قاضی حسین احمدؒ اور پروفیسر عبدالغفور احمدؒ (فروری ۲۰۱۳ء)، دونوں رہنمائوں سے متعلق ان کی دینی، علمی، قومی و ملّی اور سیاسی خدمات اور ان سے ذاتی تعلق اور روابط کی روشنی میں جس طرح تذکرہ کیا گیا ہے، وہ قابلِ قدر ہے۔ قاضی حسین احمد ؒ کے بارے میں آپ نے صحیح لکھا ہے کہ وہ جلال اور جمال کا مرقع تھے، اور پروفیسر غفور احمد ؒ ایک نفیس، باذوق، محبت کرنے والے اور راست باز انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ قاضی صاحب اور پروفیسرعبدالغفور صاحب رحمہم اللہ کی لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے علییّن میں جگہ دے، آمین!
قاضی حسین احمدؒ اور پروفیسر عبدالغفور احمدؒ (فروری ۲۰۱۳ء) دونوں پاکستان کے سنجیدہ اور مخلص رہنما تھے۔ پروفیسر عبدالغفور احمدؒ آئینی اُمور میں متخصص کا درجہ رکھتے تھے، جب کہ قاضی حسین احمدؒ تو چیز ہی دوسری تھے۔ وہ ایک سیاسی و مذہبی رہنما سے بڑھ کر ایک مربی اور ہمدرد رہنما تھے۔ اُن کی ایک عالمی سوچ تھی۔ وہ عالمی اسلامی تحریک کے ایک فرد تھے۔ وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک انجمن تھے۔ یہ پاکستان کے لیے اعزاز کی بات تھی کہ قاضی حسین احمد کی صورت میں اُسے ایک عالمی سطح کا رہنما مل گیا تھا۔ ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ ہم نے انھیں مقامی اُلجھنوں میں اُلجھا دیا۔ قاضی حسین احمد نے تو سیّد جمال الدین افغانی مرحوم کا کردار ادا کرنا تھا اور بڑی حد تک ادا کیا بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اُن کی کماحقہ قدر نہ کی۔ ہم نے انھیں سیاسی رہنما سے آگے کچھ نہ سمجھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ سیدابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کا فیضانِ نظر تھا کہ اُن کے تربیت یافتہ دونوں حضرات نے مثالی کردار ادا کیا اور اچھی مثالیں قائم کر کے چلے گئے۔ فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں محمدشکیل، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور خبیب انس، کراچی کے خطوط قابلِ توجہ ہیں۔ اُن پر غور کیا جانا چاہیے۔
’ملکی بحران : حل کے پانچ اصول‘ (فروری ۲۰۱۳ء) میں مولانا مودودیؒ کی درپیش مسائل کے حل کے لیے فکرانگیز اور اصولی و عملی رہنمائی ہے۔ کاش! ہمارے اہلِ فکرودانش اور اربابِ اقتدار آج ان اصولوں پر عمل پیرا ہوسکیں اور ملک مسائل کے گرداب سے نکل سکے۔ڈاکٹر خالد محمود ثاقب کا مضمون ’تزکیہ و تربیت،چند اہم پہلو‘ کارکن کو عمل پر اُبھارتا ہے، مسائل کا حل پیش کرتا ہے، نیز مایوسیوں میں اُمید اور روشنی کا پیغام ہے۔
مغربی تہذیب کی ساحری سے مسحور، قرآن و سیرت رسول کریمؐ کی ضرورت سے بے پروا طائفہ دانش وراں نے پچھلے ایک عشرے میں اہلِ پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کے شعور سے بے بہرہ رکھنے کے لیے جو خصوصی مہم چلائی ہوئی ہے اس کا نمایاں مظہر ’امن کی آشا…‘ کا ڈھنڈورا ہے۔ ایک سال ہوگیا جب پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ کے نصب العین سے پاکستان کی نوجوان نسل کو بے بہرہ اور لاتعلق کرنے کے لیے… ’لکھنے پڑھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا‘ ایک اشتہاری فقرہ بنا کر معصوم بچوں کی آواز میں دن میں کوئی ۲۳مرتبہ الاپا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ عالم گیریت - گلوبلائزیشن کے عنوان سے بھی بہت سے مغالطے برپا کیے گئے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر محمد عمرچھاپرا نے ’عالم گیریت: اسلام کی نگاہ میں‘ (فروری ۲۰۱۳ء)میں اس مسئلے پر جو رہنمائی دی ہے، اس سے ہمارے تصورِ حیات پر اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔
خوشی کے حصول کے لیے کتاب (خوشیوں بھری زندگی،فروری ۲۰۱۳ء)میں بہت سے طریقے بتائے گئے ہیں ۔ ہم نے کتاب میں یہ بھی درج کیا ہے کہ ہر طریقہ ہر فرد کے لیے مؤثر نہیں۔ لہٰذا ہرفرد اپنی پسند کے چند طریقے منتخب کرے اور ان پر عمل کر کے اپنی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے۔
’امریکا میں دہشت گردی ، عالمی ضمیر کے لیے چند سوال‘ (جنوری ۲۰۱۳ء) سے امریکا کے اندورنی خلفشار اور بڑھتی ہوئی جنونی لہر سے آگاہی ہوئی۔ ع تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی۔ یہاں مجھے مدیر ترجمان سے بھی گلہ ہے کہ عصرِحاضر کی بے باک ترجمانِ اسلام محترمہ مریم جمیلہؒ سے تعارف اس وقت کروایا جب ہم سواے غم کے آنسو بہانے کے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی سعیِ جمیلہ کو قبول فرمائے، آمین!
