۲۰۱۴ء میں افغانستان کے صدارتی انتخابات کا تنازع بالآخر حل کر لیا گیا ہے اورایک معاہدے کے تحت دو صدارتی امیدواروں ڈاکٹراشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکت اقتدار کا معاہدہ طے پانے کے بعد نئے صدر نے حلف اٹھالیا۔ اس طرح حامدکرزئی کے طویل دور صدارت کا ۱۰سالہ خاتمہ اور اس کے جانشین کے تعین کا مسئلہ حل ہو گیا ہے ۔ نئے صدر نے حلف اٹھانے کے بعد اگلے روز امریکا کے ساتھ اس دو طرفہ معاہدے پر دستخط کر دیے جس کا امریکی حکومت کو ایک طویل عرصے سے انتظار تھا اور اس کے لیے اس کو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑے، کیونکہ سابق صدرحامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس معاہدے کی رو سے اب امریکی صدر باراک اوباما اپنی اعلان کردہ پالیسی کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج دسمبر ۲۰۱۴ء تک نکال سکیں گے اور نسبتاً طویل عرصے تک اپنی افواج کا ایک حصہ افغانستان میں بر قرار رکھیں گے ۔
ان دونوں معاہدوں کا ایک تفصیلی جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ان چند اہم عوامل کا تذکرہ کریں جو موجودہ دور میں افغانستان کی عالمی سطح پر اہمیت اور واحد سوپر پاور امریکا کے اس کے بارے میں جاری رویے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ۱۹۷۹ء میں روس نے افغانستان پر فوج کشی کی اور پھر ایک دہائی تک وہ دنیا کے اس غریب ترین ملک میں کمیونسٹ نظام نافذ کرنے کے لیے کوشاں رہا ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے پورے افغانستان کو بمباری سے تباہ و برباد کیا۔ سابق سوویت یونین کی اس جارحیت کے نتیجے میں ۱۵لاکھ افغان جاں بحق ہوئے ہیں، ۵۰لاکھ سے زائد افغان شہر ی پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ پوری دنیا نے اس جارحیت کی مذمت کی اور بالآخر افغان مجاہدین کی لازوال قربانیوں اور عالمی طاقتوں کی کوششوں سے وہ افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوا۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد۲۰۰۱ء میں امریکا اپنے تمام اتحادیوں اور لائو شکر سمیت افغانستان پر چڑھ دوڑا اور طاقت کے بے تحاشا استعمال کے بعد یہاں کی اسلامی امارت کو ختم کرنے اور اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا ۔
گذشتہ ایک دہائی میں امریکی حکومت نے اربوں ڈالر خرچ کر کے افغانستان میں اپنی مرضی کا جمہوری نظام قائم کرنے کی کوشش کی ۔ صدارتی ،پارلیمانی ، صوبائی ہر سطح پر انتخابات ہوتے رہے لیکن وہ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوا، اس کی ہلکی سی جھلک آپ ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے نتائج میں دیکھ سکتے ہیں۔ جب ناکام ہونے والے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے دوسرے مرحلے کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگایا، تو اس کے بعد دوبارہ گنتی کا اہتمام ہو اجس کو ’ووٹ آڈٹ‘کا نام دیا گیا۔ عالمی مبصرین کی موجودگی میں دونوں صدارتی امیدواران کے نمایندوں کے سامنے ووٹوںکی دوبارہ گنتی کی گئی اور جعلی ووٹوں کو مسترد کیا گیا، تو آخر میں کسی بھی حتمی نتیجے کا اعلان تک نہ کیا جا سکا۔گویا پورا انتخابی عمل جو کئی مہینوں پر محیط تھا اور جس پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے تھے، بے نتیجہ رہا اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی کوششوں سے دونوں سیاسی شخصیات کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں نئی کابل حکومت وجود میں آئی ۔ اب آئیں ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
۲۰ستمبر ۲۰۱۴ء کو طے پانے والے اس معاہدے کا عنوان ہے: ’’قومی اتحادی حکومت کی تشکیل کے لیے دو انتخابی ٹیموں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ‘‘۔ اس معاہدے کا آغاز اللہ کے بابرکت نام سے کیا گیا اور اس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ اس کے ذریعے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا ایک قانونی حل طے کیا جائے گا ۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ہمارا محبوب وطن افغانستان جس نازک دور سے گزر رہا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ یہاں ایک مضبوط آئینی حکومت کا قیام عمل میں آئے جو سیاسی استحکام اور اجتماعی سوچ کی حامل ہو ۔
موجودہ دور کی نزاکتوں کے پیش نظر ضروری ہے کہ ایک ایسی وسیع البنیاد قومی فکر پیدا کی جائے جو سیاسی اصلاحات اور بنیادی تبدیلیوں کو انگیز کر سکے ۔ قوم کی واضح اکثریت کی نمایندگی کرتے ہوئے دوسرے مرحلے کی انتخابی ٹیمیں اپنی قومی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ایک قومی وحدانی حکومت قائم کر رہی ہیں ۔ اس معاہدے کے تین بنیادی نکات درج ذیل ہیں:
بعد میں اس معاہدے پر دونوں صدارتی امیدواروں ڈاکٹر محمد اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنے دستخط ثبت کیے ۔ معاہدے کے گواہ کے طور پر افغانستان میں امریکی سفیر جیمزبی کننگھم اور اقوام متحدہ کے نمایندے جان کیوبس نے بھی دستخط کیے۔
معاہدے میں بین الاقوامی برادری کا شکریہ ادا کیا گیا ہے جس نے سیاسی اور تکنیکی معاونت فراہم کی، اور متعلقہ پارٹیوں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس معاہدے پر عمل درآمد اور قومی حکومت کے قیام کی حمایت کرتے رہیں گے ۔
اس معاہدے کے بعد ۲۹ستمبر کو ڈاکٹر اشرف غنی نے افغان صدارتی محل (ارگ)میں ہونے والی ایک بڑی تقریب میں نئے افغان صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ۔ اس موقعے پر جنرل عبدالرشید دوستم اور سرور دانش نے نائب صدور کی حیثیت سے حلف اٹھایا ، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے چیف ایگزیکٹو (CEO)کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ یہ وہ منصب ہے جو خاص ان کے لیے نئے معاہدے میں تخلیق کیا گیا ہے ۔ تقریب حلف برداری میں صدر پاکستان ممنون حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ اور اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان کے علاوہ متعدد ممالک کے سربراہان اور نمایندوں نے شرکت کی۔ نئی حکومت کو اب کابینہ سازی کا مرحلہ درپیش ہے جس کے لیے دونوں گروپوں کے ممکنہ امیدوار کابل میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور زبردست جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے ۔
دوسرا معاہدہ جو ریاست ہاے متحدہ امریکا اور اسلامی جمہوریہ افغانستان کے درمیان طے پایا وہ باہمی دفاع اور سلامتی کے لیے تعاون کا معاہد ہ ہے جس پر حلف اٹھانے کے بعد اگلے ہی روز ڈاکٹر اشرف غنی احمدزئی نے دستخط کیے ۔ یہ وہ معاہدہ تھا جس کی امریکی حکومت کو بہت جلدی تھی اور عرصۂ دراز سے وہ اس موقعے کے انتظار میں تھے ۔ چنانچہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر نئی کابل انتظامیہ کے سربراہ سے دستخط کروا لیے گئے ۔
معاہدے کے مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں نے اس کو خاصی عرق ریزی سے تیار کیا ہے ۔ اس کی ۲۶دفعات ہیں ۔ جس میں تفصیل سے ان تمام معاملات و تنازعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو تادیر افغانستان میں امریکی افواج کے قیام سے پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اس معاہدے کے جواز کے طور پر جو حوالے دیے گئے ہیں، ان میں ۲مئی ۲۰۱۴ء کو افغانستان اور امریکا کے درمیان ہونے والے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ معاہدہ ، ۲۱مئی ۲۰۱۴ء کو شکاگو میں سربراہان مملکت کانفرنس کا اعلامیہ، اور ۲۰۱۳ء میں افغانستان کے لویہ جرگہ کی قرار داد شامل ہیں۔ اس کا اصل مقصد افغانستان کی سا لمیت، آزادی ،جغرافیائی سرحدوں اور قومی وحدت کی حفاظت ہے ۔ معاہدے کی تمہید میں باربار افغانستان کے داخلی امور میں عدم مداخلت کے اصول کو دہرایا گیا ہے ۔ معاہدے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس ملک کو القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ پڑوسی ممالک کے خدشات کے پیش نظر اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی اڈے اور افواج ان کے خلاف بہر صورت استعمال نہیں کی جائیں گی ۔
معاہدے کی ۲۶ دفعات کے عنوانات حسب ذیل ہیں: اصلاحات کی تشریح ، مقصد اور دائرہ اختیار ، قوانین ، افغانستان کی دفاعی صلاحیت کی ترقی اور استحکام ، دفاع اور سلامتی کے لیے باہمی تعاون کا طریقۂ کار ، بیرونی جارحیت کا سد باب ، طے شدہ سہولتوں اور اڈوں کا استعمال ، جایداد کی ملکیت ، اسلحہ اور آلات کی اسٹوریج اور استعمال ، جہازوں ،کشتیوں اور گاڑیوں کی نقل و حرکت ، ٹھیکہ داری کے ضابطے ، اشیا ے صرف اور مواصلات ، افرادِ کار کی قانونی پوزیشن ، اسلحہ اور یونیفارم کا استعمال ، ملک میں آنے اورجانے کے ضابطے ، درآمدات و برآمدات ، محصولات ، ڈرائیونگ اور پیشہ ورانہ لائسنس کا اجرا ، موٹر گاڑیوں کے لائسنس ، ضروری خدمات، مثلاً ڈاک ، بینکاری وغیرہ ، زرمبادلہ ، قانونی دعوے ، ضمیمے ، تنازعات اور معاہدے ، مشترکہ کمیشن اور معاہدے کی تاریخ نفاذ اور خاتمے کا طریقہ۔ گویا کوشش کی گئی ہے کہ جزئیات میں جا کر امریکی مفادات اور کارروائیوں کو قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔
اس معاہدے کے تحت ہر ہر معاملے میں امریکی مفاد کو ترجیح دی گئی ہے اور پھر بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ افغان امور میں عدم مداخلت اس معاہدے کا سب سے اہم نکتہ ہے ۔ یہ معاہدہ یکم جنوری ۲۰۱۵ء سے لاگو ہو گا اور اس کی مدتِ کار کا کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے، یعنی خاتمے کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ایک پارٹی اس کو ختم کرنا چاہے تو اس کے لیے اس دوسری پارٹی کو دوسال کا تحریر ی نوٹس دینا پڑے گا۔ اس معاہدے کے تحت امریکی افواج کو درج ذیل مقامات اور شہروں میں اپنے اڈے قائم کرنے یا برقرار رکھنے کی اجازت ہو گی: کابل ، بگرام ، مزار شریف ، ہرات ، قندہار ، شوراب (ہلمند )،گردیز ، جلال آباد اور شین ڈھنڈ۔ اس کے علاوہ بھی اگر کسی اور مقام پر امریکی فوج چاہے تو اپنی موجودگی رکھ سکے گی، صرف وزارت دفاع سے اس کی اجازت لینی ہو گی ۔
جن مقامات کے ذریعے امریکی افواج افغانستان میں داخل یا خارج ہو سکیں گی ان میں بگرام کا ہوائی اڈا ،کابل کا بین الاقوامی ہوائی اڈا ، قندہار ، شین ڈھنڈ ، ہرات ، مزارشریف اور شوراب کے فضائی مستقر ، زمینی راستے طورخم ، سپین بولدک ، طور غنڈی (ہرات )،ہیرتان بندر (بلخ )اور شیرخان بندر (قندوز) شامل ہیں۔ اس میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ جن پڑوسی ممالک سے امریکی افواج گزر کر افغانستان میں داخل ہوں گی آیا ان سے کوئی معاہدہ کیا گیا ہے یا اجازت لی گئی ہے یا نہیں، جس میں پاکستان بھی شامل ہے ، واضح نہیں۔
اس معاہدے میں جس انداز سے افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس پر اب تک عالمی ادارے اور حقوق انسانی کے دعوے دار خاموش ہیں ۔ بین الاقوامی ضابطوں میں اس کی کس قدر گنجایش ہے، اس پر بھی کوئی بات نہیں کر رہا ہے ۔ اس کے اخلاقی پہلوئوں پر بھی کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے ۔ ایک عجیب سی خاموشی ہے ۔ اس پر کسی حکومت نے اب تک اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا ۔اس پرکوئی بھی نہیں بول رہا ہے، حتیٰ کہ افغانستان کے دو اہم اور بڑے پڑوسی اور حریف ممالک روس اور چین کے علاوہ امریکا مخالف ایران بھی اس معاہدے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ یورپین یونین ، او آئی سی ، اقوام متحدہ کے ادارے ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ، ہیومن رائٹس کمیشن، سب کے سب خاموش ہیں ، جیسے ان سب کے لب سی دیے گئے ہوں۔
امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ بھارت نے بھی اس معاہدے کا نہ صرف خیر مقدم کیا ہے بلکہ اسے افغانستان کے استحکام اور امن و سلامتی کے لیے ناگزیر بھی قرار دیا ہے ۔ حیرت ہے کہ پاکستا ن جس پر افغانستان میںمداخلت اور طالبان کی تحریک مزاحمت کی پشتیبانی کا الزام تسلسل کے ساتھ لگتا رہا ہے، اس کی جانب سے اس نام نہاد دو طرفہ معاہدے کو سراہا گیا ہے ۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جس معاہدے کی تحسین بھارت کی جانب سے کی جا رہی ہے اسے پاکستان کے مفاد میں کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے ۔ کیا یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ ہے کہ اس خطے میں ڈیورنڈ لائین کے آرپار لگی آگ کا واحد ذمہ دار امریکا ہے؟ کیا امریکا افغانستان میں اپنی کھلی جارحیت اور پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی پشتیبانی کے الزامات سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکتا ہے؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکا جب تک اس خطے میںموجودرہے گا تب تک یہاں نہ تو امن کی خواہش پوری ہو سکتی ہے اور نہ یہ خطہ ہی ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔ افغان امریکا دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے کا حکومت پاکستان کی جانب سے خیر مقدم تو شاید پاکستانی حکمرانوں کی مجبوری ہو گی لیکن اس کا ایک قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کسی بھی سیاسی اور مذہبی راہنما کو بھی اس یک طرفہ معاہدے پر لب کشائی کی ہمت نہیں ہوئی، جن میں نام نہاد قوم پرست راہنمائوں سے لے کر مذہبی راہنما تک شامل ہیں ۔
تاہم، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خیبر ایجنسی کے اپنے حالیہ دورے کے موقعے پر پاک افغان بارڈر پر واقع سرحدی علاقے لنڈی کوتل میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کے دوران افغان امریکا سیکیورٹی معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر جن تحفظات کا اظہار کیا ہے، اس کا افغانستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے دیکھنے والوں کی غالب اکثریت نے زبردست خیر مقدم کیا ہے ۔ واضح رہے کہ سراج الحق صاحب نے مذکورہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے طالبان اور حکمت یار گروپ کے ساتھ مذاکرات کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں، البتہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کو ٹھیرانے کے معاہدے پر تشویش ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کی موجودگی میں تمام ہمسایہ ممالک کے خلاف سازشیں ہوں گی اور اس سے ہمسایہ ممالک میں بے چینی برقرار رہے گی۔ انھوں نے امریکی افواج کی دسمبر۲۰۱۴ء کے بعد افغانستان میں موجودگی کے نتیجے میں ہمسایہ ممالک کی جس بے چینی کا ذکر کیا ہے عملاً تو یہ بات افغانستان کے ہر پڑوسی ملک کے دل کی آواز ہے، لیکن چونکہ یہ ممالک اپنی کمزوریوں اور سیاسی مجبوریوں، نیز بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے افغان امریکا معاہدے پر کھل کر کچھ کہنے سے معذور ہیں، اس لیے عام تاثر یہی ہے کہ اس معاہدے پر ان کی خاموشی کو جس ظاہری رضامندی سے تعبیر کیا جا رہا ہے، وہ دراصل ان ممالک کی ’دیکھو اور انتظار کرو‘ پالیسی کا مظہر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک نے گذشتہ ۱۳ سالہ خاموشی کے باوجود امریکا کی اپنے پڑوس میں موجودگی کو نہ تو دل سے قبول کیا ہے اور نہ وہ اس موجود گی کو آیندہ ہی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے۔ وہ ایسا کیوں نہیں کریں گے اس کی حقیقت سے ہرکوئی بخوبی واقف ہے ۔
۲۰۱۴ء افغانستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی صدر اوباما کے اعلان کے مطابق دسمبر ۲۰۱۴ء میں امریکی و دیگر ناٹو افواج افغانستان سے واپس چلی جائیں گی، البتہ چند ہزار پر مشتمل لڑاکا فوج اور فضائیہ پانچ عسکری اڈوں پر باقی رہ جائیں گی۔ ملکی امن و امان قائم رکھنے کا سارا اختیار اور ذمہ داری افغان نیشنل فورس اور پولیس کے حوالے کر دی جائے گی اور غیر ملکی فوج کا کردار محدود ہوگا۔ تاہم طالبان کی واپسی کے خدشے کے پیش نظر امریکی فوج افغانستان میں ایک طویل عرصے کے لیے موجود رہے گی۔ امریکی فوج کی موجودگی کو قانونی شکل دینے کے لیے ضروری ہے کہ کابل میں افغان حکومت کے ساتھ امریکی حکومت کا ایک معاہدہ ہو۔ موجودہ صدر حامد کرزئی نے امریکی دبائو کے باوجود اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یہ کام آیندہ منتخب حکومت کے ذمے کر دیاگیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو امریکیوں کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کر دے۔ لیکن امریکی پریشانی میں اس وقت تازہ اضافہ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج کے معلق ہونے سے ہوا۔ افغان الیکشن کمیشن نے جب دوسرے مرحلے کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کیا تو تمام بین الاقوامی مبصرین حیران رہ گئے کہ ڈاکٹر اشرف غنی نے ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ سے ۱۰لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے جو ایک حیران کن معاملہ تھا۔ اس لیے عبداللہ عبداللہ نے فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہ نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور احتجاجی تحریک چلانے اور متوازی حکومت بنانے کا اعلان کیا۔
