نوجوان نسل کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتی ہے۔ اگر نوجوانوں میں عزم، خوداعتمادی، اللہ پر انحصار، صبر، پُراُمیدی، محنت کشی اور منزل کا شعور پایا جائے تو وہ قوم مشکل ترین حالات سے بآسانی نکل کر ترقی کے کٹھن مراحل کو بہ سہولت طے کرتی چلی جاتی ہے۔ اگر کسی قوم کے نوجوانوں میں بے روزگاری، عدم تحفظ، نفسیاتی دہشت گردی اور مستقبل کے تاریک ہونے کا احساس بٹھا دیا جائے اور ابلاغِ عامہ خصوصاً یہ کوشش کرے کہ ملک میں ہونے والی ہرہر بُرائی کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے کہ گویا ملک میں نہ کوئی نظم ہے، نہ تحفظ، نہ ترقی کی صلاحیت تو وہی نوجوان جو قوم کا اثاثہ اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں اس نفسیاتی حربے کا شکار ہوکر عموماً تین راستوں پر چل پڑتے ہیں۔
اگر تینوں راستوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ تیسرے راستے والے بظاہر ہرلحاظ سے کامیاب نظر آتے ہیں کہ اگر دنیا میں کامیاب ہوئے تو کم عرصے میں کام کرنے کے باوجود تبدیلی لے آئیں گے اور اگر کامیاب نہ ہوئے جب بھی آخرت تو بن گئی۔ ایک مسلمان کے لیے ا س سے بڑھ کر کامیابی کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے ماضی کے تمام گناہ، غلطیاں، بے راہ روی ہرہر بُرائی معاف ہوجائے اور شہادت کے حصول کے بعد وہ سیدھا جنت میں جائے، جہاں اللہ کی ساری نعمتیں اس کا انتظار کر رہی ہوں گی۔
ایک بات جو ان تینوں راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے وقت غور کرنے اور خلوصِ نیت کے ساتھ اپنے آپ کو تمام تصورات سے آزاد کرکے سوچنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت جن کے نفاذ اور قیام کے لیے یہ ساری جدوجہد کی جاتی ہے وہ خود کس راستے کی طرف بلاتے ہیں۔ کیا وہ دنیاطلبی، مفاہمت، وقت پرستی یا پھر بس شہادت کے حصول اور طلب کو مقصد حیات قرار دیتے ہیں یا شہادتِ حق کے فریضے کی ادایگی کے لیے انبیاے کرام ؑ کے اسوہ اور خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔
کسی بھی مسلمان کے لیے وہ جوش اور ولولے سے بھرا ہوا نوجوان ہو یا سکون و ٹھیرائو کے ساتھ سوچنے والا معمرشخص، جو بات فیصلہ کن ہے وہ اس کا اپنے ذہن سے ایک تصور قائم کرلینا نہیں ہے بلکہ قرآن اور سنت رسولؐ اللہ کی سند اور دلیل کی بنیاد پر اپنے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات اس تعمیری عمل میں ایک سے زائد لائحہ عمل ایسے ہوسکتے ہیں جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ایسی شکل میں سنت کا اصول سیدہ عائشہؓ کی روایت کی روشنی میں وہ ہے جو زیادہ ’یسر‘ پر مبنی ہو اور جس کی دلیل سنت ِ رسولؐ میں پائی جاتی ہو۔
گویا راستے کا تعین، حکمت عملی کا انتخاب اور تبدیلی کا طریقہ طے کرتے وقت منزل محض حصولِ شہادت نہیں ہوسکتی بلکہ حق کی شہادت دینے کے لیے وہ تمام ذرائع اختیار کرنے ہوں گے جو سنت ِ نبویؐ سے ثابت ہوں اور جو آخرکار شہادت تک لے جانے والے ہوں۔
انبیاے کرام ؑ کی بنیادی دعوت حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیینؐ تک صرف یہی رہی ہے کہ تمام انسان اپنے خالق، مالک اور رب کی بندگی میں آجائیں اور اللہ جل جلالہٗ کے سوا تمام بندگیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر کے اس کے عبد یا تابع دار بن جائیں۔
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول ؑ بھیج دیا اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی اختیار کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔
عبدیت قرآنِ کریم کی ایک جامع اور اہم اصطلاح ہے جس میں نہ صرف نماز اور دیگر عبادات بلکہ زندگی کے تمام ممکنہ معاملات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو حاکم، مالک، آقا اور فیصلہ کرنے والاتسلیم کیاجانا شامل ہے۔ ایک مسلمان اسلام لانے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی حد تک تو اللہ ہی کی عبادت یا بندگی اختیار کروں گا لیکن میرے سیاسی معاملات لادینی جمہوریت کے اصول طے کریںگے اور معاشی معاملات کو سرمایہ دارانہ معیشت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا اور معاشرتی، ثقافتی معاملات میں فلاں علاقہ یا ملک کے کلچر او رروایات پر عمل کروں گا۔ اسلام میں داخل ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک فرد اسلام میں پورے کا پورا داخل ہو۔ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ(البقرہ ۲:۲۰۸)’’اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
