اپریل ۲۰۱۴

فہرست مضامین

الاخوان المسلمون: قوت کا اصل راز

عبد الغفار عزیز | اپریل ۲۰۱۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

مخالفین طعنہ دیتے ہیں کہ: ’’انھوں نے دعوت چھوڑ کر سیاست اپنا لی ہے‘‘۔ مغرب نے بھی اسلامی تحریکوں کے لیے ’سیاسی اسلام‘ کی اصطلاح گھڑرکھی ہے۔ اس کے بقول یہ اسلام کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ لیکن اسلامی تحریک کے کارکن بھی عجیب ہیں، سنگین سیاسی بحران عروج پر ہے، خونیں فوجی انقلاب دن رات قتلِ عام کر رہا ہے، ۲۱ہزار سے زائد کارکنان جیلوں میں ہیں، نام نہاد عدالتیں آئے روز طویل قید کی سزائیں سنارہی ہیں لیکن مصر کی طالبات نے نئی مہم شروع کردی ہے۔ مہم کا عنوان ہے: صلاۃ الفجر بدایۃ النصر،’’نمازِ فجر آغازِ نصر‘‘۔

طالبات کے بقول: فرعون سیسی کے خلاف ہماری ساری تحریک اللہ کی خاطر ہے، اللہ کو منائے بغیر اس کی نصرت شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ طالبات ضد الانقلاب، نامی طالبات تحریک نے اپنی نئی مہم کے لیے مختلف اسٹکر، پٹیاں، پوسٹر اور پمفلٹ تیار کیے ہیں اور وہ فرداً فرداً تمام طالبات سے وعدہ لے رہی ہیں کہ نمازِ فجر کا خصوصی اہتمام کریں گی، جس کا مطلب ہے کہ باقی نمازیں بدرجۂ اولیٰ ادا ہوں گی۔ اس مہم کی ایک ذمہ دار تسبیح السید کے بقول ہماری مہم توقع سے بھی زیادہ کامیاب ہورہی ہے اور طالبات کے ذریعے ہمارا پیغام ان کے اہلِ خانہ تک بھی پہنچ رہا ہے۔

مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کو ایک سالہ اقتدار کے بعد ہی رخصت کرتے ہوئے، قابض خونیں جرنیلوں نے پورا ملک خاک و خون میں نہلا دیا ہے۔ مصری عوام کی اکثریت اس فوجی انقلاب کو مسترد کررہی ہے۔ گذشتہ تقریباً نوماہ میں کوئی ایک روز بھی ایسا نہیں گزرا جس میں انقلاب مخالف مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ جنرل سیسی نے اپنے پیش رو مصری حکمرانوں کی طرح نہتے شہریوں کو کچلنے کے لیے ہرہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا ہے۔ لیکن ہرظلم اور ہرجبر عوامی تحریک کو مزید توانا کرنے کا ذریعہ ہی بن رہا ہے۔ سب تجزیہ نگار حیرت زدہ ہیں کہ ۸ہزار کے قریب شہدا پیش کرکے بھی اخوان کیوں کر میدان میں کھڑے ہیں۔ صلاۃ الفجر بدایۃ النصر مہم اس حیرت و استفسار کا ایک واضح جواب ہے۔ یہی مہم نہیں، اخوان کی پوری تاریخ اور پوری تحریک ہی  اس تعلق باللہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امام حسن البنا کی یہ ہدایت کہ ہمارا ایک روز بھی اللہ کی کتاب سے ملاقات کیے بغیر نہ گزرے، ہر کارکن نے مضبوطی سے پلے باندھ رکھی ہے۔ اخوان کے کارکنان نے یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ قرآن کریم کو دل کی نگاہوں سے پڑھتے اور عمل میں ڈھال دیتے ہیں۔ پھر یہی قرآن ہر ظلم کے مقابلے میں ان کی ڈھال بن جاتا اور انھیں ثابت قدم رکھتا ہے۔

گذشتہ تین سالہ عرصے میں اخوان کے بیانات، مضامین، مظاہروں اور اجتماعات میں ہرطرف یہی قرآنی رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ جامعہ ازہر کے طلبہ کا یہ بیان ملاحظہ فرمایئے۔ ۲۲مارچ کو جاری ہونے والے بیان کا عنوان ہے: سَنُحَاجِجُکُمْ بکل ما اقترفتموہ فی دنیاکم واخراکم ’’ہم دنیا و آخرت میں تم سے تمھارے جرائم کا حساب لیں گے‘‘۔ یہ بیان جامعہ ازہر کے ۱۶طلبہ کو تین تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ ان طلبہ پر الزام تھا کہ انھوں نے جامعہ میں مظاہرہ کیا۔ طلبہ اپنا مذکورہ بالا بیان دے کر گھر نہیں بیٹھ گئے۔ یہ بیان بھی ایک نئے مظاہرے کے دوران دیا گیا۔ اس دوران جامعہ ازہر طلبہ یونین کے قائم مقام صدر (صدر گرفتار ہے) نے عدلیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ اشعار بھی پڑھے کہ:

اذا جار الامیر وحاجباہ

وقاضی الارض أسرف فی القضاء

فویل ثم ویل ثم ویل

لقاضی الارض من قاضی السماء

(جب حکمران اور اس کے مصاحب ظلم ڈھانے لگیں، اور دنیا کے جج بے انصافی پر اُتر آئیں، تو پھر دنیا کے ججوں کے لیے منصف ِ کائنات کی طرف سے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔)

۲۱ہزار سے زائد جو بے گناہ کارکنان جیلوں میں عذاب و اذیت جھیل رہے ہیں وہ بھی اسی عزم و یقین سے سرشار ہیں۔ ذرا اخوان کے رکن اسمبلی حمدی اسماعیل کو دیکھیے۔ وہ خود بھی گرفتار ہیں اور ان کا بیٹا ایک دوسری جیل میں پابند سلاسل ہے۔ حال ہی میں ان کے دوسرے بیٹے کو حکومتی سرپرستی میں اغوا کرلیاگیا اور رہائی کے لیے ۸۰لاکھ پائونڈ (تقریباً سوا ارب روپے) تاوان کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حمدی اسماعیل نے اسی دوران کسی طرح اپنا تحریری پیغام اہلِ خانہ کو بھجوایا ہے،   لکھتے ہیں: ’’عزیزرفیقۂ حیات! امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ ہمیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آزما رہا ہے۔ وہ ہمیں گناہوں سے پاک کرنا چاہتا ہے اور ہمیں دنیا ہی میں اس وعدے سے نواز رہا ہے کہ آخرت کی منزل بہت خوب ہوگی۔ پروردگار ہم بندوں پر خود ہم سے بھی زیادہ مہربان ہے وگرنہ وہ اپنے انبیاے کرام ؑ کو بھی آزمایشوں میں کیوں مبتلا کرتا۔ ذرا ان آیات کی تلاوت کر کے دیکھو: وَاذْکُرْ عَبْدَنَــآ اَیُّوبَم اِِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ…(صٓ ۳۸:۴۱-۴۹)۔ اب آپ بھی ارادوں کو مضبوط کرلیں اور جدوجہد مزید تیز کردیں تاکہ ہم اپنی آزمایش میں سرخرو ہوسکیں۔ یہ زندگی، اصل زندگی کا صرف ایک منظر ہے۔ اس میں ہمیں اپنی بہترین پونجی آخرت کے لیے پیش کرنا ہے۔ یقینا اللہ ہی کا فیصلہ غالب رہے گا،لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں‘‘۔

یہ کوئی اکلوتا خط یا اکلوتا اظہار نہیں، ہر کارکن اور ہر اسیر اسی جذبے سے سرشار ہے۔ ایک اسیر کے یہ جملے ملاحظہ کیجیے جو وہ اپنے معصوم بیٹے کے نام خط میں لکھ رہے ہیں: ’’جانِ پدر! ذرا سوچو اگر میں اس تحریک میں گرفتار نہ ہوتا اور خدانخواستہ کسی ٹریفک حادثے کا شکار ہوجاتا، یا کوئی بیماری مجھے آن لیتی، تو اس صورت میں بھی صبر ہی کرنا پڑتا۔ یاد رکھو کہ ہمیں بہرصورت اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنا ہے۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں۔ اس کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی آخر ت میں کامیابی کا ذریعہ بنے گا۔ تمھیں اپنے آپ کو ایک ذمہ دار انسان ثابت کرنا ہے۔ قرآن کی تلاوت کبھی نہ چُھوٹے۔ نماز باجماعت ادا ہو، اپنی والدہ کو خوش رکھیں اور اس آزمایش میں ان کے معاون بنیں۔ اصل مردانگی کردار واخلاق کا نام ہے۔ اگر اس کڑے وقت میں بہادری نہ دکھائی تو آخر کب اس کا موقع آئے گا۔ اللہ سے ہردم مدد طلب کرتے رہو اور کبھی کسی کمزوری کو قریب نہ پھٹکنے دو‘‘۔

