ڈاکٹر سمیر یونس


مہینے، ہفتے، دن ، گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ گزرتے رہے اور یوں سال بہت تیزی سے گزرگیا۔ رمضان جیسا معزز مہمان ہمارے پا س آ گیا، مگر ہم بے سدھ پڑے ہیں، غافل ہیں، اس کے استقبال کے لیے تیار نہیں۔دنیا نے ہمیں غافل کر دیا ہے، ہم زمین سے چمٹے ہوئے ہیں۔ گناہوں نے ہمیں بوجھل بنا دیا ہے، خطاؤں نے ہمیں تھکا دیا ہے، چنانچہ ہم تاریک راستے پر ہی چل رہے ہیں۔ ہم گناہوں سے باز نہیں آتے اور متاع الغرور کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔

ہمیں اللہ کے راستے کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے، اللہ کے روشن راستے پر گامزن ہونے کی حاجت ہے۔ کاش! ہم جانیںکہ ہم اللہ رحمان و مہربان اور بخشنے والا کے قرب کے کس قدر حاجت مند ہیں۔

کیا ابھی ہمارے لیے پلٹنے کا وقت نہیں آیا؟ کیا ہمارے سخت اور پتھر دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم نہیں پڑیں گے؟ کیا ہماری آنکھوں کے لیے خوفِ خدا سے آنسو بہانے کا وقت نہیں  آیا؟ کیااندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے روشنی کے راستے پر چلنے کا موقع ابھی نہیں آیا؟ کیا اعضا و جوارح کو اب گناہوں سے استغفار نہیں کر لینا چاہیے؟ اور گناہوں سے باز نہیں آ جانا چاہیے؟ کیا زبان کو غیبت سے رک نہیںجانا چاہیے؟ کیا اسے اللہ کے بندوں کو گالیاں بکنے اور ان پر تہمت تراشنے سے بچنا نہیں چاہیے؟ کیا خواہشات کے بندوں کو ہوش نہیں آنا چاہیے؟ کیاشہوات کے اسیروں کو شہوتوں کے چُنگل سے باہر نکلنے کا وقت نہیں آیا؟

اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو:رمضان کی آمد کے ساتھ ہی میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا: کیا ہماری کامیابی ممکن ہے؟ کیا ہم اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں گے؟ شاید کہ پھر یہ فرصت نہ ملے۔ کیا معلوم کہ آیندہ رمضان آنے سے پہلے ہی ہم رخصت ہوجائیں اور اس کا خیر مقدم نہ کر پائیں اور یوں موقع جاتا رہے؟

میں اسی حیرت میں گم تھا کہ میں نے اپنے اندر سے آواز سنی، یہ میری اپنی آواز تھی: ہاں، ہاں، موقعے سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے۔ میرا رب مہربان ہے، بخشنے والا ہے۔ وہ میرا پروردگار یقینا میری توبہ سے خوش ہوگا، جیسا کہ حبیب مکرمؐ نے بشارت دی ہے ۔ میرے رب نے مجھے مایوسی و نااُمیدی سے روکا ہے۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ وہ سب گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا  ط  اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo (الزمر۳۹:۵۳) (اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوںنے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور ورحیم ہے۔

دُنیا میں انسان دشوار گزار راستے پر چلنے والے مسافر کی مانند ہے۔ اسے سفرِ زندگی طے کرنے کے لیے زادِ راہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی منزلِ مراد’جنت‘ تک پہنچ سکے۔ اسے ایمان کا زادِراہ درکار ہے۔ جب بھی اس کا زادِ راہ کم ہونے لگے تو اسے چاہیے وہ از خود یہ زادِ راہ مہیا کرے ورنہ وہ زادِ راہ نہ ہونے کی وجہ سے راستے میں ہی ہلاک ہو جائے گا۔ لہٰذا، اس دنیا میں اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہنا اور ایمان کو زادِ راہ کے طور پر ساتھ رکھنا لازمی ہے۔ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ اللہ بزرگ و برتر نے ہمیں مطلع فرما دیا ہے کہ ایمان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے:

وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ لا قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ز وَمَا زَادَھُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمـًا ۝۲۲ۭ (الاحزاب ۳۳:۲۲) اور سچے مومنوں نے جب حملہ آورلشکر وں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچی تھی‘‘۔ اس واقعے نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔

پس رمضان کے قریب آتے ہی ہمیں زادِ راہ کی خاطر اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم قربِ الٰہی کیسے حاصل کریں اور ایمان کی تجدید کیسے کریں؟ ہمیں اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات کرنا ہوں گے:

