ایک عمر رسیدہ مردِ دانا، دریا کے کنارے بیٹھا، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی حسین و جمیل کاری گری سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بچھو پر پڑی، جو پانی میں گرپڑا تھا اور ڈوبنے ہی والا تھا۔ بچھو اپنے آپ کو پانی کے سپرد کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پانی کی جس لہر میں وہ گرا تھا وہ بہت تندوتیز تھی۔ بچھو نے ہرچند کوشش کی مگر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ ڈوبنے ہی والا تھا۔ عمررسیدہ دانا بزرگ نے بچھو کی یہ کربناک حالت دیکھی تو اسے بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایا تو بچھو نے اسے ڈس لیا۔ درد کی شدت سے بے تاب ہوکر مردِ دانا نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا، مگر اس نے جونہی بچھو کی طرف دیکھا کہ وہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے تو اسے ترس آگیا۔ اس نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایاتاکہ اسے مرنے سے بچالے، مگر بچھو نے اسے دوبارہ ڈس لیا۔ اس نے درد سے بے چین ہوکر چیخ ماری اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ اس نے اب جو بچھو کو دیکھا تو یقین ہوگیا کہ وہ موت کے کنارے پہنچ چکا ہے، چنانچہ اسے بچانے کے لیے تیسری بار اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مردِ دانا کے قریب بیٹھا ایک نوجوان یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ چلّاکر بولا: اے مردِ بزرگ! کیا آپ نے دو بار ڈسے جانے سے بھی سبق نہیں سیکھا کہ اب تیسری بار ہاتھ بڑھا رہے ہیں؟
مردِ دانا نے اس نوجوان کی ملامت کی بالکل پروا نہ کی اور بچھو کو بچانے کی برابر کوشش کرتا رہا، بالآخر اسے ڈوبنے سے بچا ہی لیا۔ اب وہ ملامت کرنے والے نوجوان کی طرف متوجہ ہوا، شفقت و محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اس کا کندھا تھپتھپایا اور کہا: بیٹے، بچھو کی فطرت میں ڈنگ مارنا اور ڈسنا ہے، جب کہ میری فطرت میں محبت و شفقت کرنا ہے۔
مبارک تھا وہ سلیم الفطرت مرد بزرگ، جس کا دل محبت سے بھرپور تھا۔ مبارک ہے وہ انسان جو شیطان کی کشش کو ردّ کردیتا ہے۔ مبارک ہے وہ شخص جو اپنے آپ پر ضبط رکھتا ہے۔ آپ نے یہ مقولہ سنایا پڑھا ہوگا: درختوں کی مانند ہوجائو کہ لوگ ان پر پتھر پھینکتے ہیں اور وہ ان کی طرف پھل پھینکتے ہیں۔ کیا آپ نے درختوں پر انسانوں کے پتھر مارنے پر کبھی غور کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ پتھر پھینکنے والا، ہمیشہ اُس سے ادنیٰ، پست اور نیچے ہوتا ہے جس پر پتھر پھینکتا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ کیا کہ بلندوبالا کھجور کے درخت پر پتھر پھینکنے والا انسان اُس سے بہت نیچے ہوتا ہے اور وہ اپنے سے اُونچے درخت پر سنگ باری کرتا ہے؟ اسی طرح چھوٹے بڑوں پر پتھر پھینکا کرتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا رویہ اور برتائو آپ کو پریشان کردے مگر آپ ہرگز اپنے حسنِ سلوک سے دست کش نہ ہوں۔ آپ لوگوں کے رویے کے ردعمل میں اپنی عمدہ صفات ترک نہ کریں، اور اپنے اخلاقِ حمیدہ نہ چھوڑیں۔ آپ ہرگز ان باتوں پر کان نہ دھریں کہ لوگوں کے رویوں کے مطابق ہی ان سے پیش آناچاہیے، کیوں کہ یہ لوگ کسی شریفانہ سلوک کے مستحق نہیں ہیں۔
اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کرلیا ہے اور اس کے برحق ہونے کے قائل ہوگئے ہیں کہ انسان کو دوسروں کے سلوک سے قطعِ نظر ہمیشہ حُسنِ سلوک پر کاربند رہنا چاہیے، تو پھر آپ سے درخواست ہے کہ آپ کے حُسنِ سلوک کے سب سے زیادہ حق دار آپ کے گھر والے، یعنی اہل و عیال ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہے، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں‘‘۔
