٹ سکولوں اور دینی مدارس میں یکساں طور پر نافذہوگا‘‘۔ آئیے، متعدد سوالوں کے ذریعے سے حکومت کے ان دعوئوں کا جائزہ لیتے ہیں:
’پاکستان تحریک انصاف‘ کے تعلیمی منشور میں یقینا یکساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کا وعدہ درج ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم سے مراد ملک کے تمام بچوں کے لیے ایک جیسی تعلیمی سہولیات ، ایک جیسا تعلیمی ماحول، ایک جیسے تعلیم یافتہ اساتذہ، ایک جیسا نظامِ امتحان اور بلاشبہہ ایک جیسا نصاب اور درسی کتب کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ اب حکومت منشور میں درج باقی تمام امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے، محض ’یکساں قومی نصاب‘ کا نعرہ لگا کر یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس طرح ملک میں امیر اور غریب کے درمیان تعلیمی امتیاز ختم ہو جائے گا جو کہ بالکل غیرمنطقی بات اور عملاً ایک افسوس ناک جھانسا ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں تو ہمیشہ سے واحد قومی نصاب ہی نافذ رہا ہے کیونکہ یہ آئین کا تقاضا ہے اور ’۱۹۷۶ء کا تعلیمی ایکٹ‘ اس کو قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ البتہ ۱۷ویں ترمیم کے بعد نصاب، کتاب اور نظامِ امتحان کنکرنٹ لسٹ سے نکال کر صوبائی اختیار میں دےدیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد بھی پورے ملک میں، یعنی تمام صوبوں میں ۲۰۰۶ء کا بنایا ہوا قومی تعلیمی نصاب ہی نافذ رہا۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ملک میں ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک واحد قومی تعلیمی نصاب ہی نافذ رہا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تمام سرکاری اسکولوں میں، ان تمام پرائیویٹ اسکولوں میں جو پانچویں، آٹھویں، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سرکاری امتحان میں اپنے طالب علموں کو بٹھاتے ہیں، اور ان تمام دینی مدارس میں جو درس نظامی کے ساتھ اپنے طلبہ کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کا امتحان دلواتے ہیں، سرکاری سطح پر تیار کردہ واحد قومی تعلیمی نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈز کی شائع کردہ درسی کتب ہی استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ وہ سرکاری، نیم سرکاری، عسکری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے جو اے لیول، اولیول سمیت بیرونی تعلیمی بورڈ کے امتحان دلواتے ہیں، وہ واحد قومی نصاب تعلیم کے بجائے بیرونی تعلیمی ایجنسیوں کا نصاب اور ان کی درسی کتب استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا ملک میں پہلی مرتبہ واحد قومی نصاب رائج کرنے کا دعویٰ غلط ہے۔
اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔ ملک کے تمام ماہرین تعلیم کا اس پر اتفاق ہے کہ ’یکساں قومی نصاب‘ کے نام پر جو نصاب رائج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے وہ دراصل ۲۰۰۶ء کا قومی نصاب ہے جو جرمنی کے ادارے جی آئی زیڈ (GIZ) کی فنڈنگ اور تکنیکی معاونت سے تیار کیا گیا تھا اور جس کی انچارج نگہت لون صاحبہ تھیں۔ اب ’یکساں قومی نصاب‘ کے نام سے ۲۰۰۶ء کا ترمیم شدہ نصاب ہی سامنے لایا گیا ہے، اور اس کی ٹیکنیکل ایڈوائزر بھی وہی نگہت لون ہیں۔ موازنہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ’موجودہ یکساں قومی نصاب‘ ۲۰۰۶ء کے نصاب سے محض دس فی صد مختلف ہے۔