پہلے مرحلے کے صدارتی انتخاب، جو اس سال ۲۰؍اپریل میں مکمل ہوئے تھے، کے نتائج کے مطابق اول نمبر پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ آئے تھے۔ انھوں نے ۴۵فی صد تقریباً ۳۰لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ دوسرے نمبر پر ڈاکٹر اشرف غنی نے ۶ء۳۱فی صد، یعنی تقریباً ۲۱ لاکھ ووٹ لیے تھے جو عبداللہ عبداللہ سے ۹لاکھ کم تھے۔ زلمے رسول نے تیسری پوزیشن ۴ء۱۱،یعنی ساڑھے سات لاکھ ووٹ لیے۔
پروفیسر عبدالرب رسول سیاف نے ۳ء۷فی صد، یعنی ۴لاکھ ۶۵ہزار ، انجینئر قطب الدین ہلال نے ۸ء۲فی صد، یعنی ایک لاکھ ۸۰ہزار، جب کہ چھٹے نمبر پر گل آغا شیرازی نے ۶ء۱فی صد، یعنی ایک لاکھ ووٹ لیے تھے۔ ان میں سے زلمے رسول ، استاد سیاف اور گل آغا شیرازی نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی دوسرے مرحلے میں حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس لیے اس کی جیت یقینی نظر آرہی تھی۔ لیکن دوسرے مرحلے میں پانسہ پلٹ گیا اور ابتدائی مرحلے کے نتائج ہی میں ڈاکٹر اشرف غنی سبقت لے گئے۔ انھوں نے غیر حتمی نتائج کے مطابق ۴۴لاکھ ۸۵ہزار ووٹ حاصل کیے، جب کہ عبداللہ عبداللہ نے ۳۴لاکھ ۶۱ہزار ووٹ لیے۔ اس طرح احمد زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے پختون اُمیدوار ڈاکٹر اشرف غنی بھاری اکثریت سے کامیاب نظر آئے ، جب کہ تاجک پس منظر کے حامل ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ شکست کھاگئے۔ لیکن انھوں نے اس شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کا الزام لگایا۔ مبصرین نتائج کی اس تبدیلی میں موجودہ صدر ڈاکٹر حامد کرزئی کا کردار تلاش کر رہے ہیں جس نے قسم کھائی تھی کہ عبداللہ کو عرق(صدارتی محل ) میں گھسنے نہیں دوں گا۔ اس نے پہلے مرحلے میں بھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ہرانے کی ہر ممکن کو شش کی تھی۔ اس مقصد میں اس حد تک اس کو کامیابی ملی کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پہلے مرحلے میں ۵۰فی صد ووٹ حاصل کرنے کا ہدف حاصل نہ کر سکے، جب کہ وہ اس کے قریب پہنچ چکے تھے اور اگر اُمیدواروں کی تعداد کم ہو تی تو شاید وہ بہ آسانی یہ ہدف حاصل کر چکے ہوتے۔
کہا جاتا ہے کہ حامد کرزئی نے کئی اُمیدواروں کو کھڑا کروا کر یہ مقصد حاصل کیا۔ پھر دوسرے مرحلے میں براہ راست مقابلہ پختون اور تاجک اُمیدوار کا ہوا۔ قومی تعصبات نے اس مرحلے میں خوب رنگ جمایا اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم نظرآئی۔ جن نتائج کا اعلان ہوا ہے اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پختون اکثریت آبادی رکھنے والے صوبوں میں ڈاکٹر اشرف غنی کو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے کامیابی نصیب ہوئی۔ اس نے کل ۱۸صوبوں میں الیکشن جیتا جن میں پکتیا ، پکتیکا ،خوست، ننگر ہار، کنٹر ، لغمان ، قندوز، ہلمند، زابل اور اورزگان جیسے پختون ولایتوں میں لاکھوں ووٹ حاصل کیے، جب کہ عبداللہ عبداللہ چند ہزار تک محدود رہے۔ سب سے دل چسپ نتیجہ صوبہ قندھار کا ہے جہاں سے عبداللہ عبداللہ کا آبائی تعلق ہے، وہاں ڈاکٹر اشرف غنی نے ۲لاکھ ۶۸ہزار ووٹ حاصل کیے، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ کو صرف ۵۱ہزار ووٹ ملے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ اول نائب صدر کے طور پر جنرل رشید دوستم اُمیدوار تھے جو ازبکوں کے نمایندہ اور مسلمہ رہنما مانے جاتے ہیں۔ اس لیے ان صوبوں میں بھی ڈاکٹر اشرف غنی کا پینل کامیاب ہوا جن میں جو زجان ، فریاب اور نمروز وغیرہ شامل ہیں، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو تاجک ووٹوں کی بھاری اکثریت ملی، جن کی آبادی افغانستان میں ۲۷فی صد تک سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح ہزارہ کے ووٹ بھی زیادہ ان کو ملے۔ جن صوبوں میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو واضح اکثریت ملی ان میں کپیسا، پروان ، غزنی ،بدخشان ، تخار ،بغلان ، سمنگان ، بلخ،ہرات، نمروز، بامیان ، پنجشیر ، ڈایکنڈی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی کل تعداد ۱۶ہے۔
مرکزی صوبے کابل میں ڈاکٹر اشرف غنی نے ۴لاکھ ۵۴ہزار ووٹ حاصل کیے، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ۴لاکھ ۲۲ہزار ووٹ لیے، یعنی مقابلہ تقریباً برابر رہا۔ ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ نے انتخابی دھاندلیوں کے جو الزام لگائے اس میں جعلی ووٹ، ایک ووٹرکے ووٹ کا کئی بار استعمال اور مخصوص حلقوں اور پولنگ اسٹیشنوں پر یکطر فہ ووٹنگ وغیرہ شامل ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ دونوں اُمیدواروں نے جہاں موقع ملا وہاں خوب دھاندلی کی۔ پہلے مرحلے میں پختون اکثریت کے کئی صوبوں میں طالبان کے خوف سے ووٹنگ کی شرح بہت کم تھی لیکن اس با ر وہاں لاکھوں ووٹ پول ہوئے۔ اس کی ایک وجہ طالبان کی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے دشمنی بھی بتائی جاتی ہے لیکن وہ دونوں اُمیدواروں کو امریکی گماشتے تصور کرتے ہیں اور سرے سے پورے انتخابی عمل کو ماننے سے انکاری ہیں۔ اس لیے اس کا امکان کم ہے کہ انھوں نے عبداللہ عبداللہ کی مخالفت میں ڈاکٹر اشرف غنی کو ووٹ دینے کی حمایت کی ہوگی۔ ان صوبوں میں ووٹوں کے رجسٹریشن کی شرح بھی خاصی کم تھی۔ اس لیے دھاندلی کے امکانات کو تقویت ملتی ہے۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے احتجاج کا امریکا نے سنجیدگی سے نوٹس لیا۔ اس سے پہلے ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں بھی ڈاکٹر عبداللہ نے حامد کرزئی پر بدترین دھاندلی کے الزامات لگائے تھے، بلکہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں دوسرے مرحلے میں وہ یہ کہہ کر انتخابات سے دستبردار ہو گئے تھے کہ حامد کرزئی کی موجودگی میں شفاف انتخابات ممکن ہی نہیں۔ اب حامد کرزئی کی جگہ ڈاکٹر اشرف غنی نے لے لی اور ایک بار پھر عبداللہ عبداللہ دھاندلی کا شکار ہو گئے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس ماہ دو مرتبہ کابل کا دورہ کیا اور دونوں صدارتی اُمیدواران کا موقف سننے کے بعد ان کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ دوسری بار کابل کے دورے میں وہ ان دونوں اُمیدواران کے درمیان ایک معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ جس کاباقاعدہ میڈیا میں اعلان کیا گیا اور دونوں رہنمائوں نے اس پر اتفاق کیا کہ ایک ایسامصالحتی کمیشن بنایا جائے جو ایک قومی حکومت کا قیام ممکن بنائے۔ دونوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دونوں طرف سے مقرر کردہ مبصرین کی موجودگی میں سارے ووٹ دوبارہ شمار کیے جائیں جس کو آڈٹ کا نام دیا گیا اور مشکوک ووٹوں کو گنتی سے نکال باہر کیا جائے۔ اس دوبارہ گنتی کے نتیجے میں جو اُمیدوار اکثریت حاصل کرے وہ صدر بن جائے گا اور دوسرا اُمیدوار اس کے ساتھ نائب صدر اول بنے گا۔ اس طرح ایک مخلوط حکومت کابل میں اقتدارسنبھالے گی۔ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور آڈٹ کاکام شروع ہوگیا ہے۔دونوں جانب کے مقررکردہ مبصرین اس عمل میں شریک ہیں۔ یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ اس عمل سے گزرنے کے بعد بھی ڈاکٹر اشرف غنی ہی کامیاب ٹھیریں گے کیونکہ ان کو۱۰لاکھ ووٹوں کی سبقت حاصل ہے۔ پہلے دو تین دن جو کام ہوا اس میں ۸۵ہزار ووٹوں کو مسترد کر دیا گیا لیکن اس میں اگر زیادہ ووٹ ڈاکٹر اشرف غنی کے ضائع ہوئے تو ۳۰ہزار ووٹ عبداللہ کے بھی گئے۔ البتہ ڈاکٹر اشرف غنی کو جو بڑی سبقت حاصل ہے، اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔
ڈاکٹر اشرف غنی احمد زئی بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر اقتصادیات ہیں۔ انھوں نے کولمبیا یونی ورسٹی امریکا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور کئی امریکی یونی ورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں ورلڈ بنک میں ملازمت اختیار کی۔ اس دوران انھوں نے کئی ممالک بشمول چین اور روس میں خدمات سر انجام دیں اور اپنی ذہانت اور مہارت کا لوہا منوایا۔ ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ افغانستان واپس آئے اور حکومت میں شامل ہوئے۔ وہ شروع میں صدر حامد کرزئی کے مشیر خاص تھے اور بون معاہدے پر عملدرآمداور لویہ جرگہ کی تشکیل میں ان کا اہم کردار رہا۔ پھر وہ وزیر خزانہ بن گئے اور افغانستان کی معاشی ترقی ،نئی افغان کرنسی کے اجرا ،سالانہ بجٹ کی تیاری اور مالی ضابطوں کی پابندی میں نام کمایا۔ انھوں نے بین الاقوامی ڈونرز ایجنسیوں کا اعتماد حاصل کیا۔خود احتسابی اور کرپشن کے خلاف سخت کارروائیاں ان کی وجۂ شہرت ہیں۔ بعد میں انھوں نے کابل یونی ورسٹی میںایک ادارہ ’مؤثر ریاستی انسٹی ٹیوٹ‘قائم کیا جس نے بہت جلد عالمی شہرت حاصل کی۔ یہ ایک منفر د ادارہ تھا جو کمزور اقتصادی ممالک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے حکمت عملی بنانے میں مدد گار ثابت ہوا۔ دیہات کی سطح پر ترقی کا منصوبہ اور ویلج کونسل کا قیام بھی ان کے ذہن کی پیدوار ہیں۔ ۲۰۰۸ء کے الیکشن کے بعد وہ افغان کابینہ کا حصہ نہ بنے بلکہ انھوں نے پسند کیا کہ وہ کابل یونی ورسٹی کے چانسلر بنیں اور تعلیمی اداروں کو ترقی دیں۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی بیوی کا تعلق لبنان کے ایک عیسائی گھرانے سے ہے۔ افغانستان کی معاشی ترقی میں ایک مستقل کردار ادر کرنے کے بعد وہ اب سیاسی میدان میں بھی اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں۔ وہ ایک عملی انسان ہیں اور سائنسی اور علمی خطوط پرملک کو چلانا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے حوالے سے بھی ان کا موقف نرم ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کیے جائیں اور ان کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔
ڈاکٹر اشرف غنی کے مقابلے میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ افغانستان کے ایک مسلمہ قومی رہنما ہیں۔ ان کے والد غلام محی الدین خان ، ظاہر شاہ کے دور حکومت میں سینیٹر تھے۔ انھوں نے ۱۹۷۷ء میں کابل یونی ورسٹی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی اور پھر ماہر امراض چشم کی حیثیت سے النورہسپتال کابل میں خدمات سر انجام دیں۔ ۱۹۸۴ء میں پاکستان ہجرت کی اور وادیِ پنج شیر میں کمانڈر احمد شاہ مسعود کے ساتھ روسیوں کے خلاف جہاد میں شامل ہوئے۔ ۱۹۹۲ء میں نجیب انتظامیہ کے خاتمے اور مجاہدین حکومت کے قیام کے بعد بھی وہ احمد شاہ مسعود کے ساتھ وزارت دفاع کی ترجمانی کرتے رہے۔ پھر وزیرخارجہ بنے اور عالمی سطح پر ان کی شہرت ہوئی۔ نائن الیون کے بعد وہ پھر وزارتِ خارجہ ہی کے نمایندے کے طور پر بون کانفرنس میں شامل ہوئے۔ صدر حامدکرزئی کے پہلے دور میں وہ بحیثیت وزیر خارجہ کا بینہ کے اہم رکن اور ترجمان تھے۔ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں وہ صدر حامد کرزئی کے مقابلے میں ایک مضبوط صدارتی اُمیدوار رہے اور دوسری پوزیشن حاصل کی۔
موجودہ انتخابات میں وہ صلاح الدین ربانی، جو استاد برہان الدین ربانی کے صاحبزادے ہیں، کی قیادت میں جمعیت اسلامی افغانستان کی جانب سے صدارتی اُمیدوار تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھ حزب اسلامی کے ایک مضبوط سیاسی دھڑے ارغندیوال گروپ کو ملا یا اور ان کے انجینیرمحمد خان کو نائب صدر اول کا اُمیدوار بنایا۔ اس کے علاوہ ہزارہ برادری کے استاد محقق کو نائب صدر بنا کر انھوں نے ایک قومی قیادت کا تصور پیش کیا۔ جہادی پس منظر کے باوجود ان کی شہرت ایک لبرل اور قوم پرست رہنما کی ہے۔ وہ طالبان کے مخالف ہیں۔ بھارت اور روس سے ان کے اچھے تعلقات ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی مخلوط حکومت کا تصور بہت سارے افغانیوں کے لیے ناقابل فہم ہے۔ امریکی دبائو پر انھوں نے آپس میں معاہدہ تو کر لیا لیکن اس کے عملی تقاضے پورے کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ دونوں کیمپوں میں ایسے افراد موجود ہیں جو اس گٹھ جوڑ سے خوش نہیں۔ امریکیوں کو بھی موجودہ انتخابات سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ حامد کرزئی کا متبادل تلاش کرنا ان کے لیے درد سر بنتا جا رہا ہے۔ جان کیری جتنے بھی کابل کے دورے کریں ہر بار ان کو ایک نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر اشرف غنی مسلسل بیان دے رہے ہیں کہ وہ ایک کمزور صدر بننا پسند نہیں کریں گے۔ بہر حال آنے والے دنوں میں افغانستان میں امریکیوں کے لیے مشکلات و مسائل میں اضافہ ہوگااور امریکی افواج کے انخلا کے پروگرام میں تاخیر کا باعث بن سکتے ہیں۔
یہ ایک ناقابل فراموش منظر تھا ۔ میران شاہ بنوں شاہراہ پر ہزاروں گاڑیاں آہستہ آہستہ رینگ رہی تھیں ۔ ٹرکوں ، بسوں ، ٹرالیوں ،منی بسوں ، کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار تاحد نظر لوگوں کا ایک اژدھام تھا جو اُمڈ پڑا تھا ۔ بوڑھوں ، نوجوانوں ،عورتوں اور بچوں کے چہرے بھوک و پیاس کی تکلیف سے کرب بلا کی مجسم تصویر بنے ہوئے تھے ۔ وہ مرد جن کے سروں پر مقامی وزیرستانی کالی دھاریوں والی پگڑی عزت و وقار کی علامت ہوتی تھی، اب ننگے سر ، پریشان حال ، دھول و مٹی سے اَٹے ہوئے تھے ۔ عورتیں کالی چادریں اوڑھے ہوئے نصف چہرہ چھپائے کسی پناہ، کسی سایے کی تلاش میں تھیں اور پھول سے سرخ و سفید بچے ، پچکے گال،کملائے چہروں کے ساتھ پانی کے لیے بلک رہے تھے۔۴۳ ڈگری سنٹی گریڈ کی شدیدگرمی میں ۱۸جون کا یہ دن یقینا ان لاکھوں انسانوں کے لیے قیامت کا دن تھا ۔
پاکستان کے سات قبائلی علاقوں میں سے ایک شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہو چکا ہے ۔۱۵جون کو اچانک پاک فوج کے دستوں نے زمینی کارروائی ،توپخانے سے گولہ باری اور فضائی بمباری شروع کر دی ۔ اس سے چند دن پہلے قبائلی جرگے کو بلا کر ان کو ۱۵دن کا الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ ۱۵دن کے اندر علاقے سے غیر ملکیوں اور دیگر مسلح افراد کو نکال باہر کریں وگرنہ سخت کارروائی ہو گی ۔ پھر وقت سے پہلے ہی عسکری کارروائی شروع کر دی گئی ۔ تین دن کے بعد کرفیو میں وقفہ دیا گیا اور لوگوں کو موقع دیا گیا کہ وہ محفوظ مقامات پر چلے جائیں ۔ چنانچہ لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر بے یارومددگار پیدل یا سوار انجان منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جن کو سواری میسر آئی وہ سوار ہو گئے اور جن کو نہ ملی وہ پیدل ہی چل پڑے ۔ مردوں اورعورتوں نے سروں پر سامان رکھا اور ہاتھوں میں چھوٹے بچوں کو اٹھایا ۔ بوڑھوں اور بچوں نے مال مویشی کی رسیاں ہاتھوں میں تھامیں اور اہل خانہ کے ساتھ اپنے محفوظ گھروں کوخیر باد کہتے ہوئے انجان منزل کی جانب روانہ ہوگئے ۔
پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ایک طویل عرصے سے مسلح گروہوں اور پاکستانی فوج کے درمیان جار ی جنگ کا شکار ہیں ۔ فاٹا میں سات قبائلی ایجنسیاں ، باجوڑ ،مُہمند ، اورکزئی ، خیبر ، کُرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں، جب کہ پاٹا میں سوات ،دیر بالا، دیر پایان ، بونیر اور شانگلہ کے اضلاع شامل ہیں جو خیبر پختونخوا کے نیم قبائلی علاقے ہیں ۔ اس کے علاوہ فرنٹیئرریجن کے نام سے بھی چھے اضلاع میں ایسے قبائلی علاقے موجود ہیں، جو ضلعی ایڈمنسٹریشن کے ماتحت ہیں، جن میں پشاور ،کوہاٹ ، لکی مروت ، بنوں ، ٹانک او رڈیر ہ اسماعیل خان شامل ہیں۔ ان علاقوں میں گذشتہ برسوں میں فوج نے پانچ بڑے اور کئی چھوٹے آپریشن کیے ہیں۔ جن تنظیموں اور مسلح گروہوں کے حامیوں کے خلاف یہ کارروائیاں کی گئی ہیں ان میں تحریک نفاذ شریعت محمدی ، تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑے اور کئی مقامی مسلح مذہبی گروپ شامل ہیں ۔ ان علاقوں میں مسلح گروپوں کی موجودگی اور فعالیت کی ایک بڑی وجہ وہ کمزور قانونی او ر آئینی نظام ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے ان پر نافذ ہے ۔ اس نظام کو FCR،یعنی فرنٹیئرکرائمز ریگولیشن کہتے ہیں، جو کہ انگریزدور سے ایک کالے قانون کے طور پر چلا آرہا ہے ۔