آیت مبارکہ بلاکسی ابہام کے یہ بات واضح کرتی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرسکتا۔ وہ یہ نہیں کرسکتا کہ جمعہ کے دن وہ اللہ کا بندہ ہو، جب کہ تجارتی معاملات میں سرمایہ دارانہ نظام کا تابع ہو اور سیاسی معاملات میں مفادپرست، لادینی سیاسی نظام پر ایمان لے آئے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک ماننے کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنے تمام ذاتی، گھریلو، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور قانونی معاملات میں ایک فرد اور جماعت صرف اور صرف اللہ کی حاکمیت پر ایمان رکھے اور اس کا عمل اس کی شہادت پیش کرے۔
کلمۂ شہادت کا مطلب ہی یہ ہے ایک شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کواپنے تمام معاملات میں حاکم اور شارع مان کر اسلام میں داخل ہو رہا ہے۔ عقیدہ اور ایمان، اسلام کی نگاہ میں ایک خفیہ اور ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک عوامی شہادت (public testimony)ہے کہ ایک شخص اپنے دل و دماغ اور عمل سے صرف اللہ کی بندگی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر راضی ہوگیا ہے۔
بعض سادہ لوح افراد اسلام میں داخل ہونے اور اسلام کے نفاذ کے عمل کو دو مرحلوں میں تقسیم کردیتے ہیں، جب کہ یہ ایک ہی مرحلے سے تعلق رکھنے والا عمل ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ پہلے لاالٰہ کا عمل ہوگا اس کے بعد الااللہ کا۔ ہمارے علم میں نہ قرآن میں اور نہ سنت مطہرہ میں کوئی ایسی شہادت ہے، جو اس تعبیر کی تصدیق کرتی ہو۔ حقیقت ِواقعہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ، جہاں کہیں بھی کسی نے دعوتِ اسلام کو قبول کیا تو اسلام میں پورے داخل ہونے کے ساتھ ہی کیا۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ پہلے مرحلے میں صرف کفروشرک کا رد کیا جائے اور پھر کسی دوسرے مرحلے میں اللہ کی بندگی اختیار کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کو رب اور مالک ماننے کا مطلب بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ سب کا انکار کیا جائے، ’لاالٰہ‘ اور ’الااللہ‘ ایک ہی عہد اور میثاق کا حصہ ہیں، اس لیے شہادت کو دو مراحل میں تقسیم کرنا ایک غیرضروری بحث ہے۔ اللہ کی بندگی کی مثبت دعوت خود بخود تمام منفی تصورات کو جڑبنیاد سے اُکھاڑ کر انسان کے دل و دماغ اور عمل کو توحید کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ مکہ کے دورِ ابتلا میں دعوتِ توحید قبول کرنے والے ہرمتنفس کو اس بات کا مکمل شعور تھا کہ اللہ کو ماننے کا مطلب ہی تمام خودساختہ خدائوں کا رد اور انکار ہے۔ اگر مسئلہ محض مکہ کے اندر مانے جانے والے ۳۶۰ سے زائد خدائوں میں ایک اور کے اضافے کا تھا تو اس پر مشرکینِ مکہ کو نہ کوئی اعتراض تھا، نہ شکایت۔ اگر وہ ۳۶۰بتوں سے تعلقات بنا کر رکھ سکتے تھے تو اس میں ایک کے اضافے سے انھیں کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ اصل مسئلہ یہی تھا کہ ایک اللہ کو ماننے کے بعد وہ ۳۶۰سے زائد خدا سب کے سب بے اصل اور بے اثر ہوجاتے۔ شرک کا آسان سا مطلب یہی ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کے ساتھ دوسروں کو اس کی ذات یا صفات میں شامل کرلیا جائے۔ مشرکین میں سے بھی بعض افراد اللہ کو مانتے تھے۔ قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے کہ جب یہ مشرکین سمندر میں طوفان میں گھِر جاتے ہیں اور انھیں اپنی مضبوط کشتی ڈولتی اور ڈوبتی نظر آتی ہے تو وہ اللہ ہی کو پکارتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب سفر پر جانا ہو، جنگ کرنی ہو، اولاد کی خواہش ہو یا بارش کی ضرورت ہو تو وہ اپنے مقرر کردہ خدائوں ہی سے رجوع کرتے تھے۔