محترم وفاقی وزیر تعلیم کے متعدد بیانات اور نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داران کی توجیحات شاہد ہیں کہ ’یکساں قومی نصاب‘ کم سے کم تعلیمی مواد (Minimum Learning Level) کا تعین کرتا ہے ۔ تعلیمی ادارے آزاد ہیں کہ وہ زائد مواد جو اپنے طلبہ کو پڑھانا چاہیں پڑھا سکتے ہیں اور اپنی پسند کی درسی کتب رائج کرسکتے ہیں، بشرطیکہ ان کتب میں ’یکساں قومی نصاب‘ کا تعین کردہ مواد بھی آگیا ہو، اور ان کتب کے لیے ’عدم اعتراض کا اجازت نامہ‘ (NOC)، مجاز ادارے سے لے لیا گیا ہو۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو صوبے اس کو اختیار کریں گے، ان کے زیراہتمام سرکاری سکول لازماً اس نصاب کو استعمال کریں گے، لیکن اگر کوئی صوبہ اپنے آئینی اختیار کے تحت مذکورہ نصاب رائج نہیں کرتا تو اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ وہ پرائیویٹ سکول جو مختلف سطحوں کے سرکاری امتحانات میں اپنے طالب علموں کو بٹھا کر سرکاری تعلیمی سندات لینا چاہیں گے، وہ ’یکساں قومی نصاب‘ کے مطابق اپنے طالب علموں کو پڑھائیں گے، لیکن جو پرائیویٹ تعلیمی ادارے یا سرکاری، نیم سرکاری تعلیمی ادارے، عسکری انتظام میں چلنے والے ادارے، کیڈٹ کالجز وغیرہ جو اولیول ، اے لیول یا دیگر بیرونی امتحانات میں اپنے طلبہ کو بٹھائیں گے وہ ’یکساں قومی نصاب‘کے نفاذ سے مستثنیٰ ہوں گے اور وہ کیمبرج ، آکسفورڈ یا متعلقہ بورڈ کا نصاب اور کتابیں استعمال کریں گے۔
دینی مدارس، جو درس نظامی کے علاوہ اپنے طلبہ کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات دلوانا چاہیں گے، وہ تو حکومت کا تجویز کردہ ’یکساں قومی نصاب‘ (جیسا کہ پہلے ہوتاتھا) استعمال کریں گے لیکن اگر وہ اپنے طلبہ کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی سندات نہ دلوانا چاہیں تو ظاہر ہے کہ وہ سرکاری واحد قومی نصاب نہیں پڑھیں گے ۔
ان حقائق سے ہر صاحب ِعقل یہ جان سکتا ہے کہ شعبۂ تعلیم میں نصاب اور درسی کتب کےحوالے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ جو کچھ کہا جارہا ہے، وہ محض پروپیگنڈہ ہے، جب کہ وزیر اعظم صاحب سے ۱۶؍ اگست ۲۰۲۱ء کو ایک تقریب میں ’یکساں قومی نصاب‘ ’نافذ‘بھی کروا دیا گیا ہے۔
کہا یہ جارہا ہے کہ ’’ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سکول کی سطح پر ناظرہ قرآن اور ترجمۂ قرآن نصاب میں لازمی قرار دیا گیا ہے‘‘، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ناظرہ قرآن کی لازمی تعلیم جنرل محمد ایوب خان کے دورِ حکومت (۱۹۵۸ء-۱۹۶۹ء) میں ۱۹۶۰ء کے دوران نافذ کی گئی تھی۔ پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن لازمی تھا۔ ایوب حکومت نے گرمیوں کی تعطیلات میں تین سال تک تمام پرائمری اساتذہ کی قریبی دینی مدارس میں قراءت وتجوید کی تربیت کرائی، اسکولوں میں ۲۰ منٹ کازیر و پیریڈ ٹائم ٹیبل میں شامل کیا گیا، اور اساتذہ کے تربیتی اداروں میں امیدواران کے لیے ناظرہ قرآن میں قابلیت داخلے کے لیے لازمی قرار دی گئی۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں اساتذہ کے تربیتی اداروں میں قرآن کی تعلیم کے لیے باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا۔