۲۰۰۱ء میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے افغان سرحد پر اپنی فوجی چوکیا ں قائم کیں، تاکہ القاعدہ اور طالبان کی جو قیادت افغانستان سے پاکستان بھاگنے کی کوشش کر ے اس کو پکڑا جائے ۔ خاص طور پر تورا بورا،ا ٓپریشن کے دوران میں پاکستانی حکام نے سرحد عبور کرنے والے کئی اہم القاعدہ رہنمائوں کو پکڑا جن میں ابوزبیدہ ، رمزی وغیرہ شامل تھے ۔ البتہ اہم ترین شخصیات اسامہ بن لادن اور ان کے معاون ایمن الزواہری ان کے قابو میں نہ آئے ۔ اسی طرح حکومت نے ان غیر ملکی جنگجوئوں کو بھی نہ پکڑاجو روسی جارحیت کے خلاف جہاد کرنے افغانستان آئے تھے اور اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ ان میں ازبک ، چیچن اور عرب مجاہدین شامل تھے ۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکی افواج نے یہ شکایت کی کہ پاکستانی علاقوں سے ان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں ، اس کا سدّ باب کیا جائے۔ اس طرح ۲۰۰۳ء میں پہلی مرتبہ پاکستان نے بڑی تعداد میں فوج( ۷۰؍۸۰ہزار )جنوبی وزیرستان روانہ کی جس کا مقصد یہ تھا کہ ان غیر ملکی جنگجوئوں کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقامی محسود قبائلی عوام پر مشتمل لشکر کا بھی خاتمہ کرے جو نیک محمد وزیر کی قیادت میں ان کی پشت پناہی کر رہے تھے ۔ پشاور کے کور کمانڈر جنرل صفدر حسین کی قیادت میں اس کارروائی کو آپریشن ’کلوشہ‘ کا نام دیا گیا اور یہ ۲۶مارچ ۲۰۰۳ء کو مکمل ہوا ۔ نیک محمد کی ہلاکت کے بعد بیت اللہ محسود نے اس قبائلی لشکر کی کمان سنبھالی جس نے فروری ۲۰۰۵ء کو ’سراروغہ‘ کے مقام پر پاکستانی فوج کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد کچھ عرصے تک محسود علاقے میں نسبتاً امن رہا ۔ مارچ ۲۰۰۷ء میں بیت اللہ محسود نے کئی مسلح گروپوں کے انضمام کا اعلان کیا اور تحریک طالبان پاکستان کے نام سے نئی تنظیم بنائی ۔
جنوری ۲۰۰۸ء میں پاکستان نے جنوبی وزیرستان میں ایک بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کیا۔ جس کا نام آپریشن ’زلزلہ‘ رکھا گیا ۔ اس آپریشن کے دوران میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر انسانی آبادی کا انخلا ہوا تھا جن میں ۲لاکھ سے زیادہ مقامی قبائلی عوام شامل تھے ۔ اس آپریشن میں فوج کو جزوی کامیابی ملی ۔ اسی دوران تحریک طالبان کا دائرہ کار جنوبی وزیرستان سے دیگر قبائلی علاقوں میں پھیلتا چلا گیا اور خصوصاً باجوڑ ایجنسی میں فقیر محمد اور ضلع سوات میں ملا فضل اللہ اور صوفی محمد نے اپنی گرفت مضبوط کی ۔ اسی زمانے میں جہاں ایک طرف امریکا نے بغیر پائلٹ جنگی جہازوں، یعنی ڈرون حملوں کا قبائلی علاقوں میں آغاز کیا وہا ں تحریک طالبان نے بھی قبائلی علاقوں سے نکل کر ملک کے مختلف علاقوں میںمسلح کارروائیوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔
۹ستمبر ۲۰۰۸ء کو پاکستانی فوج نے باجوڑ میں ایک بڑی فوجی کارروائی آپریشن ’شیر دل‘ کے نام سے شروع کر دی جو قریباً ایک سال تک جاری رہی۔ بعد میں فوج نے مہمند ایجنسی کو بھی اس آپریشن میں شامل کیا ۔ اس فوجی کارروائی کے دوران بھی باجوڑ اور مہمند ایجنسی سے لاکھوں افراد بے دخل ہوئے اور انھوں نے دیر ، ملاکنڈ، پشاور اور چارسدہ میں پناہ لی ۔ رجسٹرڈ خاندانوں کی تعدادایک لاکھ ۵ہزار تھی۔
سب سے بڑا فوجی آپریشن ’راہِ حق‘ تھا جو جنوری ۲۰۰۹ئمیں سوات میں شروع کیا گیا اور بعد میں ضلع بونیر اور ضلع دیر کو بھی جزوی طور پر اس میں شامل کیا گیا ۔ اس آپریشن کی وجہ سے پاکستانی تاریخ کا سب سے بدترین انسانی انخلا وقوع پذیر ہوا جس میں ۳۰لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے اور انھوں نے خیبر پختونخوا کے قریبی اضلاع جن میں صوابی ، مردان ، چارسدہ اور پشاور وغیرہ شامل ہیں پنا ہ لی ۔ ایک خاصی تعداد ملک کے دیگر صوبوں پنجاب اور سندھ بھی منتقل ہوئی ۔ اس انسانی المیے کے دورا ن میں پاکستانی قوم نے زبردست انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کا مظاہر ہ کیا اور ان بے دخل ہونے والے پاکستانی بھائی بہنوں کی مدد کی ۔ جن اداروں نے قابل قدر سماجی خدمات سرانجام دیں ان میں الخدمت فائونڈیشن سرفہرست تھی۔
۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو پاکستان آرمی نے ایک او ر بڑی فوجی کارروائی آپریشن ’راہ نجات‘ کے نام سے ایک بار پھر جنوبی وزیرستان کو ہدف بناتے ہوئے کی۔ اس آپریشن میں پاک فوج کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فضا ئیہ بھی شریک تھی ۔ اس کے علاوہ ٹینکوں کا بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوا ۔آپریشن کی کامیابی کو یقینی بناتے ہوئے بھارتی سرحد پر متعین دو انفینٹری بریگیڈ اور SSGکی بٹالین بھی استعمال کی گئیں ۔ گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے ۔ سراروغہ، مکین اور لدھا کے علاقوں کو ہدف بنایا گیا ۔کل ۱۵بریگیڈ آرمی استعمال ہوئی ۔ جنوبی وزیرستان میں بڑی کامیابیوں کے دعوے کیے گئے ۔ لاکھوں افراد ایک بار پھر بے گھر ہوئے اور انھوں نے ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان ، لکی مروت ، کرک اور بنوں کے اضلاع میں پناہ لی ۔ رجسٹرڈ خاندانوں کی تعداد ۴۱ہزار۴سو۸۹تھی ۔
اس کے بعد کے سالوں میں تمام قبائلی ایجنسیوں میں فوج اور طالبان کے درمیان یہ کش مکش جا ری رہی ۔ اس دوران میں خیبر ایجنسی کی باڑہ تحصیل اور کرزئی ایجنسی، FR،کوہاٹ و دیگر مقامات پر فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ ان تمام فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہر علاقے سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں عام لوگ بے گھر ہوتے رہے ۔ معاشی تنگ دستی اور گھروں کی تباہی و بربادی نے پورے قبائلی علاقے کو ایک جہنم بنادیا۔ بچوں کی تعلیم کی بند ش اور دیگر سماجی معاشرتی برائیوں نے جنم لیا ۔ بدا منی اور قتل و غارت گری ایک معمول بن گئی ۔ بندوبستی علاقوں میں بم دھماکوں، خودکش حملوں ،پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر مسلسل حملوں نے پوری قوم کو ایک شدید عذاب اور اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ اس دوران میں قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جس میں املاک کی تباہی کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کی ہلاکت ہزاروں تک پہنچ گئی، جن میں معصوم بچے ،گھر وں میں مقیم خواتین اور امدادی کارکن بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
موجودہ آپریشن کو ’ضرب عضب‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ کافی عرصے کی تیاری اور پس و پیش کے بعد کیا جا رہا ہے ۔ کئی سالوں سے یہ امریکی مطالبہ تھا کہ شمالی وزیرستان میں بھر پور فوجی آپریشن کیا جائے ۔ ان کو تحریک طالبان کے ساتھ حقانی نیٹ ورک سے بھی شکایت تھی کہ افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف کارروائیوں میں ان کا اہم کردار ہے جس کا ہیڈ کوارٹر شمالی وزیرستان میں واقع ہے ۔ ایک طویل عرصے تک گومگو کی کیفیت رہی جس میں پاکستانی حکومت مسلسل امریکی دبائو میں رہی۔ اس دوران میں پاکستانی راے عامہ بھی فوجی آپریشن کو ناپسند یدہ قرار دیتی رہی۔ دینی و سیاسی جماعتوں کا بھی مطالبہ تھا کہ ایسا نہ کیا جائے ۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ایسے حالات و واقعات پیش آتے رہے جس سے راے عامہ بدلنا شروع ہوئی ۔ اس دوران میں طالبان سے مذاکرات کا ایک اہم فیصلہ بھی ہوا لیکن اسی دوران ہی اندازہ ہو گیا کہ فوجی قیادت مذاکرات کے حق میں نہیں۔ پھر بدامنی، دھماکوں اور حملو ں کے مسلسل ایسے خون ریز واقعات رُونما ہوئے جس نے راے عامہ کو متاثر کیا ۔ خاص طور پر کراچی ائر پورٹ پر حملے میں ازبک جنگجوئوں کو استعمال کیا گیا۔ اس نے آیندہ لائحہ عمل واضح کر دیا اور طبل جنگ بجا دیا گیا ۔ جو پارٹیاں پہلے سے آپریشن کے حق میں تھیں انھوں نے بغلیں بجائیں اور جو اس کے خلاف تھیں انھوں نے خاموشی اختیار کی اور بالآخر بھر پور فوجی آپریشن کا آغاز ہو گیا۔حسب ِتوقع امریکی حکومت نے اس آپریشن کی تائید کی اور کولیشن سپورٹ فنڈ سے اس کی مالی معاونت کا اعلان بھی کیا ۔
شمالی وزیرستان کا کُل رقبہ ۳ہزار ۷۰۷مربع کلومیٹر ہے جو بلند و بالا خشک پہاڑی سلسلوں اور دروں پر مشتمل ہے ۔ درمیان میں دریاے ٹوچی بہتا ہے ۔اس کی ۱۰تحصیلیں ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آبادی ساڑھے ۷ لاکھ ہے لیکن غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ۹سے ۱۰لاکھ کے درمیان ہے ۔ ایجنسی ہیڈ کوارٹر میران شاہ ہے جس میں ایک بڑا بازار ہے ۔ اس کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ دوسرا بڑا شہر میر علی ہے ۔ میر علی قریبی ضلع بنوں سے ۳۴کلومیٹر ،جب کہ میران شاہ ۶۱کلومیٹر پر واقع ہے ۔ شمالی وزیرستان کی آبادی اتمانزئی وزیر داوڑ قبائل پر مشتمل ہے، جب کہ چھوٹے قبیلوں میںگربز ،کارسیز ،سید گئی ،حراسین ،محسود ،بنگش وغیرہ شامل ہیں ۔ پیشہ زراعت ، ٹرانسپورٹ ، کاروبار ،مویشی پالنا اور افغانستان کے ساتھ کاروبار ہے ۔ بڑی تعداد میں لوگ بیرون ملک روزگار کی تلاش میں گئے ہیں اور وہاں سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک خاصی آبادی متوسط درجے کی معاشی زندگی بسر کرتی ہے ۔ بالعموم یہ پُرامن علاقہ ہے اور لوگ باہمی جنگ و جدل اور اسلحے کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں ۔یہاں پر جرگہ سسٹم موجود ہے اور تمام تنازعات کے فیصلے مقامی روایات اور شریعت کے مطابق کیے جاتے ہیں ۔
۲۰۱۴ئمیں اس سے پہلے دو مرتبہ چھوٹے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہوا تھا جب فضائی بمباری کی گئی تھی اور میر علی کے بازار اور بعض دیگر علاقوں کو ہدف بنایا گیا تھا جس میں میران شاہ ، بویا اور غلام خان کے علاقے شامل ہیں ۔ اس وقت دونوں مرتبہ ۲۰،۲۵ ہزار افراد بنوں پہنچے تھے لیکن اس بار پوری کی پوری آبادی نکل پڑی ہے ۔
۱۸جولائی تک رجسٹریشن کے اعداد و شمار درج ذیل ہیں:متاثرین کی کل تعداد ۹لاکھ ۹۳ہزار ۱۶۶ہے۔ اس میں بچوں کی تعداد ۴لاکھ ۵۲ہزار ۳سو ۶۹ہے ۔ کل خاندان جو رجسٹرڈ ہوئے ہیں ان کی تعداد ۹۰ہزار ۸سو ۳۶ہے ۔ گویا سوات آپریشن کے بعد یہ دوسرا بڑا آباد ی کا انخلا ہے ۔
شمالی وزیرستان اور ضلع بنوں کے درمیان ایک نیم قبائلی علاقہ FRبنوں کہلاتا ہے ۔ اس میں فوج نے سید گئی کے مقام پر استقبالیہ کیمپ لگایا تھا جہاں افراد کی رجسٹریشن کی گئی ۔ اسی کے قریب بکاخیل میں ایک مکمل کیمپ بھی بنایا گیا جس میں کھلے میدان میں ۵۰۰کے قریب خیمے لگائے گئے ہیں۔ لیٹرین وغیرہ کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس کیمپ میں بہت کم افراد نے سکونت اختیار کی ہے اور اس کی اب صرف نمایشی حیثیت ر ہ گئی ہے جس کو سرکاری زعما کے دوروں کے دوران فوٹو سیشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ بے دخل افراد کو رجسٹریشن کے وقت ۱۲ ہزارروپے نقد دیے جا رہے ہیں۔ ۲۷جون کو وزیر اعظم پاکستان کے دورے کے موقعے پر انھوں نے رمضان کے دوران فی خاندان ۴۰ہزار روپے کا اعلان کیا ۔ لیکن اس کی تقسیم کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا جا سکا ۔ اب ایک چینی موبائل کمپنی زونگ کے ذریعے اس رقم کو تقسیم کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے لیکن کم ہی لوگ اس سے استفادہ کر سکے ہیں۔ حکومت پنجاب نے بھی اضافی ۷ہزار روپے کا اعلان کیا ہے جو زونگ Time Pay کے ذریعے تقسیم ہوں گے ۔ متاثرین نے شمالی وزیرستان سے نکلنے اور رجسٹریشن کے عمل سے گزرنے کے بعد اپنی مرضی سے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کا رخ کیا اور جس کو جہاں سہولت میسر آئی وہاں چلا گیا ۔ بنوں کے سرکاری اسکولوں میں چند کیمپ موجود ہیں۔ لیکن وہاں سے بھی لوگ دوسرے مقامات پر جارہے ہیں ۔
بین الاقوامی اداروں میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے خشک خوراک کے پیکٹ تقسیم کیے ہیں، جب کہ ICRC نے بھی نان فوڈ آئیٹم اور طبی شعبے میں امداد ی سرگرمیاں کی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں صوبائی محکمہ صحت نے مریضوں کو صحت کی سہولتیں بہم پہنچانے کا بندوبست کیا ہے ۔ ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ جہاں پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف بھر پور جنگی کارروائی میں مصروف ہے وہاں امدادی سرگرمیاں بھی اسی کے زیرانتظام ہو رہی ہیں اور سویلین ادارے اس کام سے باہر نظر آتے ہیں ۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ پاکستان کے سول ادارے اور سماجی بہبود کے محکمے اگر ایسے اہم موقعے پر اپنا کردار ادا کرنے سے محروم رہیں تو پھر ان کا مقصد وجود ہی ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔
الحمد للہ ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم الخدمت فائونڈیشن نے اول روز سے متاثرین آپریشن کی امداد کا بیڑا اٹھایا اور اب تک پورے جوش و خروش سے سرگرم عمل ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق صاحب نے آپریشن شروع ہونے کے فوراً بعد المرکزاسلامی پشاور میں ایک مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ فوجی آپریشن پر تحفظات کے باوجود ہم متاثرین کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کریں گے اور جماعت کے تمام کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ فوراً بنوں پہنچ کر اپنے بھائی بہنوں کی مدد کریں ۔ چنانچہ الخدمت فائونڈیشن کے مرکزی صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن ، صوبائی صدر نورالحق اور فاٹا الخدمت کے صدر اول گل آفریدی کی قیادت میں الخدمت کے رضاکاروں اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے موقعے پر پہنچ کر کام کو سنبھالا ۔ سیدگئی کے مقام سے ان کو آگے جانے کا موقع نہیں دیا گیا لیکن اس جگہ سے بنوں شہر تک جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگائے گئے ۔ یہاں آنے والے مہمانوں کو پانی کی بوتلیں اور تیار کھانا دینا شروع کیا گیا۔ الخدمت فائونڈیشن کی ۲۵؍۳۰ ایمبولینسوں نے اس ریلیف آپریشن میں اہم کردار ادا کیا اور انھوں نے مریضوں کو اٹھانے کے ساتھ ان بوڑھوں عورتوں اور بچوں کو بھی ایمبولینس میں سوار کر کے شہر تک پہنچایا جو میلوں پیدل چل کر سید گئی تک پہنچے تھے ۔ ان کیمپوں میںان جانوروں کے لیے پانی اور چارے کا بندوبست بھی کیا گیا جو متاثرین اپنے ساتھ پیدل چلا کر لائے تھے ۔ معلوم ہوا کہ ایسے کئی جانور راستے میں بھوک و پیاس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے تھے ۔ تینمقامات پر میڈیکل کیمپوں کا بھی انتظام کیا گیا ۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسو سی ایشن (پیما) نے بھی طبی سہولتیں بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ضلع امیر مفتی صفت اللہ اور الخدمت فائونڈیشن ضلع بنوں کے پر عزم صدر عزیز الرحمن قریشی اور ان کی ٹیم نے شبانہ روز محنت کر کے ہزاروں متاثرین کی خدمت کی ۔ صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان بھی اس پورے عرصے میں کام کی نگرانی کرتے رہے ۔
بنوں کے اسکولوں میں متاثرین کو آباد کیا گیا اور وہاں ان کو تیار کھانا پہنچایا گیا۔ جن کو ٹرانسپورٹ کی ضرورت تھی فراہم کی گئی ۔ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور متاثرین کو سحر و افطار کے لیے کھانے پینے کی اشیا درکار تھیں ۔ اس لیے الخدمت فائونڈیشن نے فوری طور پر خوراک کے راشن پیک تیار کر کے تقسیم کرنے شروع کیے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ۱۰ہزار سے زائد خاندانوں کو راشن مہیا کیا جا چکا ہے ۔ الخدمت کے ساتھ جن اداروں نے اس امدادی مہم میں ساتھ دیا ان میں کراچی کی عمیر ثنا فائونڈیشن ،ترکی کی جانسو اور یارد ملی و دیگر کئی ادارے شامل ہیں۔ پاکستان کی جن دیگر تنظیموں نے قابل ذکر کام کیا ہے اس میں فلاح انسانیت بھی شامل ہے ۔
پورے پاکستان سے جماعت کی تنظیموں نے فنڈز جمع کیے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی نے بھی عطیات روانہ کیے ہیں۔ حلقہ خواتین اور الخدمت خواتین ٹرسٹ بھی سرگر م عمل ہے لیکن کام بہت بڑا ہے ۔ ایک ملین آبادی کی ضروریات پوری کرنا جو پوری طرح بے یار و مدد گار ہیں۔ اپنے گھروں ، آمدن کے ذرائع ، مال و متاع سے محرو م ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے سامان زیست فراہم کرنا کسی کے بس میں نہیں، اور معلوم نہیں کہ کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بس ایک قادر مطلق ذات ،رب کریم ،خالق کائنات کا سہار ا ہے ۔ وہی عطا کرنے والا ہے اسی پر بھروسا ہے۔