آج کے جدید دور میں ان خدائوں کے نام بدل گئے ہیں۔ کسی کا نام آئی ایم ایف اور ورلڈبنک ہے، جس سے لوگ قرضوں کی التجا کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہماری روزی اور روزگار دینے والا خدا یہی ہے۔ بعض کسی نام نہاد عالمی طاقت کو اپنی فرماں برداری کا یقین دلاتے ہیں کہ وہ انھیں اقتدار پر قابض رہنے میں مدد فراہم کرے گی اور وہ اُس کے سہارے عوام پر حکومت کرسکیں گے۔ بعض اپنے ملکی دفاع کے لیے کسی بڑی عسکری طاقت کے قدموں کو بوسا دیتے ہیں کہ وہ انھیں اسلحے کی بھیک دے کر ان کے دفاع کو مضبوط بنانے کا ضامن بن سکے۔ یہ نئے ادارے اور نام ایجاد کرنے کے ساتھ اگر ایک شخص یہ ایمان رکھتا ہو کہ وہ بندہ تو اللہ کا ہے لیکن خادم کسی بیرونی مالی طاقتوں کا یا کسی نام نہاد عسکری قوت کا یا کسی ثقافتی سامراج کا ہے تو یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی تعریف میں آئیں گے۔
توحید اسلام کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ کمال بھی۔ یہ ہرہرمعاملے میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا مالک اور آقا ماننے کے عمل کا نام ہے۔ حضرت نوحؑ سے لے کر خاتم النبیینؐ تک اللہ کے ہرنبی ؑ نے صرف ایک دعوت دی کہ اپنے تمام معاملات کو اللہ کے لیے خالص کرو۔ اسلام نے جن بتوں کو پاش پاش کیا ان میں نہ صرف عصبیت، قبائلیت، نسلیت، لسانیت کے بت تھے بلکہ وہ تمام تصورات بھی شامل تھے جنھیں انسانوں نے اپنے ذہن اور قیاس کی بناپر قائم کرلیا تھا، اسلام ان سب کا رد کرنے کا نام ہے اور دعوت الی الحق کا واضح مطلب ہی یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات میں صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حکم مان لینا اور اس کی شہادت اپنے عمل سے دینا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی و قانونی تمام معاملات کو طاغوت کے نظاموں کے اثر سے مکمل طور پر آزاد کر کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کی بنیاد پر اور اس کی رہنمائی کی روشنی میں مرتب اور منظم کیا جائے۔ دورِ جدید کی تمام تحریکاتِ اسلامی کا، وہ جماعت اسلامی پاکستان ہویا اخوان المسلمون یا جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر یا جماعت اسلامی ہند، ان سب کی دعوت کا بنیادی ستون ہی قیامِ حاکمیت الٰہی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے بعد اسی بنیادی دعوت کی طرف اللہ کے بندوں کو بلایا ہے اور اسلامی ریاست اور معاشرے کے قیام کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک بتدریج تبدیلی کی حکمت عملی وضع کی ہے۔ اس حکمت عملی میں رہنمااصول انبیاے کرام کا طریق دعوت اور قیام حاکمیت الٰہی کے لیے ان کی حکمت عملی کی روشنی میں لائحہ عمل کو وضع کرنا شامل ہے۔
جدید تحریکاتِ اسلامی کے مفکرین امام حسن البنا شہید ہوں یا مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی یا سیدقطب شہید یا ڈاکٹر محمدناصر، ہرصاحب علم نے مغربی لادینی جمہوریت کی فکری بنیادوں کو رد کرتے ہوئے ہی اسلامی ریاست کو بطور متبادل نظام کے پیش کیا اور جو تحریکات ان مفکرین کو اپنا رہنما کہتی ہیں انھوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اس موقف سے انحراف نہیں کیا۔ اس لیے کسی نظری بحث میں اُلجھے بغیر ہمیں ان ضمنی سوالات پر غور کرنا ہوگا جن پر بہت سے مخلص، دردمند اور اسلام کی سربلندی کے لیے جان کی بازی لگانے والے نوجوان مکمل صورتِ واقعہ کو سامنے نہ رکھنے کے سبب جذبات کی رُو میں بہہ کر عجلت کے ساتھ نتائج اخذ کرلیتے ہیں۔
