دعوتِ اسلامی اورآزمایش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانے کی دعوت و تحریک کو کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا گیا۔ اقبال نے تاریخ کی گواہی کو کس خوب صورتی سے بیان کیا ہے ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغ مصطفویؐ سے شرارِ ُبولہبی
اور اللہ تعالیٰ نے خود بھی اپنی راہ میں جدوجہد کرنے والے بندوں کو آگاہ کردیا تھا، بلکہ بہ الفاظ صحیح تر متنبہ کردیا تھا کہ کامیابی کی منزل کش مکش، آزمایش اور ابتلا کے مراحل سے گزر کر ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار خاک و خون کے دریا پار کرنا ہوں گے اور پھر ان شاء اللہ آزمایش کی بھٹی میں سونے کو سہاگا بنانے والے اس عمل سے گزرنے والوں ہی کو غلبہ و کامیابی نصیب ہوگی:
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۲-۴) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاںکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ قف وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۷) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۵۳) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ گویا استقامت اور دعوتِ حق پر قائم رہنا اور شر اور ظلم و زیادتی کا بھی خیر اور صلاح کے ذریعے مقابلہ کرنے میں کامیابی کا راستہ ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ o نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ o وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ o (حم السجدہ ۴۱:۳۰-۳۵) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفورورحیم ہے‘‘۔
اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
ان آیاتِ مبارکہ میں ہمارے رب نے ہمیں ان مراحل سے بھی آگاہ کردیا جن سے اہلِ حق کو گزرنا پڑتا ہے، اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اور راہِ عمل کی طرف بھی رہنمائی فرما دی جس کے ذریعے مخالفتوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ جواب میں انتقام اور بدی کے بدلے بدی کا راستہ اختیار کرنے سے منع فرما دیا اور صبرواستقامت اور حق و شرافت کے ہتھیاروں سے غلط فہمیوں کو دُور کرنے اور انسانوں کے دل میں خیر کا جو عنصر ودیعت کیا گیا ہے، اسے بیدار کرکے نیکی کی راہ کو غالب کرنے کی جدوجہد کو اختیار کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ صبرواستقامت کا راستہ عدل و انصاف سے عبارت ہے۔ انتقام اور ظلم و زیادتی اختیار کرنا مقصد کو فوت کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں، اور انسانی زندگی ایک خرابی کے بعد دوسری خرابی کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔ اصلاح اورخیر کا راستہ بدی کو نیکی اور بھلائی سے دُور کرنا ہے اور جہاں غلط کار قیادت اور اُولی الامرکے غلط فیصلوں اور اقدام پر مداہنت کا راستہ بند کیا ہے، وہیں اصلاحِ احوال کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے ہی کو اختیار کرنے اور اس پر قائم رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo (النساء ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵:۸) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو ’اُمت وسط‘ قرار دیا ہے اور اُمت کے افراد کے درمیان بلالحاظ رُتبہ، نسل، اور حیثیت، وحدت اور اخوت کا رشتہ قائم کیا ہے اور ان کے باہمی تعلقات کو رحماء بینھم کے حسنِ تعلق کی شکل میں بیان فرمایا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:
اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ ___ دین ایک دوسرے کی خیرخواہی کا نام ہے۔
اصحابِ رسول رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: لمن؟ ’’کن سے؟‘‘
آپؐ نے فرمایا:
لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلہٖ وَلِکِتَابِہٖ وَلِاٰئِمَّۃِ المُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتَِھِمْ
اللہ سے، اللہ کے رسولؐ سے، اللہ کی کتاب سے، مسلمانوں کے اولی الامر سے اور عام مسلمانوں سے۔
نصیحت کا یہی وہ تعلق ہے جس کی بنا پر ہم مسلمان حکمرانوں، خصوصیت سے عرب دنیا کے حکمرانوں کو پوری دل سوزی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں کہ مصر میں عالمِ عرب کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے ساتھ اس وقت جو ظلم ہو رہا ہے، نہ اس پر خاموش تماشائی بنیں اور نہ کسی طرح بھی اور کسی شکل میں بھی ظلم کرنے والوں کے لیے تقویت کا ذریعہ بنیں۔ صحیح راستہ اس ظلم کو رُکوانے اور مصر کی حکومت کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کا ہے جس کے لیے ہر صاحب ِ امر اور صاحب ِ خیرکو متحرک ہوناچاہیے۔ اُمت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر اس باب میں یکسو ہے کہ جس طرح مصر میں ایک منتخب صدر کو ہٹایا گیا ہے اور پھر جس طرح اخوان المسلمون اور دوسرے تمام جمہوریت پسند عناصر کو نشانۂ ظلم وستم بنایا جارہا ہے وہ حق وا نصاف کا خون ہے اور خود مصر اور عالمِ عرب کے مفاد سے متصادم ہے۔
اسلام اور اسلامی تحریکات کے خلاف جو عالم گیر جنگ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے برپا کی ہوئی ہے اور جس کی فکر ی نکیل اسرائیل اور صہیونی عناصر کے ہاتھ میں ہے، ہمارے حکمرانوں کو اس ناپاک کھیل کو سمجھنا چاہیے اور تصادم کی جگہ افہام و تفہیم کے ذریعے اسلامی اقدار کی پاس داری، ملک کے دستور اور قانون کے احترام اور جمہوری روایات کے فروغ کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں سب کے لیے خیر ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر عرب اور مسلمان ملک اپنی آزادی، سلامتی اور اسلامی شناخت کی حفاظت کرسکتے ہیں۔
اخوان المسلمون ایک نظریاتی، اصلاحی اور جمہوری تحریک ہے۔ غلطی سے پاک کوئی انسانی کوشش نہیں ہوسکتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخوان المسلمون ایک خیر کی دعوت ہے، اور اس نے اپنی ساری جدوجہد اسلامی مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقی آداب اور معروف جمہوری روایات کے دائرے میں انجام دی ہے، اور عرب اور مسلم دنیا کے حقیقی مفادات کے تحفظ اور مسئلۂ فلسطین کے منصفانہ حل کے لیے اس کی خدمات نوشتۂ دیوار ہیں۔ مصر میں فوجی حکمران اسے جس طرح نشانہ بنائے ہوئے ہیں، وہ ایک صریح ظلم اور خود مصر، فلسطین اور عالمِ عرب کے حقیقی مفادات پر ضربِ کاری ہے۔ ان حالات میں مظلوم کی مدد تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔
اس پس منظر میں ہمیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتوں کا مصر کی تقلید میں اخوان المسلمون اور حماس کو ’دہشت گرد‘ تنظیمیں قرار دینا نہایت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔ الدین نصیحۃ پرعمل کرتے ہوئے ہم پوری دل سوزی سے ان تمام حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں اور حق و انصاف کے تقاضوں کی پاس داری کرتے ہوئے اس روش کو تبدیل کریں اور خود مصر میں اصلاح احوال کے لیے مثبت کردار ادا کریں، ورنہ اُمت میں مزید انتشار بڑھے گا اور حکمرانوں اور عوام میں خلیج وسیع تر ہوگی، اور خود عرب ممالک میں اختلاف اور تقسیم در تقسیم کی کیفیت پیدا ہوگی، جو اُمت کے مفادات کے خلاف ہے اور جس سے ہمارے دشمنوں کے عزائم کو تقویت ملے گی۔
اخوان المسلمون کوئی خفیہ تنظیم نہیں۔ وہ ۱۹۲۸ء سے دعوت و اصلاح کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوااس کا لٹریچر، اس کی فکر، دعوت، طریق کار اور خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس نے ابتلا اور آزمایش کے اَدوار میں بھی اپنے اصولی، اصلاحی ، اخلاقی اور جمہوری مسلک پر پوری استقامت سے قائم رہ کر عوام کے دلوں میں اَنمٹ مقام بنالیا ہے۔ محض مغربی اقوام کے پروپیگنڈے اور مصر میں جمہوریت کا خون کرنے والے عناصر کے بیانات سے اخوان المسلمون کی ۸۰سالہ جدوجہد کو پادر ہوا نہیں کیا جاسکتا۔ ہم مصر کے حکمرانوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ شخصی اقتدار کی خاطر مصر، فلسطین، عرب دنیا اور مسلم اُمت کے حقیقی مفادات کو قربان نہ کریں، اور تصادم کی جگہ حق و انصاف پر مبنی مفاہمت کی راہ اختیار کرکے تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا راستہ اختیار کریں، اور ان عرب ممالک کے ارباب حل و عقد سے بھی اپیل کرتے ہیں جو اخوان کی مخالفت کے ناقابلِ فہم راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مسلمان عوام میں اضطراب اور مایوسی میں اضافہ کرنے کا باعث ہورہے ہیں کہ وہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں۔
اخوان المسلمون نے چند عرب حکمرانوں کے حالیہ اعلان پر جس ردعمل کا اظہار کیا ہے، وہ بڑا محتاط اور اصلاحِ احوال کے لیے ایک حکیمانہ ردعمل ہے۔ اخوان المسلمون کے اس سرکاری بیان پر ٹھنڈے دل سے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، جس کی ہم اُمت مسلمہ کے تمام ہی اولی الامر کو خصوصیت سے دعوت دیتے ہیں۔
اخوان المسلمون کے مطابق: ’’سعودی وزارتِ داخلہ کی جانب سے اچانک اخوان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے پر اخوان المسلمون کو انتہائی حیرت ہوئی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ فیصلہ اس مملکت کی طرف سے سامنے آیا ہے، جسے عوامی مفادات کے تحفظ، اُمت مسلمہ کی وحدت، معاشرتی اور قومی تعمیروترقی میں مؤثر کردار ادا کرنے اور صحیح اسلامی فکر کی ترویج کے لیے اخوان کی کوششوں کا سب سے زیادہ علم ہے اور جس نے ان مساعی کو ہمیشہ سراہا ہے۔ سعودی عرب اس راستے میں اخوان کو پیش آنے والی تکالیف اور آزمایشوں سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔
سعودی عرب میں بھی تمام لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ اخوان ہمیشہ علی الاعلان کہتی رہی ہے کہ جس حق پر وہ ایمان رکھتے ہیں، وہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ کی تعلیمات سے ماخوذ طریقۂ کار ہے اور نص صریح اور دلیل واضح پر مبنی ہے۔
جماعت اخوان ہرشہری کی آزاد اور عزت بخش زندگی یقینی بنانے کے لیے سیاسی میدان میں ملک کے تمام شہریوں سے تعاون پر یقین رکھتی ہے۔ سیاسی، دینی یا مذہبی اختلافات کے باوجود مختلف قومی شخصیات و جماعتوں سے اشتراک و اتحاد کرتی ہے اور یہ واضح اعلان کرتی ہے کہ وہ اسلام کے نام پر لوگوں کی نگران یا ٹھیکے دار نہیں بنائی گئی۔ جماعت اخوان اعلیٰ اخروی ہدف رکھتی ہے اور اس کا حصول تمام نظریاتی، معاشرتی، سیاسی اور دینی گروہوں سے گفت و شنید کے ذریعے ہی ممکن سمجھتی ہے۔
اخوان خیرخواہی کی راہ پر چلتے او رملک و قوم کے مفادات کے برعکس کیے جانے والے ہراقدام کی مخالفت جاری رکھتے ہوئے یہ واضح کرتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی اور اصلاحی جدوجہد کو کسی بھی ملک میں محض کسی حکمران کی مخالفت کی بنیاد پر شروع نہیں کرتی۔ وہ ہرقسم کے تشدد، ایذارسانی اور انتہاپسندی سے دُور رہتے ہوئے حکمت پر مبنی دعوت اور خیرخواہی پر مبنی نصیحت پر یقین رکھتی ہے‘‘۔
پاکستان کے عوام اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت کی طرح اخوان المسلمون کو مظلوم سمجھتے ہیں اور چند عرب حکمرانوں کے اخوان کو دہشت گرد جماعت قرار دینے پر بے حد مغموم اور مضطرب ہیں۔ تمام اسلام پسند قوتیں تو اس پر دل گرفتہ اور شکوہ سنج ہیں ہی لیکن خود لبرل عناصر بھی اس پر اپنے انداز میں تنقید کررہے ہیں اور عرب حکمرانوں کو اپنے رویے پر نظرثانی کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ ڈان کے ادارتی تبصرے کے چند اقتباس پاکستان کی مجموعی راے عامہ جو ہرطبقے اور مکتب فکر کے دل کی آواز ہے، کو سمجھنے میں ممدومعاون ہوں گے:
سعودی عرب کے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے سے قدامت پسند بادشاہت کے اُس وہم کے پیش نظر تعجب نہیں ہونا چاہیے، جو وہ نہ صرف انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے کھڑی ہونے والی تحریکوں بلکہ ان اسلامی گروپوں یا تحریکوں کے بارے میں بھی رکھتی ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں۔ اخوان المسلمون کا اپنا ایجنڈا ہوسکتا ہے اور اس کے اپنے اہداف اور مقاصد ہوسکتے ہیں جو زمانے کے تقاضے کے مطابق نہ ہوں، لیکن ایک طویل مدت سے حسن البنا کی قائم کردہ یہ جماعت اقتدار حاصل کرنے کے لیے جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے۔
لیکن ریاض نے اخوان کی منتخب حکومت، جس کے سربراہ محمدمرسی تھے، کو برطرف کرنے والے فوجی انقلاب کو خوش آمدید کہا۔ صرف سعودی عرب ہی اس میں تنہا نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں خلیج کی دو اور بادشاہتوں___ امارات اور بحرین___ نے قطر سے اپنے سفیرا واپس بلوا لیے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ قطر مصر میں غلط گھوڑے کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
سیاسی تحریکوں پر پابندیاں لگانے یا عسکریت پسند گروپوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کے مؤثر ہونے کی اُمید نہیں۔ ان کے برعکس نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ ان حکومتوں کی یہ ضرورت ہے کہ اپنے ممالک اور معاشروں میں وسعت پیدا کریں اور اختلاف راے اور عوام کی مرضی کو جگہ دیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔حقیقت یہ ہے کہ شرقِ اوسط کے علاقے کی مطلق العنان حکومتوں کو اب اپنی داخلی اور علاقائی پالیسیوں پر ازسرِنوغوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی لانے والی عرب بہار کا تقاضا ہے کہ بنیاد پرستوں سے پہلے ہر ایک ازسرِنو غوروفکر کرے۔(روزنامہ ڈان، ۱۰مارچ ۲۰۱۴ء)
یہ جذبات و احساسات صرف پاکستانی مسلمانوں ہی کے نہیں ہیں، درحقیقت پوری دنیا کے مسلم عوام کے ہیں جو بالعموم اور خصوصیت سے دینی قوتیں مصر اور چند عرب ممالک کے اس رویے پر بے حد مایوس ہوئی ہیں اور اسے حق و انصاف کے خلاف اور اُمت مسلمہ کے مفادات سے متصادم سمجھتی ہیں۔ ان ممالک کے حکمرانوں اور اربابِ حل و عقد کو مسلمان عوام کے جذبات کے بارے میں ضروری حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بھارت کے مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ نئی دہلی سے شائع ہونے والے Home Slider ___ Indian Muslims کی اس رپورٹ سے ہوسکتا ہے جو ۱۵مارچ کو شائع ہوئی ہے:
اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر سعودی حکمرانوں کی مذمت برابر بڑھ رہی ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلما کے بعد نمایاں مسلم علما اور تنظیموں نے سعودی حکومت کو اخوان اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر سخت لتاڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی حکمرانوں نے جو حرمین شریفین کے والی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، پوری دنیا میں مسلمانوں کو اپنے اس غیرمنصفانہ اور خلافِ اسلام فیصلے سے تکلیف پہنچائی ہے۔
جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت علما، آل انڈیا دینی مدارس بورڈ اور بہت سی دوسری مسلم تنظیموں نے سعودی عرب کے مصر میں قائم ہونے والی اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اُمید کی ہے کہ سعودی بادشاہت فوری طور پر فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری نے کہا کہ اخوان المسلمون نے جس تحریک کا آغاز کیا ہے وہ اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ اس لیے اس پر پابندی یقینا پوری مسلم دنیا کو تکلیف دے گی۔ انھوں نے کہا کہ اخوان المسلمون ایک بین الاقوامی اصلاحی اور سماجی تنظیم ہے، اور حماس وہ تنظیم ہے جو شرق اوسط میں صہیونی ریاست کا بے خوفی سے مقابلہ کررہی ہے۔
