اپریل ۲۰۱۴

فہرست مضامین

ڈاکٹر سیّد عبدالباری

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | اپریل ۲۰۱۴ | یاد رفتگان

وابستگانِ اُردو زبان و ادب خصوصاً ادب اسلامی سے دل چسپی رکھنے والوں اور تحریکِ اسلامی کے حلقوں کے لیے ڈاکٹر سیّد عبدالباری (شبنم سبحانی) کی رحلت (یکم ستمبر ۲۰۱۳ء) ایک بڑا الم ناک سانحہ ہے۔ وہ ایک بلند پایہ ادیب، نقاد اور شاعر تھے۔ بنیادی طور پر وہ ایک معلم تھے اور اس حیثیت سے انھوں نے ہزاروں تلامذہ کی تعلیم و تربیت کی۔ وہ تحریک ادب اسلامی ہند کے قافلہ سالاروں میں سے تھے۔ مسلسل ۲۴ برس وہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر اور تقریباً ۳۷ برس سیکرٹری جنرل رہے۔

سیّد عبدالباری ۷ ستمبر ۱۹۳۷ء کو یو پی کے ضلع فیض آباد کے ایک قصبے ٹانڈا میں پیدا ہوئے۔ گورکھ پور یونی ورسٹی سے بی اے کیا۔ پھر وہیں سے ایم اے اُردو اور ایم اے انگریزی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ایم اے اُردو میں انھوں نے لکھنؤ یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بعد ازاں اسی لکھنؤ یونی ورسٹی سے انھیں اُردو میں پی ایچ ڈی کی سند عطا ہوئی۔ اس سے پہلے چند سال تک وہ رام پور کی ثانوی درس گاہ اور مدرسۃ الاصلاح سراے میر، اعظم گڑھ سے عربی زبان و ادب کی تحصیل کرتے رہے تھے۔ مدرسۃ الاصلاح میں انھیں عروج احمد قادری، جلیل احسن ندوی اور صدر الدین اصلاحی جیسے علما سے کسبِ فیض کا موقع ملا اور رام پور میں انھیں مائل خیرآبادی، مولانا عبدالحی، افضل حسین اور مولانا حامد علی کی راہ نمائی حاصل رہی۔

ابتدا میں وہ انگریزی کے لیکچرر رہے۔ بعدازاں اودھ یونی ورسٹی فیض آباد سے ملحق گنپت سہاے پوسٹ گریجویٹ کالج سلطان پور میں طویل عرصے تک اُردو کے استاد رہے اور یہیں سے بطور صدر شعبہ اُردو وظیفہ یاب ہوئے۔

درس و تدریس کے ساتھ شاعری اور تنقید ادب کے شعبوں میں بھی ان کا قلم برابر رواں رہا۔ ان کا قلمی نام ’شبنم سبحانی‘ تھا۔ ۲۰۰۹ء میں ۵۵ سال کی منتخب نظموں کا مجموعہ فکر انگیز  شائع کیا۔ ان نظموں میں فن پر فکر کو فوقیت دی گئی ہے۔ لیکن بیش تر منظومات سے ان کی شاعری کی تاثیر، اس کی فنی دل کشی اور فکر انگیزی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان کا دوسرا شعری مجموعہ طرب خیز  غزلوں پر مشتمل ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کی شاعری ایمان و یقین اور امید و روشنی کی شاعری ہے اور قاری کو حوصلہ، عزم اور ولولہ عطا کرتی ہے۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں، نہایت کامیاب مشقِ سخن کی ہے۔

بعدازاں شاعری سے قدرے بے رخی برتتے ہوئے وہ نثر نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ’شبنم سبحانی‘ نے قلم رکھ دیا اور ’سیّد عبدالباری‘ نے قلم سنبھال لیا۔ بقول ڈاکٹر نیاز سلطان پوری: ’’شاعر پر نثر نگار غالب آگیا اور اپنے اصل نام سے انھوں نے کتابیں لکھنی شروع کیں‘‘۔

بیسویں صدی کی ۱۴ممتاز شخصیات سے ملاقاتوں اور گفتگوئوں کی رُوداد انھوں نے ملاقاتیں کے عنوان سے ۲۰۰۳ء میں شائع کی۔ یہ انٹرویو (مصاحبے) دوام اور دوامِ نو  کے زمانۂ ادارت میں، تمام حضرات سے ان کے مستقر پر حاضر ہوکرلیے گئے۔ ان میں قاری محمد طیب، عبدالماجد دریا بادی، محمد مسلم، بدر الدین طیب جی، مولانا صدر الدین اصلاحی، ڈاکٹر سیّد محمود،   مولانا ابو اللیث اصلاحی اور سیّد ابوالحسن علی ندوی شامل ہیں۔ یہ مصاحبے، روایتی انداز کے سوال و جواب تک محدود نہیں۔ وہ بھرپور انداز سے شخصیت کا تعارف کراتے ہیں۔ (ان تعارفات میں وہ ایک کامیاب مرقع نگار اور خاکہ نویس کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں) اور ان شخصیات کی قیام گاہوں تک پہنچنے کی رودادِ سفر بیان کرتے ہیں۔ یوں ان مصاحبوں کو پڑھتے ہوئے سفرنامے کا لطف بھی محسوس ہوتا ہے۔ ۱۹۴۷ء کے بعد بھارت کی سیاست کے نشیب و فراز اور بطور اقلیت مسلمانوں کی زندگی اور ان کی جدوجہد کے حوالے سے ملاقاتیں نہایت اہم ہے، بلکہ اس کی حیثیت حوالے کی ایک کتاب کی ہے۔

