سوال: ہم قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ اِرشاد پڑھتے ہیں: وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الروم۳۰:۴۷) ’’اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں‘‘، جب کہ زمینی صورتِ حال میں مومنوں کو خواری اور زبوں حالی سے دوچار پاتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی پڑھتے ہیں: وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ (المنافقون۶۳:۸) ’’عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے‘‘، لیکن مومن رسوائی اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قرآنِ مجید کہتا ہے: وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا (النساء۴:۱۴۱) ’’اور اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے‘‘،مگر ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو کافروں کو مومنوں پر ہزار حوالوں سے حاوی پاتے ہیں۔ اسی طرح اور آیات بھی ہیں، مثلاً: اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا(الحج۲۲:۳۸) ’’یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں‘‘۔ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا(محمد۴۷:۱۱) ’’یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے‘‘۔ وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ(الانفال۸:۱۹) ’’اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اس کے باوجود صورتِ حال یہ ہے کہ قوت و سیادت اور سربلندی کافروں اور ملحدوں کو حاصل ہے، جب کہ کمزوری و پس ماندگی اور ذلت و رسوائی مومنوں کے حصے میں آئی ہے۔ اس کی کیا توضیح ہو سکتی ہے اور کیا سبب بیان کیا جا سکتا ہے؟
جواب: آیات تو بہت ہی صاف ہیں۔ آپ عزت و نصرت اور قوت و سیادت اور تائید الٰہی کی تمام آیات کو مومنوں سے تو جوڑ سکتے ہیں، لیکن ایمان کے ہر دعوے دار اور اہل اسلام جیسے نام رکھ لینے والوں سے متعلق قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ اعتبار اور اہمیت ناموں کی نہیں ہوتی بلکہ اُن چیزوں کی ہوتی ہے جن کے یہ نام ہوتے ہیں۔
اگر ایمان سے مراد اللہ و رسولؐ کو ماننے کا زبانی اقرار لیا جائے اور اسلام کے بعض شعائر کو قائم رکھنے کی حد تک سمجھا جائے تو ہم مومن ہیں اور اگر ایمان اُن اوصاف کے حصول کا نام ہو جن کو قرآنِ مجید نے مومنین کے لیے بیان کیا ہے تو ہمارے اور قرآن کے بیان کردہ ایمان کے درمیان کئی اور مراحل بھی آتے ہیں۔وہ مومن جن کی نصرت و تائید کا ذمہ قرآنِ مجید کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ لیتا ہے۔ اُن مومنوں کی کچھ صفات ہیں جنھیں خود قرآنِ مجید نے ہی بیان کر دیا ہے۔ ان صفات کے ذریعے ان مومنوں کے ایسے عقائد، اعمال اور اخلاق کو واضح کر دیا گیا ہے جن کی بنا پر مومن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکریم و توقیر کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ یہ انصاف نہیں کہ ہم مومنوں کے لیے قرآنِ مجید میں بیان کیے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا تو ذکر کریں مگر مومنوں کی تعریف اور وضاحت کے لیے قرآن کے بجائے کہیں اور رجوع کریں۔
ہمیں قرآنِ مجید کی یہ روشن آیات بھی پڑھنی چاہییں:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا (الانفال۸:۲،۳،۴)’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں‘‘۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ (المومنون ۲۳:۱،۲) ’’یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘‘۔ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (التوبہ۹:۷۱) ’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘‘۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو‘‘۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔ اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (النور۲۴:۵۱) ’’ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسولؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