نیت کی درستی: چونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے ہمیں اپنی نیت درست کرنا ہوگی۔ ہماری نیت یہ ہو کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ بھلائیاں سمیٹنا ہیں، عطیات و خیرات بہ کثرت کرنا ہیں۔ اگرہماری نیت یہ ہواور ہم رمضان کی آمد سے پہلے ہی جان بحق ہو جائیں تو بھی حُسن نیت کی وجہ سے ہم اجرو ثواب کے حق دار ٹھیریں گے۔ اگر زندگی ہوئی تو پھر رمضان میں نیک اعمال کی جزا ملے گی۔ یاد رہے کہ قبولیتِ عمل کے دو پَر ہیں: صحیح نیت اور درست عمل۔

توبہ: غیبت، چغل خوری اور جھوٹ سے اپنی زبان کو روکے رکھنا ہمارا فرض ہے تاکہ ہم زبان کی آفات سے محفوظ رہیں۔ ہماری زبانیں فضول گوئی، لغو کلام، بے فائدہ و بے ہودہ باتوں سے دور رہیں۔ فحش گوئی، چاپلوسی اور منافقانہ گفتگو ہماری زبانوں پر نہ آئے۔ ہم سب کو توبہ کرنی  چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر اپنا وقت ضائع نہ کریں گے۔ ہم فضولیات کے دیکھنے اور سننے سے بچیں گے۔ فضول بیٹھ کر اپنے اوقات عزیز برباد نہ کریںگے بلکہ اپنے آپ کو ذکر، تسبیح یا استغفار میں مشغول رکھیں گے۔ انسان کو اپنی عمر کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرنا چاہیے کیونکہ یہی اس کا اصل زر ہے۔ کیا یہ معقول حرکت ہوگی کہ ایک آدمی اپنا اصل زر ضائع کردے اور پھر نفع کا منتظر رہے؟

توبہ سے ہماری مراد محض اعضا و جوارح کی توبہ نہیں ہے بلکہ دل کی توبہ مقصود ہے۔ یادرہے کہ اعضا کی معصیت دل کی نافرمانی کے مقابلے میں کم تر ہے۔ حضرت آدم ؑنے شجرممنوعہ کا پھل کھایا تو بھی اللہ نے ان کی توبہ قبول کی اور ان پر رحمت فرمائی:

فَتَلَقّیٰٓ اَدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۝۳۷ (البقرۃ ۲:۳۷)آدمؑ نے اپنے ربّ سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے ربّ نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اب ظاہر ہے کہ دل کی معصیت اور اعضا کی معصیت میں بہت فرق ہے۔ ابلیس تکبر کے جرم کا مرتکب ہوا اور پھر اپنے تکبر میں بڑھتا ہی گیا تو اللہ نے اسے درد ناک عذاب کی دھمکی دی۔

ہمیں ماہِ رمضان کا استقبال کرتے ہوئے دل کی نافرمانی سے توبہ کرنا ہوگی۔ آئیے ہم اللہ کا قرب پائیں___اس کے لیے ہمیں تکبر، حسد، کینہ، بُغض، کھوٹ اور اپنے آپ پر اترانے جیسی خراب عادتیں اورخصلتیں چھوڑنا ہوں گی۔

ہم اپنے قلب کو اس امر کی تربیت دیں کہ وہ ہر چیز سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرے۔ ہمارا دل اپنے پروردگار کی ملاقات کا مشتاق رہے___ نماز میں، دُعا میں، مناجات میں، ذکر و فکر میں اور تسبیح و استغفار میں۔

عزمِ بلند: رمضان کی آمد سے پہلے ہی عبادات و طاعات کے لیے طبیعت میں آمادگی پیدا کیجیے۔ تقربِ الٰہی کی طلب میں عظیم القدر اہل ایمان کی روش اپنانے کا عہد کیجیے۔ اپنے تمام اعمال میں ثابت قدم رہنے کا فیصلہ کیجیے اور ابھی سے اپنے عزم کو بھلائیوں کے لیے بلند کر لیجیے۔ رمضان سے پہلے ہی عبادات کی مشق کیجیے۔ آپ کے تمام اعمال و افعال ہر لحاظ سے بہترین اور مکمل ہوں۔ جوکھلاڑی کھیل شروع ہونے سے پہلے مشق کرتا ہے، اپنی بدنی اور فنی لیاقت و مہارت کو بڑھاتاہے، اس کی کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس جو کھلاڑی مشق سے احتراز کرتا ہے، سُستی و بے عملی کا شکار ہوتا ہے تو شکست اُس کا مقدر بنتی ہے۔

رمضان میں دو طرح کے مسلمان نظر آتے ہیں۔ ایک گروہ کامیاب و کامران اور دوسرا ناکام و نامراد۔ محنتی گروہ کامیاب ہو جاتا ہے اور موقع کو ضائع کرنے والا ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔  یہ گروہ ڈرامے اور فلمیں دیکھنے میں لگا رہا۔ اس نے اپنا سارا وقت کھیلوں، فلموں اور ڈراموں پر تبصروں میں برباد کر دیا۔ یہ غفلت میں مبتلا ہوا اورمست رہا۔ اگراسے ماہ رمضان کے گزرنے کے بعد ہوش آئے تو یہ عظیم نعمت سے محروم رہے گا۔

رمضان کی قدر کیجیے۔ اس میں کم عبادات پر اکتفا نہ کیجیے۔ اس لیے کہ رمضان میں جو نیکی کا کوئی کام کرتا ہے تو اسے غیر رمضان میں فرض کی ادایگی کا ثواب دیا جاتا ہے اور جو رمضان میں فرض ادا کرتا ہے، اسے غیر رمضان کے ستّر فرضوں کا ثواب ملتا ہے۔

عبادت کا حُسنِ ادایگی: عبادت ادا کرنے سے قبل، ذہنی تصور کو عبادت سے ہم آہنگ کرنے کی عادت ڈالیے اورایسا شعوری طور پر کیجیے۔ اس عمل سے عبادت و اطاعت میں کمال پیدا ہوگا۔ آپ ہمیشہ عبادت کی روح پر غور کیجیے۔ عبادت سے پہلے اس کے اثرات کی فکر کیجیے۔ عبادت کی روح کو سمجھنے اوراس کا بھرپور شعور و ادراک حاصل کیجیے۔ مثال کے طور پر جب آپ نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوں اور تکبیر تحریمہ کہیں تو ’’اللہ اکبر‘‘ کے معنی پر غور کریں۔ اس کلمے کے مطلب میں تدبر و تفکر کیجیے۔ اسی طرح جب آپ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھیں تو اس کے مفہوم پرغور کریں۔ ہر آیت جو آپ نماز میں پڑھیں یا نماز ِ باجماعت میں امام سے سنیں اس پر ضرور تدبر کریں۔ اسے اپنے وجدان و احساسات کا حصہ بنائیں۔

اپنی حقیت پر غور: اپنے آپ کو پہچانیے، اپنے آپ سے پوچھیے کہ میں کون ہوں؟ میرا مخلوقِ خدا سے کیا تعلق ہے؟ اللہ کی مخلوق اور اس کی نعمتوں کے بارے میں سوچیے۔ پھر ان نعمتوں کا اپنی ذات و کردار کے حوالے سے جائزہ لیجیے۔ دیکھیے کہ فرشتوں، آسمانوں، پہاڑوں، سمندروں، ستاروں، سیاروں اور زمین کے مقابلے میں آپ کی حیثیت کیا ہے؟ یوں آپ کو اپنی بے بضاعتی کا احساس ہوگا۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کس قدر بے بس ہیں اور اللہ کے رحم و کرم کے کتنے محتاج ہیں۔ عظمتِ الٰہی کے سامنے آپ کو اپنی عاجزی و بے بسی کا ادراک حاصل ہوگا۔ یوں تکبر و غرور سے نجات ملے گی۔ پھر آپ اپنے پروردگار سے مددمانگیں، مہربانی اور عفو وعافیت کے طلب گار ہوں۔

دنیا میں کم رغبت: دنیا میں دلچسپی کم کیجیے۔ دنیا کا لالچ بری بلا ہے۔ آپ کی نظر دنیا میں حسب حاجت ہو، مگرآپ کی تمام تر دلچسپی کا مرکز آخرت ہو۔ آخرت دنیا کے مقابلے میں بہتر بھی ہے اور پایدار بھی۔ آپ دنیا کی طلب میں بھاگ دوڑ کم کر دیجیے۔ ایسا کرنے سے آپ کے ذہن و قلب کو سکون میسر آئے گا۔ زیادہ تر آخرت پر توجہ دیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں دنیا کا فضل وخیراکٹھا کرنے کے لیے کہا ہے تو اس نے اس کے لیے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں، ان میں آہستگی، ٹھیراؤ اورقرار پایا جاتا ہے، مگر جب اس نے ہمیں آخرت کی خیرحاصل کرنے کی ترغیب دی ہے تو ان الفاظ میں جلدی، تیزی، لپکنے اور سبقت کرنے کا تاثر پایا جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا کی بھلائیوں کو حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہوا:

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الجمعۃ۶۲:۱۰)پھرجب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔

ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلاً فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِھَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ ط وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُo (الملک۶۷:۱۵) وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو، اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمھیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔

تاہم، جب اللہ نے ہمیں آخرت کی بھلائی پر آمادہ کیا ہے تو فرمایا ہے:

وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۳) دَوڑ کر چلو اُس راہ پر جو تمھارے رَبّ کی بخشش اور اُس کی جنت کی طرف جاتی ہے، جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ  خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے۔

سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لا  اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۝۲۱ (الحدید۵۷:۲۱) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رَبّ کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل و الا ہے۔

آپ نے دیکھا کہ آخرت کے لیے سارعوا اور سابقوا ، دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھو کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو سبقت کرنے والے اور ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کے معنی دیتے ہیں، اور دنیا کے لیے فانتشرو  اور فامشو،  پھیل جاؤ اور چلو کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں آہستگی، ٹھیراؤ اور قرار پایا جاتا ہے۔

تیاری اور آغاز: ایک اچھا طالب علم امتحان سے بہت پہلے اس کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے الفاظ ہیں: ’’اے اللہ، ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا‘‘۔ ہم جانتے ہیں کہ اس حدیث کے سوا، حضوؐر نے کبھی بھی لمبی عمر کی دعا نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ رمضان ایک عظیم موقع و فرصت ہے کیونکہ رمضان سراسر خیرو برکت ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم رمضان کی تیاری کیسے کریں؟ اس کے لیے ہمیں چاہیے کہ یہ کام کر لیں:

    ۱-  اپنے اعضا کو ان تمام باتوں سے روکنے کی تربیت دینا جو اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہیں۔

    ۲-  دل کا روزہ رکھنا، یعنی اپنے تمام اقوال و اعمال میں اللہ کی طرف متوجہ رہنا۔ حرکت و سکون اور گفتگو و خاموشی اسی کی رضا کے لیے ہو۔

    ۳- اگر ہمیں کسی سے رنجش ہے، ناراضی ہے، نفرت و بغض ہے تو فوراً اس سے صلح کریں تاکہ حصول خیر میں رکاوٹ دور ہو جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’دونوں میں سے اچھا وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے‘‘(مسلم)۔ پھر اس شخص کے لیے ہمیں دعاے خیر و مغفرت کرناہے۔ یوں مسلمان ماہ رمضان میں داخل ہو تو اس کا سینہ پاک صاف ہو۔ اللہ اس کا عمل قبول فرمالے اور وہ مغفرت پالے۔

ایک عمر رسیدہ مردِ دانا، دریا کے کنارے بیٹھا، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی حسین و جمیل کاری گری سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بچھو پر پڑی، جو پانی میں گرپڑا تھا اور ڈوبنے ہی والا تھا۔ بچھو اپنے آپ کو پانی کے سپرد کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پانی کی جس لہر میں وہ گرا تھا وہ بہت تندوتیز تھی۔ بچھو نے ہرچند کوشش کی مگر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہ ڈوبنے ہی والا تھا۔ عمررسیدہ دانا بزرگ نے بچھو کی یہ کربناک حالت دیکھی تو اسے بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایا تو بچھو نے اسے ڈس لیا۔ درد کی شدت سے بے تاب ہوکر مردِ دانا نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا، مگر اس نے جونہی بچھو کی طرف دیکھا کہ وہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے تو اسے ترس آگیا۔ اس نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ بچھو کی طرف بڑھایاتاکہ اسے مرنے سے بچالے، مگر بچھو نے اسے دوبارہ ڈس لیا۔ اس نے درد سے بے چین ہوکر چیخ ماری اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ اس نے اب جو بچھو کو دیکھا تو یقین ہوگیا کہ وہ موت کے کنارے پہنچ چکا ہے، چنانچہ اسے بچانے کے لیے تیسری بار اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مردِ دانا کے قریب بیٹھا ایک نوجوان یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ چلّاکر بولا: اے مردِ بزرگ! کیا آپ نے دو بار ڈسے جانے سے بھی سبق نہیں سیکھا کہ اب تیسری بار ہاتھ بڑھا رہے ہیں؟

مردِ دانا نے اس نوجوان کی ملامت کی بالکل پروا نہ کی اور بچھو کو بچانے کی برابر کوشش کرتا رہا، بالآخر اسے ڈوبنے سے بچا ہی لیا۔ اب وہ ملامت کرنے والے نوجوان کی طرف متوجہ ہوا،  شفقت و محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اس کا کندھا تھپتھپایا اور کہا: بیٹے، بچھو کی فطرت میں ڈنگ مارنا اور ڈسنا ہے، جب کہ میری فطرت میں محبت و شفقت کرنا ہے۔