پہلی بات یہ طے ہوجانی چاہیے کہ کیا مغربی لادینی اور اباحیت پسند جمہوریت اسلامی نظامِ حکومت کی ضد ہے اور اس کی بنیاد یں اسلام کی بنیادوں سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ بات بھی طے ہوجانی چاہیے کہ کیا تحریکاتِ اسلامی نے، بشمول جماعت اسلامی پاکستان، کسی موقع پر بھی مغربی لادینی جمہوریت کی تائید کی ہے یا اس کی جگہ نظامِ اسلامی کے قیام کی دعوت اور اس مقصد کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا ہے۔ کیا مصر میں حالیہ واقعات میں ہزارہا افراد کی جانی قربانی، مصر کی ’طاغوتی جمہوریت‘ کے لیے دی گئی یا خالصتاً اللہ کے دین کے قیام کے لیے یہ قربانیاں دی گئیں۔ کیا اسی اخوان المسلمون نے جو ایک وقت زیرزمین سرگرمی کو حکمت عملی کے طور پر صحیح سمجھتی تھی، گذشتہ ۳۰سال کے عرصے میں جمہوری ذرائع سے جدوجہد کو اختیار نہیں کیا اور حسنی مبارک کے آمرانہ دو ر میں مصرکی پارلیمنٹ میں دعوتی حکمت عملی اور سیاسۃ شرعیہ کی پیروی کرتے ہوئے شرکت نہیں کی۔ رہا یہ سوال کہ وہ تبدیلی جو وہ چاہتے تھے کہاں تک آئی اور کیا فوجی مداخلت کی بناپر یہ کہنا درست ہوگا کہ جمہوری ذرائع ناکام ہوگئے، ایک الگ بحث ہے۔
دوسری بات یہ بھی طے ہوجانی چاہیے کہ اگر مرض پُرانا ہو اور جراحت اس کا تنہا علاج نہ ہو تو ایک ماہر اور مخلص طبیب ہی یہ طے کرسکتا ہے کہ کس ترتیب کے ساتھ کون سی دوائیں دی جائیں تاکہ مرحلہ بہ مرحلہ مریض صحت یاب ہوتا جائے۔ یہ طے کرنا کہ پھیپھڑے دل یا جگر میں جو خرابی تمام جسم کو فاسد مادوں سے بھر رہی ہے اسے یک دم جراحت کرکے ختم کردیا جائے یا بتدریج ادویات، غذا، ورزش، آب و ہوا کی تبدیلی، عادات کی تبدیلی اور دیگر ذرائع کا استعمال کر کے مریض کو ایک صحت مند انسان بننے میں مدد دی جائے، ایک ماہر طبیب ہی کا کام ہے۔ اس میں بھی شبہہ نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ہی مریض اور ایک ہی مرض کو اگر دو یا تین ڈاکٹر دیکھیں تو ان کی تشخیص میں فرق ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر تین ڈاکٹروں کا ایک بورڈ تمام ممکنہ امتحانات اور جائزے کروانے کے بعد اس پر متفق ہو کہ مریض کا علاج بغیرجراحت کے ہوسکتا ہے اور ایک ڈاکٹر یہ کہے کہ چونکہ مرض مہلک یا طاغوتی نوعیت کا ہے اس لیے پہلے جراحت کرو بعد میں مریض کی قوتِ برداشت، اور دوائوں کے ذریعے صحت مندی کی طرف لائو تو اس کی راے اس کے اپنے خیال میں تو درست ہوسکتی ہے لیکن مریض کی جان اور دیگر اطبا کے اجتماعی تجربے کے مقابلے میں کیے گئے فیصلے کے سامنے کوئی وزن نہیں رکھتی۔ ہاں اس بات کا امکان بہرصورت رہتا ہے کہ کئی ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد مریض مکمل صحت یاب ہوجائے یا ڈاکٹر اپنی راے تبدیل کرلے۔ اسی طرح بالکل یہ امکان بھی رہتاہے کہ اگر تنہا ایک ڈاکٹر کی راے پر جراحت کردی جائے تو جراحت کے دوران ہی مریض انتقال کرجائے۔ اس لیے محض امکانات پر فیصلے نہیں کیے جاسکتے۔ ماضی کی تاریخ، اجتماعی تجربے اور طبی حکمت عملی کے پیش نظر ہی دنیا میں صحت کا نظام چل رہا ہے۔
اس روزمرہ کی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ’تبدیلی صرف جہاد سے آئے گی‘ کے نعرے کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ قرآن و سنت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ جہاد ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے اور اگر کسی خطے میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہو اور انھیں مستضعفین فی الارض بنادیا گیا ہو تو ان کی امداد کرنا اہلِ ایمان پر فرض ہے۔ وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النساء ۴:۷۵) ’’(ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے اُن لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کردیں، پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اُسے ضرور ہم اجرعظیم عطا کریں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوںکی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے‘‘۔
اسی طرح فتنہ اور فساد فی الارض کو دُور کرنے کے لیے بھی اسلامی ریاست کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَo (البقرہ ۲:۱۹۳) ’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کی تمام زندگی ہی جہاد ہے۔ ظلم کے خلاف، نفس کے خلاف اور طاغوت کے خلاف۔
