اپریل ۲۰۱۴

فہرست مضامین

افغانستان کا مستقبل اور پڑوسی ممالک

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | اپریل ۲۰۱۴ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

افغانستان کے پڑوسی ممالک اور اس خطے کی دیگر اقوام سے اس کے تعلقات اور مستقبل کے کردار کے حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

وسطی ایشیائی ممالک:

۱۹۷۹ء میں روس نے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے لیے وسطی ایشیائی ممالک کا راستہ استعمال کیا جو اس وقت عظیم سوویت یونین کا حصہ تھے۔ افغانستان اور تاجکستان کے درمیان قدرتی سرحد دریاے آمو ہے جس کا شیر خان بندر کا پل روسی افواج کے آمدورفت کا سب سے بڑا ذریعہ رہا۔ امریکا نے بھی اس کا فضائی اڈا اپنی فوجوں کی آمد کے لیے استعمال کیا۔ تین وسطی ایشیائی ممالک تاجکستان ، ازبکستان اور ترکمانستان ، افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدات رکھتے ہیں، جب کہ قازقستان اور کرغیزستان بھی قریب ہیں۔ اب بھی روس کا ان ممالک پر غیرمعمولی اثر و رسوخ برقرار ہے جو ایک بار پھر عالمی طاقت کا کردار ادا کرنے کے لیے بے قرارہے۔ ان ممالک کے افغانستان کے ساتھ لسانی ،تہذیبی اور سماجی تعلقات کے ساتھ ساتھ گہرے تجارتی و معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ افغانستان ان کے لیے ایک کاروباری گیٹ ولے کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے وہ دیگر ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور ہندستان کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں۔ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت (TAPI) نام کی مجوزہ گیس پائپ لائن اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔

ترکی:

افغانستان میں موجود کئی قومیتیں، مثلاً ترکمان اور ازبک ترکی النسل ہیں۔ ترکی کی حکومتیں ان کومدد بھی دیتی رہی ہیں۔ جنرل رشید دوستم یا جنرل عبدالمالک پر جب برا وقت آیا تو انھوں نے ترکی ہی میں پناہ حاصل کی۔ ترکی وہ واحد اسلامی ملک ہے جس کی فوجیں ناٹو کے ماتحت افغانستان میں موجود ہیں۔ ترکی افغانستان میں امن کے قیام اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ افغان گروہوں میں مصالحت پیدا کرنے اور مذاکرات کے لیے استنبول ایک اچھا مرکز بن سکتا ہے۔ 

چین:

دنیا کی نئی اور تیزی سے رُوبہ ترقی عالمی معاشی طاقت چین بھی انتہائی شمال میں افغانستان کے ساتھ ہمسایگی کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اس کا افغانستان میں کردار بہت محدود ہے۔ ایک زمانے میں افغانستان کی کمیونسٹ پارٹیاں ’شعلہ جاوید‘اور ’افغان ملت‘کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی اعانت حاصل تھی لیکن وہ روس نواز خلق اور پرچم پارٹیوں کے مقابلے میں بہت کمزور تھیں۔ اب یہ عنصر زیادہ تر پختون قوم پرست گروپوں میں پایا جاتا ہے۔ چین کو طالبان دورحکومت میں ان کی جانب سے چینی کاشغر میں مسلم باغی گروپوں کے ساتھ روابط پر اعتراض تھا۔ اب چین افغانستان میں امریکی موجودگی کی وجہ سے بہت محتاط ہے۔ لیکن آیندہ دور میں چین افغانستان کی تعمیر نو اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

ایران:

افغانستان میں ایران کا کردار بہت اہم ہے۔ پاکستان کی طرح ایران نے بھی روسی جارحیت کے دوران لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی تھی۔ ان کے افغانستان کے مختلف طبقات خاص طور پرشیعہ آبادی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی کی بدولت ایران نے مختلف الخیال افغان گروپوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ جب انجینیرحکمت یار سابق وزیر اعظم افغانستان پر سخت وقت آیا تھا تو کچھ عرصے تک وہ ایران میں رہے اور ایرانی حکومت نے ان کی میزبانی کی۔ موجودہ صدر حامد کرزئی اور ان کی حکومت کو بھی ایران کی معاونت حاصل ہے۔ حزب وحدت کے ساتھ ساتھ ان کے طالبان کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ ایران میں کئی کانفرنسوں میں ان کے نمایندہ وفود شریک ہوتے ہیں۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھی و ہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایرانی بندرگا ہ چاہ بہار ، افغانستان کے لیے ایک متبادل بحری راستے کا ذریعہ بن چکی ہے جہاں سے ایک پختہ سڑک بھی ایران نے افغانستان کی سرحد تک تعمیر کی ہے جس کا افغانستان میں زیادہ تر حصہ بھارت نے مکمل کیا ہے۔ آیندہ دور میں بالخصوص امریکی و ناٹو افواج کے انخلا کے بعد ایران کا کردار افغانستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

بھارت:

بھارت اگرچہ افغانستان کا براہ راست پڑوسی ملک نہیں ہے لیکن اس کا افغانستان کے ساتھ طویل تاریخی ،سماجی ،سیاسی و معاشی تعلق رہا ہے۔ اس لیے وہ اس کو اپنی توسیع ہمسایہ (Extended Neighbourhood)قرار دیتا ہے۔ بھارتی قیادت نے مہاتما گاندھی سے لے کر  من موہن سنگھ تک افغانستان کے ساتھ ہر دور میں اپنا تعلق بر قرار رکھا ہے۔ جب افغانستان پر روسی قبضے کے بعد ببرک کارمل کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی، تو بھارت غیر کمیونسٹ ممالک میں واحد ملک تھا جس نے اس کی حکومت کو سفارتی سطح پر قبول کیا تھا۔ صرف طالبان حکومت کا دور ایسا وقت تھا جب وہ افغان امور سے بے دخل ہو گیا تھا۔ اس لیے امریکی مداخلت کے بعد اس نے سب سے پہلے اپنا سفارت خانہ فعال کیا ۔اس وقت وہ کرزئی حکومت کے حامیوں میں ایک اہم طاقت کا کردار ادا کررہا ہے۔ ملک کی تعمیر نو کے لیے اس نے ایک خطیر رقم ۲؍ارب امریکی ڈالر بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی ہے اور ہر شعبۂ زندگی میں اس کی شرکت موجود ہے۔ بڑے منصوبوں میں زارنج سے دلارام تک ۲۱۸کلومیٹر سڑک (جو افغانستان کو ایرانی بندرگاہ سے ملاتی ہے)، پل خمری سے کابل تک ۲۲۰ کے وی کی برقی ٹرانسمیشن لائن ،ہرات میں سلمہ ڈیم (جس پر ایران کو اعتراض ہے )، افغان پارلیمنٹ کی عمارت ، افغان ٹی وی نیٹ ورک اور کئی تعلیمی منصوبے شامل ہیں۔ بھارت مستقبل میں بھی افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔

پاکستان:

پاک افغان تعلقات کا ایک اہم سنگ میل۱۹۶۵ء کی پاک و ہند جنگ ہے۔ اس نازک موقعے پر ظاہر شاہ نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ آپ اپنی مغربی سرحدوں سے بے فکر ہو جائیں۔ اسی طرح ۱۹۷۱ء کی جنگ میں بھی افغان حکومت نے پاکستان کی درپر دہ حمایت کی۔ سردار محمد دائود خان جب بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے بھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے اور غالباً یہی ان پر روسی عتاب کی ایک وجہ بنی۔ نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے ادوار میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا اور بالآخر ۱۹۷۹ء میں روسی جارحیت کے بعد سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ لیکن یہی وقت تھا جب عوامی سطح پر ایک بڑے پیمانے پرتعلق قائم ہوا۔ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انخلا کے موقع پر پاکستان نے لاکھوںافغان مہاجرین کے لیے اپنا دامن  کھول کر انصارِ مدینہ کا کردار ادا کیا۔