مبارک تھا وہ سلیم الفطرت مرد بزرگ، جس کا دل محبت سے بھرپور تھا۔ مبارک ہے وہ انسان جو شیطان کی کشش کو ردّ کردیتا ہے۔ مبارک ہے وہ شخص جو اپنے آپ پر ضبط رکھتا ہے۔ آپ نے یہ مقولہ سنایا پڑھا ہوگا: درختوں کی مانند ہوجائو کہ لوگ ان پر پتھر پھینکتے ہیں اور وہ ان کی طرف پھل پھینکتے ہیں۔ کیا آپ نے درختوں پر انسانوں کے پتھر مارنے پر کبھی غور کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ پتھر پھینکنے والا، ہمیشہ اُس سے ادنیٰ، پست اور نیچے ہوتا ہے جس پر پتھر پھینکتا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ کیا کہ بلندوبالا کھجور کے درخت پر پتھر پھینکنے والا انسان اُس سے بہت نیچے ہوتا ہے اور وہ اپنے سے اُونچے درخت پر سنگ باری کرتا ہے؟ اسی طرح چھوٹے بڑوں پر پتھر پھینکا کرتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ لوگوں کا رویہ اور برتائو آپ کو پریشان کردے مگر آپ ہرگز اپنے حسنِ سلوک سے دست کش نہ ہوں۔ آپ لوگوں کے رویے کے ردعمل میں اپنی عمدہ صفات ترک نہ کریں، اور اپنے اخلاقِ حمیدہ نہ چھوڑیں۔ آپ ہرگز ان باتوں پر کان نہ دھریں کہ لوگوں کے رویوں کے مطابق ہی ان سے پیش آناچاہیے، کیوں کہ یہ لوگ کسی شریفانہ سلوک کے مستحق نہیں ہیں۔

اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کرلیا ہے اور اس کے برحق ہونے کے قائل ہوگئے ہیں کہ انسان کو دوسروں کے سلوک سے قطعِ نظر ہمیشہ حُسنِ سلوک پر کاربند رہنا چاہیے، تو پھر آپ سے درخواست ہے کہ آپ کے حُسنِ سلوک کے سب سے زیادہ حق دار آپ کے گھر والے، یعنی اہل و عیال ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہے، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں‘‘۔

بہت سے والدین کو اپنی اولاد کے طرزِعمل سے سخت اذیت پہنچتی ہے، کیوں کہ بچے     ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں، اور اپنی تعلیم کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ وہ والدین کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ اس مرحلے پر والدین کا پیمانۂ صبر لبریز ہوجاتا ہے اور وہ اولاد سے سختی کرتے ہیں۔ شیکسپیئر کا قول ہے: ’’محبت کرو اس سے پہلے کہ تم سے نفرت کی جائے‘‘۔

بہت سے والدین کے نزدیک اولاد کی تربیت میں سختی و شدت ناگزیر ہے۔ وہ سزا اور سختی کے سوا کسی عمل کو مفید نہیں سمجھتے۔ ان کی نظر میں تربیت کے تمام طریقے غیرمؤثر اور سمجھانے کے تمام ذرائع بے کار اور غیرمفید ہیں۔ اپنے اس طریق کار کے درست ہونے کی، ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے خود اسی نہج پر پرورش پائی ہے۔ چنانچہ اس قسم کے باپوں میں سے ایک ’باپ‘ نے مجھے بتایا:’’میں اپنے باپ کے سامنے چپ چاپ کھڑا رہتا تھا۔ نہ تو میں اس سے بات کرتا تھا اور نہ اس کی قطع کلامی کی ہی جسارت کرتا تھا۔ وہ جب بھی بات کر رہا ہوتا تو مجھے جواب دینے یا کچھ بولنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ کیوں کہ باپ کی بات کا جواب دینا، بیٹے کی طرف سے باپ کی شان میں گستاخی تصور کیا جاتا تھا اور اسے بے ادبی پر محمول کیا جاتا تھا۔ والدصاحب اپنی آواز بہت اُونچی کرلیتے تھے، جب کہ میں چپ سادھے رہتا تھا۔ مجھے ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت میری پٹائی کرسکتے ہیں۔مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ مجھے کب پیٹیں گے اور کیسے زدوکوب کریں گے؟ وہ اپنے خطاب کے دوران یک دم میرے چہرے پر دائیں بائیں سے تابڑ توڑ تھپڑ رسید کرتے تھے۔ میرے لیے حکم یہ ہوتا تھا کہ پتھروں کی اس بارش کے دوران خاموش کھڑا رہوں اور بالکل حرکت نہ کروں۔ میرے والدین نے میری تربیت اس طرح کی ہے اور جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں___ میں مرد بن چکا ہوں‘‘۔

میں نے اس باپ سے پوچھا: کیا آپ بھی اپنی اولاد کے ساتھ یہی وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا: یقینا، مجھے امید ہے کہ میری اولاد ضرور سیدھے راستے پر چلے گی۔ میں نے کہا: ذرا مجھے یہ بتایئے کہ جب آپ بیٹے سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا: وہ میرے سامنے کھڑا کانپتا رہتا ہے، خاموشی سے میری باتیں سنتا ہے اور بالکل جواب نہیں دیتا۔

