آج ۲۸فروری اور پاکستان میں صبح سوا بارہ بجے کا وقت ہے۔ بنگلہ دیش میں ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کا ایک جج فضلِ کبیر اپنے دوساتھیوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا ہے، سامنے کٹہرے میں مفسرِقرآن، بنگلہ دیش میں لاکھوں دلوں کی دھڑکن ، جماعت اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سعیدی کھڑے ہیں، جن کا چہرہ مطمئن اور دائیں ہاتھ میں قرآن کریم ہے۔
جج کے رُوپ میں انصاف کا قاتل ۱۲۰ صفحے کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہتا ہے: ’’دلاور حسین کے خلاف ۲۷،اور حمایت میں ۱۷ گواہ پیش ہوئے۔ چونکہ ۲۰ الزامات میں سے آٹھ الزامات ثابت ہوئے ہیں، اس لیے:He will be hanged by neck till he is dead. (انھیں پھانسی کے پھندے پر اس وقت تک لٹکا رہنے دیا جائے جب تک یہ مر نہیں جاتے)۔
اگلے ہی لمحے ڈھاکا میں کمیونسٹوں کا اخبار ڈیلی سٹار انٹرنیٹ ایڈیشن میں سرخی جماتا ہے: Sayeed to be hanged ۔ اور انڈین ٹیلی ویژن NDTV مسرت بھرے لہجے میں بار بار یہ سرخی نشر کرتا ہے: Senior Jamaat leader gets death sentence۔
علامہ دلاور حسین سعیدی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور چپ چاپ، جلادوں کے جلو میں پھانسی گھاٹ جانے والی گاڑی کی طرف مضبوط قدموں کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔
۱۹۷۶ء سے دلاور حسین سعیدی، اسلامیانِ بنگلہ دیش کے دلوں پر راج کرنے اور قرآن کا پیغام سنانے والے ہر دل عزیز خطیب ہیں، جو متعدد بار پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ انھیں ۲۹ جون ۲۰۱۰ء کو حسینہ واجد کی حکومت نے گرفتار کیا۔ ڈھائی برس کے عدالتی ڈرامے کے بعد آج سیاہ فیصلہ اس حال میں سنایا کہ پورا ڈھاکا شہر اور دوسرے بڑے شہر ’بارڈر گارڈ بنگلہ دیش‘ (بی جی بی) اور ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘(آر اے بی) کی سنگینوں تلے کرفیو کا منظر پیش کر رہے تھے۔ دوسری طرف شاہ باغ میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیراہتمام مظاہرہ پروگرام چل رہا ہے کہ ’’مارچ میں جماعت کے لیڈروں کو پھانسی دو‘‘۔ فیصلے کے اعلان کے بعد احتجاجی مظاہرہ کرنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے ۳۰ کارکنوں کو گولی مار کر شہید کر دیا، سیکڑوں کو زخمی اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