۱۹۷۹ء میں روس نے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے لیے وسطی ایشیائی ممالک کا راستہ استعمال کیا جو اس وقت عظیم سوویت یونین کا حصہ تھے۔ افغانستان اور تاجکستان کے درمیان قدرتی سرحد دریاے آمو ہے جس کا شیر خان بندر کا پل روسی افواج کے آمدورفت کا سب سے بڑا ذریعہ رہا۔ امریکا نے بھی اس کا فضائی اڈا اپنی فوجوں کی آمد کے لیے استعمال کیا۔ تین وسطی ایشیائی ممالک تاجکستان ، ازبکستان اور ترکمانستان ، افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدات رکھتے ہیں، جب کہ قازقستان اور کرغیزستان بھی قریب ہیں۔ اب بھی روس کا ان ممالک پر غیرمعمولی اثر و رسوخ برقرار ہے جو ایک بار پھر عالمی طاقت کا کردار ادا کرنے کے لیے بے قرارہے۔ ان ممالک کے افغانستان کے ساتھ لسانی ،تہذیبی اور سماجی تعلقات کے ساتھ ساتھ گہرے تجارتی و معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ افغانستان ان کے لیے ایک کاروباری گیٹ ولے کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے وہ دیگر ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور ہندستان کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں۔ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت (TAPI) نام کی مجوزہ گیس پائپ لائن اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔
افغانستان میں موجود کئی قومیتیں، مثلاً ترکمان اور ازبک ترکی النسل ہیں۔ ترکی کی حکومتیں ان کومدد بھی دیتی رہی ہیں۔ جنرل رشید دوستم یا جنرل عبدالمالک پر جب برا وقت آیا تو انھوں نے ترکی ہی میں پناہ حاصل کی۔ ترکی وہ واحد اسلامی ملک ہے جس کی فوجیں ناٹو کے ماتحت افغانستان میں موجود ہیں۔ ترکی افغانستان میں امن کے قیام اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ افغان گروہوں میں مصالحت پیدا کرنے اور مذاکرات کے لیے استنبول ایک اچھا مرکز بن سکتا ہے۔
دنیا کی نئی اور تیزی سے رُوبہ ترقی عالمی معاشی طاقت چین بھی انتہائی شمال میں افغانستان کے ساتھ ہمسایگی کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اس کا افغانستان میں کردار بہت محدود ہے۔ ایک زمانے میں افغانستان کی کمیونسٹ پارٹیاں ’شعلہ جاوید‘اور ’افغان ملت‘کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی اعانت حاصل تھی لیکن وہ روس نواز خلق اور پرچم پارٹیوں کے مقابلے میں بہت کمزور تھیں۔ اب یہ عنصر زیادہ تر پختون قوم پرست گروپوں میں پایا جاتا ہے۔ چین کو طالبان دورحکومت میں ان کی جانب سے چینی کاشغر میں مسلم باغی گروپوں کے ساتھ روابط پر اعتراض تھا۔ اب چین افغانستان میں امریکی موجودگی کی وجہ سے بہت محتاط ہے۔ لیکن آیندہ دور میں چین افغانستان کی تعمیر نو اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
افغانستان میں ایران کا کردار بہت اہم ہے۔ پاکستان کی طرح ایران نے بھی روسی جارحیت کے دوران لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی تھی۔ ان کے افغانستان کے مختلف طبقات خاص طور پرشیعہ آبادی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی کی بدولت ایران نے مختلف الخیال افغان گروپوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ جب انجینیرحکمت یار سابق وزیر اعظم افغانستان پر سخت وقت آیا تھا تو کچھ عرصے تک وہ ایران میں رہے اور ایرانی حکومت نے ان کی میزبانی کی۔ موجودہ صدر حامد کرزئی اور ان کی حکومت کو بھی ایران کی معاونت حاصل ہے۔ حزب وحدت کے ساتھ ساتھ ان کے طالبان کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ ایران میں کئی کانفرنسوں میں ان کے نمایندہ وفود شریک ہوتے ہیں۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھی و ہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایرانی بندرگا ہ چاہ بہار ، افغانستان کے لیے ایک متبادل بحری راستے کا ذریعہ بن چکی ہے جہاں سے ایک پختہ سڑک بھی ایران نے افغانستان کی سرحد تک تعمیر کی ہے جس کا افغانستان میں زیادہ تر حصہ بھارت نے مکمل کیا ہے۔ آیندہ دور میں بالخصوص امریکی و ناٹو افواج کے انخلا کے بعد ایران کا کردار افغانستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
بھارت اگرچہ افغانستان کا براہ راست پڑوسی ملک نہیں ہے لیکن اس کا افغانستان کے ساتھ طویل تاریخی ،سماجی ،سیاسی و معاشی تعلق رہا ہے۔ اس لیے وہ اس کو اپنی توسیع ہمسایہ (Extended Neighbourhood)قرار دیتا ہے۔ بھارتی قیادت نے مہاتما گاندھی سے لے کر من موہن سنگھ تک افغانستان کے ساتھ ہر دور میں اپنا تعلق بر قرار رکھا ہے۔ جب افغانستان پر روسی قبضے کے بعد ببرک کارمل کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی، تو بھارت غیر کمیونسٹ ممالک میں واحد ملک تھا جس نے اس کی حکومت کو سفارتی سطح پر قبول کیا تھا۔ صرف طالبان حکومت کا دور ایسا وقت تھا جب وہ افغان امور سے بے دخل ہو گیا تھا۔ اس لیے امریکی مداخلت کے بعد اس نے سب سے پہلے اپنا سفارت خانہ فعال کیا ۔اس وقت وہ کرزئی حکومت کے حامیوں میں ایک اہم طاقت کا کردار ادا کررہا ہے۔ ملک کی تعمیر نو کے لیے اس نے ایک خطیر رقم ۲؍ارب امریکی ڈالر بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی ہے اور ہر شعبۂ زندگی میں اس کی شرکت موجود ہے۔ بڑے منصوبوں میں زارنج سے دلارام تک ۲۱۸کلومیٹر سڑک (جو افغانستان کو ایرانی بندرگاہ سے ملاتی ہے)، پل خمری سے کابل تک ۲۲۰ کے وی کی برقی ٹرانسمیشن لائن ،ہرات میں سلمہ ڈیم (جس پر ایران کو اعتراض ہے )، افغان پارلیمنٹ کی عمارت ، افغان ٹی وی نیٹ ورک اور کئی تعلیمی منصوبے شامل ہیں۔ بھارت مستقبل میں بھی افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔
پاک افغان تعلقات کا ایک اہم سنگ میل۱۹۶۵ء کی پاک و ہند جنگ ہے۔ اس نازک موقعے پر ظاہر شاہ نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ آپ اپنی مغربی سرحدوں سے بے فکر ہو جائیں۔ اسی طرح ۱۹۷۱ء کی جنگ میں بھی افغان حکومت نے پاکستان کی درپر دہ حمایت کی۔ سردار محمد دائود خان جب بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے بھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے اور غالباً یہی ان پر روسی عتاب کی ایک وجہ بنی۔ نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے ادوار میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا اور بالآخر ۱۹۷۹ء میں روسی جارحیت کے بعد سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ لیکن یہی وقت تھا جب عوامی سطح پر ایک بڑے پیمانے پرتعلق قائم ہوا۔ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انخلا کے موقع پر پاکستان نے لاکھوںافغان مہاجرین کے لیے اپنا دامن کھول کر انصارِ مدینہ کا کردار ادا کیا۔
پاکستان نے لُٹے پٹے افغان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کیں اور دل کھول کر ان کی میزبانی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام مجاہدین گروپوں کی بھی مدد کی اور آزاد دنیا نے افغانستان پر روسی تسلط اور تباہی و بربادی کی جو مذمت کی پاکستان اس میں پیش پیش رہا۔ پاکستان کا یہ تاریخی کردار ایک لازوال داستان ہے اور ہر افغان شہری جو اس خوف ناک صورت حال سے دوچار ہوا تھا اس کو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہے۔ ۱۹۸۸ئمیں جینوا معاہدے میں پاکستان کا اہم کردار رہا اور نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین کی حکومت کے قیام میں بھی پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پھر جب ۱۹۹۶ئمیں افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی تو پاکستان اُن تین مسلم ممالک میں شامل تھا جس نے اس کو رسمی طور پر تسلیم کیا اور اس کی بھر پور حمایت کی ۔
۲۰۰۱ء کے آخر میں جب امریکا کی قیادت میں ناٹو افواج نے اسامہ بن لادن کے تعاقب میں افغانستان پر دھاوا بولا تو پاکستانی عسکری قیادت نے امریکی وزیر دفاع کولن پاول کی دھمکی پر یوٹرن لیتے ہوئے طالبان کے خلاف ان کا ساتھ دیا۔ اس طرح افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں ایک اور افسوسناک واقعہ ہوا جب پاکستانی حکومت نے افغانستان کے اسلام آباد میں سفیر مُلّا عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے کیا۔ بون کانفرنس کے موقعے پر پاکستان نے افغانستان میں کرزئی حکومت کو تسلیم کیا۔ بعد میں پاکستان اور افغانستان کا ایک مشترکہ قومی جرگہ بھی صلح و امن کے لیے قائم کیا گیا ۔۲۰۱۰ء میں نیا پاک افغان تجارتی معاہدہ بھی طے پایا جس میں افغان تاجروں کو درآمد ات کے لیے کافی سہولتیں دی گئیں۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان ۲۲۵۰کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ کئی پختون اور بلوچ قبائل دونوں طرف آباد ہیں۔ دینی ،مذہبی ،سماجی و تہذیبی رشتے ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ افغانستان کے لیے بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح پاکستان کے لیے۔ نئی گوادر بند ر گاہ افغانستان کو مزید قریب لا سکتی ہے۔ طور خم اور چمن بارڈر دنیا کی مصروف ترین بین الاقوامی گزر گاہیں ہیں جو دونوں ممالک کے شہریوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ ہزاروں افراد دونوں طرف سے بغیر ویزے کے روزانہ آتے جاتے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے اور ۳۳۰ملین ڈالر سے زائد رقم ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی باہم تجارت کا حجم سالانہ ۳ہزار ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ غیررسمی تجارتی تبادلہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان اس وقت بھی لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے اور تما م تر مشکلات اور مسائل کے باوجود ان کے قیام میں مسلسل توسیع کر رہا ہے۔ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ روزانہ ۱۲۰۰ملٹی پل وزٹ ویزے بلامعاوضہ جاری کرتا ہے اور روزانہ ۵۰ہزار افغانی بغیر ویزے کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان کے طبی ادارے افغانوں کو علاج معالجہ فراہم کرنے میں سرفہرست ہیں۔ گذشتہ چند سال میں ۳۰ہزار سے زائد افغان طالب علموں نے پاکستان سے گریجویشن کی ہے۔ پاکستان ۲ہزار سے زائد تعلیمی وظائف افغان طلبہ کو دیتا ہے۔
اسلام آبادی کی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی خاص طور پر افغان طلبہ کی ایک پسندیدہ جامعہ ہے جہاں و ہ سیکڑوں کی تعداد میں زیر تعلیم ہیں۔ اس وقت بھی افغان حکومت میں کئی کلیدی عہدوں پر متمکن شخصیات اسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ افغانستان میں پاکستانی حکومت کے اشتراک سے جو تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں ان میں رحمان بابا ہائی سکول کابل ،علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس کابل ،سرسیّد فیکلٹی جلال آباد اور لیاقت علی خان انجینیرنگ فیکلٹی بلخ شامل ہیں۔
مستقبل میں پاک افغان تعلقات کا ایک درخشان دور ممکن ہے۔ TAPIگیس پائپ لائن کے ساتھ برقی لائن بھی آسکتی ہے۔ دریاے کابل کے پانی کے استعمال کے لیے ایک آبی معاہدہ بھی زیر غور ہے ۔۲۰لاکھ افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی ریلوے لائن جو انگریزوں کے دور میں طور خم تک پہنچ چکی تھی اور اب تک وہاں بچھی ہوئی ہے اگر جلال آباد تک بن جائے تو افغانستان کی معاشی ترقی کو زبردست مہمیز مل سکتی ہے۔ ان تمام کاموں کے لیے افغانستان میں ایک مستحکم جمہوری اسلامی حکومت کا قیام ازبس ضروری ہے جو تمام افغان اقوام کے لیے قابل قبول ہو اور ملک میں امن اور قانون کی بالادستی قائم کر سکے۔
پاکستان کے ساتھ افغانستان کا دیرینہ تنازعہ ڈیورنڈ لائن کو مسلمہ بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنا بھی مستقبل میں پاک افغان تعلقات کو مستحکم کرنے میں ایک اہم نکتہ ہے۔ افغانستان سے پاکستان کے راستے منشیات کا فروغ بھی بہت خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔
افغانستان میں بھارت کا کردار بذات خود کوئی بری چیز نہیں لیکن اس کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ دونوں ممالک کا وسطی ایشیائی ممالک سے تعلق اور وہاںکی تجارتی منڈیوں تک رسائی کی بہت اہمیت ہے ۔
۲۰۱۴ء افغانستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ صدارتی انتخابات ،پارلیمانی انتخابات، ناٹو افواج کا انخلا جیسے اہم واقعات اس سال وقو ع پذیر ہوں گے ۔ صدارتی انتخابات میں اہم ترین نکتہ افغانستان میں صلح و امن کے لیے مذاکرات ہیں۔ ہر صدارتی امیدوار کی خواہش ہے کہ وہ متحارب گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرے اور اس کی کامیابی کے لیے وہ ہر تدبیر اختیار کرنے کو تیار ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ایسا ہو اور افغان گروہ آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کریں اور ملک میں امن قائم ہو۔
پاکستان کا افغانستان میں بہت اہم کردار ہے۔ بالعموم افغان دانشور اور عوامی راے عامہ پاکستان سے شاکی ہیں اور افغانستان میں ہر بُرے واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھیراتے ہیں۔ اس رویے پر حیرت ہوتی ہے اور افسوس بھی۔ لیکن پاکستانی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کا رویہ کئی طرح سے ناقابل فہم اور مشکوک رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان افغانستان میں ایک آزاد اور مستحکم جمہوری حکومت کے قیام میں مدد دے ۔وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے گریز کرے۔ کسی مخصوص گروپ یا قومیت کی حمایت نہ کرے بلکہ بحیثیت مجموعی افغان ملت کی پشتیبانی کرے۔ افغان قوم کے مفاد میں جو چیز بہتر ہے وہی ہمارے لیے بھی بہتر ہے۔ ہماری منفعت اور نقصان ایک ہے۔ ہمیں اس کی اقتصادی اور معاشی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہے۔ بین الاقوامی تجارت ، صنعت و حرفت، برآمدات و درآمدات ، بنکاری غرضیکہ ہرمیدان میں ہم ان کی حمایت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں بھی ہم ضامن کا کردار ادا کر یں۔ افغانستان میں ایک مضبوط جمہوری اسلامی حکومت کا قیام ہر پاکستانی کی آرزو و تمنا ہے لیکن اصل کام انھوں نے خود کرنا ہے۔ اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں، اپنی قیادت خود منتخب کرنی ہے اور اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرنا ہے۔ قومیں مشکلات و مصائب سے گزر کر کندن بنتی ہیں اور افغان ملت میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو ایک عظیم قوم کا خاصہ ہوتی ہیں۔
(یہ اس مقالے کا ایک حصہ ہے جو مقالہ نگار نے ۱۳فروری ۲۰۱۴ء کو کابل میں افغانستان کے مرکزمطالعات استراتیژیک و منطقوی کے تحت ایک بین الاقوامی سیمی نار میں پڑھا۔)
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری اور سیکولر ملک بھارت میںگذشتہ دنوں ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ بھارت کے مرکزی وزیرداخلہ سشیل کمار شندے نے یہ بیان دیا کہ ہندو انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس اور اس کی سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی ملک میں ہندو دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہے۔ دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کی حمایت کرتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے بیش تر واقعات کی یہی دو پارٹیاں ذمہ دار ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگائوں کے واقعات میں بھی یہی ملوث ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ نے یہ بیان کسی جلسہ عام یا پریس کانفرنس میں نہیں دیا بلکہ ملک کی برسرِاقتدار پارٹی آل انڈیا کانگریس کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں دیا جو ۲۰فروری کو جے پور میں ہورہا تھا۔ یہ کوئی سیاسی بیان بھی نہیں تھا بلکہ ملکی امن و امان کے صورت حال پر مباحثے کے دوران پارٹی کی قیادت کو مطلع کرنے کے لیے ایک حقیقت کے طور پر بیان کیا گیا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ مسٹر شندے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ بیان پبلک میں بھی جا سکتا ہے ۔ لیکن آج کے میڈیا کے دور میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بڑی سیاسی پارٹی اور وہ بھی حکمران کانگریس پارٹی کے اجلاس کی ایسی اہم بات باہر نہ آئے، اور ایسا ہی ہوا۔ اس پر فوری رد عمل سامنے آیا جس نے کانگریس پارٹی کو دفاعی پوزیشن میںڈال دیا ۔ بی جے پی اور اس کے حمایتی سیاسی گروپوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسے ہندوئوں کے خلاف حکومتی پروپیگنڈے سے تعبیر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکمران پارٹی معافی مانگے، بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے حکومت سے استعفے کا بھی مطالبہ کر دیا ۔ ہندو پریس نے بھی اس پر خاصے جارحانہ تبصرے کیے۔ حکومت پر ’ہندومخالف‘ اور مسلمانوں کے حامی ہونے کے الزامات لگائے گئے ۔ مسلم تنظیموں اور صحافتی حلقوں نے اس بیان پر محتاط ردعمل کااظہار کیا ۔ ۲فروری کو جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے جماعت کے مرکزی دفتر میںپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت اس معاملے میں ضروری اور عملی اقدامات اٹھائے ۔ انھوں نے کہا کہ حا ل ہی میں بھارت کے مختلف شہروں میں جو مسلم کش فسادات ہوئے ہیں اور ا س میں بھارتی پولیس کا جو متعصبانہ کردار رہا ہے، اس بیان سے اس کی سنگینی کم نہیں ہو سکتی ۔
مہاراشٹر میں دہشت گردی کے خلاف مہم کے نام پر جس بے دردی سے چھے مسلم نوجوانوں کو بھارتی پولیس نے موت کے گھاٹ اتارا ہے وہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ صوبائی وزیر اعلیٰ نے دہلی پولیس کی اس کارروائی پر گہرے صدمے کا اظہار کیا لیکن، یہ ناکافی ہے۔
سہ روز ہ مسلم اخبار دعوت (نئی دہلی) نے مرکزی وزیر داخلہ کے بیان پر دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’کیا وزیر داخلہ نے یہ بیان سوچ سمجھ کر دیا ہے یا ان کے منہ سے یہ سچی اور راز کی بات اچانک نکل گئی ہے ؟ دراصل شندے کے ان ریمارکس کا جائزہ نفسیاتی پہلو سے لینے کی ضرورت ہے ۔ شندے اس وقت مرکزی وزیر داخلہ ہیں۔ اندرونی سلامتی اور لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری براہِ راست ان کی ہے ۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ان ہی کی ماتحت ہیں اور پل پل کی خبریں ان تک پہنچاتی ہیں‘‘ ۔ دعوت نے مزید لکھا ہے کہ ’’ان اطلاعات کی بنیاد پر کارروائی کرنا یا نہ کرنا ،اور کرنا تو کس نوعیت کی کرنا ،یہ سب سرکار کی طے شدہ پالیسی پر منحصر ہوتا ہے اور سرکار کی پالیسی اس سلسلے میں وہی ہے جو بی جے پی کی ہے ۔فرق صرف طریقوں میں ہے‘‘ ۔(دعوت، دہلی، ۲۹ جنوری ۲۰۱۳ء)
دراصل حکومت ِہند کا سارا زور فرضی مسلم دہشت گردی کو حقیقت ثابت کرنے پر ہے اور اس کے لیے پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیاں مسلسل بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف خونی کارروائیاں کر کے یہ کام سرانجام دے رہی ہیں۔ ملّی گزٹ آن لائن میں ممتاز قلم کار اعجاز ذکا سید لکھتے ہیںکہ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے ہندو دہشت گردی کے بارے میں بیان دے کر ’’بلی کو کبوتروں کے ڈربے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ کانگریس پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے سامنے یہ بیان دے کر شندے نے ہندواتا بریگیڈاور اس کے حمایتی صحافتی گروہوں کو مبارزت [جنگ] کی دعوت دی ہے ۔ کانگریس کو ہندو اور مسلم ووٹ دونوں درکار ہیں۔ اس کے حصول کے لیے اس کا ایک مخصوص طریقۂ کار ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندستان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا پسندیدہ شکار مسلم آبادی ہے اور وہ دونوںاس پر پنجہ آزمائی کررہے ہیں، جب کہ عام طور پر کسی جمہوری نظام میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ایک توازن رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ہندستان میں مسلم آبادی کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود وہ کسی قابل ذکر مسلمان قیادت یا سیاسی پارٹی سے محروم نظر آتی ہے، اور مسلمان بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کسی کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ کسی ایک مسلم پارٹی کو منتخب کر کے اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈالیں تو ایک موثر اپوزیشن پارٹی وجود میں آسکتی ہے جو ہندو اکثریت کے ملک میں ایک بڑی مسلم اقلیت کے مفادات کی نگہبانی کر سکے ۔
افغانستان سے روسی فوج کے انخلا اور نجیب انتظامیہ کے خاتمے کے بعد ایک ایسا دور آیا جس دوران بھارت افغانستان کے معاملات سے لاتعلق ہو گیا۔ لیکن ۱۹۹۲ء میں جب استاد برہان الدین ربانی کی سربراہی میں ایک غیر پختون تاجک قیادت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، تو بھارت نے پھر سے افغانستان میں دل چسپی لینا شروع کی اور اس حکومت کی حمایت میں مختلف شعبوں میں اپنی موجودگی کااحساس دلایا۔
ستمبر ۱۹۹۶ء میں جب طالبان نے کابل میں اپنا اقتدار قائم کیا ۔ ایک مرتبہ پھر بھارت افغانستان کو کھو بیٹھا۔ کابل میں بھارتی سفارت خانہ بند کر دیا گیا ۔ لیکن بھارتی حکومت نے افغانستان کو اپنے حلقۂ اثر سے نکلنے کے عمل کو پوری طرح تسلیم نہ کیا اور کھل کر شمالی اتحاد کی حمایت شروع کردی جو افغانستان کے تاجک ،ازبک اور ہزارہ قبائل کا اکٹھ تھا او ر شمالی افغانستان میںاثر و رسوخ رکھتا تھا۔ بھارت نے شمالی اتحاد کو اعلیٰ معیار کا اسلحہ فراہم کیا ۔ ان کی تربیت کی اور بھارتی خفیہ ایجنسی RAW (ریسرچ اینڈ سروے ونگ )کے توسط سے افغانستان میں اپنی تگ و دو جاری رکھی ۔ اس نے تاجکستان اور ازبکستان کی حکومتوں کے تعاون سے شمالی اتحاد کے ساتھ مدد کرنے کے ذرائع قائم کیے ۔ تاجکستان میں تو بعد ازاں ایک مستقل بھارتی عسکری اور فضائی اڈا اینی کے مقام پر قائم کیا گیا ۔ افغان تاجک سرحد پرفرخور کے مقام پر ایک ملٹری ہسپتال قائم کیا گیا جہاں بھارتی ڈاکٹر شمالی اتحاد کے زخمیوں کا علاج معالجہ کرتے تھے۔ بھارت نے طالبان کی مخالفت میں روس اور ایران کا تعاون بھی حاصل کیا جو مختلف وجوہ کی بنیاد پر خود بھی طالبان حکومت کے مخالف تھے۔
نائن الیون کے سانحے نے صورتِ حال بدل کر رکھ دی اور افغانستان پر امریکا کی قیادت میںناٹو ممالک کے حملے نے بھارت کو ایک بار پھر وہا ںقدم جمانے کا ایک زریں موقع نصیب کیا جس کو نہ صرف اس نے خوش دلی سے قبول کیا، بلکہ آگے بڑھ کر ہر ممکن تعاون پیش کیا۔ بھارت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں امریکا کا دورہ کیا اور وہاں امریکی قیادت اور بین الاقوامی طاقتوں کو باور کرایا کہ وہ افغانستان میں شمالی اتحاد کی پشت پناہی کر یں۔
۲؍اکتوبر۲۰۰۱ء کو ایک ٹی وی انٹرویومیں جسونت سنگھ نے کہا کہ ’’بھارت نے کبھی بھی طالبان کی قیادت کوتسلیم نہیں کیا ہے ۔ وہ اب بھی صدر ربانی کی حکومت کو افغانستان کی قانونی حکومت تصور کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پوری دنیا شمالی اتحاد اور ربانی حکومت کو قانوناً تسلیم کرے اور اس کی حمایت کرے‘‘۔ چنانچہ امریکی حملے اور کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے اور شمالی اتحاد کے بر سر اقتدار آنے کے بعد دسمبر ۲۰۰۱ء میں جسونت سنگھ کابل پہنچتے ہیں اور کابل میں بھارتی سفارت خانے کو دوبارہ فعال کرتے ہیں۔ جب جرمنی کے شہر بون میں دسمبر ۲۰۰۱ئہی میں حامد کرزئی کی عبوری صدارت میں ایسی کابل انتظامیہ وجود میں لائی جاتی ہے جس میں شمالی اتحاد کا غلبہ ہے تو بھارت ان اولین ملکوں میں شامل تھا جس نے اس کے لیے ۱۰۰ملین امریکی ڈالر امداد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے بھارت مسلسل افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھر پور کردار ادا کررہا ہے او ر افغانستان میں اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
oافغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرناoوسطی ایشائی ممالک کے ساتھ روابط بنانا mافغانستان میں پاکستان کے کردار کی نفی کرناoایک بڑی علاقائی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منواناoافغانستان میں ایک ’انتہاپسند‘ اسلامی حکومت کا راستہ روکنا۔
بھارتی تیل کمپنیاں اس وقت ازبکستان اور قازقستان میں سرگرم عمل ہیں۔ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان اور بھارت تک گیس کی پائپ لائن بچھانے کا کام ہو رہاہے، جو ایشین ترقیاتی بنک کا منصوبہ ہے اور بھارت اس میں بھرپور دل چسپی لے رہا ہے ۔تاجکستان میں بھارت اپنا عسکری مرکز قائم کر چکا ہے جہاں اس نے جنگی ہیلی کاپٹر رکھے ہوئے ہیں اور مگ ۲۹ جہازوں کی بھی گنجایش ہے ۔ اس طرح وسطی ایشیائی ممالک میں بھارت کو اپنے قدم جمانے کا پورا موقع مل رہا ہے جس میں افغانستان کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ۔
بھارت نے ۲۰۱۰ء کی لندن کانفرنس میںکوشش کی کہ افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھیراتے ہوئے اس کو افغانستان کے معاملے سے باہر کیا جا سکے لیکن اس کو کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت نے بھی حامد کرزئی سے رابطے استوار رکھے اور دیگر گروپوں سے بھی تعلقات قائم کر کے مثبت پیغامات دینے کی کوشش کی ۔
افغانستان میں بھارت کو ایک پسندیدہ ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس کے ٹی وی پروگرام اور فلمیں یہاں بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ اس نے افغان ٹی وی چینلوں کو اپنے مواصلاتی سیارے کے ذریعے خصوصی سہولتیں بہم پہنچائی ہیں۔ لیکن عالمی طاقتیں بشمول امریکا اس کو افغانستان میں کوئی کلیدی کردار عطا کرنے سے قاصر ہیں۔ زمینی حقائق کو ئی اور رخ اختیار کررہے ہیں۔ بھارتی حکمت عملی اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ بھارتی دانش وروں ،عسکری ماہرین اور پالیسی سازوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔ دیکھتے ہیں وہ مستقبل میں ان چیلنجوں کا سامنا کس طور پر کرتے ہیں، اور چانکیہ کوٹلیہ کی کتاب ارتھ شاستر سے کیا نئی تدبیر اخذ کرتے ہیں ۔
ماخذ
The role of India & Pakistan in Afghanistan's development & Natural resources. Eray Basar,CFC
Towards a Stable Afghanistan. The way forward by VIF & Rusl
India- Afghanistan Relation : Post 9/11 by Fahimda Ashraf
India in Afghanistan: A Rising Power or a Hesitant Power by Harsh Pant- CEPSI/CIPSS
India Economy
Indian-Strategic-Thinking-Reflection-Kautilya-s-six-fold-policy
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
قرآنِ پاک کی تلاوت کے دوران کچھ متعین ایسی آیات آتی ہیں جن پر سجدہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے پیارے نبی پاکؐ کی سنت مبارکہ ہے۔ ہم جب تلاوتِ قرآنِ پاک کے دوران ان آیات پر سجدہ کرتے ہیں تو اس سنت پرعمل کرتے ہیں اور اپنے رب کے حضور اپنی بندگی اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ مراسمِ عبودیت میں سجدے کا مقام سب سے بڑھ کر ہے۔ انسان جب اپنی پیشانی کو زمین پر رکھتا ہے تو وہ خالق کائنات کے سامنے اپنی انتہائی کمزوری اور بیچارگی کا اقرار کرتا ہے۔ دین اسلام میں اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنے اور سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حدیث پاک ہے: ’’بندہ (دورانِ نماز) سجدے میں اپنے رب کے زیادہ قریب ہوتا ہے، لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کیا کرو‘‘۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ)
مولانا مودودیؒ آیاتِ سجدہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’قرآنِ مجید میں ایسے ۱۴ مقامات ہیں جہاں آیاتِ سجدہ آئی ہیں۔ ان آیات پر سجدے کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سجدئہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علما نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسااوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپؐ خود بھی سجدے میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پر کھڑے تھے انھوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اُونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپؐ نے دورانِ خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اُتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اُوپر جاکر خطبہ شروع کردیا ہے۔
اس سجدے کے لیے جمہور انھی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں: ’’یعنی، باوضو ہونا، قبلہ رُخ ہونا اور نماز کی طرح سجدے میں زمین پر سر رکھنا۔ لیکن جتنی احادیث سجود تلاوت کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں بھی ان شرطوں کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو، جھک جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۱۱۵-۱۱۶)
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بہشتی زیور میں سجدۂ تلاوت کا باب قائم کیا ہے (ص۳۳) جس میں تفصیل سے سجدئہ تلاوت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ وہ سب تو یہاں نقل کرنا ممکن نہیں لیکن چند مفید نکات ملاحظہ فرمائیں: جس طرح نماز کا سجدہ کیا جاتا ہے اسی طرح سجدئہ تلاوت بھی کرنا چاہیے۔ اگر نماز میں سجدے کی آیت پڑھی اور نماز ہی میں سجدہ نہ کیا تو اب نماز کے بعد سجدہ کرنے سے ادا نہ ہوگا، ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے سجدے کی آیت کو کئی بار دہرا کر پڑھے تو ایک ہی سجدہ واجب ہے۔ ساری سورت پڑھنا اور سجدے کی آیت کو چھوڑ دینا مکروہ اور منع ہے۔ فقط سجدے سے بچنے کے لیے وہ آیت نہ چھوڑے کہ اس میںسجدے سے گویا انکار ہے۔
رمضان المبارک میں صلوٰۃ التراویح میں ختم قرآن کے دوران اور تلاوتِ قرآن کے موقع پر سجدۂ تلاوت کے مواقع اور التزام بالعموم بڑھ جاتا ہے اور ہر خاص و عام، بچہ، بوڑھا، جوان، مرد اور عورت سجدۂ تلاوت باجماعت کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ان تمام آیاتِ سجدہ کو ترتیب سے جمع کرکے ان کا ترجمہ و تفسیر اور شانِ نزول بیان کردی ہے جس طرح وہ قرآن میں موجود ہیں۔ زیادہ تر حواشی تفہیم القرآن سے لیے گئے ہیں۔ صرف ایک آیت کی تفسیر، ابن کثیر سے لی گئی ہے۔ اُمید ہے اس مطالعے سے قاری سجدئہ تلاوت کے موقع پر زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ پروردگار عالم کے حضور میں اپنی عجز وانکساری اور کوتاہ دامنی کا اظہار کرسکیں گے، ان شاء اللہ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یُسَبِّحُوْنَہٗ وَ لَہٗ یَسْجُدُوْنَo (اعراف ۷:۲۰۶)، جو فرشتے تمھارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں۔
’’مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے۔ اگر تم ترقی کے خواہش مند ہو تو اپنے طرزِعمل کو شیاطین کے بجاے ملائکہ کے طرزِعمل کے مطابق بنائو۔
تسبیح کرتے ہیں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے نقص اور بے خطا ہونا، ہرقسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا، اور اس کا لاشریک اور بے مثل اور بے ہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں، اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشغول رہتے ہیں۔
اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تاکہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہوجائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی ان سب کے ساتھ جھک جائے، اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کردے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص ۱۱۵)
وَ لِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّ ظِلٰلُھُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ o (الرعد ۱۳:۱۵)، وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہرچیز طوعاً و کرہاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سایے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں۔
’’سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا، حکم بجا لانا اور سرتسلیم خم کرنا ہے۔ زمین و آسمان کی ہرمخلوق اس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہی ہے کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہے اور اس کی مشیت سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کرسکتی۔ مومن اس کے آگے برضا و رغبت جھکتا ہے تو کافر کو مجبوراً جھکنا پڑتاہے، کیونکہ خدا کے قانونِ فطرت سے ہٹنا اس کی مقدرت سے باہر ہے۔
سایوں کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اشیا کے سایوں کا صبح و شام مغرب اور مشرق کی طرف گرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب چیزیں کسی امر کی مطیع اور کسی قانون سے مسخر ہیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۴۵۱)
اس آیت سجدہ سے پہلے کی آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ، کفار کے مشرکانہ طرزِعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اسی کو پکارنا برحق ہے۔رہیں وہ دوسری ہستیاں جنھیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعائوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ انھیں پکارنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیر بے ہدف‘‘۔ اس کے بعد اس اللہ کا ذکر ہے جس کو ہرچیز سجدہ کررہی ہے۔ اس لیے ہم کو بھی اظہارِ عبدیت کے طور پر اور پورے کائنات کے نظام سے ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے اس مقام پر سجدہ کرنا چاہیے۔
یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o (النحل ۱۶:۵۰)، اپنے رب سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔
اگر اس سے پہلے کی آیت ۴۸ کو ساتھ ملا کر پڑھیں تو مضمون واضح ہوجاتا ہے: ’’اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے۔ سب کے سب اِس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد فرمایا: ’’زمین اور آسمان میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔ وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے۔ اپنے رب سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں‘‘۔