اس قماش کے باپ کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی درست نہج پر تر بیت کرسکے۔ یہ تو ممکن ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو چپ کرا دے اور اسے ماتحت و فرماں بردار رہنے پر مجبور کردے مگر ایسا باپ اپنی اولاد میں بزدلی، بے بسی، بے ہمتی ، عاجزی اور ذلّت و خواری کے بیج بو دیتا ہے۔ وہ معاشرے کو نفسیاتی لحاظ سے ایک شکست خوردہ، مغلوب و مضطرب شخصیت پیش کرتا ہے۔ ایسا باپ ایک متوازن اور طاقت ور شخصیت کی تعمیروتشکیل سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ایسی شخصیت کبھی پیش نہیں کرسکتا جو اپنے آپ کو نفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہو اوردیگر افرادِ معاشرہ کے لیے بھی مفید ثابت ہو، اور یوں خاندان کی عمارت کی تعمیر کے لیے ایک مضبوط اینٹ کا کام کرے۔ اپنے سماج اور اپنی قوم و ملّت کے لیے مفید شخصیت تیار کرنا ایسے باپ کے بس کا روگ نہیں۔

محبت سے تربیت کی اہمیت اور ذرائع:

محبت سے اولاد کی تربیت کرنا انتہائی ضروری ہے،تاکہ ہم موافقت و ہم آہنگی اور یکسانیت و تال میل سے بھرپور زندگی گزار سکیں۔ یوں ہم اپنے پروردگار کو بھی راضی کرسکنے کے قابل ہوجائیں گے اور ہم اور ہماری اولاد دنیا و آخرت میں سرخ رو اور کام یاب ہوجائیں گے ۔ ہم ایک ایسا معاشرہ وجود میں لاسکیں گے جو توانا و مضبوط ہو، باہم مجتمع و ہم آہنگ ہو اور جس کا ہرفرد دوسروں سے محبت و اُلفت کرنے والا ہو۔ سوال یہ ہے کہ محبت کے ذریعے اولاد کی تربیت کے طریقے کیا ہیں؟

یوں تو ماہرین نفسیات و عمرانیات اور ماہرین تربیت نے محبت کے ذریعے اولاد کی تربیت کے متعدد ذرائع اور طریقے بیان کیے ہیں مگر ان میں سے اہم ترین طریقے درج ذیل ہیں:

کلامِ محبت:

انسانوں کی تربیت، ان کی راہ نمائی کے لیے دلوں میں اُلفت پیدا کرنے، اور ان کے اُمور و معاملات اور نفوس کی اصلاح کے لیے کلام، یعنی بات چیت اور گفتگو انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ کلام دراصل اس گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہے جو پتوں اور پھلوں سے لدا ہو اور بے شمار منافع و فوائد رکھتا ہو۔ اللہ سبحانہٗ نے کلام کو ایک درخت سے تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ فرمایا: اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَـلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ o تُؤْتِیْٓ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ م بِاِذْنِ رَبِّھَا ط وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ o (ابراہیم ۱۴:۲۴-۲۵) ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ (پاکیزہ کلام) کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں‘‘۔

ایک تحقیقی مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ ایک فردہوش سنبھالنے سے لے کر کامل بلوغ تک ۱۶ہزار منفی (بُرے) الفاظ سنتا ہے، جب کہ وہ اس مدت میں مثبت (اچھے) الفاظ صرف چند سو ہی سنتا ہے۔ ہم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ سلبی و منفی، یعنی بُرے الفاظ و کلمات ہمارے بچوں کی تربیت پر کتنے بُرے اثرات مترتب کرتے ہیں۔

ماہرین تربیت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ماں باپ یا تربیت کرنے والوں کی طرف سے بچے کی توہین کی جاتی ہے اور اسے بُرے بُرے القاب و صفات سے پکارا جاتا ہے تو بچہ اپنی ذات کے بارے میں، اپنے ذہن میں ایک تصویر یا خاکہ بنا لیتا ہے۔ گویا اپنی ذات کے بارے میں یہ ذہنی تصویر ، اس کلام کا نتیجہ ہوتا ہے، جو وہ اپنے بارے میں لوگوں کی زبانوں سے سنتا ہے۔یوں سمجھیے کہ بچے کے بارے میں دوسروں کی باتیں نقاش (مصور) کا برش ہیں۔ نقاش بچے کے بارے میں باتیں کرنے والا ہے۔ اگر بچے کے بارے میں اور بچے سے بات کرنے والا شخص کالے رنگ کا بُرش استعمال کرتا ہے تو سیاہ تصویر وجود میں آتی ہے اور اگر وہ خوب صورت رنگ استعمال کرتا ہے تو تصویر بھی حسین ہوگی۔

