مجھے یہ واقعہ یاد ہے کہ دسمبر ۲۰۱۶ء میں جب بھارتی پنجاب کے سرحدی شہر امرتسر میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ منعقد ہوئی تھی۔ اس موقعے پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر، اسٹیج ہی سے پاکستان کی طرف سے ۵۰۰ملین ڈالر کی امداد کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی مندوب اور وفاقی وزیر جناب سرتاج عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ اس امداد کو اپنی جیب میں رکھ کر اسے اپنے ملک میں انتہاپسندی کو لگام دینے کے لیے استعمال کریں‘‘۔جس طرح کے تکبر اور بدتہذیبی کا مظاہرہ اشرف غنی اور ان کے وفد نے اس میٹنگ کے دوران کیا، سفارتی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملے گی۔چونکہ اس میٹنگ سے قبل ہی بھارت نے پاکستان میں مجوزہ سارک سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اس کو سبوتاژ کر دیا تھا، اس لیے سرتاج عزیز صاحب کو میزبان بھارت اور افغان مندوبین نے ایک ناقابلِ برداشت ہستی بنا کر رکھ دیا تھا۔
پھر ہم نے دیکھا کہ جس تیزی کے ساتھ افغان طالبان نے پیش قدمی کرکے ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول سنبھال لیا، اس نے پوری دنیا کو تو حیران کرکے رکھ ہی دیا ہے، مگر طالبان کی اس فتح کے بعد، افغان فوج کی شکست اور اشرف غنی کا فرار ، کابل میں موجود افغان و دیگر غیر ملکی میڈیا کے نمایندوں کو خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے، کہ کس طرح وہ پچھلے کئی برسوں سے زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہے، یا جان بوجھ کر اشرف غنی اور امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنے قارئین یا ناظرین کو دھوکا دیتے رہے۔ میڈیا سے متعلق تحقیقی اداروں کو بطور مثال اس جانب دارانہ اور دھوکا دینے والی کوتاہ اندیش رپورٹنگ کو ماس کمیونی کیشن کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یاد رہے دنیا بھر کے تھنک ٹینک اور خارجہ پالیسی کے ادارے اسی رپورٹنگ کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے تھے۔
ابھی تک معروف دفاعی اور ملٹری اکیڈیمیوں سے فارغ شدہ ماہرین کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آخر تقریباً ساڑھے تین لاکھ افغان افواج ریت کی دیوار کی طرح کیوں بیٹھ گئیں؟ جدیدترین اسلحہ سے لیس فوج، جس کی تربیت امریکا ،ناٹو اتحادیوں اور بھارت نے کی تھی، اس نے چندہزار عسکریوں کے سامنے کیسے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیئے؟
مشی گن یونی ورسٹی کے جنوبی ایشیا سے متعلق شعبہ میں پروفیسر جویوان کول نے افغان فوج کی حالت زار کے بارے میں پہلے ہی پیشن گوئی کی تھی: ’’جس طرح ۲۰۰۱ء میں شمالی اتحاد نے امریکا کی مدد سے طالبان کو شکست دی تھی، اسی طرح موجودہ افغان فوج بھی طالبان سے جنگ میں ٹھیر نہیں پائے گی‘‘۔ ان کا استدلال تھا کہ ’’دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں امریکی افواج نے عام افغانی کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ جب ان پر کوئی حملہ ہوتا تھا ، تو اس کا بدلہ لینے کے لیے وہ پورے علاقے میں آپریشن کرکے آدھی رات کو گھروں میں گھس کر خواتین و بچوں کو بے عزّت کرتے تھے، جس کی وجہ سے ظاہرہے کہ اس آبادی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہوجاتی تھیں اور امریکیوں کے ساتھ ان کی نفرت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ انھی آبادیوں سے طالبان کو نئے رضاکار بھی مل جاتے تھے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فوج کی بددلی کی ایک اور وجہ افغان کے (کٹھ پتلی) صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں بے پناہ بد عنوانی تھی۔ ان سیاسی لیڈروں اور افسران نے بیرون ملک نہ صرف محلات تعمیر کیے، بلکہ خلیجی ممالک میں جزیرہ تک خریدے ہیں‘‘۔
اس نئی پیش رفت کے بعد اب لگتا ہے کہ افغانستان میں قتل و غارت گری کا جو باب انقلابِ ثور کے ساتھ اپریل ۱۹۷۸ء میں شروع ہوا، جس کے تقریباً ایک سال بعد کمیونسٹ روسی فوجوں نے ۲۴دسمبر ۱۹۷۹ء کو افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا۔ اور پھر ایک خوں ریز جنگ کے بعد روسی فوجیں پسپا ہوکر ۱۵فروری ۱۹۸۹ء کو واپس چلی گئی تھیں۔ یہ خونیں ’گریٹ گیم‘ اب اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور ان کی حمایت یافتہ حکومت کی برطرفی کے۴۳ سال کے بعد اب فریقین کے لیے جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ضروری ہے کہ طالبان کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی ترک کرکے ان کوتسلیم کریں اور سفارتی سطح پر ربط قائم کریں۔ حد تو یہ ہے کہ اب بھی بعض شخصیات طالبان کو تسلیم نہ کرنے اور ان کے لیڈران پر سفری پابندیا ں عائد کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔
۲۳ برس قبل ۱۹۹۸ء میں امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن جب کابل کے دورہ پر تھے، تو انھوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرکے ان کوخواتین کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم جاری رکھنے اور اسپتالوں میں خواتین کا علاج کرنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں و نرسوں کی تعیناتی پر رضامند کیا تھا۔ اسی طرح طالبان نے افغانستان سے پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔ رائے گٹمین (Roy Gutman) اپنی کتابHow We Missed the Story: Osama Bin Laden, the Taliban and the Hijacking of Afghanistan کے دوسرے ایڈیشن ۲۰۱۳ء میں لکھتے ہیں کہ رچرڈسن نے طالبان کو شمالی اتحاد کے ساتھ بات چیت اور جنگ بندی پر بھی منوا لیا تھا۔ اس کے بدلے وہ امریکا سے سفارتی سطح کے روابط قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ پورے ۲۰سال کی قتل و غارت گری اور ۲ء۲۶ کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا نے بل رچرڈسن کے مسودے کو کوڑے دا ن سے نکال کر دوحہ میں میز پر رکھا۔ آخر یہی کام اگر کرنا تھا ، تو ڈیڑھ لاکھ افراد کی ہلاکت، ڈھائی ہزار امریکی افواج کی اموات اور لاتعداد زخمیوں کو کس کھاتے میں درج کیا جائے گا؟
اس بار ایک اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ ۲۰سال تک افغانستان کے قضا و قدر کا مالک ہونے کے باوجود اب عملاً افغانستان میں امریکا کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ریسرچ فیلو نیلوفر ساخی کے مطابق ’’افغانستان کے حوالے سے پاکستان، ایران، چین اور روس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہو گئی ہے‘‘۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکا نے ایک طرح سے افغانستان، چین کو پلیٹ میں سجا کرپیش کر دیا ہے۔ چین نے حال ہی میں طالبان کے لیڈر مُلّاعبدالغنی برادر کا بیجنگ میں خاصا پُرجوش استقبال کیا۔ اس کے برعکس امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو خاصی سردمہری کا سامنا کرنا پڑا۔
حالات بہتر ہونے کی صورت میں وسط ایشیا کو پاکستانی بندر گاہ گوادر سے منسلک کرنے والے نارتھ ، ساؤتھ ٹریڈ کوریڈور ، اور بیلٹ اینڈ روڑ کو مزید آگے بڑھانے میں افغانستان معاون ثابت ہوگا۔ ۱۹۸۹ء کے بعد روس، افغانستان کے حوالے سے بالکل لاتعلق ہو گیا تھا۔ مگر موجودہ صورت حال میں روس پہلا ملک ہے، جس نے طالبان کی اہمیت کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ سفارتی روابط استوار کیے ہیں۔ حال ہی میں اشرف غنی کی حکومت نے جب امریکا اور بھارت سے فضائی مدد مانگی، تو روس نے افغانستان کی سرحد سے متصل تاجکستان اور ازبکستان کی افواج کے ساتھ مل کر جنگی مشقوں کا آغاز کردیا۔ دوسری طرف چین کے ساتھ مل کر بھاری ہتھیارو ں کے ساتھ سنکیانگ میں سرحد کے پاس مشقیں کیں۔ غرض امریکا اور بھارت تک یہ پیغام پہنچایا کہ اس موقع پر ان کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اگر افغانستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو اس سرزمین پر تاریخ اکثر اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے۔ ۱۸۳۹ء میں برطانوی فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو برطرف کرنا اور شاہ شجاع کو اقتدار میں لانا تھا۔ یہ ہدف برطانوی افواج نے حاصل تو کرلیا، مگر افغانیوں نے جلد ہی اپنی شکست کا بدلہ لے کر برطانوی فوج کا قتل عام کیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برطانیہ نے ایک بار پھر فوج کشی کرکے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ حالات کے کسی حد تک ٹھیک ہونے کے بعد برطانیہ نے طویل مذاکرات کے بعد تخت پھر دوبارہ دوست محمد کے حوالے کردیا، کہ جس کو ہٹانے کے لیے فوج کشی کی گئی تھی، کیونکہ شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا تھا۔
۲۰۰۱ء میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے امریکی قیادت میں دنیا بھر کی افواج نے افغانستان پر دھاوا بول دیا تھا، مگر اب طالبان کی واپسی کی راہ ہموار کرکے پھر وہی تاریخ دُہرائی جا رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دے کر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر دنیا سے جوڑا جائے، اور یہ بتایا جائے کہ افغانستان کے حکمران تاریخ و واقعات سے سبق لے کر اس جنگ زدہ ملک میں ایک نئی صبح کا آغاز کریں گے۔ بین الاقوامی برادری پر بھی لازم ہے کہ اس صبح کی تعمیر میں کابل انتظامیہ کی مدد کریں۔