بہت سے والدین کو اپنی اولاد کے طرزِعمل سے سخت اذیت پہنچتی ہے، کیوں کہ بچے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں، اور اپنی تعلیم کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ وہ والدین کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ اس مرحلے پر والدین کا پیمانۂ صبر لبریز ہوجاتا ہے اور وہ اولاد سے سختی کرتے ہیں۔ شیکسپیئر کا قول ہے: ’’محبت کرو اس سے پہلے کہ تم سے نفرت کی جائے‘‘۔
بہت سے والدین کے نزدیک اولاد کی تربیت میں سختی و شدت ناگزیر ہے۔ وہ سزا اور سختی کے سوا کسی عمل کو مفید نہیں سمجھتے۔ ان کی نظر میں تربیت کے تمام طریقے غیرمؤثر اور سمجھانے کے تمام ذرائع بے کار اور غیرمفید ہیں۔ اپنے اس طریق کار کے درست ہونے کی، ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے خود اسی نہج پر پرورش پائی ہے۔ چنانچہ اس قسم کے باپوں میں سے ایک ’باپ‘ نے مجھے بتایا:’’میں اپنے باپ کے سامنے چپ چاپ کھڑا رہتا تھا۔ نہ تو میں اس سے بات کرتا تھا اور نہ اس کی قطع کلامی کی ہی جسارت کرتا تھا۔ وہ جب بھی بات کر رہا ہوتا تو مجھے جواب دینے یا کچھ بولنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ کیوں کہ باپ کی بات کا جواب دینا، بیٹے کی طرف سے باپ کی شان میں گستاخی تصور کیا جاتا تھا اور اسے بے ادبی پر محمول کیا جاتا تھا۔ والدصاحب اپنی آواز بہت اُونچی کرلیتے تھے، جب کہ میں چپ سادھے رہتا تھا۔ مجھے ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت میری پٹائی کرسکتے ہیں۔مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ مجھے کب پیٹیں گے اور کیسے زدوکوب کریں گے؟ وہ اپنے خطاب کے دوران یک دم میرے چہرے پر دائیں بائیں سے تابڑ توڑ تھپڑ رسید کرتے تھے۔ میرے لیے حکم یہ ہوتا تھا کہ پتھروں کی اس بارش کے دوران خاموش کھڑا رہوں اور بالکل حرکت نہ کروں۔ میرے والدین نے میری تربیت اس طرح کی ہے اور جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں___ میں مرد بن چکا ہوں‘‘۔
میں نے اس باپ سے پوچھا: کیا آپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ یہی وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا: یقینا، مجھے امید ہے کہ میری اولاد ضرور سیدھے راستے پر چلے گی۔ میں نے کہا: ذرا مجھے یہ بتایئے کہ جب آپ بیٹے سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا: وہ میرے سامنے کھڑا کانپتا رہتا ہے، خاموشی سے میری باتیں سنتا ہے اور بالکل جواب نہیں دیتا۔
اس قماش کے باپ کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی درست نہج پر تر بیت کرسکے۔ یہ تو ممکن ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو چپ کرا دے اور اسے ماتحت و فرماں بردار رہنے پر مجبور کردے مگر ایسا باپ اپنی اولاد میں بزدلی، بے بسی، بے ہمتی ، عاجزی اور ذلّت و خواری کے بیج بو دیتا ہے۔ وہ معاشرے کو نفسیاتی لحاظ سے ایک شکست خوردہ، مغلوب و مضطرب شخصیت پیش کرتا ہے۔ ایسا باپ ایک متوازن اور طاقت ور شخصیت کی تعمیروتشکیل سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ایسی شخصیت کبھی پیش نہیں کرسکتا جو اپنے آپ کو نفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہو اوردیگر افرادِ معاشرہ کے لیے بھی مفید ثابت ہو، اور یوں خاندان کی عمارت کی تعمیر کے لیے ایک مضبوط اینٹ کا کام کرے۔ اپنے سماج اور اپنی قوم و ملّت کے لیے مفید شخصیت تیار کرنا ایسے باپ کے بس کا روگ نہیں۔