یہ آیات اور ایسی دیگر بہت سی آیات بھی پڑھنی چاہییں جو قرآنِ مجید میں ہی ہیں۔ پھر ہمیں اربوں مسلمانوں کو دیکھنا چاہیے جو خود کو اسلام کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں اپنے رب کی قسم کھا کر کہیے کہ کیا مسلمان ایسی قوم نہیں بن گئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا ہے، خواہشات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں، اللہ سے ان کا تعلق کٹ چکا ہے۔ گویا قرآن ہی کی زبان میں: بَاْسُہُمْ بَیْنَہُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی(الحشر۵۹:۱۴)’’یہ آپس کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں۔ تم انھیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں‘‘۔ برائی اُن میں عام اور علانیہ ہو گئی ہے، جب کہ نیکی دَب کر رہ گئی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نیکی برائی بن گئی ہے اور برائی نے نیکی کی جگہ لے لی ہے۔ یہاں اب نیکی کا پرچار کرنے والوں کی جگہ برائی کا پرچار کرنے والے آ گئے ہیں بلکہ نیکی کو روکنے والے موجود ہیں۔
آپ اِن اربوں اہل ایمان کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں سے لاکھوں کو گروہی تعصب اور فرقہ ورانہ گمراہ کاری نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور لاکھوں کو سیاسی استبداد نے بے کار بنادیا ہے۔ لاکھوں کو اجنبی فکری یلغار نے اعتقادی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ لاکھوں کو سیکولر استعمار نے علیحدگی پسند بنا دیا ہے۔ اسی طرح لاکھوں کو صلیبی استعمار نے جہالت میں دھکیل دیا ہے اور لاکھوں ایسے ہیں جو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ وہ غفلت میں بے سدھ اور مدہوشی میں بے حس پڑے ہیں: اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ(النحل۱۶:۲۱) ’’مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انھیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا‘‘۔
سوال ہے کہ کیا ہم یہودیوں کے مقابلے میں بھی مخلص مومن نہیں؟ یہودی کیوں غالب ہیں، اور غالب بھی ہمارے اوپر ہیں؟
عرض ہے کہ یہودی کائنات میں اللہ تعالیٰ کے قوانین قدرت کو اہمیت دینے کی بنا پر غالب آئے ہیں۔ قوانین قدرت کو اہمیت دینا ایمان کا ایک اہم جز ہے۔ ہم نے اس جز کو ضائع کردیا لیکن انھوں نے اس کی حفاظت کی ہے۔ دراصل وہ بیدار رہے، جب کہ ہم خواب کے مزے لیتے رہے۔ انھوں نے علم حاصل کیا، جب کہ ہم جہالت میں پڑے رہے۔ انھوں نے محنت و کوشش کو شعار بنایا، جب کہ ہم نے سستی و پس ماندگی کو گلے لگایا۔ انھوں نے اپنی باہمی قوت کو معاونت کے ذریعے بڑھایا، جب کہ ہم باہمی چپقلشوں میں کمزور ہوتے رہے۔ انھوں نے کل کے لیے تیاری کی، جب کہ ہم تو اپنا آج کاکام بھی فراموش کیے رہے۔ اُس قوم نے اپنا خون پسینہ بہا ڈالا، جب کہ ہم نے آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔
ترقی و زوال اور نصرت و ہزیمت کے الٰہی قوانین کسی سے ظلم نہیں کرتے اور نہ بے جا کسی کی حمایت میں آتے ہیں۔ جو بھی نصرت کے اسباب و وجوہ کو اختیار اور استعمال کرے گا وہ کامیابی سے ہمکنار ہو گا خواہ وہ یہودی ہی ہو۔ اور جو ہزیمت و شکست کی طرف چل پڑے گاوہ اس سے دوچار ہو کر رہے گا خواہ وہ اسلام کے ساتھہ ہی منسوب ہو۔ معرکہ اُحد میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثے پر نظر ڈالیے! اس معرکے میں مسلمانوں نے ایک غلطی کی تو ۷۰ شہدا کی صورت میں اس کی قیمت ادا کی، جن میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ اور حضرت معصبؓ بن عمیر اور سعدؓ بن ربیع اور انسؓ بن نضر جیسے جواں مرد مومن شامل تھے۔ اس موقع پر یہ بات بھی مسلمانوں کے کام نہ آئی کہ اُن کے قائد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دشمنوں کی صف میں بتوں کے پجاری ہیں۔ قرآنِ مجید نے اس صورتِ حال کو یوں محفوظ کیا ہے اور قرآن سے بڑھ کر مبنی برعدل فیصلہ اور بیان کس کا ہو سکتا ہے۔ فرمایا: اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo(اٰلِ عمرٰن۳:۱۶۵) ’’اور یہ تمھارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوگنی مصیبت تمھارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبیؐ! ان سے کہو، یہ مصیبت تمھاری اپنی لائی ہوئی ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