ظلم و جبر کے مقابلے میں اخوان کی ثابت قدمی پر حیرت کا اظہار کرنے والوں کو ان کی قوت کا یہ اصل راز معلوم ہے، لیکن ہرفرعون کی طرح اقتدار کا نشہ انھیں بھی اس غلط فہمی کا شکار کیے ہوئے ہے کہ ’’سب کو تہِ تیغ کردیں گے۔ میرا اقتدار ہی میری قوت رہے گا‘‘۔ اخوانی کارکنان کا موسوی کردار جب ان کی چالوں کو بودا ثابت کرتا ہے، تو ظلم و تشدد پاگل پن کی آخری حدیں جاچھوتا ہے۔ پہلے تو اخوان کو دہشت گرد اور غیرقانونی قرار دیا تھا، اب فلسطین کی تحریک حماس کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ مصر کے ساتھ ساتھ اہلِ غزہ پر غصہ اُتارنے کی سعی لاحاصل میں تیزی آگئی ہے۔ ماہِ رواں کے دوران بھی غزہ کی حدود سے متصل کئی کلومیٹر کا علاقہ خاک میں ملا دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے عالمی سر پرستوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے پورے سرحدی علاقے کے رہایشی علاقوں کو بارود سے اُڑا کر بلڈوزر چلا دیے گئے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مصری انتظامیہ گذشتہ چند ماہ میں ۱۳۵۰ سے زائد سرنگیں تباہ کرچکی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اہلِ غزہ کی زندگی کی ڈور انھی سرنگوں سے بندھی ہے۔ ساتھ ہی ایک عدالتی فرمان کے ذریعے مصر میں موجود حماس کے تمام ’اثاثہ جات‘ ضبط کرلینے کا اعلان کردیا گیا۔ حماس کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سیسی انتظامیہ اب ذرا ان اثاثہ جات کا اعلان بھی کردے کیوں کہ ہمارے علم کے مطابق وہاں ہمارے کوئی اثاثہ جات ہیں ہی نہیں‘‘۔ گویا کہ مصری فرمان کا اصل ہدف صہیونی ریاست کو خیرسگالی کا پیغام دینا ہی تھا۔

جنرل سیسی کے اقتدار کو استحکام و دوام بخشنے کے لیے ابتدائی ایام ہی سے ایک مہم یہ شروع کردی گئی تھی کہ اب اس مدارالمہام کو منصب ِصدارت بھی سنبھال لینا چاہیے۔ کئی بار تو ایسی فضا بنادی گئی کہ اعلانِ صدارت گویا اب چند روز کی بات ہے، لیکن نامعلوم وجوہات کی بناپر ابھی تک مصری عوام پر یہ احسانِ عظیم نہیں کیا جاسکا۔ مصری اور مغربی تجزیہ نگار اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ ان تجزیوں کا مشترک نکتہ یہی ہے کہ خود حکمران ٹولے میں بھی اس بارے میں گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ صدرمنتخب ہونے کے لیے جنرل سیسی کو بھی وردی اُتارنا پڑے گی۔ ہزاروں بے گناہوں کا خون اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دینے والے کو اپنے دائیں بائیں بیٹھے وردی والوں پر ابھی     یہ بھروسا نہیں کہ وردی اُترتے ہی وہ اس کا کام تمام نہیں کردیں گے۔ رہی سہی کسر ایک ’نامعلوم‘   فون کال کے ذریعے پوری کی جارہی ہے۔سرکار کے ترجمان ایک ٹی وی چینل پر موصولہ یہ کال کسی ’وحید‘ نامی شخص کی ہے۔ مصر کے ایک معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر حلمی القاعود کے مطابق گذشتہ تقریباً چاربرس میں ’وحید‘ کی یہ چوتھی فون کال تھی۔ اس کا نمبر یا ٹھکانا کبھی معلوم نہیں کیا جاسکا۔ پہلی کال حسنی مبارک کے خلاف عوامی جذبات عروج پر پہنچ جانے کے دوران آئی تھی، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ جمال مبارک اس کا وارث نہیں بن سکے گا۔ دوسری کال صدر محمد مرسی کے انتخاب کے بعد تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر مرسی کا اقتدار جلدختم ہوجائے گا۔ تیسری کال جنرل سیسی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد تھی جس میں دعویٰ تھا کہ وہ صدارتی انتخاب نہیں لڑیں گے۔ چوتھی کال چند ہفتے قبل آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کا اصل اقتدار اس وقت منظرعام پر موجود فوجی قیادت کے ہاتھ میں نہیں، خفیہ قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ جنرل سیسی اس قیادت کا مجرد ایک آلۂ کار ہے۔ ملک کا آیندہ صدر وہ نہیں بلکہ اسی خفیہ فوجی قیادت میں سے کوئی شخص ہوگا جس کا نام ابھی کسی کے سامنے نہیں ہے۔ اسی چوتھی کال میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر محمد مرسی کو جیل سے رہا کردیا جائے گا، لیکن پھر اغوا کرکے زندگی سے محروم کردیا جائے گا۔ ڈاکٹر حلمی قاعودکے مطابق: ’وحید‘ کوئی نام نہاد نجومی یا علمِ غیب رکھنے والا کردار نہیں بلکہ اسی ’اصل خفیہ قیادت‘ کا کوئی ’خفیہ ترجمان‘ ہے جو ان پیغامات کے ذریعے ایک تیر سے کئی کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔

اسی عرصے میں فوج کے سابق سربراہ فیلڈمارشل طنطاوی جو ۱۹۹۱ء سے ۲۰۱۲ء تک کے طویل ۲۱برس تک فوجی سربراہ اور وزیردفاع رہے، بھی ذرائع ابلاغ میں نمودار ہوئے اور انھوں نے ملک کی اکلوتی جمہوری منتخب حکومت سے نجات پانے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔جنرل سیسی نے بھی اپنے اس پیش رو کی خوشامد نُما تعریفوں کے پُل باندھے ہیں۔ ڈاکٹر حلمی کے مطابق جنرل طنطاوی نے اپنے انٹرویو میں تقریباً ۲۰مرتبہ ایک لفظ استعمال کیا اور وہ تھا: ’مُخَطَّطْ: منصوبہ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ۳۰جون ۲۰۱۳ء کو عوام بھی یہ منصوبہ سمجھ گئے اور صدرمرسی کے خلاف نکل آئے۔ جنرل طنطاوی نے جب بار بار ’منصوبے‘ کا ذکر اور اخوان سے نجات پر خوشی ظاہر کی تو انٹرویو کرنے والے نے پوچھ ہی لیا کہ ’’پھر آخر آپ لوگوں نے اخوان کو اقتدار دیا ہی کیوں؟‘‘ جواب میں انھوں نے    مصری لہجے میں بے اختیار تین بار کہا: ’’مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ… مَاسَلَّمْتُھَاشْ، ’’میں نے انھیں اقتدار نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا… میں نے نہیں سونپا‘‘۔ ہم نے عوام کے اصرارپر انتخابات کروائے اور عوام نے اخوان کو ملک پر قابض ہونے کا موقع دے دیا‘‘۔

ان تمام حقائق سے قرآن کریم کے الفاظ کے مصداق: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۸) ’’ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے‘‘،عوام کا یہ یقین مزید مستحکم ہوگیا ہے کہ جابر فرعونی نظام سے نجات کے لیے قربانیوں کا یہی سفر ناگزیر ہے۔ اخوان کے کارکنان سیّدقطب شہیدؒ کے یہ الفاظ ایک دوسرے کو سنا رہے ہیں کہ: ’’اللہ کی نصرت آنے میں دیر لگ سکتی ہے، کیونکہ قدرت یہ چاہتی ہے کہ باطل کا باطل ہونا دنیا کے سامنے کھل کر آجائے۔ اگر باطل پوری طرح کھوٹا ثابت ہوئے بغیر مغلوب ہوجائے، تو ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ اس سے پھر دھوکا کھاجائیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ باطل کو پوری مہلت ملے ،یہاں تک اس کے بارے میں کسی کو کوئی شبہہ نہ رہ جائے اور پھر اس کے زوال پر کسی کو کوئی افسوس نہ ہو‘‘۔

اخوان بھی یقینا انسان ہیں اور بلااستثنا ہر انسان قرآن کریم کی اطلاع کے مطابق کمزور بنایا گیا ہے، لیکن آزمایشوں کی بھٹی نے انھیں ایسا کندن بنادیا ہے کہ ہر عذاب و آزمایش کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط و توانا ہوکر اُبھرتے ہیں۔ گذشتہ تمام قتل و غارت سے شکستہ یا مایوس ہونے کے بجاے انھوں نے ۱۹مارچ سے تحریک کا مزید پُرجوش دوسرا مرحلہ شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ مظاہرے تو پہلے بھی ایک دن کے لیے نہیں رُکے تھے، لیکن نئے مرحلے کے پہلے ہی روز ملک بھر میں ۳۵۰مظاہرے ہوئے۔ اس وقت فوجی انقلاب مخالف درجنوں تنظیمیں میدان میں ہیں۔ طلبہ، طالبات، خواتین، مزدور، ڈاکٹر، کسان، اساتذہ___ ہر میدان میں الگ تنظیم و تحریک ہے۔ سب ہی اپنے اپنے شہدا پیش کررہے ہیں۔ اس تحریر کے دوران ہی ایک۱۴سالہ بچے عمرو کی شہادت کی خبر بھی ملی ہے اور ایک صحافی خاتون کی بھی۔پھولوں جیسے معصوم عمرو کے والدین نے آنسو بہائے لیکن الحمدللہ کا ورد کرتے ہوئے یہی کہتے رہے: ’’لخت جگر چلا گیا… لیکن کچھ عرصے سے یقین ہوچلا تھا کہ اسے تو ضرور ہی شہادت ملے گی… کوئی جلوس یا مظاہرہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عمرو کو اس کا پتا ہو  اور وہ مظاہرین اور زخمیوں کو پانی پلانے کے لیے اس میں نہ چلا گیا ہو‘‘۔

