ستمبر ۲۰۲۱

فہرست مضامین

کشمیر اور بھارتی دوغلی پالیسی

ڈاکٹر غلام نبی فائی | ستمبر ۲۰۲۱ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

سنجے پانڈا ترکی میں بھارتی سفیر ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے بارے مخصوص بھارتی لہجے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے: ’’مسئلہ کشمیر کا سارا کھیل تبدیل ہو چکا ہے۔ اب یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ بدلے ہوئے حالات ہی حقیقت ہیں۔ یہ ان لوگو ں کے لیے ضروری ہے جو اس تنازعہ کا ہمیشہ کے لیے حل چاہتے ہیں‘‘۔

بھارتی سفیر سے سوال کیا گیا کہ ’’استصواب رائے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا:’’ہمیں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ان کا پہلا حصہ بلاشبہہ استصواب رائے کے بارے میں ہے۔ اور یہ استصواب صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب پاکستان ان تمام علاقوں سے افواج واپس بلالے ، جن پر اس نے قوت کے بل پر قبضہ کررکھا ہے۔ سارے جموں و کشمیر کو ۱۹۴۷ء سے پہلے کی صورتِ حال میں واپس جانا ہوگا۔ تب ہی استصواب رائے ہو سکے گا‘‘۔

بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین پروفیسر جوزف کوربل نے اپنے آرٹیکل میں اس سوال کا جواب دیا تھا (ان کا آرٹیکل The UN, Kashmir and Nehru دیکھا جاسکتا ہے)۔ یہ آرٹیکل ۴مارچ ۱۹۵۷ء کے The New Leaderمیں شائع ہو ا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:’’بھارتی وفد کے مطابق استصواب رائے کے بارے میں قرارداد پر عمل درآمد پاکستان نے روک دیا تھا۔ ایسا اس نے کشمیر کے دوسرے حصہ (آزاد کشمیر) سے اپنی فوج نکالنے سے انکار کی صورت میں کیا تھا‘‘۔ یہ دعویٰ سچ نہیں ہے۔پاکستان فوجیں نکالنے کا اس وقت تک ہرگز پابند  نہیں ہے ،جب تک بھارت اپنے زیر قبضہ کشمیر سےفوجیں نہ نکال لے۔

بھارتی سفیر سنجے پانڈا نے مزید کہا:’’اقوام متحدہ کی قراردادوں پر واقعات کی گرد پڑ چکی ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ۱۹۷۲ء میں ہونے والے شملہ معاہدے میں یہ اصول طے پاگیا تھا کہ دونوں ممالک اپنےباہمی امور دو طرفہ طریقے سے حل کریں گے، جن میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہوگا‘‘۔

اس نکتے پر غیر جذباتی انداز میں غور کرنا ضروری ہے۔ پانڈا خود کہہ چکےہیںکہ کشمیر پر قراردادیں منظورہوئے ۷۳برس گزر چکے ہیں۔وہ ترکی کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ اب ان قراردادوں کو بھول جاناہوگا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محض وقت گزرنےسےتنازعے کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی۔ اسی لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں آج بھی اسی طرح سے موجود ہیں اور عمل درآمد کی منتظرہیں۔ دوسرے ، یہ قراردادیں نہ کبھی متروک ہو سکتی ہیں اور نہ متروک قرار دی جاسکتی ہیں۔ حادثات کی پڑی گرد بھی نہ ان کی حیثیت تبدیل کر سکی ہے اور نہ کر سکے گی۔ وقت گزرنے سے کسی بھی اصول کو غیر مؤثر سمجھا نہیں جاسکتا۔یہ جموں و کشمیر کے عوام کا انمٹ اور ناگزیر حق ہےکہ وہ استصواب رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی معاہدوں کو وقت ختم کر سکتا ہوتا تو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔ اگر عدم عمل درآمد سے کسی معاہدے کو غیرمؤثر یا متروک سمجھ لیا جائے تو بہت سے ممالک میں جنیوا کنونشن بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھے گا۔

 شملہ معاہدہ کے بعد پاکستان اور بھارت تنازعات باہمی پلیٹ فارم پر حل کرنے کے مفروضے کو اگر چند لمحوں کے لیے درست مان بھی لیں تو پھر ہم اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب ٹی ایس ٹائرو مورچو کے ۲؍اگست ۲۰۲۱ء کے خطاب پر کیا کہیں گے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’کشمیر بھارت کا اٹوٹ اَنگ ہے اور یہ ناقابل تنسیخ حیثیت ہے‘۔ اگر رٹی رٹائی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے تو پھر شملہ معاہدہ کے تحت بھارت پاکستان سے کس معاملے پر بات کرنا چاہتاہے؟

دوسرے، شملہ معاہدہ میں ہی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ:’’مسئلہ کشمیر کا حل دو پارٹیوں(بھارت اور پاکستان) کے مقاصد میں سے ہے۔ اس صورت میں ٹی ایس ٹائرو کا یہ موقف تو اپنی جگہ شملہ معاہدے کے خلاف ہے، اقوام متحدہ کی باری تو بعد میں آئے گی۔