آیاتِ جہاد پر غور کیا جائے تو دو اصول بالکل واضح ہوکر سامنے آتے ہیں: اوّلاً کسی بھی ظالم اور طاغوتی نظام میں محض مظلوم بن کر رہنا، اسلامی فکر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ طاغوتی نظام میں دو ہی راستے ہوسکتے ہیں: اوّلاً: اس کے خلاف جدوجہد کہ اس کی جگہ عدل کا نظام آئے اور اگر تمام تر کوششوں کے بعد صبروتحمل کے ساتھ تمام دعوتی مراحل سے گزرنے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی تو پھر وہاں سے ہجرت۔ اس میں اگر عجلت کی گئی تو وہ غلط ہوگا [حضرت یونس ؑ کی مثال ہمارے سامنے رہنی چاہیے]۔ یہی شکل مکہ مکرمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے ثابت ہوتی ہے کہ ۱۳برس تک ہرہرآزمایش اور تعذیب سے گزرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی حکم دیا تو ہجرت کی گئی، ورنہ مکہ میں بذریعہ قوت قریش کی حکمرانی کو ختم کردینا بھی ایک امکانی اقدام (option) تھا۔ حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ اور دیگر صحابہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود مشرکین کے سرداروں کو ایک رات میں قتل کر کے اسلامی نظام قائم کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
قرآن کریم نے جان اور مال کے ساتھ جہاد کو افضل قرار دیا ہے اور بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں میدانِ جہاد میں آنے والوں کے لیے اعظم درجے کا وعدہ فرمایا ہے۔ سورئہ نساء میں فرمایا گیا: لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاo (النساء ۴:۹۵) ’’ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہرایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے ، اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
سو، فساد میں اس بات کو دوٹوک انداز میں واضح کردیا گیا۔ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ اعظم و افضل رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔
جہاد قرآن کریم میں ایک جامع اصطلاح ہے جس میں افضل ترین شکل وہ نہیں ہے جو بعض حضرات ایک ضعیف حدیث کی بناپر سمجھتے ہیں بلکہ میدانِ عمل میں طاغوتی قوتوں کے خلاف مناسب حکمت عملی اور تیاری کے ساتھ جہاد کرنا قرآن کریم کا مقصود ہے۔ اس جہاد کے بارے میں یہ بات بھی سمجھادی گئی ہے کہ اگر اہلِ ایمان طاغوتی قوتوں سے عددی لحاظ سے کم بھی ہوں تو وہ اپنے خلوص، اللہ پر اعتماد، صبر اور حکمت عملی کے صحیح ہونے کے سبب کامیاب ہوں گے، چاہے ان کا تناسب ایک اور دس کا ہی کیوں نہ ہو، یعنی اہلِ ایمان ۲۰ ہوں اور طاغوتی قوت ۲۰۰ کے لگ بھگ ہو۔
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَo (انفال ۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزارآدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔
اسی چیز کو اہلِ ایمان نے بدر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جب اُحد اور حنین میں حکمت عملی پر صحیح عمل نہ کیا تو دوسری نوعیت کے نتائج سامنے آکر رہے۔ مکہ مکرمہ میں ۱۳برس کا عرصہ بھی عرصۂ جہاد تھا کہ ہرہرسطح پر مزاحمت کا سامنا تھا۔ تعذیب تھی، امتحان تھا، ظلم تھا لیکن یہاں جہاد کی ایک خاص شکل تھی اور مدنی دور میں حالات کی تبدیلی کے بعد اس کی دوسری شکلیں سامنے آئیں گی، لہٰذا یہی جہاد مدینہ منورہ میں معاشرے کی تعمیر، عدل کے نظام کے قیام اور اہلِ کتاب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت طے کرنے میں میثاقِ مدینہ کی شکل اختیار کرگیا اور پھر بدر، اُحد، خندق، حدیبیہ، تبوک، فتح مکہ، حنین اور خیبر سب ہی جہاد کے مختلف رُخ ہیں۔گویا جہاد اہلِ ایمان کی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ اس کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن جہاد ہی ہے، جو اُمت مسلمہ کے جسم کو زندہ اور متحرک رکھتا ہے۔