پاکستان نے لُٹے پٹے افغان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کیں اور  دل کھول کر ان کی میزبانی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام مجاہدین گروپوں کی بھی مدد کی اور آزاد دنیا نے افغانستان پر روسی تسلط اور تباہی و بربادی کی جو مذمت کی پاکستان اس میں پیش پیش رہا۔ پاکستان کا یہ تاریخی کردار ایک لازوال داستان ہے اور ہر افغان شہری جو اس خوف ناک صورت حال سے دوچار ہوا تھا اس کو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہے۔ ۱۹۸۸ئمیں جینوا معاہدے میں پاکستان کا اہم کردار رہا اور نجیب حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین کی حکومت کے قیام میں بھی پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پھر جب ۱۹۹۶ئمیں افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی تو پاکستان اُن تین مسلم ممالک میں شامل تھا جس نے اس کو رسمی طور پر تسلیم کیا اور اس کی بھر پور حمایت کی ۔

 ۲۰۰۱ء کے آخر میں جب امریکا کی قیادت میں ناٹو افواج نے اسامہ بن لادن کے تعاقب میں افغانستان پر دھاوا بولا تو پاکستانی عسکری قیادت نے امریکی وزیر دفاع کولن پاول کی دھمکی پر یوٹرن لیتے ہوئے طالبان کے خلاف ان کا ساتھ دیا۔ اس طرح افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں ایک اور افسوسناک واقعہ ہوا جب پاکستانی حکومت نے افغانستان کے اسلام آباد میں سفیر مُلّا عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے کیا۔ بون کانفرنس کے موقعے پر پاکستان نے افغانستان میں کرزئی حکومت کو تسلیم کیا۔ بعد میں پاکستان اور افغانستان کا ایک مشترکہ قومی جرگہ بھی صلح و امن کے لیے قائم کیا گیا ۔۲۰۱۰ء میں نیا پاک افغان تجارتی معاہدہ بھی طے پایا جس میں افغان تاجروں کو درآمد ات کے لیے کافی سہولتیں دی گئیں۔

پاک افغان تعلقات نئی جہتیں:

افغانستان اور پاکستان کے درمیان ۲۲۵۰کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ کئی پختون اور بلوچ قبائل دونوں طرف آباد ہیں۔ دینی ،مذہبی ،سماجی و تہذیبی رشتے ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ افغانستان کے لیے بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح پاکستان کے لیے۔ نئی گوادر بند ر گاہ افغانستان کو مزید قریب لا سکتی ہے۔ طور خم اور چمن بارڈر دنیا کی مصروف ترین بین الاقوامی گزر گاہیں ہیں جو دونوں ممالک کے شہریوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ ہزاروں افراد دونوں طرف سے بغیر ویزے کے روزانہ آتے جاتے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے اور ۳۳۰ملین ڈالر سے زائد رقم ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی باہم تجارت کا حجم سالانہ ۳ہزار ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ غیررسمی تجارتی تبادلہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان اس وقت بھی لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے اور تما م تر مشکلات اور مسائل کے باوجود ان کے قیام میں مسلسل توسیع کر رہا ہے۔ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ روزانہ ۱۲۰۰ملٹی پل وزٹ ویزے بلامعاوضہ جاری کرتا ہے اور روزانہ ۵۰ہزار افغانی بغیر ویزے کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان کے طبی ادارے افغانوں کو علاج معالجہ فراہم کرنے میں سرفہرست ہیں۔ گذشتہ چند سال میں ۳۰ہزار سے زائد افغان طالب علموں نے پاکستان سے گریجویشن کی ہے۔ پاکستان ۲ہزار سے زائد تعلیمی وظائف افغان طلبہ کو دیتا ہے۔

اسلام آبادی کی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی خاص طور پر افغان طلبہ کی ایک پسندیدہ جامعہ ہے جہاں و ہ سیکڑوں کی تعداد میں زیر تعلیم ہیں۔ اس وقت بھی افغان حکومت میں کئی کلیدی عہدوں پر متمکن شخصیات اسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ افغانستان میں پاکستانی حکومت کے اشتراک سے جو تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں ان میں رحمان بابا ہائی سکول کابل ،علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس کابل ،سرسیّد فیکلٹی جلال آباد اور لیاقت علی خان انجینیرنگ فیکلٹی بلخ شامل ہیں۔

مستقبل میں پاک افغان تعلقات کا ایک درخشان دور ممکن ہے۔ TAPIگیس پائپ لائن کے ساتھ برقی لائن بھی آسکتی ہے۔ دریاے کابل کے پانی کے استعمال کے لیے ایک آبی معاہدہ بھی زیر غور ہے ۔۲۰لاکھ افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی ریلوے لائن جو انگریزوں کے دور میں طور خم تک پہنچ چکی تھی اور اب تک وہاں بچھی ہوئی ہے اگر جلال آباد تک بن جائے تو افغانستان کی معاشی ترقی کو زبردست مہمیز مل سکتی ہے۔ ان تمام کاموں کے لیے افغانستان میں ایک مستحکم جمہوری اسلامی حکومت کا قیام ازبس ضروری ہے جو تمام افغان اقوام کے لیے قابل قبول ہو اور ملک میں امن اور قانون کی بالادستی قائم کر سکے۔

پاکستان کے ساتھ افغانستان کا دیرینہ تنازعہ ڈیورنڈ لائن کو مسلمہ بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنا بھی مستقبل میں پاک افغان تعلقات کو مستحکم کرنے میں ایک اہم نکتہ ہے۔ افغانستان سے پاکستان کے راستے منشیات کا فروغ بھی بہت خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔

افغانستان میں بھارت کا کردار بذات خود کوئی بری چیز نہیں لیکن اس کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ دونوں ممالک کا وسطی ایشیائی ممالک سے تعلق اور وہاںکی تجارتی منڈیوں تک رسائی کی بہت اہمیت ہے ۔

۲۰۱۴ء افغانستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ صدارتی انتخابات ،پارلیمانی انتخابات، ناٹو افواج کا انخلا جیسے اہم واقعات اس سال وقو ع پذیر ہوں گے ۔ صدارتی انتخابات میں اہم ترین نکتہ افغانستان میں صلح و امن کے لیے مذاکرات ہیں۔ ہر صدارتی امیدوار کی خواہش ہے کہ وہ متحارب گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرے اور اس کی کامیابی کے لیے وہ ہر تدبیر اختیار کرنے کو تیار ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ایسا ہو اور افغان گروہ آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کریں اور ملک میں امن قائم ہو۔

 پاکستان کا افغانستان میں بہت اہم کردار ہے۔ بالعموم افغان دانشور اور عوامی راے عامہ پاکستان سے شاکی ہیں اور افغانستان میں ہر بُرے واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھیراتے ہیں۔ اس رویے پر حیرت ہوتی ہے اور افسوس بھی۔ لیکن پاکستانی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کا رویہ کئی طرح سے ناقابل فہم اور مشکوک رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان افغانستان میں ایک آزاد اور مستحکم جمہوری حکومت کے قیام میں مدد دے ۔وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے گریز کرے۔ کسی مخصوص گروپ یا قومیت کی حمایت نہ کرے بلکہ بحیثیت مجموعی افغان ملت کی پشتیبانی کرے۔ افغان قوم کے مفاد میں جو چیز بہتر ہے وہی ہمارے لیے بھی بہتر ہے۔ ہماری منفعت اور نقصان ایک ہے۔ ہمیں اس کی اقتصادی اور معاشی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہے۔ بین الاقوامی تجارت ، صنعت و حرفت، برآمدات و درآمدات ، بنکاری غرضیکہ ہرمیدان میں ہم ان کی حمایت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں بھی ہم ضامن کا کردار ادا کر یں۔ افغانستان میں ایک مضبوط جمہوری اسلامی حکومت کا قیام ہر پاکستانی کی آرزو و تمنا ہے لیکن اصل کام انھوں نے خود کرنا ہے۔ اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں، اپنی قیادت خود منتخب کرنی ہے اور اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرنا ہے۔ قومیں مشکلات و مصائب سے گزر کر کندن بنتی ہیں اور افغان ملت میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو ایک عظیم قوم کا خاصہ ہوتی ہیں۔

(یہ اس مقالے کا ایک حصہ ہے جو مقالہ نگار نے ۱۳فروری ۲۰۱۴ء کو کابل میں افغانستان کے مرکزمطالعات استراتیژیک و منطقوی کے تحت ایک بین الاقوامی سیمی نار میں پڑھا۔)