نواز شریف صاحب کی حکومت نے ۱۹۹۸ء میں بارھویں جماعت تک ترجمۂ قرآن ایک انتظامی حکم کے ذریعے لازمی قرار دیا اور اس کے نفاذ کے لیے وزیر اعظم کے دفتر میں ایک سیل قائم کیا، جس کے انچارج میجر جنرل سکندر حیات اور جسٹس ریٹائرڈ عبد الحفیظ چیمہ صاحب تھے۔ ۱۹۹۹ء میں نواز حکومت ختم ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ رُوبہ عمل نہ آسکا۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ۲۰۱۷ء میں پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کرایا، جس کے مطابق پانچویں جماعت تک ناظرہ قرآن اور بارھویں جماعت تک ترجمۂ قرآن لازمی قرار دیا گیا۔ درحقیقت ناظرہ قرآن ۱۹۶۰ء سے اسکولوں میں لازمی ہے اور ترجمۂ قرآن پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت مسلم لیگ (ن) نے لازمی قرار دیا تھا۔ مراد یہ ہے کہ یہ کام ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ ویسے بھی قرآن کی تعلیم آئین کے آرٹیکل ۳۱ کے مطابق تمام مسلمان شہریوں کے لیے لازمی ہے۔
تدریس القرآن کے معاملے میں مسلسل کوتاہی یہ ہورہی ہے کہ ہر روز زیرو پریڈ کے بجائے ہفتے میں تین پیریڈ کر دیے گئے ہیں، نیز قرآن کی تدریس کے لیے کوئی اضافی استاد نہیں دیا جارہا اور نہ موجود اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام کیا گیا ہے۔
فرق صرف یہ پڑا ہے کہ سیکولر لابی کی کوششیں آگے بڑھی ہیں۔ اسلامیات کے مضامین کو ایک طرف رکھتے ہوئے باقی مضامین میں سے اسلامی مواد کافی حد تک نکال دیا گیا ہے۔ حمد اور نعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اردو یا انگریزی کی درسی کتابوں میں جو ایک آدھ مضمون باقی رہ گیا ہے، اس کے خلاف بھی سیکولر لبرل لابی متحرک ہے۔ اسلامیات کا نصاب بھی ان کا ہدف ہے حالانکہ یہ وہی نصاب ہے، جو ۲۰۰۶ء سے حالیہ تعلیمی سیشن تک تمام صوبوں میں رائج تھا۔ سیکولر لابی کا یہ کہنا ہے کہ ’’اسلامیات کا موجودہ نصاب تو مذہبی اداروں کے اسلامی نصاب سے بھی زیادہ ہے‘‘ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور اپنی جگہ ناقص اور ادھورا ہے۔
اقلیتوں کے نام نہاد نمایندے، یو ایس کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم کی پشت پناہی سے اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کی سرپرستی میں درسی کتب سے اسلامی مواد کے اخراج کے لیے شوروغوغا کرتے رہے ہیں اور کامیاب بھی رہے ہیں۔ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۹ء تک درسی کتب سے ۷۰ اسلامی تصورات خارج کرائے گئے اور باقی جو بچا ہے اس کے اخراج کے لیے کوشش جاری ہے۔ حتیٰ کہ اس سلسلے کا ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ’’درسی کتب میں اسلامی مواد کا ہونا اقلیتوں کے حقوق کی نفی ہے لہٰذا اسے خارج کیا جائے ‘‘۔
ایک اورفرق یہ پڑا ہے کہ نصاب اور درسی کتب میں سے اسلامی اقدار (اگر کہیں تھیں) کو ختم کرکے ہیومنزم (Humanism)کی سیکولر اقدار کو نصاب اور درسی مواد کے تانے بانے میں شامل کر نے کا راستہ نکالا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے برطانیہ کی ایک انٹر نیشنل این جی او واٹرایڈ (Water Aid) کی مدد لی گئی ہے، جو صاف پانی مہیا کرتی ہے۔ اس این جی او نے اپنی سرمایہ کاری اور تکنیکی معاونت سے ہماری وفاقی وزارتِ تعلیم کو ’ویلیوز ایجوکیشن‘ (اقدار کی تعلیم)کے نام سے پہلی سے بارھویں تک نصاب بنا کر دیا ہے، جس کی بنیاد ہیومنزم کی سیکولر اقدار ہیں۔ ان ’اقدار‘ کا مقصد اسلامی اقدار کی ’آلودگی‘ (خاکم بدہن) سے ’صاف‘ نصاب اور درسی کتب پاکستانی بچوں کو فراہم کرنا ہے۔ چونکہ ’یکساں نصابِ تعلیم‘ کے لیے ٹریننگ کا مواد آغا خان یونی ورسٹی سے بنوایا گیا ہے اور امریکا نے بھی اساتذہ کو بڑی تعداد میں امریکا بلا کر ٹریننگ کا اہتمام کیا ہے، اس لیے ’واٹرایڈ‘ کی کوشش شاید کامیاب ہوجائے۔