جہاد کے میدان کا تعین کہ کہاں پر کیا جائے، اور کیا کیا جائے، نیز جہاد کے وقت کا تعین کہ کس مرحلے میں کون سی شکل اختیار کی جائے، جہاد کے ہدف کا تعین کہ اصل مطلوب کیا ہے ۔ ان تمام معاملات میں فیصلہ کن حیثیت محض انسانی عقل کی نہیں ہے بلکہ انسانی عقل کو اسوئہ نبیؐ کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کہ کس صورتِ حال میں شارعِ اعظمؐ نے کیا حکمت عملی اختیار فرمائی۔ مکہ سے ہجرت جہاد کی ایک شکل تھی اور پھر مدنی دور کے تمام ہی سال جہاد کے مختلف مراحل کی تیاری اور ان کی انجام دہی کے سال ہیں۔ فتح مکہ جہاد کی ایک ایسی مثال ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی کہ خون بہائے بغیر اللہ کی حاکمیت کو قائم کیا گیا، لیکن یہ بھی اس کا ایک پہلو ہے کہ جن پر حق کی قوتوں نے غلبہ حاصل کیا ہے، ان سے کیسے معاملہ کیا جائے، یعنی یہ طے کرنا کہ مکہ میں کن مشرکین کو قتل کرنا ہے اور کن کو ان کی ساری زیادتیوں کے باوجود معافی دے کر ان کے دلوں کو فتح کرلینا ہے۔ یہ سب کچھ اسوۂ حسنہ ہی تو ہے، جس پر غور کیے بغیر جہاد کا مقام، جہاد کا وقت اور جہاد کی حکمت عملی طے نہیں ہوسکتی۔ حدیبیہ کے موقع پر جانوں کی قربانی کرنے کا عہد جہاد ہی تھا لیکن اس کے باوجود بظاہر دشمن کے حق میں ہونے والی شرائط پر معاہدہ کرنا بھی جہاد کی حکمت عملی تھا اور وقت نے ثابت کردیا کہ شارع اعظمؐ کی نگاہ جن نتائج کو دیکھ رہی تھی ان تک فاروق اعظمؓ تک کی نگاہ اس خاص لمحے نہ پہنچ سکی۔ نہ یہ ان کے ایمان کی کمزوری تھی نہ فراست میں کمی۔ اصل چیز منہجِ نبوت کی اس کے تمام پہلوئوں کے ساتھ، تعلیم اور تعیین تھی اور اس منہج میں یہ تمام پہلو قوسِ قزح کی طرح ہمیشہ کے لیے موجود ہیں اور رہیں گے۔
جہاد کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس کا اعلان کون اور کب کرے گا؟ امام ابن تیمیہؒ اور دیگر علماے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ چونکہ یہ ایک اسٹرے ٹیجک معاملہ ہے کہ اس میں اُمت مسلمہ کی جان اور مال دونوں کا دخل ہے اس لیے یہ فیصلہ ذمہ داری اور عواقب پر غور کے بعد کیا جائے گا۔ اور یہ مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ استثنا کی شکل میں یہ کام ان علما کا ہے جو کسی سیاسی یا معاشی مفاد کے زیراثر یہ کام نہ کریں بلکہ اُمت مسلمہ کے مفاد اور مصلحت عامہ کے اصول پر غیرجذباتی طور پر غور کرنے کے بعد کریں جیساکہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی نے سکھوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور حضرت سیّداحمداور شاہ اسماعیل شہید نے تحریکِ مجاہدین کا آغاز کیا۔
لیکن کسی مسلم ریاست کے خلاف خروج اور خود مسلمانوں کے خون کو حلال کر لینا اس سے بہت مختلف معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ محض اس قیاس پر نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ حکومت کے فلاں ذمہ دار نے کسی بیرونی قوت سے ایک understanding یا ایک خفیہ معاہدہ کرلیا ہے، اس لیے اس سے وابستہ کسی بھی فرد کو جہاں کہیں چاہیں ہلاک کردیں۔ اس کی گنجایش دین اسلام میں نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے نمایاں مثال خوارج کی ہے۔
خوارج نے اپنی فکری غلطی کی بنا پر یہ سمجھ لیا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ نے بجاے براہِ راست قرآن کو حکم بنانے کے دو نمایندوں کے سپرد یہ کام کردیا کہ وہ قرآن کی روشنی میں طے کریں کہ مسئلے کا حل کیا ہو۔ اس لیے یہ دونوں حضرات خوارج کی نگاہ میں کفراور شرک کے مرتکب ہوگئے۔ چنانچہ ان کا خون ان کے لیے حلال ہوگیا۔ اس بناپر خوارج نے یہ طے کیا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو جہاں کہیں وہ پائے جائیں قتل کیا جائے اور ان کے ساتھ جو لوگ شامل ہوں وہ بھی قتل ہوں۔ اُمت مسلمہ کی تاریخ گواہ ہے کہ خوارج کی اس فکر کو اجماعی طور پر رد کیا گیا اور انھیں ایک گمراہ فرقہ قرار دیا گیا۔ گو ،ان میں سے بہت سے افراد وہ تھے جو دن میں حضرت علیؓ کے خلاف جنگ کرتے تھے، راتوں کو تہجد اور قرآن سے رشتہ جوڑتے تھے۔ ان کے چہروں پر محرابیں تھیں اور وہ قرآن کے حافظ تھے۔ فکری غلطی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص غیرمخلص اور دھوکے باز ہو۔ انتہائی خلوصِ نیت کے ساتھ اور دین کا جامع تصور نہ ہونے کے سبب اللہ کا ایک بندہ فکری غلطی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔
جو چیز دیکھنے اور سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنی جان کے دشمن افراد کے بارے میں کیا پالیسی ا ختیار کی اور کیا آپ کا یہ کرنا اسلام تھا یا اسلام سے انحراف! آپؓ نے حکم دیا کہ اگر وہ حملہ کریں تو جواب دیا جائے گا کہ جان کا تحفظ کرنا دین کا اصول ہے، لیکن ان کا پیچھا نہ کیا جائے، نہ انھیں غلام بنایا جائے نہ ان کی املاک پر قبضہ کیا جائے، جب کہ وہ کھلی بغاوت کے مرتکب تھے۔ دین کسی ایک پہلو کا نام نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر ہرپہلو کو سمجھ کر حکمت عملی وضع کرنے کا نام ہے۔
جس طرح خوارج نے یہ فیصلہ کرلیا کہ حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ اور حضرت عمرو بن عاصؓ کو فیصلہ کرنے پر مامور کرنا شرک اور کفر تھا، قرآن کے حکم ماننے کا انکار تھا، ایسے ہی بہت سے سادہ لوح افراد دین کے نام پر خلوصِ نیت کے ساتھ یہ عاجلانہ فیصلہ کربیٹھتے ہیں کہ اگر کسی نے نام نہاد طاغوت کے کسی نمایندے سے بات کرلی، مصافحہ کرلیا، کسی ایسے اجتماع میں یا کانفرنس میں شرکت کرلی جس میں طاغوتی نمایندے موجود ہوں تو وہ شرک اور کفر کا مرتکب ہوگیا، اس لیے واجب القتل ہوا۔ اس قسم کی منطق اختیار کرنے سے قبل دین اسلام کے مقصد و مدعا، نبی کریمؐ کے اسوہ اور حکمت عملی کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں ذمہ دارانہ اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلے جذباتی انداز میں نہیں کیے جاسکتے۔
خوارج اور اس طرح کے افراد نے جو شکل اختیار کی، اُمت کی تاریخ نے اس پر کیا فیصلہ دیا، یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اُمت نے جس چیز کو اسوہ نبویؐ کے مطابق سمجھا وہ خوارج کی فکر نہ تھی بلکہ بتدریج، مرحلہ بہ مرحلہ، صبرواستقامت اور قربانی کے ساتھ دعوتی کام کرتے رہنا، وقت کے لحاظ سے موجود ذرائع ابلاغ کا استعمال کرنا اور وقت کی قید سے بے پروا ہوکر اپنی تمام قوت اللہ کے دین کے قیام کے لیے لگادینے ہی کو سواء السبیل قرار دیا۔
یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ دین میں شرعی احکام کا نفاذ صرف اور صرف ظاہر پر ہے باطن پر نہیں۔ یہی سبب ہے کہ مدینہ منورہ میں منافقین کی کھلی اور چھپی ہوئی سرگرمیوں کے باوجود نبی کریمؐ نے منافقین کے قتل کا حکم نہیں دیا، جب کہ وہ اہلِ مکہ کے ساتھ خفیہ سازشوں میں شریک تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اور سنت مطہرہ نے انسانی جان کی حُرمت کو جو مقام دیا ہے ہم اُس سے بہت دُور نکل چکے ہیں۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نبی کریمؐ کو بہت عزیز تھے لیکن جب حضرت اسامہ نے ایک شخص کو دورانِ جنگ یہ کہنے کے باوجود کہ وہ ایمان لاتا ہے قتل کردیا تو نبی رحمتؐ نے اس پر سخت غصے کا اظہار فرمایا اور اسامہ سے پوچھا کہ کیا انھوں نے اس کے دل کو چیر کر دیکھا تھا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں؟ اور یہ کہ وہ دل سے مسلمان ہوا تھا یا دکھانے اور جان بچانے کے لیے! اس لیے کسی کی تکفیر کردینا اور مشرک قرار دے کر اس کے خون کو حلال کرلینا نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ سنت سے۔ خوارج کا بھی عجیب معاملہ تھا کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو تو وہ قتل کے لائق سمجھتے تھے لیکن ذمیوں پر جو غیرمسلم تھے، اس بنا پر کہ ان کی جان کا ذمہ اللہ اور رسولؐ نے لیا تھا، ہاتھ اُٹھانا حرام سمجھتے تھے۔ فہم کی غلطی انسان کو کہاں تک پہنچادیتی ہے کہ وہ تصویر کا ایک ہی رُخ دیکھتا ہے اور اس پر نازاں بھی ہوتا ہے کہ اصل اسلام پر وہ عمل کر رہا ہے۔ خوارج خلوصِ نیت سے یقین رکھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں اور جیساکہ پہلے عرض کیا یہ تہجدگزار اور قرآن کے حافظ تھے اس کے باوجود فکر کی غلطی نے انھیں گمراہ کردیا۔
