اپریل ۲۰۱۴

فہرست مضامین

بھلی بات بولو ورنہ خاموش رہو

| اپریل ۲۰۱۴ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

سوال:

حدیث نبویؐ ہے کہ بھلی بات کہو یا خاموش رہو، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟

جواب:

حضوؐر نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْراً اَوْ لِیَصْمُتْ (بخاری، مسلم)’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، تو اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے‘‘۔ ایک دوسری حدیث ہے: رَحِمَ اللّٰہُ اِمْرَئً ا  قَالَ خَیْرًا فَغَنِمَ اَوْ سَکَتَ فَسَلِمَ، ’’اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حق دار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا‘‘۔

بلاشبہہ زیادہ بولنا اور بے وجہ بولتے رہنا انسان کے لیے باعث ِ تباہی اور گناہوں کا سبب ہے۔ امام غزالیؒ نے ان گناہوں کی تعداد ۲۰ بتائی ہے، جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالغنی نابلسیؒ نے اس تعداد کو ۷۲تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے اکثر گناہِ کبیرہ کے  قبیل سے ہیں، مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا اور دوسروں کا مذاق اُڑانا وغیرہ وغیرہ۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے۔ خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔

جو لوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطائوں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزاء کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بندئہ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہربات نوٹ کر رہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌo(قٓ۵۰:۱۸)، ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو‘‘۔(علامہ یوسف القرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ص ۵۹-۶۰)

سوال: دوسرے شخص کی طرف سے عمرہ کرنا

جو لوگ حج کے لیے جاتے ہیں وہ وہاں اپنے اعزہ کی طرف سے عمرے کرتے ہیں۔ کیا صرف انتقال کرجانے والے اعزہ کی طرف سے عمرہ کیا جاسکتا ہے یا زندوں کی طرف سے بھی عمرہ کرنے کی اجازت ہے؟

جواب:

  فقہاے کرام نے فی الجملہ دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے، اس لیے کہ عمرہ حج کی طرح بدنی عبادت ہونے کے ساتھ مالی عبادت بھی ہے اور شریعت میں مالی عبادات کی دوسرے کی جانب سے انجام دہی کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اس کی تفصیلات میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔

حنفیہ کہتے ہیں کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے عمرہ کرنا اس وقت صحیح ہوگا جب وہ ایسا کرنے کو کہے۔ مالکیہ کے نزدیک دوسرے کی طرف سے عمرہ مکروہ ہے، لیکن اگر کرلیا جائے تو ادا ہوجائے گا۔ شوافع کہتے ہیں کہ دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنا اس وقت صحیح ہے جب اُس شخص پر عمرہ واجب رہا ہو اور اس کی ادائی سے قبل اس کا انتقال ہوگیا ہو، یا نفلی عمرہ، وہ خود نہ کرسکتا ہو۔  حنابلہ کہتے ہیں کہ کسی میت کی طرف سے عمرہ کیا جاسکتا ہے، البتہ کسی زندہ شخص کی طرف سے عمرہ اس وقت صحیح ہوگا جب اس نے ایسا کرنے کو کہا ہو۔(ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت، ۳۰/۲۲۸-۲۳۹)۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

سوال: غیرمسلموں کی زکوٰۃ یا چرم قربانی کی رقوم سے امداد

جماعت اسلامی /الخدمت کے تحت ہم مختلف مواقع پر غیرمسلموں (عیسائی، ہندو برادری) کے ساتھ تعاون کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر کرسمس کے موقع پر یہ کام کیا جاتا ہے۔ راشن وغیرہ کی تقسیم کی جاتی ہے۔ عموماً ہمارے پاس راشن کی مد میں زکوٰۃ/ چرم قربانی کے ذریعے رقم آتی ہے۔ آپ سے درج ذیل اُمور میں رہنمائی درکار ہے:

۱- کیا زکوٰۃ سے غیرمسلموں کے ساتھ راشن کی صورت میںتعاون کیا جاسکتا ہے؟

۲- کیا چرم قربانی کی آمدنی سے راشن کی صورت میں تعاون کیا جاسکتا ہے؟

۳- کیا زکوٰۃ/چرم قربانی کی آمدنی سے کسی بھی صورت میں غیرمسلموں کے ساتھ تعاون نہیں کیا جاسکتا؟

۴- کیا تالیف ِ قلب میں مسلمانوں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کیا جاسکتا ہے؟

۵- تالیف ِ قلب کے سلسلے میں حضرت عمرؓ کے فرمان کے بعد اب کیا صورت ہے؟

جواب :

  غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ صدقات، عطیات اور چرم ہاے قربانی کی رقوم سے تعاون کیا جاسکتا ہے لیکن زکوٰۃ کی رقم سے ان کی مالی اعانت نہیں کی جاسکتی۔ تالیف ِقلب نو مسلموں کے ساتھ ہوتا تھا۔ اب بھی ان کے ساتھ تعاون کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایسے نومسلموں کے ساتھ بیت المال سے مالی تعاون ختم کیا تھا جو مال دار ہوتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی حکومت ان کے ساتھ مالی تعاون اس لیے کرتی تھی کہ وہ حکومت کے ساتھ محبت کریں اور اپنے سابقہ دین والوں کی مدد کے بجاے اسلامی حکومت کی مدد کریں۔ لیکن جب اسلامی حکومت مضبوط ہوگئی اور ایسے نومسلموں کے تعاون کی ضرورت نہ رہی تو تالیف ِ قلب کی یہ مَد ختم کردی گئی۔ یہ تالیف ِ قلب زکوٰۃ کی رقوم سے نہ ہوتی تھیبلکہ خمس جو  مالِ غنیمت کا ایک حصہ ہے،سے ہوتی تھی۔ اب بھی اگر ایسا دور آجائے کہ اسلامی حکومت کو نومسلموں کی تالیف ِ قلب کی ضرورت ہو تو اسے بحال کیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ نے عارضی طور پر عدم ضرورت کی وجہ سے اسے ختم کیا تھا۔ زکوٰۃ سے نومسلم فقرا کی امداد ہروقت کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح مختلف مواقع پر غیرمسلم فقرا کو ہدیے اور تحفے چرم ہاے قربانی کی رقوم سے دیے جاسکتے ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ اس کے لیے الگ سے مخصوص فنڈ ہو جو عطیات سے جمع کیا جائے۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

سوال: ذاتی ہدیے یا تحریکی اثاثے کا تعین؟

ہمارے شہر میں جماعت اسلامی کے ایک ذمہ دار کے بقول ان کے ایک عزیز دوست نے جماعت اسلامی کی جملہ منصبی ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے انھیں گاڑی تحفتاً دی ہے۔ تاہم، ہمارے بعض ساتھیوں کی راے ہے کہ مذکورہ ذمہ دارفرد کو یہ گاڑی جماعت اسلامی کے نام منتقل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں کہ گاڑی موجودہ حالت میں وہ استعمال کریں یا جماعت اسے اپنے اثاثہ جات میں شامل کرے؟

جواب:

سب سے پہلے تو اُن صاحب سے معلوم کیا جائے کہ جنھوں نے وہ سواری، جماعت اسلامی کی جملہ ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے ہدیہ کی ہے۔ آیا انھوں نے ذمہ دار کو ذاتی حیثیت میں انھی کی ذات کے لیے سواری ہدیہ کی ہے یا جماعت میں صاحب ِ نظم ہونے کی حیثیت میں جماعت کے لیے ہدیہ کی ہے، تاکہ مذکورہ ذمہ دار فرد اس کے ذریعے تحریکی کام آسانی سے کرسکیں۔

اگر ہدیہ کرنے والے دوست رحلت کر گئے ہوں تو پھر جماعت اسلامی کے ذمہ دار خود فیصلہ کریں کہ ان کے دوست نے انھیں کس حیثیت میں ہدیہ کی ہے۔اس حوالے سے یہ بہرحال پیش نظر رکھنا ہوگا کہ وہ صاحب ِ خیر، مذکورہ فرد کو جماعت اسلامی کی منصبی ذمہ داری ملنے سے پہلے بھی اگر وقتاً فوقتاً کوئی چیز بطور ہدیہ دیتے رہتے تھے تو پھر اس صورت میں وہ گاڑی بھی ہدیہ شمار ہوگی۔ نیز جماعت کی منصبی ذمہ داری ملنے کے بعد اس تصریح کے ساتھ ہدیہ کی ہو کہ یہ اسی طرح کا ہدیہ ہے جس طرح کا ہدیہ اس سے پہلے ان کی ذات کے لیے وہ صاحب کرتے تھے۔

اگر دوست کی طرف سے اس سے پہلے ذاتی حیثیت میں ہدیہ دینے کا معمول نہ تھا اور تصریح بھی نہیں ہے کہ یہ ہدیہ ذاتی حیثیت میں ان کی ذات کے لیے بطور مِلک ہدیہ کیا گیا ہے،   تو پھر یہ جماعت اسلامی ہی کے لیے ہدیہ شمار ہوگا اور اسے جماعت کا اثاثہ شمار کر کے جماعت کے اثاثوں میں شامل کیا جائے گا۔درمختار میں ہے : ویجوز للامام والمفتی والواعظ قبول الھدیۃ لانہ یھدی الی العالم لعلمہ (ج۸، ص ۵۸)’’ مسلمانوں کے امام، پیشوا، مفتی اور واعظ کے لیے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے، کیونکہ اسے اس کے علم و فضل کی وجہ سے ہدیہ کیا جاتا ہے‘‘۔ گویا جب اسے اس تصریح کے ساتھ دیا جائے گا کہ یہ ہدیہ اس کی ذات کے لیے ہے تو پھر وہ اپنے لیے لے سکتا ہے۔(مولانا عبدالمالک)