۲۰۰۹ء ہی میں سیّد عبدالباری صاحب نے انوکھے لوگ، نرالی باتیں شائع کی جو بیسویں صدی کی ۲۰ ’نرالی شخصیتوں‘ کے خاکوں اور ان کے افکار و خیالات پر مشتمل ۲۰ مضامین کا مجموعہ ہے۔’انوکھے لوگوں‘ میں مولانا حسین احمد مدنی، سیّد مودودی، حکیم اجمل خان، سیّد محمود، ابوالکلام، حسرت موہانی، آیت اللہ خمینی، صدر الدین اصلاحی، مولانا دریا بادی اور ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خاکے (یا مضامین) تعارفی و سوانحی ہیں اور تنقیدی و تبصراتی بھی۔ زیادہ تر انھوں نے شخصیات کے محاسن بیان کیے ہیں اور معائب سے صرفِ نظر کیا ہے۔

لکھنؤ کا شعر و ادب ان کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھوں نے گورکھپور یونی ورسٹی سے    پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اسی تسلسل میں انھوں نے لکھنؤ کے ادب کا معاشرتی و ثقافتی پس منظر (۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء) کے عنوان سے ایک اور کتاب شائع کی جسے وہ خود  اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کا ’دوسرا حصہ‘ قرار دیتے ہیں۔

تنقیدی مقالات کے پانچ مجموعے (ادب اور وابستگی، کاوش نظر، نقد نوعیار، آداب شناخت، افکار تازہ) ان سے یادگار ہیں۔ آداب شناخت پر اظہار خیال کرتے ہوئے، اُردو تحقیق و تنقید کی نامور اور بزرگ شخصیت ڈاکٹر محمودالٰہی نے لکھا: ’’ان کی تحریر پختہ اور فکر نہایت مستحکم ہے۔ وہ حق و ناحق، خیر و شر کا ایک متعین پیمانہ رکھتے ہیں۔ اسلامیات کے گہرے مطالعے کا اثر ان کی تحریروں پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے قلم کو جاہ و منصب کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اخلاص کے ساتھ ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے ہیں‘‘۔

سیّد عبدالباری کی فکر و سوچ اور قلمی کاوشوں کا دائرہ شعر و ادب تک محدود نہ تھا۔ وہ اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود اور مسلمانوں کے مسائل پر بھی سوچتے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے سیکڑوں مضامین اور کالم لکھے۔ مزید برآں چند ایسی کتابیں بھی شائع کیں جن کا تعلق مسلم معاشرے میں اخلاقی و دینی اقدار کی ترویج اور افراد امت کی تربیت ذہنی و دینی سے ہے، مثلاً: اسماے حسنٰی اور کردار سازی‘ جمہوریت، انسان دوستی اور اسلام‘ اسلام میں آدابِ اختلاف وغیرہ۔

ڈاکٹر سیّد عبدالباری فکری اعتبار سے ادب اسلامی کے علم بردار تھے۔ جیسا کہ ابتدا میں  ذکر آچکا ہے، انھوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر اور سیکرٹری کی حیثیت سے چھے دہائیوں تک خدمات انجام دیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر شکیب ارسلان کے بقول: ’وہ ایک پھرتیلے اور active شخص تھے‘۔ ادب اسلامی کے وابستگان کو متحرک کرنے کے لیے وہ خطوط نگاری اور مضمون نویسی کے ذریعے برابر کوششیں کرتے رہے۔ حیاتِ مستعار کے آخری عشرے میں انھوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند کے ترجمان ماہنامہ پیش رفت  دہلی کی ادارت کا فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ آخری زمانے میں وہ آل انڈیا ملّی کونسل کے ماہنامے ملّی اتحاد سے بھی منسلک رہے اور اپنے رشحاتِ فکر سے قارئین کی ذہنی آبیاری اور ان کی راہ نمائی کرتے رہے۔

سیّد عبدالباری سے راقم کے قلمی رابطے کا آغاز ۶۰ کے عشرے میں ہوا تھا۔ ان کی وفات سے چندماہ پہلے تک خط کتابت رہی اور کبھی ٹیلی فون پر تبادلۂ خیال بھی ہوتا رہا۔ ہمارے درمیان تصانیف کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ___ (اس تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں)۔

اُردو شعر و ادب کی دنیا بڑی حد تک پاکستان اور بھارت کے دو الگ الگ ایسے خطوں میں منقسم ہے جن کے بیش تر شاعر، ادیب اور نقاد افسوس ناک حد تک ایک دوسرے سے ناآشنا ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کے ادبی حلقوں میں سیّد عبدالباری (شبنم سبحانی) کا نام کسی قدر اجنبی محسوس ہو تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ خود بھارت کے نقادوں اور تاریخ نویسوں نے شبنم سبحانی کے تخلیقی ادب اور ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں کو نظر انداز کیا ہے۔ اس پر بھی تعجب نہیں ہے کیوں کہ مرحوم شبنم سبحانی ادب میں صالح فکر اور اخلاقی اقدار کے علم بردار تھے۔

اُردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر اختر الواسع نے بہت اچھی بات کہی ہے:   ’جو آیاہے، اُسے جانا ہی ہے لیکن ایسے کثیر الجہات لوگ جو معلم بھی ہوں، ادیب بھی، صحافی و نقاد  بھی ہوں اور کسی حد تک سیاسی میدان میں سرگرم عمل بھی، اُن کا اُٹھ جانا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔  ڈاکٹر عبدالباری (شبنم سبحانی) کی وفات ایک ایسا ہی حادثۂ فاجعہ ہے۔ بس یہی دعا ہے کہ   ؎

آسماں ’اس کی‘ لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے