بیسویں صدی میں اُبھرنے والی تحریکاتِ اسلامی اور تحریکاتِ حریت کی دعوت کا ایک اہم پہلو نفاذِ شریعت یا نظامِ اسلامی کی خواہش رہا ہے۔ یہ تحریکات شمالی افریقہ میں ہوں یا مشرق وسطیٰ میں یا جنوب مشرقی ایشیا میں، ان کے منشور مغربی لادینیت اور آمرانہ نظاموں کی جگہ اسلام کے اصولِ عدل پر مبنی سیاسی نظام کے نفاذ کو اپنا مقصد وحید قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب ان تحریکات کے نقاد انھیں یہ الزام دیتے ہیں کہ یہ تحریکات ماضی کی طرف سفر کرنا چاہتی ہیں اور اسلامی شریعت کو جو ان کے اندازے کے مطابق نیم مہذب بدویانہ روایات پر مبنی ہے، سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں، کم فہم انسانوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی شریعت کی قدامت پسندی، انتہا پسندی اور انسانی حقوق کے تصور سے متصادم ہونے کے مفروضے کو اتنی شدت اور تکرار سے بیان کیا گیا ہے کہ آج بہت سے پڑھے لکھے مسلمان بھی اپنی سادہ لوحی میں اسلامی شریعت کو محض چند ’جابرانہ سزائوں‘ کا مجموعہ سمجھنے لگے ہیں۔ ضرورت پہلے بھی تھی لیکن جتنی شدت سے آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی کہ اسلامی شریعت کے صحیح خدوخال کو براہِ راست اس کے مصادر کی روشنی میں اہلِ علم اور عام قارئین کے سامنے سادہ الفاظ میں رکھا جائے۔
قرآن کریم کا یہ خصوصی اسلوب ہے کہ وہ اکثر احکامِ الٰہی کے تذکرے کے ساتھ ان کی حکمت و علّت کو بھی سمجھاتا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ علّت بہت واضح ہوتی ہے اور بعض اوقات غوروفکر کے بعد علّت کا پتا چلتا ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم انسان کی تخلیق کا سبب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی و عبادت کو قرار دیتا ہے۔ انبیاے کرام کی بعثت اور نزولِ کتب ِ سماوی کی غایت انسانوں کو نظامِ عدل اور تحفظ فراہم کرنا قرار دیتا ہے لیکن بعض اوقات نص میں غایت کی صراحت نہیں ہوتی اور ایک طالب علم غوروفکر کے نتیجے میں غایت اور سبب تک پہنچتا ہے۔ قرآن کریم اپنے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ایک موعظہ، نصیحت اور سینوں کے امراض کے لیے شفا ہے (یونس ۱۰:۵۷)۔ اسی طرح وہ کہتا ہے کہ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمام انسانوں کے لیے، اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں۔ (الجاثیہ ۴۵:۲۰)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ قرآن کریم دلوں کے امراض کی شفا اور رحمت ہے۔ اس میں کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جس میں کوئی دقت، مشکل، سختی، یا شدت پائی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ اس کے برخلاف شیطان اور اس کی ذُریت اپنی ہرہر چال سے انسان کو گمراہی، شدت پسندی، بُغض و عداوت، دشمنی اور قتل و غارت کی طرف للچا کر لے جانا چاہتی ہے۔ ’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بُغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘ (المائدہ ۵:۹۱) ۔ ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شارع اپنے احکام کے اسباب و علل بھی بیان فرماتا ہے تاکہ انسان شریعت پر بربناے تحقیق عمل کرے اور اس کی حکمتوں سے براہِ راست آگاہ ہو۔
شریعت لغت میں پانی کے چشمے کو جانے والے راستے کو کہتے ہیں۔ جس طرح پانی انسان کو زندگی دیتا ہے، اسی طرح شریعت انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ اور ادب سکھاتی ہے۔ جس طرح پانی انسان کے جسم سے گندگی کو دُور کردیتا ہے، شریعت کی آبیاری انسان کی معاشی، معاشرتی، سیاسی اور دیگر سرگرمیوں کو فساد سے پاک کر کے اللہ کی مرضی کے تابع بنا دیتی ہے۔