محبت سے اولاد کی تربیت کرنا انتہائی ضروری ہے،تاکہ ہم موافقت و ہم آہنگی اور یکسانیت و تال میل سے بھرپور زندگی گزار سکیں۔ یوں ہم اپنے پروردگار کو بھی راضی کرسکنے کے قابل ہوجائیں گے اور ہم اور ہماری اولاد دنیا و آخرت میں سرخ رو اور کام یاب ہوجائیں گے ۔ ہم ایک ایسا معاشرہ وجود میں لاسکیں گے جو توانا و مضبوط ہو، باہم مجتمع و ہم آہنگ ہو اور جس کا ہرفرد دوسروں سے محبت و اُلفت کرنے والا ہو۔ سوال یہ ہے کہ محبت کے ذریعے اولاد کی تربیت کے طریقے کیا ہیں؟
انسانوں کی تربیت، ان کی راہ نمائی کے لیے دلوں میں اُلفت پیدا کرنے، اور ان کے اُمور و معاملات اور نفوس کی اصلاح کے لیے کلام، یعنی بات چیت اور گفتگو انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ کلام دراصل اس گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہے جو پتوں اور پھلوں سے لدا ہو اور بے شمار منافع و فوائد رکھتا ہو۔ اللہ سبحانہٗ نے کلام کو ایک درخت سے تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ فرمایا: اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَـلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ o تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا ط وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ o (ابراہیم ۱۴:۲۴-۲۵) ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ (پاکیزہ کلام) کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں‘‘۔
ایک تحقیقی مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ ایک فردہوش سنبھالنے سے لے کر کامل بلوغ تک ۱۶ہزار منفی (بُرے) الفاظ سنتا ہے، جب کہ وہ اس مدت میں مثبت (اچھے) الفاظ صرف چند سو ہی سنتا ہے۔ ہم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سلبی و منفی، یعنی بُرے الفاظ و کلمات ہمارے بچوں کی تربیت پر کتنے بُرے اثرات مترتب کرتے ہیں۔
ماہرین تربیت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ماں باپ یا تربیت کرنے والوں کی طرف سے بچے کی توہین کی جاتی ہے اور اسے بُرے بُرے القاب و صفات سے پکارا جاتا ہے تو بچہ اپنی ذات کے بارے میں، اپنے ذہن میں ایک تصویر یا خاکہ بنا لیتا ہے۔ گویا اپنی ذات کے بارے میں یہ ذہنی تصویر ، اس کلام کا نتیجہ ہوتا ہے، جو وہ اپنے بارے میں لوگوں کی زبانوں سے سنتا ہے۔یوں سمجھیے کہ بچے کے بارے میں دوسروں کی باتیں نقاش (مصور) کا برش ہیں۔ نقاش بچے کے بارے میں باتیں کرنے والا ہے۔ اگر بچے کے بارے میں اور بچے سے بات کرنے والا شخص کالے رنگ کا بُرش استعمال کرتا ہے تو سیاہ تصویر وجود میں آتی ہے اور اگر وہ خوب صورت رنگ استعمال کرتا ہے تو تصویر بھی حسین ہوگی۔
کچھ باپ جب اپنے بیٹوں سے بات کرتے ہیں تو اپنی گفتگو سے ان کی شخصیتوں کو مسخ کردیتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے بیٹے کی قدروقیمت کم نہ کیجیے۔ ایک ماں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بات کرتے وقت اس کی شخصیت کو کچل دے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے باتیں کرتے وقت توہین آمیز لفظوں، تحقیرآمیز باتوں، طعن و تشنیع، تمسخرو استہزا اور گالم گلوچ سے مکمل اجتناب کریں۔ وہ کسی بھی صورت میں منفی الفاظ و کلمات استعمال نہ کریں۔ کیوں کہ بچوں کے ساتھ منفی رویہ اختیار کرنے سے، اس کے انتہائی تلخ نتائج سامنے آیا کرتے ہیں۔ چنانچہ بچوں میں علیحدگی پسندی، کم آمیزی، جارحیت، مختلف طرح کے خوف، عدمِ خوداعتمادی، تحقیر ذات، نفسیاتی امراض اور طرح طرح کے بگاڑ جنم لیتے ہیں۔