خاتون صحافی رقیہ اسلام جامعہ ازہر کے ایک بڑے عالم دین جناب ہاشم اسلام کی صاحبزادی تھیں۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ یونی ورسٹی کی طالبہ بھی تھیں۔ ہاشم اسلام کا کہنا ہے کہ ’’انھوں نے میری رقیہ کو نہیں، مجھے سزا دی ہے کیوں کہ مَیں نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دینے سے انکار کردیا تھا… اگر مجھے اپنے فتوے اور مبنی بردلیل راے کی قیمت بیٹی کی میت سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑتی تو وہ بھی ہیچ تھی۔ البتہ غم اس بات کا ہے کہ جن علماے کرام نے جنرل سیسی کے حق میں فتویٰ دیا تھا، رب کے دربار میں وہ بھی میری بیٹی کے قتل میں برابر کے مجرم قرار پائے‘‘۔

عمر نامی ایک اور نوجوان بھی کئی ماہ قبل اسی تحریک کے دوران زخمی ہوگیا تھا۔ دائیں پہلو سے جسم میں داخل ہونے والی گولی بائیں پہلو سے نکلی تو تمام اندرونی نظام کو کاٹتے ہوئے چلی گئی۔ تب سے علاج جاری ہے، لیکن اُمیدیں بار بار دم توڑ دیتی ہیں۔ ان کی والدہ کا ایک تفصیلی انٹرویو فریڈم اینڈ جسٹس اخبار میں شائع ہوا ہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ وہ ایک تاریخی جملہ یہ کہتی ہیں: ’’اگر بیٹے کو شہادت نصیب ہوگئی تو یہ میری خوش بختی ہوگی۔ میرے لیے غم کا سب سے بڑا دن وہ ہوتا جس روز خدانخواستہ میرا بیٹا اللہ کی اطاعت کی راہ سے ہٹ گیا ہوتا‘‘۔

صلاۃ الفجر تحریک،  قرآن سے جڑے ہوئے، شہادت پر نازاں اخوان کو بھی اگر دنیا دہشت گرد قرار دیتی ہے، تو کیا ایسا کرنے والے رب کے حضور بھی کوئی جواز پیش کرسکیں گے…؟

کچھ عرصہ قبل علامہ یوسف القرضاوی صاحب کا شریکِ سفر ہونے کا موقع ملا۔ دورانِ سفر عرض کیا کہ کوئی خاص نصیحت کیجیے۔ کہنے لگے: اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر دعا جامع اور الہامی دعا ہے لیکن یہ دعا کئی حوالوں سے بہت اہم ہے کہ اللھم ارنا الحق حقًا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، ’’اے اللہ! ہمیں حق کو حق دیکھنے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما، اے پروردگار! ہمیں باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔ آیئے ہم بھی یہی دعا کرتے ہوئے رب کے حضور دست دعا بلند کریں۔     

_______________________________________________________

              ٭ شمارہ اشاعت کے لیے جارہا تھا کہ فرعونِ مصر نے ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ مصری عدالت نے دو روز کی ’طویل‘ سماعت کے بعد ۵۲۹ بے گناہ قیدیوں کو ’سزاے موت‘ کی سزا سنادی ہے۔ سزا یافتگان میں اخوان کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع، قومی اسمبلی کے منتخب اسپیکر ڈاکٹرسعدالکتاتنی، فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نائب صدر ڈاکٹر محمد البلتاجی سمیت ملک کی نام وَر سیاسی، علمی اور قومی شخصیات شامل ہیں۔

                یہ انوکھا فیصلہ اگرچہ ظلم و جبر کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے لیکن ہرسننے والا انصاف پسند بلااختیارکہہ اُٹھتا ہے کہ یہ ظلم کی انتہا اور ظالموں کے خاتمے کا اعلان ہے، ان شاء اللہ!