کچھ باپ جب اپنے بیٹوں سے بات کرتے ہیں تو اپنی گفتگو سے ان کی شخصیتوں کو   مسخ کردیتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے بیٹے کی قدروقیمت کم نہ کیجیے۔ ایک ماں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بات کرتے وقت اس کی شخصیت کو کچل دے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے باتیں کرتے وقت توہین آمیز لفظوں، تحقیرآمیز باتوں، طعن و تشنیع، تمسخرو استہزا اور گالم گلوچ سے مکمل اجتناب کریں۔ وہ کسی بھی صورت میں منفی الفاظ و کلمات استعمال نہ کریں۔ کیوں کہ بچوں کے ساتھ منفی رویہ اختیار کرنے سے، اس کے انتہائی تلخ نتائج سامنے آیا کرتے ہیں۔ چنانچہ بچوں میں علیحدگی پسندی، کم آمیزی، جارحیت، مختلف طرح کے خوف، عدمِ خوداعتمادی، تحقیر ذات، نفسیاتی امراض اور طرح طرح کے بگاڑ جنم لیتے ہیں۔

نگاہِ محبت:

کتب ِ سیرت و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھے والا ہرشخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ دیگر تمام حاضرین کے مقابلے میں حضوؐر کا سب سے زیادہ محبوب ہے۔ کیونکہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہرشخص کو محبت بھری نظر سے دیکھتے تھے۔ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں جھانکیے، اس کے سامنے مسکرایئے، محبت بھری نگاہ کے ساتھ ساتھ محبت آمیز بات چیت کیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ میرا یہ مشورہ پڑھ کر قارئین کرام میں سے کوئی سخت گیر باپ یہ کہے: میں یہ کیسے کروں؟ اس لیے کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو اس کا عادی نہیں بنایا اور اگر میں اپنے بیٹے کو پیاربھری نظر سے دیکھ بھی لوں تو وہ ضرور حیران ہوگا۔ اب میں اس کی حیرت کا جواب کیا دوں؟ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ اپنے بیٹے کے والد ِ محترم ہیں، آپ ایک شفیق باپ ہیں۔ خدارا! اپنے بیٹے پر دھاوا بولنے اور حملہ کرنے کے انداز کو ترک کردیجیے اور اس سے مسکرا کر بات کیجیے۔ اگر بیٹا ، آپ سے اس اچانک تبدیلی کا راز پوچھے تو آپ اسے یوں جواب دیجیے: ’’بیٹا، میں آپ سے محبت کرتا ہوں‘‘، یا ’’میرے لخت ِ جگر مجھے تمھارا ہمیشہ خیال رہتا ہے‘‘۔

محبت آمیز لمس:

یہ خلافِ حکمت ہے کہ آپ اپنے بیٹے سے برتر و اعلیٰ ہوکر بات کریں، برتری خواہ جگہ اور مقام کے اعتبار سے ہو یا گفتگو کے لحاظ سے۔ آپ اپنے بیٹے سے   اس طرح بات نہ کریں کہ آپ تو ایک اُونچی کرسی پر براجمان ہوں اور وہ نیچے بیٹھا ہو، اور نہ اس اسلوب و انداز میں ہی بات کریں کہ گویا آپ ایک فوجی کمانڈر ہیں اور بیٹا آپ کا ایک ماتحت سپاہی اور آپ اسے احکام دے رہے ہیں اور وہ ’جی جناب، جی جناب‘ کہہ رہا ہے۔یہ بھی حکمت کا تقاضا نہیں کہ آپ دُور سے ہی بیٹے سے مخاطب ہوں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ ہرلحاظ سے بیٹے کے نزدیک ہوں، دل سے بھی نزدیک، مجلس کے لحاظ سے بھی قریب اور بات چیت کے انداز سے بھی۔

آپ جب بھی اپنے بیٹے یا بیٹی سے بات کریں تو پہلے اس کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھیں۔ آپ کی آواز میں محبت ہونی چاہیے۔ آپ کے لمس میں شدت و سختی نہیں بلکہ نرمی و محبت ہونی چاہیے، اور اس لمس میں شفقت ِ پدری  ہو۔ اس سے آپ کی اولاد کو پیغامِ امن و امان ملے۔ پدرانہ محبت کی لہر اولاد کے دلوں تک سرایت کرجائے اورانھیں اس بات کا احساس ہو کہ وہ آپ کے وجود کا حصہ اور جز ہیں۔ آپ جب گھر سے باہر جانے لگیں تو بچوں سے ضرور مصافحہ کیجیے، یا جب آپ کے بچے گھر سے باہر نکلنے لگیں تو  بھی آپ ان سے ہاتھ ملایئے اور اپنی دعائوں کے ساتھ انھیں رخصت کیجیے اور ان کے سر پر اپنا دست ِ شفقت رکھیے۔