شریعت کے احکام کس نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی نوعیت کا تعین کس طرح کیا جائے گا، مزید یہ کہ حکمِ شرعی کی تطبیق کن کن حالات میں ہوئی، اس کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کی جائے گی___ یہ اور اس سے ملتے جلتے بے شمار سوالات کا جواب علم مقاصد و مصالح کا موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقاصد ِشریعت اور مصالحِ عامہ ایسے اہم علمی شعبے ہیں جن کے بغیر ایک مسلمان زندگی میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُمت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد نے محض سنی سنائی پر اعتماد کر کے شریعت کو ایک انتہائی مشکل اور ناقابلِ عمل ضابطہ سمجھ لیا ہے، جب کہ شریعت کی آفاقیت اور عملیت اس کے ہرہر حکم سے واضح ہوتی ہے۔
مقاصد شریعت ایک انتہائی اہم تدریسی مضمون ہے لیکن بہت کم دینی مدارس اس پر اتنی توجہ دیتے ہیں جس کا یہ مستحق ہے۔ عموماً پانچ معروف مقاصد کا تذکرہ اور چند مثالوں سے ان کی وضاحت کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شعبۂ علم پر سالہا سال غوروفکر کرنے کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ ایک شخص اس علم کا احاطہ کرسکا ہے۔
سوڈان کے نام ور فقیہ ڈاکٹر یوسف حامد العالم نے عصرحاصر میں مقاصدِ شریعت اور مصالح کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے اور زیرتبصرہ کتاب تحریر کی ہے۔ یہ تصنیف ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر مبنی ہے جسے جامعہ الازہر میں پیش کیا گیا۔ راقم الحروف کو ان سے دو تین کانفرنسوں میں ذاتی طور پر ملاقات کا موقع بھی ملا اور ان کے علم اور خلوص نے بہت متاثر کیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس خدمت پر اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین! مقاصد شریعت پر عصرِحاضر میں جو علمی کام ہوا ہے یہ کتاب اس میں ایک اہم علمی اضافہ ہے۔
زیرتبصرہ کتاب پانچ فصول میں منقسم ہے۔ فصل اوّل اہداف سے بحث کرتی ہے جس میں ہدف کی لغوی اور شرعی تعریف، شارع کے مقصد کے منافی عمل کرنے کے نتائج، اور مقاصد ِ شارع کی معرفت کے لیے اجتہاد کی ضرورت سے بحث کی گئی ہے۔
فصل دوم مصلحت سے بحث کرتی ہے جسے ہمارے ہاں مصلحت عامہ کہا جاتا ہے۔ باب دوم میں مصالح کا تفصیلی بیان ہے جس میں دین کی حفاظت، جان کی حفاظت، نسل کی حفاظت اور مال کی حفاظت شامل ہیں۔ خلاصۂ بحث، حواشی و تعلیقات اور مراجع و مصادر پر کتاب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
مقاصد اور مصالح کا تعین اور صحیح تطبیق ایک تحقیق طلب امر ہے۔ عام طور پر مصلحت کا استعمال کسی شر سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کی اصل بنیاد، یعنی شارع کی منشا کا دریافت کرنا، اور پھر منشا سے مطابقت رکھتے ہوئے ایک حکمت عملی وضع کرنا علم الاصول کا مقصد ہے۔ اس حوالے سے مصنف بحث دوم کے زیرعنوان بہت قیمتی نکات زیربحث لاتے ہیں۔ مثلاً ’’کوئی بھی مکلف کسی جائز کام کو اس حیثیت سے کرتا ہے جو شارع کے مقصد کے خلاف ہے تو حقیقتاً یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ناجائز کام کر رہا ہے‘‘ (ص ۱۰۴)۔ اس طرح وہ تحریر کرتے ہیں: ’’جب مکلف کا ارادہ شارع کے ارادے کے خلاف ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مکلف نے شارع کے مقصد کو ناقابلِ اعتبار قرار دے دیا، اور جس امر کو شارع نے مقصد نہیں سمجھا تھا اسے مقصد قرار دے دیا‘‘ (ص ۱۰۴)۔ ان دونوں سادہ سے نکات پر اگر غور کیا جائے تو ایک عام شخص کے لیے بھی ان میں غیرمعمولی حکمت و دانائی پائی جاتی ہے۔ ایسے ہی ان نکات کی اہمیت اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کے لیے غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔
ان اصولوں کی بنیاد قرآن کریم کا وہ حکم ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِــعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo (النساء ۴:۱۱۵) ’’مگر جو شخص رسولؐ کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالے کہ اس پر راہِ راست واضح ہوچکی ہو، تو اس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جاے قرار ہے‘‘۔اس قرآنی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں: ’’مصالح کے حصول اور مفاسد سے بچنے کے لیے ایسے اعمال کا سہارا لینا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیے آپؐ کی کھلی مخالفت ہے، اور آپؐ کی مخالفت درحقیقت اس وحی کی مخالفت ہے جو آپؐ اللہ کی طرف سے لے کر تشریف لائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد ہے: رسول اکرمؐ اور آپؐ کے بعد خلفا نے کچھ طریقے چھوڑے ہیں، انھی کو اختیار کرنا کتاب اللہ کی تصدیق، اطاعت رسولؐ کی تکمیل اور دین کی قوت کا باعث ہے‘‘۔ (الموافقات ،ج۲، ص ۳۳۴)
شارع کے مقاصد کے خلاف جو عمل بھی کیا جائے گا وہ باطل ہوگا۔ مندرجہ بالا استدلال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہرحکمت عملی کو اختیار کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ وہ کہاں تک مقاصد شریعت سے مطابقت رکھتی ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ اعمال کی بنیاد نیت پر ہے۔ اقرارِ توحید و رسالت اور صلوٰۃ اور دیگر عبادات قربِ الٰہی کے حصول کے لیے ہیں اور یہی شارع کا مقصود ہے۔ لیکن ان اعمال سے کسی کی نیت دنیوی مفاد کا حصول ہو یا دنیوی نقصان سے بچنا مقصود ہو، تو اس کا یہ عمل شارع کے مقصد سے ہٹ جانے کے سبب باطل ہوجائے گا۔ زکوٰۃ کی فرضیت سے شارع کا مقصد مال داروں کو حرص اور دولت کی محبت و پرستش سے نکالنا ہے اور ہبہ کرنا ایک نیکی کا کام ہے، لیکن اگر ایک شخص زکوٰۃ کی ادایگی سے بچنے کے لیے اپنا مال عین واجب مدت سے قبل کسی اور کو ہبہ کردے تو شارع کے دونوں مقاصد کے خلاف عمل کرے گا۔
یہ دو مثالیں محض بات کو آسان کر کے سمجھانے کے لیے عرض کی گئی ہیں۔ مصنف نے کتاب میں ہر ہر نکتے کی وضاحت کے لیے مثالیں دے کر مقاصد و مصالح کے علم کو آسان بنا کر پیش کیا ہے۔ہم دوبارہ اپنی بات کو دہراتے ہیں کہ یہ فقہ کا ایک ایسا شعبہ ہے جو فقہ کا مصدر ہے اور اسی بنیاد پر فقہ وجود میں آتا ہے۔ اس لیے دین کو سمجھنے اور زندگی کے اہم معاملات میں اس کی تطبیق طے کرنے کے لیے مقاصد اور مصالح کا سمجھنا، اور حتی الامکان مقاصد و مصالح اور قواعد کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنا ہی دین کا تقاضا ہے۔
یہ کتاب تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے ایک عمدہ فکری غذا فراہم کرتی ہے۔ مقاصد شریعت کا جاننا تحریکِ اسلامی کی قیادت کے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ ان پر مسلسل غور اور ان کی ہمہ وقت تطبیق کے بغیر تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ طے کرنا کہ اس وقت تحریک کی ترجیح کیا ہو، کیا تمام قوت محض تربیت کے نظام کی اصلاح پر لگا دی جائے، تحقیق و تجزیے کو اولیت دی جائے، یا سیاسی محاذ پر تمام توجہ مرکوز کردی جائے، یا معاشرتی فلاح کے کاموں کو فوقیت دی جائے، خواتین کے کن مسائل کو ملک گیر تحریک کا موضوع بنایا جائے، عوام الناس کے کون سے مسائل ہیں جن پر مہم چلائی جائے، تعلیمی میدان میں ہماری اولیت کیا ہو، کاروبار و تجارت کرنے والوں سے تعلق کی نوعیت کیا ہو___ غرض تحریکی مسائل و معاملات میں جب تک مقاصد کا علم گہرائی کے ساتھ حاصل نہ کرلیا جائے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ تحریک کی حکمت عملی کہاں تک اصولِ شریعت کی پیروی کررہی ہے۔
تحریک کے نظامِ تربیت میں اس موضوع پر مستقلاً توجہ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یوسف حامدالعالم کی یہ تحقیقی کتاب سلاستِ بیان کی بنا پر تربیتی لٹریچر میں شامل ہونی چاہیے اور اسلامی فقہ سے گہری واقفیت رکھنے والے اساتذہ کے ذریعے اس کی تعلیم کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔
(اسلامی شریعت مقاصد اور مصالح ، یوسف حامد العالم، مترجم: محمدطفیل ہاشمی۔ ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۶۴۵ ۔ ہدیہ: ۹۰۰ روپے)