اپریل ۲۰۱۴

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اپریل ۲۰۱۴ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

بیگم  بینا حسین خالدی ، صادق آباد

ڈاکٹر انیس احمد کی تحریر ’اسلامی نظام: سیاسی ذرائع سے قیام ممکن ہے‘ (اپریل ۲۰۱۴ء) نے بہت متاثر کیا۔ اس وقت ، جب کہ مصر اور بنگلہ دیش کی صورت حال پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ کی صحیہ منظرکشی اور تجزیہ نگاری کی اشد ضرورت ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ’’تبدیلی صرف جہاد سے آئے گی‘‘ کے نعرے کی شرعی حیثیت کے بارے میں بصیرت افروز مواد فراہم کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اجتہاد، قیاس، اجماع  اور باہم مشاورت، صبرواستقامت اور قربانی کے ساتھ دعوتی کام کرتے رہنا، یہی وہ ذرائع ہیں جو اسوئہ نبویؐ کے مطابق تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں اور تمام دعوتی مراحل سے گزرنے کے بعد جب یہ یقین ہوجائے کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی تو پھر وہاں سے ہجرت (لیکن عجلت والی ہجرت نہ ہو) کی جائے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مصر اور بنگلہ دیش کی ہنگامی صورت حال میں، جب کہ ایک سول وار چھڑ چکی ہے اور ہزاروں جانی قربانیوں کے بعد واپسی کے رستے بند ہوچکے ہیں۔ کیا ایسی صورت حال میں دعوتی تبلیغی طریق کار ، اور اجتہاد کے رستے کھلے رہ سکتے ہیں؟ کیا طاغوتی طاقتیں محض دعوت و تبلیغ اور گفت و شنید سے اقتدار چھوڑ کر جاسکتی ہیں؟ یا بصورتِ دیگر ہجرت ایسے مسئلے کا حل ہوسکتی ہے؟


عاشق علی فیصل ، فیصل آباد

’بچوں کی تربیت محبت سے‘ (اپریل ۲۰۱۴ء) میں ڈاکٹر سمیریونس صاحب خوب صورت انداز میں اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آج کے نونہال ہی کل کے اچھے مسلمان اور پاکستانی بن سکتے ہیں۔ یہ تحریر تحریکی ساتھیوں کے لیے بالخصوص اور عمومی قارئین کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ اللہ رب العزت جزاے خیر دے۔ مولاناعبدالمالک مدظلہٗ العالی کو جنھوں نے ہمارے دل و اذہان کو کلامِ نبویؐ کی کرنوں سے منور کیا۔


عبدالرحمٰن ،  لاہور

’بچوں کی تربیت محبت سے‘(اپریل ۲۰۱۴ء) مفید مضمون ہے اور عملی پہلو سامنے آئے ہیں۔ تاہم ڈاکٹرسمیر نے بچھو کے بار بار کاٹنے پر اسے بچانے کی جو حکایت بیان کی ہے وہ اسلامی نقطۂ نظر سے درست نہیں۔ شریعت میں موذی جانوروں کو مارنے کا حکم ہے۔


عبدالرشید صدیقی ، برطانیہ

’مطالعے کی عادت__  ایک تحریکی زاویہ‘ (مارچ ۲۰۱۴ء) میں ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون بہت اہم اور بروقت ہے جس کی طرف سے اکثر لوگ غافل ہیں۔ خاص طور پر نئی نسل میں مطالعے کے شوق کا فقدان ان کی تمام معلومات کا مخزن انٹرنیٹ ہے۔ عام طور پر لوگ علم کے بجاے معلومات ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا پھر وڈیو اور آڈیو دیکھ اور سن کر بھیجتے ہیںکہ انھوں نے علم حاصل کرلیا۔ پتا نہیں کہ لوگوں میں مطالعہ کا شوق کس طرح پیدا کیا جائے۔

پروفیسر شہزاد الحسن چشتی صاحب کا گراں قدر مضمون : ’ہگز بوسن…‘ (فروری ۲۰۱۴ء) نظر سے گزرا۔ اس میں موصوف نے اہم معلومات پیش کی ہیں، البتہ ان کی ایک فروگزاشت کی تصحیح کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ سرن(cern) کو انھوں نے تجربہ گاہ کا جاے وقوع بتایا ہے حالانکہ CERN اس تحقیقی ادارے کے نام کا مخفف ہے جو فرانسیسی میں یہ ہے: Counseil Europeen Pour la Rechard Nuclaire ۔ اس کا انگریزی نام ہے: European Council for Nuclear Research ۔

یہ جنیوا کے قریب فرانس، سوئٹزرلینڈ کے سرحد میں واقع ہے، جو ۱۹۵۴ء میں ۲۱ممالک کے تعاون سے قائم ہوا تھا۔ قارئین کے لیے یہ جاننا باعث دل چسپی ہوگا کہ بوسن کا لفظ جو اس ذرے کا نام ہے۔ مشہور ہندستانی ماہر طبیعات ……… ناتھ بوسن کے اعزاز میں پال ڈارک ( Paul Dirac) نے رکھا تھا۔

اپنے مضمون میں فاضل مقالہ نگار نے اللہ کے عرش کا پانی پر ہونے کی یہ تاویل کی ہے کہ پانی سے مراد توانائی ہے۔ میرے خیال میں قرآن کے الفاظ کو ان کے اس مفہوم میں رکھنا چاہیے۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔


دانش یار ، لاہور

اس ماہ عالمی ترجمان القرآن میں دو مضامین بہت خوب رہے۔ یہ جو ایک سیمی نار آپ نے منعقد کردیا، یعنی ’پاکستانی کلچر کے سرچشمے یا عبرت کدے‘، اس نے ایک پُرلطف مجلس میں شرکت کا لطف دیا۔ دوسرا مضمون ’ایمان و وفا‘ حضرت زینبؓکے حوالے سے بہت ہی روح پرور تحریر ہے۔


خالد محمود ، بھلوال

’مطالعے کی عادت___ ایک تحریکی زاویہ‘ (مارچ ۲۰۱۴ء) میں تحریکی نقطۂ نظر سے مطالعے کی اہمیت و ضرورت اور افادیت کو بخوبی اُجاگر کیا گیا ہے۔ تحریکی لٹریچر کے علاوہ جدید افکار سے باخبر رہنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ اگر اس ضمن میں کچھ موضوعات اور کتب کی طرف بھی رہنمائی دے دی جاتی تو زیادہ مفید ہوتا۔


فراز احمد سلیم  ، گوجرانوالہ

’ایمان و وفا‘ (مارچ ۲۰۱۴ء) کے زیرعنوان بنت رسولؐ حضرت زینبؓ کا تذکرہ پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ عبدالغفار عزیز اُمت مسلمہ کے احوال سے تو باخبر کرتے ہی ہیں لیکن سیرت کے موضوع پر بھی خوب لکھتے ہیں۔ اس حوالے سے مزید تحریروں کا انتظار رہے گا!


عبدالرشید کلیر ، وزیرآباد

’قبولِ اسلام اور دعوت کی تڑپ‘ (فروری ۲۰۱۴ء) میں فاطمہ (سابقہ لکشمی بائی) نے جس جذبے اور تڑپ سے اہلِ خانہ کو دعوتِ دین دی اور تکالیف اُٹھائیں اس سے جذبہ ملتا ہے۔ اپنا جائزہ لے کر شرمندگی بھی ہوتی ہے کہ ہم دعوت کے لیے کتنی تگ و دو کرتے ہیں۔ یہ مضمون بہت پسند کیا گیا اور ہم نے متعدد شمارے منگوا کر تقسیم کیے۔