نیشنل کریکولم کونسل ایسے ہی سیکولر لبرل لوگوں کا گڑھ ہے، جہاں پر ٹیکنیکل ایڈوائزر اور کنسلٹنٹس (Consultants) کے نام پر لبرل سیکولر لوگ بھرے گئے ہیں۔ اور وہ اندر کی خبریں دے کر اخباروں میں زہر یلے مضامین لکھواتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام دوست اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو نکّوبنادیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ملکِ عزیز کی بیش تر دینی جماعتوں کی ترجیح میں تعلیم جیسا بنیادی مسئلہ شامل نظر نہیں آتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم جو کسی بھی قوم کی شہ رگ ہوتی ہے، وہ بتدریج دشمنوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔
’یکساں نصابِ تعلیم‘ کے حوالے سے دعوے کیے جارہے ہیں کہ ’’اس سے طالب علموں میں تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیتیں اور عملی کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس نصاب کے پڑھنے سے برداشت، رواداری اور مل جل کر رہنے کی سوچ پروان چڑھے گی‘‘۔ یہ سب دھوکا دینے والی سیکولر اصطلاحات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا درسی مواد ، تدریسی حکمت عملی اور سکولوں کا ماحول ان دعوؤں کو مدد فراہم کرے گا اور کیا اساتذہ کرام ان دعوؤں کے حصول کے لیے کام کرسکیںگے؟ یہ بھی نہیں بتایا جارہا کہ جب یہی نصاب ۲۰۰۶ء سے نافذ ہے تو اس نصاب کے ذریعے انھی اساتذہ کے ہاتھوں پہلے کیوں تعلیمی معیار بلند نہیں ہوا؟
ماہرین تعلیم اور اساتذہ کی مخالفت کے باوجود ریاضی اور سائنس کے لیے ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی رکھا گیا ہے،جب کہ سرکاری پرائمری سکولوں اور گلی محلے میں کھلے پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ میں انگریزی میں پڑھانے کی استعداد نہیں ہے۔ پھر جو تربیت ِاساتذہ کے پروگرام کیے گئے ہیں، ان میں درسی مواد کا لحاظ رکھے بغیر عمومی تدریسی تربیت دی گئی ہے اور وہ بھی آن لائن۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ اس ٹریننگ سے بالکل مطمئن نہیں ہیں اور نہ وہ ریاضی اور سائنس کو انگریزی میں پڑھانے کے لیے اپنے آپ کو اہل پاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طلبہ کی عظیم اکثریت ریاضی اور سائنس میں پس ماندہ رہ جائے گی۔
فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں چوٹی کے سائنس دان، جن میں ایٹمی ماہرین، ماہرین زراعت، جنیٹک انجینئرنگ کے ماہرین، میڈیکل سائنسز کے مایہ ناز معالجین، یونی ورسٹیوں کے ذہین ترین محققین وغیرہ سبھی اُردو میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں۔ انگلش میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے بیوروکریٹ اور جرنیل تو شاید چند ایک ہوں، لیکن کوئی ایک بھی نامور سائنس دان انگریزی میڈیم کا دکھائی نہیں دیتا۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ’یکساں نصابِ تعلیم‘ اس دھوکے میں سائنس اور ریاضی کی درسی کتب انگریزی میں کیوں رکھی گئی ہیں؟ انگلش میڈیم کے اس فیصلے سے طبقہ واریت بڑھے گی۔
محترم وفاقی وزیر تعلیم، پرائیویٹ اسکولوں کی لابی کو مطمئن کرنے میں سرگرم ہیں، جب کہ پرائیویٹ سکول سرکاری نصاب اور سرکاری درسی کتب رائج کرنے سے انکاری ہیں۔ حکومت سے استدعا ہے کہ وہ اپنے غلط اور یک طرفہ فیصلوں پر نظر ثانی کرے اور قومی تعلیم کے نظام کو مزید خراب نہ کرے۔ ان اقدامات سے معیارِ تعلیم گرے گا اور تعلیمی اداروں میں انتشار بڑھے گا۔