اسلامی نظامِ حکومت میں دستور اور قانون کی تدوین کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ قرآن و سنت کو دستور مان لینے کے بعد نہ کسی مزید دستور کی ضرورت ہے نہ کسی قانون کی۔ اسلام کا ہر طالب علم یہ جانتا ہے کہ قرآن و سنت کا دوسرا نام شریعت ہے اور شریعت نے جو حدود متعین کردی ہیں انھیں دنیا کے تمام مسلمان مل کر بھی تبدیل نہیں کرسکتے۔ لیکن جن معاملات کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح ہدایت موجود نہ ہو، ان کا کیا کیا جائے۔ ظاہر ہے کوئی نئی وحی تو آنہیں سکتی۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ فلاں معاملے میں اس پر یہ وحی آئی ہے۔ جو ایسا کرے گا وہ اللہ اور رسولؐ اللہ پر جھوٹ باندھے گا۔
اس کا حل خود قرآن کریم اور سنت رسولؐ نے یہ بتایا کہ ایسے تمام معاملات میں اجتہاد، قیاس اور اجماع پر عمل کیا جائے گا لیکن اس پورے عمل میں اسلامی نظامِ حکومت کی اصل روح مشاوت کا کرنا ہے، حتیٰ کہ دورِ نبویؐ میں بھی بہت سے اہم معاملات مشاورت کے بعد طے کیے گئے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ نبی کریمؐ اپنی فراست اور وحی الٰہی کے جاری رہنے کی بناپر اگر چاہتے تو بغیر کسی سے پوچھے فیصلے فرما سکتے تھے اور آپؐ کا ہرفیصلہ صحابہؓ کے لیے قابلِ قبول ہوتا لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا تاکہ آپؐ کی اُمت اسلامی نظم مملکت کے اس اصول کو عملاً دیکھ کر اس کی اہمیت سے آگاہ ہوسکے۔ غزوئہ بدر میں میدان کے انتخاب کا معاملہ ہو یا اُحد کے موقع پر مدینہ منورہ میں ٹھیر کر مقابلہ یا باہر نکل کر مقابلہ، غزوئہ احزاب میں دفاعی حکمت عملی ہو یا احزاب کے بعد یہود کے ساتھ طرزِعمل کا سوال، ہر اہم معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوریٰ کو نہ صرف قائم کیا بلکہ اس کی راے کا پورا احترام فرمایا۔
آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے مانعین زکوٰۃ کے معاملے میں اور اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی کے سلسلے میں جو فیصلے کیے، انھیں معلومات نہ ہونے کی بناپر بعض حضرات ان کا veto کرنا کہتے ہیں، جو صحیح نہیں۔ پہلے معاملے میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس دلیل اپنی راے کی نہیں تھی بلکہ قرآن میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ کی یکساں مرکزیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صحیح احادیث کی تھی جن کے واضح الفاظ کی پیروی میں انھوں نے یہ اقدام کیا۔ چنانچہ آپ نے نبی کریمؐ کا ارشاد سنایا کہ: ’’مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کریں۔ جب وہ اقرار کرلیںگے تو ان کی جانیں اور ان کے مال میری طرف سے محفوظ ہوجائیں گے، مگر اس کلمہ کے کسی حق کے تحت اور ان کے باطن کا محاسبہ اللہ کے ذمے ہے‘‘۔دوسری حدیث جو آپؐ نے بیان فرمائی اس کے الفاظ بھی بہت اہم ہیں:’’مجھے حکم ملا ہے کہ مَیں تین چیزوں پر لوگوں سے جنگ کروں: کلمہ لاالٰہ الا اللہ کی شہادت پر، نماز قائم کرنے پر اور زکوٰۃ کی ادایگی پر‘‘۔
ان احادیث کے دلیل قطعی ہونے کی بنیاد پر حضرت ابوبکرؓ کا فیصلہ کرنا دلیلِ شرعی اور واضح نص پر تھا ۔یہاں معاملہ شوریٰ کے دائرے سے باہر تھا۔ قرآن و سنت کے نصوص کی موجودگی میں خلیفہ کا کام صرف ان احکام کا نفاذ تھا۔ مشاورت کس بات پر کی جاتی؟
اسی طرح جس لشکر کو تیار کروانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے علَم حوالے کیا ہو، کیا اسے روکنا رسول اللہ کی اطاعت تھی یا اسے آپ کی منشا کے مطابق روانہ کرنا ادایگی فرض تھا۔ یہاں بھی معاملہ نہ شوریٰ کا تھا نہ اکثریت یا اقلیت کا۔
یہ خیال کہ خلیفہ صرف اللہ کو جواب دہ ہے قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ شوریٰ اور مشاورت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد ان کے خلفا اپنے تمام اُمور میں مشاورت کریں اور مسئلے کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد جس راے پر اکثریت کا اتفاق ہو اسے نافذ کیا جائے۔ شوریٰ کا مقصد محض نمایشی طور پر تفنن طبع کے لیے لوگوں کی راے معلوم کرنا نہیں ہے کہ تمام بحث و مباحثے کے بعد کرے وہی جو خلیفہ خود چاہتا ہو۔(جاری)