’امریکا میں دہشت گردی اور عالمی ضمیر کے لیے چند سوال‘ (جنوری ۲۰۱۳ء) میں تصویر کی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔ پاکستان، افغانستان ، عراق پر ڈھائی گئی قیامت ِ صغریٰ جس میں ہزاروںبچے اپنی حیات سے محروم ہوگئے ہیں، لیکن عالمی طاقتیں ان بچوں کو انسانی فہرست میں شمار تک نہیں کرتیں۔ حقیقی موت تو احساس اور ضمیر کی موت ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مغربی استعمار ضمیر کی موت سے دوچار ہے۔ ’مصری تاریخ کا پہلا جمہوری دستور‘ میں مصری حکومت اور اخوان کی کامیاب کوششوں اور سیکولرلابی کی مخالف سرگرمیوں کو عمدگی سے بے نقاب کیا گیا ہے۔ افسوس کہ ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی حقائق سے پردہ پوشی کرتا رہا۔
’جنسی بے راہ روی ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) کے تحت ایک اہم معاشرتی مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب نے اپنی بے لگام خواہشات اور جذبات کی تکمیل کے لیے انسانی حقوق کی مادرپدر آزادی کا جو فلسفہ دیا وہ کسی بھی طرح انسان کے لیے درست نہیں۔ اس مادرپدر آزادی نے خاندانی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور معاشرہ معاشرتی انتشار سے دوچار ہوگیا ہے۔ آج وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین پر پچھتا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس بے راہ روی سے کوئی سبق سیکھنے کے بجاے ہمارا معاشرہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ٹیلی وژن، کیبل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے نوجوان نسل جنسی بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے اور اس کا خاندان پر بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ اس کے لیے جہاں علمی و فکری انداز میں توجہ دلانے کی ضرورت ہے وہاں پی ٹی اے اور پیمرا کو ضابطہ اخلاق کا پابند کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کی بھی ضرورت ہے۔
بیمار قوم یا کسی بھی بیمار شخص کا علاج اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہوجاتی۔ ہمارے ملک پاکستان میں برائیوں کی اصل ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ خود پاکستانی قوم ہے۔ کیا امیر کیا غریب، کیا پڑھے لکھے کیا اَن پڑھ، سواے چند کے ہرشخص اپنے ہرمسئلے اور ہر گناہ کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود مطمئن ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتا ہے۔اگر ہم اپنے آپ کو زندہ قوم سمجھتے ہیں تو دن رات بُری حکومت کا رونا چھوڑ کر ہم اپنی ان برائیوں کی نشان دہی کریں جن کی وجہ سے اللہ ہم سے ناراض ہے، اور ان کو دُور کرنے کی جتنی اللہ نے ہم کو صلاحیت دی ہے، کوشش کی جائے۔
ملک میں نئے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے۔ شفاف انتخابات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سوموٹونوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمشنر اور حکومت کو پابند کریں کہ وہ آئین کی دفعہ ۶۲، ۶۳ کے تحت انتخاب لڑنے والے نمایندوں کی جانچ پڑتال کریں اور ایسے نمایندوں کو الیکشن لڑنے سے روک دیں جو آئین کے مقرر کردہ اصولوں پر پورا نہ اُترتے ہوں۔ نیز پاکستان کے دستور کی اِن دفعات کو عملہ جامہ پہنانے کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کریں۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد حکومت کو پابند کرتی ہے کہ پاکستانی عوام کو اسلام کے احکام سے روشناس کرائے اور اُن کے لیے اسلام پر عمل کرنے کو آسان بنائے۔ پاکستان کے دستور کی ان دفعات پر عمل کرنے پر حکومت کو حکم جاری کیا جائے۔
’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ء) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟
’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ء) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ء) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)
ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں اور ایم ایم اے کی حکومت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔
واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