ہماری قوم کا بھی کچھ عجیب حال ہے۔ جب بھی مغرب سے اسلام کے کسی نظریے کی تائید ہوجاتی ہے تو لوگ اُسے بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اور پھر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مغربی تہذیب میں بس یہی ایک بیماری ہے جس کو مغربی حکیم نے بیان کردیا ہے اور اسلام کے شفاخانے سے حاصل کی ہوئی دوائی کا ایک گھونٹ مغربی نظامِ اجتماعی کو بالکل تندرست و توانا کردے گا۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ آج کل سُود کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ لارڈکینز اور اس کے ساتھیوں نے سود کی ریشہ دوانیوں کو طشت ازبام کیا ہے، اس سے بعض مفکرین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بس یورپ کے معاشی عدمِ توازن اور بحران کا واحد سبب یہی ہے اور اگر یہ کانٹا اس کے پہلو سے نکل جائے تو پھر مریض رُوبصحت ہوگا۔ مگر آپ یقین کریں کہ اس لعنت کو ختم کرنے کے بعد بھی یورپ کا یہی حال رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو تنہا سُود اور نہ کوئی دوسرا ایک محرک اس تباہی کا ذمہ دار ٹھیرایا جاسکتا ہے۔ ان کی حیثیت تو ذرائع کی سی ہے جن کو مغربی تہذیب کے معماروں نے اپنی زندگی کی تعمیر میں استعمال کیا ہے۔ یورپ کی بربادی، اور اس کے ساتھ ہماری تباہی کا اصل سبب وہ تملیکی ذہنیت (acquisitive mentality) ہے جسے تہذیب ِ جدید نے نہایت ہی شدت کے ساتھ اپنے پرستاروں میں پیدا کیا ہے۔ سود تو اس ذہنیت کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے۔ جب تک اس مادہ پرستانہ ذہنیت کو بدل کر ایک خدا پرستانہ ذہنیت پیدا نہیں کی جاتی، حالات کا درست ہونا بالکل ناممکن ہے۔ آپ جتنا غو رکریں گے اتنا ہی اس حقیقت کو درست پائیں گے۔ یورپ کے نظامِ حیات کے بگاڑ کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے خدا کو چھوڑ کر پونڈ اور ڈالر کو اپنا رب تسلیم کیا ہے۔ اسی بنا پر اُس کے ہاں ذی روح انسانوں کی قیمت گر رہی ہے، مگر بے جان دھاتوں کی قدر بڑھ رہی ہے۔(’رسائل و مسائل‘ ، عبدالحمید صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۲، عدد۱، رجب ۱۳۷۳ھ، اپریل ۱۹۵۴ء، ص۶۵-۶۶)