اس مسئلے کو مزید سمجھنے کے لیے قرآنِ مجید کی درج ذیل آیات بھی پڑھ لیجیے:یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا (النساء ۴:۷۱) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلے کے لیے تیار ہو جائو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر‘‘۔ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ (الانفال۸:۶۰) ’’اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے تیار رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (الانفال۸:۴۵،۴۶)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہو گی۔ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
کیا ہم نے ان آیات پر عمل کیا؟ ہم نے تو اپنا دفاع بھی نہ کیا بلکہ فریب میں ہی مبتلا تھے کہ اچانک صہیونی چالوں کا شکار ہو گئے اور آج بھی اُن کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم ہمیشہ غفلت میں پڑے رہے اور اپنی بساط بھر تیاری کی، نہ قوت حاصل کی۔ ہاں، بے کار اسلحہ خرید لیا جو نشانے پر لگنے کے بجاے نشانہ لینے والے ہی پر واپس آ لگتا ہے۔ اسلحہ اور ساز و سامان سے یہی غفلت بھری صورت حال تھی جس کی بنیاد پر دشمن نے یکبارگی ہمارے اوپر حملہ کر دیا۔ قرآنِ مجید نے اس حقیقت کو بھی بیان کیا ہوا ہے: وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَاَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً(النساء۴:۱۰۲) ’’کفار اس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یک بارگی ٹوٹ پڑیں‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم دشمن کے سامنے آئے تو اس طرح نہ ٹھیر سکے جس طرح ٹھیرنے کا اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا تھا۔ نہ بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کو یاد ہی کیا بلکہ تھوڑا بھی نہ کیا اور نہ اللہ و رسولؐ کی اطاعت کی۔ ہم نے تو لشکر سازی اور میدانِ جنگ سے منہ موڑ کر رقص و سرود کی طرف رُخ کر لیا۔ ہم اس باہمی آویزش اور چپقلش سے باز نہ آئے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ناکام ہوئے اور ہمارے غبارے سے ہوا نکل گئی۔
اس صورتِ حال کے بعد کیسے ہم اپنے آپ کو مومنوں کے اس گروہ میں شمار کر سکتے ہیں جس کو قرآنِ مجید نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح ہم اُن وعدوں کے منتظر بھی کیسے ہو سکتے ہیں جو اللہ نے کیے ہیں، جب کہ ہم اُن شرائط کو پورا نہیں کر رہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں۔ یہ تو بڑی بے شرمی کی بات ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نصرت کے تو طلب گار ہوں مگر خود اللہ تعالیٰ کی مدد کے لیے کچھ نہ کریں۔ اللہ سے ہم مومنوں جیسا بدلہ چاہیں مگر اپنے اندر مومنوں جیسے اوصاف پیدا نہ کریں۔ ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم اللہ کے لیے مخلص ہو جائیں۔ پھر اللہ بھی ہمارے ساتھ مخلصوں جیسا سلوک کرے گا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ہم حقیقی مومن بن جائیں، اللہ وحدہٗ کے رب ہونے پر، اسلام کے طریق زندگی ہونے پر، رسولِ کریمؐ کے مقتدا و پیشوا ہونے پر اور قرآن کے رہنما ہونے پر تہہ دل سے راضی ہو جائیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے عقائد و افکار، اخلاق و کردار اور قانون و نظامِ زندگی، غرض ہر چیز میں غیر اللہ کی بندگی سے بیزاری کا اظہار کریں۔
صرف اور صرف اسی ایمان کی بنیاد پر ہم اس خوشی و راحت اور عزت و نصرت کو حاصل کر سکتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مومنوں کے لیے مقدر فرما دیا ہے، جب کہ آخرت کی رضا و خوشی اور ثواب و اجر اس کے علاوہ ہے۔
یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا صالح مومن بھی کہیں موجود نہیں ہیں؟ گزارش یہ ہے کہ یہ اُمت تو گمراہی پر یک جا نہیں ہو سکتی۔ مگر ایسے صالح مومن بہت تھوڑے ہیں اور وہ تھوڑے ہونے کے ساتھ اُن بکھرے ہوئے دانوں کی طرح منتشر بھی ہیں جو کسی دھاگے میں منسلک نہ ہوں اور ان میں سے کثیر تعداد کو تو اس مایوسی نے گھیر رکھا ہے کہ اصلاح اور تبدیلی ممکن نہیں۔ لہٰذا انھوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور میدان منکرِ خدا، فاجر اور چال باز فکری یلغار کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ ان صالح مومنوں میں سے کچھ تو آہ و زاری، واویلے اور ماضی کی طرف پلٹنے کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں اور کوئی سنجیدہ و مثبت لائحہ عمل پیش نہیں کرتے اور کچھ اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیف سے ہی خوف زدہ ہو کر کمزور و بے کار ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کے درجنوں اور اسباب بھی ہیں جو ایسے مومنوں کی موجودہ صورتِ حال کو واضح کرتے ہیں۔
اس تمام تر صورتِ حال میں مسائل کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ حل یہ ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے کو صحیح اسلام کی طرف رجوع کی دعوت دیں کہ عقیدہ و شریعت اور اخلاق و کردار میں وہ صحیح اسلام کو اختیار کریں۔ وہ قوم کو بھی اسی یاد دہانی کے ذریعے امیدیں و عیدیں سنائیں۔ وہ صرف اسلام ہی کے ذریعے غالب آ سکتے اور قیادت کر سکتے ہیں۔ اُن کی وحدت و قوت اسی اسلام میں پوشیدہ ہے اور دنیا کی عزت اور آخرت کی سعادت اسی اسلام میں ہے، کہیں اور نہیں ۔
یہ صالح مومن امت کو قدیم جمود، جدید انتشاراور کبھی کھل کر اور کبھی چھپ کر حملہ کرنے والے کفر سے بچانے کے لیے اپنی کوششوں کو متحد کریں۔ ان غیرت مند مومنوں کو اپنے عہد کے حالات کا بخوبی علم ہونا چاہیے، زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہونا چاہیے، اپنے اپنے معاشروں اور ممالک کے احوال سے باخبر ہونا چاہیے۔ اجنبی یلغاروں اور مشکلات سے بھی چوکنا ہونا چاہیے اور ان سے نمٹنے کا سامان بھی کرنا چاہیے۔ انھیں یہ کام ماہر و متخصّص علما کے طرز پر کرنا چاہیے، مقلدوں اور نقالوں کی طرح نہیں۔ اس کے ساتھ وہ اس سرکش مادی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر و یقین کے ہتھیار سے لیس ہوں جس یلغار نے اُن کے گھروں کو تباہ کر ڈالا ہے اور اُن کے دل و دماغ کو بھی مائوف کر کے رکھ دیا ہے۔ اس صورتِ حال کو ایک بڑے اسلامی مفکر نے ایک جملے میں بیان کیا کہ ’’اِرتداد بڑھ رہا ہے مگر اس کے خاتمے کے لیے ابوبکر نہیں ہے‘‘۔
جب مومن حق و باطل کے درمیان گرم ہو چکے معرکے میں صبر کا مظاہرہ کر لیں گے اور انھیں اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی صداقت کا یقین ہو چکے گا اور وہ اللہ، رسولؐ اور جہاد کو ہر اُس چیز پر ترجیح دے چکے ہوں گے جس کی خواہش اور تمنا انسانوں کو ہر دور میں رہی ہے۔ جب وہ ایسی پامردی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کر لیں گے تو وہ خود کو اس کا حقدار بنا لیں گے کہ اللہ اُن کو دنیا کی امامت و قیادت عطا فرما دے، زمین کا وارث بنا دے، اور زمین کی حکمرانی و سلطنت اُن کے پاس آ جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَجَعَلْنَا مِنْھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَo(السجدہ۳۲:۲۴)’’اور جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے‘‘۔
لیکن اگر یہ صالح مومن اس فرض کو پورا کرنے سے پہلو بچائیں گے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟… یہ انجام تو بڑا خوف ناک اور دہلا دینے والا ہے۔ قرآنِ مجید کی ایک آیت نے اس کی علامات کو متعین کر کے اور ایک دوسری آیت نے اسے متعین کیے بغیر بیان کیا ہے۔
پہلی آیت یہ ہے: اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرo(التوبہ۹:۳۹) ’’تم نہ اٹھو گے تو خدا تمھیں دردناک سزا دے گا، اور تمھاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ دوسری آیت ہے: قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَـآؤُکُمْ وَ اَبْنَـآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(التوبہ۹:۲۴) ’’اے نبی کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب اوروہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔ [مأخذ:www.qaradawi.net]