’’[یہاں] تمام جسمانی اشیا کے سایے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت، جانور ہوں یا انسان، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے، اُلوہیت میں کسی کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی نہیں ہے۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادی ہونے کی کھلی علامت ہے، اور مادی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت۔
[اللہ کے آگے سربسجود ہونے سے مراد یہ ہے کہ صرف] زمین ہی کی نہیں، آسمانوں کی بھی وہ تمام ہستیاں جن کو قدیم زمانے سے آج تک لوگ دیوی، دیوتا اور خدا کے رشتہ دار ٹھیراتے آئے ہیں دراصل غلام اور تابع دار ہیں۔ ان میں سے بھی کسی کا خداوندی میں کوئی حصہ نہیں۔ ضمناً اس آیت سے ایک اشارہ اس طرف بھی نکل آیا کہ جان دار مخلوقات صرف زمین ہی میں نہیں ہیں بلکہ عالم بالا کے سیاروں میں بھی ہیں۔ یہی بات سورئہ شوریٰ، آیت ۲۹ میں بھی ارشاد ہوئی ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۵۴۵-۵۴۶)
وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَ یَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۹)، اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔
اگر آیت سجدہ کو پہلے کی دو آیتوں کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو مضمون مکمل ہوجاتا ہے: ’’اے نبی ؐ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے، انھیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اُٹھتے ہیں: ’’پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘۔ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سُن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے‘‘۔
’’یعنی وہ اہلِ کتاب جو آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور ان کے اندازِ کلام کو پہچانتے ہیں… قرآن کو سن کر فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ جس نبی کے آنے کا وعدہ پچھلے انبیا کے صحیفوں میں کیا گیا تھا وہ آگیا ہے[اور وہ بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔ اور اس کے بعد اظہارِ تشکر کے طور پر اور اپنی بندگی کا اظہار کرنے کے لیے سجدے میں گر جاتے ہیں]۔ صالحین اہلِ کتاب کے اس رویے کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۶۴۹-۶۵۰)
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْرَآئِ یْلَ وَ مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَاط اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُکِیًّاo (مریم ۱۹:۵۸)، یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم ؑکی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنھیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیم ؑکی نسل سے اور اسرائیل ؑکی نسل سے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گرجاتے تھے۔
’’اس آیت سجدہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیا کی جماعت کا ذکر کیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ یہ ہے انبیاؑ کی جماعت جن کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے، جو اللہ کے انعام یافتہ بندے ہیں۔ اس میں انبیاؑ کے چار گروہوں کا ذکر ہے۔ پہلا گروہ اولادِ آدم ؑسے، یعنی حضرت ادریس ؑاور ان کی اولاد۔ دوسرا حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار ہونے والوں کی نسل سے مراد حضرت ابراہیم ؑخلیل اللہ ہیں، تیسرا ذُریت حضرت ابراہیم ؑسے مراد حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ ہیں، اور چوتھا گروہ ذُریت اسرائیل ؑ(یعقوب ؑ) سے مراد حضرت موسٰی ؑ، حضرت ہارون ؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسٰی ؑہیں..... فرمانِ الٰہی ہے کہ ان پیغمبروں کے سامنے جب کلام اللہ شریف کی آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں تو اس کے دلائل و براہین کو سُن کر خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکرواحسان مانتے ہوئے، روتے، گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے۔ اسی لیے اس آیت پر سجدہ کرنے کا حکم علما کا متفق علیہ مسئلہ ہے تاکہ ان پیغمبروں کی اتباع اور اقتدا ہوجائے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے سورئہ مریم کی تلاوت کی اور جب اس آیت پر پہنچے تو سجدہ کیا۔ پھر فرمایا: سجدہ تو کیا لیکن وہ رونا کہاں سے لائیں؟ (ابن ابی حاتم اور ابن جریر)‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۳،ص ۲۳۸)
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِط وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ ط وَ مَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ ط اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآئُ (الحج ۲۲:۱۸)، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں؟ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔
[جس طرح پہلی آیات میں گزر چکا ہے کہ ] ’’فرشتے، اجرامِ فلکی اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماورا، دوسرے جہانوں میں ہیں، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں، یا حیوانات ، نباتات، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار۔ [سب اللہ کے سامنے سربسجود ہیں]۔ یعنی وہ نہیں جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ اور بطوع و رغبت اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آرہا ہے، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانونِ فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۲۱۱-۲۱۲)
اس لیے یہاں اہلِ ایمان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی اور اختیار سے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔ یہاں سجدۂ تلاوت واجب ہے اور یہ سجدہ متفق علیہ ہے۔
وَاِِذَا قِیْلَ لَھُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَھُمْ نُفُوْرًا o (الفرقان ۲۵:۶۰)، ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں: رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟‘‘ یہ دعوت ان کی نفرت میں اُلٹا اور اضافہ کردیتی ہے۔
اس سے پہلے والی آیت (۵۹) میں رحمان کی شان بیان کی گئی ہے، یعنی وہ خدا جو زندہ ہے، کبھی مرنے والا نہیں، وہ باخبر ہے۔ اس نے چھے دنوں میں زمین اور آسمانوں کو بنایا۔ پھر آپ ہی عرش پر جلوہ فرما ہوا۔
جب منکرین یہ بات کہتے کہ رحمان کیا ہوتا ہے تو ’’یہ بات دراصل وہ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے۔ جس طرح فرعون نے حضرت موسٰی ؑسے کہا تھا: وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ، ’’رب العالمین کیا ہوتا ہے؟‘‘ حالانکہ نہ کفارِ مکہ خداے رحمان سے بے خبر تھے اور نہ فرعون ہی اللہ رب العالمین سے ناواقف تھا۔ بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اہلِ عرب کے ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے ’رحمان‘ کا اسمِ مبارک شائع [مقبول] نہ تھا اس لیے انھوں نے یہ اعتراض کیا۔ لیکن آیت کا اندازِ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ اعتراض ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ طُغیانِ جاہلیت کی بنا پر تھا، ورنہ اس پر گرفت کرنے کے بجاے اللہ تعالیٰ نرمی کے ساتھ انھیں سمجھا دیتا کہ یہ بھی ہمارا ہی ایک نام ہے، اس پر کان نہ کھڑے کرو۔ علاوہ بریں یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ عرب میں اللہ تعالیٰ کے لیے قدیم زمانے سے رحمان کا لفظ معروف و مستعمل تھا....
اس جگہ سجدئہ تلاوت مشروع ہے اور اس پر تمام اہلِ علم متفق ہیں۔ ہرقاری اور سامع کو اس مقام پر سجدہ کرنا چاہیے۔ نیز یہ بھی مسنون ہے کہ آدمی جب اس آیت کو سنے تو جواب میں کہے: زَادَنَا اللّٰہُ خُضُوْعًا مَّا زَادَ لِلْاَعْدَآئِ نُفُورًا، ’’اللہ کرے ہمارا خضوع اتنا ہی بڑھے جتنا دشمنوں کا نفور بڑھتا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۴۶۰-۴۶۱)
اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ o (النمل ۲۷: ۲۵)، اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔
اس آیت سجدہ سے پہلے ، سورئہ نمل میں حضرت سلیمانؓ کے دربار میں ہُدہُد کا بیان ہے، جو اس نے ملک سبا کے دورے سے واپس آنے پر دیا۔ اس نے ایک ایسی قوم کا حال سنایا جس کی ایک ملکہ ہے اور وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجاے سورج کو سجدہ کرتی ہے۔ شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوش نما بنا دیے اور انھیں شاہراہ سے روک دیا۔ اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے کہ اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔
یہاں اللہ کی دو صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، یعنی جو ہر آن نئی چیزوں کو ظہور میں لارہا ہے جو پوشیدہ تھیں۔ اس کا علم ہرچیز پر حاوی ہے، اس کے لیے ظاہر اور مخفی سب یکساں ہیں۔
’’[یہاں] اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بطورِ نمونہ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اگر وہ لوگ شیطان کے دھوکے میں نہ آتے تو یہ سیدھا راستہ انھیں صاف نظر آسکتا تھا کہ آفتاب نامی ایک دہکتا ہوا کرہ جو بے چارہ خود اپنے وجود کا ہوش بھی نہیں رکھتا، کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے بلکہ صرف وہ ہستی اس کا استحقاق رکھتی ہے جو علیم و خبیر ہے اور جس کی قدرت ہرلحظہ نئے نئے کرشمے ظہور میں لارہی ہے۔[اور وہ اللہ ہے جو عبادت کا مستحق ہے اور عرشِ عظیم کا مالک ہے۔]
اس مقام پر سجدہ واجب ہے۔ یہ قرآن کے ان مقامات میں سے ہے جہاں سجدئہ تلاوت واجب ہونے پر فقہا کا اتفاق ہے۔ یہاں سجدہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو آفتاب پرستوں سے جدا کرے اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار و اظہار کرے،کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مسجود و معبود مانتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳،ص ۵۷۰-۵۷۱)
اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَاالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْابِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ o (السجدہ ۳۲:۱۵)، ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔
اس آیت سجدہ سے پہلے کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی منظرکشی کی ہے: ’’کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سرجھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) ’’اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا، اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین ہوگیا ہے‘‘۔ (جواب میں ارشاد ہوگا) ’’اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔ مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔ پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا، ہم نے بھی اب تمھیں فراموش کردیا ہے۔ چکھو، ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں‘‘۔ (السجدہ ۳۲:۱۲-۱۴)
اس کے بعد آیت سجدہ میں اہلِ ایمان کی شان بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ اپنے غلط خیالات کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت بجا لانے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات نہیں سمجھتے۔ نفس کی کبریائی انھیں قبولِ حق اور اطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی‘‘ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۵)۔ لہٰذا جب وہ قرآن سنتے ہیں اور ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اسی لیے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس مقام پر سجدہ کر کے اپنے آپ کو بھی مومنین کے اس گروہ میں شامل کریں۔
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِِلٰی نِعَاجِہِ ط وَاِِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآئِ لَیَبْغِیْ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ھُمْط وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَ o (صٓ ۳۸:۲۴)، دائود ؑنے جواب دیا: ’’اِس شخص نے اپنی دُنبیوں کے ساتھ تیری دُنبی ملا لینے کا مطالبہ کرکے یقینا تجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عملِ صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں‘‘۔ (یہ بات کہتے کہتے) دائود ؑسمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمایش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کرلیا۔
یہاں پر یہ ممکن نہیں کہ اس واقعے کی تفصیل میں جایا جائے جو حضرت دائود ؑکے ساتھ پیش آیا اور قرآن میں مذکور ہے۔ اس کے لیے تفاسیر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ حضرت دائود ؑ سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوا تھا جو دُنبیوں والے واقعے سے مماثلت رکھتا تھا۔ اسی لیے فیصلہ سناتے ہوئے معاً ان کو یہ خیال آیا کہ یہ میری آزمایش ہوئی ہے لیکن اس قصور کی نوعیت ایسی شدید نہ تھی کہ اسے معاف نہ کیا جاتا۔ جب انھوں نے سجدے میں گر کر توبہ کی تو [نہ صرف] یہ کہ انھیں معاف کردیا گیا بلکہ دنیا اور آخرت میں ان کو جو بلند مقام حاصل تھا اس میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔
’’اس امر میں اختلاف ہے کہ اس مقام پر سجدئہ تلاوت واجب ہے یا نہیں۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یہاں سجدہ واجب نہیں بلکہ یہ تو ایک نبی کی توبہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ وجوب کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابن عباسؓ سے تین روایتیں محدثین نقل کی ہیں۔ عکرمہؓ کی روایت یہ ہے کہ ابن عباسؓ نے فرمایا:’’ یہ ان آیات میں سے نہیں ہے جن پر سجدہ لازم ہے مگر مَیں نے اس مقام پر نبیؐ کو سجدہ کرتے دیکھا ہے‘‘ (بخاری).... سعید بن جبیرؓ سے روایت ہے کہ سورئہ صٓ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور فرمایا: ’’دائود ؑنے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں‘‘۔ (نسائی).... حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبے میں سورئہ صٓ پڑھی اور جب آپؐ اس آیت پر پہنچے تو آپؐ نے منبر سے اُتر کر سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ سب حاضرین نے بھی کیا (ابوداؤد)۔ ان روایات سے اگرچہ وجوبِ سجدہ کی قطعی دلیل تو نہیں ملتی لیکن کم از کم اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر اکثر سجدہ فرمایا ہے، اور سجدہ نہ کرنے کی بہ نسبت یہاں سجدہ کرنا بہرحال افضل ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۴، ص۳۲۵-۳۲۶)
فَاِِنِ اسْتَکْبَرُوْا فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَھُمْ لاَ یَسْئَمُوْنَo(حم السجدہ ۴۱:۳۸) ، لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات پر اڑے رہیں تو پروا نہیں، جو فرشتے تیرے رب کے مقرب ہیں وہ شب و روز اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے۔
اس سے پہلے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘(۴۱:۳۷)۔’’یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی اور ا س کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیا علیہم السلام جس توحیدِ خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امرواقعی ہے۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہرنہیں ہے بلکہ دونوں ہی مجبورو لاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کررہے ہیں… اور جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہِ راست خود اُسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۶۰-۴۶۱)
گویا اب اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات یا جہالت پر اڑے رہیں تو پروا نہیں ہے۔ اللہ کے مقرب فرشتے جن کے ذریعے پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اس کی بندگی اختیار کیے ہوئے ہیں، اور اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔
اس مقام پر سجدہ تو متفق علیہ ہے مگر اس امر میں اختلاف ہے کہ آیت نمبر۳۷ یا ۳۸ میں کس پر سجدہ کرنا چاہیے۔ حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ پہلی آیت پر سجدہ کرتے تھے لیکن حضرات ابن عمرؓ، سعید بن مسیبؓ و دیگر اکابر وَھُمْ لاَ یَسْئَمُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے اور یہی امام ابوحنیفہؒ کا بھی قول ہے۔
فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْاo (النجم ۵۳:۶۲)، جھک جائو اللہ کے آگے اور بندگی بجا لائو۔