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسٰی منصوری، فتویٰ موبائل سروس کے مفتی محمدارشد فاروقی، مدارس بورڈ کے سربراہ مولانا یعقوب بلندشہری اور جمعیت کے سیکرٹری مولانا فیروز اختر قاسمی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سعودی حکمرانوں نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے کر ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ انھوں نے شاہ عبداللہ اور سعودی عرب کے سرکردہ علما سے اپیل کی ہے کہ اخوان کے بارے میں اس فیصلے کو واپس لیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ ساری دنیا کے مسلمان سعودی عرب کے اس اقدام کی مذمت کریں گے اور مزاحمت کریں گے۔ انھوں نے اُمید ظاہر کی کہ سعودی علما سعودی حکمرانوں کو قائل کریں گے کہ وہ اس فیصلے کو واپس لیں۔ سعودی علما کا یہ فرض ہے کہ اپنے حکمرانوں پر اس حوالے سے دبائو ڈالیں، اس لیے کہ تمام مسلمان اس اقدام پر مشتعل ہیں۔
انھوں نے توجہ دلائی کہ مسلمان سعودی عرب کا بہت احترام کرتے ہیں، اس لیے کہ یہاں اسلام کے مقدس مقامات موجود ہیں، جب کہ اس ملک کے مطلق العنان حکمرانوں کے لیے جو مغربی طاقتوں کے آلۂ کار ہیں، ان کے پاس کوئی محبت نہیں ہے۔ اس سے قبل دارالعلوم ندوۃ، لکھنؤ کا تاریخی ادارہ سعودی وفد کی آمد پر اس کی تحقیر کرکے اس ضمن میں سبقت لے گیا۔
اسلام اور اُمت مسلمہ کے دشمنوں اور مخالفین کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں انتشار اور تصادم بڑھے اور مسلمان اپنی تمام قوتوں کو یک جا کرکے اصل مخالفین کا مقابلہ کرنے کے بجاے ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے اور اندرونی خلفشار اور جنگ و جدال میں اُلجھ کر اپنی قوت کو پارہ پارہ کرلیں۔ ہنری کسنجر نے تو ۱۹۶۰ء کی دہائی میں کہا تھا کہ: ’’مشرق وسطیٰ کو قابو میں رکھنے اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے شرق اوسط کو فرقہ واریت اور لسانی اور نسلی گروہ بندیوں کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کیا جائے‘‘۔
چار سال پہلے تیونس سے عوامی انقلاب اور عرب دنیا کی بیداری کی جو نئی لہر اُبھری تھی، اس نے مغربی دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجادیں۔ ترکی اور عرب دنیا میں جو قربت ترکی میں طیب اردگان کی قیادت کی کوششوں سے رُونما ہورہی تھی، اس نے اسرائیل اور امریکاو یورپ کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردیں۔ عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کی ناکامی نے اس علاقے کے بارے میں جو امریکا اور یورپ کے عزائم تھے، ان کو خاک میں ملا دیا ۔ ان حالات میں ایک بار پھر مسلمان اور عرب ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے اور عوام کو شیعہ اور سُنّی، ترک اور کرد، عرب اور عجم، بنیاد پرست اور لبرل، مسلمان اور قبطی کی تقسیم اور ان کے درمیان تصادم کی راہ پر ڈالنے کی سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں۔
ان حالات میں عوام اور حکمران سب کے لیے ضروری ہے کہ مخالفین کے کھیل کو سمجھیں اور اپنی صفوں میں انتشار اور خلفشار کو راہ نہ پانے دیں۔ ذاتی، گروہی اور دوسری عصبیتوں اور مفادات کی سطح سے بلند ہوں اور ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کر کے مشترکات کی بنیاد پر تعاون کی راہیں استوار کریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلام اور اُمت مسلمہ کے مفاد کی بنیاد پر نئی سوچ اختیار کی جائے اور مفاہمت اور تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ بنا جائے۔ ہم پوری دل سوزی سے مصر کے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اخوان المسلمون اور دوسری اسلامی اور جمہوری قوتوں کو نشانہ بنانے کے بجاے انھیں اتحادِ اسلامی اور تعمیرنو کی جدوجہد میں اعوان و انصار کا درجہ دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ سب کے لیے خیر اور استحکام کا حصول ممکن ہوگا، جو اُمت کی تقویت کا باعث ہوگا۔ اور اس طرح مسلمان اپنے گھر کی اصلاح کے ساتھ انسانیت کی تعمیرنو میں ایک اہم کردار ادا کرسکیں گے۔