اب ذرا سا رُک کر، اپنا جائزہ لیجیے کہ آپ ان گزارشات پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں؟

محبت سے بغل گیر ھونا:

بچوں کی نفسیاتی حاجات و ضروریات میں سے ایک محبت ہے۔ لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت و تشنگی کو پورا کیا جائے۔ والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہوگی اور محرومی سے بچوں کے لیے متعدد نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے۔ والدین جب اپنے بچوں سے بغل گیر ہوتے ہیں تو اس سے بچوں کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے، لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے بغل گیر ہونے میں بخل و تردّد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یقین جانیے کہ بچوں کو والدین سے معانقہ کرنے اور ان کے ساتھ محبت سے لپٹنے کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے، جتنی انھیں کھانے پینے اور سانس لینے کی حاجت ہوتی ہے، بلکہ محبت کی چاہت و حاجت، خوراک کی حاجت سے بھی بڑھ کر ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس فطری حاجت کو پورا کریں۔

بوسۂ شفقت:

رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنے نواسوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو چوم رہے تھے کہ ایک بدو سردار الاقرع بن حابس آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ اس کے لیے یہ ایک عجیب بات تھی۔ چنانچہ تعجب سے پوچھا: کیا آپؐ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ میرے ۱۰ بچے ہیں، اللہ کی قسم! میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی نہیں چوما۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’اللہ نے اگر تمھارے دل سے اپنی رحمت سلب کرلی ہو تو مَیں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘

والدین جب بچے کو چومتے ہیں تو اس سے بچے کے قلب و نفس پر رحمت و شفقت چھا جاتی ہے۔ اسے امن و امان کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو بوسہ دے کر ہی انھیں اپنی محبت و شفقت کے احساس سے سرشار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کو محبت و شفقت کے بوسے سے محروم کریں گے تو وہ ہم سے دُور ہٹیں گے۔ نفرت و بے زاری اور سنگ دلی و سختی ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ وہ بچپن سے ہی دُوری اور کم آمیزی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ والدین کے بوسۂ شفقت سے ہی بچوں کے درد و الم دُور ہوتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی زخم مندمل ہوتے ہیں اور ذہنی روگ ختم ہوتے ہیں۔  ہم محبت آمیز بوسے سے اپنے بچوں اور بچیوں کو خوشی و مسرت سے ہم کنار کرسکتے ہیں اور انھیں محبت و اُلفت، رضامندی اور شوق و وارفتگی سے معمور کرسکتے ہیں۔

محبت بہری مسکراھٹ:

اولاد کے سامنے ہماری مسکراہٹ بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ ہمارے اس تبسم سے انھیں مسرت نصیب ہوتی ہے۔ یوں ہمارے اور ان کے مابین ایک  خوش گوار رابطہ استوار ہوتا ہے اور باہم محبت بڑھتی ہے۔ اس مسکراہٹ سے خوشیاں ملتی ہیں اور خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ دلوں کے سرچشمے سے مسرتیں پھوٹتی ہیں۔

والدین سے گزارش ہے کہ آپ ذرا آئینے کے سامنے کھڑے ہوجایئے۔ ایک بار مسکرایئے اور پھر آئینے میں دیکھیے۔ ایک بار ترش رُو ہوکر آئینے میں دیکھیے اور پھر دونوں کا فرق ملاحظہ کیجیے۔ یقینا والدین کی خندہ پیشانی، ان کی مسکراہٹ اور ان کی قربت سے اولاد کو مسرت و فرحت ملتی ہے۔ والدین کے قرب کا حصول، اولاد کی دیرینہ تمنا ہُوا کرتی ہے۔ وہ اس قربت سے     اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ یوں ان کے دل ماں باپ کے لیے کھل جاتے ہیں۔ وہ سچی محبت و یگانگت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ وہ والدین سے سچی محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب بچے ہم سے محبت کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ترجیح دیتے ہیں اور ہماری فرماں بردار ی کرتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ، جو طرزِعمل ہوتا تھا، اس کی عکاسی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یوں کی ہے:’’آپ سب سے بڑھ کر نرم دل، مسکرانے اور ہنسنے والے تھے‘‘۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تمھارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔ (ترمذی)

والدین کو چاہیے کہ وہ محبت کے ذریعے بچوں کی تربیت کا ضرور تجربہ کریں۔ اس تربیت میں انھیں یہ اقدامات کرنا ہوں گے: کلامِ محبت، نگاہِ محبت، محبت بھرا لمس، محبت سے بغل گیر ہونا، بوسۂ شفقت اور محبت آمیز مسکراہٹ۔(المجتمع، کویت، شمارہ ۱۹۵۱، ۷مئی ۲۰۱۱ء)