سنجے پانڈا جانتے ہیںکہ شملہ معاہدہ قرار دیتاہےکہ:کسی بھی مسئلہ کا حتمی حل نکلنےتک پاکستان یا بھارت اس کی حیثیت یک طرفہ طور پر تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس لیے آرٹیکل۳۷۰، اور ۳۵-اے، ڈومی سائل قانون، سب کی منسوخی نہ صرف شملہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں ہیں، بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۱۲۲کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں قرار دیاگیا ہے کہ ۱۹۵۱ء کی قرارداد کے مطابق نیشنل کانفرنس کی طرف سے سفارش کردہ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلایاجائے،تاکہ پوری ریاست یا اس کے کئی حصوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے جاسکتے کہ جن سےریاستی عوام کی رائے پوری طرح عمل میں نہ آتی ہو۔

اگر بھارت جرأت سے کام لے، وہ ایسے آزادانہ ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے، جو کشمیری عوام کی صحیح اُمنگوں کے ترجمان ہوں، جیسا کہ سفیر پانڈا کہہ رہےہیں، تب یہ امکان نظر آسکتا ہے کہ ۷۳سال سے حل کے منتظر کشمیر کا کوئی فیصلہ ہو سکے۔

لیکن بھارت نے کشمیر میں اپنے نو آبادیاتی طرز کے غیر جمہوری رویوں ہی کو ’جمہوری‘ قرار دے کر پیش کیا ہے۔ ۱۹۶۴ء میں برطانوی مؤرخ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ’’بھارت کا سارا بلندترین آئیڈیلزم دھڑام سے ڈھے جاتاہے، جب اس کا نفاذ کشمیر کے سوال پر کیا جاتاہے‘‘۔

بھارت کے دوسرے گاندھی کا درجہ پانے والے جے پرکاش نرائن نے ۱۹۶۰ء میں اندراگاندھی سے کہا تھا: ’’ہم جمہوریت کا پرچار کرتے ہیں لیکن کشمیر میں ہماری حکمرانی قوت کے بل پر ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا، وہ کشمیر کو ہڑپ کرنا نہیں چاہتا۔ وہاں کے عوام ہمارے بارے میں سیاسی طور پر گہرے اور ان مٹ عدم اطمینان سے دوچارہیں‘‘۔

حکومت جموں وکشمیرکے سابق سیکرٹری بی کے دیو نے ۱۹۹۱ء میں اعتراف کیا تھا: ’’بھارتی جموں و کشمیر میں شروع سے انتخابات دھاندلی زدہ رہے ہیں‘‘۔ ارون دھتی رائے بوکرانعام یافتہ ہیں۔ انھوں نے ۲۷ستمبر۲۰۰۹ء میں واشگاف لفظوں میں کہہ دیا تھا: کشمیر میں انتخابات کی طویل حیران کن تاریخ ہے۔۱۹۸۷ء میں بڑے دھڑلے سے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ ان کی وجہ سے ہی اشتعال پھیلا اورمسلح تحریک نے جنم لیا‘‘۔یہ تحریک ۱۹۹۰ء میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے جموں و کشمیر میں دھاندلی زدہ اور غیرنمایندہ انتخابات فوجی قبضے کے ہتھیار کے طور پر ہی ہوئے ہیں۔ یہ بھارتی ڈیپ سٹیٹ کے مکروہ عزائم کا اصل چہرہ ہیں۔ ایسے ہر نام نہاد انتخاب کے بعد بھارتی مقتدرہ یہ جھوٹا اعلان کرتی ہے کہ ’کشمیری عوام نے ہمیں بھاری مینڈیٹ دیا ہے‘۔

ڈاکٹر شری پرکاش نے اپنی کتاب Twenty Tumultuous Years Insight into Indian Polityکے صفحہ ۵۶۸پر لکھا تھا: ’’کشمیری غم و غصے کی اصل وجہ ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے۔ ایسی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو لاش کی صورت میں ہو۔ فاروق عبداللہ سے لے کر نیچے تک کشمیری لیڈر اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔وہ کسی بھی طرح سے مسئلہ کشمیر سے اب متعلق نہیں رہے‘‘۔ایمی والڈمین نے ۲۴؍اگست ۲۰۰۲ء کے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا: ’’۱۹۸۹ء کے دھاندلی زدہ انتخابات نے مسلح جدوجہد کی بنیاد رکھی‘‘۔

چنانچہ ، ہمیں یقین ہےکہ ایسے بےمعنی اور خودفریبی پر مبنی انتخابات سے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل جمہوری اصول کی پاسداری ہے۔کشمیری عوام اب صرف ایسے انتخابی عمل کا خوشی سے حصہ بننے پر تیار ہوں گے، جن کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ یہ آزادانہ، منصفانہ رائے دہی کے لیے ہوں گے، اور ان کو منعقدکرانے کے لیے اقوام متحدہ جیساغیر جانب دار ادارہ کام کرے۔

سلامتی کونسل میں پاک بھارت تنازعات پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔ لیکن استصواب رائے کا سوال بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور اسے حل کے طور پر طے بھی کیا گیا ہے۔ اس کا واضح اعتراف اقوامِ متحدہ میں بھارتی مندوب گوپال سوامی آیان گر نے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء میں کیا تھا۔ ان کاکہنا تھا: ’’کشمیر کاسوال___ ریاست کےلوگ بھارت سے الحاق ختم کر دیں یا پاکستان سے مل جائیں یاپھر وہ الگ رہنے کا فیصلہ کریںاور اقوام متحدہ کے ایک رکن کی حیثیت اختیار کرلیں۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام ہی کریں گے‘‘۔

لیکن بھارتی حکومت اپنے کسی قول پر کھڑا ہونے کے بجائے قتل و غارت گری کا گُر اختیار کیے ہوئے ہے۔