یہ وہ مشہور آیت سجدہ ہے جس پر جب آپ نے بیت اللہ شریف میں سجدہ کیا تو آپ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گر گئے۔ اس سے پہلے کی آیات میں مکہ کے کفار کے غلط طرزِعمل پر ان کو ٹوکا گیا تھا کہ تم ’’ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟ اور گابجا کر انھیں ٹالتے ہو؟‘‘ (۵۳:۶۱)۔ یعنی قرآن سن کر اس کا مذاق اُڑاتے ہو اور لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹانے کے لیے زور زور سے گانا شروع کر دیتے ہو، جب کہ صحیح طرزِعمل یہ ہے کہ تم ’’جھک جائو اللہ کے آگے اور بندگی بجا لائو‘‘۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، ابن عباسؓ اور مُطَّلِب بن ابی وداعہؓ کی متفق علیہ روایات ہیں کہ حضوؐر نے جب پہلی مرتبہ حرمِ پاک میں یہ سورت تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گرگئے۔ (بخاری)
سیرت النبیؐ کی مشہور کتاب الرحیق المختوم میں یہ واقعہ یوں رقم ہے: ہجرتِ حبشہ اوّل کے بعد، اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبیؐ ایک بار حرم تشریف لے گئے۔ وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا۔ ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ آپؐ نے ایک دم اچانک کھڑے ہوکر سورئہ نجم کی تلاوت شروع کر دی۔ ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنا نہ تھا.... اور ان کے کانوں میں ایک ناقابلِ بیان رعنائی و دل کشی اور عظمت لیے ہوئے کلامِ الٰہی کی آواز پڑی تو انھیں کچھ ہوش نہ رہا۔ سب کے سب گوش بر آواز ہوگئے۔ کسی کے دل میں کوئی اور خیال ہی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ جب آپؐ نے سورہ کے اواخر میں دل دہلا دینے والی آیات تلاوت فرما کر اللہ کا یہ حکم سنایا کہ فَاسْجُدُوْا… اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے.... بعد میں جب انھیں احساس ہوا کہ کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگام موڑ دی اور وہ ٹھیک وہی کام کربیٹھے جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لیے انھوں نے ایڑی سے چوٹی تک زور لگا رکھا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیرموجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھاڑ شروع کی تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور انھوں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے رسولؐ اللہ پر یہ افتراپردازی کی اور یہ جھوٹ گھڑا کہ آپؐ نے ان کے بتوں کا ذکر عزت و احترام سے کرکے کہا تھا کہ تِلْکَ العَزَانِیْنُ… ’’یہ بلندپایہ دیویاں ہیں، اور ان کی شفاعت کی اُمید کی جاتی ہے‘‘۔ حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو محض اس لیے گھڑ لیا گیا تاکہ نبیؐ کے ساتھ سجدہ کرنے کی جو ’غلطی‘ ہوگئی ہے اس کے لیے ایک ’معقول‘ عذر پیش کیا جاسکے.... بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی اس طرح پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں چنانچہ انھوں نے ماہِ شوا ل میں مکہ واپسی کی راہ لی.... لیکن جب قریب پہنچے تو حقیقت حال آشکار ہوئی۔(ص ۱۳۳-۱۳۴)
وَاِِذَا قُرِیَٔ عَلَیْہِمُ الْقُرْاٰنُ لاَ یَسْجُدُوْنَo (الانشقاق ۸۴:۲۱)، اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔
اس آیت سجدہ کے پورے مفہوم کو سمجھنے کے لیے آیت ۱۶ سے پڑھیں: ’’پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی، اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے، اور چاند کی جب کہ ماہِ کامل ہوجاتا ہے، تم کو ضرور درجہ بہ درجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟‘‘ ۔’’یعنی [انسان کو] ایک حالت پر نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑھاپے، بڑھاپے سے موت، موت سے برزخ، برزخ سے دوبارہ زندگی، دوبارہ زندگی سے میدانِ حشر، پھر حساب و کتاب اور پھر جزا و سزا کی بے شمار منزلوں سے لازماً تم کو گزرنا ہوگا۔ اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے: سورج ڈوبنے کے بعد شفق کی سرخی، دن کے بعد رات کی تاریکی، اور اس میں ان بہت سے انسانوں اور حیوانات کا سمٹ آنا جو دن کے وقت زمین پر پھیلے رہتے ہیں، اور چاند کا ہلال سے درجہ بہ درجہ بڑھ کر بدرِ کامل بننا۔ یہ گویا چند وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی علانیہ شہادت دے رہی ہیں کہ جس کائنات میں انسان رہتا ہے اس کے اندر کہیں ٹھیرائو نہیں ہے، ایک مسلسل تغیر اور درجہ بہ درجہ تبدیلی ہر طرف پائی جاتی ہے، لہٰذا کفار کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ معاملہ ختم ہوجائے گا‘‘۔
[اس پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں تعجب کا اظہار کرتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے] ’’یعنی ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور یہ اس کے آگے نہیں جھکتے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ امام مالکؒ، مسلمؒ اور نسائیؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے نماز میں یہ سورۃ پڑھ کر اس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کیا ہے۔ بخاری، مسلم، ابودائود، اور نسائی نے ابورافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے عشا کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے ابوالقاسمؐ کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور حضوؐر نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے، اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۲۹۱-۲۹۲)
کَلَّا ط لاَ تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْo(العلق ۹۶:۱۹)، ہرگز نہیں، اُس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو۔
شانِ نزول کے حساب سے یہ پہلی آیت سجدہ ہے لیکن ترتیب کے حساب سے آخری۔ نبی پاکؐ پر وحی کا آغاز غارِحرا میں حضرت جبرئیل ؑکے ذریعے سورئہ علق کی ابتدائی پانچ آیات کی صورت میں ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب رسولؐ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ میں نماز پڑھنا شروع کی اور ابوجہل کو یہ بات ناگوار گزری اور اس نے نبی پاکؐ کو منع کرنا چاہا۔ اس لیے سورئہ علق کی آیت چھے سے آخر (۱۹) تک آیات میں اللہ پاک نے اس کافر کے ردعمل کا جواب دیا: ’’ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے (حالانکہ) پلٹنا یقینا تیرے رب ہی کی طرف ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے، جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟ تمھارا کیا خیال ہے اگر (وہ بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟ تمھارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو) جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟ ہرگز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کو جو جھوٹی اور سخت خطاکار ہے۔ وہ بلا لے اپنے حامیوں کی ٹولی کو،ہم بھی عذاب کے فرشتوں کو بلا لیں گے۔ ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو‘‘۔
’’حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ ابوجہل نے قریش کے لوگوں سے پوچھا: ’’کیا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے سامنے زمین پر اپنا منہ ٹکاتے ہیں؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: ’’لات اور عُزّیٰ کی قسم، اگر میں نے ان کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی گردن پر پائوں رکھ دوں گا اور ان کا منہ زمین میں رگڑ دوں گا‘‘۔ پھر ایسا ہوا کہ حضوؐر کو نماز پڑھتے دیکھ کر وہ آگے بڑھا تاکہ آپ کی گردن پر پائوں رکھے، مگر یکایک لوگوں نے دیکھا کہ وہ پیچھے ہٹ رہا ہے اور اپنا منہ کسی چیز سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ تجھے کیا ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے اور اُن کے درمیان آگ کی ایک خندق اور ایک ہولناک چیز تھی اور کچھ پَر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو ملائکہ اس کے چیتھڑے اُڑا دیتے۔ (احمد،مسلم، نسائی)
ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے کہا: اے محمدؐ! کیا میں نے تم کو اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اور اس نے آپؐ کو دھمکیاں دینی شروع کیں۔ جواب میں رسول ؐ اللہ نے اس کو سختی سے جھڑک دیا۔ اس پر اس نے کہا: اے محمدؐ! تم کس بل پر مجھے ڈراتے ہو۔ خدا کی قسم! اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں‘‘ (احمد، ترمذی)۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۳۹۴-۳۹۵)۔ چنانچہ ان آیات کے ذریعے آپؐ کو تسلی دینے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک بار پھر آپؐ کو حکم دیا کہ تم اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو۔
[یہاں] ’’سجدہ کرنے سے مراد نماز ہے، یعنی اے نبیؐ! تم بے خوف اُسی طرح نماز پڑھتے رہو جس طرح پڑھتے ہو، اور اس کے ذریعے سے اپنے رب کا قرب حاصل کرو۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ’’بندہ سب سے زیادہ اپنے رب سے اس وقت قریب ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے‘‘ اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت بھی آئی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے تھے تو سجدۂ تلاوت ادا فرماتے تھے‘‘۔ (ایضاً، ص۳۹۹)
۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو مہمند ایجنسی میں پاکستانی چیک پوسٹ پر امریکی ( ناٹو ) گن شپ ہیلی کاپٹروں کا حملہ ہوا جس میں ۱۶فوجی جوان شہید اور ۱۶ زخمی ہوئے۔ یہ ایک سوچا سمجھا اور پوری تیاری کے ساتھ کیا گیا حملہ تھا۔اس سے پہلے کافی عرصے سے پاکستان امریکی پروپیگنڈے کی زد میں تھا۔ امریکی تھنک ٹینک مسلسل امریکی حکومت کو یہ پٹی پڑھا رہے تھے کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے اور اس کو اپنی اوقات یاد دلائی جائے۔ افغانستان کے میدان جنگ میں مسلسل ناکامیوں سے دوچار امریکی عسکری قیادت اس کا ملبہ پاکستان پر گرانا چاہتی تھی۔ امریکی قیادت میڈیا کے ذریعے اپنے عوام کو یہ باور کرا رہی تھی کہ افغان جنگ اُس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی جب تک پاکستان اصل میدان جنگ نہیں بن جاتا۔ افغانستان کی کٹھ پتلی قیادت اور امریکی دفترخارجہ بیک آواز افغان شورش پسندی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہے تھے، اور یہ مضحکہ خیز نتیجہ نکالتے ہیں کہ: ’’دراصل افغان طالبان، پاکستان کے ایما پر اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔۱؎
۲مئی ۲۰۱۱ء کو جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ایبٹ آباد کے ایک گھر پر حملہ کیا اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا اعلان کیاتو اس وقت بھی پاکستان کی فضائی حدود کی پامالی اور پاکستانی فوج کو اعتماد میں نہ لینے پر پاکستان نے بھرپور احتجاج کیا تھا، اور ۴مئی کوپارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک مذمتی قرارداد منظور کی تھی۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور امریکی قیادت نے تسلسل کے ساتھ پاکستان کے عسکری اور قومی اداروں کو مطعون کرنے کا شغل جاری رکھا۔
اس سے پہلے جب۲۷جنوری ۲۰۱۱ء کو ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور کی سڑک پر دوپاکستانی نوجوانوں کو قتل کرنے پر ا س کو کوٹ لکھپت جیل میںڈالا گیا تو پوری امریکی حکومت اس پر سیخ پا تھی اور امریکی شہری کی گرفتاری پر حکومت پاکستان سے ناراض رہی تاوقتیکہ ۱۶مارچ کو دیت ادا کر کے اس کو رہا نہیں کروالیاگیا۔
اس طرح ہر موقع پر امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اپنے حلیف پاکستان کے خلاف دشنام طرازی اور الزامات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۸جولائی ۲۰۱۱ء کو کابل میں بھارتی سفارت خانے پر حملہ ہو، یا امریکی سفارت خانے پر حملہ، ۱۳ستمبر کو ناٹو ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہو یا ۲۰ستمبر کو جمعیت اسلامی افغانستان کے سربراہ استاد برہان الدین ربانی کا قتل، امریکی اور افغان قیادت نے پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ ۲۲ستمبر ۲۰۱۱ء کو ایڈمرل مولن نے صاف بیان دیا کہ حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے پہلے امریکی جنرل پیٹریاس تمام خرابیوں کی جڑ شمالی وزیرستان کو قرار دے چکے تھے۔
اس موقع پر ضروری ہے کہ پاکستانی قوم اور اہل دانش اس پوری صورت حال کا جائزہ لیں کہ کن عوامل کی بنیاد پر پاکستان اس جنگ میں شریک ہوا، اس نے اس دوران کیا پایا اور کیا کھویا؟
اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان نکات پر نظر دوڑائیں جن کی بنیاد پر ۲۰۰۱ء میں پاکستان کی عسکری قیادت نے ’دہشت گردی‘ کے خلاف اس جنگ میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا:
۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء کو صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان پر امریکی حملے کے حق میں جودلائل دیے تھے ان میں پاکستان کے مفاد میںدرج ذیل پانچ نکات کا ذکر کیا گیا تھا ۔۲؎
۱-پاکستان کے حساس (ایٹمی) اثاثوں کی حفاظت
۲-کشمیر کاز کا تحفظ
۳-پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیے جانے کا ازالہ
۴-کابل میں پاکستان مخالف حکومت کے بر سر اقتدار آنے کو روکنا
۵-پاکستان کو بحیثیت ایک ذمہ دار ، باوقار ریاست قرار دینا
اس سے پہلے نائن الیون کے واقعے کے بعد ۱۴ستمبر کو امریکی سیکرٹری خارجہ کولن پاول سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ان سات نکات کو فی الفور قبول کر لیا تھا جو اس نے اس دھمکی کے ساتھ جنرل مشرف کو پیش کیے تھے کہ: ’’اگر آپ نے اس جنگ میں امریکا کا ساتھ نہ دیا تو امریکی عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے‘‘، اور یہ بھی کسی سطح پر کہاگیا تھا کہ: ’’ اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچادیں گے‘‘۔۳؎
تمام امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے کور کمانڈروں، نیشنل سیکورٹی کونسل کے ارکان اور اپنے قریبی سیاسی معتمدین کی میٹنگ بلائی اور چھے گھنٹے کے اندر اندر ان کو اپنے فیصلے پر قائل کر لیا۔
اس فیصلے کے فوراً بعد ہی پاکستان نے اچانک اپنی فضائی حدود بند کردیں اور امریکی طیاروں اور فوجیوں کو موقع دیا کہ وہ شمالی فضائی اڈوں تک پہنچ سکیں، اس طرح برادر اسلامی ملک افغانستان پر امریکی حملے کے لیے راستہ ہموار کر دیاگیا۔
اس سے پہلے پاکستان ان تین مسلم ممالک میںشامل تھا جنھوں نے ستمبر ۱۹۹۵ئمیںکابل میں طالبان حکومت کے تحت بننے والی اسلامی امارت کو تسلیم کیا تھا ۔ باقی دو ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے اور جب افغانستان پر امریکی الزامات کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں تو پاکستان نے اس کی مخالفت کی تھی۔
دہشت گردی کے خلاف مبینہ امریکی جنگ میںشرکت کے بعد پاکستان نے امریکا کو ہرممکن تعاون بہم پہنچایا، جس سے افغانستان پر امریکی قبضے کی راہ ہموار ہوئی اور ایک آزاد برادر مسلم ملک غیر ملکی استعمار کے چنگل میںچلا گیا۔ اس تعاون میں شمسی ایر بیس سمیت کئی ہوائی اڈوں اور لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے امریکی افواج کو محفوظ راہ داری فراہم کی گئی۔ انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے خفیہ معلومات کا تبادلہ ہوتا رہا اور پاکستان میں ان گروپوں اور جہادی تنظیموں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کیا گیا جو طالبان سے ہمدردی رکھتے تھے۔
ستمبر ۲۰۰۱ئمیں پالیسی میں تبدیلی کے پاکستان پر دُور رس اثرات مرتب ہو ئے اور اب ۲۰۱۲ء میں جب کہ ۱۰ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ہم ایک ایسا میزانیہ تیار کر سکتے ہیںجس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل مشرف کی یہ پالیسی کس حد تک کا میاب یا ناکام رہی تاکہ پاکستانی عوام کو اس کے ثمرات اور نقصانات سے آگہی ہو۔
مناسب ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریرمیں جو دلائل اس جنگ میں شرکت کے حق میں دیے تھے ان کا ایک ایک کر کے تجزیہ کیا جائے اور اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں ہم کچھ نتائج اخذ کریں۔۴؎
پاکستان نے مئی۱۹۹۸ئمیں بھارت کے ایٹمی دھماکوںکے ردعمل کے طور پر زیر زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ اس طرح دنیا میں پاکستان ساتواں ایٹمی صلاحیت کا حامل اور پہلا مسلمان ملک بن گیا تھا جونیو کلیائی حملے کر سکتا ہے۔ دھماکوںسے پہلے امریکا سمیت تمام یورپی اقوام نے بیک آواز پاکستان کو منع کیا تھا کہ وہ بھارتی اشتعال کے جواب میںدھماکے نہ کرے لیکن پاکستان نہ مانا اور دھماکے کر ڈالے ۔ اب دہشت گردوںکے خلاف امریکی اتحاد میں شمولیت کے باوجود پاکستان واحد ایٹمی صلاحیت کے حامل اسلامی ملک کے طور پر ہدف ملامت بناہوا ہے ۔ ایٹمی کلب میں پاکستان شامل نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کے ایٹم بم کے خالق محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو ایک عرصے تک نظر بند رکھا گیا اوروہ اب بھی زیر عتاب ہیں، جب کہ ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر عبدالکلام کو ایٹم بم بنانے کی شاباش میں بھارتی صدر بنا دیا گیا ۔
