جب سے عرب بہار کا آغاز ہوا، پورے عالمِ اسلام میں جیسے زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ عرب ممالک ہی نہیں، مختلف خطوں میں تاریخ رقم کی جانے لگی۔ ہم یہاں ۱۲ ممالک کا تذکرہ کر کے حالات کی ایک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ
مراکش: مراکش میں دعوتی، تربیتی سرگرمیاں جماعۃ التوحید و الاخلاص کے نام سے، جب کہ سیاسی سرگرمیاں حزب العدالۃ و التنمیۃ (جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) کے نام سے ہورہی ہیں۔ عرب بہار شروع ہوئی تو بادشاہ سلامت محمد السادس نے حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خودہی دستوری اصلاحات کردیں اور انتخابات کروادیے۔ جسٹس پارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے اقتدار میں آگئی۔ پارٹی کے سربراہ عبد الالہ بنکیران وزیر اعظم بن گئے اور اصلاح کی کوششیں شروع کردیں۔ فی الحال بادشاہت اور سابق نظام کی باقیات کے سایے باقی ہیں لیکن عوام پُراُمید ہیں۔
تیونس: تیونس کی النہضۃ پارٹی بھی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے مقتدر ہے۔ ۱۶ سال قید میں رہنے والے علی العُرَیض حال ہی میں وزیر اعظم مقرر کیے گئے ہیں۔ ملکی معاملات میں سدھار آنے لگا تو ایک اپوزیشن رہنما شکری بلعید کو قتل کرکے احتجاج کے الاؤ بھڑکا دیے گئے ہیں، لیکن اُمید ہے ان پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ دستور سازی کا عمل تقریباً مکمل ہے جس کے بعد جولائی اگست میں پارلیمانی انتخاب ہوں گے۔
لیبیا: لیبیا میں کرنل قذافی کے خاتمے کے بعد اخوان کی سیاسی پارٹی عدل و تعمیر پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر رہی تھی۔ قذافی دور میں اخوان ہی کو سب سے زیادہ تشدد اور عقوبتوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے بعد ہر طرف تحریک اسلامی کی کامیابیوں سے خوف زدہ ہو کر لیبیا میں بیرونی مداخلت اپنے عروج پر جا پہنچی اور اس کے نتیجے میں ملک کی ۴۹سیاسی جماعتوں اور قبائلی و مسلح تنظیموں کا اتحاد بنا اور سرمایے کا سیلاب آگیا۔ اخوان کو ۲۰۰ کے ایوان میں صرف ۱۸نشستیں مل سکیں۔ لیکن جب حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو عوامی تائید کے حامل اخوان کا شریک اقتدار ہونا ناگزیر دکھائی دیا۔ اخوان میں شرکت اور عدم شرکت پر مختلف آرا تھیں، بالآخر شرکت کا فیصلہ ہوا اور وزارت پٹرولیم، وزارت اقتصاد جیسی اہم وزارتوں سمیت چھے وزارتیں اخوان کو دی گئیں۔
مصر: مصر میں اخوان المسلمون کو گذشتہ دو سال میں ایک دو نہیں پانچ مرتبہ الیکشن میں جانا پڑا اور الحمدللہ ہر بار سرخرو ہوئے۔ سب سے پہلے حسنی مبارک کے سقوط کے چند ہفتے بعد عبوری دستور پر ریفرنڈم کے لیے۔ پھر بالترتیب قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدر کے انتخابات کے لیے اور پھر ملک کے پہلے جمہوری دستور پر ریفرنڈم کے لیے۔ اسمبلی، سینیٹ اور صدر کے انتخابات میں ۵۱ فی صد ووٹ حاصل کرنے کی شرط کی وجہ سے انتخابات کے دو دو دَور ہوئے، اس طرح عملاً آٹھ مرتبہ عوام نے اخوان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ مصر کی اہمیت اور مرکزی حیثیت کی وجہ سے، اسرائیل ہی نہیں بعض عرب ممالک نے بھی مخالفین کو بلامبالغہ اربوں ڈالر، ذرائع ابلاغ کے خوف ناک طوفان، اور ملک کے ہر اہم ادارے میں براجمان حسنی دور کے کرپٹ ذمہ داران کے ذریعے اخوان کو ناکام کرنا چاہا، لیکن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاسکا۔ اب بھی حالانکہ دستور منظور ہوگیا اور ملک میں خدا خوف، محنتی اور باصلاحیت قیادت آچکی ہے، جسے سکون سے کام کرنے دیا جائے تو مصر تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کی نئی تاریخ رقم کردے۔ لیکن بدقسمتی سے مخالفین اور ملک دشمن عناصر اسی اصلاح احوال سے خوف زدہ ہیں۔ اب ان کے پاس کوئی ایشو نہیں رہ گیا تو بلاوجہ جلاؤ گھیراؤ اور مار دھاڑ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ حکومت نے ۲۲؍ اپریل سے ملک میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ چار مراحل اور دو دو اَدوار میں یہ انتخابی عمل جون کے اختتام تک مکمل ہوگا۔ اپوزیشن اور ڈکٹیٹر کی باقیات ایک بار پھر آگ اور خون کا بازار گرم کرنا چاہتی ہیں لیکن صدر مرسی اور ان کے ساتھیوں کو یقین ہے کہ اللہ کی نصرت انھیں آیندہ بھی ہر مرحلے میں سرخ رُو کرے گی۔
سوڈان: سوڈان میں بھی اسلامی تحریک برسراقتدار ہے۔ اسے بھی ہر طرف سے اقتصادی پابندیوں، فضائی حصار، پانچ پانچ ملکوں کی طرف سے مشترکہ جنگوں، جنوبی سوڈان کے باغیوں کی ۵۰ سال سے جاری بغاوت اور پھر جنوب کی علیحدگی، دار فور میں قبائل کی باہم لڑائی اور بدقسمتی سے خود تحریک کے اندرونی اختلافات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن الحمدللہ کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ جنوبی سوڈان کی علیحدگی سے پٹرول کے کنویں بھی چلے گئے، لیکن تیل کے نئے ذخائر کے علاوہ حال ہی میں پروردگار نے سونے کی بڑی مقدار سے نوازا ہے۔ اپنے پرائے سب مانتے ہیں کہ جب یہ حکومت آئی تھی اس وقت اور آج کے سوڈان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مسائل اب بھی بہت ہیں، لیکن یک سوئی اور اللہ پر ایمان کے بھروسے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
یمن: یمن میں ۳۳ سال کے شخصی اقتدار کے بعد جنرل علی عبد اللہ صالح کو بھی طویل عوامی جدوجہد کے بعد رخصت ہونا پڑا۔ اس وقت وہاں عبوری حکومت قائم ہے اور التجمع الیمنی للاصلاح کے نام سے تحریک اسلامی شریک اقتدار ہے۔ پانچ وزارتیں اور صدارتی کونسل میںنمایندگی ہے۔دو سال کے اندر اندر انتخابات ہونا ہیں۔ پاکستان کی طرح یمن پر بھی امریکی ڈرون حملوں کا زور ہے۔ حوثی قبیلے کے جو باغی سابق صدر علی عبد اللہ صالح کے ساتھ برسر جنگ رہتے تھے، اب علی صالح ان کا حلیف ہے اور حکومت سے لڑ رہا ہے۔ بدقسمتی سے بعض اسلامی ملک بھی جنگ اور اختلافات کی آگ پر ڈالروں اور اسلحے کا تیل چھڑک رہے ہیں۔
ترکی: خلافت اسلامی کا آخری مرکز ترکی تو پوری دنیا کے سامنے رول ماڈل بن چکا ہے۔ ترک حکومت کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ وہ نظریاتی، معاشی اور سیاسی محاذوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ حضرت عمر بن الخطابؓ کا یہ فرمان کہ ’’اگر راہ نہ پاکر فرات کنارے کوئی خچر بھی ٹھوکر کھانے سے مرگیا تو عمر اللہ کے ہاں جواب دہ ہوگا‘‘ ہمیشہ ترک ذمہ داران حکومت کی نگاہ میںرہتا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو پہلی بار کامیابی میں ۳۷ فی صد ووٹ ملے تھے لیکن اپنی کارکردگی کی وجہ سے آخری پارلیمانی انتخابات میں ۶۴ فی صد سے زائد ووٹ لے چکے ہیں۔ حکمران پارٹی نے اپنے منشور میں اعلان کیا تھا کہ اس کا وزیراعظم تین بار سے زائد اُمیدوار نہیں بنے گا۔ اس کی رُو سے آیندہ انتخاب اردوگان کا آخری انتخاب ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ترکی میں یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ ملک میں پارلیمانی کے بجاے صدارتی نظام حکومت رائج کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو عوام کا ایک طبقہ یہ راے رکھتا ہے کہ صدر عبد اللہ گل کی جگہ اردوگان صدر مملکت کی حیثیت سے نظام چلائیں۔
انڈونیشیا: انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے عالم اسلامی کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں بھی اسلامی تحریک گذشتہ صدی کے وسط سے کوشاں تھی، لیکن ۱۹۹۹ میں پہلی بار جسٹس پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت متعارف کرواتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا۔ صرف ۴ء۱ فی صد ووٹ ملے، دستور کے مطابق پارلیمنٹ میں آنے کے لیے کم از کم ۲فی صد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں، کوئی بھی سیٹ نہ ملی۔ مایوسی کا شکار ہونے کے بجاے انھوں نے۲۰۰۲ء میں ’مستحکم جسٹس پارٹی‘ کے نام سے نئی پارٹی رجسٹر کروائی اور ۲۰۰۴ کے انتخاب میں ۵۵۰ کے ایوان میں ۴۵ نشستیں حاصل کرلیں۔ ۳ء۷ فی صد ووٹ ملے اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی پارٹیوں میں ساتویںنمبر پر آگئے۔ ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں انھوں نے ۵۷ نشستیں حاصل کرلیں اور پارلیمانی پارٹیوں میں چوتھے نمبر پر آگئے۔ مستحکم جسٹس پارٹی، حکمران پارٹی کی حلیف اور حکومت میں شریک ہے۔ پانچ وزارتیں حاصل ہیں جن کی کارکردگی دیگرتمام وزرا سے نمایاں ہے۔۲۰۱۳ء میں وہاں پھر انتخاب ہونا ہیں۔
صومالیہ: صومالیہ اگرچہ کئی عشروں سے خانہ جنگی کا شکار رہے۔ ہر دھڑے نے ایک علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ چھوٹا سا ملک ہزاروں کلومیٹر طویل ساحل رکھتا ہے۔ عالمی تجارت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے بحیرہ احمر کے دروازے، باب المندب پر واقع ہونے کی وجہ سے عالمی بحری قزاقوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ حالیہ انتخابات میں ایک اسلامی ذہن اور اچھی شہرت رکھنے والے حسن شیخ محمود صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اسلامی تحریک نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے اور قدرے استحکام کا دور شروع ہوگیا ہے۔ اسلامی تحریک ’تحریک اصلاح‘ کی اولین ترجیح ملک میں امن اور قومی یک جہتی ہے۔ اس کے وزرا بھی اس عمل میں پوری طرح متحرک ہیں۔ تحریک کے مرکزی ذمہ دار سے ایک بار پوچھا تھا کہ تباہ شدہ ملک میں مٹھی بھر جرائم پیشہ کیسے ساری دنیا کو چیلنج کرتے ہوئے ان کے جہاز اغوا کرلیتے ہیں؟ انھوںنے جواب دیا کہ جرائم پیشہ گروہ تو صرف استعمال ہوتے ہیں، اصل سرغنہ عالمی مافیا گروپ ہیں۔ بعض حکومتیں بھی تاوان کی رقوم میں سے حصہ لیتی ہیں۔
حالیہ حکومت نے قومی فوج کی تشکیل اور متحارب گروہوں میں مصالحت شروع کروادی ہے۔ جنگ میں جھونکے جانے والوں اربوں ڈالر کی نسبت تعمیر نو کے لیے درکار امداد کہیں کم ہے، لیکن عالمی ساہوکاروں کو اب بھی جنگ ہی زیادہ مرغوب ہے۔ ترک حکومت نے حالیہ صومالی حکومت سے قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کیے ہیں۔ طیب اردوگان خود بھی اسی جنگ زدہ ملک سے ہو کر آئے ہیں۔ کئی تعمیری منصوبے شروع کروائے ہیں۔ عوام کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ تھوڑی سی کوشش کریںتو ان کا ملک بھی امن، اصلاح، تعمیر اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔
مالدیپ: بحر ہند کا مختصر سا جزیرہ بلکہ ۱۱۹۲ چھوٹے چھوٹے جزیروں کا مجموعہ مالدیپ بھی سالہا سال تک مامون عبد القیوم کے زیر اقتدار رہا۔ وہ اگرچہ جامعہ الازہر کے فارغ التحصیل تھے، لیکن دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لیے بڑی قدغنیں لگا رکھی تھیں۔ گذشتہ انتخابات میں نوجوانوں نے مل کر انھیںشکست دے دی اور اب ایک مخلوط حکومت کے ذریعے ملک کو جمہوریت اور اصلاحات کی راہ پر چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تحریک اسلامی کا سیاسی بازو جسٹس پارٹی بھی شریک اقتدار ہے، اور بالخصوص اپنی وزارتوں میں بہتر کارکردگی کے لیے دن رات کوشاں ہے۔
ملایشیا: ملایشیا بھی سید ابو الاعلی مودودیؒ اور امام حسن البنا شہیدؒ کے لٹریچر سے فیض یاب ہونے والے حزب اسلامی (PAS) کے نام سے مصروف عمل ہیں۔ اس وقت ملایشیا کے ۱۳ صوبوں میں سے تین میں ان کی حکومت ہے۔ سابق وزیر خزانہ انور ابراہیم جو خود بھی دوران تعلیم تحریک سے روشنی و رہنمائی حاصل کرتے رہے ہیں، کراچی اور برطانیہ میں بھی حصول تعلیم کے لیے مقیم رہے اور اس دوران خرم مرادؒ اور پروفیسر خورشید احمد سے براہِ راست بھی کسب فیض کے مواقع ملے۔ پہلے حکمران پارٹی امنو (UMNO)میں مہاتیر محمد کے بعد دوسری اہم ترین شخصیت تھے ،لیکن مہاتیر نے سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے جھوٹے الزامات لگا کر پارٹی سے نکال دیا۔ بعد ازاں عدالت نے طویل سماعت کے بعد ان کی براء ت اور رہائی کا حکم دیا۔ انھوں نے اپنی الگ جماعت جسٹس پارٹی کے نام سے بنائی ہے، حزب اسلامی کے ساتھ اتحاد ہے۔
اس اتحاد کی حکومت جن تین صوبوں میں ہے وہاں باقی پورے ملک کی نسبت جرائم، رشوت اور کرپشن میں نمایاں کمی ہے۔ بالخصوص صوبہ کلنتان میں کہ جہاں مسلسل تین بار حزب اسلامی کی حکومت بنی ہے اور درویش صفت نک عبد العزیز وزیر اعلیٰ ہیں، حالات بہت بہتر ہیں۔ کئی بین الاقوامی تجارتی کمپنیاں اپنے دفاتر دار الحکومت کوالالمپور سے منتقل کرکے کلنتان جارہی ہیں کیوں کہ وہاں کرپشن نہیں ہے۔ملایشیا میں انتخابات کسی بھی وقت متوقع ہیں لیکن حکومت بلاوجہ لیت و لعل کررہی ہے۔ منصفانہ انتخاب ہوں تو اسلامی تحریک اور اتحادی یقینا پہلے سے بہتر نتائج دکھائیں گے۔
فلسطین: غزہ (فلسطین) ۲۰۰۶ء میں حماس نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور غزہ اور مغربی کنارے میں ۶۰ فی صد سے زائد نشستیں جیت لیں۔ حماس نے تنہا حکومت بنانے کے بجاے قومی حکومت بنانے پر اصرار کیا، لیکن چند ماہ بعد ہی الفتح کے وزرا نے حکومت سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اختلافات باہم لڑائی تک جاپہنچے اور الفتح کو غزہ سے بھاگنا پڑا۔ غزہ میں صرف حماس کی حکومت رہ گئی تو ۲۰۰۸ میں صہیونی افواج نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرلیا۔ مصر کی جانب سے حسنی مبارک نے بھی ساتھ دیا اور غزہ کی ۱۷ لاکھ آبادی پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کردی گئی۔ اس دوران اسرائیل کی جانب سے دوبا رمہلک جنگ بھی مسلط کی گئی۔ شدید مشکلات اور حصار کے باوجود ایمان سے سرشار اہل غزہ نے صبرو ثبات کی شان دار مثال قائم کی۔ منتخب وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ، وزرا اور حماس کے کارکنان نے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی۔ پھراللہ تعالی نے مصر میں تبدیلی کی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے عطاکیے۔ اب رفح بارڈر کھل گیا ہے۔ غزہ میں جہاد کی لہلہاتی کھیتی کے ساتھ ہی ساتھ ،تعمیر و ترقی کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ اسرائیل نے گذشتہ سال پھر جنگ مسلط کی لیکن ایک ہفتے بعد ہی خود صلح کی بھیک مانگنا شروع کردی۔ غزہ سے آنے والے حماس کے ذمہ دار ترین احباب بتارہے تھے کہ ایک مرحلے پر اسرائیل نے کہا کہ آپ جنگ بندی کا اعلان فوراً کردیں تو ہم اس کے بعد مذاکرات کے ذریعے باہم معاہدہ بھی کرلیں گے، لیکن ہم نے انکار کردیا۔ بالآخر انھوں نے ہماری شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔
بلاشبہہ عالمِ اسلام میں بیداری کی یہ لہر اُمت مسلمہ کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