کتب ِ سیرت و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھے والا ہرشخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ دیگر تمام حاضرین کے مقابلے میں حضوؐر کا سب سے زیادہ محبوب ہے۔ کیونکہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہرشخص کو محبت بھری نظر سے دیکھتے تھے۔ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں جھانکیے، اس کے سامنے مسکرایئے، محبت بھری نگاہ کے ساتھ ساتھ محبت آمیز بات چیت کیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ میرا یہ مشورہ پڑھ کر قارئین کرام میں سے کوئی سخت گیر باپ یہ کہے: میں یہ کیسے کروں؟ اس لیے کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو اس کا عادی نہیں بنایا اور اگر میں اپنے بیٹے کو پیاربھری نظر سے دیکھ بھی لوں تو وہ ضرور حیران ہوگا۔ اب میں اس کی حیرت کا جواب کیا دوں؟ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ اپنے بیٹے کے والد ِ محترم ہیں، آپ ایک شفیق باپ ہیں۔ خدارا! اپنے بیٹے پر دھاوا بولنے اور حملہ کرنے کے انداز کو ترک کردیجیے اور اس سے مسکرا کر بات کیجیے۔ اگر بیٹا ، آپ سے اس اچانک تبدیلی کا راز پوچھے تو آپ اسے یوں جواب دیجیے: ’’بیٹا، میں آپ سے محبت کرتا ہوں‘‘، یا ’’میرے لخت ِ جگر مجھے تمھارا ہمیشہ خیال رہتا ہے‘‘۔
یہ خلافِ حکمت ہے کہ آپ اپنے بیٹے سے برتر و اعلیٰ ہوکر بات کریں، برتری خواہ جگہ اور مقام کے اعتبار سے ہو یا گفتگو کے لحاظ سے۔ آپ اپنے بیٹے سے اس طرح بات نہ کریں کہ آپ تو ایک اُونچی کرسی پر براجمان ہوں اور وہ نیچے بیٹھا ہو، اور نہ اس اسلوب و انداز میں ہی بات کریں کہ گویا آپ ایک فوجی کمانڈر ہیں اور بیٹا آپ کا ایک ماتحت سپاہی اور آپ اسے احکام دے رہے ہیں اور وہ ’جی جناب، جی جناب‘ کہہ رہا ہے۔یہ بھی حکمت کا تقاضا نہیں کہ آپ دُور سے ہی بیٹے سے مخاطب ہوں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ ہرلحاظ سے بیٹے کے نزدیک ہوں، دل سے بھی نزدیک، مجلس کے لحاظ سے بھی قریب اور بات چیت کے انداز سے بھی۔
آپ جب بھی اپنے بیٹے یا بیٹی سے بات کریں تو پہلے اس کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھیں۔ آپ کی آواز میں محبت ہونی چاہیے۔ آپ کے لمس میں شدت و سختی نہیں بلکہ نرمی و محبت ہونی چاہیے، اور اس لمس میں شفقت ِ پدری ہو۔ اس سے آپ کی اولاد کو پیغامِ امن و امان ملے۔ پدرانہ محبت کی لہر اولاد کے دلوں تک سرایت کرجائے اورانھیں اس بات کا احساس ہو کہ وہ آپ کے وجود کا حصہ اور جز ہیں۔ آپ جب گھر سے باہر جانے لگیں تو بچوں سے ضرور مصافحہ کیجیے، یا جب آپ کے بچے گھر سے باہر نکلنے لگیں تو بھی آپ ان سے ہاتھ ملایئے اور اپنی دعائوں کے ساتھ انھیں رخصت کیجیے اور ان کے سر پر اپنا دست ِ شفقت رکھیے۔
اب ذرا سا رُک کر، اپنا جائزہ لیجیے کہ آپ ان گزارشات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں؟
بچوں کی نفسیاتی حاجات و ضروریات میں سے ایک محبت ہے۔ لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت و تشنگی کو پورا کیا جائے۔ والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہوگی اور محرومی سے بچوں کے لیے متعدد نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے۔ والدین جب اپنے بچوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اس سے بچوں کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے، لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بغل گیر ہونے میں بخل و تردّد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یقین جانیے کہ بچوں کو والدین سے معانقہ کرنے اور ان کے ساتھ محبت سے لپٹنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے، جتنی انھیں کھانے پینے اور سانس لینے کی حاجت ہوتی ہے، بلکہ محبت کی چاہت و حاجت، خوراک کی حاجت سے بھی بڑھ کر ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس فطری حاجت کو پورا کریں۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنے نواسوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو چوم رہے تھے کہ ایک بدو سردار الاقرع بن حابس آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ اس کے لیے یہ ایک عجیب بات تھی۔ چنانچہ تعجب سے پوچھا: کیا آپؐ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ میرے ۱۰ بچے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی نہیں چوما۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’اللہ نے اگر تمھارے دل سے اپنی رحمت سلب کرلی ہو تو مَیں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
والدین جب بچے کو چومتے ہیں تو اس سے بچے کے قلب و نفس پر رحمت و شفقت چھا جاتی ہے۔ اسے امن و امان کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو بوسہ دے کر ہی انھیں اپنی محبت و شفقت کے احساس سے سرشار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کو محبت و شفقت کے بوسے سے محروم کریں گے تو وہ ہم سے دُور ہٹیں گے۔ نفرت و بے زاری اور سنگ دلی و سختی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ وہ بچپن سے ہی دُوری اور کم آمیزی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ والدین کے بوسۂ شفقت سے ہی بچوں کے درد و الم دُور ہوتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی زخم مندمل ہوتے ہیں اور ذہنی روگ ختم ہوتے ہیں۔ ہم محبت آمیز بوسے سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خوشی و مسرت سے ہم کنار کرسکتے ہیں اور انھیں محبت و اُلفت، رضامندی اور شوق و وارفتگی سے معمور کرسکتے ہیں۔
اولاد کے سامنے ہماری مسکراہٹ بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ ہمارے اس تبسم سے انھیں مسرت نصیب ہوتی ہے۔ یوں ہمارے اور ان کے مابین ایک خوش گوار رابطہ استوار ہوتا ہے اور باہم محبت بڑھتی ہے۔ اس مسکراہٹ سے خوشیاں ملتی ہیں اور خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ دلوں کے سرچشمے سے مسرتیں پھوٹتی ہیں۔
والدین سے گزارش ہے کہ آپ ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہوجایئے۔ ایک بار مسکرایئے اور پھر آئینے میں دیکھیے۔ ایک بار ترش رُو ہوکر آئینے میں دیکھیے اور پھر دونوں کا فرق ملاحظہ کیجیے۔ یقینا والدین کی خندہ پیشانی، ان کی مسکراہٹ اور ان کی قربت سے اولاد کو مسرت و فرحت ملتی ہے۔ والدین کے قرب کا حصول، اولاد کی دیرینہ تمنا ہُوا کرتی ہے۔ وہ اس قربت سے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ یوں ان کے دل ماں باپ کے لیے کھل جاتے ہیں۔ وہ سچی محبت و یگانگت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ وہ والدین سے سچی محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب بچے ہم سے محبت کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ترجیح دیتے ہیں اور ہماری فرماں بردار ی کرتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ، جو طرزِعمل ہوتا تھا، اس کی عکاسی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یوں کی ہے:’’آپ سب سے بڑھ کر نرم دل، مسکرانے اور ہنسنے والے تھے‘‘۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تمھارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔ (ترمذی)
والدین کو چاہیے کہ وہ محبت کے ذریعے بچوں کی تربیت کا ضرور تجربہ کریں۔ اس تربیت میں انھیں یہ اقدامات کرنا ہوں گے: کلامِ محبت، نگاہِ محبت، محبت بھرا لمس، محبت سے بغل گیر ہونا، بوسۂ شفقت اور محبت آمیز مسکراہٹ۔(المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۵۱، ۷مئی ۲۰۱۱ء)