۲۶مارچ ۲۰۰۶ ء کو امریکا نے بھارت سے سول نیوکلیر معاہد ہ کر کے گویا اس کو ایک ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کر لیا ،جب کہ پاکستان کو مسلسل دشنام طرازیوں کا سامنا ہے۔
پاکستان کی نیوکلیر طاقت کے خلاف ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا کہ یہ اسلحہ،دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے ۔ اس طرح دنیا کو اس سے خطرہ لاحق ہے۔ لیکن اس قسم کا کوئی پروپیگنڈا بھارتی یا اسرائیلی ایٹمی اسلحوں کے بارے میں نہیں ہوا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پر وپیگنڈے کی بنیاد پر ایک بڑی سازش کا تانا بانا بُناجا رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو مفلوج کرنا ہے۔ چند ماہ پہلے ایرانی صدر احمد ی نژادکابیان آیاتھا کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے ایک بڑا منصوبہ بنا رہا ہے، جس سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ کسی ایسے پروگرام پر غور کیا جا رہا ہے جو پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف پروپیگنڈے اور شکوک و شبہات پھیلانے کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کہ ـ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ اورنوجوانانِ کشمیر کا نعرہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ہر پاکستانی کے دل میںگھر کرچکاہے۔ بھارت کے تسلط کے باوجود کشمیر کی آزادی ایک ایسی تحریک ہے جو زندہ و تابندہ ہے اور اس وقت تک جا ری رہے گی جب تک اس کا حصول ممکن نہ ہو ۔ کشمیربھارت سے ہمارا سب سے بڑا تنازع ہے اور گذشتہ کئی جنگیںاسی مسئلے پر لڑی گئی ہیں ۔
جنرل مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں افغانستان کے بجاے کشمیر آپشن قوم کے سامنے پیش کیا۔ کشمیر ی مجاہدوں کو آزادی کی جنگ لڑنے والے ہیرو کا درجہ دیااور تحریک آزادی اور دہشت گردی میںفرق کرنے پر زور دیا لیکن آہستہ آہستہ وہ تمام اقدامات کر ڈالے جو جدوجہد کشمیر کی کمر توڑڈالنے اور کشمیر کا مسئلہ محض زبانی جمع خرچ تک محدود کرنے کا باعث بنے ۔ کارگل کا نام نہاد ہیرو، بن بلائے ہندستان جا پہنچا اور کشمیر کی تقسیم کے نت نئے فارمولے پیش کر کے پاکستان کے دیرینہ موقف کوکمزور کرتا رہا ،اور یہ تک کہہ گزرا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو داخلِ دفتر کیا جاسکتا ہے۔یہ تو غنیمت ہے کہ ہندستانی حکومت کشمیر کے مسئلے پر اپنے غلط موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہوئی، وگرنہ جنرل مشرف نے اپنی ’روشن خیالی‘ کے زعم میں کشمیر کا سودا کرنے میںکوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔خود کشمیر کی قیادت، پاکستانی حکومت کے بے سرو پا اعلانات اور قلابازیوں پر حیران و پریشان ہوتی رہی، اور پاکستانی قوم سے اپیل کرتی رہی کہ وہ حکومت کو ان اعلانات سے روکے جس سے آزادی کشمیر کے تحریک کو ناقابل بیان نقصان پہنچ رہا ہے ۔
موجودہ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کو طاق نسیاں پر رکھتے ہوئے بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن، یعنی ’سب سے پسندیدہ‘ قوم قرار دینے کا عندیہ دیاہے، حالانکہ پوری قوم اس پر سخت برہم اورجموں و کشمیر کے مسلمان سخت مشتعل ہیں۔جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے لیے یہ اعلان تحریک آزادی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔
نائن الیون کے واقعے میںکوئی پاکستانی ملوث نہیںتھا ۔اس واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والے کمیشن کی ہزاروں صفحات کی رپورٹ میں کسی پاکستانی فرد یا ادارے کا نام نہیںتھا جو اس واقعے کی منصوبہ سازی، مالی تعاون یا ہائی جیکروں کے ساتھ کسی بھی حیثیت میں شامل رہے ہوں۔ امریکا نے جب افغان حکومت سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو اس وقت بھی پاکستان نے سفارتی طور پر طالبان حکومت پر زور دیا کہ وہ یہ مطالبہ مان لے ۔اس لیے اس امر کا کوئی امکان اس وقت موجود نہیںتھا کہ پاکستان کودہشت گرد ریاست قرار دیا جائے گا۔
پاکستان ایک آزاد ،خود مختار ملک اور اقوام متحدہ کے ایک باوقار رکن کی حیثیت سے یہ حق رکھتا تھا کہ وہ اپنی ملکی حدود کے بارے میں خود فیصلہ کرے اور کسی ایسی جنگ کاحصہ نہ بنے جس سے اس کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو ۔ جنرل مشرف نے ’سب سے پہلے پاکستان‘کا نعرہ لگایا لیکن امریکی مفاد میں ایک بے مقصد جنگ میں پوری پاکستانی قوم کی قسمت کو دائو پر لگا دیا، اور ایک برادر اسلامی ملک کو امریکی تسلط میں دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی جنگ کا ایندھن بنا دیا ۔ سرکاری اعلان کے مطابق امریکا نے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر ۷۵ہزار سے زیادہ ہوائی حملے کیے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کو خود پاکستان میں فروغ حاصل ہوااور غیور افغان امریکا کے ساتھ پاکستان کے اس تعاون کو ان کے خلاف جنگ میں برابر کا شریک سمجھنے پر مجبور ہوگئے۔ اس طرح جو دوست تھے ان کو دھکے دے کر دشمنوں کی صف میں شامل کر دیا گیا، اور امریکا کا یہ منصوبہ کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کی آماج گاہ بن جائے ،پورا ہوگیا۔
اب ۱۰ سال بعد کیفیت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میںاپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں امریکی فوج سے زیادہ نقصان پاکستان کے عوام اور پاکستانی فوج کوبرداشت کرنا پڑا ہے، ا ور دہشت گرد قراردیے جانے کا خطرہ پہلے سے زیادہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ پاکستان کو اس جنگ میں شرکت کی جو مالی قیمت ادا کرنی پڑی ہے، اس کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔
کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد حامد کرزئی کی قیادت میں شمالی اتحاد کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوئی جو اب تک امریکی عسکری چھتری تلے ایک کٹھ پتلی انتظامیہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہندستان نے ہمیشہ سے کابل میں پاکستان کے مخالف عناصر کی کھل کر حمایت کی ہے ۔ جیسا کہ ماسکو نوازببرک کارمل انتظامیہ جب کابل پر حکومت کر رہی تھی تو اس وقت بھی سوشلسٹ بلاک کے ممالک کے علاوہ صرف بھارت نے ببرک کارمل کی حکومت کو تسلیم کیا تھا ۔ جب کابل میں نجیب انتظامیہ اقتدار میں تھی تو اس وقت بھی بھارت کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات تھے۔ پھر جب مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو بھارت نے رشید دوستم ملیشیا اور شمالی اتحاد کے ساتھ روابط قائم کیے اور اب تک شمالی اتحاد کے جملہ عناصر بھارت کے زیر اثر ہیں۔ کرزئی حکومت نے مسلسل پاکستان پر طالبان کی درپردہ حمایت کا الزام لگایا ہے اور اپنی تمام کمزوریوں اور ناکامیوں کاذمہ دار اس کو قرار دیا ہے ۔ دوسری طرف بھارتی اثرورسوخ پورے افغانستان میں ہر جگہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ افغان فوج کو تربیت دینے سے لے کر حکومت کے ہر شعبے میں اس کے اثرات ہیں۔ بڑی تعداد میں بھارتی کمپنیاں افغانستان میں کاروبار کر رہی ہیں اور بھاری اقتصادی مفادات کے حصول کے لیے بھارت ہر قسم کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ گویا موجودہ کابل حکومت پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہندستان کی مرہونِ منت ہے، جب کہ قومی ، زمینی ، جغرافیائی ، نظریاتی ، لسانی ، مذہبی ہرنقطۂ نظر سے پاکستان ، افغانستان کے قریب ہے۔ روسی جارحیت کے موقع پر ۴۰ لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دی تھی۔ افغانستان کی تمام تر تجارت کا انحصا ر پاکستان پر ہے۔پاکستان اور افغانستان فطری حلیف ہیں لیکن موجودہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔
جس وقت نائن الیون کا واقعہ پیش آیا، پاکستان ایک فوجی قیادت کی گرفت میں تھا۔ جنرل پرویزمشرف بلا شرکت غیرے حکمرانی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ملک کی منتخب حکومت برطرف کی جاچکی تھی جس کی بنا پر دولت مشترکہ سے پاکستان کی رکنیت معطل کی گئی تھی اور کئی ممالک نے پاکستان کے خلاف مختلف پابندیاں عائد کی تھیں۔کسی پارلیمنٹ کا وجود نہ تھا، اس لیے جب امریکا نے جنرل مشرف سے ’اِدھر یا اُدھر‘کا مطالبہ کیا توفوراً ہی اس نے غیر مشروط طور پر ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور اپنی کابینہ سے بھی مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا ۔ یہ کسی بھی ذمہ دار اور باوقار ملک کے قومی فیصلے کرنے کا طریقہ نہیں ہے ۔ جس نے پاکستان کے وقار ، سا لمیت اور خود مختاری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ جنرل مشرف کو چاہیے تھا کہ اس وقت کوئی جواب دینے سے پہلے وہ اپنی سول کابینہ اور فوجی کمانڈروں سے مشورہ کرتا ، پارلیمنٹ کی غیر موجودگی میں سیاسی جماعتوںکی لیڈر شپ کو بُلاکر گول میز کانفرنس کرتا اور قوم کو اعتماد میں لے کر کوئی فیصلہ کرتا ۔
دوسرا موقع پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو ملا تھا کہ وہ ۲۰۰۸ئکے انتخابات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اس پالیسی پر نظرثانی کرتی اور دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد امریکی جنگ میں شرکت کا میزانیہ تیار کرتی اور جنرل مشرف کی پالیسیوں کو دوام بخشنے کے بجاے ملک وقوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کرتی ۔ کیری لوگر بل منظور کرتے وقت پاکستانی قوم کو ایک تیسرا موقع ملا تھا کہ وہ اپنے آپ کو امریکی چنگل سے آزاد کرانے کا راستہ اختیار کرتی۔ واضح رہے کہ کیری لوگر بل کی صورت میں پاکستان کو ملنے والی معمولی امداد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کو پہنچنے والے ۳ئ۷۳؍ارب ڈالر کے اقتصادی نقصان کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بھی نہیں ہے ۔اس موقع پر ملک کے تمام اہل دانش نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن بدقسمتی سے جمہوری قیادت نے بالغ نظری سے کام نہ لیا اور بدستور ملک وقوم کو امریکی جنگ کا ایندھن بننے دیا ۔
اسی طرح اکتوبر ۲۰۰۸ئاور مئی۲۰۱۱ء میںپارلیمنٹ سے متفقہ قرار دادوں کی منظوری اور امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی ۲۷جنوری ۲۰۱۱ء میں گرفتاری کے مواقع پر پاکستان کے لیے امریکی کیمپ سے نکلنے کے اچھے امکانات موجود تھے۔جن کو بنیاد بنا کر پاکستان امریکا سے گلو خلاصی کر سکتا تھا، لیکن عقل و دانش سے عاری حکمران ان بہترین مواقع کو بھی بروے کار لانے میں ناکام رہے۔ اب بھی ایک باوقار اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے پاکستان کے مفاد میں یہی راستہ ہے کہ ۲مئی اور ۲۶نومبر ۲۰۱۱ء کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ دونوں حملوں میں امریکی ہیلی کاپٹروں نے امریکی حکومت کی مرضی سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی حلیف فوج کے اعتماد کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اور تمام بین الاقوامی معاہدوں کو پامال کرتے ہوئے فوجی کارروائیاں کیں، تو اس کے بعد ہمارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ ہم پھر بھی اس امریکی کھونٹے سے بندھے رہیں۔
امریکی اتحادی بننے کا صلہ امریکا نے اب تک پاکستان کے خلاف۲۵۰ سے زائد ڈرون حملوں کی صورت میںدیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی ہزار بے گناہ قبائلی جاں بحق ہو چکے ہیں،جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
سال ۲۰۰۶ء سے افغانستان میں جاری امریکی جنگ کے مہیب اثرات پاکستان میں واضح طور پر محسوس کیے جانے لگے ۔اب تک پاکستان کے ۳۵ہزار سے زائد شہری اور ۵ہزار سے زائد فوجی اس جنگ میں کام آچکے ہیں۔فاٹا اور شمالی علاقوں میں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے۔ملک کا اقتصادی ڈھانچا مجموعی طور پر اور جنگ زدہ علاقے خاص طور پر معاشی بدحالی سے دوچار ہیں۔اس سے پہلے کسی بھی موقع پر پاکستان اس طرح کے مالی بحران سے دوچار نہیں ہواجس کا سامنا اس کو اِس وقت کرنا پڑ رہا ہے۔۵؎
۲۰۰۸ء میں حکومت نے ایک بین الوزارتی کمیٹی اس مقصد کے لیے تشکیل دی تھی کہ وہ جائزہ لے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں پاکستان کی فعال شرکت سے ملک پر کیا اقتصادی و معاشی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس کمیٹی نے طویل غور و خوض اور جائزوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس جنگ نے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس کے جاری رہنے سے ملک کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو مزید نقصان پہنچتا رہے گا۔
جنگ کے آغاز ہی میں، یعنی سال ۰۲-۲۰۰۱ء میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ ۶۶۹ئ۲؍ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت یہ گمان تھا کہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی اور حالات دوبارہ عام ڈگر پر آجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور جنگ میں مزید شدت اور تیزی آتی رہی اور بالآخر اس نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اقتصادی طور پر بھی پاکستان اس جنگ کی بھاری قیمت ادا کرتا رہا اور بالواسطہ اور براہ راست نقصانات کا تخمینہ جو ۰۲-۲۰۰۱ء میں ۶۶۹ئ۲؍ ارب ڈالر تھا، ۱۰-۲۰۰۹ء میں بڑھ کر ۶ئ۱۳؍ارب ڈالرسالانہ کا حجم اختیار کر گیا۔ گذشتہ سال اس میں ۸ئ۱۷؍ارب ڈالر کا مزید اضافہ ہوگیا۔ اس طرح گذشتہ ۱۰ سال میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے صرف اقتصادی نقصان کا اندازہ ۳ئ۷۳؍ ارب ڈالر یعنی۵۰۳۷؍ ارب پاکستانی روپے ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ناقابل تلافی ہے۔اس اقتصادی نقصان سے سب سے زیادہ ملک کی نوجوان نسل متاثر ہوئی، جس سے بے روز گاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ملک کے بنیادی ڈھانچے مثلاً شاہراہوں، پُلوں ، عمارتوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور ہر قسم کی آبادیوںکو اس جنگ میں جس تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا مشاہدہ ہر پاکستانی بخوبی کرسکتا ہے۔۶؎
سلالہ چیک پوسٹ پر دانستہ امریکی حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں، عرصہ دراز سے قوم اس کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اقدامات مستقل بنیادوں پر ایک پالیسی کے تحت کیے جائیں ۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ پاکستان امریکی کیمپ سے نکل کر ایک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دے۔قبائلی علاقے میں موجود مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ ناٹو افواج کے لیے سپلائی لائن ختم کرے، امریکی اڈوں کو ملک سے مستقل طور پر نکال دے اور امریکی جنگی مشین کے طور پر اپنے کردار کو ختم کرتے ہوئے ایک آزاد اور خودمختار مسلم ملک کی حیثیت سے دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کرے۔پاکستان کی ایک امتیازی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت ہے جسے کوئی بھی طاقت نظر انداز نہیں کر سکتی۔
وقت کا اہم ترین تقاضا وہی ہے جس کا برملا اعلان جماعت اسلامی پاکستان اور ملک کی تمام اسلامی قوتوں نے کیا ہے۔ وہ یہ کہ ملک وملّت کے عظیم تر مفاد میں ، مسلم امہ کے اتحاد ویگانگت کے لیے، قومی آزادی اور خود محتاری کی خاطر ، پاکستانی قوم کی عظمت اور افتخار کے حصول کے لیے اس عزم ویقین کا اظہار کیا جائے کہ ہم خطے میں امریکی تسلط و بالادستی اور ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں گے اورپاکستانی عوام کو امریکی چنگل سے نجات کے حصول کی ملک گیر جدوجہد کو اس مقصد کے حصول تک جاری رکھیں گے۔
NATO Attack: Why Salala? ،By Brig Asif Haroon Raja
1- http://www.thinkersforumpakistan.org / articles_detail.php?article_id=114&start=1
General Musharaf's Taliban Policy 1999-2008
2- http://www.qurtuba.edu.pk/ thedialogue /The%20Dialogue/5_2/Dialogue_April_June2010_96-124.pdf
UNITED STATES DIPLOMACY WITH PAKISTAN FOLLOWING 9/11
3- http://wws.princeton.edu/research/cases/coercivediplomacy.pdf
4- http://ipripak.org/journal/winter2004.shtml http://ipripak.org/journal/winter2004/waragainst.shtml
5- U.S. - Pakistan Relations
http://www.journalofamerica.net/html/us-pak_ties.html
Cost of War on Terror for Pakistan Economy
6- http://www.finance.gov.pk /survey/chapter_11 /Special%20 Section_1.pdf