ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | مارچ ۲۰۱۳ | شذرات
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری اور سیکولر ملک بھارت میںگذشتہ دنوں ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ بھارت کے مرکزی وزیرداخلہ سشیل کمار شندے نے یہ بیان دیا کہ ہندو انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس اور اس کی سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی ملک میں ہندو دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہے۔ دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کی حمایت کرتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے بیش تر واقعات کی یہی دو پارٹیاں ذمہ دار ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگائوں کے واقعات میں بھی یہی ملوث ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ نے یہ بیان کسی جلسہ عام یا پریس کانفرنس میں نہیں دیا بلکہ ملک کی برسرِاقتدار پارٹی آل انڈیا کانگریس کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں دیا جو ۲۰فروری کو جے پور میں ہورہا تھا۔ یہ کوئی سیاسی بیان بھی نہیں تھا بلکہ ملکی امن و امان کے صورت حال پر مباحثے کے دوران پارٹی کی قیادت کو مطلع کرنے کے لیے ایک حقیقت کے طور پر بیان کیا گیا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ مسٹر شندے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ بیان پبلک میں بھی جا سکتا ہے ۔ لیکن آج کے میڈیا کے دور میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بڑی سیاسی پارٹی اور وہ بھی حکمران کانگریس پارٹی کے اجلاس کی ایسی اہم بات باہر نہ آئے، اور ایسا ہی ہوا۔ اس پر فوری رد عمل سامنے آیا جس نے کانگریس پارٹی کو دفاعی پوزیشن میںڈال دیا ۔ بی جے پی اور اس کے حمایتی سیاسی گروپوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسے ہندوئوں کے خلاف حکومتی پروپیگنڈے سے تعبیر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکمران پارٹی معافی مانگے، بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے حکومت سے استعفے کا بھی مطالبہ کر دیا ۔ ہندو پریس نے بھی اس پر خاصے جارحانہ تبصرے کیے۔ حکومت پر ’ہندومخالف‘ اور مسلمانوں کے حامی ہونے کے الزامات لگائے گئے ۔ مسلم تنظیموں اور صحافتی حلقوں نے اس بیان پر محتاط ردعمل کااظہار کیا ۔ ۲فروری کو جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے جماعت کے مرکزی دفتر میںپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت اس معاملے میں ضروری اور عملی اقدامات اٹھائے ۔ انھوں نے کہا کہ حا ل ہی میں بھارت کے مختلف شہروں میں جو مسلم کش فسادات ہوئے ہیں اور ا س میں بھارتی پولیس کا جو متعصبانہ کردار رہا ہے، اس بیان سے اس کی سنگینی کم نہیں ہو سکتی ۔
مہاراشٹر میں دہشت گردی کے خلاف مہم کے نام پر جس بے دردی سے چھے مسلم نوجوانوں کو بھارتی پولیس نے موت کے گھاٹ اتارا ہے وہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ صوبائی وزیر اعلیٰ نے دہلی پولیس کی اس کارروائی پر گہرے صدمے کا اظہار کیا لیکن، یہ ناکافی ہے۔
سہ روز ہ مسلم اخبار دعوت (نئی دہلی) نے مرکزی وزیر داخلہ کے بیان پر دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’کیا وزیر داخلہ نے یہ بیان سوچ سمجھ کر دیا ہے یا ان کے منہ سے یہ سچی اور راز کی بات اچانک نکل گئی ہے ؟ دراصل شندے کے ان ریمارکس کا جائزہ نفسیاتی پہلو سے لینے کی ضرورت ہے ۔ شندے اس وقت مرکزی وزیر داخلہ ہیں۔ اندرونی سلامتی اور لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری براہِ راست ان کی ہے ۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ان ہی کی ماتحت ہیں اور پل پل کی خبریں ان تک پہنچاتی ہیں‘‘ ۔ دعوت نے مزید لکھا ہے کہ ’’ان اطلاعات کی بنیاد پر کارروائی کرنا یا نہ کرنا ،اور کرنا تو کس نوعیت کی کرنا ،یہ سب سرکار کی طے شدہ پالیسی پر منحصر ہوتا ہے اور سرکار کی پالیسی اس سلسلے میں وہی ہے جو بی جے پی کی ہے ۔فرق صرف طریقوں میں ہے‘‘ ۔(دعوت، دہلی، ۲۹ جنوری ۲۰۱۳ء)
دراصل حکومت ِہند کا سارا زور فرضی مسلم دہشت گردی کو حقیقت ثابت کرنے پر ہے اور اس کے لیے پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیاں مسلسل بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف خونی کارروائیاں کر کے یہ کام سرانجام دے رہی ہیں۔ ملّی گزٹ آن لائن میں ممتاز قلم کار اعجاز ذکا سید لکھتے ہیںکہ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے ہندو دہشت گردی کے بارے میں بیان دے کر ’’بلی کو کبوتروں کے ڈربے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ کانگریس پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے سامنے یہ بیان دے کر شندے نے ہندواتا بریگیڈاور اس کے حمایتی صحافتی گروہوں کو مبارزت [جنگ] کی دعوت دی ہے ۔ کانگریس کو ہندو اور مسلم ووٹ دونوں درکار ہیں۔ اس کے حصول کے لیے اس کا ایک مخصوص طریقۂ کار ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندستان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا پسندیدہ شکار مسلم آبادی ہے اور وہ دونوںاس پر پنجہ آزمائی کررہے ہیں، جب کہ عام طور پر کسی جمہوری نظام میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ایک توازن رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ہندستان میں مسلم آبادی کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود وہ کسی قابل ذکر مسلمان قیادت یا سیاسی پارٹی سے محروم نظر آتی ہے، اور مسلمان بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کسی کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ کسی ایک مسلم پارٹی کو منتخب کر کے اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈالیں تو ایک موثر اپوزیشن پارٹی وجود میں آسکتی ہے جو ہندو اکثریت کے ملک میں ایک بڑی مسلم اقلیت کے مفادات کی نگہبانی کر سکے ۔