پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اپنی مجلسوں میں کہا کرتی تھی: ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا، جب میں نے پاکستان میں مداخلت کر کے بنگلہ دیش بنایا‘‘۔ لیکن دوسری طرف عجب معاملہ ہے۔ سابق مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ ۱۹۷۱ء کے المیے کو اپنا کارنامہ قرار دیتی ہے، ۴۰برس بعد ان لوگوں کو قابلِ گردن زنی قرار دیتی ہے، جنھوں نے دشمن ملک کے حملوں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کیا۔ آج کے بنگلہ دیش میں اسی اندرا کے پرستار حکمران پاکستان کا نام لے کر اسلام اور اسلامیانِ بنگلہ دیش کے خلاف آگ اُگل رہے ہیں اور اسلامی سوچ کے حامل افراد کو خون میں نہلا رہے ہیں۔ ۱۰ فی صد ہندو آبادی ان بلوائیوں کا مؤثر حصہ ہے اور دہلی نواز عوامی لیگ کے کارکن اور نیم فوجی تنظیمیں ان کی پشت پناہ ہیں۔ ہندستانی خارجہ پالیسی سے حرارت حاصل کرنے والے ذرائع ابلاغ اس صورتِ حال کو دہکتے الائو میں تبدیل کرنے کے لیے ہرلمحہ مستعد ہیں۔
نومبر ۲۰۱۲ء میں جب نام نہاد ’انٹرنیشنل وار کرائمز‘ ٹربیونل ( ICT) کے صدر جج نظام الدین کی غیراخلاقی، غیرقانونی اور دھاندلی آمیز گفتگو کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹا، اور اس نام نہاد ’جج‘ کو استعفا دے کر گھر کی راہ لینا پڑی تو نئی دہلی اور ڈھاکہ میں حکمران پارٹیوں نے بہ عجلت ِتمام ایک ڈراما اسٹیج کرنے کی ٹھانی۔
سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ نام نہاد، ٹربیونل‘ جو بار بار سرکاری وکلا کی حماقتوں اور خانہ ساز گواہوں کے جعلی پن کے ہاتھوں دنیابھر میں رسوا ہو رہا تھا، اس نے جماعت اسلامی کے قائدین کے خلاف جعلی مقدموں کی کارروائی کو تیز تر کر دیا، تاکہ عوامی لیگ کے ’سیکولرانصاف‘ کی مزید دھجیوں کو بکھرنے سے بچایا جاسکے۔ یوں ۲۲جنوری ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک رہنما ابوالکلام آزاد کو سزاے موت دینے کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے سے بنگلہ دیش کی سیاسی فضا میں بھونچال آگیا۔ ملک بھر میں اس فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ حکومت نے ان مظاہروں سے توجہ ہٹانے اور دہشت طاری کرنے کے لیے عوامی لیگ کے کارکنوں کو مسلح کر کے گلی کوچوں میں پھیلانا شروع کر دیا، جن کی مدد کے لیے ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (RAB) اور ’بارڈر گارڈ بنگلہ دیش‘ (BGB) کے باقاعدہ دستے متعین کردیے۔
ابھی یہ کش مکش جاری تھی کہ جماعت اسلامی کے دوسرے رہنما عبدالقادر کو عمربھر قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ سزاے موت کے برعکس عبدالقادر کو عمرقید سزا سنانے کا جو مقصد تھا وہ اگلے ہی روز بے نقاب ہوگیا۔ عوامی لیگیوں، کمیونسٹوں اور ہندوئوں نے فوراً یہ مطالبہ اُٹھا دیا کہ ’عبدالقادر کو سزاے موت دی جائے، اور اس مطالبے کے لیے ڈھاکہ کے ایک چوراہے ’شاہ باغ‘ کو ان مظاہروں کا مرکز بنانا شروع کر دیا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر سیکولر قوم پرست بلاگروں نے: اسلام، قرآن، رسول کریمؐ اور اللہ تعالیٰ کے حوالے سے غلیظ ترین جملے لکھنا اور پھیلانا شروع کردیے ( راقم کے لیے ان میں سے ایک جملہ بھی نقل کرنا ممکن نہیں۔ ان جملوں کو پڑھ کر خون کھولتا اور آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں)۔ یہ کارٹونسٹ اور بلاگر ’شاہ باغ‘ مظاہروں کے نمایاں لیڈروں کے طور پر سامنے آئے۔ انھی میں سے ایک اہم بلاگر طارق شنٹو دل کا دورہ پڑنے سے بے ہوش ہوگیا، جسے شیخ مجیب الرحمن میڈیکل یونی ورسٹی ہسپتال لے جایا گیا، مگر وہ ملعون جاں بر نہ ہوسکا ۔ طارق شنٹو سبھی لوگوں کے سامنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے مرا، لیکن حسینہ واجد نے اس کی موت کو المیہ قرار دیا اور آخرت میں نجات کے لیے دعا مانگی (روزنامہ انڈی پنڈنٹ ڈھاکہ، ۲۰فروری ۲۰۱۳ء)۔ اسی طارق شنٹو کے مرنے کو دینی جماعتوں پر قتل کے الزام کی صورت میں پھیلایا گیا۔
۱۹فروری کو کاکسس بازار میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے تین کارکنوں کو سرِبازار گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ۱۸ فروری کو ’شاہِ باغ‘ چوک کو پُرونق بنانے کے لیے فلمی دنیا کے طائفے کو بھرپور تشہیر کے ساتھ لایا گیا جنھوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کی دینی جماعتوں کے خلاف زہرآلود تقریریں کیں۔ ۱۹ فروری ہی کو عوامی لیگ نے مطالبہ کر دیا کہ: ’’بنگلہ دیش کو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے صاف کیا جائے‘‘۔ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ’’مارچ ۲۰۱۳ء کے وسط تک مقدمے کو مکمل کرکے ملزموں کو پھانسی دی جائے‘‘۔
۲۰فروری کو عبدالقادر کو سزاے موت دینے کے لیے اپیل دائر کی گئی۔ اسی روز بنگلہ دیش حکومت کے وزیر بے محکمہ سرنجیت سین گپتا نے کہا: ’’ہمیں ۱۹۷۲ء کا اصل دستور بحال کرنا چاہیے (یاد رہے، اس دستور میں ایک پارٹی سسٹم اور غیرسرکاری اخبارات پر پابندی کا قانون ہے)۔ جماعت اسلامی پر ہرسطح پر پابندی لگانی چاہیے اور اس کے رہنمائوں کو موت کی سزا دی جائے‘‘۔ اسی وزیر نے شیخ مجیب کے سابق ساتھی قانون دان اور بنگلہ دیش کے اوّلین وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’یہ لوگ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے لیے سزاے موت کی تائید نہ کرکے قومی جرم کا ارتکاب کررہے ہیں‘‘۔ (روزنامہ انڈی پنڈنٹ، ڈھاکہ، ۲۱فروری ۲۰۱۳ء)
۲۲فروری بروز جمعہ بنگلہ دیش کے شہر شہر اور قصبہ قصبہ اسلامی قوتوں نے اسلامی شعائر کی توہین اور اسلامی قوتوں کی کھلے عام جدوجہد پر پابندی لگانے کی حکومتی مہم کی مذمت کی تو عوامی لیگ کی قیادت میں جوابی حملہ آوروں نے کئی جگہوں پر مساجد کو گھیرے میں لے لیا۔ ڈھاکہ کی مشہور مسجد بیت المکرم کے سامنے باقاعدہ میدانِ جنگ بنا رہا اور چارکارکنوں کو گولی مار کر شہید اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا۔
اسی طرح ۲۴فروری کو اسلامی قوتوں نے پورے بنگلہ دیش میں ہڑتال کی اپیل کی، جسے ناکام بنانے کے لیے پولیس، پیراملٹری فورس اور عوامی لیگ کے مسلح افراد نے صبح ہی سے مختلف جگہوں پر مظاہرین حملے شروع کردیے، جس میں ۱۰ کا رکن شہید ہوگئے۔
طرفہ تماشا یہ کہ خود مار بھی رہے ہیں اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتے جارہے ہیں کہ جماعت اسلامی پر پابندی لگائیں۔ اس سے بڑا مذاق یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی تمام سیکولر قوتیں اور انسانی حقوق کی علَم بردار پارٹیاں اس ظلم پر خاموش ہیں۔ پاکستان کے دفترخارجہ کے اہل کاروں کے منہ میں گویا کہ زبان ہی نہیں کہ جو اُس ہرزہ سرائی کا جواب دے، جو روزانہ پاکستان کو گالیوں کی صورت میں سنائی جارہی ہے۔